تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24465
ڈاؤنلوڈ: 3537


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24465 / ڈاؤنلوڈ: 3537
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

چند اہم نکات

۱ ۔ بہشت کے باغ اور چشمے

ہمارے لئے کہ جو اس محدود دنیا میں ہیں نعمات ِ بہشت کو سمجھنا بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے ۔ کیونکہ اس جہاں کی نعمتیں ان نعمتوں کے مقابلے میں ایسے ہی ہیں جیسے تقریباً صفر کے مقابلے میں ایک بہت بڑا عدد۔ لیکن یہ امر اس مین رکاوٹ نہیں کہ اپنی فکر اور روح کے ذریعے انھیں محسوس کریں یہ بات مسلم ہے کہ بہشت کی نعمتیں بہت ہی متنوع ہیں ، لفظ ”جنات“ (باغات)جو مندر بالا اور دیگر بہت سے آیات میں آیا ہے ۔ اسی طرح لفطظ ” عیون “( چشمے) اس حقیقت کے گواہ ہیں ۔

البتہ قرآن میں ( سورہ دہر، الرحمن ، دخان اور محمد وغیرہ میں ) ان چشموں کی مختلف انواع کی طرف اشارہ ہوا ہے اور مختلف اشارات کے ذریعے ان کی تنوع کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ جو شاید اس جہاں کے طرح طرح کی نیک کاموں کے مجسم ہونے کی طرف اشارہ ہو ۔ انشاء اللہ ان سورتوں کی تفسیر میں ہم ان کا تفصیلی ذکر کریں گے۔

۲ ۔ مادی اور روحانی نعمتیں

برخلاف اس کے کے بعض لوگ خیال کر تے ہیں قرآن نے ہر جگہ لوگوں کو مادی نعمتوں کی طرف بشارت نہیں دی بلکہ بار گفتگو میں روحانی نعمتوں کا ذکر بھی آیاہے مندرجہ بالا آیات اس کا واضح نمونہ ہیں اس طرح سے فرشتے اہل بہشت کو اس عظیم مرکز نعمت میں خوش آمدیدکہتے ہوئے جو پہلی بشارت دیں گے وہ سلامتی اور امن کی بشارت ہے ۔

کینوں کا سینوں سے دھل جانا اور بری صفات مثلاً حسد، خیانت وغیرہ کہ جو روح اخوت کو ختم کر دیتی ہیں کا خاتمہ اور اسی طرح غلط قسم کی تکلفاتی امتیازات کہ جو فکر و روح کا سکون بر باد کردیتے ہیں کا خذف ہو جانا یہ سب ان کی معنوی و روحانی نعمتوں میں سے ہے کہ جن کی طرف مندر جہ بالا آیات میں اشارہ ہوا ہے ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ امن و سلامتی کہ جس کا ذکر نعمات بہشت کے آغاز میں ہوا ہے ہر دوسری نعمت کی بنیاد ہے کیونکہ ان دوکے بغیر کوئی نعمت قابل استفادہ نہیں ہے یہاں تک کہ اس دنیا میں بھی تمام نعمتوں کا نقطہ آغاز امن و سلامتی کی نعمت ہے ۔

۳ ۔ کینہ اور حسد اخوت کے دشمن ہیں

۳ ۔ کینہ اور حسد اخوت کے دشمن ہیں :یہ امر لائق توجہ ہے کہ امن و سلامتی کے ذکر کے بعد زیر نظر آیات میں نعمت اخوت کے ذکر سے پہلے تمام مزاحم صفات مثلاًکینہ ، حسد، ،غرور او ر خیانت کی ریشہ کسی کا ذکر ہوا ہے لفظ” غل “ جو وسیع مفہوم رکھتاہے اس کے ذریعے ان سب کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

درحقیقت اگر انسان کا دل اس ”غل“ سے پاک نہ ہو امن و سلامتی کی نعمت بھی حاصل نہ ہوگی اور نہ ہی اخوت برادرری کی نعمت بلکہ ہمیشہ جنگ و جدال اور کشمکش جاری رہے گی اور رشتہ اخوت منقطع ہو گا اور امن و سلامتی چھن جائے گی ۔

۴ ۔جزائے کامل

بعض مفسرین کے بقول جزاتب مکمل ہوتی ہے جب اس میں یہ چار شر طیں موجود ہوں :

۱ ۔ فائدہ دیکھائی دینے والا ہو ۔ ۲ ۔ احترام کے ساتھ ہو ۔ ۳ ۔ ہر قسم کی پریشانی سے خالی ہو ۔ ۴ ۔ دائمی ہو ۔

مندرجہ بالا آیات میں نعمات بہشت کے لئے ان چار پہلوؤں کی طرف اشارہ ہواہے۔

( ان المتقین فی جنات و عیون ) “ پہلی قسم کے لئے ہے ۔

( ادخلوها بسلام اٰمنین ) “ احترام و تعظیم کی دلیل ہے ۔

( و نزعنا ما فی صدور هم من غل اخواناًعلی سرر متقابلین )

ہرقسم کی پریشانی ،ناراضی اور روحانی تکلیف کی نفی کی طرف اشارہ ہے ۔

( لایمسهم فیها نصب ) “ جسمانی نقصان اور ضرر کی نفی کے متعلق ہے ۔

وماهم منها بمخرجین “ آخرین شرط پوری کرتا ہے یعنی ان نعمتوں کے لئے مدام ہے لہٰذا یہ جزا ہر لحاظ سے مکمل ہو گی ۔(۱)

۵ ۔آئیے اس دنیا میں تعمیر جنت کریں

مندر جہ بالاآیات میں جنت کی جن مادی اور معنوی صفات کی تصویر کشی کی گئی ہے اس جہان کی نعمتوں کے اہم اصول بھی یہی ہیں گویا قرآن ہمیں یہ نکتہ سمجھا نا چاہتا ہے کہ دنیاوی زندگی میں یہ نعمتیں فراہم کرکے تم بھی اس عظیم جنت کی ایک چھوٹی سی نظیر قائم کرسکتے ہو ۔

۔اگر سینوں کو کینوں اور عداوتوں سے پاک کرلو ۔

۔اگر اخوت برادری کے اصول کو تقویت دو ۔

۔ اگر غیر ضروری تکلفات و تشرفات کو اپنی زندگی سے خصوصاً اجتماعی زندگی سے دور کرلو ۔

۔اگر امن و سلامتی اپنے معاشرے کو لوٹا دو ۔

۔اگر تمام لوگوں کو یہ اطمینا ن دلایا جائے کہ کوئی شخص ان کی عزت و آبرو ، مقام و حیثیت اور جائز مفادات سے مزاحم نہیں ہو گا اور انھیں اپنی نعمات کے بقاء کا اطمینان ہوتو یہ دن ایسا دن ہوگا جب جنت کی نظیر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوگی ۔

____________________

۱۔ تفسیر کبیر ، فخرالدین رازی جلد ۱۹ صفحہ ۱۹۳۔

آیات ۵۱،۵۲،۵۳،۵۴،۵۵،۵۶،۵۷،۵۸،۵۹،۶۰

۵۱ ۔( وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ إِبْرَاهِیمَ ) ۔

۵۲ ۔ ا( ِٕذْ دَخَلُوا عَلَیْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ إِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُونَ ) ۔

۵۳ ۔( قَالُوا لاَتَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ عَلِیمٍ ) ۔

۵۴ ۔( قَالَ اٴَبَشَّرْتُمُونِی عَلَی اٴَنْ مَسَّنِی الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ ) ۔

۵۵ ۔( قَالُوا بَشَّرْنَاکَ بِالْحَقِّ فَلاَتَکُنْ مِنْ الْقَانِطِینَ ) ۔

۵۶ ۔( قَالَ وَمَنْ یَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّالُّون ) ۔

۵۷ ۔( قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اٴَیُّهَا الْمُرْسَلُونَ ) ۔

۵۸ ۔( قَالُوا إِنَّا اٴُرْسِلْنَا إِلَی قَوْمٍ مُجْرِمِینَ ) ۔

۵۹ ۔( إِلاَّ آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

۶۰ ۔( إِلاَّ امْرَاٴَتَهُ قَدَّرْنَا إِنَّهَا لَمِنْ الْغَابِرِینَ ) ۔

ترجمہ

۵۱ ۔اور انھیں (میرے بندوں کو)ابراہیم کے مہمانوں کی خبر دے ۔

۵۲ ۔جس وقت وہ اس کے پاس پہنچے اور سلام کیا ( تو ابراہیم نے ) کہا : ہم تم سے خوفزدہ ہیں ۔

۵۳ ۔انھوں نے کہا: ڈرو نہیں ،ہم تجھے ایک دانا اور عالم بیٹے کی بشارت دیتے ہیں ۔

۵۴ ۔انھوں نے کہا: کیامجھے بشارت دیتے حالانکہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں (توپھر)توپھر کس چیزکی بشارت دیتے ہو ۔

۵۵ ۔انھوں نے کہا : ہم سچی بشارت دیتے ہیں ، مایوس لوگوں میں سے نہ ہو ۔

۵۶ ۔اپنے پر وردگار کی رحمت سے گمراہوں کے علاوہ کون مایوس ہوتا ہے ۔

۵۷ ۔(پھر اس نے )کہا : اے فرستادگان الہٰی ! تم کس کام کے لئے مامور کیے گئے ہو ۔

۵۸ ۔وہ کہنے:ہماری ذمہ دار ی گنہ گار قوم سے ہے کہ انھیں ہلاک کریں ۔

۵۹ ۔سوالئے خاندان لوط کے کہ ان سب کو بچا لیں گے ۔

۶۰ ۔البتہ اس کی بیوی کو ہم نے طے کیا ہے کہ وہ ( شہر میں ) پیچھے رہ جانے والوں (اور ہلاک ہونے والوں ) میں سے ہو ۔

تفسیر

انجانے مہمان

ان آیات میں اور ان سے پہلی والی کچھ آیات میں عظیم انبیاء اور ان کے سر کش امتوں کی تاریخ کا ایک تربیتی حصہ ہے اس میں خدا کے مخلص بندوں اور شیطان کے پیروکاروں کی زندگی کے واضح نمونے ہیں ۔

یہ امر جاذب نظر ہے کہ بات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کے واقعہ سے شروع کی گئی ہے (وہی فرشتے کہ جو آپ کے پاس انسانی لباس میں آئے تھے پہلے انھوں نے آپ کو ایک ذی وقار بیٹے کی بشارت دی اور پھر قوم لوط کے دردناک انجام کی خبر دی) ۔

قبل کی دو آیتوں میں پیغمبر ِ اسلام کو حکم دیا کہ بندوں کو مقام رحمت خدا کے بارے میں بھی بتائیں اور اس کے درردناک عذاب کے بھی ۔ اب حضرت ابراہیم کے مہمانوں کے واقعے میں ان مذکورہ دو صفحات کے دو زندہ نمونے دکھائی دیتے ہیں اس طرح گذشتہ آیات اور ان آیا ت کے درمیان ربط واضح ہوجاتا ہے ۔

پہلے ارشادفرمایا گیا ہے : میرے بندوں کو ابرہیم (علیہ السلام) کے بارے میں خبر دو( وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ إِبْرَاهِیمَ ) ۔

اگر چہ ”ضیف“ یہاں مفرد کی صورت میں آیا ہے لیکن جیسا کہ بعض عظیم مفسرین نے کہا ہے ”ضیف“ مفرد اور جمع دونوں کے معنی رکھتا ہے (ایک مہمان اور کئی مہمان ) ۔

یہ بن بلائے مہمان وہی فرشتے تھے جنہوں نے ” ابراہیم کے پاس پہنچ کر پہلے انجانے طور پر اسے سلام کیا “( إِذْ دَخَلُوا عَلَیْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ) ۔

جیسا کہ ایک بزرگ میزبان کا فریضہ ہے ، ابراہیم نے ان کی پذیرائی کا اہتمام کیا فوراً ان کے لئے مناسب غذا فراہم کی لیکن جب دسترخوان بچھایا گیا تو انجانے مہمانوں نے غذا کی طرف ہاتھ نہ بڑھا یا ۔تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس پر وحشت ہوئی ۔

انھوں نے اپنی پریشانی چھپائی نہیں ۔ صراحت سے ان سے کہا : ہم تم سے خوف زدہ ہیں “( قَالَ إِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُونَ ) ۔(۱)

یہ خوف اس رواج کی بناء پر تھا کہ اس زمانے میں اور بعد میں بھی بلکہ ہمارے زمانے تک بعض قوموں کا معمول ہے کہ جب کوئی شخص کسی نان و نمک کھالیتا ہے تو اسے ضرر نہیں پہنچتا اور اپنے آپ کو اس ممنون ِ احسان سمجھتا ہے لہٰذا کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھانے کو برا سمجھتا ہے اور اسے کینہ و عدات کی دلیل شمار کیا جاتا ہے ۔

لیکن زیادہ دیر نہ گذری تھی کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پریشانی سے نکال دیا اور ” اس سے کہا : ڈرو نہیں ہم تجھے ایک عالم و دانا بیٹے کی بشارت دیتے ہیں “۔( قَالُوا لاَتَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ عَلِیمٍ ) ۔

یہ کہ غلام علیم ( صاحب علم لڑکے )سے کون مراد ہے ، قرآن کی دیگر آیات کو سامنے رکھتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد اسحاق ہیں کیونکہ فرشتوں نے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ بشارت دی تو ان کی بیوی سارہ جو ظاہراً ایک بانجھ عورت تھی انھوں نے اسے بھی یہ بشارت دی جیسا کہ سورہ ہود کی آیہ ۷۱ میں ہے ۔

وامراٴته قائمة فضحکت فبشرناها باسحاق

اس کی بیوی کھڑی تھی ، وہ ہنسی اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی ۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سارہ حضرت اسحاق کی والدہ تھیں ۔ قبل ایں حضرت ابراہیم حضرت ہاجرہ سے صاحب ِاولاد تھے ۔ حضرت اسماعیل ان کے فرزند تھے (حضرت ہاجرہ وہ کنیز تھیں جنھیں حضرت ابراہیم نے زوجیت کے لئے انتخاب کیا تھا )لیکن حضرت اسماعیل اچھی طرح جانتے تھے کہ طبیعی اصولوں کے لحاظ سے ان سے ایسے بیٹے کی پیدا ئش بہت بعید ہے اگر چہ خدا کی قدرت کاملہ کے لئے کوئی چیز محال نہیں ہے مگر انھوں نے معمول کے طبیعی قوانین کی طرف توجہ نے ان کے تعجب کو ابھاررا لہٰذا انھوں نے کہا مجھے ایسی بشارت دیتے ہوحالانکہ میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں ۔( قَالَ اٴَبَشَّرْتُمُونِی عَلَی اٴَنْ مَسَّنِی الْکِبَرُ ) ۔واقعاً کس چیز کی بشارت دیتے رہے ہو( فَبِمَ تُبَشِّرُونَ ) ۔

کیا تمہاری یہ بشارت حکمِ الہٰی سے ہے یا خود تمہاری طرف سے ہے صراحت سے کہو تاکہ مجھے زیادہ اطمینان ہو ۔

” مسنی الکبر“ ( مجھے بڑھاپے نے مس کیا ہے )یہ اس طرف اشارہ ہے کہ بڑھاپے کے آثار میرے سفید بالوں اور چہرے کی جھریوں سے نمایاں ہیں اور اس کے آثار میں اپنے سارے وجود میں محسوس کرتا ہوں ۔

ممکن ہے کہ کہا جائے کہ اس لحاظ سے ابراہیم ایک اچھے تجربے سے گذرے تھے کہ بڑھاپے میں ہی ان کے بیٹے اسماعیل پید ا ہوئے تھے لہٰذا نئے بیٹے یعنی حضرت اسحاق کی پیدا ئش کی بارے میں انھیں تعجب نہیں کرنا چاہئیے تھا لیکن معلوم ہو ناچاہیئے ، کہ بعض مفسرین کے بقول حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق کی پیدا ئش میں دس سال سے زیادہ فاصلہ تھا لہٰذا بڑھاپے میں دس سال گذرجائیں تو بچے کی پیدا کا احتمال بہت کم ہوتا ہے ۔

ثانیاً اگر کوئی واقعہ خلاف معمول ہو اگر چہ استثنائی طور پر ہو ۔ اس سے مشابہ مواقع پر تعجب کرنے سے مانع نہیں ہے کیونکہ ایسے سن و سال میں بچے کی پیدائش بہر حال ایک امر عجیب ہے ۔۲

بہر حال فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو تردد یا زیادہ تعجب کا موقع نہ دیا ۔ اور ان سے صراحت و قاطعیت سے کہا ہم تجھے حق کے ساتھ بشارت دے رہے ہیں( قَالُوا بَشَّرْنَاکَ بِالْحَقّ ) ۔وہ بشارت کہ جو خدا کی طرف سے ہے اور اس کے حکم سے ہے ۔ اسی بناء پر یہ حق ہے او ر مسلم ہے ۔

اس کے بعد اس لئے کہ مبادا ابراہیم مایوس و ناامید ہوں تاکید کے طورپر کہنے لگے : اب جبکہ ایسا ہے تو مایوس ہونے والوں میں سے نہ ہو( فَلاَتَکُنْ مِنْ الْقَانِطِینَ ) ۔

لیکن ابراہیم (علیہ السلام) نے فوراً ان کے اس خیال کو دور کردیا کہ ان پر مایوسی اور رحمت ِ خدا سے ناامیدی کا غلبہ نہیں ہے اور واضح کیا کہ یہ تو صرف طبیعی معمولات کے حوالے سے تعجب ہے ، لہٰذاا صراحت سے کہا : گمراہوں کے سوا اپنے پر وردگار کی رحمت سے کون مایوس ہو گا( قَالَ وَمَنْ یَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّالُّون ) ۔

وہی گمراہ کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح نہیں پہچانا اور اس کی بے پایاں قدرت پر ان کی نگاہ نہیں کی ۔ وہ خدا کہ جو مشت خاک سے ایسا عجیب و غریب انسان پیدا کرتا ہے اور ناچیز نطفہ سے ایک بچہ وجود میں لاتا ہے خرما کا خشک درخت جس کے حکم سے پھل سے لدجاتا ہے اور جلانے والی آگ جس کے حکم سے گلزار ہو جاتی ہے کون شخص ایسے پر وردگار کی قدرت میں شک کرے یا اس کی رحمت سے مایوس ہو ۔

بہر حال یہ بشا رت سننے کے ابراہیم (علیہ السلام) اس خیال میں پڑ گئے کہ ان خاص حالات میں یہ فرشتے انھیں صرف بیٹے کی بشارت دینے نہیں آئے ، یقینا یہ کسی نہایت اہم کام پر مامور ہیں اور یہ بشارت تو ان کی ماموریت کا ایک پہلو ہے لہٰذا ان سے پوچھنے لگے : اے فرستادگان الٰہی ! بتاؤ کہ تم کس اہم ذمہ داری کے لئے بھیجے گئے ہو؟( قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اٴَیُّهَا الْمُرْسَلُونَ ) ۔

انھوں نے کہا: ہم ایک گنہ گار قوم کے لئے بھیجے گئے ہیں( قَالُوا إِنَّا اٴُرْسِلْنَا إِلَی قَوْمٍ مُجْرِمِینَ ) ۔

چونکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جستجو اور تحقیق کے بارے میں اپنی خو کی وجہ سے وہ بھی خصوصاً ایسے مسائل میں اتنے جواب پر بس نہیں کریں گے ۔ لہٰذا انھوں نے فوراً مزید فرمایا : یہ مجرم قوم لوط کے سوا کوئی اور نہیں ہے ہم مامور ہیں کہ اس بے شرم آلودہ قوم کو نیست و نابود کردیں ، سوائے خاندان لوط کے کہ جسے ہلاکت سے بچا لیں گے( إِلاَّ آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

لیکن ”اجمعین“ کی تاکید کے ساتھ ”آل لوط“ کی تعبیر تمام گھر والوں کے بارے میں تھی یہاں تک کہ ان کی بیوی کہ جو مشرکین کی ہم کار تھی اور شاید ابراہیم (علیہ السلام) بھی اس ماجرے سے آگاہ تھے لہٰذا انھوں نے بلافاصلہ استثناء کرتے ہوئے کہا : سوائے اسکی بیوی کے کہ ہم نے طے کیا ہے کہ وہ شہر میں رہ جانے والوں کے ساتھ فنا سے دو چار ہو گی اور نجات حاصل نہ کر سکے گی ۔

( إِلاَّ امْرَاٴَتَهُ قَدَّرْنَا إِنَّهَا لَمِنْ الْغَابِرِینَ ) ۔

”قدرنا“ اور ہم نے مقدر کیا)، یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ ہم اس سلسلے میں خدا کی طرف سے ماموریت رکھتے ہیں ۔

فرشتوں کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام)کا ملاقات کرنا انھیں ولادت اسحاق کی خوشخبری دینا اور اس طرح اس قوم لوط کے بارے میں گفتگو کرنا ان سب امور پر ہم سورہ ہود کی آیات ۶۹ تا ۷۶ کے ذیل میں تفصیل سے بحث کر چکے ہیں ۔(۳)

____________________

۱۔اگر چہ مندر بالاآیات میں اس بات کی طرف اشارہ نہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پذیرائی کی اور مہمانوں نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایالیکن جیسا کہ سورہ ہود کی آیہ ۶۹ اور ۷۰ میں ہم پڑھ چکے ہیں یہی تھا ( تفسیر نمونہ جلد ۹ میں مذکورہ آیات کی تفسیر ملاحظہ کیجئے )

۲۔بعض مفسرین نے کہا ہے کہ پہلے بیٹے اسماعیل کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۹۹ سال تھی اور اسحاق کی ولادت کے وقت ۱۱۲ سال تھے۔س

۳۔تفسیر نمونہ جلد نہم میں ملاحظہ فرمائیے ۔