انسان شناسی

انسان شناسی0%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محمود رجبی
زمرہ جات:

صفحے: 307
مشاہدے: 136352
ڈاؤنلوڈ: 3953

تبصرے:

انسان شناسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136352 / ڈاؤنلوڈ: 3953
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

تمرین

۱.گذشتہ فصول کے مطالب کی بنیاد پر کیوں افراد انسان مشترکہ فطرت و حقیقت رکھنے کے باوجود رفتار، گفتار، اخلاق و اطوار میں مختلف ہیں۔ ؟

۲.عالم ہستی میں انسان کی رفعت و منزلت اور الٰہی فطرت کے باوجود اور اس کے بہترین ترکیبات سے مزین ہونے کے باوجود اکثر افراد صحیح راستہ سے کیوں منحرف ہو جاتے ہیں ۔؟

۳.اگر جستجو کا احساس انسان کے اندر ایک فطری خواہش ہے تو قرآن نے دوسروں کے کاموں میں تجسس کرنے کی کیوں مذمت کی ہے ؟ آیا یہ مذمت اس الٰہی اور عام فطرت کے نظر انداز کرنے کے معنی میں نہیں ہے ؟

۴.خدا کی تلاش ، خود پسندی اور دوسری خواہشوں کو کس طرح سے پورا کیا جائے تاکہ انسان کی حقیقی سعادت کو نقصان نہ پہونچے ؟

۵.قرآنی اصطلاح میں روح ، نفس ، عقل ، قلب جیسے کلمات کے درمیان کیا رابطہہے ؟

۶.انسان کے امانت دار ہونے سے مراد کیا ہے نیز مصادیق امانت بھی ذکر کریں ؟

۷.غیر دینی حقوقی قوانین میں ،انسان کی کرامت اکتسابی مورد توجہ ہے یا اس کی غیر اکتسابی کرامت ؟

۸.اگر حقیقی اہمیت کا معیار انسان کی کرامت اکتسابی ہے تو مجرم اور دشمن افراد کے علاوہ ان انسانوں کا ختم کرنا جو کرامت اکتسابی کے حامل نہ ہوں کیوں جائز نہیں ہے ؟

۹.آیا جانشینی اور اعتباری خلافت ، جانشین اور خلیفہ کی مہم ترین دلیل ہے ؟

۱۸۱

مزید مطالعہ کے لئے

۱۔ انسان کا جانشین خدا ہونے کے سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے رجوع کریں:

۔ جوادی آملی ، عبداللہ ( ۱۳۶۹) زن در آئینہ جلال و جمال تہران : مرکز نشر فرہنگی ،رجاء

۔ (۱۳۷۲) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۶ ، تہران : رجاء

۔ صدر ، سید محمد باقر ( ۱۳۹۹) خلافة الانسان و شہادة الانبیاء ،قم : مطبعة الخیام ۔

۔ محمد حسین طباطبائی ( ۱۳۶۳) خلقت و خلافت انسان در المیزان گرد آورندہ : شمس الدین ربیعی ، تہران : نور فاطمہ

۔ محمد تقی مصباح ( ۱۳۷۶) معارف قرآن ( خداشناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )قم : موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۱) انسان کامل ، تہران : صدرا ۔

۔ موسوی یزدی ، علی اکبر ، و دیگران ( ۱۳۹۹) الامامة و الولایة فی القرآن الکریم ، قم : مطبعة الخیام

۔ تفاسیر قرآن ، سورہ بقرہ کی ۳۰ ویں آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ انسان کی کرامت کے سلسلہ میں :

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۲) کرامت در قرآن ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء ۔

۔مصباح ،محمد تقی(۱۳۶۷)معارف قران(خدا شناسی،کیہان شناسی،انسان شناسی)قم موسسہ در راہ حق

۔واعظی،احمد(۱۳۷۷)انسان از دیدگاہ اسلام ۔قم:دفترہمکاری حوزہ ودانش گاہ۔

۱۸۲

ساتویں فصل :

آزادی اور اختیار

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:

۱ ۔انسان کے سلسلہ میں تین مہم نظریوں کو بیان کریں ؟

۲ ۔مفہوم اختیار کی وضاحت کریں اور اس کے مفہوم کے چار موارد استعمال ذکر کریں ؟

۳ ۔قرآن مجید کی ان آیات کی دستہ بندی اور تفسیرکریں جو انسان کے مختار ہونے پر دلالت کرتی ہیں ؟

۴۔انسان کے اختیار کو مشکوک کرنے والے شبہات کی وضاحت کریں ؟

۵۔انسان کے جبر سے متعلق ، شبہات کے اقسام نیز اس کی تجزیہ و تحلیل کریں ؟

۱۸۳

جو افعال انسان سے صادر ہوتے ہیں ایک عام تقسیم کے اعتبار سے دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں:

جبری افعال جو بغیر ارادے اور قصد کے انجام پاتے ہیں اور اختیاری افعال جوانتخاب اور انسان کے ارادوں کے نتیجہ میں عالم وجود میں آتے ہیں ، دوسرے گروہ کے متعلق ، فعل کا انجام دینے والا خود اس فعل کی علت اور اس فعل کا حصہ دار سمجھا جاتا ہے، اسی بنا پراس انجام دیئے گئے فعل کے مطابق ہم اس کو لائق تعریف یا مذمت سمجھتے ہیں ،تمام اخلاقی ، دینی ، تربیتی اور حقوقی قوانین اسی یقین کی بنیاد پر استوار ہیں ۔ کسی فعل کو انجام دے کر خوش ہونا یا افسوس کرنا ، عذر خواہی یا دوسرے سے مربوط فعل کے مقابلہ میں حق طلب کرنا بھی اسی سچائی پر یقین اور بھروسہ کیبنیاد پر ہے ۔ دوسری طرف یہ بات قابل قبول ہے کہ انسان کے اختیاری طریقہ عمل میں مختلف تاریخی ، اجتماعی ، فطری ، طبیعی عوامل موثر ہیں اس طرح سے کہ وہ اس کی انجام دہی میں اہم رول ادا کرتے ہیں اور انسان ہر پہلو میں بے قید و شرط اور مطلقاً آزادی کا حامل نہیں ہے ۔

دینی تعلیمات میں قضا و قدر اور الٰہی ارادے اور غیب کا مسئلہ انسان کے اختیاری افعال سے مربوط ہے اور مذکورہ امور سے انسان کا ارادہ و اختیار ، نیز اس کا آزاد ہونا کس طرح ممکن ہے؟ اس کو بیان کیا گیا ہے۔

۱۸۴

مذکورہ مسائل کو انسان کے بنیادی مسئلہ اختیار سے مربوط جاننا چاہیئے اور زندگی سنوارنااس کرامت کو حاصل کرناہے جس کے بارے میں گذشتہ فصل میں گفتگو ہوچکی ہے(۱) انہیں چیزوںکی وجہ سے انسان کے اختیار کا مسئلہ مختلف ملتوں اور مختلف علمی شعبوں کے دانشمندوں اور ادیان و مذاہب کے مفکرین اور ماننے والوں کے درمیان ایک مہم اور سر نوشت ساز مسئلہ کے عنوان سے مورد توجہ قرار پایا ہے لہٰذااس کے بارے میں مختلف سوالات اور بحث و مباحثہ کے علاوہ مزید تحقیقات کی ضرورت ہے ۔

مندرجہ ذیل سوالات وہ ہیں جن کے بارے میں ہم اس فصل میں تجزیہ و تحلیل کریں گے ۔

۱.اختیار سے مراد کیا ہے ؟ آیا یہ مفہوم ، مجبوری ( اضطرار ) اور ناپسندیدہ ( اکراہ ) کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے ؟

۲.انسان کے مجبور یا مختار ہونے کے بارے میں قرآن کا کیا نظریہ ہے ؟

۳. انسان کے اختیاری افعال میں قضا و قدر ، اجتماعی قوانین ، تاریخی ، فطری نیز طبیعی عوامل کا کیا کردار ہے اور یہ سب باتیں انسان کے آزاد ارادہ سے کس طرح سازگار ہیں ؟

۴. کیا علم غیب اور خدا کا عام ارادہ ( ارادۂ مشیت ) جو انسان کے اختیاری افعال میں بھی شامل ہے انسان کے مجبور ہونے کا سبب ہے ؟

____________________

(۱)گذشتہ فصل میں انسان کی کرامت اکتسابی کے بارے میں گفتگو ہو چکی ہے اور ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان کی کرامت اکتسابی اس کی اختیاری تلاش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی جو کچھ اس فصل میں اور آئندہ فصل میں بیان ہوگا، اس کا شمار کرامت اکتسابی کے اصول میں ہوگااور انسان کے مسئلہ اختیار کے حل کے بغیر کرامت اکتسابی کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے۔

۱۸۵

انسان کی آزادی کے سلسلہ میں تین مہم نظریات

انسان کے اختیار اور جبر کا مسئلہ بہت قدیمی ہے اور شاید یہ کہا جاسکتا ہے انسان کی آخرت کے مسئلہ کے بعد جبر و اختیار کی بحث سے زیادہ انسان شناسی کے کسی مسئلہ کے بارے میں یوں گفتگو

مختلف ملتوں اور مذاہب کے ماننے والوں اور معاشرہ کے مختلف قوموں کے درمیان چاہے وہ دانشمند ہوں یا عوام ، رائج نہ تھی ، پہلے تو یہ مسئلہ کلامی ، دینی اور فلسفی پہلوؤں سے زیادہ مربوط تھا لیکن علوم تجربی کی خلقت و وسعت اور علوم انسانی کے باب میں جو ترقی حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ سے جبر و اختیار کی بحث علوم تجربی سے بھی مربوط ہوگئی ، اسی لئے علوم تجربی کی بحث میں مفکرین خصوصاً علوم انسانی کے ماہرین نے اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔ایک طرف تو اختیار ،انسان کا ضمیر رکھنا اور بہت سی دلیلوں کا وجود اور دوسری طرف اختیاری افعال اور اس کے اصول میں بعض غیر اختیاری افعال کا موثر ہونا اور بعض فلسفی اوردینی تعلیمات میں سوء تفاہم کی بنا پر مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں، بعض نے بالکل انسان کے اختیار کا انکار کیا ہے اور بعض لوگوں نے اختیار انسان کو تسلیم کیاہے اور بعض لوگوں نے جبر و اختیار کے ناکارہ ہونے کا یقین رکھنے کے باوجود دونوں کو قبول کیا ہے حالانکہ کوئی معقول توجیہ اس کے متعلق پیش نہیں کی ہے ۔

رواقیان وہ افراد ہیں جو انسان کے اچھے یا برے ہونے کی ذمہ داری کو خود اسی کے اوپر چھوڑ دیتے ہیں ۔اور دنیا کے تمام حوادث منجملہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی انسان کے ذریعہ غیر قابل تغییر، تقدیر الٰہی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں ۔

اسلامی سماج و معاشرہ میں اشاعرہ نے جبر کے مسلک کو قبول کیا ہے ۔(۱) اور معتزلہ نے

____________________

(۱)اشاعرہ ، جہمیہ کے برخلاف انسان کو اس کے اختیاری افعال میں جمادات کی طرح سمجھتے تھے اس یقین پر کہ انسان کا فعل، قدرت و ارادۂ خدا سے مربوط ہونے کے باوجود خداوند عالم اپنے ارادہ اور قدرت کے ساتھ انسان کے اندر قدرت و ارادہ ایجاد کرتا ہے اور اس فعل سے انسان کا ارادہ مربوط ہوتا ہے ۔ اور اس حقیقت ( فعل سے انسان کے ارادہ کے مربوط ہونے ) کو کسب کہا ہے ۔ لیکن ہر اعتبار سے انسان کے لئے تحقق فعل میں کسی تاثیر کے قائل نہیں ہیں ملاحظہ ہو: تھانوی ، محمد علی ؛ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم؛ مکتبة لبنان ناشرون ، بیروت : ۱۹۹۶۔

۱۸۶

تفویض کو قبول کیا ہے اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال خداوند عالم سے الگ اس کی قدرت و انتخاب کی وجہ سے انجام پاتے ہیں(۱) اس نظریہ کے مشابہ دنیا کی تمام مخلوقات کے سلسلہ میں بعض مسیحی اور مغربی دانشمندوں کے نظریے بیان ہوئے ہیں ۔(۲)

اسلامی سماج اور معاشرہ میں تیسرا نظریہ ، اہل بیت اور ان کے ماننے والوں کا نظریہ ہے ۔ اس نظریہ میں انسان اپنے اختیاری فعل میں نہ مجبور ہے اور نہ ہی آزاد بلکہ ان دونوں کے درمیان کی ایک حقیقت ہے : ''لا جَبرَ وَ لا تَفوِیضَ بَل أمر بَینَ الأمرَین'' اس نظریہ کے مطابق انسان کے افعال میں نہ تنہا انسان کا خدا کے ساتھ فعال ہونے میں منافات نہیں ہے بلکہ خدا اور انسان کی صحیح شناخت کا تقاضا اور واقعی و اختیاری فعل کی حقیقت کو دقیق درک کرنا ہے ۔

عقیدۂ جبر، اسلام سے پہلے عرب کے جاہل مشرکوں کے یہاں بھی موجود تھا اور قرآن مجید ایک غلط نظریہ کے عنوان سے نقل کرتے ہوئے اس فکر کے فرسودہ ہونے کی طرف اشارہ کررہا ہے اور فرماتا ہے :

( سَیُقُولُ الَّذِینَ أَشرَکُوا لَوشَائَ اللّٰهُ مَا أَشرَکنَا وَ لا آبَاؤُنَا وَ لا حَرَّمنَامِن شَییٍٔ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبلِهِم ) (۳)

عنقریب مشرکین کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ، دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام کرتے اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گذرچکے ہیں جھٹلاتے رہے

____________________

(۱)کہا گیا ہے کہ بعض معتزلہ کے علماء جیسے ابو الحسن بصری اور نجار ، تفویض کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے ۔

(۲)سنت مسیحیت میں خداوند عالم نے دنیا کو چھہ روز میں خلق کیا ہے اور ساتویں روز آرام کیا ہے ۔ اس عقیدہ کی بنیاد پر دنیا اس گھڑی کے مانند ہے جس میں خداوند عالم نے آغاز خلقت ہی میں چابھی بھر دیا ہے اور اس کے بعد دنیا خدا سے جدا اور مستقل ہوکر اپنی حرکت پر باقی ہے ۔

(۳)سورہ انعام ۱۴۸۔

۱۸۷

دوسری آیت میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مشرکین کا اعتقاد ہر طرح کی علمی حمایت سے دور ہے اور یہ نظریہ فقط نصیحت پر مبنی ہے ، یوں فرماتا ہے :

( وَ قَالُوا لَو شَائَ الرَّحَمٰنُ مَا عَبَدنَاهُم مَا لَهُم بِذٰلِکَ مِن عِلمٍ ن هُم ِلا یَخرُصُونَ ) (۱)

اور کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم ان کی پرستش نہ کرتے ان کو اس کی کچھ خبر ہی نہیں یہ لوگ تو بس الٹی سیدھی باتیں کیا کرتے ہیں ۔

اسلامی معاشرہ میں جاہل عرب کے عقیدہ ٔ جبر کا قرآن کے نازل ہونے اور اسلام کی سر سخت مخالفت کے بعد اس کا کوئی مقام نہیں رہا ۔اگرچہ کبھی کبھی اس سلسلہ میں بعض مسلمان، بزرگان دین سے سوالات کرکے جوابات حاصل کیاکرتے تھے(۲) لیکن حکومت بنی امیہ کے تین اموی خلفاء نے اسلامی شہروں میں اپنے ظلم کی توجیہ کیلئے عقیدہ ٔ جبر کو رواج دیا اور اس نظریے کے مخالفین سے سختی سے پیش آتے رہے ،ان لوگوں نے اپنے جبری نظریہ کی توجیہ کے لئے بعض آیات و روایات سے بھی استفادہ کیا تھا،تفویض کا نظریہ جو معتزلہ کی طرف سے بیان ہوا ہے عقیدہ جبر کے ماننے والوں کی سخت فکری و عملی مخالفت نیز عقیدۂ جبر کے مقابلہ میں یہ ( تفویض کا نظریہ) ایک طرح کا عکس العمل تھا ۔ جب کہ آیات و روایات اور پیغمبرنیز ان کے سچے ماننے والوں کی زندگی کا طرز عمل بھی مذکورہ دونوں نظریوں کی تائید نہیں کرتا ہے بلکہ اہل بیت کے نظریہ ''الأمر بین الأمرین'' سے مطابقت رکھتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ زخرف ۲۰۔(۲) مثال کے طور پر امام علی اس شخص کے جواب میں جس نے قضا و قدر الٰہی کو جبر سے ملادیا تھا آپ نے فرمایا ..........کیا تم گمان کررہے ہو کہ ( جو کچھ جنگ صفین میں اور دوران سفر میں ہم نے انجام دیا ہے ) ہمارے اختیار سے خارج ، حتمی اور جبری قضا و قدر تھا ؟ اگر ایسا ہی ہے تو سزا و جزا ، امر و نہی سب کچھ غلط اور بے وجہ ہے۔صدوق ، ابن بابویہ، التوحید ، مکتبة الصدوق ، تہران : ۱۳۷۸م ، ص ۳۸۰۔

۱۸۸

بہر حال اگرچہ عقلی ، نقلی اوردرونی ( ضمیر ) تجربہ کے ذریعہ انسان کے اختیار کا مسئلہ ایک غیر قابل انکار شیٔ ہے جس پر بہت سے تجربی دلائل گواہ ہیں لیکن سیاسی اور بعض دینی و فلسفی تعلیمات سے غلط استفادہ اور اس سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہات کے جوابات میں بعض فکری مکاتب کی ناتوانی کی بنا پر اسلامی معاشرہ کا ایک گروہ عقیدۂ جبر کی طرف مائل ہو گیااوروہ لوگ اس کے معتقد ہوگئے(۱) البتہ یہ شیٔ اسلامی معاشرہ سے مخصوص نہیں ہے دوسرے مکاتب فکرکے دانشمندوں کے درمیان اور متعدد غیر مسلم فرق و مذاہب میں بھی اس عقیدے کے حامی افراد موجود ہیں ۔(۲)

مفہوم اختیار

لفظ اختیار مختلف جہات سے مستعمل ہے یہاں انسان کے اختیار کے معنی کو روشن کرنے کے لئے جو کرامت اکتسابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے چار موارد ذکرکئے جا رہے ہیں۔

۱۔اضطرار اور مجبوری کے مقابلہ میں اختیار

کبھی انسان کسی خاص شرائط اور ایسے حالات و مقامات میں گھر جاتا ہے جس کی بنا پر مجبور ہو کر کسی عمل کو انجام دیتا ہے مثال کے طور پر ایک مسلمان بیابان میں گرفتار ہو جاتا ہے اور راستہ بھول جاتا ہے بھوک اور پیاس اسے اس حد تک بے چین کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کی جان خطرہ میں پڑجاتی ہے لیکن ایک مردار کے علاوہ اس کے سامنے کوئی غذا نہ ہو تو وہ اپنی جان بچانے کے لئے مجبوراً اس حیوان کے گوشت کو اتنی ہی مقدار میں استعمال کر سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ موت سے نجات حاصل کرسکے ،اس مقام پر کہا جائے گا کہ اس شخص نے اپنی خواہش اور اختیار سے مردار گوشت نہیں کھایا ہے بلکہ وہ مجبور تھا اور اضطرار کی وجہ سے مردار کے گوشت کو مصرف کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید اس کی غذا

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مغربی مفکرین و فلاسفہ کے نظریات کوہم ''ضمائم'' میں بیان کریں گے ۔

(۲)انسانی علوم تجربی کے بعض غیر مسلم مفکرین و فلاسفہ کے نظریات ''ضمائم ''میں بیان ہوں گے ۔

۱۸۹

کے جائز ہونے کے بارے میں فرماتا ہے :

( إنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ المَیتَةَ وَ... فَمَنِ اضطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَ لا عَادٍ فَلا ِثمَ عَلَیهِ ) (۱)

اس نے تو تم پر بس مردہ جانور اور ...لہٰذا جو شخص مجبور ہو اور سرکشی کرنے والا اورزیادتی کرنے والا نہ ہو تو اس پر گناہ نہیں ہے ۔

۲.اکراہ کے مقابلہ میں اختیار

کبھی خود انسان کسی کام کے انجام دینے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے یا کسی کام سے نفرت کرتا ہے لیکن ایک دوسرا شخص اس کو ڈراتا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق اس کام کو انجام دینے کے لئے مجبور کرتا ہے اس طرح کہ اگر اس شخص کا خوف نہ ہوتا تو وہ اس فعل کو انجام نہ دیتا اس مسلمان کی طرح جو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے قتل ہوجانے کے خوف کی بنا پر ظاہر میں زبان سے اظہار کفر کرتا ہے ، اس مقام پر کہا جاتا ہے کہ اس نے بااختیار اس عمل کو انجام نہیں دیا ، جیسا کہ سورہ نحل کی ۱۰۶ ویں آیہ میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں :

( مَن کَفَرَ بِاللّٰهِ مِن بَعدَ ِیمَانِهِ لا مَن أُکرِهَ وَ قَلبُهُ مُطمَئِنّ بِالِیمَانِ )

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرے سوائے اس شخص کے جو اس عمل پرمجبورکردیاجائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو۔(۲)

اضطرار سے اکراہ کا فرق یہ ہے کہ اکراہ میں دوسرے شخص کا خوف زدہ کرنا بیان ہوتا ہے جب کہ اضطرار میں ایسا نہیں ہے بلکہ خارجی حالات اور وضعیت اس عمل کی متقاضی ہوتی ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۱۷۳۔

(۲)سورہ نحل۱۰۶۔

۱۹۰

۳.اختیار یعنی انتخاب و آزمائش کے بعد ارادہ

جب بھی انسان کے سامنے کسی کام کے انجام دینے کے لئے متعدد راہیں ہوں تو وہ اس کا تجزیہ کرتا ہے اسے خوب پرکھتا ہے اس کے بعد ایک راہ کو انتخاب کرتا ہے اور اسی کے مطابق اس فعل کے انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کام اختیار کے ساتھ انجام پایا ہے لیکن اگر کوئی کام سوچے سمجھے بغیر انتخاب اور اس کا ارادہ کرلیا گیاتو کہا جائے گا کہ یہ فعل غیراختیاری طور پر سرزد ہواہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس شخص کے ہاتھ میں رعشہ ہو اور اس کا ہاتھ حرکت دینے کے ارادہ کے بغیر ہی لرزرہا ہو ۔

۴.اختیار یعنی رغبت ، محبت اور مرضی کے ساتھ انجام دینا

اس استعمال میں آزمائش اور انتخاب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کسی فعل میں صرف اکراہ اور مجبوری نہ ہو اور وہ فعل کسی کی رضایت اور خواہش کے ساتھ انجام پائے تو اس فعل کو اختیاری کہا جاسکتا ہے، خدا اور فرشتوں کے افعال میں اسی طرح کا اختیار ہے، اس معنی کے مطابق خداوند عالم اور فرشتوں کے افعال، اختیاری ہیں البتہ ان کی طرف سے کسی کام کے انجام پانے کے لئے آزمائش اور انتخاب کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے مثال کے طورپر خداوند عالم اپنے کام کے انجام دینے میں تجزیہ و تحلیل اور انتخاب کی حاجت نہیں رکھتا ہے اوراس کیلئے کسی بھی شی ٔمیں ایسا ارادہ جو پہلے نہ رہا ہو تصور نہیں ہوتا ہے چنانچہ مختار ہونے کا یہ معنی ہے کہ خواہش ، رغبت اور فاعل کی خود اپنی مرضی سے وہ فعل انجام پائے ۔(۱)

____________________

(۱) افعال انسان کے اختیاری ہونے کو اس کے ارادہ سے ملانا نہیں چاہیئے، کسی فعل کے ارادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ارادہ سے پہلے ایک ارادہ ہو اور وہ فعل بھی ارادہ سے پہلے ہو لیکن اختیاری ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس فعل کے صدور میں حقیقی عامل کوئی اور نہیں ہے بلکہ خود وہ شخص ہے ۔ اس بیان کے مطابق خود ارادہ انسان کے لئے بھی ایک اختیاری فعل موجود ہے اگرچہ وہ ایک ارادی فعل نہیں ہے یعنی ارادہ کرنے کے لئے کسی سابق ارادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔

۱۹۱

بھی ایک ارادہ ہونا چاہیئے اور یہ تسلسل باقی رہے گا اور یہ محال ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ارادہ کوئی ارادی فعل نہیں ہے اور ضروری نہیں ہے کہ اس کے پہلے بھی ایک ارادہ ہو بلکہ یہ ایک اختیاری فعل ہے اور ارادہ و اختیار میں بہت فرق ہے ،چونکہ حقیقی عامل و سبب نفس انسان ہے اور اس میں کوئی اضطرار و مجبوری نہیں ہے لہذا فعل اختیاری ہے چاہے اس کے پہلے کوئی ارادہ نہ رہا ہو ۔

اس وضاحت سے ارادہ و اختیار میں موجود اہم اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے ، اس اعتراض میں کہا جاتا ہے کہ اگر ہر اختیاری فعل سے پہلے ایک ارادہ کا ہونا ضروری ہے تو خود ارادہ کرنا بھی تو ایک نفسیاتی فعل ہے لہٰذا اس سے پہلے...

مذکورہ چار معانی میں سے جو انسان کے اختیاری کاموں میں مورد نظر ہے نیز کرامت اکتسابی کے حاصل کرنے کا طریقۂ عمل بھی ہے وہ تیسرا معنی ہے ۔ یعنی جب بھی انسان متعدد موجودہ راہوں اور افعال کے درمیان تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ کسی کام کو انتخاب کرلے اور اس کے انجام کا ارادہ کرلے تو اس نے اختیاری فعل انجام دیا ہے اور اپنی اچھی یا بری سرنوشت کی راہ میں قدم بڑھایا ہے ،اس لئے تجزیہ و تحلیل ، انتخاب اور ارادہ ، اختیار انسان کے تین بنیادی عنصر شمار ہوتے ہیں ،البتہ منتخب فعل لازمی طور پر انسان کے رغبت اور ارادہ کے مخالف نہیں ہے یہ ہوسکتا ہے کہ خود بخود وہ فعل انسان کے لئے محبوب و مطلوب ہو اس شخص کی طرح جو خدا کی عبادت اور راز و نیاز کا عاشق ہے اور نیمۂ شب میں با اشتیاق بستر خواب سے بلند ہوتا ہے اور نماز شب پڑھتا ہے یا اس شخص کی طرح جس کے پاس موسم گرما میں تھوڑا سا ٹھنڈا اور میٹھا پانی موجود ہے جس سے ہاتھ اور چہرہ دھلنا اس کے لئے لذت بخش ہے لیکن ظہر کے وقت اسی پانی سے وضو کرتا ہے ،مطلوب اور اچھا فعل اگر معرفت اور ارادہ کے ہمراہ ہو تو ایک اختیاری فعل اور کرامت اکتسابی کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ، قدرت انتخاب نہ رکھنے والے جمادات اور فرشتوں میں جن کے سامنے متعدد راہیں نہیں ہوتیں اورغیر ترقی یافتہ انسان میں جو ابھی قدرت انتخاب سے مزین نہیں ہے،اس کے لئے ایسے انتخاب کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے ۔(۱)

____________________

(۱) اختیار کی تعریف کے اعتبار سے ،چاہے بہت کم مقدار ہی میں کیوں نہ ہو کیا حیوانات اختیار رکھتے ہیں ؟ اس میں اختلاف نظر ہے لیکن بعض آیات کے ظواہر اور بعض تجربی شواہد بہت معمولی مقدار میں ان کے اختیار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں ۔

۱۹۲

انسان کے مختار ہونے پر قرآنی دلیلیں

گذشتہ مفہوم کے مطابق انسان کا اختیار قرآن کی نظر میں بھی مورد تائید ہے اور بہت سی آیات بھی اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ،ان میں سے چار طرح کی آیات کی طرف اشارہ ہو رہا ہے

۱۔وہ آیات جو بہت ہی واضح طور پر انسان کے اختیار کو بیان کرتی ہیں :

( وَ قُلِ الحَقُّ مِن رَّبِّکُم فَمَن شَائَ فَلیُؤمِن وَ مَن شَائَ فَلیَکفُر ) (۱)

اور تم کہدو کہ سچی بات(قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے پس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے ۔

۲۔ وہ آیات جو اتمام حجت کے لئے پیغمبروں کے بھیجنے اور آسمانی کتب کے نزول کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں :

( لِیَهلِکَ مَن هَلَکَ عَن بَیِّنَةٍ وَ یَحیَیٰ مَن حَیَّ عَن بَیِّنَةٍ ) (۲)

تاکہ جو شخص ہلاک ہو وہ حجت تمام ہونے کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ ہدایت کی حجت تمام ہونے کے بعد زندہ رہے ۔

( رُسُلاً مُّبَشِّرِینَ وَ مُنذِرِینَ لِئَلا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیٰ اللّٰهِ حُجَّة بَعدَ الرُّسُلِ )

بشارت دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر (بھیجے)تاکہ لوگوں کی خدا پر کوئی حجت باقی نہ رہ جائے ۔(۳)

۳۔ وہ آیات جو انسان کے امتحان اور مصیبت میں گرفتار ہونے پر دلالت کرتی ہیں :

( إِنَّا جَعَلنَا مَا عَلَیٰ الأرضِ زِینَةً لَّهَا لِنَبلُوَهُم أَیُّهُم أَحسَنُ عَمَلاً )

جو کچھ روئے زمین پر ہے ہم نے اسے زینت قرار دیاہے تاکہ ہم لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے اعمال والا ہے ۔(۴)

____________________

(۱)سورہ کہف ۲۹(۲)سورہ انفال ۴۲

(۳)سورہ نساء ۱۶۵

(۴)سورۂ کہف ۷

۱۹۳

۴. وہ آیات جو بشیرو نذیر ، وعد و وعید ، تعریف و مذمت اور اس کے مثل کی طرف اشارہ کرتی ہیں اسی وقت فائدہ مند اور مفید ہوں گی جب انسان مختار ہو ۔

( وَعَدَ اللّٰهُ المُنَافِقِینَ وَ المُنَافِقَاتِ وَ الکُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا )

منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے خدا نے جہنم کی آگ کا وعدہ کرلیا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔(۱)

____________________

(۱)سورۂ توبہ ۶۸

۱۹۴

عقیدہ ٔ جبر کے شبہات

جیسا کہ کہا گیا ہے کہ انسان کا مختار اور وجدانی ہونا عقلی نقلی دلیلوں کے علاوہ تجربی شواہد سے بھی ثابت اور مورد تائید ہے لیکن کسی بنا پر ( منجملہ بعض شبہات کی وجہ سے جو انسان کے اختیار کے بارے میں بیان ہوئے ہیں ) بعض لوگ جبر کے قائل ہیں یہاں ہم ان شبہات کا تجزیہ کریں گے ۔

جبر الٰہی

مذکورہ شبہات میں سے ایک شبہہ جبر الٰہی ہے ،تاریخ اسلام میں ایک گروہ کو ''مجبرہ'' کہتے ہیں یہ گروہ معتقد تھا کہ دینی تعلیمات کے ذریعہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنے اختیاری افعال میں مجبور ہے ، جبر الٰہی کے ماننے والوں کی استناد اور ان کے دینی بیانات کو تین دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

پہلا گروہ

وہ آیات و روایات جو علم غیب کے بارے میں ہیں، ان میں مذکور ہے کہ خداوند عالم، انسان کے افعال اختیاری کے انجام پانے سے پہلے ان افعال اور ان کے انجام پانے کی کیفیت سے آگاہ ہے اور انسانوں کی خلقت سے پہلے وہ جانتا تھا کہ کون انسانِ صالح و سعادت مند ہے اور کون برا و بدبخت ہے اور یہ حقائق لوح محفوظ نامی کتاب میں ثبت ہیں جیسے :

۱۹۵

( وَ مَا یَعزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثقَالِ ذَرَّةٍ فِی الأرضِ وَ لا فِی السَّمَائِ وَ لا أَصغَرَ مِن ذٰلِکَ وَ لا أَکبَرَ ِلا فِی کِتَابٍ مُّبِینٍ ) (۱)

اور تمہارے پروردگار سے ذرہ بھر بھی کوئی چیز غائب نہیں رہ سکتی نہ زمین میں اور نہ ہی آسمان میں چھوٹی ، بڑی چیزوں میں سے کوئی ایسی نہیں ہے مگر وہ روشن کتاب میں ضرور ہے ۔

دوسرا گروہ

وہ آیات و روایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ انسان کے افعال خدا کے ارادہ اور اس کی طرف سے معینہ حدود میں انجام پاتے ہیں جیسے وہ آیات جو ہرشیٔ کے تحقق منجملہ انسان کے اختیاری اعمال کو خدا کی اجازت ، مشیت ، ارادہ نیزقضا و قدر الہٰی کا نتیجہ سمجھتی ہیں جیسے یہ آیات :

( وَ مَا کَانَ لِنَفسٍ أَن تُؤمِنَ لا بِِذنِ اللّٰهِ ) (۲)

کسی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ بغیر اذن خدا ایمان لے آئے

( مَن یَشَأِ اللّٰهُ یُضلِلهُ وَ مَن یَشَأ یَجعَلهُ عَلَیٰ صِرَاطٍ مُّستَقِیمٍ ) (۳)

اللہ جسے چاہے اسے گمراہی میں چھوڑ دے اور جسے چاہے اسے سیدھے راستہ پر لادے

( وَ مَا تَشَائُ ونَ ِلا أَن یَشَائَ اللّهُ ) (۴)

اور تم لوگ وہی چاہتے ہو( انجام دینا)جو خدا چاہتا ہے ۔

پس انسان اس وقت ایمان لاتا ہے اور صحیح و غلط راستہ اختیار کرتا ہے یا کسی کام کو انجام دے

____________________

(۱)سورۂ یونس ۶۱

(۲)یونس۱۰۰

(۳)انعام ۳۹

(۴)تکویر ۲۹۔

۱۹۶

سکتا ہے جب خدا کی مرضی شامل حال ہو ایک روایت میں امام علی رضا سے بھی منقول ہے کہ :''لا یکُون لا مَاشَاء اللّه وَ أرَاد وَ قدّر وَ قضیٰ '' (۱) کوئی بھی چیز بغیر خدا کی مرضی و ارادہ نیز قضا و قدر کے متحقق نہیں ہوتی ہے ۔

تیسرا گروہ

وہ آیات و روایات جو بیان کرتی ہیں کہ : انسانوں کی اچھی اور بری فطرت پہلے ہی سے آمادہ ہے فقط طبیعت مختلف ہے ۔بعض انسانوں کی فطرت اچھی ہے اور وہ اسی اعتبار سے ہدایت پاتے ہیں اور بعض دوسرے انسانوں کی فطرت بری ہے جس کی بنا پر گمراہ ہوجاتے ہیں جیسے دو آیتیں( کَلاّ إِنَّ کِتَابَ الفُجَّارِ لَفِی سِجِّینٍ ) (۲) ( کَلاّ إِنَّ کِتَابَ الأبرَارِ لَفِی عِلِّیِّینَ ) (۳) بیان کرتی ہیں کہ : اچھے لوگوں کی سرنوشت بلند مقام( عِلِّیِّینَ ) اور برے افراد کی سرنوشت پست مقام( سِجِّینِ ) بتائی گئی ہے جیساکہ مختلف احادیث بیان کرتی ہیں کہ : اچھے انسانوں کی فطرت میٹھے پانی اور برے افراد کی فطرت تلخ پانی سے تخلیق ہوئی ہے نیزان احادیث میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ : ''الشَقِی مَن شقیٰ فِی بطنِ أمهِ و السعِید مَن سَعد فِی بطنِ أمهِ ''(۴) بد بخت وہی ہے جو شکم مادر میں بد بخت ہے اور سعادت مند وہی ہے جو شکم مادر ہی سے سعادت مند ہے ۔

جبر الٰہی کی تجزیہ و تحلیل

پہلے گروہ کے شبہہ کا جواب یہ ہے کہ خداوند عالم کا کسی شخص کے اچھے یا برے فعل کے انجام

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ، ج۱ ، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران :۱۳۴۸، ص ۱۵۸۔

(۲)مطففین ۷۔

(۳)مطففین۱۸

(۴)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ؛ دار الکتب الاسلامیہ ، تہران :۱۳۶۳۔

۱۹۷

دینے کا علم، اس فعل کے عالم خارج میں بغیر کسی قید و شرط کے انجام پانے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس فعل کو تمام قیود اور شرائط کے ساتھ انجام دینے کے معنی میں ہے ، منجملہ انسان کے اختیاری افعال میں یہ قیود، فعل کو پرکھنا ، انتخاب کرنا اور ارادہ کے ذریعہ انجام دینا ہے،دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ کسی کام کے انجام پانے کے بارے میں خدا کا علم ، جبر اور اختیار دونوں سے سازگار ہے اس لئے کہ اگر خدا جانتا ہے کہ یہ کام جبر کی بنا پر اور فاعل کے ارادہ کے بغیر انجام اور صادر ہوا ہے جیسے اس شخص کے ہاتھ کی لرزش جسے رعشہ ہو ، تو ظاہر ہے وہ فعل جبری ہے لیکن اگر خدا یہ جانتا ہے کہ فاعل نے اس کام کو اپنے اختیار اور ارادہ سے انجام دیا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ فعل اختیاری ہے اور فاعل مختار ہے جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال میں کام کے انجام پانے کی ایک شرط اور قید، انسان کا اختیار ہے ، اسی بنا پر خدا جانتا ہے کہ انسان مختار ہے اور اس کام کو اپنی مرضی اور اختیار سے انجام دے رہا ہے ۔

یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ جبر الٰہی کے معتقدین نے یہ تصور کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم فعل کے صادر ہونے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ ہم کیا کریں گے لہٰذا ہم مجبور ہیں ، جب کہ یہ تصور بھی غلط ہے اور ہمیں خود سے خدا کا تقابل نہیں کرنا چاہیئے ،خداوند عالم لامحدود اور زمان و مکان سے بالاتر ہے اس کے لئے ماضی ، حال و مستقبل کا تصور نہیں ہے۔ مادی مخلوقات اگرچہ زمانہ کے ہمراہ ہیں اور اپنے اور دوسرے کے ماضی و مستقبل کے حالات سے جاہل و بے خبر ہیں اور دھیرے دھیرے ان کے لئے حوادث واقع ہوتے ہیں، لیکن اس خدا کے بارے میں جو زمان و مکان سے بالاتر ہے اس کے لئے حرکت و زمان کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور یہ کائنات اس کے لئے پوری طرح سے آشکار ہے ، گذشتہ اور آئندہ کے حوادث کے بارے میں خدا وند عالم کا علم ہمارے حال اور موجودہ حوادث کے بارے میں علم رکھنے کی طرح ہے وہ کاروان ہستی اور سلسلۂ حوادث کو ایک ساتھ اور ایک ہی دفعہ میں مشاہدہ کرتا ہے ، غرض یہ کہ کسی چیز کے متحقق ہونے سے پہلے اور متحقق ہونے کے وقت ، اور متحقق ہونے کے بعد کا علم اس کے لئے متصور نہیں ہے ،بہر حال جس طرح اس شخص کے بارے میں ہمارا علم جو ہمارے ہی سامنے اچھا کام کرتا ہے اس کے مجبور ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے اسی طرح خدا کا علم ( ہمارے اعتبار سے اس اچھے کام کے متحقق ہونے سے پہلے ) بھی اس شخص کے مجبور ہونے کا سبب نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے گروہ کی وضاحت میں (قدر،قضا ،مشیت اور ارادۂ خدا کی آیات وروایات میں )قابل ذکر یہ ہے کہ قدر چاہے انسان کے اختیاری افعال یا غیر اختیاری افعال میں ہو ضروری شرائط فراہم ہونے کے معنی میں ناکافی ہے اور قدر کے متحقق ہونے سے فعل حتمی اور قطعی متحقق نہیں ہوتا ہے

۱۹۸

بلکہ تمام شرائط کے فراہم ہونے کی بنا پر حتماً متحقق ہوتاہے اس لئے انسان کے اختیاری افعال میں قدر یعنی کسی فاعل سے فعل کا حتمی صادر ہونا اور واقع ہونا ، جبر کالا زمہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر کسی فعل کے صدور کے لئے علت ناقصہ (نہ کہ تامہ)فراہم ہوئی ہے تو صدور فعل حتمی نہیں ہے کہ اس فعل کے سلسلہ میں اختیاری یا جبری ہونے کے بارے میں بحث کیا جائے اور اگر صدور فعل کے تمام شرائط فراہم ہوں اور فقط فاعل نے قصد نہ کیا ہو تو معلوم ہوا کہ فاعل کا قصد ایک دوسری شرط ہے جو فعل کے حتمی متحقق ہونے کے لئے ضروری ہے اور اس صورت میں فعل اختیاری ہوگا۔

قضائے الٰہی

جو قدر کے مقابلہ میں ایک فعل کے متحقق ہونے کے لئے کافی اور ضروری شرائط کے فراہم ہونے کے معنی میں ہے وہ بھی انسان کے اختیارسے منافات نہیں رکھتا ہے اس لئے کہ قضائے الہی اس وقت متحقق ہوتی ہے جب کسی کام کے تحقق پانے کے تمام شرائط جن میں سے ایک انسان کا ارادہ بھی ہے فراہم ہوجائے. اور اختیاری افعال میں انسان کے قصد وارادہ کے بغیر قضائے الہی انسان کے اختیاری افعال میں متحقق نہیں ہوتا ہے.لہذا قضاء الٰہی بھی انسان کے اختیار سے سازگار ہے.

مشیت ، ارادہ اور اذن خدا کو بیان کرنے والی آیات وروایات جو دلالت کرتی ہیں کہ جو بھی فعل انسان انجام دیتا ہے اس کی اجازت اور ارادہ سے متحقق ہوتا ہے اور جس کا خدا نے ارادہ کیا ہے انسان اس کے علاوہ انجام نہیں دیتا ہے یہ مطلب بھی انسان کے اختیار سے سازگار ہے ، اس لئے کہ ان آیات وروایات میں مراد یہ نہیں ہے کہ انسان کا ارادہ خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں اور خدا کے ارادہ اور اجازت کے سامنے قرار پاتا ہے یعنی ہمارے ارادہ کرنے اور اپنے کام کو انجام دینے کے بجائے خدا ارادہ کرے اور اسے انجام دے اور ہم نے کوئی ارادہ نہ کیا ہو یا فعل کے تحقق میں ہمارا ارادہ مؤثر نہ ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم اپنے کاموں کے انجام میں مستقل اور خداسے بے نیاز نہیں ہیں اور مزید یہ کہ کسی بھی فعل کے انجام دینے میں ہمارا قصد اورارادہ مؤثر ہے ، اور طول میں خدا کی اجازت ، قصد اور ارادہ موثر ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہمارے افعال ہمارے ہی اختیار سے انجام پائیں اس لئے کہ اگر وہ نہ چاہے تو ہم کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتے یا ہمارا ارادہ اثر انداز نہیں ہوتا ہے(۱)

____________________

(۱)مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:محمد حسین طباطبائی ؛ المیزان فی تفسیر القرآن ؛ ج۱، ص۹۹، محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۲۸۱،۲۸۲

۱۹۹

خدا کے فعاّل ہونے کا راز

قرآن نے( تفویض ) نام کے غلط نظریہ کی نفی کے لئے خدا کے ارادے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے اس نظریہ والوں کا یقین یہ تھا کہ خدا نے دنیا کو خلق کیا اور اسکو اسی کے حال پر چھوڑ کر خود آرام کررہا ہے یادنیا خلق ہونے کے بعد اس کی قدرت اختیار سے خارج ہوگئی ہے اور اس میں خدا کا کوئی نقش و کردار نہیں ہے انسان کے سلسلہ میں یعنی خدا وند عالم فقط آغاز آفرینش میں اپناکردار ادا کرتا ہے اور جب انسان کی تخلیق ہوگئی تو پھر انسان پوری طرح خلاق و فعال ہے اور خدا وند عالم ( نَعُوذُ بِاللّہِ) بیکار ہے۔خدا یہ کہنا چاہتا ہے کہ: ایسا نہیں ہے بلکہ تم اپنے ارادہ سے جو یہ کام انجام دے رہے ہو یہ بھی میری خواہش سے ہے قرآن مجیدمیں فرماتا ہے:

( وَقَالَتِ الیَهُودُ یَدُ اﷲِ مَغلُولَة ) یہودی کہتے ہیں خدا کا ہاتھ بندھا ہوا ہے خدا وند عالم فرماتا ہے ایسا نہیں ہے (بَل یَدَاہُ مَبسُوطَتَانِ)(۱) اﷲکے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی خدا پوری طرح سے اختیار رکھتا ہے اور فعاّل ہے آیات تاکید کرتی ہیں کہ یہ گمان نہ کرنا کہ اگر انسان اپنے اختیار سے فعل انجام دے رہا ہے تو خدا وند عالم بیکار ہے.

دنیا اور خدا کا رابطہ گھڑی اوراس شخص کے رابطہ کی طرح ہے جو گھڑی کو چابی دیتا ہے ایسا نہیں ہے کہ دنیا گھڑی کی طرح چابی دینے کے بعد خود حرکت کرے اور کسی چابی دینے والے کی محتاج نہ ہو بلکہ یہ خدا وند عالم ہے جو دنیا کو ہمیشہ چلانے والا ہے (کُلَّ یَومٍ ھُوَ فِی شَأنٍ)(۲) کہ وہ ہر وقت فعاّل ہے انسان بھی دنیا کے حوادث سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ مشمول تدبیر وتقدیر الہی ہے. حتی کہ انسان آخرت میں بھی مشیت وارادۂ خدا سے خارج نہیں ہے جیسا کہ سورہ ہود کی ۱۰۸ویں آیہ جو ظلم کرکے ظالمانہ طور پر جہنم میں اور خوش بختی کے ساتھ بہشت میں ورود کو بیان کرنے کے بعد دونوں گروہوں کے بارے میں فرماتی ہے :

( خَالِدِینَ فِیهَا مَا دَامَتِ السَّمَٰوَاتُ وَ الأرضُ ِلا مَاشَائَ رَبُّکَ )

جب تک آسمان و زمین ہے وہ ہمیشہ اسی (جنت یا جہنم )میں رہیں گے مگر جب تیرا پروردگار چاہے ۔

ان دو عبارتوں میں '' لوگ ہمیشہ ہونگے''اور''جب تک دنیا باقی ہے''پر توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ مراد یہ نہیں ہے کہ کسی وقت خداوند عالم خوشبختوں یا ظالموں کو بہشت اور جہنم سے نکالے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ کہیں یہ تصور نہ ہوکہ یہ موضوع قدرت خدا کے حدود سے خارج ہوگیا ہے خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے کیونکہ اگر ایسا ہی ہوگا توخدا وند عالم اپنی مخلوق کا محکوم واقع ہوجائے گا۔

____________________

(۱)سورہ مائدہ ۶۴۔

(۲)سورۂ رحمٰن ۲۹۔

۲۰۰