زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)13%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25790 / ڈاؤنلوڈ: 3843
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

مؤلف:
اردو

تیسرا سبق

زندگی کے حقائق کا صحیح ادراک اور عمر کا بہتر استفادہ

* فرصتوں کے مواقع سے استفادہ اور طولانی آرزوؤں سے کنارہ کشی

* لاپروائی کے مراحل

* ترکِ دنیا اور اس کی بے جاتفسیر

* ترکِ دنیا اور آخرت کو اصل جاننا

* فرائض اور تکالیف کی بروقت انجام دہی ۔

*موت کی یا دطولانی آرزوؤں کا خاتمہ

* دنیا سے وابستگی کے نتائج

زندگی کے حقائق کا صحیح ادراک اور عمر کا بہتر استفادہ

'' یَا اباَذَر ! اِیَّاکَ وَ التَّسْوِیفَ بِاَمَلِکَ فَاِنَّکَ بِیَومِکَ وَ لَسْتَ بِمَا بَعْدَهُ فَاِنْ یَکُنْ غَد فَکُنْ فِی الْغَدِکَمَا کُنْتَ فِی الْیَومِ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ غَد لَکَ لَمْ تنَدَمْ عَلٰی مَافَرَّطْتَ فِی الْیَومِ

یَا اَبَاذَر ! کَمْ مِنْ مُسْتَقبِلٍ یَوْماً لَا یَسْتَکْمِلُهُ وَ مُنْتَظِرٍ غَداًلاَ یَبْلُغُهُ ، یَا اَباذرَ ! لَوْ نَظَرْتَ اِلَی الاَجلِ وَ مَسِیرِهِ لَاَبغَضْتَ الْاَمَلَ وَ غُرُوْرَهُ یَا اَبَاذَر!کُنْ کَاَنَّکَ فِی الدُّنْیَا غَرِیب اَوْ کَعَابِرِ سَبِیلٍ وَ عُدَّ نَفْسَکَ مِنْْ اَصْحَابِ الْقُبُورِ یَا اَبَاذَر ! اِذَا اَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالمَسَائِ وَ اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالصَّبَاحِ وَ خُذْ مِنْ صِحَّتِکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَ مِنْ حَیٰوتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ لِاَنَّکَ لَا تَدْرِی مَااسْمُکَ ''

فرصتوں کے مواقع سے استفادہ اور طولانی آرزوئوں سے کنارہ کشی

'' یَا اباَذَر ! اِیَّاکَ وَ التَّسْوِیفَ بِاَمَلِکَ فَاِنَّکَ بِیَومِکَ وَ لَسْتَ بِمَا بَعْدَهُ ''

اے ابوذر ! ایسانہ ہو کہ طولانی آرزوئوں کی وجہ سے نیک کام انجام دینے میں تاخیر کرو ۔

( یہ بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گزشتہ فرمائشات کو مکمل کرتاہے اور فرصتوں سے استفادہ کرنے اور اپنی عمر کے اوقات کو ہاتھ سے نہ دینے پرایک تاکیدہے )

'' تسویف '' ان آفتوں میں سے ہے جو نیک اور شائستہ کام انجام دینے میں رکاوٹ بنتی ہیں ، اسی لئے روایتوں میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ تسویف کاموں کو تاخیر میں ڈالنے کے معنی میں ہے ، اس امید کے ساتھ کہ بعد میں انجام دیئے جائیںگے اس حالت کیلئے بہت سے دلائل ہوسکتے ہیں ، لیکن اس کا خاص اور اصلی سبب ( جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہوا ہے ) انسان کی آرزوئیں ہیں یعنی جس کام کو آپ کو انجام دینا چاہیئے انسان اس امید میں کہ کل تک زندہ ہے اوراکل انجام دے ، آج اسے انجام نہیں دیتا جب دوسرا دن ہوتا ہے تو پھر تیسرے دن کی امید میں اور اسی طرح دوسرے مہینے اور آئندہ سال کی امید میں کام کو تاخیر میں ڈالتا رہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : اگر چاہتے ہو تمہاری یہ حالت اور داخلی خصوصیت تم سے دور ہوجائے تو تصور کرناکہ صرف اسی دن اسی لمحہ اورآج کی فرصت رکھتے ہو اور اس کے بعد زندگی کی کوئی اور فرصت نہیں ملے گی ۔

'' تسویف'' کا مفہوم بہت سے دوسرے اخلاقی مفاہیم خواہ نیک ہوں یا بد کی طرح تشکیکی اور گوناگوں مراتب کا حامل مفہوم ہے یہ تشکیلی مفاہیم مختلف افراد کی نسبت ، مومن سے لے کر غیر مؤمن تک ، حتی مراتب ایمان کی نسبت ، متفاوت ہیں ، ان کے بعض مراتب واجب عمومی ہیں اور بعض واجب موکد ہیں ، ، بعض مستحب عمومی ہیں اور بعض مستحب موکد ہیں ، بعض مراتب اس قدر دقیق ہیں کہ عام لوگوں کیلئے ان کا تصور ممکن نہیں ۔

لاپروائی کے مراحل :

''تسویف '' کا پہلا مرحلہ : دنیوی کاموں کے بارے میں آرام طلبی اور سستی ہے جس کے سبب انسان اپنے کاموں میں تاخیر کرتا ہے اس بری عادت کا اعتقادی مسائل سے کوئی ربط نہیں ہے مؤمن بھی اس میں مبتلا ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کافر بھی مبتلا ہوجائے ،کیونکہ کافر بھی بعض اوقات دنیوی کاموں کے سلسلہ میں سستی اور لاپروائی کرتا ہے یہ عادت جو انسان کو اپنے کام میں تاخیر ڈالنے کا سبب بنتی ہے مومن اور کافر دونوں کیلئے ایک بری صفت شمارہوتی ہے البتہ چونکہ اگر مومن اپنے کام کو بر وقت انجام نہ دینے کی عادت کرے تو رفتہ رفتہ یہ عادت اس میں ملکہ کی حالت پیدا کرتی ہے اور اس کے دینی مسائل میں بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اس امر کاسبب بنتی ہے کہ وہ اپنے دینی فرائض کو بھی وقت پر انجام نہ دے ، اس لئے اس عادت کی برائی مومن کیلئے شدید تر ہے اگر ایسے عادات سے مقابلہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اگر انسان دینی امور میں سستی اور لاپروائی کرے تو رفتہ رفتہ یہ عادت اس میں ملکہ پیدا کرے گی اور وہ اخروی امور میں بھی سستی اور لاپروائی کرنے پر اتر آئے گا۔

'' تسویف '' کا دوسرا مرحلہ : فرائض اور واجبات کی انجام دہی میں لاپروائی ہے کہ یہ لاپروائی واجبات کی تین اقسام کی بنا پر تین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے ۔

١۔ واجبات موسع ( جن واجبات کے انجام دینے کا وقت کا فی ہوتا ہے ) میں غفلت اور لاپروائی ، جیسے نماز پنجگانہ کہ ہر ایک نماز کا ایک وسیع وقت ہے ۔ بعض لوگ ان نمازوں کو انجام دینے میں غفلت اور لا پروائی کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کو انجام دینے میں تاخیر کرتے ہیں اور آخری لمحات میں انجام دیتے ہیں ، اگرچہ یہ لاپروائی اور غفلت حرام نہیں ہے لیکن ایک ناپسند کام شمار ہوتا ہے ۔

٢۔ ان واجبات میں لاپروائی ، جنہیں فوراً انجام دینا چاہیئے ، اگر چہ ایسے واجبات اس معنی سے بالکل ہی فوری نہیں ہوتے کہ اگر پہلی فرصت میں ترک ہو تو انہیںدوسری اور اسی طرح بعد والی فرصتوں میں انجام دیا جائے ، جیسے کہ توبہ کا وجوب ، یہ پہلی ہی فرصت میں واجب ہے کہ انجام پائے اور اس میں تاخیر کرنا حرام ہے ، اگر اس میں تاخیر ہوئی تو ایسا نہیں ہے کہ اس کا وجوب اور فوریت ساقط ہوجائے ۔

٣۔ مضیق واجبات ( یعنی ایسے واجبات جن کے بجا لانے کا وقت کم اور محدود ہے ) میں لاپروائی اور غفلت جیسے : روزہ ، کہ اس کا وقت محدود ہے ۔ بعض لوگ اس واجب کو اس کے اداکے وقت میں انجام دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں اور اپنی جگہ پر کہتے ہیں کہ بعد میں اسے قضا کے طور پرانجام دیں گے ۔ اگرچہ اس قسم کے شخص کا گناہ ایسے واجب کی قضا بجالانے کاارادہ نہ کرنے والے سے کم تر ہے لیکن اس کا یہ عمل حرام ہے ۔

ترک دنیا اور اس کے بے جا تفسیریں :

ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہت سی آیات اور روایات میں ایسے مطالب ذکر ہوئے ہیں کہ ان کی گوناگوں اور بعض اوقات متضاد تفسیریں کی جاسکتی ہیں ،ان کی تفسیر کرنے میں دینی امور میں مہارت اور تفقہ کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے مواقع پر غلطی کے امکانات اور نامناسب نتائج کا احتمال زیادہ ہے ۔ نمونہ کے طورپر دنیا اور اس کی مذمت میں یا گوشہ نشینی اور ترکِ دنیا کے بارے میں بعض آیات و روایات ذکر ہوئی ہیں کہ ان کے بارے میں گوناگوں ، بعض اوقات متضاد تفسیریں کی گئی ہیں ۔ ان تفسیروں میں صوفیانہ تفسیر بھی ہے جو اسلام کے تمام جوانب اور قطعی معارف کو مد نظر رکھے بغیر انجام پائی ہے اس عقیدہ کے مطابق انسان کو ترکِ دنیا کرنا چاہیئے، لوگوں سے دور تنہائی میں عبادت کرنی چاہیئے یا ایسے لوگ حیوانوں سے الفت رکھتے ہیں جبکہ اس قسم کا استنباط قرآن مجید کی آیات ، روایات اور دین کی قطعی بنیادوں سے متضاد ہے ۔

اگر گوشہ نشینی ، تنہائی اور ترکِ دنیا بنیاد ہے تو دین کی اجتماعی تکالیف جیسے :انفاق ، ظلم کا مقابلہ ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلامی حکومت برقرار کرنے کی تلاش جو اسلام کے قطعی ضروریات میں سے ہیں کا کیا ہوگا؟

اور انھیں کہاں عملی جامہ پہنایا جائے گا ؟ کیا خلوت اور تنہائی میں ان فرائض کو انجام دیا جاسکتا ہے ؟ لہذا ایک معرفت دینی کے استنباط کیلئے تمام معارف دینی میں تفقہ اور اس کے تمام جوانب پر توجہ کرنالازم اور ضروری ہے ۔

اس غلط فہمی کے جواب میں کہنا چاہیئے :اگر دنیا طلبی زندگی کے مقصد کے طور پر پیش کی جائے تو قابل مذمت ہے لیکن اگر دنیا اخروی کمال تک پہنچنے کا وسیلہ بن جائے تو نہ صرف قابل مذمت نہیں ہے بلکہ قابل تعریف و ستائش بھی ہے ۔ دنیا کو وسیلہ قرار دینے کے چند مراتب ہیں کہ ان میں سے بعض مراتب لازم ہیں اور بعض مراتب کمالات کے جز شمار ہوتے ہیں اس کی ضروری حد بندی یہ ہے کہ دنیا کی لذتوں سے استفادہ کرنا اور مادی امور میں مشغول ہونا ترکِ واجب یا فعل حرام انجام دینے کا سبب نہ بنیں وہ دنیا طلبی حرام ہے جو ارتکاب گناہ یا ترکِ واجب کا سبب بنے اور اگر دنیا طلبی انسان میں ایک نا پسند عادت بن جائے تو اس کے ساتھ مقابلہ کرنا واجب ہے ۔

اسلام کی نظر میں ،مثالی انسان وہ ہے جو کسی بھی صورت میں دنیوی امور کو بنیاد قرار نہ دے اور کسی بھی دنیوی کام کو اگرچہ مباح بھی ہو مادی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے انجام نہ دے ۔ دور اندیش اورہوشیار انسان اس مقام پر جو بلند ترین انسانی مقام ہے فائز ہوئے ہیں یعنی وہ اس طرح عمل کرتے ہیں کہ ان کے تمام کردار و رفتار ، حتی سانس لینا بھی عبادت شمار ہوئے ہیں ان کے تمام جسمانی اعمال و رفتار ، جیسے کھانا پینا، ورزش کرنا حتی حلال جنسی لذتیں بھی اخروی امور کا مقدمہ ہیں اور اس لحاظ سے واجب یا مستحب عبادت شمار ہوتی ہیں ۔

ترک دنیا اور آخرت کو اصل جاننا :

بہر صورت مادی اور دنیوی امو رکو بنیاد قرار دینا یا بنیاد قرار نہ دینا ایک ظریف اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کا معیار گفتگو میں معلوم نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس کا انحصار افراد کی نیت پر ہے : مثال کے طورپراگر انسان لذت کی غرض سے کھانا کھائے تو اس نے مادیت کو بنیاد قرار دیا ہے ، اگرچہ زبان سے انکار بھی کرے اور اگر اس کی نیت یہ ہو کہ کھانے کے مزہ سے لذت پاکر خداکا شکر بجالائے تو اس نے آخرت کو بنیاد قرار دیا ہے ، کیونکہ اس کا مقصد اللہ تعالی کا شکر بجالانا ہے اسی لحاظ سے قرآن مجید میں بعض نعمتوں کا ذکرکرنے کے بعد ، بارگاہ الٰہی میں شکر گزاری ، نعمتوں سے استفادہ کرنے کے مقصد کے طور پر بیان ہوئی ہے پس مقصد ، شکر گزاری ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب تمام مادی کام خدائی رنگ پیدا کریں ۔

اکثر لوگ اپنی رفتار کے معنوی پہلو کی طرف توجہ نہیں رکھتے اور اس قدر مادی لذتوں میں غرق ہوتے ہیں کہ مادیات اور مادی لذتوں کے علاوہ کسی اور مقصدکو مدنظر نہیں رکھ سکتے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معنوی مقامات تک پہنچنے اور اخروی امو ر کو بنیاد قرارد ینے کیلئے انسان کو مربی کی ضرورت ہے ، کیونکہ ممکن ہے اعتدال کی راہ سے بھٹک کر افراط و تفریط کا شکار ہوجائے ۔

جولوگ نفس کے تکامل وترقی اور اس کی تربیت کے بارے میں قدم اٹھانا چاہیں انھیں اپنے ذہن میں دنیوی پہلوؤں کو ضعیف کرنے ، مادی لذتوں کی چاہت کو کم کرنے اورا خروی لذتوں کے رجحان اور برتری کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،دنیوی لذتوں سے چشم پوشی کرنے کیلئے اپنے آپ کو تلقین کرے کہ مادی لذتیں اخروی لذتوں کے مقابلہ میں حقیر اور ناچیزہیں ۔ اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام اپنی فرمائشات میں لوگوں کو آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کی ترغیب دیتے ہیں ترک دنیا کی حوصلہ افزائی نہیںکرتے کہ مکمل طور پر دنیا کو چھوڑدیں ،کیونکہ اگرانسان دنیا کو اخرت کا مقدمہ قرار دے ، تو نہ صرف یہ کہ وہ دنیا طلب نہیں ہے بلکہ آخرت طلب ہے مباحات سے استفادہ کرنا بذات خود حرام میں مبتلا نہ ہونے کا مقدمہ ہے اس لحاظ سے عبادت میں شمار ہوتا ہے اس کے علاوہ بعض اوقات مباحات سے استفادہ کرنا بلند ترین فرائض انجام دینے میں تقویت اور آمادگی کا سبب بن جاتا ہے ۔

حضرت اما م موسیٰ بن جعفر علیہ السلام روزانہ اوقات کی تقسیم بندی کے بارے میں فرماتے ہیں:

'' ایک گھنٹہ حلال لذتوں سے استفادہ کرنے کیلئے مخصوص رکھنا چاہیئے کیونکہ حلال کے استفادہ سے ہی انسان تمام فرائض کو انجام دینے کی طاقت پیدا کرسکتا ہے ''

چنانچہ ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جملۂ ''ِیَاکَ و التسویف''میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ '' تسویف '' کے پیدا ہونے کا سبب انسان کی لذتیں حاصل کرنے کی آرزوئیں ہیں ۔ یعنی انسان ہمیشہ دنیوی لذتوں کو حاصل کرنے کی تلاش میں ہوتا ہے اور یہ امر بذات خود دینی فرائض کو تاخیر اور التوا میں ڈالنے کا سبب ہے دوسرے الفاظ میں انسان اس دوراہے سے دوچار ہوتا ہے کہ فرصت کو فوری اور مادی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کرے یا اخروی نتائج حاصل کرنے کیلئے ، چونکہ لذات دنیا کو نقد اور آخرت کو ادھار سمجھتا ہے اس لئے فرضت کو اسی کیلئے صرف کرتا ہے ، حقیقت میں اس کا ایمان آخرت کی نسبت دنیا پرزیادہ ہے اور عارضی اور فوری لذتوں کو آخرت کی پائدارلذتوں پر ترجیح دیتا ہے ۔

حیرت کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر کافی حد تک شرک میں مبتلا ہیں کیونکہ ہم آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کے قائل نہیں ہیں :

( وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُهُمْ بﷲ اِلَّا وَ همُ مُشْرِکُونَ' ) ( یوسف ١٠٢)

'' اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ ''

اگر انسان کسی کام کوغیر خدا کیلئے انجام دے ، حتی اگر وہ کام اخروی ثواب حاصل کرنے کیلئے بھی ہوشرک ہے ۔ خالص توحید میں ، خدا کے سوا کوئی اور مقصد نظر میں نہیں ہوتا ہے ، حتی جہنم کا خوف اور بہشت کا شوق بھی مقصد نہیں ہے ، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''اِلٰهی مَا عَبَدْتُکَ خَوفاً مِنْ عِقَابِکَ وَ لَا طَمْعاً فِی ثَوَابِکَ وَ لٰکِنْ وَجَدْتُکَ اَهْلاً لِلْعِبَادةِ فَعَبَدْتُکَ ''(۱)

میرے پروردگار ! تیرے لئے میری عبادت نہ جہنم کے خوف کی وجہ سے ہے اور نہ بہشت کی طمع کے سبب ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ میں تجھے عبادت کے لائق جانتا ہوں ''

طولانی آرزوئیں ، انسان کی سعادت کو خطرہ میں ڈالتی ہیں ، اس لئے حضرت علی علیہ السلام اکثر اس بات سے خائف تھے کہ لوگ اپنی طولانی آرزوؤں میں مبتلا ہوکر فرائض الہی کو اپنی نفسانی خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھائیں :

''وَ اِنَّ اَخْوَفَ مَا أَخَافَ عَلَیکُمْ اِثْنَانُ: اِتِّبَاعُ الْهَویٰ وَ طُولُ الْاَمَلِ ، لِاَنَّ اِتِّبَاعَ الْهَویٰ یَصُدُّ عَنِ الْحَقَّ وَ طُولَ الْاَمَلَ یُنْسِی الآخِرَةَ ''(۲)

'' مجھے تم لوگوں کے بارے میں دو چیزوں کا زیادہ خوف ہے ایک نفسانی خواہشات کی

پیروی اور دوسری طولانی آرزوئیں ، کیونکہ نفسانی خواہشات کی پیروی حق کی راہ میں رکاوٹ اور طولانی آرزوئیں آخرت کو فراموش کرنے کا سبب بنتی ہیں ''

فرائض و تکالیف کی بروقت انجام دہی :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم '' تسویف '' سے پرہیز کرنے کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''فانک بِیَومِکَ و لست بما بعده ''

'' کیونکہ تمہیں صرف آج کے دن کی فرصت ہے اور کل کا دن تمھارے اختیار میں نہیں ہے ''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے نصیحت فرماتے ہیں کہ آج کے فریضہ کو کل پر نہ چھوڑنا ، کیونکہ کل کے آنے کی کوئی ضمانت اور اطمینان نہیں ہے ، اوراگربالفرض کل آبھی جائے تو تمہیں دوسرے فرائض انجام دینے ہیں ، کل کے نہ آنے کا تجھے افسوس نہیں ہے ، لیکن اگر تم نے اپنے فریضہ کو تاخیر میں ڈال دیا اور کل کا دن نہ آیا تو کیسے اسے انجام دو گے تو اس حسرت اور افسوس کو اپنے ساتھ دوسری دنیا میں لے جاؤ گے۔

لہذا اسی لمحہ کے بارے میں سوچنا چاہیئے اور اسی لمحہ کو غنیمت سمجھنا چاہیئے نیز '' تسویف'' اور کاموں کو اس امید سے التوا میں ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کہ انہیں کل انجام دیں گے ، مطالعہ اور تحقیق کے دوران اپنے آپ سے یہ نہ کہیں کہ وقت کافی ہے کل مطالعہ کریں گے ، کیونکہ آنے والے کل کے دن بھی ہمیں دوسرے فرائض انجام دینے ہیں:

''فَاِنْ یَکُنْ غَدلک فَکُنْ فِی الْغَدِکَمَا کُنْتَ فِی الْیَومِ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ غَد لَکَ لَمْ تنَدَمْ عَلٰی مَافَرَّطْتَ فِی الْیَومِ ''

اگرتمھارے لئے کوئی آنے والا کل ہے تو اس دن بھی آج کے مانند فریضہ انجام دینے کی فکر میں رہو اور اگر کوئی آنے والا کل تمھارے لئے نہیں ہے تو صرف آج کے دن کو بطور فرصت پانے پر پشیمان نہیں ہوگے ۔

ممکن ہے کوئی شخص اپنے روز مرہ کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس بات پر پشیمان ہوجائے کہ وہ زیادہ کامیابی حاصل نہیںکرسکا ہے لیکن اس کی طاقت کی محدودیت کے پیش نظر یہ کہ اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق فرائض انجام دئے ہیں ، پشیمان نہیں ہوگا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی گزشتہ نصیحتوں کو مکمل کرتے ہوئے اور اس امر کی تاکید فرماتے ہوئے کہ آنے والے کل کے انتظار میں نہیں بیٹھا جا سکتا ہے ، فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَر ! کَمْ مِنْ مُسْتَقبِلٍ یَوْماً لَا یَسْتَکْمِلُهُ وَ مُنْتَظِرٍ غَداًلاَ یَبْلُغُهُ ''

اے ابو ذر ! کتنے ایسے لوگ ہیں جو صبح سے شام تک نہیں پہنچتے اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو آنے والے کل کے انتظار میں ہوتے ہیں لیکن اس تک نہیں پہنچتے۔

غوروفکر کا مقام ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے تربیتی بیانات میں کس طرح مخاطب کو آمادہ فرمارہے ہیں تاکہ اپنی عمر کے لمحات سے کیسے بہترین فائدہ اٹھائیں ۔ ابتداء میں اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کس قدر مستقبل پر بھروسہ اور امید کرسکتا ہے تاکہ اس آنے والے زمانہ کیلئے کسی کام کو التوا میں رکھے ۔ اگر وہ اپنے آنے والے کل پر بھروسہ نہیں رکھتا ہے تو کیوں اپنے کام کو التوا میں ڈالتا ہے : ظہر کی ابتدا میں ظہر کی نماز کا وقت ہے ، کونسی گارنٹی ہے کہ اسے مزید ایک گھنٹہ زندہ رہنا ہے تا کہ نماز کو التوا میں ڈال دے ؟ واضح ہے کہ اگر اول وقت پر نماز پڑھے ، تو بعد میں پشیمان نہیں ہو گا ، اس کے علاوہ دوسرے کام بھی انجام دے سکتا ہے ۔

موت کی یاد ،طولانی آرزؤں کا خاتمہ:

'' یَا اَباذرَ ! لَوْ نَظَرْتَ اِلَی الاَجلِ وَ مَسِیرِهِ لَاَبغَضْتَ الْاَمَلَ وَ غُرُوْرَه''ُ

اے ابوذر! اگر موت کے بارے میں سوچ لواور یہ کہ کس تیز رفتاری سے تیری طرف آرہی ہے ، تو آرزو اور اس کی فریب کاری سے دشمنی کرو گے ۔

آرزوؤں اور ان کی فریب کاریوں سے مقابلہ اور جنگ کرنے کی بہترین راہ یہ ہے کہ اپنی موت کی فکر میں رہو اور جان لو کہ اجل ، طولانی آرزوئوں کو ناکام بنا دیتی ہے اور انسان کو ناامیدی کے عالم میں دوسری دنیا کی طرف لے جاتی ہے ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' وَمَنِ اسْتَشْعَاَرَ الشَّغَفَ بِهَا ، مَلَاَتْ ضَمِیْرَهُ اَشْجاناًلَهُنَّ رَقْص عَلٰی سُوَیْدائِ قَلْبِهِ هَمُّ یَشْغَلُهُ وَ غَمّ یَحْزُنُهُ ، کَذٰلِکَ حَتّٰی یُوْخَذَ بِکَظْمِهِ فَیُلْقیٰ بِالْفَضَائِ '' (۳)

'' اور جس نے دنیا کی محبت کو دل میں جگہ دی ، وہ اندر سے غم و اندوہ سے بھر جائے گا اور یہ غم و آلام اس کے دل میں موجزن ہوں گے ، ایک مسلسل اور حزن سے بھرا غم یہاں تک اس کی سانس رک جائے گی اور ایک گوشہ میں پڑی اس کی زندگی کی رگیں کٹ جائیں گی ۔'''

ایک اور جگہ پر حضر ت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' وَ مِنْ عِبَرِهَا اَنَّ الْمَرْئَ یُشْرِفُ عَلَی اَمَلِهِ فَیَقْتَطعِاُهُ حَضُوْرُ اَجَلِهِ ، فَلَا اَمَلاً یُدْرَکُ وَ لَا مُوْمِّل یُترَکَ ...'' (۴)

دنیا کی عبرتوں میں سے یہ بھی ایک عبرت ہے کہ جب تک انسان اپنی آرزوئوں تک پہنچنا چاہتا ہے ، موت پہنچ کر اسے ناامید کردیتی ہے ، پس نہ آرزو اس کے ہاتھ آتی ہے اور نہ موت کے چنگل سے بچ سکتا ہے ۔

دنیا سے وابستگی کے نتائج :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَر!کُنْ کَاَنَّکَ فِی الدُّنْیَا غَرِیب اَوْ کَعَابِرِ سَبِیلٍ وَ عُدَّ نَفْسَکَ مِنْاْ اَصْحَابِ الْقُبُور''

'' ا ے ابوذر ! دنیا میں ایک اجنبی اور مسافر کی صورت میں زندگی گزارنا اور خود کو ایک مردہ شمار کرنا''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نصیحت فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک ایسے اجنبی کی طرح رہنا جو کسی شہر میں داخل ہوتا ہے ، سوچ لو کہ اگر اس کا اس شہر میں کوئی دوست یا آشنا نہ ہو تو وہ کیسے زندگی گزارے گا کیا اس کے باوجود کہ کسی سے الفت پیدا نہیں کرسکتا ہے ، عیش و عشرت میں زندگی بسر کرسکتا ہے ؟ مومن کا وطن آخرت ہے اور دنیا میں مسافر اور راہی کے مانند ہے ، اس لئے وہ اس فکر میں نہیں ہے کہ اپنے لئے عیش و عشرت کی بساط کو پھیلائے ، اسی طرح پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نصیحت فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک راہی کے مانند رہنا کہ جوراستہ پر چلتا ہے لیکن رکنے کی مجال نہیں رکھتا ۔

ممکن ہے اس قسم کے جملوں پر ظاہری توجہ کرنے سے انسان غلط فہمی کا شکار ہوجائے اور یہ فکر کرنے لگے کہ دوسروں سے کنارہ کشی کرنی چاہیئے اور گھر بنانے اور خاندان کو تشکیل دینے کی فکر کو ذہن سے نکال دینا چاہیئے او ر بالآخر دنیا کی نعمتوں سے دوری اختیار کرکے صرف اخروی دنیا کی فکر کرنی چاہیئے ، کیونکہ وہاں پر انسان کی ابدی قیام گاہ ہے ! اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اس قسم کا طرز تفکر اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق نہیں ہے ، کیونکہ ممکن ہے دوست و احباب کا انتخاب ، خاندان کی تشکیل ، مال و دولت اور گھر بنانا و.. سب آخرت کے محور بن جائیں اور دنیا کی محبت انسان کا مقصد قرار نہ پائے بلکہ آخرت کی توجہ اور حکم خدا کی اطاعت انسان کا مقصد قرار پائے ، کیونکہ دنیا کے ذریعہ اور اس کی لذتوں سے فائدہ اٹھا کر اخروی کمالات اور قرب الہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

حقیقت میں جس نے آخرت کو اپنا مقصد قرار دیا ہے اس نے دنیا کو وسیلہ کے طور پرا نتخاب کیا ہے ، اب اگر کوئی انسان دنیا سے چشم پوشی کرکے اسے آخرت کیلئے وسیلہ قرار نہیں دے سکتا ہے ، تو کم از کم اسے ایک راہی کا رول ادا کرنا چاہیئے کہ راستہ سے چلتے ہوئے تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے قدرے رک کر آرام کرے ۔اگرچہ ایسے شخص کی نظر میں دنیوی امور اصلیت کے حامل ہیں اور مکمل طور پر انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، کم از کم ان سے مدد حاصل کرے اور ضرورت کو پورا کرنے کی حد تک دنیوی مباحات سے استفادہ کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ حضرت امام موسی بن جعفرعلیہ السلا م نے اس مطلب کے پیش نظر فرمایا ہے :

'' اپنے وقت کے ایک حصہ کو حلال لذتوں سے استفادہ کرنے کیلئے مخصوص کرو ''

جملۂ '' وَعُدَّ نَفْسَک من اصحاب القبور '' بلند ترین تعبیر ہے جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استعمال کیا ہے، لیکن ممکن ہے اس سے بھی غلط مطلب لیا جائے ، جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : '' اپنے آپ کو مردہ قرار دو '' اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ چونکہ مرد ے ضروری ترین نعمتوں ، جیسے کھانے پینے سے محروم ہیں ، اور تم بھی دنیا اور اس کے امکانات سے فائدہ اٹھانے سے اجتناب کرنا۔ جبکہ یہ ایسی صورت میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ انسان اپنی مستقل قیام گاہ کی طرف توجہ رکھے ۔ جب دنیوی زندگی آخرت کی گزرگاہ اوردوسری دنیا میں پہنچنے کیلئے ایک پل ہے ، تو انسان کی توجہ اصلی مقصد اور ابدی قیام گاہ کی طر ف رہنا چاہیئے اور ایک د ن کیلئے اپنے آپ کو آمادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور کافی زادراہ اپنے ساتھ اٹھانے کی فکر کرے تا کہ وہاں پر پشیمان اور شرمندہ نہ ہوجائے۔پس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد یہ نہیں ہے کہ انسان دنیوی امو رکو مکمل طور پر چھوڑدے اور ذریعہ معاش اوراپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کیلئے مستقبل کے وسائل و آسائش کی کوئی فکر نہ کرے ۔

آیات و روایات سے غلط مطلب نکالنے کی عادت ، مسلمانوں میں زمانہ قدیم سے رہی ہے ، چنانچہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں عذاب کے بارے میں ایک آیت نازل ہوئی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض اصحاب ، گھر بار ، ازدواجی زندگی ، کھانا پینا اور لباس وغیرہ کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول ہوگئے تو جب یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اپنے پاس بلاکر فرمایا: ' ' ایسا کیوں کرتے ہو؟ میں جو تمہارا پیغمبر ہوں ،عبادت و روزہ داری کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی بھی چلا رہا ہوں اور دنیوی لذتوں سے بھی استفادہ کرتا ہوں ،تم لوگ بھی میرے نقش قدم پر چل کر گھر بار اور اپنی زندگی کو نہ چھوڑو ''

مذکورہ مطلب کے پیش نظر اس بات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ ممکن ہے کوئی انسان دنیا میں کثرت سے مالی و مادی امکانات کا مالک ہو، لیکن دنیا پرست نہ ہو، کیونکہ تمام مادی امکانات کو حق کی راہ ڈھونڈنے میں وسیلہ کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب دنیا کی مذمت کا مسئلہ ہو تو اس مذمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قدرتی وسائل کو حقیر سمجھا جائے ، کیونکہ وہ سب خدا کی پیدا کردہ اور الٰہی آیات ہیں ۔ بلکہ درحقیقت مذمت انسان کی فکراور نیت کے بارے میں کی گئی ہے جو اسے دنیا کی نعمتوں سے وابستہ کردیتی ہے اور انہیں اصلی مقصدکے طورپر انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اس کے وسیلہ کے رول سے غافل ہوتا ہے ، پس حقیقت میں انسان کی مادی وسائل سے استفادہ کی نا پسندیدہ طریقہ سے مذمت کی گئی ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توصیف میں فرماتے ہیں:

'' فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنیا بِقَلبِهِ وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَا عَنْ نَفْسِهِ '' (۵)

'' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب کو دنیا کی طرف کوئی توجہ نہ تھی اور آپ نے اس (دنیا ) کے نام اور یاد کو اپنے نفس میں مار ڈالا تھا''

'' یَا اَبَاذَر ! اِذَا اَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالمَسَائِ وَ اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالصَّبَاحِ''

اے ابوذر ! صبح کے وقت شام کی خوش فہمی میں نہ رہو اور شام کے وقت اپنے آپ کو صبح کی نوید نہ دو ۔

'' یہ بات گزشتہ مطالب کی ایک تاکید ہے کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے مستقبل کے بارے میں مطمئن نہیں ہوسکتا ''

'' وَ خُذْ مِنْ صِحَتِّکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَ مِنْ حَیٰوتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ لِاَنَّکَ لَا تَدْرِی مَااسْمُکَ ''

اس وقت بیمار ہونے سے پہلے اپنی تندرستی سے اور مرنے سے پہلے اپنی زندگی سے فائدہ اٹھائو کیونکہ تم نہیں جانتے ہو کہ کل تمھارا انجام کیا ہوگا۔

یہاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نصیحت فرماتے ہیں : فرصت سے استفادہ کرو اور آج کی زندگی کو غنیمت جانو کیونکہ نہیں معلوم کہ تم کل زندہ رہوگے کہ نہیں ۔ اس طرح بیمار ہونے سے پہلے اپنی تندرستی سے استفادہ کرو۔

____________________

۱۔بحار الانوار ، ج ٤١، ص ١٤

۲۔ بحار الانوار ، ج ٧٧ ، ص ٤١٩

۳۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، حکمت نمبر ٣٥٩، ص ١٢٥٦۔

۴۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ،خ١١٣،٣٥٣

۵۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، خططہ ١٠٨ ، ص ٢٩٤۔

امام حسین کے قیام اورمقصد شہادت سے متعلق مختلف نظریات

الف:کیا امام حسین کا قیام تشکیل حکومت کیلئے تھا؟

بہت سے افراد یہ کہتے ہیں کہ امام حسین ، یزید کی فاسد حکومت کو ختم کرکے خود ایک حکومت تشکیل دینے کے خواہش مند تھے؛ یہ ہے اِن افراد کی نگاہوں میں سید الشہدا کے قیام کا مقصد۔ یہ بات تقریباً آدھی درست ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے۔ اگر اس نظریے کا مقصد یہ ہے کہ امام حسین نے تشکیل حکومت کیلئے اس طرح قیام کیا کہ اگر وہ دیکھتے کہ انسان اپنے نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا تو وہ یہ کہتے کہ ہم حکومت تو نہیں بنا سکے لہٰذا اِس تحریک کو یہیں ختم کرکے واپس لوٹ جاتے ہیں ! یہ بات غلط ہے۔

جی ہاں جو بھی حکومت بنانے کی غرض سے قدم اٹھاتا اور اُس کے لیے تحریک چلاتا ہے تو وہاں تک کوشش کرتا ہے کہ جہاں تک یہ کام ممکن اور شدنی ہے لیکن جیسے ہی اُسے اُس کام کے نہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے یا وہ عقلی طورپر مقصد تک جانے والی راہوں کو مسدود پاتا ہے تو اُس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوٹ آئے۔ اگر تشکیل حکومت ہی انسان کا مقصد ہے تو وہاں تک کوشش کرنا صحیح ہے کہ جہاں تک پیش رفت کرنا ممکن ہو اور جہاں اقدام کرنے کا امکان ختم ہوجائے تو اُسے لوٹ جانا چاہیے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اپنے قیام سے سید الشہدا کا مقصد امیر المومنین کی مانند ایک حکومت حق کی تشکیل تھی یہ بات درست نہیں ہے، اِس لئے کہ امام حسین کی پوری تحریک اس نظریے کی تائید نہیں کرتی ۔

اِس کے مقابل کچھ افراد کا نظریہ ہے کہ نہیں جناب، حکومت بنانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؛ حضرت جانتے تھے کہ وہ حکومت نہیں بناسکتے ہیں، وہ تو کربلا اس لیے آئے تھے کہ قتل ہوں اور درجہ شہادت پر فائز ہوں! ایک زمانے میں بہت زیادہ افراد اِس نظریے کے حامی اور طرفدارتھے اور بہت سے شعرائ اِس نظریے کو اپنی خوبصورت شاعری کے قالب میں ڈھال کر عوام کیلئے بیان کرتے تھے ۔ بعد میں مَیں نے دیکھا کہ بعض بڑے علمائ نے بھی اِسی بات کو بیان کیا؛ یعنی حضرت امام حسین نے صرف اس لیے قیام کیا تھا کہ وہ شہید ہوجائیں لیکن درحقیقت یہ کوئی نئی بات اور نیا نظریہ نہیں ہے۔ لہٰذا اِن افراد کے نظریے کے مطابق سالار شہیداں نے یہ کہا کہ’’ ہمارے زندہ رہنے سے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا پس ہم اپنی شہادت سے کوئی کام انجام دیتے ہیں‘‘!

ب:کیا امام حسین نے شہادت کیلئے قیام فرمایاتھا؟

قرآن واہل بیت کی تعلیمات میں ان باتوں کی کوئی سند و اعتبار نہیں ہے کہ ’’جاو اور بغیر کسی وجہ کے شہید ہوجاؤ‘‘؛ اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی!

ہم شریعت مقدس اور قرآن وروایات میں جس شہادت کا ذکر پاتے ہیں اُس کا معنی یہ ہے کہ انسان ایک واجب یا راجح (عقلی) مقدس ہدف کے حصول کی راہ میں جدوجہد کرے اور اُس راہ میں قتل کیا جائے؛ یہ ہے صحیح اسلامی شہادت۔ لیکن اگر انسان صرف اس لیے قدم اٹھائے کہ میں جاوں اور بغیر کسی وجہ کے قتل ہوجاوں یا شاعرانہ اور ادیبانہ تعبیر کے مطابق میرے خون کا سیلاب ظالم کو بہاکر لے جائے اور وہ نیست و نابود ہوجائے! یہ تمام چیزیں ، واقعہ کربلا کے عظیم واقعہ سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتیں۔ صحیح ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ امام حسین کی شہادت نے یہ کام انجام دیا لیکن سید الشہدا کا مقصد یہ نہیں تھا۔

المختصر یہ کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سید الشہدا نے تشکیل حکومت کیلئے قیام کیا تھا اور اُن کا مقصد حکومت بنانا تھا اور نہ ہی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سید الشہدا نے شہید ہونے کیلئے قیام کیا تھا بلکہ آپ کا ہدف کوئی اور چیز تھی کہ جسے آپ کی خدمت میں بیان کرنا چا ہتا ہوں۔

حکومت و شہادت دونتیجے تھے نہ کہ ہدف!

میں تحقیق و مطالعہ سے اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ لوگ جو اس بات کے معتقد ہیں کہ امام حسین کا ہدف حکومت یا شہادت تھا، اُنہوں نے ہدف اور نتیجے کو آپس میں ملا دیا ہے، اِن میں سے کوئی ایک بھی سید الشہدا کا ہدف نہیں تھا بلکہ ایک دوسری ہی چیز سید الشہدا کا ہدف تھی۔ پس فرق یہ ہے کہ اُس ہدف کے حصول کیلئے ایک ایسی تحریک و جدوجہد کی ضرورت تھی کہ جس کا اِن دو میں سے ایک نتیجہ نکلنا تھا، یا حکومت ملتی یا شہادت۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ سید الشہدا دونوں نتیجوں کیلئے پہلے سے آمادہ اور تیار تھے؛ اُنہوں نے حکومت کی تشکیل اور شہادت کیلئے مقدمات کو تیار کرلیا تھا اور دونوں کیلئے پہلے سے خود کو آمادہ کیا ہوا تھا؛ دونوں میں سے جو بھی نتیجہ سامنے آتا وہ اُن کی منصوبہ بندی کے مطابق صحیح ہوتا لیکن حکومت و شہادت میں سے کوئی ایک بھی اُن کا ہدف نہیں تھا بلکہ ایک تیسری ہی چیز اُن کا ہدف تھی۔

ہدف، ایسے عظیم واجب کو انجام دینا تھا کہ جس پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا تھا!

سید الشہدا کا ہدف کیا تھا؟ پہلے اس ہدف کو مختصراً ایک جملے میں ذکر کروں گا اور اِس کے بعد اِس کی مختصر سی وضاحت کروں گا۔

اگر ہم امام حسین کے ہدف کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس طرح کہنا چاہیے کہ اُن کا ہدف واجبات دین میں سے ایک عظیم ترین واجب کو انجام دینے سے عبارت تھا کہ جس کو سید الشہدا سے قبل کسی ایک نے ، حتی خود پیغمبر اکرم ۰ ، امیر المومنین اور امام حسن مجتبی نے بھی انجام نہیں دیا تھا۔

وہ ایسا واجب تھا کہ جو اسلام کے عملی اور فکری نظام میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے؛ یہ واجب بہت زیادہ قابل اہمیت اوربنیادی حیثیت کا حامل تھا لیکن اِس کے باوجود اُس پر عمل نہیں ہوا تھا ۔ میں آگے چل کر یہ عرض کروں گا کہ اِس واجب پر ابھی تک عمل کیوں نہیں ہوا تھا، امام حسین کو اِ س واجب پر عمل کرنا چاہیے تھا تاکہ تاریخ میں سب کیلئے ایک درس رہ جائے۔ جس طرح پیغمبر اکرم ۰ نے حکومت تشکیل دی تو آپ کا حکومت کو تشکیل دینا پوری تاریخ اسلام میں سب کیلئے درس بن گیا۔ رسول اللہ ۰ نے فقط احکام جاری نہیں کیے تھے بلکہ پوری ایک حکومت بنائی تھی یا حضرت ختمی مرتبت ۰ نے جہاد فی سبیل اللہ انجام دیا تو یہ تا ابد تاریخ بشریت اور تاریخ اسلام کیلئے ایک درس بن گیا۔ اِسی طرح اِس واجب کو بھی امام حسین کے وسیلے سے انجام پانا چاہیے تھا تاکہ پوری تاریخ کے مسلمانوں کیلئے ایک عملی درس بن سکے۔

امام حسین کے زمانے میں اِس واجب کو انجام دینے کی راہ ہموار ہوئی!

اب سوال یہ ہے کہ امام حسین ہی کیوں اِ س واجب پر عمل کریں؟چونکہ اِس واجب کو انجام دینے کی راہ امام حسین کے دور میں ہی ہموار ہوئی۔ اگر یہ حالات امام حسین کے زمانے میں پیش نہیں آتے مثلاً امام علی نقی کے زمانے میں یہ حالات پیش آتے تو امام علی نقی اِس کام کو انجام دیتے اورتاریخ اسلام میں عظیم ترین حادثے اور ذبح عظیم کا محور قرار پاتے؛ اگر یہ حالات امام حسن مجتبی یا امام جعفر صادق کے زمانے میں پیش آتے تو یہ دونوں ہستیاں اِسی طرح عمل کرتیں،چونکہ امام حسین سے قبل کسی اور معصوم کے زمانے میں یہ حالات پیش نہیں آئے تھے لہٰذا کسی معصوم نے اُس پر عمل نہیں کیا تھا اور اسی طرح امام حسین کے بعد بھی زمانہ غیبت تک تمام آئمہ طاہرین کے دور میں بھی یہ حالات پیش نہیں آئے۔

پس سید الشہدا کا ہدف اِ س عظیم ترین واجب کو انجام دینے سے عبارت ہے، اب میں اِس کی وضاحت کرتا ہوں کہ یہ واجب کیا ہے ؟ اُس وقت اِس واجب کی ادائیگی خود بخود اِن دو نتیجوں میں سے کسی ایک تک پہنچتی؛ یا اُس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ امام حسین کو قدرت و حکومت حاصل ہوجاتی،سبحان اللہ؛ بہت خوب، اور امام حسین اس کیلئے پہلے سے تیار تھے۔ اگر حکومت کی زمام سید الشہدا کے ہاتھ میں آجاتی تو آپ پوری طاقت و قدرت کے ساتھ اُسے اپنے ہاتھ میں لے لیتے اور اپنے معاشرے کو رسول اکرم ۰ و امیر المومنین کے زمانے کی مانند چلاتے ؛ ایک وقت اس واجب پر عمل پیر اہونے کا نتیجہ شہادت کی شکل میں نکلتا تو بھی امام حسین شہادت اور اس کے بعد کے حالات و واقعات کیلئے پہلے سے تیار تھے۔

خداوند عالم نے امام حسین سمیت دیگر آئمہ معصومین کو اِس طرح خلق فرمایا تھا کہ اِس امر عظیم کیلئے پیش آنے والی اُس خاص قسم کی شہادت کے بار سنگین کو اٹھا سکیں اور اِن ہستیوں نے اِن تمام مصائب و مشکلات کوبرداشت بھی کیا۔ البتہ کربلا میں مصائب کا پہلو اِس واقعہ کا ایک دوسرا عظیم رخ ہے۔

پیغمبر اکرم ۰ اسلامی احکامات کا مجموعہ لے کر آئے

اب میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کو تھوڑی وضاحت کے ساتھ بیان کروں۔

میرے محترم بہن بھائیو! پیغمبر اکرم ۰ یا کوئی رسول جب بھی خدا کی طرف سے آتا ہے تو اسلامی احکامات کا ایک مجموعہ لیکر آتا ہے۔ اِن میں سے بعض احکامات انفرادی ہوتے ہیں تاکہ انسان اپنی اصلاح کرے اور بعض اجتماعی ہوتے ہیں تاکہ دنیائے بشر کو آباد کرے، انسانوں کی صحیح سمت میں راہنمائی کرے اور انسانی معاشرے کو ایک صحیح نظام کے ذریعے قائم رکھے۔ یہ انفرادی و اجتماعی احکامات ایک مجموعے کی شکل میں ہوتے ہیں کہ جنہیں’’ اسلامی نظام ‘‘کہا جاتا ہے۔

قرآن؛ رسول اکرم ۰ کے قلب مقدس پر نازل ہوا اور حضرت ختمی مرتبت ۰ نماز ، روزہ، زکات، انفاق، حج، گھریلو زندگی کے احکامات، انفرادی رابطے و تعلقات ، جہاد فی سبیل اللہ ، تشکیل حکومت، اسلامی معیشت، حاکم اور عوام کا رابطہ اور حکومت کی نسبت عوام کے وظائف کے احکامات لے کر آئے اِن تمام احکامات کو ایک مجموعے کی شکل میں بشریت کے سامنے پیش کیا اور سب کے سامنے بیان فرمایا۔

’’مَا مِن شَی ئٍ يُقَرِّبُکُم مِنَ الجَنَّةِ وَ يُبَاعِدُکُم مِنَ النَّارِ اِلَّا وَقَد نَهَیتُکُم عَنهُ وَ اَمَر تُکُم بِهِ ‘‘(۱) ؛’’کوئ ی ایسی چیز نہیں جو تمہیں جنت سے قریب کرے اور جہنم سے دور کرے مگر یہ کہ میں نے تمہیں اُس کا حکم نہ دیا ہو اور اُس سے منع نہ کیا ہو‘‘ ۔ حضرت ختمی مرتبت ۰ نے اُن تمام چیزوں کو بیان کیا کہ جو انسان اور ایک انسانی معاشرے کو سعادت و خوش بختی تک پہنچا سکتی ہیں؛ نہ صرف یہ کہ بیان کیا بلکہ اُن پر عمل بھی کیا اور اُنہیں نافذ بھی کیا۔

اب جب پیغمبر اکرم ۰ کی حیات مبارکہ میں اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ تشکیل

پاگیا ،اسلامی اقتصادیات کو متعارف و نافذ کردیا گیا، اسلامی جہاد نے اپنی جڑیں مضبوط کرکے اسلامی حکومت کو دوام بخشا اور زکات نے معاشرے پر سایہ کرلیا اور یوں روئے زمین پر ایک حقیقی اسلامی ملک اور اسلامی نظام حکومت نے جنم لیا۔ اب اِس اسلامی نظام کا مدیر اور رسول اکرم ۰ کے چلائے ہوئے کارواں کا رہبرو ہادی وہ ہوگا جو اُن کی جگہ پر بیٹھے گا۔

پیغمبر اسلام ۰ کا بتایا ہوا راستہ

رسول اکرم ۰ کا بتایاہوا راستہ بہت واضح اور روشن ہے لہٰذا اِس معاشرے اور اِس سے تعلق رکھنے والے ہر ہر فرد کو چاہیے کہ اِسی راستے پر قدم اٹھائے ، اِسی راستے پر آگے بڑھے اور اِسی راستے سے اپنے ہدف و مقصد تک پہنچے۔ اگر اسلامی معاشرے کی حرکت اِسی راستے پر اور اسی سمت و سو میں ہو تو اُس وقت اُس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام انسان اپنے کمال تک پہنچ جائیں گے؛وہ نیک اور فرشتہ صفت انسان بن جائیں گے ،

معاشرے سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوجائے گا ، معاشرے کو برائیوں ، فساد ، اختلافات ، فقر وافلاس اورجہالت کے

منحوس وجود سے نجات مل جائے گی، انسان اپنی کامل خوش بختی کو پالے گا اور خدا کامقرب بندہ بن جائے گا۔

رسول اکرم ۰ کے ذریعہ اسلام ایک ضابطہ حیات کی حیثیت سے لایا گیا اور اس زمانے کے معاشرے میں نافذ ہوا لیکن کہاں؟ ایک شہر میں کہ جسے مدینہ کہا جاتا ہے، اُس کے بعد مکہ اور دیگر چند شہروں میں اِس اسلامی نظام نے وسعت پائی۔

انحراف کی اقسام

یہاں ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ یہ کارواں جسے پیغمبر اکرم ۰ نے اُس کے معین شدہ راستے پرگامزن کیا تھا،اگر کسی حادثے کا شکار ہوجائے اور کوئی اُس کارواں کو اُس کے معین شدہ راستے سے ہٹا دے تو یہاں وظیفہ کیا ہے؟ اگر اسلامی معاشرہ انحراف کا شکار ہوجائے اور یہ بگاڑ اور انحراف اِ س حد تک آگے بڑھ جائے کہ پورے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو یہاں مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

انحراف کی دو قسمیں ہیں؛ ایک انحراف وہ ہے کہ جس میں لوگ خراب ہوجاتے ہیں، اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے لیکن لوگوں کے منحرف ہونے اور بگڑنے سے اسلامی احکامات ختم نہیں ہوتے ۔ دوسری قسم کا انحراف یہ ہے کہ جب لوگ خرابی کا شکار ہوتے ہیں تو حکومتیں بھی خراب ہوجاتی ہیں اور علمائ اور خطبائ ومقررین بھی انحراف کا شکار ہوجاتے ہیں! ایسے منحرف شدہ افراد سے صحیح دین کی توقع نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ انحراف کا شکار افراد قرآن اور دینی حقائق میں تحریف کرتے ہیں، اچھے کو برا، برے کو اچھا، منکر کو معروف اور معروف کو منکر بناکر پیش کرتے ہیں! اسلام کے بتائے ہوئے راستے کو ۱۸۰ ڈگر ی تبدیل کر دیتے ہیں! اگر اسلامی معاشرہ اور اسلامی نظام اِس مشکل سے دوچار ہوجائے تو یہاں ذمہ داری کیا ہے؟

شرعی ذمہ داری اوراُس کا حکم موجود تھا مگر عمل کیلئے حالات پیش نہیں آئے تھے

پیغمبر اکرم ۰ نے اس سلسلے میں ذمہ داری اور وظیفے کو بیان کردیا ہے اور قرآن نے بھی یہ فرمایا ہے کہ’’مَن يَرتَدَّ مِنکُم عَن دِینِهِ فَسَوفَ يَآتِيَ اللّٰهُ بقَومٍ يُحِبُّهُم و يُحِبُّونَه ‘ ‘‘(۲) ،’’تم م یں سے جو بھی اپنے

دین سے مرتد ہوجائے تو اللہ ایسی قوم لیکر آئے گا کہ اُس سے محبت کرے گا اور وہ قوم بھی اللہ سے محبت کرے

گی‘‘۔ اِ س بارے میں آیات و روایات بہت زیادہ ہیں لیکن میں اِسے امام حسین کے قول کی روشنی میں بیان کرناچاہتا ہوں۔

امام حسین نے پیغمبر اکرم ۰ کی اِس قول کو لوگوں کے سامنے بیان کیا کہ یہ پیغمبر ۰ نے فرمایا ہے تو کیا خود پیغمبر اکرم ۰ نے بھی اِس حکم الٰہی پر عمل کیا تھا؟ نہیں کیا تھا؛کیونکہ یہ حکم الٰہی اُس وقت قابل عمل ہے کہ جب معاشرہ منحرف ہوچکا ہو، اگرمعاشرہ انحراف کا شکار ہوجائے تو اُس کا علاج کرنا چاہیے اور اُس بارے میں خداوند عالم نے ایک خاص حکم جاری کیا ہے۔ ایسے معاشروں کیلئے کہ جہاں معاشرتی انحراف و بگاڑ اِس حد تک آگے بڑھ جائے کہ یہ اصل اسلام اور اُس کی تعلیمات سے انحراف کا سبب بنے تو اِس مقام پر خداوند عالم نے ایک حکم نازل کیا ہے ؛ خداوند عالم نے انسان کو کسی بھی مسئلے میں بغیر حکم کے نہیں چھوڑا ہے۔

حضرت ختمی مرتبت ۰ نے خود اِس حکم خدا کو بیان فرمایا ہے یعنی قرآن و حدیث نے اِس حکم کو بیان کیا ہے لیکن پیغمبر ۰ خود اِس حکم پر عمل درآمد نہیں کرسکے!آخر کیا وجوہات تھیں کہ پیغمبر ۰ نے خود جس حکم کوبیان فرمایا خود اُس پر عمل نہیں کرسکے ؟ وجہ یہ ہے کہ اس حکم الٰہی پر اُس وقت عمل کیا جاتا ہے کہ جب معاشرہ منحرف ہو جائے۔ رسول اکرم ۰ کے عہد رسالت اورامیر المومنین کے عہد ولایت و امامت میں مسلمان معاشرہ اتنا نہیں بگڑا تھا کہ اِس حکم پر عمل کرنے کی نوبت آئے۔ اِسی طرح امام حسن کے دورمیں بھی کہ جب ظاہری حکومت، معاویہ کے ہاتھ میں تھی اور اِس اجتماعی انحراف کی بہت سے نشانیاں ظہور پذیر ہوگئی تھیں لیکن اِس کے باوجود اِس مرحلے تک نہیں پہنچی تھیں کہ جہاں پورے اسلام کی نابودی کا خطرہ پیش آتا۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک خاص زمانے میں ایسی کوئی صورتحال پیش آئی ہو لیکن اُس وقت اِس حکم الٰہی پر عمل کرنے کی فرصت نہ ملی ہو یا موقع مناسب نہ ہو۔ یہ حکم الٰہی جو اسلامی احکامات کا ایک جزئ ہے اور اِس کی اہمیت خود حکومت سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے؛ اِس لیے کہ حکومت کا مطلب ہے معاشرے کی مدیریت۔ اگر معاشرہ بتدریج اپنی راہ سے خارج ہوکر خرابی کا شکار ہوجائے اور حکم خدا تبدیل ہوجائے اور ہمارے پاس اِس خراب حالت کو بدلنے کیلئے کوئی حکم اور منصوبہ بندی موجود نہ ہو تو ایسی حکومت کا کیا فائدہ؟!

منحرف معاشرے کو اُس کی اصلی راہ پر پلٹانے کے حکم کی اہمیت

پس معلوم ہوا کہ منحرف معاشرے کو اُس کی اصلی راہ پر پلٹانے کے حکم کی اہمیت خود حکومت کے حکم ا ور اُس کی اہمیت سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے ۔ شایدیہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اِس حکم کی اہمیت خود کفار سے جہا د کرنے سے بھی زیادہ ہے؛یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ اِس حکم کی اہمیت ایک اسلامی معاشرے میں ایک معمولی قسم کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بھی زیادہ ہے؛ حتی ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شایدمنحرف معاشرے کو اُس کے راستے پر پلٹانے کا حکم خداوند عالم کی طرف سے عظیم فرائض اور واجبات اور حج سے بھی زیادہ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اِس حکم کی اہمیت کیوں زیادہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ درحقیقت یہ حکم اسلام کو کہ جب وہ فنا کے قریب ہو یا ختم ہوگیا ہو، زندہ کرنے کا ضامن ہے۔

اب یہاں ایک سوال اور ابھرتا ہے کہ کون ہے جو اِس اہم ترین حکم پر عمل کرے؟ اس عظیم حکم پر نبی اکرم ۰ کا کوئی جانشین ہی عمل کرسکتا ہے اور وہ ایسے زمانے میں موجود ہو کہ معاشرہ اِس انحراف کا شکار ہوگیا ہو؛ البتہ اِس کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ اِس حکم پر عمل درآمد کیلئے حالات مناسب ہوں؛ اِس لیے کہ خداوند عالم کسی ایسے عمل کو واجب نہیں کرتا کہ جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ لہٰذا اگر حالات نامناسب ہوں اوریہ جانشین نبی ۰ کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے تو اُس کے عمل اور جدوجہد کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا لہٰذا عمل درآمد کرنے کیلئے حالات کو مناسب و موزوں ہونا چاہیے۔

اِس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ حالات کے مناسب ہونے کا معنی کچھ اور ہے؛ نہ یہ کہ ہم یہ کہیں کہ چونکہ اِس حکم کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں خطرات موجود ہیں لہٰذا حالات سازگار نہیں ہیں ! حالات کے سازگار ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے ۔ حالات و شرائط کو مناسب ہونا چاہیے یعنی انسان یہ جانے کہ اگر اُس نے عمل کو انجام دیا تو اِس کا ایک نتیجہ ظاہر ہوگا، یعنی لوگوں تک پیغام پہنچ جائے گا، عوام اِس نتیجے سے حقیقت کو سمجھیں گے اور شک و تردید کے تمام سیاہ بادل اُن کے سامنے سے ہٹ کر حقیقت کا اُفق اُن کیلئے روشن و صاف ہوجائے گا۔

امام حسین کے زمانے میں انحراف بھی تھااور حالات بھی مناسب تھے!

حضرت سید الشہدا کے زمانے میں یہ انحراف وجود میں آچکا تھا اور اِس انحراف کو ختم کرنے کے حکم الٰہی پر عمل درآمد کیلئے حالات بھی مناسب تھے۔ پس اِن حالات میں امام حسین کو قیام کرنا چاہیے تھا کیونکہ انحرافات اور بدعتوں نے اسلامی معاشرے کو مکمل طورسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ مناسب حالات یہ ہیں کہ معاویہ کے بعد ایسا شخص حکومت کا مالک بن بیٹھا ہے (یا جسے پہلے سے تیار شدہ ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت ولی عہد بنایا گیا تھا تاکہ اسلام کو نابود کرنے کے بنو اُمیہ کے دیرینہ منصوبے پر عمل درآمد کیا جاسکے) جو اسلام کے ظاہری احکام و آداب کی ذرّہ برابر بھی رعایت نہیں کرتا ہے! وہ اایسا ( خودساختہ) خلیفہ مسلمین ہے جو شراب پیتا ہے اور اسلامی شریعت کی کھلم کھلا مخالفت اُس کا وطیرہ ہے ، جنسی گناہوں ، دیگر برائیوں اورقبیح ترین اعمال کا علی الاعلان ارتکاب اُس کا شیوہ ہے ، قرآن کے خلاف باتیں کرنا اُس کی عادت ہے، وہ قرآن کی مخالفت اور دین کی تحقیر و اہانت کیلئے اشعار باطلہ سے اپنی محفل کو زینت دیتا ہے؛ خلاصہ یہ کہ وہ اسلام کا کھلا ہوا دشمن ہے!

چونکہ وہ نام کا خلیفہ مسلمین ہے لہٰذا وہ اسلام کے نام کو مکمل طور سے ختم نہیں کرنا چاہتا ۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ نہ اسلام کا پیروکار ہے، نہ اُسے اسلام سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اُس کا دل اسلام کیلئے دھڑکتا ہے بلکہ اپنے عمل میں اُس چشمے کی مانند ہے کہ جس سے مسلسل گند گی اور بدبو دار پانی اُبل اُبل کر پوری وادی کو خراب و بدبودار کررہا ہے اور اپنے وجود کے گندے اور بدبودار اعمال سے پورے اسلامی معاشرے کی فضا کو متعفّن و آلودہ کررہا ہے! ایک برا اور فاسد حاکم ایسا ہی ہوتا ہے ۔ چونکہ حاکم، معاشرے میں سب سے اونچے اور بلند ترین منصب کا حامل ہوتا ہے بالکل ایک بلند ترین چوٹی کی مانند، لہٰذا اُس سے جو بھی عمل صادر ہوگا اُس کے اثرات صرف اُسی چوٹی تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اُس سے نیچے آکر اطراف کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے جبکہ عام عوام و افراد کا عمل اِس خاصیت کا حامل نہیں ہوتا ہے۔

عام افراد کا عمل صرف اُنہی کی چار دیواری اور ذات کے دائرے کے اندر رہتا ہے؛ لیکن جس کا مرتبہ و منصب جتنا بلند ہو اور وہ معاشرے میں جتنے بڑے درجے کا مالک ہو اُس کی برائیوں کا نقصان بھی اُسی نسبت سے زیادہ ہوتا ہے۔ عام آدمیوں کی برائیاں اور غلطیاں ممکن ہے کہ صرف اُنہی کیلئے یا اُن کے اطراف میں موجود چند افراد کیلئے نقصان دہ ہوں لیکن جو کسی بڑے عہدے اور درجے کا مالک ہے اگر برائیوں اور غلطیوں کا ارتکاب کرنے لگے تو اُس کے اعمال کے برے اثرات اطراف میں پھیل کر پورے معاشرتی ماحول کو آلودہ کردیں گے۔ اِسی طرح اگر معاشرے میں کسی اعلی منصب و مرتبے پر فائز ہونے والا شخص نیک ہوجائے تو اُس کے نیک اعمال کے اثرات اور خوشبو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیکر ماحول و فضا کو معطر کردے گی۔

معاویہ کے بعدایک ایسا ہی شخص منبر رسول ۰ پر بیٹھ کر خلیفہ مسلمین بن گیا ہے اور اپنے آپ کو جانشین پیغمبر ۰ کہتا ہے ! کیا اِس سے بڑھ کر بھی کوئی انحراف ہوگا؟! اب اِس حکم الٰہی پر عمل درآمد کرنے کے حالات و شرایط مہیا ہوگئے ہیں۔ حالات مناسب و سازگار ہیں، اِس کا مطلب کیا ہے؟ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِس راہ میں کوئی خطرہ موجود نہیں ہے؟ کیوں نہیں، خطرہ موجود ہے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ کسی اقتدار کا مالک اپنے مقابلے پر آنے والوں کیلئے خطرناک ثابت نہ ہو؟! یہ تو کھلی جنگ ہے؛ آپ چاہتے ہیں کہ اُس کا تخت و تاج اور اقتدار چھین لیں او ر وہ بیٹھ کر صرف تماشا دیکھے! واضح سی بات ہے کہ وہ بھی پلٹ کر آپ پر حملہ کرے گا، پس خطرہ ہر حال میں موجود ہے۔

سب آئمہ کا مقام امامت برابر ہے!

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ حالات مناسب ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کا ماحول اور سیاسی و اجتماعی حالات ایسے ہیں کہ ممکن ہے کہ اِس زمانے میں اور پوری تاریخ میں انسانوں تک امام حسین کا پیغام پہنچ جائے۔ اگر معاویہ کے دور حکومت میں امام حسین قیام کرتے تو اُن کا پیغام دفن ہو جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ معاویہ کے دور حکومت میں (اجتماعی و ثقافتی) حالات اور سیاست ایسی تھی کہ لوگ حق بات کو نہیں سن سکتے تھے (یا اُن میں حق و باطل میں تشخیص کی صلاحیت نہیں تھی)! یہی وجہ ہے کہ امام حسین معاویہ کی خلافت کے زمانے میں دس سال امام رہے لیکن آپ کچھ نہیں بولے اور کسی قیام و اقدام کیلئے کوئی کام انجام نہیں دیا چونکہ حالات مناسب نہیں تھے۔

امام حسین سے قبل امام حسن امام وقت تھے، اُنہوں نے بھی قیام نہیں کیا چونکہ اُن کے زمانے میں بھی اِس کام کیلئے حالات غیر مناسب تھے؛ نہ یہ کہ امام حسن و امام حسین میں کا م کو انجام دینے کی صلاحیت و قدرت نہیں تھی۔ امام حسن و امام حسین میں کوئی فرق نہیں ہے، اِسی طرح امام حسین اور امام سجاد اور امام علی نقی و امام حسن عسکری میں بھی کوئی فرق نہیں ہے! صحیح ہے کہ سید الشہدا نے چونکہ قیام کیا ہے لہٰذا اُن کا قیام و منزلت اُن آئمہ سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے قیام نہیں کیا، لیکن مقام امامت کے لحاظ سے سب آئمہ برابر ہیں۔ آئمہ میں اگرکسی ایک کیلئے بھی کربلاجیسے کے حالات پیش آتے تو وہ قیام کرتے اور اُسی مقام پر فائز ہوتے۔

وظیفے کی ادائیگی ہمیشہ خطرے کے ساتھ ہے!

اب امام حسین انحراف و بدعت کے طوفان کے سامنے کھڑے ہیں پس انہیں اپنے وظیفے پر عمل کرنا چاہیے؛ حالات بھی مناسب ہیںلہٰذا اب کسی عذر کی گنجائش نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ ابن جعفر ، محمد ابن حنفیہ ۱ اور عبداللہ ابن عباس ۱ جیسی خاص، دین شناس ، عارف ، عالم، فہم وادراک رکھنے والی شخصیات نے امام حسین سے کہا کہ’’ اے مولا! اِس راہ میں خطرات ہیں، آپ نہ جائیے۔‘‘ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب وظیفے کی انجام دہی میں خطرات ہوں تو وظیفے کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اِس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ وظیفہ کوئی ایسا وظیفہ نہیں ہے کہ جو خطرات کی موجودگی میں ساقط ہوجائے گا!(۳)

اِس وظیفے کی ادائیگی ہمیشہ خطرات کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ انسان ایک بہت بڑے اقتدار اور ایک انتہائی مضبوط قسم کے نظام کے خلاف قیام کرے اور اُسے کسی قسم کے خطرات کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ اِس واجب پر عمل پیرا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان خطرات کو دعوت دے رہا ہے ۔ یہ وہی واجب ہے کہ جسے حضرت امام خمینی ۲ نے انجام دیا؛ اِن کو بھی یہی کہا جاتا تھا کہ آغا! آپ تو شاہ ایران سے ٹکر لے رہے ہیں،آپ خطرات میں گھر جائیں گے ۔کیا امام خمینی ۲ نہیں جانتے تھے کہ اِس راہ میں خطرات ہیں؟ کیا امام خمینی ۲ اس بات سے بے خبر تھے کہ شاہ ایران کی خفیہ ایجنسی جب کسی کو گرفتار کرتی ہے تو اُسے شکنجہ و اذیت دیتی ہے ، اُسے قتل کرتی ہے ، اُس گرفتار ہونے والے انسان کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور اُنہیں جِلا وطن کردیتی ہے؟! کیا امام خمینی ۲ یہ سب نہیں جانتے تھے؟!

وہ کام جو امام حسین کے زمانے میں انجام پایا، اُس کی ایک چھوٹی سی مثال ہمارے زمانے میں امام خمینی ۲ کے ذریعے سے سامنے آئی۔ فرق یہ ہے کہ اُس قیام کا نتیجہ شہادت کی صورت میں سامنے آیا اور امام خمینی ۲ کے جہاد و قیام کا نتیجہ حکومت کی صورت میں نکلا؛ یہ وہی کام ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امام حسین اور امام خمینی ۲ کا ہدف، ایک ہی تھا۔ یہی مطلب، امام حسین کی تعلیمات کی اساس و جان ہے اور امام حسین کی تعلیمات ، شیعہ مذہب کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ ہیں؛ سید الشہدا کی تعلیمات مضبوط و محکم بنیاد ہیں اوراسلام کی بنیادوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

اسلامی معاشرے کو صحیح راہ پر لوٹانا، ہدف ہے!

پس ہدف یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کو اُس کے صحیح راستے کی طرف لوٹایا جائے ، مگر کون سے زمانے میں؟ اُس وقت کہ جب اسلام کا راستہ تبدیل کردیا گیا ہو اور خاص اورصاحب اثر و نفوذ افراد کی جہالت، ظلم و استبداد اور خیانت، مسلمانوں کو منحرف کردے اورقیام کی شرائط پوری ہوگئی ہوں۔

البتہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف زمانے آتے ہیں ،ایک وہ زمانہ ہے کہ جب شرائط پوری ہوں اور ایک وہ زمانہ ہے کہ جب حالات مناسب ہوں۔ امام حسین کے دور میں بھی حالات اور شرائط مناسب تھے اور ہمارے زمانے میں بھی۔ امام خمینی ۲ نے بھی وہی کام انجام دیا کہ جو امام حسین نے انجام دیا تھا کیونکہ دونوں کا ہدف ایک ہی تھا۔

جب ایک انسان ایک ہدف کے حصول کیلے قدم اٹھاتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ظالم حکومت اور باطل کے خلاف قیام کرے؛ کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام، اسلامی معاشرے اور اسلامی نظام کو اُس کے صحیح راستے پر لوٹا دے تو ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ قیام کرتا ہے تو اُسے حکومت مل جاتی ہے، یہ اِس قیام کی ایک صورت ہے کہ جو الحمدللہ ہمارے زمانے میں سامنے آئی۔ ایک وقت وہ ہے کہ جب وہ قیام کرتا ہے تو وہ حکومت تک نہیں پہنچتا لیکن درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے۔

کیا اِس دوسری صورت میں اِس وظیفے پر عمل کرنا واجب نہیں ہے؟ کیوں نہیں؛واجب ہے، گرچہ وہ شہید ہی کیوں نہ ہوجائے۔ یہاں ایک اور سوال پیش آتا ہے کہ کیا اِس صورت میں کہ جب وہ اپنے وظیفے کی ادائیگی میں درجہ شہادت کو پالے تو اُس کے قیام کا کیا فائدہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا؛ اِس قیام اور اِس حکومت کی دونوں صورتوں میں اُس کے قیام کا فائدہ ہے، خواہ وہ درجہ شہادت پر فائز ہو یااُسے حکومت ملے۔ فرق یہ ہے کہ دونوں کا فائدہ الگ الگ ہے لیکن ہر صورت میں قیام کرنا اور قدم اٹھانا چاہیے۔

سید الشہدا نے پہلی بار یہ قدم اٹھایا

یہ وہ کام تھا کہ جسے سید الشہدا نے انجام دیا اور آپ وہ پہلی شخصیت تھے کہ جس نے پہلی بار یہ قدم اٹھایا۔ آپ سے قبل یہ کام انجام نہیں دیا گیا تھا کیونکہ زمانہ رسالت میں نہ یہ بدعتیں تھیں اور نہ امیر المومنین کے دور امامت میں یہ انحرافات وجود میں آئے تھے یا اگر کچھ مقامات میں انحرافات تھے بھی تو اُن کے خلاف قیام کی شرائط پوری نہیں تھیں اور نہ ہی حالات مناسب تھے۔لیکن امام حسین کے دور امامت میں یہ دونوں چیزیں موجود تھیں۔ تحریک حسینی کی حقیقت یہی جاندار نکتہ ہے۔

پس ہم اِس طرح خلاصہ کرسکتے ہیں کہ امام حسین نے اِس لیے قیام کیا کہ اُس عظیم واجب کو انجام دے سکیں جو اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کو ازسر نو تعمیر کرنے یا اسلامی معاشرے میں انحرافات کے مقابلے میں قیام کرنے سے عبارت ہے۔ یہ عظیم کام؛ قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ ممکن ہے بلکہ انحرفات کا راستہ روکنا خود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زندہ مصداق ہے۔ البتہ یہ کام کبھی حکومت و اقتدار پر اختتام پذیر ہوتا ہے کہ امام حسین اِس کیلئے تیار تھے اور کبھی انسان کو درجہ شہادت تک پہنچا دیتا ہے اور سید الشہدا نے خود کو اِس کیلئے بھی آمادہ کیا ہوا تھا۔

حکومت یزید سے اسلام کو زبردست خطرہ ہے

ہم کس دلیل کی بنا پر یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ ہم نے اِن تمام باتوں کو خود سید الشہدا کے کلمات سے اخذ کیا ہے۔ ہم نے امام حسین کے کلمات و ارشادات میں سے چند عبارتوں کا انتخاب کیا ہے۔

جب مدینے میں وہاں کے حاکم ولیدنے حضرت کو اپنے پاس بلاکر کہا کہ ’’معاویہ کا انتقال ہوگیا ہے اور آپ کو (نئے خلیفہ کی) بیعت کرنی چاہیے‘‘۔ حضرت سید الشہدا نے اُسے جواب دیا : ’’نَنظُرُ وَ تَنظُرُونَ اَيُّنَا اَحَقُّ بِالبَیعَةِ وَ الخِلَافَةِ ‘‘(۴) ۔ آپ نے فرم ایا کہ’’ صبح تک انتظار کرو ، ہم فکر کرتے ہیں کہ ہم (حسین اور یزید )میں سے کون خلافت اور بیعت کے لئے شائستہ ہے‘‘!

اگلے دن مروان نے جب امام حسین کو دیکھا تو کہنے لگا: ’’اے ابا عبداللہ، آپ اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈال رہے ہیں! خلیفہ وقت سے آکر بیعت کیوں نہیں کرلیتے؟ آپ اپنی موت کا سامان تیار نہ کریں!‘‘ سید الشہدا نے اُس کے جواب میں یہ جملہ ارشاد فرمایا: ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیهِ رَاجِعُونَ وَ عَلَی الاِسلَامِ السَّلَامُ، اِذ قَد بُلِيَتِ الاُمَّةُ بِرَاعٍ مِثلَ يَزِید ‘‘ ، ’’ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور ہمیں لوٹ کر اُسی کی ہی طرف جانا ہے، جب یزید جیسا شخص امت مسلمہ کا خلیفہ بن جائے تو اسلام کو خدا حافظ کہہ دینا چاہیے‘‘، یعنی اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے کہ جب یزید جیسا (فاسق و فاجر) شخص اقتدار کو سنبھال لے اور اسلام یزیدیت جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہوجائے! یہاں یزید کی ذات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جو بھی یزید جیسا ہو(۵) ۔ حضرت س ید الشہدا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۰ کے بعد سے لیکر اب تک جو ہوا وہ سب قابل تحمل تھا لیکن اب خود اصل دین اور اسلامی نظام (اور اُس کی بنیادیں) نشانے پر ہیں اور یزید جیسے کسی بھی شخص کی حکومت کرنے سے اسلام نابود ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ اس انحراف کا خطرہ بہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں خود اسلام خطرے میں ہے۔

حضرت سید الشہدا نے مدینہ سے اور اِسی طرح مکہ سے اپنی روانگی کے وقت محمد ابن حنفیہ سے گفتگو کی ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کی یہ وصیت مکہ سے آپ کی روانگی کے وقت کی ہے۔ ماہ ذی الحجہ میں محمد ابن حنفیہ بھی مکہ آچکے تھے اور انہوں نے کئی مرتبہ امام حسین سے گفتگو کی ہے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں حضرت نے اپنے بھائی کو اپنی تحریر وصیت کے عنوان سے دی۔

میرے قیام کا مقصد، امت محمدی ۰ کی اصلاح ہے

امام حسین خدا کی وحدانیت کی گواہی دینے اور مختلف امور کو بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ

’’وَاِنِّی لَم اَخرُج اَشِرًا وَّلَا بَطَراً وَّلَا مُفسِدًا وَّلَا ظَالِماً ‘‘(۶) یعنی آپ فرماتے ہیں کہ لوگ غلطی کا شکار نہ ہوں اور دشمن کی پروپیگنڈا مشینری اُنہیں دھوکہ نہ دے کہ امام حسین بھی دوسروں کی مانند ہیں کہ جو مختلف جگہوں پر خروج کرتے ہیں، صرف اِس لئے کہ اقتدار کواپنے ہاتھ میں لیں، اپنی خودنمائی، عیاشی اور ظلم و فساد برپا کرنے کیلئے میدان جنگ میں قدم رکھتے ہیں؛ آپ فرماتے ہیں کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ ’’وَ اِنَّمَا خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلَاحِ فِی اُمَّةِ جَدِّی ‘‘(۷) ،’’م یں صرف اور صرف اپنے جد محمد ۰ کی امت کی اصلاح کیلئے میدان عمل میں آیا ہوں)۔ میں فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ وہ واجب ہے کہ جو امام حسین سے قبل انجام نہیں دیا گیا تھا۔

یہ اصلاح ، ’’خروج‘‘ کے ذریعے انجام پائے گی؛ خروج یعنی قیام اور امام حسین نے اِس نکتے کو اپنی اِس وصیت میں تحریر فرمایا ہے اور صراحت کے ساتھ اِس معنی کو بیان کیا ہے۔ یعنی اولاً وہ قیام کرنا چاہتے ہیں اور یہ قیام اِس لیے ہے کہ ہم ’’اصلاح‘‘ کے طالب ہیں ، نہ یہ کہ حتماً حکومت و اقتدار ہمارے ہاتھ آجائے اور نہ اِس لیے کہ ہم جاکر صرف شہید ہونا چاہتے ہیں، نہیں ! ہمارا ہدف صرف اصلاحِ امت ہے۔ البتہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اصلاح کا کام کوئی معمولی نوعیت کا کام نہیں ہے۔ اِسی اصلاح کے دوران کبھی حالات ایسے پیش آتے

ہیں کہ انسان حکومت تک پہنچتا ہے اور زمام قدرت کواپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے وہ یہ کام نہیں کرسکتا بلکہ یہ کام غیر ممکن ہوجاتاہے اور وہ درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے لیکن دونوں صورتوں میں اُس کا قیام اصلاح کے عمل کیلئے ہوتاہے۔

اِس کے بعد امام حسین فرماتے ہیں کہ’’اُرِیدُ اَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَاَنهٰی عَنِ المُنکَرِ وَاُسِیرُ بِسِیرَةِ جَدِّ وَ اَبِ ‘‘(۸) ۔’’م یں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر انجام دں اور میں اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر قدم اٹھانا چاہتا ہوں‘‘۔ اصلاح کا ایک مصداق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔

سید الشہدا نے مکے میں دو گروہوں کو خط لکھے ، ایک بصرہ کی اہم شخصیات کو اور دوسرا کوفہ کے اہم افراد کو۔ بصرہ کی اہم شخصیات کے نام جو آپ نے خط لکھا ہے اُس میں اِ س طرح تحریر فرمایا ہے: ’’وقَد بَعَثَرَسُولِی اِلَیکُم بِهٰذَا الکِتَابِ وَاَنَا اَدعُوکُم اِلٰى کِتَابِ اللّٰهِ و سُنَّةِ نَبِيِّهِ فَاِنَّ سَنَّةَ قَد اُمِیتَت وَالبِدعَدَّ اُوحِيَت فَاِن تَسمَعُوا قَولِی اَهدِیکُم اِلٰی سَبِیلِ الرِّشَادِ ‘‘۔

’’میرا نمائندہ میرے خط کے ساتھ تمہارے پاس آیا ہے اور میں تم لوگوں کو کتاب خدا اور اُس کے رسول ۰ کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ بے شک سنتِ رسول ۰ کو زندہ درگور کردیا گیا ہے اور زمانہ جاہلیت کی بدعتوں و خرافات کو زندہ کردیا گیا ہے، اگر تم میری پیروی کرو تو میں تم کو راہِ راست کی ہدایت کروں گا۔‘‘ یعنی میں بدعتوں کو ختم کرنا اور سنتِ رسول ۰ کا احیائ چاہتا ہوں کیونکہ حاکمان وقت نے سنت کو مردہ اور بدعتوں کو زندہ کردیا ہے۔ اگر تم لوگ میری بات مانو اور میرے پیچھے قدم اٹھاو تو جان لو کہ ہدایت کا راستہ صرف میرے پاس ہے، میں ایک بہت بڑا فریضہ انجام دینا چاہتا ہوں کہ جو اسلام، سنتِ رسول ۰ اور اسلامی نظام کے احیائ سے عبارت ہے۔

اسلامی حاکم ، معاشرے میں کتاب خدا کو نافذ کرے

اہل کوفہ کے نام آپ نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا:’’فلعمرِ ما الاِمَامُ اِلَّا الحَاکِمُ بِاالکِتَابِ وَالقَآئِمُ بِالقِسطِ الدَّآئِنُ بِدِینِ الحَقَّ وَالحَابِسُ نَفسِه عَلٰى ذَالِکَ لِلّٰهِ والسَّلَام ‘‘(۹) ، ’’امام فقط وہی ہے جو صرف کتاب الٰہی کے مطابق حکومت کرے، عدل و انصاف کو قائم کرے، ملک و معاشرے اور قانون کی حق کی طرف راہنمائی کرے اور صراطِ مستقیم پر ہر طرح سے اپنی حفاظت کرے‘‘۔ امام وپیشوا اور اسلامی معاشرے کا سربراہ اور حاکم ، اہل فسق و فجور، خائن، فسادی ، قبیح اعمال کاارتکاب کرنے والا شخص اور خدا سے دوری اختیار کرنے والا فرد نہیں ہوسکتا ہے ۔ اسلامی معاشرے کا حاکم اُسے ہونا چاہیے کہ جو کتاب خدا کے مطابق فیصلہ کرے، کتابِ الٰہی پر عمل پیرا ہو، معاشرے میں اپنی اجتماعی ذمہ داریوں اور فرائض سے کنارہ کشی اختیار نہ کرے؛ نہ یہ کہ ایک کمرے میں بیٹھ کر تنہائی میں عبادت خدا بجالائے؛ اسلامی حاکم کو چاہیے کہ معاشرے میں کتاب خدا کو زندہ کرے، عدل وانصاف کا بول بالا کرے اور ’’حق‘‘ کو معاشرے کا قانون قرار دے نہ کہ نفسانی خواہشات اور شخصی رائے کو۔

’’الدَّائِنُ بِدِینِ الحَقِّ ‘‘ یعنی اسلامی حاکم کو چاہیے کہ معاشرے کا قانون اور اُس کا راستہ صرف حق کے مطابق متعین کرے اور باطل افکار و نظریات اور شخصی رائے کو ترک کردے۔ ’’والحَابِسُ نَفسِهِ عَلٰى ذَالِکَ لِلّٰهِ ‘‘ اِس جملے کا ظاہری معنی یہ ہے کہ خدا کہ راستے میں جس طرح بھی ہو اپنی حفاظت کرے اور شیطانی اور مادّی جلووں اور رنگینیوں کا اسیر نہ ہو۔

پیغمبر ۰ نے ذمہ داری مشخص کردی ہے

سید الشہدا جب مکے سے باہر تشریف لے گئے تو راستے میں آپ نے مختلف مقامات پر مختلف انداز سے گفتگو فرمائی ۔ ’’بیضہ‘‘ نامی منزل پر، کہ جب حُرّ ابن یزید ریاحی کا لشکر آپ کے ساتھ ساتھ تھا، اُترنے کے بعد شاید آپ نے استراحت کرنے سے قبل یا تھوڑی استراحت کے بعد کھڑے ہو کر دشمن کے لشکر سے اِس طرح خطاب فرمایا:

’’اَيُّها النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ (صَلَّی اللّٰه عَلَیه وآلِه) قَالَ: مَن رَآَی سُلطَاناً جَآئِرًامُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰهِ نَاکِثًا لِعَهدِ اللّٰهِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ يَعمَلُ فِی عِبَادِ اللّٰهِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰى اللّٰهِ اَن يَدخُلَهُ مَدخَلَهُ ‘‘(۱۰) ۔ ’’رسول اللہ ۰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو کسی جائر و ظالم حاکم کو دیکھے جو حرام خدا کو حلال جاننے والا، قانون خدا کو توڑنے والا، سنت رسول ۰ کا مخالف اور مخلوق خدا میں گناہ و سرکشی سے حکومت کرنے والا ہو تو یہ دیکھنے والا اپنے قول و فعل سے اُس کے خلاف حکمت عملی اختیار نہ کرے تو خداوند عالم اِس سکوت و جمود اور خاموشی اختیار کرنے والے شخص کو اُس ظالم سلطان کے ساتھ عذاب میں ڈالے گا‘‘۔ یعنی اگر کوئی یہ دیکھے کہ معاشرے میں کوئی حاکم برسر حکومت ہے اور ظلم و ستم کررہا ہے ، حرام خدا کو حلال قرار دے رہا ہے اور حلال خدا کو حرام بنارہا ہے، اُس نے حکم الٰہی کو پس پشت ڈال دیا ہے اور دوسرے افراد کو بھی عمل نہ کرنے کیلئے مجبور کررہا ہے، لوگوں میں گناہ اور ظلم و دشمنی سے حکومت کرے __ اُس زمانے میں ظالم اور جائر حاکم کا کامل مصداق یزید تھا ’’و لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ ‘‘ ،’’ اپن ی زبان و عمل سے اُس کے خلاف اقدام نہ کرے‘‘۔ ’’کَانَ حَقًّا عَلٰى اللّٰهِ اَن يَدخُلَهُ مَدخَلَهُ ‘‘ ،’’توخداوند عالم روز قیامت سکوت وجمود اختیار کرنے والے بے طرف و بے عمل شخص کو اُسی ظالم کے ساتھ ایک ہی عذاب میں ڈالے گا‘‘۔

یہ پیغمبر ۰ کا قول ہے؛ یہ جو ہم نے کہا ہے کہ پیغمبر ۰ نے یہ فرمایا ہے تو یہ اُن کے اقوال کا ایک نمونہ ہے۔ پس حضرت ختمی مرتبت ۰ نے پہلے سے مشخص کردیا تھا کہ اگر اسلامی نظام انحراف کا شکار ہوجائے تو کیا کام کرنا چاہیے۔ امام حسین نے پیغمبر اکرم ۰ کے اِسی قول کو اپنی تحریک کی بنیاد قرار دیا۔

میں دوسروں سے زیادہ اِس قیام کیلئے سزاوار ہوں

پس اِن حالات میں ذمے داری کیا ہے؟اس حدیث نبوی ۰ کی روشنی میں ذمہ داری ’’يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ ‘‘ (اپنے زبان و عمل سے اقدام کرے) ہے۔ اگر انسان اِن حالات کا مشاہدہ کرے البتہ شرائط و حالات کا مناسب ہونا ضروری ہے، تو اُس پر واجب ہے کہ ظالم و جائر حاکم کے عمل کے جواب میں قیام و اقدام کرے۔ وہ اِس قیام و اقدام میں کسی بھی حالات سے دوچار ہو، قتل ہوجائے، زندہ رہے یا ظاہراً اُسے کامیابی نصیب ہو یا نہ ہو، اِن تمام حالات میں ’’قیام‘‘ اُس کا وظیفہ ہے۔ یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اِن حالات میں قیام و اقدام کرے اور یہ وہ ذمہ داری ہے کہ جسے حضرت ختمی مرتبت ۰ نے بیان فرمایا ہے۔

اِس کے بعد سید الشہدا نے فرمایا: ’’وَاِنِّی اَحَقُّ بِهٰذَا ‘‘ ،میں اِس قیام کیلئے بقیہ تمام مسلمانوں سے زیادہ سزاوار ہوں کیونکہ میں فرزند پیغمبر ۰ ہوں۔ اگر پیغمبر ۰ نے حالات کی تبدیلی یعنی اُس قیام کو ایک ایک مسلمان پر واجب کیا ہے تو ظاہرہے کہ حسین ابن علی جو فرزند پیغمبر ۰ ہیں اور اُن کے علم و حکمت کا وارث بھی ہیں، اِس قیام کیلئے دوسروں سے زیادہ مناسب ہیں۔ پس امام حسین فرماتے ہیں کہ میں نے اِسی لئے قیام کیا ہے اور وہ اپنے قیام کے علل و اسباب کو بیان فرما رہے ہیں۔

جو کچھ خدا نے ہمارے لئے چاہا ہے ، خیر ہے

’’اَزید‘‘ نامی منزل پر کہ جب چار افراد حضرت سے آملے ، آپ نے فرمایا: ’’اَمَّا وَاللّٰهِ اَنِّی لَاَرجُو اَن يَکُونَ مَا اَرَادَ اللّٰهُ بِنَا قُتلِنَا اَو ظَفُرنَا ‘‘’’جو کچھ اللہ نے ہمارے ل یے مقرر کیا ہے وہ ہمارے لیے صرف خیر وبرکت ہی ہے، خواہ قتل کردیے جائیں یا کامیاب ہوجائیں‘‘۔ کوئی فرق نہیںہے خواہ کامیابی ہمارے قدم چومے یا راہ خدا میں قتل کردیے جائیں، ذمے داری کو ہر صورت میں ادا کرنا ہے؛ آپ نے یہی فرمایا کہ خداوند عالم نے جس چیز کو ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے، اُس میں ہمارے لیے بہتری اور بھلائی ہی ہے؛ ہم اپنی ذمہ داری کو ادا کررہے ہیں خواہ اِس راہ میں قتل کردیئے جائیں یا کامیاب ہوجائیں۔

سرزمین کربلا میں قدم رکھنے کے بعد آپ نے اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’قَد نَزَلَ مِنَ الاَمرِ ما قَد تَرَونَ ‘‘(۱۱) ’’اَلَا تَرَونَ اِلَى الحَقِّ لَا يُعمَلُ بِهِ وَ اِلی البَاطِلِ لَا يُتَنَاهی عَنهُ لِيَرغَبِ المُومِن فِی لِقَآئِ اللّٰهِ مُحِقًّا ‘‘(۱۲) ، ’’ک یا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے اور باطل سے دوری اختیار نہیں کی جارہی ایسے وقت میں مومن کو چاہیے کہ وہ ملاقات خدا کے لیے تیار رہے۔‘‘

امام حسین نے اسلام کا بیمہ کیا

پس امام حسین نے ایک امر واجب کیلئے قیام فرمایا۔ یہ ایک ایسا واجب ہے کہ جو ہر زمانے اور ہر تاریخ میں تمام مسلمانوں کو اپنی طرف بلارہا ہے اور یہ واجب عبارت ہے اِس امر سے کہ مسلمان جب اِس بات کا مشاہدہ کریں کہ اسلامی معاشرے کا نظام ایک بُنیادی خرابی کا شکار ہوگیا ہے اور اُس سے تمام اسلامی احکامات کی خرابی کا خطرہ لاحق ہے تو اِن حالات میں ہر مسلمان کو قیام کرنا چاہیے۔

البتہ یہ قیام، مناسب حالات و شرائط میں واجب ہے (کہ جسے گذشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے ) کہ جب قیام کرنے والا یہ جانتاہو کہ یہ قیام اثر بخش ہوگا۔ اِن مناسب حالات کا قیام کرنے والے کے زندہ رہنے، قتل نہ ہونے یا مشکل و مصائب کا سامنا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین نے قیام فرمایا اور عملاً اِس واجب کو انجام دیا تاکہ رہتی دنیا کیلئے ایک درس ہو۔

اِس بات کا بھی امکان ہے کہ تاریخ کے کسی بھی زمانے میں کوئی بھی شخص مناسب شرائط و حالات میں یہ کام انجام دے البتہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سید الشہدا کے بعد کسی بھی امام معصوم کے زمانے میں ایسے حالات پیش نہیں آئے ۔ خود یہ بات تجزیہ و تحلیل کا تقاضا کرتی ہے کہ ایسے حالات دوبارہ کیوں نہیں پیش آئے۔ چونکہ بہت سے اہم ترین کام تھے کہ جنہیں انجام دینا ضروری تھا اور کربلا کے قیام کے بعد سے امام حسن عسکری کی شہادت اور حضرت امام عصر کی غیبت کے ابتدائی زمانے تک اسلامی معاشرے میں ایسے حالات کبھی سامنے نہیں آئے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اِس قسم کے حالات اسلامی ممالک میں زیادہ ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں اور آج بھی دنیائے اسلام میں بہت سے مقامات پر اِس کام کیلئے زمین ہموار ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ اِس فریضے کو انجام دیں۔ اگر وہ اِس واجب کو انجام دیں تو اِس طرح وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکیں گے اور اسلام کی توسیع اور حفاظت کی زمین ہموار کریں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ایک دو افراد شکست کھائیں گے۔

جب معاشرتی حالات کی تبدیلی، قیام اور اصلاحی تحریک کیلئے بار بار اقدامات کیے جائیں تو برائیاں اور انحرافات یقینی طور پر ختم ہوجائیں گے۔ امام حسین سے قبل کوئی بھی اِس راستے سے واقف اور اِس کام سے آگاہ نہ تھا، چونکہ زمانہ پیغمبر ۰ میں یہ کام انجام نہیں دیا گیا تھا، خلفائ کے زمانے میں بھی ایسے حالات نہیں تھے اور امیر المومنین کہ جو معصوم تھے، نے بھی اِس کام کو انجام نہیں دیا تھا۔ یہ امام حسین ہی تھے کہ جنہوں نے عملی طور پر پوری تاریخ انسانیت کو ایک بہت بڑا درس دیا اور درحقیقت خود اپنے زمانے میں اور آنے والے زمانوں میں اسلام کا بیمہ کردیا ۔

سید الشہدا کی یاد اور کربلا کیوں زندہ رہے؟

جہاں بھی حالات اور برائیاں و انحرفات ، امام حسین کے زمانے جیسے ہوں، سید الشہدا وہاں زندہ ہیں اور آپ اپنے شیوہ اور عمل سے بتارہے ہیں کہ آپ لوگوں کو کیا کام انجام دینا چاہیے چنانچہ وہی ذمہ داری اور وظیفہ قرار پائے گی۔ لہٰذا سید الشہدا کی یاد اور ذکر کربلا کو ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے کیونکہ یہ ذکر کربلا ہی ہے جو اِس عمل کو ہمارے سامنے متجلّی کرتا ہے۔

افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی ممالک میں کربلا کو جس طرح پہچاننا چاہیے تھے ، پہچانا نہیں گیا۔ اقوام عالم کو چاہیے کہ اِسے پہچانیں، ہمارے ملک میں کربلا کی شناخت صحیح طور پر موجود ہے؛ ہماری عوام (کئی صدیوں سے) امام حسین کی شناخت رکھتی ہے اور اُن کے قیام سے واقف و آگاہ ہے۔ معاشرے میں حسینی روح موجود تھی لہٰذا جب امام خمینی ۲ نے فرمایا کہ محرم وہ مہینہ ہے کہ’’ جب خون، تلوار پر کامیاب ہوگیا ‘‘تو ہماری عوام نے کسی قسم کا تعجب نہیں کیا۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ خون اور مظلومیت، ظلم وشمشیر پر غالب آگئی۔

وہ درس جو طوطوں نے اسیر طوطے کودیا

میں نے کئی سال قبل البتہ قبل از انقلاب ، کسی محفل میں ایک مثال بیان کی تھی کہ جسے مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں بیان کیا ہے۔

یہ مَثَل ہے اور اِسے حقائق کوبیان کرنے کیلئے سنایا جاتا ہے۔ ایک تاجر نے اپنے گھر میں پنجرے میں ایک طوطے کو پالا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ جب اُس نے ہندوستان جانے کا ارادہ کیا تو اپنے اہل و عیال سے خدا حافظی کی اور اپنے اِس طوطے سے بھی خدا حافظی کی۔ اُس نے اپنے طوطے سے کہا کہ ’’میں ہندوستان جارہا ہوں جو تمہارا ملک اور تمہاری سرزمین ہے‘‘۔

طوطے نے کہا ’’تم ہندوستان میں فلاں جگہ جانا، وہاں میرے عزیز و اقارب اور دوست احباب ہیں ، اُن سے کہنا کہ تمہاری قوم کا ایک طوطا میرے گھر میں پنجرے میں ہے، یعنی میری حالت کو اُن کیلئے بیان کرنا؛ اِس کے علاوہ میں تم سے کسی اور چیز کا طلبگار نہیں ہوں‘‘۔

یہ شخص ہندوستان گیا اور ا س جگہ گیا کہ جہاں کا پتہ اُس کے طوطے نے دیا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ بہت سے طوطے درختوں پر بیٹھے ہیں، اُس نے اونچی آواز میں سب کو مخاطب کیا اور کہا کہ اے ’’پیارے اور اچھے طوطوں! میں تمہارے لیے ایک پیغام لایا ہوں۔ تمہاری قوم کا ایک طوطا میرے گھر میں ہے، وہ بہت اچھی حالت میں زندگی بسر کررہا ہے اور میں نے اُسے پنجرے میں قید کیا ہوا ہے، میں اُسے اچھی غذائیں دیتا ہوں اور اُس نے تم سب کو سلام کہا ہے‘‘۔ ابھی تاجر نے اتنا ہی کہا تھا کہ اُس نے دیکھا کہ وہ طوطے جو درختوں پر بیٹھے تھے ، اچانک اُنہوں نے اپنے پروں کو پھڑپھڑایا اور زمین پر گر پڑے ۔ یہ شخص آگے بڑھا تو دیکھا کہ یہ طوطے مرچکے ہیں، اُسے بہت افسوس ہوا کہ میں نے ایسی بات ہی کیوں کی کہ جس کو سُننے سے یہ سارے پرندے مثلاً پانچ دس طوطے اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا اور اب کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

تاجر جب اپنے وطن لوٹا اور اپنے گھر پہنچنے کے بعد طوطے کے پنجرے کے پاس گیا تو اُس نے کہا کہ ’’میں نے تمہارا پیغام انہیں پہنچادیا تھا‘‘ ۔ طوطے نے پوچھا کہ ’’اُنہوں نے کیا جواب دیا‘‘۔ تاجر نے کہا کہ ’’جب انہوں نے مجھ سے تمہارا پیغام سنا تو پروں کو پھڑپھڑایا اور زمین پر گر کر مرگئے‘‘۔ ابھی تاجر نے اتنا ہی کہا تھا کہ اُس نے دیکھا کہ طوطے نے پنجرے میں پر پھڑپھڑائے اور گر کر مرگیا۔ تاجر کو اُس کی موت کا بہت افسوس ہوا، اُس نے پنجرے کا دروازہ کھولا کیونکہ اِس مردہ طوطے کو پنجرے میں رکھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اُس نے طوطے کو پنجوں سے پکڑا اور چھت کی طرف اچھال دیا۔ طوطا جیسے ہی ہوا میں اچھلا ، اُس نے فضا میں ہی اپنے پروں کو پھڑپھڑانا شروع کردیا اور دیوار پر جا بیٹھا اور کہنے لگا کہ ’’اے تاجر ، اے میرے دوست، میں تمہارا بہت احسان مند ہوں کہ تم نے خود میری رہائی کے اسباب فراہم کیے۔ میں مرا نہیں تھا بلکہ مردہ بن گیا تھا ! یہ وہ درس تھا کہ جسے ہندوستان کے طوطوں نے مجھے دیا ہے۔ جب وہ متوجہ ہوئے کہ میں یہاں پنجرے میں قید ہوں تو انہوں نے سوچا کہ وہ کس زبان سے کہیں کہ میں کیا کام کروں تاکہ قید سے رہائی حاصل کرسکوں؟ اُنہوں نے عملی طور پر مجھے بتایا کہ یہ کام انجام دوں تاکہ اسیری سے رہائی پاوں! مرجاو تاکہ زندہ ہوسکو ( اور آزادی کی زندگی گذارو)! میں نے اُن کے پیغام کو تمہارے ذریعہ سے سمجھ لیا۔ یہ وہ درس تھا کہ جو ہزاروں میل دور اُس جگہ سے مجھ تک پہنچا اور میں نے اُس درس سے اپنی نجات و آزادی کیلئے اقدام کیا‘‘۔

میں نے اُسی محفل میں تقریباً بیس بائیس سال قبل(۱۳۹۶ ہجر ی ) موجود مرد و خواتین سے عرض کیا کہ محترم سامعین، امام حسین کس زبان سے ہمیں سمجھائیں کہ تم سب کی ذمہ داری کیا ہے؟

امام حسین نے اپنے عظیم عمل سے ذمہ داری کو واضح کردیا

ہمارے زمانے کے حالات ، امام حسین کے زمانے کے حالات جیسے ہیں اور آج کی زندگی ، ویسی ہی زندگی ہے اور اسلام وہی اسلام ہے جو سید الشہدا کے زمانے میں تھا۔ اگر امام حسین سے ایک جملہ بھی نقل نہ کیا جاتا تب بھی ہمیں چاہیے تھا کہ ہم سمجھیں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

وہ قوم جو اسیر اور غیر ملکی طاقتوں کی زنجیروں میں قید ہے، جس کے اعلی عہدیدار برائیوں کا علی الاعلان ارتکاب کررہے ہیں، وہ قوم کہ جس پر دُشمنان دین حکومت کررہے ہیں اور اُس کی قسمت اور زندگی کے فیصلوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے، لہٰذا تاریخ سے سبق لینا چاہیے کہ اِن حالات میں ذمہ داری کیا ہے۔ چونکہ فرزند پیغمبر ۰ نے عملی طور پر یہ بتادیا ہے کہ اِس قسم کے حالات میں کیا کام کرنا چاہیے۔

یہ درس ، زبان سے نہیں دیا جاسکتا تھا؛ اگر امام حسین اِسی درس کو سو مرتبہ بھی زبان سے کہتے اور عملی طور پر خود تشریف نہیں لے جاتے تو ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ کا یہ پیغام صدیوں پر محیط ہوجاتا؛ صرف نصیحت کرنے اور زبانی جمع خرچ سے یہ پیغام صدیوں کا فاصلہ طے نہیں کرپاتا اور تاریخ کے اُسی دور میں ہی دفن ہوجاتا۔ ایسے پیغام کو صدیوں تک پھیلانے اور تاریخ کا سفر طے کرنے کیلئے عمل کی ضرورت تھی اور وہ بھی ایسا عمل کہ جو بہت عظیم ہو، سخت مشکلات کا سامنا کرنے والا ہو، جو ایثار و فداکاری اور عظمت کے ساتھ ہو اور پُر درد بھی ہو کہ جسے صرف امام حسین نے ہی انجام دیا!

حقیقت تو یہ ہے کہ واقعہ کربلا میں روز عاشورا کے سے جو واقعات و حادثات ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں، اُن کیلئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعات و حادثات ، پوری تاریخ بشریت میں اپنی نوعیت کے بے مثل و نظیر واقعات ہیں۔ جس طرح پیغمبر اکرم ۰ نے فرمایا، امیر المومنین نے فرمایا اور امام حسن مجتبی نے فرمایا اور جو کچھ واقعات میں آیا ہے کہ’’لَا يَومَ کَيَومِکَ يَا اَبَا عَبدِ اللّٰهِ ‘‘(۱۳) ،’’اے ابا عبداللہ ! (امام حس ین ) کوئی دن بھی آپ کے دن،( عاشورا، کربلا اور آپ کے اِس حادثے )کی طرح نہیں ہے‘‘۔(۱۴)

مختلف قسم کی ذمہ داریوں میں سے اصلی ذمے داری کی تشخیص

تحریک کربلا میں بہت سے نکات مضمر ہیں کہ اگر امت مسلمہ اور دانشور حضرات و مفکرین اِس سلسلے میں مختلف جہات سے تحقیق کریں جو اِس واقعہ اور اِس سے متعلق قبل و بعد کے امور ، مذہبی زندگی کی راہوں اور مختلف قسم کے حالات میں موجودہ اور آنے والی مسلمان نسلوں کیلئے اُن کے وظائف اور ذمہ داریوں کو مشخص کردیں گے۔

واقعہ کربلا کے درسوں میں سے ایک نہایت ہی اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت سید الشہدا نے تاریخ اسلام کے بہت ہی حساس دور میں مختلف قسم کی ذمہ داریوں میں سے اپنے اصلی اور حقیقی ذمہ داری کہ جو مختلف جہات سے قابل اہمیت تھی ، کو تشخیص دیا اور اُس ذمہ داری کو ادا بھی کیا اور ساتھ ہی آپ اُس امر کی شناخت میں شک وتردید اور توھّم کا شکار نہیں ہوئے کہ جس کی دنیائے اسلام کو اُس وقت اشد ضرورت تھی۔ خود یہ امر وہ چیز ہے کہ جو مختلف زمانوں میں مسلمانوں کی زندگی کیلئے باعث خطرہ بنا ہو اہے، یعنی یہ کہ ایک قوم کی اکثریت ، اُس کے سربراہ و حاکم اور امت مسلمہ کے چیدہ چیدہ اور خاص افراد خاص حالات میں اپنی اصلی ذمہ داری کی شناخت و تشخیص میں غلطی کر بیٹھیں اور وہ یہ نہ جانیں کہ کون سا کام اِس وقت لازمی ہے کہ جسے اِس وقت انجام دینا ضروری ہے اور دوسرے امور کو _ اگر لازمی ہوا_ اِس پر قربان کرنا چاہیے اور وہ یہ تشخیص نہ دے سکیں کہ کون سا امر ثانوی حیثیت کا حامل ہے اور وہ یہ سمجھ نہ سکیں کہ ہر قدم و ہرکام کو اُس کی حیثیت کے مطابق اہمیت دینی چاہیے اور اُسی کے مطابق اُس کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے۔

امام حسین کی تحریک کے زمانے میں ایسے افراد بھی تھے کہ اگر اِس بارے میں اُن سے گفتگو کی جاتی کہ ہمیں ہر صورت میں قیام کرنا چاہیے تو وہ سمجھ جاتے کہ اِ س قیام کے نتیجے میں بہت سی مشکلات و مصائب اُن کا انتظار کررہے ہیں تو وہ ثانوی حیثیت والے امور کو توجہ دیتے اور دوسرے درجے کی ذمہ داریوں کی تلاش میں نکل پڑتے! بالکل ایسا ہی ہوا کہ ہم نے دیکھا کہ کچھ افراد نے عیناً یہی کام انجام دیا؛ امام حسین کے ساتھ نہ آنے والے افراد میں بہت سے مومن اور دیندار افراد موجود تھے ، ایسا نہیں تھا کہ نہ آنے والے سب کے سب دنیادارہوں۔

اُس زمانے میں دنیائے اسلام کے بڑے بڑے افراد اور خاص شخصیات میں اہل ایمان ، مومن اور اپنے وظیفے اور ذمہ داریوں پر عمل کرنے کے خواہشمند افراد بھی تھے لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں کو تشخیص دینے والی صلاحیت سے عاری تھے اور اُن میں یہ قابلیت نہیں تھی کہ حالات کے دھارے کو سمجھیں یا نوشتہ دیوار پڑھیں اور اپنے اصلی اور حقیقی دشمن کو سمجھیں۔ یہ افراد جوبظاہر مومن اور دیندار تھے اپنے اصلی اور لازم الاجرائ امور اور دوسرے اور تیسرے درجے کے کاموں کی تشخیص میں غلطی کر بیٹھے اور یہ امر اُن بڑی آفت اور بلاؤں سے تعلق رکھتا ہے کہ جس میں امت مسلمہ ہمیشہ گرفتار رہی ہے۔

معاشرتی زندگی اور اُس کی بقا میں حقیقی ذمہ داری کی شناخت کی اہمیت

آج ممکن ہے کہ ہم بھی اِس بلا میں گرفتار ہوجائیں اور اہم ترین افر اور کم اہمیت والے امر کی تشخیص میں غلطی کر بیٹھیں۔ لہٰذا حقیقی ذمہ داری کی شناخت بہت ضروری ہے جو کسی بھی معاشرے کی حیات و بقا میں بہت اہمیت کی حامل ہو تی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ اِس ملک میں استعمار، استبداد اور طاغوتی نظام حکومت کے خلاف میدانِ مبارزہ موجود تھا لیکن بعض ایسے افراد بھی تھے جو اِ س مبارزے اور قیام کو اپنا وظیفہ نہیں سمجھتے تھے اور اُنہوں نے دوسرے امور کو اپنا ہدف بنایا ہوا تھا۔ اگر کوئی اُس وقت کسی جگہ تدریس علم میں مصروف عمل تھا یا کسی کتاب کی تالیف وجمع آوری میں کوشاں تھا ، یا اگر محدود پیمانے پر تبلیغ میں سرگرم عمل تھا یا اگر کسی نے دینی و مذہبی امور کے ساتھ ساتھ مختصر پیمانے پر عوام الناس کی ہدایت کو اپنے ذمہ لیے ہوا تھا تو وہ یہ سوچتا تھا کہ اگر وہ جہاد میں مصروف ہوجائے گا تو یہ سارے امور یونہی ادھورے پڑے رہ جائیں گے ! لہٰذا وہ اِس فکر و خیال کے نتیجے میں اُس عظیم اور اہمیت والے جہاد اور قیام کو ترک کردیتا تھا اور لازم و غیر ضروری یا اہم ترین اور اہم امور کی تشخیص میں غلطی کر بیٹھتا تھا۔

سید الشہدا نے اپنے بیانات سے ہمیں سمجھایا کہ ایسے حالات میں طاغوتی طاقتوں سے مقابلہ اور طاغوتی اور شیطانی قدرت و طاقتوں سے انسانوں کی نجات کیلئے اقدام کرنا دنیائے اسلام کیلئے واجب ترین کاموں میں سے ایک کام ہے۔ واضح ہے کہ سید الشہدا اگر مدینے میں ہی قیام پذیر رہتے تو عوام میں احکام الٰہی اور تعلیمات اہل بیت کی تبلیغ فرماتے اور کچھ افراد کی تربیت کرتے ؛لیکن اگر ایک حادثہ رُونما ہونے کی وجہ سے مثلاً عراق کی طرف حرکت فرماتے تو آپ کو اِن تمام کاموں کو خیر آباد کہنا پڑتا اور اِس حالت میں آپ لوگوں کو نماز اوراحادیث نبوی ۰ کی تعلیم نہیں دے سکتے تھے، آپ کو اپنے درس و مکتب اور تعلیمات کے بیان کو خدا حافظ کہنا پڑتا اور یتیموں ، مفلسوں اور فقرائ کی مدد کہ جو آپ مدینے میں انجام دیتے تھے، سب کو چھوڑنا پڑتا!

اِن تمام امور میں سے ہر ایک ایسا وظیفہ تھا کہ جسے سید الشہدا انجام دے رہے تھے لیکن آپ نے یہ تمام ذمہ داریاں ایک عظیم اور اہم ذمہ داری پر قربان کردی! یہاں تک کہ حج بیت اللہ کو اُس کے آغاز میں کہ جب مسلمان پوری دنیا سے حج کیلئے آرہے تھے، اِس عظیم ترین فریضے پر فدا کردیا، بالآخر وہ ذمہ داری کیا تھی؟

آج واجب ترین کام کیا ہے؟

جیسا کہ خود امام حسین نے۷ فرما یا کہ ظلم و فساد اوربرائی کے نظام سے مقابلہ واجبات میں سے ایک واجب ہے۔’’اُرِیدُ اَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَ اَنهٰی عَنِ المُنکَرِ وَاُسِیرُ بِسِیرَةِ جَدَّ وَاَبِ ‘‘(۱۵) یا ایک اور خطبے میں آپ نے ارشاد فرمایا:’’اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ قَد قَالَ فِی حَيَاتِهِ مَن رَآَی سُلطَاناً جَآئِرًا مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰهِ نَاکِثًا لِعَهدِ اللّٰهِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ يَعمَلُ فِی عِبَادِ اللّٰهِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰى اللّٰهِ اَن يَدخُلَهُ مَدخَلَهُ ‘‘(۱۶) یعنی وظیفہ ’’اِغَارَۃ‘‘ ہے یا بہ عبارت دیگر ایسے سلطان ظلم و جور کے خلاف حالات کو تبدیل کرنا کہ جو برائیوں کو عام کررہا ہے اور ایسے نظام حکومت کے خلاف قیام کرنا جو انسانوں کو نابودی اور مادی اور معنوی فنا کی طرف کھینچ رہا ہے۔

یہ تھی امام حسین اِس کی تحریک کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مصداق بھی قرار دیا گیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری میں حتماً اِن نکات کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ سید الشہدا ایک اہم ترین واجب کی ادائیگی کیلئے اقدام کرتے ہیں اور دوسری بہت سی اہم ذمہ داریوں کو اِس اہم ترین ذمہ داری پر قربان کردیتے ہیں اور اِس بات کو تشخیص کرتے ہیں کہ آج کیا ذمہ داری ہے؟

آج اِس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ ہم دشمن کی شناخت اور اُس سے مقابلے کیلئے ضروری اقدامات میں غلطی کریں!

ہر زمانے میں اسلامی معاشرے کیلئے ایک خاص قسم کی ذمہ داری معین ہے کہ جب دشمن اور باطل قوتوں کا محاذ، عالم اسلام اور مسلمانوں کو اپنے نشانے پر لے آئے تو کیا کیا جا ئے؟ اگر ہم نے دشمن کی شناخت میں غلطی کی اور اُس جہت کو تشخیص نہیں دے سکے کہ جہاں سے اسلام اور مسلمانوں کو خسارہ اٹھانا پڑے گا اور جہاں سے اُن پر حملہ کیا جائے گا تو نتیجے میں ایسا نقصان و خسارہ سامنے آئے گا کہ جس کا ازالہ کرنا ممکن نہیں ہوگا اور بہت بڑی فرصت ہاتھ سے نکل جائے گی۔

بحیثیت امت مسلمہ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ پوری ملت اسلامیہ اور اپنی عوام کیلئے اپنی اِسی ہوشیاری، توجہ، دشمن شناسی اور وظیفے کی تشخیص کو ہر ممکن طریقے سے اعلی درجہ تک پہنچانے کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔

آج اسلامی حکومت کی تشکیل اور پرچم اسلام کے لہرائے جانے کے بعد ایسے امکانات اور فرصت کے لمحات مسلمانوں کے اختیار میں ہیں کہ تاریخ اسلام میں اُس کے آغاز سے لے کر آج تک جس کی مثال نہیں ملتی۔ آج ہمیں کوئی حق نہیں کہ شناخت دشمن اور اُس کے حملے کی جہت سے آگاہی میں غلطی کریں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے لے کر آج تک امام خمینی ۲ اور اُن کی راہ پر قدم اٹھانے والی شخصیات کی یہی کوشش رہی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ موجودہ دنیا میں مسلمانوں، ایران کے اسلامی معاشرے ، حق اور عدل و انصاف کو قائم کرنے میں دشمن کی کون سی سازش اور چال سب سے زیادہ خطرناک ہے!

گذشتہ سالوں کی طرح آج بھی (انقلاب اسلامی کو اُس کے بلند وبالا مقصد و ہدف کی طرف پیش قدمی سے روکنے کیلئے عالمی کفر و استکبار کی طرف سے دشمنی ، حملے اور تمام تر خطرات اپنے عروج پر ہیں! یہ وہ بزرگترین خطرہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو لاحق ہے۔ صحیح ہے کہ ایک معاشرے کے اندرونی اختلافات اور ضعف و کمزوری،دشمن کے حملے کی زمین ہموار کرتے ہیں لیکن دشمن اپنے مد مقابل افراد کی اِسی ضعف و کمزوری کو اپنے تمام تر وسائل اور امکانات کے ساتھ ایک صحیح و سالم معاشرے پر تھونپ دیتا ہے لہٰذا ہمیں اِس بارے میں ہرگز غلطی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ آج اسلامی معاشرے کی حرکت کی جہت کو عالمی استکبار سے مقابلے اور اُس کی بیخ کنی کی جہت میں ہونا چاہیے کہ جس نے اپنے پنجوں کو پوری دنیا ئے اسلام میں گاڑا ہو اہے۔(۱۷)

____________________

۱ بحارالانوار ، جلد ۲ ص ۱۷۰

۲ سورہ مائدہ / ۵۴

۳ جب یہ لوگ دین شناس اور صاحب فہم و ادرک تھے تو اتنی سی بات کیوں نہیں سمجھ سکے جو امام حسین نے سمجھی؟! جواب یہ ہے کہ صحیح ہے کہ یہ لوگ دین شناس تھے مگر چونکہ ایسے حالات کبھی پیش نہیں آئے تھے لہٰذا اُن کے ذہن میں وہ بات نہیں آئی کہ جو امام حسین کے ذہن میں آئی۔(مترجم)

۴ بحار الانوار ، جلد ۴۴، س ۳۲۵

۵ امام حسین نے یہ نہیں فرمایا کہ جب صرف ۶ ۱ ہجری کا یزید مسلمانوں پر مسلط ہوجائے بلکہ آپ نے فرمایا کہ مثل یزید، یعنی یزید جیسا کوئی بھی شخص خواہ وہ ۶ ۱ ہجری یزید ہو یا کسی بھی زمانے کا ظالم و ستمگر ۔واقعہ کربلا میں یزید کی ذات سے نہیں بلکہ یزیدی فکر اور یزیدیت سے جنگ تھی۔ (مترجم)

۶ و ۷ بحار الانوار، جلد ۴۴، ص ۳۲ ۹

۸ حوالہ سابق

۹ بحار الانوار جلد ۴۴، صفحہ ۲۳۵

۱۰ بحار الانوار جلد ۴۴ ، صفحہ ۳۸۲

۱۱ بحار الانوار ج ۴۴، صفحہ ۳۸۱

۱۲ حوالہ سابق

۱۳ بحار الانوار، جلد ۴۵ ، صفحہ ۲۱۸ ۱۴ خطبہ نماز جمعہ، ۱۰ محرم ۱۴۱ ۶ ہجری

۱۵ بحار الانوار، جلد ۴۴، صفحہ ۳۲ ۹ ۱۶ بحار الانوار، جلد ۴۴، صفحہ ۳۸۲

۱۷ علما سے خطاب، ۷/ ۵/۱۳۷۱

امام حسین کے قیام اورمقصد شہادت سے متعلق مختلف نظریات

الف:کیا امام حسین کا قیام تشکیل حکومت کیلئے تھا؟

بہت سے افراد یہ کہتے ہیں کہ امام حسین ، یزید کی فاسد حکومت کو ختم کرکے خود ایک حکومت تشکیل دینے کے خواہش مند تھے؛ یہ ہے اِن افراد کی نگاہوں میں سید الشہدا کے قیام کا مقصد۔ یہ بات تقریباً آدھی درست ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے۔ اگر اس نظریے کا مقصد یہ ہے کہ امام حسین نے تشکیل حکومت کیلئے اس طرح قیام کیا کہ اگر وہ دیکھتے کہ انسان اپنے نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا تو وہ یہ کہتے کہ ہم حکومت تو نہیں بنا سکے لہٰذا اِس تحریک کو یہیں ختم کرکے واپس لوٹ جاتے ہیں ! یہ بات غلط ہے۔

جی ہاں جو بھی حکومت بنانے کی غرض سے قدم اٹھاتا اور اُس کے لیے تحریک چلاتا ہے تو وہاں تک کوشش کرتا ہے کہ جہاں تک یہ کام ممکن اور شدنی ہے لیکن جیسے ہی اُسے اُس کام کے نہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے یا وہ عقلی طورپر مقصد تک جانے والی راہوں کو مسدود پاتا ہے تو اُس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوٹ آئے۔ اگر تشکیل حکومت ہی انسان کا مقصد ہے تو وہاں تک کوشش کرنا صحیح ہے کہ جہاں تک پیش رفت کرنا ممکن ہو اور جہاں اقدام کرنے کا امکان ختم ہوجائے تو اُسے لوٹ جانا چاہیے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اپنے قیام سے سید الشہدا کا مقصد امیر المومنین کی مانند ایک حکومت حق کی تشکیل تھی یہ بات درست نہیں ہے، اِس لئے کہ امام حسین کی پوری تحریک اس نظریے کی تائید نہیں کرتی ۔

اِس کے مقابل کچھ افراد کا نظریہ ہے کہ نہیں جناب، حکومت بنانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؛ حضرت جانتے تھے کہ وہ حکومت نہیں بناسکتے ہیں، وہ تو کربلا اس لیے آئے تھے کہ قتل ہوں اور درجہ شہادت پر فائز ہوں! ایک زمانے میں بہت زیادہ افراد اِس نظریے کے حامی اور طرفدارتھے اور بہت سے شعرائ اِس نظریے کو اپنی خوبصورت شاعری کے قالب میں ڈھال کر عوام کیلئے بیان کرتے تھے ۔ بعد میں مَیں نے دیکھا کہ بعض بڑے علمائ نے بھی اِسی بات کو بیان کیا؛ یعنی حضرت امام حسین نے صرف اس لیے قیام کیا تھا کہ وہ شہید ہوجائیں لیکن درحقیقت یہ کوئی نئی بات اور نیا نظریہ نہیں ہے۔ لہٰذا اِن افراد کے نظریے کے مطابق سالار شہیداں نے یہ کہا کہ’’ ہمارے زندہ رہنے سے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا پس ہم اپنی شہادت سے کوئی کام انجام دیتے ہیں‘‘!

ب:کیا امام حسین نے شہادت کیلئے قیام فرمایاتھا؟

قرآن واہل بیت کی تعلیمات میں ان باتوں کی کوئی سند و اعتبار نہیں ہے کہ ’’جاو اور بغیر کسی وجہ کے شہید ہوجاؤ‘‘؛ اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی!

ہم شریعت مقدس اور قرآن وروایات میں جس شہادت کا ذکر پاتے ہیں اُس کا معنی یہ ہے کہ انسان ایک واجب یا راجح (عقلی) مقدس ہدف کے حصول کی راہ میں جدوجہد کرے اور اُس راہ میں قتل کیا جائے؛ یہ ہے صحیح اسلامی شہادت۔ لیکن اگر انسان صرف اس لیے قدم اٹھائے کہ میں جاوں اور بغیر کسی وجہ کے قتل ہوجاوں یا شاعرانہ اور ادیبانہ تعبیر کے مطابق میرے خون کا سیلاب ظالم کو بہاکر لے جائے اور وہ نیست و نابود ہوجائے! یہ تمام چیزیں ، واقعہ کربلا کے عظیم واقعہ سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتیں۔ صحیح ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ امام حسین کی شہادت نے یہ کام انجام دیا لیکن سید الشہدا کا مقصد یہ نہیں تھا۔

المختصر یہ کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سید الشہدا نے تشکیل حکومت کیلئے قیام کیا تھا اور اُن کا مقصد حکومت بنانا تھا اور نہ ہی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سید الشہدا نے شہید ہونے کیلئے قیام کیا تھا بلکہ آپ کا ہدف کوئی اور چیز تھی کہ جسے آپ کی خدمت میں بیان کرنا چا ہتا ہوں۔

حکومت و شہادت دونتیجے تھے نہ کہ ہدف!

میں تحقیق و مطالعہ سے اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ لوگ جو اس بات کے معتقد ہیں کہ امام حسین کا ہدف حکومت یا شہادت تھا، اُنہوں نے ہدف اور نتیجے کو آپس میں ملا دیا ہے، اِن میں سے کوئی ایک بھی سید الشہدا کا ہدف نہیں تھا بلکہ ایک دوسری ہی چیز سید الشہدا کا ہدف تھی۔ پس فرق یہ ہے کہ اُس ہدف کے حصول کیلئے ایک ایسی تحریک و جدوجہد کی ضرورت تھی کہ جس کا اِن دو میں سے ایک نتیجہ نکلنا تھا، یا حکومت ملتی یا شہادت۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ سید الشہدا دونوں نتیجوں کیلئے پہلے سے آمادہ اور تیار تھے؛ اُنہوں نے حکومت کی تشکیل اور شہادت کیلئے مقدمات کو تیار کرلیا تھا اور دونوں کیلئے پہلے سے خود کو آمادہ کیا ہوا تھا؛ دونوں میں سے جو بھی نتیجہ سامنے آتا وہ اُن کی منصوبہ بندی کے مطابق صحیح ہوتا لیکن حکومت و شہادت میں سے کوئی ایک بھی اُن کا ہدف نہیں تھا بلکہ ایک تیسری ہی چیز اُن کا ہدف تھی۔

ہدف، ایسے عظیم واجب کو انجام دینا تھا کہ جس پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا تھا!

سید الشہدا کا ہدف کیا تھا؟ پہلے اس ہدف کو مختصراً ایک جملے میں ذکر کروں گا اور اِس کے بعد اِس کی مختصر سی وضاحت کروں گا۔

اگر ہم امام حسین کے ہدف کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس طرح کہنا چاہیے کہ اُن کا ہدف واجبات دین میں سے ایک عظیم ترین واجب کو انجام دینے سے عبارت تھا کہ جس کو سید الشہدا سے قبل کسی ایک نے ، حتی خود پیغمبر اکرم ۰ ، امیر المومنین اور امام حسن مجتبی نے بھی انجام نہیں دیا تھا۔

وہ ایسا واجب تھا کہ جو اسلام کے عملی اور فکری نظام میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے؛ یہ واجب بہت زیادہ قابل اہمیت اوربنیادی حیثیت کا حامل تھا لیکن اِس کے باوجود اُس پر عمل نہیں ہوا تھا ۔ میں آگے چل کر یہ عرض کروں گا کہ اِس واجب پر ابھی تک عمل کیوں نہیں ہوا تھا، امام حسین کو اِ س واجب پر عمل کرنا چاہیے تھا تاکہ تاریخ میں سب کیلئے ایک درس رہ جائے۔ جس طرح پیغمبر اکرم ۰ نے حکومت تشکیل دی تو آپ کا حکومت کو تشکیل دینا پوری تاریخ اسلام میں سب کیلئے درس بن گیا۔ رسول اللہ ۰ نے فقط احکام جاری نہیں کیے تھے بلکہ پوری ایک حکومت بنائی تھی یا حضرت ختمی مرتبت ۰ نے جہاد فی سبیل اللہ انجام دیا تو یہ تا ابد تاریخ بشریت اور تاریخ اسلام کیلئے ایک درس بن گیا۔ اِسی طرح اِس واجب کو بھی امام حسین کے وسیلے سے انجام پانا چاہیے تھا تاکہ پوری تاریخ کے مسلمانوں کیلئے ایک عملی درس بن سکے۔

امام حسین کے زمانے میں اِس واجب کو انجام دینے کی راہ ہموار ہوئی!

اب سوال یہ ہے کہ امام حسین ہی کیوں اِ س واجب پر عمل کریں؟چونکہ اِس واجب کو انجام دینے کی راہ امام حسین کے دور میں ہی ہموار ہوئی۔ اگر یہ حالات امام حسین کے زمانے میں پیش نہیں آتے مثلاً امام علی نقی کے زمانے میں یہ حالات پیش آتے تو امام علی نقی اِس کام کو انجام دیتے اورتاریخ اسلام میں عظیم ترین حادثے اور ذبح عظیم کا محور قرار پاتے؛ اگر یہ حالات امام حسن مجتبی یا امام جعفر صادق کے زمانے میں پیش آتے تو یہ دونوں ہستیاں اِسی طرح عمل کرتیں،چونکہ امام حسین سے قبل کسی اور معصوم کے زمانے میں یہ حالات پیش نہیں آئے تھے لہٰذا کسی معصوم نے اُس پر عمل نہیں کیا تھا اور اسی طرح امام حسین کے بعد بھی زمانہ غیبت تک تمام آئمہ طاہرین کے دور میں بھی یہ حالات پیش نہیں آئے۔

پس سید الشہدا کا ہدف اِ س عظیم ترین واجب کو انجام دینے سے عبارت ہے، اب میں اِس کی وضاحت کرتا ہوں کہ یہ واجب کیا ہے ؟ اُس وقت اِس واجب کی ادائیگی خود بخود اِن دو نتیجوں میں سے کسی ایک تک پہنچتی؛ یا اُس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ امام حسین کو قدرت و حکومت حاصل ہوجاتی،سبحان اللہ؛ بہت خوب، اور امام حسین اس کیلئے پہلے سے تیار تھے۔ اگر حکومت کی زمام سید الشہدا کے ہاتھ میں آجاتی تو آپ پوری طاقت و قدرت کے ساتھ اُسے اپنے ہاتھ میں لے لیتے اور اپنے معاشرے کو رسول اکرم ۰ و امیر المومنین کے زمانے کی مانند چلاتے ؛ ایک وقت اس واجب پر عمل پیر اہونے کا نتیجہ شہادت کی شکل میں نکلتا تو بھی امام حسین شہادت اور اس کے بعد کے حالات و واقعات کیلئے پہلے سے تیار تھے۔

خداوند عالم نے امام حسین سمیت دیگر آئمہ معصومین کو اِس طرح خلق فرمایا تھا کہ اِس امر عظیم کیلئے پیش آنے والی اُس خاص قسم کی شہادت کے بار سنگین کو اٹھا سکیں اور اِن ہستیوں نے اِن تمام مصائب و مشکلات کوبرداشت بھی کیا۔ البتہ کربلا میں مصائب کا پہلو اِس واقعہ کا ایک دوسرا عظیم رخ ہے۔

پیغمبر اکرم ۰ اسلامی احکامات کا مجموعہ لے کر آئے

اب میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کو تھوڑی وضاحت کے ساتھ بیان کروں۔

میرے محترم بہن بھائیو! پیغمبر اکرم ۰ یا کوئی رسول جب بھی خدا کی طرف سے آتا ہے تو اسلامی احکامات کا ایک مجموعہ لیکر آتا ہے۔ اِن میں سے بعض احکامات انفرادی ہوتے ہیں تاکہ انسان اپنی اصلاح کرے اور بعض اجتماعی ہوتے ہیں تاکہ دنیائے بشر کو آباد کرے، انسانوں کی صحیح سمت میں راہنمائی کرے اور انسانی معاشرے کو ایک صحیح نظام کے ذریعے قائم رکھے۔ یہ انفرادی و اجتماعی احکامات ایک مجموعے کی شکل میں ہوتے ہیں کہ جنہیں’’ اسلامی نظام ‘‘کہا جاتا ہے۔

قرآن؛ رسول اکرم ۰ کے قلب مقدس پر نازل ہوا اور حضرت ختمی مرتبت ۰ نماز ، روزہ، زکات، انفاق، حج، گھریلو زندگی کے احکامات، انفرادی رابطے و تعلقات ، جہاد فی سبیل اللہ ، تشکیل حکومت، اسلامی معیشت، حاکم اور عوام کا رابطہ اور حکومت کی نسبت عوام کے وظائف کے احکامات لے کر آئے اِن تمام احکامات کو ایک مجموعے کی شکل میں بشریت کے سامنے پیش کیا اور سب کے سامنے بیان فرمایا۔

’’مَا مِن شَی ئٍ يُقَرِّبُکُم مِنَ الجَنَّةِ وَ يُبَاعِدُکُم مِنَ النَّارِ اِلَّا وَقَد نَهَیتُکُم عَنهُ وَ اَمَر تُکُم بِهِ ‘‘(۱) ؛’’کوئ ی ایسی چیز نہیں جو تمہیں جنت سے قریب کرے اور جہنم سے دور کرے مگر یہ کہ میں نے تمہیں اُس کا حکم نہ دیا ہو اور اُس سے منع نہ کیا ہو‘‘ ۔ حضرت ختمی مرتبت ۰ نے اُن تمام چیزوں کو بیان کیا کہ جو انسان اور ایک انسانی معاشرے کو سعادت و خوش بختی تک پہنچا سکتی ہیں؛ نہ صرف یہ کہ بیان کیا بلکہ اُن پر عمل بھی کیا اور اُنہیں نافذ بھی کیا۔

اب جب پیغمبر اکرم ۰ کی حیات مبارکہ میں اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ تشکیل

پاگیا ،اسلامی اقتصادیات کو متعارف و نافذ کردیا گیا، اسلامی جہاد نے اپنی جڑیں مضبوط کرکے اسلامی حکومت کو دوام بخشا اور زکات نے معاشرے پر سایہ کرلیا اور یوں روئے زمین پر ایک حقیقی اسلامی ملک اور اسلامی نظام حکومت نے جنم لیا۔ اب اِس اسلامی نظام کا مدیر اور رسول اکرم ۰ کے چلائے ہوئے کارواں کا رہبرو ہادی وہ ہوگا جو اُن کی جگہ پر بیٹھے گا۔

پیغمبر اسلام ۰ کا بتایا ہوا راستہ

رسول اکرم ۰ کا بتایاہوا راستہ بہت واضح اور روشن ہے لہٰذا اِس معاشرے اور اِس سے تعلق رکھنے والے ہر ہر فرد کو چاہیے کہ اِسی راستے پر قدم اٹھائے ، اِسی راستے پر آگے بڑھے اور اِسی راستے سے اپنے ہدف و مقصد تک پہنچے۔ اگر اسلامی معاشرے کی حرکت اِسی راستے پر اور اسی سمت و سو میں ہو تو اُس وقت اُس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام انسان اپنے کمال تک پہنچ جائیں گے؛وہ نیک اور فرشتہ صفت انسان بن جائیں گے ،

معاشرے سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوجائے گا ، معاشرے کو برائیوں ، فساد ، اختلافات ، فقر وافلاس اورجہالت کے

منحوس وجود سے نجات مل جائے گی، انسان اپنی کامل خوش بختی کو پالے گا اور خدا کامقرب بندہ بن جائے گا۔

رسول اکرم ۰ کے ذریعہ اسلام ایک ضابطہ حیات کی حیثیت سے لایا گیا اور اس زمانے کے معاشرے میں نافذ ہوا لیکن کہاں؟ ایک شہر میں کہ جسے مدینہ کہا جاتا ہے، اُس کے بعد مکہ اور دیگر چند شہروں میں اِس اسلامی نظام نے وسعت پائی۔

انحراف کی اقسام

یہاں ایک سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ یہ کارواں جسے پیغمبر اکرم ۰ نے اُس کے معین شدہ راستے پرگامزن کیا تھا،اگر کسی حادثے کا شکار ہوجائے اور کوئی اُس کارواں کو اُس کے معین شدہ راستے سے ہٹا دے تو یہاں وظیفہ کیا ہے؟ اگر اسلامی معاشرہ انحراف کا شکار ہوجائے اور یہ بگاڑ اور انحراف اِ س حد تک آگے بڑھ جائے کہ پورے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو یہاں مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

انحراف کی دو قسمیں ہیں؛ ایک انحراف وہ ہے کہ جس میں لوگ خراب ہوجاتے ہیں، اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے لیکن لوگوں کے منحرف ہونے اور بگڑنے سے اسلامی احکامات ختم نہیں ہوتے ۔ دوسری قسم کا انحراف یہ ہے کہ جب لوگ خرابی کا شکار ہوتے ہیں تو حکومتیں بھی خراب ہوجاتی ہیں اور علمائ اور خطبائ ومقررین بھی انحراف کا شکار ہوجاتے ہیں! ایسے منحرف شدہ افراد سے صحیح دین کی توقع نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ انحراف کا شکار افراد قرآن اور دینی حقائق میں تحریف کرتے ہیں، اچھے کو برا، برے کو اچھا، منکر کو معروف اور معروف کو منکر بناکر پیش کرتے ہیں! اسلام کے بتائے ہوئے راستے کو ۱۸۰ ڈگر ی تبدیل کر دیتے ہیں! اگر اسلامی معاشرہ اور اسلامی نظام اِس مشکل سے دوچار ہوجائے تو یہاں ذمہ داری کیا ہے؟

شرعی ذمہ داری اوراُس کا حکم موجود تھا مگر عمل کیلئے حالات پیش نہیں آئے تھے

پیغمبر اکرم ۰ نے اس سلسلے میں ذمہ داری اور وظیفے کو بیان کردیا ہے اور قرآن نے بھی یہ فرمایا ہے کہ’’مَن يَرتَدَّ مِنکُم عَن دِینِهِ فَسَوفَ يَآتِيَ اللّٰهُ بقَومٍ يُحِبُّهُم و يُحِبُّونَه ‘ ‘‘(۲) ،’’تم م یں سے جو بھی اپنے

دین سے مرتد ہوجائے تو اللہ ایسی قوم لیکر آئے گا کہ اُس سے محبت کرے گا اور وہ قوم بھی اللہ سے محبت کرے

گی‘‘۔ اِ س بارے میں آیات و روایات بہت زیادہ ہیں لیکن میں اِسے امام حسین کے قول کی روشنی میں بیان کرناچاہتا ہوں۔

امام حسین نے پیغمبر اکرم ۰ کی اِس قول کو لوگوں کے سامنے بیان کیا کہ یہ پیغمبر ۰ نے فرمایا ہے تو کیا خود پیغمبر اکرم ۰ نے بھی اِس حکم الٰہی پر عمل کیا تھا؟ نہیں کیا تھا؛کیونکہ یہ حکم الٰہی اُس وقت قابل عمل ہے کہ جب معاشرہ منحرف ہوچکا ہو، اگرمعاشرہ انحراف کا شکار ہوجائے تو اُس کا علاج کرنا چاہیے اور اُس بارے میں خداوند عالم نے ایک خاص حکم جاری کیا ہے۔ ایسے معاشروں کیلئے کہ جہاں معاشرتی انحراف و بگاڑ اِس حد تک آگے بڑھ جائے کہ یہ اصل اسلام اور اُس کی تعلیمات سے انحراف کا سبب بنے تو اِس مقام پر خداوند عالم نے ایک حکم نازل کیا ہے ؛ خداوند عالم نے انسان کو کسی بھی مسئلے میں بغیر حکم کے نہیں چھوڑا ہے۔

حضرت ختمی مرتبت ۰ نے خود اِس حکم خدا کو بیان فرمایا ہے یعنی قرآن و حدیث نے اِس حکم کو بیان کیا ہے لیکن پیغمبر ۰ خود اِس حکم پر عمل درآمد نہیں کرسکے!آخر کیا وجوہات تھیں کہ پیغمبر ۰ نے خود جس حکم کوبیان فرمایا خود اُس پر عمل نہیں کرسکے ؟ وجہ یہ ہے کہ اس حکم الٰہی پر اُس وقت عمل کیا جاتا ہے کہ جب معاشرہ منحرف ہو جائے۔ رسول اکرم ۰ کے عہد رسالت اورامیر المومنین کے عہد ولایت و امامت میں مسلمان معاشرہ اتنا نہیں بگڑا تھا کہ اِس حکم پر عمل کرنے کی نوبت آئے۔ اِسی طرح امام حسن کے دورمیں بھی کہ جب ظاہری حکومت، معاویہ کے ہاتھ میں تھی اور اِس اجتماعی انحراف کی بہت سے نشانیاں ظہور پذیر ہوگئی تھیں لیکن اِس کے باوجود اِس مرحلے تک نہیں پہنچی تھیں کہ جہاں پورے اسلام کی نابودی کا خطرہ پیش آتا۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک خاص زمانے میں ایسی کوئی صورتحال پیش آئی ہو لیکن اُس وقت اِس حکم الٰہی پر عمل کرنے کی فرصت نہ ملی ہو یا موقع مناسب نہ ہو۔ یہ حکم الٰہی جو اسلامی احکامات کا ایک جزئ ہے اور اِس کی اہمیت خود حکومت سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے؛ اِس لیے کہ حکومت کا مطلب ہے معاشرے کی مدیریت۔ اگر معاشرہ بتدریج اپنی راہ سے خارج ہوکر خرابی کا شکار ہوجائے اور حکم خدا تبدیل ہوجائے اور ہمارے پاس اِس خراب حالت کو بدلنے کیلئے کوئی حکم اور منصوبہ بندی موجود نہ ہو تو ایسی حکومت کا کیا فائدہ؟!

منحرف معاشرے کو اُس کی اصلی راہ پر پلٹانے کے حکم کی اہمیت

پس معلوم ہوا کہ منحرف معاشرے کو اُس کی اصلی راہ پر پلٹانے کے حکم کی اہمیت خود حکومت کے حکم ا ور اُس کی اہمیت سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے ۔ شایدیہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اِس حکم کی اہمیت خود کفار سے جہا د کرنے سے بھی زیادہ ہے؛یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ اِس حکم کی اہمیت ایک اسلامی معاشرے میں ایک معمولی قسم کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بھی زیادہ ہے؛ حتی ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شایدمنحرف معاشرے کو اُس کے راستے پر پلٹانے کا حکم خداوند عالم کی طرف سے عظیم فرائض اور واجبات اور حج سے بھی زیادہ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اِس حکم کی اہمیت کیوں زیادہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ درحقیقت یہ حکم اسلام کو کہ جب وہ فنا کے قریب ہو یا ختم ہوگیا ہو، زندہ کرنے کا ضامن ہے۔

اب یہاں ایک سوال اور ابھرتا ہے کہ کون ہے جو اِس اہم ترین حکم پر عمل کرے؟ اس عظیم حکم پر نبی اکرم ۰ کا کوئی جانشین ہی عمل کرسکتا ہے اور وہ ایسے زمانے میں موجود ہو کہ معاشرہ اِس انحراف کا شکار ہوگیا ہو؛ البتہ اِس کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ اِس حکم پر عمل درآمد کیلئے حالات مناسب ہوں؛ اِس لیے کہ خداوند عالم کسی ایسے عمل کو واجب نہیں کرتا کہ جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ لہٰذا اگر حالات نامناسب ہوں اوریہ جانشین نبی ۰ کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے تو اُس کے عمل اور جدوجہد کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا لہٰذا عمل درآمد کرنے کیلئے حالات کو مناسب و موزوں ہونا چاہیے۔

اِس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ حالات کے مناسب ہونے کا معنی کچھ اور ہے؛ نہ یہ کہ ہم یہ کہیں کہ چونکہ اِس حکم کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں خطرات موجود ہیں لہٰذا حالات سازگار نہیں ہیں ! حالات کے سازگار ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے ۔ حالات و شرائط کو مناسب ہونا چاہیے یعنی انسان یہ جانے کہ اگر اُس نے عمل کو انجام دیا تو اِس کا ایک نتیجہ ظاہر ہوگا، یعنی لوگوں تک پیغام پہنچ جائے گا، عوام اِس نتیجے سے حقیقت کو سمجھیں گے اور شک و تردید کے تمام سیاہ بادل اُن کے سامنے سے ہٹ کر حقیقت کا اُفق اُن کیلئے روشن و صاف ہوجائے گا۔

امام حسین کے زمانے میں انحراف بھی تھااور حالات بھی مناسب تھے!

حضرت سید الشہدا کے زمانے میں یہ انحراف وجود میں آچکا تھا اور اِس انحراف کو ختم کرنے کے حکم الٰہی پر عمل درآمد کیلئے حالات بھی مناسب تھے۔ پس اِن حالات میں امام حسین کو قیام کرنا چاہیے تھا کیونکہ انحرافات اور بدعتوں نے اسلامی معاشرے کو مکمل طورسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ مناسب حالات یہ ہیں کہ معاویہ کے بعد ایسا شخص حکومت کا مالک بن بیٹھا ہے (یا جسے پہلے سے تیار شدہ ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت ولی عہد بنایا گیا تھا تاکہ اسلام کو نابود کرنے کے بنو اُمیہ کے دیرینہ منصوبے پر عمل درآمد کیا جاسکے) جو اسلام کے ظاہری احکام و آداب کی ذرّہ برابر بھی رعایت نہیں کرتا ہے! وہ اایسا ( خودساختہ) خلیفہ مسلمین ہے جو شراب پیتا ہے اور اسلامی شریعت کی کھلم کھلا مخالفت اُس کا وطیرہ ہے ، جنسی گناہوں ، دیگر برائیوں اورقبیح ترین اعمال کا علی الاعلان ارتکاب اُس کا شیوہ ہے ، قرآن کے خلاف باتیں کرنا اُس کی عادت ہے، وہ قرآن کی مخالفت اور دین کی تحقیر و اہانت کیلئے اشعار باطلہ سے اپنی محفل کو زینت دیتا ہے؛ خلاصہ یہ کہ وہ اسلام کا کھلا ہوا دشمن ہے!

چونکہ وہ نام کا خلیفہ مسلمین ہے لہٰذا وہ اسلام کے نام کو مکمل طور سے ختم نہیں کرنا چاہتا ۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ نہ اسلام کا پیروکار ہے، نہ اُسے اسلام سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اُس کا دل اسلام کیلئے دھڑکتا ہے بلکہ اپنے عمل میں اُس چشمے کی مانند ہے کہ جس سے مسلسل گند گی اور بدبو دار پانی اُبل اُبل کر پوری وادی کو خراب و بدبودار کررہا ہے اور اپنے وجود کے گندے اور بدبودار اعمال سے پورے اسلامی معاشرے کی فضا کو متعفّن و آلودہ کررہا ہے! ایک برا اور فاسد حاکم ایسا ہی ہوتا ہے ۔ چونکہ حاکم، معاشرے میں سب سے اونچے اور بلند ترین منصب کا حامل ہوتا ہے بالکل ایک بلند ترین چوٹی کی مانند، لہٰذا اُس سے جو بھی عمل صادر ہوگا اُس کے اثرات صرف اُسی چوٹی تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اُس سے نیچے آکر اطراف کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے جبکہ عام عوام و افراد کا عمل اِس خاصیت کا حامل نہیں ہوتا ہے۔

عام افراد کا عمل صرف اُنہی کی چار دیواری اور ذات کے دائرے کے اندر رہتا ہے؛ لیکن جس کا مرتبہ و منصب جتنا بلند ہو اور وہ معاشرے میں جتنے بڑے درجے کا مالک ہو اُس کی برائیوں کا نقصان بھی اُسی نسبت سے زیادہ ہوتا ہے۔ عام آدمیوں کی برائیاں اور غلطیاں ممکن ہے کہ صرف اُنہی کیلئے یا اُن کے اطراف میں موجود چند افراد کیلئے نقصان دہ ہوں لیکن جو کسی بڑے عہدے اور درجے کا مالک ہے اگر برائیوں اور غلطیوں کا ارتکاب کرنے لگے تو اُس کے اعمال کے برے اثرات اطراف میں پھیل کر پورے معاشرتی ماحول کو آلودہ کردیں گے۔ اِسی طرح اگر معاشرے میں کسی اعلی منصب و مرتبے پر فائز ہونے والا شخص نیک ہوجائے تو اُس کے نیک اعمال کے اثرات اور خوشبو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیکر ماحول و فضا کو معطر کردے گی۔

معاویہ کے بعدایک ایسا ہی شخص منبر رسول ۰ پر بیٹھ کر خلیفہ مسلمین بن گیا ہے اور اپنے آپ کو جانشین پیغمبر ۰ کہتا ہے ! کیا اِس سے بڑھ کر بھی کوئی انحراف ہوگا؟! اب اِس حکم الٰہی پر عمل درآمد کرنے کے حالات و شرایط مہیا ہوگئے ہیں۔ حالات مناسب و سازگار ہیں، اِس کا مطلب کیا ہے؟ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِس راہ میں کوئی خطرہ موجود نہیں ہے؟ کیوں نہیں، خطرہ موجود ہے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ کسی اقتدار کا مالک اپنے مقابلے پر آنے والوں کیلئے خطرناک ثابت نہ ہو؟! یہ تو کھلی جنگ ہے؛ آپ چاہتے ہیں کہ اُس کا تخت و تاج اور اقتدار چھین لیں او ر وہ بیٹھ کر صرف تماشا دیکھے! واضح سی بات ہے کہ وہ بھی پلٹ کر آپ پر حملہ کرے گا، پس خطرہ ہر حال میں موجود ہے۔

سب آئمہ کا مقام امامت برابر ہے!

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ حالات مناسب ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کا ماحول اور سیاسی و اجتماعی حالات ایسے ہیں کہ ممکن ہے کہ اِس زمانے میں اور پوری تاریخ میں انسانوں تک امام حسین کا پیغام پہنچ جائے۔ اگر معاویہ کے دور حکومت میں امام حسین قیام کرتے تو اُن کا پیغام دفن ہو جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ معاویہ کے دور حکومت میں (اجتماعی و ثقافتی) حالات اور سیاست ایسی تھی کہ لوگ حق بات کو نہیں سن سکتے تھے (یا اُن میں حق و باطل میں تشخیص کی صلاحیت نہیں تھی)! یہی وجہ ہے کہ امام حسین معاویہ کی خلافت کے زمانے میں دس سال امام رہے لیکن آپ کچھ نہیں بولے اور کسی قیام و اقدام کیلئے کوئی کام انجام نہیں دیا چونکہ حالات مناسب نہیں تھے۔

امام حسین سے قبل امام حسن امام وقت تھے، اُنہوں نے بھی قیام نہیں کیا چونکہ اُن کے زمانے میں بھی اِس کام کیلئے حالات غیر مناسب تھے؛ نہ یہ کہ امام حسن و امام حسین میں کا م کو انجام دینے کی صلاحیت و قدرت نہیں تھی۔ امام حسن و امام حسین میں کوئی فرق نہیں ہے، اِسی طرح امام حسین اور امام سجاد اور امام علی نقی و امام حسن عسکری میں بھی کوئی فرق نہیں ہے! صحیح ہے کہ سید الشہدا نے چونکہ قیام کیا ہے لہٰذا اُن کا قیام و منزلت اُن آئمہ سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے قیام نہیں کیا، لیکن مقام امامت کے لحاظ سے سب آئمہ برابر ہیں۔ آئمہ میں اگرکسی ایک کیلئے بھی کربلاجیسے کے حالات پیش آتے تو وہ قیام کرتے اور اُسی مقام پر فائز ہوتے۔

وظیفے کی ادائیگی ہمیشہ خطرے کے ساتھ ہے!

اب امام حسین انحراف و بدعت کے طوفان کے سامنے کھڑے ہیں پس انہیں اپنے وظیفے پر عمل کرنا چاہیے؛ حالات بھی مناسب ہیںلہٰذا اب کسی عذر کی گنجائش نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ ابن جعفر ، محمد ابن حنفیہ ۱ اور عبداللہ ابن عباس ۱ جیسی خاص، دین شناس ، عارف ، عالم، فہم وادراک رکھنے والی شخصیات نے امام حسین سے کہا کہ’’ اے مولا! اِس راہ میں خطرات ہیں، آپ نہ جائیے۔‘‘ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب وظیفے کی انجام دہی میں خطرات ہوں تو وظیفے کی ادائیگی واجب نہیں ہوتی۔ یہ لوگ اِس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ وظیفہ کوئی ایسا وظیفہ نہیں ہے کہ جو خطرات کی موجودگی میں ساقط ہوجائے گا!(۳)

اِس وظیفے کی ادائیگی ہمیشہ خطرات کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ انسان ایک بہت بڑے اقتدار اور ایک انتہائی مضبوط قسم کے نظام کے خلاف قیام کرے اور اُسے کسی قسم کے خطرات کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ اِس واجب پر عمل پیرا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان خطرات کو دعوت دے رہا ہے ۔ یہ وہی واجب ہے کہ جسے حضرت امام خمینی ۲ نے انجام دیا؛ اِن کو بھی یہی کہا جاتا تھا کہ آغا! آپ تو شاہ ایران سے ٹکر لے رہے ہیں،آپ خطرات میں گھر جائیں گے ۔کیا امام خمینی ۲ نہیں جانتے تھے کہ اِس راہ میں خطرات ہیں؟ کیا امام خمینی ۲ اس بات سے بے خبر تھے کہ شاہ ایران کی خفیہ ایجنسی جب کسی کو گرفتار کرتی ہے تو اُسے شکنجہ و اذیت دیتی ہے ، اُسے قتل کرتی ہے ، اُس گرفتار ہونے والے انسان کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور اُنہیں جِلا وطن کردیتی ہے؟! کیا امام خمینی ۲ یہ سب نہیں جانتے تھے؟!

وہ کام جو امام حسین کے زمانے میں انجام پایا، اُس کی ایک چھوٹی سی مثال ہمارے زمانے میں امام خمینی ۲ کے ذریعے سے سامنے آئی۔ فرق یہ ہے کہ اُس قیام کا نتیجہ شہادت کی صورت میں سامنے آیا اور امام خمینی ۲ کے جہاد و قیام کا نتیجہ حکومت کی صورت میں نکلا؛ یہ وہی کام ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امام حسین اور امام خمینی ۲ کا ہدف، ایک ہی تھا۔ یہی مطلب، امام حسین کی تعلیمات کی اساس و جان ہے اور امام حسین کی تعلیمات ، شیعہ مذہب کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ ہیں؛ سید الشہدا کی تعلیمات مضبوط و محکم بنیاد ہیں اوراسلام کی بنیادوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

اسلامی معاشرے کو صحیح راہ پر لوٹانا، ہدف ہے!

پس ہدف یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کو اُس کے صحیح راستے کی طرف لوٹایا جائے ، مگر کون سے زمانے میں؟ اُس وقت کہ جب اسلام کا راستہ تبدیل کردیا گیا ہو اور خاص اورصاحب اثر و نفوذ افراد کی جہالت، ظلم و استبداد اور خیانت، مسلمانوں کو منحرف کردے اورقیام کی شرائط پوری ہوگئی ہوں۔

البتہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف زمانے آتے ہیں ،ایک وہ زمانہ ہے کہ جب شرائط پوری ہوں اور ایک وہ زمانہ ہے کہ جب حالات مناسب ہوں۔ امام حسین کے دور میں بھی حالات اور شرائط مناسب تھے اور ہمارے زمانے میں بھی۔ امام خمینی ۲ نے بھی وہی کام انجام دیا کہ جو امام حسین نے انجام دیا تھا کیونکہ دونوں کا ہدف ایک ہی تھا۔

جب ایک انسان ایک ہدف کے حصول کیلے قدم اٹھاتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ظالم حکومت اور باطل کے خلاف قیام کرے؛ کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام، اسلامی معاشرے اور اسلامی نظام کو اُس کے صحیح راستے پر لوٹا دے تو ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ قیام کرتا ہے تو اُسے حکومت مل جاتی ہے، یہ اِس قیام کی ایک صورت ہے کہ جو الحمدللہ ہمارے زمانے میں سامنے آئی۔ ایک وقت وہ ہے کہ جب وہ قیام کرتا ہے تو وہ حکومت تک نہیں پہنچتا لیکن درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے۔

کیا اِس دوسری صورت میں اِس وظیفے پر عمل کرنا واجب نہیں ہے؟ کیوں نہیں؛واجب ہے، گرچہ وہ شہید ہی کیوں نہ ہوجائے۔ یہاں ایک اور سوال پیش آتا ہے کہ کیا اِس صورت میں کہ جب وہ اپنے وظیفے کی ادائیگی میں درجہ شہادت کو پالے تو اُس کے قیام کا کیا فائدہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا؛ اِس قیام اور اِس حکومت کی دونوں صورتوں میں اُس کے قیام کا فائدہ ہے، خواہ وہ درجہ شہادت پر فائز ہو یااُسے حکومت ملے۔ فرق یہ ہے کہ دونوں کا فائدہ الگ الگ ہے لیکن ہر صورت میں قیام کرنا اور قدم اٹھانا چاہیے۔

سید الشہدا نے پہلی بار یہ قدم اٹھایا

یہ وہ کام تھا کہ جسے سید الشہدا نے انجام دیا اور آپ وہ پہلی شخصیت تھے کہ جس نے پہلی بار یہ قدم اٹھایا۔ آپ سے قبل یہ کام انجام نہیں دیا گیا تھا کیونکہ زمانہ رسالت میں نہ یہ بدعتیں تھیں اور نہ امیر المومنین کے دور امامت میں یہ انحرافات وجود میں آئے تھے یا اگر کچھ مقامات میں انحرافات تھے بھی تو اُن کے خلاف قیام کی شرائط پوری نہیں تھیں اور نہ ہی حالات مناسب تھے۔لیکن امام حسین کے دور امامت میں یہ دونوں چیزیں موجود تھیں۔ تحریک حسینی کی حقیقت یہی جاندار نکتہ ہے۔

پس ہم اِس طرح خلاصہ کرسکتے ہیں کہ امام حسین نے اِس لیے قیام کیا کہ اُس عظیم واجب کو انجام دے سکیں جو اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کو ازسر نو تعمیر کرنے یا اسلامی معاشرے میں انحرافات کے مقابلے میں قیام کرنے سے عبارت ہے۔ یہ عظیم کام؛ قیام اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ ممکن ہے بلکہ انحرفات کا راستہ روکنا خود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زندہ مصداق ہے۔ البتہ یہ کام کبھی حکومت و اقتدار پر اختتام پذیر ہوتا ہے کہ امام حسین اِس کیلئے تیار تھے اور کبھی انسان کو درجہ شہادت تک پہنچا دیتا ہے اور سید الشہدا نے خود کو اِس کیلئے بھی آمادہ کیا ہوا تھا۔

حکومت یزید سے اسلام کو زبردست خطرہ ہے

ہم کس دلیل کی بنا پر یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ ہم نے اِن تمام باتوں کو خود سید الشہدا کے کلمات سے اخذ کیا ہے۔ ہم نے امام حسین کے کلمات و ارشادات میں سے چند عبارتوں کا انتخاب کیا ہے۔

جب مدینے میں وہاں کے حاکم ولیدنے حضرت کو اپنے پاس بلاکر کہا کہ ’’معاویہ کا انتقال ہوگیا ہے اور آپ کو (نئے خلیفہ کی) بیعت کرنی چاہیے‘‘۔ حضرت سید الشہدا نے اُسے جواب دیا : ’’نَنظُرُ وَ تَنظُرُونَ اَيُّنَا اَحَقُّ بِالبَیعَةِ وَ الخِلَافَةِ ‘‘(۴) ۔ آپ نے فرم ایا کہ’’ صبح تک انتظار کرو ، ہم فکر کرتے ہیں کہ ہم (حسین اور یزید )میں سے کون خلافت اور بیعت کے لئے شائستہ ہے‘‘!

اگلے دن مروان نے جب امام حسین کو دیکھا تو کہنے لگا: ’’اے ابا عبداللہ، آپ اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈال رہے ہیں! خلیفہ وقت سے آکر بیعت کیوں نہیں کرلیتے؟ آپ اپنی موت کا سامان تیار نہ کریں!‘‘ سید الشہدا نے اُس کے جواب میں یہ جملہ ارشاد فرمایا: ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیهِ رَاجِعُونَ وَ عَلَی الاِسلَامِ السَّلَامُ، اِذ قَد بُلِيَتِ الاُمَّةُ بِرَاعٍ مِثلَ يَزِید ‘‘ ، ’’ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور ہمیں لوٹ کر اُسی کی ہی طرف جانا ہے، جب یزید جیسا شخص امت مسلمہ کا خلیفہ بن جائے تو اسلام کو خدا حافظ کہہ دینا چاہیے‘‘، یعنی اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے کہ جب یزید جیسا (فاسق و فاجر) شخص اقتدار کو سنبھال لے اور اسلام یزیدیت جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہوجائے! یہاں یزید کی ذات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جو بھی یزید جیسا ہو(۵) ۔ حضرت س ید الشہدا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۰ کے بعد سے لیکر اب تک جو ہوا وہ سب قابل تحمل تھا لیکن اب خود اصل دین اور اسلامی نظام (اور اُس کی بنیادیں) نشانے پر ہیں اور یزید جیسے کسی بھی شخص کی حکومت کرنے سے اسلام نابود ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ اس انحراف کا خطرہ بہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں خود اسلام خطرے میں ہے۔

حضرت سید الشہدا نے مدینہ سے اور اِسی طرح مکہ سے اپنی روانگی کے وقت محمد ابن حنفیہ سے گفتگو کی ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کی یہ وصیت مکہ سے آپ کی روانگی کے وقت کی ہے۔ ماہ ذی الحجہ میں محمد ابن حنفیہ بھی مکہ آچکے تھے اور انہوں نے کئی مرتبہ امام حسین سے گفتگو کی ہے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں حضرت نے اپنے بھائی کو اپنی تحریر وصیت کے عنوان سے دی۔

میرے قیام کا مقصد، امت محمدی ۰ کی اصلاح ہے

امام حسین خدا کی وحدانیت کی گواہی دینے اور مختلف امور کو بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ

’’وَاِنِّی لَم اَخرُج اَشِرًا وَّلَا بَطَراً وَّلَا مُفسِدًا وَّلَا ظَالِماً ‘‘(۶) یعنی آپ فرماتے ہیں کہ لوگ غلطی کا شکار نہ ہوں اور دشمن کی پروپیگنڈا مشینری اُنہیں دھوکہ نہ دے کہ امام حسین بھی دوسروں کی مانند ہیں کہ جو مختلف جگہوں پر خروج کرتے ہیں، صرف اِس لئے کہ اقتدار کواپنے ہاتھ میں لیں، اپنی خودنمائی، عیاشی اور ظلم و فساد برپا کرنے کیلئے میدان جنگ میں قدم رکھتے ہیں؛ آپ فرماتے ہیں کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ ’’وَ اِنَّمَا خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلَاحِ فِی اُمَّةِ جَدِّی ‘‘(۷) ،’’م یں صرف اور صرف اپنے جد محمد ۰ کی امت کی اصلاح کیلئے میدان عمل میں آیا ہوں)۔ میں فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ وہ واجب ہے کہ جو امام حسین سے قبل انجام نہیں دیا گیا تھا۔

یہ اصلاح ، ’’خروج‘‘ کے ذریعے انجام پائے گی؛ خروج یعنی قیام اور امام حسین نے اِس نکتے کو اپنی اِس وصیت میں تحریر فرمایا ہے اور صراحت کے ساتھ اِس معنی کو بیان کیا ہے۔ یعنی اولاً وہ قیام کرنا چاہتے ہیں اور یہ قیام اِس لیے ہے کہ ہم ’’اصلاح‘‘ کے طالب ہیں ، نہ یہ کہ حتماً حکومت و اقتدار ہمارے ہاتھ آجائے اور نہ اِس لیے کہ ہم جاکر صرف شہید ہونا چاہتے ہیں، نہیں ! ہمارا ہدف صرف اصلاحِ امت ہے۔ البتہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اصلاح کا کام کوئی معمولی نوعیت کا کام نہیں ہے۔ اِسی اصلاح کے دوران کبھی حالات ایسے پیش آتے

ہیں کہ انسان حکومت تک پہنچتا ہے اور زمام قدرت کواپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے وہ یہ کام نہیں کرسکتا بلکہ یہ کام غیر ممکن ہوجاتاہے اور وہ درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے لیکن دونوں صورتوں میں اُس کا قیام اصلاح کے عمل کیلئے ہوتاہے۔

اِس کے بعد امام حسین فرماتے ہیں کہ’’اُرِیدُ اَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَاَنهٰی عَنِ المُنکَرِ وَاُسِیرُ بِسِیرَةِ جَدِّ وَ اَبِ ‘‘(۸) ۔’’م یں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر انجام دں اور میں اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر قدم اٹھانا چاہتا ہوں‘‘۔ اصلاح کا ایک مصداق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔

سید الشہدا نے مکے میں دو گروہوں کو خط لکھے ، ایک بصرہ کی اہم شخصیات کو اور دوسرا کوفہ کے اہم افراد کو۔ بصرہ کی اہم شخصیات کے نام جو آپ نے خط لکھا ہے اُس میں اِ س طرح تحریر فرمایا ہے: ’’وقَد بَعَثَرَسُولِی اِلَیکُم بِهٰذَا الکِتَابِ وَاَنَا اَدعُوکُم اِلٰى کِتَابِ اللّٰهِ و سُنَّةِ نَبِيِّهِ فَاِنَّ سَنَّةَ قَد اُمِیتَت وَالبِدعَدَّ اُوحِيَت فَاِن تَسمَعُوا قَولِی اَهدِیکُم اِلٰی سَبِیلِ الرِّشَادِ ‘‘۔

’’میرا نمائندہ میرے خط کے ساتھ تمہارے پاس آیا ہے اور میں تم لوگوں کو کتاب خدا اور اُس کے رسول ۰ کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ بے شک سنتِ رسول ۰ کو زندہ درگور کردیا گیا ہے اور زمانہ جاہلیت کی بدعتوں و خرافات کو زندہ کردیا گیا ہے، اگر تم میری پیروی کرو تو میں تم کو راہِ راست کی ہدایت کروں گا۔‘‘ یعنی میں بدعتوں کو ختم کرنا اور سنتِ رسول ۰ کا احیائ چاہتا ہوں کیونکہ حاکمان وقت نے سنت کو مردہ اور بدعتوں کو زندہ کردیا ہے۔ اگر تم لوگ میری بات مانو اور میرے پیچھے قدم اٹھاو تو جان لو کہ ہدایت کا راستہ صرف میرے پاس ہے، میں ایک بہت بڑا فریضہ انجام دینا چاہتا ہوں کہ جو اسلام، سنتِ رسول ۰ اور اسلامی نظام کے احیائ سے عبارت ہے۔

اسلامی حاکم ، معاشرے میں کتاب خدا کو نافذ کرے

اہل کوفہ کے نام آپ نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا:’’فلعمرِ ما الاِمَامُ اِلَّا الحَاکِمُ بِاالکِتَابِ وَالقَآئِمُ بِالقِسطِ الدَّآئِنُ بِدِینِ الحَقَّ وَالحَابِسُ نَفسِه عَلٰى ذَالِکَ لِلّٰهِ والسَّلَام ‘‘(۹) ، ’’امام فقط وہی ہے جو صرف کتاب الٰہی کے مطابق حکومت کرے، عدل و انصاف کو قائم کرے، ملک و معاشرے اور قانون کی حق کی طرف راہنمائی کرے اور صراطِ مستقیم پر ہر طرح سے اپنی حفاظت کرے‘‘۔ امام وپیشوا اور اسلامی معاشرے کا سربراہ اور حاکم ، اہل فسق و فجور، خائن، فسادی ، قبیح اعمال کاارتکاب کرنے والا شخص اور خدا سے دوری اختیار کرنے والا فرد نہیں ہوسکتا ہے ۔ اسلامی معاشرے کا حاکم اُسے ہونا چاہیے کہ جو کتاب خدا کے مطابق فیصلہ کرے، کتابِ الٰہی پر عمل پیرا ہو، معاشرے میں اپنی اجتماعی ذمہ داریوں اور فرائض سے کنارہ کشی اختیار نہ کرے؛ نہ یہ کہ ایک کمرے میں بیٹھ کر تنہائی میں عبادت خدا بجالائے؛ اسلامی حاکم کو چاہیے کہ معاشرے میں کتاب خدا کو زندہ کرے، عدل وانصاف کا بول بالا کرے اور ’’حق‘‘ کو معاشرے کا قانون قرار دے نہ کہ نفسانی خواہشات اور شخصی رائے کو۔

’’الدَّائِنُ بِدِینِ الحَقِّ ‘‘ یعنی اسلامی حاکم کو چاہیے کہ معاشرے کا قانون اور اُس کا راستہ صرف حق کے مطابق متعین کرے اور باطل افکار و نظریات اور شخصی رائے کو ترک کردے۔ ’’والحَابِسُ نَفسِهِ عَلٰى ذَالِکَ لِلّٰهِ ‘‘ اِس جملے کا ظاہری معنی یہ ہے کہ خدا کہ راستے میں جس طرح بھی ہو اپنی حفاظت کرے اور شیطانی اور مادّی جلووں اور رنگینیوں کا اسیر نہ ہو۔

پیغمبر ۰ نے ذمہ داری مشخص کردی ہے

سید الشہدا جب مکے سے باہر تشریف لے گئے تو راستے میں آپ نے مختلف مقامات پر مختلف انداز سے گفتگو فرمائی ۔ ’’بیضہ‘‘ نامی منزل پر، کہ جب حُرّ ابن یزید ریاحی کا لشکر آپ کے ساتھ ساتھ تھا، اُترنے کے بعد شاید آپ نے استراحت کرنے سے قبل یا تھوڑی استراحت کے بعد کھڑے ہو کر دشمن کے لشکر سے اِس طرح خطاب فرمایا:

’’اَيُّها النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ (صَلَّی اللّٰه عَلَیه وآلِه) قَالَ: مَن رَآَی سُلطَاناً جَآئِرًامُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰهِ نَاکِثًا لِعَهدِ اللّٰهِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ يَعمَلُ فِی عِبَادِ اللّٰهِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰى اللّٰهِ اَن يَدخُلَهُ مَدخَلَهُ ‘‘(۱۰) ۔ ’’رسول اللہ ۰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو کسی جائر و ظالم حاکم کو دیکھے جو حرام خدا کو حلال جاننے والا، قانون خدا کو توڑنے والا، سنت رسول ۰ کا مخالف اور مخلوق خدا میں گناہ و سرکشی سے حکومت کرنے والا ہو تو یہ دیکھنے والا اپنے قول و فعل سے اُس کے خلاف حکمت عملی اختیار نہ کرے تو خداوند عالم اِس سکوت و جمود اور خاموشی اختیار کرنے والے شخص کو اُس ظالم سلطان کے ساتھ عذاب میں ڈالے گا‘‘۔ یعنی اگر کوئی یہ دیکھے کہ معاشرے میں کوئی حاکم برسر حکومت ہے اور ظلم و ستم کررہا ہے ، حرام خدا کو حلال قرار دے رہا ہے اور حلال خدا کو حرام بنارہا ہے، اُس نے حکم الٰہی کو پس پشت ڈال دیا ہے اور دوسرے افراد کو بھی عمل نہ کرنے کیلئے مجبور کررہا ہے، لوگوں میں گناہ اور ظلم و دشمنی سے حکومت کرے __ اُس زمانے میں ظالم اور جائر حاکم کا کامل مصداق یزید تھا ’’و لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ ‘‘ ،’’ اپن ی زبان و عمل سے اُس کے خلاف اقدام نہ کرے‘‘۔ ’’کَانَ حَقًّا عَلٰى اللّٰهِ اَن يَدخُلَهُ مَدخَلَهُ ‘‘ ،’’توخداوند عالم روز قیامت سکوت وجمود اختیار کرنے والے بے طرف و بے عمل شخص کو اُسی ظالم کے ساتھ ایک ہی عذاب میں ڈالے گا‘‘۔

یہ پیغمبر ۰ کا قول ہے؛ یہ جو ہم نے کہا ہے کہ پیغمبر ۰ نے یہ فرمایا ہے تو یہ اُن کے اقوال کا ایک نمونہ ہے۔ پس حضرت ختمی مرتبت ۰ نے پہلے سے مشخص کردیا تھا کہ اگر اسلامی نظام انحراف کا شکار ہوجائے تو کیا کام کرنا چاہیے۔ امام حسین نے پیغمبر اکرم ۰ کے اِسی قول کو اپنی تحریک کی بنیاد قرار دیا۔

میں دوسروں سے زیادہ اِس قیام کیلئے سزاوار ہوں

پس اِن حالات میں ذمے داری کیا ہے؟اس حدیث نبوی ۰ کی روشنی میں ذمہ داری ’’يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ ‘‘ (اپنے زبان و عمل سے اقدام کرے) ہے۔ اگر انسان اِن حالات کا مشاہدہ کرے البتہ شرائط و حالات کا مناسب ہونا ضروری ہے، تو اُس پر واجب ہے کہ ظالم و جائر حاکم کے عمل کے جواب میں قیام و اقدام کرے۔ وہ اِس قیام و اقدام میں کسی بھی حالات سے دوچار ہو، قتل ہوجائے، زندہ رہے یا ظاہراً اُسے کامیابی نصیب ہو یا نہ ہو، اِن تمام حالات میں ’’قیام‘‘ اُس کا وظیفہ ہے۔ یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اِن حالات میں قیام و اقدام کرے اور یہ وہ ذمہ داری ہے کہ جسے حضرت ختمی مرتبت ۰ نے بیان فرمایا ہے۔

اِس کے بعد سید الشہدا نے فرمایا: ’’وَاِنِّی اَحَقُّ بِهٰذَا ‘‘ ،میں اِس قیام کیلئے بقیہ تمام مسلمانوں سے زیادہ سزاوار ہوں کیونکہ میں فرزند پیغمبر ۰ ہوں۔ اگر پیغمبر ۰ نے حالات کی تبدیلی یعنی اُس قیام کو ایک ایک مسلمان پر واجب کیا ہے تو ظاہرہے کہ حسین ابن علی جو فرزند پیغمبر ۰ ہیں اور اُن کے علم و حکمت کا وارث بھی ہیں، اِس قیام کیلئے دوسروں سے زیادہ مناسب ہیں۔ پس امام حسین فرماتے ہیں کہ میں نے اِسی لئے قیام کیا ہے اور وہ اپنے قیام کے علل و اسباب کو بیان فرما رہے ہیں۔

جو کچھ خدا نے ہمارے لئے چاہا ہے ، خیر ہے

’’اَزید‘‘ نامی منزل پر کہ جب چار افراد حضرت سے آملے ، آپ نے فرمایا: ’’اَمَّا وَاللّٰهِ اَنِّی لَاَرجُو اَن يَکُونَ مَا اَرَادَ اللّٰهُ بِنَا قُتلِنَا اَو ظَفُرنَا ‘‘’’جو کچھ اللہ نے ہمارے ل یے مقرر کیا ہے وہ ہمارے لیے صرف خیر وبرکت ہی ہے، خواہ قتل کردیے جائیں یا کامیاب ہوجائیں‘‘۔ کوئی فرق نہیںہے خواہ کامیابی ہمارے قدم چومے یا راہ خدا میں قتل کردیے جائیں، ذمے داری کو ہر صورت میں ادا کرنا ہے؛ آپ نے یہی فرمایا کہ خداوند عالم نے جس چیز کو ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے، اُس میں ہمارے لیے بہتری اور بھلائی ہی ہے؛ ہم اپنی ذمہ داری کو ادا کررہے ہیں خواہ اِس راہ میں قتل کردیئے جائیں یا کامیاب ہوجائیں۔

سرزمین کربلا میں قدم رکھنے کے بعد آپ نے اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’قَد نَزَلَ مِنَ الاَمرِ ما قَد تَرَونَ ‘‘(۱۱) ’’اَلَا تَرَونَ اِلَى الحَقِّ لَا يُعمَلُ بِهِ وَ اِلی البَاطِلِ لَا يُتَنَاهی عَنهُ لِيَرغَبِ المُومِن فِی لِقَآئِ اللّٰهِ مُحِقًّا ‘‘(۱۲) ، ’’ک یا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے اور باطل سے دوری اختیار نہیں کی جارہی ایسے وقت میں مومن کو چاہیے کہ وہ ملاقات خدا کے لیے تیار رہے۔‘‘

امام حسین نے اسلام کا بیمہ کیا

پس امام حسین نے ایک امر واجب کیلئے قیام فرمایا۔ یہ ایک ایسا واجب ہے کہ جو ہر زمانے اور ہر تاریخ میں تمام مسلمانوں کو اپنی طرف بلارہا ہے اور یہ واجب عبارت ہے اِس امر سے کہ مسلمان جب اِس بات کا مشاہدہ کریں کہ اسلامی معاشرے کا نظام ایک بُنیادی خرابی کا شکار ہوگیا ہے اور اُس سے تمام اسلامی احکامات کی خرابی کا خطرہ لاحق ہے تو اِن حالات میں ہر مسلمان کو قیام کرنا چاہیے۔

البتہ یہ قیام، مناسب حالات و شرائط میں واجب ہے (کہ جسے گذشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے ) کہ جب قیام کرنے والا یہ جانتاہو کہ یہ قیام اثر بخش ہوگا۔ اِن مناسب حالات کا قیام کرنے والے کے زندہ رہنے، قتل نہ ہونے یا مشکل و مصائب کا سامنا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین نے قیام فرمایا اور عملاً اِس واجب کو انجام دیا تاکہ رہتی دنیا کیلئے ایک درس ہو۔

اِس بات کا بھی امکان ہے کہ تاریخ کے کسی بھی زمانے میں کوئی بھی شخص مناسب شرائط و حالات میں یہ کام انجام دے البتہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سید الشہدا کے بعد کسی بھی امام معصوم کے زمانے میں ایسے حالات پیش نہیں آئے ۔ خود یہ بات تجزیہ و تحلیل کا تقاضا کرتی ہے کہ ایسے حالات دوبارہ کیوں نہیں پیش آئے۔ چونکہ بہت سے اہم ترین کام تھے کہ جنہیں انجام دینا ضروری تھا اور کربلا کے قیام کے بعد سے امام حسن عسکری کی شہادت اور حضرت امام عصر کی غیبت کے ابتدائی زمانے تک اسلامی معاشرے میں ایسے حالات کبھی سامنے نہیں آئے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اِس قسم کے حالات اسلامی ممالک میں زیادہ ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں اور آج بھی دنیائے اسلام میں بہت سے مقامات پر اِس کام کیلئے زمین ہموار ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ اِس فریضے کو انجام دیں۔ اگر وہ اِس واجب کو انجام دیں تو اِس طرح وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکیں گے اور اسلام کی توسیع اور حفاظت کی زمین ہموار کریں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ایک دو افراد شکست کھائیں گے۔

جب معاشرتی حالات کی تبدیلی، قیام اور اصلاحی تحریک کیلئے بار بار اقدامات کیے جائیں تو برائیاں اور انحرافات یقینی طور پر ختم ہوجائیں گے۔ امام حسین سے قبل کوئی بھی اِس راستے سے واقف اور اِس کام سے آگاہ نہ تھا، چونکہ زمانہ پیغمبر ۰ میں یہ کام انجام نہیں دیا گیا تھا، خلفائ کے زمانے میں بھی ایسے حالات نہیں تھے اور امیر المومنین کہ جو معصوم تھے، نے بھی اِس کام کو انجام نہیں دیا تھا۔ یہ امام حسین ہی تھے کہ جنہوں نے عملی طور پر پوری تاریخ انسانیت کو ایک بہت بڑا درس دیا اور درحقیقت خود اپنے زمانے میں اور آنے والے زمانوں میں اسلام کا بیمہ کردیا ۔

سید الشہدا کی یاد اور کربلا کیوں زندہ رہے؟

جہاں بھی حالات اور برائیاں و انحرفات ، امام حسین کے زمانے جیسے ہوں، سید الشہدا وہاں زندہ ہیں اور آپ اپنے شیوہ اور عمل سے بتارہے ہیں کہ آپ لوگوں کو کیا کام انجام دینا چاہیے چنانچہ وہی ذمہ داری اور وظیفہ قرار پائے گی۔ لہٰذا سید الشہدا کی یاد اور ذکر کربلا کو ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے کیونکہ یہ ذکر کربلا ہی ہے جو اِس عمل کو ہمارے سامنے متجلّی کرتا ہے۔

افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی ممالک میں کربلا کو جس طرح پہچاننا چاہیے تھے ، پہچانا نہیں گیا۔ اقوام عالم کو چاہیے کہ اِسے پہچانیں، ہمارے ملک میں کربلا کی شناخت صحیح طور پر موجود ہے؛ ہماری عوام (کئی صدیوں سے) امام حسین کی شناخت رکھتی ہے اور اُن کے قیام سے واقف و آگاہ ہے۔ معاشرے میں حسینی روح موجود تھی لہٰذا جب امام خمینی ۲ نے فرمایا کہ محرم وہ مہینہ ہے کہ’’ جب خون، تلوار پر کامیاب ہوگیا ‘‘تو ہماری عوام نے کسی قسم کا تعجب نہیں کیا۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ خون اور مظلومیت، ظلم وشمشیر پر غالب آگئی۔

وہ درس جو طوطوں نے اسیر طوطے کودیا

میں نے کئی سال قبل البتہ قبل از انقلاب ، کسی محفل میں ایک مثال بیان کی تھی کہ جسے مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں بیان کیا ہے۔

یہ مَثَل ہے اور اِسے حقائق کوبیان کرنے کیلئے سنایا جاتا ہے۔ ایک تاجر نے اپنے گھر میں پنجرے میں ایک طوطے کو پالا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ جب اُس نے ہندوستان جانے کا ارادہ کیا تو اپنے اہل و عیال سے خدا حافظی کی اور اپنے اِس طوطے سے بھی خدا حافظی کی۔ اُس نے اپنے طوطے سے کہا کہ ’’میں ہندوستان جارہا ہوں جو تمہارا ملک اور تمہاری سرزمین ہے‘‘۔

طوطے نے کہا ’’تم ہندوستان میں فلاں جگہ جانا، وہاں میرے عزیز و اقارب اور دوست احباب ہیں ، اُن سے کہنا کہ تمہاری قوم کا ایک طوطا میرے گھر میں پنجرے میں ہے، یعنی میری حالت کو اُن کیلئے بیان کرنا؛ اِس کے علاوہ میں تم سے کسی اور چیز کا طلبگار نہیں ہوں‘‘۔

یہ شخص ہندوستان گیا اور ا س جگہ گیا کہ جہاں کا پتہ اُس کے طوطے نے دیا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ بہت سے طوطے درختوں پر بیٹھے ہیں، اُس نے اونچی آواز میں سب کو مخاطب کیا اور کہا کہ اے ’’پیارے اور اچھے طوطوں! میں تمہارے لیے ایک پیغام لایا ہوں۔ تمہاری قوم کا ایک طوطا میرے گھر میں ہے، وہ بہت اچھی حالت میں زندگی بسر کررہا ہے اور میں نے اُسے پنجرے میں قید کیا ہوا ہے، میں اُسے اچھی غذائیں دیتا ہوں اور اُس نے تم سب کو سلام کہا ہے‘‘۔ ابھی تاجر نے اتنا ہی کہا تھا کہ اُس نے دیکھا کہ وہ طوطے جو درختوں پر بیٹھے تھے ، اچانک اُنہوں نے اپنے پروں کو پھڑپھڑایا اور زمین پر گر پڑے ۔ یہ شخص آگے بڑھا تو دیکھا کہ یہ طوطے مرچکے ہیں، اُسے بہت افسوس ہوا کہ میں نے ایسی بات ہی کیوں کی کہ جس کو سُننے سے یہ سارے پرندے مثلاً پانچ دس طوطے اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اب جو ہونا تھا وہ ہوگیا اور اب کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

تاجر جب اپنے وطن لوٹا اور اپنے گھر پہنچنے کے بعد طوطے کے پنجرے کے پاس گیا تو اُس نے کہا کہ ’’میں نے تمہارا پیغام انہیں پہنچادیا تھا‘‘ ۔ طوطے نے پوچھا کہ ’’اُنہوں نے کیا جواب دیا‘‘۔ تاجر نے کہا کہ ’’جب انہوں نے مجھ سے تمہارا پیغام سنا تو پروں کو پھڑپھڑایا اور زمین پر گر کر مرگئے‘‘۔ ابھی تاجر نے اتنا ہی کہا تھا کہ اُس نے دیکھا کہ طوطے نے پنجرے میں پر پھڑپھڑائے اور گر کر مرگیا۔ تاجر کو اُس کی موت کا بہت افسوس ہوا، اُس نے پنجرے کا دروازہ کھولا کیونکہ اِس مردہ طوطے کو پنجرے میں رکھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اُس نے طوطے کو پنجوں سے پکڑا اور چھت کی طرف اچھال دیا۔ طوطا جیسے ہی ہوا میں اچھلا ، اُس نے فضا میں ہی اپنے پروں کو پھڑپھڑانا شروع کردیا اور دیوار پر جا بیٹھا اور کہنے لگا کہ ’’اے تاجر ، اے میرے دوست، میں تمہارا بہت احسان مند ہوں کہ تم نے خود میری رہائی کے اسباب فراہم کیے۔ میں مرا نہیں تھا بلکہ مردہ بن گیا تھا ! یہ وہ درس تھا کہ جسے ہندوستان کے طوطوں نے مجھے دیا ہے۔ جب وہ متوجہ ہوئے کہ میں یہاں پنجرے میں قید ہوں تو انہوں نے سوچا کہ وہ کس زبان سے کہیں کہ میں کیا کام کروں تاکہ قید سے رہائی حاصل کرسکوں؟ اُنہوں نے عملی طور پر مجھے بتایا کہ یہ کام انجام دوں تاکہ اسیری سے رہائی پاوں! مرجاو تاکہ زندہ ہوسکو ( اور آزادی کی زندگی گذارو)! میں نے اُن کے پیغام کو تمہارے ذریعہ سے سمجھ لیا۔ یہ وہ درس تھا کہ جو ہزاروں میل دور اُس جگہ سے مجھ تک پہنچا اور میں نے اُس درس سے اپنی نجات و آزادی کیلئے اقدام کیا‘‘۔

میں نے اُسی محفل میں تقریباً بیس بائیس سال قبل(۱۳۹۶ ہجر ی ) موجود مرد و خواتین سے عرض کیا کہ محترم سامعین، امام حسین کس زبان سے ہمیں سمجھائیں کہ تم سب کی ذمہ داری کیا ہے؟

امام حسین نے اپنے عظیم عمل سے ذمہ داری کو واضح کردیا

ہمارے زمانے کے حالات ، امام حسین کے زمانے کے حالات جیسے ہیں اور آج کی زندگی ، ویسی ہی زندگی ہے اور اسلام وہی اسلام ہے جو سید الشہدا کے زمانے میں تھا۔ اگر امام حسین سے ایک جملہ بھی نقل نہ کیا جاتا تب بھی ہمیں چاہیے تھا کہ ہم سمجھیں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

وہ قوم جو اسیر اور غیر ملکی طاقتوں کی زنجیروں میں قید ہے، جس کے اعلی عہدیدار برائیوں کا علی الاعلان ارتکاب کررہے ہیں، وہ قوم کہ جس پر دُشمنان دین حکومت کررہے ہیں اور اُس کی قسمت اور زندگی کے فیصلوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے، لہٰذا تاریخ سے سبق لینا چاہیے کہ اِن حالات میں ذمہ داری کیا ہے۔ چونکہ فرزند پیغمبر ۰ نے عملی طور پر یہ بتادیا ہے کہ اِس قسم کے حالات میں کیا کام کرنا چاہیے۔

یہ درس ، زبان سے نہیں دیا جاسکتا تھا؛ اگر امام حسین اِسی درس کو سو مرتبہ بھی زبان سے کہتے اور عملی طور پر خود تشریف نہیں لے جاتے تو ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ کا یہ پیغام صدیوں پر محیط ہوجاتا؛ صرف نصیحت کرنے اور زبانی جمع خرچ سے یہ پیغام صدیوں کا فاصلہ طے نہیں کرپاتا اور تاریخ کے اُسی دور میں ہی دفن ہوجاتا۔ ایسے پیغام کو صدیوں تک پھیلانے اور تاریخ کا سفر طے کرنے کیلئے عمل کی ضرورت تھی اور وہ بھی ایسا عمل کہ جو بہت عظیم ہو، سخت مشکلات کا سامنا کرنے والا ہو، جو ایثار و فداکاری اور عظمت کے ساتھ ہو اور پُر درد بھی ہو کہ جسے صرف امام حسین نے ہی انجام دیا!

حقیقت تو یہ ہے کہ واقعہ کربلا میں روز عاشورا کے سے جو واقعات و حادثات ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں، اُن کیلئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعات و حادثات ، پوری تاریخ بشریت میں اپنی نوعیت کے بے مثل و نظیر واقعات ہیں۔ جس طرح پیغمبر اکرم ۰ نے فرمایا، امیر المومنین نے فرمایا اور امام حسن مجتبی نے فرمایا اور جو کچھ واقعات میں آیا ہے کہ’’لَا يَومَ کَيَومِکَ يَا اَبَا عَبدِ اللّٰهِ ‘‘(۱۳) ،’’اے ابا عبداللہ ! (امام حس ین ) کوئی دن بھی آپ کے دن،( عاشورا، کربلا اور آپ کے اِس حادثے )کی طرح نہیں ہے‘‘۔(۱۴)

مختلف قسم کی ذمہ داریوں میں سے اصلی ذمے داری کی تشخیص

تحریک کربلا میں بہت سے نکات مضمر ہیں کہ اگر امت مسلمہ اور دانشور حضرات و مفکرین اِس سلسلے میں مختلف جہات سے تحقیق کریں جو اِس واقعہ اور اِس سے متعلق قبل و بعد کے امور ، مذہبی زندگی کی راہوں اور مختلف قسم کے حالات میں موجودہ اور آنے والی مسلمان نسلوں کیلئے اُن کے وظائف اور ذمہ داریوں کو مشخص کردیں گے۔

واقعہ کربلا کے درسوں میں سے ایک نہایت ہی اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت سید الشہدا نے تاریخ اسلام کے بہت ہی حساس دور میں مختلف قسم کی ذمہ داریوں میں سے اپنے اصلی اور حقیقی ذمہ داری کہ جو مختلف جہات سے قابل اہمیت تھی ، کو تشخیص دیا اور اُس ذمہ داری کو ادا بھی کیا اور ساتھ ہی آپ اُس امر کی شناخت میں شک وتردید اور توھّم کا شکار نہیں ہوئے کہ جس کی دنیائے اسلام کو اُس وقت اشد ضرورت تھی۔ خود یہ امر وہ چیز ہے کہ جو مختلف زمانوں میں مسلمانوں کی زندگی کیلئے باعث خطرہ بنا ہو اہے، یعنی یہ کہ ایک قوم کی اکثریت ، اُس کے سربراہ و حاکم اور امت مسلمہ کے چیدہ چیدہ اور خاص افراد خاص حالات میں اپنی اصلی ذمہ داری کی شناخت و تشخیص میں غلطی کر بیٹھیں اور وہ یہ نہ جانیں کہ کون سا کام اِس وقت لازمی ہے کہ جسے اِس وقت انجام دینا ضروری ہے اور دوسرے امور کو _ اگر لازمی ہوا_ اِس پر قربان کرنا چاہیے اور وہ یہ تشخیص نہ دے سکیں کہ کون سا امر ثانوی حیثیت کا حامل ہے اور وہ یہ سمجھ نہ سکیں کہ ہر قدم و ہرکام کو اُس کی حیثیت کے مطابق اہمیت دینی چاہیے اور اُسی کے مطابق اُس کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے۔

امام حسین کی تحریک کے زمانے میں ایسے افراد بھی تھے کہ اگر اِس بارے میں اُن سے گفتگو کی جاتی کہ ہمیں ہر صورت میں قیام کرنا چاہیے تو وہ سمجھ جاتے کہ اِ س قیام کے نتیجے میں بہت سی مشکلات و مصائب اُن کا انتظار کررہے ہیں تو وہ ثانوی حیثیت والے امور کو توجہ دیتے اور دوسرے درجے کی ذمہ داریوں کی تلاش میں نکل پڑتے! بالکل ایسا ہی ہوا کہ ہم نے دیکھا کہ کچھ افراد نے عیناً یہی کام انجام دیا؛ امام حسین کے ساتھ نہ آنے والے افراد میں بہت سے مومن اور دیندار افراد موجود تھے ، ایسا نہیں تھا کہ نہ آنے والے سب کے سب دنیادارہوں۔

اُس زمانے میں دنیائے اسلام کے بڑے بڑے افراد اور خاص شخصیات میں اہل ایمان ، مومن اور اپنے وظیفے اور ذمہ داریوں پر عمل کرنے کے خواہشمند افراد بھی تھے لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں کو تشخیص دینے والی صلاحیت سے عاری تھے اور اُن میں یہ قابلیت نہیں تھی کہ حالات کے دھارے کو سمجھیں یا نوشتہ دیوار پڑھیں اور اپنے اصلی اور حقیقی دشمن کو سمجھیں۔ یہ افراد جوبظاہر مومن اور دیندار تھے اپنے اصلی اور لازم الاجرائ امور اور دوسرے اور تیسرے درجے کے کاموں کی تشخیص میں غلطی کر بیٹھے اور یہ امر اُن بڑی آفت اور بلاؤں سے تعلق رکھتا ہے کہ جس میں امت مسلمہ ہمیشہ گرفتار رہی ہے۔

معاشرتی زندگی اور اُس کی بقا میں حقیقی ذمہ داری کی شناخت کی اہمیت

آج ممکن ہے کہ ہم بھی اِس بلا میں گرفتار ہوجائیں اور اہم ترین افر اور کم اہمیت والے امر کی تشخیص میں غلطی کر بیٹھیں۔ لہٰذا حقیقی ذمہ داری کی شناخت بہت ضروری ہے جو کسی بھی معاشرے کی حیات و بقا میں بہت اہمیت کی حامل ہو تی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ اِس ملک میں استعمار، استبداد اور طاغوتی نظام حکومت کے خلاف میدانِ مبارزہ موجود تھا لیکن بعض ایسے افراد بھی تھے جو اِ س مبارزے اور قیام کو اپنا وظیفہ نہیں سمجھتے تھے اور اُنہوں نے دوسرے امور کو اپنا ہدف بنایا ہوا تھا۔ اگر کوئی اُس وقت کسی جگہ تدریس علم میں مصروف عمل تھا یا کسی کتاب کی تالیف وجمع آوری میں کوشاں تھا ، یا اگر محدود پیمانے پر تبلیغ میں سرگرم عمل تھا یا اگر کسی نے دینی و مذہبی امور کے ساتھ ساتھ مختصر پیمانے پر عوام الناس کی ہدایت کو اپنے ذمہ لیے ہوا تھا تو وہ یہ سوچتا تھا کہ اگر وہ جہاد میں مصروف ہوجائے گا تو یہ سارے امور یونہی ادھورے پڑے رہ جائیں گے ! لہٰذا وہ اِس فکر و خیال کے نتیجے میں اُس عظیم اور اہمیت والے جہاد اور قیام کو ترک کردیتا تھا اور لازم و غیر ضروری یا اہم ترین اور اہم امور کی تشخیص میں غلطی کر بیٹھتا تھا۔

سید الشہدا نے اپنے بیانات سے ہمیں سمجھایا کہ ایسے حالات میں طاغوتی طاقتوں سے مقابلہ اور طاغوتی اور شیطانی قدرت و طاقتوں سے انسانوں کی نجات کیلئے اقدام کرنا دنیائے اسلام کیلئے واجب ترین کاموں میں سے ایک کام ہے۔ واضح ہے کہ سید الشہدا اگر مدینے میں ہی قیام پذیر رہتے تو عوام میں احکام الٰہی اور تعلیمات اہل بیت کی تبلیغ فرماتے اور کچھ افراد کی تربیت کرتے ؛لیکن اگر ایک حادثہ رُونما ہونے کی وجہ سے مثلاً عراق کی طرف حرکت فرماتے تو آپ کو اِن تمام کاموں کو خیر آباد کہنا پڑتا اور اِس حالت میں آپ لوگوں کو نماز اوراحادیث نبوی ۰ کی تعلیم نہیں دے سکتے تھے، آپ کو اپنے درس و مکتب اور تعلیمات کے بیان کو خدا حافظ کہنا پڑتا اور یتیموں ، مفلسوں اور فقرائ کی مدد کہ جو آپ مدینے میں انجام دیتے تھے، سب کو چھوڑنا پڑتا!

اِن تمام امور میں سے ہر ایک ایسا وظیفہ تھا کہ جسے سید الشہدا انجام دے رہے تھے لیکن آپ نے یہ تمام ذمہ داریاں ایک عظیم اور اہم ذمہ داری پر قربان کردی! یہاں تک کہ حج بیت اللہ کو اُس کے آغاز میں کہ جب مسلمان پوری دنیا سے حج کیلئے آرہے تھے، اِس عظیم ترین فریضے پر فدا کردیا، بالآخر وہ ذمہ داری کیا تھی؟

آج واجب ترین کام کیا ہے؟

جیسا کہ خود امام حسین نے۷ فرما یا کہ ظلم و فساد اوربرائی کے نظام سے مقابلہ واجبات میں سے ایک واجب ہے۔’’اُرِیدُ اَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَ اَنهٰی عَنِ المُنکَرِ وَاُسِیرُ بِسِیرَةِ جَدَّ وَاَبِ ‘‘(۱۵) یا ایک اور خطبے میں آپ نے ارشاد فرمایا:’’اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ قَد قَالَ فِی حَيَاتِهِ مَن رَآَی سُلطَاناً جَآئِرًا مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰهِ نَاکِثًا لِعَهدِ اللّٰهِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ يَعمَلُ فِی عِبَادِ اللّٰهِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰى اللّٰهِ اَن يَدخُلَهُ مَدخَلَهُ ‘‘(۱۶) یعنی وظیفہ ’’اِغَارَۃ‘‘ ہے یا بہ عبارت دیگر ایسے سلطان ظلم و جور کے خلاف حالات کو تبدیل کرنا کہ جو برائیوں کو عام کررہا ہے اور ایسے نظام حکومت کے خلاف قیام کرنا جو انسانوں کو نابودی اور مادی اور معنوی فنا کی طرف کھینچ رہا ہے۔

یہ تھی امام حسین اِس کی تحریک کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مصداق بھی قرار دیا گیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری میں حتماً اِن نکات کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ سید الشہدا ایک اہم ترین واجب کی ادائیگی کیلئے اقدام کرتے ہیں اور دوسری بہت سی اہم ذمہ داریوں کو اِس اہم ترین ذمہ داری پر قربان کردیتے ہیں اور اِس بات کو تشخیص کرتے ہیں کہ آج کیا ذمہ داری ہے؟

آج اِس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ ہم دشمن کی شناخت اور اُس سے مقابلے کیلئے ضروری اقدامات میں غلطی کریں!

ہر زمانے میں اسلامی معاشرے کیلئے ایک خاص قسم کی ذمہ داری معین ہے کہ جب دشمن اور باطل قوتوں کا محاذ، عالم اسلام اور مسلمانوں کو اپنے نشانے پر لے آئے تو کیا کیا جا ئے؟ اگر ہم نے دشمن کی شناخت میں غلطی کی اور اُس جہت کو تشخیص نہیں دے سکے کہ جہاں سے اسلام اور مسلمانوں کو خسارہ اٹھانا پڑے گا اور جہاں سے اُن پر حملہ کیا جائے گا تو نتیجے میں ایسا نقصان و خسارہ سامنے آئے گا کہ جس کا ازالہ کرنا ممکن نہیں ہوگا اور بہت بڑی فرصت ہاتھ سے نکل جائے گی۔

بحیثیت امت مسلمہ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ پوری ملت اسلامیہ اور اپنی عوام کیلئے اپنی اِسی ہوشیاری، توجہ، دشمن شناسی اور وظیفے کی تشخیص کو ہر ممکن طریقے سے اعلی درجہ تک پہنچانے کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔

آج اسلامی حکومت کی تشکیل اور پرچم اسلام کے لہرائے جانے کے بعد ایسے امکانات اور فرصت کے لمحات مسلمانوں کے اختیار میں ہیں کہ تاریخ اسلام میں اُس کے آغاز سے لے کر آج تک جس کی مثال نہیں ملتی۔ آج ہمیں کوئی حق نہیں کہ شناخت دشمن اور اُس کے حملے کی جہت سے آگاہی میں غلطی کریں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے لے کر آج تک امام خمینی ۲ اور اُن کی راہ پر قدم اٹھانے والی شخصیات کی یہی کوشش رہی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ موجودہ دنیا میں مسلمانوں، ایران کے اسلامی معاشرے ، حق اور عدل و انصاف کو قائم کرنے میں دشمن کی کون سی سازش اور چال سب سے زیادہ خطرناک ہے!

گذشتہ سالوں کی طرح آج بھی (انقلاب اسلامی کو اُس کے بلند وبالا مقصد و ہدف کی طرف پیش قدمی سے روکنے کیلئے عالمی کفر و استکبار کی طرف سے دشمنی ، حملے اور تمام تر خطرات اپنے عروج پر ہیں! یہ وہ بزرگترین خطرہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو لاحق ہے۔ صحیح ہے کہ ایک معاشرے کے اندرونی اختلافات اور ضعف و کمزوری،دشمن کے حملے کی زمین ہموار کرتے ہیں لیکن دشمن اپنے مد مقابل افراد کی اِسی ضعف و کمزوری کو اپنے تمام تر وسائل اور امکانات کے ساتھ ایک صحیح و سالم معاشرے پر تھونپ دیتا ہے لہٰذا ہمیں اِس بارے میں ہرگز غلطی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ آج اسلامی معاشرے کی حرکت کی جہت کو عالمی استکبار سے مقابلے اور اُس کی بیخ کنی کی جہت میں ہونا چاہیے کہ جس نے اپنے پنجوں کو پوری دنیا ئے اسلام میں گاڑا ہو اہے۔(۱۷)

____________________

۱ بحارالانوار ، جلد ۲ ص ۱۷۰

۲ سورہ مائدہ / ۵۴

۳ جب یہ لوگ دین شناس اور صاحب فہم و ادرک تھے تو اتنی سی بات کیوں نہیں سمجھ سکے جو امام حسین نے سمجھی؟! جواب یہ ہے کہ صحیح ہے کہ یہ لوگ دین شناس تھے مگر چونکہ ایسے حالات کبھی پیش نہیں آئے تھے لہٰذا اُن کے ذہن میں وہ بات نہیں آئی کہ جو امام حسین کے ذہن میں آئی۔(مترجم)

۴ بحار الانوار ، جلد ۴۴، س ۳۲۵

۵ امام حسین نے یہ نہیں فرمایا کہ جب صرف ۶ ۱ ہجری کا یزید مسلمانوں پر مسلط ہوجائے بلکہ آپ نے فرمایا کہ مثل یزید، یعنی یزید جیسا کوئی بھی شخص خواہ وہ ۶ ۱ ہجری یزید ہو یا کسی بھی زمانے کا ظالم و ستمگر ۔واقعہ کربلا میں یزید کی ذات سے نہیں بلکہ یزیدی فکر اور یزیدیت سے جنگ تھی۔ (مترجم)

۶ و ۷ بحار الانوار، جلد ۴۴، ص ۳۲ ۹

۸ حوالہ سابق

۹ بحار الانوار جلد ۴۴، صفحہ ۲۳۵

۱۰ بحار الانوار جلد ۴۴ ، صفحہ ۳۸۲

۱۱ بحار الانوار ج ۴۴، صفحہ ۳۸۱

۱۲ حوالہ سابق

۱۳ بحار الانوار، جلد ۴۵ ، صفحہ ۲۱۸ ۱۴ خطبہ نماز جمعہ، ۱۰ محرم ۱۴۱ ۶ ہجری

۱۵ بحار الانوار، جلد ۴۴، صفحہ ۳۲ ۹ ۱۶ بحار الانوار، جلد ۴۴، صفحہ ۳۸۲

۱۷ علما سے خطاب، ۷/ ۵/۱۳۷۱


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22