آیات ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵
۱۰ ۔(
وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی شِیَعِ الْاٴَوَّلِینَ
)
۔
۱۱ ۔(
وَمَا یَاٴْتِیهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ
)
۔
۱۲ ۔(
کَذَلِکَ نَسْلُکُهُ فِی قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ
)
۔
۱۳ ۔(
لاَیُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْاٴَوَّلِینَ
)
۔
۱۴ ۔(
وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهمْ بَابًا مِنْ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِیهِ یَعْرُجُونَ
)
۔
۱۵ ۔(
لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ اٴَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُو
)
ترجمہ
۱۰ ۔ ہم نے تجھ سے پہلے ( بھی ) گذشتہ امتوں کے درمیان پیغمبر بھیجے ہیں ۔
۱۱ ۔ کوئی پیغمبر ان کے پا س نہیں آیا تھا مگر یہ کہ وہ ا س کا مذاق اڑاتے تھے ۔
۱۲ ۔ ہم اسی طرح ( او ر تمام وسائل سے استفا دہ کرتے ہوئے ) قرآن کو مجرموں کے دلوں کے اندر راستہ دیتے ہیں ۔
۱۳ ۔ ( لیکن اس کے با وجود ) و ہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور گذشتہ امتوں کی روش بھی اسی طرح تھی ۔
۱۴ ۔ اور اگر ہم آسمان سے ان کے لئے کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ مسلسل اس میں اوپر کی طرف جائیں ۔
۱۵ ۔ تو کہیں گے کہ ہماری چشم بندی کی گئی ہے بلکہ ہمیں ( سر تاپا) مسحور کر دیا گیا ہے
تفسیر
ہٹ دھرمی اور محسوسات کا انکار
ان آیات میں پیغمبر اکرم اور مومنین کو اپنی دعوت میں در پیش مشکلات کے مقابلے میں تسلی و تشفی کے لئے گذشتہ انبیاء کی زندگی اور گمراہ و متعصب قوموں کے مقابلے میں ان کی مصیبتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : تجھ سے پہلے ہم نے گذشتہ امتوں کے درمیان بھی نبی بھیجے تھے(
وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی شِیَعِ الْاٴَوَّلِینَ
)
۔
لیکن وہ لوگ ایسے ہٹ دھرم اور سخت مزاج تھے کہ ” جو پیغمبر بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا تمسخر اڑاتے(
وَمَا یَاٴْتِیهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ
)
۔
یہ استہزاء چند امور کی وجہ سے ہوتا تھا
۔انبیاء کی شان و شوکت کو کم کرنے اور حق کے متلاشی اور حق طلب افراد کو ان سے دور کرنے کے لئے ۔
۔ خدائی رسولوں کی منطق کے مقابلے میں ان کی اپنی ناتوانی کی وجہ سے چونکہ وہ لوگ ان کے دندان شکن دلائل کا جواب نہیں دے سکتے تھے لہٰذا تمسخر کا سہارا لیتے یعنی بے منطق ناداں کا حربہ استعمال کرتے تھے ۔
۔ اس بناء پر کہ انبیاء بد عت شکن تھے اور غیر مناسب رسوم و رواج کے خلاف قیام کرتے تھے لیکن جاہل متعصب کہ ان غلط رسول و رواج کو ابدی سمجھتے تھے انہیں ان کام پر تعجب ہو تا تھا اور وہ استہزاء کرنے لگتے تھے ۔
۔یہ لوگ اس لئے بھی استہزاء کرتے تھے کہ اپنے خوابیدہ ضمیر کو سلائے رکھیں اور کہیں کوئی ذمہ داری اور مسئولیت ان کے سر نہ آجائے ۔
۔ اس لئے کہ بہت سے انبیاء کے ہاتھ مالِ دنیا سے تہی ہوتے تھے اور ان کی زندگی سادہ ہوتی تھی جو لوگ اپنے دل کے اندھے پن کی وجہ سے شخصیت کو نئے لباس ، اعلیٰ سواری اور نگین زندگی میں منحصر سمجھتے تھے انھیں تعجب ہوتا تھا کہ کیا ایک فقیر اور تہی دست انسان ان دولت مندوں او ر خوشحال لوگوں کا رہبر ہوسکتا ہے ؟ لہٰذا وہ اس کا تمسخر اڑانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔
۔ آخر کار یہ بھی تھا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انبیاء کی دعوت قبول کرنے سے ان کی شہوات و خواہشات محدود ہ وجائیں گی او ر ان کی حیوانی آزادی چھن جائے گی ۔ اور ان کے لئے فرائض اور ذمہ دار یاں پیدا ہو جائیں گی لہٰذا وہ استہزاء سے کام لیتے تاکہ اپنے آپ کو ان فرائض اور ذمہ داریوں سے بچا سکیں ۔
اس کے بعد فرمایا گیا : اسی اسی طرح ہم آیات قرآن مجرموں کے دلوں میں ں بھیجتے ہیں(
کَذَلِکَ نَسْلُکُهُ فِی قُلُوبِ الْمُجْرِمِینَ
)
۔
لیکن ان تمام تبلیغ ، تاکید ، منطقی بیان اور معجزات دکھا نے کے باوجود یہ متعصب تمسخر اڑانے والے ” اس پر ایمان نہیں لاتے“(
لاَیُؤْمِنُونَ بِه
)
۔
البتہ یہ انہی پر منحصر نہیں ہے ” ان سے پہلے گذشتہ اقوام کی بھی یہی روش تھی(
وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْاٴَوَّلِینَ
)
۔
شہوات میں غوطہ زنی اور باطل پر ہٹ دھرمی کے باعث معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اگر ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی در وازہ کھول دیں اور ہمیشہ آسمان کی طر ف چڑھیں اور اتریں(
وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهمْ بَابًا مِنْ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِیهِ یَعْرُجُونَ
)
۔
تو کہیں گے کہ ہماری چشم بندی کی گئی ہے(
لَقَالُوا إِنَّمَا سُکِّرَتْ اٴَبْصَارُنَا
)
۔بلکہ ہمیں جادو گر دیا گیا ہے اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ، اس میں قطعاً کوئی حقیقت نہیں ہے(
بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ
)
۔
یہ جائے تعجب نہیں کہ انسان عناد اور ہ دھرمی کے اس در جے پر پہنچ جائے کیونکہ انسان کی پاک روح اور خرابی سے بچی ہوئی فطرت کہ جو ادراک ِ حقائق اور واقعیات کے اصلی چہرے کے مشاہدہ پر قدرت رکھتی ہے ، گناہ جہالت اور حق سے دشمنی رکھنے کے زیر اثر آہستہ آہستہ تاریکی میں جا گرتی ہے البتہ ابتدائی مراحل میں اسے پاک کرنا پوری طرح ممکن ہے لیکن اگر خدا نخواستہ یہ حالت ِ انسان میں راسخ ہو جائے اور ” ملکہ “ کی شکل اختیار کرلے تو پھر اسے آسانی سے ختم کیا جاسکتا اور یہ وہ مقام ہے کہ حق کا چہرہ انسان کی نظر میں دگر گوں ہو جاتا ہے یہاں تک کہ محکم ترین عقلی دلائل اور واضح ترین حسی براہین اس کے دل پر اثر نہیں کرتے اور اس کا معاملہ معقولات اور محسوسات دونوں کے انکار تک جا پہنچتا ہے ۔
چند اہم نکات
۱ ۔ ”شیع کا مفہوم “
” شیع“” شیعہ “کی جمع ہے ۔ ” شیعہ“ ایسی جمیعت اور گروہ کو کہا جاتا ہے جس کے افراد خطِ ،مشترک کے حامل ہوں مفردات مین راغب نے کہا ہے :
”شیع “ ”شیاع“ کے مادہ سے پھیلاؤ اور تقویت کے معنی میں ہے ” شاع الخبر“ اس وقت کہا جاتا ہے جب خبر متعدد اور قوی ہو جائے ” شاع القوم “ اس وقت کہا جاتا ہے جب جمیعت پھیل جائے اور زیادہ تعداد میں ہو اور ” شیعہ “ ان لوگوں کو کہتے ہیں کہ انسان جن کی وجہ سے قوی ہو ۔
مرحوم طبرسی مجمع البیان میں اس کی اصل ” مشایعت “ بمعنی متابعت سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیعہ پیرو کار اور تابع کے معنی میں ہے اور شیعہ علی(علیہ السلام) انھیں کہا جاتا ہے جو حضرت علی (علیہ السلام) انھیں کہا جا تا ہے جو حضرت علی (علیہ السلام) کے پیرو کار ہوں اور ان کی امامت کا اعتقاد رکھتے ہوں ۔ پیغمبر اکرم کی یہ مشہور حدیث حضرت امام سلمہ سے مروی ہے ۔شیعة علی هم الفائزون یوم القیامة
( قیامت کے دن نجات پانے والے علی (علیہ السلام) کے پیرو ہیں )
یہ حدیث بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔
بہر حال اس لفظ کی اصل ”شیاع“ بمعی پھیلاؤ اور تقویت سمجھیں یامشایعت بمعنی متابعت جانیں شیعہ اور تشیع کے مفہوم میں ایک طرح کی فکری و مکتبی ہم بستگی موجود ہونے کی دلیل ہے کہ وہ انبیاء کے خلاف پر اگندہ صورت میں عمل نہیں کرتے تھے بلکہ وہ خط مشترک اور ایک ہی پروگرام کے حامل تھے کہ جو ہم آہنگ اقدامات سے تقویت پاتا ہے ۔
اگر گمرا ہ لوگ اس طرح باہم مل کر اقدامات کرتے ہوئے تو کیا راہ ِ حق کے سچے پیرو کاروں کو اپنے راستے میں ہم آہنگی اور مشرکہ منصوبہ بندی اختیار نہیں کرنا چاہئیے ۔
۲ ۔”نسلکہ“ کی ضمیر کامرجع
یہ لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجرموں اور مخالفوں کو اپنی آیات اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ گویا ان کے دلوں میں داخل ہو گئی ہوں ۔
لیکن افوس کی بات ہے کہ عدم قابلیت اورعدم آمادگی کے سبب با ہر نکل آتی ہیں جیسے مقوی او رمفید غذا خراب اور غیر صحیح معدہ میں جذب نہیں ہوتی ۔بالک یہی حقیقت ”نسلکہ “ کہ جس کا مادہ اصلی ”سلوک “ سے ہے سمجھی جاسکتی ہے ۔
لہٰذا” نسلکہ “ کی ضمیر ” ذکر “ ( قرآن) کی طرف لوٹتی ہے کہ جو گذشتہ آیات میں آیا ہے کہ اس طرح بعد والے جملے ” لایومنون بہ “ میں ” بہ “ کی ضمیر اس کی معنی کی طرف لوٹتی ہے یعنی ان تمام چیزوں کے باوجود وہ لوگ ان آیات پر ایمان نہیں لائیں گے اس بناء پر دو ضمیروں کے درمیان پوری طرح ہم آہنگی موجود ہے ۔
اسی معنی میں اس تعبیر کی نظیر سورہ شعراء کی آیہ ۲۰۰ اور ۲۰۱ میں نظر آتی ہے ۔
بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ ” نسلکہ “ کی ضمیر استہزاء کی طرف لوٹتی ہے کہ جو گذشتہ آیت سے مستفاد ہو تا ہے لہٰذا جملے کا معنی یہ ہوگا : ہم نے اس استہزاء کرنے کو( ان کے گناہوں اور ہٹ دھرموں کی وجہسے ) ان کے دل میں داخل کردیا ہے ۔
لیکن یہ تفسیر کوئی اور اشکال نہ بھی رکھتی ہو تاہم دوضمیروں کے درمیان سے ہم آہنگی خم کردیتی ہے اور اس کی کمزوری کے لئے یہی کافی ہے ( غور کیجئے گا) ۔
ضمنی طور پر مندرجہ بالا جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ مبلغین کا فریضہ صرف یہ نہیں کہ مسائل لوگوں کے کانوں کو سنا دیں بلکہ انھیں تمام وسائل سے استفادہ کرنا چاہئیے تاکہ حق بات ان کے دل میں اتاردیں اس طرح سے کہ وہ دلنشیں ہو جائے یوں حق طلب لوگوں کو ارشاد و ہدایت ہو جائے گی اور ہٹ دھرم افراد پر اتمام حجت ہو جائے گی ۔
یعنی تمام سمعی و بصری اور عملی ذرائع سے استفادہ کرناچاہئیے ۔ واقعات اور داستانوں سے کام لینا چاہئیے ۔
شعر و ادب و ہنر و فن سے حقیقی اور اصلاحی معنی میں استفادہ کرنا چاہئیے ۔ تاکہ کلمات حق لوگوں کے دلوں میں جا گزیں ہو جائیں ۔
۳ ۔گذشتہ لوگوں کی روش
انبیاء پر طرف دار باطل کی نکتہ چینی اور مردانِ خد اسے لوگوں کو دور کرنے کی سازشیں کوئی نئی چیز نہیں اور کسی خاص زمانے یا علاقے میں منحصر نہیں بلکہ جیسا کہ مذکورہ بالا تعبیر سے معلوم ہوتا ہے قدیم زمانے سے گمراہ قوموں میں ایسی سازشیں موجود ہیں ۔
لہٰذا ان سے ہر گز وحشت زدہ نہیں ہونا چاہئیے اور اپنے اندر مایوسی اور ناامیدی کو جگہ نہیں دینا چاہئیے ۔ یا دشمنوں کی طرف سے پیدا کردہ کثیر مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئیے ۔
یہ بات تمام راہیان حق کے لئے ایک موثر دلجوئی اور تسلی ہے ۔
اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دور اور کسی علاقہ میں ہم دعوت ِحق نشر کریں اور پر چم عدم لہرائیں لیکن ہٹ دھرم اور سخت مخالفت کرنے والے دشمن کی طرف سے ہمیں رد عمل کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ہم بہت ہی زیادہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ انبیاء الہٰی اور ان کے سچے پیر و کار ان مخالفتوں کی وجہ سے کبھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ ان کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ ہر روز اپنی دعوت کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ کریں ۔
۴ ۔(
فظلموا فیه یعرجون
)
“ کا مفہوم
یہ جملہ اور مندرجہ بالا آیات میں آنے والے بعد کے جملے اچھی طرح نشاندہی کرتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ آسمان سے کوئی دروازہ ان کے لئے کھول دیا جائے (ظاہراً آسمان یہاں اس تہ بہ فضا کی طرف اشارہ ہے جو زمین کے اطراف میں ہے کہ جس سے آسانی سے نکلنا ممکن نہیں ہے )اور مسلسل روز روشن میں اس آئیں جائیں پھر بھی وہ شدید ہٹ دھرمی سے کہیں گے کہ ہماری چشم بندی کردی گئی ہے اور ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔
توجہ رہے کہ ” ظلموا “ دن میں کسی کام کو جاری رکھنے کی دلیل ہے عرب یہ لفظ رات کے موقع کے لئے استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کی جگہ ”باتوا“ کہتے ہیں جو مادہ ” بیتوتہ“ ( رات گزار نا) سے ہے ۔
زیادہ تر مفسرین نے یہی تفسیر انتخاب کی ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ ” ظلموا“ میں ضمیر فرشتوں کی طرف لوٹتی ہے یعنی اگر وہ فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ وہ آسمان کی طرف جارہے ہیں اور پلٹ رہے ہیں تو پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے ۔
علاوہ اس کے کہ یہ تفسیر قبل اور بعد کی آیات سے کہ جوعموماً مشرکین کے بارے میں ہیں سے منا سبت رکھتی ( کیونکہ ملائکہ کا ذکر صرف پہلی چھ آیات میں آیا ہے اور ان کی طرف ضمیر کا لوٹنا بہت بعید ہے ) بلاغت کلام میں بھی نقص کا باعث ہے کیونکہ قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہاں تک کہ اگر یہ لوگ خود بصورت اعجاز روز روشن میں آسمان کی طرف جائیں اور پلٹ آئیں تو بھی حق کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے ۔ ( غور کیجئے گا) ۔
۵ ۔ سکرات ابصارنا“ کا مطلب
” سکرت“ ”سکر“ کے مادہ سے چھپانے کے معنی میں ہے یعنی ہٹ دھرم کا فر کہتے ہیں کہ ہماری حقیقت میں آنکھ پر گویا پر دہ ڈال دیا گیا ہے اور اگر ہم اپنے تئیں آسمان کی طرف محو پرواز دیکھیں تو یہ ایک خیالی بات ہے یہ بالکل وہی چیز ہے جسے فارسی زبان میں ”چشم بندی “اور نظر بندی ( اردو میں اسے فریب ِ نظر کہتے ہیں (مترجم ) ۔ سے تعبیرکرتے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے کے ہاتھ کی صفائی کی وجہ سے انسان حقیقت کو صحیح طور پر نہیں دیکھ سکتا بلکہ اس کے خلاف محسوس کرتا ہے ۔
یہ جو اس کے بعد جملہ ” بل نحن قوم مسحورون “( بلکہ ہم تو جادو زدہ ہیں ) آیا ہے اگر چہ فریب نظر بھی ایک قسم کا جادو ہے لیکن شاید یہ اس طرف اشارہ ہو کہ معاملہ چشم بندی سے بھی بالا ہو گیا ہے اور ہمیں سر تا پا جا دو کردیا گیا ہے نہ صرف ہماری آنکھ جادو کے زیر اثر ہے بلکہ ہمارا سارا وجود جادو کے سبب اپنا حقیقی احساس گنوابیٹھا ہے اور جو کچھ محسوس کرتا ہے ، خلافِ حقیقت ہے ۔
دوسرے لفظوں میں جب ہم کسی انسان کو کسی ذریعے سے اوپر لے جائیں اور نیچے لے آئیں تو وہ اس حالت کو نہ صرف اپنی آکھوں سے بلکہ پورے وجود کے ساتھ محسوس کرتا ہے لہٰذا اگر کسی کی پوری طرح چشم بندی کر دی جائے تو وہ پھر بھی اپنے اوپر نیچے آنے جانے کو محسوس کرے گا، یعنی فرض کریں کہ ان مشرکین کو ہم آسمان کی طرف لے جائیں تو پہلے کہیں گے کہ ہماری نظر کو فریب دیاگیا ہے اور بعد میں متوجہ ہوں گے کہ یہ حالت تو بدون چشم قابل احساس ہے تو کہیں گے اصولی طور پر تو سرسے لے کر پاؤں تک ہمارا وجود سحر زدہ ہے اور اس پر جادو کیا گیا ہے ۔