زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)0%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (پہلی جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24751
ڈاؤنلوڈ: 3321


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24751 / ڈاؤنلوڈ: 3321
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد 1

مؤلف:
اردو

دسواں سبق

بہشت کی جانب پیش قدمی کرنے والے افراداور بعض احکام و فرائض کی اہمیت نیز بہشت کے درجات

* بہشت کے پیش رو افراد

*فطرت اور کمال طلبی

بعض احکام کی عظمت و منزلت

* نما زکی عظمت اور اس کا مرتبہ

*روزہ کی عظمت ا ور اس کا مرتبہ

*جہاد کی عظمت اور اس کا مرتبہ

*مومنیں کے بہشتی درجات میں فرق

بہشت کی جانب پیش قدمی کرنے والے افراداور بعض احکام و فرائض کی اہمیت نیز بہشت کے درجات

'' یَا اَبَاذَر ! طُوبیٰ لِاَصْحَابِ الْاَلْوِیَةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَحْمِلُونَهَا فَیَسْبِقُونَ النَّاسَ اِلٰی الْجَنَّةِ الَاَ وَهُمْ السَّابِقُونَ اِلٰی المَسَاجِدِ بِالْاَسْحَارِ وَ غَیْرِ الْاَسْحَارِ.

یَا اَبَاذَر! َلصَّلاةُ عِمٰادُ الدّینِ وَاللِّسٰانُ َکْبَرُ،وَ الصََّدَقَةُ تَمْحُو الخَطِیئَةَ وَ اللِّسٰانُ َکْبَرُ.

یٰا َبٰاذَر،َلدَّرَجَةُ فِی الْجَنَّةِ کَمٰا بَیْنَ السَّمٰائِ وَ الْاَرْضِ وَ ِنْ الْعَبْدَ لَیَرْفَعَ بَصَرَهُ فَیَلْمَعُ لَهُ نور یَکٰادُ یَخْطَفُ بَصَرَهُ فَیَفْزَعُ لِذٰلِکَ فَیَقُولُ: مٰا هٰذٰا فَیُقَالُ : هٰذٰا نُورُ َخِیکَ ، فَیَقُولُ: َخِی فُلانُ ؟ کُنَّا نَعْمَلُ جَمِیعاً فِی الدُّنْیٰا وَقَدْ فُضِّلَ عَلَیَّ هٰکَذَا فَیُقٰالُ لَهُ : ِنَّهُ کَانَ َفْضَلَ مِنْکَ عَمَلاً ، ثُمَّ یُجْعَلُ فِی قَلْبِهِ الرَّضٰا حَتّٰی یَرْضٰی ''

بہشت کے پیش روافراد:

پیغمبر اسلام صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے بہشت کے پیش رو اور سعاد ت کے بارے میں فرماتے ہیں :

'' یَا اَبَاذَر ! طُوبیٰ لِاَصْحَابِ الْاَلْوِیَةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَحْمِلُونَهَا فَیَسْبِقُونَ النَّاسَ اِلٰی الْجَنَّةِ الَاَ وَهُمْ السَّابِقُونَ اِلٰی المَسَاجِدِ بِالْاَسْحَارِ وَ غَیْرِ الْاَسْحَارِ''

اے ابوذر! مبارک ہو ان لوگوں پر جو قیامت کے دن پرچمدار ہوں گے اور پرچم کو لوگوں کے آگے اٹھا ئے ہوئے بہشت میں داخل ہونے کے لئے سبقت حاصل کریں گے یہ وہی لوگ ہیں جو صبح کے وقت اور دیگر اوقات میں مسجد جانے میں سبقت حاصل کرتے تھے ''

ہر انسان عمر کے ہر حصہ میں یہ سعی کرتا ہے کہ دوسروں پر سبقت لے جائے اگر یہ سبقت حاصل کرنا دنیوی امور سے مربوط ہو تو قابل مذمت ہے لیکن اگر یہ مسابقہ آخرت کے بارے میں ہے تو نہ صرف قابل مذمت نہیں ہے بلکہ انسان کے رشد اور سعادت طلبی کی علامت ہے ،کیونکہ انسان کی سعادت خداکے تقرب اور آخروی نیک بختی میں مضمر ہے اور اگرمؤمنین اس سلسلہ میں دوسروں پر سبقت کرتے ہیں تو خود نمائی کیلئے نہیں ہے بلکہ سعادت کو حاصل کرنے کیلئے ہے۔

قرآن مجید میں جگہ جگہ اس مطلب کے بارے میں تاکید ہوئی ہے من جملہ خداوند متعال فرماتا ہے :

( وَ سَارِعُوا الی مَغْفِرةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السٰمٰوَاتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّت لِلْمُتَّقِینَ ) ( آل عمران ١٣٣)

اوراپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت کی طرف سبقت کرو کہ جس کی وسعت زمین و آسمان کے اوپر محیط ہے اور اسے صاحبان تقویٰ کیلئے تیار کیا گیا ہے ''

حقیقت میں یہ آیۂ مبارکہ انسا ن کی فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہے کیوںکہ اس کی فطرت یکمال طلب ہے اور اس کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ دوسروں کی نسبت کامل تر ہو ۔

فطرت اور کمال طلبی:

بیشک انسان کمال کے انتہائی درجہ تک پہچنے کا طالب ہے اور وہ آخری درجہ خدا کا تقرب ہے وہ اس مقام تک پہنچنے کیلئے ہر ممکن وسائل اورامکانات سے استفادہ کرتا ہے محدود کمالات کا حاصل کرنا انسان کا ہدف و مقصد نہیں ہے کیونکہ بلند ترین کمالات کے مقابلہ میں تمام رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں دوسرے یہ کہ انسان اپنے مقصدکو پانے کے بعد سیر ہوجاتا ہے اسی چیز کے پیش نظر کہا گیا ہے ''منزل وصال عشق کا مدفن ہے '' یعنی انسان محدود حسن و کمال کا عاشق نہیں بن سکتا ہے بلکہ وہ فطرتاً کمال مطلق کا عاشق اور خدا کا طالب ہے ۔

انسان کا درد ، خدائی درد ہے اگر اس کی غلطیوں کے پردے اس کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جائیں تو وہ اپنے معشوق کو پاکر علی علیہ السلام کے مانند عاشقانہ عبادت کرے گا اس لئے خداوند متعال قرآن مجید میں ارشادفرماتا ہے :

(اَلَا بِذِکْرِ ﷲ تَطْمَئنُ القُلوب ) ( رعد ٢٨)

صرف خدا کی یاد دلوں کو سکون بخشتی ہے ۔

'' بذکر ﷲ'' کومقدم قرار دینا انحصار کی دلیل و علامت ہے ، یعنی صرف خدا ہی کی یاد دلوں کو سکون بخشتی ہے اور اسے اضطراب و پریشانی سے نجات دلاسکتی ہے اگر کوئی یہ خیال کرے کہ مال و دولت اور مقام و منزلت اسے سکون دلا سکتے ہیں تویہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ،البتہ قرآن مجید ان چیزوں کو حاصل کرنے سے منع نہیں کرتا ہے ، لیکن کہتا ہے : '' یہ چیزیں انسان کے لئے خود آرام و سکون نہیں کا باعث ہیں ''(۱) کہا گیاہے کہ انسان '' کمال مطلق '' کا طالب ہے اور اس راہ میں تمام امکانات اور عوامل سے استفادہ کرتا ہے ، کمالِ مطلق تک پہنچنے کے عوامل میں خدائے تعالیٰ کی مناجات اور مسجدوں کو زندہ کرنابھی شامل ہے ۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : مبارک ہو ان لوگوں پر جو قیامت کے دن پیش رو اور علمدار ہیں وہ لوگوں کو بہشت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور دوسرے لوگ بہشت تک پہنچنے کیلئے ان کے پیچھے چلتے ہیں ؛ یہ وہ لوگ ہیں جو سحر گاہ اور اس کے علاوہ دوسرے اوقات میں دوسروں کی نسبت زیادہ مسجد میں جاتے ہیں ''بالاسحار' کو مقدم کرنا اسی لحاظ سے ہے کہ عبادت کا بہترین وقت شب اور سحرگاہ ہے ۔

ذہن کے اندازہ کیلئے اس مطلب کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ انسان کی روح کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر وہ یہ دیکھ لے کہ دوسرے لوگ خیر و نیکی کی راہ میں قدم اٹھارہے ہیں تو بھی شوق ہوتا ہے حقیقت میں '' اسوہ قبول کرنا '' اور ''آئیڈیل کو اپنانا'' علم نفسیات میں تربیت کا بہترین وسیلہ قرار دیا گیا ہے حقیقت میں نمونہ اور اسوہ انسان کی رفتار میں زیادہ اثر رکھتے ہیں

اگر کوئی شخص کسی نیک کام کے سلسلہ میں پیش قدمی کرے تو وہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتا ہے ، نتیجہ کے طورپر دوسرے بھی وہ کام انجام دیتے ہیں کسی کے نقش قدم پر چلنے کا یہ امر جوانوں میں توجہ کا سبب بن جاتا ہے ۔

فطری بات ہے کہ جب لوگوں کی ایک جماعت میں کوئی شخص کسی کام کو انجام دیتا ہے تو دوسرے لوگ آسانی کے ساتھ اس کی تقلید کرتے ہیں : مثال کے طور پر ، جب ایک مدرسہ میں ، ظہر کی نماز کے وقت کچھ افراد تیزی کے ساتھ مسجد کی طرف جائیں گے ، تو انکا یہ عمل دوسروں کو مسجد میں جانے کیلئے تشویق کا سبب بنتا ہے لیکن اگر کچھ افراد پیش قدمی نہ کریں ،تو دوسرے لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ وقتِ نماز ہے اور انہیں مسجد میں حاضر ہونا چاہیے ، اگر توجہ بھی رکھتے ہیںتو انھیں ، ہمت نہیںہوتی ، یہ اسی نفسیاتی اور روحی حقیقت کی دلیل ہے جو '' کسی کے نقش قدم پر چلنے '' کے نام سے معروف ہے۔

اگر کوئی شخص ریا کاری سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے کسی نیک کام کو پوشیدہ طور پر انجام دے ، تو اس کا یہ عمل لائق تحسین اور اچھا ہے ، لیکن اگر کوئی شخص کسی نیک کام کو اس طرح انجام دے تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کا شوق پیداہو تو نہ صرف یہ کہ اس کا یہ کام برانہیں ہے بلکہ بہت مناسب اور قابل قدر ہے کیونکہ وہ بالفرض خود نمائی کا اردہ نہیں رکھتا ہے بلکہ صرف دوسروں کی توجہ مبذول کرانے کیلئے وہ کام کھلم کھلا انجام دیتا ہے ۔

اس سلسلہ میں خداوند متعال ارشادفرماتا ہے :

( وَ اَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرّاً وَ عَلَانِیةً ) ( رعد ٢٢)

''اور ہمارے رزق میں سے سے خفیہ و اعلانیہ انفاق کیا ...''

بعض نے کہاہے : پوشیدہ اور مخفی انفاق اس لئے ہے کہ ریا سے محفوظ رہیں اور آشکار ا طور پرانفاق دوسروں کو تشویق کرنے کیلئے ہے لہذا دونوں صورتوں میں نیکی ہی نیکی ہے ، جو ریا کاری سے بچنے کیلئے پوشیدہ طور پر نماز پڑھتا ہے نیزجو دوسروں کی تشویق کیلئے آشکار صورت میں نماز پڑھتا ہے ، دونوں نیک کام انجام دیتے ہیں لیکن جو ریا سے اجتناب کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ مسجد میں جانے میں دوسروں پر سبقت لیتا ہے اور ان کیلئے تشویق کا سبب بنتاہے ، اس کے دہرے ثواب ہیں وہ قیامت کے دن دوسروں کا پرچمدار ہوگا کیونکہ اس کا عمل دوسروں کو مسجد میں لے جانے کا سبب واقع ہوا ہے ۔

مرحوم آیة اللہ العظمی مرعشی نجفی صبح کی اذان سے پہلے حرم میں پہنچنے کے پابند تھے ، ہم جب اپنی طلبگی کے اوائل میں حوزۂ علمیہ میں مدرسہ کے ہوسٹل میں زندگی گزاررہے تھے ، کبھی سحر کے وقت حرم جانے کی توفیق ہوتی تھی کبھی برف باری بھی ہوتی تھی اور ہم حیرت کے عالم میں دیکھتے تھے کہ مرحوم آیة اللہ العظمی مرعشی نجفی ، حرم کا دروازہ کھلنے سے پہلے اپنی عبا سر پر اوڑھے ہوئے حرم کے دروازہ پرمنتظر ہوتے تھے یہ ان کی برجستہ اورنمایاں خصوصیات میں سے ایک خصوصیت تھی اور ان کی یہ رفتار کس قدر دوسروں کے لئے تشویق کا سبب تھی ؟ جب طلاب یہ دیکھتے تھے کہ ایک مرجع تقلید حرم کا دروازہ کھلنے سے پہلے وہاں منتظر رہتا ہے تو ان میں بھی سحر کے وقت حرم میں حاضری دینے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔

مسجد میں جانے کیلئے پیش قدمی کی اہمیت کے پیش نظر مناسب ہے یہاں پر ہم مسجد میں جانے کی اہمیت کے بارے میں دو حدیثیں بیان کریں ۔

پیغمبر اسلام صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :

''اِنَّ للْمَسَاجِدَ اَوْتَاداً ، اَلْمَلَائِکَةُ جُلَسَاؤُهُمْ ، اِذَا غَابُوا اِفْتَقَدُوهُمْ وَ اِنْ مَرِضُوا عَادُوهُمْ وَ اِنْ کَانُوا فِی حَاجَةٍ اَعَانُوهُمْ .''(۲)

بیشک مسجد کے کچھ خدمت گارہیں جن کی مصاحبت میں فرشتے ہیں ، جب وہ کسی عذر کی وجہ سے مسجد میں حاضر نہیں ہوتے ہیں تو وہ ( فرشتے )ان کی دل جوئی کرتے ہیں اور اگرو ہ بیمار ہوں تو ان کی

عیادت کیلئے آتے ہیںا وراگروہ محتاج ہوں تو ان کی مدد کرتے ہیں ۔

ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں :

''اَلْجُلُوسُ فِی الْمَسْجِدِ لِاِنْتِظَارِ الصَّلاةِ عِبَادة ، وَ قَالَ مَنْ کَانَ الْقُرآنُ حَدِیثُهُ وَ الْمَسْجِدُ بَیتُهُ بَنَی ﷲ له بَیْتَینِ فِی الْجَنَّةِ ''(۳)

مسجد میں بیٹھ کے نماز کے وقت کا انتظار کرناعبادت ہے ، نیز فرمایا: جس کی گفتگو قرآن مجید ہو اور اس کا گھر مسجد ہو ، خداوند متعال اس کیلئے بہشت میں دو گھر بناتا ہے

بعض احکام کی عظمت و منزلت:

ابوذر کی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

'' یَا اَبَاذَر!َلصَّلاةُ عِمٰادُالدّینِ وَاللِّسٰانُ َکْبَر،والصَّدَقَةُ تَمْحُو الخَطِیئَةَ وَ اللِّسٰانُ َکْبَرُ''

اے ابوذر! نماز دین کا ستون ہے جو کچھ خدا کی یاد کے لئے زبان پرجاری ہوتا ہے وہ بڑی بات ہے ، صدقہ گناہوں کو پاک کرتا ہے اورجوبات لوگوں کو فائدہ پہنچائے وہ صدقہ سے بالاتر ہے ، روزہ آگ کے مقابلے میں ڈھال ہے زبان کو کنٹرول کرنا عظیم ہے اور جہاد، شرافت و عزت ہے اور زبان سے جہاد کرنا شرافت کی نگاہ میں بزرگ ہے ۔

١۔ نما زکی عظمت اور اس کا و مرتبہ:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : نماز دین کا ستون ہے اور اس کے بغیر دین منہدم ہو سکتا ہے ، لیکن اس کے اذکار اورنصیحتیں تمام اعمال سے بزرگ و اہم ہیں کیونکہ نماز کے اذکارخدا کے حضورمیں بندگی اور بندۂ مومن کے خضوع کا مظہر ہیں اوراذکار سے خدائے متعال کے مقام اور اس کی بے انتہاررحمت کی معرفت ہوتی ہے ۔

یہ جو نماز دین کی بنیاد اور ستون کی حیثت سیبیان ہوئی ہے حقیقت میں انسان کی معنوی اور دینی شخصیت کو تشکیل دینے میں ا س کا بنیادی نقش ہے ۔

بیشک نماز انسان کے ایمان کو تجسم اور اس کی معنوی شخصیت کو کمال بخشتی ہے اسی وجہ سے دینی معارف میں ،آیات قرآن اور معصومین علیہم السلام کی روایتوں نے نماز کو شایان شان اہمت دی ہے

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک روایت میں فرماتے ہیں:

''اِنَّ اَفْضَلَ الْفَرَائِض بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ الصَّلاةُ وَ اَوَّلَ مَا یُحَاسِبُ الْعَبْدُ عَلَیهَا الصَّلٰوةُ ، فَاِنْ قُبِلَتْ قُبِلَ مَا سِوَاهَا وَ ِنْ رُدَّت رُدَّ مَا سِوَاهَا ''(۴)

خداوند متعال کی معرفت کے بعد سب سے افضل و اہم فریضہ نما زہے نماز پہلی چیز ہے جس کے بارے میں قیامت کے دن بندہ سے پوچھا جائے گا اگر نماز قبول ہوگئی تو دیگر اعمال قبول کئے جائیں گے اور اگر نماز قبول نہیں ہوئی تو تمام اعمال بھی قبول نہیں ہوںگے۔

سجدہ کرنے والے کے مقام کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لَو یَعْلَمَ المُصَّلِی مَا یَغْشٰاهُ مِنَ الرَّحْمَةٍ لَمَا رَفَعَ رَسَهُ مِنَ السُّجُود'' (۵)

اگر نماز گزار کو یہ معلوم ہوجائے کہ وہ کس قدر رحمت الٰہی میں غرق ہوا ہے تو وہ سجدہ سے سر نہیں اٹھائے گا۔

نفس کی پاکیزگی اور دل و روح کی آلودگیوں سے صفائی کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:

''لَو کَانَ علی بابِ دارِ احدکم نهر و َ اغْتَسَل فی کل یومٍ منهُ خمس مرّاتٍ َکان یبقی فی جَسَدِه من الدَّرُنِ شیئٍ؟ قلتُ : لا ، قالَ فانَّ مثل الصلوةکمثل النهر الجاری کلَّما صلّی صلوة کفَّرَتْ ما بینهُما من الذنوب ''(۶)

اگر آپ کے گھر میں ایک نہر بہتی ہو اور ہر دن پانچ مرتبہ آپ اس میں نہائیں گے ، تو کیا آپ کے بد ن میں کسی قسم کی گندگی باقی رہ سکتی ہے ؟( صحابی ) کہتا ہے : نہیں ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:

بیشک نماز نہر کے مانند جاری ہے اگر کوئی نماز پڑھے ، تو اس کی دو نمازوں کے درمیان کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں ''

٢۔ روزہ کی عظمت اور اس کا مرتبہ:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ کو آتش جہنم کی ڈھال کے مانند بیان فرماتے ہیں ، کیونکہ روزہ انسان کی بلندی اور نشو و نما کا ایک وسیلہ اور شیطان کے مقابلہ میں ایک رکاوٹ ہے ۔

انسان میں نفس امارہ ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اسے گرانے اور اس کی روحانی و معنوی شخصیت کو نابود

کرنے کی تلاش میں رہتا ہے ، اس لئے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''اِنَّ اَخْوَفَ مَا اَخَافُ علیکم اثنان ، اتباع الهویٰ و طول الامل ، لانَّ اتباع الهویٰ یَصُدُ عن الحق و طول الامل ینسِی الآخِرَة ''(۷)

مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ خوف دو چیزوں کا ہے ان میں سے ایک نفسانی خواہشات کی اطاعت اور دوسری چیز طولانی آرزوئیں ہیں کیونکہ ہوا و ہوس کی پیروی حق کے درمیان رکاوٹ اور طولانی آرزوئیں آخرت کو فراموش کرنے کا سبب ہیں ۔

چونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے مہربانی اور محبت رکھتا ہے اس لئے اس نے ایسے وسائل اور امکانات فراہم کئے ہے تا کہ انہیں بروئے کار لاکر ، انسان ایسے ظلم سے کہ جس کو اس نے اپنے اوپر خود کیا ہے اور جس کی وجہ سے وہ ساحت مقدس سے دور ہو گیا ہے اس کی تلافی کرسکے ، ان وسائل میں سے ایک روزہ ہے جو برے اعمال کے اثرات سے نفس کو پاک کرنے نیز مشکلات اور گناہوں کے مقابلہ میں صبر کرنے کا ذریعہ ہے۔

روزہ کی اہمیت اورتہذیب نفس کے سلسلہ میں اس کے نقش کے علاوہ ، کئی روایتوں میں بعض ایام او رمہینوں میں روزہ رکھنے کے خصوصی ثواب ہیں من جملہ ماہ شعبان اور ماہ رجب کے روزے ، اولیائے دین اور بزرگ علما ان دو مہینوں میں مسلسل روزہ رکھتے تھے ۔

٣۔ جہاد کی عظمت اور اس کا مرتبہ :

خدا کی راہ میں جہاد و مبارذہ کرناعزت و سربلندی کا سبب ہے دین او رلوگوں کی حفاظت سلسلہ میں اس کا نمایاں کردار ہے اگر جہاد اور مبارزہ نہ ہوتا تو دین اور مذہبی عقائد نابود ہوجاتے ، کیونکہ دنیا پرست اور ناجائز منافع خور اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنے کیلئے دین سے جنگ کرنے میں پیچھے نہیں ہٹتے ۔ اولیائے دین کا جہاد اس امر کا سبب بناکہ دین تحریف کے خطرات سے محفوظ رہو گیا اور آج ہم ان کی ان مجاہدت کیثمرے سے مہرہ مند ہو رہے ہیں اسی لئے راہ حق کے مجاہدوں کے چہرے نورانی ہیں اور وہ اپنے جا نثاریوں اور قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مہربانیاں اور الطاف سے مالا مال ہوئے ہیں ۔

اللہ تعالی ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :

( لَا یَسْتَوِی القَٰعِدُونَ مِنَ المُؤْمِنِینَ غَیْرُاُولِی الضَّرَرِوالمُجَٰهِدون، فِی سَبِیلِ ﷲ بِاَمْوَٰلِهِم وَاَنْفُسِهِمْ فَضَّل ﷲالْمُجَٰهِدِینَ بِاَمْوَٰلِهِم وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَی الْقَاعِدِینَ دَرَجَةً ) ( نسائ ٩٥)

اندھے ، بیمار اور معذور افراد کے علاوہ گھر بیٹھے رہنے والے صاحبان ایمان ہرگز ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو راہ خدا میں اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والے ہیں، ﷲ نے اپنے جان و مال سے جہاد کرنیو الوں کو بیٹھے رہنے و الوں پرفضیلت و برتری دی ہے ....۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس نکتہ پر تکیہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ جو کچھ زبان سے انجام دیا جاتا ہے وہ دوسرے اعضا سے انجام نہیںدیا جاسکتا ہے اور جو کام زبان سے انجام دیاجاتا ہے وہ نماز ، روزہ اور جہاد سے افضل ہے ،کیونکہ جو زبان سے بیان ہوتا ہے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مانند ہوتا ہے چنانچہ روایتوں میں آیا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر جہاد سے بلند تر ہے ۔ خواہ وہ تعلیم و تربیت کی صورت میں ہو ، کیونکہ جاہل کی حق کی طرف رہنمائی کرنا جہاد سے افضل ہے ،اسی طرح فرماتے ہیں کہ مستحب کام ، صرف طولانی عبادتیں ہی نہیں ہیں ، بلکہ خفیف مستحب کام بھی زبان سے انجام دینا ممکن ہے ، جو کسی بڑے خرچ اور زیادہ زحمتبرداشت کئے بغیر انجام دیاجا سکتا ہے لہٰذا زبان کی قدر کرنی چاہئے اور اسے آفتوں اور آلودگیوں سے بچانا چاہیے تا کہ انسان کے اعمال ضائع نہ ہونے پائیں ۔

مومنین کے بہشتی درجات میں فرق:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہشت کے درجات میں فرق کے بارے میں فرماتے ہیں:

''یٰا َبٰاذَر،َلدَّرَجَةُ فِی الْجَنَّةِ کَمٰا بَیْنَ السَّمٰائِ وَ الْاَرْض''

اے ابو ذر! بہشت کے درجات اور مراتب کے درمیان فاصلہ زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ کے مانند ہے۔

وَ ِنْ الْعَبْدَ لَیَرْفَعَ بَصَرَهُ فَیَلْمَعُ لَهُ نور یَکٰادُ یَخْطَفُ بَصَرَهُ فَیَفْزَعُ لِذٰلِکَ فَیَقُولُ: مٰا هٰذٰا''

بہشتی شخص آسمان کی طرف نظر ڈالتا ہے اس کے بعد اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا نور چمکتا ہے قریب ہوتا کہ اس کی آنکھوںکی بینائی چلی جائے وہ سوال کرتا ہے یہ کیسا نور ہے ؟

اسے کہا جاتا ہے : '' ھذٰا نور َخِیک '' یہ نور تیرے فلاں بھائی کا ہے ، پھر وہ کہتا ہے :

'' اَخِی فلان ؟ کنا نعمل فی الدنیا و قد فُضِّل علیّ هَکَذٰا''

ہم سب دنیا میں خدا پسند کام انجام دیتے تھے ، یہ کیا ہوا کہ اس کو مجھ پر فضیلت مل گئی ؟

''فیقال له : انه کان افضل منک عملا ثم یُجعَلُ فی قلبه الرضا حتی یرضی''

اس سے کہا جاتا ہے :وہ عمل و کردار کے اعتبار سے افضل تھا ، اس کے بعدا س کے دل میں رضا ڈالی جاتی ہے تا کہ وہ خوشنود ہوجائے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بہشتی شخص کو یہ نہیں کہا جاتا ہے : اس کا عمل زیادہ تھا بلکہ کہا جاتا ہے اس کا عمل بہتر تھا ، یعنی اس کے عمل کی کیفیت بہتر تھی اور وہ عبادت و نماز میں خدا کی طرف بیشتر توجہ اور اخلاص رکھتا تھا ۔

فطری بات ہے کہ جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھی اور دوست اس کے آگے بڑھ چکے ہیں تو افسوس کرتاہے اگر انسان دنیا میں دوستوں سے پیچھے رہ جائے تو اس کی تلافی کی جاسکتی ہے ، لیکن آخرت میں تلافی اورتدارک کی فرصت نہیں ہے ، اس لئے آخرت میں عذاب و حسرت ہر چیز سے زیادہ مہلک اور جان لیواہے ، لیکن اہل بہشت کے درمیان اس طرح کا محرک ہونے کے باوجود خداوند متعال انہیں حسرت سے دوچار ہونے نہیں دیتا یہ ایک ایسا پوشیدہ راز ہے جس کا بیان ہمارے لئے مشکل ہے

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہشتی کس طرح یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کے دوست ان سے آگے نکل گئے ہیں ، پھر بھی وہ حسرت میں مبتلا نہیں ہوتے ؟ اس سلسلہ میں حضرت عیسی کی طرف سے '' انجیل برنابا'' میں ایک تمثیلی جواب دیا گیا ہے اور آپ فرماتے ہیں :

'' اس دنیا میں چھوٹے قد کا انسان کبھی لمبا لباس پہننے کی تمنا نہیں کرتا ، اسی طرح لمبے قد کا انسان ہرگز چھوٹا لباس پہننے کی آرزو نہیں کرتا ''

اس مثال سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ بہشت میں ہر انسان اپنی حد میں راضی ہوگا اور اپنے مقام و منزلت سے زیادہ توقع نہیں رکھے گا ، حقیقت میں جس مقام کو اس نے پالیا ہے اسے اپنے لائق سزا وار سمجھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ انبیاء کے مانند بعض لوگوں کا مقام اس سے بلندتر ہے تو ا س مقام کو ان کے لئے سزا وار تصور کرتا ہے اوراس مقام کو اپنے لئے لمبے لباس کے مانند پاتا ہے ۔

بہشتی شخص، موت سے پہلے او رعالم برزخ میں اپنی برائیوں اور ناپاکیوں سے پاک ہو جائے ہیں اور اپنے لائق اور مناسب مقام تک پہنچ جائے ہیں ، اس لحاظ سے ہر شخص اپنے خلعت کو زیب تن کرتا ہے اور خدا کی عنایت کی ہوئی اس خلعت پر راضی اور مطمئن ہوتا ہے اور اس کے بعداس کے دل کو آرام ملتا ہے

____________________

١۔شہید مطہری کی کتاب '' انسان کامل '' ص ٩٤ ۔ ٩٦

۲۔ مستدرک الوسائل ، ج١ ص ٣٥٨

۳۔ مستدرک الوسائل ج ١، ص ٣٥٨)

۴۔ تفسیر ابو الفتوح ،ج١ص١٠٣

۵۔ غرر الحکم ، ص ٦٠٥

۶۔ وسائل الشیعہ، ج ٣. ص ٧

۷۔ بحار الانوار ج٧٧،ص٤١٩