آیات ۷۰،۷۱،۷۲
۷۰ ۔(
وَاللهُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفَّاکُمْ وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی اٴَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْ لاَیَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ قَدِیرٌ
)
۔
۷۱ ۔(
وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُوا بِرَادِّی رِزْقِهِمْ عَلَی مَا مَلَکَتْ اٴَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیهِ سَوَاءٌ اٴَفَبِنِعْمَةِ اللهِ یَجْحَدُونَ
)
۔
۷۲ ۔(
وَاللهُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ اٴَنفُسِکُمْ اٴَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَکُمْ مِنْ اٴَزْوَاجِکُمْ بَنِینَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَکُمْ مِنْ الطَّیِّبَاتِ اٴَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللهِ هُمْ یَکْفُرُونَ
)
۔
ترجمہ
۷۰ ۔اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر وہی تمہیں مارے گاتم میں سے بعض بڑھاپے کو جا پہنچتے ہیں کہ علم و آگاہی کے بعد ( ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے ) کہ کچھ نہیں جانتے (اور سب کچھ بھول جاتے ہیں ) بیشک خدا علیم و قدیر ہے ۔
۷۱ ۔ خد انے تم میں سے بعض کو بعض دوسروں پر رزق میں بر تری دی ہے ( کیونکہ تمہاری استعداد اور کوشش میں فرق ہے ) لیکن جنھیں برتری دی گئی ہے وہ اس بات پر تیار ہیں کہ اپنی روزی میں سے اپنے غلاموں کو دیں تاکہ سب کے سب برابر ہو جائیں کیا وہ نعمت ِ خدا کا انکار کرتے ہیں ؟
۷۲ ۔ اور اللہ نے تمہارے لئے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور ان بیویوں سے تمہیں پوتے نواسے اور بیٹے عطا کئے اور تمہارے لئے طیبات میں روزی قرار دی کیا پھر یہ باطل پر ایمان لے آتے ہیں اور نعمت ِ خدا کا انکار کرتے ہیں ۔
تفسیر
رز ق میں اختلاف کا سبب
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی کچھ اہم نعمتوں اور عنا یا کا تذکرہ تھا کچھ نباتا ت اور حیوانات کی تخلیق کا بیان تھا تاکہ لوگ ان پر نظر کرتے ہوئے ان سب نعمتوں اور اس دقیق نظام کے خالق سے آشنا ہوں ۔
زیر بحث آیات میں بھی ایک اور حوالے سے خالق یکتا کے اثبات کے مسئلہ پر گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ آیات نعمتوں کے تغیرات کے حوالے سے بات کرتی ہیں ایسے تغیرات کا ذکر ہے کہ جو انسانی اختیار سے باہر ہیں اور ان کا فیصلہ کسی او رکی جانب سے ہوا ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : اللہ نے تمہیں پیدا کیا(
وَاللهُ خَلَقَکُمْ
)
اس کے بعد وہ تمہاری روح کو لے لے گا(
ثُمَّ یَتَوَفَّاکُمْ
)
۔
زندگی بھی اسی کی طرف سے ہے اور موت بھی تاکہ تم جان لو کہ موت و حیات پیدا کرنے والے تم نہیں ہو لمبی عمر کا ہونا بھی تمہارے اختیار میں نہیں ہے بعض جوانی میں یا برھاپے کی سر حد پر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن ” تم میں سے بعض لمبی عمر پاتے ہیں ۔ عمر کے بد ترین انتہائی بڑھاپے تک جا پہنچتے ہیں(
وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی اٴَرْذَلِ الْعُمُر
)
اور اس طولانی عمر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علم و آگاہی کے بغیر انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا اور وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں(
لِکَیْ لاَیَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا
)
ٌ)
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ علت و سبب کے معنی میں ہو یعنی اللہ انھیں ان بالائی سالوں کی طر ف لے جاتا ہے اس کی علت یہ ہے کہ ان پر حالت ِ نسیان طاری کرے تاکہ یہ انسان جا ں لیں کہ ان کے پاس جوکچھ ہے کچھ بھی ان کی اپنی طرف سے نہیں ہے ۔
بعینہ اس کی حالت بچپن کی سی ہو جاتی ہے کہ جب بھول جاتا ہے اور ناآگاہ بھی تھا جی ہاں ! ” خدا آگاہ اور قادر ہے “(
إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ قَدِیر
)
۔
تمام قدرتیں اسی کے اختیار میں ہیں وہ جس قدر مصلحت سمجھتا ہے عطا کرتا ہے اور جس موقع پر ضروری سمجھتا ہے لے لیتا ہے ۔
اگلی آیت میں یہی بات جاری ہے اور فرمایاگیاکہ تمہاری روزی تک تمہارے اختیار میں نہیں ہے ” یہ خدا جو تم میں سے بعض کو رزق کے اعتبار سے دوسروں پر بر تری دیتا ہے ۔(
وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ
)
۔
لیکن جنھیں یہ برتری دی گئی ہے ان کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ ان کے اختیار میں ہے وہ اپنے غلاموں کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور انھیں اپنے اموال میں شریک نہیں کرتے کہ وہ بھی ان کے برابر ہو جائیں(
فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُوا بِرَادِّی رِزْقِهِمْ عَلَی مَا مَلَکَتْ اٴَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیهِ سَوَاءٌ
)
۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ جملہ مشرکین کے بعض احمقانہ افعال کی طرف اشارہ ہے کہ جو اپنے بتوں اور خدا ؤں کے لئے چوپاؤن اور زرعی پیدا وار کا ایک حصہ مختص کردیتے تھے حالانکہ یہ بے وقعت پتھر اور لکڑیاں ان کی زندگی پر ذرہ بھر اثر نہیں رکھتے تھے لیکن وہ اس بات پر تیار نہ تھے کہ اس دولت میں سے کچھ اپنے بے چارے غلاموں کو دیں کہ جو رات دن ان کی خدمت کرتے تھے ۔
کیا رزق کی تفریق عدالت پر مبنی ہے ؟
اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگوں میں تقسیم رزق میں اختلاف پید اکرنا اللہ کے اصولِ عدالت و مساوات کے مطابق ہے جبکہ اصول ِ عدالت و مساوات کو انسانی معاشروں پر حاکم ہونا چاہئیے ۔
اس سوال کے جواب میں دو نکتوں کی طرف توجہ رکھنا چاہئیے ۔
۱ ۔ اس میں شک نہیں کہ انسانوں میں موجود مادی فوائد وسائل اور آمد نی میں اختلاف کا ایک اہم حصہ ان کی استعداد اور صلا حیتوں میں اختلاف سے مربوط ہے ، جسمانی اور وحانی صلاحیتوں فرق اقتصادی کار کر دگی کی کمیت و کفییت کا سر چشمہ ہے اسی سے بعض کا حصہ رزق کم اور بعض کا زیادہ ہو جاتا ہے ۔
البتہ اس میں شک نہیں کہ بعض اوقات ایسے حوادث پیش آتے ہیں کہ جو ہمارے نزدیک اتفاقات ہوتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے بعض لوگوں کو زیادہ نعمات میسر آجاتی ہیں لیکن انھیں استثنائی امور شمار کرنا چاہئیے لیکن اکثر امور کی بنیادوہی سعی و کوشش کی کمیت و کیفیت کا فرق ہے ۔
البتہ ہماری مراد ایسے معاشر ے سے ہے جو صحیح نہج پر قائم ہو جو ظالمانہ لوٹ کھسوٹ سے پاک ہو نہ کہ ایسا معاشرہ جو منحرف اور کج رو ہو اور جو قوانین ِ آفرینش اور انسانی بنیادوں پرقائم نظام سے ہٹ گیا ہو۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم بعض لوگوں کو بے وقعت اور بے دست و پا سمجھتے ہیں لیکن ان کے پا س بہت وسائل اور مال و دولت ہوتی ہے ہم اس پر تعجب کرتے ہین لیکن اگر ہم بعض لوگوں کو بے وقعت اور بے دست و پاسمجھتے ہیں لیکن ان کے پاس بہت وسائل اور مال و دلت ہوتی ہے ہم اس تر تعجب کرتے ہین لیکن اگر ہم ان کے جسم ، روح اور اخلاق پر زیادہ غور کریں اور سطحی مطالعے پر مبنی فیصلہ ایک طرف کردیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ کوئی نہ کوئی ایسی قوت رکھتے ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچے ہیں ۔
ہم پھر یہ بات دہراتے ہیں کہ ہمارا موضوع بحث وہ صحیح و سالم معاشرہ ہے کہ جو ظالمانہ لوٹ کھسوٹ سے پاک ہو ۔
بہر حال آمدن اور وسائل کا یہ فرق صلاحیتوں کے فر ق پر مبنی ہے اور یہ صلاحتیں نعماتِ الہٰی ہیں البتہ ہو سکتا ہے کہ چند مواقع پر یہ اکتسابی ہوں ۔
لیکن بعض مواقع یقینا غیر اکتسابی ہوتے ہیں اور اس بناء پر ایک صحیح و سالم معاشرے میں بھی اقتصادی لحاظ سے آمدن کا فرق قابل انکار نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم سب لوگوں کا ہم شکل ، ہم رنگ ، ہم استعداد اور ہم قالب بنا سکیں ۔ سب لوگ ایسے ہو جائیں کہ ان میں کسی قسم کا کوئی فرق باقی نہ رہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے ۔
۲ ۔انسان ، درخت یاپھول کے پودے کو دیکھیے کیا ممکن ہے ککہ ان کے بدن کی متناسب عمارت اعضاء کے لحاظ سے مساوی ہو۔ کیا پودے کی جڑیں اس کے پھولوں کی نازک پتیوں جیسی ہو سکتی ہیں ؟ کیا انسان کی ایڑی کی ہڈی اس کی آنکھ کی لطیف پتلی کے ہر لحاظ سے مساوی ہوسکتی ہے اور اگر ہم انھیں یکساں کرسکیں تو کیا آپ سمجھیں گے کہ ہم نے صحیح کام انجام دیا ہے ۔
پر فریب اور شعور سے عاری نعروں سے قطع نظر کر کے فرض کیجئے کہ ایک دن ہم ہر لحاظ سے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے خیالی انسان بنالیں پوری دنیا کو پانچ ہزار ملین ( ۵/ ارب)ایسے انسان سے بھر دیں جو ہم شکل ، ہم لباس ، ہم ذوق، ہم فکر اور ہر لحاظ سے یکساں ہیں ۔ کسی کار خانے سے نکلنے والے ایک ہی برانڈ کے سگر ٹوں کی طرح ۔ تو ذرا سوچیں کہ کیا اس روز انسانوں کو اچھی زندگی نصیب ہو جائے گی ۔ مسلم ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ایک جہنم بن جائے گی ۔ سب کے سب ایک مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے سب کے سب ایک ہی طرف چل پڑےں گے سب کے سب ایک ہی چیز چاہیں گے سب ایک پوسٹ کے خواہش مند ہو ں گے ،سب ایک ہی قسم کی غذائیں چاہیں گے اور سب ایک کام کرنا چاہیں گے ۔ ظاہر ہے اس قسم کی زندگی بہت ہی جلد ختم ہو جائے گی اور فرض کریں کہ وہ باقی رہ جائے تو ایک تھا دینے والی روح ، بے کیف اور ایک ہی طرز کی زندگی ہو گی۔ ایسی زندگی جو موت سے زیادہ مختلف نہ ہوگی ۔
لہٰذا صلاحیتوں کا اختلاف اور اس کے لوازم نظام کی بقا کے لئے ناگریز ہے بلکہ ایسا ہونا استعداد و صلاحیت کی نشو ونما کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔ پر فریب نعروں سے اس حقیقت کو بدلا نہیں جاسکتا ۔
لیکن ایسا نہ ہو کہ کوئی ہماری اس گفتگو کا یہ مطلب سمجھنے لگے کہ ہم طبقاتی معاشرے اور لوٹ کھسوٹ اور استعماری نظام کو قبول کرتے ہیں نہیں ہر گز نہیں ہماری مراد طبعی اور فطری اختلاف ہے نہ کہ مصنوعی ہماری مراد وہ تفاوت اور فرق ہیں کہ جو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون و مدد گار ہیں نہ کہ ایک دوسرے پر تجاوزو ظلم کرنے والے ۔طقاتی فرق (توجہ رہے یہاں طبقاتی فرق سے مراد اس کا وہی اصلاحی مفہوم ہے یعنی ایک لوٹ کھسوٹ کرنے والا طبقہ اور دوسرا جسے لوٹا جا رہا ہے )ہر گز نظام آفرینش سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ نظام ِ خلقت سے ہم آہنگ استعدا اور کوشش کا فرق ہے اور ان دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ( غور کیجئے گا )
دوسرے لفظوں میں استعداد کے اختلاف کو اصلاح و تعمیر کے لئے استعمال ہو نا چاہیئے جیسے ایک بد ن کے اعضاء کا اختلاف ہوتا ہے جیسے ایک پھول کے پودے میں مختلف حصوں کااختلاف ہوتا ہے وہ اختلاف کو ایک دوسرے کے مزاحم نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہوتا ہے ۔
مختصر یہ کہ آمدن کے اختلاف سے طبقاتی معاشرہ پیدا کرنے کے لئے سوء ِ استفادہ نہیں کرنا چاہیئے ۔ اسی بناء پر زیر بحث آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : کیا وہ نعمت ِ خدا کا انکار کرتے ہیں(
اٴَفَبِنِعْمَةِ اللهِ یَجْحَدُونَ
)
۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ اختلاف فطرت کی صورت میں ہوں نہ کہ مصنوعی اور ظالمانہ صورت میں خدا کی نعمت ہیں اور انسان کے نظام معاشرہ کی حفاظت کے لئے ہیں ۔
زیر بحث آخری آیت گزشتہ دوآیات کی طرح لفظ” اللہ “ سے شروع ہوتی ہے اس میں نعماتِ الہٰی کا ذکر ہے اس میں انسان کی انفرادی قوت ، انسان کے معاونین اور مددگاروں اور اسی طرح پاکیزہ رزق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اس طرح ان تین آیتوں میں جن نعمتوں کا ذکر شروع ہوا ہے اس کی تکمیل ہ وجاتی ہے یعنی بات زندگی اور موت کے نظام سے شروع کی گئی ہے پھر رزق اور استعداد میں فرق کا ذکر ہے کہ جو زندگی میں تنوع کا باعث ہے اور آخری آیت میں نسل انسانی کے زیادہ ہونے اور پاکیزہ رزق کی طرف اشارہ ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے :اللہ نے تمہاری نوع میں سے تمہارے لئے بیویاں بنائی ہیں(
وَاللهُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ اٴَنفُسِکُمْ اٴَزْوَاجًا
)
۔وہ بیویاں کہ جو تسکین ِ جسم کی باعث بھی ہیں اور بقاء کا ذریعہ بھی اسی لئے ساتھ ہی اضافہ کیا گیا ہے : اور تمہاری بیویوں کے ذریعے تمہیں بیٹے، پوتے اور نواسے عطا کئے ہیں(
وَجَعَلَ لَکُمْ مِنْ اٴَزْوَاجِکُمْ بَنِینَ وَحَفَدَةً
)
۔
”حفدة“ ”حافد“کی جمع ہے ۔ در اصل اس کا معنی ہے وہ شخص جو کسی جزا کی توقع کے بغیر تعاون کرے لیکن یر نظر آیت میں بہت سے مفسرین کے نظرے کے مطابق ” حفدة“ اس سے مراد پوتے اور نواسے ہیں ، بعض اس سے مرا د صرف نواسے لیتے ہیں اور بعض نے ”بنین“ سے چھوٹے بیٹے مراد لیا ہے اور ”حفدة“ سے بڑے بیٹے کہ جو مدد اور ہمکاری کرسکتے ہیں بعض نے ”حفدة“ مراد ہر طرح کے معاون و مدد گار لئے ہیں چاہے وہ بیٹے ہوں یا کوئی اور۔
بہر حال اس میں شک نہیں ہر شخص کے ارد گرد ، بیٹوں ، پوتوں اور نواسوں اور بیویوں کی صورت میں انسانی قوتوں کا وجود اس کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے یہ روحانی لحاظ سے بھی مدد کرتے ہیں اور مادی لحاظ سے بھی ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے : اللہ نے تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا ہے(
وَرَزَقَکُمْ مِنْ الطَّیِّبَاتِ
)
۔
”طیبات“کا یہاں وسیع مفہوم ہے اس میں ہر قسم کے پاکیزہ رزق شامل ہے چاہے وہ مادی پہلو سے ہو یا روحانی پہلو سے ، انفرادی حوالے سے ۔
آخر میں اس بحث سے نتیجہ نکالتے ہوئے فرمایا گیا ہے :کیا وہ خدا کی عظمت و قدرت کے یہ سب آثار دیکھنے کے باوجود اس کی جانب سے اپنے اوپر ہونے والی ان تمام نعمتوں کے باوجود بتوں کے پیچے لگے ہوئے ہیں ” کیا وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں(
اٴَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللهِ هُمْ یَکْفُرُونَ
)
۔
یہ ان کا کیسا غلط طرز عمل ہے کہ وہ نعمتوں کے سر چشمے کو فراموش کرکے اس کے پیچے جاتے ہیں کہ ان کی زندگی پر کچھ بھی اثر نہیں رکھتا اور ہر لحاظ سے ” باطل“ کامصداق ہے۔
____________________