بارہواں سبق
خوف و حزن کی اہمیت اور اس کا اثر (٢)
* مفید اور نفع بخش علم
* بہشت میں سکون و اطمینان، دنیا میں خوفخدا کا نتیجہ
*گناہوں کی بخشش خوف خداکا نتیجہ اپنے نیک اعمال پر اعتماد کرنے والے کی سر زنش
*گناہ کی طرف متوجہ ہونے کا اثر شیطان سے دوری ہے
* حزن و خوف کی حقیقت کے بارے ایک تحقیق اور خداسے خوف کا معنی
* متضاد حالات کا ایک ہی وقت میں محقق ہونا۔
حزن و خوف کی اہمیت اور اس کا اثر(٢)
''یَا اَبَاذرٍّ؛ مَنْ ُوتِیَ مِنَ الْعِلْمِ مٰا لٰا یُبْکیهِ لَحَقیق َنْ یَکُونَ قَدْ ُوتِیَ عِلْماً لٰا یَنْفَعُهُ ، لِاَنَّ ﷲ عَزَّ وجَلَّ نَعَتَ الْعُلَمَائَ فَقٰالَ :(
اِنَّ الَّذِینَ اُوتُو الْعلْمَ مِنْ قَبْلِهِ ِذَا یُتْلٰی عَلَیْهِمْ یَخِرُّونَ لِلْاَذْقٰانِ سُجَّداً وَ یَقُولُونَ سُبْحٰانَ رَبِّنٰا ِنْ کٰانَ وَعْدُ رَبِّنٰا لَمَفْعُولاً وَ یَخِرُّونَ لِلْاَذْقٰانِ یَبْکُونَ وَ یَزیدُهمُ خُشُوعاً
)
یَا َبٰاذرٍ؛ مَنِ اسْتَطَاعَ َنْ یَبْکی فَلْیَبْکِ وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فِلْیُشْعِرْ قَلْبَهُ الْحُزْنَ وَلْیَتَبٰاکَ ، ِنَّ الْقَلْبَ الْقٰاسی بَعید مِنَّ ﷲتَعٰالٰی وَلٰکِنْ لٰا تَشْعُرُونَ
یٰا َبَاذَرٍ؛ یَقُولُ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ : لَا َجْمَعَ عَلٰی عَبْدٍ خَوفَینِ وَ لاٰ َجْمَعُ لَهُ َمْنَینِ فَاِذَا اَمِنَنی فِی الدُّنْیٰا اَخَفْتُهُ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ وَ ِذَا خٰافَنی فِی الدُّنْیٰا اَمَنْتُهُ یَوْمَ القِیٰامَةِ یَا َبَاذَرِ : ِنَّ الْعَبْدَ لَیُعْرَضُ عَلَیهِ ذُنُوبُهُ یَومَ القِیٰامَةِ فَیَقُولُ : َمٰا ِنِّی کُنْتُ مُشفِقاً فَیُغْفَرُ لَه،
یٰا َبَاذَرٍ؛ اِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلْ الْحَسَنَةَ فَیَتَّکِلُ عَلَیْهٰا وَ یَعْمَلُ الْمُحَّقَّرَاتِ حَتّٰی یَتِیَ ﷲ وَ هُوَ عَلَیْهِ غَضْبٰان وَ اَنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ السَّیئَةَ فَیَفْرُقَ مِنْهٰا فَیَاَتِی ﷲ عَزَّ وَ جَلَّ آمِناً یَومَ الْقِیٰامَةِ
یٰا َبَاذَرٍ؛ ِنَّ الْعَبْدَ لَیُذْنِبُ الذَّنْبَ فَیَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ ، فَقُلْتُ: وَکَیْفَ ذٰلِکَ بَِبی َنْتَ وَ ُمِّی یٰا رَسُولَ ﷲ؟ قٰالَ ، یَکُونُ ذٰلِکَ الذَّنْبَ نَصْبَ عَیْنَیهِ تٰائِباً مِنْهُ فٰاراً اِلَی ﷲ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰی یَدخُلَ الْجَنَّةَ''
سب سے بڑی نعمت جو خدائے متعال نے ہمیں عنایت فرمائی ہے وہ اسلام اور اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کی نعمت ہے اس پاک خاندان کی ہدایت و رہنمائی کی نور افشانی کے نتیجہ میں ، گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران علمائے بزرگ کی انتھک زحمتوں کے سبب موعظوں اور علوم کے عظیم خزانے ہم تک پہنچے ہیں ۔ کم ترین شکر جو ہمیں اس عظیم نعمت کا ادا کرنا چاہیے ، وہ ان قیمتی ذخائر کا مطالعہ ، تحقیق ، ان سے استفادہ کرنا اور ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہے ، ولایتِ اہل بیت علیہم السلام کے سایہ میں اور ان کی وضاحت سے ہی ہمیں جہل و بے خبری کی تاریکی سے نکل کر نور، معرفت اور آگاہی کی طرف راہنمائی ہوتی ہے ، جیسا کہ ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:
''بمٰولاتکم ، علّمنا ﷲ معالم دیننا و اصلح ما کان فسد من دنیانا
''
آپ کی ولایت و پیشوائی کی برکت سے خدائے متعال نے دین کے علوم اور حقائق سے ہمیں آشنا کیا اور ہمارے فاسد دنیوی امور کی اصلاح فرمائی ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ابوذرسے کی گئی نورانی نصیحتیں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ہدایتوں کی ایک واضح مثال ہے ، مناسب ہے کہ ہم ان پند و نصائح سے استفادہ کریں تا کہ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کریں ، کیونکہ اسلام اور اسی کے احکام انسان کی دنیوی و اخروی سعادت اور اس کی تمام معنوی و مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بہترین نسخہ ہے ۔
مفید و نفع بخش علم :
''یَا اَبَاذرٍّ؛ مَنْ ُوتِیَ مِنَ الْعِلْمِ مٰا لٰا یُبْکیهِ لَحَقیق َنْ یَکُونَ قَدْ ُوتِیَ عِلْمً مٰا لٰا یَنْفَعَهُ ، لِاَنَّ ﷲ عَزَّ وجَلَّ نَعَتَ الْعُلَمَائَ فَقٰالَ :(
اِنَّ الَّذِینَ اُوتُو الْعلْمَ مِنْ قَبْلِهِ ِذَا یُتْلٰی عَلَیْهِمْ یَخِرُّونَ لِلْاَذْقٰانِ سُجَّداً وَ یَقُولُونَ سُبْحٰانَ رَبِّنٰا ِنْ کٰانَ
وَعْدُ رَبِّنٰا لَمَفْعُولاً وَ یَخِرُّونَ لِلْاَذْقٰانِ یَبْکُونَ وَ یَزیدُهمُ خُشُوعاً
)
اے ابوذر!جس کوایسا علم دیا جائے کہ اسے نہ رلائے ، تو بیشک اسے ایسا علم دیا گیا ہیجس نے اس شخص کو کوئی فائدہ نہیں بخشا ہے ۔ کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں علما کی یوں توصیف فرمائی ہے ۔ '' وہ لوگ کہ جن کو اس کے پہلے علم دیا گیا ہے جب ان پر قرآن کی تلاوت ہوتی ہے تو منھ کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک و پاکیزہ ہے اور اس کاعہد یقینا پورا ہونے والا ہے اور منھ کے بھل گرپڑتے ہیں روتے ہیں اورقرآن ان کے خشوع میں اضافہ کردیتا ہے ''
اسلام ایک جامع و کامل مکتب ہے جو انسان کو کمال کی طرف دعوت دے کر اسے سماجی ، اخلاقی اور دیگر پہلوئوں سے تربیت کرنا چاہتا ہے ، انسان اس وقت کمال تک پہنچتا ہے جب وہ علمی ، اخلاقی نیز بلند اقدار کے حوالے سے تمام شعبوں میں ترقی کرتاہے ۔ اسلام جس قدر علم ،و آگہی ، فقہ و اجتہاد کو اہمیت دیتا ہے اسی قدر اخلاقی اور معنوی مسائل کو بھی اہمیت دیتا ہے ۔ انسان کامل علمی و فقہی و ...پہلوئوں سے نشو و نما پانے کے علاوہ اخلاقی پہلوئوں سیبھی ترقی کرتا ہے ۔
افسوس ہے کہ بعض اوقات علمی مسائل کی طرف توجہ دینے کی وجہ سے ہم اخلاقی مسائل جن کی اہمیت علمی مسائل سے کم نہیں ہے کی طرف توجہ نہیں دیتے ، اسی طرح کبھی انسان کو سماجی مسائل پر توجہ دینا معنوی و اخلاقی مسائل کے بارے میں غفلت سے دوچار کردیتا ہے انسان اجتماعی اور سماجی مسائل میں اس قدر غرق ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے اخلاقی مسائل اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی ہمیں غرور اور غفلت سے بچنے کیلئے کبھی کبھی اخلاقی و معنوی مسائل کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
روایت کے اس حصہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگراللہ تعالی نے ہمیں ایک علم عنایت کیا ہے تو وہ چاہتا ہے اس کے ساتھ اخلاقی اقدار کی بھی رعایت ہو ، کیونکہ اگر ہم صرف علمی مسائل کی طرف توجہ دیں گے اور خود سے غافل رہیں گے تو ، اخلاقی انحرافات جیسے غفلت اور غرور میں مبتلا ہوجائیں گے ۔
قرآن مجید میں بعض اقدار بیان ہوئے ہیں افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان کو فراموش کردیا گیا ہے اگرچہ بعض افراد ان میں سے کچھ اقدار کی طرف توجہ کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ اقدار معاشرے میں روز بروز رواج پائیں ،یہ اس صورت میں ہے کہ جب قرآن مجید ان خصوصیات اورا قدار کو نیک بندوں اور علماء کی صفات میں جانتا ہے من جملہ ان صفات و خصوصیات میں خداوند عالم سے ڈرنا ، توبہ اور گڑگڑانا ہے ۔
شاید حزن ، غم اور فروتنی پر تکیہ کرنا مومن، خاص کر عالم کی شخصیت کو متوازن بنانے کیلئے ہے ، کیونکہ علم و دانش کی ایک خاص عظمت و منزلت ہے اور یہ تقویٰ کے بعد سب سے بڑی انسانی فضیلت ہے فطری بات ہے کہ علم حاصل کرنیو الا اجتماعی عزت و احترام کا مالک ہوتا ہے اور یہ بذات خود غرور و تکبر کا موجبہے اورفطری طور پر عالم کو اس سے آلودہ ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔
شرع مقدس اسلام نے عالم کو غرور سے بچانے اور ا س کی شخصیت کو متوازن بنانے کیلئے اسے خضوع و خشوع ، گریہ و توبہ کی نصیحت کی ہے تا کہ وہ جس قدر سماج میں بلند مقام پائے اپنے کو چھوٹا اور حقیر سمجھے ، یہ وہی چیز ہے جس کی حضرت امام سجاد علیہ السلام خداوند متعال سے درخواست کرتے ہیں :
'' َللّٰهُمَّ صُلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِهِ وَ لاَ ترفعنی فی الناس درجة الا حططتنی عند نفسی مثلها و لا تحدث لی عزاً ظاهرا الا احدثت لی ذلة باطنة عند نفسی بقدرها
''
پروردگارا ، درود بھیج محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ان کی آل پر ، جس قدر تو مجھے لوگوں کے سامنے عظمت و سر بلندی عطا کر اسی اعتبار سے تو مجھے اپنی نگاہ میں ذلیل و حقیر قرار دے اور جس قدر ظاہر میں تو مجھے عزت عطا کراسی اعتبار سے تو مجھیباطن میں ذلت و رسوائیعطا کر ۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے فرماتے ہیں اگر تمہیں ایک ایسا علم عطا کیا گیا جوتمھارے خضوع و خشوع میں اضافہ نہ کرے اور تمھارے اندر خضوع و خشوع اور گڑگڑانے کی حالت پیدا نہ کرے ، تو جان لینا کہ وہ علم تجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا ۔ صرف وہ علم فائدہ بخش ہے جو خدا کے سامنے انسان کے خضوع و خشوع میں اضافہ کرے ۔ چنانچہ خداوند متعال قرآن مجید میں علما کی ایسی تعریف کرتا ہے کہ ، جب ان پر آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ فوراً زمین پر گر پڑتے ہیں اور گڑگڑاتے ہوئے گریہ و زاری کرتے ہیں ، یہ خدا کے حضور میں انسان کے خضوع کی علامت ہے ۔
اگر چہ رونا ایک ظاہری عمل شمار ہوتا ہے لیکن یہ قلب اورباطنی تبدیلی کا مظہر ہے ، جب تک انسان کا دل محزون نہ ہوجائے اور انسان خدا کے سامنے خاشع نہ ہو جائے ، گریہ کی حالت اس میں پیدا نہیں ہوسکتی ہے ۔
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :
'' یَا َبٰاذرٍ؛ مَنِ اسْتَطَاعَ َنْ یَبْکی فَلْیَبْکِ وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فِلْیُشْعِرْ قَلْبَهُ الْحُزْنَ وَلْیَتَبٰاکَ ، ِنَّ الْقَلْبَ الْقٰاسی بَعید مِنَّ ﷲتَعٰالٰی وَلٰکِنْ لٰا تَشْعُرُونَ''
اے ابوذر ! جس کیلئے ممکن ہو ( خدائے قادر سے ڈر کر ) گریہ کرے ، اگر ممکن نہ ہو تو ( کم از کم) اپنے دل کو غم و اندوہ سے آشنا کرے اور رونے کی حالت پیدا کرے ، کیونکہ قساوت رکھنے والا دل خدائے متعال سے دور ہوتا ہے، لیکن وہ اس معنی کو درک نہیں کرتے ہیں۔
چنانچہ اس سے پہلے بیان ہوا ، جس گریہ کی روایتوں ، من جملہ مذکورہ روایت میں تاکید کی گئی ہے ، وہ اخروی سعادت سے محروم ہونے اور گناہوں میں آلودہ ہونے کے خوف سے گریہ ہے یا معنویمدارج اور امام عصر ( عج) کے دیدار سے محروم ہونے کی وجہ سے جو گریہ کیا جاتا ہے اس سے بڑھ کر وہ گریہ ہے جو لقاء اللہ کی محرومیت کی وجہ سے واقع ہوتا ہے۔
جو لوگ خدا کی محبت رکھتے ہیں اور ولایت الٰہی کو پہچانتے ہیں وہ لقاء اللہ سے محروم ہونے کے خوف میں گریہ و زاری کرتے ہیں ، جیسے حضرت علی علیہ السلام دعائے کمیل میں فرماتے ہیں :
'' فهبنی یا الهی و سیدی و مولای و ربی ، صبرت علی عذابک فکیف اصبر علی فراقک ''
مجھے معلوم ہے اے میرے معبود اے میرے سردار ! اے میرے مولا! اے میرے پروردگار! میں عذاب پر تو صبر کرلوں گا لیکن تیری جدائی پر کیوںکر صبر کروں گا ؟
اگر کسی کیلئے گریہ و زاری کرنا ممکن نہ ہو تو اسے حزن آفریں موضوعات کو یاد کرکے یا معنوی اقدار سے محروم ہونے کی وجہ سے اور گناہ پر غور کرکے کم از کم اپنے دل کو محزون بناناچاہیے اگر اس کا دل محزون نہ ہو تو کم از کم رونے کی حالت بنائے ، اگر کسی شخص کے لئیحزن کی حالت پیدا نہیں ہوتی اور ہمیشہ مست ومغرور رہتا ہو تو وہ خدا کی رحمت سے محروم رہتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہرکوئی جو گریہ و بکاء کی حالت رکھتا ہے وہ خدا کے نزدیک ہے ، کیونکہ ممکن ہے بعض حالات کے پیش نظر منافقین میں بھی ایس حالت رونما ہوجائے اور وہ محزون ہوکر گریہ کرنے لگیں اس کے برعکس جو بھی محزون نہ ہواور اس میں گریہ کی کیفیت پیدا نہ ہوتو ہے اسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سنگ دل اور خدا سے دور ہے ۔
بہشت میں سکون و اطمینان ، دنیا میں خوف خدا کا نتیجہ:
یٰا َبَاذَرٍ؛ یَقُولُ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ : لَا َجْمَعَ عَلٰی عَبْدٍ خَوفَینِ وَ لاٰ َجْمَعُ لَهُ َمْنَینِ فَاِذَا اَمِنَنی فِی الدُّنْیٰا اَخَفْتُهُ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ وَ ِذَا خٰافَنی فِی الدُّنْیٰا اَمَنْتُهُ یَوْمَ القِیٰامَةِ
اے ابوذر ! خداوند متعال فرماتا ہے : '' میں اپنے بندہ پر دو خوف اور دو امن ایک ساتھ جمع نہیں کرتا ہوں گروہ اس دنیا میں مجھ سے خائف نہیں تھا یعنی امان میں تھا تو دوسری دنیا میں ،میں اسے ڈراؤں گا اور اگر اس دنیا میں مجھ سے خائف تھا تو دوسری دنیا میں اسے امن و امان میں قرار دوں گا '''
اگر بندہ دنیا میں عذاب الٰہی سے ڈرتا تھا تو وہ قیامت کے دن خوف و ترس اور عذاب جہنم سے بچ جائے گا ( خدا سے خوف، عذاب الٰہی سے ڈرنے کے معنی میں ہے کہ بندہ احکام الٰہی کو انجام دینے میں کوتاہی کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوتا ہے ) پس ، جو دنیا میں خداوند متعال سے ڈرتا ہے اسے قیامت میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی اور وہ امن و امان میں ہوگا ، جیسا کہ خداوند متعال فرماتا ہے :
(
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَ نَهَیَ النَّفْسَ عَنِ الْهَویٰ فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَآویٰ
)
(نازعات ٤٠و٤١)
اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیاہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے ، تو جنت اس کا ٹھکانا اور مرکز ہے
چونکہ بہشت خداوند متعال کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی جگہ ہے اور بہشتی لوگ امن و امان میں ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی مشکل ، پریشانی اور غم و اندوہ سے دوچار نہیں ہوتے ، اس لئے خداوند متعال فرماتا ہے :
(
مَنْ جَائَ بِالْحَسَنةِ فَلَهُ خَیْر مِنهَا وَ هُمْ مِنْ فَزَعٍ یَومِئِذٍ آمِنُونَ
)
( نمل ٨٩)
جو کوئی نیکی کرے گا اسے اس سے بہتر اجر ملے گا اور وہ لوگ روز قیامت کے خوف سے محفوظ بھی رہیں گے ۔
ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :
(
بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهُ ﷲِ وَ هُوَ مُحْسِن فَلَهُ اَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَ لَا خَوْف عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحزَنُونَ
)
( بقرہ ١١٢)
ہاں ، جو شخص اپنا رخ خدا کی طرف کرے گا اور نیک عمل کرے گا اس کیلئے پروردگار کے یہاں اجر ہے اوراس پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ حزن ''
خدا سے ڈرنے والے انسان کے مقابلے میں جو دنیا میں ا من کا احساس کرتا ہے اور کسی قسم کی پریشانی اور اضطراب کا احساس نہیں کرتا ہے اوراللہ تعالی سے نہیں ڈرتا ہے ، وہ قیامت کے دن خدا کے خوف اور اس کے عذاب میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ عذاب الٰہی میں ہوگا ۔
خدا کے مکر سے محفوظ رہنا گناہ میں آلودہ ہونے کا سبب ہے کیونکہ جب انسان کام کو انجام دینے میں اپنے آپ کو آزاد ردیکھتا ہے اور کسی بھی قسم کا خوف و ہراس محسوس نہیں کرتا ہے تو وہ گناہ سے لا پرواہی کرتا ہے ، فطری بات ہے کہ دنیا میں امن و امان کا احساس جو گناہ انجام دینے اور انحراف کا موجب ہے آخرت میں ناا منی اور عذاب کا سبب واقع ہو تا ہے اس سلسلہ میں خداوند متعال فرماتا ہے
(
فَاَمَا مَنْ طَغیٰ وَآثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیٰا،فَاِنَّ الْجَحِیمَ هِیَ الْمَویٰ
)
(نازعات ٣٧و ٣٨و ٣٩)
جس نے سرکشی کی ہے اور زندگانی دنیا کو اختیار کیا ہے ، جہنم اس کا ٹھکانا ہے ۔
حدیث کے اس حصہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان ایک ایسا کام انجام دے سکتا ہے جو اس کیلئے خدا سے ڈرنے کا سبب بنے جب انسان یہ سمجھ لے کہ خدا کا خوف ایک امر مطلوب اور سعادت تک پہنچنے کا وسیلہہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر کس طرح خدا کا خوف پید اکرے ؟ اس کے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں ، بعض مقدمات فراہم کر کے بعض مسائل انسان میں اس حالت میں رونما ہوتے ہیں۔
کبھی انسان بعض چیزوں کو جانتا ہے لیکن وہ ان معلومات کی طرف توجہ نہیں دیتاہے لہٰذا، اس کے متعلق اس کا اعتقاد اور علم کمزور اور پھیکا ہوتا ہے اور انسان غافل ہوتا ہے، نتیجہ کے طور پر وہ علم اور اعتقاد اپنا اثر نہیں دکھاتاہے ،لیکن اگر انسان خوف کو پیدا کرنے والے اسباب کی طرف توجہ کرے اور اس خوف کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھنے کی کوشش کرے، تو اس کا خوف و ہراس بڑھ کر اس کے رفتار و کردار پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ کہ انسان ایک ایسے مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں پر وہ ایک ہی وقت میں غم اورخوشی کو دونوں کو یکجا کر سکتا ہے۔ کمزور انسان ایک ہی وقت میں حزن واند وہ اور خوشی کو برداشت نہیں کرسکتے ، وہ ایک لمحہ یا حزن رکھتے ہیں یا شادمانی و سرور۔ جب نفس ہر جہت سے قوی اورمکمل ہوتا ہے، تو ممکن ہے ایک ہی وقت میں بعض جہات سے انسان مسرور ہو اور بعض جہات سے غمگین، انسان نفس و روح کے تکامل ترقی کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ ایک ایسے مرحلہ پر پہنچتا ہے کہ مسرتوں اور غموں کی اقسام کو اپنے میں جمع کرتا ہے، چنانچہ اولیائے الہٰی اپنے اندر مختلف قسم کے خوف واند وہ مسرتوں اور امیدوں کو جمع کرتے تھے۔ جو لوگ اس مقام پر پہنچے ہیں وہ ایک ہی وقت میں مختلف حالات پر مشمل خصوصیات کے مالک ہوتے ہیں اور وہ اپنے اندر ان مختلف حالات کے آثار و نتائج کو پیدا کر سکتے ہیں۔
گناہوں کی بخشش، خوف خدا کا نتیجہ:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے ڈرنے کے نتیجہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
''یَا َبَاذَرِ : ِنَّ الْعَبْدَ لَیُعْرَضُ عَلَیهِ ذُنُوبُهُ یَومَ القِیٰامَةِ فَیَقُولُ : َمٰا ِنِّی کُنْتُ مُشفِقاً فَیُغْفَرُ لَه
''
اے ابوذر! قیامت کے دن مومن کے گناہ اس کے سامنے پیش کئے جا ئیںگے تو وہ کہے گا کہ میں تو اپنے کام کے انجام سے بہت زیادہ خوفزدہ تھا تو اس کے نتیجہ میں اس کے گناہ بخش دئے جائیں گے۔
یہاں تک ہم خدا سے ڈرنے کی اہمیت سے آگاہ ہوئے اور سیرالی اللہ کی جانب رہنمائی کے سلسلہ میں اس کے عظیم نقش سے بھی واقف ہوئے۔ حدیث کے اس حصہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے خوف کے بعض فوائد کے بارے میں اشارہ فرماتے ہیں تاکہ ہم میں خوف خدا کا محرک پیدا ہوجائے یا اس کو تقویت ملے۔ آپ فرماتے ہیں: خدا کے خوف کا ایک فائدہ گناہوں کی بخشش و مغفرت ہے۔
کلی طور پر گناہ کے وقت انسان کی دوحالتیں ہوسکتی ہیں:
١ ۔انسان گناہ کے وقت اس کے انجام کا خوف نہیں رکھتا ہے اور اطمینان و آرام اور کسی قسم کی پریشانی اور اضطراب کے بغیر اس گناہ کی لذتوں سے فائدہ اٹھانے میں مشغول ہے۔
٢۔گناہ انجام دیتے وقت انسان اس کے انجام کے بارے میں خوف زدہ اور وحشت میں ہے۔ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں مرنہ جائے اور توبہ کرنے کی توفیق نہ ہو۔ گناہ کے وقت یہ ڈر انسان کیلئے گناہ کی لذتوں کو کم کرنے کا سبب واقع ہوتا ہے اورآخر کار یہی خوف اسے توبہ کرنے اور گناہوں کے بخشے جانے کا باعث ہوتا ہے۔
فطری بات ہے کہ قیامت کے دن انسان کے گناہوں کی تحقیقات ہوگی اور اگر اس نے ان گناہوں کی تلافی نہیںکی کیونکہ اگر توبہ کرتا تو اسے نجش دیا جاتا تو اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ لیکن چونکہ خدا کا بندہ دنیا میں خوف و وحشت میں تھا، لہٰذا وہ کہتا ہے: خداوندا! میں گناہ کو انجام دیتے ہوئے اس کی عاقبت سے ڈرتا تھاجس کے ، نتیجہ میں اس کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ پس، اگر انسان اپنے گناہوں کے بارے میں خدا سے ڈرے تو اُمید ہے اسے قیامت کے دن بخش دیا جائے گا۔
خوف خدا انسان کے گناہوں میں کمی اور اس کی بیداری و ہوشیاری کا سبب واقع ہوتا ہے، اور یہ بذات خود متنبہ کرنے والا ہے اور انسان کو انحراف اور لغزش کے وقت غفلت سے روکنے کا سبب ہے۔ اسی لحاظ سے قرآن مجید میں خدا سے ڈرنے والوں کی ستائش کی گئی ہے اور خوف خدا کی پاداش کا وعدہ کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی آیات پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں خوف خدا کے مراتب کے فرق کا دارومدار انسان کی شناخت کے مراحل میں اختلاف کی وجہ سے ہے یعنی، فاضل افراد، جیسے ائمہ معصومین علیہم السلام خدا وند متعال کے خوف کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں اور دوسرے افراد ادنی مرتبہ پر۔
قرآن مجید خوف ووحشتسے متعلق دو چیزوں کا ذکر کرتا ہے:
١۔ خدائے متعال کیعظمت و کبریائی سے خوف۔
٢۔عذاب الہٰی کا خوف
سورہ ابراہیم میں فرماتا ہے:
(
لَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ ِهمْ ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَخَافَ وَعِیدِ
)
(ابراہیم١٤)
''اور تمہیں ان کے بعد زمین میں آباد کریں گے اور یہ سب ان لوگوں کیلئے ہے جو ہمارے مقام اور مرتبہ سے ڈرتے ہیں اور ہمارے عذاب کا خوف رکھتے ہیں۔''
اس آیہ مبارکہ میں خدائے متعال کے خوف کا بھی ذکر ہوا ہے اور عذاب الہٰی کے خوف کا بھی ذکر ہوا ہے۔ سب سے بلند ترین خوف خدا ئے متعال کی عظمت کا خوف ہے۔
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:
''خدا کا خوف کبھی عذاب الہٰی سے خوف کے معنیٰ میں ہوتا ہے جو کفر و معصیت کی وجہ سے ہوتا ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان کی عبادت عذاب سے نجات دلانے کیلئے ہے نہ وہ عبادت جو صرف خدا کے لئے انجام دی گئی ہو۔ یہ عبادت ایسے بندوں کی ہے جو اپنے مولا کی سزا کے ڈر سے اس کی بندگی کرتے ہیں۔ چنانچہ بعض لوگ ثواب کی لالچ میں عبادت کرتے ہیں، کہ عبادت کی یہ قسم ''تاجروں کی عبادت'' ہے، لیکن ''مقام ربوبیت'' سے خوف، عذاب الہٰی کے خوف کے علاوہ ہے اور یہ عزت و جبروت الہٰی کے مقابلہ میں بندے کی ذلت و حقارت کا اثر ہے۔
حقیقت میں عظمت الہٰی کے خوف سے عبادت و بندگی، خدائے متعال کے حضور میں سرتسلیم خم کرنے اور خضوع کرنے کے معنی میں ہے نہ عذاب کے خوف سے یا ثواب کی لالچ میں اور یہ عبادت مخلصانہ طور پر خدائے متعال کیلئے انجام دی جاتی ہے۔ پس جو مقام الہٰی سے ڈرتے ہیں وہ خدائے متعال کے جلال کے سامنے مخلصین اور خاضعین ہیں۔''
اپنے نیک اعمال پر اعتماد کرنے والے کی سرزنش:
گناہ کے مرتکب ہونے والوں کی سرزنش کرتے ہوئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
'' یٰا َبَاذَرٍ؛ اِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الْحَسَنَةَ فَیَتَّکِلُ عَلَیْهٰا وَ یَعْمَلُ الْمُحَّقَّرَاتِ حَتّٰی یَتِیَ ﷲ وَ هُوَ عَلَیْهِ غَضْبٰان وَ اَنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ السَّیئَةَ فَیَفْرُقَ مِنْهٰا فَیَتِی ﷲ عَزَّ وَ جَلَّ آمِناً یَومَ الْقِیٰامَةِ''
''اے ابوذر! ایک انسان نیک کام انجام دیتا ہے، اس پر اعتماد کر کے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اپنے نیک کردار کے مقابلہ میں گناہ کے انجام میں سہل انگاری کرتا ہے، ایسا انسان جب خدا کے حضورمیں حاضر ہوتا ہے تو خدا اس پر خشمگین ہوتا ہے، اس کے برعکس ایک انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اس کے انجام سے خائف ہوتا ہے، اس قسم کاانسان قیامت کے دن آسودہ خاطر ہوگا۔''
اعمال کے قبول ہونے اور نہ ہونے کے معیار کو ظاہری معیاروں پر تولہ نہیں جاسکتا بلکہ اعمال کا قبول ہونا اور قبول نہ ہونا بعض شرائط سے مربوط ہے اور بہت ممکن ہے کہ انسان ان سب کااحصا نہ کرسکے۔ اس بنا پر کوئی بھی شخص اپنے اعمال کے قبول ہونے پر مطمئن نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اعمال کے قبول ہونے پر اعتماد انسان کے مغرور ہونے کا سبب ہے، یہاں تک خود کو گناہ صغیرہ میں اس بہانہ سے آلودہ کرتا ہے کہ اس کے انجام دیئے گئے نیک کام کے مقابلہ میں گناہ صغیرہ حقیر ہے۔ وہ اس سے غافل ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اس کے نیک اعمال کے قبول ہونے کے متعلق اس کا اعتماد بے جا تھا، کیا معلوم اس کے اعمال قبول ہوئے ہوں گے یا نہیں، دوسرے یہ کہ گنا ہان صغیرہ کے بارے میں بے توجہی اور ان کی تکرار بذات خود گناہ کبیرہ ہے۔ یہی کہ انسان نیک اعمال انجام دینے کے پیش نظر، اطمینان کے ساتھ آسودہ خاطر ہوجائے اور اپنی عباد توں پر اعتماد کرتے ہوئے، کسی گناہ کو چھوٹا اور معمولی سمجھ کر اس کے مرتکب ہونے کو اہمیت نہ دے، اس پر خدا کا غضب ہوگا۔
اس گروہ کے مقابلہ میں بعض لوگ ایسے ہیں، جب وہ کسی گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، تو ڈر کے مارے اضطراب کا احساس کرتے ہیں اور ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔ یہ لوگ اگر چہ بعض عبادتوں کی انجام دہی کے بارے میں زیادہ ہمت کا مظاہرہ بھی نہ کرتے ہوں لیکن گناہ کے بارے میں ان کے خوف و وحشت کی وجہ سے وہ قیامت کے دن عذاب الٰہی سے نجات پائیں گے اور وہ وہاں آرام و آسائش میں ہوں گے۔ (حدیث کے اس حصہ میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تفسیر مختلف ہے، من جملہ''لا اجمع علی عبد خوفین'' جس کے بارے میں پہلے اشارہ کیا گیاہے۔)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد جناب ابوذر کو قلبی حالات کی طرف متوجہ کرانا ہے کہ گناہ سے ڈرنا کس قدر موثر ہے، یہاں تک اگر انسان گناہ میں مبتلا ہوجائے، اس کا قلبی ہواس نیز اضطراب و پریشانی اس کی مغفرت و بخشش کا سبب ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی نے کافی عبادت انجام ہو لیکن گناہ کو حقیر اور چھوٹا سمجھ کر مطمئن ہو جائے تو اس کا مطمئن ہونا گناہ کو اہمیت نہ دینے کی دلیل ہے اور وہ متوجہ نہیں ہے کہ کس کی مخالفت کرتا ہے، اورغضب الٰہی سے دو چار ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی بھی گناہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ہمیشہ خدا کے خوف کو اپنے اندر محفوظ رکھنا چاہیے تاکہ مغرور نہ ہوں اور ہمیں شیطان فریب نہ دے۔
گناہ کی طرف متوجہ ہونے کا اثر شیطان سے دوری ہے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد والے جملہ میں مذکورہ بیان سے بالاتر فرماتے ہیں:
'' یٰا َبَاذَرٍ؛ ِنَّ الْعَبْدُ لَیُذْنِبُ الذَّنْب فَیَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ ، فَقُلْتُ: وَکَیْفَ ذٰلِکَ بِاَبی َنْتَ وَ ُمِّی یٰا رَسُولَ ﷲ؟ قٰالَ ، یَکُونُ ذٰلِکَ الذَّنْبُ نَصْبَ عَیْنَیهِ تٰائِباً مِنْهُ فٰارّاً اِلَی ﷲ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰی یَدخُلَ الْجَنَّةَ''
اے ابوذر! خدا کا بندہ گناہ کرتا ہے اور اس کے سبب بہشت میں داخل ہوتا ہے۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر فدا ہو جائیں یہ کیسے ممکن ہے؟ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: وہ گناہ کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے قرار دیتا ہے اور اس سے توبہ کرتے ہوئے خدا کی پناہ چاہتا ہے، یہاں تک کہ بہشت میں داخل ہوجاتا ہے۔
کبھی بندہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں پریشان اور مضطرب ہوتا ہے۔ اور یہی خوف و وحشت اس کے لئے توبہ، خدا کی پناہ میں قرار پانے اور شیطان کے پھندے سے آزاد ہونے کا سبب واقع ہوتا ہے۔ آخر کار وہ نفسانی خواہشات کی غفلت سے نجات پا کر پھرسے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ بہشت میں داخل ہوتا ہے۔ شاید اگر وہ گناہ اس سے سرزدنہ ہوتا تو یہ حالت اس کے لئے پیش نہیں آتی۔ البتہ خدائے متعال کی طرف توجہ اور شیطان سے دوری اختیار کرنے کا قریب سبب وہی توبہ اور خدائے متعال سے خوف و وحشتہے اور گناہ اس کا ''سبب بعید'' ہے لیکن بہر حال گناہ بھی سبب بن گیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان انسان کو اس امر کی طرف ترغیب دینے کے لئے ہے کہ وہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا نفسانی احساس پیدا کرے۔ وہ خوف جو گناہوں کے ارتکاب کے بعد اس کی تلافی کرنے کا سبب واقع ہو اور جس کی وجہ سے وہ انسان بہشت میں داخل ہو جائے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، پس اس حالت کو پانے کے لئے کوشش کرنی چاہیے؟
حزن و خوف کی حقیقت کے بارے میں ایک تحقیق:
یہاں تک اس حصہ میں روایت میں بیان شدہ حزن و خوف کے بارے میں بحث تھی۔ اب چند سوالات پیش کر کے ان کا جواب دینا مناسب ہے، اگر چہ ان سوالات کا براہ راست واسطہ اس اخلاقی بحث سے نہیں ہے:
منجملہ سوالات یہ ہیں کہ کیا خوف وحزن کی حالت اچھی ہے یا بری؟ اگر یہ کیفیت اچھی ہے تو خدائے متعال اپنے اولیا کی توصیف میں یہ کیوں فرماتا ہے:(
لاَ خَوْف عَلَیْهِمْ وَلاَ هُمْ یَحْزَنُونَ
)
اور اگریہ کیفیت بری ہے تو کیوں پیغمبر اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں کہ ان دو خصلتوں کو اپنی ذات میں پیدا کرو؟ نیز فرمایا ہے: یہ دو چیزیں مغفرت اور گناہوں کی بخشش کا سبب ہیں۔
جواب میں کہنا چاہیے: خوف و حزن بہ ذات خود اپنے متعلق کو مدنظر رکھے بغیر نہ مطلوب ہے نہ مذموم، کلی طور پرنہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کیفیت اچھی ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے یہ کیفیت بری ہے ، بلکہ دیکھنا چاہیے کہ وہ خوف ووحشت کس سے ہے نیز حزن و اندوہ کس لئے ہے؟ خدائے متعال اور اس کے عذاب سے خوف ایک مستحسن اور مطلوب امر ہے، کیونکہ یہ خوف انسان کے لئے بیشتر خدا کی عبادت و اطاعت اور گناہ سے پرہیز کرنے کا سبب بنتا ہے اور نتیجہ کے طور پر انسان کی اس امر میں مدد کرتا ہے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے اور سعادت و خوشبختی کو حاصل کر کے بہشت میں داخل ہوجائے۔ اس کے برعکس دنیا کے لئے خوف ناپسند یدہ ہے، کیونکہ بنیادی طور پر دنیا کی طرف تمایل اور توجہ مطلوب نہیں ہیچہ جائے کہ اس کے بارے میں خوف کرنا ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ خدا سے ڈرنے کا کیا معنی ہے؟
اس کے جواب میں کہنا چاہیے: خدا سے ڈرنادر حقیقت اپنے اور اپنے اعمال سے ڈرنا ہے جس کا انسان مرتکب ہوتا ہے ورنہ خدائے متعال رفعت و رحمت کا سرچشمہ ہے۔ خدا سے خوف اس لحاظ سے ہے کہ وہ سخت عذاب کرنے والا ہے وہ انسان کے کر توتوں کو معاف نہیں کرتا ہے اور ہر عمل کا حساب لیتا ہے۔
جس دوسرے نکتہ کابیان ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ایک کلی تقسیم بندی کے لحاظ سیخدا کے خوف کو تین مراتب میں بیان کیا جاسکتا ہے:
١۔ جہنم میں عذاب الہٰی کا خوف:
یہ عام انسانوں کا مرتبہ ہے۔ اکثر لوگوں میں جہنم اور عذاب الٰہی سے خوف کرنا اپنے فرائض پر عمل کرنے اور گناہ سے پرہیز کرنے کا سبب ہے۔ البتہ قابل ذکر بات ہے کہ یہ مرتبہ ان افراد کے لئے بہت مفید ہے جو بندگی کے ابتدائی مراحل میں رشد و ترقی کے مرحلہ میں ہوتے ہیں اور یہ خوف تاثیر کی صورت میں گناہ سے اجتناب کرنے، سعادت حاصل کرنے اور عذاب الہٰی سے نجات پانے کا سبب بنتا ہے۔
٢۔ بہشتی نعمتوں کو کھو جانے کا خوف:
بعض لوگ بہشتی نعمتوں سے محروم ہونے کے ڈر سے گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے اور اپنے فرائض پر عمل کرتے ہیں، حقیقت میں بہشت کی لالچ انھیں خدا کی عبادت کرنے اور شیطان سے دوری اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے، یہ مرتبہ گزشتہ مرتبہ سے بلند تر ہے۔
٣۔ لقائے الٰہی اور خدا کے تقرب سے محروم ہونے کا خوف:
انسان کا خدا کی بے لطفی اور بے اعتنائی سے دو چار ہونے کا خوف۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مرتبہ مذکورہ دو مراتب سے بالا تر ہے اور یہ خدا کے خاص بندوں اور انتہائی بلند درجہ رکھنے والے افراد سے مربوط ہے جو اخروی ثواب اورالٰہی عذا ب کو مد نظر نہیں رکھتے ہیں بلکہ یہ لوگ ایک ایسی چیز کا ادر اک کرکے اس کے پیچھے دوڑتے ہیں جو بہت بلند ہے۔
اس مرتبہ کی و ضاحت کرنے اور ذہن کو قریب ڈف سے دعوت دی جائے اور وہ ہماری مہمان نوازی کریں ۔ ممکن ہے کچھ مہمان فکر مند ہوں کہ اگر تاخیر کریں تو کھانا کھانے سے محروم ہوجائیں گے۔ بعض اپنیدل میں سوچتے ہیں کہ آج عید ہے اورآج قائد انقلاب انعامات عطا کریں گے۔ ان کا خوف اس لئے ہے کہ تا خیر کی صورت میں انعامات سے محروم ہوجائیں گے۔ اس گر وہ کا عزم پہلے گر وہ سے زیادہ ہے۔ ان کے لئے اہم یہ نہیں ہے کہ بھوکے رہیں بلکہ ان کے لئے اہم یہ ہے مقام معظم رہبری (قائد انقلاب)کے ہاتھوں انعام حاصل کریں۔
تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کے لئے صرف ان کی زیارت کی اہمیت اور قدر و منزلتہے نہ کسی اور چیزکی ان کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ مقام معظم رہبری ان پر ایک نظر ڈالیں اور اپنے چہرے پر ایک رضایت نجش مسکراہٹ ظاہر کریں، یہی چیز اس گر وہ کے لئے باعث اہمیت اور فضیلت ہے، اس کے علاوہ ان کے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ انھیں کوئی سکہ یاہدیہ دیا جائے یا نہ۔
یہ مراتب جو مختلف افراد میں دوستی اورالفت کی بنا پر ان کے عزم و معرفت کے تفاوت کی بناء پر پائے جاتے ہیں، انھیں بلا تشبیہ خدائے متعال کے خوف سے منطبق کیا جاسکتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام ایک روایت میں ان تین مراتب کو خدا کی بندگی و عبادت کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:
''قَوم عَبَدُواﷲ عَزَّوَجَلَّ خَوفاً فَتِلْک عِبَاٰدَةُ الْعَبِیدِ وَ قَوم عَبَدُوا ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ طَلَباً لِلثَّوابِ' فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْاُ جَرَائِ وَقَوْم عَبَدُوا ﷲ حُبَّا لَهُ فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْاَحْرَارِ وَهِیَ َفْضَلُ الْعِبَادَةِ''
ایک گر وہ ہے جو خوف اور ڈرکے مارے خدا کی عبادت کرتا ہے، اس کی عبادت غلاموں کی عبادت ہے۔ ایک گروہ ہے جوپاداش اور ثواب کی لالچ میں خدا کی عبادت کرتا ہے، اس کی عبادت مزدوروں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا سے محبت و عشق کی بنا پر عبادت کرتے ہیں، یہ عبادت آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور تمام عبادتوں میں افضل ہے۔''
جو شخص خدائے متعال سے ڈرتا ہے، کبھی اس کا یہ خوف جہنم کی وجہ سے ہے، اس طرح کہ اگر عذاب جہنم اس سے اٹھا لیا جائے تو اسے اور کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے۔ لیکن یہ مرتبہ کفر و بے ایمانی کے مقابلہ میں بہت قیمتی ہے۔ خدا اور قیامت پر ایمان کا نتیجہ اس بات کا ایمان ہے کہ خدائے متعالیٰ قیامت کے دن گنہگار بندوں کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ جن کا عزم اسی مرحلہ تک ہے وہ پست ہے اور ان غلاموں کے مانند ہے کہ اپنے مالک کے ڈر سے کام کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خدا سے ڈرنا اس بنا پر ہے کہ انھیں خوف ہے کہ وہ بہشت کی نعمتوں سے محروم نہ جائیں۔ اگر کوئی عذاب بھی نہ ہو، تب بھی ڈرتے ہیں کہ خدا کی نعمتوں سے محروم نہ ہوں۔
ان دو گرو ہوں کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر بہشت و جہنم بھی نہ ہوتے تب بھی وہ خدا سے ڈرتے تاکہ اس کی بے لطفی اور بے توجہی سے دو چار نہ ہو جائیں۔ قرآن مجید کفار سے خدا وند متعال کی بے اعتنائی کو سب سے بڑے عذاب الہٰی کے طور پر ذکرکرتا ہے۔
(
وَ لَا یُکَلِّمُهُمُ ﷲ وَ لَا یَنظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ القِیٰامَةِ
)
(آل عمران ٧٧)
''نہ خدا ان سے بات کرے گا اور نہ روز قیامت ان کی طرف نظر کرے گا''
درک کرنے والے کے لئے بے اعتنائی ہر عذاب سے بدتر ہے۔ اگر انسان ایک مدت کے بعد اپنے دوست، باپ یا استاد کے پاس جائے اور ان کی طرف سے بے اعتنائی کا مظاہرہ ہو تو یہ اس کے لئے عذاب سے سخت ہے۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ائمہ ا ور معصومین علیہم السلام کیوں خدا سے ڈرتے تھے؟ وہ تو معصوم تھے اور بہشت، جہنم نیز امت کی شفاعت کا اختیار ان کے ہاتھ میں تھا، وہ کیوں خدا سے ڈرتے تھے اور یہ خوف مقام عصمت کے ساتھ کیسے سازگار ہے؟
اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ عصمت کے معنی گناہوں سے پرہیز اور حرام کام سے کنارہ کشی ہے ، اور اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ رضوان الہٰی بھی معصوم کے ہمراہ اور نصیب میں ہو۔ جو گناہ نہیں کرتا ہے وہ جہنم میں نہیں جائے گا لیکن کہاںسے یہ معلوم کہ خدا کی توجہ اور اس کی محبت بھی اس کے ساتھ ہے۔ عنایت اور رضو ان الہٰی کی محرومیت کا خوف عذاب الہٰی کے خوف سے بالا تر ہے۔
اس سوال کا حقیقی اور مفصل جواب ہماری سمجھ کی حد سے باہر ہے، کیونکہ ہم اہل بیت کی منزلت کو درک نہیں کرسکتے ہیںاس چیز کو نہیں سمجھ سکتے کہ ان کی روحانی کیفیت کیسی تھی، کیا کرتے تھے، اور ان کے حالات کیسے تھے۔ حقیقت میں ہم موجودہ شواہد اور اپنے حالات سے موازنہ کرتے ہیں، مختصر اور اپنے فہم کی حدتک ان کے حالات سے شمہ برابر درک کرتے ہیں لیکن حقیقت امر ہم پر غیر واضح اور ناقابل بیان ہے۔
متضاداور متفاوت حالات کا ایک ہی وقت میں محقق ہونا:
مذکورہ مطالب کے پیش نظر نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ جب انسان کی روح کامل ہو جائے تو وہ مختلف حالات جیسے لذت و الم ، خوشی و غم کا ایک ساتھ حامل ہوسکتا ہے۔ ہماری ظرفیت محدود ہے اور ہم اپنے کمال کے مراحل میں مختلف حالتوں کو اپنے اندر جمع نہیں کرسکتے ہیں۔ لہذا غم و سرور کا مجموعہ ہمارے اندر ایک متوسط اور درمیانی کیفیت کو پیدا کرتا ہے۔ لیکن جب انسان کمال کو پہنچتاہے تو وہ مختلف عوامل و اسباب کے تحت اپنے اندر دو یا چند حالتیں نیز مختلف و تضاد کیفیتیں کمال کی حد تک پید کر سکتا ہے
خوف و رجاء کی کیفیت، اپنے خاص عامل کے تحت انسان کے نفس میں پیدا ہوتی ہے اور اگر مجموعی عوامل کو ایک ساتھ مد نظر رکھا جائے' تو ان عوامل کے فعل وانفعالات(اثر پذیری) کے نتیجہ میں ممکن ہے ایک نئی حالت رونما ہو۔ لیکن اگر ہر عامل پر' اس جہت سے کہ ایک خاص حالت کا سر چشمہ ہے' نگاہ کی جائے' تو اس کا نتیجہ وہی خاص حالت ہوگی، مثال کے طور پر اگر خوف کے منشا پر توجہ کی جائے' تو خوف نفس میں پیدا ہوتا ہے اور اگر امن و سلامتی کے سر چشمہ پر توجہ کی جائے تو نفس کے لئے صرف امن و سلامتی کی حالت پیدا ہوتی ہے جن لوگوں کا نفس قوی اور مضبوط ہے نیز اپنے حالات اور جذبات پر قابو پا سکتے ہیں۔ وہ جب عذاب الہٰی یا رضوان الہٰی سے محروم ہونے کے امکان کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگتے ہیں اورعین اسی لمحہ میں جب وہ فضل خدا وندی اور مغفرت الہٰی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان میں سرور و شادمانی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یعنی ان کے لئے ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں خوف و امن کے عوامل کے پیش نظر ان دو حالتوں کو اپنے اندر پیدا کر سکیں۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے وجود مقدس کے بارے میں ایک ضعیف اور محدود معرفت حاصل ہو سکتی ہے اور ان کے اندر تضاد کیفیتوں کے حوالے سے ان کے فضائل پر ایک ہلکی سی روشنی ڈالی جا سکتی ہے وہ اپنے قوی نفوس کی وجہ سے ایک ہی لمحہ میں تمام اسماء صفات الہٰی کے مظہر ہو سکتے ہیں' وہ رحمت الہٰی پر توجہ رکھتے ہیں' ان میں سرور و شادمانی کی امید پیدا ہوتی ہے۔ دوسری طرف سے خدائے متعال کے سنگین عذاب و سزا پر توجہ رکھتے ہیں اور ان میں خوف ووحشت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ انسان کی جسمانی حالت مثلا اس کا بدن ظہور کے لحاظ سے ان دو حالتوں کو متجلی کرنے کی مکمل طور پر قدرت نہیں رکھتا ہے' لہذا ان دونوںحالتوں میں سے جو بھی دوسری حالت پر برتری رکھتی ہے وہ بیشتر تجلی و ظہور پیدا کرتی ہے۔ اگر خوف کو برتری حاصل ہے تو آنسو جاری ہوتے ہیں اور اگر خوشی و نشاط کی کیفیت کو فوقیت حاصل ہے تو مسکراہٹ کی صورت میں اس کا ظہور ہوتا ہے۔ البتہ ان حالات کو متجلی کرنا خود ان کے اختیار میں ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں کہ معصومین علیہ السلام عذاب الہٰی کی طرف اس لئے توجہ کرتے تھے تاکہ ان پر خوف طاری ہو جبکہ معصوم جانتے تھے کہ انہوں نے ہر گز گناہ نہیں کیا ہے اور نہ کبھی گناہ کریں گے' اس کے علاوہ خدائے متعال نے بہشت و جہنم کی ذمہ داری انہی کو سونپی ہے' تو وہ کس محرک کے تحت خوف کے عوامل کے بارے میں توجہ کرتے ہیں؟ہم نے اس سے پہلے اس کا ایک جواب دیا ہے اب ہم یہاں پر ایک دوسرا جواب پیش کرتے ہیں:
انسان میں موجودہ مجموعی توانائیاں اور حالات خدا کی بندگی کا مظہر ہونا چاہیے اور وہ اسی کی راہ میں صرف ہونا چاہیے۔ انسان کا وجودمختلف عناصر کا مجموعہ ہے اور وہ مادی و معنوی کیفیتوں سے مرکب ہے۔ اس کی طینت میں جہاں خوف و الم ہے' وہاں امن و سلامتی امید' سرور اور لذت بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ عناصر و قویٰ عطا کئے ہیں تاکہ وہ انہیں اس کی راہ میں صرف کرے یعنی خدا کیلئے ہنسے اور مسرور ہو یعنی اس کی خوشی کا کسی نہ کسی طرح خدا سے ربط ہونا چاہئے یعنی اس لئے شاد و مسرور ہو کہ خدا نے اس تفضل و احسان کیا ہے نہ اس لئے کہ وہ خود لذت محسوس کررہا ہے۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ شیعیان بہشت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت کے مہمان ہوں گے اور ان کے دستر خوان پر کھانا کھائیں گے۔ کیا جس لذت کا احساس معصومین بہشت کی نعمتوں سے کرتے ہیں وہ اس لذت کے مساوی ہے جو ہمیں ملے گی؟ آیہ مبارکہ میں آیا ہے:
(
وَلَحْمِ طَیْرٍ مِمَّا یَشْتَهُونَ
)
(واقعہ٢١)
(ان کے لئے) ان پرندوں کا گوشت (مہیا ہوگا) جس کی انہیں خواہش ہوگی۔
کیا جو لذت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہشتی پرندوں کے گوشت سے محسوس کرتے ہیں' ہماری لذت کے مساوی ہے؟
ان دو نوں لذتوں میں بے حد فرق ہے حتیٰ کہ لذتوں کی جہت میں بھی فرق ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جہت سے لذت محسوس کر تے ہیں کہ وہ مورد انعام الہٰی واقع ہوئے ہیں۔ بہر صورت احساسِ لذت کے مرتبہ کا انحصار انسان کے خدا کی نزدیک معرفت اور اس کی محبت کے معیار پر ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کے خوف اور دیگر لوگوں کے خوف کے بارے میں بھی یہی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ وہ جہنم کی آگ سے ڈرتے ہیں لیکن ان کا ڈر نااس جہت سے ہے کہ وہ اسے خدا کے غضب کی علامت جانتے ہیں۔ اسے یہ علامت جانتے ہیں کہ ان کا معشوق ان سے محبت نہیں کرتا ہے۔ خدا کا غضب اور اس سے مفارقت و دوری ان کیلئے ناقابل برداشت ہے' اسی لحاظ سے سخت پریشان و فکر مند ہوتے ہیں۔
____________________