زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)9%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25801 / ڈاؤنلوڈ: 3844
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

سترہواں سبق

آخرت کے لئے گریہ کرنامومن کی وسعت قلبی اور اس کی تقوی مداری کی دلیل ہے

*آخرت کے لئے رونے کے نتائج

* مومن کی وسعت قلبی اور اس کی علامتیں

* تقویٰ محوری اور ریاکاری و نفاق سے پرہیز

* عمل کی قدر و منزلت میں نیت اور اس کااثر

آخرت کے لئے گریہ کرنامومن کی وسعت قلبی اور اس کی تقویٰ مداری کی محور ہے

'' یَاا َبَاذَرٍ؛ اِنَّ رَبِّی اَخْبَرَنی' فَقَالَ: وَ عِزتی وَ جَلالی مَا اَدْرَکَ الْعَابِدُونَ دَرْک الْبُکَائِ عِنْدی وَاِنِّی لَاَبْنی لَهُمْ فِی الرَّفیقِ الَاعْلٰی قَصْراً لاَ یُشَارِکَهُمْ فِیهِ اَحَد قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ ﷲ اَیُّ الْمُؤْمِنَینَ اَکْیَسْ؟ قَالَ اَکْثَرُهُمْ لِلْمَوتِ ذِکْراً وَاَحْسَنُهُمْ لَهُ اِسْتَعْدَاداً

یا اَبَاذَرٍ: اِذَا دَخَلَ النُّورُ الْقَلْبَ انْفَسَحَ الْقَلْبُ وَ اسْتَوسَعَ، قُلْتُ: فَمَا عَلَامَةُ ذٰلِکَ؟ بِاَبِی اَنْتَ وَاُمِّی یَا رَسُولَ ﷲ' قٰالَ؛ الِْانَابَةُ اِلَی دَارِ الْخُلُودِ وَ التَّجٰافی عَنْ دَارِالْغُرُورِ' وَالْاِسْتَعْدَادُ لِلْمَوتِ قَبْلَ نَزُولِهِ یَا اَبَاذَر؛ اِتَّقِ ﷲ وَلاَتُرِ النَّاسَ اِنَّکَ تَخْشٰی ﷲ فَیُکْرِمُوکَ وَقَلْبُکَ فٰاجِر یَا اَبَاذَرٍ؛ لِیَکُنْ لَکَ فی کُلِّ شَیئٍ نِیَّة حَتّٰی فِی النَّومِ وَالْاَکْلِ''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکثر نصیحتیں جن پر اس سے پہلے بحث کی گئی، تین محوروں پر مشتمل تھیں:

١۔ دنیا پرستی اور اس سے وابستہ ہونے سے پر ہیز۔

٢۔ ذکر خدا کی تشویق۔

٣۔ خدا کے خوف سے خضوع و خشوع اور گریہ وزاری۔

حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خوف خدا میں رونے کی اہمیتدو بارہ بیان فرماتے ہیں، اس کے علاوہ آخرت پر توجہ، دنیا سے بیزاری اور ریاکاری سے پرہیز کے بارے میں تا کید فرماتے ہیں۔

آخرت کے لئے رونے کے نتائج:

'' یَا َبَاذَرٍ؛ اِنَّ رَبِّی اَخْبَرَنی' فَقَالَ: وَ عِزتی وَ جَلالی مَا اَدْرَکَ الْعَابِدُونَ دَرَکَ الْبُکَائِ عِنْدی وَاِنِّی لَاَبْنی لَهُمْ فِی الرَّفیقِ الَاعْلٰی قَصْراً لاَ یُشَارِکَهُمْ فِیهِ اَحَد''

''اے ابوذر! پرور دگار نے مجھے خبر دیدی اور کہا: مجھے میری عزت و جلال کی قسم ! عابدوں کو ان کے رونے کی پاداش کے بارے میں معلوم نہیں ہوگا کہ میں نے رونے والوں کے لئے بہشت کے بلند ترین مدارج میں ایک محل تعمیر کیا ہے جس میں ان کے علاوہ کوئی اور شریک نہیں ہوگا۔''

جیسا کہ اشارہ ہوا، جس رونے کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نینصیحت کی ہے وہ خوف خدایا لقاء اللہ کو حاصل کرنے کے شوق میں رونا ہے۔ اگر چہ گریہ کی یہ دونوں قسمیں مطلوب ہیں اور خدا کی طرف توجہ اور انسان کے بیدار ہونے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن لقاء اللہ حاصل کرنے کے شوق میں کیا جانے والا گریہ برتر ہے اور یہ عمیق معرفت کی نشانی ہے جو سبھی کو حاصل نہیں ہوتی اور معرفت کے اس مدارج تک چند گنے چنے افراد من جملہ معصومین علیم السلام کو رسائی حاصل ہے۔

چونکہ اولیائے الہٰی اور معصومین علیہم السلام خدائے متعال کے شیدائی اور عاشق ہیں اورعاشق کے لئے اپنے معشوق کا فراق اوراس کی دوری سے زیادہ شدید کوئی درد نہیں ہے۔ ائمہ اطہار سے روایت کی گئی دعائوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس طرح فراق کے درد میں نالہ وزاری کرتے تھے اور معشوق کے و صال کے شوق میں جلتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام سجاد سے نقل ہوئی دعائیں اہل بیت علیہم السلام کے خدائے متعال سے بے انتہا عشق کے نمو نے ہیں۔ ان دعائوں سے ہی اہل بیت علیہم اسلام کی بے انتہا معرفت و شناخت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ اسی معرفت ہی کا نتیجہ تھا جس کے سبب یہ پاک ذاتیں، پاک سیرتیں اور بشریت کے اسوہ اور نمونے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے پرور دگار کے حضور سے غافل نہیں رہتے تھے اور چونکہ وہ خدا کی ذات کو ہر چیز سے برتر اور ہر چیز کو اس کی قدرت کا جلوہ تصور کرتے تھے، اس لئے اس کے عاشق تھے اور یہ محبت انہیں اندرونی طور پر ایک لمحہ کے لئے آرام و قرار سے رہنے نہیں دیتی تھی۔ ان کی مناجاتیں اور دعائیں بذات خود ان کے اس کمال عشق کی گواہی دیتی ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام، دعائے کمیل میں شوق دیدار محبوب کی کیفیت سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کے فراق میں صبر کرنے کو اس کے عذاب پر صبر کرنے سے زیادہ سخت اور دشوار جانتے ہیں اور اپنے پرور دگار سے مخاطب ہو کر عرض کرتے ہیں:

'' فَهَبْنی یَا اِلٰهیٰ وَسَیِّدی وَمَولاَیَ وَرَبِّی صَبَرْتُ عَلٰی عَذَابِکَ فَکَیْفَ اَصْبِرُ عَلٰی فَرَاقِکَ...''

''اے میرے خدا، میرے مولا اور میرے پرور دگار! میں نے تیرے عذاب پرتو صبرکر لوں گا، مگر تیرے فراق پر کیسے صبر کروں؟''

اور اپنے معبود سے جدائی کی صورت میں اپنے کرب کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تیری عزت کی قسم اے میرے مالک اور اے میرے مولا! اگر مجھے گویائی زبان کے ساتھ (جہنم میں ) ڈالا گیا، تو اہل جہنم کے درمیان واویلا کرنے والوں کی طرح فریاد بلند کروں گا اور اس شخص کی طرح کہ جس نے اپنے محبوب کو کھودیا ہو، تیرے فراق میں زار زار گریہ کروں گا۔''(۱)

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابوحمزئہ ثمالی میں فرماتے ہیں:

''میں نے آج کل کرتے ہوئے اور اپنی طولانی آرزوئوں سے اپنی عمر کو تباہ و برباد کر لیا ہے اب ایک ایسی منزل پر پہنچ ہو کہ اپنے نفس کی اصلاح سے نا اُمید ہوچکا ہوں۔ پس مجھ سے زیادہ بدحال اس زمانہ میں کون ہے؟ وائے ہو مجھ پر! اگر اس حالت میں ایک ایسی قبر کی طرف روانہ ہوگیا جسے میں نے اپنے لئے خوابگاہ نہیں بنایا ہے اور اپنے عمل سے اس میں بچھونانہیں بچھا یا ہیتو میں کیوں گریہ نہ کروں! جبکہ نہیں جانتا ہوں کہ میرا انجام کیا ہو گا۔ اس وقت میرا نفس مجھے دھوکہ دے رہا ہے اور زمانے مجھے فریب دے رہے ہیں، جبکہ موت میرے سرپر سایہ فگن ہے۔''(۲)

انسان کے داخلی رذائل اور اخلاقی کو تاہیوںکو برطرف اور پاکیزہ بنانے سے متعلق گریہ کے عظیم نقش کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: رونے کے لئے ایک ایسی فضیلت و پاداش معین ہے کہ دوسری چیزوں میں نہیں ہے۔ رونے والا ایک ایسے مقام پر فائز ہوجاتا ہے کہ دوسرے چاہے جتنی بھی عبادت کریں وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔

جناب ابوذر سب سے زیادہ عقلمند اور زیرک افراد کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب میں فرماتے ہیں:

'' اَکْثَرُهُمْ لِلْمَوتِ ذِکْراً وَاَحْسَنُهُمْ لَهُ اِسْتَعْدَاداً''

لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند و زیرک وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ موت کی یاد میں ہو اور خودکو دوسر وں سے زیادہ موت کے لئے آمادہ کرے۔

جس نے کسی راہ کا انتخاب کیا ہے، اگر وہ زیرک و ہوشیار ہے، تو ہمیشہ مقصد کو مد نظر رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ جلد سے جلد مقصد تک پہنچ جائے۔ اوراگر کوئی راستے میں مقصد سے غافل ہوگیا تو وہ صحیح وسالم مقصد تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو اصلی ہدف و مقصد کو پہچانتا ہے اور جانتا ہے کہ دنیا صرف آخرت تک پہنچنے کے لئے ایک وسیلہ ہے، تو اسے دنیا کی چمک دمک اور مادی جاذبیت دھوکہ نہیں دے سکتی اور وہ ہمیشہ موت کی یاد میں رہتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ اسی حالت میں اگر اس کے لئے موت کا پیغام آجائے تو وہ اپنے توشہ آخرت کے ساتھ خدا کی طرف روانہ ہوجاتا ہے، لیکن جنہوں نے اپنے مقصد کو کھو دیا ہے، آخرت کے لئے کوئی زادراہ آمادہ نہیں کیا ہے، تو ان کے لئے زادراہ کے بغیر طولانی راستہ میں قدم رکھنا ایک خطرناک کام ہے۔

مومن کی وسعت قلبی اور اس کی علامتیں:

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

'' یا اَبَاذَرٍ: اِذَا دَخَلَ النُّورُ الْقَلْبَ انْفَسَحَ الْقَلْبُ وَ اسْتَوسَعَ''

اے ابوذر! اگر دل میں نور روشن ہوجائے تو قلب کشادہ ہو جاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔

ابتدا میں دل تاریک ہوتے ہیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان میں اپنے نور کا افاضہ کرتا ہے جن دلوں میں صلاحیت ہوتی ہے وہ اس نور کو کسب کرتے ہیں۔ جب وہ نور دل میں جگہ پاجاتا ہے، اس دل کی ظرفیت بڑھ جاتی ہے۔ تشبیہ معقول بہ محسوس کے طور پر مثلاً جب خالی اور سوکھی مشک میں پانی بھر دیا جاتا ہے، وہ پھیل جاتی ہے یا غبارہ کے مانند، کہ جس قدر اس میں ہوا بھری جائے گی وہ پھیلتا جائے گا ہے۔اسی طرح دل نور الہٰی کی وجہ سے وسعت پیدا ہوتی ہے اور اس کی ظرفیت میں اضافہ ہوتا ہے (قلب سے مراد د سینہ میں موجود صنوبر نمادل کی صورت نہیں ہے، بلکہ یہاں پر قلب سے مراد معنوی ماہیت، یعنی ایمان درک کرنے کی جگہ ہے)

شائد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصود یہ ہے کہ موت کو زیادہ یا دکرنا اور اس کے لئے آمادہ رہنا، انسان کی زندگی کے چراغ کو روشن رکھنے کا ذریعہ ہے اور موت کی یاد کے نتیجہ میں انسان کی روح میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جو اس کی پاک فطرت کو گناہ کی تاریکی میں آلودہ ہونے سے بچاتا ہے، اور اسی نور کے اثر میں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعبیر یہ کہ، انسان کی روح میں اضافہ اس کی ظرفیت بڑھ جاتی ہے۔ اس معنی میں کہ دنیا کی محدود اور تنگ جگہ سے بالا تر جاکر بے انتہا اور ابدی عالم کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

چونکہ جناب ابوذر کے لئے یہ حالت قابل محسوس و درک نہیں ہے۔ کیونکہ یہ امرحسی نہیں ہے کہ حواس کے ذریعہ انہیں درک کیاجائے۔ اس لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلب کے وسیع ہونے کی نشانیاں کیا ہیں اس کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب میں اس حالت کے بارے میں تین نشانیاں بیان فرماتے ہیں:

١۔''الا نابة الی دار الخلود'' وسعت قلب کی پہلی نشانی آخرت کی طرف میلان ہے۔

اس معنی میں کہ انسان، فانی اور ناپائدار دنیا سے چشم پوشی کر کے آخرت پر نظر رکھتا ہے۔ مرحوم راغب اصفہانی ''انابہ'' کے معنی کی وضاحت میں فرماتے ہیں: خدا کی طرف '' انابہ''کے معنی پلٹنا، اس کی طرف ، توبہ اور عمل صالح کے ذریعہ''(۳)

٢۔''والتجافی عن دار الغرور'' وسعت قلب کی دوسری نشانی دھو کہ باز دنیا سے دوری اختیار کرنا ہے۔

جب مومن آخرت کے ابدی عالم کو مدنظر رکھتا ہے تو اس محدوداور مادی دنیا میں اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے، اس لئے اس دنیا سے رابطہ توڑ کر اس سے رخصت ہونے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔

(دنیا سے ''تجافی''، اپنے آپ کو دنیا پرستی سے آزاد کرنے کے معنی میں ہے، چنانچہ زمین سے اٹھنے والا نماز گزار صرف ہاتھوں اور پائوں کی انگلیوں سے زمین پر تکیہ دیتا ہے، اس حالت کو تجافی، کہتے ہیں)

''دار الغرور'' من جملہ ان ناموں میں سے ہے جو قرآن مجید اور روایتوں میں دنیا کے لئے ذکر ہوا ہے۔ غرور، فریب اور دھوکہ دہی کے معنی میں ہے۔ چونکہ دنیا کے زرو جواہر انسان کو فریب دیتے ہیں اور اسے اپنا شیدائی بناتے ہیں، اس لئے دنیا کو ''دارلغرور'' یعنی فریب کاری اوردھوکہ دھڑی کی جگہ کہتے ہیں۔

دنیا کی فریب کاری کی وضاحت میں بزرگوں، جیسے علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے:

''ہرانسان کا ایک فطری مطلوب ہوتا ہے، یعنی اس کی فطرت ایک گمشدہ شیٔ کی تلاش میں ہے اور وہ ہمیشہ اس کی جستجو میں رہتی ہے۔ اس کا اصلی مقصد قرب الہٰی تک پہنچنا ہے، دوسرے الفاظ میں کمال مطلق تک پہنچنا ہے۔ اگر چہ وہ خود متوجہ نہیں ہے لیکن وہ غیرشعوری طور پر بھی کمال مطلق کی طرف گامزن ہے۔ لیکن کبھی اصلی مقصد کو گم کر دیتا ہے، غلطی سے، دنیا کو اپنا مقصد قرار دیتا ہے، حقیقت میں وہ زروجواہر اور دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے، اسے اپنی گم شدہ چیز تصور کرتا ہے، یعنی دنیا خود کو انسان کے سامنے اس کا حقیقی مطلوب اور مقصد کے عنوان سے پیش کرتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر وہ ایک عمر جستجو و کوشش کر کے اس دنیا تک پہنچتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ اس کا فطری مطلوب نہیں تھا اور یہ دنیا اس کی معنوی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتی۔ اس اعتبار سے دنیا کو ایک چوسنی سے تشبیہ دیتے ہیں، جب بچے کو بھوک لگتی ہے اور وہ دودھ چاہتا ہے، تو چوسنی کو اس کے منہ میں لگا دیتے ہیں اور وہ غفلت کے عالم میں ماں کے پستان کی جگہ اس بھٹنی کو چوستا ہے اور آخرمیں سمجھ جاتا ہے کہ دودھ سے خالی چوسنی نے اسے سیر نہیں کیا ہے۔

جی ہاں، دنیا سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہے، انسان کا حقیقی مطلوب وہ آب حیات ہے جس کا شرچشمہ قرب الہٰی ہے اور وہی اس کی فطرت کو سیراب کرتا ہے۔ اگرچہ دنیا خود کو حقیقی مطلوب کی جگہ پر قرار دیتی ہے۔ خواہ دنیا کی یہ خود نمائی گھر اور گاڑی کی صورت میں ہویا دنیا کی لذتوں کی صورت میں ۔ لیکن جاننا چاہئے کہ دنیا اپنی تمام وسعتوں' مختلف لذتوں اور نعمتوں کے ساتھ کمال مطلق اور رضائے الہٰی تک پہنچنے کے لئے ایک وسیلہ ہے نہ مقصد اور مطلوب۔

اس سے ہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جس کا دل سیاہ ہے اور ایمان کے نورسے نورانی نہیں ہوا ہے، وہ دنیا کے دھو کے میں پھنسا ہے اور اس کی ظاہری حالت کو مطلوب ذاتی کی جگہ پر تصور کرتا ہے۔ لیکن جس کا دل خدا کے نور سے منور ہوتا ہے، غفلت اور تاریکی اس سے دور ہوتی ہے اور وہ حقیقت کو واضح طور پر مشاہدہ کرتا ہے اور غلطی سے دوچار نہیں ہوتا ہے۔ وہ صرف آخرت سے دلچسپی رکھتا ہے اور ممکن نہیں ہے، حتی ایک لمحہ کے لئے بھی دنیا سے وابستہ رہنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ جانتاہے کہ دنیا دل لگی کی جگہ نہیں ہے۔

٣۔''والاستعداد للموت قبل نزوله'' وسعت قلب کی تیسری نشانی مرنے سے پہلے مرنے کے لئے آمادہ ہونا ہے۔

جب انسان دنیا سے دلی وابستگی نہ رکھتا ہو اور آخرت کی فکر میں ہو تو اسے ہمیشہ دیار ابدی، اور اپنے مطلوب حقیقی تک پہنچنے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔ جو یہ جانتا ہو۔ کہ وہ دنیا کے لئے پیدا نہیں ہوا ہے، اور دنیا جہان ابدی میں جانے کے لئے صرف ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے تو وہ قرب الہٰی تک پہنچنے کے لمحہ لمحہ انتظار میں رہتا ہے۔ وہ بے صبری کے ساتھ دنیا کے پل کو عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اپنے آخری مقصد تک پہنچ جائے۔

انسان کو دنیا میں مقصد تک پہنچنے کے لئے بے صبری اور جلد بازی کی حالت بھی پیش آتی ہے۔ جب انسان ایک شہر میں جانے کے لئے گاڑی پرسوار ہوتا ہے تو راستہ میں آرزو کرتا ہے کہ مقصد تک جلدی پہنچ جائے۔ جب اس کی گاڑی دوسری گاڑیوں سے آگے بڑھتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ دوسروں سے پہلے مقصد تک پہنچ جائے گا۔ اگر چہ یہ ایک طفلا نہ ہوس ہے لیکن اس کا سرا فطرت سے وابستہ ہے جب وہ جانتا ہے کہ اس کا مقصد دوسری جگہ پر ہے اور اس کا راستہ میں کوئی کام نہیں ہے، تو وہ سعی و کوشش کرتا ہے کہ راہ کو جلدی طے کرے، البتہ مقصد تک پہنچنے کی تلاش ایک عاقلانہ امر ہے۔

پس، جس بندہ کا دل نورالہٰی سے منور ہے اور جس کی آنکھوں سے حقائق کے لئے پردہ ہٹ چکے ہیں، وہ جانتا ہے کہ اس کا مقصد جو ارحق اور قرب الہٰی ہے اور دنیا کی حقیقت صرف ایک وسیلہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اس لحاظ سے مقصد تک پہنچنے کے لئے وہ اس وسیلہ سے استفادہ کرتا ہے، اور معشوق کے لمحہ دیدار کے پہنچنے کے شوق میں پھولے نہیں سماتا ہے، یہاں تک دنیا کو بالکل ہی بھول جاتا ہے۔

تقویٰ محوری اور ریا کاری و نفاق سے پرہیز:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوذر کو ریاکاری اور خونمائی سے پرہیز کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

'' یَا اَبَاذَر؛ اِتَّقِ ﷲ وَلاَتُرِ النَّاسَ اَنَّکَ تَخْشٰی ﷲ فَیُکْرِمُوکَ وَقَلْبُکَ فٰاجِر''

اے ابوذر! خدا سے ڈرو اور لوگوں کے سامنے ایسا ظاہر نہ کروکہ خدا سے ڈرتے ہوتاکہ تمھارا احترام کریں' جبکہ تمھارا دل گناہ کی فکر میں ہے۔

ریاکاری کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہر کو باطن کی نسبت بہتر ظاہر کرے اور جو کچھ ظاہر کرتا ہے باطن کے برعکس ہو، یعنی:

ظاہرش چُون بوذرو سلمان بود باطنش ہمچون ابوسفیان بود

روایات کی اصطلاح میں ریا کاری کا شمار شرک خفی میں ہوتا ہے اور ریاکار کومشرک کہتے ہیں۔

خدا کی من جملہ بڑی مہر بانیوں میں سے ایک مہر بانی انسان کے گناہوں اور عیبوں کی پردہ پوشی ہے، یہاں تک خدائے متعال کا ایک نام ''ستار العیوب'' ہے۔ حقیقتاً اگر لوگوں کی برائیاں بر ملاہو جاتیں اور وہ ایک دوسرے کے عیوب و نقائص سے آگاہ ہوجاتے، تو ان کی زندگی تلخ ہو جاتی ۔ اس لحاظ سے خدا کی پردہ پوشی ایک بڑی نعمت ہے جس کا شکر بجالا نا واجب ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لوتکاشفتم ماتدا فنتم'' (۴)

''اگر ایک دوسرے کے اسرار سے واقف ہوتے تو ایک دوسرے کو دفن نہیں کرتے''

جس طرح خدائے متعال خود مومنین کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے اور، دوسروں کو بھی اجازت نہیں دیتا کہ ایک دوسرے کے گناہوں کو فاش کریں۔ اللہ تعالیٰ نہ خود مومن کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اورنہ ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مومن اپنی آبروکا سودا کریں۔ اس بنا پر انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے گناہ دوسروں کے سامنے بیان کرے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ خدائے متعال مومن کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ خود کو ذلیل و رسوا کرے۔ گناہ اور فسق انجام دینے سے بڑی کوئی ذلت نہیں ہے، اس لئے جب بھی مومن گناہ کرتا ہے خدائے متعال اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور اسے بھی اجازت نہیں دیتا کہ اس سے پردہ اٹھائے بلکہ اسے توبہ کرنے کی فرصت دیتا ہے۔

البتہ یہ ایک کلی قانون نہیں ہے، کیونکہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے پیش نظر افراد کی تنبیہ کے لئے، ان کے بعض گناہوں کو فاش کرتا ہے اور ان کے اسرار سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسرار کو فاش کرنا، بذات خود تربیت کا ایک وسیلہ ہے۔ یعنی اگر انسان کو متنبہ کیا جائے ،اسے اس کے برے اور غلط عمل کے نتیجہ میں ڈرایا دھمکایا جائے لیکن اس کے بعد بھی وہ متوجہ نہیں ہوتا تو اس صورت میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی تربیت اور بیداری کے لئے اس کی آبروریزی کی جائے تاکہ اس کے مفاسد کو روکا جاسکے۔ البتہ یہ ایک تکوینی امر ہے اور یہ خدا اور اس کی تدبیرسے مربوط ہے دوسرا کوئی حق نہیں رکھتا کہ وہ تربیت کے بہانہ سے دوسروں کی آبرو ریزی کرے۔

اس بنا پر اسلام کے نظر یہ کے مطابق کسی کو اپنی یا دوسروں کی آبرو ریزی کرنے کا حق نہیں ہے۔ اپنے اور دوسروں کے عیبوں کی حفاظت اور انہیں چھپا نا تمام مومنوں کے فرائض ہیں۔ بعض اوقات گناہ کو فاش کرنے کا انجام خود گناہ کے انجام سے بدتر ہوتا ہے اور گناہ کو فاش کرنا فساد پھیلا نے کے واضح مصادیق میں شمار ہوتا ہے:

( اِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَاب اَلِیم فِی الدُّنْیَا وَالْاَخِرَةِ وَﷲ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ) (نور ١٩)

''جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبان ایمان کے درمیان بدکو پھیلائیں ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ سب کچھ جانتا ہے صرف تم نہیں جانتے ہو۔''

گناہوں کو فاش کرنے کے مقابلہ میں ریاکاری اور ظاہر داری بھی ایک برا اور ناپسندیدہ امر ہے:

یعنی انسان سعی کرے خود کو واقعیت کے خلاف جلوہ دے اور اپنے کو اچھاظاہر کرے، یعنی گنہگار ہونے کے باوجود اپنے آپکو اہل تقویٰ ایماندار، خداترس اور راز و نیاز کرنے والوں کی صورت میں پیش کرے تاکہ لوگ اسے احترام کی نگاہ سے دیکھیں۔

شدادبن اوس اور عبادہ بن صامت نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آیہ شریفہ:

( فِمَنْ کَانَ یَرْجُوا لِقَائَ رَبِّه فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلاَ یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ اَحَداً ) (۵) کی وضاحت میں فرمایا:

''مَن صَلَّی صَلوٰةً یُرٰائِی بِهَا فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ صَوماً یُرَائی بِهِ فَقَدْااَشْرَکَ'' (۶)

''جو خود نمائی اور ریاکاری کے لئے نماز پڑھے اور روزہ رکھے اس نے شرک کیا ہے۔''

عمل کی قدر و منزلت میں نیت اور اس کااثر:

'' یَا اَبَاذَرٍ؛ لِیَکُنْ لَکَ فی کُلِّ شَیئٍ نِیَّة حَتّٰی فِی النَّومِ وَالْاَکْلِ''

اے ابوذر! ہر عمل کو انجام دینے کے لئے تمھیں، نیت کرنی چاہئے حتیٰ کھانے اور سونے کے لئے بھی ۔

تربیتی نقطہ نظر سے اس مطلب کا ذکر کرنا بہت اہم اور تعمیری ہے، اس کے علاوہ یہ مطلب اہم علمی و فلسفی اصول پر منحصر ہے جس کے لئے ایک وسیع بحث کی ضرورت ہے۔ انسان جو بھی کام انجام دیتا ہے، حتیٰ خدا کی عبادت و بندگی، وہ نیت پر منحصر ہے۔ ایک عمل کی اہمیت کا اندازہ دو مختلف نیتوں سے یکساں نہیں ہے۔ جو شخص اپنے دوست کی طرف سے مدعو ہوتا ہے، اگر اس کی دعوت کو قبول کرے، تو یہ ایک شائستہ کام ہے، اگر دوست کی دعوت کوقبول کرنے میں قصد قربت کو ملحوظ رکھتا ہے یعنی، مومن کی دعوت کو قبول کرنا چوں کہ خدا کو پسند ہے اس لئے دعوت قبول کرتا ہے تو اس کا یہ عمل عبادت شمار ہوگا جس کے لئے اسے جزا و ثواب بھی ملے گا۔یا اگر کسی نے مستحب روزے رکھے ہیں اور اس کا دوست اسے کھانا کھانے کی دعوت دے، اگر وہ خدا کے لئے افطار کرے، تو اس کا یہ عمل عبادت ہے اور اس کے لئے ثواب و پاداش ہے لیکن اگر اس لئے کہ کھانا اچھا ہے اور وہ اسے کھانا چاہتا ہے اور اس نیت سے افطار کر ے تو، اس کے لئے اسے کوئی ثواب نہیں ملیگا، کیونکہ اس کا یہ عمل خدا کے لئے انجام نہیں پایا ہے۔ پس یہی کھانا اگر خدا کے لئے ہو تو، اس کے لئے ثواب وپاداش ہے اور انسان کے کمال اور اس کی معنوی بلندی میں ایک اہم نقش رکھتا ہے۔ اس بنا پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ انسان اپنے روزمرہ کے تمام کاموں، سونے سے لے کر کھانے پینے، حتی مزاح کرنے جیسے امور کو نیک کام مثلا نماز و روزہ کی طرح عبادت کا رنگ و روپ بخش سکتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ یہ امور خدا کی مرضی اور اس کی بندگی و اطاعت کی نیت سے انجام دیئے جائیں۔

بعض بزرگ حضرات جب کوئی کام انجام دینا چاہتے تھے، پہلے چند لمحہ تامل کراتے تھے تاکہ نیت اور قصد قربت کا تصور کرلیںاور وہ کام خدا کے لئے انجام دیتے تھے۔ یا اگر ان سے کوئی سوال ہوتا تھا، فوری جواب نہیں دیتے تھے بلکہ اس سے پہلے چند لمحہ تامل کرتے تھے تاکہ اس میں بھی نیت اور قلبی توجہ پیدا ہو سکے، پھر خدا کے لئے جواب دیتے تھے۔

یہ نکتہ اس امر کی نشاند ہی کرتا ہے کہ مومن اتنا ہوشیار اور چالاک ہوسکتا ہے کہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں خدا اور اس کی مرضی کے مطابق استفادہ کرے۔ اس بناپربہت معمولی اور پست ترین امور میں بھی قصد قربت اور صحیح نیت کی جاسکتی ہے تاکہ انسان ان سے لذت بھی حاصل کرے اور عبادت کا فائدہ بھی اٹھائے، دنیوی و اخروی دونوں لذتوںکا احساس کرے۔ ایسے مواقع پر دنیا و آخرت کو یکجا کرنا ممکن ہے، دنیا و آخرت وہاں پر جمع نہیں ہوتے ہیں جہاں دو حکم کے درمیان آپس میں تضاد ہو، جیسے واجب و حرام کہ یہ دونوں آپس میں جمع نہیں ہوتے ہیں اگر انسان مباح کام انجام دینے میں قصد قربت کی نیت کرے، تو دنیوی لذت کو بھی درک کر سکتا ہے اور اپنی جسمانی قوت کو بھی بٹرھا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے ثواب بھی ملتا ہے۔ البتہ قصد قربت اور صحیح نیت کے مختلف درجے ہیں، منجملہ ان درجات میں سے گناہ سے پر ہیز کا ارادہ اور خدا کی مرضی کی مخالفت سے اجتناب کرنا ہے۔مرحوم علامہ طباطبائی نقل فرماتے تھے کہ جب امیر المو منین علیہ السلام نافلہ شب پڑھنے کے لئے اٹھتے تھے، بدن کو تاز گی اور نشاط بخشنے کے لئے پہلے سرد پانی سے نہاتے تھے۔فطری بات ہے کہ حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیت، جو صبح سے شام تک یا میدان جنگ میں جہاد کرتے تھے یا کھیت میں کام کرتے تھے، اس کے علاوہ پانچ سو یاایک ہزار رکعت نماز پڑھنے کے بعد تکان کا احساس اور نصف شب کو اٹھ کر نماز تہجد پڑھنے کے لئے ان کے پاس طاقت اور نشاط نہیں رہ جاتی تھی ، اس لئے سرد پانی سے نہانا ان کی طاقت اور نشاط میں اضافہ کا باعث تھا۔

____________________

١ فَبِعِزَّتِکَ یَا سَیِّدی وَ مَولاَیَ اُقْسِمُ صَادِقاً لَئِنْ تَرَکْتَنی نَاطِقاً لَاَضِجَنَّ اِلَیْکَ بَیْنَ اَهْلِهَا ضَجِیجَ الآمِلِینَ وَ لَاَصْرُخَنَّ اِلَیْکَ صُرَاخَ الْمُسْتَصْرِخِینَولا بکین علیک بکاء الفاقدین''

۲''فقد افنیت بالتسویف ولامال عمری وقدنزلت منزلة الآیسین من خیری فمن یکون اسوء حالامنی ان انا نقلت علٰی مثل حالی الی قبرٍ لم امهده لرقدتی ولم افرشه بالعمل الصالح لضجعتی ومالی لا ابکی ولاادری الی مایکون مصیری واریٰ نفسی تخادعنی وأیامی تخاتلنی وقد خفقت عند رأسی اجنحة الموت''

۳۔ مفردات ،مادہ '' نوب''

۴۔ بحار الانوار ،ج٧٧ص٣٨٥

۵۔ جو خدا وند عالم سے ملاقات کا امید وار ہے اسے چاہئے کہ وہ عمل صالح انجام دے اور ہر گز خدا کی عبادت میں کسی کو شریک قرار نہ دے ۔ سورہ کہف ١١٠

۶۔ بحار الانوار ،ج٨٤ ،ص٢٤٨

چودھواں سبق

آخرت پسندی اور دین میں زہدوبصیرت کی ستائش اوردنیا طلبی کی مذمت

*دنیا طلبی کی مذمت اور ایمان کی بلندی کا ذکر

* آخرت درستی کی ضرورت

* خدائے متعال کی خیر خواہی اور دنیا میں دین و زہد کی آگاہی۔

آخرت پسندی اور دین میں زہد و بصیرت کی ستائش اور دنیا طلبی کی مذمت

''یَا اَبَاذَرٍ! اَلدُّنْیَا مَلعُونَة وَ مَلْعُون مَافِیهَا اِلّٰا مَا اُبتُغِیّ بِهِ وَجْهُ ﷲ وَ مَامِنْ شَیْئٍ اَبْغَضُ اِلیَ ﷲ تَعَالیٰ مِنَ الدُّنْیَا، خَلَقَهَا ثُمَّ عَرَضَهَا فَلَمْ یَنْظُرْ اِلَیْهَاوَلَا یَنْظُرْ اِلَیْهَا حَتّٰی تَقُومَ السَّاعَةُ وَ مَامِنْ شَیئٍ اَحَبُّ اِلیَ ﷲ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الِایمَانِ بِهِ وَ تَرْکِ مَا َمَرَ بِتَرْکِهِ

یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اَوحٰی اِلیٰ اَخِی عِیسٰی: یَا عِیسٰی لَا تُحِبِّ الدُّنیَا فَاِنِی لَسْتُ اُحِبَُّهَا وَأَحِبَّ الْآخِرَةَ فَاِنَّمَا هِیَ دَارُالْمَعَادِ.

یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ جَبرَئِیلَ َتَانِی بِخَزَائِنِ الدُّنْیٰا عَلٰی بَغْلَةٍ شَهْبَائَ فَقَالَ لِی یَا مُحَمَّدَُ هٰذِهِ خَزَائِنُ الدُّنْیَا وَلاَ یَنْقُصُکَ مِنْ حَظِّکَ عِنْدَ رَبِّکَ فَقُلْتُ حَبیبِی جَبْرَئِیلَ لاٰ حَاجَةَ لِی فِیهَا ِذَاشَبِعْتُ شَکَرْتُ رَبِّی وَاِذَا جُعْتُ سََلْتُهُ.

یَا اَبَاذَرٍ! اِذَا اَرَادَﷲ عَزَّوَجَّلَ بِعَبْدٍ خَیْراً فَقَّهَه فِی الدِّینِ وَ زَهَّدَهُ فِی الدُّنْیَا وَ بَصَّرَهُ بِعُیُوبِ نَفْسِهِ''

اس حدیث کے بعض حصے دنیا کی مذمت کے بارے میں ہیں کہ اس کا ایک حصہ بیان ہوا اور اب ہم اس کے دوسرے حصہ کو پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا کہ دنیا کی مذمت اس معنی میں نہیں ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں میں انجام دینے والے کاروبار اور تلاش و کوشش سے ہاتھ کھینچ لے اور مال و دولت کو حاصل کرنے کے پیچھے نہ جائے، بلکہ مذمت، دنیا کی زینتوں سے وابستگی اور انہیں مقصد قرار دینے کی ہے۔ حقیقت میں یہ نیت اور محرک ہے جو انسان کے عمل کو جہت بخشتا ہے اور اس بات کا باعث بنتا ہے کہ وہ عمل شائستہ و پاک محسوب ہو یا ناشائستہ وغیر طاہر۔

قرآن مجید کی آیات و روایات کے مطابق، انسان دنیا کے ہی راستہ سے آخرت تک پہنچتا ہے اور دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ پس انسان کو دنیا میں جستجو اور سعی و کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس کی سعی و کوشش اور دنیوی سرگرمیاں خدا کے لئے ہیں تو وہ سعادت تک پہنچتا ہے اور اگر اس کی سر گرمیاں دنیاوی فعالیت اس کی لذتوں کے لئے ہیں تو خواہ مخواہ معصیت و گناہ کی طرف کھینچتا جارہا ہے اور وہ آتش جہنم اور عذاب ابدی کا راستہ ہے۔

دنیا طلبی کی مذمت اور ایمان کی بلندی کا ذکر:

اولیائے الہٰی مومنوں کو دنیا پرستی اور اس کی لذتوں سے بچانے کے لئے ایک نرس کے مانند جو مختلف طریقے سے بیمار کو ان چیز وں سے منع کرتی ہے جو اس کے لئے مضر ہوتی ہیں مختلف بیانات سے کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کو مومن کی نظر میں قابل نفرت قرار دیں، من جملہ ان بیانات میں سے ایک بیان یہ ہے جس کی طرف یہاں پر اشارہ کرتے ہیں:

''یَا اَبَاذَرٍ! اَلدُّنْیَا مَلعُونَة وَ مَلْعُون مَافِیهَاالَّا مَا اُبتُغِیّ به وجه الله''

اے ابوذر! دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس پرلعنت ہو مگر یہ کہ ان کے وسیلہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کی جائے۔

حدیث کے مضمون سے واضح ہے کہ دنیا کی نعمتوں جیسے زمین، درخت اور آسمان پر لعنت نہیں کی گئی ہے، کیونکہ جو چیز خدا کی خوشنودی تک پہنچنے کا وسیلہ بن سکتی ہے، نہ صرف قابل لعنت نہیں ہے بلکہ وہ مطلوب و پسندیدہ بھی ہے، لہذا دنیا کو مقصد اور اصل قرار دینا قابل لعنت ہے۔ کیونکہ دنیا کی تخلیق اور اس کی نعمتوں کی تخلیق اس لئے کی گئی ہے کہ انسان خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے انھیں اپنا وسیلہ قراردے ۔ دنیا کو انسان کے اختیار میں قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کی مدد سے خدا تک پہنچے۔ اب اگر انسان نے دنیا کو خدا تک پہنچنے کے لئے اپنے لئے وسیلہ قرار دیا تو رحمت الہٰی ہمیشہ اس کے ہمراہ ہوگی۔ چونکہ وہ مقصد کو معین کر کے اسی راہ پر گامزن ہے۔ عقلمند انسان کبھی اپنے مقصد سے غافل نہیں رہتا ہے بلکہ ہمیشہ اپنے مقصدا ور اس راہ پر نظر رکھتا ہے جو اسے منزل تک پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ مقصد ہے خدا کی نظر رحمت انسان سے منھ پھیر لیتی ہے، کیونکہ اس صورت میں اس نے اپنے مقصد اور دنیا کی پیدائش کے مقصد سے منہ موڑا ہے اور اس نے سعادت کی راہ کے بجائے شقاوت و بدبختی کے راستہ کا انتخاب کیا ہے۔

اصحاب ائمہ علیہم السلام میں سے ایک شخص اپنے کارو بار کے وسیع ہو جانے کی وجہ سے ناراض تھا۔ امام اس سے ملے اور فرمایا: تم کیوں غمگین ہو؟ اس نے کہا: مولا، میری دولت بڑھ گئی ہے، دنیا کے جال میں پھنس گیا ہوں۔ فرمایا: تم کیوں مال دنیا کے پیچھے پڑے ہو؟ اس نے کہا: تاکہ میں اور میرے فرزند دوسروں کے محتاج نہ رہیں اور اپنے مومن بھائیوں کی مدد کرسکوں۔ حضرت نے فرمایا: یہ تو وہی آخرت طلبی ہے یہ دنیا طلبی نہیں ہے، پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ تم جب دنیوی لذتوں پر فریفتہ ہوجائو گے اور دنیا کو دنیا کے لئے چاہو گے، تو اس وقت فکر مند ہو نا۔

''مَامِنْ شَیْئٍ اَبْغَضُ اِلیَ ﷲ تَعَالیٰ مِنَ الدُّنْیَا خَلَقَهَا ثُمَّ عَرَضَهَا فَلَمْ یَنْظُرْ اِلَیْهَاوَلَا یَنْظُرُ اِلَیْهَا حَتّٰی تَقُومَ السَّاعَةُ''

خدا کے نزدیک دنیا کے برابر کوئی چیز قابل نفرت نہیں ہے۔ اس نے اسے پیدا کیا پھر اس سے منہ موڑلیا اوراس سے اپنی نظر رحمت کو ہٹا لیا اور قیامت تک اس کی طرف نظر نہیں کرے گا۔

اس کلام کے مضمون کو بزرگوں' خاص کر امام خمینی اپنی اخلاق کی کتابوں میں زیادہ بیان فرماتے تھے اور اس پر اصرار فرماتے تھے۔ (یہ ایک عجیب تعبیر ہے۔ اہل معرفت کیلئے یہی تعبیر کافی ہے کہ عمر بھر دنیا کی طرف رغبت نہ کریں)۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کو دوست رکھتا ہے۔ وہ اسماا ور صفات الہٰی کے آثار ہیں۔ اس لحاظ سے کہ دنیا اور اس کی نعمتیں اس کی صفات و اسماء کے مظہر ہیں' قیامت تک ان پر توجہ و عنایت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا پر اس جہت سے توجہ اور عنایت نہیں کرتا جکہ اسے مستقل اور اصالت کا درجہ دیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں محبت و عنایت الہٰی کا تعلق کس چیز سے ہے؟ اس نکتہ کے بیان میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں:

''وَ مَامِنْ شَیئٍ اَحَبُّ اِلیَ ﷲ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الِایمَانِ بِهِ وَ تَرْکِ مَا َمَرَ بِتَرْکِهِ''

''خدا کے نزدیک ایمان اور محرمات سے پرہیز کرنے کے برابر کوئی چیز محبوب تر نہیں ہے۔''

خدا کے نزدیک پہلے مرحلہ میں ایمان اور دوسرے مرحلہ پر تقویٰ نیز گناہ و محرمات کو ترک کرنا عزیز ترین شیٔ ہیں۔ اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ترک گناہ، واجبات کو انجام دینے سے مطلوب تر ہے۔ اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ انجام واجبات کاایمان کے مراتب میں ہے۔کیونکہ ایمان اعمال قلبی کو بھی شامل ہے اور اس اعمال ظاہری کو بھی جو اعضا و جوارح کے توسط سے انجام دیئے جاتے ہیں۔ اب جو کچھ دنیا میں ہے اگر وہ ایمان تک پہنچنے اور گناہ سے دوری کے سلسلہ میں وسیلہ بن جائے تو وہ خدا کے نزدیک محبوب ہے۔ لہذا خدائے متعال نے بہت سے دنیوی امور کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ انسان ان کے ذریعہ تقویٰ' نیک اعمال اور خدا کا تقرب حاصل کر سکتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نقل فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

''تِسْعَةُ اعْشٰارِ الْعِبَادَةِ فِی التِّجَارَةِ'' (۲)

عبادت کے دس حصوں میں سے نو حصے تجارت اور کسب معاش سے مربوط ہیں۔

ایک دوسری روایت میں امام جعفر صادق ںفرماتے ہیں:

''مَامِنْ بنٰائٍ فِی الْاِسْلاٰمِ اَحَبُّ اِلَی ﷲ عَزَّوَجَلَّ وَ اَعَزُّمِنْ التَّزْوِیجِ'' (۳)

اسلام میں ، خدا کے نزدیک ازدواج سے زیادہ عزیز ترین کوئی عمارت نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ امور دنیوی ہیں، لیکن چونکہ یہ خدا کی بندگی اور ترک گناہ کے لئے وسیلہ ہیں، اس لئے خدا کے نزدیک عزیز ہیں۔

آخرت درستی کی ضرورت:

''یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ ﷲ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اَوحٰی اِلیٰ اَخِی عِیسیٰ: یَا عِیسٰیٰ لَا تُحِبِّ الدُّنیَا فَاِنِی لَسْتُ اُحِبَُّهَا وَاُحِبِّ الْآخِرَةَ فَاِنَّمَا هِیَ دَارُالْمَعَادِ''

اے ابوذر! خدائے متعال نے میرے بھائی عیسٰی پر وحی نازل فرمائی: اے عیسٰی دنیا کو دوست نہ رکھو کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتا ہوں، آخرت کو دوست رکھو کیونکہ وہ واپس لوٹنے کی جگہ ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عیسٰی کی زبانی نقل فرماتے ہیں کہ خدائے متعال نے انھیں وحی بھیجی کہ میں دنیا کو پسند نہیں کرتا ہوں تم بھی اسے دوست نہ رکھو۔ فطری بات ہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی دنیا کے دشمن ہیں، چونکہ معصومین کے لئے کسی چیز یا کسی شخص سے دوستی اور دشمنی کا معیار خدا کی دوستی و دشمنی ہے۔ فطری بات ہے کہ مومنین اور حق کے پیروی کرنے والوں کے لئے دنیا سے برتائو کرنے میں انبیاء اور معصومین علیہم السلام اور ان کی عملی سیرت نمونہ ہے۔

حضرت علی علیہ السلام، دنیا کی نسبت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نظریہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

''قَدْ حَقَّرَ الدُّنْیَا وَ صَغَّرَ هَا... فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهِ وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَاعَن نَفْسِهِ وَاَحَبَّ اَنْ تَغیبَ زِینَتُهَا عَن عَیْنِهِ لِکَیْلاَ یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشاً اَوْ یَرْجُو فِیهَا مُقَاماً ...''(۴)

''رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کو حقیر جانتے تھے اور اسے نا چیز کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ آپ نے دل سے دنیا کو ترک کیا تھا اور اس کی یاد کو اپنے نفس سے نکال باہر کیا تھا اور اس کی زینت کو دیکھنا پسند نہیں فرماتے تھے تاکہ اس کی زینت سے اپنے لباس آراستہ نہ کریں اور اس کی تمنانہ کریں۔''

یہ ایسی حالت میں تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے تمام مادی نعمتوں سے استفادہ کرنے کے امکانات موجود تھے، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اپنے قول کے مطابق دنیا کے تمام خزانے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پیش کئے گئے تھے، لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں قبول نہیں فرمایا تھا:

''یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ جَبرَئِیلَ َتَانِی بِخَزَائِنِ الدُّنْیٰا عَلٰی بَغْلَةٍ شَهْبَائَ فَقَالَ لِی یَا مُحَمَّدَُ هٰذِهِ خَزَائِنُ الدُّنْیَا وَلاَ یَنْقُصُکَ مِنْ حَظِّکَ عِنْدَ رَبِّکَ ''

''اے ابوذر! جبرئیل امین عام دنیا کے خزانوں کو ایک سیاہ و سفید رنگ کے خچر پر رکھ کر میرے پاس لائے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ دنیا کے خزانے ہیں اور ان کو خرچ کرنا آپ کے نصیب میں ہے، اس سے خدا کے نزدیک کو ئی کمی واقع نہیں ہوگی۔

یہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :جبرئیل ایک سیاہ سفید رنگ کے گھوڑے پر سوار دنیا کے خزانے لے کر میرے پاس آئے، شاید اس کا کہنا یہ ہوگا کہ دنیا لذت و رنج اور خیر و شرکا سنگم ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا شخص پایا نہیں جاسکتا جس نے کہ زندگی میں صرف رنج و پریشانی دیکھی ہو اور کسی طرح کی لذت و خوشی کا سامنا نہ کیا ہوااس کے برعکس ایسا بھی کوئی نہیں ہے کہ جس نے زندگی میں صرف لذت ہی لذت دیکھی ہو اور کسی بھی رنج و مصیبت سے دو چار نہ ہوا ہو۔ حقیقت میں ہر رنج و غم کے ساتھ ایک لذت و خوشی ہے اور ہر لذت و خوشی کے ساتھ ایک رنج و الم ہے اور یہ دونوں انسان کے لئے امتحان کا وسیلہ ہیں:

(...( وَنَبْلُوْ کُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتنَهً ) (انبیائ ٣٥)

''ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے۔

اور ایک نکتہ یہ ہے کہ جبرئیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے ہیں: اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا کے تمام خزانوں سے استفادہ کریں گے تو آپ کے آخرت سے استفادہ کرنے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ مادی لذتوں کی آفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس قدر ان سے استفادہ کیا جائے گا احتمال ہے اخروی فائدوں سے محروم ہو جائے۔ لیکن اولیائے الہٰی اور انبیاء اس طرح نہیں ہیں، اس لحاظ سے جبرئیل کہتے ہیں:

تمام دنیوی خزانوں سے استفادہ کرنے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخروی حصہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے جبرئیل کے جواب میں فرمایا:

''حبیبی جبرئیل لا حاجة لی فیها اذاشبعت شکرت ربی واذاجعت سالته''

میرے دوست جبرئیل مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جب بھی میں سیر ہوں گا اس کا شکر کروں گا۔ اگر مجھے بھوک لگے گی تو اس سے مانگ لوں گا۔

مومن کے لئے بہترین حاجت یہ ہے کہ ایک طرف سے خدا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے اور ان کے لئے خدا کا شکر بجالائے اور دوسری طرف سے خدا کی نسبت احساس فقرو محتاجی کرے اور ہمیشہ اس کی طرف ہاتھ پھیلائے۔ کیونکہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ جس کے دو پہلو ہیں ، اسے چاہئے کہ خد اکی نعمتوں سے استفادہ کرے اور اس کا شکر بجالائے۔ بس اس کی نعمتوں سے استفادہ اور اس کا شکربجا لانا اس کی سعادت کا سبب ہے۔ اور دوسری طرف سے ہمیشہ احساس فقر و محتاجی کرے تاکہ مغرور اور غافل نہ ہو اور خود کو دوسروں سے برتر تصور نہ کرے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: اگر دنیا کی ساری دولت میرے اختیار میں ہو جب بھی مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ مجھے ہمیشہ خدا پر نظر رکھنی چاہیے اور اس سے نعمت مانگوں اور اس کی نعمت کا شکر بجالائوں۔

خداوند عالم کی خیر خواہی اور دنیا میں دین و زہد کی آگاہی:

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

'یَا اَبَاذَرٍ! اِذَا اَرَادَﷲ عَزَّوَجَّلَ بِعَبْدٍ خَیْراً فَقَّهَه فِی الدِّینِ وَ زَهَّدَهُ فِی الدُّنْیَا وَ بَصَّرَهُ بِعُیُوبِ نَفْسِهِ.''

اے ابوذر! جب خدائے متعال کسی بندہ کے لئے خیر چاہتا ہے اسے دین میں فقیہ اور دانا بنا دیتا ہے اور دنیا میں زاہد قرار دیتا ہے اور اسے اپنے عیوب کی طرف دیکھنے کی بینائی و بصیرت عطا کرتا ہے ۔

جب خدائے متعال کسی بندے کو خیر پہنچانا چاہتا ہے تو اسے تین چیزیں عطا کرتا ہے:

١۔ دین کی معرفت

٢۔دنیا میں زہد اور دنیوی لذتوں سے بے رغبتی

٣۔ اپنے عیوب کے بارے میں آگا ہی

(مذکورہ تین خصوصیتوں کے مقابلہ میں ، انسان کے لئے بدترین چیز دین کے بارے میں جہل، دنیا پرستی، اپنے آپ سے راضی ہونا اور دوسروں کی عیب جوئی کرنا ہے)

گزشتہ مطالب اور آنے والے مطالب کے پیش نظر قابل تو جہ جملہ ''وزھّدہ فی الدّنیا'' ہے۔ کیونکہ بحث دنیا کی اہمیت و منزلت کے بارے میں ہے پس اگر کوئی شخص اپنے دل میں یہ احساس کرتا ہے کہ اسے دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے اور اس سے صرف اپنی ضرورتوں کو پورے کرنے کی حدتک استفادہ کرتا ہے اور فقط فرائض کے انجام دینے کے لئے دنیوی امور کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے خدائے متعال اس کی خیر چاہتا ہے۔ البتہ ایک معنی میں خدائے متعال سبھی کے لئے خیر چاہتا ہے لیکن وہ اپنے تشریعی ارادے کی بنیاد پر سبھی کے لئے بعض و ظائف معین کئے ہیں اور انہیں محرمات سے روکا ہے۔ اب اگر انتخاب کرنے والا انسان صحیح انتخاب کرے اگر چہ صحیح راستہ کو انتخاب کرنے کے مقدمات خدائے متعال کی توفیق سے حاصل ہوتے ہیںاگر یہ طیہو جائے کہ بندگی کے راستہ کو اختیار کرے گا اور ایسی چیز کو پسند کرے گا کہ جسے خدا پسند کرتا ہے اور خدا کے دوستوں کے ساتھ دوست اور خدا کی راہ میں قدم بڑھائے گا تو خدا کا خاص تکوینی ارادہ اس سے متعلق ہو جاتا ہے کہ وہ اسے کامیابی اور سر بلندی سے سرفراز کرے:

( وَمَنْ اَرَادَ الْآخِرَة َوَسَعیٰ لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَ مُؤْمِن فَاُولٰئِکَ کَانَ سَعْیَهُمْ مَشْکُوراً ) (اسرائ۔ ١٩)

''اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور اس کے لئے ویسی ہی سعی بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تو اس کی سعی یقینا مقبول قرار دی جائے گی۔''

اس کے مقابلہ میں خدائے متعال کسی سے دشمنی نہیں رکھتا ہے اور بلا وجہ کسی کو جہنم میں نہیں ڈالتا ہے۔ پس اگر کسی نے اپنے غلط انتخاب کی بناپر کفر و عصیان کا راستہ اختیار کیا تو پرور دگار عالم ارادہ تکوینی کے ذریعہ اسے ذلیل و رسوا کرتا ہے اور اسے خیر کی توفیق نہیں ہوتی ہے:

( مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِیهَا مَا نَشَائُ لِمَنْ نُرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ یَصْلٰهٰا مَذْمُوماً مَدْحُوراً ) (اسرائ۔ ١٨)

جو شخص بھی دنیا کا طلب گا رہے ہم اس کے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا۔

پس خدائے متعال جس کی خیر چاہتا ہے اسے تین چیزوں میں کامیاب قرار دیتا ہے:

اسے علم حاصل کرنے کی توفیق بخشتا ہے اس کے بر عکس اگر خدا کسی کے لئے خیر نہیں چاہتا تو اسے علم حاصل کرنے سے محروم کردیتا ہے، چنانچہ روایت میں آیا ہے:

''اِذَا اَرْذَلَ ﷲ عَبْداً حَظَّرَ عَلَیْهِ الْعِلمَ''

اگر خدا وند متعال اپنے کسی بندے کو اپنے سے دور کرتا ہے تو اسے علم حاصل کرنے سے محروم کردیتا ہے۔(۵)

ہم خدا کا شکر بجالا تے ہیں کہ اس نے اپنے بے شمار بندوں میں سے ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے۔ ہمیں اس بڑے افتخار کی قدر کرنی چاہیے جو ہمارے نصیب میں ہے، کیونکہ اسی بڑی الہٰی توفیق کے نتیجہ میں ہمارے لئے کمال تک پہنچنے کی راہ ہموار ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے:

''اَلْکَمَالُ کُلُّ الْکَمَالِ' اَلتَّفَقُهُ فِی الدِّینِ وَتَقْدِیرِالْمَعیشَةِ وَالصَّبْرُ عَلٰی النَّائِبَةِ''

تمام کمالات تین چیزوں میں خلاصہ ہوتے ہیں:

١۔ دین میں تفقہ

٢۔ امور زندگی کی منظم منصوبہ بندی

٣۔ مشکلات پر صبر(۶)

دوسری توفیق الہٰی: دنیا کی نسبت سے بے رغبت ہونا ہے انسان کو چاہئے کہ اس کا دل دنیا کی زرق وبرق چیزوں پر فریفتہ نہ ہو افسوس کہ ہم میں بہت سے لوگوں میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی بلکہ ہم تقریباً دنیا کی لذتوں سے وابستگی رکھتے ہیں۔ اگر انسان مناسب اور اپنی شان کے مطابق زندگی بسر کرنے کے باوجود، بہتر گاڑی، بہتر سواری اور بہتر لباس کی تلاش میں سر گرداں ہے تو وہ دنیا طلبی کے پیچھے پڑا ہے اوروہ بہشت کی نعمتوں سے محروم ہوگا، جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:

( تِلْکَ الدَّارُالآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِینَ لاَ یُرِیدُونَ عُلُوّاًفِی الْاَرْضِ وَلاَ فَسَاداً ) ....) (قصص/ ٨٣)

یہ دار آخرت وہ ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں۔

اس آیت کے ذیل میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ حتی اگر انسان اپنے جوتے کے تسمہ کو بدل کر بہتر تسمہ کی فکر میں ہو تو یہ زیادہ خواہی اور برتر طلبی کا نمونہ ہے(۷) ۔ پس، انسان کو کوشش کرنا چاہیے کہ اس حد تک بھی دنیا کے پیچھے نہ پڑے۔ اس کا دل خدا اور آخرت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے نہ جوتے کے تسمہ، گھر اور سواری کی فکر میں ، کیونکہ دل نو رِخدا کے نازل ہونے کی جگہ ہے:

''قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ''

مومن کا دل خدا کی جگہ ہے۔(۸)

جس قدر انسان کادل خدائے متعال سے منحرف ہوگا اورامور دنیا میں مشغول ہوگا اسی قدر وہ معنوی اور اخروی معاملات سے محروم ر ہے گا۔

حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں دنیا کی نسبت انبیاء کے نقطہ نظر کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کرناتمھارے لئے کافی ہے اور دنیا کی مذمت اور اسے عیب جاننے کے لئے اس کی بیشمار رسوائیاں اور برائیاں تمھارے لئے دلیل اور رہنما ہے۔ کیونکہ دنیا کی وابستگی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لے لی گئی تھی اور دوسروں کااس کی طرف مائل ہونافراہم کیا گیا اس کی لذتوں سے استفادہ کرنے سے پرہیز کیا اور اس کی سجاوٹوں سے اجتناب کیا۔ اگر کسی دوسرے پیغمبر کی اطاعت کرنا چاہتے ہو تو موسیٰ کلیم اللہ کی پیروی کرو کہ جو فرماتے تھے: ''پرور دگارا! مجھے جو خیر و نیکی تونے عنایت کی ہے میں اس کا محتاج ہوں''

خداکی !قسم موسیٰ نے خدا سے کھانے کیلئے روٹی کے علاوہ کچھ نہیں مانگاتھا۔ کیونکہ وہ زمین کی گھاس کھاتے تھے۔ اور دبلا پتلا ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ کی کھال اتنی نازک ہوگئی تھی کہ پیٹ میں موجودہ سبز گھاس دکھائی دیتی تھی۔ اگر تیسرے پیغمبر کی پیروی کرنا چاہتے ہو تو داؤد پیغمبر کی پیروی کرو جو صاحب ''مزامیروزبور'' تھے۔ وہ بہشت کے نغمہ خوان ہوں گے۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کے پتوں کی زنبیل بناتے تھے اور اپنے دوستوں سے کہتے تھے: ''تم میں سے کون ان کو فروخت کرنے میں میری مدد کرے گا؟ اور وہ اس کی قیمت سے اپنے لئے جو کی ایک روٹی تیار کرتے تھے۔

عیسٰی کو بتاؤ جو سوتے وقت تکیہ کے بجائے اپنے سرہانے پتھر رکھتے تھے اور کھدر کپڑے پہنتے تھے اور سخت غذا کھاتے تھے۔ رات میں ان کا چراغ چاند ہوتا تھا۔ سردیوں میں ان کا مکان وہ جگہ ہوتی تھی۔ جہاں سورج چمکتا تھا یا وہ جگہ دھنس جاتی تھی (ان کا گھر نہیں تھا) ان کا میوہ اور خوشبو دار سبزی وہ گھاس تھی جو مویشیوں کیلئے زمین پر اگتی ہے۔ نہ ان کی بیوی تھی جو اسے فتنہ و تباہی کی طرف کھینچتی اور نہ ان کا کوئی فرزند تھا جو انھیں غمگین کرتا نہ ان کے پاس پراپرٹی اور دولت تھی جو انھیں خدا کی یاد سے روکتی اور نہ کوئی طمع و لالچ تھی جو انھیں خوار کرتی۔ خداند متعال اپنے اولیا سے دشمنی رکھتا ہے کہ انہیں دنیا کی لذتوں سے محروم کرے؟ یا یہ کہ دنیا کی سختی اور مشکلات ان کے تکامل وترقی کا وسیلہ اور خدا کی محبت کی علامت ہے۔ اس نکتہ کی تاکید کرنا ضروری ہے کہ ان بیانات سے ایسا تصور نہیں کرنا چاہیے ہم بیکاری اور بے عملی کا مظاہرہ کریں اور گوشہ نشینی اختیار کر کے فرائض سے ہاتھ کھینچ لیں اور کسب حلال کیلئے کوشش نہ کریں یا اسلام و مسلمین کے تحفظ کیلئے کوشش نہ کریں! دراصل بات یہ ہے کہ دنیوی امور کا فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمام دنیا کے خزانے اور دولت بھی کسی کے اختیار میں دے دی جائے اور وہ تمام لذتوں سے استفادہ کرے لیکن اس پر فریفتہ نہ ہو تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ جیسے سلیمان بن داؤد کہ اتنی دولت' عظیم سلطنت مقام نبوت و ولایت کے ہوتے ہوئے بھی انھیں کوئی نقصان نہ پہنچاکیونکہ وہ دنیا کے فریفتہ نہیں ہوئے تھے۔ خود جو کی روٹی کھاتے تھے اور دولت و قدرت کو دین خدا کو عزت بخشنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔ اگر ملکہ سبا سے جنگ کی یا' جنگ کی دھمکی دی تو' وہ صرف حکومت الہٰی کی وسعت کیلئے تھی اور اس لئے تھی کہ زمین سے شرک کا خاتمہ ہو جائے نہ اس لئے کہ خود دنیا کی لذتوں سے استفادہ کریں۔

معصومین علیہم السلام کی زاہدانہ زندگی کے بارے میں نقل کی گئی تمام روایتوں سے اس طرح کا شک و شبہ بر طرف ہو جاتا ہے کہ وہ دنیا میں سختی سے زندگی بسر کرتے تھے اور دنیا میں عیش و آرام کے خواہاں نہیں نہیں تھے۔ ان کا طریقۂ کار یہ تھا کہ لوگوں کو دنیا پرستی سے روکتے تھے' جس طرح ائمہ اطہارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصل وجود میں کوئی شک نہیں ہے' اسی طرح ان کی زندگی کے شیوہ میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ ان کی واضح خصوصیات میں خدا کی عبادت سحر خیزی' مناجات' دعا اور گڑ گڑانا تھا۔ دوست و دشمن اور شیعہ و سنی اس کااعتراف کرتے ہیں اور اس بارے میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔

ان کی تربیت کی روش لوگوں کو دنیا پرستی سے روکنا اور مادی لذتوں سے وابستگی کے بارے میں ان کی طبیعت میں نفرت پیدا کرنی تھی۔ اس کے باوجود دوسروں کو مسلسل کام' فعالیت اور کسب حلال کی تلقین کرتے تھے تاکہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔ حقیقت میں یہ دنیا اور خدا کی مرضی کو جمع کرنے کے معنی میں ہے'

جو عام لوگوں کیلئے ممکن نہیں ہے۔

جو روایتیں دنیا کی مذمت یا کسب معاش کی ستائش میں نقل کی گئی ہیں۔ ان کے بارے میں صدر اسلام سے ہی غلط مطالب نکالے جاتے رہے ہیں، جب دنیا کی مذمت کی جاتی تھی تو وہ تصور کرتے تھے کہ دنیا سے استفادہ نہیں کرنا چاہیے اور غاروں میں زندگی بسر کرنی چاہیے اور درختوں کے پتوں سے لباس بنایا جانا چاہیے: دوسری طرف سے جب دیکھتے تھے بعض روایتوں میں تلاش معاش کی ستائش ہوئی ہے' تو خیال کرتے تھے کہ تمام چیزوں کو پیٹ کیلئے قربان کرنا چاہیے!

مکتب اہل بیت کے تربیت یافتہ بخوبی جانتے ہیں کہ تلاش معاش اور دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرنے اور آخرت طلبی کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے لیکن دنیا کی محبت اور آخرت کی محبت میں منافات ہے اور ان دوکا جمع ہونا ممکن نہیں ہے۔ ممکن نہیں ہے انسان خدا سے بھی محبت رکھے اور اس چیز سے بھی جس پر اس نے غضب کیا ہے۔ جو دنیا آخرت تک پہنچنے کا وسیلہ اور کسب معاش خدا کی مرضی کے مطابق ہو ممنوع اور مبغوض نہیں ہے۔

دنیا سے محبت اور اس سے دوری کا اندازہ لگانے کیلئے انسان کا ظاہری عمل معیار نہیں ہے بلکہ اس کا معیار انسان کی نیت اور اندرونی محرک ہے۔ لیکن بعض اوقات نیت عمل میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا سے اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن عملاً دنیا کیلئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور حرام سے بھی پرہیز نہیں کرتا ہے۔ بے شک ایسے شخص کی نیت دنیا پرستی ہے۔ لہذا کام دعویٰ سے حل نہیں ہوتا'اصل میں نیت اور دل پر نظر ڈالنی چاہیے۔ کچھ ایسے درویش اور صوفی بھی پائے جاتے ہیں جو دنیا سے بے اعتنائی اور بے رغبیی کیلئے زبان پر اشعار جاری کرتے ہیں لیکن عملاً ایک پیسہ بھی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

____________________

١۔بحار الانوار ، ج ٨٥، ص ٣١٩ ، ح ٢

٢۔ بحار الانوار ، ج ١٠٣ ، ص ٢١٩ ، ح ١٤

٣۔ بحار الانوار ، ج ١٠٣ ، ص ٢٢٢ ، ح ٤٠

۴۔ نہج البلاغہ ، ( ترجمہ فیض الاسلام ) خطبہ ١٠٨ ، ص ٣٣٦

۵۔ بحار الانوار: ج ١ ، ص ١٩٦

۶۔ بحار الانوار ، ج ٧٨ ، ص ١٧٢ ، ح ٥۔

۷ ۔المیزان ج١٦،ص٨٥

۸۔ بحار الانوار ، ج ٨٥ ، ص ٣٩

۹۔ نہج البلاغہ ترجمہ فیض الاسلام ،خ ١٥٩، ص ٥٠٨


16

17

18

19

20

21

22