تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24466
ڈاؤنلوڈ: 3537


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24466 / ڈاؤنلوڈ: 3537
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

اصحاب ایکہ کون ہیں ؟

بہت سے مفسرین اور ارباب لغت کہتے ہیں کہ ” ایکہ “ کا معنی ہے باہم جڑے ہوئے درخت یا جنگل اور ”اصحابالایکہ“ وہی قوم شعیب ہے جو حجاز و شام کے درمیان سر سبز و شاداب زمین پر آباد تھی ۔

ان کی زندگی بہت خوشحال تھی ان کے پاس فراوان دولت تھی اسی لئے انھیں غفلت و غرور نے گھیر لیا ، خاص طور پر و ہ کم فروشی اور فتنہ و فساد میں مبتلا ہو گئے ، حضرت شعیب علیہ السلام جیسے عظیم پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا اور توحید و راہ حق کی دعوت دی لیکن جیسا کہ ہم نے سورہ ہود کی آیات میں دیکھا ہے انھوں نے حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور آخر کار دردناک عذاب کے ذریعہ نیست و نابود ہو گئے کئی روز تک وہ نہایت سخت گرمی کا شکار رہے ، آخری روزبادلوں کے جھنڈ کے جھنڈ آسمان پر چھا گئے اور انھوں نے بادل کے سائے میں پناہ لی لیکن ایک زبر دست بجلی زمین پر ٹوٹ پڑی اور ظالموں کو نیست و نابود کرگئی ۔

شاید قرآن نے ”اصحاب الایکہ “ ( درختوں سے بھری ہوئی زمین والے ) اس لئے کہا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ یہ سب نعمتیں ہم نے انھیں بخشی تھیں ۔ اس کے باوجود انھوں نے شکران ِ نعمت کے بجائے کفران ِ نعمت کیا اور ظلم و ستم کی بنیادرکھی اور صاعقہ نے انھیں اور ان کے درختوں کو ختم کردیا ۔

ان کے حالات کی مزید تفصیل سورہ شعراء کی آیہ ۱۷۶ تا ۱۹۰ کے ذیل میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے حوالے سے آئے گی ۔

ضمناً توجہ رہے کہ ہوسکتا ہے ”فانتقمنامنهم “ ( ہم نے انھیں سزا دی ) قوم لوط اور ”اصحاب الایکه “ دونوں کی طرف اشارہ ہو کیونکہ اس جملے کے بعد فوراً یہ عبارت آئی ہے ۔”و انهما لبامام مبین

ان دونوں کا علاوہ تمہارے سامنے آشکار ہے ۔

و انهما لبامام مبین “کی یہی تفسیر مشہور ہے کہ یہ شہر لوط اور اصحاب الایکہ کے شہر کی طرف اشارہ ہے ”امام“”راستہ“ اور” جادہ“ کے معنی میں ہے ۔( کیونکہ یہ مادہ ”ام “ سے لیا گیا ہے جو قصد کر نے کے معنی میں ہے اور کیونکہ انسان مقصدتک پہنچنے کے لئے راستوں سے گذرتا ہے ) ۔

بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ”امام مبین “ سے مراد لوح محفوظ ہے اس کے لئے انھوں نے سور ہ یٰس کی آیہ ۱۲ کو قرینہ کے طور پر پیش کیا ہے لیکن یہ احتمال بہت ہی بعید ہے کیونکہ قرآن چاہتا ہے کہ لوگوں کو درسِ عبرت دے اور یہ دونوں نام لوح ِ محفوظ میں ہوں تو لوگ ان سے اثر لے سکتے ہیں ۔

جبکہ یہ شہر قافلوں اور پاس سے گذرنے والے مسافروں کے راستے میں ہوں تو ان پر گہرا اثر مرتب کرسکتے ہیں وہ ایک لمحہ کے لئے وہاں رک جائیں ،غور و فکر کریں ان کا عبرت میں دل اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس آفت زدہ زمین کو آئینہ عبرت سمجھے کبھی قوم لوط کی سرمین کے پاس اور کبھی اصحاب ایکہ کے علاقے کے نزدیک اور آخر ان کے انجام پر آنکھیں سے سیلاب ِاشک بہائیں ۔

رہے ”اصحاب الحجر“ تو یہ وہی سر کش قوم ہے کہ جو حجر نامی علاقے میں رہتی تھی ، بہت خوش حال تھی ۔ ان کے عظیم پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام ان کے ہدیت کے لئے مبعوث ہوئے ۔ ان کے بارے میں قرآن کہتا ہے : اصحاب حجر نے خدا کے بھیجے ہوؤں کی تکذیب کی( وَلَقَدْ کَذَّبَ اٴَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِینَ ) ۔

اس کے بارے میں یہ شہر کہاں واقع ہے ، بعض مفسرین اور مورخین نے لکھا ہے کہ یہ شہر مدینہ اور شام کے درمیان قافلوں کی راہ میں ” وادی القریٰ“ میں ” تیمہ“ کے جنوب میں پڑتا تھا ، اور تقریبا ً اس کا کوئی اثر نشان باقی نہیں ہے ۔

کہتے ہیں کہ یہ شہر گزشتہ زمانے میں عربوں کے تجارتی شہروں میں سے تھا یہ شہر اتنا اہم تھا کہ بطلمیوس نے تجارتی شہروں میں لکھا ہے اور روم کے معروف جغرافیہ دان پلین نے اس کا نام ”حجری“ لکھا ہے ۔

ایک روایت میں ہے کہ ہجرت کے نویں سال جب رسول ﷺ نے لشکر روم کے مقابلے کے لئے تبوک کی طرف لشکر کشی کی تو مجاہد اسلام اس مقام پر ٹھہر نا چاہتے تھے ،پیغمبر اکرم ﷺ نے منع کیا اور فرما یا:

یہ وہی قوم ثمود کا علاقہ ہے جس پر عذاب الہٰی نازل ہوا تھا ۔(۱)

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن اصحاب الحجر کے بارے میں ( اور اسی طرح قوم ِ نوح ،قوم ِ شعیب اور قوم ِ لوط کے بارے میں شورہ شعراء کی آیات ۱۰۵ ، ۱۲۳ ، اور ، ۱۶۰ میں بالترتیب اور دیگرگزشتہ قوموں کے بارے میں ) کہتا ہے کہ انھوں نے ” پیغمبروں کی تکذیب کی “ حالانکہ ظاہراً ان کے پاس ایک سے زیادہ پیغمبر نہیں آئے او ر انھوں نے صرف اسی کی تکذیب کی تھی ۔

یہ تعبیر شاید اس بناء پر ہو کہ انبیاء کا پرگرام اورہدف اس طرح سے ایک دوسرے سے پیوستہ تھا کہ ان میں سے ایک کی تکذیب ان سب کی تکذیب تھی ۔

بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ان قوموں کے کئی پیغمبر تھے جن میں سے ایک زیادہ معروف تھا لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔

بہر حال قرآن اصحاب الحجر کے بارے میں اپنی گفتگوجاری رکھتے ہوئے کہتا ہے : ہم نے ان کے لئے اپنی آیات بھیجیں لیکن انھوں نے روگردانی کی( وَآتَیْنَاهُمْ آیَاتِنَا فَکَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِینَ ) ۔

لفظ”اعراض“ ( منھ پھیر نا)نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ان آیات کو سننے یا ان پر نگاہ ڈالنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے۔

جبکہ اس کے برعکس اپنی دنیاوی زندگی کے کاموں میں اس قدر سخت گوش تھے ” اپنے لئے پہاڑوں میں امن کے گھر تراشتے تھے “( وَکَانُوا یَنْحِتُونَ مِنْ الْجِبَالِ بُیُوتًا آمِنِینَ ) ۔

یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ ان کا علاقہ کوہستانی تھا نیز یہ کہ ان کامادی تمدن ترقی یافتہ تھا جبھی تو وہ پہاڑو میں اپنے لئے امن کے گھر تراشتے تھے کہ جو طوفانوں ،سیلابوں بلکہ زلزلوں تک کا مقابلہ کر سکتے تھے ۔

عجیب بات یہ ہے کہ انسان دنیا کی چند روزہ زندگی کے لئے اتنے محکم کام کرتا ہے لیکن اپنی ابدی زندگی کے بارے میں اس قدر تساہل سے کام لیتا ہے کہ خدا کی بات سننے اور اس کی آیات پر نظر ڈالنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا ۔

تواب ایسی قوم کے بارے میں کیا توقع کی جا سکتی ہے سوائے اس کے کہ ان کے لئے ”انتخاب “ اصلح الہٰی “کا قانون حرکت میں آئے اور ایسی قوموں کو جو پوری طرح فاسد و مفسد ہو چکی ہیں انھیں جینے کا حق نہ دیا جائے اور تباہ کن عذاب کے ذریعے انھیں نابود کردیا جائے۔

اسی لئے قرآن کہتا ہے :آخر کار آسمانی چیخ نے دم ِصبح انھیں آلیا( فَاٴَخَذَتْهُمْ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِینَ ) ۔

یہ چیخ بجلی کی ہولناک آواز تھی جو ان کے گھروں میں آگری یہ اس قدر تباہ کن اور وحشت ناک تھی کہ اس نے ان کے بے جان جسموں کو زمین پر پھینک دیا اس بات کی شاہد سورہ حم سجدہ کی آیہ ۱۳ ہے ۔

فاعرضوا فقل انذرتکم صاعقة مثل عاد و ثمود

یہ کفارمنھ پھیریں تو کہہ دو کہ میں تمہیں ایسی بجلی گرنے سے ڈرتا ہوں بجلی قوم عاد و ثمود پر گری ۔

ان کے فلک بوس پہاڑ ، امن و امان کے گھر ، اس سر کش قوم کے طاقتور جسم اور ان کی بہت زیادہ دولت و ثروت کوئی چیز بھی عذاب الہٰی کے سامنے ٹھہر نہ سکی ۔ لہٰذا ان کی داستان کے آخر میں فرمایا گیا ہے : جو کچھ ان کے ہاتھ میں تھا وہ انھیں عذاب ِ الہٰی سے بچا نہ سکا( فَمَا اٴَغْنَی عَنْهُمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔

سورہ شعراء میں آیہ ۱۴۱ تا ۱۵۸ میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں جو انشاء اللہ ان آیات کی تفسیر میں آئیں گے ۔

____________________

۱۔اعلام القرآن خزائلی ص۲۹۲۔

آیات ۸۵،۸۶،۸۷،۸۸،۸۹،۹۰،۹۱،

۸۵ ۔( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِیَةٌ فَاصْفَحْ الصَّفْحَ الْجَمِیلَ ) ۔

۸۶ ۔( إِنَّ رَبَّک هُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِیمُ ) ۔

۸۷ ۔( وَلَقَدْ آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ ) ۔

۸۸ ۔( لاَتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِهِ اٴَزْوَاجًا مِنْهُمْ وَلاَتَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِینَ ) ۔

۸۹ ۔( وَقُلْ إِنِّی اٴَنَا النَّذِیرُ الْمُبِینُ ) ۔

۹۰ ۔( کَمَا اٴَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِینَ ) ۔

۹۱ ۔( الَّذِینَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِینَ ) ۔

ترجمہ

۸۵ ۔ جوکچھ آسمانوں اورزمین میں ہے اورجو کچھ ان کے درمیان ہے اسے ہم نے بغیر حق کے پیدا نہیں کیا اوروعدہ کی گھڑی ( قیامت ) یقینا آکے رہے گی ان دشمنوں سے اچھی طرح صرفِ نظر کر( اور انھیں ان کی نادانیوں پر ملامت نہ کر) ۔

۸۶ ۔ تیرا پروردگار پیدا کرنے والا آگاہ ہے ۔

۸۷ ۔ ہم نے تجھے سورہ حمد اور قرآن عظیم دیا ہے ۔

۸۸ ۔ ( لہٰذا )ان ( کفار) میں سے کچھ گروہوں کو جو ( مادی ) نعمتیں دی ہیں ان پر ہر گز نگاہ نہ ڈال اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس پر غمگین نہ ہو اور اپنے پرو بال مومنین کے لئے جھا دے۔

۸۹ ۔اورکہہ دوے کہ میں واضح ڈرانے والاہوں ۔

۹۰ ۔( ہم ان پر عذاب نازل کریں گے ) جیسے ہم نے ( آیات الہٰی کو ) تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا ہے ۔

۹۱ ۔ وہی لوگ جنہوں نے قرآن کو تقسیم کردیا ہے ( جو کچھ ان کے مفاد میں تھا قبول کرلیا ہے اور جو کچھ ان کی ہواو ہوس کے خلاف تھا اسے ترک کردیاہے) ۔

تفسیر

تقسیم او ر نکتہ چینی کرنے والے:

انسان ہمیشہ سے ایک صحیح آئیڈیا لوجی اور عقیدہ نہ ہو نے کی مصیبت میں گرفتار رہا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں وہ مبداء و معاد کے نظریے کاپابند نہیں رہا ، قوم لوط ، قوم شعیب اور قوم ِ صالح جیسی قومیں کہ جو اس ابتلاء میں گرفتار تھیں کے حالات تفصیل سے بیان کرنے کے بعد اب قرآن مسئلہ توحید اور معاد کی طرف لوٹتا ہے اور ایک ہی آیت میں ان دونوں امور کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے ہم نے بغیر حق کے پیدا نہیں کیا( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ ) ۔ان پر جو نظام حاکم ہے وہ بھی حق ہے اور ان کا مقصد تخلیق بھی حق ہے لہٰذا یہ عجیب و غریب نظم و نسق اور دقیق و منظم آفرینش دانا و توانا خالق پر واضح دلیل ہے کہ وہ بھی حق ہے بلکہ حقیقت ِ حق وہی ہے اور ہر حق اسی وقت تک حق ہے جب تک اس کے وجود ِ بے پایاں کےسا تھ ہم آہنگ ہے اور جو کچھ اس کے سوا ہے اور اسے تعلق نہیں رکھتا وہ باطل و فضول ہے ۔

یہ توحیدکے بارے میں تھا ۔ اس کے بعد معاد اور قیامت کے بارے میں فرمایا گیاہے ۔وعدہ کی گھڑی ( قیامت)آخر کار آکے رہے گی( وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِیَةٌ ) ۔اگر چہ دیر سے آئے ، آخر کار ضرور آئے گی ۔

بعید نہیں کے پہلا جملہ دوسرے جملے کی دلیل کے طورپر ہو کیونکہ یہ وسیع و عریض جہان تبھی حق ہو گا جب صرف یہ چند روزہ دکھ درد سے بھری ہو ئی زندگی کے لئے نہ پیدا کیا گیا ہو بلکہ اس کے لئے کوئی ایسا نہایت اعلیٰ ہدف پیش نظر ہو جو اس عظیم آفرینش کی توجیہ کرسکے ۔ لہٰذا آسمان و زمین اور عالم ہستی کا حق ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ آگے قیامت اور معاد موجود ہے ورنہ آفرینش و خلقت فضول تھی ( غور کیجئے گا) ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ ان کی ہٹ دھرمیوں نادانیوں ، تعصب ، کارشکنیوں اور سخت سے سخت مخالفوں کے باوجود ملائمت اور محبت کا مظاہرہ کرو”اور ان کے گنا ہوں سے صرف نظر کرواور انھیں بخش دو ،خوبصورتی کے ساتھ جس بخشش میں ملامت تک نہ ہو( فَاصْفَحْ الصَّفْحَ الْجَمِیلَ ) ۔کیونکہ لوگوں کے دلوں میں مبداء اور معاد کا عقیدہ راسخ کرنے کی دعوت کے لئے تمہارے پاس واضح دلیل موجود ہے لہٰذا تمہیں سختی اور خشونت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ منطق و عقل تمہارے پاس ہے علاوہ ازیں جاہلوں کے ساتھ سختی سے تعصب ہی میں اضافہ ہوتا ہے ۔

”صفح“ ہر چیز کے چہرے کوکہتے ہیں مثلاًصفحہ صورت(۱)

اسی لئے ”فاصفح“ منھ پھیر نے اور صرف نظر کرنے کے معنی میں آیا ہے اور کسی سے منھ پھیر نا چونکہ بعض اوقات بے اعتبائی ، اظہار ناراضگی وغیرہ کے لئے ہوتا ہے اور بعض اوقات بزر گانہ عفو و در گذر کے لئے اس لئے زیر بحث آیت میں فوراً اسے لفظ ”جمیل“ کے ساتھ موصوف کیا گیا ہے تاکہ دوسرا معنی دے سکے

امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں فرمایا:

العفو من غیر عتاب

اس سے مراد مواخذہ اور سر زنش کے بغیر عفو و در گذر ہے ۔(۲)

ایسی ہی ایک حدیث امام زین العابدین علیہ السلام سے بھی نقل ہو ئی ہے ۔(۳)

اگلی آیت ،جیسا کہ آپ مفسرین نے لکھا ہے در حقیقت در گذراور ” صفح“ ۔جمیل“ کے لئے ضروری ہونے کی دلیل کے طور پر ہے ارشاد ہوتا ہے : تیرا پروردگار پیدا کرنے والا اورآگاہ ہے ۔( إِنَّ رَبَّک هُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِیمُ ) ۔

وہ جانتا ہے کہ تمام لوگ ایک جیسے نہیں ہیں وہ ان کے اندر ونی اسرار، میلانات ، سطح فکر اور مختلف قسم کے احساسات و جذبات سے باخبر ہے ان سب سے یہ توقع نہ رکھو کہ وہ ایک جیسے ہوں بلکہ ان سے عفو و درگذر سے جذبے سے پیش آؤ تاکہ تدریجا ً ان کی تربیت ہو اور وہ راہ حق کی طرف آئیں ۔

البتہ اس گفتگو کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ اپنے طرز عمل اور اعمال میں مجبور ہیں بلکہ یہ صرف ایک تربیتی قانون کی طرف اشارہ ہے اور یہ فکر و نظر اور صلاحتوں میں اختلاف کی نشان دہی کی گئی ہے ۔

اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بعض کا یہ خیال ہے کہ حکم رسول اللہ کی مکی زندگی سے مخصوص ہے اور آ پ کی مدینہ ہجرت کے بعد جب مسلمان کچھ طاقتور ہو گئے تو اس کی جگہ جہاد کے حکم نے لے لی لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ حکم مدنی سورتوں میں بھی آیا ہے ( مثلاً سورہ بقرہ ، سورہ نور، سورہ تغابن اور سورہ مائدہ کہ جن میں سے بعض میں رسول اللہ کو صفح و عفو کا حکم دیا گیا ہے اور بعض میں مومنین کو)واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک عمومی اور ابدی حکم ہے اور اتفاقاً یہ حکم جہاد کے حکم کے منافی نہیں کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے ایک مقام پر عفو در گذر کے ذریعے آگے بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں عفو و درگذر سے دوسرے کی جرات و جسارت اور بڑھ جائے اور وہ اس سے سوء استفادہ کرے تو وہاں شدت عمل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔

اس کے بعدرسول اللہ کی دلجوئی کی گئی ہے اور انھیں تسلی دی گئی ہے کہ دشمنوں کی سختی ، کثرت اور فراوان مادی وسائل سے ہرگز پریشان نہ ہوں ، کیونکہ خدا نے خود پیغمبر پر وہ انعامات کئے ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتی ، فرمایا گیا ہے : ہم نے تجھے سورہ حمد اور عظیم قرآن دیا ہے( وَلَقَدْ آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ ) ۔

ہم جانتے ہیں کہ ” سبع“کا معنی لغت میں ”سات“ ہے اور”متعدد“” دو دو“ کوکہتے ہیں بہت سے مفسرین نے اور روایات میں ” سبع من المثانی“ کو سورہ حمد کے لئے کنایہ مراد لیا ہے کیونکہ مشہور قوم کے مطابق سورہ حمد سات آیات پر مشتمل ہے اور اس لئے کہ اس کی اہمیت اور اس کے مضامین کو عظمت بہت زیادہ ہے یہ دو مرتبہ رسول اللہ پر نازل ہوئی یا یہ کہ یہ دو حصوں پر مشتمل ہے آدھا خدا کی حمد و ثنا اور آدھا حصہ بندوں کی طرف سے تقاضا و التجا ء ہے یا یہ کہ یہ ہر نماز میں دو مرتبہ پڑ ھی جاتی ہے ان پہلوؤں کے پیش نظر اس پر لفظ ”مثانی “ یعنی کئی دو دو کا اطلاق ہوا ہے(۴)

بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ”سبع“ قرآن کی ابتدائی بڑی سات سورتوں کی طرف اشارہ ہے اور مثانی خود قرآن کی طرف اشارہ ہے کیونکہ قرآن رسول اللہ پر دو مرتبہ نازل ہوا ایک مربتہ سارے کا سارا اکھٹا اور ایک مرتبہ تدیرجا ًضرورت کے ماتحت مختلف اوقات میں ، اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا : پورے قرآن کی سات اہم سورتیں ہیں ۔

ان مفسرین نے سورہ زمر کی آیہ ۲۳ کو بھی اس مفہوم کے لئے شاہد قرار دیا ہے ار شاد خدا وندی ہے :۔

( الله نزل احسن الحدیث کتاباًمتشابها مثانی )

خد اوہی ہے جس نے بہترین حدیث کو نازل فرمایا کہ جس کے مضامین و مفاہیم ہم آہنگ اور ایک دوسرے سے مشابہ ہیں وہ کتاب کہ جو دو مرتبہ نازل ہوئی ۔

لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے خصوصاً ان بہت سے روایات کی بناپر جو اہل بیت سے نقل ہوئی ہیں جن میں اس کا مطلب سورہ حمد بتایا گیاہے ۔

مفردات میں راغب میں لفظ ” مثانی “ قرآن کا پہلا اطلاق اس لحاظ سے صحیح جاناکہ اس کی آیات بار بار پڑھی جاتی ہیں اور یہی تجوید و تکرار قرآن کو حوادث سے محفوظ رکھتا ہے ۔

علاوہ ازیں ہر زمانے میں حقیقت ِقرآن کا نیا تکرار اور نئی تجلی سامنے آتی ہے جس کا تقاضا ہے کہ اسے مثانی کہا جائے ۔

بہر حال سورہ حمد کے بعد قرآن عظیم کا ذکر جب کہ سورہ حمد بھی اس کا جزو ہے اس سورہ کی اہمیت و عظمت کی دلیل ہے کیونکہ اکثر ہوتا ہے کہ کسی چیز کے ایک حصے کا ذکر اس کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کی وجہ سے کیا جاتا ہے ایسا عربی ،فارسی اور دیگر زبانوں میں بہت ہے ۔

خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے یہ حقیقت بیان کرتا ہے تو ایسے عظیم سرمایہ کا حامل ہے قرآن جیسا سرمایہ جو تمام عالم ہستی کی عظمت رکھتا ہے وہ سرمایہ جو سراسر نور ، برکت ، درس اور لائحہ عمل ہے راہیں کھولنے والا ہے ۔ خصوصاً سورہ حمد کہ جس کا مفہوم اور مضموم اس قدر بلند ہے کہ لحظہ بھر میں انسان کا رشتہ خدا سے جوڑ دیتا ہے اور اس کی روح کو خدا کے آستانہ پر تعظیم و تسلیم اور رازو نیاز کے لئے ایستادہ کردیتا ہے ۔

اس عظیم نعمت کا تذکرہ کرنے کے بعد پیغمبر اکرم کو چار حکم دئے گئے ہیں ۔ پہلے فرمایا گیا ہے : یہ مادی نعمتیں جو ہم نے کافروں دی ہیں ان پر ہر گز نگاہ نہ ڈالنا( لاَتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِهِ اٴَزْوَاجًا مِنْهُمْ ) (۵)

یہ مادی نعمتیں پایہ دار نہیں ہوتی ہیں اور پھر درد سر بھی ہیں یہاں تک کہ اچھے حالات میں بھی انسان کے لئے ان کی حفاظت مشکل ہو جاتی ہے لہٰذا یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو تیری آنکھوں کو متوجہ کرے ۔ان کے مقابلے میں عظیم روحانی نعمت قرآن جو خدا نے تجھے دی ہے وہ بہت اہم ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : یہ مال و ثروت اور مادی نعمتیں ان کے ہاتھ میں ہیں اس پر ہر گز غمگین نہ ہو( وَلاَتَحْزَنْ عَلَیْهِمْ ) ۔

درحقیقت پہلا حکم مادی نعمتوں کی طرف آنکھ نہ اٹھانے کے لئے ہے اور دوسرا ان سے محرومی پر غم نہ کھانے کے لئے ہے ۔

( ولاتحزن علیهم ) “ کی تفسیرکے بارے میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے :

اگر وہ تجھ پر ایمان نہیں لاتے تو غم نہ کھاؤں کیونکہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

لیکن اگر پہلی تفسیر قبل کے جملوں کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔

بہر حال سوہ طٰہٰ آیہ ۱۳۱ میں اس کی واضح نظیر موجود ہے ۔

( لاتمدن عینیک الیٰ ما متعنا به ازواجاًمنهم زهرة الحیٰوة الدنیا لنفتنهم فیه و رزق فیه و رزق بک خیر و ابقیٰ )

ان میں سے بعض کو نعمتیں دی ہیں ان پر نظر نہ ڈال یہ دنیاوی زندگی کے پھول ہیں ( ناپائیدار پھول ،جو بہت جلد مر جھاکر بکھر جائیں گے ) لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ انھیں اس کے ذریعہ آزمائیں ۔ خدا نے جو تجھے روزی دی ہے وہ تیرے لئے بہتر او ر زیادہ پائیدار ہے ۔

، تیسرا حکم تواضع ، فروتنی اور مومنین سے نرمی کر نے کے بارے میں ہے فرمایا گیا ہے :اپنے بال و پر مومنین کے لئے پھیلادے اور نیچے جھکالے( وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِینَ ) ۔

یہ تعبیر تواضع اور محبت کے لئے خوبصورت ہے جیسے پرندے اپنے بچوں سے اظہار محبت کرتے ہیں انھیں اپنے پروبال کے نیچے چھپا لیتے ہیں یہ انتہائی محبت کا منظر ہوتا ہے اس طرح وہ دشمنوں سے انھیں بچا لیتے ہیں اور بکھر جانے سے روکتے ہیں در اصل کنایہ کی صورت میں یہ جچی تلی مختصر تعبیر بہت سے مطالب کی حامل ہے ۔

ضمناً مذکورہ احکام کے بعد یہ جملہ ممکن ہے اس طرف اشار ہ ہو کہ مبادا مادی نعمتوں کے حامل ہونے کی وجہ سے کافروں سے انکساری کرو یہ انکساری اور محبت مومنین کے لئے ہونا چاہئیے اگر چہ مال دنیا دے ان کا ہاتھ خالی ہو ۔

آخر میں پیغمبر اکرم کو چوتھا حکم دیتے ہوئے فرمایاگیا ہے :ان بے ایمان دولت مندوں کے مقابلے میں مضبوطی سے کھڑے ہوجاؤاور انھیں کھلے بندوں کہہ دو کہ میں واضح ڈرانے والاہوں( وَقُلْ إِنِّی اٴَنَا النَّذِیرُ الْمُبِینُ ) ۔

کہہ دو کہ میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ خدا نے فرمایا ہے کہ میں تم پر عذاب نازل کروں گا جیسے کہ میں نے تقسیم کرنے والے نازل کیا ہے( کَمَا اٴَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِینَ ) ۔وہی تقسیم کرنے والے جنہوں نے آیات الہٰی کو بانٹ دیا( الَّذِینَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِینَ ) ۔(۶)

جو کچھ ان کے مفاد میں تھا وہ لے لیا اور جوکچھ ان کے نقصان میں تھا اسے ایک طرف رکھ دیا ۔درحقیقت ہوا یہ کہ بجائے اس کے کہ کتاب خدا اور اسکے احکام ان کے رہبر و راہنما ہوتے اسے انھوں نے اپنے برے مقاصدکے لئے وسیلہ بنالیا ۔ایک لفظ ان کے مفاد میں ہوتا ہے اس سے چمٹ جاتے اور ہزار الفاظ ان کے ضرر میں ہوتے تو انھیں ایک طرف رکھ دیتے۔

____________________

۱۔قاموس میں فیروز آبادی نے لکھا ہے :پہاڑکا دامن ، تلوار پہنائی اور چوڑائی اور صورت کو بھی ”صفح“ کہتے ہیں ۔ نیز کسی چیز کے کنارے اور چہرے کو بھی ”صفح “کہتے ہیں ۔

۲۔ نورالثقلین ، ج۳، ص ۲۷۔

۳۔نور الثقلین ، ج۳ ،ص۲۷۔

۴س۔پیغمبر اکرم ﷺ کی ایک حدیث میں ہے :

خدا فرماتا ہے :میں نے نماز ( سور ہ حمد )اپنے اور اپنے بندوں کے درمیاں دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حصہ مجھ سے مربوط ہے ہے دوسرابندوں سے ۔( مجمع البیان ، جلد۱،صفحہ۱۷۔

۵۔’ازواجاً“ متعنا“ کا مفعول ہے اور ”منھم “ایک عمومی مقدر فعل کے متعلق جار مجرور ہے اور اس سارے کا معنی ہو گا ۔ ”کفار کے مختلف گروہ

۶۔”عضین “ ”عضة“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ”متفرق“ کسی چیز کے حصہ کو بھی ”عضہ“ کہتے ہیں لہٰذا”عضین “کا معنی ہوا ”حصے “یا ”ٹکڑے“ ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ قرآن کریم خدا کی عظیم نعمت ہے

زیر نظر آیت میں خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کو خطرے سے خبر دار کرنے کے بعد اعلان کرتا ہے کہ یہ عظیم آسمانی کتاباوربہت بڑا سرمایہ ہے یہ ایک بے نظیر نعمت ہے جو مسلمانوں کو دی گئی یہ ایک ایسا جاودانی پروگرام ہے جس پر عمل کیا جائے تو دنیا آباد و آزاد ہو جائے ۔ اور امن و امان اور معنویت سے معمور ہو جائے ۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے دوسرے لوگ بھی معترف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمان اس کے معارف زندہ کرتے اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرتے تو اتنا طاقتور اور ترقی یافتہ ہوتے کہ کوئی ان پر اپنا تسلط نہ جما سکتا ۔

یہ سورہ حمد سبعا من المثانی کہ جو فاتحة الکتاب،آغاز قرآن کرنے والی ہے اور فہرست ِ قرآن کہلاتی ہے ، ایک مکمل درس حیات ہے ۔

اس عظیم مبداء کی طرف توجہ کہ جو عام عالمین کی راہ ِتکامل میں پر ورش کرتا ہے جس کی خاص اور عام رحمت سب پر چھائی ہوئی ہے ۔

اس عدالت کی طرف توجہ کہ جس پر ایمان انسان کے اعمال کو پوری طرح سے کنٹرول کرلیتا ہے۔

غیر اللہ پر بھرسہ نہ کرنا اور اس کے غیر کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ۔

مختصر یہ کہ صراط مستقیم پرقدم رکھنا جس میں انحراف نہیں ،وہ راستہ جو مشرق کی طرف خم کھاتا ہے نہ مغرب کی طرف ، جس میں افراط و تفریط ہے نہ گمراہی اور نہ ہی غضب الہٰی ۔

یہ سب جب انسان کی روح میں رچ بس جائیں تو ایک اعلیٰ اور با کمال شخصیت بنانے کے لئے کافی ہے ۔

لیکن افسوس یہ عظیم سرمایہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں جا پڑا ہے کہ جنہیں اس کی گہرائی پتہ چلا ہے نہ اس کی علیٰ و قدر و قیمت کا ۔

یہاں تک کہ بعض ایسے ناآگاہ لوگ بھی ہیں کہ اس کی آیات کو چھو ڑ کر ایسے انسانوں کے گھڑے ہوئے قوانین اورپروگرام کی طرف دستِ نیاز پھیلاتے ہیں جو خود اسیر شہوت ہیں کم از یہ کہ جن کی فکر ناپختہ اور نارسا ہے یا وہ کہ جو اپنا علم نجس دولت اور حقیر قیمت پر فروخت کرتے ہیں یا دوسروں مادی تمدن کی تھوڑی سی ترقی ان کی توجہ کو اس طرح سے کھینچتی ہے کہ جو خود ان کے پاس ہے اس سے غافل ہوجاتے ہیں ۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مادی ترقی کو بالکل اہمیت نہ دیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ سبھی کچھ اسے نہ سمجھیں اور قرآن نہ صرف روحانی لحاظ سے ایک پر بار اور عظیم سر چشمہ ہے بلکہ مادی ترقی اور خوشحالی کا بھی موثر پرگرام ہے اس سلسلہ میں ہم پہلے بھی متعلقہ آیات میں توضیح کرچکے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی کریں گے ۔

۲ ۔دوسروں کے وسائل پر نگاہ رکھنا انحطاط کا باعث ہے

بہت سے تنگ نظر افراد ایسے ہیں جو ہمیشہ اسی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ ا س کے پاس کیا ہے ؟یہ لوگ مسلسل مادی حالت کا دوسروں سے تقابلی کرتے رہتے ہیں اور جب اپنے آپ کو کم پاتے ہیں تو رنج و غم میں مبتلا ہوجاتے ہیں چاہے دوسروں نے یہ وسائل ااپنی انسانی قدر و قیمت اور اپنا استقلال گنواکر حاصل کئے ہوں ۔

یہ طرز فکر رشد کی کمی ، احساس کمتری اورکم ہمتی کی نشانی ہے ۔ یہ زندگی میں پسماندگی اور تنزل کا سبب ہے یہاں تک کہ مادی زندگی کو بھی اس کا بہت منفی اثر ہوتا ہے بجائے اس کے انسان ایسے گھٹیا او ر نقصان دہ تقابل میں پڑے اپنی فکری اور جسمانی صلاحیتوں کو اپنی رشد و ترقی کے لئے استعمال کرے اور اپنے آپ کہے کہ میں دوسروں سے کم تر نہیں ہوں اور کوئی وجہ نہیں کہ میں ان سے زیادہ ترقی نہ کر سکوں میں کیوں ان کے مال و مقام پر آنکھ رکھوں میں ان سے بہتر حاصل کرسکتا ہوں ۔

مادی زندگی کا زندگی کا ہدف ہر گز نہیں ، ایک صحیح انسان مادی وسائل یا تو اس قدر چاہتا ہے جو اس کی روحانیت کے لئے مدد گار ہوں یا جس قدر اس کی آزادی اور استقلال کی حفاظت کرسکیں نہ کہ وہ حریصانہ ان کے پیچھے بھاگتا ہے اور نہ ہی ان کے بدلے سب کچھ قربان کردیتا ہے کیونکہ ایسا سودا احرار اور بندگان خدا نہیں کرتے وہ ایسا کام بھی نہیں کرتے جس میں دوسروں کے محتاج ہوں ۔پیغمبر اکرم سے مروی ایک حدیث میں ہے :۔

من رمی ببصره مافی ید غیره کثر همه ولم یشف غیضه

جو شخص اس پر نظر جائے رکھے جو دوسروں کے پاس ہے وہ ہمیشہ غمگین رہے گا اور اس کے دل کی آتش غضب کبھی نہیں بجھے گی ۔(۱)

____________________

۱۔تفسیر صافی زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۳ ۔ رہبر کی انکساری

آیات قرآن میں بارہا پیغمبر اکرم کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ مومنین سے تواضح ، مہر بانی ، نرمی اور ملائمت سے پیش آئیں یہ امر پیغمبر اسلام کے لئے منحصر نہیں ہے ۔بلکہ جو شخص بھی وسیع یا محدود لوگوں میں رہبری کا فریضہ اپنے ذمہ لے اسے چاہئیے کہ اس پر کار بند رہے کیونکہ یہ حقیقی قیادت اور تنظیمی اصولو ں میں سے ہے اس لئے ایک رہبر کا بہت بڑا سرمایہ اس کے پیروکاروں کا اس سے محبت کرنا اور اس سے روحانی رشتہ ہے اور یہ تواضع ، لنساری اور خیر خواہی کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔رہبروں کی سختی اور فسادات ہمیشہ لوگوں کے ان کے گرد و پیش سے متفرق اور منتشر ہونے کا ایک ہی اہم عامل ہوتے ہیں ۔

امیر المومنین (علیہ السلام) ،محمد بن ابی بکر کو اپنے ایک خط میں اس طرح فرماتے ہیں :

فاخفض لهم جناحک و الن لهم جانبک و ابسط لهم وجهک و آس بینهم فی اللحظة و النظر ة

اپنے پروبال اس کے لئے جھکا دے، ان سے نرمی سے پیش آ، کشادہ رورہ اور ان کے درمیان نظر کرنے میں بھی مساوات اور برابری کو ملحوظ رکھ ۔(۱)

____________________

۱۔نہج البلاغہ،مکتوب ۲۷۔

۴ ۔ ”مقسطین “کون ہیں ؟

بلا شبہ خدائی احکام اور پروگرام سب لوگو ں کے مفاد میں ہوتے ہیں لیکن ظاہرا ً اور ابتدائی نظر میں عام طور ان میں سے بعض ہماری رغبت اور خواہش کے مطابق ہیں اور بعض بر خلاف ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں سچے مومن تو ان سب کو کاملاً قبول کرلیتے ہیں یہاں تک کہ جو احکام ظاہراًان کے فائدے میں انہیں بھی قبول کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں ۔

کل من عند ربا

سب کچھ خدا کی طرف سے ہے ۔

یہ احکام الہٰی میں کسی قسم کی تقسیم اور تبعیض کے قائل نہیں ہیں لیکن وہ لوگ کہ جن کے دل بیمار ہیں اور وہ یہ تک چاہتے ہیں کہ دین حکم خدا کو بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کریں وہ صرف وہی حصہ قبول کرتے ہیں جو ان کے فائدے میں اور باقی پس ِ پشت ڈال دیتے ہیں وہ آیات قرآن کو بلکہ بعض اوقات ایک ہی آیت کو تقسیم کردیتے ہیں اور ایک حصہ جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتا ہے اسے قبول کرلیتے ہیں اور دوسرے حصے کو ایک طرف پھینک دیتے ہیں ۔

یہ بات باعث فخر نہیں کہ ہم بعض گذشتہ قوموں کی طرح یہ را گ لائیں :۔

نؤمن ببعض و نکفر ببعض

ہم بعض پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض پر نہیں ۔

کیونکہ تمام دنیا پرست یہی کچھ کرتے ہیں ۔ پیروان حق اور پیروان باطل میں یہی فرق ہے کہ پیروان ِ باطل میں یہی میں فرق ہے کہ پیروان ِ باطل احکام کے اسی حصے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں جو ان کی خواہشات ، ہواوہوس اور ظاہری مفادات سے ہم آہنگ ہو ۔ یہ مقام ہے جہاں کھرا اور کھوٹا اور مومن اور منافق پہچاناجاتا ہے ۔

جوکچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے اس کے علاوہ بھی ”مقتسمین “ کی کچھ تفاسیر علماء نے ذکر کی ہے ہیں یہاں تک کہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس لفظ کی سات تفسیربیان کی ہیں ان میں سے زیادہ تر غیر مناسب نظر آتی ہیں لیکن بعض جو غیر مناسب نہیں ہیں ان میں سے ایک ہم یہاں ذکر کرتے ہیں مشرکین کے کچھ سردار ایام حج میں مکہ کی سڑکوں اور کوچوں کے کنارے کھڑے ہو جاتے تھے ان میں سے ہر ایک گذرنے والوں سے رسول اللہ اور قرآن کے بارے میں کوئی نہ کوئی بات کرتا تاکہ انھیں متنفر کردیں ۔

بعض کہتے : وہ دیوانہ ہے جو کچھ کہتا ہے غیر موزوں ہوتا ہے ۔

بعض کہتے :وہ جادو گر ہے اور اس کا قرآن بھی اس کے جادو کا ایک حصہ ہے ۔

بعض آپ کو شاعر کہتے : آیات آسمانی کے جاں نواز آہنگ اور لہجے کو کذب اور جھوٹی شاعری قرار دیتے۔

بعض آپ کو کاہن کا نام دیتے اور قرآن کی غیب کی خبروں کو ایک طرح کی کہانت قرار دیتے۔

انھیں ” مقتسمین “کہا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے مکہ کی سڑکوں او گلیوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تقسیم کررکھا تھا ۔

کوئی مانع نہیں کہ یہ تفسیر او ر جو تفسیر ہم نے بیان کی ہے دونوں آیت کے مفہوم میں شامل ہوں ۔