پندرہواں سبق:
حکمت' بصیرت اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی عملی سیرت کی ایک جھلک
*حکمت و بصیرت زہد کا عطیہ
*زاہد ترین لوگوں کی نشانیاں
*طولانی آرزو اور فرائض سے غفلت' تقویٰ و توکل کے ضعیف
ہونے کی علامت ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عملی سیرت کی ایک جھلک
حکمت، بصیرت اور پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی عملی سیرت کی ایک جھلک
''یَا َبَاذَرٍ! مَازَهَدَ عَبْد فِی الدُّنْیَا اِلاَّ اَثْبَتَ ﷲ الْحِکْمَةَ فی قَلْبِهِ وَ اَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ یُبَصِّرُهُ عَیُوبَ الدَُّنْیَا وَ دَائَهَا وَ دَوَائَهَا وَ َخْرَجَهُ مِنْهَا سٰالِماً ِلٰی دٰارِ السَّلامِ.
یَا َبَاذَرٍ!اِذَا رََیْتَ اَخٰاکَ قَدْ زَهَدَ فِی الدُّنْیَا فَاسْتَمِعْ مِنْهُ فَاِنَّهُ یُلقَّی الْحِکْمَةَ' فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ ﷲ مَنْ اَزْهَدُ النَّاسِ؟ قَالَ: مَنْ لَمْ یَنْسَ الْمَقَابِرَ وَالْبَلٰی وَ تَرَکَ فَضْلَ زِیْنَةِ الدُّنْیَا وَ اٰثَرَ مٰایَبْقٰی عَلٰی مٰا یَفْنٰی وَلَمْ یَعُدَّ غَداً مِنْ اَیّٰامِهِ وَعَدَّ نَفْسَهُ فی الْمَوْتٰی
یَا اَبَاذَرٍ!اِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ لَمْ یُوحِ اِلَیَّ اَنْ اَجْمَعَ الْمَالَ وَلٰکِنْ اَوْحٰی اِلَیَّ اَنْ سَبَّحَ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنَّ السَّاجِدِینَ و اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَا تِیَکَ الْیَقِینُ
یَا اَبَاذَرٍ!اِنِّی اَلْبِسُ الغَلیظَ وََجْلِسُ عَلَی الْاَرْضِ وَاَلْعَقُ َصَابِعِی وَاَرْکَبُ الْحِمَارَ بِغَیرِ سَرْجٍ وََرْدِفُ خَلْفی فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتی فَلَیْسَ مِنِّی''
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم' دنیا کے عیوب اور دنیا پرستی کے بارے میں مختلف طریقوں سے تذکّر دیتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی نصیحت کو گوش گزار فرماتے ہیں۔ یہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف طریقوں سے تربیتی مطالب کو ایک خاص پس منظر میں پیش کیا ہے تاکہ ہر کوئی اپنے فہم و استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کرے' ایک معجزانہ کام ہے۔ مطالب اس قدر گوناگوں اور مختلف تربیتی و اخلاقی سانچوں میں بیان ہوئے ہیں کہ ہر ایک فرد ان سے اپنے خاص ذوق کے مطابق استفادہ کرتا ہے اور اس کی روح پر اثر ڈالنے والے مناسب ترین تربیتی زادراہ کا انتخاب کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک شیوہ' زہد کی ستائش اور اس کی تشویش اور اس کے قابل قدر آثار کا ذکر ہے جو دنیا کی بے رغبتی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
حکمت و بصیرت زہد کا عطیہ:
''یَا َبَاذَرٍ! مَازَهَدَ عَبْد فِی الدُّنْیَا اِلاَّ اَثْبَتَ ﷲ الْحِکْمَةَ فی قَلْبِهِ وَ اَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ یُبَصِّرُهُ عَیُوبَ الدُّنْیَا وَ دَائَهَا وَ دَوَائَهَا وَ َخْرَجَهُ مِنْهَا سٰالِماً ِلٰی دٰارِ السَّلامِ''
''اے ابو ذر! ایک بندہ نے دنیا میں زہدکو اختیار نہیںکیا'مگر یہ کہ خدائے متعال نے اس کے دل میں حکمت ڈال دی اور اسے زبان پر جاری کیا اور اسے دنیا کی برائیوں نیز اس کے امراض وعلاج سے اسے آشنا و مطلع کیا اور اسے صحیح و سالم بہشت کی طرف اسے لے گیا۔''
حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاکید اس امر پر ہے کہ زہد اور دنیا کی نسبت بے رغبتی انسان کے دل کو حکمت قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور اس کے بعد وہ حقائق کو سمجھتاہے' کیونکہ ''حب الشیء یُعْمی ویصم'' دنیا کی محبت انسان کیلئے غفلت کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں جو لوگ دنیا کی طرف رجحان نہیں رکھتے ہیں وہ حقائق کو درک کرتے ہیں' کیونکہ وہ دنیا پر کامل تسلط رکھتے ہیں اور اس کا آخرت کے ساتھ موازنہ کر کے بہترکا انتخاب کرتے ہیں۔
زہد' بے رغبت ہونے کے معنی میں ہے' چنانچہ یوسف کے بھائیوں کے بارے میں آیا ہے:
(
وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَکَانُوافیهِ مِنَ الزَّاهِدِینَ
)
(یوسف٢٠)
''اور ان لوگوں نے یوسف کو معمولی قیمت پر بیچ ڈالا چند درہم کے عوض اور وہ لوگ تو ان سے بیزار تھے ہی۔''
دنیا میں زہد' یعنی انسان کو چاہئے کہ دنیا سے رغبت نہ رکھے ۔ اب اگر اس کے پاس مال و دولت ہے اور اس کے ہاتھ میں کچھ امکانات ہیں' تواسے اس فکر میں ہونا چاہئے کہ انہیں کس طرح خدا کی مرضی کی راہ میں خرچ کرے اور مال و دولت کو ذخیرہ کرنے سے الفت نہ رکھے۔ (حضرت سلیمان نبی ایسے ہی صفات کے حامل تھے کہ اس عظیم سلطنت اور فراوان ثروت کے مالک ہونے کے باوجود حضرت سلیمان جو کی روٹی پر قناعت کرتے تھے۔)
جملہ''اثبت اللّٰه الحکمة فی قلبه''
کی وضاحت کے سلسلہ میں چند نکات کی یادد ہانی کرانا ضروری ہے:
١۔دنیا سے بیزاری اور معارف الٰہی کو درک کرنے کے درمیان ایک عمیق رابطہ ہے یعنی' ایک ایسے انسان کا پایا جانا محال ہے جو دنیا سے قلبی رابطہ رکھنے کے باوجود اس کی روح معارف الہٰی سے سرشار ہو۔
٢۔ حکمت، جو دنیا سے بیزاری کا تحفہ ہے۔ انسان کی معرفت و آگہی کو استحکام بخشتی ہے اور اعتقاد میں تزلزل اور بے ثباتی کو روکتی ہے۔ ممکن ہے ایک انسان معرفت کے مرحلے سے آگاہ ہو اور کسی حقیقت کو درک کرے لیکن اس کی معرفت متزلزل اور بے ثبات ہو' چونکہ اس میں یقین کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی ہے تاکہ وہ معرفت اس کے دل میں مستحکم اور استوار ہو سکے۔
عقائد کے مرحلہ میں ' اصل عقیدہ کے علاوہ معارف کا استحکام و ثبات بھی خاص اہمیت کا حامل ہے اور اس لئے عارضی اور وقتی ایمان نہ صرف اہمیت نہیں رکھتا بلکہ منفی اثرات کا بھی حامل ہوتا ہے' جس کی سر زنش قرآن مجید میں جگہ جگہ پر بیان ہوئی ہے۔
(
فَاِذَارَکِبُوافِی الْفُلْکِ دَعَوُا ﷲ مُخْلِصینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَاهُمْ یُشْرِکُونَ
)
(عنکبوت٦٥)
''پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔''
٣۔ جب حکمت مستحکم ہوتی ہے تو دل میں محدود ہوکر نہیں رہتی بلکہ اس کے آثار زبان' کے ساتھ ساتھ عمل اور رفتار میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ جس کے دل میں حکمت مستحکم ہوجاتی ہے' اس کا بیان حکیمانہ ہوتاہے اور جس گوہر کا سرچشمہ دل میں ہو وہ زبان پر جاری ہوتا ہے ،بیہودہ و لغو گفتگو سے پرہیز کرتے ہوئے لقمان کے مانند ایسا عالمانہ موعظہ کرتا ہے کہ اس کا بیان قابل ستائش ہوتا ہے۔
جی ہاں' زبان انسان کے دل کی گزرگاہ ہے اور دوسرے الفاظ میں انسان کے دل کے تأثرات اس کی زبان سے ظاہر ہوتے ہیں' اس لئے کہ صراحی اور کوزے سے وہی رستا ہے جو اس میں ہوتا ہے البتہ یہ ترشح نہ صرف زبان سے بلکہ انسان کی تمام رفتار سے ظاہر ہوتا ہے۔
دنیا سے بیزاری کا دوسرا اثر یہ ہے کہ وہ دنیا کے عیوب کو انسان کے لئے آشکار کرتا ہے۔ یعنی انسان' اسی صورت میں دنیا کے نقائص اور پست ہونے کا مشاہدہ کر سکتا ہے جب خود کو اس سے علیحدہ رکھے اور کسی جہت سے اس سے وابستہ نہ ہو ورنہ دنیا پر ستوں سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے محبوب اور معشوق (دنیا) کے عیوب کو ظاہر کریں گے' کیونکہ دنیا پرستی انسان کو اس کے نکالنے کے سلسلہ میں اندھا اور اس کے نقائص سننے کے سلسلہ میں بہرا بنا دیتی ہے' اس کے برعکس وہ دنیا کی برائیوں کو حسین دیکھتا ہے اور اپنی ناپسندیدہ رفتارکو۔ جو دنیا کی طرف اس کے افراطی رجحانات کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں ان کو اچھا جلوہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ معنی مختلف تعبیرات سے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں' جیسے:
(
زَیَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ
)
(نمل٤)
ہم نے ان کے اعمال کو ان کیلئے آراستہ کیا ہے۔
(
بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفَسَکُمْ اَمْراً
)
(یوسف١٨)
بلکہ اس کے نفس نے ان کی نظروں میں اس برے عمل کو حسین بنا دیا ہے۔
''وزین لهم الشیطان اعمالهما''
''ان کے برے اعمال کو ان کی نگاہوں میں اچھے روپ میں پیش کیا ''
یہ مختلف تعبیریں اس حقیقت کی حکایت کرتی ہیں کہ دنیا کی طرفمیلان اور دلچسپی انسان کے لئے دنیا اور دنیوی رفتارکو جلوہ دینے کا باعث ہے جس قدر یہ محبت زیادہ ہو گی' دنیا اور اس کے نقائص انسان کو حسین و خوبصورت نظر آئیں گے کیونکہ عاشق اپنے معشوق کی برائیاں اور نقائص نہیں دیکھتا ہے۔ یقیناً ایسا شخص دنیا کی ظاہری دل فریب خوبصورتی دیکھتا ہے اور اس کے باطن کو درک کرنے اور اس کا پس منظر دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے:
(
یَعْلَمُونَ ظَاهِراً مِنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَهُمْ عَنِ الْاَخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ
)
(روم ٧)
''یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں۔''
اس کے مقابلہ میں حقیقت پسند اور دنیا سے بیزار انسان، دنیا کی خوبیوں اور برائیوں دونوںپر نگاہ رکھتے ہیں۔ یہ گروہ پہلے گروہ کے برخلاف زہریلے سانپ کے حسین اورخوبصورت ملائم کھل کو بھی دیکھتا ہے اور اس سانپ کے زہر قاتل کو بھی دیکھتا ہے:
''مَثَلُ الدَُّنْیَا کَمَثَلِ الْحَیَّةِ لَیِّن مَسُّهَا وَالسُّمُّ النَّاقِعُ فِی جَوفِهَا یَهْویَ اِلَیْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ وَ یَحْذَرُهَا ذُواللُّبِّ الْعَاقِلُ''
دنیا کی داستان' ایک سانپ کی داستان کے مانند ہے۔ اگر اس پر ہاتھ پھیر ا جائے تو نرم ہے' لیکن اس کے اندر زہر قاتل ہے۔ فریب خوردہ بیوقوف اس کی طرف بڑھتا ہے' لیکن عاقل اور دوراندیش شخص اس سے دوری اختیار کرتا ہے۔
یقیناً مردان خدا کی بصیرت اوردور رس نگاہیں ظاہری چمک دمک کے فریب میں آنے سے انہیں بچاتی ہیں اور ان کا مادی افق کے پس منظر پرگہری نظر رکھنا ظاہر بین افراد کے ساتھ ان کے بنیادی فرق کا مظہر ہے' حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
''اِنَّ اَولِیَائَ ﷲ هُمُ الَّذِینَ نَظَرُ وا اِلیٰ بَاطِنِ الدُّنْیَا اِذَا نَظَرَ النَّاسُ اِلٰی ظَاهِرِهَا وَاشْتَغَلُوا بِاٰجِلِهَا فَمٰاتُوا مِنْهَا مٰا خَشُوا َنْ یُمیتَهُمْ وَتَرَکُوا مِنْهَا مَاعَلِمُوا َنَّهُ سَیَتْرُکَهُمْ''
اولیا ء خدا وہ لوگ ہیں جو دنیا کی حقیقت پر نگاہ رکھتے ہیں جب لوگ صرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیںتو یہ آخرت کے امور میں مشغول رہتے ہیں، جب لوگ دنیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں تویہ آخرت کے بارے سوچتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات کو مردہ بنا دیتے ہیں جن سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ انھیں مار ڈالیں گے اور اس دولت کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ ایک دن ان کا ساتھ چھوڑ دے گی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
''یَا َبَاذَرٍ!اِذَا رََیْتَ اَخٰاکَ قَدْ زَهَدَ فِی الدُّنْیَا فَاسْتَمِعْ مِنْهُ فَاِنَّهُ یُلْقَّی الْحِکْمَةَ'
اے ابو ذر!اگر تم اپنے بھائی کو دنیا میں زہد کی حالت میں دیکھو تو اس کی باتوں پر کان دھرو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے۔
یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گزشتہ بیان کے ضمن میں گزرچکی ہے کہ جو شخص زہد کو اپنا پیشہ قرار دے خدائے متعال اس کے دل میں حکمت ڈالتا ہے۔ پس اگر کوئی دنیا سے بیزار ہے تو سمجھو کہ اسے حکمت مل چکی ہے' اور گفتگو کے دوران اس کی بات حکمت آمیز ہوگی' کیونکہ جو دنیا سے قطع تعلق کر لیتا ہے تو اس کی بات' اس کے دل سے نکلتی ہے اوریقینی طور پر دل میں بیٹھتی ہے۔ زاہد انسان اپنے عمل سے ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنی بات پر یقین رکھتا ہے' پس ایسے شخص سے حکیمانہ بات کی توقع رکھنی چاہیے۔ اس کے مقابلہ میں جو دنیا کا فریفتہ اور د نیوی لذتوں میں غرق ہو' وہ حکمت و معرفت سے محروم ہے اور دنیا کی آلودگیوں نے حقائقسے بے بہرہ کرنے کیلئے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے' نتیجہ کے طور پر اس کی بات بے فائدہ اور حکمت سے عاری ہوتی ہے۔
زاہد ترین لوگوں کی نشانیاں:
بات جب یہاں تک پہنچی تو جناب ابوذر زاہدوں کے شیدائی ہو جاتے ہیں' اس لئے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں زاہد ترین افراد کی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ انہیں پہچاننے کے بعد ان سے دوستی برقرار کریں اور ان سے حکمت سیکھیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جواب میں زاہد ترین لوگوں کی پانچ خصوصیا ت بیان فرماتے ہیں:
''مَنْ لَمْ یَنْسَ الْمَقَابِرَ وَالْبَلٰی''
زاہد ترین لوگوں کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قبروں اور مردوں کی بوسیدہ لاشوں کو فراموش نہیں کرتے ۔
دنیا پرست لوگ ہمیشہ دنیا کی ظاہری حالت اور اس کی آبادی کی طرف توجہ رکھتے ہیں اور جن چیزوں سے وہ خود محروم ہیں ان پر حسرت کھاتے ہیں' لیکن جو دنیا کی طرف توجہ نہیں رکھتا وہ مسلسل قبروں اور دنیا کی ویران جگہوں کو مد نظر رکھتا ہے' کیونکہ وہ دنیا کی ناپائدار اور فانی ہونے کی نشانیاں ہیں۔ زاہد وہ ہے جو قبروں' ویرانوں' پرانی اور فرسودہ عمارتوں کو نہ بھولے۔ البتہ نہ اس معنی میں انسان صبح سے شام تک قبرستانوں میں بسر کرے بلکہ کبھی کبھی اہل قبور کی زیارت کیلئے جائے اور عبرت حاصل کرے۔
دنیا پرست جب قبرستان سے گزرتے ہیں تومنہ موڑلیتے ہیں موت اور قبر کا نام سن کر بھاگتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی عیش آرام درہم برہم ہوجائے۔ اگر کہیں موت کا نام ذکر ہوتا ہے تو ناراض ہوتے ہیں اور اسے عیب اور برا تصور کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو آخرت کو دیکھتے ہیں' وہ ہمیشہ آخرت کی یاد کو مد نظر رکھتے ہیں اور کبھی موت کو فراموش نہیں کرتے ہیں۔
٢۔''وَ تَرَکَ فَضْلَ زِیْنَةِ الدُّنْیَا''
زاہد ترین لوگوں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ دنیا کی اضافی آرائشوں کو ترک کرتے ہیں۔ بیشک انسان زندگی کو جاری رکھنے کیلئے دنیا کے امکانات اور وسائل' جیسے لباس' گھر' غذا اور آرائش سے استفادہ کرنے کا محتاج ہے اور ممکن ہے یہ چیزیں انسان کے تکامل و ترقی میں موثر ہوں' اس لحاظ سے شرع مقدس نے انسان کو ان سے صرف روکا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی طرف ترغیب بھی دلائی ہے:
(
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَةُ ﷲ الِّتی اَخْرَجَ لِعِبٰادِهِ وَ الطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ
)
(اعراف٣٢)
''اے پیغمبر پوچھئو! کہ کس نے اس زینت کوکہ جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے حرام کیا ہے اور کس نے پاکیزہ رزق سے منع کیا ہے۔''
حقیقت میں دنیا کے امکانات اور اس کی آرائشوں سے ضرورت کے مطابق استفادہ کرنا چاہیے اوربیجا انسانی آرائشوں جن کی عاقلانہ طور پر ضرورت نہیں ہے۔ کو نظر انداز کرنا چاہیے اوراسے چاہئے کہ دوسروں کیلئے چھوڑدے' کیونکہ اگر ضرورت کی حد تک قناعت نہ کی گئی اور حدود کی رعایت نہ کی گئی اور دنیوی لذتوں سے بے حساب استفادہ کیا گیا' تو جس قدر انسان ڈیکوریشن' شیشے کے جھاڑفانوس،کلر' پینٹنگ اور اپنی زندگی کے تجملات میں اضافہ کرے گا اور مسلسل پردے بدل کر ان کی جگہ نئے اور خوبصورت اور قیمتی پردے لگائے گا اور اپنے لئے جدید ماڈل کی گاڑی خریدیگا ' تو وہ کبھی بھی مطمئن نہیں ہوگا' کیونکہ انسان کی فطرت اس قدر تنوع طلب اور سیر ہونے والی نہیں ہے کیونکہ انسان اپنے لئے کسی محدودیت کا قائل نہیں ہوتا ہے۔ یقیناً اس قسم کا انسان زاہد نہیں ہے' زاہد وہ ہے جو ضرورت کے مطابق دنیا سے استفادہ کرے۔ وہ اپنی زندگی کیلئے ایک معمولی گھر پر اکتفا کرے اور اس فکر میں نہ رہیکہاس کے رہنے لئے ایک عالیشان عمارت ہو۔ یا اگر اسے گاڑی کی ضرورت ہو تو ایک ایسی گاڑی خرید لے کہ جو اسے رفت و آمد کی حد تک لازم ہو' نہ یہ کہ ایک جدید اور گراں قیمت گاڑی کی فکر میں رہے۔
اس جملہ میں آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی تاکید زائداور اضافی آرائشوں کو ترک کرنا ہے' ورنہ انسان کو زندگی گزارنے کیلئے ضروری آرائشوں یاا پنی انفرادی یا خاندانی زندگی کیلئے ضروری آرائشوں سے استفادہ کرنا نہ صرف مذموم نہیں ہے بلکہ ان کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ جیسے مرد کا اپنی بیوی کیلئے زینت کرنا' اسی طرح بیوی کا مرد کیلئے زینت کرنا'صاف لباس پہننا' سرو صورت کی اصلاح کرنا بالوں میں کنگھی کرنا اور بدن پر عطر لگانا۔ بنیادی طور پر مومن انسان کی شخصیت اس امر کی متقاضی ہے کہ ظاہری اور باطنی آلودگیوں' اور بدبو جن کی وجہ سے دوسرے نفرت کرتے ہیں سے پرہیز کرے۔
اس لحاظ سے اسلام انسان کو لباس اور بدن پاک و صاف رکھنے اور سرو صورت کی اصلاح کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اور بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ جب انسان مسجد میں جائے یا کسی محفل میں جائے تو اسے عطر لگانا چاہیے تاکہ دوسرے لوگ اور اس کے دوست خوشبو سے لذت کا احساس کریں نہ یہ کہ بد بو ان کیلئے اذیت و آزار کا سبب بنے۔ یا یہ تاکید کی گئی ہے کہ نماز کے وقت عطر لگایا جائے اور عطر لگا کر دو رکعت نماز پڑھنے میں ستر رکعت کا ثواب ہے۔ حقیقت میں اضافی زینتوں سے پرہیز کرنا چاہیے' اس لئے کہ اس میں عقلائی حکمت نہیں ہے اور یہ انسان کے تکامل کیلئے درکار نہیں ہے بلکہ اضافی زینتیں تجمل پرستی' دنیا پرستی اور لذت پرستی کی نشانیاں ہیں۔
مکارم الاخلاق میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف میں آیا ہے:
''اِنَّهُ کَانَ یَنْظُرُ فِی الْمِرْاٰةِ وَیُرَجَّلُ جَمَّتَهُ وَیَتَمَشَّطُ وَ رُبَّمَا نَظَرَفِی الْمَائِ وَسَوَّی جَمَّتَهُ فیهِ وَلَقَدْ کَانَ یَتَجَمَّلُ لِاَصْحَابه فَضْلاً عَلیٰ تَجَمُّلِهِ لِاَهْلِهِ وَقَالَ صَلَی ﷲ عَلیَهِ وَ آلِهِ وَسَلَّم اِنَّ ﷲ یُحِبُّ مِنْ عَبْدِهِ اِذَاخَرَجَ ِلٰی اِخْوَانِهِ اَنْ یَتَهَیَِّ لَهُمْ وَیَتَجَمَّلَ''
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ آئینہ دیکھتے تھے' سراور ریش مبارک کی کنگھی کرتے تھے' یہ کام پانی پر بھی انجام دیتے تھے۔ اپنے اہل و عیال کے علاوہ اپنے اصحاب کیلئے بھی آرائش کرتے تھے اور فرماتے تھے: خدائے متعال چاہتا ہے کہ جب اس کا بندہ اپنے بھائیوں کو دیکھنے کیلئے گھر سے باہر نکلے تو خود کو آمادہ و آراستہ کرے۔
٣۔'' واٰثَرَ مٰایَبْقٰی عَلٰی مٰا یَفْنٰی''
زاہد ترین لوگوں کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ باقی رہنے والی چیزوں کو نابود ہونے والی چیز وںپر ترجیح دیتے ہیں۔
اگر دنیا کی عارضی اور فنا ہونے والی لذتوں اور آخرت کی دائمی اور ابدی لذتوں میں سے انتخاب کرنا ہوتو وہ عقلمندانہ طور پر فنا ہونے والی لذتوں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور بہشت کی ابدی لذتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تکالیف اور فرائض کی مشکلات اور سختیوں کو دنیا کی آسائشوں پر ترجیح دیتے ہیں' کیونکہ ان کی دوربین آنکھیں آخرت پر لگی ہوئی ہوتی ہیں' وہ حرکت کے وقت صرف مقصد کو مد نظر رکھتے ہیں اور دنیا کو عبورکرنے کیلئے ایک پل کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔
(
وَالْاَ خِرَةُ خَیْر وَاَبْقیٰ
)
(اعلیٰ١٧)
''جبکہ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔''
٤۔''وَلَمْ یَعُدَّ غَداً مِنْ اَیّٰامِهِ''
٥۔َ''عَدَّ نَفْسَهُ فی الْمَوْتٰی''
زاہد ترین لوگوں کی چوتھی اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ آنے والے کل کو اپنی عمر میں شمار نہیں کرتے ہیں اور خود کو مردوں میں شما رکرتے ہیں۔
انسان کو فریضہ انجام دینے کی فکر میں ہونا چاہیے اور کبھی تلاش' کوشش اور سرگرمی سے ہاتھ نہیں کھینچنا چاہیے۔ یقیناً جو فریضہ انجام دینے کی فکر میں ہے وہ آرام طلب اور آسودہ نہیں رہ سکتا ہے' کیونکہ تلاش اور فعالیت آرام طلبی ،کاہلی کے درمیان مناسب نہیں ہے۔ جو اہل دنیا ہے' وہ آرام و آ سائش کے مسائل کی فکر میں ہوتا ہے' ایسے لوگوں کیلئے جب کسی فعالیت جستجو و تلاش بحث و مطالعہ نیز فرائض کی انجام دہی وقت آتا ہے' تو اس کی آرام طلب طبیعت اسے ان امور سے باز رکھتی ہے اور آج کے کام کو کل پرٹالنا ہے اور وہ تیار نہیں ہے اس کے آرام و آسائش میں کسی قسم کا خلل واقع ہو۔ حقیقت میں فرائض کو دوسرے دن تک تاخیر میں ڈالنا اس لئے ہوتا ہے کہ انسان اپنے لئے طولانی آرزوؤں کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ اپنی عمر کے آنے والے کل کے لئے انہیں انجام دے اسی لئے آج کے فرائض کو کل کی امید میں تاخیر میں کرتا ہے۔فطری بات ہے کہ ان طولانی دنوں تک پہنچنے کیلئے ایک طولانی عمر کی ضرورت ہے' اس لحاظ سے دنیا پرست طولانی عمر کے متمنی ہوتے ہیں اور یہ امر آرزو یا فریضہ کے تاخیر میں ہو جانے کا سبب ہے یا ناکامی کے ڈر سے سستی اور اضطراب سے دوچار ہوتا ہے.
زاہد اور دنیا سے بیزار شخص آج کے فریضہ کو آج ہی انجام دیتا ہے اور دنیا پرست کے برخلاف' آنے والے کل کو اپنی عمر کا حصہ نہیں جانتا تاکہ فرائض کو کل پر چھوڑ دے' کیونکہ اسے کل تک زندہ رہنے کا اطمینان نہیں ہے۔ اس کا یہ اعتقاد ہے کہ اگر کل تک زندہ بھی رہا تو' اس دن دوسرا فریضہ ہے جسے انجام دینا ہے۔
طولانی آرزو اور فرائض سے غفلت' تقویٰ و توکل کے ضعیف ہونے کی علامت:
جیسا کہ اشارہ کیا گیاہے کہ' بہت سے ایسے دل لوگ بہت ساری آرزورکھتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ اس دنیا میں سالہا سال زندہ رہیں' اس لئے اپنی فعالیت و سرگرمیوں کو مستقبل کی زندگی کے لئے انجام دیتے ہیں اور ہمیشہ آنے والے حوادثکے حوالے سے فکر مند ہیں۔ پریشان ہیں کہ اگر یونیورسٹی نہ جا سکے تو مناسب شغل اور آمدنی کے مالک بن سکیں گے یا نہیں۔ پریشان ہیں کہ مستقبل میں انپی زندگی کو منظم کر سکیں گے یا نہیں' البتہ ان کی یہ پریشانیاں تقویٰ و توکل کے فقدان کی وجہ سے ہے' ورنہ جو خدائے متعال پر توکل کرتا ہے اور اس کی نظر اللہ کی مہربانیوں اور عنایتوں پر ہوتی ہے وہ مستقبل کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتا' چونکہ وہ خدا کو تمام چیزوں کا مالک جانتا ہے۔اس کے علاوہ وہ جو اپنے آئندہ کے بارے میں فکر مند ہوتا ہے اسے کیا معلوم کہ اس کیلئے کوئی آئندہ ہے بھی کہ نہیں!
اسلام اور معارف دینی اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ انسان آج کے فرائض انجام دینے کی کوشش میں رہے اور کل کی فکر میں نہ کرے۔ کیونکہ کسی کو معلوم نہیں ہے کہ ایک گھنٹہ کے بعد زندہ رہے گا یا نہیں۔ البتہ مستقبل میں دنیا اور دنیوی لذتوں سے محروم ہونے کی فکر و پریشانی قابل مذمت ہے' ورنہ اگر انسان آج کے فریضہ کو انجام دینے کے بعد آئندہ کے احتمالی وظائف کے بارے میں منصوبہ بندی اور پروگرام مرتب کرے تو یہ نہ صرف یہ کہ ناپسندیدہ نہیں ہے بلکہ خود وظائف میں شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر تکلیف اور فریضہ مخصوص دن کیلئے ہوتا ہے اور اپنے وقت پر واجب ہوتا ہے' جیسے آج میرے لئے نماز واجب ہے کل کی نماز کے بارے میں میرا کوئی فریضہ نہیں ہے' اگر کل تک زندہ رہا تو کل کی نماز بھی میرے لئے واجب ہے کہ اسے بھی پڑھ لوں' اسی طرح دیگر تمام فرائض و تکالیف میں سے ہر ایک اپنے خاص زمانہ میں ہمارے لئے واجب قرار دی گئی ہے' اس سے پہلے ہم پر کوئی چیز فرض نہیں ہے۔
لہذازاہد کے لئے آئندہ کے بارے میں فکر مند رہنا یعنی یہ سوچنا کہ اس کی دنیا کاانجام کیا ہوگا' بے جا اور غیر معقول ہے' لیکن حتمی اور یقینی مستقبل اور قیامت کے سلسلہ میں پریشان و فکر مند رہنا معقول اور بجا ہے' کیونکہ قیامت سے کسی کو راہ فرار نہیں ہے' اگر آخرت کے انجام سے فرارکرنا ممکن ہوتا تو بعض لوگوں کے لئے خوشی کی بات تھی۔
خدائے متعال فرماتا ہے:
(
یَا َیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اتَّقُو ﷲ وَلْتَنْظُرْ نَفْس مَاقَدَّمَتْ لِغَدٍ
)
(حشر١٨)
''ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کیلئے کیا بھیجا ہے۔''
خدائے متعال کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ذخیرہ اندوزی سے اجتناب کرنے کی سفارش کی گئی آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
''یَا اَبَاذَرٍ!اِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ لَمْ یُوحِ اِلَیَّ اَنْ اَجْمَعَ الْمَالَ وَلٰکِنْ اَوْحٰی اِلَیَّ اَنْ سَبَّحَ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنَّ السَّاجِدِینَ و اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَا تِیَکَ الْیَقِینُ''
''اے ابوذر! اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے وحی نہیں کی ہے کہ میں مال جمع کروں، لیکن وحی کی ہے کہ تم اپنے پرور دگار کی حمدو تسبیح کرنے والوں اور سجدہ گزاروں میں شامل ہوجائو اور اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہنا جب تک موت نہ آجائے۔''
اگر مال اور ثروت اکٹھا کرنا مطلوب ہوتا تو یہ انسان کے لئے کمال و سعادت کا سبب ہوتا، نیز اپنے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو مال جمع کرنے کی تاکید کرتا لیکن خدائے متعال نے ہر گز ایسی سفارش نہیں کی ہے بلکہ انہیں تاکید کی ہے کہ موت کے لمحہ تک تسبیح اور خدا کی عبادت و بندگی میں مشغول رہیں۔
البتہ خدا کی عبادت و بندگی کے گونا گوں مظہر ہیں، کبھی عبادت انفرادی شکل میں مثلا، سحرخیزی اور واجبات و مستحبات کی انجام دہی کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی اجتماعی خدمات کی انجام دہی، علم حاصل کرنے، تعلیم، تبلیغ، اسلامی ثقافت کی نشرواشاعت غرض ہر اس چیز کی صورت میں ہوتی ہے جو انسان کے لئے فریضہ کے طور پر واجب ہے۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی عملی سیرت کی ایک جھلک:
جنھوں نے پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے لئے بہترین نمونہ اور اسوہ قرار دیا ہے، انہیں حتی الامکان سعی و کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی رفتار کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفتار کے مانند اور مشابہ قراردیں۔ اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کے بعد والے جملہ میں اپنی عملی سیرت کی ایک جھلک بیان فرماتے ہیں:
'' یَا اَبَاذَرٍ!اِنِّی اَلْبِسُ الغَلیظَ وَاَجْلِسُ عَلَی الْاَرْضِ وَاَلْعَقُ َصَابِعِی وَاَرْکَبُ الْحِمَارَ بِغَیرِ سَرْجٍ وَاَرْدِفُ خَلْفی فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتی فَلَیْسَ مِنِّی''
''اے ابوذر! میں کھردرا لباس پہنتا ہوں، زمین پر بیٹھتا ہوں، (کھانا کھانے کے بعد) اپنی انگلیوں کو چاٹتا ہوں اور بغیر زین کے گدھے پر سوار ہوتا ہوں اور کسی دوسرے شخص کو اپنے پیچھے سوار کرتا ہوں، جو بھی میری سنت سے منھ موڑ لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔''
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو قدرت تکوینیکے ذریعہ تمام دنیا کو اپنی اختیار میں رکھ سکتے ہیں وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مادی دنیا کے امکانات سے بقدر ضرورت استفادہ کرتے ہیں۔ اس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: ''جبرئیل نے زمین کے خزانوں کو میرے اختیار میں قرار دیا، لیکن میں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا۔'' حدیث کے اس حصہ میں قناعت، سادہ زندگی اور اپنے اجتماعی برتائو کے بارے میں واضح طور پر بیان فرماتے ہیں۔
چونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طرز زندگی برجستہ ترین مخلوق اور روحانی پیشوا کی حیثیت سے مسلمانوں حتی غیر مسلمانوں کے لئے بھی توجہ کا مرکز تھا، اسلئے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے تمام حالات، رفتار، حتی زندگی کی جزئیات اور اجتماعی برتائو آس پاس کے لوگوں کے لئے باعث توجہ تھا۔ اس وجہ سے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی رفتار کے بارے میں بہت سے جزئیات زندگی ،اہل بیت، اصحاب، تابعین اور دیگر لوگوں نے نقل کئے ہیں۔ اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بھی اپنی زندگی کے بعض طور طریقوں کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ حدیث کے اس حصہ میں بھی اپنی زندگی کے شیوہ کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں تاکہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے پیرو آپ کی روش اور رفتار کو اپنے لئے نمونہ قرار دیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں کھردرے لباس پہنتا ہوں نرم و ملائم لباس نہیں پہنتا ہوں تاکہ آرام و آسود گی کا احساس کر وں۔ زمین پر بیٹھتا ہوں نہ فاخرہ اور قیمتی فرش پر نہیں کھانا کھانے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہاتھ سے کھانے کے پابند تھے اور کھانے کے بعد اپنی انگلیوں کو چاٹتے تھے۔ بغیر زین کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور ایک دوسرے شخص کو بھی اپنے پیچھے گدھے پر سوار کرتے تھے۔ اس بیان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تواضع اور کمال بندگی کا اندازہ ہوتاہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ایسے ماحول میں جہاں عیش پر ستی، استکبار اور غرور جیسی عادات رائج تھیں، اس طرح متواضع اور منکسر مزاج تھے کہ بغیر زین کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور انتہائی انکساری کے ساتھ دوسرے کو بھی اس پر سوار کرتے تھے!
اس کے مقابلہ میں ، ہم ان کی محبت اور پیروی کا دعویٰ کرنے والے اس فکر میں ہیں کہ اچھے لباس پہنیں، لذیذ کھانے کھائیں اور سر انجام اپنے لئے ایک آرام و آسودہ زندگی فراہم کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے لئے جدید ماڈل کی گراں قیمت گاڑیاں خریدیں اور زیادہ سے زیادہ دنیوی زینت و تجملات سے استفادہ کریں۔
قابل ذکر ہے کہ عصر حاضر میں اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ لوگوں کی معاشی زندگی کا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے مانند ہو، کیونکہ ہر زمانے کی سطح زندگی اور اقتصادی حالات دوسرے زمانے سے متفاوت ہوتے ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کی زندگی کے شرائط میں اہم ترقی کی ہے۔ دراصل اسلام کے ناقابل انکار قوانین اور اصولوں کی رعایت ضروری ہے اور ہر زمانے میں افرادکی حیثیت اور شان کے اعتبار سے معاشی زندگی کی سطح اور معیار کی رعایت کی جانی چاہیے اور تجمل پرستی،ا فزوں طلبی اور اسراف سے پرہیز کرنا چاہیے۔
____________________