آیات ۲۶،۲۷،۲۸،۲۹،۳۰،۳۱،۳۲،۳۳،۳۴،۳۵،۳۶،۳۷،۳۸،۳۹،۴۰،۴۱،۴۲،۴۳،۴۴
۲۶ ۔(
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ
)
۲۷ ۔(
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ
)
۔
۲۸ ۔(
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ
)
۔
۲۹ ۔(
فَإِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ
)
۔
۳۰ ۔(
فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّهُمْ اٴَجْمَعُونَ
)
۔
۳۱ ۔(
إِلاَّ إِبْلِیسَ اٴَبَی اٴَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ
)
۔
۳۲ ۔(
قَالَ یَاإِبْلِیسُ مَا لَکَ اٴَلاَّ تَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ
)
۔
۳۳ ۔(
قَالَ لَمْ اٴَکُنْ لِاٴَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ
)
۔
۳۴ ۔(
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّکَ رَجِیم
)
۔
۳۵ ۔(
وَإِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَةَ إِلَی یَوْمِ الدِّینِ
)
۔
۳۶ ۔(
قَالَ رَبِّ فَاٴَنْظِرْنِی إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ
)
۔
۳۷ ۔(
قَالَ فَإِنَّکَ مِنْ الْمُنْظَرِینَ
)
۔
۳۸ ۔(
إِلَی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ
)
۔
۳۹ ۔(
قَالَ رَبِّ بِمَا اٴَغْوَیْتَنِی لَاٴُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاٴَرْضِ وَلَاٴُغْوِیَنَّهُمْ اٴَجْمَعِینَ
)
۔
۴۰ ۔(
إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْهُمْ الْمُخْلَصِینَ
)
۔
۴۱ ۔(
قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ
)
۔
۴۲ ۔(
إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْغَاوِینَ
)
۔
۴۳ ۔(
وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اٴَجْمَعِینَ
)
۔
۴۴ ۔(
لَهَا سَبْعَةُ اٴَبْوَابٍ لِکُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ
)
۔
ترجمہ
۲۶ ۔ ہم نے انسان کو خشک شدہ مٹی سے پیدا کیا کہ جو بد بو دار(سیاہ رنگ) کیچڑ سے لی گئی تھی ۔
۲۷ ۔اور اس سے پہلے ہم جن گرم او ر جلادینے والی آگ سے خلق کیا تھا ۔
۲۸ ۔اور یاد کرو وہ وقت جب تیرے پر وردگار نے فرشتوں سے کہا : میں بشرکو خشک شدہ مٹی جو بد بودار کیچڑ سے لی گئی ہے ، سے خلق کروں گا ۔
۲۹ ۔جب ہم اس کام کو انجام دے چکےں اور میں اپنی ( ایک شائستہ اور عظیم ) روح پھونکیں تو سب کے سب اسے سجدہ کرنا ۔
۳۰ ۔ تمام فرشتوں سے بلا استثناء سجدہ کیا ۔
۳۱ ۔ سوائے ابلیس کے کہ جس نے سجدہ کرنے والوں میں سے ہونے سے انکار کردیا ۔
۳۲ ۔(اللہ نے ) فرمایا اے ابلیس !تو ساجدین کے ساتھ کیوں شامل نہیں ہوا ؟
۳۳ ۔اس نے کہا : میں ہر گز ایسے بشر کو سجدہ نہیں کروں گا جسے تونے بد بودار کیچڑ سے لی گئی خشک شدہ مٹی سے بنایا ہے ۔
۳۴ ۔فرمایا: ان ( فرشتوں ) کی صف سے نکل جا کہ تو ہماری درگاہ سے راندہ گیا ہے ۔
۳۵ ۔اور تجھ پر روز قیامت تک لعنت (اور رحمت حق سے دوری ) ہوگی ۔
۳۶ ۔اس نے کہا: پر وردگارا!مجھے روز قیامت تک مہلت دے ( اور زندہ رکھ ) ۔
۳۷ ۔فرمایا: تو مہلت حاصل کرنے والوں میں سے ہے ۔
۳۸ ۔(لیکن روز قیامت تک نہیں بلکہ ) معین دن اور وقت تک۔
۳۹ ۔ اس نے کہا : پروردگارا!چونکہ تونے مجھے گمراہ کیا ہے میں مادی نعمتوں کو زمین میں ان کی نگاہ میں مزین کروں گا اور سب کو گمراہ کروں گا ۔
۴۰ ۔مگر تیرے مخلص بندے ۔
۴۱ ۔ (اللہ نے) فرمایا:یہ میری مستقیم اور سیدھی راہ ہے ( ہمیشہ کی سنت ہے ) ۔
۴۲ ۔(کہ) تو میرے بندوں پر تسلط حاصل نہیں کرسکے گا مگر وہ گمراہ جو تیری پیروی کریں گے ۔
۴۳ ۔اور جہنم ان سب کی وعدہ گاہ ہے ۔
۴۴ ۔اس کے سات دروازے ہیں اور ہر در وازے کے لئے ان میں سے ایک معین گروہ تقسیم شدہ ہے ۔
تفسیر
خلقت ِ انسان
گذشتہ آیات میں مخلوق خدا کے ایک حصے اور نظام ِہستی کا بیان تھا ۔ اسی مناسبت سے ان آیات میں تخلیق کے عظیم شاہکار یعنی انسان کی خلقت کو بیان کیا گیا ہے ۔ متعدد پر معنی آیات کے ذریعے اس خلقت کے بہت سے پہلوؤں کو واضح کیا گیا ہے ۔
ہم پہلے تو آیات کی اجمالی تفسیر بیان کرتے ہیں اس کے بعد اہم نکات پر علیحدہ علیحدہ بحث کریں گے ۔
ارشاد ہوتا ہے ہم نے انسان کو صلصال سے ( یعنی اس مٹی سے جو خشک شدہ ہو اور کسی چیز سے ٹکراتے وقت آواز دیتی ہو ) پیدا کیا ہے کہ جو
حماٍمّسنون ( سخت تاریک ،متغیر اور بد بو دار کیچڑ ) سے لی گئی ہے(
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ
)
۔
اور اس سے پہلے” جنّوں “کو ہم نے گرم اور جلانے والی آگ سے پیداکیاہے(
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ
)
۔
”سموم“ لغت میں جلانے والی ہوا کے معنی میں ہے گویایہ ہوا انسانی جسم کے تمام سوراخوں سے نفوذ کرتی ہے کیونکہ عرب انسانی جسم کے بہت ہی چھوٹے سوراخوں کو ”مسام“ کہتے ہیں ۔” سموم “ بھی اسی مناسبت سے ایسی ہوا کوکہا جاتا ہے مادہ ”سم “ (زہر)بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ بد ن میں نفوذ کرکے وانسان کو قتل کردیتی ہے یا بیمار کردیتی ہے ۔
جنوں نے ذکر کے بعد قرآن پھر خلقتِ انسان کے موضوع کی طرف لوٹتا ہے ۔ فرشتوں سے اللہ تعالیٰ کی خلقت ِ انسان کے بارے میں جو پہلی گفتگو ہو ئی اسے یوں بیان کیا گیا ہے :یاد کرو وہ وقت جب تیرے پر وردگار نے فرشتوں سے کہا ، فرمایا : میں بشر کو تاریک رنگ بد بو دار کیچڑ سے لی گئی خشک مٹی سے پیدا کروں گا(
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ
)
۔
جب میں اس کی خلقت کو انجام و کمال تک پہنچالوں اور اور اپنی ( ایک شریف پاک اور باعظمت ) روح ان میں پھونک دوں تو سب کے سب اسے سجدہ کرنا(
فَإِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ
)
۔
خلقت انسان تکمیل کو پہنچ گئی اور انسان کے لئے جو جسم و جان مناسب تھا اسے دے دیا گیا اور سب کچھ انجام پاگیا “تو اس وقت تمام فرشتوں نے بلا استثناء سجدہ کیا(
فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّهُمْ اٴَجْمَعُونَ
)
۔
وہ تنہا شخص جس نے اس فرمان کی اطاعت نہ کہ وہ ”ابلیس“تھا لہٰذا مزید فرمایا: سوائے ابلیس کے کہ جس نے ساجدین کے ساتھ ہونے سے نکار کیا(
إِلاَّ إِبْلِیسَ اٴَبَی اٴَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ
)
۔
اس موقع پر ابلیس سے باز پرس کی گئی اور خدا نے ”اس سے کہا “ اے ابلیس !تو ساجدین میں کیوں شامل نہیں ہے(
قَالَ یَاإِبْلِیسُ مَا لَکَ اٴَلاَّ تَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ
)
۔
ابلیس کو جو غرور اور خود خواہی میں ایسا غرق تھا کہ اس کی عقل و ہوش غائب ہو چکے تھے ، پر وردگار کی پرستش کے جواب میں بڑی گستاخی سے بولا ”میں ہر گزایسے بشر کو سجدہ نہیں کروں گا جسے تو بدبو دار اور کیچڑ سے لی گئی خشک ٹی سے پیدا کیا ہے “(
قَالَ لَمْ اٴَکُنْ لِاٴَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ
)
۔
نورانی اور چمکنے والی آگ کہاں اور سیاہ او متعفن مٹی کہاں ۔ کیا مجھ جیسا ایک اعلیٰ موجود پست ترموجود کے سامنے خضوع کرسکتا ہے ، یہ کونسان قانون ہے ؟
وہ چونکہ غرور اور خود خواہی کے باعث خلقت و آفرینش کے اسرا بے خبر تھا اور خاک کی بر کات کو فراموش کر چکا تھا کہ جو ہر خیر و بر کت کا منبع ہے اور اس سے بڑھ کر وہ شریف اور عظیم الٰہی روح تھی جو آدم میں موجود تھی اور اس نے اسے لائق اعتناء نہ سمجھا ۔اچانک اپنے بلند مقام سے گر پڑااب وہ اس لائق نہ رہا تھا کہ صفِ ملائکہ میں کھڑا ہوسکے لہٰذا خدا تعالیٰ نے اسے فوراً فرمایا :یہاں سے(
بہشت سے یا آسمانوں سے یا ملائکہ کی صفوں سے ) باہر نکل جاکہ تو راندہ درگاہ ہے(
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّکَ رَجِیم
)
۔
اور جان لے کہ تیرا غرور تیرے کفر کا سبب بن گیا ہے اور اس کفر نے تجھے ہمیشہ کے لئے دھتکارا ہوا کردیا ہے تجھ پر روز قیامت تک خدا کی لعنت اور رحمت ِخدا سے دوری ہے(
وَإِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَةَ إِلَی یَوْمِ الدِّینِ
)
۔
ابلیس نے جب اپنے آپ کو با رگاہ ِ الہٰی سے دھتکارا ہوا پایا اور احساس کیا کہ انسان اس بد بختی کا سبب بنا ہے تو کینہ کی آگ اس کے دل میں بھڑک اٹھی اور اس نے اولاد آدم سے انتقام لینے کی ٹھان لی حالانکہ اصلی مجرم وہ خود تھا نہ کہ آدم اور نہ فرمانِ خدا لیکن غرور اور خود خواہی نے جس میں اس کی ہٹ دھرمی بھی شامل تھی اس حقیقت کو سمجھنے کی اجازت نہ دی ۔لہٰذا اس نے عرض کیا پر وردگارا!: اب جب معاملہ ایسا ہے تو مجھے روز قیامت تک مہلت دے دے ۔(
قَالَ رَبِّ فَاٴَنْظِرْنِی إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ
)
۔
یہ تقاضااس لئے نہ تھا کہ وہ توبہ کرے ، اپنے کئے پر پشمان ہو یا تلافی کے در پے ہو بلکہ اس لئے تھا کہ اپنی ہٹ دھرمی ، عناد ، دشمنی اور خیرہ سری کو جاری رکھ سکے ۔ خدا نے اس کی خواہش کو قبول کرلیا اور فرمایا”یقینا تو مہلت یافتہ افراد میں سے ہے “(
قَالَ فَإِنَّکَ مِنْ الْمُنْظَرِینَ
)
۔لیکن روز قیامت مخلوق کے مبعوث ہونے تک کے لئے نہیں بلکہ جیسا کہ تو نے چاہا ہے بلکہ معین وقت اور زمانے کے لئے(
إِلَی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ
)
۔
اس بارے میں کہ ”یوم الوقت المعلوم “سے کونسادن مراد ہے مفسرین نے کئی ایک احتمالات ذکر کئے ہیں :
بعض نے کہا کہ اس سے مراد اس جہاں کا اختتام ہے اور ذمہ داری کے دو ر کا خاتمہ ہے کیونکہ قرآن کی آیات کے ظاہری مفہوم کے مطابق اس کے بعد تمام مخلوق نا بود ہو جائے گی اور صرف خدا کی ذات باقی رہ جا ئے گی ، لہٰذا ابلیس کی در خواست ایک حد تک قبول کی گئی ۔
بعض دوسرے مفسرین نے کہا ”وقت معلوم “ سے ایک معین زمانہ مراد ہے جسے خدا جانتا ہے او ر اس کے علاوہ کوئی اس سے آگاہ نہیں ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ اسے واضح کردیتا تو ابلیس کو گناہ و سر کشی کی زیادہ تشویق ہوتی ۔
بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا کہ اس سے مراد یوم قیامت ہے کیونکہ وہ اس دن تک زندہ رہنا چاہتا تھا تاکہ حیات جاوید پائے اور اس کی بات مان لی گئی خصوصاً جبکہ سورہ واقعہ کی آیہ ۵۰ میں ”یوم الوقت المعلوم “ کی تعبیر روز قیامت کے بارے میں بھی آئی ہے لیکن یہ احتمال بہت ہی بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو خدا نے اس کی درخواست کو مکمل طور پر موافقت کی ہوتی جبکہ مندرجہ بالا آیات کاظاہری مفہوم یہ ہے کہ اس کی درخواست کی پوری موافقت نہیں کی گئی ہے اور صرف” یوم وقت المعلوم “ تک در خواست مانی گئی ہے۔
بہر حال پہلی تفسیر آیت کی روح اور ظاہری مفہوم کے ساتھ زیادہ موافقت رکھتی ہے اور امام صادق علیہ السلام سے منقول بعض روایات میں بھی اس معنی کی تصریح کی گئی ہے ۔
اس مقام پر ابلیس نے اپنی باطنی نیت کو آشکار کر دیا ، اگر چہ خدا سے کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی تاہم وہ کہنے لگا :” پروردگار ا!اس بناء پر کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے ( اور اس انسان نے میری بدبختی کا سامان فراہم کیا ہے )میں زمین کی مادی نعمتوں کو ان کی نگاہ مین دلفریب بناؤں گا اور انسانو ان میں مشغول رکھو گا اور آخرکار سب کو گمراہ کر کے رہوں گا(
قَالَ رَبِّ بِمَا اٴَغْوَیْتَنِی لَاٴُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاٴَرْضِ وَلَاٴُغْوِیَنَّهُمْ اٴَجْمَعِینَ
)
۔
لیکن وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس کے وسوسے خدا کے مخلص بندو کے دل ہر گز اثر انداز نہیں ہوں گے او ا س کے جال انھیں نہیں پھانس سکیں گے ۔ خلاصہ یہ کہ خالص و مخلص بندے اس قدر طاقت ور ہیں کہ شیطانی زنجیریں توڑ ڈالیں گے ۔
لہٰذا فوراً اپنی بات میں استثناء کرتے ہوئے اس نے کہا :مگر تیرے وہ بندے جو خالص شدہ ہیں(
إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْهُمْ الْمُخْلَصِینَ
)
۔
وااضح رہے کہ خدا نے شیطان کو گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ ابلیس کی یہ بات شیطنت آمیز تھی ، اصطلاح کے مطابق اپنے آپ کو بری قرار دینے کے لئے اور گمراہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرنے کے لئے اس نے یہ بات کی تھی اور یہ سب ابلیسوں اور شیطانوں کی رسم ہے اولاًوہ اپنے گناہ دوسروں کے سر ڈال دیتے ہیں اور ثانیاًہر جگہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے برے اعمال کی غلط توجیہ پیش کریں نہ صرف بندگان خداکے سامنے بلکہ خود خدا کے سامنے بھی کہ جو ہر چیز سے آگاہ ہے ۔
ضمنا ً توجہ رہے کہ ”مخلصین “ ”مخلَص“(لام کی فتح کے ساتھ )جیسا کہ ہم سورہ کی تفسیرمیں بیان کر چکے ہیں کہ ”مخلص“ اس شخص کو کہتے جو ایمان و عمل کے اعلیٰ درجہ پرتعلیم و تربیت اور جہاد نفس کے بعد پہنچا ۔ جس پر شیطان اور کسی اور کے بھی وسوسوں کا کوئی اثر نہ ہو ۔
خدا نے شیطان کی تحقیر اور اور راہِ حق کے متلاشیوں اور طریق ِ توحید کے راہیوں کی تقویت کے لئے فرمایا:یہ میری مستقیم راہ ہے(
قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ
)
۔
تو میرے بندوں پر کوئی تسلط نہیں رکھتا مگر وہ کہ جو ذاتی طور پر تیری پیروی کریں(
إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْغَاوِینَ
)
۔
یعنی در حقیقت تو لوگو ں کو گمراہ نہیں کرسکتا بلکہ یہ تو منحرف انسان ہیں جو اپنے ارادے اور رغبت سے تیری دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور تیری نقش قدم ہر چلتے ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں یہ آیت انسانوں کے ارادے کی آزادی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ واضح کرتی ہے کہ ابلیس اور اس کا لشکر کسی کو زبر دستی برائی کی طرف کھینچ کر نہیں لے جاتا بلکہ یہ خود انسان ہی ہیں جو اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور اپنے دل کا دریچہ اس کے لئے کھولتے ہیں اور اسے مداخلت کی اجازت دیتے ہیں خلاصہ یہ کہ شیطانی وسوسے اگر چہ موثر ہیں لیکن آخری فیصلہ شیطان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خود انسان کے بس میں ہے کیونکہ انسان اس کے مقابلے کھڑاہو کر اسے ٹھکرا سکتا ہے ۔ درحقیقت خدا تعالیٰ شیطان کے دفاع سے یہ خیال باطل اور تصور خام نکال دینا چاہتا ہے کہ وہ بلامقابلہ انسان پر حکومت حاصل کرلے گا ۔
اس کے بعد شیطان کے پیروں کاروں کو نہایت صریح دھمکی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جہنم ان کے سب کی وعدہ گاہ ہے(
وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اٴَجْمَعِینَ
)
۔
یہ گمان نہ کریں کہ وہ سزا اور عذاب کے چنگل سے فرار کر سکیں گے یا معاملہ ان کے حساب و کتاب تک نہیں پہنچے گا ان سب کے حساب کتاب کی ایک ہی جگہ اور ایک ہی مقام پر دیکھ بھال کی جائے گی ۔
وہی دوزخ کے جس کے سات دروازے ہیں اور ہر در وازے کے لئے شیطان کے پیروکاروں کاایک گروہ تقسیم ہوا ہے(
لَهَا سَبْعَةُ اٴَبْوَابٍ لِکُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ
)
۔
یہ دحقیقت گناہوں کے دروازے ہیں جن کے ذریعے مختلف افراد دوزخ میں داخل ہوں گے ۔ ہر گروہ ایک گناہ کے ارتکاب کے ذریعے ایک در سے دوزخ میں جائے گا ۔جیسا کہ جنت کے دروازے اطاعتیں ، اعمال صالح اور مجاہدات ہیں کہ جن کے ذریعے لوگ بہشت میں داخل ہو ں گے ۔
____________________