چودھواں سبق
آخرت پسندی اور دین میں زہدوبصیرت کی ستائش اوردنیا طلبی کی مذمت
*دنیا طلبی کی مذمت اور ایمان کی بلندی کا ذکر
* آخرت درستی کی ضرورت
* خدائے متعال کی خیر خواہی اور دنیا میں دین و زہد کی آگاہی۔
آخرت پسندی اور دین میں زہد و بصیرت کی ستائش اور دنیا طلبی کی مذمت
''یَا اَبَاذَرٍ! اَلدُّنْیَا مَلعُونَة وَ مَلْعُون مَافِیهَا اِلّٰا مَا اُبتُغِیّ بِهِ وَجْهُ ﷲ وَ مَامِنْ شَیْئٍ اَبْغَضُ اِلیَ ﷲ تَعَالیٰ مِنَ الدُّنْیَا، خَلَقَهَا ثُمَّ عَرَضَهَا فَلَمْ یَنْظُرْ اِلَیْهَاوَلَا یَنْظُرْ اِلَیْهَا حَتّٰی تَقُومَ السَّاعَةُ وَ مَامِنْ شَیئٍ اَحَبُّ اِلیَ ﷲ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الِایمَانِ بِهِ وَ تَرْکِ مَا َمَرَ بِتَرْکِهِ
یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اَوحٰی اِلیٰ اَخِی عِیسٰی: یَا عِیسٰی لَا تُحِبِّ الدُّنیَا فَاِنِی لَسْتُ اُحِبَُّهَا وَأَحِبَّ الْآخِرَةَ فَاِنَّمَا هِیَ دَارُالْمَعَادِ.
یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ جَبرَئِیلَ َتَانِی بِخَزَائِنِ الدُّنْیٰا عَلٰی بَغْلَةٍ شَهْبَائَ فَقَالَ لِی یَا مُحَمَّدَُ هٰذِهِ خَزَائِنُ الدُّنْیَا وَلاَ یَنْقُصُکَ مِنْ حَظِّکَ عِنْدَ رَبِّکَ فَقُلْتُ حَبیبِی جَبْرَئِیلَ لاٰ حَاجَةَ لِی فِیهَا ِذَاشَبِعْتُ شَکَرْتُ رَبِّی وَاِذَا جُعْتُ سََلْتُهُ.
یَا اَبَاذَرٍ! اِذَا اَرَادَﷲ عَزَّوَجَّلَ بِعَبْدٍ خَیْراً فَقَّهَه فِی الدِّینِ وَ زَهَّدَهُ فِی الدُّنْیَا وَ بَصَّرَهُ بِعُیُوبِ نَفْسِهِ''
اس حدیث کے بعض حصے دنیا کی مذمت کے بارے میں ہیں کہ اس کا ایک حصہ بیان ہوا اور اب ہم اس کے دوسرے حصہ کو پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا کہ دنیا کی مذمت اس معنی میں نہیں ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں میں انجام دینے والے کاروبار اور تلاش و کوشش سے ہاتھ کھینچ لے اور مال و دولت کو حاصل کرنے کے پیچھے نہ جائے، بلکہ مذمت، دنیا کی زینتوں سے وابستگی اور انہیں مقصد قرار دینے کی ہے۔ حقیقت میں یہ نیت اور محرک ہے جو انسان کے عمل کو جہت بخشتا ہے اور اس بات کا باعث بنتا ہے کہ وہ عمل شائستہ و پاک محسوب ہو یا ناشائستہ وغیر طاہر۔
قرآن مجید کی آیات و روایات کے مطابق، انسان دنیا کے ہی راستہ سے آخرت تک پہنچتا ہے اور دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ پس انسان کو دنیا میں جستجو اور سعی و کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس کی سعی و کوشش اور دنیوی سرگرمیاں خدا کے لئے ہیں تو وہ سعادت تک پہنچتا ہے اور اگر اس کی سر گرمیاں دنیاوی فعالیت اس کی لذتوں کے لئے ہیں تو خواہ مخواہ معصیت و گناہ کی طرف کھینچتا جارہا ہے اور وہ آتش جہنم اور عذاب ابدی کا راستہ ہے۔
دنیا طلبی کی مذمت اور ایمان کی بلندی کا ذکر:
اولیائے الہٰی مومنوں کو دنیا پرستی اور اس کی لذتوں سے بچانے کے لئے ایک نرس کے مانند جو مختلف طریقے سے بیمار کو ان چیز وں سے منع کرتی ہے جو اس کے لئے مضر ہوتی ہیں مختلف بیانات سے کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کو مومن کی نظر میں قابل نفرت قرار دیں، من جملہ ان بیانات میں سے ایک بیان یہ ہے جس کی طرف یہاں پر اشارہ کرتے ہیں:
''یَا اَبَاذَرٍ! اَلدُّنْیَا مَلعُونَة وَ مَلْعُون مَافِیهَاالَّا مَا اُبتُغِیّ به وجه الله''
اے ابوذر! دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس پرلعنت ہو مگر یہ کہ ان کے وسیلہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کی جائے۔
حدیث کے مضمون سے واضح ہے کہ دنیا کی نعمتوں جیسے زمین، درخت اور آسمان پر لعنت نہیں کی گئی ہے، کیونکہ جو چیز خدا کی خوشنودی تک پہنچنے کا وسیلہ بن سکتی ہے، نہ صرف قابل لعنت نہیں ہے بلکہ وہ مطلوب و پسندیدہ بھی ہے، لہذا دنیا کو مقصد اور اصل قرار دینا قابل لعنت ہے۔ کیونکہ دنیا کی تخلیق اور اس کی نعمتوں کی تخلیق اس لئے کی گئی ہے کہ انسان خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے انھیں اپنا وسیلہ قراردے ۔ دنیا کو انسان کے اختیار میں قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کی مدد سے خدا تک پہنچے۔ اب اگر انسان نے دنیا کو خدا تک پہنچنے کے لئے اپنے لئے وسیلہ قرار دیا تو رحمت الہٰی ہمیشہ اس کے ہمراہ ہوگی۔ چونکہ وہ مقصد کو معین کر کے اسی راہ پر گامزن ہے۔ عقلمند انسان کبھی اپنے مقصد سے غافل نہیں رہتا ہے بلکہ ہمیشہ اپنے مقصدا ور اس راہ پر نظر رکھتا ہے جو اسے منزل تک پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ مقصد ہے خدا کی نظر رحمت انسان سے منھ پھیر لیتی ہے، کیونکہ اس صورت میں اس نے اپنے مقصد اور دنیا کی پیدائش کے مقصد سے منہ موڑا ہے اور اس نے سعادت کی راہ کے بجائے شقاوت و بدبختی کے راستہ کا انتخاب کیا ہے۔
اصحاب ائمہ علیہم السلام میں سے ایک شخص اپنے کارو بار کے وسیع ہو جانے کی وجہ سے ناراض تھا۔ امام اس سے ملے اور فرمایا: تم کیوں غمگین ہو؟ اس نے کہا: مولا، میری دولت بڑھ گئی ہے، دنیا کے جال میں پھنس گیا ہوں۔ فرمایا: تم کیوں مال دنیا کے پیچھے پڑے ہو؟ اس نے کہا: تاکہ میں اور میرے فرزند دوسروں کے محتاج نہ رہیں اور اپنے مومن بھائیوں کی مدد کرسکوں۔ حضرت نے فرمایا: یہ تو وہی آخرت طلبی ہے یہ دنیا طلبی نہیں ہے، پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ تم جب دنیوی لذتوں پر فریفتہ ہوجائو گے اور دنیا کو دنیا کے لئے چاہو گے، تو اس وقت فکر مند ہو نا۔
''مَامِنْ شَیْئٍ اَبْغَضُ اِلیَ ﷲ تَعَالیٰ مِنَ الدُّنْیَا خَلَقَهَا ثُمَّ عَرَضَهَا فَلَمْ یَنْظُرْ اِلَیْهَاوَلَا یَنْظُرُ اِلَیْهَا حَتّٰی تَقُومَ السَّاعَةُ''
خدا کے نزدیک دنیا کے برابر کوئی چیز قابل نفرت نہیں ہے۔ اس نے اسے پیدا کیا پھر اس سے منہ موڑلیا اوراس سے اپنی نظر رحمت کو ہٹا لیا اور قیامت تک اس کی طرف نظر نہیں کرے گا۔
اس کلام کے مضمون کو بزرگوں' خاص کر امام خمینی اپنی اخلاق کی کتابوں میں زیادہ بیان فرماتے تھے اور اس پر اصرار فرماتے تھے۔ (یہ ایک عجیب تعبیر ہے۔ اہل معرفت کیلئے یہی تعبیر کافی ہے کہ عمر بھر دنیا کی طرف رغبت نہ کریں)۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کو دوست رکھتا ہے۔ وہ اسماا ور صفات الہٰی کے آثار ہیں۔ اس لحاظ سے کہ دنیا اور اس کی نعمتیں اس کی صفات و اسماء کے مظہر ہیں' قیامت تک ان پر توجہ و عنایت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا پر اس جہت سے توجہ اور عنایت نہیں کرتا جکہ اسے مستقل اور اصالت کا درجہ دیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں محبت و عنایت الہٰی کا تعلق کس چیز سے ہے؟ اس نکتہ کے بیان میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں:
''وَ مَامِنْ شَیئٍ اَحَبُّ اِلیَ ﷲ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الِایمَانِ بِهِ وَ تَرْکِ مَا َمَرَ بِتَرْکِهِ''
''خدا کے نزدیک ایمان اور محرمات سے پرہیز کرنے کے برابر کوئی چیز محبوب تر نہیں ہے۔''
خدا کے نزدیک پہلے مرحلہ میں ایمان اور دوسرے مرحلہ پر تقویٰ نیز گناہ و محرمات کو ترک کرنا عزیز ترین شیٔ ہیں۔ اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ترک گناہ، واجبات کو انجام دینے سے مطلوب تر ہے۔ اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ انجام واجبات کاایمان کے مراتب میں ہے۔کیونکہ ایمان اعمال قلبی کو بھی شامل ہے اور اس اعمال ظاہری کو بھی جو اعضا و جوارح کے توسط سے انجام دیئے جاتے ہیں۔ اب جو کچھ دنیا میں ہے اگر وہ ایمان تک پہنچنے اور گناہ سے دوری کے سلسلہ میں وسیلہ بن جائے تو وہ خدا کے نزدیک محبوب ہے۔ لہذا خدائے متعال نے بہت سے دنیوی امور کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ انسان ان کے ذریعہ تقویٰ' نیک اعمال اور خدا کا تقرب حاصل کر سکتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نقل فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
''تِسْعَةُ اعْشٰارِ الْعِبَادَةِ فِی التِّجَارَةِ''
عبادت کے دس حصوں میں سے نو حصے تجارت اور کسب معاش سے مربوط ہیں۔
ایک دوسری روایت میں امام جعفر صادق ںفرماتے ہیں:
''مَامِنْ بنٰائٍ فِی الْاِسْلاٰمِ اَحَبُّ اِلَی ﷲ عَزَّوَجَلَّ وَ اَعَزُّمِنْ التَّزْوِیجِ''
اسلام میں ، خدا کے نزدیک ازدواج سے زیادہ عزیز ترین کوئی عمارت نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ امور دنیوی ہیں، لیکن چونکہ یہ خدا کی بندگی اور ترک گناہ کے لئے وسیلہ ہیں، اس لئے خدا کے نزدیک عزیز ہیں۔
آخرت درستی کی ضرورت:
''یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اَوحٰی اِلیٰ اَخِی عِیسیٰ: یَا عِیسٰیٰ لَا تُحِبِّ الدُّنیَا فَاِنِی لَسْتُ اُحِبَُّهَا وَاُحِبِّ الْآخِرَةَ فَاِنَّمَا هِیَ دَارُالْمَعَادِ''
اے ابوذر! خدائے متعال نے میرے بھائی عیسٰی پر وحی نازل فرمائی: اے عیسٰی دنیا کو دوست نہ رکھو کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتا ہوں، آخرت کو دوست رکھو کیونکہ وہ واپس لوٹنے کی جگہ ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عیسٰی کی زبانی نقل فرماتے ہیں کہ خدائے متعال نے انھیں وحی بھیجی کہ میں دنیا کو پسند نہیں کرتا ہوں تم بھی اسے دوست نہ رکھو۔ فطری بات ہے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
بھی دنیا کے دشمن ہیں، چونکہ معصومین کے لئے کسی چیز یا کسی شخص سے دوستی اور دشمنی کا معیار خدا کی دوستی و دشمنی ہے۔ فطری بات ہے کہ مومنین اور حق کے پیروی کرنے والوں کے لئے دنیا سے برتائو کرنے میں انبیاء اور معصومین علیہم السلام اور ان کی عملی سیرت نمونہ ہے۔
حضرت علی علیہ السلام، دنیا کی نسبت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نظریہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
''قَدْ حَقَّرَ الدُّنْیَا وَ صَغَّرَ هَا... فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهِ وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَاعَن نَفْسِهِ وَاَحَبَّ اَنْ تَغیبَ زِینَتُهَا عَن عَیْنِهِ لِکَیْلاَ یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشاً اَوْ یَرْجُو فِیهَا مُقَاماً
...''
''رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کو حقیر جانتے تھے اور اسے نا چیز کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ آپ نے دل سے دنیا کو ترک کیا تھا اور اس کی یاد کو اپنے نفس سے نکال باہر کیا تھا اور اس کی زینت کو دیکھنا پسند نہیں فرماتے تھے تاکہ اس کی زینت سے اپنے لباس آراستہ نہ کریں اور اس کی تمنانہ کریں۔''
یہ ایسی حالت میں تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے تمام مادی نعمتوں سے استفادہ کرنے کے امکانات موجود تھے، آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اپنے قول کے مطابق دنیا کے تمام خزانے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو پیش کئے گئے تھے، لیکن آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے انہیں قبول نہیں فرمایا تھا:
''یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ جَبرَئِیلَ َتَانِی بِخَزَائِنِ الدُّنْیٰا عَلٰی بَغْلَةٍ شَهْبَائَ فَقَالَ لِی یَا مُحَمَّدَُ هٰذِهِ خَزَائِنُ الدُّنْیَا وَلاَ یَنْقُصُکَ مِنْ حَظِّکَ عِنْدَ رَبِّکَ
''
''اے ابوذر! جبرئیل امین عام دنیا کے خزانوں کو ایک سیاہ و سفید رنگ کے خچر پر رکھ کر میرے پاس لائے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ دنیا کے خزانے ہیں اور ان کو خرچ کرنا آپ کے نصیب میں ہے، اس سے خدا کے نزدیک کو ئی کمی واقع نہیں ہوگی۔
یہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :جبرئیل ایک سیاہ سفید رنگ کے گھوڑے پر سوار دنیا کے خزانے لے کر میرے پاس آئے، شاید اس کا کہنا یہ ہوگا کہ دنیا لذت و رنج اور خیر و شرکا سنگم ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا شخص پایا نہیں جاسکتا جس نے کہ زندگی میں صرف رنج و پریشانی دیکھی ہو اور کسی طرح کی لذت و خوشی کا سامنا نہ کیا ہوااس کے برعکس ایسا بھی کوئی نہیں ہے کہ جس نے زندگی میں صرف لذت ہی لذت دیکھی ہو اور کسی بھی رنج و مصیبت سے دو چار نہ ہوا ہو۔ حقیقت میں ہر رنج و غم کے ساتھ ایک لذت و خوشی ہے اور ہر لذت و خوشی کے ساتھ ایک رنج و الم ہے اور یہ دونوں انسان کے لئے امتحان کا وسیلہ ہیں:
(...(
وَنَبْلُوْ کُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتنَهً
)
(انبیائ ٣٥)
''ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے۔
اور ایک نکتہ یہ ہے کہ جبرئیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے ہیں: اگر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
دنیا کے تمام خزانوں سے استفادہ کریں گے تو آپ کے آخرت سے استفادہ کرنے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ مادی لذتوں کی آفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس قدر ان سے استفادہ کیا جائے گا احتمال ہے اخروی فائدوں سے محروم ہو جائے۔ لیکن اولیائے الہٰی اور انبیاء اس طرح نہیں ہیں، اس لحاظ سے جبرئیل کہتے ہیں:
تمام دنیوی خزانوں سے استفادہ کرنے سے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اخروی حصہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے جبرئیل کے جواب میں فرمایا:
''حبیبی جبرئیل لا حاجة لی فیها اذاشبعت شکرت ربی واذاجعت سالته''
میرے دوست جبرئیل مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جب بھی میں سیر ہوں گا اس کا شکر کروں گا۔ اگر مجھے بھوک لگے گی تو اس سے مانگ لوں گا۔
مومن کے لئے بہترین حاجت یہ ہے کہ ایک طرف سے خدا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے اور ان کے لئے خدا کا شکر بجالائے اور دوسری طرف سے خدا کی نسبت احساس فقرو محتاجی کرے اور ہمیشہ اس کی طرف ہاتھ پھیلائے۔ کیونکہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ جس کے دو پہلو ہیں ، اسے چاہئے کہ خد اکی نعمتوں سے استفادہ کرے اور اس کا شکر بجالائے۔ بس اس کی نعمتوں سے استفادہ اور اس کا شکربجا لانا اس کی سعادت کا سبب ہے۔ اور دوسری طرف سے ہمیشہ احساس فقر و محتاجی کرے تاکہ مغرور اور غافل نہ ہو اور خود کو دوسروں سے برتر تصور نہ کرے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: اگر دنیا کی ساری دولت میرے اختیار میں ہو جب بھی مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ مجھے ہمیشہ خدا پر نظر رکھنی چاہیے اور اس سے نعمت مانگوں اور اس کی نعمت کا شکر بجالائوں۔
خداوند عالم کی خیر خواہی اور دنیا میں دین و زہد کی آگاہی:
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
'یَا اَبَاذَرٍ! اِذَا اَرَادَﷲ عَزَّوَجَّلَ بِعَبْدٍ خَیْراً فَقَّهَه فِی الدِّینِ وَ زَهَّدَهُ فِی الدُّنْیَا وَ بَصَّرَهُ بِعُیُوبِ نَفْسِهِ.''
اے ابوذر! جب خدائے متعال کسی بندہ کے لئے خیر چاہتا ہے اسے دین میں فقیہ اور دانا بنا دیتا ہے اور دنیا میں زاہد قرار دیتا ہے اور اسے اپنے عیوب کی طرف دیکھنے کی بینائی و بصیرت عطا کرتا ہے ۔
جب خدائے متعال کسی بندے کو خیر پہنچانا چاہتا ہے تو اسے تین چیزیں عطا کرتا ہے:
١۔ دین کی معرفت
٢۔دنیا میں زہد اور دنیوی لذتوں سے بے رغبتی
٣۔ اپنے عیوب کے بارے میں آگا ہی
(مذکورہ تین خصوصیتوں کے مقابلہ میں ، انسان کے لئے بدترین چیز دین کے بارے میں جہل، دنیا پرستی، اپنے آپ سے راضی ہونا اور دوسروں کی عیب جوئی کرنا ہے)
گزشتہ مطالب اور آنے والے مطالب کے پیش نظر قابل تو جہ جملہ ''وزھّدہ فی الدّنیا'' ہے۔ کیونکہ بحث دنیا کی اہمیت و منزلت کے بارے میں ہے پس اگر کوئی شخص اپنے دل میں یہ احساس کرتا ہے کہ اسے دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے اور اس سے صرف اپنی ضرورتوں کو پورے کرنے کی حدتک استفادہ کرتا ہے اور فقط فرائض کے انجام دینے کے لئے دنیوی امور کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے خدائے متعال اس کی خیر چاہتا ہے۔ البتہ ایک معنی میں خدائے متعال سبھی کے لئے خیر چاہتا ہے لیکن وہ اپنے تشریعی ارادے کی بنیاد پر سبھی کے لئے بعض و ظائف معین کئے ہیں اور انہیں محرمات سے روکا ہے۔ اب اگر انتخاب کرنے والا انسان صحیح انتخاب کرے اگر چہ صحیح راستہ کو انتخاب کرنے کے مقدمات خدائے متعال کی توفیق سے حاصل ہوتے ہیںاگر یہ طیہو جائے کہ بندگی کے راستہ کو اختیار کرے گا اور ایسی چیز کو پسند کرے گا کہ جسے خدا پسند کرتا ہے اور خدا کے دوستوں کے ساتھ دوست اور خدا کی راہ میں قدم بڑھائے گا تو خدا کا خاص تکوینی ارادہ اس سے متعلق ہو جاتا ہے کہ وہ اسے کامیابی اور سر بلندی سے سرفراز کرے:
(
وَمَنْ اَرَادَ الْآخِرَة َوَسَعیٰ لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَ مُؤْمِن فَاُولٰئِکَ کَانَ سَعْیَهُمْ مَشْکُوراً
)
(اسرائ۔ ١٩)
''اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور اس کے لئے ویسی ہی سعی بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تو اس کی سعی یقینا مقبول قرار دی جائے گی۔''
اس کے مقابلہ میں خدائے متعال کسی سے دشمنی نہیں رکھتا ہے اور بلا وجہ کسی کو جہنم میں نہیں ڈالتا ہے۔ پس اگر کسی نے اپنے غلط انتخاب کی بناپر کفر و عصیان کا راستہ اختیار کیا تو پرور دگار عالم ارادہ تکوینی کے ذریعہ اسے ذلیل و رسوا کرتا ہے اور اسے خیر کی توفیق نہیں ہوتی ہے:
(
مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِیهَا مَا نَشَائُ لِمَنْ نُرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ یَصْلٰهٰا مَذْمُوماً مَدْحُوراً
)
(اسرائ۔ ١٨)
جو شخص بھی دنیا کا طلب گا رہے ہم اس کے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا۔
پس خدائے متعال جس کی خیر چاہتا ہے اسے تین چیزوں میں کامیاب قرار دیتا ہے:
اسے علم حاصل کرنے کی توفیق بخشتا ہے اس کے بر عکس اگر خدا کسی کے لئے خیر نہیں چاہتا تو اسے علم حاصل کرنے سے محروم کردیتا ہے، چنانچہ روایت میں آیا ہے:
''اِذَا اَرْذَلَ ﷲ عَبْداً حَظَّرَ عَلَیْهِ الْعِلمَ''
اگر خدا وند متعال اپنے کسی بندے کو اپنے سے دور کرتا ہے تو اسے علم حاصل کرنے سے محروم کردیتا ہے۔
ہم خدا کا شکر بجالا تے ہیں کہ اس نے اپنے بے شمار بندوں میں سے ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے۔ ہمیں اس بڑے افتخار کی قدر کرنی چاہیے جو ہمارے نصیب میں ہے، کیونکہ اسی بڑی الہٰی توفیق کے نتیجہ میں ہمارے لئے کمال تک پہنچنے کی راہ ہموار ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے:
''اَلْکَمَالُ کُلُّ الْکَمَالِ' اَلتَّفَقُهُ فِی الدِّینِ وَتَقْدِیرِالْمَعیشَةِ وَالصَّبْرُ عَلٰی النَّائِبَةِ''
تمام کمالات تین چیزوں میں خلاصہ ہوتے ہیں:
١۔ دین میں تفقہ
٢۔ امور زندگی کی منظم منصوبہ بندی
٣۔ مشکلات پر صبر
دوسری توفیق الہٰی: دنیا کی نسبت سے بے رغبت ہونا ہے انسان کو چاہئے کہ اس کا دل دنیا کی زرق وبرق چیزوں پر فریفتہ نہ ہو افسوس کہ ہم میں بہت سے لوگوں میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی بلکہ ہم تقریباً دنیا کی لذتوں سے وابستگی رکھتے ہیں۔ اگر انسان مناسب اور اپنی شان کے مطابق زندگی بسر کرنے کے باوجود، بہتر گاڑی، بہتر سواری اور بہتر لباس کی تلاش میں سر گرداں ہے تو وہ دنیا طلبی کے پیچھے پڑا ہے اوروہ بہشت کی نعمتوں سے محروم ہوگا، جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:
(
تِلْکَ الدَّارُالآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِینَ لاَ یُرِیدُونَ عُلُوّاًفِی الْاَرْضِ وَلاَ فَسَاداً
)
....) (قصص/ ٨٣)
یہ دار آخرت وہ ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں۔
اس آیت کے ذیل میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ حتی اگر انسان اپنے جوتے کے تسمہ کو بدل کر بہتر تسمہ کی فکر میں ہو تو یہ زیادہ خواہی اور برتر طلبی کا نمونہ ہے
۔ پس، انسان کو کوشش کرنا چاہیے کہ اس حد تک بھی دنیا کے پیچھے نہ پڑے۔ اس کا دل خدا اور آخرت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے نہ جوتے کے تسمہ، گھر اور سواری کی فکر میں ، کیونکہ دل نو رِخدا کے نازل ہونے کی جگہ ہے:
''قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ''
مومن کا دل خدا کی جگہ ہے۔
جس قدر انسان کادل خدائے متعال سے منحرف ہوگا اورامور دنیا میں مشغول ہوگا اسی قدر وہ معنوی اور اخروی معاملات سے محروم ر ہے گا۔
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں دنیا کی نسبت انبیاء کے نقطہ نظر کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کرناتمھارے لئے کافی ہے اور دنیا کی مذمت اور اسے عیب جاننے کے لئے اس کی بیشمار رسوائیاں اور برائیاں تمھارے لئے دلیل اور رہنما ہے۔ کیونکہ دنیا کی وابستگی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لے لی گئی تھی اور دوسروں کااس کی طرف مائل ہونافراہم کیا گیا اس کی لذتوں سے استفادہ کرنے سے پرہیز کیا اور اس کی سجاوٹوں سے اجتناب کیا۔ اگر کسی دوسرے پیغمبر کی اطاعت کرنا چاہتے ہو تو موسیٰ کلیم اللہ کی پیروی کرو کہ جو فرماتے تھے: ''پرور دگارا! مجھے جو خیر و نیکی تونے عنایت کی ہے میں اس کا محتاج ہوں''
خداکی !قسم موسیٰ نے خدا سے کھانے کیلئے روٹی کے علاوہ کچھ نہیں مانگاتھا۔ کیونکہ وہ زمین کی گھاس کھاتے تھے۔ اور دبلا پتلا ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ کی کھال اتنی نازک ہوگئی تھی کہ پیٹ میں موجودہ سبز گھاس دکھائی دیتی تھی۔ اگر تیسرے پیغمبر کی پیروی کرنا چاہتے ہو تو داؤد پیغمبر کی پیروی کرو جو صاحب ''مزامیروزبور'' تھے۔ وہ بہشت کے نغمہ خوان ہوں گے۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کے پتوں کی زنبیل بناتے تھے اور اپنے دوستوں سے کہتے تھے: ''تم میں سے کون ان کو فروخت کرنے میں میری مدد کرے گا؟ اور وہ اس کی قیمت سے اپنے لئے جو کی ایک روٹی تیار کرتے تھے۔
عیسٰی کو بتاؤ جو سوتے وقت تکیہ کے بجائے اپنے سرہانے پتھر رکھتے تھے اور کھدر کپڑے پہنتے تھے اور سخت غذا کھاتے تھے۔ رات میں ان کا چراغ چاند ہوتا تھا۔ سردیوں میں ان کا مکان وہ جگہ ہوتی تھی۔ جہاں سورج چمکتا تھا یا وہ جگہ دھنس جاتی تھی (ان کا گھر نہیں تھا) ان کا میوہ اور خوشبو دار سبزی وہ گھاس تھی جو مویشیوں کیلئے زمین پر اگتی ہے۔ نہ ان کی بیوی تھی جو اسے فتنہ و تباہی کی طرف کھینچتی اور نہ ان کا کوئی فرزند تھا جو انھیں غمگین کرتا نہ ان کے پاس پراپرٹی اور دولت تھی جو انھیں خدا کی یاد سے روکتی اور نہ کوئی طمع و لالچ تھی جو انھیں خوار کرتی۔ خداند متعال اپنے اولیا سے دشمنی رکھتا ہے کہ انہیں دنیا کی لذتوں سے محروم کرے؟ یا یہ کہ دنیا کی سختی اور مشکلات ان کے تکامل وترقی کا وسیلہ اور خدا کی محبت کی علامت ہے۔ اس نکتہ کی تاکید کرنا ضروری ہے کہ ان بیانات سے ایسا تصور نہیں کرنا چاہیے ہم بیکاری اور بے عملی کا مظاہرہ کریں اور گوشہ نشینی اختیار کر کے فرائض سے ہاتھ کھینچ لیں اور کسب حلال کیلئے کوشش نہ کریں یا اسلام و مسلمین کے تحفظ کیلئے کوشش نہ کریں! دراصل بات یہ ہے کہ دنیوی امور کا فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمام دنیا کے خزانے اور دولت بھی کسی کے اختیار میں دے دی جائے اور وہ تمام لذتوں سے استفادہ کرے لیکن اس پر فریفتہ نہ ہو تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ جیسے سلیمان بن داؤد کہ اتنی دولت' عظیم سلطنت مقام نبوت و ولایت کے ہوتے ہوئے بھی انھیں کوئی نقصان نہ پہنچاکیونکہ وہ دنیا کے فریفتہ نہیں ہوئے تھے۔ خود جو کی روٹی کھاتے تھے اور دولت و قدرت کو دین خدا کو عزت بخشنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔ اگر ملکہ سبا سے جنگ کی یا' جنگ کی دھمکی دی تو' وہ صرف حکومت الہٰی کی وسعت کیلئے تھی اور اس لئے تھی کہ زمین سے شرک کا خاتمہ ہو جائے نہ اس لئے کہ خود دنیا کی لذتوں سے استفادہ کریں۔
معصومین علیہم السلام کی زاہدانہ زندگی کے بارے میں نقل کی گئی تمام روایتوں سے اس طرح کا شک و شبہ بر طرف ہو جاتا ہے کہ وہ دنیا میں سختی سے زندگی بسر کرتے تھے اور دنیا میں عیش و آرام کے خواہاں نہیں نہیں تھے۔ ان کا طریقۂ کار یہ تھا کہ لوگوں کو دنیا پرستی سے روکتے تھے' جس طرح ائمہ اطہارصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اصل وجود میں کوئی شک نہیں ہے' اسی طرح ان کی زندگی کے شیوہ میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ ان کی واضح خصوصیات میں خدا کی عبادت سحر خیزی' مناجات' دعا اور گڑ گڑانا تھا۔ دوست و دشمن اور شیعہ و سنی اس کااعتراف کرتے ہیں اور اس بارے میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔
ان کی تربیت کی روش لوگوں کو دنیا پرستی سے روکنا اور مادی لذتوں سے وابستگی کے بارے میں ان کی طبیعت میں نفرت پیدا کرنی تھی۔ اس کے باوجود دوسروں کو مسلسل کام' فعالیت اور کسب حلال کی تلقین کرتے تھے تاکہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔ حقیقت میں یہ دنیا اور خدا کی مرضی کو جمع کرنے کے معنی میں ہے'
جو عام لوگوں کیلئے ممکن نہیں ہے۔
جو روایتیں دنیا کی مذمت یا کسب معاش کی ستائش میں نقل کی گئی ہیں۔ ان کے بارے میں صدر اسلام سے ہی غلط مطالب نکالے جاتے رہے ہیں، جب دنیا کی مذمت کی جاتی تھی تو وہ تصور کرتے تھے کہ دنیا سے استفادہ نہیں کرنا چاہیے اور غاروں میں زندگی بسر کرنی چاہیے اور درختوں کے پتوں سے لباس بنایا جانا چاہیے: دوسری طرف سے جب دیکھتے تھے بعض روایتوں میں تلاش معاش کی ستائش ہوئی ہے' تو خیال کرتے تھے کہ تمام چیزوں کو پیٹ کیلئے قربان کرنا چاہیے!
مکتب اہل بیت کے تربیت یافتہ بخوبی جانتے ہیں کہ تلاش معاش اور دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرنے اور آخرت طلبی کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے لیکن دنیا کی محبت اور آخرت کی محبت میں منافات ہے اور ان دوکا جمع ہونا ممکن نہیں ہے۔ ممکن نہیں ہے انسان خدا سے بھی محبت رکھے اور اس چیز سے بھی جس پر اس نے غضب کیا ہے۔ جو دنیا آخرت تک پہنچنے کا وسیلہ اور کسب معاش خدا کی مرضی کے مطابق ہو ممنوع اور مبغوض نہیں ہے۔
دنیا سے محبت اور اس سے دوری کا اندازہ لگانے کیلئے انسان کا ظاہری عمل معیار نہیں ہے بلکہ اس کا معیار انسان کی نیت اور اندرونی محرک ہے۔ لیکن بعض اوقات نیت عمل میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا سے اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن عملاً دنیا کیلئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور حرام سے بھی پرہیز نہیں کرتا ہے۔ بے شک ایسے شخص کی نیت دنیا پرستی ہے۔ لہذا کام دعویٰ سے حل نہیں ہوتا'اصل میں نیت اور دل پر نظر ڈالنی چاہیے۔ کچھ ایسے درویش اور صوفی بھی پائے جاتے ہیں جو دنیا سے بے اعتنائی اور بے رغبیی کیلئے زبان پر اشعار جاری کرتے ہیں لیکن عملاً ایک پیسہ بھی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
____________________