انسان شناسی

انسان شناسی0%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محمود رجبی
زمرہ جات:

صفحے: 307
مشاہدے: 136467
ڈاؤنلوڈ: 3965

تبصرے:

انسان شناسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136467 / ڈاؤنلوڈ: 3965
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

امام محمد باقر نے پیغمبر سے منقول روایت کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ''کُل مَولودٍ یُولدُ عَلیٰ الفِطرَة ''(۱) ''ہر بچہ توحیدی فطرت پر متولد ہوتا ہے '' پھر آپ نے فرمایا:''یعنِی المَعرفَة بِأنّ اللّٰه عَزّو جلّ خَالقُه'' مراد پیغمبر یہ ہے کہ ہر بچہ اس معرفت و آگاہی کے ساتھ متولد ہوتا ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے ۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ:''کَلمةُ الخلاص هِی الفِطرَة'' (۲) خداوند عالم کو سمجھنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔

بعض مشترکہ فطری عناصر کا پوشیدہ ہونا

معرفت شناسی سے مرتبط مباحث میں اسلامی حکماء نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی فکری معرفت اس کی ذات کے اندر ہی پوشیدہ اور قابلیت کے طور پر موجود ہے اور مرور ایام سے وہ ظاہر ہوتی ہے ۔ دینی متون کے اعتبار سے بھی انسان ،اپنی پیدائش کے وقت ہر قسم کے ادراک اور علم سے عاری ہوتا ہے ۔

( وَ اللّٰهُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُم السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ ) (۳)

اور خدا ہی نے تم کو مائوں کے پیٹ سے نکالاجب کہ تم بالکل نا سمجھ تھے اور تم کوسماعت ، بصارت اوردل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔

ممکن ہے یہ توہّم ہو کہ اس آیت کا مفہوم انسان کے متولد ہونے کے وقت ہر طرح کی معرفت سے عاری ہونا ہے، لہٰذا یہ خداوند عالم کی حضوری و فطری معرفت کے وجود سے سازگار نہیں

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۱۳۔

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۱۰

(۳)سورہ نحل ۷۸۔

۱۴۱

ہے، لیکن جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ مذکورہ آیہ انسان کی خلقت کے وقت تمام اکتسابی علوم کی نفی کرتی ہے لیکن یہ امکان ہے کہ انسان سے علم حضوری کے وجود کی نفی نہ کرتی ہو ،اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ کان اور قلب کو انسان کی جہالت بر طرف کرنے والے اسباب کے عنوان سے نام لیاہے اس لئے کہ اکتسابی علم میں ان اسباب کی ضرورت ہے ،گویا آیہ خلقت کے وقت آنکھ ،کان اور دوسرے حواس سے حاصل علوم کی نفی کرتی ہے لیکن انسان سے حضوری علوم کی نفی نہیں کرتی ہے۔

تقریباً یہ بات اتفاقی ہے کہ انسان کے اندر موجودہ فطری اور طبیعی امور چاہے وہ انسان کے حیوانی پہلو سے مرتبط ہوں جیسے خواہشات اور وہ چیزیں جو اس کی حیوانیت سے بالا تر اور انسانی پہلو سے مخصوص ہیں خلقت کے وقت ظاہر اور عیاں نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ کچھ پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیںہیں جو مرور ایام سے دھیرے دھیرے نمایاں ہوتی رہتی ہیں جیسے جنسی خواہش اور ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا ، لہٰذا وہ چیز جس کی واضح طور پرتائید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ فطری امور انسان کی خلقت کے وقت موجود رہتے ہیں ،لیکن خلقت کے وقت ہی سے کسی بھی مرحلہ میں ان کے فعال ہونیکے دعوے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔(۱)

____________________

(۱)وہ چیزیں جوفطری امور کے عنوان سے مورد تحقیق واقع ہوچکی ہیں وہ انسان کی فطری و ذاتی خصوصیات تھیں ۔ لیکن یہ جاننا چاہیئے کہ فطری وصف کبھی انسانی خصوصیات کے علاوہ بعض دوسرے امور پر صادق آتا ہے ، مثال کے طور پر کبھی خود دین اور شریعت اسلام کے فطری ہونے کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے اور اس سے مراد انسان کے وجودی کردار اور حقیقی کمال کی روشنی میں ان مفاہیم کی مناسبت و مطابقت ہے ،انسان کی فطری قابلیت و استعداد سے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم شریعت کا اس کے حقیقی کمال سے مربوط ہونا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مختلف فطری اور طبیعی قوتوں کی آمادگی ، ترقی اور رشد کے لئے ایک نسخہ ہے '' شریعت ، فطری ہے '' اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اور اس کے واقعی اور فطری ضرورتوں میں ایک طرح کی مناسبت و ہماہنگی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ فطرت انسان میں دینی معارف و احکام بالفعل یا بالقوة پوشیدہ ہیں ۔

۱۴۲

انسان کی فطرت کا اچھا یا برا ہونا

گذشتہ مباحث سے یہ نکتہ واضح ہوجاتاہے کہ ''سارٹر''جیسے وجود پرست ''واٹسن ''(۱) جیسے کردار و فعالیت کے حامی ''ڈورکھیم ''جیسے'' معاشرہ پرست ''اور''جان لاک''(۲) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ کے اعتبار سے انسان کو بالکل معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ جو صرف غیر ذاتی عناصر و اسباب سے تشکیل ہواہے بلکہ انسان فکری اعتبار سے اور فطری عناصر میں طاقت و توانائی کے لحاظ سے حیوان سے فراتر مخلوق ہے ۔ چاہے بعض عناصر بالفعل یا بالقوت ہوں یا ان کے بالفعل ہونے میں بیرونی اسباب اورعوامل کے کار فرماہونے کی ضرورت ہو ۔ جو لوگ انسان کو معمولی سمجھتے ہیں انہوں نے اصل مسئلہ کو ختم کردیا اور خود کو اس کے حل سے محفوظ کرلیا ،بہر حال تجربی اور عقلی دلائل ، تعلیمات وحی اور ضمیر کی معلومات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ انسان بعض مشترکہ فطری عناصر سے استوارہے ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں کی مشترکہ فطرت و طبیعت فقط نیک اور خیر خواہ ہے یا فقط پست و ذلیل ہے یا خیر و نیکی اور پستی و ذلت دونوں عناصر پائے جاتے ہیں ؟

''فرایڈ ''کے ماننے والوں کی طرح بعض مفکرین ''تھامس ہابز ''(۳) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ اور فطرت پرست ، لذت پسند سود خور افراد انسان کی فطرت کو پست اور ذلیل سمجھتے ہیں ''اریک فروم'' جیسے فرایڈ کے جدید ماننے والے ''کارل روجرز''(۴) اور'' ابراہیم مزلو''(۵) کی طرح انسان پرست اور ''ژان ژاک روسو''(۶) کی طرح رومینٹک افراد ، انسان کی فطرت کو نیک اور خیر خواہ اور اس کی برائیوں کو نادرست ارادوں کا حصہ یا انسان پر اجتماعی ماحول کا رد عمل تصور کرتے ہیں ۔(۷)

____________________

(۱) Watson

(۲) John Loke

(۳) Thomas Hobbes

(۴) Kart Rogers

(۵) Abraham Maslow

(۶) Jean Jacques Rousseau

(۷)اسی فصل کے ضمیمہ میں ان نظریات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۱۴۳

ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظریوں میں افراط و تفریط سے کام لیا گیاہے ۔ انسان کی فطرت کو سراسر پست و ذلیل سمجھنا اور ''ہابز ''کے بقول انسان کو انسان کے لئے بھیڑیا سمجھنا نیزاکثر انسانوں کی بلند پروازی کی تمنا اور عدالت پسندی کی طرح اعلی معارف کی آرزو ، کمال طلبی اور الٰہی فطرت سے سازگار نہیں ہے، اور انسان کی تمام برائیوں کو افراد کے غلط ارادوں اور اجتماعی ماحول کی طرف نسبت دینا اور گذشتہ اسباب یا ہر علت کے کردار کا انکار کرنا بھی ایک اعتبار سے تفریط و کوتاہی ہے، یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ وجود شناسی کے گوشوںاور مسئلہ شناخت کی اہمیت کے درمیان تداخل نہیں ہونا چاہیئے، وجود شناسی کی نگاہ سے انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کا مجموعہ چونکہ امکانات سے مالا مال اور بھر پور ہے لہٰذا کمالشمار ہوتا ہے اور منفی تصور نہیں کیا جاتا ،لیکن اہمیت شناسی کے اعتبار سے یہ مسئلہ مہم ہے کہ ان امکانات سے کس چیز میں استفادہ ہوتا ہے؟بدبین فلاسفہ اور مفکرین منفی پہلو کے مشاہدہ کی وجہ سے ان توانائی ، تفکر اور خواہشات کو ناپسندیدہ موارد میں استعمال کرکے انسان کو ایک پست اور بری مخلوق سمجھتے ہیں اور خوش بین فلاسفہ اور مفکرین اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے انسان کی فلاح و بہبود کی راہ میں مشترکہ فطری عناصر کے پہلوؤں سے بہرہ مند ہو کر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ شواہد انسان کی فطرت کے اچھے یا برے ہونے پر حتمی طور پر دلیل نہیں ہیں بلکہ ہر دلیل دوسرے کی نفی کرتی ہے ۔

قرآن مجید انسان کی فطرت کوایک طرف تفکر ، خواہش اور توانائی کا مجموعہ بتا تا ہے، جس میں سے اکثر کے لئے کوئی خاص ہدف نہیں ہے اگرچہ ان میں سے بعض مثال کے طور پر خداوندعالم کی تلاش ، معرفت اور عبادت کے فطری ہونے کی طرف متوجہ ہیں ۔اور دوسری طرف خلقت سے پہلے اور بعد کیحالات نیزاجتماعی و فطری ماحول سے چشم پوشی نہیں کرتا ہے بلکہ منجملہ ان کی تاثیر کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور آگاہ انسان کے ہر ارادہ و انتخاب میں ،اثر انداز عنصر کو تسلیم کرتا ہے ۔

۱۴۴

اس لئے انسان کی مشترکہ فطرت کو ایسے عناصر کا مجموعہ تشکیل دیتے ہیں جن میں سے بعض فلاح و خیر کی طرف متوجہ ہیں ،لیکن غلط تاثیر یا مشترکہ طبیعت سے انسان کی غفلت اور انسان کے افعال میں تمام موثر عوامل کی وجہ سے یہ حصہ بھی اپنے ضروری ثمرات کھو دیتا ہے اور پیغمبران الٰہی کا بھیجا جانا ، آسمانی کتابوں کا نزول ،خداوند عالم کے قوانین کا لازم الاجراء ہونا اور دینی حکومت کی برقراری ، یہ تمام چیزیں،انسان کو فعال رکھنے اور مشترکہ فطری عناصر کے مجموعہ سے آراستہ پروگرام سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں ہے، چاہے ہدف رکھتی ہوںیا نہ رکھتی ہوں، یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ہوں۔ اور انسان کی برائی غلط اثر اور غفلت کا نتیجہ ہے اور انسان کی اچھائی اور نیکی، دینی اور اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں دیدہ و دانستہ کردار کا نتیجہ ہے ،آئندہ مباحث میں ہم اس آخری نکتہ کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے ۔

سورۂ روم کی تیسویں آیت کے مفہوم کے سلسلہ میں زرارہ کے سوال کے جواب میں امام جعفر صادق نے فرمایا : ''فَطرھُم جَمِیعاً عَلیٰ التَّوحیدِ ''(۱) خداوند عالم نے سب کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے ۔

توحیدی اور الٰہی فطرت کی وجہ سے انسان یہ گمان نہ کرے کہ فطری امور اس کے توحیدی اور الٰہی پہلو میں منحصر ہیں جیسا کہ انسان کی فطرت کے بارے میں گذشتہ مباحث میں اشارہ ہوچکا ہے کہ بہت سی فطری اور حقیقی معارف کوخواہشات کے سپرد کردیا گیا ہے جو تمام مخلوقات سے انسان کے وجود کی کیفیت کو جدا اورمشخص کرتی ہے ۔ انسان کے تمام فطری امور کے درمیان اور اس کے الٰہی فطرت کے بارے میں مزید بحث ،اس عنصر کی خاص اہمیت اور الٰہی فطرت کے بارے میں مختلف سوالات کی وجہ سے ہے ۔ ان دونوں چیزوں کی وجہ سے یہ فطری شیٔ مزید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔

انسانوں کے اندر الٰہی فطرت کے پائے جانے کا دعویٰ مختلف بحثوں کو جنم دیتا ہے ۔ پہلا

____________________

(۱)کلینی ؛ گذشتہ حوالہ ج۲ ،ص ۱۲۔

۱۴۵

سوال یہ ہے کہ انسان کے اندر الٰہی فطرت کے ہونے سے کیا مراد ہے ؟ کیا فطرت ِمعرفت مراد ہے یا فطرت ِانتخاب ؟ اگر فطرتِ معرفت مراد ہے تو خداوند عالم کے بارے میں ا کتسابی معرفت فطری ہے یا اس کی حضوری معرفت ؟ دوسرا سوال ،فطرت الٰہی کے فعال (بالفعل )اور غیر فعال (بالقوة)ہونے کے بارے میں ہے کہ کیا یہ انتخاب یا فطری معرفت تمام انسانوں کے اندر خلقت کے وقت سے بالفعل موجود ہے یا بالقوة ؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا یہ فطری شیٔ زوال پذیر ہے اور اگر زوال پذیر ہے تو کیا انسان اس کے زائل ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا ؟ آخری دو سوال، انسان کی الٰہی فطرت سے مربوط نہیں ہیںبلکہ انہیں ہر فطری شیٔ کے بارے میں بیان کیا جاسکتا ہے ؟

انسان کی الٰہی فطرت سے مراد

توحید کے فطری ہونے کے سلسلہ میں تین احتمال موجو د ہیں :

پہلا احتمال یہ ہے کہ اکتسابی اور مفہومی معرفت کی صورت میں خداوند عالم کے وجود کی تصدیق کرنا انسان کی فطرت ہے ۔ فطری ہونے سے مراد؛ فطرت عقل اور انسان کی قوت مدرکہ کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا ہے ۔

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے سلسلہ میں انسان کی شہودی اور حضوری علم کے بارے میں ہے اس احتمال کے مطابق تمام انسانوں کے اندر خداوند عالم کی طرف سے مستقیم اور حضوری معرفت کے مختلف درجات موجود ہیں ۔

تیسرا احتمال ؛ انسان کی الٰہی فطرت کو اس کی ذاتی خواہش اور درونی ارادہ فرض کرتا ہے اس احتمال کی روشنی میں انسان اپنی مخصوص روحی بناوٹ کی بنیاد پرخدا سے متمنی اور طلب گار ہے ۔

پہلے احتمال کی وضاحت میں مرحوم شہید مطہری فرماتے ہیں:

۱۴۶

بعض خدا شناسی کے فطری ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد فطرت عقل ہے ، کہتے ہیں کہ انسان، فطری عقل کی روشنی میں مقدماتی استدلال کے حاصل کرنے کی ضرورت کے بغیر خداوند عالم کا وجود سمجھ لیتا ہے ،نظام عالم اور موجودات کی تربیت اور تادیب پر توجہ کرتے ہوئے خود بخود بغیر کسی استدلال کی ضرورت کے انسان کے اندر ایک مدبر اور غالب کے وجود کا یقین پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ تمام فطری امور کہ جس کو منطق کی اصلاح میں '' فطریات''کہا جاتا ہے ایسا ہی ہے۔(۱)

حق یہ ہے کہ ''خدا موجود ہے ''کے قضیہ کو منطقی فطریات میں سے نہیں سمجھنا چاہیئے یعنی ''چار کاعدد،زوج ہے'' اس طرح کے قضایا بدیہی ہیں اور ان چیزوں کااستدلال ذہن میں ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ جس میں ذہنی تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے ،حالانکہ فکر و نظر کی پوری تاریخ میں واضح طور پر خدا کے وجود پر حکماء ،فلاسفہ نیز دوسرے مفکرین کے دلائل و استدلال کے ہم شاید ہیں اور عقلی و نظری طریقہ سے یہ عظیم علمی تلاش، خداوند عالم کے عقیدہ کے بدیہی نہ ہونے کی علامت ہے، اسی بنا پر بعض دانشمندوں نے کہا ہے کہ خداوند عالم پر اعتقاد بدیہی نہیں ہے بلکہ بداہت سے قریب ہے ۔(۲)

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے بارے میں انسان کے علم حضوری کو بشر کی فطرت کا تقاضا سمجھنا چاہیئے۔ انسان کا دل اپنے خالق سے گہرا رابطہ رکھتا ہے اور جب انسان اپنے حقیقی وجود کی طرف متوجہ ہوگا تو اس رابطہ کو محسوس کرے گا ،اس علم حضوری اور شہود کی صلاحیت تمام انسانوں میں موجود ہے ۔لہٰذا اکثر لوگ خاص طور سے سادی زندگی کے ان لمحات میں جب وہ دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں اس قلبی اور اندرونی رابطہ کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں ۔

سورہ نحل کی ۵۳ویں آیہ اور سورۂ عنکبوت کی ۶۵ ویں آیہ کی طرح بعض دوسری آیتوں میں اضطراری مواقع اور اس وقت جب لوگ تمام اسباب سے قطع امید ہو جاتے ہیں اس فطرت کی

____________________

(۱)مطہری ؛ مرتضی ، مجموعہ آثار ، ج۶ ص ۹۳۴۔

(۲)ملاحظہ ہو: مصباح یزدی ، محمد تقی ، آموزش فلسفہ ج۲ ص ۳۳۰ و ۳۳۱۔

۱۴۷

بیداری کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

( فَإِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخلِصِینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّیٰهُم لَیٰ البَرِّ ِذَا هُم یُشرِکُونَ ) (۱)

پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نہایت خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں اور جب ہم انہیں نجات دے کر خشکی میں پہونچا دیتے ہیں تو وہ مشرک ہوجاتے ہیں ۔

( وَ مَا بِکُم مِن نِّعمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ ِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُ فَلِیهِ تَجئَرُونَ ) (۲)

اور جتنی نعمتیں تمہارے ساتھ ہیں سب اس کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو تکلیف پہونچتی ہے تو تم اسی کے آگے فریاد کرتے ہو ۔

اس احتمال کے مطابق خدا کی معرفت ، فطرت ، خداپرستی اور خدا سے رابطہ ،شہودی اور حضوری معرفت کی فرع ہے ،مشکل وقت میں معمولی لوگ بھی جب ان میں یہ شہودی رابطہ ایجاد ہوتا ہے تو خدا کی عبادت ،مناجات اور استغاثہ کرنے لگتے ہیں، اس لئے انسان کی الٰہی فطرت ، فطرت کی معرفت ہے، احساس و خواہش کا نام فطرت نہیں ہے ۔

تیسرا احتمال سورہ ٔ روم کی ۳۰ ویں آیہ کہ جس میں فطرت کو احساس و خواہش (فطرت دل) کہا گیا ہے ۔ اور معتقد ہے کہ خدا کی جستجو و تلاش اور خداپرستی انسان کی فطرت ہے اور خدا کی طرف توجہ تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے چاہے اس کے وجود کی معرفت اور تصدیق خود فطری نہ ہو ۔

انسان کے اندر سوال کرنے کی خواہش کے عنوان سے ایک بہترین خواہش موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا جانتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس حقیقت کے ذریعہ خدا سے نزدیک ہو کر اس کی تسبیح و تحلیل کرے ۔

____________________

(۱)عنکبوت ۶۵۔

(۲)نحل ۵۳

۱۴۸

اگرچہ دوسرے اور تیسرے دونوں احتمالات ظاہر آیہ سے مطابقت رکھتے ہیںاوران میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دنیا مشکل لگتا ہے لیکن ان روایات کی مدد سے جو اس آیہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض نقل بھی ہوئی ہیں دوسرا احتمال قطعاً مورد نظر ہے ،البتہ دونوں احتمالات کے درمیان اس طرح جمع اور دونوں کو ملا کر ایک دوسرے کا مُکمِل بنایا جاسکتا ہے کہ اگر فطری طور پر انسان کے اندر کسی موجود کی عبادت، خواہش اور عشق کاجذبہ پایاجائے تو یہ معقول نہیں ہے کہ عبادت مبہم و نامعلوم ہو لہٰذا قہری طور پر خدا کی معرفت و شناخت کا پایا جاناانسان کی فطرت میں ہونا چاہیئے تاکہ یہ تمایل اور خواہش مبہم اور نامعلوم نہ ہو، پس جب بھی فطری طور پر اپنے اندر عبادت اور خضوع و خشو ع کا ہم احساس کرتے ہیں تو یہ اسی کے لئے ہوگا جس کے بارے میں ہم اجمالی طور پر معرفت رکھتے ہوں، اور یہ معرفت حضوری اور شہودی ہے، دوسری طرف اگر انسان کے اندر خداوند متعال کے سلسلہ میں حضوری معرفت موجود ہو تو منعم کا شکریہ اور طلب کمال کیطرف ذاتی تمایل کی وجہ سے خداوند عالم کیجانب انسان کے اندر غیر قابل توصیف رغبت پیدا ہوجائے گی ۔

فطرت کا زوال ناپذیر ہونا

سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کے آخر میں آیا ہے کہ( لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّهِ ) اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یعنی ہم نے اس فطرت الٰہی کو انسان کے حوالہ کیا جو غیر قابل تغییر ہے یہ ممکن ہے کہ انسان فطرت الٰہی سے غافل ہو جائے لیکن فطرت الٰہی نابود نہیں ہوگی، انسان جس قدر اس فطرت الٰہی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرے اور اپنی غیر حیوانی پہلوؤں کو قوت بخشے اتنا ہی بہتر انسان ہوگا انسان اپنی ابتدائی خلقت میں بالفعل حیوان ہے اور بالقوت انسان ہے ،اس لئے کہ حیوانیت اور خواہشات کی توانائی اس کے اندر سب سے پہلے رونما ہوتی ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز میں جس قدر غیر حیوانی پہلوؤں کو تقویت دے گا اور اپنے وجود میں جس قدر فطرت الٰہی کو حاکم کرنے میں کامیاب ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت سے بہرہ مند ہوگا ،بہر حال یہ بات قابل توجہ ہے کہ انسان میں فطری قابلیت اور اللہ کی طرف توجہ کا مادہ ہے چاہے پوشیدہ اور مخفی ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ فطری قابلیت ختم نہیں ہوتی ہے اور انسان کی سعادت اور بد بختی اسی فطری حقیقت کو جلا بخشنے یا مخفی کرنے میں ہے :

۱۴۹

( قَد أَفلَحَ مَن زَکَّیٰهَا وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (۱)

یقینا جس نے اپنے نفس کو پاک رکھاوہ تو کامیاب ہوا اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ نقصان اٹھانے والوں میں رہا۔

فطرت اورحقیقت

اس واقعیت سے انکار نہیں ہے کہ لوگ ایک جیسی خصوصیات لے کر اس دنیا میں نہیں آئے ہیں یہ تبدیلیاں چاہے بدن کے سلسلہ میں ہو چاہے عقل و خرد کی توانائی میں ہو،ظاہر ہو جاتی ہیں، اسی طرح حیات انسان کا فطری ماحول اور اجتماعی شرائط اور بیرونی تاثرات کی وجہ سے جوابات اور عکس العمل بھی برابر نہیں ہوتا مثال کے طور پر بعض لوگ ایمان کی طرف راغب اور حق کی دعوت کے مقابلہ میں اپنی طرف سے بہت زیادہ آمادگی اورخواہش ظاہر کرتے ہیں ،اور بعض حضرات پروردگار عالم کے حق اور بندگی سے یوں فرار کرتے ہیں کہ وحی الٰہی کو سننے ،آیات اور معجزات الٰہی کے مشاہدہ کرنے کے باوجود نہ فقط ایمان نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی اسلام دشمنی اور کفر دوستی میں شدت آجاتی ہے۔

( وَ نُنَزِّلُ مِنَ القُرآنِ مَا هُوَ شَفَائ وَرَحمَة لِلمُؤمِنِینَ وَ لا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ لا خَسَاراً ) (۲)

''اور ہم تو قرآن میں سے وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اوررحمت ہے اور ظالمین کے لئے سوائے گھاٹے کے کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا ''۔

____________________

(۱)سورۂ شمس ۹ تا ۱۰۔

(۲)اسراء ۸۲۔

۱۵۰

اب یہ سوال درپیش ہے کہ یہ فرق و اختلاف کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ آیااس کا حقیقی سببانسان کی فطرت و طبیعت ہے اور ماحول و اجتماعی اسباب کا کوئی اہم رول نہیں ہے یا یہ کہ خودماحول اس سلسلہ میں انسان کی سرنوشت معین کرتا ہے ورنہ انسان کی مشترکہ فطرت کا کوئی خاص کردار نہیں ہے یا یہ اختلافات، فطری عناصر اور ماحول کی دین ہیں ۔ اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ : ہر فرد کی شخصیت میں اس کی فردی خصوصیت بھی شامل ہوتی ہے ، اورمتعدد فطری و اجتماعی اسباب کا بھی وہ معلول ہے ،وراثت ،فطری اختلافات ، اسباب تربیت ، اجتماعی ماحول اور دوسرے شرائط ، کامیابیاں اور ناکامیاں ، ملکی اور جغرافیائی حدود خصوصاً فردی تجربہ ، انتخاب اور قدرت اختیار میں سے ہر ایک کا انسان کی شخصیت سازی میں ایک خاص کردار ہے ۔ انسان کا اخلاق اور الٰہی فطرت کی حقیقت اور تمام انسانوں کے فطری اور ذاتی حالات بھی تمام مذکورہ عوامل کے ہمراہ مشترکہ عامل کے عنوان سے انسان کی کردار سازی میں موثر ہیں ،فردی اختلافات کا ہونا مشترکہ فطرت کے انکار اور بے اثر ہونے کے معنی میں نہیں ہے( قُل کُلّ یَعمَلُ عَلَیٰ شَاکِلَتِهِ ) (۱)

تم کہدو کہ ہر ایک اپنی شخصیت سازی کے اصول پر عمل پیرا ہے،آیہ شریفہ میں '' شاکلہ'' سے مراد ہر انسان کی شخصی حقیقت اور معنویت، فطرت الٰہی کے ہمراہ مذکورہ عوامل کے مجموعہ سے حاصل ہونا ہے ،قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فطری امور تمام افراد میں ایک ہی انداز میں رشد و تکامل نہیں پاتے اسی بنا پر تمام عوامل کے مقابلہ میں فطری سبب کے لئے ایک ثابت ،مساوی اور معین مقدار قرار نہیں دی جاسکتی ہے انسانو ں کا وہ گروہ جن میں اخلاق اور الٰہی فطرت پوری طرح سے بارآور ہوچکی ہے اور بہترین اخلاقی زندگی اورکامل بندگی سے سرفراز ہے اس کی حقیقت اور شخصیت کو ترتیب دینے میں اسباب فطرت کانمایاں کردار ہے اور جن لوگوں نے مختلف اسباب کی وجہ سے

____________________

(۱)سورۂ اسراء ۸۴۔

۱۵۱

اپنے حیوانی پہلوؤں کو قدرت بخشی ہے ان افراد کا شعلۂ فطرت خاموش ہوچکا ہے اور اثر انداز ہونے میں بہت ہی ضعیف ہے ۔(۱)

____________________

(۱)قرآن کی نظر میں مذکورہ اسباب کے کردار کی تاکید کے علاوہ نفسانی شہوتوں میں اسیر ہونا اور مادی دنیا کی زندگی اور شیطان کے پھندے میں مشغول رہنے کو انسان کے انحراف میں موثر اسباب کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور پیغمبروں ، فرشتوں اور خداوند عالم کی خصوصی امداد کو انسان کی راہ سعادت میں مدد کرنے والے تین اسباب و عوامل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔ ضمیمہ میں ان سب کے بارے میں مختصروضاحت انشاء اللہ آئے گی ۔

۱۵۲

خلاصہ فصل

۱.ہمارے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ظاہری شکل و صورت اور اخلاق و کردار میں متعدد اور گونا گوں اختلاف کے باوجود جسم و روح کے اعتبار سے آپس میں بہت زیادہ مشترک پہلو پائے جاتے ہیں ۔

۲.انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو ، انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک ہے جس نے موجودہ چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے ۔

۳.انسانی فطرت ، مشترکہ فطرت کے عناصر کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آغاز خلقت سے ہی تمام انسانوں کو عطا کی گئی ہے جب کہ ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی فراہم اور نہ ہی اس کو نابود کرسکتے ہیں اور ان کی خلقت میں تعلیم و تربیت کا کوئی کردار نہیں ہے ۔

۴.انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود پر منجملہ دلیلوں میں فہم و معرفت ہے نیز غیر حیوانی ارادے اور خواہشات کاانسانوں میں پایا جانااور ذاتی توانائی کا انسان سے مخصوص ہوناہے ۔

۵.انسان کے وجود میں خداوند عالم کی معرفت کے لئے بہترین خواہش ، سوالات کی خواہش کے عنوان سے موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا سمجھتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس حقیقت سے نزدیک ہو کر تسبیح و تحلیل بجا لائے اور یہ حقیقت وہی فطرت الٰہی ہے ۔

۶.آیات و روایات بہت ہی واضح یا ضمنی طور پر معرفت ،انسانی خواہش اور توانائی سے مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت نیزعناصر اور ان کی خصوصیات پر دلالت کرتی ہیں ۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ مورد تائید اور تاکید قرار پائی ہے وہ فطرت الٰہی ہے ۔

۷.ہر انسان کی شخصیت سازی میں اس کا ماحول نیزرفتار و کردار ،موروثی اور جغرافیائی عوامل کے علاوہ فطرت کا بھی بنیادی کردار ہے ۔

۱۵۳

تمرین

۱.فطری اور طبیعی امور سے غیر فطری امور کی شناخت کے معیار کیا ہیں ؟

۲.انسان کی شخصیت سنوارنے والے عناصر کا نام ذکر کریں؟

۳.انسان کا ارادہ ، علم ، خواہش اور قدرت کس مقولہ سے مربوط ہے ؟

۴.سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کا مضمون کیا ہے ؟ اس آیت میں (لا تَبدِیل لخَلقِ اللّہِ ) سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۵.انسان کی مشترکہ فطرت کی معرفت میں علوم تجربی ، عقلی اور شہودی میں سے ہر ایک علم کا کردار اور اس کی خامیاں بیان کریں ؟

۶.فطرت الٰہی کے تغییر نہ ہونے کی بنیاد پر جو افراد خدا سے غافل ہیں یا خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں یا شک رکھتے ہیں ان افراد میں فطرت الٰہی کس انداز میں پائی جاتی ہے ؟

۷.فطرت الٰہی کو قوی اور ضعیف کرنے والے عوامل بیان کریں ؟

۸.حقیقی و غیر حقیقی اورجھوٹی ضرورتوں سے مراد کیا ہے ؟ ان میں سے ہر ایک کے لئے دو مثالیں ذکر کرتے ہوئے واضح کریں ؟

۹.مندرجہ ذیل موارد میں سے انسان کی فطری اور حقیقی ضرورتیں کون سی ہیں ؟

عدالت خواہی، حقیقت کی جستجو ،آرام پسندی ، عبادت کا جذبہ اور راز و نیاز ، خود پسندی ، دوسروں سے محبت ، محتاجوں پر رحم کرنا ، بلندی کی تمنا ، حیات ابدی کی خواہش ، آزادی کی لالچ ۔

۱۵۴

مزید مطالعہ کے لئے :

۱. علوم تجربی کے نظریہ کے مطابق شخصیت ساز عناصر کے لئے ملاحظہ ہو:

.ماہر نفسیات ، شخصیت کے بارے میں نظریات ،نفسیاتی ترقی ، اجتماعی نفسیات شناسی ، جامعہ شناسی کے اصول ،فلسفہ تعلیم و تربیت

۲. اسلام کی روشنی میں انسان کی شخصیت ؛کے لئے ملاحظہ ہو :

. مصباح یزدی ، محمد تقی ( ۱۳۶۸) جامعہ وتاریخ از دید گاہ قرآن ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی

. نجاتی ، محمد عثمان ( ۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد ، بنیاد پژوہشھای آستان قدس رضوی ۔

۳. اسلامی نظریہ سے انسان کی فطرت ؛کے لئے ملاحظہ ہو:

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (۱۳۷۲) در آمدی بہ تعلیم و تربیت اسلامی ، فلسفہ تعلیم و تربیت ، تہران : سمت .ص ۳۶۹.۵۱۴.

۴. انسان کی فطرت میں دانشمندوں کے نظریات؛ کے لئے ملاحظہ ہو:

. اسٹیونسن ، لسلی ( ۱۳۶۸) ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، تہران ، رشد

. پاکارڈ ،ڈ وینس ( ۱۳۷۰) آدم سازان ؛ ترجمہ حسن افشار ؛ تہران : بہبہانی ۔

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( ۱۳۶۳) درآمدی بر جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ، قم : سمت۔ شکر کن ، حسین ، و دیگران ( ۱۳۷۲) مکاتب روان شناسی و نقد آن ، ج۲ ، تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ۔

۱۵۵

۵. انسانی فطرت کے لئے ملاحظہ ہو :

. جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۳) دہ مقالہ پیرامون مبدا و معاد تہران : الزہراء ۔

(۱۳۶۳)فطرت و عقل و وحی ، یادنامۂ شہید قدوسی ، قم : شفق

(۱۳۶۳)تفسیرموضوعی قرآن ، ج۵ ، تہران ، رجاء

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان : پژوہشی در خداشناسی فطری ؛ قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ھا ( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

.محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن : خدا شناسی ، قم : جامعہ مدرسین

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۰)مجموعہ آثار ج۳ ''کتاب فطرت''، تہران : صدرا ۔

(۱۳۷۱)مجموعہ آثار ج۵ ، ''مقالہ فطرت ''، تہران : صدرا ۔

.موسوی خمینی ، روح اللہ ( ۱۳۶۸) چہل حدیث ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء

۶. کلمہ فطرت کے استعمالات اور معانی کے لئے ملاحظہ ہو :

.یثربی ، یحیٰ '' فطری بودن دین از دیدگاہ معرفت شناسی ''، مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، سال سوم ، ش نہم ، ص ۱۱۰. ۱۱۸.

۷. انسان کی فطری توانائی نیز معلومات و نظریات کے لئے ملاحظہ ہو:

.جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۶) تفسیر موضوعی ، ج۵، نشر فرہنگی رجاء ، تہران ۔

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری ؛ قم :نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہھا ، معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی

.محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

( ۱۳۷۷) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.(۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۶۹) مجموعۂ آثار ، ج۲ ، انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۱۵۶

ملحقات

لفظ'' فطرت ''کے اہم استعمالات

لفظ فطرت ، کے بہت سے اصطلاحی معنی یا متعدد استعمالات ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل سب سے اہم ہیں :

۱.خواہش اور طبیعت کے مقابلہ میں فطرت کا ہونا :بعض لوگوں نے لفظ فطرت کو اس غریزہ اور طبیعت کے مقابلہ میں جو حیوانات ، جمادات اور نباتات کی طینت کو بیان کرتے ہیں ، انسان کی سرشت کے لئے استعمال کیا ہے ۔

۲.فطرت، غریزہ کا مترادف ہے :اس استعمال میں فطری امور سے مراد طبیعی امور ہیں البتہ اس استعمال میں کن مواقع پر غریزی امور کہا جاتا ہے ،اختلاف نظر ہے، جس میں سے ایک یہ ہے کہ جو کام انسان انجام دیتا ہولیکن اس کے نتائج سے آگاہ نہ ہواورنتیجہ بھی مہم ہو مثال کے طور پر بعض وہ افعال جو بچہ اپنے ابتدائی سال میں آگاہانہ انجام دیتا ہے اسے غریزی امور کہا جاتا ہے ۔

۳.فطرت یعنی بدیہی : اس اصطلاح میں ہر وہ قضیہ جو استدلال کا محتاج نہ ہو جیسے معلول کے لئے علت کی ضرورت اور اجتماع نقیضین کا محال ہونا فطرت کہا جاتا ہے ۔

۴.فطرت ، منطقی یقینیات کی ایک قسم ہے : استدلال کے محتاج وہ قضایا جن کا استدلال پوشیدہ طور پر ان کے ہمراہ ہو (قضایا قیاساتھا معھا)''فطری ''کہا جاتا ہے جیسے چار زوج ہے ، جس کا استدلال (چونکہ دو متساوی حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے )اس کے ہمراہ ہے ۔

۵.کبھی لفظ فطرت ،بدیہی سے نزدیک قضایا پر اطلاق ہوتا ہے : جیسے ''خدا موجود ہے '' یہ قضیہ استدلال کا محتاج ہے اور اس کا استدلال اس کے ہمراہ بھی نہیں ہے لیکن اس کا استدلال ایسے مقدمات کا محتاج ہے جو بدیہی ہیں (طریقہ علیت )چونکہ یہ قضیہ بدیہیات کی طرف منتہی ہونے کا ایک واسطہ ہے لہٰذا بدیہی سے نزدیک ہے ،ملاصدرا کے نظریہ کے مطابق خدا کی معرفت کے فطری ہونے کو بھی (بالقوة خدا کی معرفت)اسی مقولہ یا اس سے نزدیک سمجھا جاسکتا ہے ۔

۱۵۷

۶.فطرت، عقل کے معنی کے مترادف ہے : اس اصطلاح کا ابن سینا نے استفادہ کیاہے اور کہا ہے کہ فطرت وہم خطا پذیر ہے لیکن فطرت عقل خطا پذیر نہیں ہے ۔

۷.فطرت کاحساسیت اور وہم کے مرحلہ میں ذہنی صورتوں کے معانی میں ہونا : ''ایمانول کانٹ''(۱) معتقد تھا کہ یہ صورتیں خارج میں کسی علت کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ ذہن کے فطری امور میں سے ہے اور اس کو فطری قالب میں تصور کیا جاتا ہے جیسے مکان ، زمان ، کمیت ، کیفیت ، نسبت اور جہت کو معلوم کرنے والے ذہنی قضایا میں کسی معلوم مادہ کو خارج سے دریافت کرتے ہوئے ان صورتوں میں ڈھالتا ہے تاکہ قابل فہم ہو سکیں ۔

۸.فطرت، عقل کے خصوصیات میں سے ہے :حِس کی تخلیق میں حس اور تجربہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے بلکہ عقل بالفعل اس پر نظارت رکھتی ہے ''ڈکارٹ''کے نظریہ کے اعتبار سے خدا ، نفس اور مادہ ( ایسا موجود جس میں طول ،عرض ، عمق ہو ) فطری شمار ہوتا ہے، اور لفظ فطری بھی اسی معنی میں ہے ۔

۹.فطرت یعنی خدا کے بارے میں انسان کا علم حضوری رکھنا، خدا شناسی کے فطری ہونے میں یہ معنی فطرت والی آیات و روایات کے مفہوم سے بہت سازگار ہے ۔

۱۰.فطرت یعنی ایک حقیقت کو پورے اذہان سے درک کرنا ، اصل ادراک اور کیفیت کی جہت سے تمام افراد اس سلسلہ میں مساوی ہیں جیسے مادی دنیا کے وجود کا علم ۔

____________________

(۱) Imanuel Kant

۱۵۸

۲ ہدایت کے اسباب اور موانع

قرآن مجید نے انسان کے تنزل کے عام اسباب اور برائی کی طرف رغبت کو تین چیزوں میں خلاصہ کیا ہے:

۱. ہوائے نفس : ہوائے نفس سے مراد باطنی ارادوں کی پیروی اور محاسبہ کرنے والی عقلی قوت سے استفادہ کئے بغیر ان کو پورا کرنا اور توجہ کرنا اور انسان کی سعادت یا بدبختی میں خواہشات کو پورا کرنے کا کردار اور اس کے نتائج کی تحقیق کرنا ہے ۔ اس طرح خواہشات کو پورا کرنا ، حیوانیت کو راضی کرنا اور خواہشات کے وقت حیوانیت کو انتخاب کرنے کے معنی میں ہے ۔

۲. دنیا: دنیاوی زندگی میں انسان کی اکڑ اور غلط فکر اس کے انحراف میں سے ایک ہے دنیاوی زندگی کے بارے میں سونچنے میں غلطی کے یہ معنی ہیں کہ ہم اس کو آخری و نہائی ہدف سمجھ بیٹھیںاور دائمی سعادت اور آخرت کی زندگی سے غفلت کریں، یہ غلطی بہت سی غلطیوں اور برائیوں کا سر چشمہ ہے ،انبیاء کے اہداف میں سے ایک ہدف دنیا کے بارے میں انسانوں کی فکروں کو صحیح کرنا تھا اور دنیاوی زندگی کی جو ملامت ہوئی ہے وہ انسانوں کی اسی فکر کی بنا پر ہے ۔

۳. شیطان : قرآن کے اعتبار سے شیاطین (ابلیس اور اس کے مددگار) ایک حقیقی مخلوق ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے اور برائی کی طرف کھینچنے کا عمل انجام دیتے ہیں ۔ شیطان برے اور پست کاموں کو مزین اور جھوٹے وعدوں اور دھوکہ بازی کے ذریعہ اچھے کاموں کے انجام دینے کی صورت میں یا ناپسندیدہ کاموں کے انجام نہ دینے کی وجہ سے انسان کو اس کے مستقبل سے ڈراتے ہوئے غلط راستہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ شیطان مذکورہ نقشہ کو ہوائے نفس کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور خواہش نفس کی تائید کرتا ہے نیزاس کی مدد کرتا ہے ۔

قرآن کی روشنی میں پیغمبروں ، فرشتوں کے کردار اور خدائی امداد سے انسان نیک کاموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس راہ میں وہ سرعت کی باتیں کرتاہے ۔

۱۵۹

انبیاء انسان کو حیوانی غفلت سے نجات دے کر مرحلہ انسانیت میں وارد کرتے ہیں اور دنیا کے سلسلہ میں اپنی نصیحتوں کے ذریعہ صحیح نظریہ کو پیش کرکے انسان کی حقیقی سعادت اور اس تک پہونچنے کی راہ کو انسان کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

اور خوف و امید کے ذریعہ صحیح راستہ اور نیکیوں کی طرف حرکت کے انگیزہ کو انسان کے اندر ایجاد کرتے ہیں بلکہ صحیح راہ کی طرف بڑھنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے تمام ضروری اسباب اس کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

جو افراد ان شرائط میں اپنی آزادی اور اختیار سے صحیح استفادہ کرتے ہیں ان کے لئے مخصوص شرائط میں بالخصوص مشکلات میں فرشتے مدد کے لئے آتے ہیں اور ان کو صحیح راہ پر لگادیتے ہیں۔ سعادت کی طرف قدم بڑھانے ، اہداف کو پانے اور مشکلات کو حل اور موانع کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔

خدا کی عام اور مطلق امداد کے علاوہ اس کی خصوصی امداد بھی ان فریب زدہ انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اور اسی خصوصی امداد کے ذریعہ شیطان کی تمام قوتوں پر غلبہ پاکر قرب الٰہی کی طرف راہ کمال کو طے کرنے میں مزید سرعت پیدا ہوجاتی ہے وہ سو سال کی راہ کو ایک ہی شب میں طے کرلیتے ہیں،یہ امداد پروپگنڈوں کے ختم کرنے کا سبب بھی ہوتی ہے جو اپنی اور دوسروں کی سعادت میں صالح انسانوں کے بلند اہداف کی راہ میں دشمنوں اور ظالم قوتوں اور شیطانی وسوسوں کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں ۔(۱)

مغربی انسان شناسوں کی نگاہ میں انسان کی فطرت

''ناٹالی ٹربوویک ''دور حاضر کا امریکی نفس شناس نے انسان کے بارے میں چند اہم سوالوں اور

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ، محمد تقی مصباح کی اخلاق در قرآن ؛ ج۱ ص ۱۹۳۔۲۳۶۔

۱۶۰