نواں سبق
نما زکی و اہمیت اور اہل بہشت کے درجات میں فرق
* پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعض نصیحتوں کی تقسیم بندی
* عبادت گزاروں اور شب زندہ داروں کا مرتبہ
* بہشتی مقامات سے استفادہ کرنے کے لحاظ سے اہل بہشت کے درمیان فرق
* پیغمبر اسلام صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کا نماز کے ساتھشدید لگائو
* نماز، سعادت و خوش بختی کی کنجی
* عبادت کی شیرینی کا ادراک ، اس کے دوام کا راز
نماز کی منزلت و اہمیت اوراہل بہشت کے درجات میں فرق
'' یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲ جَلَّ ثنَاؤُهُ لَیُدْخِلُ قَوْماً الْجَنَّةَ فَیُعْطِیهِمْ حَتّٰی یَمِلُّوا وَ فَوْقَهُمْ قَوْمفِی الدَّرَجَاتِ الْعُلٰی ، فَاِذَا نَظَرُوا اِلَیهِمْ عَرَفُوهُمْ فَیَقُولُونَ : رَبَّنَا اِخْوَانُنَا کُنَّا مَعَهُمْ فِی الدُّنْیَا فَبِمَ فَضَّلْتَهُُمْ عَلَیْنَا فَیُقَالُ: هَیْهَاتَ، هَیْهَاتَ اِنَّهُمْ کاَنُوا یَجُوعُونَ حِینَ تَشبَعُونَ وَ یَظْمَئُونَ حِینَ تَرْوُونَ وَ یَقُومُونَ حِینَ تَنَامُونَ وَ یَشْخَصُونَ حِینَ تَحْفَظُونَ''
''یَا َبَاذَرٍ! جَعَلَ ﷲ جَلَّ ثَنَاؤُهُ قُرّةَ عَیْنِی فِی الصّلٰوةِ وَحَبَّبَ اِلَیَّ الصَّلٰوةَ کَمَا حَبَّبَ اِلَی الجَائِعِ الطَّعَامَ وَ اِلَی الظَّمانِ اَلْمَائَ وَ اِنَّ الْجَائِعَ اِذَا اَکَلَ شَبَعَ وَ اِنَّ الظَّمَانَ اِذَا شَرِبَ رَوِیَ وَ اَنَا لَا اَشْبَعُ مِنَ الصَّلٰوةِ''
''یَا اَبَاذرٍ! اَیُّمَا رَجُلٍ تَطَوَّعَ فِی یَومٍ وَ لَیْلَةٍ اثْنَتَیْ عَشَرَ رَکْعَةً سِوَی الْمَکْتُوبَةِ کَان لَهُ حَقّاً وَاجِباً بَیْت فِی الْجَنَّةِ''
''یَا َبَاذَرٍ ! مَا دُمْتُ فِی الصَّلٰوةِ فَاِنَّکَ تَقْرَعُ بَابَ المَلِکِ الْجَبَّارِ وَ مَنْ یَکْثِرْ قَرْعَ بَابَ الْمَلِکِ یُفْتَح لَهُ ''
''یَا َبَاذَرٍ! مَا مِنْ مَُؤْمِنٍِ یَقُومُ مُصَلِّیاً اِلَّا تَنَاثَرَ عَلَیهِ الْبِرُّ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْعَرْشِ وَ وُکِّلَ بِهِ مَلَک یُنَادِی : یَابنَ آدَمَ لَوْ تَعْلَمُ مَالَکَ فِی الصَّلٰوةِ وَ مَنْ تُنَاجِی مٰا اَنْفَتلْتَ ''
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی بعض نصیحتوں کی تقسیم بندی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جونصیحتیں اس سے پہلے بیان کی گئیں چند حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں :
پہلا حصہ:
انسان کو بیدار کرنے اور اس سے غفلت کو دور کرنے سے مربوط ہے ، کیونکہ وہ حیوانی طبیعت کے پیش نظر دنیوی سرگرمیوں کیلئے ، حیوانی غرائز و تمایلات سے سیر ہونے کیلئے بہت سے انگیزہ رکھتا ہے ، اس لئے مبدا و معاد کو فراموش کر دیتا ہے ۔
اگرچہ بعض انسان ابتدا ہی سے اپنی پیدائش کے ہدف و مقصد سے آگاہ ہیں ، لیکن عام لوگ اپنی پیدائش کے مقصد سے غافل ہیں ؛ وہ نہیں جانتے کہ کس لئے پیدا کئے گئے ہیں ، کہاں جارہے ہیں اور انھیں کیا کرنا چاہیے ، ا سلئے انہیں بیدار کرنے اور ان میں ذمہ داری کا احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ، پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نصیحتوں کا پہلا حصہ غفلت کو دور کرنے اور انسان کی توجہ اس کی ذمہ داریوں کی طرف مبذول کرانے سے مربوط ہے تا کہ وہ جان لے کہ اس کے پاس کون سا گراں قیمت سرمایہ ہے جس سے اسے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
دوسرا حصہ :
انسان کا ہدف و مقصد اورایسے راستہ کے انتخاب کی ضرورت کے بعدکہ جو اس تک رہنمائی کرنے والا ہے علم و آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت کو بیان کیا جاتا ہے اس لحاظ سے دوسرے حصہ میں علم حاصل کرنے اور علما کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ اس حصہ میں بیان ہوا ہے کہ سب سے ضروری علم وہ علم ہے مقصد خلقت اور اس مقصد تک پہنچنے کے راستہ کی رہنمائی کرے اور اس علم سے مراد معارف الٰہی ہے
تیسرا حصہ :
اس حصہ میں علم ، فرائض اور تکالیف پر عمل کرنے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے اور اشارہ ہوا کہ عمل دو صورتوں میں محقق ہوتا ہے پہلی صورت مثبت سرگرمیاں ہیں، یعنی وہ امور جو ہمیں انجام دینا چاہیے ۔ دوسری صورت سلبی سرگرمیاںہیں ، یعنی وہ کام جو ہمیں انجام نہیں دینا چاہیے ، یعنی ( محرمات ) وہ کام جن سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ اس حصہ کا بنیادی نقطہ، گناہ کی اہمیت کو درک کرنے اور اس میں آلودہ ہونے کے اثرات سے مربوط ہے ، ان تین حصوں کے بعد چوتھا حصہ ہے جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرمودات اور مواعظ بیان کئے گئے ہیں۔
چوتھا حصہ :
انسان کو صرف واجبات انجام دینے اور گناہ کو ترک کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ تصور کرے کہ اس کے علاوہ اس کیلئے کوئی اور فریضہ نہیں ہے۔
اگرچہ اس مرحلہ تک پہنچنا انتہائی اہم ہے ، لیکن اس مقصد تک پہنچنے کیلئے ابتدائی اقدام ہیں ۔ واضح رہے کہ گناہ سے اجتناب کرنے اور واجبات کو انجام دینے یعنی پہلا قدم اٹھائے بغیر انسان بعد والا قدم نہیں اٹھا سکتا ہے لیکن یہ مرحلہ بقیہ مراحل کے مقابلہ میں درمیانی راستہ ہے جو طے ہو ا ہے اور ابھی انسان کیلئے در پیش طولانی راستہ ہے پس انسان کی بیشتر کوشش و جستجو کرنے کی حوصلہ افزائی کر نی چاہیے اور اس میں یہ محرک ایجاد کرنا چاہیے کہ صرف واجبات کوانجام دینے اور گناہوں کو ترک کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ۔
عبادت گزاروں اور شب زندہ داروں کا مرتبہ
'' یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲ جَلَّ ثنَاؤُهُ لَیُدْخِلَ قَوْماً الْجَنَّةَ فَیُعْطِیهِمْ حَتّٰی یَمِلُّوا وَ فَوْقَهُمْ قَوْمفِی الدَّرَجَاتِ الْعُلٰی ، فَاِذَا نَظَرُوا اِلَیهِمْ عَرَفُوهُمْ، فَیَقُولُونَ : رَبَّنَا اِخْوَانُنَا کُنَّا مَعَهُمْ فِی الدُّنْیَا فَبِمَ فَضَّلْتَهُُمْ عَلَیْنَا، فَیُقَال:هَیْهَاتَ ، هَیْهَاتَ اِنَّهُمْ کاَنُوا یَجُوعُونَ حِینَ تَشْبَعُونَ وَ یَظْمَئُونَ حِینَ تَرْ وُونَ وَ یَقُومُونَ حِینَ تَنَامُونَ وَ یَشْخَصُونَ حِینَ تَحْفَظُونَ''
اے ابوذر! خداوند متعال ایک جماعت کو بہشت میں داخل کرتا ہے اور انہیں اس قدر نعمتیں عطا کرتا ہے کہ وہ تھک جاتے ہیں لیکن جب وہ بہشت کے بلند ترین درجات میں موجودہ دوسرے اہل بہشت کو دیکھتے ہیں تو انہیں پہچان کر کہتے ہیں : پروردگارا ! یہ تو ہمارے بھائی ہیں ہم دنیا میں ایک ساتھ زندگی گزاتے تھے ، ان کو کیوں ہم پر فضیلت عطا فرمائی ہے ؟
جواب میں کہا جاتا ہے : افسوس ! افسوس ! تم لوگ جب سیر تھے ، وہ فاقہ کشی کرتے تھے ، جب تم سیراب تھے وہ پیاسے ( روزہ سے ) تھے ، جب تم سورہے تھے وہ کھڑے ( نماز میں مشغول) تھے اور جب تم اپنے گھروں میں آرام کررہے تھے وہ خد اکیلئے باہر مصروف جہاد تھے ''
ان چند جملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قیامت کا منظرپیش کر رہے ہیں ، یہ وہ مقام ہے جو انسان کو واجبات پر عمل اور محرمات کو ترک کرنے کی وجہ سے بہشت کی شکل میں حاصل ہوا ہے ۔ اس کیلئے مناسب نہیں ہے کہ اسے جہنم اور اس کے درجات کے بارے میں بتایاجائے ، کیونکہ وہ جہنم سے آزاد ہوا ہے اور بہشتی بن گیا ہے لیکن کم ہمت بہشتی جس نے بہشت کے ادنی درجات پر اکتفا کر لیا ہے اور یہ ہمت نہیں رکھتا تھاکہ ا س سے آگے بڑھ کر اس سے بالا تر مرتبہ پر فائز ہو جائے اب اس کیلئے یہ منظر پیش کیا جارہا ہے کہ اگرچہ تم نے واجبات کو انجام دے کر بہشت میں داخلہ لے لیا ہے لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو بہشت میں تجھ سے بلند تر مقام پر فائز ہیں لہذا تمہیں مزید کوشش کرنی چاہیے تا کہ ان کے مقام تک پہنچ جاؤ ۔
خداوند متعال بہت سے لوگوں کو بہشت میں داخل کرتا ہے اور انہیں بے شمار نعمتیں عطا کرتا ہے تا کہ ایک مدت تک ان نعمتوں سیلطف اندوز ہوتے ہیں ( آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تعبیر ہے کہ اس قدر نعمتیں انہیں عطا کی جاتی ہیں کہ وہ تھک جاتے ہیں البتہ یہ تعبیر عرفی ہے ورنہ بہشت میں تھکنے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا جیسے کہ خدائے متعال فرماتا ہے :
(
لاَ یَمَسُّنَا فِیهَا نَصَب وَ لَا یَمَسُّنَا فِیهَا لُغُوب
)
( فاطر ٣٥)
بہشت میں نہہی تکان کا احساس ہوگا اور نہ ہی کوئی تکلیف ہم تک پہنچ سکے گی ''
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ جس قدر وہ چاہیں نعمتیں انہیں دی جائیں گی ۔
یہ بہشتی اچانک مشاہد کرتے ہیں کہ ان کے دوست بلند تر ین مقامات پر فائز ہوئے ہیں اور تعجب سے عرض کرتے ہیں پروردگارا ! یہ ہمارے دوست تھے ، ہم دنیامیں ان کے ساتھ رہتے تھے ، ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نما ز پڑھتے تھے اور ایک ہی مورچا میں رہ کر جہادکرتے تھے کیسے کیا ہوا کہ انہیں ہم پر فضیلت عطا کی اور انہیں عالی ترین مرتبہ سے سر فراز کیا ؟
انہیں جواب دیا جائے گا تم میں اور ان میں بہت فرق ہے ، جب تم سیر تھے ، وہ فاقہ کشی کرتے تھے ، جب تم سیراب تھے وہ پیاسے تھے اور مستحب روزے رکھتے تھے، جب تم نعمتوں اور حلال غذا سے استفاد کرنے میں مشغول تھے وہ روزہ رکھتے تھے اگرچہ تم گناہوں کے مرتکب نہیں ہوئے ہو لیکن وہ شدید گرمیوں میں نہ پیٹ بھر کر کھاناکھاتے تھے ،اور نہ ہی جی بھر کے پانی پیتے تھے ، تم لوگ اپنے واجبات پر اکتفا کرتے تھے اور اس کے بعد آرام کرتے تھے ، لیکن وہ نہیں سوتے تھے بلکہ عبادت الٰہی اور خدا سے راز و نیاز میں مشغول رہتے تھے ، قرآن مجید ان کے بارے میں فرماتا ہے :
(
کَانُوا قَلِیلاً مِنَ اللَّیْلِ مَا یَهْجَعُونَ وَ بِالْاَسْحَارِهُمْ یَسْتَغْفِرُونَ
)
( ذاریات ١٧ ۔ ١٨)
یہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے اور سحر کے وقت ﷲ کی بارگاہ میں استغفار کیا کرتے تھے.
بہشتی مقامات سے استفادہ کرنے کے لحاظ سے
اہل بہشت کے درمیان فرق:
ان جملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بہشت کے مقامات کا ذکر فرمایا ہے ۔ بہت سی آیات و روایات میں وضاحت ہوئی ہے کہ چونکہ جہنم کے مختلف درجے ہیں ، لہذا بہشت کے بھی مختلف درجات اور مقامات ہیں اس کا سب سے ادنی درجہ ان لوگوں کیلئے مخصوص ہے جنہوں نے واجبات پر عمل کیا ہواور بہشت کا بلند ترین درجہ ' ' مقام رضوان '' ہے جو خداوند عالم کے خاص اولیا اور مخلصین کیلئے مخصوص ہے ۔
خداوند متعال فرماتا ہے :
(
وَعَدَ ﷲ الْمُؤمِنِینَ وَ الْمُؤْ مِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَ مَسَٰکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ وَ رِضْوَان مِنَ ﷲ اَکْبَرُ ذٰلِکَ هُوَ الْفَوزُ الْعَظِیمُ
)
( توبہ ٧٢)
اللہ نے مؤمن مرد او رمؤمن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیںبہشت بریں میں پاکیزہ مکانات ہیں اور اللہ کی مرضی تو سب سے بڑی چیز ہے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے ''
جملۂ '' رضوان من اللّٰہ '' کے بارے میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں :
'' رضایت و رضوان الٰہی بہشت کی تمام نعمتوں سے برتر ہیں ، اس لحاظ سے '' رضوان '' کو اسم نکرہ کے طور پر لایا گیا ہے کہ اس کیلئے کوئی حد قابل تصور نہیں ہے ، یا یہ کہ اگر خداکی رضایت کم بھی ہو تمام نعمتوں سے عظیم تر ہے ، نہ اس لئے کہ وہ نعمتیں خداوند متعال کی طرف سے عنایت ہوتی ہیں اگرچہ حقیقت یہی ہے بلکہ اس لئے کہ خدا کی بندگی اور عبودیت کی حقیقت ، جیسا کہ قرآن اس کی طرف دعوت دیتاہے کہ بندگی در حقیقت وہی ہے جو خدا کی محبت کی وجہ سے ہو نہ بہشت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے، عاشق کی نظر میں بڑی سعادت و کامیابی معشوق کی رضایت حاصل کرنا ہے نہ یہ کہ اپنے آپ کو راضی کرنے کیلئے کوشش کرے۔
خدا کی محبت اور عشق کی بنا پر بندگی کرنا جیساکہ بعض روایتوں میں آیا ہے ،، بلند ترین بندگیوں میں سے ہے اور یہ بندگی آزاد اور صالح لوگوں کیلئے مخصوص ہے اس لحاظ سے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے بہشت کا بلند ترین مقام '' رضوان '' ہے جو آزادلوگ اور صالحین جو خد اکی مخلصانہ عبادت کرتے ہیں سے مخصوص ہے ۔
آخرت کے درجات اور مراتب کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے :
(
اُنْظُر کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُاُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَ لَلْآخِرَةُ اَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَ اَکْبَرُ تَفْضِیلاً
)
( اسراء ٢١)
''تم دیکھو کہ ہم نے کس طرح بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت کے درجاتنیز وہاں کی فضیلتیں تو اور زیادہ بزرگ و برتر ہیں''
یہ آیۂمبارکہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ لوگوں کے مراتب و درجات میں فرق ان کی سعی و کوشش سے وابستہ ہے ایسا نہیں ہے کہ کسی کے اعمال کم ہیں اور کسی کے زیادہ تو دونوں کی حیئت یکساں ہو ، آخرت کے مدارج و مراتب کے اختلاف کے علاوہ اس کا موازنہ دنیا کے مراتب سے کسب فیض اور بہرہ مندی کے لحاظ سے ممکن نہیں ہے کیونکہ آخرت دنیا کی نسبت کئی گنا وسیع تر ہے ، اس حد تک کہ اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
دنیا میں فضیلت و برتری کی دلیل ، مال و دولت اور مقام و منزلت کے ذریعہ استفادہ کے سلسلہ میں تفاوت پر مبتنی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ محدود ہیں لیکن آخرت کی برتری اور ا س کے درجات میں اختلاف انسان کے اخلاص و ایمان پر مبنی ہے کہ یہ انسان کے قلبی حالات سے مربوط ہے اور کسی شک و شبہ کے بغیر یہ دنیوی اختلاف سے قابل موازنہ نہیں ہے ۔
جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے کہ حدیث کے اس حصہ میں انسان کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ انسان کو فقط واجبات انجام دینے اور محرمات کو ترک کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے البتہ جو بہشت کے ادنی درجات پر ہی راضی ہو جانا ہے وہ اس مقدار پر اکتفا کرسکتا ہے لیکن جب وہ ایک دن اس چیز کا مشاہدہ کرے گاکہ اس کے دوست و احباب عالی ترین مراتب پر فائز ہیں تو وہ اس دن حسرت کرے گا اگر ہم بھی ان عالی تر ین مقامات تک پہنچنا چاہیں تو ہمیں اپنے آرام و آسائش کو چھوڑ کر بیشتر عبادت میں مشغول ہونا چاہیے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ضرورت کی حد تک آرام کرنا ایک مطلوب فعل ہے اوریہ کبھی واجب بھی ہوجاتا ہے ، ممکن ہے یہ آرام بذات خود واجب کیلئے مقدمہ قرار پائے ، مثال کے طور پر اگر انسان آرام نہ کرے ، تو نماز کی حالت میں تساہلی اور سستی پیدا ہوگی اور اس میں نشاط و تازگی نہیں رہے گی یا اگر استراحت نہ کرے ، تو درس کے وقت اچھی طرح اسے سمجھ نہیں سکے گا اصل بات یہ ہے کہ بے موقع اور حد سے زیادہ آرام اگر انسان کو جہنم لے جانے کا سبب بھی نہ بنے ، تب بھی یہ آرام انسان کو دوسروں سے پیچھے کر دیتا ہے ۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا نماز کے ساتھ شدید لگاؤ:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روایت کو جاری رکھتے ہوئے نماز کو بہترین اور شائستہ ترین عمل کے طور پر پہچنواتے ہیں اور انسان کو چاہئے کہ فراغت کے وقت اسے انجام دے :
'' یَا َبَاذَرٍ! جَعَلَ ﷲ جَلَّ ثَنَاؤُهُ قُرّةَ عَیْنیِ فِی الصّلٰوةِ وَحَبَّبَ اِلَیَّ الصَّلوةَکَمَا حَبَّبَ اِلَی الجَائِعِ الطَّعَامَ وَ اِلَی الظَّمانِ اَلْمَائَ وَ اِنَّ الْجَائِعَ اِذَا اَکَلَ شَبَعَ وَ اِنَّ الظَّمٰانَ اِذَا شَرِبَ رَوِیَ وَ اَنَا لَا اَشْبَعُ مِنَ الصَّلٰوةِ
''
اے ابوذر ! خداوند متعال نے نما ز کو میری آنکھوں کی روشنی قرار دیا ہے اور اسے میرے لئے اس قدر عزیزقرار دیا ہے جیسے بھوکا کھانے کو اور پیاسا پانی کو دوست رکھتا ہے ، بھوکا جب کھانا کھاتا ہے تو سیر ہوتا ہے اور پیاسا پانی پی کر سیراب ہوتا ہے ، لیکن میں نماز سے ہرگز سیر نہیں ہوتا ہوں ''
جو انسان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو اپنا اسوہ قرار دیتا ہے اس کیلئے بہتر ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سیرو سلوک اور رفتار کے بارے میں غور کرے ، لہذا یہاں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آپ کونمونۂعملکے طور پر تعارف کراتے ہیں اوریہ ان لوگوں کیلئے تربیت کا بہترین طریقہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق و دوست ہیں اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی راہ پر قدم رکھنا چاہتے ہیں ۔
ایک روایت میں آیا ہے:
'' اُحِبُّ مِنْ دُنْیَاکُمْ الطِّیبَ وَ النساء و قُرّة عَینِی فِی الصَّلٰوةِ ''
میں تمہاری دنیا میں خوشبو اور خواتین کو پسند کرتا ہوں لیکن میری آنکھوں کی روشنی نماز میں ہے''
یہ جو آنحضرت صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: '' نماز میری آنکھوں کی روشنی ہے '' ایک بہترین تعبیر ہے جو انسان کسی کو بہت زیادہ عزیزاور دوست رکھتااس کیلئے یہ تعبیراستعمال کرتا ہے اور کہتا ہے :'' فلاں میر ا نور چشم ہے ''
خداوند متعال قرآن مجید میں حضرت موسی کو ان کی والدہ ماجدہ کے لئے نور چشم قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے:
'' اے موسیٰ ! ہم نے تمھاری ماں کو وحی بھیجی کہ اپنے بچے کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیں اس کے بعد دریا کی لہریں بچہ کو ساحل تک پہنچائیں تا کہ میرا اور اس کا دشمن بچہ کو دریا سے نکالے اور میں نے اپنے لطف و کرم سے تجھ میں ایک ایسی محبت ڈال دی ہے ( تا کہ تجھے دوست رکھیں ) تا کہ تمہیں ہماری نگرانی میں پالا جائے '' یہاں تک فرماتا ہے:
(
اِذْ تَمْشِی اُخْتُکَ فَتَقُولُ هَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ یَکْفُلُهُ فَرََجَعنَاکَ اِلٰی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلَا تَحْزَن
)
...) ( طہ ٣٨ ۔ ٤٠)
''اس وقت کو یاد کرو جب تمہاری بہن جارہی تھی کہ فرعون سے کہے کیا میں تجھے کسی ایسے کا پتہ بتاؤں جو اس کی کفالت کرسکے ، اس طرح ہم نے تم کو تمہاری ماں کی طرف پلٹا دیا تا کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں ....''
ایران کی ایک مشہور شاعرہ محترمہ پروین اعتصامی نے اس داستان کو اشعار کی صورت میں بیان کیا ہے ، یہاں پر ہم چند اشعار درج کرتے ہیں:
مادر موسی چو موسی را بہ نیل
درفکند از گفتۂ ربِّ جلیل
خود زساحل کرد با حسرت نگاہ
گفت کہ ای فرزند خرد بے گناہ
گر فراموشت کند لطف خدای
چون رہی زین کشتی بی ناخدای
گر نیارد ایزد پاکت بیاد
آب، خاکت را دہد ناگہ بیاد
وحی آمد کہ این چہ فکر باطل است
رہرو، اینک اندر منزل است
پردۂ شک را بر انداز از میان
تاببینی سود کردی یا زیان
ما گرفتیم آنچہ را انداختی
دست حق را دیدی و نشناختی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: نماز میری آنکھوں کی روشنائی کا سبب ہے چونکہ ہم اس مطلب کو در ک نہیں کرسکتے ا س لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس مطلب کے دلچسپ بیان میں وضاحت فرماتے ہیں تا کہ ہمارے لئے قابل فہم ہو ،ہمیں کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کچھ مدت تک کھانا کھانا ترک کردیں تو سخت بھوک کی وجہ سے ہماری حالات متغیر ہو جائے گیء اور ایسی حالت میں سب سے سب سے مطلوب ترین چیز ہمارے لئے غذا ہوتی ہے اسی طرح جب ہمیں پیاس لگتی ہے تو ہمیں پانی کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کسی چیز کو بھی سرد پانی کا بدل قرار نہیں دے سکتے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : '' نماز کے ساتھ میرے عشق کی مثال اس بھوکے اور پیاسے انسان کے جیسی ہے جسے غذا اور پانی کی تڑپ ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ بھوکا انسان کھانا کھانے کے بعد سیر ہوتا ہے اور پیاسا انسان پانی پینے کے بعد سیراب ہوجاتا ہے لیکن میں کبھی نماز سے سیر نہیں ہوتا ہوں ''
ان بیانات کی روشنی میں نماز کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے اگر انسان کو واجبات کے انجام دینے کے بعد فرصت مل جائے تو امور مستحبی میں سے سب سے زیادہ شائستہ و سزاوار یہ ہے نماز مستحب بجا لائے ، کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت بھی یہی تھی ہم اس کی وضاحت میں چند روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
حضرت علی علیہ السلام کو اگر کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آپ نما ز کیلئے اٹھتے تھے اور فرماتے تھے :
(
وَ اسْتَعِینوا بالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوة
)
( بقرہ ٤٥)
''صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو ''
حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:
'' مَا اُصِیبَ اَمیرَ المُؤْمِنِینَ بِمُصِیبَةٍ اِلَّا صَلّٰی فِی ذَالِکَ الْیَومِ اَلْفَ رَکْعَةٍ وَ تَصَدَّقَ عَلٰی سِتِینَ مِسْکِیناًوَ صَامَ ثَلَاثَةَ اَیَّامٍ ''
امیر المؤمنین علیہ السلام جب کبھی کسی مصیبت سے دوچار ہوتے تھے تو آپ اس دن ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے ، ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور تین دن روزہ رکھتے تھے ''
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کو بجالانے کے بارے میں توجہ او راستمرار کے سلسلہ میں بحار الانوار میں آیا ہے :
''وَلَقَدْ قَامَ عَلَیهِ وَ آلِهِ السَّلَامُ عَشْرَسِنِینَ عَلٰی َطْرَافِ اَصَابِعِهِ حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ وَ اصْفَرَ وَجهُهُ....
''
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس سال تک نماز کیلئے اتنا قیام کرتے رہے کہ آپ کے پائے مبارک سوج گئے اور چہرۂ مبارک زرد ہوگیا ۔
''یَا اَبَاذرٍ! اَیُّمَا رَجُلٍ تَطَوَّعَ فِی یَومٍ وَ لَیْلَةٍ اثْنَتَیْ عَشَرَ رَکْعَةً سِوَی الْمَکْتُوبَةِ کَان لَهُ حَقّاً وَاجِباً بَیْت فِی الْجَنَّةِ''
'' اے ابوذر ! جو بھی شخص ایک دن و رات کے دوران اپنی واجب نمازوں کے علاوہ بارہ رکعت نماز بجالائے ، تو خدائے متعال پر یہ حق ہے کہ اس کیلئے بہشت میں ایک گھرعطا کرے ''۔
نماز ، سعادت اور خوش بختی کی کنجی:
''یَا َبَاذَرٍ ! مَا دُمْتَ فِی الصَّلٰوةِ فَاِنَّکَ تَقْرَعُ بَابَ الْمَلِکِ الْجَبَّارِ وَ مَنْ یَکْثِرْ قَرْعَ بَابَ الْمَلِکِ یُفْتَح لَهُ
''
اے ابوذر ! جب تک نماز کے لئے تم خدائے متعال کے دروازے پر دستک دو گے اور جو زیادہ سے زیادہ خداکے گھر پر دستک دے گا ، اس کیلئے اس کا دروازہ کھل جاتا ہے ''
یہ انسان کو نماز کیلئے تشویق اور حوصلہ افزائی کرنے کا ایک اور تذکرہ ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جو نماز پڑھتا ہے ، حقیقت میں وہ خداکے گھر کے دروازے پر دستک دیتا ہے ، اور جسے خداسے کام ہے، اسے اس کے گھر پر جانا چاہیے اور نماز اسی لئے ہے کہ انسان خدا کے گھر پر جائییہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بار بار دستک دے اور اپنی درخواست پر اصرار کرے تواس کے لئے دروازہ نہ کھلے وہ بھی خداکے گھر کا دروازہ ۔
پس اگر چاتے ہو کہ خدا آپکی طرف متوجہ ہواور اس کی رحمت اور قبولیت کا دروازہ آپ پر کھل جائے تو اس کے در پربار بار دستک دو اور نماز پڑھنے میں استمرار کرو، ممکن ہے پہلے اور دوسرے مرحلہ میں انسان کی آلودگیوں یا خدا کی مصلحت کی بنا پر خدا کی رحمتوں کا دروازہ نہ کھلے ، لیکن آخر کار کھل جائے گا ۔
بے شک خدا کی رحمت کے دروازے انسان کیلئے ہر وقت کھلے رہتے ہیں ، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خداوند متعال ایک طرف سے اپنے بندے کو دعوت دے اور دوسری طرف سے اپنی رحمت کے دروازے اس پر بند رکھے ۔ خدا کی رحمت کے دروازے صرف آیات الٰہی جھٹلانے والوں اور مستکبرینکے لئے بند ہیں البتہ انہوں نے خدا کی رحمت کے دروازے خود اپنے اوپر بند کئے ہیں:
(
اِنَّ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَ اسْتَکبَرُوا عَنْهَا لا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَائِ
)
(اعراف ٤٠)
بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی اور غرور سے کام لیا ان کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے ...''
جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ بعض آیات و روایات میں آیا ہے کہ آسمان کے لئے دروازے ہیں یا یہ کہ مذکورہ روایت میں آیا ہے کہ جب تک انسان نماز کی حالت میں ہے وہ خدا کے دروازہ پر دستک دیتا ہے ، حقیقت میں یہ معقول کی محسوس سے تشبیہ ہے ، تا کہ معنوی اور ما ورای طبیعی مسائل ہمارے لئے قابل ادراک و فہم بن جائیں ، حقیقت یہ ہے کہ بندہ اور خداوند متعال کے درمیان کسی قسم کا پردہ نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے برے اعمال ہیں جو انسان کیلئے خدا کی طرف توجہ کرنے میں مانع بن جاتے ہیں اور حقیقت میں انسان گناہوں کے سبب فیوض الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے خد اکی رحمتوں کے دروازے کو کھولنے کی کنجی اور جو چیز ان پردوں کو ہٹا سکتی ہے خد اکی عبادت و بندگی ہے اور عبادت کا بہترین مظہر ہے ۔
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نماز گزار کو عنایت ہونے والی نعمتوں کے بارے میں فرماتے ہیں :
'' یَا َبَاذَرٍ! مَا مِنْ مَُؤْمِنٍِ یَقُومُ مُصَلِّیاً اِلَّا تَنَاثَرَ عَلَیهِ الْبِرُّ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْعَرْشِ وَ وُکِّلَ بِهِ مَلَک یُنَادِی : یَابنَ آدَمَ لَوْ تَعْلَمُ مَالَکَ فِی الصَّلٰوةِ وَ مَنْ تُنَاجِی مٰا اَنْفَتَلْتَ''
اے ابوذر! جب با ایمان انسان نماز کیلئے اٹھتا ہے ،اللہ تعالیٰ کی رحمت، عرش تک اس پر احاطہ کئے رہتی ہے ، ایک فرشتہ اس پر ممور کیا جاتا ہے جو آواز دیتا ہے : اے آدم کے بیٹے ! اگر تم جانتے کہ نماز میں تجھے کیا ملتا ہے اور کس سے بات کرتے ہو !تو ہرگز اس سے کنارہ کشی نہیں ہوئے ۔
( بڑی تعداد میں درخت کے پتوں کے گرنے کو '' تناثر '' کہتے ہیں یا ایسی چیز کو '' تناثر'' کہتے ہیں جو بڑی تعداد میں اوپر سے نیچے گرتی ہے )
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
نماز پڑھنے والا سر سے پیر تک رحمت الٰہی میں غرق ہوتا ہے فطری بات ہے جو اس مقام و منزلت کا شیدائی ہو گا ، وہ نما ز طول دے گا اس سے بالا تر یہ کہ خدائے متعال نے ایک فرشتہ کو ممور فرمایا ہے جو نماز گزار کو مسلسل آواز دیتا ہے : اے آدم کے بیٹے ! اگر تم جانتے کہ کس کے ساتھ راز و نیاز کر رہے ہو اور کس سے محو گفتگو ہو ، تو ہرگز نمازسے ہاتھ نہیں کھینچتے اور تھکنکا تمھیں احساس نہیں ہوتا یہ خیال رکھو کہ تم کس کے سامنے کھڑے ہو اور کس سے رابطہ قائم کئے ہو تا کہ اس چیز کو سمجھنے کے بعداپنی نماز کو بھی اہمیت دو، اگر تم جانتے کہ نماز کے سبب کن فائدوں ، فضیلتوں اورکن کن اجر و ثواب سے فیضیاب ہونے والے ہو تو ، اس کو ہرگز نہ چھوڑتے ۔
عبادت کی شیرینی کا ادراک اور اس کے دوام کا راز:
عبادت کو جاری رکھنے اور اس کے دوام کے سلسلہ میں اہم یہ ہے کہ انسان عبادت سے لذت محسوس اور احساس کرکے کہ اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے ، جو کام انسان کیلئے لذت بخش نہ ہو اس سے جلدی تھک جاتا ہے عبادت کی حلاوت انسان کیلئے اس امر کا سبب بن جاتی ہے کہ انسان اس سے زیادہ دلچسپی پیدا کرے اور یہ لذت اورحلاوت گناہ کو ترک کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے گناہ انسان کے لئے عبادت کی لذت کے چھن جانے کا سبب بنتاہے اس لحاظ سے بعض معصومین کی یہ دعا ہوتی تھی کہ خدایا ! ہمیں اپنی عبادت کی لذت و حلاوت عطا فرما!
ممکن ہے ایک بیمار کیلئے بہترین غذاآمادہ کی جائے لیکن بیماری کی وجہ سے اس کیلئے اس میں کوئی مزہ اورلذت نہ ہو لیکن صحت مند اور بھوکے انسان کیلئے خشک روٹی کا ایک ٹکڑا بھی لذت بخش ہوتا ہے ،پس اہم یہ ہے کہ انسان میں عبادت کی لذت کی ضرورت کا احساس زندہ ہوجائے ۔
گزشتہ جملات میں اشارہ ہوا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
'' نما ز کے بارے میں میری دلچسپی بھوکے انسان کی غذا سے دلچسپی اورمیلان سے زیادہ ہے ، کیونکہ وہ کھانے پینے سے سیر ہوتے ہیں لیکن میں نماز سے سیر نہیں ہوتا ہوں ''
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام بندگی خد امیں غرق ہونے کے سلسلے میں عبادت کے رابطے کے بارے میں فرماتے ہیں:
''َلَا وَ اِنَّکَ لَوْ وَجَدْتَ حَلَاوَةَ عِبَادَةِ ﷲ وَ رَایتَ بَرْکَاتِهَا وَ اسْتَضَْتَ بِنُورِهَا ، لَمْ تَصْبِرْ عَنْهَا سَاعَةً ، وَ لَو قُطِعْتَ ِرْباً
''
اگر خدا کی بندگی کی حلاوت کو درک کرو ، اور اس کے برکات پر غور کرو گے اور اس کے نور سے اپنے دل کو روشن کرو گے تو ایک لمحہ کیلئے بھی اس کو ترک نہیں کرگے ، حتی اگر ٹکڑے ٹکڑے بھی ہوجاؤ ۔
ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
''.. وَ طَلَبْتُ حَلَاوَةَ الْعِبَادَةِ ، فَوَجَدْتُهَا فِی تَرْکِ الْمَعْصِیَةِ
''
''میں نے عبادت کی حلاوت کی درخواست کی اور سرانجام اسے گناہ کو ترک کرنے میں پایا ''
____________________