انسان شناسی

انسان شناسی0%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محمود رجبی
زمرہ جات:

صفحے: 307
مشاہدے: 136386
ڈاؤنلوڈ: 3953

تبصرے:

انسان شناسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136386 / ڈاؤنلوڈ: 3953
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

ان کے جوابات کو فلسفی اور تجربی انسان شناسوں کی نگاہ سے ترتیب دیا ہے جس کو پروفیسر ''ونس پاکرڈ''نے ''عناصر انسان ''نامی کتاب میں پیش کیا ہے ،ہم ان سوالات میں سے دو مہم سوالوں کو جو انسان کی فطرت سے مربوط ہیںیہاں نقل کر رہے ہیں ۔(۱)

پہلا سوال یہ ہے کہ انسان کی فطرت کیا ذاتاً اچھی ہے یا بری ہے یا نہ ہی اچھی ہے اور نہ ہی بری ؟

منفی نظریات

فرایڈ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ : انسان ایک منفی اور مخالف سرشت کا مالک ہے اور وہ ایسے غرائزسے برانگیختہ ہوتا ہے جس کی جڑیں زیست شناسی سے تعلق رکھتی ہیں ۔ خاص طور سے جنسی خواہشات(۲) اور پر خاش گری کو(۳) فقط اجتماعی معاملات سے قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔

نظریہ تجربہ گرا کے حامی(۴) : (ہابز )کے لحاظ سے انسان فقط اپنی منفعت کی راہ میں حرکت کرتا ہے ۔

نظریہ سود خوری(۵) : (بنٹام ہیل) کے مطابق انسان کے تمام اعمال اس کی تلاش منفعت کا نتیجہ ہیں ۔

نظریہ لذت گرا کے نمائندے کہتے ہیں کہ(۶) : انسان لذت کے ذریعہ اپنی ضرورت حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے اور رنج سے دوچار ہونے سے فرار کرتا ہے ۔

____________________

(۱) Vance Pakard,The People Shapers,PP.۳۶۱,Biston,Toronto,۱۹۷۷

اس کتاب کو جناب حسن افشار نے ''آدم سازان '' کے عنوان سے ترجمہ اور انتشارات بہبہانی نے ۱۳۷۰میں منتشر کیا ہے اور ہم نے جناب حسن افشار کے ترجمہ کو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

(۲) sex

(۳) aggression

(۴) empiricists

(۵) utillitarians

(۶) hedonists

۱۶۱

نظریہ افعال گرایان کے حامی(۱) : (لورنز ) کا کہنا ہے انسان ذاتی طور پر برا ہے یعنی اپنے ہی ہم شکلوں کے خلاف ناراضگی کی وجہ سے دنیا میں آیا ہے ۔

آرتھونلک کا ماہر نفسیات(۳) : (نیوبلڈ(۴) ): انسان کی ناراضگی کے سلسلہ میں اس گروہ کا نظریہ بھی عقیدہ افعال گرایان کے مشابہ ہے ۔

دوسرا سوال اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کا حیوانات سے جدا ہونا ماہیت کے اعتبار سے ہے یا مرتبہ حیوانیت کے اعتبار سے ہے ؟اس سلسلہ میں مختلف نظریات بیان کئے گئے ہیں جن میں سے بعض نظریات کو ''ناٹالی ٹربوویک '' نے سوال و جواب کی صورت میں یوں پیش کیا ہے :

انسان و حیوان ایک مخصوص طرز عمل کی پیروی کرتے ہیں یا انسان میں ایسے نظری ارادے ہیں جو حیوانی ضرورتوں سے بہت بالا ہیں ؟

صلح پسندی کے مدعی (ہیوم ، ہارٹلی)کا کہنا ہے:انسان کے طریقہ عمل میں دوسرے تمام حیوانات کے طریقہ عمل کی طرح کچھ ضدی چیزیں ہیں جو خود بخود حساس ہوجاتی ہیں ۔

عقیدہ ٔ تجربہ گرائی کے ہمنوا( ہابز)کے مطابق:انسان کی فطرت بالکل مشینی انداز میں ہے جو قوانین حرکت کی پیروی کرتا ہے ،انسان کے اندر روح کے عنوان سے کوئی برتری کی کیفیت نہیں ہے ۔

____________________

(۱)" ethologists "کردار شناسی ( ethology )ایسا کردار و رفتاری مطالعہ ہے جو جانور شناسی کی ایک شاخ کے عنوان سے پیدا ہوا ہے اور بہت سی انواع و اقسام کی توصیفِ رفتار اور مشاہدہ کی مزید ضرورت کی تاکید کرتا ہے ۔ تفسیر رفتار بہ عنوان نتیجہ، تکامل انسان کے طبیعی انتخاب کا سرچشمہ ہے ، لیکن بعد میں اس کا اطلاق انسان و حیوان کے انتخابی پہلو پر ہونے لگا اور اس وقت حضوری گوشوں پر اطلاق ہوتا تھا اور آج کل علم حیات کی طرف متمائل ہوگیا ہے

(۲) Lorenz

(۳) orthonoleculer Psychiatrists

(۴) Newbold

۱۶۲

فرایڈ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ : انسان تمام حیوانوں کی طرح فقط غریزی خواہشوں کے فشار(۱) کو کنٹرول کر سکتا ہے ۔ اس خواہش کو شرمندۂ تعبیر حیاتی ضرورتیں وجود میں لاتی ہیں ۔ انسان کا طریقۂ عمل، لذت کی طرف میلان اور رنج و الم سے دوری کی پیروی کرنا ہے حتی وہ طریقۂ عمل جو ایسا لگتا ہے کہ بلند و بالا اہداف کی بنیاد پر ہے حقیقت میں وہ بہت ہی پست مقاصد کو بیان کرتا ہے ۔

عقیدہ کردار و افعال کے علمبردار(ا سکینر)کے مطابق : طریقۂ عمل چاہے انسان کاہو، چاہے حیوان کاسبھی شرائط کے پابند ہیں کبھی انسان کے طریقۂ عمل پر نگاہ ہوتی ہے لیکن اس چیز پر نگاہ نہیں ہوتی جو انسان کے طریقۂ عمل کو حیوان کے طریقہ عمل سے جدا کردے جیسے ''آزادنہ ارادہ ، اندرونی خواہش اور خود مختار ہونا''اس طرح کے غلط مفاہیم ،بے فائدہ اور خطرناک ہیں چونکہ انسان کی اس غلط فکر کی طرف رہنمائی ہوتیہے کہ وہ ایک خاص مخلوق ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔

عقیدہ عقل ( ڈکارٹ ) : پست حیوانات مشین کی طرح ہیں یعنی ان کا طریقۂ عمل بعض مادی قوانین کے تحت ہے اور انسان حیوانی فطرت کے علاوہ عقلی فطرت بھی رکھتا ہے جو اسے قضاوت ، انتخاب اور اپنے آزاد ارادہ کے انجام دینے کی اجازت دیتی ہے ۔

فرایڈ کے جدید ماننے والے ( فروم ، اریکسن) کے مطابق: انسان ایسی توانائی رکھتا ہے جو زندگی کی سادہ ضرورتوں پر راضی ہونے سے بالا تر ہے اور وہ اچھائیاں تلاش کرنے کے لئے فطری توانائی رکھتا ہے ۔ لیکن یہ بات کہ وہ انہیں کسب کرسکے گا یا نہیں ، اجتماعی اسباب پر منحصر ہے، انسان کے اچھے کام ہوسکتے ہیں کہ بلند و بالا ارادے سے آغاز ہو ںلہٰذا وہ فقط پست اہداف سے منحرف نہیں ہوتے ہیں ۔

انسان محوری کے شیدائی( مازلو، روجرز ) کے مطابق: انسان کی فطرت حیوان کی فطرت سے بعض جہتوں میں برتر ہے، ہر انسان یہ قابلیت رکھتا ہے کہ کمال کی طرف حرکت کرے اور خود کو نمایاں

____________________

(۱) Tensions

۱۶۳

کرے، نامناسب ماحول کے شرائط وغیرہ مثال کے طور پر فقیر آدمی کا اجتماعی ماحول، جو اپنے تہذیب نفس کی ہدایت کو غلط راستہ کی طرف لے جاکر نابود کردیتاہے یہ ایسی ضرورتیںہیں جو انسان کے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن حیوان کے لئے باعث اہمیت نہیں ہیں مثال کے طور پر محبت کی ضرورت ، عزت اعتبار ، صحت ، احترام کی ضرورت اور اپنی فہم کی ضرورت وغیرہ ۔

عقیدۂ وجود کے پرستار( سارٹر) کے بہ قول : انسان اس پہلو سے تمام حیوانوں سے جدا ہے کہ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کے اعمال کی ذمہ داری فقط اسی پر ہے ،یہی معرفت انسان کو تنہائی اور ناامیدی سے باہر لاتی ہے اور یہ چیزانسان ہی سے مخصوص ہے ۔

مبہم نظریات

نظریہ افعال گرائی کے حامی(۱) (واٹسن(۲) ، ا سکینر(۳) )کے مطابق : انسان ذاتاً اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ ماحول اس کو اچھا یا برا بناتا ہے ۔

معاشرہ اور سماج گرائی نظریہ (بانڈورا(۴) ، مائکل(۵) )کے مطابق :اچھائی یا برائی انسان کو ایسی چیز کی تعلیم دیتے ہیں جو اس کے لئے اجر کی سوغات پیش کرتے ہیںاور اس کو سزا سے بچاتے ہیں ۔

وجود گرائی کا نظریہ (سارٹر)کے بہ قول : انسان ذاتاً اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ وہ جس عمل کو انجام دیتا ہے اس کی ذاتی فطرت پر اثر انداز ہوتا ہے ،لہٰذا اگر تمام لوگ اچھے ہوں تو انسان کی فطرت بھی اچھی ہے اور اسی طرح بر عکس۔

____________________

(۱) Behaviorists

(۲) Watson

(۳) Skinner

(۴) Bandura

(۵) Mischel

۱۶۴

مثبت نظریات

فرایڈ کے جدید ماننے والے ( فروم ، اریکسن ) :

انسان کے اچھے ہونے کے لئے اس کے اندر مخصوص توانائی موجود ہے لیکن یہ کہ وہ اچھا ہے یا نہیں ، اس معاشرہ سے مربوط ہے جس میں وہ زندگی گذاررہا ہے اور ان دوستوں سے مربوط ہے جس کے ساتھ خاص طور سے بچپنے میں رابطہ رکھتا تھا فرایڈ کے نظریہ کے برخلاف اچھے اعمال فطری زندگی کی ضرورتوں سے وجود میں نہیں آتے ہیں ۔

انسان محوری(۲) ( مازلو(۳) ، روجرز(۴) ):

انسان کے اندرنیک ہونے اور رہنے کی قابلیت موجود ہے اور اگر اجتماعی ضرورتیں یا اس کے غلط ارادہ کی دخالت نہ ہو تو اس کی اچھائی ظاہر ہو جائے گی ۔

رومینٹکس افراد(۵) ( روسو) انسان اپنی خلقت کے وقت سے ایک اچھی طبیعت کا مالک ہے اور جو وہ براعمل انجام دیتا ہے وہ اس کی ذات میں کسی چیز کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ برے معاشرہ کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) Erikson.(۲)humanists.(۳)Maslow.(۴)Rogers

(۵) romanticists رومانی انداز، فنون اور بین الاقوامی عقیدہ فلسفہ میں غالباً (نئے کہن پرستی کے مقابلہ میں اور مکانیزم و عقل پرستی سے پہلے)مغربی یورپ اور روس میں ۱۸ویں صدی کے آخراور ۱۹ویں صدی کے آغاز تک چھا گیا تھا ۔رومانیزم فطرت کی طرف سادہ انداز میں بازگشت کے علاوہ غفلت یعنی میدان تخیل اور احساس تھا ،نفسیات شناسی کے مفاہیم اور موضوعات سے مرتبط، بیان ، سادہ لوحی ، انقلابی اور بے پرواہی اور حقیقی لذت ان کے جدید تفکر میں بنیادی اعتبار رکھتا ہے۔ رومانیزم ،ظاہر بینی ،ہنر و افکاراور انسان کے مفاہیم میں محدودیت کے خلاف ایک خاص طغیان تھا اوراپنے فعل میں تاکید بھی کرتے تھے کہ جہان کو درک کرنے والا اس پر مقدم ہے ، یہیں سے نظریۂ تخیل محور و مرکز قرار پاتا ہے ۔

۱۶۵

چھٹی فصل :

نظام خلقت میں انسان کا مقام

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات

۱.خلافت ، کرامت اور انسان کے امانت دار ہونے کے مفاہیم کی وضاحت کریں ؟

۲.آیات قرآن کی روشنی میں انسان کے خلیفة اللہ ہونے کی وضاحت کریں؟

۳.خلافت کے لئے ،حضرت آدم کے شایستہ و سزاوار ہونے کا معیار بیان کریں ؟

۴.کرامت انسان سے کیا مراد ہے اس کو واضح کریں نیزقرآن کی روشنی میں اس کے اقسام

کو ذکرفرمائیں ؟

۵.ذاتی اور کسبی کرامت کی وضاحت کریں ؟

۱۶۶

دو فصل پہلے ہم ذکر کرچکے ہیں کہ قرآن مجید انسان کی موجودہ نسل کی تخلیق کو حضرت آدم کی خلقت سے مخصوص جانتا ہے اور انسانوں کے تفکر ، خواہشات اور غیر حیوانی توانائی سے استوار ہونے کی تاکید کرتا ہے ،حضرت آدم اور ان کی نسل کی آفرینش سے مربوط آیات گذشتہ دو فصلوں میں بیان کی گئی آیات سے زیادہ ہیںجس میں حضرت آدم کی خلافت و جانشینی نیزدوسرے موجودات پر انسان کی برتری و کرامت اور دوسری طرف انسان کی پستی ، تنزلی دوسری مخلوقات سے بھی گر جانے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ،انسان کی خلافت کے مسئلہ اور اس کی کرامت کے بارے میں قرآن مجید نے دو اعتبار سے لوگوںکے سامنے متعدد سوالات اٹھائے ہیں ،جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں ۔

۱.حضرت آدم کی جانشینی سے مراد کیا ہے اور وہ کس کے جانشین تھے ؟

۲.آیا خلافت اور جانشینی حضرت آدم سے مخصوص ہے یا ان کی نسل بھی اس سے بہر مند ہو سکتی ہے ؟

۳.حضرت آدم کا خلافت کے لئے شایستہ و سزاوار ہونے کا معیارکیا ہے اور کیوں دوسری مخلوقات خلافت کے لائق نہیں ہیں ؟

۴. انسان کی برتری اور کرامت کے سلسلہ میں قرآن میں دو طرح کے بیانات کا کیا راز ہے؟ کیا یہ بیانات ، قرآن کے بیان میں تناقض کی طرف اشارہ نہیں ہیں ؟ اسی فصل میں ہم خلافت الٰہی اور کرامت انسان کے عنوان کے تحت مذکورہ سوالات کا جائزہ و تحلیل اور ان کے جوابات پیش کریں گے ۔

۱۶۷

خلافت الٰہی

اولین انسان کی خلقت کے سلسلہ میں قرآن مجید کی آیات میں ذکر کئے گئے مسائل میں سے ایک انسان کا خلیفہ ہونا ہے ،سورۂ بقرہ کی ۳۰ ویں آیہ میں خداوند عالم فرماتا ہے :

( وَإذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلائِکَةِ إِنِّی جَاعِل فِی الأرضِ خَلِیفَةً قَالُوا أ تَجعَلُ فِیهَا مَن یُفسِدُ فِیهَا وَ یَسفِکُ الدِّمَائَ وَ نَحنُ نُسَبِّحُ بِحَمدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَعلَمُ مَا لا تَعلَمُونَ )

اور( یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک نائب زمین میں بنانے والا ہوں تو کہنے لگے: کیا تو زمین میں ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو زمین میں فساد اور خونریزیاں کرتا پھرے حالانکہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی ثابت کرتے ہیں، تب خدا نے فرمایا :اس میں تو شک ہی نہیں کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔

خلیفہ اور خلافت ، ''خلف''سے ماخوذہے جس کے معنی پیچھے اور جانشین کے ہیں ،جانشین کا استعمال کبھی تو حسی امور کے لئے ہوتاہے جیسے( وَ هُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیلَ وَ النَّهَارَ خِلفَةً... ) (۱) ''اور وہی تو وہ(خدا) ہے جس نے رات اور دن کو جانشین بنایا ...''اور کبھی اعتباری امور کے لئے جیسے( یَا دَاودُ إِنَّا جَعَلنَاکَ خَلِیفَةً فِی الأرضِ فَأحکُم بَینَ النَّاسِ بِالحَقِّ ) اے داوود !ہم نے تم کو زمین میں نائب قرار دیا تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹھیک فیصلہ کیا کرو،(۲) اور کبھی غیر طبیعی حقیقی امور میں استعمال ہوتا ہے جیسے حضرت آدم کی خلافت جو سورہ

____________________

(۱)فرقان ۶۲۔

(۲)ص۲۶۔

۱۶۸

بقرہ کی ۳۰ ویں آیہ میں مذکور ہے ۔

حضرت آدم کی خلافت سے مراد انسانوں کی خلافت یا ان سے پہلے دوسری مخلوقات کی خلافت نہیں ہے بلکہ مراد ، خدا کی خلافت و جانشینی ہے ،اس لئے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ : '' میں جانشین قرار دوںگا'' یہ نہیں فرمایا کہ '' کس کا جانشین '' مزید یہ کہ فرشتوں کے لئے جانشینی کا مسئلہ پیش کرنا ، ان میں آدم کا سجدہ بجالانے کے لئے آمادگی ایجاد کرنا مطلوب تھا اور اس آمادگی میں غیر خدا کی طرف سے جانشینی کا کوئی کردار نہیں ہے،اس کے علاوہ جیسا کہ فرشتوں نے کہا : کیا اس کو خلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرتا ہے جب کہ ہم تیری تسبیح و تحلیل کرتے ہیں، اصل میں یہ ایک مؤدبانہ درخواست تھی کہ ہم کو خلیفہ بنادے کیوں کہ ہم سب سے بہتر و سزاوار ہیں اور اگر جانشینی خدا کی طرف سے مد نظر نہ تھی تو یہ درخواست بھی بے وجہ تھی ،اس لئے کہ غیر خدا کی طرف سے جانشینی اتنی اہمیت نہیں رکھتی ہے کہ فرشتے اس کی درخواست کرتے ،نیز غیرخدا سے جانشینی حاصل کرنے کے لئے تمام اسماء کا علم یا ان کو حفظ کرنے کی توانائی لازم نہیں ہے ،پس خلافت سے مراد خداوند عالم کی جانشینی ہے ۔

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ خداوند عالم کی جانشینی صرف ایک اعتباری جانشینی نہیں ہے بلکہ تکوینی جانشینی ہے جیسا کہ آیہ کے سیاق و سباق سے یہ نکتہ بھی واضح ہوجاتا ہے، خداوند عالم فرماتا ہے:( وَ عَلّمَ آدمَ الأسمَائَ کُلَّهَا ) ''اور خدا وند عالم نے حضرت آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی''فرشتوں کو خدوند عالم کی طرف سے جناب آدم کے سجدہ کرنے کا حکم ہونااس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ خلافت ،خلافت تکوینی (عینی حقائق میں تصرف)کو بھی شامل ہے۔(۱) خلافت تکوینی کاعالی رتبہ ، خلیفة اللہ کو قوی بناتا ہے تاکہ خدائی افعال انجام دے سکے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ولایت تکوینی کا مالک ہو جائے ۔

____________________

(۱)تشریعی خلافت سے مراد ، لوگوں کی ہدایت اور قضاوت کے منصب کا عہدہ دار ہونا ہے ۔اور خلافت تکوینی سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص خدا کے ایک یا چندیا تمام اسماء کا مظہر بن جائے اور صفات باری تعالی اس کے ذریعہ مرحلۂ عمل یا ظہور میں واقع ہوں۔

۱۶۹

خلافت کے لئے حضرت آدم کے شائستہ ہونے کا معیار

آیت کریمہ کے ذریعہ( وَ عَلَّمَ آدمَ الأسمَائَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُم عَلَیٰ المَلائِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِی بِأَسمَآئِ هٰؤُلآئِ إن کُنتُم صَادِقِینَ ) (۱) ''اور حضرت آدم کو تمام اسماء کا علم دے دیا پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان اسماء کے نام بتاؤ ''یہ اچھی طرح سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خلافت خدا کے لئے حضرت آدم کی معیار قابلیت ،تمام اسماء کا علم تھا۔ اس مطلب کو سورۂ بقرہ کی ۳۳ ویں آیہ بھی تائید کرتی ہے ۔

لیکن یہ کہ اسماء سے مراد کیا ہے اور خدا وند عالم نے کس طرح حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی تعلیم دی اور فرشتے ان اسماء سے کیونکر بے خبر تھے اس سلسلہ میں بہت زیادہ بحث ہوئی ہے جس کو ہم پیش نہیں کریں گے فقط ان میں سے پہلے مطلب کو بطور اختصار ذکر کریں گے ،آیات قرآن میں وضاحت کے ساتھ یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ ان اسماء سے مراد کن موجودات کے نام ہیں اور روایات میں ہم دو طرح کی روایات سے رو برو ہیں، جس میں سے ایک قسم نے تمام موجودات کے نام اور دوسری قسم نے چہاردہ معصومین کے نام کو ذکر کیا ہے ۔(۲) لیکن حضرت آدم کی خلافت تکوینی کی وجہ اور اس بات پر قرآن کی تائید کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو اسماء کا علم دیا سے مراد یہ ہے کہ موجودات، فیض خدا کا وسیلہ بھی ہوں اور خدا وند عالم کے اسماء بھی ہوںاور کسی چیز سے چشم پوشی نہ ہوئی ہو ۔

مخلوقات کے اسماء سے حضرت آدم کا آگاہ ہونا اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی طرف سے خلافت اور جانشینی کے حدود کو ان کے اختیار میں قرار دیاجائے ۔اور اسماء خداوند عالم کے جاننے کا مطلب ، مظہر اسماء الہٰی ہونے کی قدرت ہے یعنی ولایت تکوینی کا ملنا ہے اور اسماء کا جاننا ، فیض الہی کا ذریعہ ہے ،یہ ان کو خلافت کے حدود میں تصرف کے طریقے بتاتا ہے اور اس وضاحت سے ان دو

____________________

(۱)بقرہ ۳۱۔

(۲)ملاحظہ ہو: مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ، ج۱۱ ص ۱۴۵۔ ۱۴۷، ج ۲۶، ص ۲۸۳۔

۱۷۰

طرح کی روایات کے درمیان ظاہری اختلاف اور ناہماہنگی بر طرف ہو جاتی ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسماء سے مراد اس کا ظاہری مفہوم نہیں ہے جس کو ایک انسان فرض ، اعتبار اور وضع کرتا ہے، اسی طرح ان اسماء کی تعلیم کے معنی بھی ان الفاظ و کلمات کا ذہن میں ذخیرہ کرنا نہیں ہے ،اس لئے کہ مذکورہ طریقہ سے ان اسماء کا جاننا کسی بھی صورت میں خلافت الٰہی کے لئے معیار قابلیت اور خلافت تکوینی کے حصول کے لئے کوئی اہم رول نہیں ادا کرسکتا ہے ،اس لئے کہ اگر علم حصولی کے ذریعہ اسماء وضعی اور اعتباری حفظ کرنا اور یاد کرنا مراد ہوتا توحضرت آدم کے خبر دینے کے بعد چونکہ فرشتہ بھی ان اسماء سے آگاہ ہوگئے تھے لہٰذا انھیں بھی خلافت کے لائق ہونا چاہیئے تھا بلکہ اس سے مراد چیزوں کی حقیقت جاننا ان کے اور اسماء خداوند عالم کے بارے میں حضوری معرفت رکھنا ہے جو تکوینی تصرف پر قدرت کے ساتھ ساتھ حضرت آدم کے وجود کی برتری بھی ہے ۔(۱)

حضرت آدم کے فرزندوں کی خلافت

حضرت آدم کے تخلیق کی گفتگو میں خداوند عالم کی طرف سے خلافت اور جانشینی کا مسئلہ بیان ہوچکا ہے ۔ اور سورۂ بقرہ کی ۳۰ ویں آیت نے بہت ہی واضح خلافت کے بارے میں گفتگو کی ہے ۔ اب یہ سوال در پیش ہے کہ کیا یہ خلافت حضرت آدم سے مخصوص ہے یا دوسرے افراد میں بھی پائی جاسکتی ہے ؟

____________________

(۱)بعض مفسرین نے احتمال دیا ہے کہ ''اسمائ''کا علم مافوقِ عالم و ملائکہ ہے ؛ یعنی اس کی حقیقت ملائکہ کی سطح سے بالاترہے کہ جس عالم میں معرفت وجودمیں ترقی اور وجود ملائکہ کے رتبہ و کمال سے بالاتر کمال رکھنا ہے اور وہ عالم ، عالم خزائن ہے جس میں تمام اشیاء کی اصل و حقیقت ہے اور اس دنیا کی مخلوقات اسی حقیقت اور خزائن سے نزول کرتے ہیں (وَ إِن مِّن شَییٍٔ ِلا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَ مَا نُنَزِّلُهُ ِلا بِقَدَرٍ مَّعلُومٍ )(حجر ۲۱)''اور ہمارے یہاں تو ہر چیز کے بے شمار خزانے پڑے ہیں اور ہم ایک جچی،تلی مقدار ہی بھیجتے رہتے ہیں ''ملاحظہ ہو: محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ؛ کے ذیل آیہ سے ۔

۱۷۱

جواب یہ ہے کہ :مذکورہ آیہ حضرت آدم کی ذات میں خلافت کے انحصار پر نہ فقط دلالت نہیں کرتی ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جملہ( أَ تَجعَلُ فِیهَا مَن یُفسِدُ فِیهَا وَ یَسفِکُ الدِّمَائَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خلافت حضرت آدم کی ذات سے منحصر نہیں ہے ، اس لئے کہ اگر صرف حضرت آدم سے خلافت مخصوص ہوتی تو چونکہ حضرت آدم معصوم ہیں اور معصوم فساد و خونریزی نہیں کرتا ہے لہٰذا خداوند عالم فرشتوں سے یہ فرما سکتا تھا کہ : آدم فساد اور خونریزی نہیں کرے گا ،البتہ یہ شبہ نہ ہو کہ تمام افراد بالفعل خدا کے جانشین و خلیفہ ہیں ،اس لئے کہ یہ کیسے قبول کیا جاسکتا ہے کہ مقرب الٰہی فرشتے جس مقام کے لائق نہ تھے اور جس کی وجہ سے حضرت آدم کا سجدہ کیا تھا ، وہ تاریخ کے بڑے بڑے ظالموں کے اختیار میں قرار پائے اوروہ خلافت کے لائق بھی ہوں ؟!پس یہ خلافت حضرت آدم اور ان کے بعض فرزندوں سے مخصوص ہے جو تمام اسماء کا علم رکھتے ہیں ،لہٰذا اگرچہ نوع انسان خدا کی جانشینی اور خلافت کا امکان رکھتا ہے لیکن جو حضرات عملی طور پر اس مقام کو حاصل کرتے ہیں وہ حضرت آدم اور ان کی بعض اولادیں ہیں جو ہر زمانہ میں کم از کم ان کی ایک فرد سماج میں ہمیشہ موجود ہے اور وہ روئے زمین پر خدا کی حجت ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جس کی روایات میں بھی تاکید ہوئی ہے ۔(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ الاصول من الکافی ؛ ج۱، ص ۱۷۸ و ۱۷۹۔

۱۷۲

کرامت انسان

انسان کی کرامت کے سلسلہ میں قرآن مجیدکا دو پہلو بیان موجود ہے :قرآن مجید کی بعض آیات میں انسان کی کرامت ، شرافت اور دوسری مخلوقات پر اس کی برتری کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اور بعض آیات میں انسان کی تذلیل اور اس کو حیوانات سے پست بیان کیا گیاہے مثال کے طورپر سورۂ اسراء کی ۷۰ویں آیت میں خداوند عالم نے بنی آدم کی تکریم کی ہے اور بہت سی دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں اس کی برتری بیان ہوئی ہے ۔(۱) سورۂ تین کی چوتھی آیہ اور سورۂ مومنون کی ۱۴ ویں آیہ میں انسان کی بہترین اندازمیں خلقت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے(۲) اور دوسری بہت سی آیات میں یوں مذکور ہے کہ جو کچھ بھی زمینوں و آسمانوں میں ہے انسان کے لئے مسخر یا اس کے لئے پیدا کی گئی ہے(۳) اور ملائکہ نے اس کا سجدہ کیا ہے، وہ تمام اسماء کا جاننے والا، مقام خلافت(۴) اور بلند درجات(۵) کاحامل ہے، یہ تمام چیزیں دوسری مخلوقات پر انسان کی برتری ، شرافت اور کرامت کی طرف اشارہ ہے،اور دوسری طرف ضعیف ہونا(۶) ، لالچی ہونا(۷) ، ظالم و ناشکرا(۸) اور جاہل ہونا(۹) ، چوپائے کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہونا ۰ ) اور پست ترین

____________________

(۱)(وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدمَ وَ حَمَلنَاهُم فِی البَرِّ وَ البَحرِ وَ رَزَقنَاهُم مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلنَاهُم عَلَیٰ کَثِیرٍ مِّمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً )(اسراء ۷۰)اورہم نے یقینا آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی اور تری میں ان کو لئے پھرے اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں اور اپنے بہتیرے مخلوقات پر ان کو فضیلت دی ۔(۲)(لَقَد خَلَقنَا الِنسَانَ فِی أَحسَنِ تَقوِیمٍ )(تین۴)یقینا ہم نے انسان کو بہت اچھے حلیے (ڈھانچے)میں کا پیدا کیا ۔(فَتَبَارَکَ اللّٰهُ أَحسَنُ الخَالِقِینَ )(مومنون۱۴)تو خدا بابرکت ہے جو سب بنانے والوں میں بہتر ہے ۔(۳)(أ لَم تَرَوا أَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَکُم مَا فِی السَّمَٰوَاتِ وَ مَا فِی الأرضِ وَ أَسبَغَ عَلَیکُم نِعمَهُ ظَاهِرةً وَ بَاطِنَةً )( لقمان ۲۰) کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیںکیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے خدا ہی نے یقینی تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں ۔(هُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فِی الأرضِ جَمِیعاً )(بقرہ ۲۹)اور وہی تو وہ (خدا)ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزوں کو پیدا کیا۔ (۴)یہ آیات خلافت الٰہی کی بحث میں بیان ہوچکی ہیں ۔(۵)اس حصہ کی آیتیں بہت زیادہ ہیں اور ان کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔(۶)(وَ خُلِقِ الإنسَانُ ضَعِیفاً )(نساء ۲۸)اور انسان کمزور خلق کیا گیا ہے ۔(۷)(إنَّ النسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً )(معارج ۱۹)یقینا انسان بہت لالچی پیدا ہوا ہے (۸)(إنَّ النسَانَ لَظَلُوم کَفَّار )(ابراہیم،۳۴) یقینا انسان بڑاناانصاف اور ناشکرا ہے ۔(۹)(إِنَّهُ کَانَ ظَلُوماً جَهُولاً )( احزاب ۷۲)یقینا انسان بڑا ظالم و جاہل ہے۔(۱۰)(أُولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ )(اعراف ۱۷۹)وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ۔

۱۷۳

درجہ میں ہونا(۱) یہ وہ امور ہیں جو قرآن مجید کی بعض دوسری آیات میں بیان ہوا ہے ۔ اور دوسری مخلوقات پرانسان کی عدم برتری کی علامت ہے بلکہ ان کے مقابلہ میں انسان کے پست تر ہونے کی علامت ہے،کیا یہ دوطرح کی آیات ایک دوسرے کی متناقض ہیں یا ان میں سے ہر ایک کسی خاص مرحلہ کو بیان کررہی ہے یا مسئلہ کسی اور انداز میں ہے ؟

مذکورہ آیات میں غور و فکر ہمیں اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ انسان قرآن کی نظر میں دو طرح کی کرامت رکھتا ہے :

کرامت ذاتی یا وجود شناسی اور کرامت اکتسابی یا اہمیت شناسی ۔

کرامت ذاتی

کرامت ذاتی سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو ایسا خلق کیا ہے کہ جسم کی بناوٹ کے اعتبار سے بعض دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں زیادہ امکانات و سہولت کا حامل ہے یا اس کے امکانات کی ترکیب و تنظیم اچھے انداز میں ہوئی ہے، بہر حال بہت زیادہ سہولت اور توانائی کا حامل ہے اس طرح کی کرامت ، نوع انسان پر خداوند عالم کی مخصوص عنایت کا اشارہ ہے جس سے سبھی مستفیض ہیں، لہٰذا کوئی یہ حق نہیں رکھتا ہے کہ ان چیزوں سے مزین ہونے کی بنا پر دوسرے مخلوق کے مقابلہ میں فخر کرے اور ان کو اپنا انسانی کمال اور معیار اعتبار سمجھے یا اس کی وجہ سے مورد تعریف قرار پائے ،بلکہ اتنی سہولت والی ایسی مخلوق تخلیق کرنے کی وجہ سے خداوند عالم کی حمد و تعریف کرنا چاہیئے ۔ جس طرح وہ خود فرماتا ہے( فَتَبَارَکَ اللّٰهُ أحسَنُ الخَالِقِینَ ) اور سورۂ اسراء کی ۷۰ ویں آیہ( وَ لَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدمَ وَ حَمَلنَاهُم فِی البَرِّ وَ البَحرِ وَ رَزَقنَاهُم مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلنَاهُم عَلیٰ کَثِیرٍ مَمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً ) (۲) اور بہت سی آیات جو دنیا اورمافیہا کو انسان کے لئے

____________________

(۱)(ثُمّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ )(تین۵)پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیردیا۔

(۲)سورۂ اسراء ۷۰

۱۷۴

مسخر ہونے کوبیان کرتی ہیں جیسے ''( وَ سَخَّرَ لَکُم مَا فِی السَّمَٰوَاتِ وَ مَا فِیالأرضِ جَمِیعاً مِنهُ ) (۱) اور جیسے (خَلَقَ لَکُم مَا فِی الأرضِ جَمِیعاً)وغیرہ تمام آیات صنف انسان کی کرامت تکوینی پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور( خُلِقَ الِإنسَانُ ضَعِیفاً ) (۲) جیسی آیات اور سورہ ٔ اسراء کی ۷۰ ویں آیہ جو کہ بہت سی مخلوقات (نہ کہ تمام مخلوقات)پر انسان کی برتری کو پیش کرتی ہے یعنی بعض مخلوقات پر انسان کی ذاتی عدم برتری کی یاد آوری کرتی ہے ۔(۳)

کرامت اکتسابی

اکتسابی کرامت سے مراد ان کمالات کا حاصل کرنا ہے جن کو انسان اپنے اختیاری اعمال صالحہ اور ایمان کی روشنی میں حاصل کرتا ہے ،کرامت کی یہ قسم انسان کے ایثار و تلاش اور انسانی اعتبارات کا معیار اور خداوند عالم کی بارگاہ میں معیار تقرب سے حاصل ہوتا ہے، یہ وہ کرامت ہے جس کی وجہ سے یقینا کسی انسان کو دوسرے انسان پر برتر جانا جاسکتا ہے ،تمام لوگ اس کمال و کرامت تک رسائی کی قابلیت رکھتے ہیں ، لیکن کچھ ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ اس سے بے بہرہ رہتے ہیں ، گویا اس کرامت میں نہ تو تمام لوگ دوسری مخلوقات سے برتر ہیں اور نہ تمام لوگ دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں پست یا مساوی ہیں ،لہٰذا وہ آیتیں جو انسان کی کسبی کرامت کو بیان کرتی ہیں دو طرح کی ہیں :

الف) کرامت اکتسابی کی نفی کرنے والی آیات

اس سلسلہ کی موجودہ آیات میں سے ہم فقط چار آیتوں کے ذکر پر اکتفا کررہے ہیں :

____________________

(۱)سورہ جاثیہ ۱۳۔ (۲)سورۂ نساء ۲۸۔(۳)گذشتہ بحثوں میں غیر حیوانی استعداد کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور انسان کی دائمی روح بھی معرفت انسان کی ذاتی اور وجودی کرامت میں شمار ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ سبھی یا ان میں سے بعض انسان کی عالی خلقت سے مربوط آیات جو متن کتاب میں بھی مذکور ہیں مد نظر ہوں ۔

۱۷۵

۱۔( ثُمَّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ ) (۱)

پھر ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیردیا۔

بعض انسانوں سے اکتسابی کرامت کی نفی اس بنا پرہے کہ گذشتہ آیت میں انسان کی بہترین شکل و صورت میں خلقت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور بعد کی آیت میں اچھے عمل والے اور مومنین اسفل السافلین میں گرنے سے استثناء ہوئے ہیں اگر ان کا یہ گرنااور پست ہونا اختیاری نہ ہوتا تو انسان کی خلقت بیکار ہوجاتی اور خداوند عالم کا یہ عمل کہ انسان کو بہترین شکل میں پیدا کرے اور اس کے بعد بے وجہ اورانسان کے اختیار یا اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوتے ہوئے بھی سب سے پست مرحلہ میں ڈالنا غیر حکیمانہ ہے مزید یہ کہ بعد والی آیت بیان کرتی ہے کہ ایمان اور اپنے صالح عمل کے ذریعہ، انسان خود کو اس حالت سے بچا جاسکتا ہے ،یا اس مشکل میں گرنے سے نجات حاصل کرسکتا ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نزول انسان کے اختیاری اعمال اور اکتسابی چیزوں کی وجہ سے ہے ۔

۲۔( أُولٰئکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ أُولٰئِکَ هُمُ الغَافِلُونَ ) (۲)

یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں گئے گذرے ہیں یہی لوگ غافل ہیں

۳۔( إنّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّٰهِ الصُّمُّ البُکمُ الَّذِینَ لا یَعقِلُونَ ) (۳)

بیشک کہ زمین پر چلنے والے میں سب سے بد تر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے ہیں ۔

۴۔( إنّ الِإنسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً وَ إِذَا مَسَّهُ الخَیرُ مَنُوعاً ) (۴)

بیشک انسان بڑا لالچی پیدا ہوا ہے جب اسے تکلیف پہونچتی ہے تو بے صبر ہو جاتا ہے اور جب اس تک بھلائی اور خیر کی رسائی ہوتی ہے تو اترانے لگتا ہے ۔

____________________

(۱)تین۵

(۲)اعراف ۱۷۹ (۳)انفال ۲۲

(۴)سورہ معارج ۱۹۔۲۱.

۱۷۶

مذکورہ دو ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ عقل و فکر کو استعمال نہ کرنے اور اس کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ سے انسانوں کی مذمت کی گئی ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں کرامت سے مراد کرامت اکتسابی ہے چونکہ بعد والی آیت نماز پڑھنے والوں کو نماز پڑھنے اور ان کے اختیاری اعمال کی بنا پر استثناء کرتی ہے لہٰذا تیسری آیہ اکتسابی کرامت سے مربوط ہے۔

ب) کرامت اکتسابی کو ثابت کرنے والی آیات

اس سلسلہ میں بھی بہت سی آیات موجود ہیں جن میں سے ہم دو آیتوں کونمونہ کے طور پر ذکرکرتے ہیں ۔

۱.( نَّ أَکرَمَکُم عِندَ اللّٰهِ أَتقَٰکُم ) (۱)

۲.ان آیات کا مجموعہ جو کسبی کرامت کی نفی کے بعد بعض انسانوں کو اس سے استثناء کرتی ہیں جیسے( إنَّ الِإنسَانَ لَفِی خُسرٍ إلا الَّذِینَ آمَنُوا ) (۲) ( ، ثُمَّ رَدَدنَاهُ أَسفَلَ سَافِلِینَ إلا الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ) (۳) ( ، إنّ النسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً إلا المُصَلِّینَ ) (۴)

جیسا کہ اشارہ ہوا کہ اکتسابی کرامت انسان کے اختیار سے وابستہ ہے اور اس کو حاصل کرنا جیسا کہ گذشتہ آیتوں میں آچکا ہے کہ تقویٰ ، ایمان اور اعمال صالحہ کے بغیر میسر نہیں ہے ۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں وسیع اور قدیمی مسئلہ ''انسان کا اشرف المخلوقات ہونا''وغیرہ بھی واضح و روشن ہو جاتا ہے ،اس لئے کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے سے مراد دوسری مخلوقات خصوصاً مادی دنیا کی مخلوقات کے مقابلہ میں مزید سہولت اور بہت زیادہ توانائی کا مالک ہونا ہے ( چاہے قابلیت،بہتراوربہت زیادہ امکانات کی صورت میں ہو ) اپنے اور قرآنی نظریہ کے مطابق انسان

____________________

(۱)حجرات ۱۳۔

(۲)عصر ۲و ۳۔

(۳)تین ۵و ۶۔

(۴)معارج ۱۹۔

۱۷۷

اشرف المخلوقات ہے ۔ اور وہ مطالب جو انسان کی غیر حیوانی فطرت کی بحث اورکرامت ذاتی سے مربوط آیتوں میں بیان ہو چکے ہیں ہمارے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ،اگرچہ ممکن ہے کہ بعض دوسری مخلوقات جیسے فرشتے بعض خصوصیات میں انسان سے بہتر ہوں یا بعض مخلوقات جیسے جن ، انسانوں کے مقابلہ میں ہوں(۱) لیکن اگر تمام مخلوقات پر انسان کی فوقیت و برتری منظور نظر ہے تب بھی کسی صورت میں ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ خداوند عالم کی تمام مخلوقات پر تمام انسان فوقیت اور برتری رکھتے ہیں، البتہ انسانوں کے درمیان ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خداوند عالم کی ہر مخلوق بلکہ تمام مخلوقات سے برتر ہیں اور اکتسابی کرامت کے اس درجہ و مرتبہ کو حاصل کرچکے ہیں جسے کوئی حاصل ہی نہیں کرسکتا، یہ وہی لوگ ہیں جو ولایت تکوینی اور لا محدود خلافت الٰہی کیحامل ہیں ۔

اس مقام پر ایک اہم سوال یہ در پیش ہے کہ اگر کرامت اکتسابی انسان سے مخصوص ہے تو قرآن مجید میں کرامت اکتسابی نہ رکھنے والے انسانوں کو کیونکر چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے پست سمجھا گیا ہے ؟ اور کس طرح ایک مہم اور معتبر شیٔ کو ایک امر تکوینی سے تقابل کیا جاسکتا ہے اور ان دونوں مقولوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟!

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی کرامت اکتسابی اگرچہ اقدار شناسی کے مقولہ میں سے ہے لیکن یہ ایک حقیقی شیٔ ہے نہ کہ اعتباری ، دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر قابل اہمیت شیٔ ضروری نہیں ہے کہ اعتباری اور وضعی ہو، جب یہ کہا جاتا ہے کہ : شجاعت ، سخاوت ، ایثار و قربانی اعتباری چیزوں میں سے ہیں ،اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سخی ، ایثار کرنے والے ، فداکار شخص کو صرف اعتبار اور وضع کی بنیاد پر اچھا اورلائق تعریف و تمجید سمجھا گیا ہے بلکہ ایسا شخص واقعاً سخاوت ، ایثار اور فداکاری نامی حقیقت

____________________

(۱)ایک دوسرے زاویہ سے جس طرح فلسفہ و عرفان اسلامی میں بیان ہوا ہے نیزروایات میں مذکورہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین کا نورانی وجود، تمام مخلوقات کے لئے فیضان الٰہی کا واسطہ اور نقطہ آغازو علت ہے ۔اورعلم حیات کے اعتبار سے سب سے رفیع درجات و کمالات کے مالک اور خداوند عالم کی عالی ترین مخلوق میں سے ہیں ۔

۱۷۸

کا حامل ہے جس سے دوسرے لوگ دور ہیں بس کرامت اکتسابی بھی اسی طرح ہے انسان کی اکتسابی کرامت صرف اعتباری اور وضعی شیٔ نہیں ہے بلکہ انسان واقعاً عروج و کمال پاتا یا سقوط کرتا ہے ۔ لہٰذا مزید وہ چیزیں جن سے انسانوں کو اکتسابی اور عدم اکتسابی کرامت سے استوارہونے کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا چاہیئے اور ایک کو بلند اور دوسرے کو پست سمجھنا چاہیئے، اسی طرح انسانوں کو حیوانات اور دوسری مخلوقات سے بھی موازنہ کرنا چاہیئے اور بعض کو فرشتوں سے بلند اور بعض کو جمادات و حیوانات سے پست سمجھنا چاہیئے اسی وجہ سے سورۂ اعراف کی ۱۷۹ویںآیہ میں کرامت اکتسابی نہ رکھنے والے افرادکو چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ بتایاگیاہے ۔ سورہ انفال کی ۲۲ ویں آیہ میں ''بد ترین متحرک '' کا عنوان دیاگیا ہے اور قیامت کے دن ایسے لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش مٹی ہوتے(( وَ یَقُولُ الکَافِرُ یَا لَیتَنِی کُنتُ تُرَاباً ) (۱) اور کافر (قیامت کے دن )کہیں گے اے کاش میں مٹی ہوتا ۔

____________________

(۱)سورہ ٔ نبا ۴۰۔

۱۷۹

خلاصہ فصل

۱.گذشتہ فصل میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان بعض مشترکہ خصوصیات کا حامل ہے بعض مغربی مفکرین نے مثال کے طور پروہ افراد جو انسان کی فعالیت کو بنیادی محور قرار دیتے ہیں یا افراط کے شکار معاشرہ پرست افراد بنیادی طور پر ایسے عناصر کے وجود کے منکر ہیں اوروہ انسان کی حقیقت کے سادہ لوح ہونے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔

ان گروہ کے علاوہ دوسرے لوگ مشترکہ فطرت کو قبول کرتے ہیں لیکن انسان کے اچھے یا برے ہونے میں اختلاف نظررکھتے ہیں بعض اس کو برا اور بعض فقط اچھا سمجھتے ہیں ، بعض نے انسان کو دوپہلو رکھنے والی تصویر سے تعبیر کیا ہے۔

۲.قرآن کریم نے اس سوال کے جواب میں جو انسانوں کو بنیادی طور پر اچھے اور برے خواہشات کا حامل جانتے ہیں، ان کے معنوی و مادی پہلوؤں کو جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کی ہے۔

۳.انسان کے خلیفة اللہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک تکوینی شیٔ ہے یعنی انسان کائنات میں تصرف اور ولایت تکوینی کے مقام کو حاصل کر سکتا ہے اس مقام کو حاصل کرنے کی راہ اور حضرت آدم کی صلاحیت کا معیار تمام اسماء کے بارے میں ان کی حضوری معرفت ہے ،اسماء مخلوقات اس کی جانشینی کے اختیارات پر استوار ہے ۔اسماء الہٰی ،قدرت اور ولایت تکوینی کو فراہم کرتا ہے اور وسیلہ فیض کے اسماء اس کے لئے اشیاء میں طریقہ تصرف مہیا کرتے ہیں ۔

۴.حضرت آدم کی اولادوں میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو مقام خلافت کو حاصل کر چکے ہیں اور روایتوں کے مطابق ہر زمانے میں کم از کم ایک فرد زمین پر خلیفة اللہ کے عنوان سے موجودہے ۔

۵.انسان دو طرح کی کرامت رکھتا ہے : ایک کرامت ذاتی جو تمام افراد کو شامل ہے اور باقی مخلوقات کے مقابلہ میں بہتر اور بہت زیادہ امکانات کا حامل ہے اور دوسرا کرامت اکتسابی کہ اس سے مراد وہ مقام و منزلت ہے جس کو انسان اپنی تلاش و جستجو سے حاصل کرتا ہے اوراس معنوی کمال کے حصول کی راہ، ایمان اور عمل صالح ہے اور چونکہ افراد کی آزمائش کا معیار و اعتبار اسی کرامت پر استوار ہے اور اسی اعتبار سے انسانوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لہٰذا قرآن کبھی انسان کی تعریف اور کبھی مذمت کرتا ہے ۔

۱۸۰