زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)13%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25800 / ڈاؤنلوڈ: 3844
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

انیسواںسبق

فرشتوں کی نظر میں خدا کی عظمت کا مقام

*امید و خوف کیپیدا ہونے کے اسباب

* خوف و حشت کی حقیقت و ماہیت

*خوف الہٰی کا فائدہ اور اس کا مرتبہ

*بزرگان دین اور اولیاء الٰہی کے خوف کا مرتبہ

*انسان کا کمال اور حق کے مقابلے میں اس کا احساس حقارت

*خوف الہٰی اور گناہ' شہرت اور جاہ طلبی سے پرہیز

*خدا کے دوستوں اور فرشتوں کے خوف کے مرتبہ پر توجہ کرنے کا اثر

فرشتوں کی نظر میں خدا کی عظمت کا مقام

''یَا اَبَاذَرٍ: اِنَّ ِﷲِ مَلائِکَةً قِیٰاماً مِنْ خیفَتِهِ مَا رَفَعُوا رَؤُسَهُمْ حَتّٰی یُنْفَخُ فِی الصُّورِ النَّفْخَةُ الاٰخِرَةُ فَیَقُولُونَ جَمِیعاً: سُبْحَانَکَ وَ بِحَمْدِکَ مَا عَبَدْنَاکَ کَمَا یَنْبَغِی لَکَ اَنْ تُعْبَدَ''

''اے ابوذر: خدائے متعال کے کچھ فرشتے ہیں جو اسکے خوف سے کھڑے اپنے سروں کو جھکائے ہوئے ہیں اور قیامت تک اسی حالت میں رہیں گے' یہ سب کہتے ہیں: تو پاک و پاکیزہ ہے اور حمد ثنا کا مستحق ہے' ہم نے تیری اس طرح بندگی نہیں کی جس کا تو سزاوار اور اہل ہے۔''

اس سے پہلے ہم نے خدا کی یاد اور اس کے ذکر پر بحث کی۔ کہا گیا کہ ذکر اوریاد خدا خشوع و خضوع اور قلبی توجہ کے ساتھ انجام دیا جاناچاہئے' نہ کہ عادت کے طور پر فقط زبان سے۔ اب بحث یہ ہے کہ کونسی چیز انسان کے لئے ذکر کے وقت توجہ اور حضور قلب پیدا کرنے کا باعث ہے۔ اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ایسے نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ذکر کے وقت خدا کی توجہ پیدا کرنے اور اس کے حضور کو درک کرنے میں حیرت انگیز حد تک مؤثرہے۔

امید و خوف کے پیدا ہونے کے اسباب:

طبیعی طور پر اختیاری کاموں میں انسان کا انگیزہ نفع کی امید اور نقصان کا خوف ہوتا ہے،لیکن نفع و نقصان کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ بعض افرادکے لئے انہی دنیوی منافع و امکانات میں نفع ہے اور بعض افراد کے لئے آخرت کیجزا اوروہاں کی نعمتوں میں نفع ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کیلئے مادی اور دنیوی نقصانات مدنظر ہیں اور بعض لوگوں کے لئے اخروی نقصانات اور وہاں کے عذاب کو اہمیت حاصل ہے۔ ان دونوں گروہوں سے بالاتر اولیا الہٰی ہیں جن کا نفع حضور الہٰی کا ادراک اور رضوان الہٰی سے لذت کا احساس ہے اور ان کا نقصان اس سعادت و کمال سے محروم ہوجانا ہے۔ ان کو لقاء اللہ سے محروم ہونے کا خوف ہوتا ہے اور بیشک یہ خوف دوسروں کے دنیوی یا اخروی نقصانات کے خوف سے زیادہ ہے۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مطلب ہمارے لئے نا معلوم اور ہمارے فہم و ادراک سے دور ہے' آیات و روایات سے اجمالی طور پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس قسم کا خوف بھی موجود ہے۔ (امید ہے خدائے متعال اہل بیت علیہم السلام کے نورانی کلمات سے استفادہ کرنے کی برکت سے اس معنی کو درک کرنے کی توفیق و لیاقت عنایت فرمائے)

بہرحال خوف الہٰی یا وہ خوف جو خود انسان کے توسط سے پیدا ہوتا ہے، جسے خدا دور کر سکتا ہے۔ اس امر کا باعث ہوتا ہے کہ انسان خدا کی طرف عمیق توجہ پیدا کرے اور اسی طرح ثواب و پاداش کی امید اور وہ چیز جو خدا اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے' یا لقاء اللہ کا شوق بھی خدا کی طرف زیادہ متوجہ ہونے کا سببہے' اگرچہ اکثر لوگوں کے لئے خوف انسان کو برانگیختہ کرنے اور وادار کرنے میں نمایاں رول ادا کرتا ہے تاکہ انہیں فعالیت کے لئے مجبور کرے اور غفلت سے باہر نکال کر نفع و نقصان کے خطرے سے آگاہ کرے۔ ہر ایک انسان اپنا امتحان لے سکتا ہے جب وہ ایک خطرناک خبر سنتا ہے اور اسے معلوم ہوتا کہ وہ غیر معمولی اور زبردست نقصان سے دو چار ہونے والا ہے' تو وہ زیادہ سے زیادہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح وہ اس خطرے کو اپنے سے ٹال دے نہ کہ نفع و ثواب کی توقع کرتا ہے؟

ہمارے لئے ضرر اور نقصان کو دور کرنا نفع حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہے۔ شاید اسی نکتہ کے پیش نظر قرآن مجید میں انذار (ڈرانے) کو تبشیر و بشارت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے' انبیاء کو ''نذیر'' کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے' بعض آیتوں میں پیغمبرکو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا دونوں ہی صفات سے یاد کیا گیا ہے ۔ جیسے اس آیت میں :

(...( فَبَعْثَ ﷲ النَّبِیِینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ ) ...'' (بقرہ٢١٣)

''پھر اللہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے...''

ایسی جگہیں کم ہیں جہاں پر انبیاء صرف ''بشیر و مبشر'' کے عنوان سے ذکر ہوئے ہیں لیکن ان کو ''نذیر'' کے عنوان سے زیادہ یاد کیا گیا ہے' جیسے آیہ شریفہ:

( تَکَادُ تَمَیِّزُ مِنَ الْغَیظِ کُلَّمَا اُلْقِیَ فِیهَا فَوج سَاَلَهُمْ خَزَنَتُهَا اَلَمْ یَا تِکُمْ نَذِیر ) .(ملک٨)

قریب ہے کہ جہنم غیظ و غضب کی شدت سے پھٹ پڑے جب بھی اس میں کسی گروہ کو ڈالا جائے گا تو داروغہ جہنم ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟

(پیغمبروں کو ڈرانے والوں کی حیثیت سے تعارف کرانے میں تاکید اس لئے ہے کہ ان لوگوں کے لئے ڈرانا زیادہ مؤثر ہے بہ نسبت نیک اعمال کو انجام دینے کی بشارت دینے سے )

خوف خدا ' منجملہ ان حالات میں سے ہے جس سے انسان کے لئے بہت سے فوائدے ہیں' خاص کر اگر یہ ملکہ کی صورت میں حاصل ہو جائے' جیسا کہ بیان کیا گیا' اس کے من جملہ آثار و فوائد میں خدا کی یاد اور اس کی طرف عمیق توجہ ہے۔ اگرچہ یہاں پر علمی مسائل پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن بہتر سمجھنے کے لئے خدا کے خوف کے بارے میں نقل کی گئی روایتوں اور خوف الہٰی کا انسان کے قلب و روح پر پڑنے والے گہرے اثرات سے مربوط بعض مسائل پر روشنی ڈالیں گے:

خوف وخشیت کی حقیقت و ماہیت:

من جملہ بحثوں میں ایک بحث یہ ہے کہ خوف کی حقیقت کیا ہے اور کونسے عوامل اس کے پیدا ہونے میں موثر ہیں اور اس کے کونسے آثار ہیں؟ کیا خوف و خشیت میں کوئی فرق ہے؟ ایسی بحثیں بیشتر لغوی پہلو رکھتی ہیں اور مناسب ہے خوف و خشیت کی حقیقت اور ان کے فرق کو سمجھنے کے لئے آیات و روایات پر بحث کی جائے۔ آیات و روایات میں خوف و خشیت کے عملی مواقع کے پیش نظر ان دونوں میں کوئی نمایاں فرق کا مشاہدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ بعض مواقع پر ایک دوسرے کی جگہ پر بھی استعمال ہوئے ہیں۔

جب انسان عظمت الہٰی ا دراک و احساس کرتا ہے تو اس میں اپنی ناکامی و حقارت کا احساس اورخضوع و خشوع پیدا ہوتا ہے۔ اس نفسیاتی حالت اور رد عمل کو خدائے متعال نے انسان کی سرشت میں قرار دیا ہے۔ (البتہ یہ حالت اور رد عمل خود انسان سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ دوسری زندہ مخلوقات بھی اپنے سے قوی ترکے مقابلے میں یہ احساس رکھتی ہیں)۔ عام طور پر اس حالت کی ''خشیت'' سے بھی تعبیر کی جاتی ہے اور خوف بھی خشیت کی جکہ پر استعمال ہوتا ہے۔ جب انسان دوسرے کی عظمت کو درک کرتا ہے، حتی اگر خطرے اور نقصان کا بھی احساس نہ ہو،تب بھی وہ اپنے اندر پستی اور ناکامی کی کیفیت محسوس کرتاہے، گویا اس نے اپنا وجود کھو دیا ہے۔

بعض اوقات خوف، ترس کے معنی میں ایک ایسے نقصان کے بارے میں ہوتا ہے جس سے انسان کو سامنا ہوتا ہے، غالباً خوف اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ فطری طور پر خدائے متعال کے بارے میں خوف کا استعمال عذاب و مجازات الہٰی سے ترس کے معنی میں ہے کہ جو انسان کے بُرے اعمال کے مقابلہ میں ممکن ہے حاصل ہو۔

اولیاء الہٰی اور عبودیت و بندگی کے بلند مقامات پر فائز افراد کے بارے میں ، خوف، بعض اوقات عظمت الہٰی پر توجہ کرنے سے وجود میں آتا ہے اور بعض اوقات حضورا ور لقاء الہٰی سے محروم ہونے کے احتمال کے نتیجہ میں ، کیونکہ لقاء الہٰی اور اس کے حضور میں حاضر ہونا ایک قطعی و حتمی امر نہیں ہے اور ممکن ہے یہ زائل ہوجائے یا اصلاً محقق نہ ہو۔ اس بنا پر اس معنی پر توجہ کرنا اولیاء الہٰی کے خوف کا سبب ہے، کیونکہ معرفت الہٰی کی منزل پر پہنچے ہوئے انسان کے لئے خدا سے ملاقات اور اس کے حضور میں پہنچنے کا افتخار سب سے بڑی سعادت و منزلت ہے اور ایسے افراد کے لئے سب سے بڑی لذت بارگاہ الہٰی میں حاضری کا احساس ہے۔ اس مرحلہ سے بڑھ کر یہ کہ ہم بخوبی درک کرتے ہیں کہ خدائے متعال کی خوشنودی کسی قدر ہمارے لئے لذّت بخش ہے۔

جو عاشق احساس کرتا ہے کہ اس کا معشوق اس سے محبت کرتا ہے اور اس سے راضی ہے، وہ اس امر سے ڈرتا ہے کہ کہیں اپنے معشوق کی خوشنودی، رضایت اور محبت سے محروم نہ ہو جائے، محبت کی منزل تک پہنچنے ہوئے انسان کے لئے یہ سب سے بڑا خوف ہے۔ اس سے کم درجہ کا خوف، وہ خوف ہے جو خدا کے اخروی مجازات وعذاب کے بارے میں ہوتا ہے۔ خوف کی اس قسم کے بارے میں بہت سی قرآنی آیات موجود ہیں۔ یہ مرحلہ ہمارے لئے اس سے بالا تر مراحل تک پہنچنے کے لئے وسیلہ کا کام کرتا ہے، چونکہ ہمارے لئے خوف الہٰی کی یہ متوسط حالت ہے اس لئے کہ ہم معرفت کے بلند مقامات تک نہیں پہنچے ہیں۔ یہ حالت ہمارے لئے سبب ہے کہ ہم دنیا اور اس کی لذتوں سے بے اعتنا ہوجائیں اور یہ بذات خود گناہ اور دنیوی آلودگیوں سے پرہیز کا ایک عامل ہے۔ البتہ یہ کوئی کم چیز نہیں ہے کہ انسان میں دنیا پرستی سے بچنے اور گناہ سے پرہیزکرنے کے لئے ایک داخلی عامل پیدا ہوجائے۔

پست ہمت لوگوں کے لئے' خدا سے خوف دنیوی مشکلات اور پریشانیوں سے خوف کے معنی میں ہے۔ اس امر سے خوف ہے کہ ایسا نہ ہو کہ خدا انہیں بیمار کر دے' ایسا نہ ہو کہ ان کی عزت چلی جائے اور وہ ذلیل و خوار ہو جائیں اور لوگوں کی نظروں میں گر جائیں یا ڈر اورخوف اس چیز سے کہ کہیں اپنے کسی عزیز کو کھو دیں۔ (خدا پر ایمان رکھنے والوں کے لئے گرفتاریوں' مصیبتوں اور پریشانیوں سے خوف ایک قسم کا خوف الہٰی ہے اور یہ خوف اجمالی طور پر مطلوب ہے اور انبیاء کا ڈرانا اکثر اسی قسم کے خوف الہٰی سے مربوط ہے۔)

خوف الہٰی کا فائدہ اور اس کا مرتبہ:

گفتگو خوف الہٰی کے فائدے اور اس کے مطلوب ہونے کے بارے میں ہے۔ خوف الہٰی کی کیا اہمیت و منزلت ہے کہ اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ کوشش کرے تاکہ خوف کے مقام اور اس کی عظمت کو درک کرلے اور اس کی راہ کو پہچان لے؟حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو خوف الہٰی کے فوائد اور خوبیوں کے بارے میں علم نہیں ہے۔ اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں خوف الہٰی کے بارے میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں اور خدا سے ڈرنے والوں کی ستائش کی گئی ہے' لیکن یہ نہیں جانتے ہیں کہ خوف خدا کے اندر ان کے لئے کیا فائدہ پوشیدہ ہے۔ جب انبیاء الہٰی بزرگان دین کے متعلق خوف الٰہی کا ذکر آتا ہے اور تو یہ لوگ تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں' کہ انسان کیوں اس قدر خوف زدہ اور گریہ کناں ہو کہ آشوب چشم میں مبتلا ہو جائے اور ان کے چہرے مضمحل ہو جائیں۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں (انبیاء کے درمیان ان کا درجہ خوف الہٰی کے حوالے سے زیادہ نمایاں تھا)روایت ہے کہ خدائے متعال کے خوف میں اس قدر روتے تھے کہ ان کی آنکھیں اور چہرہ زخمی ہوجاتے تھے' یہاں تک ان کی والدہ نمدکے ٹکڑے ان کے چہرے پر رکھتی تھی تاکہ اس کے آنسوچہرہ کے زخموں کو کم اذیت پہنچائیں۔ جب انسان ان رودادوں کو سنتا ہے تو تعجب کرتا ہے اور اسک ے دل میں آتا ہے کہ کیا ایک پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس قدر ڈرنا چاہئے: اگر ہم میں سے کسی کی یہ حالت ہو جائے اور اس طرح خداسے ڈر نے لگیں کم ازکم یہ کہیں گے کہ اس کی حالت غیر طبیعی اور غیر معمولی ہے!

اگر ہم قرآن مجید کی آیات پر پندو عبرت کی نگاہ سے نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوگا کہ راہ سعادت میں انبیا کی ہدایت و رہنمائی سے بہرہ مند ہونے کیلئے خوف کو شرط کے عنوان سے ذکرکیاگیا ہے:

( اِنَّمَا تُنْذِرُمَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَاَجرٍ کَرِیمٍ ) ( یٰش١١)

''آپ صرف ان لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں جو آیات قرآن کی اتباع کریں اور بغیر دیکھے غیب کی حالت میں خدا سے ڈرتے رہیں انہیں لوگوں کو آپ مغفرت اور باعزت اجر کی بشارت دیں''۔

اس آیت میں خدائے متعال پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گوش گزار کرتا ہے کہ اپنی دعوت اور ہدایت کا رخ ان لوگوں کی طرف موڑو جو دل میں خدا کا خوف رکھتے ہیں اور ابھی ان کی فطرت گناہ و معصیت کی تاریکی سے مکمل طور پر آلودہ نہیں ہوئی ہے۔ یہی لوگ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت و تربیت سے بہرمند ہو سکتے ہیں' نہ کہ وہ لوگ جو خدا سے کسی قسم کا خوف اور ڈر نہیں رکھتے اور لاپروائی کے عالم میں بے خوف و خطر گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ بیشک ان لوگوں کے دل تاریک ہیں اور پتھر سے سخت تر ہیں اور ان میں روشنی اور نور کے لئے کوئی دریچہ باقی نہیں رہا ہے۔

ایک دوسری آیت میں پروردگار عالم فرماتا ہے:

( وَاَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَویٰ فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاویٰ ) (نازعات٤٠-٤١)

''اور جس نے اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا انھیں لوگوں کا ٹھکانہ بہشت و جنت ہے۔''

یقیناً خوف' رجا و امید کے مقابلہ میں ہے اور خدائے متعال فرماتا ہے: ''من خاف مقام ربہ'' یہ نہیں فرماتا ہے: ''من رجا مقام ربہ''۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ خوف خدا ہوائے نفس کی سرکشی سے پرہیز اور ہدایت کی راہ میں قدم بڑھانے کا سبب ہے اور رحمت خدا کی توقع اور امید اس قدر اثر نہیں رکھتی۔

ایک دوسری آیت میں ' خدائے متعال اہل ایمان اور عمل صالح انجام دینے والوں کی عظمت و منزلت بیان کرنے کے بعد بہشت اور اس کی نعمتوں کو ان لوگوں سے مخصوص جانتا ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں:

( جَزَاؤُهُمْ عِنْدَرَبِّهِمْ جَنَّاتُ َعدنٍ تَجْری مِنْ تَحْتِهَا الاَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا اَبَداً رَضِیَ ﷲ عَنْهُمْ وَ رَضُواعَنْهُ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهُ ) (بینہ٨)

پروردگار کے یہاں ان کی جزا وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ' خدا ان سے راضی ہے اور وہ لوگ خدا سے راضی ہیں اور یہ سب اس کے لئے ہے جس کے دل میں خوف خدا ہے۔

ایک دوسری آیت میں مقام ربوبیت کے سامنے خوف' خشیت' فروتنی' خضوع و خشوع کو علمائے الہٰی کی نمایاں خصوصیات کے طور پر بیان کرتا ہے:

( اِنَّمَا یَخْشَی ﷲمِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَائُ ) (فاطر٢٨)

لیکن اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہیں۔

ایک دوسری جگہ پروردگار عالم مسلمانوں کو ظالموں اور ستمگروں کے خوف سے نکال کر اپنے خوف کا حکم دیتا ہے:

(...( .فَلاَ تَخْشَوهُمْ وَاخْشَونِی وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِی عَلَیْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ ) (بقرہ١٥٠)

''ان(ظالموں) کا خوف نہ کرو بلکہ اللہ سے ڈرو کہ ہم تم پر اپنی نعمت تمام کرنا چاہتے ہیں کہ شاید تم ہدایت یافتہ ہو جاؤ۔

نیز ایک دوسری جگہ پر فرماتا ہے:

( اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیطَانُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَائَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ) (آل عمران١٧٥)

یہ شیطان صرف اپنے چاہنے والوں کو ڈراتا ہے' لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور اگر مومن ہو تو مجھ سے ڈرو۔

بزرگان دین اور اولیاء اللہ کے خوف کا مرتبہ:

خوف الٰہی کی قدر و منزلت اور اس کے بارے میں کی گئی ستائش کے پیش نظر ' ہم دیکھتے ہیں کہ اولیائے خدا اس حالت اور کیفیت کو اپنے اندر زندہ کرتے تھے۔ ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ ااطہار علیہم السلام کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کر تے ہیں تو عجیب و غریب حالات سے دو چار ہوتے ہیں کہ اگر ان کے بارے میں ایک دو روایتیں نقل ہوئی ہوتیں' تو انسان کو ان حالات کے بارے میں شک کرنے کا حق تھا' لیکن ان کے بارے میں ایک دو روایتیں نقل نہیں ہوئی ہیں بلکہ ان حالات کے بارے میں بہت ساری روایتیں بصورت تواتر نقل ہوئی ہیں۔ یہاں تک جب ہم حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کابہ غور مطالعہ کرتے ہیں' تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گریہ و زاری اور مناجات کا ایک ایسا لا متناہی سلسلہ ہمارے ذہن میں ابھرتا ہے کہ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو خوف خدا کے بغیر تصور نہیں کیا جا سکتا ہے' اور اسی طرح حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی شخصیت کو بھی خوف و خشیت الہٰی کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی اور آپ کی دوسری تمام مناجات آپ کے غیر معمولی خوف خدا کے وجود کی واضح نشانیاں ہیں' جو ہمارے لئے قابل تصور نہیں ہیں۔

روایت میں نقل ہوا ہے کہ وضو کرتے وقت امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حالت متغیر جاتی تھی اور آپکا پورا وجود کانپ اٹھتا تھا۔ اسی طرح حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کے بارے میں نقل ہوا ہے جب آپ مسجد کے نزدیک پہنچ جاتے تھے' تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیرجاتا تھا اور تکبیر کہتے وقت آپ کا بدن کانپ اٹھتا تھا۔ اسی طرح دوسرے معصومین علیہم السلام اور حضرت فاطمہ زہرا کی بھی خدا کے حضور میں یہی حالت ہوا کرتی تھی۔

خوف الہٰی کو اپنے اندر زندہ رکھنے کی اس قدر تاکیدنیز' بزرگان دین کی رفتار میں اس حالت کا ظہور' انسان سازی' تکامل و ترقی ہدایت و بندگی کی راہ کو حاصل کرنے کے لئے خوف الٰہی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ بیشک خوف سے مخصوص مراتب کے آثار و فوائد متفاوت ہیں۔ جب ہم اپنے حالات کی تحقیق کر تے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر خوف الہٰی کی ایک معین حد موجود ہے اور اس کے اپنے خاص فوائد ہیں۔ لیکن جب ہم ایسے افراد کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں جو معرفت کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں اور خدا کی معرفت میں ہم سے آگے بڑھ چکے ہیںاور کمال کی آخری منزل تک پہنچے ہیں' تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدائے متعال سے ان کا خوف و ہراس کی کوئی اور ہی صورت ہے اور اس کے آثار و نتائج بھی مختلف ہیں۔

البتہ خوف الہٰی کی منزلت اور اس کے آثار و فوائد کوبیان کرنا مشکل ہے۔ اس مطلب کو کسی حد تک واضح کرنے کے لئے اس مثال کو بیان کرنا ضروری ہے: جب انسان اپنے مقابلہ میں کسی کی عظمت کو دیکھتا ہے تو اس کے یہاں ایک ایسی حالت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ احساس کرتا ہے کہ اپنی ہستی کھو بیٹھا ہے، خود کو گم کر دیا ہے یہاں تک کہ اسے اپنے وجود کا احساس نہیں رہتا۔ دوسرے الفاظ میں جب انسان کسی عظمت کا احساس کرتا ہے تو اس کے آگے وہ پگھل جاتا ہے' اسی طرح جیسے برف آفتاب کی روشن شعاعوں سے پگھل جاتی ہے اور پانی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ پگھل جانا اور اپنے آپ کو بھول جانا خود ایک خاص قسم کی کیفیت حالت ہے جو خدا کی عظمت کو درک کرنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔

گزشتہ بحثوں اور اس موضوع پر اخلاق و عرفان کی کتابوں میں لکھے گئے مطالب کے پیش نظر' جب انسان کمال تک پہنچتا ہے تو وہ خدائے متعال اور اس کی بے انتہا عظمت کے سامنے خود کو حقیر' حد درجہ ذلیل اور پست تصور کرتا ہے۔ عرفا نے اس مرحلہ کو مقام ''فنا'' سے تعبیر کیا ہے اس صورت میں انسان اپنے آپ کو کھو دیتا ہے اور خود کو احساس نہیں کرتا وہ صرف خدا اور اس کی عظمت کا مشاہدہ کرتا ہے' اور نتیجہ کے طور پر خدا کا قرب حاصل کرتا ہے اور خدا سے اپنے رابطہ کو صحیح طریقہ سے درک کرتا ہے۔ اہل فن کے بقول وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ خدا سے تعلق کے علاوہ کو ئی چیز نہیں ہے۔

اگر چہ یہ بیان دلکش ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت کم لوگ اس مرحلہ اور منزل تک پہنچے ہیں اور ہم اس مرحلہ سے بہت دور ہیں۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ چند اصطلاحات کو یاد کرلینے سے ہماری مشکل حل ہوجائے گی' ہماری مشکل صرف حقائق تک پہنچ کر ہی حل ہو سکتی ہے اور وہ خدا کی بندگی و اطاعت اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سیرت کی پیروی میں ممکن ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے تاکہ ان کی راہ پر گامزن ہو کر خوف و خشیت الٰہی کی ایک کرن اپنے دل میں پید کر لیں تاکہ اپنی استطاعت اور لیاقت کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ سے قریب اور نزدیک ہو جائیں۔ان بلند مدارج پر توجہ اور ان کے وجود کا اعتراف ہمارے لئے مفید ہے' اس شرط کے ساتھ ہم مغرور نہ ہو ں اور خیال نہ کریں کہ ہم بھی ان مقامات تک پہنچ گئے ہیں۔

انسان کا کمال اور حق کے مقابلے میں ذلت و حقارت کا احساس:

بیشک، انسان کا کمال اس میں ہے کہ وہ خدا کے سامنے پانی پانی ہو جائے اور اپنے لئے کسی آزادی کا قائل نہ ہو اور خود کو وابستہ ا ور خدا وند متعال کا محتاج جانے، جس قدر وہ اپنے آپ کو محتاج اور خدا کے سامنے حقیر تصور کرے گا، خدا سے زیادہ نزدیک ہو تاجائے گا۔ اس کمال تک پہنچنے کا راستہ یہ ہے کہ جب انسان عظمت الہٰی کو درک کرتا ہے، تو اس کے اندر اپنی کوتاہی اور ذلت کا احساس پیدا ہوتا ہے جو شخص۔ کمال و معرفت بندگی و اطاعت کے بلند درجات کا طلب گار ہے اس کے لئے یہ بہترین راستہ ہے۔

ہم، جو خوف کوغیر مطلوب و ناپسندیدہ حالت تصورکرتیہیں، یہ سنتے ہوئے تعجب کرتے ہیں کہ اولیاء الہٰی حالت خوف سے لذت محسوس کرتے تھے، اور اگر اس حالت کو کھو جانے کی صورت میں دوبارہ کوشش کرتے تھے تاکہ اسے پھر سے حاصل کریں۔ یہ خوف وہراس ان کے لئے اس قدر پسندیدہ و لذت بخش ہے کہ کبھی اسے اپنے سے جدا ہونا پسند نہیں کرتے! چونکہ ہم اس مرحلہ تک نہیں پہنچنے ہیں، لہذا اس کے بارے میں صحیح ادراک نہیں کرتے ہیں اور حقیقت میں اسے بیان نہیں کرسکتے۔ لیکن جو کچھ ہمیں اولیاء الہٰی کی زندگی کی داستان سے حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ جو انتہائی محبت رکھتے تھے، محبوب کی راہ میں درد و کرب سے لذتمحسوس کرتے تھے۔ اس کے فراق میں رونے سے انھیں سکون کا احساس ہوتا تھا۔ باوجو داس کے کہ رونا غم واند وہ کی علامت ہے لیکن چونکہ یہ معشوق کے لئے ہے اسلئے ان کے لئے لذت بخش ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ خدا کا خوف اولیاء خدا کے لئے پسندیدہ اور اصلاحی ہے اور عظمت الہٰی کے آگے آب آب ہونے اورخوف و خشیت کی حالت پیدا کرنے سے ناراض نہیں ہوتے، وہ کم از کم اتناجانتے تھے کہ یہ بذات خود ایک ایسی بے نہایت اور ابدی لذت تک پہنچنے کا مقدمہ ہے، جس کے بعد کسی اور لذت کا وجود نہیں ہے۔

لہٰذا، اولیاء الہٰی اور بزرگانِ دین خوف الہٰی کو اہمیت دیتے تھے، کیونکہ اسے نفس کی سرکشی اور اس کے بے مہار ہونے نیز استغنا اور خود پسندی جیسی بیماریوں سے نجات پانے کا بہترین عامل سمجھتے تھے۔ اسی طرح یہ حالت ان کے لئے مقام ''فنا'' تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ تھی۔

اس سلسلہ میں جس مطلب کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ بعض افراد جب چند عرفانی اصطلاحات، جیسے ''مقامِ محو و فنافی اللہ'' کو یاد کرتے ہیں تو خیال کرتے ہیں عارف بن گئے ہیں اور کسی مقام پر پہنچ گئے ہیں! بہتر ہے یہ لوگ اپنے کو کسوٹی پر قرار دیں اور امتحان کریں کہ کیا ان کے دل میں خوف خدا جیسی حالتیں پیدا ہوئی یا نہیں، کیا ان کی زندگی میں کبھی کوئی ایسی رات گزری ہے جب انہوں نے خدا کے خوف میں صبح تک شب بیداری کی ہو؟ کیا کبھی ان کی آنکھیں رونے سے مجروح ہوئی ہیں؟ انسان کے لئے یہ دعویٰ کرنا آسان ہے کہ وہ لقا ء اللہ کی منزل تک پہنچاہے اب ان حالات و مقامات سے کوئی سروکار نہیں ہے، لیکن ہمیں توجہ کرنی چاہئے کہ کیا حضرت یحییٰ کے وصال کی حالت کا جیسا ایک ذرہ ہم میں پایا جاتا ہے؟ کیا ان حالات کا ہم میں کوئی اثر نمایاں ہے؟ چند اصطلاح کو یاد کرنے اور دعویٰ کرنے سے کوئی عارف نہیں بنتا ہے۔ یہ ایک طولانی اور پُر خطر راستہ ہے، اس مرد بزرگ الہٰی، مرحرم آیت اللہ شیخ محمدتقی آملی کے بقول: اس راستہ کو طے کرنا، پلکوں سے پہاڑ کھود نے کے مترادف ہے!

اگر کوئی معرفت الہٰی کے راستہ کو طے کرنا چاہے، تو اسے مشکلات، ریاضت اور شب بیداری کی سختیوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے، چاہئے کہ خدا رسیدہ افراد کے مانند راستہ کو طے کرے دیکھنا چاہئے کہ اولیاء الہٰی جیسے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت سجاد علیہ السلام نے کس طرح اس راستہ کو طے کیا ہے۔

خوف الہٰی اور گناہ، شہرت و جاہ طلبی سے پرہیز:

گزشتہ بحث کے مطابق، منجملہ خوف الہٰی کے آثار میں سے۔ بلند معنوی درجات پر فائز ہونے والوں کے لئے۔ فنافی اللہ ہے، لیکن عام لوگوں کے لئے خوف الہٰی کا بلند ترین اثر گناہ سے پرہیز کرنا ہے۔ جب انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اس کے ساتھ نفع حاصل کر نے یا نعمت یالذت کو پانے کے درپے ہوتا ہے، خواہ وہ لذت حقیقی ہویا خیالی، خواہ وہ لذت شہوانی ہویا بہ عنوان شہرت و مقام کوئی لذت ہو۔ جو چیز انسان کواس طرح کے گناہ و انحراف سے دو چار ہونے اور باطل عوامل سے نجات دیکر شیطان کے پھندے سے آزاد کر سکتی ہے، وہ خداء متعال کا خوف ہے۔ گناہ کے بُرے آثار انسان کو ابدی اور پائدار اخروی نعمتوں سے محروم کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔ (یقینا جس قدر خدا کا خوف زیادہ ہوگا اس کا اثر بھی زیادہ ہوگا)

ایک روایت میں آیا ہے کہ اگر کسی دل میں خوف خدا ہو تو اس میں مقام وجاہ طلبی کی محبت نہیں ہوگی۔ یعنی جو خدا سے ڈرتا ہے وہ جاہ طلب نہیں ہے وہ لوگوں میں محبوبیت پیدا کرنے اور شہرت کے پیچھے نہیں دوڑتا ہے۔ جاہ طلبی انسان کے لئے سب سے بڑی آفت ہے۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مومنین کے لئے سب سے بڑی آفت حبِ مال وحب جاہ ہے۔ یعنی جاہ طلبی اور ریاست طلبی آخری ناپسندیدہ صفت جو صد یقین کے دلوں سے خارج ہوتی ہے کاجوشی علاج کرسکتی ہے وہ خدا کا خوف ہے۔

یقینا جس نے عظمت الہٰی کو درک کر لیا اور خدا کے مقابل میں اپنی حقارت اور پستی کو اچھی طرح سے سمجھ گیا اور اس بات سے آگاہ ہوگیا کہ گناہ و عصیان کا دنیا و آخرت میں کتنا خطرناک انجام ہے ، تو وہ شہرت طلبی و جاہ طلبی کی ہوس کو اپنے دماغ سے نکال باہر کرتا ہے۔ لہٰذا، خوف الہٰی کا سب سے بڑا اثر اپنے آپ کو گناہ میں آلودہ کرنے سے پرہیز کرنا ہے۔البتہ جن کی معرفت مکمل ہوتی ہے ان کے دل میں خدا کی محبت جاگزین ہوتی ہے۔ اور وہ خدا سے ملاقات کا شوق رکھتے ہیں اور ان کی یہی محبت الہٰی اور خدا سے ملاقات کا شوق اس امرکا سبب بنتا ہے کہ اپنے معشوق کے علاوہ دوسروں سے چشم پوشی کرے، لیکن یہ مرتبہ انھیں سے مخصوص ہے جو اس کے اہل ہیں اور ہم حب الہٰی کے اس مرتبہ تک نہیں پہنچے ہیں۔ تنہا جو چیز ہم سے ممکن ہے وہ اپنے دلوں میں خوف الہٰی کو تقویت بخشنا ہے تاکہ اس کے اثر سے ہم گناہوں سے بچ سکیں اور رفتہ رفتہ یہ لیاقت پیدا کریں کہ محبت الہٰی کو اپنے دل میں جگہ دیں اس طرح محبت و معرفت الہٰی کے بلند تر ین مقامات تک پہنچ سکتے ہیں۔

خدا کے دوستوں اور فرشتوں کے خوف کے مرتبہ پرتوجہ کرنے کا اثر:

اب جبکہ خوف الہٰی اس کی اہمیت و فوائد کی بات درمیان آگئی تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہم میں خوف خدا پیدا ہو؟ اس مرحلہ تک پہنچنے کے لئے منجملہ بہترین راستوں میں سے ایک راستہ، خدا کے یہاں عزیز افراد کے مقام خوف پر نظر ڈالنا ہے۔ بیشک ان کے حالات اور خدا سے ان کے بے حد خوف پر توجہ کرنا ہمارے لئے خوف الہٰی کا مقام حاصل کرنے کے لئے بہترین تشویق کنندہ ہے۔ یہ وہی روش ہے جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے۔

خدا کے عزیز ترین بندوں میں اس کے ملائکہ ہیں۔ قرآن مجید ان شائستہ بندوں کے بارے میں فرماتا ہے:

( وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلاَ ئِکَةُ مِنْ خِیفَتِهِ ) (رعد١٣)

''گرج اس کی حمد کی تسبیح کرتی ہے اور فرشتے اس کے خوف سے حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں۔''

جیسا کہ بیان ہوا کہ عظمت الہٰی کی شناخت اور اس کی طرف توجہ کرنا خدا سے ڈرنے کا سبب ہے، اس کی واضح مثال ہم خدا کے مقرب فرشتوں میں پاتے ہیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس روایت میں فرشتوں کے ایک گروہ کی حالت یوں بیان فرماتے ہیں وہ بارگاہ الہٰی میں اپنے آپ کو ایسا حقیر اور پست محسوس کرتے ہیں اور خوف و خشیت میں ڈوبے ہوئے ہیں اپنی پیدائش سے قیامت تک۔ شاید ہزاروں یا لاکھوں سال طولانی مدت سے اس کے آگے۔ کھڑے، سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ شاید قہر الہٰی کے خوف اور شدید اضطراب کی وجہ سے اور بے انتہا خدا کی عظمت کے پیش نظر سر بلند کرنے کی جرأت نہیں کرتے ہیں۔(۱)

جب خدا کے فرشتے جو ہر آلود گی اور گناہ سے پاک ہیں، اس طرح خداکے قہر سے خائف ہو کر بارگاہ الہٰی میں سرتسلیم خم کئے ہوئے اور اپنی ذلت کے احساس کے ساتھ خدا کی بندگی میں کانپ رہے ہیں اور قیامت تک سربلند نہیں کرتے، تو کیا یہ شائستہ نہیں ہے کہ ہم گنہگار ہوا نفس میں گرفتار اور شیطان کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے شرم و حیا کے مارے اپنا سر بلندنہ کریں؟

ملائکہ کی جو حالت خدا کے حضور میں ہوتی ہے اس کے ادنی نمونہ کو ہم اپنے اندر محسوس کرتے ہیں جب ہم اپنے کو کسی بزرگ ترین شخصیت کے سامنے پیش کرتے ہیں، تو خود باختگی کے عالم میں ہم میں بولنے کی سکت نہیں رہتی اور بے اختیار سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔ جن لوگوں نے امام خمینی کی شخصیت کو درک کیا تھا اور جن کو ان کے بارے میں مکمل معرفت حاصل تھی، جب ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو امام خمینی کی پرکشش جذاب شخصیت ان کو پگھلا کر رکھ دیتی تھی اور امام خمینی کی عظمت اور ان کی شان و شوکت کے سامنے برف کے مانند پگھل جاتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو قدرت و معرفت کے ایک عظیم پہاڑ کے سامنے محسوس تھے اور خود کو ان کے سامنے ایک معمولی ذرہ تصور کرتے تھے۔ پھر یہ مقام و منزلت ایک بندہ خدا کی ہے!

اسی طرح خدا کے بعض ایسے فرشتے ہیں کہ بزرگ انبیاء بھی مشکل سے ان کی عظمت کو درک کرتے تھے، روایتوں میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام صرف چند بار اپنی اصلی شکل میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نازل ہوئے ہیں جبرئیل کے تجلی اور ظہور کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا کہ ان کا نور مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا ہے:

''عن ابی جعفر علیه السلام قال بینارسول ﷲ صلی ﷲ علیه و آله وسلم جالساً و عنده جبرئیل اذحَانَتْ من جبرئیل نظرة قبِل السماء فانتقع لونه حتیٰ صار کانه کُرکُم ثم لاذَبرسول ﷲ صلی ﷲ علیه و آله وسلم فنظر رسول ﷲ الیٰ حیث نظر جبرئیل علیه السلام فاذا شیً قد ملأ بین الخافِقَینِ مقبلا حتی دنامن الارض'' (۲)

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرماتھے اور جبرئیل امین بھی آپ کے پاس موجود تھے۔ اچانک جبرئیل نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور اس سے ایک نور آسمان پر چمکا اور مسلسل اس کا رنگ تیز ہوتا چلا گیا یہاں تک یہ نور زعفرانی رنگ میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے بعد جبرئیل نے اپنے آپ کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور مشاہدہ فرمایا کہ جبرئیل کا نورتمام عالم میں مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا ہے اور زمین تک محیط ہے۔

البتہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نورانیت جبرئیل کے مقام اور نورانیت سے بالا تر ہے، لیکن یہاں پر چونکہ جبرئیل کا واقعی مقام، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشری اور انسانی مقام پر جلوہ افروز تھا اس لئے ایسی عظمت کا مشاہدہ گیا۔

____________________

١۔ چنانچہ معارف دین میں آیا ہے کہ صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا: پہلی بار اس وقت جب تمام ذی حیات مر جائیں گے۔ دوسراصور اس وقت پھونکا جائے گا جب قیامت کبریٰ برپاہو گی اور سب زندہ ہوں گے۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ پہلے صور پر ملائکہ نہیں مریں گے اور شاید وہ کبھی نہیں مریں گے اور اگر ان کے لئے موت کی نسبت دی گئی ہے تو اس کے لئے کوئی دوسرا معنی تصور کرنا چاہئے۔

۲۔ بحار الانوار ،ج١٦ص٢٩٢

انتظار

سارے کے سارے مسلمان ایک ایسے "مصلح" کے انتظار میں زندگی کے رات دن گذارے رہے ہیں جس کی خصوصیات یہ ہیں:۔

(۱) عدل و انصاف کی بنیاد پر عالم بشریت کی قیادت کرنا، ظلم و جور، استبداد و فساد کی بساط ہم یشہ کے لئے تہ کرنا۔

(۲) مساوات و برادری کا پرچار کرنا۔

(۳) ایمان و اخلاق، اخلاص و محبّت کی تعلیم دینا۔

(۴) ایک علمی انقلاب لانا۔

(۵) انسانیت کو ایک حیاتِ جدید سے آگاہ کرانا۔

(۶) ہر قسم کی غلامی کا خاتمہ کرنا۔

اس عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (عج) ہے، پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں ہے۔

اس کتابچے کی تالیف کا مقصد یہ نہیں ہے کہ گزشتہ خصوصیات پر تفصیلی اور سیر حاصل بحث کی جائے، کیونکہ ہر ایک خصوصیت ایسی ہے جس کے لئے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے۔

مقصد یہ ہے کہ "انتظار" کے اثرات کو دیکھا جائے اور یہ پہچانا جاسکے کہ صحیح معنوں میں منتظر کون ہے اور صرف زبانی دعویٰ کرنے والے کون ہیں، اسلامی روایات و احادیث جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں، یہ انتظار کو ایک عظیم عبادت کیوں شمار کیا جاتا ہے۔؟

غلط فیصلے

سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ انتطار کا عقیدہ، کیا ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یا یہ عقیدہ شکست خوردہ انسانوں کی فکر کا نتیجہ ہے۔؟ یا یوں کہا جائے کہ اس عقیدہ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے، یا یہ عقیدہ انسانوں کے اوپر لادا گیا ہے۔؟

بعض مستشرقین کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کی پیداوار ہے۔

بعض مغرب زدہ ذہنیتوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہودی اور عیسائی طرز فکر سے حاصل کیا گیا ہے۔

مادّہ پرست اشخاص کا کہنا ہے ک اس عقیدے کی اصل و اساس اقتصادیات سے ہے۔ صرف فقیروں، مجبوروں، ناداروں اور کمزوروں کو بہلانے کے لئے یہ عقیدہ وجود میں لایا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے ک اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے ہے اور یہ ایک خالصِ اسلامی نظریہ ہے، دوسرے نظریات کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس عقیدہ کے بارے میں اظھار رائے کیا ہے، اگر ان کو متعصب اور منافع پرست نہ کہا جاسکے تو یہ بات بہر حال مانی ہوئی ہے کہ ان لوگوں کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں بہت زیادہ محدود ہیں۔ ان محدود معلومات کی بنا پر یہ عقیدہ قائم کرلیا ہے کہ ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اپنے کو اس بات کا مستحق قرار دے لیتے ہیں کہ اسلامی مسائل کے بارے میں اظھار نظر کریں، اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ محدود معلومات کی بنیادوں پر ایک آخری نظریہ قائم کرلینا کہاں کی عقلمندی ہے، آخری فیصلہ کرنے کا حق صرف اس کو ہے جو مسئلے کے اطراف و جوانب سے باقاعدہ واقف ہو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم یں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے، ہم ارا سوال تو صرف یہ ہے کہ اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں؟

ہم نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس عقیدے کو دل سے لگائے ہوئے ہیں وہ ہم یشہ رنج و محن کا شکار ہیں اور ان کی زندگیاں مصائب برداشت کرتے گذرتی ہیں ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے بھاگتے ہیں، فساد کے مقابل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رھتے ہیں اور اس کی سعی و کوشش بھی نہیں کرتے کہ فساد ختم بھی ہوسکتا ہے ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے، ایسے عقیدے رکھنے والوں کو ایسی کوئی فکر ہی نہیں۔

اس عقیدے کی بنیاد جو بھی ہو مگر اس کے فوائد و اثرات خوش آیند نہیں ہیں یہ عقیدہ انسان کو اور زیادہ کاہل بنا دیتا ہے۔

اگر ایک دانش ور کسی مسئلے میں فیصلہ کرنا چاھتا ہے اور صحیح نظریہ قائم کرنا چاھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کے اطراف و جوانب کا باقاعدہ مطالعہ کرے، اس کے بعد ہی کوئی صحیح نظریہ قائم ہوسکتا ہے۔

آئیے پہلے ہم خود اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کے افکار کا نتیجہ ہے؟ یا اس کی بنیاد اقتصادیات پر ہے؟ یا پھر اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے؟ اس عقیدے کے اثرات مفید ہیں یا نقصان رساں؟۔

انتظار اور فطرت

بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی بنیاد فطرت پر نہیں ہے بلکہ انسان کے افکار پریشاں کا نتیجہ ہے اس کے باوجود اس عقیدے کی اصل و اساس انسانی فطرت ہے، اس نظریے کی تعمیر فطرت کی بنیادوں پر ہوئی ہے۔

انسان دو راستوں سے اس عقیدے تک پہونچتا ہے۔ ایک اس کی اپنی فطرت ہے اور دوسرے اس کی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ہی انسان کو اس نظریے کی دعوت دیتے ہیں۔

انسان فطری طور پر کمال کا خواھاں ہے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ جن چیزوں کو نہیں جانتا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں کو پسند کرتا ہے اور نیکی کو پسند کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح سے انسان میں کمال حاصل کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، اسی جذبے کے تحت انسان اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکے کیونکہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس میں کمال نمایاں ہوگا۔ اسی جذبے کے تحت اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی کرے، انسان فطری طور پر نیک طینت اور نیک اشخاص کو پسند کرتا ہے۔

کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقاضے ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں، یا ان کی بنیاد اقتصادیات پر ہے، یا ان کا تعلق وراثت اور ترتیب وغیرہ سے ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ وراثت اور ترتیب ان تقاضوں میں قوت یا ضعف ضرور پیدا کرسکتی ہیں لیکن ان جذبات کو ختم کردینا ان کے بس میں نہیں ہے کیونکہ ان کا وجود ان کا مرھونِ منّت نہیں ہے۔ ان تقاضوں کے فطری ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تاریخ کے ہر دور اور ہر قوم میں یہ تقاضے پائے جاتے ہیں کیونکہ اگر یہ تقاضے فطری نہ ہوتے تو کہیں پائے جاتے اور کہیں نہ پائے جاتے۔ انسانی عادتوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ایک قوم کی عادت دوسری قوم میں نہیں پائی جاتی، یا ایک چیز جو ایک قوم میں عزّت کی دلیل ہے وہی دوسری قوم میں ذلّت کا باعث قرار پاتی ہے۔

کمال، علم و دانش، اچھائی اور نیکی سے انسان کا لگاؤ ایک فطری لگاؤ ہے جو ہم یشہ سے انسانی وجود میں پایا جاتا ہے، دنیا کی تمام اقوام اور تمام ادوار تاریخ میں ان کا وجود ملتا ہے۔ عظیم مصلح کا انتظار انھیں جذبات کی معراجِ ارتقاء ہے۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ انسان میں یہ جذبات تو پائے جائیں مگر اس کے دل میں انتظار کے لئے کوئی کشش نہ ہو، انسانیت و بشریت کا قافلہ اس وقت تک کمالات کے ساحل سے ہم کنار نہیں ہوسکتا جب تک کسی ایسے مصلح بزرگ کا وجود نہ ہو۔

اب یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ انسانی ضمیر کی آواز ہے اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی بدن کا ہر حصہ انسان کے جسمی کمالات پر اثر انداز ہوتا ہے ہم یں کوئی ایسا عضو نہیں ملے گا جو اس کی غرض کے پورا کرنے میں شریک نہ ہو، ہر عضو اپنی جگہ انسانی کمالات کے حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔ اسی طرح روحی اور معنوی کمالات کے سلسلے میں روحانی خصوصیات اس مقصد کے پورا کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

انسان خطرناک چیزوں سے خوف کھاتا ہے یہ روحانی خصوصیت انسان کے وجود کو ہلاکت سے بچاتی ہے اور انسان کے لئے ایک سپر ہے حوادث کا مقابلہ کرنے کے لئے

غصہ انسان میں دفاعی قوت کو بڑھا دیتا ہے، تمام طاقتیں سمٹ کو ایک مرکز پر جمع ہوجاتی ہیں جس کی بناء پر انسان چیزوں کو تباہ ہونے سے بچا تا ہے اور فائدہ کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، دشمنوں پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔

اسی طرح سے انسان میں روحی اور معنوی طور پر کمال حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے، انسان فطری طور پر عدل و انصاف، مساوات اور برادری کا خواھاں ہے، یہ وہ جذبات ہیں جو کمالات کی طرف انسان کی رہبری کرتے ہیں۔ انسان میں ایک ایسا ولولہ پیدا کردیتے ہیں، جس کی بناء پر وہ ہم یشہ روحانی و معنوی مدارج ارتقاء کو طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے، اس کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا عدل و انصاف مساوات و برادری، صدق و صفا، صلح و مروت سے بھر جائے ظلم و جور کی بساط اس دنیا سے اٹھ جائے اور ستم و استبداد رختِ سفر باندھ لے۔

یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ انسان کا وجود اس کائنات سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ہے، یہ ساری کائنات انسان سمیت ایک مکمل مجموعہ ہے جس میں زمین ایک جزو آفتاب و ماہتاب ایک جزء اور انسان ایک جزء ہے۔

چونکہ ساری کائنات میں ایک نظام کار فرما ہے لھٰذا اگر انسانی وجود میں کوئی جذبہ پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس جذبے کا جواب خارجی دنیا میں ضرور پایا جاتا ہے۔

اسی بناء پر جب ہم یں پیاس لگتی ہے تو ہم خود بخود پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اسی جذبے کے تحت ہم یں اس بات کا یقین ہے کہ جہاں جہاں پیاس کا وجود ہے وھاں خارجی دنیا میں پیاس کا وجود ضرور ہوگا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو ہرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ہم اپنی کوتاہیوں کی بناء پر پانی تلاش نہ کرپائیں تو یہ اس بات کی ہرگز دلیل نہ ہوگی کہ پانی کا وجود نہیں ہے، پانی کا وجود ہے البتہ ہم اری سعی و کوشش ناقص ہے۔

اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے تو ضرور خارج میں اس شے کا وجود ہوگا جس کا علم انسان بعد میں حاصل کرے گا۔

اسی بنیاد پر اگر انسان ایک ایسے عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کر رہا ہے جو دنیا کے گوشے گوشے کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیکیوں کا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ہے کہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن کی اس منزلِ کمال تک پہونچ سکتا ہے تبھی تو ایسے عالمی مصلح کا انتظار انسان کی جان و روح میں شامل ہے۔

عالمی مصلح کے انتظار کا عقیدہ صرف مسلمانوں کے ایک گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔ اور صرف مسلمانوں ہی تک یہ عقیدہ منحصر نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے۔

اس عقیدے کی عمومیت خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی اقتصادیات کی پیداوار ہے کیونکہ جو چیزیں چند خاص شرائط کے تحت وجود میں آتی ہیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ہاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ہر قوم و ملّت اور ہر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے کی عمومیت اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔ انسان فطری طور پر ایک عالمی مصلح کے وجود کا احساس کرتا ہے جب اس کا ظھور ہوگا تو دنیا عدل و انصاف کا مرقع ہوجائے گی۔

عالمی مصلح اور اسلامی روایات

ایک ایسی عالمی حکومت کا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار کرے، انسان کو عدل و انصاف کا دلدادہ بنائے، یہ کسی شکست خوردہ ذہنیت کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حکومت کا احساس کرتا ہے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی کی آواز ہے ایک پاکیزہ فطرت کی آرزو ہے۔

بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب سے اس کو اخذ کیا گیا ہے، یا یوں کہا جائے کہ دوسروں نے اس عقیدے کو اسلامی عقائد میں شامل کردیا ہے۔ ان لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی کوئی اصل و اساس نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فکر واقعاً ایک غیر اسلامی فکر ہے جو رفتہ رفتہ اسلامی فکر بن گئی ہے؟ یا در اصل یہ ایک خالص اسلامی فکر ہے۔

اس سوال کا جواب کس سے طلب کیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس کا جواب طلب کیا جائے جن کی معلومات اسلامیات کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہیں۔ یہیں سے مصیبت کا آغاز ہوتا ہے کہ ہم دوسروں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ کرے جو دریا کے کنارے ہے بلکہ ایک ایسے شخص سے پانی طلب کرے جو دریا سے کوسوں دُور ہے۔

یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ مستشرقین کی باتوں کو بالکل کفر و الحاد تصور کیا جائے اور ان کی کوئی بات مانی ہی نہ جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ "اسلام شناسی" کے بارے میں ان کے افکار کو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ کیا جائے۔ اگر ہم تکنیکی مسائل میں علمائے غرب کا سہارا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اسلامی مسائل کے بارے میں بھی ان کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔

ہم علمائے غرب کے افکار کو اسلامیات کے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سکتے کہ ایک تو ان کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہے، جس کی بنا پر ایک صحیح نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول کو مادی اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا چاھتے ہیں، ہر چیز میں مادی فائدہ تلاش کرتے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ اگر تمام اسلامی مسائل کو مادیت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل کی حقیقت کیا سمجھ میں آئے گی۔

اسلامی روایات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ "انتظار" کا شمار ان مسائل میں ہے جن کی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی انقلابی مہم کے سلسلے میں روایات اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان کے "تواتر" سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں کے علماء نے اس سلسلے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں اور سب ہی نے ان روایات کے "متواتر" ہونے کا اقرار کیا ہے۔ ہاں صرف "ابن خلدون" اور "احمد امین مصری" نے ان روایات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظھار کیا ہے۔ ان کی تشویش کا سبب روایات نہیں ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں اس سوال و جواب کا ذکر مناسب ہوگا جو آج سے چند سال قبل ایک افریقی مسلمان نے مکہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ہے، اس سے کیا تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ ارادہ وھابیوں کا ہے اور انھیں کے افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ہے۔ سب کو یہ بات معلوم ہے کہ وھابی اسلام کے بارے میں کس قدر سخت ہیں، اگر یہ لوگ کسی بات کو تسلیم کرلیں تو اس سے اندازہ ہوگا کہ یہ مسئلہ کس قدر اہم یت کا حامل ہے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس جواب سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت امام مہدی (ع) کا انتظار ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر دنیا کے تمام لوگ متفق ہیں، اور کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہے۔ وھابیوں کا اس مسئلہ کو قبول کرلینا اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ذیل میں سوال اور جواب پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت امام مہدی (ع) کے ظھور پر زندہ دلیلیں

چند سال قبل کینیا (افریقہ) کے ایک باشندے بنام "ابو محمد" نے "ادارہ رابطہ عالم اسلامی" سے حضرت مہدی (ع) کے ظھور کے بارے میں سوال کیا تھا۔

اس ادارے کے جنرل سکریٹری "جناب محمد صالح اتغزاز" نے جو جواب ارسال کیا، اس میں اس بات کی با قاعدہ تصریح کی ہے کہ وھابی فرقے کے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی ان روایات کو قبول کیا ہے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ اس جواب کے ذیل میں سکریٹری موصوف نے وہ کتابچہ بھی ارسال کیا ہے جسے پانچ جید علمائے کرام نے مل کر تحریر کیا ہے۔ اس کتابچے کے اقتباسات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں: ۔۔۔۔

عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (ع) ہے۔ آپ کے والد کا نام "عبد اللہ" ہے اور آپ مكّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور کے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ہوگی۔ ہر طرف ضلالت و گمراہی کی آندھیاں چل رہی ہوں گی۔ حضرت مہدی (ع) کے ذریعہ خداوندعالم دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم کانشان تک بھی نہ ہوگا۔"

رسول گرامی اسلام (ص) کے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ہوں گے، اس کی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ہیں، حدیث کی معتبر کتابوں میں اس قسم کی روایات کا ذکر باقاعدہ موجود ہے۔"

حضرت مہدی (ع) کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں خود صحابۂ کرام نے ان کو نقل فرمایا ہے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:۔

(۱) علی ابن ابی طالب (ع)، (۲) عثمان بن عفان، (۳) طلحہ بن عبیدہ، (۴) عبد الرحمٰن بن عوف، (۵) عبد اللہ بن عباس، (۶) عمار یاسر، (۷) عبد اللہ بن مسعود، (۸) ابوسعید خدری، (۹) ثوبان، (۱۰) قرہ ابن اساس مزنی، (۱۱) عبد اللہ ابن حارث، (۱۲) ابوھریرہ، (۱۳) حذیفہ بن یمان، (۱۴) جابر ابن عبد اللہ (۱۵) ابو امامہ، (۱۶) جابر ابن ماجد، (۱۷) عبد اللہ بن عمر (۱۸) انس بن مالک، (۱۹) عمران بن حصین، (۲۰) ام سلمہ۔

پیغمبر اسلام (ص) کی روایات کے علاوہ خود صحابہ کرام کے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ہیں جن میں حضرت مہدی (ع) کے ظھور کو باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اجتہاد وغیرہ کا گذر نہیں ہے جس کی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) کی روایات سے اخذ کی گئی ہیں۔ ان تمام باتوں کو علمائے حدیث نے اپنی معتبر کتابوں میں ذکر کیا ہے جیسے:۔

سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاکم، معاجم طبرانی (کبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم کی "اخبار المھدی"۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساکر، اور دوسری معتبر کتابیں۔

علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) کے موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم

القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی

التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوکانی

المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی

الوہم المکنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی

مدینہ یونی یورسٹی کے وائس چانسلر نے یونی ورسٹی کے ماہنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے، ہر دور کے علماء نے اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ہے کہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ متواتر ہیں جنھیں کسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جن علماء نے حدیثوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان کے نام اور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں، جن میں تواتر کا ذکر کیا گیا ہے:۔

۱۔ السخاوی اپنی کتاب فتح المغیث میں

۲۔ محمد بن السنادینی اپنی کتاب شرح العقیدہ میں

۳۔ ابو الحسن الابری اپنی کتاب مناقب الشافعی میں

۴۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں

۵۔ سیوطی اپنی کتاب الحاوی میں

۶۔ ادریس عراقی مغربی اپنی کتاب المھدی میں

۷۔ شوکانی اپنی کتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں

۸۔ شوکانی اپنی کتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں

۹۔ محمد جعفر کنانی اپنی کتاب نظم المتناثر میں

۱۰۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی کتاب الوہم المکنون میں

ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان متواتر اور ناقابل انکار حدیثوں کو ایک جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ کے علاوہ اور کوئی مھدی نہیں ہے) کے ہم پلّہ قرار دے کر ان حدیثوں سے انکار کیا جائے۔ لیکن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون کے نظریے کی باقاعدہ تردید کی ہے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایک مستقل کتاب الوہم المکنون تحریر کی ہے۔ یہ کتاب تقریباً ۳۰ برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ہوچکی ہے۔

حافظان حدیث اور دیگر علمائے کرام نے بھی ان حدیثوں کے متواتر ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔

ان تمام باتوں کی بنا پر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حضرت مھدی کے ظھور پر ایمان و عقیدہ رکھے۔ اہل سنت والجماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے اور ان کے عقائد میں سے ایک ہے۔

ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انکار کرسکتے ہیں جو روایات سے بے خبر ہیں، یادین میں بدعت کو رواج دینا چاھتے ہیں، (ورنہ ایک ذی علم اور دیندار کبھی بھی اس عقیدے سے انکار نہیں کرسکتا۔)"

سکریٹری انجمن فقۂ اسلامی

محمد منتصر کنانی

اس جواب کی روشنی میں یہ بات کس قدر واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت مھدی (ع) کے ظھور کا عقیدہ صرف ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے کسی بھی دوسرے مذہب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں کیا گیا ہے۔

ایک بات ضرور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) کے والد بزرگوار کا اسمِ مبارک عبد اللہ ذکر کیا گیا ہے۔ جب کہ اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں۔ ان میں بطور یقین حضرت کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہے

اس شبہ کی وجہ وہ روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں "اسم ابیه اسم ابی " (ان کے والد کا نام میرے والد کا نام ہے) جبکہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) کے بجائے ابنی (میرا فرزند) ہے، صرف نون کا نقطہ حذف ہوجانے یا کاتب کی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اسی بات کو "گنجی شافعی" نے اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ

۱۔ یہ جملہ اہل سنت کی اکثر روایات میں موجود نہیں ہے

۲۔ ابن ابی لیلیٰ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:اسمه اسمی اسم ابیه اسم ابنی ۔ (اس کا نام میرا نام ہے، اس کے والد کا نام میرے فرزند کا نام ہے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں۔

۳۔ اہل سنت کی بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ امام زمانہ کے والد بزرگوار کا نام حسن ہے۔

۴۔ اہلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں جو تواتر کی حد کو پہونچتی ہیں ان میں صراحت کے ساتھ یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حسن ہے۔

انتظار کے اثرات

گذشتہ بیانات سے یہ بات روشن ہوگئی کہ عظیم مصلح کا انتظار ایک فطری تقاضہ ہے اور انسان دیرینہ آرزو کی تکمیل ہے۔ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یہ عقیدہ صرف فرقہ شیعہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلام کے تمام فرقے اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اس سلسلے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ "تواتر" کی حد تک پہونچی ہوئی ہیں۔(۱)

ھاں وہ حضرات جن کی معلومات کا دائرہ محدود ہے اور ہر بات کو مادیت اور اقتصادیات کی عینک لگاکر دیکھنا چاھتے ہیں، یہ حضرات ضرور یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی عقیدہ نہیں ہے، یا یہ طرز فکر ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔

ایک بات باقی رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر قبول بھی کرلیا جائے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے اور خالص اسلام کے انداز فکر کا نتیجہ ہے مگر اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے، عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کرنے سے انسان کی زندگی پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔۔؟ انسان کے طرز فکر میں کون سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ذمہ دار شخص بناتا ہے یا لا اُبالی؟

یہ عقیدہ انسان میں ایک جوش پیدا کرتا ہے یا اس کے احساسات پر مایوسی کی اوس ڈال دیتا ہے۔؟

انسانی زندگی کو ایک نیا ساز عطا کرتا ہے یا اس کی زندگی کو بے کیف بنا دیتا ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ایسی قوت عطا کرتا ہے جس سے وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے یا انسان کو ضعیف و کمزور بنا دیتا ہے۔؟

یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ ذوق اور سلیقے کے مختلف ہونے کی بنا پر ہوسکتا ہے کہ ایک ہی چیز سے دو مختلف نتیجے اخذ کئے جائیں۔ ایک آدمی ایسے نتائج برآمد کرلے جو واقعاً مفید اور کار آمد ہوں اور دوسرا آدمی اسی چیز سے ایسے نتائج اخذ کرے جو بے کار اور مضر ہوں۔ ایٹمی توانائی کو انسان ان چیزوں میں بھی استعمال کرسکتا ہے جو حیات انسانی کے لئے مفید اور ضروری ہیں اور اسی ایٹمی توانائی کو انسانیت کی ہلاکت کے لئے بھی استعمال کرسکتا ہے بلکہ کررہا ہے۔

یہی حال ان رواتیوں کا ہے جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض بے خبر یا خود غرض لوگوں نے ایسے نتائج اخذ کئے ہیں جس کی بنا پر اعتراضات کی ایک دیوار قائم ہوگئی۔

انتظار کے اثرات بیان کرنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں چند روایتیں پیش کرتے ہیں جن سے انتظار کی اہم یت کا اندازہ ہوجائے گا۔ بعد میں انھیں روایات کو اساس و بنیاد قرار دیتے ہوئے فلسفۂ انتظار کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔ ان روایات کا ذرا غور سے مطالعہ کیجئے تاکہ آئندہ مطالب آسان ہوجائیں۔

۱) ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا۔ وہ شخص جو ائمہ کی ولایت کا قائل ہے اور حکومت حق کا انتظار کر رہا ہے ایسے شخص کا مرتبہ اور مقام کیا ہے۔؟

امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے: "هو بمنزلة من کان مع القائم فی فسطاطه ۔" ( وہ اس شخص کے مانند ہے جو امام کے ساتھ اس ان کے خیمے میں ہو)۔

امام نے تھوڑی دیر سکوت کے بعد پھرمایا:۔ "هو کمن کان مع رسول الله "۔ وہ اس شخص کے مانند ہے جو رسول اللہ کے ہم راہ (جنگ میں) شریک رہا ہو۔(۲)

اسی مضمون کی متعدد روایتیں ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔

۲) بعض روایات میں ہے: "بمنزلة الضارب بسیفه فی سبیل الله ۔" اس شخص کے ہم رتبہ ہے جو راہ خدا میں شمشیر چلا رہا ہو۔(۳)

۳) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے: :کمن قارع معه بسیفه ۔"(۴) اس شخص کے مانند ہے جو رسول خدا (ص) کے ہم راہ دشمن کے سرپر تلوار لگا رہا ہو۔

۴) بعض میں یہ جملہ ملتا ہے: "بمنزلة من کان قاعداً تحت لوائه ۔" اس شخص کے مانند ہے جو حضرت مھدی علیہ السلام کے پرچم تلے ہو۔(۵)

۶) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے:۔ "بمنزلة مجاهدین بین یدی رسول الله ۔" اس شخص کے مانند ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد کر رہا ہو۔(۶)

۷) بعض دوسری روایتوں میں ہے:۔ "بمنزلة من استشهد مع رسول الله " اس شخص کے مانند ہے جو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ درجۂ شھادت پر فائز ہوا ہو۔(۷)

ان روایتوں میں جو سات قسم کی تشبیہات کی گئی ہیں ان میں غور وفکر کرنے سے انتظار کی اہم یت کا باقاعدہ انداز ہوجاتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انتظار اور جہاد میں کس قدر ربط ہے۔ انتظار اور شھادت میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

بعض دوسری روایتوں میں ملتا ہے کہ "انتظار کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔" اس مضمون کی روایتیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "افضل اعمال امتی انتظار الفرج من الله عزوجل(۸)

ایک دوسری روایت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے: "افضل العبادة انتظار الفرج ۔"(۹)

یہ تمام روایتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ انتظار اور جھاد میں کتنا گہرا لگاؤ ہے۔ اس لگاؤ اور تعلق کا فلسفہ کیا ہے، ا سکے لئے ذرا صبر سے کام لیں۔

____________________

۱. تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو "منتخب الاثر" تحریر آیت الله لطف اللہ صافی۔ ص۲۳۱۔ ۲۳۶

۲. بحار الانوار ج ۵۲ ص۱۲۵ طبع جدید

۳. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۶

۴. بحار الانوار جلد ۵۲ ص ۱۲۶

۵. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲ طبع جدید

۶. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۷. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲

۸. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۸

۹. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۵

انتظار

سارے کے سارے مسلمان ایک ایسے "مصلح" کے انتظار میں زندگی کے رات دن گذارے رہے ہیں جس کی خصوصیات یہ ہیں:۔

(۱) عدل و انصاف کی بنیاد پر عالم بشریت کی قیادت کرنا، ظلم و جور، استبداد و فساد کی بساط ہم یشہ کے لئے تہ کرنا۔

(۲) مساوات و برادری کا پرچار کرنا۔

(۳) ایمان و اخلاق، اخلاص و محبّت کی تعلیم دینا۔

(۴) ایک علمی انقلاب لانا۔

(۵) انسانیت کو ایک حیاتِ جدید سے آگاہ کرانا۔

(۶) ہر قسم کی غلامی کا خاتمہ کرنا۔

اس عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (عج) ہے، پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں ہے۔

اس کتابچے کی تالیف کا مقصد یہ نہیں ہے کہ گزشتہ خصوصیات پر تفصیلی اور سیر حاصل بحث کی جائے، کیونکہ ہر ایک خصوصیت ایسی ہے جس کے لئے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے۔

مقصد یہ ہے کہ "انتظار" کے اثرات کو دیکھا جائے اور یہ پہچانا جاسکے کہ صحیح معنوں میں منتظر کون ہے اور صرف زبانی دعویٰ کرنے والے کون ہیں، اسلامی روایات و احادیث جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں، یہ انتظار کو ایک عظیم عبادت کیوں شمار کیا جاتا ہے۔؟

غلط فیصلے

سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ انتطار کا عقیدہ، کیا ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یا یہ عقیدہ شکست خوردہ انسانوں کی فکر کا نتیجہ ہے۔؟ یا یوں کہا جائے کہ اس عقیدہ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے، یا یہ عقیدہ انسانوں کے اوپر لادا گیا ہے۔؟

بعض مستشرقین کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کی پیداوار ہے۔

بعض مغرب زدہ ذہنیتوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہودی اور عیسائی طرز فکر سے حاصل کیا گیا ہے۔

مادّہ پرست اشخاص کا کہنا ہے ک اس عقیدے کی اصل و اساس اقتصادیات سے ہے۔ صرف فقیروں، مجبوروں، ناداروں اور کمزوروں کو بہلانے کے لئے یہ عقیدہ وجود میں لایا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے ک اس عقیدے کا تعلق انسانی فطرت سے ہے اور یہ ایک خالصِ اسلامی نظریہ ہے، دوسرے نظریات کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس عقیدہ کے بارے میں اظھار رائے کیا ہے، اگر ان کو متعصب اور منافع پرست نہ کہا جاسکے تو یہ بات بہر حال مانی ہوئی ہے کہ ان لوگوں کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں بہت زیادہ محدود ہیں۔ ان محدود معلومات کی بنا پر یہ عقیدہ قائم کرلیا ہے کہ ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اپنے کو اس بات کا مستحق قرار دے لیتے ہیں کہ اسلامی مسائل کے بارے میں اظھار نظر کریں، اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ محدود معلومات کی بنیادوں پر ایک آخری نظریہ قائم کرلینا کہاں کی عقلمندی ہے، آخری فیصلہ کرنے کا حق صرف اس کو ہے جو مسئلے کے اطراف و جوانب سے باقاعدہ واقف ہو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم یں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے، ہم ارا سوال تو صرف یہ ہے کہ اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں؟

ہم نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس عقیدے کو دل سے لگائے ہوئے ہیں وہ ہم یشہ رنج و محن کا شکار ہیں اور ان کی زندگیاں مصائب برداشت کرتے گذرتی ہیں ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے بھاگتے ہیں، فساد کے مقابل ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رھتے ہیں اور اس کی سعی و کوشش بھی نہیں کرتے کہ فساد ختم بھی ہوسکتا ہے ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے، ایسے عقیدے رکھنے والوں کو ایسی کوئی فکر ہی نہیں۔

اس عقیدے کی بنیاد جو بھی ہو مگر اس کے فوائد و اثرات خوش آیند نہیں ہیں یہ عقیدہ انسان کو اور زیادہ کاہل بنا دیتا ہے۔

اگر ایک دانش ور کسی مسئلے میں فیصلہ کرنا چاھتا ہے اور صحیح نظریہ قائم کرنا چاھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کے اطراف و جوانب کا باقاعدہ مطالعہ کرے، اس کے بعد ہی کوئی صحیح نظریہ قائم ہوسکتا ہے۔

آئیے پہلے ہم خود اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں کہ اس عقیدے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کے افکار کا نتیجہ ہے؟ یا اس کی بنیاد اقتصادیات پر ہے؟ یا پھر اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے؟ اس عقیدے کے اثرات مفید ہیں یا نقصان رساں؟۔

انتظار اور فطرت

بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی بنیاد فطرت پر نہیں ہے بلکہ انسان کے افکار پریشاں کا نتیجہ ہے اس کے باوجود اس عقیدے کی اصل و اساس انسانی فطرت ہے، اس نظریے کی تعمیر فطرت کی بنیادوں پر ہوئی ہے۔

انسان دو راستوں سے اس عقیدے تک پہونچتا ہے۔ ایک اس کی اپنی فطرت ہے اور دوسرے اس کی عقل۔ فطرت و عقل دونوں ہی انسان کو اس نظریے کی دعوت دیتے ہیں۔

انسان فطری طور پر کمال کا خواھاں ہے، جس طرح سے فطری طور پر اس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ جن چیزوں کو نہیں جانتا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے، اسی طرح وہ فطری طور پر اچھائیوں کو پسند کرتا ہے اور نیکی کو پسند کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح سے انسان میں کمال حاصل کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے، اسی جذبے کے تحت انسان اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکے کیونکہ وہ جتنا زیادہ علم حاصل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس میں کمال نمایاں ہوگا۔ اسی جذبے کے تحت اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی کرے، انسان فطری طور پر نیک طینت اور نیک اشخاص کو پسند کرتا ہے۔

کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقاضے ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں، یا ان کی بنیاد اقتصادیات پر ہے، یا ان کا تعلق وراثت اور ترتیب وغیرہ سے ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ وراثت اور ترتیب ان تقاضوں میں قوت یا ضعف ضرور پیدا کرسکتی ہیں لیکن ان جذبات کو ختم کردینا ان کے بس میں نہیں ہے کیونکہ ان کا وجود ان کا مرھونِ منّت نہیں ہے۔ ان تقاضوں کے فطری ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ تاریخ کے ہر دور اور ہر قوم میں یہ تقاضے پائے جاتے ہیں کیونکہ اگر یہ تقاضے فطری نہ ہوتے تو کہیں پائے جاتے اور کہیں نہ پائے جاتے۔ انسانی عادتوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ایک قوم کی عادت دوسری قوم میں نہیں پائی جاتی، یا ایک چیز جو ایک قوم میں عزّت کی دلیل ہے وہی دوسری قوم میں ذلّت کا باعث قرار پاتی ہے۔

کمال، علم و دانش، اچھائی اور نیکی سے انسان کا لگاؤ ایک فطری لگاؤ ہے جو ہم یشہ سے انسانی وجود میں پایا جاتا ہے، دنیا کی تمام اقوام اور تمام ادوار تاریخ میں ان کا وجود ملتا ہے۔ عظیم مصلح کا انتظار انھیں جذبات کی معراجِ ارتقاء ہے۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ انسان میں یہ جذبات تو پائے جائیں مگر اس کے دل میں انتظار کے لئے کوئی کشش نہ ہو، انسانیت و بشریت کا قافلہ اس وقت تک کمالات کے ساحل سے ہم کنار نہیں ہوسکتا جب تک کسی ایسے مصلح بزرگ کا وجود نہ ہو۔

اب یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ انسانی ضمیر کی آواز ہے اس کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی بدن کا ہر حصہ انسان کے جسمی کمالات پر اثر انداز ہوتا ہے ہم یں کوئی ایسا عضو نہیں ملے گا جو اس کی غرض کے پورا کرنے میں شریک نہ ہو، ہر عضو اپنی جگہ انسانی کمالات کے حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔ اسی طرح روحی اور معنوی کمالات کے سلسلے میں روحانی خصوصیات اس مقصد کے پورا کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔

انسان خطرناک چیزوں سے خوف کھاتا ہے یہ روحانی خصوصیت انسان کے وجود کو ہلاکت سے بچاتی ہے اور انسان کے لئے ایک سپر ہے حوادث کا مقابلہ کرنے کے لئے

غصہ انسان میں دفاعی قوت کو بڑھا دیتا ہے، تمام طاقتیں سمٹ کو ایک مرکز پر جمع ہوجاتی ہیں جس کی بناء پر انسان چیزوں کو تباہ ہونے سے بچا تا ہے اور فائدہ کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، دشمنوں پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔

اسی طرح سے انسان میں روحی اور معنوی طور پر کمال حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے، انسان فطری طور پر عدل و انصاف، مساوات اور برادری کا خواھاں ہے، یہ وہ جذبات ہیں جو کمالات کی طرف انسان کی رہبری کرتے ہیں۔ انسان میں ایک ایسا ولولہ پیدا کردیتے ہیں، جس کی بناء پر وہ ہم یشہ روحانی و معنوی مدارج ارتقاء کو طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے، اس کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ دن جلد آئے جب ساری دنیا عدل و انصاف مساوات و برادری، صدق و صفا، صلح و مروت سے بھر جائے ظلم و جور کی بساط اس دنیا سے اٹھ جائے اور ستم و استبداد رختِ سفر باندھ لے۔

یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ انسان کا وجود اس کائنات سے الگ نہیں ہے بلکہ اسی نظام کائنات کا ایک حصہ ہے، یہ ساری کائنات انسان سمیت ایک مکمل مجموعہ ہے جس میں زمین ایک جزو آفتاب و ماہتاب ایک جزء اور انسان ایک جزء ہے۔

چونکہ ساری کائنات میں ایک نظام کار فرما ہے لھٰذا اگر انسانی وجود میں کوئی جذبہ پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس جذبے کا جواب خارجی دنیا میں ضرور پایا جاتا ہے۔

اسی بناء پر جب ہم یں پیاس لگتی ہے تو ہم خود بخود پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اسی جذبے کے تحت ہم یں اس بات کا یقین ہے کہ جہاں جہاں پیاس کا وجود ہے وھاں خارجی دنیا میں پیاس کا وجود ضرور ہوگا۔ اگر پانی کا وجود نہ ہوتا تو ہرگز پیاس نہ لگتی۔ اگر ہم اپنی کوتاہیوں کی بناء پر پانی تلاش نہ کرپائیں تو یہ اس بات کی ہرگز دلیل نہ ہوگی کہ پانی کا وجود نہیں ہے، پانی کا وجود ہے البتہ ہم اری سعی و کوشش ناقص ہے۔

اگر انسان میں فطری طور پر علم حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے تو ضرور خارج میں اس شے کا وجود ہوگا جس کا علم انسان بعد میں حاصل کرے گا۔

اسی بنیاد پر اگر انسان ایک ایسے عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کر رہا ہے جو دنیا کے گوشے گوشے کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ چپہ چپہ نیکیوں کا مرقع بن جائے گا، تو یہ بات واضح ہے کہ انسانی وجود میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے، یہ انسانی سماج ترقی اور تمدن کی اس منزلِ کمال تک پہونچ سکتا ہے تبھی تو ایسے عالمی مصلح کا انتظار انسان کی جان و روح میں شامل ہے۔

عالمی مصلح کے انتظار کا عقیدہ صرف مسلمانوں کے ایک گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔ اور صرف مسلمانوں ہی تک یہ عقیدہ منحصر نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے۔

اس عقیدے کی عمومیت خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی اقتصادیات کی پیداوار ہے کیونکہ جو چیزیں چند خاص شرائط کے تحت وجود میں آتی ہیں ان میں اتنی عمومیت نہیں پائی جاتی۔ ہاں صرف فطری مسائل ایسی عمومیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ہر قوم و ملّت اور ہر جگہ پائے جائیں۔ اسی طرح سے عیقدے کی عمومیت اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس عقیدے کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے۔ انسان فطری طور پر ایک عالمی مصلح کے وجود کا احساس کرتا ہے جب اس کا ظھور ہوگا تو دنیا عدل و انصاف کا مرقع ہوجائے گی۔

عالمی مصلح اور اسلامی روایات

ایک ایسی عالمی حکومت کا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار کرے، انسان کو عدل و انصاف کا دلدادہ بنائے، یہ کسی شکست خوردہ ذہنیت کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حکومت کا احساس کرتا ہے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی کی آواز ہے ایک پاکیزہ فطرت کی آرزو ہے۔

بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب سے اس کو اخذ کیا گیا ہے، یا یوں کہا جائے کہ دوسروں نے اس عقیدے کو اسلامی عقائد میں شامل کردیا ہے۔ ان لوگوں کا قول ہے کہ اس عقیدے کی کوئی اصل و اساس نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فکر واقعاً ایک غیر اسلامی فکر ہے جو رفتہ رفتہ اسلامی فکر بن گئی ہے؟ یا در اصل یہ ایک خالص اسلامی فکر ہے۔

اس سوال کا جواب کس سے طلب کیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس کا جواب طلب کیا جائے جن کی معلومات اسلامیات کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہیں۔ یہیں سے مصیبت کا آغاز ہوتا ہے کہ ہم دوسروں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ کرے جو دریا کے کنارے ہے بلکہ ایک ایسے شخص سے پانی طلب کرے جو دریا سے کوسوں دُور ہے۔

یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ مستشرقین کی باتوں کو بالکل کفر و الحاد تصور کیا جائے اور ان کی کوئی بات مانی ہی نہ جائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ "اسلام شناسی" کے بارے میں ان کے افکار کو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ کیا جائے۔ اگر ہم تکنیکی مسائل میں علمائے غرب کا سہارا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اسلامی مسائل کے بارے میں بھی ان کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔

ہم علمائے غرب کے افکار کو اسلامیات کے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سکتے کہ ایک تو ان کی معلومات اسلامی مسائل کے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ہے، جس کی بنا پر ایک صحیح نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول کو مادی اصولوں کی بنیاد پر پرکھنا چاھتے ہیں، ہر چیز میں مادی فائدہ تلاش کرتے ہیں۔ بدیہی بات ہے کہ اگر تمام اسلامی مسائل کو مادیت کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل کی حقیقت کیا سمجھ میں آئے گی۔

اسلامی روایات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ "انتظار" کا شمار ان مسائل میں ہے جن کی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ہے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی انقلابی مہم کے سلسلے میں روایات اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان کے "تواتر" سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں کے علماء نے اس سلسلے میں متعدد کتابیں لکھی ہیں اور سب ہی نے ان روایات کے "متواتر" ہونے کا اقرار کیا ہے۔ ہاں صرف "ابن خلدون" اور "احمد امین مصری" نے ان روایات کے سلسلے میں شک و شبہ کا اظھار کیا ہے۔ ان کی تشویش کا سبب روایات نہیں ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں اس سوال و جواب کا ذکر مناسب ہوگا جو آج سے چند سال قبل ایک افریقی مسلمان نے مکہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ہے، اس سے کیا تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ ارادہ وھابیوں کا ہے اور انھیں کے افکار و نظریات کی ترجمانی کرتا ہے۔ سب کو یہ بات معلوم ہے کہ وھابی اسلام کے بارے میں کس قدر سخت ہیں، اگر یہ لوگ کسی بات کو تسلیم کرلیں تو اس سے اندازہ ہوگا کہ یہ مسئلہ کس قدر اہم یت کا حامل ہے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس جواب سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت امام مہدی (ع) کا انتظار ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر دنیا کے تمام لوگ متفق ہیں، اور کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہے۔ وھابیوں کا اس مسئلہ کو قبول کرلینا اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ذیل میں سوال اور جواب پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت امام مہدی (ع) کے ظھور پر زندہ دلیلیں

چند سال قبل کینیا (افریقہ) کے ایک باشندے بنام "ابو محمد" نے "ادارہ رابطہ عالم اسلامی" سے حضرت مہدی (ع) کے ظھور کے بارے میں سوال کیا تھا۔

اس ادارے کے جنرل سکریٹری "جناب محمد صالح اتغزاز" نے جو جواب ارسال کیا، اس میں اس بات کی با قاعدہ تصریح کی ہے کہ وھابی فرقے کے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی ان روایات کو قبول کیا ہے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ اس جواب کے ذیل میں سکریٹری موصوف نے وہ کتابچہ بھی ارسال کیا ہے جسے پانچ جید علمائے کرام نے مل کر تحریر کیا ہے۔ اس کتابچے کے اقتباسات قارئین محترم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں: ۔۔۔۔

عظیم مصلح کا اسم مبارک مھدی (ع) ہے۔ آپ کے والد کا نام "عبد اللہ" ہے اور آپ مكّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور کے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ہوگی۔ ہر طرف ضلالت و گمراہی کی آندھیاں چل رہی ہوں گی۔ حضرت مہدی (ع) کے ذریعہ خداوندعالم دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم کانشان تک بھی نہ ہوگا۔"

رسول گرامی اسلام (ص) کے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ہوں گے، اس کی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ہیں، حدیث کی معتبر کتابوں میں اس قسم کی روایات کا ذکر باقاعدہ موجود ہے۔"

حضرت مہدی (ع) کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں خود صحابۂ کرام نے ان کو نقل فرمایا ہے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:۔

(۱) علی ابن ابی طالب (ع)، (۲) عثمان بن عفان، (۳) طلحہ بن عبیدہ، (۴) عبد الرحمٰن بن عوف، (۵) عبد اللہ بن عباس، (۶) عمار یاسر، (۷) عبد اللہ بن مسعود، (۸) ابوسعید خدری، (۹) ثوبان، (۱۰) قرہ ابن اساس مزنی، (۱۱) عبد اللہ ابن حارث، (۱۲) ابوھریرہ، (۱۳) حذیفہ بن یمان، (۱۴) جابر ابن عبد اللہ (۱۵) ابو امامہ، (۱۶) جابر ابن ماجد، (۱۷) عبد اللہ بن عمر (۱۸) انس بن مالک، (۱۹) عمران بن حصین، (۲۰) ام سلمہ۔

پیغمبر اسلام (ص) کی روایات کے علاوہ خود صحابہ کرام کے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ہیں جن میں حضرت مہدی (ع) کے ظھور کو باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں اجتہاد وغیرہ کا گذر نہیں ہے جس کی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) کی روایات سے اخذ کی گئی ہیں۔ ان تمام باتوں کو علمائے حدیث نے اپنی معتبر کتابوں میں ذکر کیا ہے جیسے:۔

سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاکم، معاجم طبرانی (کبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم کی "اخبار المھدی"۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساکر، اور دوسری معتبر کتابیں۔

علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) کے موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم

القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی

التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوکانی

المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی

الوہم المکنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی

مدینہ یونی یورسٹی کے وائس چانسلر نے یونی ورسٹی کے ماہنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے، ہر دور کے علماء نے اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ہے کہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ متواتر ہیں جنھیں کسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جن علماء نے حدیثوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان کے نام اور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں، جن میں تواتر کا ذکر کیا گیا ہے:۔

۱۔ السخاوی اپنی کتاب فتح المغیث میں

۲۔ محمد بن السنادینی اپنی کتاب شرح العقیدہ میں

۳۔ ابو الحسن الابری اپنی کتاب مناقب الشافعی میں

۴۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں

۵۔ سیوطی اپنی کتاب الحاوی میں

۶۔ ادریس عراقی مغربی اپنی کتاب المھدی میں

۷۔ شوکانی اپنی کتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں

۸۔ شوکانی اپنی کتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں

۹۔ محمد جعفر کنانی اپنی کتاب نظم المتناثر میں

۱۰۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی کتاب الوہم المکنون میں

ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان متواتر اور ناقابل انکار حدیثوں کو ایک جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ کے علاوہ اور کوئی مھدی نہیں ہے) کے ہم پلّہ قرار دے کر ان حدیثوں سے انکار کیا جائے۔ لیکن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون کے نظریے کی باقاعدہ تردید کی ہے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایک مستقل کتاب الوہم المکنون تحریر کی ہے۔ یہ کتاب تقریباً ۳۰ برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ہوچکی ہے۔

حافظان حدیث اور دیگر علمائے کرام نے بھی ان حدیثوں کے متواتر ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔

ان تمام باتوں کی بنا پر ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حضرت مھدی کے ظھور پر ایمان و عقیدہ رکھے۔ اہل سنت والجماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے اور ان کے عقائد میں سے ایک ہے۔

ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انکار کرسکتے ہیں جو روایات سے بے خبر ہیں، یادین میں بدعت کو رواج دینا چاھتے ہیں، (ورنہ ایک ذی علم اور دیندار کبھی بھی اس عقیدے سے انکار نہیں کرسکتا۔)"

سکریٹری انجمن فقۂ اسلامی

محمد منتصر کنانی

اس جواب کی روشنی میں یہ بات کس قدر واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت مھدی (ع) کے ظھور کا عقیدہ صرف ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے کسی بھی دوسرے مذہب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں کیا گیا ہے۔

ایک بات ضرور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) کے والد بزرگوار کا اسمِ مبارک عبد اللہ ذکر کیا گیا ہے۔ جب کہ اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں۔ ان میں بطور یقین حضرت کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ہے

اس شبہ کی وجہ وہ روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں "اسم ابیه اسم ابی " (ان کے والد کا نام میرے والد کا نام ہے) جبکہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) کے بجائے ابنی (میرا فرزند) ہے، صرف نون کا نقطہ حذف ہوجانے یا کاتب کی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اسی بات کو "گنجی شافعی" نے اپنی کتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ

۱۔ یہ جملہ اہل سنت کی اکثر روایات میں موجود نہیں ہے

۲۔ ابن ابی لیلیٰ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:اسمه اسمی اسم ابیه اسم ابنی ۔ (اس کا نام میرا نام ہے، اس کے والد کا نام میرے فرزند کا نام ہے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں۔

۳۔ اہل سنت کی بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ امام زمانہ کے والد بزرگوار کا نام حسن ہے۔

۴۔ اہلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں جو تواتر کی حد کو پہونچتی ہیں ان میں صراحت کے ساتھ یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حسن ہے۔

انتظار کے اثرات

گذشتہ بیانات سے یہ بات روشن ہوگئی کہ عظیم مصلح کا انتظار ایک فطری تقاضہ ہے اور انسان دیرینہ آرزو کی تکمیل ہے۔ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے یہ عقیدہ صرف فرقہ شیعہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلام کے تمام فرقے اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اس سلسلے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ "تواتر" کی حد تک پہونچی ہوئی ہیں۔(۱)

ھاں وہ حضرات جن کی معلومات کا دائرہ محدود ہے اور ہر بات کو مادیت اور اقتصادیات کی عینک لگاکر دیکھنا چاھتے ہیں، یہ حضرات ضرور یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی عقیدہ نہیں ہے، یا یہ طرز فکر ایک شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔

ایک بات باقی رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر قبول بھی کرلیا جائے کہ یہ عقیدہ ایک خالص اسلامی عقیدہ ہے اور خالص اسلام کے انداز فکر کا نتیجہ ہے مگر اس عقیدے کا فائدہ کیا ہے، عظیم مصلح کے انتظار میں زندگی بسر کرنے سے انسان کی زندگی پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔۔؟ انسان کے طرز فکر میں کون سی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ذمہ دار شخص بناتا ہے یا لا اُبالی؟

یہ عقیدہ انسان میں ایک جوش پیدا کرتا ہے یا اس کے احساسات پر مایوسی کی اوس ڈال دیتا ہے۔؟

انسانی زندگی کو ایک نیا ساز عطا کرتا ہے یا اس کی زندگی کو بے کیف بنا دیتا ہے۔؟

یہ عقیدہ انسان کو ایک ایسی قوت عطا کرتا ہے جس سے وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے یا انسان کو ضعیف و کمزور بنا دیتا ہے۔؟

یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ ذوق اور سلیقے کے مختلف ہونے کی بنا پر ہوسکتا ہے کہ ایک ہی چیز سے دو مختلف نتیجے اخذ کئے جائیں۔ ایک آدمی ایسے نتائج برآمد کرلے جو واقعاً مفید اور کار آمد ہوں اور دوسرا آدمی اسی چیز سے ایسے نتائج اخذ کرے جو بے کار اور مضر ہوں۔ ایٹمی توانائی کو انسان ان چیزوں میں بھی استعمال کرسکتا ہے جو حیات انسانی کے لئے مفید اور ضروری ہیں اور اسی ایٹمی توانائی کو انسانیت کی ہلاکت کے لئے بھی استعمال کرسکتا ہے بلکہ کررہا ہے۔

یہی حال ان رواتیوں کا ہے جو انتظار کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض بے خبر یا خود غرض لوگوں نے ایسے نتائج اخذ کئے ہیں جس کی بنا پر اعتراضات کی ایک دیوار قائم ہوگئی۔

انتظار کے اثرات بیان کرنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں چند روایتیں پیش کرتے ہیں جن سے انتظار کی اہم یت کا اندازہ ہوجائے گا۔ بعد میں انھیں روایات کو اساس و بنیاد قرار دیتے ہوئے فلسفۂ انتظار کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔ ان روایات کا ذرا غور سے مطالعہ کیجئے تاکہ آئندہ مطالب آسان ہوجائیں۔

۱) ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا۔ وہ شخص جو ائمہ کی ولایت کا قائل ہے اور حکومت حق کا انتظار کر رہا ہے ایسے شخص کا مرتبہ اور مقام کیا ہے۔؟

امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے: "هو بمنزلة من کان مع القائم فی فسطاطه ۔" ( وہ اس شخص کے مانند ہے جو امام کے ساتھ اس ان کے خیمے میں ہو)۔

امام نے تھوڑی دیر سکوت کے بعد پھرمایا:۔ "هو کمن کان مع رسول الله "۔ وہ اس شخص کے مانند ہے جو رسول اللہ کے ہم راہ (جنگ میں) شریک رہا ہو۔(۲)

اسی مضمون کی متعدد روایتیں ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔

۲) بعض روایات میں ہے: "بمنزلة الضارب بسیفه فی سبیل الله ۔" اس شخص کے ہم رتبہ ہے جو راہ خدا میں شمشیر چلا رہا ہو۔(۳)

۳) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے: :کمن قارع معه بسیفه ۔"(۴) اس شخص کے مانند ہے جو رسول خدا (ص) کے ہم راہ دشمن کے سرپر تلوار لگا رہا ہو۔

۴) بعض میں یہ جملہ ملتا ہے: "بمنزلة من کان قاعداً تحت لوائه ۔" اس شخص کے مانند ہے جو حضرت مھدی علیہ السلام کے پرچم تلے ہو۔(۵)

۶) بعض روایات میں یہ جملہ ملتا ہے:۔ "بمنزلة مجاهدین بین یدی رسول الله ۔" اس شخص کے مانند ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد کر رہا ہو۔(۶)

۷) بعض دوسری روایتوں میں ہے:۔ "بمنزلة من استشهد مع رسول الله " اس شخص کے مانند ہے جو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم راہ درجۂ شھادت پر فائز ہوا ہو۔(۷)

ان روایتوں میں جو سات قسم کی تشبیہات کی گئی ہیں ان میں غور وفکر کرنے سے انتظار کی اہم یت کا باقاعدہ انداز ہوجاتا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انتظار اور جہاد میں کس قدر ربط ہے۔ انتظار اور شھادت میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

بعض دوسری روایتوں میں ملتا ہے کہ "انتظار کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔" اس مضمون کی روایتیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "افضل اعمال امتی انتظار الفرج من الله عزوجل(۸)

ایک دوسری روایت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے: "افضل العبادة انتظار الفرج ۔"(۹)

یہ تمام روایتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ انتظار اور جھاد میں کتنا گہرا لگاؤ ہے۔ اس لگاؤ اور تعلق کا فلسفہ کیا ہے، ا سکے لئے ذرا صبر سے کام لیں۔

____________________

۱. تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو "منتخب الاثر" تحریر آیت الله لطف اللہ صافی۔ ص۲۳۱۔ ۲۳۶

۲. بحار الانوار ج ۵۲ ص۱۲۵ طبع جدید

۳. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۶

۴. بحار الانوار جلد ۵۲ ص ۱۲۶

۵. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲ طبع جدید

۶. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۷. بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۴۲

۸. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۸

۹. بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۵


19

20

21

22