زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)13%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25795 / ڈاؤنلوڈ: 3844
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

پندرہواں سبق:

حکمت' بصیرت اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عملی سیرت کی ایک جھلک

*حکمت و بصیرت زہد کا عطیہ

*زاہد ترین لوگوں کی نشانیاں

*طولانی آرزو اور فرائض سے غفلت' تقویٰ و توکل کے ضعیف

ہونے کی علامت ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عملی سیرت کی ایک جھلک

حکمت، بصیرت اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عملی سیرت کی ایک جھلک

''یَا َبَاذَرٍ! مَازَهَدَ عَبْد فِی الدُّنْیَا اِلاَّ اَثْبَتَ ﷲ الْحِکْمَةَ فی قَلْبِهِ وَ اَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ یُبَصِّرُهُ عَیُوبَ الدَُّنْیَا وَ دَائَهَا وَ دَوَائَهَا وَ َخْرَجَهُ مِنْهَا سٰالِماً ِلٰی دٰارِ السَّلامِ.

یَا َبَاذَرٍ!اِذَا رََیْتَ اَخٰاکَ قَدْ زَهَدَ فِی الدُّنْیَا فَاسْتَمِعْ مِنْهُ فَاِنَّهُ یُلقَّی الْحِکْمَةَ' فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ ﷲ مَنْ اَزْهَدُ النَّاسِ؟ قَالَ: مَنْ لَمْ یَنْسَ الْمَقَابِرَ وَالْبَلٰی وَ تَرَکَ فَضْلَ زِیْنَةِ الدُّنْیَا وَ اٰثَرَ مٰایَبْقٰی عَلٰی مٰا یَفْنٰی وَلَمْ یَعُدَّ غَداً مِنْ اَیّٰامِهِ وَعَدَّ نَفْسَهُ فی الْمَوْتٰی

یَا اَبَاذَرٍ!اِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ لَمْ یُوحِ اِلَیَّ اَنْ اَجْمَعَ الْمَالَ وَلٰکِنْ اَوْحٰی اِلَیَّ اَنْ سَبَّحَ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنَّ السَّاجِدِینَ و اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَا تِیَکَ الْیَقِینُ

یَا اَبَاذَرٍ!اِنِّی اَلْبِسُ الغَلیظَ وََجْلِسُ عَلَی الْاَرْضِ وَاَلْعَقُ َصَابِعِی وَاَرْکَبُ الْحِمَارَ بِغَیرِ سَرْجٍ وََرْدِفُ خَلْفی فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتی فَلَیْسَ مِنِّی''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم' دنیا کے عیوب اور دنیا پرستی کے بارے میں مختلف طریقوں سے تذکّر دیتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی نصیحت کو گوش گزار فرماتے ہیں۔ یہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف طریقوں سے تربیتی مطالب کو ایک خاص پس منظر میں پیش کیا ہے تاکہ ہر کوئی اپنے فہم و استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کرے' ایک معجزانہ کام ہے۔ مطالب اس قدر گوناگوں اور مختلف تربیتی و اخلاقی سانچوں میں بیان ہوئے ہیں کہ ہر ایک فرد ان سے اپنے خاص ذوق کے مطابق استفادہ کرتا ہے اور اس کی روح پر اثر ڈالنے والے مناسب ترین تربیتی زادراہ کا انتخاب کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک شیوہ' زہد کی ستائش اور اس کی تشویش اور اس کے قابل قدر آثار کا ذکر ہے جو دنیا کی بے رغبتی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

حکمت و بصیرت زہد کا عطیہ:

''یَا َبَاذَرٍ! مَازَهَدَ عَبْد فِی الدُّنْیَا اِلاَّ اَثْبَتَ ﷲ الْحِکْمَةَ فی قَلْبِهِ وَ اَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ یُبَصِّرُهُ عَیُوبَ الدُّنْیَا وَ دَائَهَا وَ دَوَائَهَا وَ َخْرَجَهُ مِنْهَا سٰالِماً ِلٰی دٰارِ السَّلامِ''

''اے ابو ذر! ایک بندہ نے دنیا میں زہدکو اختیار نہیںکیا'مگر یہ کہ خدائے متعال نے اس کے دل میں حکمت ڈال دی اور اسے زبان پر جاری کیا اور اسے دنیا کی برائیوں نیز اس کے امراض وعلاج سے اسے آشنا و مطلع کیا اور اسے صحیح و سالم بہشت کی طرف اسے لے گیا۔''

حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاکید اس امر پر ہے کہ زہد اور دنیا کی نسبت بے رغبتی انسان کے دل کو حکمت قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور اس کے بعد وہ حقائق کو سمجھتاہے' کیونکہ ''حب الشیء یُعْمی ویصم'' دنیا کی محبت انسان کیلئے غفلت کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں جو لوگ دنیا کی طرف رجحان نہیں رکھتے ہیں وہ حقائق کو درک کرتے ہیں' کیونکہ وہ دنیا پر کامل تسلط رکھتے ہیں اور اس کا آخرت کے ساتھ موازنہ کر کے بہترکا انتخاب کرتے ہیں۔

زہد' بے رغبت ہونے کے معنی میں ہے' چنانچہ یوسف کے بھائیوں کے بارے میں آیا ہے:

( وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَکَانُوافیهِ مِنَ الزَّاهِدِینَ ) (یوسف٢٠)

''اور ان لوگوں نے یوسف کو معمولی قیمت پر بیچ ڈالا چند درہم کے عوض اور وہ لوگ تو ان سے بیزار تھے ہی۔''

دنیا میں زہد' یعنی انسان کو چاہئے کہ دنیا سے رغبت نہ رکھے ۔ اب اگر اس کے پاس مال و دولت ہے اور اس کے ہاتھ میں کچھ امکانات ہیں' تواسے اس فکر میں ہونا چاہئے کہ انہیں کس طرح خدا کی مرضی کی راہ میں خرچ کرے اور مال و دولت کو ذخیرہ کرنے سے الفت نہ رکھے۔ (حضرت سلیمان نبی ایسے ہی صفات کے حامل تھے کہ اس عظیم سلطنت اور فراوان ثروت کے مالک ہونے کے باوجود حضرت سلیمان جو کی روٹی پر قناعت کرتے تھے۔)

جملہ''اثبت اللّٰه الحکمة فی قلبه'' کی وضاحت کے سلسلہ میں چند نکات کی یادد ہانی کرانا ضروری ہے:

١۔دنیا سے بیزاری اور معارف الٰہی کو درک کرنے کے درمیان ایک عمیق رابطہ ہے یعنی' ایک ایسے انسان کا پایا جانا محال ہے جو دنیا سے قلبی رابطہ رکھنے کے باوجود اس کی روح معارف الہٰی سے سرشار ہو۔

٢۔ حکمت، جو دنیا سے بیزاری کا تحفہ ہے۔ انسان کی معرفت و آگہی کو استحکام بخشتی ہے اور اعتقاد میں تزلزل اور بے ثباتی کو روکتی ہے۔ ممکن ہے ایک انسان معرفت کے مرحلے سے آگاہ ہو اور کسی حقیقت کو درک کرے لیکن اس کی معرفت متزلزل اور بے ثبات ہو' چونکہ اس میں یقین کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی ہے تاکہ وہ معرفت اس کے دل میں مستحکم اور استوار ہو سکے۔

عقائد کے مرحلہ میں ' اصل عقیدہ کے علاوہ معارف کا استحکام و ثبات بھی خاص اہمیت کا حامل ہے اور اس لئے عارضی اور وقتی ایمان نہ صرف اہمیت نہیں رکھتا بلکہ منفی اثرات کا بھی حامل ہوتا ہے' جس کی سر زنش قرآن مجید میں جگہ جگہ پر بیان ہوئی ہے۔

( فَاِذَارَکِبُوافِی الْفُلْکِ دَعَوُا ﷲ مُخْلِصینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَاهُمْ یُشْرِکُونَ ) (عنکبوت٦٥)

''پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔''

٣۔ جب حکمت مستحکم ہوتی ہے تو دل میں محدود ہوکر نہیں رہتی بلکہ اس کے آثار زبان' کے ساتھ ساتھ عمل اور رفتار میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ جس کے دل میں حکمت مستحکم ہوجاتی ہے' اس کا بیان حکیمانہ ہوتاہے اور جس گوہر کا سرچشمہ دل میں ہو وہ زبان پر جاری ہوتا ہے ،بیہودہ و لغو گفتگو سے پرہیز کرتے ہوئے لقمان کے مانند ایسا عالمانہ موعظہ کرتا ہے کہ اس کا بیان قابل ستائش ہوتا ہے۔

جی ہاں' زبان انسان کے دل کی گزرگاہ ہے اور دوسرے الفاظ میں انسان کے دل کے تأثرات اس کی زبان سے ظاہر ہوتے ہیں' اس لئے کہ صراحی اور کوزے سے وہی رستا ہے جو اس میں ہوتا ہے البتہ یہ ترشح نہ صرف زبان سے بلکہ انسان کی تمام رفتار سے ظاہر ہوتا ہے۔

دنیا سے بیزاری کا دوسرا اثر یہ ہے کہ وہ دنیا کے عیوب کو انسان کے لئے آشکار کرتا ہے۔ یعنی انسان' اسی صورت میں دنیا کے نقائص اور پست ہونے کا مشاہدہ کر سکتا ہے جب خود کو اس سے علیحدہ رکھے اور کسی جہت سے اس سے وابستہ نہ ہو ورنہ دنیا پر ستوں سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے محبوب اور معشوق (دنیا) کے عیوب کو ظاہر کریں گے' کیونکہ دنیا پرستی انسان کو اس کے نکالنے کے سلسلہ میں اندھا اور اس کے نقائص سننے کے سلسلہ میں بہرا بنا دیتی ہے' اس کے برعکس وہ دنیا کی برائیوں کو حسین دیکھتا ہے اور اپنی ناپسندیدہ رفتارکو۔ جو دنیا کی طرف اس کے افراطی رجحانات کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں ان کو اچھا جلوہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ معنی مختلف تعبیرات سے قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں' جیسے:

( زَیَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ ) (نمل٤)

ہم نے ان کے اعمال کو ان کیلئے آراستہ کیا ہے۔

( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفَسَکُمْ اَمْراً ) (یوسف١٨)

بلکہ اس کے نفس نے ان کی نظروں میں اس برے عمل کو حسین بنا دیا ہے۔

''وزین لهم الشیطان اعمالهما''

''ان کے برے اعمال کو ان کی نگاہوں میں اچھے روپ میں پیش کیا ''

یہ مختلف تعبیریں اس حقیقت کی حکایت کرتی ہیں کہ دنیا کی طرفمیلان اور دلچسپی انسان کے لئے دنیا اور دنیوی رفتارکو جلوہ دینے کا باعث ہے جس قدر یہ محبت زیادہ ہو گی' دنیا اور اس کے نقائص انسان کو حسین و خوبصورت نظر آئیں گے کیونکہ عاشق اپنے معشوق کی برائیاں اور نقائص نہیں دیکھتا ہے۔ یقیناً ایسا شخص دنیا کی ظاہری دل فریب خوبصورتی دیکھتا ہے اور اس کے باطن کو درک کرنے اور اس کا پس منظر دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے:

( یَعْلَمُونَ ظَاهِراً مِنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَهُمْ عَنِ الْاَخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ ) (روم ٧)

''یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں۔''

اس کے مقابلہ میں حقیقت پسند اور دنیا سے بیزار انسان، دنیا کی خوبیوں اور برائیوں دونوںپر نگاہ رکھتے ہیں۔ یہ گروہ پہلے گروہ کے برخلاف زہریلے سانپ کے حسین اورخوبصورت ملائم کھل کو بھی دیکھتا ہے اور اس سانپ کے زہر قاتل کو بھی دیکھتا ہے:

''مَثَلُ الدَُّنْیَا کَمَثَلِ الْحَیَّةِ لَیِّن مَسُّهَا وَالسُّمُّ النَّاقِعُ فِی جَوفِهَا یَهْویَ اِلَیْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ وَ یَحْذَرُهَا ذُواللُّبِّ الْعَاقِلُ'' (۱)

دنیا کی داستان' ایک سانپ کی داستان کے مانند ہے۔ اگر اس پر ہاتھ پھیر ا جائے تو نرم ہے' لیکن اس کے اندر زہر قاتل ہے۔ فریب خوردہ بیوقوف اس کی طرف بڑھتا ہے' لیکن عاقل اور دوراندیش شخص اس سے دوری اختیار کرتا ہے۔

یقیناً مردان خدا کی بصیرت اوردور رس نگاہیں ظاہری چمک دمک کے فریب میں آنے سے انہیں بچاتی ہیں اور ان کا مادی افق کے پس منظر پرگہری نظر رکھنا ظاہر بین افراد کے ساتھ ان کے بنیادی فرق کا مظہر ہے' حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ اَولِیَائَ ﷲ هُمُ الَّذِینَ نَظَرُ وا اِلیٰ بَاطِنِ الدُّنْیَا اِذَا نَظَرَ النَّاسُ اِلٰی ظَاهِرِهَا وَاشْتَغَلُوا بِاٰجِلِهَا فَمٰاتُوا مِنْهَا مٰا خَشُوا َنْ یُمیتَهُمْ وَتَرَکُوا مِنْهَا مَاعَلِمُوا َنَّهُ سَیَتْرُکَهُمْ'' (۲)

اولیا ء خدا وہ لوگ ہیں جو دنیا کی حقیقت پر نگاہ رکھتے ہیں جب لوگ صرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیںتو یہ آخرت کے امور میں مشغول رہتے ہیں، جب لوگ دنیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں تویہ آخرت کے بارے سوچتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات کو مردہ بنا دیتے ہیں جن سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ انھیں مار ڈالیں گے اور اس دولت کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ ایک دن ان کا ساتھ چھوڑ دے گی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

''یَا َبَاذَرٍ!اِذَا رََیْتَ اَخٰاکَ قَدْ زَهَدَ فِی الدُّنْیَا فَاسْتَمِعْ مِنْهُ فَاِنَّهُ یُلْقَّی الْحِکْمَةَ'

اے ابو ذر!اگر تم اپنے بھائی کو دنیا میں زہد کی حالت میں دیکھو تو اس کی باتوں پر کان دھرو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے۔

یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گزشتہ بیان کے ضمن میں گزرچکی ہے کہ جو شخص زہد کو اپنا پیشہ قرار دے خدائے متعال اس کے دل میں حکمت ڈالتا ہے۔ پس اگر کوئی دنیا سے بیزار ہے تو سمجھو کہ اسے حکمت مل چکی ہے' اور گفتگو کے دوران اس کی بات حکمت آمیز ہوگی' کیونکہ جو دنیا سے قطع تعلق کر لیتا ہے تو اس کی بات' اس کے دل سے نکلتی ہے اوریقینی طور پر دل میں بیٹھتی ہے۔ زاہد انسان اپنے عمل سے ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنی بات پر یقین رکھتا ہے' پس ایسے شخص سے حکیمانہ بات کی توقع رکھنی چاہیے۔ اس کے مقابلہ میں جو دنیا کا فریفتہ اور د نیوی لذتوں میں غرق ہو' وہ حکمت و معرفت سے محروم ہے اور دنیا کی آلودگیوں نے حقائقسے بے بہرہ کرنے کیلئے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے' نتیجہ کے طور پر اس کی بات بے فائدہ اور حکمت سے عاری ہوتی ہے۔

زاہد ترین لوگوں کی نشانیاں:

بات جب یہاں تک پہنچی تو جناب ابوذر زاہدوں کے شیدائی ہو جاتے ہیں' اس لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں زاہد ترین افراد کی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ انہیں پہچاننے کے بعد ان سے دوستی برقرار کریں اور ان سے حکمت سیکھیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جواب میں زاہد ترین لوگوں کی پانچ خصوصیا ت بیان فرماتے ہیں:

''مَنْ لَمْ یَنْسَ الْمَقَابِرَ وَالْبَلٰی''

زاہد ترین لوگوں کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قبروں اور مردوں کی بوسیدہ لاشوں کو فراموش نہیں کرتے ۔

دنیا پرست لوگ ہمیشہ دنیا کی ظاہری حالت اور اس کی آبادی کی طرف توجہ رکھتے ہیں اور جن چیزوں سے وہ خود محروم ہیں ان پر حسرت کھاتے ہیں' لیکن جو دنیا کی طرف توجہ نہیں رکھتا وہ مسلسل قبروں اور دنیا کی ویران جگہوں کو مد نظر رکھتا ہے' کیونکہ وہ دنیا کی ناپائدار اور فانی ہونے کی نشانیاں ہیں۔ زاہد وہ ہے جو قبروں' ویرانوں' پرانی اور فرسودہ عمارتوں کو نہ بھولے۔ البتہ نہ اس معنی میں انسان صبح سے شام تک قبرستانوں میں بسر کرے بلکہ کبھی کبھی اہل قبور کی زیارت کیلئے جائے اور عبرت حاصل کرے۔

دنیا پرست جب قبرستان سے گزرتے ہیں تومنہ موڑلیتے ہیں موت اور قبر کا نام سن کر بھاگتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی عیش آرام درہم برہم ہوجائے۔ اگر کہیں موت کا نام ذکر ہوتا ہے تو ناراض ہوتے ہیں اور اسے عیب اور برا تصور کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو آخرت کو دیکھتے ہیں' وہ ہمیشہ آخرت کی یاد کو مد نظر رکھتے ہیں اور کبھی موت کو فراموش نہیں کرتے ہیں۔

٢۔''وَ تَرَکَ فَضْلَ زِیْنَةِ الدُّنْیَا''

زاہد ترین لوگوں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ دنیا کی اضافی آرائشوں کو ترک کرتے ہیں۔ بیشک انسان زندگی کو جاری رکھنے کیلئے دنیا کے امکانات اور وسائل' جیسے لباس' گھر' غذا اور آرائش سے استفادہ کرنے کا محتاج ہے اور ممکن ہے یہ چیزیں انسان کے تکامل و ترقی میں موثر ہوں' اس لحاظ سے شرع مقدس نے انسان کو ان سے صرف روکا ہی نہیں ہے بلکہ اس کی طرف ترغیب بھی دلائی ہے:

( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَةُ ﷲ الِّتی اَخْرَجَ لِعِبٰادِهِ وَ الطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ) (اعراف٣٢)

''اے پیغمبر پوچھئو! کہ کس نے اس زینت کوکہ جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے حرام کیا ہے اور کس نے پاکیزہ رزق سے منع کیا ہے۔''

حقیقت میں دنیا کے امکانات اور اس کی آرائشوں سے ضرورت کے مطابق استفادہ کرنا چاہیے اوربیجا انسانی آرائشوں جن کی عاقلانہ طور پر ضرورت نہیں ہے۔ کو نظر انداز کرنا چاہیے اوراسے چاہئے کہ دوسروں کیلئے چھوڑدے' کیونکہ اگر ضرورت کی حد تک قناعت نہ کی گئی اور حدود کی رعایت نہ کی گئی اور دنیوی لذتوں سے بے حساب استفادہ کیا گیا' تو جس قدر انسان ڈیکوریشن' شیشے کے جھاڑفانوس،کلر' پینٹنگ اور اپنی زندگی کے تجملات میں اضافہ کرے گا اور مسلسل پردے بدل کر ان کی جگہ نئے اور خوبصورت اور قیمتی پردے لگائے گا اور اپنے لئے جدید ماڈل کی گاڑی خریدیگا ' تو وہ کبھی بھی مطمئن نہیں ہوگا' کیونکہ انسان کی فطرت اس قدر تنوع طلب اور سیر ہونے والی نہیں ہے کیونکہ انسان اپنے لئے کسی محدودیت کا قائل نہیں ہوتا ہے۔ یقیناً اس قسم کا انسان زاہد نہیں ہے' زاہد وہ ہے جو ضرورت کے مطابق دنیا سے استفادہ کرے۔ وہ اپنی زندگی کیلئے ایک معمولی گھر پر اکتفا کرے اور اس فکر میں نہ رہیکہاس کے رہنے لئے ایک عالیشان عمارت ہو۔ یا اگر اسے گاڑی کی ضرورت ہو تو ایک ایسی گاڑی خرید لے کہ جو اسے رفت و آمد کی حد تک لازم ہو' نہ یہ کہ ایک جدید اور گراں قیمت گاڑی کی فکر میں رہے۔

اس جملہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تاکید زائداور اضافی آرائشوں کو ترک کرنا ہے' ورنہ انسان کو زندگی گزارنے کیلئے ضروری آرائشوں یاا پنی انفرادی یا خاندانی زندگی کیلئے ضروری آرائشوں سے استفادہ کرنا نہ صرف مذموم نہیں ہے بلکہ ان کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ جیسے مرد کا اپنی بیوی کیلئے زینت کرنا' اسی طرح بیوی کا مرد کیلئے زینت کرنا'صاف لباس پہننا' سرو صورت کی اصلاح کرنا بالوں میں کنگھی کرنا اور بدن پر عطر لگانا۔ بنیادی طور پر مومن انسان کی شخصیت اس امر کی متقاضی ہے کہ ظاہری اور باطنی آلودگیوں' اور بدبو جن کی وجہ سے دوسرے نفرت کرتے ہیں سے پرہیز کرے۔

اس لحاظ سے اسلام انسان کو لباس اور بدن پاک و صاف رکھنے اور سرو صورت کی اصلاح کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اور بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ جب انسان مسجد میں جائے یا کسی محفل میں جائے تو اسے عطر لگانا چاہیے تاکہ دوسرے لوگ اور اس کے دوست خوشبو سے لذت کا احساس کریں نہ یہ کہ بد بو ان کیلئے اذیت و آزار کا سبب بنے۔ یا یہ تاکید کی گئی ہے کہ نماز کے وقت عطر لگایا جائے اور عطر لگا کر دو رکعت نماز پڑھنے میں ستر رکعت کا ثواب ہے۔ حقیقت میں اضافی زینتوں سے پرہیز کرنا چاہیے' اس لئے کہ اس میں عقلائی حکمت نہیں ہے اور یہ انسان کے تکامل کیلئے درکار نہیں ہے بلکہ اضافی زینتیں تجمل پرستی' دنیا پرستی اور لذت پرستی کی نشانیاں ہیں۔

مکارم الاخلاق میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف میں آیا ہے:

''اِنَّهُ کَانَ یَنْظُرُ فِی الْمِرْاٰةِ وَیُرَجَّلُ جَمَّتَهُ وَیَتَمَشَّطُ وَ رُبَّمَا نَظَرَفِی الْمَائِ وَسَوَّی جَمَّتَهُ فیهِ وَلَقَدْ کَانَ یَتَجَمَّلُ لِاَصْحَابه فَضْلاً عَلیٰ تَجَمُّلِهِ لِاَهْلِهِ وَقَالَ صَلَی ﷲ عَلیَهِ وَ آلِهِ وَسَلَّم اِنَّ ﷲ یُحِبُّ مِنْ عَبْدِهِ اِذَاخَرَجَ ِلٰی اِخْوَانِهِ اَنْ یَتَهَیَِّ لَهُمْ وَیَتَجَمَّلَ'' (۳)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ آئینہ دیکھتے تھے' سراور ریش مبارک کی کنگھی کرتے تھے' یہ کام پانی پر بھی انجام دیتے تھے۔ اپنے اہل و عیال کے علاوہ اپنے اصحاب کیلئے بھی آرائش کرتے تھے اور فرماتے تھے: خدائے متعال چاہتا ہے کہ جب اس کا بندہ اپنے بھائیوں کو دیکھنے کیلئے گھر سے باہر نکلے تو خود کو آمادہ و آراستہ کرے۔

٣۔'' واٰثَرَ مٰایَبْقٰی عَلٰی مٰا یَفْنٰی''

زاہد ترین لوگوں کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ باقی رہنے والی چیزوں کو نابود ہونے والی چیز وںپر ترجیح دیتے ہیں۔

اگر دنیا کی عارضی اور فنا ہونے والی لذتوں اور آخرت کی دائمی اور ابدی لذتوں میں سے انتخاب کرنا ہوتو وہ عقلمندانہ طور پر فنا ہونے والی لذتوں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور بہشت کی ابدی لذتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تکالیف اور فرائض کی مشکلات اور سختیوں کو دنیا کی آسائشوں پر ترجیح دیتے ہیں' کیونکہ ان کی دوربین آنکھیں آخرت پر لگی ہوئی ہوتی ہیں' وہ حرکت کے وقت صرف مقصد کو مد نظر رکھتے ہیں اور دنیا کو عبورکرنے کیلئے ایک پل کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔

( وَالْاَ خِرَةُ خَیْر وَاَبْقیٰ ) (اعلیٰ١٧)

''جبکہ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔''

٤۔''وَلَمْ یَعُدَّ غَداً مِنْ اَیّٰامِهِ''

٥۔َ''عَدَّ نَفْسَهُ فی الْمَوْتٰی''

زاہد ترین لوگوں کی چوتھی اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ آنے والے کل کو اپنی عمر میں شمار نہیں کرتے ہیں اور خود کو مردوں میں شما رکرتے ہیں۔

انسان کو فریضہ انجام دینے کی فکر میں ہونا چاہیے اور کبھی تلاش' کوشش اور سرگرمی سے ہاتھ نہیں کھینچنا چاہیے۔ یقیناً جو فریضہ انجام دینے کی فکر میں ہے وہ آرام طلب اور آسودہ نہیں رہ سکتا ہے' کیونکہ تلاش اور فعالیت آرام طلبی ،کاہلی کے درمیان مناسب نہیں ہے۔ جو اہل دنیا ہے' وہ آرام و آ سائش کے مسائل کی فکر میں ہوتا ہے' ایسے لوگوں کیلئے جب کسی فعالیت جستجو و تلاش بحث و مطالعہ نیز فرائض کی انجام دہی وقت آتا ہے' تو اس کی آرام طلب طبیعت اسے ان امور سے باز رکھتی ہے اور آج کے کام کو کل پرٹالنا ہے اور وہ تیار نہیں ہے اس کے آرام و آسائش میں کسی قسم کا خلل واقع ہو۔ حقیقت میں فرائض کو دوسرے دن تک تاخیر میں ڈالنا اس لئے ہوتا ہے کہ انسان اپنے لئے طولانی آرزوؤں کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ اپنی عمر کے آنے والے کل کے لئے انہیں انجام دے اسی لئے آج کے فرائض کو کل کی امید میں تاخیر میں کرتا ہے۔فطری بات ہے کہ ان طولانی دنوں تک پہنچنے کیلئے ایک طولانی عمر کی ضرورت ہے' اس لحاظ سے دنیا پرست طولانی عمر کے متمنی ہوتے ہیں اور یہ امر آرزو یا فریضہ کے تاخیر میں ہو جانے کا سبب ہے یا ناکامی کے ڈر سے سستی اور اضطراب سے دوچار ہوتا ہے.

زاہد اور دنیا سے بیزار شخص آج کے فریضہ کو آج ہی انجام دیتا ہے اور دنیا پرست کے برخلاف' آنے والے کل کو اپنی عمر کا حصہ نہیں جانتا تاکہ فرائض کو کل پر چھوڑ دے' کیونکہ اسے کل تک زندہ رہنے کا اطمینان نہیں ہے۔ اس کا یہ اعتقاد ہے کہ اگر کل تک زندہ بھی رہا تو' اس دن دوسرا فریضہ ہے جسے انجام دینا ہے۔

طولانی آرزو اور فرائض سے غفلت' تقویٰ و توکل کے ضعیف ہونے کی علامت:

جیسا کہ اشارہ کیا گیاہے کہ' بہت سے ایسے دل لوگ بہت ساری آرزورکھتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ اس دنیا میں سالہا سال زندہ رہیں' اس لئے اپنی فعالیت و سرگرمیوں کو مستقبل کی زندگی کے لئے انجام دیتے ہیں اور ہمیشہ آنے والے حوادثکے حوالے سے فکر مند ہیں۔ پریشان ہیں کہ اگر یونیورسٹی نہ جا سکے تو مناسب شغل اور آمدنی کے مالک بن سکیں گے یا نہیں۔ پریشان ہیں کہ مستقبل میں انپی زندگی کو منظم کر سکیں گے یا نہیں' البتہ ان کی یہ پریشانیاں تقویٰ و توکل کے فقدان کی وجہ سے ہے' ورنہ جو خدائے متعال پر توکل کرتا ہے اور اس کی نظر اللہ کی مہربانیوں اور عنایتوں پر ہوتی ہے وہ مستقبل کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتا' چونکہ وہ خدا کو تمام چیزوں کا مالک جانتا ہے۔اس کے علاوہ وہ جو اپنے آئندہ کے بارے میں فکر مند ہوتا ہے اسے کیا معلوم کہ اس کیلئے کوئی آئندہ ہے بھی کہ نہیں!

اسلام اور معارف دینی اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ انسان آج کے فرائض انجام دینے کی کوشش میں رہے اور کل کی فکر میں نہ کرے۔ کیونکہ کسی کو معلوم نہیں ہے کہ ایک گھنٹہ کے بعد زندہ رہے گا یا نہیں۔ البتہ مستقبل میں دنیا اور دنیوی لذتوں سے محروم ہونے کی فکر و پریشانی قابل مذمت ہے' ورنہ اگر انسان آج کے فریضہ کو انجام دینے کے بعد آئندہ کے احتمالی وظائف کے بارے میں منصوبہ بندی اور پروگرام مرتب کرے تو یہ نہ صرف یہ کہ ناپسندیدہ نہیں ہے بلکہ خود وظائف میں شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر تکلیف اور فریضہ مخصوص دن کیلئے ہوتا ہے اور اپنے وقت پر واجب ہوتا ہے' جیسے آج میرے لئے نماز واجب ہے کل کی نماز کے بارے میں میرا کوئی فریضہ نہیں ہے' اگر کل تک زندہ رہا تو کل کی نماز بھی میرے لئے واجب ہے کہ اسے بھی پڑھ لوں' اسی طرح دیگر تمام فرائض و تکالیف میں سے ہر ایک اپنے خاص زمانہ میں ہمارے لئے واجب قرار دی گئی ہے' اس سے پہلے ہم پر کوئی چیز فرض نہیں ہے۔

لہذازاہد کے لئے آئندہ کے بارے میں فکر مند رہنا یعنی یہ سوچنا کہ اس کی دنیا کاانجام کیا ہوگا' بے جا اور غیر معقول ہے' لیکن حتمی اور یقینی مستقبل اور قیامت کے سلسلہ میں پریشان و فکر مند رہنا معقول اور بجا ہے' کیونکہ قیامت سے کسی کو راہ فرار نہیں ہے' اگر آخرت کے انجام سے فرارکرنا ممکن ہوتا تو بعض لوگوں کے لئے خوشی کی بات تھی۔

خدائے متعال فرماتا ہے:

( یَا َیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اتَّقُو ﷲ وَلْتَنْظُرْ نَفْس مَاقَدَّمَتْ لِغَدٍ ) (حشر١٨)

''ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کیلئے کیا بھیجا ہے۔''

خدائے متعال کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ذخیرہ اندوزی سے اجتناب کرنے کی سفارش کی گئی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَرٍ!اِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ لَمْ یُوحِ اِلَیَّ اَنْ اَجْمَعَ الْمَالَ وَلٰکِنْ اَوْحٰی اِلَیَّ اَنْ سَبَّحَ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنَّ السَّاجِدِینَ و اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَا تِیَکَ الْیَقِینُ''

''اے ابوذر! اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے وحی نہیں کی ہے کہ میں مال جمع کروں، لیکن وحی کی ہے کہ تم اپنے پرور دگار کی حمدو تسبیح کرنے والوں اور سجدہ گزاروں میں شامل ہوجائو اور اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہنا جب تک موت نہ آجائے۔''

اگر مال اور ثروت اکٹھا کرنا مطلوب ہوتا تو یہ انسان کے لئے کمال و سعادت کا سبب ہوتا، نیز اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مال جمع کرنے کی تاکید کرتا لیکن خدائے متعال نے ہر گز ایسی سفارش نہیں کی ہے بلکہ انہیں تاکید کی ہے کہ موت کے لمحہ تک تسبیح اور خدا کی عبادت و بندگی میں مشغول رہیں۔

البتہ خدا کی عبادت و بندگی کے گونا گوں مظہر ہیں، کبھی عبادت انفرادی شکل میں مثلا، سحرخیزی اور واجبات و مستحبات کی انجام دہی کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی اجتماعی خدمات کی انجام دہی، علم حاصل کرنے، تعلیم، تبلیغ، اسلامی ثقافت کی نشرواشاعت غرض ہر اس چیز کی صورت میں ہوتی ہے جو انسان کے لئے فریضہ کے طور پر واجب ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عملی سیرت کی ایک جھلک:

جنھوں نے پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے لئے بہترین نمونہ اور اسوہ قرار دیا ہے، انہیں حتی الامکان سعی و کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی رفتار کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفتار کے مانند اور مشابہ قراردیں۔ اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کے بعد والے جملہ میں اپنی عملی سیرت کی ایک جھلک بیان فرماتے ہیں:

'' یَا اَبَاذَرٍ!اِنِّی اَلْبِسُ الغَلیظَ وَاَجْلِسُ عَلَی الْاَرْضِ وَاَلْعَقُ َصَابِعِی وَاَرْکَبُ الْحِمَارَ بِغَیرِ سَرْجٍ وَاَرْدِفُ خَلْفی فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتی فَلَیْسَ مِنِّی''

''اے ابوذر! میں کھردرا لباس پہنتا ہوں، زمین پر بیٹھتا ہوں، (کھانا کھانے کے بعد) اپنی انگلیوں کو چاٹتا ہوں اور بغیر زین کے گدھے پر سوار ہوتا ہوں اور کسی دوسرے شخص کو اپنے پیچھے سوار کرتا ہوں، جو بھی میری سنت سے منھ موڑ لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو قدرت تکوینیکے ذریعہ تمام دنیا کو اپنی اختیار میں رکھ سکتے ہیں وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مادی دنیا کے امکانات سے بقدر ضرورت استفادہ کرتے ہیں۔ اس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: ''جبرئیل نے زمین کے خزانوں کو میرے اختیار میں قرار دیا، لیکن میں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا۔'' حدیث کے اس حصہ میں قناعت، سادہ زندگی اور اپنے اجتماعی برتائو کے بارے میں واضح طور پر بیان فرماتے ہیں۔

چونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طرز زندگی برجستہ ترین مخلوق اور روحانی پیشوا کی حیثیت سے مسلمانوں حتی غیر مسلمانوں کے لئے بھی توجہ کا مرکز تھا، اسلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام حالات، رفتار، حتی زندگی کی جزئیات اور اجتماعی برتائو آس پاس کے لوگوں کے لئے باعث توجہ تھا۔ اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رفتار کے بارے میں بہت سے جزئیات زندگی ،اہل بیت، اصحاب، تابعین اور دیگر لوگوں نے نقل کئے ہیں۔ اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بھی اپنی زندگی کے بعض طور طریقوں کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ حدیث کے اس حصہ میں بھی اپنی زندگی کے شیوہ کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیرو آپ کی روش اور رفتار کو اپنے لئے نمونہ قرار دیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں کھردرے لباس پہنتا ہوں نرم و ملائم لباس نہیں پہنتا ہوں تاکہ آرام و آسود گی کا احساس کر وں۔ زمین پر بیٹھتا ہوں نہ فاخرہ اور قیمتی فرش پر نہیں کھانا کھانے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہاتھ سے کھانے کے پابند تھے اور کھانے کے بعد اپنی انگلیوں کو چاٹتے تھے۔ بغیر زین کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور ایک دوسرے شخص کو بھی اپنے پیچھے گدھے پر سوار کرتے تھے۔ اس بیان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تواضع اور کمال بندگی کا اندازہ ہوتاہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ایسے ماحول میں جہاں عیش پر ستی، استکبار اور غرور جیسی عادات رائج تھیں، اس طرح متواضع اور منکسر مزاج تھے کہ بغیر زین کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور انتہائی انکساری کے ساتھ دوسرے کو بھی اس پر سوار کرتے تھے!

اس کے مقابلہ میں ، ہم ان کی محبت اور پیروی کا دعویٰ کرنے والے اس فکر میں ہیں کہ اچھے لباس پہنیں، لذیذ کھانے کھائیں اور سر انجام اپنے لئے ایک آرام و آسودہ زندگی فراہم کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے لئے جدید ماڈل کی گراں قیمت گاڑیاں خریدیں اور زیادہ سے زیادہ دنیوی زینت و تجملات سے استفادہ کریں۔

قابل ذکر ہے کہ عصر حاضر میں اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ لوگوں کی معاشی زندگی کا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے مانند ہو، کیونکہ ہر زمانے کی سطح زندگی اور اقتصادی حالات دوسرے زمانے سے متفاوت ہوتے ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کی زندگی کے شرائط میں اہم ترقی کی ہے۔ دراصل اسلام کے ناقابل انکار قوانین اور اصولوں کی رعایت ضروری ہے اور ہر زمانے میں افرادکی حیثیت اور شان کے اعتبار سے معاشی زندگی کی سطح اور معیار کی رعایت کی جانی چاہیے اور تجمل پرستی،ا فزوں طلبی اور اسراف سے پرہیز کرنا چاہیے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ ( ترجمہ فیض الاسلام) کلام ١١٥،ص١١٤١

٢۔ نہج البلاغہ ( ترجمہ فیض الاسلام) کلام ٤٣٢،ص١٢٨٧۔

۳۔ المیزان ج ، ص ٣٣٠

حسیؑن ۔ فاتح مباہلہ

آیۂ مباہلہ:

( فمن حاجَّکَ فیه من بعد ما جاءَ ک من العلم فقل تعالوا ندعُ ابناء نا و ابنائَکم و نساء نا و نساء کم و أنفسنا و أنفسکم ثُمَّ نبتهل فنجعل لعنت الله علی الکاذبین )

سید الشہداء مظلوم کربلا وارث انبیاء صاحب ھل أتیٰ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنے والی آیات میں سے ایک آیہ مباہلہ ہے، جسے تمام فرق اسلامی نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

مباہلہ کا تاریخ ساز واقعہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی حقانیت کی بہترین دلیل ہے اور اپنی رسالت و دعوت اسلامی پر ایمان و یقین کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ اگر حضور سرور کائنات کو اپنی دعوت اسلامی پر ایمان کامل نہ ہوتا تو یہ واقعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تکذیب کیلئے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک مستحکم سند بن جاتا کیونکہ دو ہی صورتیں ممکن تھیں:

اول:

نصارائے نجران کی نفرین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق میں مستجاب ہوجاتی۔

دوم:

یا یہ کہ نہ نفرین نصاریٰ قبول ہوتی اور نہ ہی نفرین سرور کائنات بہرحال دونوں صورتوں میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعویٰ نبوت باطل ہوجاتا اور دنیا کا کوئی صاحب عقل بھی ایسا کام نہیں کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے دشمن اور مخالفین اس کی تکذیب کردیں۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے دعویٰ نبوت، استجابت دعا اور دشمن کی ہلاکت کا یقین کامل تھا اسی لئے کمال شجاعت کے ساتھ دشمن کو مباہلہ کی دعوت دے رہے تھے۔

حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہما السلام کو مباہلہ میں لیکر جانا ان کی عظمت و صداقت اور بلند مرتبہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہی حضرات بارگاہ خداوندی میں محبوب ترین اور مخلوق میں سب سے زیادہ لائق عزت و احترام ہیں۔

پس یہ آیہ کریمہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت، شرافت، کرامت اور صداقت کی بہترین دلیل ہے کہ پیغمبر گرامی قدر بحکم پروردگار تمام امت اسلامی میں سے انہیں، ان کے والدین اور ان کے بھائی کو منتخب کرتے ہیں۔

اگرچہ اکثر مفسرین و محدثین اور مورخین نے واقعہ مباہلہ کو بیان کیا ہے لیکن اس کے باوجود ذوق مطالعہ رکھنے والے حضرات کیلئے چند منابع کا ذکر کرنا مناسب ہے۔

مثلاً: تفسیر طبری، بیضاوی، نیشاپوری، تفسیر کشاف، درمنثور، اسباب النزول واحدی، اکلیل سیوطی، مصابیح السنة، سُنن ترمذی و دیگر کتب۔

واقعہ مباہلہ کےسلسلہ میں اہل سنت کے عظیم مفسر جناب فخر رازی نے اس آیہ کریمہ کے ذیل میں جو روایت نقل کی ہے اسے یہاں بیان کردینا بھی مناسب ہے۔

روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نصاریٰ نجران کو مختلف دلائل پیش کئے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور کسی طرح سر تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگ میری دلیل و حجت کو قبول نہیں کرتے تو پھر میں تم سے مباہلہ کروں!

انہوں نے کہا:

اے ابا القاسم ہمیں گھر لوٹ کر کچھ سوچنے اور غور وفکر کرنے کا موقع دیجئے پھر ہم آپ کو جواب دیں گے!

جب یہ لوگ واپس پلٹ کر آئے تو عیسائیوں میں جو بافہم اور صاحب نظر شخص “عاقب” تھا اس سے رجوع کیا اور کہا: اے عبدالمسیح تمہاری کیا رائے ہے؟

اس نے کہا: اے گروہ نصاریٰ! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ِمرسل ہیں اورانہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں حق بات کہی ہے۔خدا کی قسم اسکےباوجودتم لوگ ان کی بات ماننےکیلئےتیارنہیں ہواوراپنی ہٹ دھرمی پرقائم ہو۔اب اگرایسا ہی ہےتو ان سےکوئی مصالحت کرکےاپنےدیارکی طرف پلٹ جاؤ(ورنہ ذلّت ورسوائی اورتباہ وبربادی کےسوا کچھ ہاتھ نہ آئےگا)

جب آنحضرت گھرسےچلےتوسیاہ عبا دوش پرڈالی،حسیؑن کوگودمیں لیا،حسؑن کا ہاتھ پکڑا، فاطمہ زہرا علام اللہ علیہا پیچھےپیچھےاورعلؑی انکےپیچھےچلے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس اندازسےمباہلہ کیلئےپہنچےاوران سےفرمایا:جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا!

ادھرعیسائیوں کےبافہم اوربزرگ حضرات یہ منظردیکھ رہےتھے، انہوں نےعیسائیوں سےکہا:اےگروہ نصاریٰ!ہم ایسےچہرےدیکھ رہےہیں کہ اگروہ خداسےپہاڑکےچلنےکی درخواست کریں توخداضروراس کام کوانجام دیگا لہٰذا ایسی صورت میں ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرو ورنہ سب کے سب عیسائی نابود ہوجائیں گے اور پھر قیامت تک کے لیے عیسائیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

عیسائی ان کی بات سن کراجتماعی طور پر پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے اورکہنےلگے: اے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے،آپ اپنے دین پر رہیے(اورہم اپنے دین پر)۔

حضورسرورکائنات نے فرمایا: تو پھر میں تم سے جنگ کروں گا!

کہنےلگے:ہم آپ سےجنگ کی طاقت نہیں رکھتےلیکن آپ سےمصالحت کےلئےتیارہیں،مگرشرط یہ ہےکہ آپ ہم سےجنگ نہیں کریں اورہمیں ہمارے دین سے نہ نکالیں گے اور ہم اس کے بدلے آپ کو سالانہ دو ہزار لباس۔(ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں)۔ اور تیس عدد آہنی زرہ ادا کریں گے۔

سرکاررسالت فرماتے ہیں: خدا کی قسم ہلاکت و بربادی اہل نجران پر سایہ فگن تھی اگر یہ لوگ مباہلہ کرتےتو سب کےسب بندرولومڑی کی صورت میں مسخ ہوجاتے،آسمان سےان پرآگ برستی، خدا نجران و اہل نجران کوتباہ وبربادکردیتاحتیٰ کہ انکےدرختوں پربیٹھےہوئےپرندےاورایک سال کےاندرتمام نصاریٰ نابود ہوجاتے!

پس پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھ کر اہل نجران بغیرمباہلہ کیئے واپس پلٹ جاتے ہیں اور ان میں مقابلہ کی ہمت پیدا نہیں ہوتی گویا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ میرے اہل بیت علہم السلام ایسے ہیں کہ جنہیں دشمن اسلام دیکھ کر مقابلہ کی ہمت نہیں کرتا بلکہ بھیگی بلی کی طرح دم دبا کر خاموشی سے نکل جاتا ہے۔

پس یادرکھناچاہیےکہ جس طرح پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاتح مباہلہ ہیں حسین علیہ السلام بھی اسی طرح فاتح مباہلہ ہیں اگر ہم زندگی کے ہر مرحلہ میں انہیں اپنا راہنما اور نمونہ حیات قرار دیں تو کبھی نہ دشمن کے سامنے قدم ڈگمگائیں گے اور نہ ہی کبھی زندگی میں ناکام ہوں گے۔

قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کا فرزندرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونا

سوال کیاجاتاہےکہ قرآن کریم کی کس آیت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام فرزندرسول کہلائےجاتےہیں؟

جواب:

آیۂ مباہلہ ہی وہ آیت ہےجسکےذریعے امام حسین علیہ السلام فرزندسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہلائےجاتے ہیں۔شیعہ مفسرین ومحدثین نےتصریح کی ہےکہ یہاں ''أبناء نا''امام حسن وحسین علیہ السلام سےمخصوص ہے۔

ورنہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کوبھی اپنےساتھ لےجاتے۔اور یہ بھی ناممکن تھاکہ پیغمبراگرتنہاچلےجاتےیاحسنین کےعلاوہ کسی اورکولےجاتےاوردعاکرتے تودعا قبول نہ ہوتی۔بلکہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دعاکرتےتویقیناًدعاءقبول ہوتی اورسارے عیسائی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتے۔ لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شاید اسی حکمت کے تحت حضرات حسنؑین کو لیکر جارہے تھے تاکہ آیت کے مطابق امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کا فرزند رسول ہونا بھی ثابت ہوجائے نہ فقط ثابت ہوجائے بلکہ انہی مقدس حضرات میں فرزندیت محدود ہوجائے اور پھر کوئی غیر، فرزند رسول ہونے کا دعویٰ نہ کرسکے۔

شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کتاب شریف احقاق الحق میں فرماتے ہیں:

''اجمع المفسّرون علٰی أنَّ ''أبناء نَا '' اشارة اِلی الحسن والحسین، و ''نِسَاء نَا'' اِلی فاطمة و ''أنفسَنا'' اشارَة اِلی علی ۔''

مفسّرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ''ابناء نا'' سے مراد حسن و حسین، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔

شہید کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امر پر شیعہ و سنی مفسرین کا اجماع ہے۔ اس کے علاوہ شہید جلد سوم و نہم یعنی ملحقات احقاق الحق میں ایک سو پچاس سے زیادہ اہل سنت کی معروف کتب کے نام بیان کرتے ہیں جن میں تفسیر فخر رازی جیسی مختلف راویوں سے روایات نقل کی گئی ہیں۔

(قاضی نورالله شوستری، ج٣، ص ٦٢۔ ٤٦ و ملحقات احقاق الحق ج١٠، ص ٩١۔ ٧٠)

واحدی، کتاب اسباب النزول میں فخر رازی جیسی روایت نقل کرتے ہوئے شعبی سے نقل کرتے ہیں:

''أبناء نا: الحسن و الحسین، ونساء نا: فاطمه، و أنفسنا: علی ابن ابی طالب''

(واحدی، اسباب النزول، ص ٥٩)

''ابناء نا'' سےمرادحسن وحسین ، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

امام حسین علیہ السلام مصداق ذوی القربی

آیۂ مودّت:

( قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى )

(سوره شوریٰ آیه ٢٣)

امام حسین علیہ السلام کی عظمت و رفعت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیۂ کریمہ ہے۔

احمد بن حنبل اپنی ''مسند'' میں اور ابو نعیم حافظ، ثعلبی، طبرانی، حاکم نیشاپوری، رازی، شبراوی، ابن حجر، زمخشری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، سیوطی اور دیگر علماء اہل سنت حضرات نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی تو لوگ پیغمبرکے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ کے قرابت دار جن کی مودت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے کون ہیں؟

سرورکائنات نےارشادفرمایا: علی وفاطمہ علیہما السلام اورانکےدونوں بیٹے۔

(احیاء المیت، ج٢؛ الاتحاف، ص ٥؛ صواعق ص ١٦٨؛ الأکلیل، ص ١٩١؛ الغدیر ج٢ ، ص٣٠٧؛ خصائص المبین، ج٥ ، ص ٥٢ تا ٥٥؛ عمدہ ابن بطریق، ف ٩ ، ص ٢٣ تا ٢٥)

شیخ شمس الدین ابن عربی نے آیت و روایت کے مفہوم کو بہت ہی خوبصورت انداز میں نظم کیا ہے:

رَأَیتُ وَلَائی آلَ طَه فَرِیضَةًعلیٰ زَغْمِ أهْلِ الْبُعْدِ یُورِثُنِی القُربیٰ فَمَا طَلَبَ المَبْعُوثُ أَجْراً علیٰ الهُدیٰ بِتَبْلِیغِه اِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُرْبیٰ

(صواعق، ص ١٧٠؛ اسعاف الراغبین، ١١٩)

شافعی کہتے ہیں:

یَاأهلَ البَیْتِ رَسُولِ اللّٰه حُبُّکُم فَرَض مِنَ اللّٰه فی القرآن کریمِ أنْزَلَه ُکَفَا کُمْ مِن عظیم القدرأَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُم لَاصلواةلَهُ

(نظم در رالسمطین، ص ١٨؛ اسعاف الراغبین، ص ١٢١؛ الاتحاف ص ٢٩؛ صواعق، ص١٤٨)

''اے اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر نماز میں کوئی آپ پر صلوات نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوسکتی۔''

امام حسیؑن مصداق اولی الامر

آیہ اولی الامر:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ )

(سورئہ نساء، ٥٩)

اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔''

اس آیۂ کریمہ میں( أُوْلِي الأَمْرِ ) سےمرادمعصوم امام ہی ہیں کہ پروردگارعالم وحضورسرورکائنات(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کی طرف سےانسانی معاشرےکی مادّی ومعنوی رہبری کی ذمہ داری انہی کےسپردکی گئی ہے۔کیونکہ

اولاً: کلمہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) نام خدا کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور بغیر کسی قید و شرط کے ان کی اطاعت کو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا( أُوْلِي الأَمْرِ ) کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح معصوم ہونا چاہیے کیونکہ اگرمعصوم نہ ہونگے تو بجائے ہدایت و رہنمائی کے گمراہی کا سبب بن جائیں گے۔

ثانیاً: متعدد شیعہ منابع اور بعض منابع اہل سنت بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ”أُوْلِي الأَمْرِ“ سے مراد امام معصوم ہیں حتیٰ کہ بعض روایات میں ایک ایک امام کا نام صراحت سے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ جناب جابربن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ:

جب آیہ( أَطِيعُواْ اللّهَ ) نازل ہوئی تو میں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ہم نے خداا و رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) جن کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ قرار دی گئی ہے یہ کون ہیں؟

فرمایا: اے جابر! یہ میرے بعد میرے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں جن میں پہلے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کے بعد ان کے فرزند حسن پھر حسین، پھر علی بن الحسین ، پھر محمد بن علی علیہ السلام جنہیں توریت میں باقرکہاگیاہے اور تم انہیں عنقریب درک کرو گے جب تم ان سے ملاقات کرو تو انہیں میراسلام پہنچا دینا۔ان کے بعد صادق، جعفر بن محمد، پھر موسیٰ بن جعفر، پھر علی بن موسیٰ پھر محمد بن علی پھرعلی بن محمدپھرحسن بن علی(علیہم السلام)پھرآخری امام عجل اللہ جومیرےہمنام ہیں اور جو میری کنیت (ابو القاسم) ہے وہ ہی ان کی کنیت ہے۔ وہ زمین پر حجت خدا اور بقیة الله ہیں۔ حسن بن علی کے فرزند وہی ہیں جن کے ذریعے خدا مشرق و مغرب تک پورے عالم میں اپنے نام کا سکہ چلا دے گا۔

(تفسیر نمونه، ج٣، ص ٤٣٥۔ ٤٤٤؛ المیزان ج٤، ص ٤٠٩؛ ینابیع المودة، ج١، ص ٣٤١۔ ٣٥١؛ البرهان فی تفسیر القرآن کریم؛ تفسیر نورالثقلین، ذیل آیهٔ، ٥٩سوره نساء)

امام حسیؑن مصداق شہداء

( وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا )

(نساء، آيه٦٩)

اور جو بھی اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جس پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفیق ہیں۔

جناب امّ سلمہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:

( الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ ) '' میں ہوں،( الصِّدِّيقِينَ ) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام،( الشُّهَدَاء ) سے مراد حسن و حسین علیہما السلام،( الصَّالِحِينَ ) سے مراد حمزہ اور( حَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا ) سے مراد میرے بعد بارہ امام ہیں۔

(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ١٨٣؛ علامه مجلسی، بحار،ج، ۳۴ ، ص ۳۴۷ ، ح٢١٤؛ بحرانی، البرهان، ج١،ص ٣٩٢ ، ح٣)

امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں

( وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

(سوره زخرف ، آيه٢٨)

اور انہوں نے اس پیغام کو اپنی نسل میں ایک کلمہ باقیہ قراردیدیا کہ شاید وہ لوگ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔

ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:

جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهْلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ “۔

پروردگار نے حسین علیہ السلام کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔

پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت﷩ ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامه مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩۔)

سورہ فجر اور امام حسین علیہ السلام

سورہ فجر حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے خود سورہ کا مضمون اور اس کے بارے میں نقل ہونے والی روایات اس کی وضاحت کررہی ہیں۔ سورہ کی ابتداء میں ہم متعدد قسموں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مثلاً: فجر کی قسم، دس راتوں کی قسم، طاق و جفت کی قسم و۔۔۔ یہ قسمیں مذکورہ چیزوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والی آیات میں ذکر ہونے والے جباروں کیلئے تہدید بھی ہے۔

ان قسموں کے ذکر کے بعد سرکش اقوام جیسے قوم ثمود ، عاد و فرعون اور ان پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ سنن الٰہی میں سے ایک سنت ہے کہ جب کوئی قوم سرکشی پر کمر باندھ لیتی ہے اور ظلم وستم حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو خداوند ان کی ہلاکت و نابودی کے اسباب فراہم کردیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت موسیٰ کو فرعون اور فرعونیوں کے ہاتھوں سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔

اس تذکرے کے بعد انسان کی آزمائش اور اس کی انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سورہ کے آخر میں اس عظیم المرتبت شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو رضائے الٰہی اور نفس مطمئنہ کی منزل پر فائز ہے۔

اس مفہوم و مطلب پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت اس کا بہترین مصداق ہیں، کیونکہ انہوں نے موسیٰ کلیم اللہ کی طرح دین خدا کی نابودی و بربادی کے لئے کمربستہ بنو امیہ کے تسلط و حکمرانی کو نیست و نابود کردیا اور خونی انقلاب و قیام کرکے ظلم و ستم کی سیاہی پر فجر ایمان و عقیدہ و آزادی نمودار کردی۔

بنابریں اگر بنی امیہ کی حکومت کو شام مرگ و تیرگی ظلمت شمار کیا جائے تو یاد رکھیئے قیام حسینی و خون شہدائے کربلا اس فجر عظیم کا نام ہے کہ جس نے تاریکی ظلمت کو شگافتہ کرکے فجر بیداری عطا کی ہے۔

علاوہ بر ایں حضرت امام حسین علیہ السلام ہی صاحب نَفْسُ الْمُطْمَئِنَّه ہیں اور انہوں نے کربلا میں اپنے عظیم کردار سے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے شاید یہ بھی اس سورہ کے امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کی ایک علت ہوسکتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت نقل کی گئی ہے:

''ہر واجب و مستحب نمازمیں سورہ فجر پڑھا کرو کیونکہ یہ سورہ حسین بن علی علیہ السلام ہے۔۔۔ ابو اسامہ نے کہا: کس طرح یہ سورہ امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ فرمایا: کیا تم نے

( يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة )

نہیں سنا؟ اس آیت سے امام حسین علیہ السلام ہی مراد ہیں۔ وہ ہی صاحب نفس مطمئنہ اور راضیہ و مرضیہ کی منزل پر ہیں ۔ ان کے ساتھی بھی رسالت کے پیروکار ہیں وہ قیامت کے دن خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا۔

(بحار الانوار، ج٣٦، ص ١٣١)

نوک نیزہ پر تلاوت قرآن کریم

اکثر اہل قلم کے مطابق سرمظلوم کربلا نوک نیزہ پر سورہ کہف کی آیت نمبر ٩ کی تلاوت کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔

زید ابن ارقم کا کہنا ہے: میں نے سر مبارک کی طرف دیکھا تو وہ نوک نیزہ پر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کررہا تھا:

( أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا )

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب اور تعجب خیز نشانی تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ ماجرا تو اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔

(ارشاد، ج٢، ص ١١٦)

یہ واقعہ پڑھ کر کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مظلوم کے سر نے سورہ کہف کی اس آیت کا انتخاب کیوں کیا تھا؟

شاید ان آیات کے انتخاب کی علت یہ رہی ہو کہ امام ان آیات کی تلاوت سے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہوں کہ شاید تم لوگ داستان اصحاب کہف کو عجیب سمجھتے ہو کہ کس طرح انہوں نے اپنے دین و ایمان کے تحفظ کی خاطر ترک وطن کیا اور غار میں پناہ لے لی۔

نہیں، اس سے زیادہ عجیب ہماری داستان ہے کیونکہ ہم اپنے زمانے کے ستمگر اور ظالم کے مدّمقابل ڈٹ گئےہم نے انکے خلاف قیام کیا حتیٰ کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی جہاد میں لیکر آگئے۔

شہادت امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کا گریہ

جس وقت کربلا میں امام حسین علیہ السلام کوتین دن کاپیاساشہیدکیا گیا تو کیا زمین وآسمان خون کےآنسوروئےتھے؟آسمان سےخون برسااورزمین نےخون اگلنا شروع کردیا تھا؟ یا یہ صرف ایک شاعرانہ بات ہے؟

متعدد روایات میں سورہ دخان کی ٢٩ ویں آیت میں زمین و آسمان کے خون بار گریہ کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے پرتطبیق کیا گیا ہے۔ ذیل میں آیت اور اس کے مفہوم اور زمین و آسمان کے گریہ کے معنی بیان کئے جارہے ہیں۔

فَما بَکَتْ علیهم السمَّاءُ والأرضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِینَ

تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہیں آیا اور نہ ہی انہیں مہلت ہی دی گئی۔

فرعونیوں کی بدبختی یہ تھی کہ جب ان کے عذاب کے دن آگئے تو انہیں ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی گئی اور دریائے نیل میں غرق کردیئے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کی علامت یہ ہے کہ ان کے مٹ جانے پر زمین و آسمان میں کوئی تاثر پیدا نہ ہوا جبکہ ان کا خیال تھا کہ ہم مرجائیں گے تو قیامت آجائے گی اور بات بھی صحیح تھی کیونکہ وہ فرعون کو خدا سمجھ رہے تھے اور ”خدا“ کے مرجانے کے بعد کائنات کے باقی رہنے کا کیا سوال ہوتا تھا۔ لیکن قدرت نے واضح کردیا کہ باطل خدا بھی بن جائے تو اس کے مرنے پر زمین و آسمان میں کوئی تغیّر پیدا نہیں ہوتا۔

آیت اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ان پر نہ زمین نے گریہ کیا نہ آسمان نے اس لئے کہ ان کا وجود دنیا کیلئے خباثت سے بھرپور تھا گویا جہان ہستی و عالم بشریت سے انہیں کوئی ربط نہ تھا اسی لئے ان کے غرق ہونے کے بعد کسی نے ان کی جگہ خالی ہونے کا احساس تک نہ کیا۔ نہ زمین و آسمان نے اور نہ ہی کسی انسان نے، اس لئے کسی نے ایک قطرہ اشک تک ان پر بہانا گوارا نہ کیا۔

ہاں کوئی بندہ پروردگار راہ خدا میں کام آجائے تو اس کی شہادت پر زمین بھی رو سکتی ہے اور آسمان بھی گریہ کرسکتا ہے جیسا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔ کہ بیت المقدس کی زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے خون تازہ جوش مار رہا تھا اور یہی حال آسمان کا بھی تھا کہ اس سے خون کی بارش ہورہی تھی۔

تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع نقل کئے گئے ہیں جہاں صاحبان ایمان و اخلاص کے مرنے پر زمین و آسمان میں تاثرات کا اظہار ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی سب سے بالاتر تھی تو اس کا اثر بھی سب سے زیادہ ہوا اور کربلا سے بیت المقدس تک ساری زمین متاثر ہوگئی اور شاید یہ بھی شہادت کی ایک معراج ہے کہ اس کے اثرات مسجد الاقصیٰ تک پہنچ جائیں اور زمین و آسمان میں ایک زلزلہ پیدا ہوجائے۔

بہرحال شیعہ کتب ہوں یا کتب اہل سنت مزید منابع اہل سنت کے لئے فضائل پنجتن در صحاح ستہ کا مطالعہ کریں)

(اقبال الاعمال، ص ٥٤٥؛ بحار الانوار، ج ١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣؛ ج٤٥ ص ٢١٠۔ ٢١١) (مقتل الحسین، ج٢، ص ٨٩۔ ٩٠ )

دونوں نے ان روایات کو نقل کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر زمین و آسمان نے گریہ کیا، آسمان سے خون کی بارش ہوئی اور جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے خون تازہ پایا جاتا تھا۔

اس واقعہ میں زمین و آسمان کے گریہ کے بارے میں چند معنی بیان کئے گئے ہیں۔

الف: یہ اس دن کی شدت مصائب کی طرف کنایہ ہے۔

ب: ممکن ہے کہ یہ کنایہ نہ ہو بلکہ اس دن کے مصائب کی شدت نے زمین و آسمان میں کوئی فزیکل تبدیلی پیدا کی ہو جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ: آسمان سوائے یحی ابن ذکریا و حسین بن علی علیہ السلام کے کسی پر نہیں رویا اور اس کا گریہ آسمان کی سرخی ہے(جو کہ اس وقت شدید سرخ ہوگیا تھا)

(بحار الانوار ج١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣)

ج: روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعبیر، کنایہ نہیں ہے اور فقط آسمان سرخ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ واقعاً آسمان سے خون برس رہا تھا اور زمین خون سے رنگین ہوئی تھی۔

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دن رونما ہونے والا یہ واقعہ حوادث ملکوتی میں سے ہو اور ہر طرف خون موجود ہو لیکن تمام لوگ اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں بلکہ خاص افراد ہی اسے دیکھ سکتے ہوں۔

امام حسین علیہ السلام مظلوم

جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب ”مظلوم“ مشہور ہے بلکہ یہ لقب امام حسین علیہ السلام کے نام کے ساتھ اتنا کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب لفظ ”مظلوم کربلا“ زبان پر آتا ہے یا کانوں سے سنائی دیتا ہے تو فوراً ذہن میں امام حسین علیہ السلام ہی کا نام آجاتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ کبھی کبھی سوال ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بھی امام حسین علیہ السلام کا یہ لقب ثابت کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن کریم میں موجود ہر خشک و تر کو وہ ہی بیان کرسکتا ہے جسے قرآن کریم کا پورا علم ہو، قرآن کریم میں کلّی احکامات کو بیان کیا گیا ہے جبکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام مفسر و مبیّن قرآن کریم ہیں۔ انہی کے فرمودات کے مطابق ہم ایسی آیات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن میں مظلومیت کا تذکرہ موجود ہے اور اہلبیت علیہم السلام نے ان کی تفسیر بیان کی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے اس مشہور و معروف لقب کی زیارت نامہ ، دعاؤوں اور احادیث میں بے حد تاکید کی گئی ہے مثلاً زیارت اربعین میں آیا ہے :

السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيد “

(تهذیب، ج٦، ص ١١٣؛ مفاتیخ الجنان، ص ٨٤٨؛ بحار الانوار، ج٤٤، ص٢١٨۔ ٢١٩۔ ٢٩٨؛ ج٥١ ص ٣٠؛ ینابیع المودّة، ج٣، ص ٢٤٣؛ تاویل الآیات الظاهرة فی فضائل العترة الطاهرة ج١، ص ٢٨٠)

بعض مفسرین نے بھی روایات کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض آیات کو امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا ہے؛ مثلاً

١۔( سَیَعْلَمُ الذینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ )

(سورہ شعراء، آيه٢٢٧)

عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔

٢۔( ومَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَاناً )

(سورہ اسراء، آيه٣٣)

جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلے کا اختیار دیدیتے ہیں۔ یہ آیت لوگوں کے خون کو محترم اور ان کے قتل کی شدید حرمت بیان کرتے ہوئے متوجہ کررہی ہے

کہ خبردار کسی کو مظلومانہ قتل نہ کرنااگر کسی نے ایسا کیا تو یاد رکھو ان کے ولی اور وارث کےلئے حق قصاص ثابت و مسلم ہے۔ روایت میں یہ مفہوم شہادت امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا گیا ہے۔ کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا:

''هُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قُتِلَ مَظْلُوماً وَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُهُ وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَيْن‏''

اس سےمرادحسین علیہ السلام ہیں جومظلومانہ قتل کئےگئےہیں اورہم ان کےوارث ہیں اورہمارے قائم(حجة بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالی فرجھم)ان کے انتقام کیلئے قیام کریں گے۔

(تفسیر نور الثقلین، ج٤، ص ١٨٢)

حسیؑن ۔ فاتح مباہلہ

آیۂ مباہلہ:

( فمن حاجَّکَ فیه من بعد ما جاءَ ک من العلم فقل تعالوا ندعُ ابناء نا و ابنائَکم و نساء نا و نساء کم و أنفسنا و أنفسکم ثُمَّ نبتهل فنجعل لعنت الله علی الکاذبین )

سید الشہداء مظلوم کربلا وارث انبیاء صاحب ھل أتیٰ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنے والی آیات میں سے ایک آیہ مباہلہ ہے، جسے تمام فرق اسلامی نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

مباہلہ کا تاریخ ساز واقعہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی حقانیت کی بہترین دلیل ہے اور اپنی رسالت و دعوت اسلامی پر ایمان و یقین کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کہ اگر حضور سرور کائنات کو اپنی دعوت اسلامی پر ایمان کامل نہ ہوتا تو یہ واقعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تکذیب کیلئے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک مستحکم سند بن جاتا کیونکہ دو ہی صورتیں ممکن تھیں:

اول:

نصارائے نجران کی نفرین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق میں مستجاب ہوجاتی۔

دوم:

یا یہ کہ نہ نفرین نصاریٰ قبول ہوتی اور نہ ہی نفرین سرور کائنات بہرحال دونوں صورتوں میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعویٰ نبوت باطل ہوجاتا اور دنیا کا کوئی صاحب عقل بھی ایسا کام نہیں کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے دشمن اور مخالفین اس کی تکذیب کردیں۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے دعویٰ نبوت، استجابت دعا اور دشمن کی ہلاکت کا یقین کامل تھا اسی لئے کمال شجاعت کے ساتھ دشمن کو مباہلہ کی دعوت دے رہے تھے۔

حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین علیہما السلام کو مباہلہ میں لیکر جانا ان کی عظمت و صداقت اور بلند مرتبہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہی حضرات بارگاہ خداوندی میں محبوب ترین اور مخلوق میں سب سے زیادہ لائق عزت و احترام ہیں۔

پس یہ آیہ کریمہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت، شرافت، کرامت اور صداقت کی بہترین دلیل ہے کہ پیغمبر گرامی قدر بحکم پروردگار تمام امت اسلامی میں سے انہیں، ان کے والدین اور ان کے بھائی کو منتخب کرتے ہیں۔

اگرچہ اکثر مفسرین و محدثین اور مورخین نے واقعہ مباہلہ کو بیان کیا ہے لیکن اس کے باوجود ذوق مطالعہ رکھنے والے حضرات کیلئے چند منابع کا ذکر کرنا مناسب ہے۔

مثلاً: تفسیر طبری، بیضاوی، نیشاپوری، تفسیر کشاف، درمنثور، اسباب النزول واحدی، اکلیل سیوطی، مصابیح السنة، سُنن ترمذی و دیگر کتب۔

واقعہ مباہلہ کےسلسلہ میں اہل سنت کے عظیم مفسر جناب فخر رازی نے اس آیہ کریمہ کے ذیل میں جو روایت نقل کی ہے اسے یہاں بیان کردینا بھی مناسب ہے۔

روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نصاریٰ نجران کو مختلف دلائل پیش کئے اور وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور کسی طرح سر تسلیم خم کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تم لوگ میری دلیل و حجت کو قبول نہیں کرتے تو پھر میں تم سے مباہلہ کروں!

انہوں نے کہا:

اے ابا القاسم ہمیں گھر لوٹ کر کچھ سوچنے اور غور وفکر کرنے کا موقع دیجئے پھر ہم آپ کو جواب دیں گے!

جب یہ لوگ واپس پلٹ کر آئے تو عیسائیوں میں جو بافہم اور صاحب نظر شخص “عاقب” تھا اس سے رجوع کیا اور کہا: اے عبدالمسیح تمہاری کیا رائے ہے؟

اس نے کہا: اے گروہ نصاریٰ! تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ِمرسل ہیں اورانہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں حق بات کہی ہے۔خدا کی قسم اسکےباوجودتم لوگ ان کی بات ماننےکیلئےتیارنہیں ہواوراپنی ہٹ دھرمی پرقائم ہو۔اب اگرایسا ہی ہےتو ان سےکوئی مصالحت کرکےاپنےدیارکی طرف پلٹ جاؤ(ورنہ ذلّت ورسوائی اورتباہ وبربادی کےسوا کچھ ہاتھ نہ آئےگا)

جب آنحضرت گھرسےچلےتوسیاہ عبا دوش پرڈالی،حسیؑن کوگودمیں لیا،حسؑن کا ہاتھ پکڑا، فاطمہ زہرا علام اللہ علیہا پیچھےپیچھےاورعلؑی انکےپیچھےچلے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس اندازسےمباہلہ کیلئےپہنچےاوران سےفرمایا:جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا!

ادھرعیسائیوں کےبافہم اوربزرگ حضرات یہ منظردیکھ رہےتھے، انہوں نےعیسائیوں سےکہا:اےگروہ نصاریٰ!ہم ایسےچہرےدیکھ رہےہیں کہ اگروہ خداسےپہاڑکےچلنےکی درخواست کریں توخداضروراس کام کوانجام دیگا لہٰذا ایسی صورت میں ان سے ہرگز مباہلہ نہ کرو ورنہ سب کے سب عیسائی نابود ہوجائیں گے اور پھر قیامت تک کے لیے عیسائیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

عیسائی ان کی بات سن کراجتماعی طور پر پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے اورکہنےلگے: اے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے،آپ اپنے دین پر رہیے(اورہم اپنے دین پر)۔

حضورسرورکائنات نے فرمایا: تو پھر میں تم سے جنگ کروں گا!

کہنےلگے:ہم آپ سےجنگ کی طاقت نہیں رکھتےلیکن آپ سےمصالحت کےلئےتیارہیں،مگرشرط یہ ہےکہ آپ ہم سےجنگ نہیں کریں اورہمیں ہمارے دین سے نہ نکالیں گے اور ہم اس کے بدلے آپ کو سالانہ دو ہزار لباس۔(ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں)۔ اور تیس عدد آہنی زرہ ادا کریں گے۔

سرکاررسالت فرماتے ہیں: خدا کی قسم ہلاکت و بربادی اہل نجران پر سایہ فگن تھی اگر یہ لوگ مباہلہ کرتےتو سب کےسب بندرولومڑی کی صورت میں مسخ ہوجاتے،آسمان سےان پرآگ برستی، خدا نجران و اہل نجران کوتباہ وبربادکردیتاحتیٰ کہ انکےدرختوں پربیٹھےہوئےپرندےاورایک سال کےاندرتمام نصاریٰ نابود ہوجاتے!

پس پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھ کر اہل نجران بغیرمباہلہ کیئے واپس پلٹ جاتے ہیں اور ان میں مقابلہ کی ہمت پیدا نہیں ہوتی گویا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ میرے اہل بیت علہم السلام ایسے ہیں کہ جنہیں دشمن اسلام دیکھ کر مقابلہ کی ہمت نہیں کرتا بلکہ بھیگی بلی کی طرح دم دبا کر خاموشی سے نکل جاتا ہے۔

پس یادرکھناچاہیےکہ جس طرح پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاتح مباہلہ ہیں حسین علیہ السلام بھی اسی طرح فاتح مباہلہ ہیں اگر ہم زندگی کے ہر مرحلہ میں انہیں اپنا راہنما اور نمونہ حیات قرار دیں تو کبھی نہ دشمن کے سامنے قدم ڈگمگائیں گے اور نہ ہی کبھی زندگی میں ناکام ہوں گے۔

قرآن کریم کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کا فرزندرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونا

سوال کیاجاتاہےکہ قرآن کریم کی کس آیت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام فرزندرسول کہلائےجاتےہیں؟

جواب:

آیۂ مباہلہ ہی وہ آیت ہےجسکےذریعے امام حسین علیہ السلام فرزندسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہلائےجاتے ہیں۔شیعہ مفسرین ومحدثین نےتصریح کی ہےکہ یہاں ''أبناء نا''امام حسن وحسین علیہ السلام سےمخصوص ہے۔

ورنہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کوبھی اپنےساتھ لےجاتے۔اور یہ بھی ناممکن تھاکہ پیغمبراگرتنہاچلےجاتےیاحسنین کےعلاوہ کسی اورکولےجاتےاوردعاکرتے تودعا قبول نہ ہوتی۔بلکہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دعاکرتےتویقیناًدعاءقبول ہوتی اورسارے عیسائی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجاتے۔ لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شاید اسی حکمت کے تحت حضرات حسنؑین کو لیکر جارہے تھے تاکہ آیت کے مطابق امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کا فرزند رسول ہونا بھی ثابت ہوجائے نہ فقط ثابت ہوجائے بلکہ انہی مقدس حضرات میں فرزندیت محدود ہوجائے اور پھر کوئی غیر، فرزند رسول ہونے کا دعویٰ نہ کرسکے۔

شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کتاب شریف احقاق الحق میں فرماتے ہیں:

''اجمع المفسّرون علٰی أنَّ ''أبناء نَا '' اشارة اِلی الحسن والحسین، و ''نِسَاء نَا'' اِلی فاطمة و ''أنفسَنا'' اشارَة اِلی علی ۔''

مفسّرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ''ابناء نا'' سے مراد حسن و حسین، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔

شہید کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امر پر شیعہ و سنی مفسرین کا اجماع ہے۔ اس کے علاوہ شہید جلد سوم و نہم یعنی ملحقات احقاق الحق میں ایک سو پچاس سے زیادہ اہل سنت کی معروف کتب کے نام بیان کرتے ہیں جن میں تفسیر فخر رازی جیسی مختلف راویوں سے روایات نقل کی گئی ہیں۔

(قاضی نورالله شوستری، ج٣، ص ٦٢۔ ٤٦ و ملحقات احقاق الحق ج١٠، ص ٩١۔ ٧٠)

واحدی، کتاب اسباب النزول میں فخر رازی جیسی روایت نقل کرتے ہوئے شعبی سے نقل کرتے ہیں:

''أبناء نا: الحسن و الحسین، ونساء نا: فاطمه، و أنفسنا: علی ابن ابی طالب''

(واحدی، اسباب النزول، ص ٥٩)

''ابناء نا'' سےمرادحسن وحسین ، ''نساء نا'' سے مراد فاطمہ زہرا اور ''أنفسنا'' سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

امام حسین علیہ السلام مصداق ذوی القربی

آیۂ مودّت:

( قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى )

(سوره شوریٰ آیه ٢٣)

امام حسین علیہ السلام کی عظمت و رفعت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک یہ آیۂ کریمہ ہے۔

احمد بن حنبل اپنی ''مسند'' میں اور ابو نعیم حافظ، ثعلبی، طبرانی، حاکم نیشاپوری، رازی، شبراوی، ابن حجر، زمخشری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، سیوطی اور دیگر علماء اہل سنت حضرات نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی تو لوگ پیغمبرکے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ کے قرابت دار جن کی مودت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے کون ہیں؟

سرورکائنات نےارشادفرمایا: علی وفاطمہ علیہما السلام اورانکےدونوں بیٹے۔

(احیاء المیت، ج٢؛ الاتحاف، ص ٥؛ صواعق ص ١٦٨؛ الأکلیل، ص ١٩١؛ الغدیر ج٢ ، ص٣٠٧؛ خصائص المبین، ج٥ ، ص ٥٢ تا ٥٥؛ عمدہ ابن بطریق، ف ٩ ، ص ٢٣ تا ٢٥)

شیخ شمس الدین ابن عربی نے آیت و روایت کے مفہوم کو بہت ہی خوبصورت انداز میں نظم کیا ہے:

رَأَیتُ وَلَائی آلَ طَه فَرِیضَةًعلیٰ زَغْمِ أهْلِ الْبُعْدِ یُورِثُنِی القُربیٰ فَمَا طَلَبَ المَبْعُوثُ أَجْراً علیٰ الهُدیٰ بِتَبْلِیغِه اِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُرْبیٰ

(صواعق، ص ١٧٠؛ اسعاف الراغبین، ١١٩)

شافعی کہتے ہیں:

یَاأهلَ البَیْتِ رَسُولِ اللّٰه حُبُّکُم فَرَض مِنَ اللّٰه فی القرآن کریمِ أنْزَلَه ُکَفَا کُمْ مِن عظیم القدرأَنَّکُمْ مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُم لَاصلواةلَهُ

(نظم در رالسمطین، ص ١٨؛ اسعاف الراغبین، ص ١٢١؛ الاتحاف ص ٢٩؛ صواعق، ص١٤٨)

''اے اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آپ کی قدر و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر نماز میں کوئی آپ پر صلوات نہ پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوسکتی۔''

امام حسیؑن مصداق اولی الامر

آیہ اولی الامر:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ )

(سورئہ نساء، ٥٩)

اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔''

اس آیۂ کریمہ میں( أُوْلِي الأَمْرِ ) سےمرادمعصوم امام ہی ہیں کہ پروردگارعالم وحضورسرورکائنات(صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کی طرف سےانسانی معاشرےکی مادّی ومعنوی رہبری کی ذمہ داری انہی کےسپردکی گئی ہے۔کیونکہ

اولاً: کلمہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) نام خدا کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور بغیر کسی قید و شرط کے ان کی اطاعت کو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا( أُوْلِي الأَمْرِ ) کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح معصوم ہونا چاہیے کیونکہ اگرمعصوم نہ ہونگے تو بجائے ہدایت و رہنمائی کے گمراہی کا سبب بن جائیں گے۔

ثانیاً: متعدد شیعہ منابع اور بعض منابع اہل سنت بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ”أُوْلِي الأَمْرِ“ سے مراد امام معصوم ہیں حتیٰ کہ بعض روایات میں ایک ایک امام کا نام صراحت سے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ جناب جابربن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ:

جب آیہ( أَطِيعُواْ اللّهَ ) نازل ہوئی تو میں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ہم نے خداا و رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ( أُوْلِي الأَمْرِ ) جن کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ قرار دی گئی ہے یہ کون ہیں؟

فرمایا: اے جابر! یہ میرے بعد میرے جانشین اور مسلمانوں کے امام ہیں جن میں پہلے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کے بعد ان کے فرزند حسن پھر حسین، پھر علی بن الحسین ، پھر محمد بن علی علیہ السلام جنہیں توریت میں باقرکہاگیاہے اور تم انہیں عنقریب درک کرو گے جب تم ان سے ملاقات کرو تو انہیں میراسلام پہنچا دینا۔ان کے بعد صادق، جعفر بن محمد، پھر موسیٰ بن جعفر، پھر علی بن موسیٰ پھر محمد بن علی پھرعلی بن محمدپھرحسن بن علی(علیہم السلام)پھرآخری امام عجل اللہ جومیرےہمنام ہیں اور جو میری کنیت (ابو القاسم) ہے وہ ہی ان کی کنیت ہے۔ وہ زمین پر حجت خدا اور بقیة الله ہیں۔ حسن بن علی کے فرزند وہی ہیں جن کے ذریعے خدا مشرق و مغرب تک پورے عالم میں اپنے نام کا سکہ چلا دے گا۔

(تفسیر نمونه، ج٣، ص ٤٣٥۔ ٤٤٤؛ المیزان ج٤، ص ٤٠٩؛ ینابیع المودة، ج١، ص ٣٤١۔ ٣٥١؛ البرهان فی تفسیر القرآن کریم؛ تفسیر نورالثقلین، ذیل آیهٔ، ٥٩سوره نساء)

امام حسیؑن مصداق شہداء

( وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا )

(نساء، آيه٦٩)

اور جو بھی اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جس پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفیق ہیں۔

جناب امّ سلمہؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:

( الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ ) '' میں ہوں،( الصِّدِّيقِينَ ) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام،( الشُّهَدَاء ) سے مراد حسن و حسین علیہما السلام،( الصَّالِحِينَ ) سے مراد حمزہ اور( حَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا ) سے مراد میرے بعد بارہ امام ہیں۔

(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ١٨٣؛ علامه مجلسی، بحار،ج، ۳۴ ، ص ۳۴۷ ، ح٢١٤؛ بحرانی، البرهان، ج١،ص ٣٩٢ ، ح٣)

امامت نسل امام حسین علیہ السلام میں

( وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

(سوره زخرف ، آيه٢٨)

اور انہوں نے اس پیغام کو اپنی نسل میں ایک کلمہ باقیہ قراردیدیا کہ شاید وہ لوگ خدا کی طرف پلٹ آئیں۔

ابو ہریرہ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:

جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي عَقِبِ الْحُسَيْنِ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ تِسْعَةٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ وَ مِنْهُمْ مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ مُبْغِضاً لِأَهْلِ بَيْتِي دَخَلَ النَّارَ “۔

پروردگار نے حسین علیہ السلام کی نسل میں امامت کو قرار دیا ہے اور ان کے صلب سے نو امام آئیں گے جن میں آخری مہدی (عج) ہوں گے۔

پھر فرمایا: اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان خدا کی عبادت کرتا ہوا مرجائے اور اس کے دل میں بغض اہل بیت﷩ ہو تو یقینا جہنم واصل ہوگا۔(قمی رازی، کفایة الاثر، ص ٧٦؛ علامه مجلسی، بحار، ٣٦، ص٣١٥، ح١٦٠؛ بحرانی، البرهان، ج٤، ص١٤٠، ح٩۔)

سورہ فجر اور امام حسین علیہ السلام

سورہ فجر حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے خود سورہ کا مضمون اور اس کے بارے میں نقل ہونے والی روایات اس کی وضاحت کررہی ہیں۔ سورہ کی ابتداء میں ہم متعدد قسموں کا مشاہدہ کرسکتے ہیں مثلاً: فجر کی قسم، دس راتوں کی قسم، طاق و جفت کی قسم و۔۔۔ یہ قسمیں مذکورہ چیزوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والی آیات میں ذکر ہونے والے جباروں کیلئے تہدید بھی ہے۔

ان قسموں کے ذکر کے بعد سرکش اقوام جیسے قوم ثمود ، عاد و فرعون اور ان پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ سنن الٰہی میں سے ایک سنت ہے کہ جب کوئی قوم سرکشی پر کمر باندھ لیتی ہے اور ظلم وستم حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو خداوند ان کی ہلاکت و نابودی کے اسباب فراہم کردیتا ہے؛ جیسا کہ حضرت موسیٰ کو فرعون اور فرعونیوں کے ہاتھوں سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذریعہ قرار دیا۔

اس تذکرے کے بعد انسان کی آزمائش اور اس کی انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سورہ کے آخر میں اس عظیم المرتبت شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو رضائے الٰہی اور نفس مطمئنہ کی منزل پر فائز ہے۔

اس مفہوم و مطلب پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت اس کا بہترین مصداق ہیں، کیونکہ انہوں نے موسیٰ کلیم اللہ کی طرح دین خدا کی نابودی و بربادی کے لئے کمربستہ بنو امیہ کے تسلط و حکمرانی کو نیست و نابود کردیا اور خونی انقلاب و قیام کرکے ظلم و ستم کی سیاہی پر فجر ایمان و عقیدہ و آزادی نمودار کردی۔

بنابریں اگر بنی امیہ کی حکومت کو شام مرگ و تیرگی ظلمت شمار کیا جائے تو یاد رکھیئے قیام حسینی و خون شہدائے کربلا اس فجر عظیم کا نام ہے کہ جس نے تاریکی ظلمت کو شگافتہ کرکے فجر بیداری عطا کی ہے۔

علاوہ بر ایں حضرت امام حسین علیہ السلام ہی صاحب نَفْسُ الْمُطْمَئِنَّه ہیں اور انہوں نے کربلا میں اپنے عظیم کردار سے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے شاید یہ بھی اس سورہ کے امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کی ایک علت ہوسکتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت نقل کی گئی ہے:

''ہر واجب و مستحب نمازمیں سورہ فجر پڑھا کرو کیونکہ یہ سورہ حسین بن علی علیہ السلام ہے۔۔۔ ابو اسامہ نے کہا: کس طرح یہ سورہ امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ فرمایا: کیا تم نے

( يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة )

نہیں سنا؟ اس آیت سے امام حسین علیہ السلام ہی مراد ہیں۔ وہ ہی صاحب نفس مطمئنہ اور راضیہ و مرضیہ کی منزل پر ہیں ۔ ان کے ساتھی بھی رسالت کے پیروکار ہیں وہ قیامت کے دن خدا سے راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہوگا۔

(بحار الانوار، ج٣٦، ص ١٣١)

نوک نیزہ پر تلاوت قرآن کریم

اکثر اہل قلم کے مطابق سرمظلوم کربلا نوک نیزہ پر سورہ کہف کی آیت نمبر ٩ کی تلاوت کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔

زید ابن ارقم کا کہنا ہے: میں نے سر مبارک کی طرف دیکھا تو وہ نوک نیزہ پر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کررہا تھا:

( أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا )

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب اور تعجب خیز نشانی تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا یہ ماجرا تو اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔

(ارشاد، ج٢، ص ١١٦)

یہ واقعہ پڑھ کر کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مظلوم کے سر نے سورہ کہف کی اس آیت کا انتخاب کیوں کیا تھا؟

شاید ان آیات کے انتخاب کی علت یہ رہی ہو کہ امام ان آیات کی تلاوت سے لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہوں کہ شاید تم لوگ داستان اصحاب کہف کو عجیب سمجھتے ہو کہ کس طرح انہوں نے اپنے دین و ایمان کے تحفظ کی خاطر ترک وطن کیا اور غار میں پناہ لے لی۔

نہیں، اس سے زیادہ عجیب ہماری داستان ہے کیونکہ ہم اپنے زمانے کے ستمگر اور ظالم کے مدّمقابل ڈٹ گئےہم نے انکے خلاف قیام کیا حتیٰ کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی جہاد میں لیکر آگئے۔

شہادت امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کا گریہ

جس وقت کربلا میں امام حسین علیہ السلام کوتین دن کاپیاساشہیدکیا گیا تو کیا زمین وآسمان خون کےآنسوروئےتھے؟آسمان سےخون برسااورزمین نےخون اگلنا شروع کردیا تھا؟ یا یہ صرف ایک شاعرانہ بات ہے؟

متعدد روایات میں سورہ دخان کی ٢٩ ویں آیت میں زمین و آسمان کے خون بار گریہ کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے پرتطبیق کیا گیا ہے۔ ذیل میں آیت اور اس کے مفہوم اور زمین و آسمان کے گریہ کے معنی بیان کئے جارہے ہیں۔

فَما بَکَتْ علیهم السمَّاءُ والأرضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِینَ

تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہیں آیا اور نہ ہی انہیں مہلت ہی دی گئی۔

فرعونیوں کی بدبختی یہ تھی کہ جب ان کے عذاب کے دن آگئے تو انہیں ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی گئی اور دریائے نیل میں غرق کردیئے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کی علامت یہ ہے کہ ان کے مٹ جانے پر زمین و آسمان میں کوئی تاثر پیدا نہ ہوا جبکہ ان کا خیال تھا کہ ہم مرجائیں گے تو قیامت آجائے گی اور بات بھی صحیح تھی کیونکہ وہ فرعون کو خدا سمجھ رہے تھے اور ”خدا“ کے مرجانے کے بعد کائنات کے باقی رہنے کا کیا سوال ہوتا تھا۔ لیکن قدرت نے واضح کردیا کہ باطل خدا بھی بن جائے تو اس کے مرنے پر زمین و آسمان میں کوئی تغیّر پیدا نہیں ہوتا۔

آیت اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ فرعونیوں کے غرق ہونے کے بعد ان پر نہ زمین نے گریہ کیا نہ آسمان نے اس لئے کہ ان کا وجود دنیا کیلئے خباثت سے بھرپور تھا گویا جہان ہستی و عالم بشریت سے انہیں کوئی ربط نہ تھا اسی لئے ان کے غرق ہونے کے بعد کسی نے ان کی جگہ خالی ہونے کا احساس تک نہ کیا۔ نہ زمین و آسمان نے اور نہ ہی کسی انسان نے، اس لئے کسی نے ایک قطرہ اشک تک ان پر بہانا گوارا نہ کیا۔

ہاں کوئی بندہ پروردگار راہ خدا میں کام آجائے تو اس کی شہادت پر زمین بھی رو سکتی ہے اور آسمان بھی گریہ کرسکتا ہے جیسا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔ کہ بیت المقدس کی زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے خون تازہ جوش مار رہا تھا اور یہی حال آسمان کا بھی تھا کہ اس سے خون کی بارش ہورہی تھی۔

تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع نقل کئے گئے ہیں جہاں صاحبان ایمان و اخلاص کے مرنے پر زمین و آسمان میں تاثرات کا اظہار ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی سب سے بالاتر تھی تو اس کا اثر بھی سب سے زیادہ ہوا اور کربلا سے بیت المقدس تک ساری زمین متاثر ہوگئی اور شاید یہ بھی شہادت کی ایک معراج ہے کہ اس کے اثرات مسجد الاقصیٰ تک پہنچ جائیں اور زمین و آسمان میں ایک زلزلہ پیدا ہوجائے۔

بہرحال شیعہ کتب ہوں یا کتب اہل سنت مزید منابع اہل سنت کے لئے فضائل پنجتن در صحاح ستہ کا مطالعہ کریں)

(اقبال الاعمال، ص ٥٤٥؛ بحار الانوار، ج ١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣؛ ج٤٥ ص ٢١٠۔ ٢١١) (مقتل الحسین، ج٢، ص ٨٩۔ ٩٠ )

دونوں نے ان روایات کو نقل کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر زمین و آسمان نے گریہ کیا، آسمان سے خون کی بارش ہوئی اور جس پتھر کو بھی زمین سے اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے خون تازہ پایا جاتا تھا۔

اس واقعہ میں زمین و آسمان کے گریہ کے بارے میں چند معنی بیان کئے گئے ہیں۔

الف: یہ اس دن کی شدت مصائب کی طرف کنایہ ہے۔

ب: ممکن ہے کہ یہ کنایہ نہ ہو بلکہ اس دن کے مصائب کی شدت نے زمین و آسمان میں کوئی فزیکل تبدیلی پیدا کی ہو جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ: آسمان سوائے یحی ابن ذکریا و حسین بن علی علیہ السلام کے کسی پر نہیں رویا اور اس کا گریہ آسمان کی سرخی ہے(جو کہ اس وقت شدید سرخ ہوگیا تھا)

(بحار الانوار ج١٤، ص ١٨٢۔ ١٨٣)

ج: روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعبیر، کنایہ نہیں ہے اور فقط آسمان سرخ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ واقعاً آسمان سے خون برس رہا تھا اور زمین خون سے رنگین ہوئی تھی۔

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دن رونما ہونے والا یہ واقعہ حوادث ملکوتی میں سے ہو اور ہر طرف خون موجود ہو لیکن تمام لوگ اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں بلکہ خاص افراد ہی اسے دیکھ سکتے ہوں۔

امام حسین علیہ السلام مظلوم

جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے القاب میں سے ایک لقب ”مظلوم“ مشہور ہے بلکہ یہ لقب امام حسین علیہ السلام کے نام کے ساتھ اتنا کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب لفظ ”مظلوم کربلا“ زبان پر آتا ہے یا کانوں سے سنائی دیتا ہے تو فوراً ذہن میں امام حسین علیہ السلام ہی کا نام آجاتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ کبھی کبھی سوال ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بھی امام حسین علیہ السلام کا یہ لقب ثابت کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اس میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن کریم میں موجود ہر خشک و تر کو وہ ہی بیان کرسکتا ہے جسے قرآن کریم کا پورا علم ہو، قرآن کریم میں کلّی احکامات کو بیان کیا گیا ہے جبکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام مفسر و مبیّن قرآن کریم ہیں۔ انہی کے فرمودات کے مطابق ہم ایسی آیات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن میں مظلومیت کا تذکرہ موجود ہے اور اہلبیت علیہم السلام نے ان کی تفسیر بیان کی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے اس مشہور و معروف لقب کی زیارت نامہ ، دعاؤوں اور احادیث میں بے حد تاکید کی گئی ہے مثلاً زیارت اربعین میں آیا ہے :

السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيد “

(تهذیب، ج٦، ص ١١٣؛ مفاتیخ الجنان، ص ٨٤٨؛ بحار الانوار، ج٤٤، ص٢١٨۔ ٢١٩۔ ٢٩٨؛ ج٥١ ص ٣٠؛ ینابیع المودّة، ج٣، ص ٢٤٣؛ تاویل الآیات الظاهرة فی فضائل العترة الطاهرة ج١، ص ٢٨٠)

بعض مفسرین نے بھی روایات کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض آیات کو امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا ہے؛ مثلاً

١۔( سَیَعْلَمُ الذینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ )

(سورہ شعراء، آيه٢٢٧)

عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔

٢۔( ومَنْ قُتِلَ مَظلوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَاناً )

(سورہ اسراء، آيه٣٣)

جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلے کا اختیار دیدیتے ہیں۔ یہ آیت لوگوں کے خون کو محترم اور ان کے قتل کی شدید حرمت بیان کرتے ہوئے متوجہ کررہی ہے

کہ خبردار کسی کو مظلومانہ قتل نہ کرنااگر کسی نے ایسا کیا تو یاد رکھو ان کے ولی اور وارث کےلئے حق قصاص ثابت و مسلم ہے۔ روایت میں یہ مفہوم شہادت امام حسین علیہ السلام پر تطبیق کیا گیا ہے۔ کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا:

''هُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قُتِلَ مَظْلُوماً وَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُهُ وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَيْن‏''

اس سےمرادحسین علیہ السلام ہیں جومظلومانہ قتل کئےگئےہیں اورہم ان کےوارث ہیں اورہمارے قائم(حجة بن الحسن العسکری عجل اللہ تعالی فرجھم)ان کے انتقام کیلئے قیام کریں گے۔

(تفسیر نور الثقلین، ج٤، ص ١٨٢)


15

16

17

18

19

20

21

22