زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)0%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (پہلی جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24753
ڈاؤنلوڈ: 3321


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24753 / ڈاؤنلوڈ: 3321
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد 1

مؤلف:
اردو

سترہواں سبق

آخرت کے لئے گریہ کرنامومن کی وسعت قلبی اور اس کی تقوی مداری کی دلیل ہے

*آخرت کے لئے رونے کے نتائج

* مومن کی وسعت قلبی اور اس کی علامتیں

* تقویٰ محوری اور ریاکاری و نفاق سے پرہیز

* عمل کی قدر و منزلت میں نیت اور اس کااثر

آخرت کے لئے گریہ کرنامومن کی وسعت قلبی اور اس کی تقویٰ مداری کی محور ہے

'' یَاا َبَاذَرٍ؛ اِنَّ رَبِّی اَخْبَرَنی' فَقَالَ: وَ عِزتی وَ جَلالی مَا اَدْرَکَ الْعَابِدُونَ دَرْک الْبُکَائِ عِنْدی وَاِنِّی لَاَبْنی لَهُمْ فِی الرَّفیقِ الَاعْلٰی قَصْراً لاَ یُشَارِکَهُمْ فِیهِ اَحَد قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ ﷲ اَیُّ الْمُؤْمِنَینَ اَکْیَسْ؟ قَالَ اَکْثَرُهُمْ لِلْمَوتِ ذِکْراً وَاَحْسَنُهُمْ لَهُ اِسْتَعْدَاداً

یا اَبَاذَرٍ: اِذَا دَخَلَ النُّورُ الْقَلْبَ انْفَسَحَ الْقَلْبُ وَ اسْتَوسَعَ، قُلْتُ: فَمَا عَلَامَةُ ذٰلِکَ؟ بِاَبِی اَنْتَ وَاُمِّی یَا رَسُولَ ﷲ' قٰالَ؛ الِْانَابَةُ اِلَی دَارِ الْخُلُودِ وَ التَّجٰافی عَنْ دَارِالْغُرُورِ' وَالْاِسْتَعْدَادُ لِلْمَوتِ قَبْلَ نَزُولِهِ یَا اَبَاذَر؛ اِتَّقِ ﷲ وَلاَتُرِ النَّاسَ اِنَّکَ تَخْشٰی ﷲ فَیُکْرِمُوکَ وَقَلْبُکَ فٰاجِر یَا اَبَاذَرٍ؛ لِیَکُنْ لَکَ فی کُلِّ شَیئٍ نِیَّة حَتّٰی فِی النَّومِ وَالْاَکْلِ''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکثر نصیحتیں جن پر اس سے پہلے بحث کی گئی، تین محوروں پر مشتمل تھیں:

١۔ دنیا پرستی اور اس سے وابستہ ہونے سے پر ہیز۔

٢۔ ذکر خدا کی تشویق۔

٣۔ خدا کے خوف سے خضوع و خشوع اور گریہ وزاری۔

حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خوف خدا میں رونے کی اہمیتدو بارہ بیان فرماتے ہیں، اس کے علاوہ آخرت پر توجہ، دنیا سے بیزاری اور ریاکاری سے پرہیز کے بارے میں تا کید فرماتے ہیں۔

آخرت کے لئے رونے کے نتائج:

'' یَا َبَاذَرٍ؛ اِنَّ رَبِّی اَخْبَرَنی' فَقَالَ: وَ عِزتی وَ جَلالی مَا اَدْرَکَ الْعَابِدُونَ دَرَکَ الْبُکَائِ عِنْدی وَاِنِّی لَاَبْنی لَهُمْ فِی الرَّفیقِ الَاعْلٰی قَصْراً لاَ یُشَارِکَهُمْ فِیهِ اَحَد''

''اے ابوذر! پرور دگار نے مجھے خبر دیدی اور کہا: مجھے میری عزت و جلال کی قسم ! عابدوں کو ان کے رونے کی پاداش کے بارے میں معلوم نہیں ہوگا کہ میں نے رونے والوں کے لئے بہشت کے بلند ترین مدارج میں ایک محل تعمیر کیا ہے جس میں ان کے علاوہ کوئی اور شریک نہیں ہوگا۔''

جیسا کہ اشارہ ہوا، جس رونے کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نینصیحت کی ہے وہ خوف خدایا لقاء اللہ کو حاصل کرنے کے شوق میں رونا ہے۔ اگر چہ گریہ کی یہ دونوں قسمیں مطلوب ہیں اور خدا کی طرف توجہ اور انسان کے بیدار ہونے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن لقاء اللہ حاصل کرنے کے شوق میں کیا جانے والا گریہ برتر ہے اور یہ عمیق معرفت کی نشانی ہے جو سبھی کو حاصل نہیں ہوتی اور معرفت کے اس مدارج تک چند گنے چنے افراد من جملہ معصومین علیم السلام کو رسائی حاصل ہے۔

چونکہ اولیائے الہٰی اور معصومین علیہم السلام خدائے متعال کے شیدائی اور عاشق ہیں اورعاشق کے لئے اپنے معشوق کا فراق اوراس کی دوری سے زیادہ شدید کوئی درد نہیں ہے۔ ائمہ اطہار سے روایت کی گئی دعائوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس طرح فراق کے درد میں نالہ وزاری کرتے تھے اور معشوق کے و صال کے شوق میں جلتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام سجاد سے نقل ہوئی دعائیں اہل بیت علیہم السلام کے خدائے متعال سے بے انتہا عشق کے نمو نے ہیں۔ ان دعائوں سے ہی اہل بیت علیہم اسلام کی بے انتہا معرفت و شناخت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ اسی معرفت ہی کا نتیجہ تھا جس کے سبب یہ پاک ذاتیں، پاک سیرتیں اور بشریت کے اسوہ اور نمونے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے پرور دگار کے حضور سے غافل نہیں رہتے تھے اور چونکہ وہ خدا کی ذات کو ہر چیز سے برتر اور ہر چیز کو اس کی قدرت کا جلوہ تصور کرتے تھے، اس لئے اس کے عاشق تھے اور یہ محبت انہیں اندرونی طور پر ایک لمحہ کے لئے آرام و قرار سے رہنے نہیں دیتی تھی۔ ان کی مناجاتیں اور دعائیں بذات خود ان کے اس کمال عشق کی گواہی دیتی ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام، دعائے کمیل میں شوق دیدار محبوب کی کیفیت سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کے فراق میں صبر کرنے کو اس کے عذاب پر صبر کرنے سے زیادہ سخت اور دشوار جانتے ہیں اور اپنے پرور دگار سے مخاطب ہو کر عرض کرتے ہیں:

'' فَهَبْنی یَا اِلٰهیٰ وَسَیِّدی وَمَولاَیَ وَرَبِّی صَبَرْتُ عَلٰی عَذَابِکَ فَکَیْفَ اَصْبِرُ عَلٰی فَرَاقِکَ...''

''اے میرے خدا، میرے مولا اور میرے پرور دگار! میں نے تیرے عذاب پرتو صبرکر لوں گا، مگر تیرے فراق پر کیسے صبر کروں؟''

اور اپنے معبود سے جدائی کی صورت میں اپنے کرب کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تیری عزت کی قسم اے میرے مالک اور اے میرے مولا! اگر مجھے گویائی زبان کے ساتھ (جہنم میں ) ڈالا گیا، تو اہل جہنم کے درمیان واویلا کرنے والوں کی طرح فریاد بلند کروں گا اور اس شخص کی طرح کہ جس نے اپنے محبوب کو کھودیا ہو، تیرے فراق میں زار زار گریہ کروں گا۔''(۱)

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابوحمزئہ ثمالی میں فرماتے ہیں:

''میں نے آج کل کرتے ہوئے اور اپنی طولانی آرزوئوں سے اپنی عمر کو تباہ و برباد کر لیا ہے اب ایک ایسی منزل پر پہنچ ہو کہ اپنے نفس کی اصلاح سے نا اُمید ہوچکا ہوں۔ پس مجھ سے زیادہ بدحال اس زمانہ میں کون ہے؟ وائے ہو مجھ پر! اگر اس حالت میں ایک ایسی قبر کی طرف روانہ ہوگیا جسے میں نے اپنے لئے خوابگاہ نہیں بنایا ہے اور اپنے عمل سے اس میں بچھونانہیں بچھا یا ہیتو میں کیوں گریہ نہ کروں! جبکہ نہیں جانتا ہوں کہ میرا انجام کیا ہو گا۔ اس وقت میرا نفس مجھے دھوکہ دے رہا ہے اور زمانے مجھے فریب دے رہے ہیں، جبکہ موت میرے سرپر سایہ فگن ہے۔''(۲)

انسان کے داخلی رذائل اور اخلاقی کو تاہیوںکو برطرف اور پاکیزہ بنانے سے متعلق گریہ کے عظیم نقش کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: رونے کے لئے ایک ایسی فضیلت و پاداش معین ہے کہ دوسری چیزوں میں نہیں ہے۔ رونے والا ایک ایسے مقام پر فائز ہوجاتا ہے کہ دوسرے چاہے جتنی بھی عبادت کریں وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔

جناب ابوذر سب سے زیادہ عقلمند اور زیرک افراد کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب میں فرماتے ہیں:

'' اَکْثَرُهُمْ لِلْمَوتِ ذِکْراً وَاَحْسَنُهُمْ لَهُ اِسْتَعْدَاداً''

لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند و زیرک وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ موت کی یاد میں ہو اور خودکو دوسر وں سے زیادہ موت کے لئے آمادہ کرے۔

جس نے کسی راہ کا انتخاب کیا ہے، اگر وہ زیرک و ہوشیار ہے، تو ہمیشہ مقصد کو مد نظر رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ جلد سے جلد مقصد تک پہنچ جائے۔ اوراگر کوئی راستے میں مقصد سے غافل ہوگیا تو وہ صحیح وسالم مقصد تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو اصلی ہدف و مقصد کو پہچانتا ہے اور جانتا ہے کہ دنیا صرف آخرت تک پہنچنے کے لئے ایک وسیلہ ہے، تو اسے دنیا کی چمک دمک اور مادی جاذبیت دھوکہ نہیں دے سکتی اور وہ ہمیشہ موت کی یاد میں رہتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ اسی حالت میں اگر اس کے لئے موت کا پیغام آجائے تو وہ اپنے توشہ آخرت کے ساتھ خدا کی طرف روانہ ہوجاتا ہے، لیکن جنہوں نے اپنے مقصد کو کھو دیا ہے، آخرت کے لئے کوئی زادراہ آمادہ نہیں کیا ہے، تو ان کے لئے زادراہ کے بغیر طولانی راستہ میں قدم رکھنا ایک خطرناک کام ہے۔

مومن کی وسعت قلبی اور اس کی علامتیں:

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

'' یا اَبَاذَرٍ: اِذَا دَخَلَ النُّورُ الْقَلْبَ انْفَسَحَ الْقَلْبُ وَ اسْتَوسَعَ''

اے ابوذر! اگر دل میں نور روشن ہوجائے تو قلب کشادہ ہو جاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔

ابتدا میں دل تاریک ہوتے ہیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان میں اپنے نور کا افاضہ کرتا ہے جن دلوں میں صلاحیت ہوتی ہے وہ اس نور کو کسب کرتے ہیں۔ جب وہ نور دل میں جگہ پاجاتا ہے، اس دل کی ظرفیت بڑھ جاتی ہے۔ تشبیہ معقول بہ محسوس کے طور پر مثلاً جب خالی اور سوکھی مشک میں پانی بھر دیا جاتا ہے، وہ پھیل جاتی ہے یا غبارہ کے مانند، کہ جس قدر اس میں ہوا بھری جائے گی وہ پھیلتا جائے گا ہے۔اسی طرح دل نور الہٰی کی وجہ سے وسعت پیدا ہوتی ہے اور اس کی ظرفیت میں اضافہ ہوتا ہے (قلب سے مراد د سینہ میں موجود صنوبر نمادل کی صورت نہیں ہے، بلکہ یہاں پر قلب سے مراد معنوی ماہیت، یعنی ایمان درک کرنے کی جگہ ہے)

شائد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصود یہ ہے کہ موت کو زیادہ یا دکرنا اور اس کے لئے آمادہ رہنا، انسان کی زندگی کے چراغ کو روشن رکھنے کا ذریعہ ہے اور موت کی یاد کے نتیجہ میں انسان کی روح میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جو اس کی پاک فطرت کو گناہ کی تاریکی میں آلودہ ہونے سے بچاتا ہے، اور اسی نور کے اثر میں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعبیر یہ کہ، انسان کی روح میں اضافہ اس کی ظرفیت بڑھ جاتی ہے۔ اس معنی میں کہ دنیا کی محدود اور تنگ جگہ سے بالا تر جاکر بے انتہا اور ابدی عالم کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

چونکہ جناب ابوذر کے لئے یہ حالت قابل محسوس و درک نہیں ہے۔ کیونکہ یہ امرحسی نہیں ہے کہ حواس کے ذریعہ انہیں درک کیاجائے۔ اس لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلب کے وسیع ہونے کی نشانیاں کیا ہیں اس کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب میں اس حالت کے بارے میں تین نشانیاں بیان فرماتے ہیں:

١۔''الا نابة الی دار الخلود'' وسعت قلب کی پہلی نشانی آخرت کی طرف میلان ہے۔

اس معنی میں کہ انسان، فانی اور ناپائدار دنیا سے چشم پوشی کر کے آخرت پر نظر رکھتا ہے۔ مرحوم راغب اصفہانی ''انابہ'' کے معنی کی وضاحت میں فرماتے ہیں: خدا کی طرف '' انابہ''کے معنی پلٹنا، اس کی طرف ، توبہ اور عمل صالح کے ذریعہ''(۳)

٢۔''والتجافی عن دار الغرور'' وسعت قلب کی دوسری نشانی دھو کہ باز دنیا سے دوری اختیار کرنا ہے۔

جب مومن آخرت کے ابدی عالم کو مدنظر رکھتا ہے تو اس محدوداور مادی دنیا میں اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے، اس لئے اس دنیا سے رابطہ توڑ کر اس سے رخصت ہونے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔

(دنیا سے ''تجافی''، اپنے آپ کو دنیا پرستی سے آزاد کرنے کے معنی میں ہے، چنانچہ زمین سے اٹھنے والا نماز گزار صرف ہاتھوں اور پائوں کی انگلیوں سے زمین پر تکیہ دیتا ہے، اس حالت کو تجافی، کہتے ہیں)

''دار الغرور'' من جملہ ان ناموں میں سے ہے جو قرآن مجید اور روایتوں میں دنیا کے لئے ذکر ہوا ہے۔ غرور، فریب اور دھوکہ دہی کے معنی میں ہے۔ چونکہ دنیا کے زرو جواہر انسان کو فریب دیتے ہیں اور اسے اپنا شیدائی بناتے ہیں، اس لئے دنیا کو ''دارلغرور'' یعنی فریب کاری اوردھوکہ دھڑی کی جگہ کہتے ہیں۔

دنیا کی فریب کاری کی وضاحت میں بزرگوں، جیسے علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے:

''ہرانسان کا ایک فطری مطلوب ہوتا ہے، یعنی اس کی فطرت ایک گمشدہ شیٔ کی تلاش میں ہے اور وہ ہمیشہ اس کی جستجو میں رہتی ہے۔ اس کا اصلی مقصد قرب الہٰی تک پہنچنا ہے، دوسرے الفاظ میں کمال مطلق تک پہنچنا ہے۔ اگر چہ وہ خود متوجہ نہیں ہے لیکن وہ غیرشعوری طور پر بھی کمال مطلق کی طرف گامزن ہے۔ لیکن کبھی اصلی مقصد کو گم کر دیتا ہے، غلطی سے، دنیا کو اپنا مقصد قرار دیتا ہے، حقیقت میں وہ زروجواہر اور دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے، اسے اپنی گم شدہ چیز تصور کرتا ہے، یعنی دنیا خود کو انسان کے سامنے اس کا حقیقی مطلوب اور مقصد کے عنوان سے پیش کرتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر وہ ایک عمر جستجو و کوشش کر کے اس دنیا تک پہنچتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ اس کا فطری مطلوب نہیں تھا اور یہ دنیا اس کی معنوی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتی۔ اس اعتبار سے دنیا کو ایک چوسنی سے تشبیہ دیتے ہیں، جب بچے کو بھوک لگتی ہے اور وہ دودھ چاہتا ہے، تو چوسنی کو اس کے منہ میں لگا دیتے ہیں اور وہ غفلت کے عالم میں ماں کے پستان کی جگہ اس بھٹنی کو چوستا ہے اور آخرمیں سمجھ جاتا ہے کہ دودھ سے خالی چوسنی نے اسے سیر نہیں کیا ہے۔

جی ہاں، دنیا سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہے، انسان کا حقیقی مطلوب وہ آب حیات ہے جس کا شرچشمہ قرب الہٰی ہے اور وہی اس کی فطرت کو سیراب کرتا ہے۔ اگرچہ دنیا خود کو حقیقی مطلوب کی جگہ پر قرار دیتی ہے۔ خواہ دنیا کی یہ خود نمائی گھر اور گاڑی کی صورت میں ہویا دنیا کی لذتوں کی صورت میں ۔ لیکن جاننا چاہئے کہ دنیا اپنی تمام وسعتوں' مختلف لذتوں اور نعمتوں کے ساتھ کمال مطلق اور رضائے الہٰی تک پہنچنے کے لئے ایک وسیلہ ہے نہ مقصد اور مطلوب۔

اس سے ہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جس کا دل سیاہ ہے اور ایمان کے نورسے نورانی نہیں ہوا ہے، وہ دنیا کے دھو کے میں پھنسا ہے اور اس کی ظاہری حالت کو مطلوب ذاتی کی جگہ پر تصور کرتا ہے۔ لیکن جس کا دل خدا کے نور سے منور ہوتا ہے، غفلت اور تاریکی اس سے دور ہوتی ہے اور وہ حقیقت کو واضح طور پر مشاہدہ کرتا ہے اور غلطی سے دوچار نہیں ہوتا ہے۔ وہ صرف آخرت سے دلچسپی رکھتا ہے اور ممکن نہیں ہے، حتی ایک لمحہ کے لئے بھی دنیا سے وابستہ رہنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ جانتاہے کہ دنیا دل لگی کی جگہ نہیں ہے۔

٣۔''والاستعداد للموت قبل نزوله'' وسعت قلب کی تیسری نشانی مرنے سے پہلے مرنے کے لئے آمادہ ہونا ہے۔

جب انسان دنیا سے دلی وابستگی نہ رکھتا ہو اور آخرت کی فکر میں ہو تو اسے ہمیشہ دیار ابدی، اور اپنے مطلوب حقیقی تک پہنچنے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔ جو یہ جانتا ہو۔ کہ وہ دنیا کے لئے پیدا نہیں ہوا ہے، اور دنیا جہان ابدی میں جانے کے لئے صرف ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے تو وہ قرب الہٰی تک پہنچنے کے لمحہ لمحہ انتظار میں رہتا ہے۔ وہ بے صبری کے ساتھ دنیا کے پل کو عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اپنے آخری مقصد تک پہنچ جائے۔

انسان کو دنیا میں مقصد تک پہنچنے کے لئے بے صبری اور جلد بازی کی حالت بھی پیش آتی ہے۔ جب انسان ایک شہر میں جانے کے لئے گاڑی پرسوار ہوتا ہے تو راستہ میں آرزو کرتا ہے کہ مقصد تک جلدی پہنچ جائے۔ جب اس کی گاڑی دوسری گاڑیوں سے آگے بڑھتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ دوسروں سے پہلے مقصد تک پہنچ جائے گا۔ اگر چہ یہ ایک طفلا نہ ہوس ہے لیکن اس کا سرا فطرت سے وابستہ ہے جب وہ جانتا ہے کہ اس کا مقصد دوسری جگہ پر ہے اور اس کا راستہ میں کوئی کام نہیں ہے، تو وہ سعی و کوشش کرتا ہے کہ راہ کو جلدی طے کرے، البتہ مقصد تک پہنچنے کی تلاش ایک عاقلانہ امر ہے۔

پس، جس بندہ کا دل نورالہٰی سے منور ہے اور جس کی آنکھوں سے حقائق کے لئے پردہ ہٹ چکے ہیں، وہ جانتا ہے کہ اس کا مقصد جو ارحق اور قرب الہٰی ہے اور دنیا کی حقیقت صرف ایک وسیلہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اس لحاظ سے مقصد تک پہنچنے کے لئے وہ اس وسیلہ سے استفادہ کرتا ہے، اور معشوق کے لمحہ دیدار کے پہنچنے کے شوق میں پھولے نہیں سماتا ہے، یہاں تک دنیا کو بالکل ہی بھول جاتا ہے۔

تقویٰ محوری اور ریا کاری و نفاق سے پرہیز:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوذر کو ریاکاری اور خونمائی سے پرہیز کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

'' یَا اَبَاذَر؛ اِتَّقِ ﷲ وَلاَتُرِ النَّاسَ اَنَّکَ تَخْشٰی ﷲ فَیُکْرِمُوکَ وَقَلْبُکَ فٰاجِر''

اے ابوذر! خدا سے ڈرو اور لوگوں کے سامنے ایسا ظاہر نہ کروکہ خدا سے ڈرتے ہوتاکہ تمھارا احترام کریں' جبکہ تمھارا دل گناہ کی فکر میں ہے۔

ریاکاری کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہر کو باطن کی نسبت بہتر ظاہر کرے اور جو کچھ ظاہر کرتا ہے باطن کے برعکس ہو، یعنی:

ظاہرش چُون بوذرو سلمان بود باطنش ہمچون ابوسفیان بود

روایات کی اصطلاح میں ریا کاری کا شمار شرک خفی میں ہوتا ہے اور ریاکار کومشرک کہتے ہیں۔

خدا کی من جملہ بڑی مہر بانیوں میں سے ایک مہر بانی انسان کے گناہوں اور عیبوں کی پردہ پوشی ہے، یہاں تک خدائے متعال کا ایک نام ''ستار العیوب'' ہے۔ حقیقتاً اگر لوگوں کی برائیاں بر ملاہو جاتیں اور وہ ایک دوسرے کے عیوب و نقائص سے آگاہ ہوجاتے، تو ان کی زندگی تلخ ہو جاتی ۔ اس لحاظ سے خدا کی پردہ پوشی ایک بڑی نعمت ہے جس کا شکر بجالا نا واجب ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لوتکاشفتم ماتدا فنتم'' (۴)

''اگر ایک دوسرے کے اسرار سے واقف ہوتے تو ایک دوسرے کو دفن نہیں کرتے''

جس طرح خدائے متعال خود مومنین کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے اور، دوسروں کو بھی اجازت نہیں دیتا کہ ایک دوسرے کے گناہوں کو فاش کریں۔ اللہ تعالیٰ نہ خود مومن کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اورنہ ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مومن اپنی آبروکا سودا کریں۔ اس بنا پر انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے گناہ دوسروں کے سامنے بیان کرے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ خدائے متعال مومن کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ خود کو ذلیل و رسوا کرے۔ گناہ اور فسق انجام دینے سے بڑی کوئی ذلت نہیں ہے، اس لئے جب بھی مومن گناہ کرتا ہے خدائے متعال اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور اسے بھی اجازت نہیں دیتا کہ اس سے پردہ اٹھائے بلکہ اسے توبہ کرنے کی فرصت دیتا ہے۔

البتہ یہ ایک کلی قانون نہیں ہے، کیونکہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے پیش نظر افراد کی تنبیہ کے لئے، ان کے بعض گناہوں کو فاش کرتا ہے اور ان کے اسرار سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اسرار کو فاش کرنا، بذات خود تربیت کا ایک وسیلہ ہے۔ یعنی اگر انسان کو متنبہ کیا جائے ،اسے اس کے برے اور غلط عمل کے نتیجہ میں ڈرایا دھمکایا جائے لیکن اس کے بعد بھی وہ متوجہ نہیں ہوتا تو اس صورت میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی تربیت اور بیداری کے لئے اس کی آبروریزی کی جائے تاکہ اس کے مفاسد کو روکا جاسکے۔ البتہ یہ ایک تکوینی امر ہے اور یہ خدا اور اس کی تدبیرسے مربوط ہے دوسرا کوئی حق نہیں رکھتا کہ وہ تربیت کے بہانہ سے دوسروں کی آبرو ریزی کرے۔

اس بنا پر اسلام کے نظر یہ کے مطابق کسی کو اپنی یا دوسروں کی آبرو ریزی کرنے کا حق نہیں ہے۔ اپنے اور دوسروں کے عیبوں کی حفاظت اور انہیں چھپا نا تمام مومنوں کے فرائض ہیں۔ بعض اوقات گناہ کو فاش کرنے کا انجام خود گناہ کے انجام سے بدتر ہوتا ہے اور گناہ کو فاش کرنا فساد پھیلا نے کے واضح مصادیق میں شمار ہوتا ہے:

( اِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَاب اَلِیم فِی الدُّنْیَا وَالْاَخِرَةِ وَﷲ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ) (نور ١٩)

''جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبان ایمان کے درمیان بدکو پھیلائیں ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ سب کچھ جانتا ہے صرف تم نہیں جانتے ہو۔''

گناہوں کو فاش کرنے کے مقابلہ میں ریاکاری اور ظاہر داری بھی ایک برا اور ناپسندیدہ امر ہے:

یعنی انسان سعی کرے خود کو واقعیت کے خلاف جلوہ دے اور اپنے کو اچھاظاہر کرے، یعنی گنہگار ہونے کے باوجود اپنے آپکو اہل تقویٰ ایماندار، خداترس اور راز و نیاز کرنے والوں کی صورت میں پیش کرے تاکہ لوگ اسے احترام کی نگاہ سے دیکھیں۔

شدادبن اوس اور عبادہ بن صامت نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آیہ شریفہ:

( فِمَنْ کَانَ یَرْجُوا لِقَائَ رَبِّه فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلاَ یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ اَحَداً ) (۵) کی وضاحت میں فرمایا:

''مَن صَلَّی صَلوٰةً یُرٰائِی بِهَا فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ صَوماً یُرَائی بِهِ فَقَدْااَشْرَکَ'' (۶)

''جو خود نمائی اور ریاکاری کے لئے نماز پڑھے اور روزہ رکھے اس نے شرک کیا ہے۔''

عمل کی قدر و منزلت میں نیت اور اس کااثر:

'' یَا اَبَاذَرٍ؛ لِیَکُنْ لَکَ فی کُلِّ شَیئٍ نِیَّة حَتّٰی فِی النَّومِ وَالْاَکْلِ''

اے ابوذر! ہر عمل کو انجام دینے کے لئے تمھیں، نیت کرنی چاہئے حتیٰ کھانے اور سونے کے لئے بھی ۔

تربیتی نقطہ نظر سے اس مطلب کا ذکر کرنا بہت اہم اور تعمیری ہے، اس کے علاوہ یہ مطلب اہم علمی و فلسفی اصول پر منحصر ہے جس کے لئے ایک وسیع بحث کی ضرورت ہے۔ انسان جو بھی کام انجام دیتا ہے، حتیٰ خدا کی عبادت و بندگی، وہ نیت پر منحصر ہے۔ ایک عمل کی اہمیت کا اندازہ دو مختلف نیتوں سے یکساں نہیں ہے۔ جو شخص اپنے دوست کی طرف سے مدعو ہوتا ہے، اگر اس کی دعوت کو قبول کرے، تو یہ ایک شائستہ کام ہے، اگر دوست کی دعوت کوقبول کرنے میں قصد قربت کو ملحوظ رکھتا ہے یعنی، مومن کی دعوت کو قبول کرنا چوں کہ خدا کو پسند ہے اس لئے دعوت قبول کرتا ہے تو اس کا یہ عمل عبادت شمار ہوگا جس کے لئے اسے جزا و ثواب بھی ملے گا۔یا اگر کسی نے مستحب روزے رکھے ہیں اور اس کا دوست اسے کھانا کھانے کی دعوت دے، اگر وہ خدا کے لئے افطار کرے، تو اس کا یہ عمل عبادت ہے اور اس کے لئے ثواب و پاداش ہے لیکن اگر اس لئے کہ کھانا اچھا ہے اور وہ اسے کھانا چاہتا ہے اور اس نیت سے افطار کر ے تو، اس کے لئے اسے کوئی ثواب نہیں ملیگا، کیونکہ اس کا یہ عمل خدا کے لئے انجام نہیں پایا ہے۔ پس یہی کھانا اگر خدا کے لئے ہو تو، اس کے لئے ثواب وپاداش ہے اور انسان کے کمال اور اس کی معنوی بلندی میں ایک اہم نقش رکھتا ہے۔ اس بنا پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ انسان اپنے روزمرہ کے تمام کاموں، سونے سے لے کر کھانے پینے، حتی مزاح کرنے جیسے امور کو نیک کام مثلا نماز و روزہ کی طرح عبادت کا رنگ و روپ بخش سکتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ یہ امور خدا کی مرضی اور اس کی بندگی و اطاعت کی نیت سے انجام دیئے جائیں۔

بعض بزرگ حضرات جب کوئی کام انجام دینا چاہتے تھے، پہلے چند لمحہ تامل کراتے تھے تاکہ نیت اور قصد قربت کا تصور کرلیںاور وہ کام خدا کے لئے انجام دیتے تھے۔ یا اگر ان سے کوئی سوال ہوتا تھا، فوری جواب نہیں دیتے تھے بلکہ اس سے پہلے چند لمحہ تامل کرتے تھے تاکہ اس میں بھی نیت اور قلبی توجہ پیدا ہو سکے، پھر خدا کے لئے جواب دیتے تھے۔

یہ نکتہ اس امر کی نشاند ہی کرتا ہے کہ مومن اتنا ہوشیار اور چالاک ہوسکتا ہے کہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں خدا اور اس کی مرضی کے مطابق استفادہ کرے۔ اس بناپربہت معمولی اور پست ترین امور میں بھی قصد قربت اور صحیح نیت کی جاسکتی ہے تاکہ انسان ان سے لذت بھی حاصل کرے اور عبادت کا فائدہ بھی اٹھائے، دنیوی و اخروی دونوں لذتوںکا احساس کرے۔ ایسے مواقع پر دنیا و آخرت کو یکجا کرنا ممکن ہے، دنیا و آخرت وہاں پر جمع نہیں ہوتے ہیں جہاں دو حکم کے درمیان آپس میں تضاد ہو، جیسے واجب و حرام کہ یہ دونوں آپس میں جمع نہیں ہوتے ہیں اگر انسان مباح کام انجام دینے میں قصد قربت کی نیت کرے، تو دنیوی لذت کو بھی درک کر سکتا ہے اور اپنی جسمانی قوت کو بھی بٹرھا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے ثواب بھی ملتا ہے۔ البتہ قصد قربت اور صحیح نیت کے مختلف درجے ہیں، منجملہ ان درجات میں سے گناہ سے پر ہیز کا ارادہ اور خدا کی مرضی کی مخالفت سے اجتناب کرنا ہے۔مرحوم علامہ طباطبائی نقل فرماتے تھے کہ جب امیر المو منین علیہ السلام نافلہ شب پڑھنے کے لئے اٹھتے تھے، بدن کو تاز گی اور نشاط بخشنے کے لئے پہلے سرد پانی سے نہاتے تھے۔فطری بات ہے کہ حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیت، جو صبح سے شام تک یا میدان جنگ میں جہاد کرتے تھے یا کھیت میں کام کرتے تھے، اس کے علاوہ پانچ سو یاایک ہزار رکعت نماز پڑھنے کے بعد تکان کا احساس اور نصف شب کو اٹھ کر نماز تہجد پڑھنے کے لئے ان کے پاس طاقت اور نشاط نہیں رہ جاتی تھی ، اس لئے سرد پانی سے نہانا ان کی طاقت اور نشاط میں اضافہ کا باعث تھا۔

____________________

١ فَبِعِزَّتِکَ یَا سَیِّدی وَ مَولاَیَ اُقْسِمُ صَادِقاً لَئِنْ تَرَکْتَنی نَاطِقاً لَاَضِجَنَّ اِلَیْکَ بَیْنَ اَهْلِهَا ضَجِیجَ الآمِلِینَ وَ لَاَصْرُخَنَّ اِلَیْکَ صُرَاخَ الْمُسْتَصْرِخِینَولا بکین علیک بکاء الفاقدین''

۲''فقد افنیت بالتسویف ولامال عمری وقدنزلت منزلة الآیسین من خیری فمن یکون اسوء حالامنی ان انا نقلت علٰی مثل حالی الی قبرٍ لم امهده لرقدتی ولم افرشه بالعمل الصالح لضجعتی ومالی لا ابکی ولاادری الی مایکون مصیری واریٰ نفسی تخادعنی وأیامی تخاتلنی وقد خفقت عند رأسی اجنحة الموت''

۳۔ مفردات ،مادہ '' نوب''

۴۔ بحار الانوار ،ج٧٧ص٣٨٥

۵۔ جو خدا وند عالم سے ملاقات کا امید وار ہے اسے چاہئے کہ وہ عمل صالح انجام دے اور ہر گز خدا کی عبادت میں کسی کو شریک قرار نہ دے ۔ سورہ کہف ١١٠

۶۔ بحار الانوار ،ج٨٤ ،ص٢٤٨