سولھواں سبق
مال ومنصب سے لگائو کا خطرہ اور
قناعت وسادہ زندگی کی ستائش
*دنیا، مقصدہے یا وسیلہ
*ملامت کی گئی دنیا
*فقیر مومنینآسانی سے وارد بہشت ہوں گے
*قناعت اور سادہ زندگی کی ستائش اور طمع ولالچ کی سرزنش
*دنیا سے دوری اور اس کی بے اعتنائی کی ستائش
مال و منصب سے لگاؤ کا خطرہ اورقناعت و سادہ زندگی کی ستائش
''یَا اَبَاذَرٍ: حُبُ الْمَاِل وَ الشَّرَفِ اَذْهَبُ لِدینِ الرَّجُلِ مِنْ ذِئْبَینِ ضٰارِیَیْنِ فِی زَرْیبهِ الْغَنَمِ فَاَغَارٰا فیهَا حَتّٰی َصْبَحٰا فَمَاذٰا اَبْقَیٰا مِنْهٰا قٰالَ؛ قُلْتُ: یَا رَسُولَ ﷲ؛ اَلْخَائِفُونَ الْخَاضِعُونَ الْمُتَواضِعُونَ الذّٰکِرُونَ ﷲ کَثٰیراً اَهُمْ یَسْبِقُونَ النَّاسَ اِلَی الْجَنَّة؟
فَقَالَ: لاٰ وَلٰاٰکِنْ فُقَرَائُ الْمُسْلِمینَ فَاِنَّهُمْ یَتَخَطَّوْنَ رِقٰابَ النَّاسِ' فَیَقُولُ لَهُمْ خَزَنَةُ الْجَنَّةِ کَمٰا اَنْتُمْ حَتیّٰ تُحَاسَبُوا' فَیَقُولُونَ بِمَ نُحَاسَبُ فَوَﷲ مٰا مَلَکَنٰا فَنَجُورَ وَ نَعْدِلَ وَلاٰ اَفیضَ عَلَیْنٰا فَنَقْبِضَ وَنَبْسُطَ وَلٰکِنَّا عَبَدْنَا رَبَّنَا حَتّٰی دَعٰانٰا فَاَجَبْنَا
یَا اَبَاذَرٍ؛ اِنَّ الدُّنْیٰا مَشْغِلَة لِلْقُلُوبِ وَالْاَبْدَانِ وَاِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ سٰائِلُنَا عَمَّا نَعَّمَنَا فی حَلاَلِهِ فَکَیْفَ بِمٰا نَعَّمَنٰا فی حَرٰامِه
یَا اَبَاذَرٍّ؛ اِنِّی قَدْ دَعَوْتُ ﷲ جَلَّ ثَنَاوُهُ اَنْ یَجْعَلَ رِزْقَ مَنْ یُحِبُّنی الْکَفٰافَ وَ َنْ یُعْطِیَ مَنْ یُبْغِضُنی کَثْرَةَ الْمَالِ وَ الْوَلَدِ
یَا اَبَاذَرٍّ؛ طُوبٰی لِلزَّاهِدٰینَ فِی الدُّنْیٰا الرَّاغِبینَ فی الْآخِرَةِ الَّذینَ اتَّخَذُوا اَرْضَ ﷲ بِسٰاطاً وَتُرَابَهٰا فِرَاشاً وَ مَائَهَا طیباً وَاتَّخَذُواکِتَابَ ﷲ شِعَاراً وَ دُعَائَ هُ دِثاراً یَقْرِضُونَ الدُّنْیٰا قَرضاً
یَا اَبَاذَرٍ؛ حَرثُ الْآخِرةِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ وَ حَرْثُ الدُّنْیٰا الْمَالُ وَالْبَنُونَ''
دنیا مقصد ہے یا وسیلہ:
قرآن مجید کے نقطہ نظر کے مطابق اگر دنیا نہ ہوتی تو آخرت بھی نہ ہوتی۔ ہم اپنی آخرت کی زندگی کو اپنے اختیاری اعمال و رفتار کے ذریعہ دنیا میں بناتے ہیں، چنانچہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ پس اگر دنیا نہ ہوتی تو کوئی بہشت میں داخل نہیں ہوتا، کیونکہ بہشت کی نعمتیں دنیا کے اعمال کی جزا و پاداش ہیں۔ کرامات، فضائل اور اخروی مقامات انہی اعمال اور تلاش و کوششوں کا نتیجہ ہیں جنہیں انسان دنیا میں انجام دیتا ہے، پس دنیا داری کی کافی قدر و منزلت ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ، جب دنیا اس قدر اہمیت اور قدر و منزلت کی حامل ہے تو، کیوں روایتوں میں اس کی اتنی مذمت اور سرزنش کی گئی ہے؟
اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیے: دنیا کی زندگی، اس لحاظ سے کہ خدائے حکیم کی مخلوق ہے، کوئی عیب نہیں رکھتی ہے۔ بنیادی طور پر دنیوی زندگی کا نظام بہترین نظام اور انتہائی استحکام و جمال کا حامل ہے۔ اس بنا پر اصلی و اساسی مشکل کا سراغ لگانے کے لئے کہیں اور جستجو کرنا چاہیے۔ آیات و روایات میں تھوڑے سے غور وخوض کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اساسی مشکل اور عیب انسان کے دنیا سے رابطہ کی کیفیت اور برتاؤ کے طریقہ میں ہے۔ کیونکہ یہ انسان کا دنیا سے برتائو اور رابطہ کی کیفیت ہے جو اس کے مستقبل کے لئے اسے مفید یا مضر، بااہمیت یا بے اہمیت، اچھا یا برا بنا سکتی ہے۔ انسان کے برتائو، رفتار، زندگی اور انسان کے آئندہ کے سلسلہ میں سواء چند موارد کے کہ جو جبری تزاحم کے نتیجہ میں بعض نقائص و برائیوں کے وجود میں آنے کا سبب ہے دنیا پر کو نسا اعتراض کیا جاسکتا ہے؟ باوجود اس کے کہ ان نقائص و برائیوں کا دنیا کی خیر و برکات اور فراواں کمالات کا مواز نہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
لہذا، واضح ہوگیا کہ سرزنش اور اعتراض دنیا کے بارے میں انسان کا عقیدہ اوراس سے رابطہ کے طریقہ میں ہے۔ وہ رابطہ جو دنیا کواصالت کا درجہ دیتے ہیں اور دنیا کی نسبت مادی نقطہ نظر کے پیش نظر پیدا ہوتا ہے، ان لوگوں کا اعتقاد ہے جو گمان کرتے ہیں کہ دنیا کی زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی کا وجود نہیں ہے، لیکن حقیقت میں یہ گمان باطل ہے اور اس نقطہ نگاہ سے دنیا کو دیکھنا ایک ایسی خطا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کے اعمال و رفتار میں بیشمار خطائیں اور غلطیاںوجود میں آسکتی ہیں۔
لہذا دنیا کے بارے میں ہمیں اپنے عقیدہ و نظریہ کی تصحیح کرنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ انسان کی زندگی دنیا کی زندگی تک محدود اور منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے ماورا اس کی ایک ابدی زندگی بھی موجود ہے۔ جب انسان دنیا کو ایک گزر گاہ قراردے گا، نہ اصلی اور آخری مقصد، تو فطری بات ہے کہ اسے زندگی کے وسائل اور مال و ثروت جو کمال تک پہنچنے کے لئے ضروری ہیںانھیں اپنے لئے فراہم کرنا چاہیے۔ اس صورت میں غذا، لباس، گھر، گاڑی، پیسے، مال اور ریاست یہ ساری چیزیں مقدمہ اور وسیلہ شمار ہوں گی، نہ اصلی مقصد لیکن اگر انہیں اصلی ہدف و مقصد قرار دیا جائے نہ وسیلہ و مقدمہ تو وہ انسان کے لئے کمال اور آخری مقصد تک پہنچنے میں رکاوٹ بنیں گے، اسی لئے ان کی مذمت اور سرزنش کی گئی ہے۔
ملامت کی گئی دنیا
مذکورہ بیانات کے پیش نظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال وثروت، مقام و منصب سے دلچسپی اور لگائو کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''یَا اَبَاذَرٍ: حُبُّ الْمَاِل وَ الشَّرَفِ اَذْهَبُ لِدینِ الرَّجُلِ مِنْ ذِئْبَینِ ضٰارِیَیْنِ فِی زَرْیبةِ الْغَنَمِ فَاَغَارٰا فیهَا حَتّٰی َصْبَحٰا فَمَاذٰا اَبْقَیٰا مِنْهٰا''
اے ابوذر! مال وثروت ،جاہ و منصب کی محبت، انسان کے دین پر، بھیڑوں کے ایک ریوڑ پر دو خونخوار بھیڑیوں کے حملہ سے زیادہ صدمہ پہنچاتے ہیں، جو رات کے وقت حملہ کرتے ہیں معلوم نہیں کل تک کتنے بھیڑ زندہ بچیں گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے اور امت کو دنیا پرستی اور جاہ و مقام کی وابستگی کے خطرہ سے ڈرانے کے لئے، دنیا پرستی جاہ طلبی کو دو ایسے خونخوار بھیڑیئے سے تشبیہ دیتے ہیں جو ایک محدود جگہ پر موجودہ بھیڑوں کے ریوڑ پر حملہ آور ہوتے ہیں اور رات بھر صبح ہونے تک چیر پھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ فطری بات ہے جب ایک بھیڑیا ایک ریوڑ پر حملہ کر تا ہے تو ایک بھیڑ پرقناعت نہیں کرتا ہے بلکہ سبھی کو ٹکڑے ٹکڑیکر دیتا ہے اور اس کے بعد ان کے کھانے میں مشغول ہوجاتا ہے، اب اگر دو خونخوار بھیڑیے ایک ریوڑ پر حملہ کریں توکیا کسی بھیڑ کو زندہ باقی رکھیں گے؟
دنیا پرستی اور جب ریاست کا انسان کے دین اور اخلاقی اقدار پر خطرہ دو خونخوار بھیڑیوں کے بھیڑوں پر حملہ کرنے سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ دنیا اور ریاست کی محبت انسان کی انسانی اور معنوی ہویت اور اس کے دین کو نابود کر کے رکھ دیتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جن سے انسان کی حقیقی شخصیت اور حیات وابستہ ہے۔
(حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیانات کا مضمون مستفیض بلکہ متواتر ہے اور مختلف عبارتوں میں نقل ہوا ہے۔ حتی اصول کافی میں مال و ریاست کی محبت کی مذمت میں ایک الگ باب مخصوص کیا گیا)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان مبالغہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انتباہ کی صورت میں مسلمانوں کے لئے بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے لئے تاریخی تجربہ بھی تائید کرتا ہے۔ صدر اسلام سے آج تک جتنے بھی ظلم اسلام کے خلاف ہوئے ہیں ان کی جڑ مال و ریاست پرستی تھی، کیونکہ جو انسان مال دنیاا ور ریاست کا شیدا ئی ہو دین کے لئے اس کا ضرر ہر دشمن سے زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت کو اس کے مرکز سے ہٹانا اور اسے غضب کرنا، جابر اور باطل حکومتوں کا استمرار اور تمام وحشیانہ حملہ جو اسلام کے پیکر پر واردہوئے ہیں ان کا سرچشمہ مال دنیا اور اقتدار کی محبت تھی، لہذا دین کے لئے مال وا قتدار کی محبت کے خطرات کے پیش نظر ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے اور جب تک ہم جو ان ہیں اور ابھی دنیا پرستی اور اقتدار پرستی نے ہم میں اثر پیدا نہیں کیا ہے، ان دونوں کے ساتھ مبارزہ کریں اور اجازت نہ دیں کہ وہ ہمارے دلوں میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں ۔ اگر ہم کسی مال کو حاصل کریں ، تو ضرورت کی حد تک اس سے استفادہ کریں اور باقی مال کو حاجتمندوں اور محتاج رشتہ داروں و دوستوں میں تقسیم کردیں۔ کوشش کریں کہ جس مال سے محبت رکھتے ہیں اسے دوسروں کو بخش دیں،کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے:
(
لَنْ تَنَالُو الْبِرَّحَتیّٰ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ
)
(آل عمران٩٢)
''تم ہرگز نیکیوں کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے ہو جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کروگے۔''
(بیشک انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے وہ محبت اور قلبی لگائو ( راہ خدا میں ) انفاق کرنے سے مانع ہوتا ہے )
جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کا مشابہ اقتدار اور ریاست پرستی کے ساتھ مبارزہ میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی انسان کسی اقتدار پر فائز ہو تو اسے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں دوسروں پر برتری، فرمانروائی اور حکمرانی کا جذبہ پیدا نہ ہو بلکہ اسے گمنا م صورت میں خدمت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور شہرت، لوگوں میں محبوبیت اور مقام کا متمنی نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اقتدار پرستی کا خطرہ ان کے لئے نہیں ہے جو کسی مقام پر نہیں پہنچے ہیں یہ ان لوگوں سے مربوط ہے جن کے لئے جاہ و مقام کے مواقع فراہم ہوئے ہیں اور اپنے دین کو زبردست خطرہ میں قرار دے چکے ہیں۔
فقیر مومنین، آسانی سے وارد بہشت ہوں گے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مال و اقتدار پر ستی کے خطرہ کو گوش گزار فرمایا تو جناب ابوذر نے سوال کیا:
''یا رسول ﷲ الخائفون الخاضعون المتواضعون الذاکرون ﷲ کثیراً أهم یسبقون الناس الی الجنة؟''
اے اللہ کے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
! کیا خداترس، فروتن، خاضع اور ذکر خدا بجالا نے والے لوگ بہشت میں جانے کے سلسلہ میں دوسروں پر سبقت حاصل کریں گے؟
جناب ابوذر، یہ سمجھنے کے بعد کہ، مال و اقتدار سے محبت رکھنے والے ہلاک ہوجائیں گے، سوچتے ہیں کہ خدا سے ڈرنے والے اور متواضع لوگ بہشت میں پہلے داخل ہونے والے ہوں گے، اس لئے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سوال کرتے ہیں اور آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
ان کے نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''ولکن فقراء المسلمین فانهم یتخطّون رقاب الناس فیقول لهم خزنة الجنة کماأنتم حتی تحاسبوا' فیقولون بم نحاسب فوﷲ ماملکنا فنجورُدونعدل ولاافیض علینا فنقبض ونبسط ولکنّا عبدناربّنا حتی دعانا فاجبنا''
''مفلس اور نادار مسلمان لوگوں کے شانوں پر قدم رکھتے ہوئے بہشت کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ اس وقت بہشت کے خزانہ دار کہیں گے: اپنی جگہ پر ٹھہرو تاکہ تمہارا حساب لیا جائے۔ وہ جواب دیں گے: ہم سے کیوں حساب لیا جائے گا، خدا کی قسم ہمارے ہاتھ میں کوئی حکومت نہیں تھی تاکہ بخشش کر کے انصاف کو جاری کرتے۔ ہمیں اپنی ضرورت سے زیادہ مال و ثروت نہیں دی گئی تھی کہ کسی کو بخشتے یا بخل کرتے۔ بلکہ ہم نے خدائے متعال کی عبادت کی ہے اور آخر میں حق کی دعوت کو لبیک کہا ہے۔''
تعجب کی بات ہے کہ اس کے باوجود کہ معارف دینی میں خضوع، خشوع اور ذکر خدا بجالا نے والے اقدار کی تعریف کی گئی ہے، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاضع، متواضع اور ذکر خدا بجالا نے والے افراد کو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہونے والوں کی حیثیت سے تعارف نہیں فرماتے بلکہ فرماتے ہیں: بہشت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے مفلس و ناداری کے عالم میں اپنے دین کی حفاظت کی ہو اور کوشش، جہاد، مبارزہ یا علم حاصل کرنے سے پشیمان نہ ہوئے ہوں۔ وہ لوگوں کے شانوں پر قدم رکھ کر بہشت کی طرف روانہ ہوجائیں گے، گویا وہ پرواز کرنا چاہتے ہیں۔ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ: ٹھہرو تاکہتمھارا حساب لیا جائے، تو جواب میں کہتے ہیں: ہمارے ہاتھ میں نہ کوئی حکومت تھی اور نہ مشغلولیت تھی تاکہ لوگوں کے ساتھ نرمی کرتے یا انصاف اور عدالت کو قائم کرتے ہمارے پاس پیسے نہیں تھے کہ انفاق کرتے یا بخل کرتے۔ جوکام ہم نے انجام دیا وہ خدا کی بندگی اور عبادت تھی جس میں ہم نے کو تا ہی نہیں کی۔
جی ہاں !ان کے پاس دولت نہ تھی کہ اسراف، فضول خرچی اور دوسروں کی مدد کرنے میں کوتاہی سے کام لیتے۔ اس لحاظ سے ان کے اعمال کے محاسبہ میں طولانی وقت صرف نہیں ہوگا، چونکہ اگر ان کے پاس دولت ہوتی اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے تو بھی ان کے محاسبہ میں طولانی وقت صرف ہوتا۔
انسان کے دین کو درپیش دنیا اور مال و اقتدار پرستی کے خطرہ کی مذمت کے پیش نظر، پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا بیان ان لوگوں کے لئے تسلّی بخش ہے جن کے پاس مال دولت نہیں ہے یا تعلیم حاصل کرنے یا دشمن سے جہاد اور مبارزہ جیسے فرائض انجام دینے کی وجہ سے دنیا سے بہرہ مند نہیں کر سکتے ہیں۔ سچ ہے کہ اگر انسان کے پاس مال و دولت ہو تو وہ اسے راہ خدا میں انفاق کر ے نیز دوسروں کی مدد اور اسلام کی خدمت انجام دے، لیکن جو علم حاصل کرنے یا محاذ جنگ پر حاضر ہونے کی وجہ سے مال و دولت جمع کرنے اور اسے راہ خدا میں خرچ کرنے سے محروم ہے، وہ ایک ایسے مقام و منزلت پر فائز ہوتا ہے کہ جو مقام مال و دولت کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں سے بلند تر ہے، چونکہ مالدار اپنے مال کو خرچ کرتا ہے لیکن طالب علم اور محاذ جنگ پر جانے والا مجاہد، اپنی ہستی اور آرام و آسائش کو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور جن اقدار کو ایسا شخص حاصل کرتا ہے وہ دوسروں کی حاصل کر دہ چیزوں سے بلند تر ہے۔
جب انسان جنگ کے خاتمہ پر خالی ہاتھ محاذ جنگ سے واپس آتا ہے اور دیکھتا ہے جنہوں نے جنگ و جہاد میں شرکت نہیں کی تھی انھوں نے اپنے لئے بہت ساری دولت جمع کرلی ہے، بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کروالی ہیں،ا خرکار ان کے لئے عیش و آرام کے تمام وسائل فراہم ہو گئے ہیں۔ ممکن ہے اسے شیطان اس طرح کے وسوسہ میں ڈالے کہ تم محاذجنگ پر گئے اور مال دنیا سے محروم ہوگئے، دیکھو دوسرے کہاں سے پہنچ گئے؟ تم محاذ جنگ پر گئے اور دشمن سے جنگ کی مجروح یا معلول ہو گئے، اب تمھاری طرف کوئی توجہ نہیں دیتا تمھاری کوئی اہمیت نہیں رہی اور دوسرے بڑی بڑی پوسٹوں اور عہدوں پر فائز ہو گئے ہیں! ممکن ہے یہ شیطانی وسوسے ایسے افراد کے دل پراثر کریں جن کا ایمان کمزور ہے اور ان کے لئے پشیمانی کا سبب بنے۔
اسی طرح ممکن ہے جو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے حوزہ علمیہ سے وابستہ ہوئے ہیں وہ وسوسہ کریں کہ کیا غلطی کی! دوسروںنے یونیورسٹیوںمیں جا کر فلاں ڈگری حاصل کر لی اور، فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک مناسب نوکری میں بھی لگ گئے اس کی برکت سے ثروتمند و مالدار بھی ہو گئے، لیکن میں بیچارہ دینی طالب علم تیس سال حوزہ علمیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دال روٹی کے لئے ترس رہا ہوں! یہ وسوسہ ہمیشہ ان مومنوں کے لئے پیش آتا ہے جو مال دنیا سے محروم ہیں۔ اس لحاظ سے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
اپنے کلام سے انہیںتسکین دے رہے ہیں کہ اگر چہ تم لوگ مال جمع کرنے والے قافلہ سے پیچھے رہ گئے ہو لیکن تم ایسے مقام و منزلت پر پہنچے ہو کہ دوسرے اس سے محروم ہیں اور وہ قیامت کے دن تمہارے مقام و منزلت کو دیکھ کر حسرت و افسوس کریں گے۔
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں:
''یَا اَبَاذَرٍ؛ اِنَّ الدُّنْیٰا مَشْغَلَة لِلْقُلُوبِ وَالْاَبْدَانِ وَاِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعٰالیٰ سٰائِلُنَا عَمَّا نَعَّمَنَا فی حَلاَلِهِ فَکَیْفَ بِمٰا نَعَّمَنٰا فی حَرٰامِه''
اے ابوذر! دنیا، لوگوں کی جان و تن کو اپنی طرف مشغول کرتی ہے۔ خدائے متعال ہم سے ان نعمتوں کا حساب وکتاب لے گا جو ہمیں حلال راہ سے عنایت کی گئی ہیں چہ جائے کہ حرام طریقے سے وہ نعمتیں ہمیں ملی ہوں!
بیشک مال دنیا حاصل کرنے کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ جو لوگ کسب معاش میں مشغول ہیں اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ بعض اوقات انسان کی مشکلات اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ اس کے لئے راتوں کی نیند بھی حرام ہوجاتی ہے، ہمیشہ چک، ضمانت، خرید و فروش، ارزانی، گرانی، قرض، ٹیکس اور اس قسم کے دوسرے مسائل کی فکر میں الجھتا رہتا ہے۔ بہر حال جو بھی مال جمع کرنے کے پیچھے ہے اسے چاہئے زحمت و مشقت برداشت کرے، خواہ مال دنیا کو حلال راہ سے حاصل کرنا چاہتا ہے یا حرام راہ سے، کیونکہ مال و دولت آسانی کے ساتھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ فطری بات ہے کہ ایسا شخص عبادت اور فکر کرنے کے لئے ایک لمحہ کی بھی فرصت پیدا نہیں کرتا۔اس کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ قیامت اور خدا سے مناجات کرنے کے لئیوقت نکالے۔
جو دل سے دنیا پر ست ہو، وہ عبادت کو بھی دنیا کے لئے انجام دیتا ہے، صبح سے شام تک مال و دولت جمع کرنے کے لئے آرام نہیں کرتا۔ اگر رات کو نمازِ شب کے لئے بھی بیدار ہوتا ہے تو اس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی دولت زیادہ ہوجائے۔ اس سے بدتر رسوائی کیا ہوسکتی ہے کہ انسان ذکر و عبادت خدا کو بھی اپنے شکم اور مال دنیا کے لئے قربان کرے، جس عبادت کو اسے بہشت، اس سے بالاتر رضوان الہٰی کے لئے وسیلہ قرار دینا چاہئے تھا اسے روٹی اچھے گھر اور اعلیٰ قسم کی گاڑی کے لئے وسیلہ قرار دیتا ہے!!
اس کے برعکس، جو دل دنیا کے بندھنوں سے آزاد ہوتا ہے، اس کے لئے دنیا کی چیزوں کا ہونا یا نہ ہونا یکساں ہے، اس کے لئے خاکستر اور سونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگرچہ ہم ایسے افراد کو نہیں جانتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد موجود ہیں۔ ایسے تاجربھی ہیں جن کے لئے کوڑے کرکٹ سے بھری بالٹی اور نوٹوں کے انبار کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، اور ان کے پاس صرف اس چیز کی قیمت ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کی جائے شاید اگر انسان نہ دیکھے تو یقین نہیں کرے گا، لیکن چونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسلئے یقین کرتا ہوں۔
میں تقریباً چالیس سال قبل تہر ان کے بازار میں ایک سماور خرید نے کے لئے ایک تاجر کے پاس گیا تاکہ سماور خرید نے کے بعد فورا قم واپس ہوجائوں۔ لیکن اس شخص کی معنوی کشش نے مجھے اتنا فریفتہ کیا کہ غروب تک میں اس کے پاس رہا اور وہ مجھے نصیحتیں کرتا رہا۔ نصیحتوں کے دوران اس کی سفید داڑھی پر آنسوجاری تھے، اس نے مجھ سے پوچھا: پہلی کتاب جو حوزہ میں پڑھتے ہو اس کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا: ''شرح امثلہ'' اس نے کہا: اس کی ابتداء میں کیا لکھا ہے؟ میں نے کہا:''اول العلم معرفة الجبار''
اس نے کہا: کیا تم نے یاد کیا کہ علم کا آغاز خدا کی معرفت سے ہوتا ہے؟ وہ باتیں کر رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسؤں کا سیلاب رواں تھا، اس دوران اس کاشاگرد بیچنے میں مصروف تھا اور وہ بے اعتنائی کے عالم میں نوٹوں کو لے کر صندوق میں پھینکے جا رہا تھا۔
ظہر کی نماز کا وقت آیا، تو وہ اپنی اشکبار آنکھوں کے ساتھ اٹھ کر مسجد کی طرف روانہ ہو گیا نماز پڑھنے اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد میں پھر سے اس کی دوکان پر حاضر ہوا اور مغرب تک اس کے پاس رہ کر اس کی نصیحتوں کو سنتا رہا۔
جی ہاں! اگر انسان میں حب دنیا نہ ہو تو پیسوں کے انبار میں رہنے کے باوجود بھی اس کے نزدیک پیسوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی اور اس کا دل کہیں اور ہوتا ہے۔ لیکن اگر انسان میں حب دنیا ہو تو، نماز پڑھتے ہوئے بھی اس کے حواس کہیں اور ہوتے ہیں اور نماز میں بھی دنیوی مقاصد پیش نظر رکھتا ہے۔ جب انسان کے دل میں مقام و منزلت کی محبت ہوتی ہے تو ایسی حالت میں اگر وہ عرفان بھی پڑھ لے اور عرفانی سیروسلوک سے بھی آشنا ہوجائے، تب وہ اس فکر میں ہوتا ہے کہ ایسی جگہ پر پہنچائے کہ جہاں کوئی اور نہیں پہنچا ہے، ہر صورت میں دوسروں سے برتری چاہتا ہے۔ حقیقت میں وہ خدا کی بندگی کی فکرمیں نہیں ہوتا ہے۔ وہ ہندوستانی جو گیوں کی طرح ریاضت و کوشش و جستجو سے بعض کاموں پر قدرت حاصل کرلیتا ہے جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
اسلام کا تربیت یا فتہ صرف خدا کی بندگی کے علاوہ کسی اور فکر میں نہیں ہوتا ہے۔ اسلام ایسے افراد کا خواں ہے جو خدا کے لئے جد وجہد کرتے رہیں حتیٰ خدا کے لئے مال جمع کریں۔ جس طرح حضرت علی علیہ السلام محنتمزدوری کر کے خرما کے درخت اگاتے تھے بنجر زمین اور کنویں کھود کر خدا کی راہ میں وقف فرماتے تھے۔
پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا کی محبت کو اپنے آپ میں کم کریں۔ البتہ عام انسان جس قدر مادی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے فطری طور پر دنیا سے زیادہ لگائو پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ جب دنیوی نعمتیں افزائش پاتی ہیں، تو آہستہ آہستہ اس کا مزہ انسان کی طبیعت میں اثر کرنے لگتا ہے اور دنیا کی طرف اس کے تما یلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے جو لوگ مال و دولت کے پیچھے پڑتے ہیں، وہ سنگین ذمہ داری رکھتے ہیں اور قیامت کے دن ان کے مال کے ذرہ ذرہ کی پوچھ تا چھ ہوگی، خواہ اسے حلال طریقے سے حاصل کیا ہے یا حرام طریقے سے۔
عام انسانوں کے مقابلہ میں ، اگر اولیائے الہٰیخدا کی بیشمار نعمتوں سے بھی بہرہ مند ہوجائیں تب بھی وہ ذرہ برا بر دنیا سے محبت نہیں کرتے کیونکہ ان کا دل کہیں اور ہوتا ہے۔ لیکن اس قسم کے افراد بہت کم ہیں۔ پوری تاریخ میں حضرت سلیمان جیسے افراد بہت کم گزرے ہیں کہ جو اتنی ساری نعمتوں اور عظیم سلطنت کے باوجود جو کی روٹی کھائیں۔
پس، پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی گراں قیمتی فرمودات کے پیش نظر کیا بہتر ہے کہ انسان مال و دولت کی فکر میں نہ ہو بلکہ خد اکی عبادت و بندگی سے دنیا کی آلود گیوں کو پاک کرے، جیسے جناب ابوذر، جن کی توصیف میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
''کان لی فیما مضیٰ أخ فی ﷲ وکان یُعظّمه فی عینی صغر الدنیا فی عینه.....
''
''ماضی میں راہ خدا میں میرا ایک بھائی تھا، کہ اس کی نظر میں دنیا حقیر اور چھوٹی ہونے کی وجہ سے وہ خود میری نظر میں بزرگ تھا۔
قناعت اور سادہ زندگی کی ستائش اور طمع و لالچ کی سرزنش:
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں:
''یَا اَبَاذَرٍّ؛ اِنِّی قَدْ دَعَوْتَ ﷲ جَلَّ ثَنَاوُهُ اَنْ یَجْعَلَ رِزْقَ مَنْ یُحِبُّنی الْکِفٰافَ وَا َنْ یُعْطِیَ مَنْ یُبْغِضُنی کَثْرَةَ الْمَالِ وَ الْوَلَدِ''
اے ابوذر! میں نے خدائے متعال سے درخواست کی ہے کہ میرے دوستوں کا رزق ان کی ضرورت کے مطابق قرار دے اور ہمارے دشمنوں کے لئے مال و اولاد میں اضافہ کرے۔
جیسا کہ اشارہ ہوا، اکثر لوگوں کے لئے نعمتوں کی فراوانی دنیا سے زیادہ وابستگی کا سبب بنتی ہے۔ پس ان کو دنیا کی آلودگیوں سے بچانے کے لئے، بہتر ہے ان کے اختیار میں زیادہ وسائل و امکانات نہ ہوں اور صرف ضرورت کی حدتک دنیوی امکانات اور وسائل سے بہرہ مند ہوں۔ لہذا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمدردی کی بناپر اپنے دوستوں کے بارے میں خدا سے مانگتے ہیں کہ ان کو ضرورت اور احتیاج کی حدتک رزق عطا کر نہ اس حدتک کہ اسراف اور فضول خرچی کا شکار ہو جائیں۔ اس کے برعکس اپنے دشمنوں کے لئے خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد میں اضافہ کر۔ درحقیقت خدا کے دشمنوں کے سرمایہ میں اضافہ ہونا ایک الہٰی سنت ہے جو ''قانون استدراج'' سے ماخوذ ہے ہے، یعنی خدائے متعال کفار کو اس قدر دنیوی و مادی نعمتوں سے بہرہ مند کرتا ہے کہ وہ دنیا کے شیدائی اور مغرور بنیں اور دنیا میں غرق ہو کر ان کے کفر و گناہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوکہ جس کے نتیجہ میں ان کا اخروی عذاب زیادہ اوردردناک ہوجائے۔ اس کے علا وہ اس کی وجہ سے ان کی دنیوی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
خدا اور اولیائے خدا کے دشمنوں کے لئے دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں ہے کہ دنیا کی سرمستیوں میں غرق ہونے کی وجہ ان کی توفیق سلب ہوجائے اور روز بہ روز ان کے کفر و انحراف میں اضافہ ہو۔ اس کے بارے میں خدائے متعال فرماتا ہے:
(
وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذینَ کَفَرُوا أَنَّمٰا نُمْلی لَهُمْ خَیْر لِاَنْفُسِهِمْ اِنَّمٰا نُمْلی لَهُمْ لِیَزْدَادُوا اِثْماً وَلَهُمْ عَذَاب مُهین
)
(آل عمران ١٧٨)
''اور خبر دار یہ کفار نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر انھیں راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے۔ ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کر سکیں کر لیں ورنہ ان کے لئے رسواکن عذاب ہے۔''
دوسری جگہ پر فرماتا ہے:
(
فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُهُمْ وَلاَ اَوْلاَدُهُمْ اِنَّمٰا یُریدُ ﷲ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهٰا فِی الْحَیَٰوةِ الدُّنْیٰا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ کَافِرُونَ
)
(توبہ٥٥)
''تمھیں ان کے اموال اور ان کی اولادیں حیرت میں نہ ڈالیں بس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکلے۔
اس لئے کہ مومنین دنیا کی دولت و ثروت کو دیکھ کرحسرت نہ کریں دنیا پرستوں اور دولتمندوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے:
(
لاٰ تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِهِ اَزْوَاجاً مِنْهُمْ وَلاٰ تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَا حَکَ لِلْمُؤْمِنِینَ
)
(حجر٨٨)
''لہٰذا تم ان کفار میں سے بعض افراد کو ہم نے جو کچھ دنیا کی نعمتیں عطا کی ہیں، ان کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو اور اس کے بارے میں ہر گز رنجیدہ بھی نہ ہو بس تم اپنے شانوں کو صاحبان ایمان کے لئے جھکادو۔''
کسی نے حضرت علی علیہ السلام سے خیر کا معنی پوچھا تو حضرت نے جواب میں فرمایا:
''لَیْسَ الْخَیْرُاَنْ یَکْثُرَ مٰالُکَ وَ وَلَدُکَ وَلٰکِنَ الْخَیْرَاَنْ یَکْثُرَ عِلْمُکَ وَاَنْ یَعْظُمَ حِلْمَکَ وَاَنْ تُبٰاهِیَ النَّاسَ لِعِبَادَةِ رَبِّکَ' فَاِنْ اَحْسَنْتَ حَمِدْتَ ﷲ وَاِنْ اَسَأْتَ اسْتَغْفَرْتَ ﷲ وَلاَ خَیْرَ فِی الدُّنْیٰا اِلَّا لِرَجُلَینِ: رَجْل اَذْنَبَ ذُنُوباً فَهُوَیَتَدارَکَهٰا باِلتَّوبَةِ' وَرَجُل یُسَارِعُ فی الْخَیْرَاتِ...
''
خیر و نیکی یہ نہیں ہے کہ تمہارے مال و اولاد میں اضافہ ہوجائے، لیکن نیکی یہ ہے تمھارا علم زیادہ ہوجائے اور تمہارے صبر و تحمل میں اضافہ ہو جائے۔ اور پرور دگار کی عبادت کر کے لوگوں پر ناز کرو (نہ دوسری چیزوں پر) پس اگر تم نے نیک برتائو کیا تو خدا کا شکر بجالائو اور بُرا برتائو کیا تو خدا سے توبہ کرو دنیا میں نیکی دواشخاص کی خصوصیت ہے:
١۔ وہ شخص جو گناہ کی توبہ سے تلافی کرتا ہے۔
٢۔ وہ شخص جو نیکی میں پیش قدمی کرتا ہے۔
دنیا سے دوری اور بے اعتنائی کی ستائش:
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
''یَا اَبَاذَرٍّ؛ طُوبٰی لِلزَّاهِدٰینَ فِی الدُّنْیٰا الرَّاغِبینَ فی الْاَخِرَةِ الَّذینَ اتَّخَذُوا اَرْضَ ﷲ بِسٰاطاً وَتُرَابَهٰا فِرَاشاً وَ مَائَهَا طیباً وَاتَّخَذُواکِتَابَ ﷲ شِعَاراً وَ دُعَائَ هُ دِثاراً یَقْرِضُونَ الدُّنْیٰا قَرضاً''
اے ابوذر! مبارک ہو دنیا میں زاہدوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے کہ جنہوں نے آخرت سے دل لگایا ہے، خدا کی زمین کو اپنے لئے بساط اور اس کی خاک کو فرش، اس کے پانی کو اپنے لئے عطر قرار دیا ہے۔ خدا کی کتاب کو اپنے اندرونی لباس کے مانند اپنے دل سے لگا یا ہے اور دعائوں کو اپنا اوپر والا لباس قرار دیا ہے اور اپنے آپ کو دنیا سے منقطع اور جدا کر لیا ہے ۔
مبارک ہو ان کو جو دنیا سے دل کو وابستہ نہیں رکھتے ہیں اور صرف آخرت کی فکر میں ہوتے ہیں، کیونکہ وہ دنیا کی حقیقت سے آگاہ ہیں اور جانتے ہیں حقیقی قدر و منزلت کہاں ہے۔ وہ زمین پر بیٹھنے کے لئے آمادہ ہیں اور خاک کو اپنا بستر بنانے کے لئے آمادہ ہیں ان کے لئے خاک اور گراں قیمت فرش میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہم دنیا کے شیدائی کبھی آمادہ نہیں ہیں کہ مٹی پر بیٹھیں چونکہ لوگ دیکھیں گے کہ ہم خاک پر بیٹھے ہیں اسلئے ہم شرماتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ میں یہ جذبہ و حوصلہ پیدا کرنا چاہئے کہ ہمارے لئے مٹی اورقیمتی فرش میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔ اگر کسی دن فریضہ کا تقاضا یہ ہوجائے کہ انکساری کے ساتھ ایک فقیر کے پہلو میں زمین پر بیٹھیں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں تو ہمیں شرم محسوس نہ ہو۔
زاہد لوگ اس فکر میں نہیں ہوتے کہ خوشبو کے لئے حتماً گراں قیمت عطر استعمال کریں، بلکہ زمین پر جاری پانی سے اپنے آپ کو پاک و صاف کر کے معطر کرتے ہیں۔ خد اکے ساتھ ان کا رابطہ اتنا مضبوط ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو احساس کرتے ہیں کہ خدائے متعال ان کے ساتھ گفتگو کرتا ہے یا جب دعا پڑھتے ہیں تو جیسے وہ خدائے متعال سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں ان کی طرف دیکھتے ہیں، لیکن ان کا دل کہیں اور ہوتا ہے، ان کا دنیا سیبہرہ مند ہونے کا طریقہیہ ہے کہ وہ دنیا کی طرف سے منہ موڑے ہوئے ہیں اور دنیا کو بالائے طاق رکھ دیاہے۔ چونکہ دنیا عارضی اور فنا ہونے والی ہے اس لئے خدا وند متعال اور ان چیزوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جو ابدی ہیں۔
مکرر طور پر کہا گیا ہے کہ یہ تربیتی بیانات اسلئے نہیں ہیں کہ خدا کی نعمتوں کو بالکل ہی چھوڑ دیں یا اس معنی میں نہیں ہے کہ جو خدا کی نعمتوں کے مالک ہیں وہ بُرے انسان ہیں بلکہ یہ بیانات اسلئے ہیں کہ دنیا سے ہمارے روابط و تعلقات کم ہوجائیں اور دیکھ لیں کہ ہمارا فریضہ کیا ہے۔ اگر فریضہ کا تقاضا یہ ہو کہ ہم اچھا لباس پہنیں، اچھے گھوڑے پر سوار ہوں وغیرہ، تو چونکہ فریضہ ہے اور خداکو پسند ہے، اسلئے ہمیں یہ کام انجام دینا چاہئے۔ لیکن اگر ہم من پسندی کی بناپر نعمتوں کے پیچھے پڑے رہے تو ہم نے ایک خطر ناک راہ میں قدم رکھا ہے اور خواہ مخواہ ایسے کاموں میں پھنس جائیں گے جن میں خدا کی مرضی نہیں ہوگی، کیونکہ دل کی خواہش خدا کی مرضی سے نہیں ملتی ہے۔ دل اور ہوائے نفس کا راستہ خدا کے راستہ سے جدا ہے اور یہ کبھی ایک دوسرے سے نزدیک نہیں ہوتے ہیں:
(
اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهُ هَوٰهُ وَاَضَّلَهُ ﷲ عَلٰی عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلٰی سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجْعَلَ عَلٰی بَصَرِهِ غِشٰاوَة
)
(جاثیہ٢٣)
''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدانے اس حالت کو دیکھ کراسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر پر دے پڑے ہوئے ہیں''
پس، یہ بیانات دنیا سے دل لگی میں کمی واقع کرنے کے لئے ہیں۔ ہمیں خاک نشیں ہونے اور قیمتی فرش، ڈیکوریشن اور عیاشانہ زندگی سے پرہیز کی جو تشویق کی گئی ہے، اس معنی و مفہوم میں نہیں ہے کہ ہم خود کو مشکل اور زحمت سے دوچار کریں اور خدا کی نعمتوں سے بہرہ مندنہ ہوں۔ ایک صوفی مسلک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے کیوں قیمتی لباس پہنا ہے، کیا آپ حضرت علی علیہ السلام کے فرزند نہیں ہیں؟ حضرت نے جواب میں فرمایا: حضرت علی کے زمانے میں لوگ فقر و تنگدستی میں زندگی بسر کرتے تھے، اس لحاظ سے شائستہ تھا امام عام مسلمانوں کی طرح زندگی بسر کریں، تاکہ لوگ اپنے فقر و ناداری سے دل تنگ نہ ہو جائیں۔ لیکن جب لوگ نعمتوں کی فراوانی میں قرار پائیں گے، تو صالح لوگ نعمتوں سے استفادہ کرنے میں دوسروں سے زیادہ سزاوار ہیں۔ جب شرائط اقتضا کریں، تو مسلمانوں کو صنعتی ترقی اور زندگی کے طریقۂ کار کو تبدیل کرنے کے لئے اقدام کرنا چاہئے تاکہ کافروں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی آبرو کا تحفظ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ اگر مسلمان اور ترقی یافتہ معاشرے کی صورت کے پیش نظر آرٹ اور صنعت (ٹکنالوجی) کے شعبہ میں ترقی کرنے کی سعی و کوشش کرنا چاہئے تاکہکفار کے سامنے ہاتھ پھیلا نے کی ضرورت پیش نہ آئے اور مسلمانوں کی ذلت و خواری کا سبب نہ بنے ۔
اجتماعی پہلو سے اگر اسلامی معاشرہ حداقل پر قناعت کرے، صرف دستکاری کی صنعت سے استفادہ کرے، حمل و نقل کے قدیمی وسائل ہی پر اکتفا کرے، اپنے آپ کو صرف قدیمی اور ابتدائی اسلحوں کا پابند رکھے ، اس تفکر سے کہ اسلامی معاشرہ کو ایک سادہ اور قناعت پسند معاشرہ ہونا چاہئے، ایجاد و تخلیق کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے، تو یقینا اسلامی معاشرہ کفار کے زیرتسلط آجائے گا اور ایک کمزور و ذلیل اور محتاج معاشرے میں تبدیل ہوجائے گا، اور خدائے متعال ہر گز پسند نہیں کرتا ہے کہ الہٰی معاشرہ کفار کا اسیر و محتاج ہو، کیونکہ:
(
وَلَنْ یَجْعَلَ ﷲ لِلْکَافِرینَ عَلَی الْمُؤْمِنینَ سَبیلاً
)
(نسائ ١٤١)
خدائے متعال نے کافروں کے لئے مسلمانوں پر کوئی تسلط قرار نہیں دیا ہے۔
اور یہ خدا ہے جو عزت کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین سے مخصوص جانتا ہے:
(
(
...وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوْمِنِینَ
)
(منافقون٨)
''عزت، خدا، اس کے رسول اور مومنین سے مخصوص ہے۔''
اس کے پیش نظر کہ صنعتی پسماند گی کا لازمہ استعمار اور ثقافتی یورش ہے، اس لئے امت اسلامیہ کی ترقی کے لئے ایجادات و تخلیق کے میدانوں میں جستجو اور کوشش کرنا فریضہ الہٰی ہے اس سے کسی بھی بہانہ سے اجتناب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ علوم و فنون کو سیکھنے کے سلسلے میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے وہ پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی اس فرمان کی حقیقی گواہ ہے:
''اطلبوا العلم ولو بالصین ''
علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین جانا پڑے۔
یعنی ہر وہ علم کہ جس کی معاشرے کو ضرورت ہے اسے حاصل کرو۔
اس حدیث کے آخر پر آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں:
''یَا اَبَاذَرٍ؛ حَرثُ الْآخِرةِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ وَ حَرْثُ الدَُّنْیٰا الْمَالُ وَالْبَنُونَ''
''اے ابوذر! آخرت کی کھیتی شائستہ کردار ہے اور دنیا کی کھیتی مال و فرزند ہیں۔''
(آخرت طلب کو عمل صالح کے پیچھے جانا چاہئے اور دنیا طلب کو مال ذخیرہ کرنے کے پیچھے جانا چاہئے)
____________________