انسان شناسی

انسان شناسی0%

انسان شناسی مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 307

انسان شناسی

مؤلف: حجة الاسلام و المسلمین محمود رجبی
زمرہ جات:

صفحے: 307
مشاہدے: 136485
ڈاؤنلوڈ: 3965

تبصرے:

انسان شناسی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 307 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136485 / ڈاؤنلوڈ: 3965
سائز سائز سائز
انسان شناسی

انسان شناسی

مؤلف:
اردو

کے مراتب میں شرک اورنفاق خفی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے نیچے کا درجہ جو مقام قرب کے ماسواء ہے شرک اور نفاق جلی کا ہے اور کہا جا چکا ہے کہ یہ شرک ونفاق صاحب عمل وفعل کی نیت سے مربوط ہیں پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :

''نیّة الشرک فی أمتی أخفی من دبیب النملة السودائِ علیٰ صخرة الصّاً فی اللیلة الظلمائ'' (۱)

میری امت کے درمیان نیت ِشرک، تاریک شب میں سیاہ سنگ پر سیاہ چیونٹیوں کی حرکت سے زیادہ مخفی ہے ۔(۱)

____________________

(۱)طوسی ، خواجہ نصیر الدین ؛ اوصاف الاشراف ۔

۲۶۱

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی تمام جستجو وتلاش کمالات کو حاصل کرنے اور سعادت کو پانے کے لئے ہے۔

۲۔ وہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیںدنیاوی فکر رکھتے ہیں نیز کمال وسعادت اور اس کے راہ حصول کے معانی ومفاہیم کو مادی امور میں منحصر جانتے ہیں.

۳۔ہرموجودکا کمال منجملہ انسان، اس کے اندر موجودہ صلاحیتوں کا فعلیت پانا نیز اس کا ظاہر وآشکار ہوناہے

۴۔ قرآن مجید انسان کے کمال نہائی کو فوز(کامیابی)فلاح(نجات)اور سعادت (خوشبختی ) جیسے کلمات سے تعبیرکرتا ہے.اور کمال نہائی کے مصداق کو قرب الٰہی بتاتاہے

۵۔ اچھے لوگوں کے لئے مقام قرب الہی ایمان کے ساتھ ساتھتقویٰ اور شائستہ اختیاری عمل ہی کے ذریعہ ممکن ہے.

۶۔ قرب الہی جس انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات کا حامل ہے حتی کہ انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط کے ہمراہ ہو تو انسان کو ایک حد تک خدا سے قریب کردیتا ہے.اس لئے اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کی بنیاد پر لوگوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں .جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگا اسی اعتبار سے اس کا تقرب الہی زیادہ ہوگا اور ایمان کامل اورتوحید خالص، قرب الہی کے آخری مرتبہ سے مربوط ہے۔

۲۶۲

تمرین

۱۔صاحب کمال ہونے اور کمال سے لذت اندوز ہونے کے درمیان کیا فرق ہے ؟

۲۔ انسان کی انسانیت اور اس کی حیوانیت کے درمیان کون سا رابطہ برقرار ہے؟

۳۔کمال نہائی کے حاصل ہونے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔آیات وروایات کی زبان میں اعمال نیک کو عمل صالح کیوں کہا گیا ہے؟

۵۔ اسلام کی نظر میں انسان کامل کی خصوصیات کیا ہیں؟

۶۔اگرہرعمل کااعتبار نیت سے وابستہ ہے تو اس شخص کے اعمال جو دینی واجبات کو خلوص نیت کے ساتھ لیکن غلط انجام دیتا ہے کیوں قبول نہیں کیا جاتا ہے؟

۲۶۳

مزید مطالعہ کے لئے

۔ آذر بائجانی ، مسعود (۱۳۷۵) ''انسان کامل از دیدگاہ اسلام و روان شناسی '' مجلۂ حوزہ و دانشگاہ ، سال نہم ، شمارہ پیاپی۔

۔بدوی ، عبد الرحمٰن (۱۳۷۶) الانسان الکامل فی الاسلام ؛ کویت : وکالة المطبوعات ۔

۔جبلی ، عبد الکریم ؛ ( ۱۳۲۸)الانسان الکامل فی معرفة الاوایل و الاواخر؛ قاہرہ : المطبعة الازہریة المصریة ۔

۔جوادی آملی ، عبد اللہ (۱۳۷۲) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۶، تہران : رجائ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن (۱۳۷۲) انسان کامل از دیدگاہ نہج البلاغہ ؛ قم : قیام ۔

۔زیادہ ، معن ، (۱۳۸۶)الموسوعة الفلسفیة العربیة ؛ بیروت : معھد الانماء العربی ۔

۔ سادات ، محمد علی ، (۱۳۶۴)اخلاق اسلامی ، تہران : سمت۔

۔سبحانی ، جعفر (۱۳۷۱) سیمای انسان کامل در قرآن ؛ قم : دفتر تبلیغات اسلامی ۔

۔شولٹس ، ڈوال ( بی تا) روان شناسی کمال ؛ ترجمہ ، گیتی خوشدل ، تہران : نشر نو ۔

۔محمد تقی مصباح ( بی تا) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۱) انسان کامل ؛ تہران : صدرا۔

۔نصری ، عبد اللہ؛ سیمای انسان کامل از دیدگاہ مکاتب ؛ تہران : انتشارات دانشگاہ علامہ طباطبائی۔

۲۶۴

ملحقات

ناٹالی ٹربوویک، انسان کے نہائی ہدف اور اس کے راہ حصول کے سلسلہ میں علماء علوم تجربی کے نظریات کو جو کہ صرف دنیاوی نقطہ نگاہ سے ہیں اس طرح بیان کرتا ہے۔

مغربی انسان شناسی کے اعتبار سے کمال نہائی

انسان کو بہتر مستقبل بنانے کیلئے کیا کرنا چاہیئے ؟انسان کی ترقی کے آخری اہداف کیا ہیں ؟ فرایڈ کے ماننے والے کہتے ہیں : انسان کا مستقبل تاریک ہے ، انسان کی خود پسند فطرت اس کے مشکلات کی جڑ ہے اور اس فطرت کی موجودہ جڑ وں کو پہچاننا اور اس کی اصلاح کرنا راہ تکامل(۱) کے بغیر دشوار نظر آتا ہے، فرایڈ کا دعویٰ ہے کہ زندگی کے نیک تقاضوں کو پورا کرنا ( جیسے جنسی مسائل) اور برے تقاضوں کو کمزور بنانا ( جیسے لڑائی جھگڑے وغیرہ ) شاید انسان کی مدد کرسکتا ہے جب کہ فرایڈ خود ان اصول پر عمل پیرا نہیں تھا ۔

ڈاکٹر فرایڈ کے نئے ماننے والے (مارکس، فروم ):انسان کی خطائیں معاشرے کے منفی آثار کا سر چشمہ ہیں لہٰذا اگر سماج اور معاشرہ کو اس طرح بدل دیا جائے کہ انسان کا قوی پہلو مضبوط اور ضعیف پہلو نابود ہوجائے تو انسان کی قسمت بہتر ہو سکتی ہے ، انسان کی پیشرفت کا آخری مقصد ایسے معاشرے کی ایجاد ہے جو تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے اپنی قابلیت کا مظاہرہ کریں ۔

مارکسیزم مذہب کے پیروی کرنے والے ( مارکس ، فروم ) : جن کا مقصدایسے اجتماعی شوسیالیزم کا وجود میں لانا تھا جس میں معاشرے کے تمام افراد ، ایجادات اور محصولات میں شریک

____________________

(۱) Evolution

۲۶۵

ہوں، جب کہ انسان کی مشکلوں کے لئے راہ حل اور آخری ہدف اس کی ترقی ہے، معاشرے کے افراد اس وقت اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوشنود پائیں گے جب سب کے سب اجتماعی طور پر اہداف کو پانے کے لئے ایک دوسرے کے مددگار ہوں ۔

فعالیت اور کردار کو محور قرار دینے والے افراد مثلا ا سکینر کا کہنا ہے: انسان کی ترقی کا آخری ہدف ، نوع بشر کی بقاء ہے اور جو چیز بھی اس ہدف میں مددگار ہوتی ہے وہ مطلوب و بہتر ہے ۔ اس بقا کے لئے ماحول بنانا ، بنیادی اصول میں سے ہے ، اوروہ ماحول جو تقاضے کے تحت بنائے جاتے ہیں وہ معاشرے کو مضبوط بنا سکتے ہیں نیز اس میں بقاکا احتمال زیادہ رہتا ہے (جیسے زندگی کی بہتری ، صلح ، معاشرہ پر کنٹرول وغیرہ )

نظریہ تجربیات کے حامی ( ہابز) کا کہنا ہے : انسان کے رفتار و کردار کو کنٹرول اور پیشن گوئی کے لئے تجربیات سے استفادہ کرنا اس کی ترقی کی راہ میں بہترین معاون ہے ۔

سود خوری کرنے والے ( بنٹام ، میل ) کا کہنا ہے : معاشرے کوچاہیئے کہ افراد کے اعمال و رفتار کو کنٹرول کرے اس طرح کہ سب سے زیادہ فائدہ عوام کی کثیر تعداد کو ملے ۔

انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے ( مازلو، روجر ) :مازلو کے مطابق ہر شخص میں ایک فطری خواہش ہے جو اس کو کامیابی و کامرانی کی طرف رہنمائی کرتی ہے لیکن یہ اندرونی قوت اتنی نازک و لطیف ہے جو متعارض ماحول کے دباؤسے بڑی سادگی سے متروک یا اس سے پہلو تہی کرلیتی ہے ۔ اسی بنا پر انسان کی زندگی کو بہتر بنانے کی کلید، معاشرے کو پہچاننے اور پوشیدہ قوتوں کی ہلکی جھلک، انسان کی تشویق میں مضمر ہے ۔

۲۶۶

روجر کا کہنا ہے :جملہ افراد دوسروں کی بے قید و شرط تائید کے محتاج ہیں تاکہ خود کو ایک فرد کے عنوان سے قبول کریں اور اس کے بعد اپنی انتہائی صلاحیت کے مطابق ترقی و پیش رفت کریں ، اسی لئے تائید کی میزان ِ افزائش انسان کی وضعیت کے بہتر بنانے کی کلید ہے اور ہر انسان کی اپنی شخصیت سازی ہی اس کی ترقی کا ہدف ہے ۔

انسان گرائی کا عقیدہ رکھنے والے ( می، فرینکل )کے مطابق :

می:کا کہنا ہے کہ دور حاضر کے انسان کو جاننا چاہیئے کہ جب تک وہ صاحب ارادہ ہے اپنے اعمال کے لئے مواقع کی شناخت کرناچاہیئے اوراپنے حسِ ارادہ کو حاصل کرکے اپنی وضعیت بہتر بنانی چاہیئے ۔

فرینکل کہتا ہے کہ : ہروہ انسان جو کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا کسی کے واسطے زندگی گذارنا چاہتا ہے ،اس کو چاہیئے کہ وہ اس کی حیات کو اہمیت دے ۔ یہ معنی اور نظریہ ہر ارادہ کرنے والے کو ایک مبنیٰ فراہم کراتا ہے اور انسان کو مایوسی اور تنہائی سے نجات دلاتا ہے ۔

خدا کا یقین رکھنے والے( ببر ، ٹلیچ ، فورنیر) :کا کہنا ہے کہ ہمارا خدا اور اس کے بندے سے دوگانہ رابطہ ہمارے آزادانہ افعال کے لئے ہدایت کا سر چشمہ ہے اور انسانی ترقی کا پیش خیمہ ہے ۔

۲۶۷

دسویں فصل :

دنیا وآخرت کا رابطہ

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات :

۱۔ قرآن مجید میں کلمہ دنیا وآخرت کے استعمالات میں سے تیں موارد بیان کریں؟

۲۔دنیا وآخرت کے باری میں مختلف نظریات کی تجزیہ وتحلیل کریں؟

۳۔ رابطہ دنیا وآخرت کے مہم نکات کو ذکر کریں؟

۴۔ آخرت میں دنیاوی حالت سے مربوط افراد کے چار دستوں کانام ذکر کریں؟

۲۶۸

گذشتہ فصلوں میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان مادی اور حیوانی حصہ میں منحصر نہیں ہے اور نہ ہی اس کی دنیا اس کی دنیاوی زندگی میں منحصر ہے.انسان ایک دائمی مخلوق ہے جو اپنے اختیاری تلاش سے اپنی دائمی سعادت یا بد بختی کے اسباب فراہم کرتی ہے اوروہ سعادت وبد بختی محدود دنیا میں سمانے کی ظرفیت نہیں رکھتی ہے. دنیا ایک مزرعہ کی طرح ہے جس میں انسان جو کچھ بو تا ہے عالم آخرت میں وہی حاصل کرتاہے اس فصل میں ہم کوشش کریں گے کہ ان دو عالم کا رابطہ اور دنیا میں انسان کی جستجو کا کردار ، آخرت میں اس کی سعادت وبد بختی کی نسبت کو واضح کریں ،ہم قرآن مجید کی آیتوں کی روشنی میں اس رابطہ کے غلط مفہوم ومصادیق کومشخص اورجدا کرتے ہوئے اس کی صحیح وواضح تصویر آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

قرآن مجید میں کلمہ ٔدنیا کے مختلف استعمالات

چونکہ قرآن مجید میں لفظ دنیا وآخرت کا مختلف ومتعدد استعمال ہوا ہے.لہٰذا ہم دنیا وآخرت کے رابطے کو بیان کرنے سے پہلے ان لفظوںکے مراد کو واضح کرنا چاہتے ہیں.قرآن میں دنیا وآخرت سے مراد کبھی انسان کی زندگی کا ظرف ہے جیسے( فَأُولٰئِکَ حَبِطَت أَعمَالُهُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ ) (۱) ان لوگوں (مرتد افراد)کا انجام دیا ہوا سب کچھ دنیا و آخرت میں اکارت ہے ۔

____________________

(۱)بقرہ ۲۱۷۔

۲۶۹

ان دو لفظوںکے دوسرے استعمال میں دنیا وآخرت کی نعمتوں کا ارادہ ہواہے.جیسے( بَل تُؤثِرُونَ الحَیَاةَ الدُّنیَا ٭ وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ ) (۱) مگر تم لوگ تو دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیر پا ہے ۔

ان دولفظوں کا تیسرا استعمال کہ جس سے مراد دنیاوآخرت میں انسان کا طریقۂ زندگی ہے، اور جو چیز اس بحث میں ملحوظ ہے وہ ان دو لفظوں کا دوسرا اور تیسرا استعمال ہے یعنی اس بحث میں ہم یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں کہ طریقۂ رفتار وکردارنیز اس دنیا میں زندگی گذارنے کی کیفیت کاآخرت کی زندگی اور کیفیت سے کیا رابطہ ہے۔؟

اس سلسلہ میں تجزیہ وتحلیل کرنا اس جہت سے ضروری ہے کہ موت کے بعد کے عالم پر صرف اعتقاد رکھنا ہمارے اس دنیا میں اختیاری کردارورفتار پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ اسی وقت فائدہ مند ہے جب دنیا میں انسان کی رفتار وکردار اور اس کے طریقۂ زندگی اور آخرت میں اس کی زندگی کی کیفیت کے درمیان ایک مخصوص رابطہ کے معتقد ہوں .مثال کے طور پر اگر کوئی معتقد ہو کہ انسان کی زندگی کا ایک مرحلہ دنیا میں ہے جو موت کے آجانے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور آخرت میں زندگی کا دوسرا مرحلہ ہے جو اس کی دنیاوی زندگی سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا ہے تو صرف اس جدید حیات کا عقیدہ اس کے رفتار وکردار پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے ان مراحل کے درمیان کوئی رابطہ ہے یا نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو کس طرح کا رابطہ ہے؟

دنیا و آخرت کے روابط کے بارے میں پائے جانے والے نظریات کا تجزیہ

ان لوگوں کے نظریہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے جو آخرت کی زندگی کو مادی زندگی کا دوسرا حصہ سمجھتے ہیں اسی لئے وہ اپنے مرنے والوں کے قبروں میں مادی امکانات مثال کے طور پر کھانا

____________________

(۱)سورہ اعلی ۱۶ و ۱۷ ۔

۲۷۰

اور دوسرے اسباب زینت رکھنے کے قائل ہیں،تاریخ انسانیت میں دنیا وآخرت کے درمیان تین طرح کے رابطے انسانوں کی طرف سے بیان ہوئے ہیں.

پہلا نظریہ یہ ہے کہ انسا ن اور دنیا وآخرت کے درمیان ایک مثبت اور مستقیم رابطہ ہے جو لوگ دنیا میں اچھی زندگی سے آراستہ ہیںوہ آخرت میں بھی اچھی زندگی سے ہم کنار ہوں گے ۔قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتاہے :

( وَ دَخَلَ جَنَّتَهُ وَ هُوَ ظَالِم لِّنَفسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ هٰذِهِ أَبَداً٭وَ مَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّدِدتُّ لَیٰ رَبِّی لَأَجِدَنَّ خَیراً مِنهَا مُنقَلَباً )

وہ کہ جس نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا تھا جب اپنے باغ میں داخل ہوا تو یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے تو اس کا گمان بھی نہیں تھا کہ کبھی یہ باغ اجڑ جائے گا اور میں تو یہ بھی خیال نہیں کرتا تھاکہ قیامت برپاہوگی اور جب میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جاؤں گا تو یقینا اس سے کہیں اچھی جگہ پاؤں گا ۔(۱)

سورہ فصلت کی ۵۰ویں آیہ میں بھی ہم پڑھتے ہیں :

( وَ لَئِن أَذَقنَاهُ رَحمَةً مِنَّا مِن بَعدِ ضَرَّائَ مَسَّتهُ لَیَقُولَنَّ هٰذَا لِی وَ مَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّجِعتُ ِلَیٰ رَبِّی ِنَّ لِی عِندَهُ لَلحُسنَیٰ )

اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہونچ جانے کے بعد ہم اس کو اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو یقینی کہنے لگتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ہی ہے اور میں نہیں خیال کرتا کہ کبھی قیامت برپا ہوگی اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف پلٹایا بھی جاؤں تو بھی میرے لئییقینا اس کے یہاں بھلائی ہے ۔

____________________

(۱)سورہ کہف ۳۵و۳۶۔

۲۷۱

بعض لوگوں نے بھی اس آیہ شریفہ( و َمَن کَانَ فِی هٰذِهِ أَعمَیٰ فَهُوَ فِی الآخِرَةِ أَعمَیٰ وَ أَضَلُّ سَبِیلاً ) ''اور جو شخص اس دنیامیں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہ راست سے بھٹکا ہوا ہوگا''(۱) کو دلیل بنا کر کہا ہے کہ: قرآن نے بھی اس مستقیم ومثبت رابطہ کو صحیح قرار دیا ہے کہ جو انسان اس دنیا میں اپنی دنیاوی زندگی کے لئے تلاش نہیںکرتا ہے اور مادی نعمتوں کو حاصل نہیں کرپاتا ہے وہ آخرت میں بھی آخرت کی نعمتوںسے محروم رہے گا.

بعض لوگوں نے اس رابطے کے برعکس نظریہ ذکر کیا ہے ان لوگوںکاکہنا ہے کہ ہر قسم کی اس دنیا میں لطف اندوزی اور عیش پرستی، آخرت میں غم واندوہ کا باعث ہے اور اس دنیا میں ہر طرح کی محرومیت،آخرت میں آسودگی اور خوشبختی کاپیش خیمہ ہے،یہ لوگ شاید یہ خیال کرتے ہیںکہ ہم دو زندگی اور ایک روزی و نعمت کے مالک ہیں اور اگر اس دنیا میں اس سے بہرہ مند ہوئے تو آخرت میں محروم ہوں گے اور اگریہاں محروم رہے تو اس دنیا میں حاصل کرلیں گے۔

یہ نظریہ بعض معاد کا اعتقاد رکھنے والوں کی طرف سے مورد تائید ہے اور وہ اس آیہ سے استدلال کرتے ہیں:

( أَذهَبتُم طَیِّبَاتِکُم فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنیَا وَ استَمتَعتُم بِهَا فَالیَومَ تُجزَونَ عَذَابَ الهُونِ ) (۲)

تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں خوب مزے اڑا چکے اور اس میں خوب چین کر چکے تو آج (قیامت کے روز) تم پر ذلت کا عذاب کیا جائے گا ۔

دو نوں مذکورہ نظریہ قرآن سے سازگار نہیں ہے اسی لئے قرآن مجید نے سینکڑوں آیات میں اس مسئلہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

____________________

(۱)سورہ اسرائ۷۲۔

(۲)سورہ احقاق ۲۰۔

۲۷۲

پہلے نظریہ کے غلط اور باطل ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن نے ایسے لوگوں کو یاد کیا ہے جو دنیا میں فراوانی نعمت سے ہمکنار تھے لیکن کافر ہونے کی وجہ سے اہل جہنم اور عذاب الہی سے دوچار ہیں. جیسے ولید بن مغیرہ ،ثروت مند اور عرب کا چالاک نیز پیغمبر اکرم کے سب سے بڑے دشمنون میں سے تھا اوریہ آیہ اس کے لئے نازل ہوئی ہے.

( ذَرنِی وَ مَن خَلَقتُ وَحِیداً٭وَ جَعَلتُ لَهُ مَالاً مَمدُوداً٭وَ بَنِینَ شُهُوداً٭وَ مَهَّدتُّ لَهُ تَمهِیداً٭ثُمَّ یَطمَعُ أَن أَزِیدَ ٭ کَلاّ ِنَّهُ کَانَ لِآیَاتِنَا عَنِیداً٭ سَأُرهِقُهُ صَعُوداً ) (۱)

مجھے اس شخص کے ساتھ چھوڑ دو کہ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اور اسے بہت سا مال دیا اور نظر کے سامنے رہنے والے بیٹے اور اسے ہر طرح کے سامان میں وسعت دی پھر اس پر بھی وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اور بڑھاؤں یہ ہرگز نہ ہوگا یہ تو میری آیتوں کا دشمن تھا تو میں عنقریب اسے سخت عذاب میں مبتلا کروں گا ۔

قارون کی دولت اور اس کی بے انتہا ثروت ، دنیاوی سزا میں گرفتارہونا اور اس کی آخرت کی بد بختی بھی ایک دوسرا واضح نمونہ ہے جو سورہ قصص کی ۷۶ویں آیہ اور سورہ عنکبوت کی ۳۹ویں آیہ میں مذکور ہے.دوسری طرف قرآن مجید صالح لوگوں کے بارے گفتگو کر تا ہے جو دنیا میں وقار وعزت اور نعمتوں سے محروم تھے لیکن عالم آخرت میں ،جنت میں ہیںجیسیصدر اسلام کے مسلمین جن کی توصیف میں فرماتاہے :

( لِلفُقَرَائِ المُهَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخرِجُوا مِن دِیَارِهِم وَ أَموَالِهِم یَبتَغُونَ فَضلاً مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضوَاناً وَ یَنصُرُونَ اللّٰهَ وَ رَسُولَهُ أُولٰئِکَ هُمُ )

____________________

(۱)سورہ مدثر ۱۱تا۱۷۔

۲۷۳

( الصَّادِقُونَ٭...فَأُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ ) (۱)

ان مفلس مہاجروں کا حصہ ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے خدا کے فضل و خوشنودی کے طلبگار ہیں اور خدا کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ سچے ایماندار ہیں ...تو ایسے ہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے ۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ آخرت میں شقاوت وسعادت کا معیار ایمان اور عمل صالح نیز کفر اور غیر شائستہ اعمال ہیں، دنیاوی شان و شوکت اور اموال سے مزین ہونا اور نہ ہونانہیں ہے۔

( وَ مَن أَعرَضَ عَن ذِکرِی فَِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنکاً وَ نَحشُرُهُ یَومَ القِیَامَةِ أعمَیٰ ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنِی أَعمَیٰ وَ قَد کُنتُ بَصِیراً ٭ قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتکَ آیاتُنَا فَنَسِیتَهَا وَ کَذٰلِکَ الیَومَ تُنسَیٰ ) (۲)

جو بھی میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کے لئے سخت و ناگوار زندگی کا سامنا ہے اور اس کو ہم قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے ، تب وہ کہے گا الٰہی میں تو آنکھ والا تھا تونے مجھے اندھا کیوں اٹھایا خدا فرمائے گاجس طرح سے ہماری آیتیں تمہارے پاس پہونچیں تو تم نے انھیں بھلادیااور اسی طرح آج ہم نے تمہیں بھلا دیا ہے ۔

یہ آیہ دلالت کرتی ہے کہ نامطلوب دنیاوی زندگی اگر کفر وگناہ کے زیر اثر ہو تو ہوسکتا ہے کہ آخرت کی بد بختی کے ہمراہ ہو. لیکن بری زندگی خود معلول ہے علت نہیں ہے جو گناہ و کفراور مطلوبہ نتائج (ایک دنیاوی امر دوسرا اخروی )کاحامل ہے،دوسرے نظریہ کے بطلان پر بھی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں جیسے:

( قُل مَن حَرَّمَ زِینَةَ اللّٰهِ الَّتِی أَخرَجَ لِعِبَادِهِ وَ الطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزقِ قُل هِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الحَیَاةِ الدُّنیَا خَالِصَةً یَومَ القِیامَةِ )

____________________

(۱)سورہ حشر ۸و۹۔ (۲) طہ۱۲۴تا۱۲۶۔

۲۷۴

(اے پیامبر کہدو) کہ جو زینت اور کھانے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطہ پیدا کی ہیں کس نے حرام قرار دیں تم خود کہدوکہ سب پاکیزہ چیزیں قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگی میں ایمان لائے ۔(۱)

حضرت سلیمان جن کو قرآن مجید نے صالح اور خدا کے مقرب بندوں میں شمار کیا ہے اورجو دنیاوی عظیم امکانات کے حامل تھے اس کے باوجود ان امکانات نے ان کی اخروی سعادت کو کوئی نقصان نہیں پہونچایا ہے۔

آیہ( أَذهَبتُم طَیِّبَاتکُم ) بھی ان کافروں سے مربوط ہے جنہوں نے دنیا وی عیش و آرام کو کفر اور انکار خدا نیز سرکشی اور عصیان کے بدلے میں خریدا ہے جیسا کہ ابتداء آیہ میں وارد ہوا ہے:( وَقِیلَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا... ) جن آیات میں ایمان اورعمل صالح اوراخروی سعادت کے درمیان نیزکفر وگناہ اوراخروی بد بختی کے درمیان رابطہ اتنا زیادہ ہے کہ جس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے اور یہ مطلب مسلم بھی ہے بلکہ اسلام وقرآن کی ضروریات میں سے ہے۔

رابطۂ دنیا وآخرت کی حقیقت

ایمان اورعمل صالح کا اخروی سعادت سے رابطہ اور کفر وگناہ کا اخروی شقاوت سے لگاؤایک طرح سے صرف اعتباری رابطہ نہیں ہے جسے دوسرے اعتبارات کے ذریعہ تبدیل کیا جاسکتا ہو اور ان کے درمیان کوئی تکوینی و حقیقی رابطہ نہ ہو اور ان آیات میں وضعی واعتباری روابط پر دلالت کرنے والی تعبیروں سے مراد، رابطہ کا وضعی واعتباری ہونا نہیں ہے بلکہ یہ تعبیریں انسانوں کی تفہیم اور تقریب ذہن کے لئے استعمال ہوئی ہیں جیسے تجارت(۲) ، خرید وفروش(۳) سزا(۴) جزا(۵) اور اس کے مثل ، بہت سی آیات کے قرائن سے معلوم ہوتا ہے جو بیان کرتی ہیں کہ انسان نے جو کچھ

____________________

(۱)سورہ اعراف ۳۲۔

(۲) (یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا هَل أَدُلُّکُم عَلَیٰ تِجَارَةٍ تُنجِیکُم مِّن عَذَابٍ أَلِیمٍ )(صف ۱۰ )

( اے صاحبان ایمان! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتادوں جو تم کو درد ناک عذاب سے نجات دے ) (۳)(إنَّ اللّهَ اشتَرَیٰ مِنَ المُؤمِنِینَ أَنفُسَهُم وَ أَموَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ )(توبہ ۱۱۱) (اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لئے ہیں کہ ان کے لئے بہشت ہے )

(۴)(وَ ذٰلِکَ جَزَائُ مَن تَزَکَّیٰ )(طہ۷۶)(اور جس نے اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ رکھا اس کا یہی (جنت)صلہ ہے )

(۵)(فَنِعمَ أَجرُ العَامِلِینَ )(زمر۷۴) (جنہوں نے راہ خدا میں سعی و کوشش کی ان کے لئے کیاخوب مزدوری ہے )

۲۷۵

بھی انجام دیا ہے وہ دیکھے گا اور اس کی جزا وہی عمل ہے.

اچھے لوگوں کی جزا کاان کے اچھے کاموںسے رابطہ بھی صرف فضل ورحمت کی بنا پر نہیں ہے کہ جس میں ان کے نیک عمل کی شائستگی اور استحقاق ثواب کا لحاظ نہ کیا گیا ہو کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو عدل وانصاف ، اپنے اعمال کے مشاہدہ اور یہ کہ عمل کے مطابق ہی ہر انسان کی جزا ہے جیسی آیات سے قطعاً سازگار نہیں ہے ۔

مذکورہ رابطہ کو ایک انرجی کا مادہ میں تبدیل ہونے کی طرح سمجھنا صحیح نہیں ہے اور موجودہ انرجی اور آخرت کی نعمتوںکے درمیان مناسبت کا نہ ہونااور ایک انرجی کا اچھے اور برے فعل میں استعمال کا امکان نیز وہ بنیادی کردار جو آیات میں عمل ونیت کے اچھے اور برے ہونے سے دیاگیا ہے اس نظریہ کے باطل ہونے کی دلیل ہے.

گذشتہ مطالب کی روشنی میں ایمان وعمل صالح کا سعادت اور کفر وگناہ کا اخروی بد بختی سے ایک حقیقی رابطہ ہے اس طرح کہ آخرت میں انسان کے اعمالملکوتی شکل میں ظاہر ہوںگے اور وہی ملکوتی وجود، آخرت کی جزا اور سزا نیز عین عمل قرار پائے گا۔

منجملہ وہ آیات جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں:

( وَ مَا تُقَدِّمُوا لِأنفُسِکُم مِن خَیرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللّٰهِ ) (۱)

اور جو کچھ بھلائی اپنے لئے پہلے سے بھیج دوگے اس کو موجود پاؤ گے۔

( یَومَ تَجِدُ کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت مِن خَیرٍ مُّحضَراً وَ مَا عَمِلَت مِنٍ

) ____________________

(۱)سورہ بقرہ۱۱۰ ۔

۲۷۶

سُوء تَوَدُّ لَو أَنَّ بَینَهَا وَ بَینَهُ أَمَداً بَعِیداً) (۱)

اس دن ہر شخص جو کچھ اس نے نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا آرزو کرے گا کہ کاش اس کی بدی اور اس کے درمیان میں زمانہ دراز ہوجاتا

( فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَهُ٭وَ مَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَهُ )

جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہے اسے بھی دیکھ لے گا ۔(۲)

( إِنَّمَا تُجزَونَ مَا کُنتُم تَعمَلُونَ ) (۳)

بس تم کو انھیں کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے ۔

( إِنَّ الَّذِینَ یَأکُلُونَ أَموَالَ الیَتَامَیٰ ظُلماً ِنَّمَا یَأکُلُونَ فِی بُطُونِهِم نَاراً )

بے شک جو لوگ یتیم کے اموال کھاتے ہیں وہ لوگ اپنے شکم میں آگ کھارہے ہیں۔(۴)

دنیا اور آخرت کے رابطہ میں دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی میں لوگ فقط اپنا نتیجۂ اعمال دیکھیںگے اور کوئی کسی کے نتائج اعمال سے سوء استفادہ نہیں کرسکے گا اور نہ ہی کسی کے برے اعمال کی سزا قبول کر سکے گا۔

( أَلا تَزِرُ وَازِرَة وِزرَ أُخرَیٰ وَ أَن لَّیسَ لِلِإنسَانِ ِلا مَا سَعَیٰ )

کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔(۵)

دوسرا نکتہ یہ ہے کے آخرت میں لوگ اپنی دنیاوی حالت کے اعتبار سے چار گروہ میں تقسیم ہونگے

____________________

(۱)سورہ آل عمران ۳۰۔

(۲)سورہ زلزال ۷،۸۔

(۳)طور ۱۶ ۔

(۴)سورہ نساء ۱۰ ۔

(۵)سورہ نجم ۳۸،۳۹۔

۲۷۷

الف)وہ لوگ جو دنیا وآخرت کی نعمتوں سے فیض یاب ہیں۔

( وآتَینَاهُ أَجرَهُ فِی الدُّنیَا وَ ِنَّهُ فِی الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ )

اور ہم نے ابراہیم کو دنیا میں بھی اچھا بدلہ عطا کیا اور وہ تو آخرت میں بھی یقینی نیکو کاروںمیں سے ہیں۔(۱)

ب)وہ لوگ جودنیا وآخرت میں محروم ہیں۔

( خَسِرَ الدُّنیَا وَ الآخِرَةَ ذٰلِکَ هُوَ الخُسرَانُ المُبِینُ )

اس نے دنیا و آخرت میں گھاٹا اٹھایا صریحی گھاٹا۔(۲)

ج)وہ لوگ جو دنیا میں محروم اور آخرت میں بہرہ مند ہیں.

د) وہ لوگ جو آخرت میں محروم اور دنیا میں بہرہ مندہیں.

آخری دو گروہ کے نمونے بحث کے دوران گذرچکے ہیں ۔ دنیا وآخرت کے رابطے (ایمان وعمل صالح ہمراہ سعادت اور کفر وگناہ ہمراہ شقاوت )میں آخری نکتہ یہ ہے کہ قرآنی نظریہ کے مطابق انسان کاایمان اورعمل صالح اس کے گذشتہ آثار کفر کو ختم کردیتا ہے اور عمر کے آخری حصہ میں کفر اختیار کرناگذشتہ ایمان وعمل صالح کو برباد کردیتا ہے۔( کہ جس کو حبط عمل سے تعبیر کیا گیا ہے )

( وَ مَن یُؤمِن بِاللّٰهِ وَ یَعمَل صَالِحاً یُکَفِّر عَنهُ سَیِّئَاتِهِ ) ۔(۳)

اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے اور عمل صالح انجام دیتا ہے وہ اپنی برائیوںکو محو کردیتا ہے

( وَ مَن یَرتَدِد مِنکُم عَن دِینِهِ فَیَمُت وَ هُوَ کَافِر فَأُولٰئِکَ حَبِطَت أَعمَالُهُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ ) (۴)

____________________

(۱)سورہ عنکبوت ۲۷۔

(۲)سورہ حج ۱۱۔

(۳)سورہ تغابن ۹۔

(۴)سورہ بقرہ ۲۱۷۔

۲۷۸

اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرگیا اور کفر کی حالت میں دنیا سے گیا ،

اس نے اپنے دنیا و آخرت کے تمام اعمال برباد کردیئے ۔

دوسری طرف اگر چہ اچھا یابرا کام دوسرے اچھے یابرے فعل کے اثر کو ختم نہیں کرتاہے .لیکن بعض اچھے افعال ،بعض برے افعال کے اثر کو ختم کردیتے ہیں اور بعض برے افعال بعض اچھے افعال کے آثار کو ختم کردیتے ہیں مثال کے طور پر احسان جتانا، نقصان پہونچانا، مالی انفاق(صدقات) کے اثر کو ختم کردیتا ہے.

( لا تُبطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالمَنِّ وَ الأذَیٰ ) (۱)

اپنی خیرات کو احسان جتانے اور ایذا دینے کی وجہ سے اکارت نہ کرو۔

اور صبح وشام اور کچھ رات گئے نماز قائم کرنا بعض برے افعال کے آثار کو ختم کردیتا ہے قرآن مجید فرماتاہے:

( وَ أَقِمِ الصَّلَٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفاً مِّنَ اللَّیلِ إنَّ الحَسَنَاتِ یُذهِبنَ السَّیِّئَاتِ )

دن کے دونوں طرف اور کچھ رات گئے نماز پڑھا کروکیونکہ نیکیاں بیشک گناہوں کو دور کریتی ہیں۔(۲)

شفاعت بھی ایک علت وسبب ہے جو انسان کے حقیقی کمال وسعادت کے حصول میں موثر ہے.(۳)

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۲۶۴۔

(۲)ھود۱۱۴۔

(۳) قرآن مجید کی آیات میں ایمان اور عمل صالح ، ایمان اور تقویٰ، ہجرت اور اذیتوں کا برداشت کرنا، جہادنیز کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا ، پوشیدہ طور پر صدقہ دینا ، احسان کرنا ، توبۂ نصوح اور نماز کے لئے دن کے ابتدا اور آخر میں نیزرات گئے قیام کرنا منجملہ ان امور میں سے ہیں جن کو بعض گناہوں کے آثار کو محو کرنے کی علت کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے ۔ملاحظہ ہو: محمد ۲؛مائدہ ۱۲؛ عنکبوت ۷؛ مائدہ ۶۵؛ آل عمران ۱۹۵؛ نساء ۳۱؛ بقرہ۲۷۱ ؛انفال ۲۹؛ زمر۳۵؛ تحریم ۸؛ ھود ۱۴۴۔اچھے اور برے اعمال کا ایک دوسرے میں اثرانداز ہونے کی مقدار اور اقسام کی تعیین کو وحی اور ائمہ معصومین کی گفتگو کے ذریعہ حاصل کرنا چاہیئے اور اس سلسلہ میں کوئی عام قاعدہ بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

۲۷۹

اچھے اور برے اعمال ،حبط و تکفیر ہونے کے علاوہ اس دنیا میں انسان کی توفیقات اور سلب توفیقات ، خوشی اور ناخوشی میں موثر ہیں ، مثال کے طور پر دوسروں پر احسان کرنا خصوصاً والدین اور عزیزو اقربا پر احسان کرنا آفتوں اور بلاؤں کے دفع اور طول عمر کا سبب ہوتا ہے اور بزرگوں کی بے احترامی کرنا توفیقات کے سلب ہونے کا موجب ہوتا ہے ۔ لیکن ان آثار کا مرتب ہونا اعمال کے پوری طرح سے جزا و سزا کے دریافت ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ حقیقی جزا و سزا کا مقام جہان اخروی ہے ۔

(۴) شفاعت کے کردار اور اس کے شرائط کے حامل ہونے کی آگاہی اور اس سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہات اور ان کے جوابات سے مطلع ہونے کے لئے ملحقات کی طرف مراجعہ کریں ۔

۲۸۰