زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)0%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (پہلی جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24749
ڈاؤنلوڈ: 3321


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24749 / ڈاؤنلوڈ: 3321
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد 1

مؤلف:
اردو

تیسرا سبق

زندگی کے حقائق کا صحیح ادراک اور عمر کا بہتر استفادہ

* فرصتوں کے مواقع سے استفادہ اور طولانی آرزوؤں سے کنارہ کشی

* لاپروائی کے مراحل

* ترکِ دنیا اور اس کی بے جاتفسیر

* ترکِ دنیا اور آخرت کو اصل جاننا

* فرائض اور تکالیف کی بروقت انجام دہی ۔

*موت کی یا دطولانی آرزوؤں کا خاتمہ

* دنیا سے وابستگی کے نتائج

زندگی کے حقائق کا صحیح ادراک اور عمر کا بہتر استفادہ

'' یَا اباَذَر ! اِیَّاکَ وَ التَّسْوِیفَ بِاَمَلِکَ فَاِنَّکَ بِیَومِکَ وَ لَسْتَ بِمَا بَعْدَهُ فَاِنْ یَکُنْ غَد فَکُنْ فِی الْغَدِکَمَا کُنْتَ فِی الْیَومِ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ غَد لَکَ لَمْ تنَدَمْ عَلٰی مَافَرَّطْتَ فِی الْیَومِ

یَا اَبَاذَر ! کَمْ مِنْ مُسْتَقبِلٍ یَوْماً لَا یَسْتَکْمِلُهُ وَ مُنْتَظِرٍ غَداًلاَ یَبْلُغُهُ ، یَا اَباذرَ ! لَوْ نَظَرْتَ اِلَی الاَجلِ وَ مَسِیرِهِ لَاَبغَضْتَ الْاَمَلَ وَ غُرُوْرَهُ یَا اَبَاذَر!کُنْ کَاَنَّکَ فِی الدُّنْیَا غَرِیب اَوْ کَعَابِرِ سَبِیلٍ وَ عُدَّ نَفْسَکَ مِنْْ اَصْحَابِ الْقُبُورِ یَا اَبَاذَر ! اِذَا اَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالمَسَائِ وَ اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالصَّبَاحِ وَ خُذْ مِنْ صِحَّتِکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَ مِنْ حَیٰوتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ لِاَنَّکَ لَا تَدْرِی مَااسْمُکَ ''

فرصتوں کے مواقع سے استفادہ اور طولانی آرزوئوں سے کنارہ کشی

'' یَا اباَذَر ! اِیَّاکَ وَ التَّسْوِیفَ بِاَمَلِکَ فَاِنَّکَ بِیَومِکَ وَ لَسْتَ بِمَا بَعْدَهُ ''

اے ابوذر ! ایسانہ ہو کہ طولانی آرزوئوں کی وجہ سے نیک کام انجام دینے میں تاخیر کرو ۔

( یہ بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گزشتہ فرمائشات کو مکمل کرتاہے اور فرصتوں سے استفادہ کرنے اور اپنی عمر کے اوقات کو ہاتھ سے نہ دینے پرایک تاکیدہے )

'' تسویف '' ان آفتوں میں سے ہے جو نیک اور شائستہ کام انجام دینے میں رکاوٹ بنتی ہیں ، اسی لئے روایتوں میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ تسویف کاموں کو تاخیر میں ڈالنے کے معنی میں ہے ، اس امید کے ساتھ کہ بعد میں انجام دیئے جائیںگے اس حالت کیلئے بہت سے دلائل ہوسکتے ہیں ، لیکن اس کا خاص اور اصلی سبب ( جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہوا ہے ) انسان کی آرزوئیں ہیں یعنی جس کام کو آپ کو انجام دینا چاہیئے انسان اس امید میں کہ کل تک زندہ ہے اوراکل انجام دے ، آج اسے انجام نہیں دیتا جب دوسرا دن ہوتا ہے تو پھر تیسرے دن کی امید میں اور اسی طرح دوسرے مہینے اور آئندہ سال کی امید میں کام کو تاخیر میں ڈالتا رہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : اگر چاہتے ہو تمہاری یہ حالت اور داخلی خصوصیت تم سے دور ہوجائے تو تصور کرناکہ صرف اسی دن اسی لمحہ اورآج کی فرصت رکھتے ہو اور اس کے بعد زندگی کی کوئی اور فرصت نہیں ملے گی ۔

'' تسویف'' کا مفہوم بہت سے دوسرے اخلاقی مفاہیم خواہ نیک ہوں یا بد کی طرح تشکیکی اور گوناگوں مراتب کا حامل مفہوم ہے یہ تشکیلی مفاہیم مختلف افراد کی نسبت ، مومن سے لے کر غیر مؤمن تک ، حتی مراتب ایمان کی نسبت ، متفاوت ہیں ، ان کے بعض مراتب واجب عمومی ہیں اور بعض واجب موکد ہیں ، ، بعض مستحب عمومی ہیں اور بعض مستحب موکد ہیں ، بعض مراتب اس قدر دقیق ہیں کہ عام لوگوں کیلئے ان کا تصور ممکن نہیں ۔

لاپروائی کے مراحل :

''تسویف '' کا پہلا مرحلہ : دنیوی کاموں کے بارے میں آرام طلبی اور سستی ہے جس کے سبب انسان اپنے کاموں میں تاخیر کرتا ہے اس بری عادت کا اعتقادی مسائل سے کوئی ربط نہیں ہے مؤمن بھی اس میں مبتلا ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کافر بھی مبتلا ہوجائے ،کیونکہ کافر بھی بعض اوقات دنیوی کاموں کے سلسلہ میں سستی اور لاپروائی کرتا ہے یہ عادت جو انسان کو اپنے کام میں تاخیر ڈالنے کا سبب بنتی ہے مومن اور کافر دونوں کیلئے ایک بری صفت شمارہوتی ہے البتہ چونکہ اگر مومن اپنے کام کو بر وقت انجام نہ دینے کی عادت کرے تو رفتہ رفتہ یہ عادت اس میں ملکہ کی حالت پیدا کرتی ہے اور اس کے دینی مسائل میں بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اس امر کاسبب بنتی ہے کہ وہ اپنے دینی فرائض کو بھی وقت پر انجام نہ دے ، اس لئے اس عادت کی برائی مومن کیلئے شدید تر ہے اگر ایسے عادات سے مقابلہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اگر انسان دینی امور میں سستی اور لاپروائی کرے تو رفتہ رفتہ یہ عادت اس میں ملکہ پیدا کرے گی اور وہ اخروی امور میں بھی سستی اور لاپروائی کرنے پر اتر آئے گا۔

'' تسویف '' کا دوسرا مرحلہ : فرائض اور واجبات کی انجام دہی میں لاپروائی ہے کہ یہ لاپروائی واجبات کی تین اقسام کی بنا پر تین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے ۔

١۔ واجبات موسع ( جن واجبات کے انجام دینے کا وقت کا فی ہوتا ہے ) میں غفلت اور لاپروائی ، جیسے نماز پنجگانہ کہ ہر ایک نماز کا ایک وسیع وقت ہے ۔ بعض لوگ ان نمازوں کو انجام دینے میں غفلت اور لا پروائی کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کو انجام دینے میں تاخیر کرتے ہیں اور آخری لمحات میں انجام دیتے ہیں ، اگرچہ یہ لاپروائی اور غفلت حرام نہیں ہے لیکن ایک ناپسند کام شمار ہوتا ہے ۔

٢۔ ان واجبات میں لاپروائی ، جنہیں فوراً انجام دینا چاہیئے ، اگر چہ ایسے واجبات اس معنی سے بالکل ہی فوری نہیں ہوتے کہ اگر پہلی فرصت میں ترک ہو تو انہیںدوسری اور اسی طرح بعد والی فرصتوں میں انجام دیا جائے ، جیسے کہ توبہ کا وجوب ، یہ پہلی ہی فرصت میں واجب ہے کہ انجام پائے اور اس میں تاخیر کرنا حرام ہے ، اگر اس میں تاخیر ہوئی تو ایسا نہیں ہے کہ اس کا وجوب اور فوریت ساقط ہوجائے ۔

٣۔ مضیق واجبات ( یعنی ایسے واجبات جن کے بجا لانے کا وقت کم اور محدود ہے ) میں لاپروائی اور غفلت جیسے : روزہ ، کہ اس کا وقت محدود ہے ۔ بعض لوگ اس واجب کو اس کے اداکے وقت میں انجام دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں اور اپنی جگہ پر کہتے ہیں کہ بعد میں اسے قضا کے طور پرانجام دیں گے ۔ اگرچہ اس قسم کے شخص کا گناہ ایسے واجب کی قضا بجالانے کاارادہ نہ کرنے والے سے کم تر ہے لیکن اس کا یہ عمل حرام ہے ۔

ترک دنیا اور اس کے بے جا تفسیریں :

ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہت سی آیات اور روایات میں ایسے مطالب ذکر ہوئے ہیں کہ ان کی گوناگوں اور بعض اوقات متضاد تفسیریں کی جاسکتی ہیں ،ان کی تفسیر کرنے میں دینی امور میں مہارت اور تفقہ کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے مواقع پر غلطی کے امکانات اور نامناسب نتائج کا احتمال زیادہ ہے ۔ نمونہ کے طورپر دنیا اور اس کی مذمت میں یا گوشہ نشینی اور ترکِ دنیا کے بارے میں بعض آیات و روایات ذکر ہوئی ہیں کہ ان کے بارے میں گوناگوں ، بعض اوقات متضاد تفسیریں کی گئی ہیں ۔ ان تفسیروں میں صوفیانہ تفسیر بھی ہے جو اسلام کے تمام جوانب اور قطعی معارف کو مد نظر رکھے بغیر انجام پائی ہے اس عقیدہ کے مطابق انسان کو ترکِ دنیا کرنا چاہیئے، لوگوں سے دور تنہائی میں عبادت کرنی چاہیئے یا ایسے لوگ حیوانوں سے الفت رکھتے ہیں جبکہ اس قسم کا استنباط قرآن مجید کی آیات ، روایات اور دین کی قطعی بنیادوں سے متضاد ہے ۔

اگر گوشہ نشینی ، تنہائی اور ترکِ دنیا بنیاد ہے تو دین کی اجتماعی تکالیف جیسے :انفاق ، ظلم کا مقابلہ ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلامی حکومت برقرار کرنے کی تلاش جو اسلام کے قطعی ضروریات میں سے ہیں کا کیا ہوگا؟

اور انھیں کہاں عملی جامہ پہنایا جائے گا ؟ کیا خلوت اور تنہائی میں ان فرائض کو انجام دیا جاسکتا ہے ؟ لہذا ایک معرفت دینی کے استنباط کیلئے تمام معارف دینی میں تفقہ اور اس کے تمام جوانب پر توجہ کرنالازم اور ضروری ہے ۔

اس غلط فہمی کے جواب میں کہنا چاہیئے :اگر دنیا طلبی زندگی کے مقصد کے طور پر پیش کی جائے تو قابل مذمت ہے لیکن اگر دنیا اخروی کمال تک پہنچنے کا وسیلہ بن جائے تو نہ صرف قابل مذمت نہیں ہے بلکہ قابل تعریف و ستائش بھی ہے ۔ دنیا کو وسیلہ قرار دینے کے چند مراتب ہیں کہ ان میں سے بعض مراتب لازم ہیں اور بعض مراتب کمالات کے جز شمار ہوتے ہیں اس کی ضروری حد بندی یہ ہے کہ دنیا کی لذتوں سے استفادہ کرنا اور مادی امور میں مشغول ہونا ترکِ واجب یا فعل حرام انجام دینے کا سبب نہ بنیں وہ دنیا طلبی حرام ہے جو ارتکاب گناہ یا ترکِ واجب کا سبب بنے اور اگر دنیا طلبی انسان میں ایک نا پسند عادت بن جائے تو اس کے ساتھ مقابلہ کرنا واجب ہے ۔

اسلام کی نظر میں ،مثالی انسان وہ ہے جو کسی بھی صورت میں دنیوی امور کو بنیاد قرار نہ دے اور کسی بھی دنیوی کام کو اگرچہ مباح بھی ہو مادی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے انجام نہ دے ۔ دور اندیش اورہوشیار انسان اس مقام پر جو بلند ترین انسانی مقام ہے فائز ہوئے ہیں یعنی وہ اس طرح عمل کرتے ہیں کہ ان کے تمام کردار و رفتار ، حتی سانس لینا بھی عبادت شمار ہوئے ہیں ان کے تمام جسمانی اعمال و رفتار ، جیسے کھانا پینا، ورزش کرنا حتی حلال جنسی لذتیں بھی اخروی امور کا مقدمہ ہیں اور اس لحاظ سے واجب یا مستحب عبادت شمار ہوتی ہیں ۔

ترک دنیا اور آخرت کو اصل جاننا :

بہر صورت مادی اور دنیوی امو رکو بنیاد قرار دینا یا بنیاد قرار نہ دینا ایک ظریف اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کا معیار گفتگو میں معلوم نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس کا انحصار افراد کی نیت پر ہے : مثال کے طورپراگر انسان لذت کی غرض سے کھانا کھائے تو اس نے مادیت کو بنیاد قرار دیا ہے ، اگرچہ زبان سے انکار بھی کرے اور اگر اس کی نیت یہ ہو کہ کھانے کے مزہ سے لذت پاکر خداکا شکر بجالائے تو اس نے آخرت کو بنیاد قرار دیا ہے ، کیونکہ اس کا مقصد اللہ تعالی کا شکر بجالانا ہے اسی لحاظ سے قرآن مجید میں بعض نعمتوں کا ذکرکرنے کے بعد ، بارگاہ الٰہی میں شکر گزاری ، نعمتوں سے استفادہ کرنے کے مقصد کے طور پر بیان ہوئی ہے پس مقصد ، شکر گزاری ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب تمام مادی کام خدائی رنگ پیدا کریں ۔

اکثر لوگ اپنی رفتار کے معنوی پہلو کی طرف توجہ نہیں رکھتے اور اس قدر مادی لذتوں میں غرق ہوتے ہیں کہ مادیات اور مادی لذتوں کے علاوہ کسی اور مقصدکو مدنظر نہیں رکھ سکتے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معنوی مقامات تک پہنچنے اور اخروی امو ر کو بنیاد قرارد ینے کیلئے انسان کو مربی کی ضرورت ہے ، کیونکہ ممکن ہے اعتدال کی راہ سے بھٹک کر افراط و تفریط کا شکار ہوجائے ۔

جولوگ نفس کے تکامل وترقی اور اس کی تربیت کے بارے میں قدم اٹھانا چاہیں انھیں اپنے ذہن میں دنیوی پہلوؤں کو ضعیف کرنے ، مادی لذتوں کی چاہت کو کم کرنے اورا خروی لذتوں کے رجحان اور برتری کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،دنیوی لذتوں سے چشم پوشی کرنے کیلئے اپنے آپ کو تلقین کرے کہ مادی لذتیں اخروی لذتوں کے مقابلہ میں حقیر اور ناچیزہیں ۔ اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام اپنی فرمائشات میں لوگوں کو آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کی ترغیب دیتے ہیں ترک دنیا کی حوصلہ افزائی نہیںکرتے کہ مکمل طور پر دنیا کو چھوڑدیں ،کیونکہ اگرانسان دنیا کو اخرت کا مقدمہ قرار دے ، تو نہ صرف یہ کہ وہ دنیا طلب نہیں ہے بلکہ آخرت طلب ہے مباحات سے استفادہ کرنا بذات خود حرام میں مبتلا نہ ہونے کا مقدمہ ہے اس لحاظ سے عبادت میں شمار ہوتا ہے اس کے علاوہ بعض اوقات مباحات سے استفادہ کرنا بلند ترین فرائض انجام دینے میں تقویت اور آمادگی کا سبب بن جاتا ہے ۔

حضرت اما م موسیٰ بن جعفر علیہ السلام روزانہ اوقات کی تقسیم بندی کے بارے میں فرماتے ہیں:

'' ایک گھنٹہ حلال لذتوں سے استفادہ کرنے کیلئے مخصوص رکھنا چاہیئے کیونکہ حلال کے استفادہ سے ہی انسان تمام فرائض کو انجام دینے کی طاقت پیدا کرسکتا ہے ''

چنانچہ ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جملۂ ''ِیَاکَ و التسویف''میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ '' تسویف '' کے پیدا ہونے کا سبب انسان کی لذتیں حاصل کرنے کی آرزوئیں ہیں ۔ یعنی انسان ہمیشہ دنیوی لذتوں کو حاصل کرنے کی تلاش میں ہوتا ہے اور یہ امر بذات خود دینی فرائض کو تاخیر اور التوا میں ڈالنے کا سبب ہے دوسرے الفاظ میں انسان اس دوراہے سے دوچار ہوتا ہے کہ فرصت کو فوری اور مادی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کرے یا اخروی نتائج حاصل کرنے کیلئے ، چونکہ لذات دنیا کو نقد اور آخرت کو ادھار سمجھتا ہے اس لئے فرضت کو اسی کیلئے صرف کرتا ہے ، حقیقت میں اس کا ایمان آخرت کی نسبت دنیا پرزیادہ ہے اور عارضی اور فوری لذتوں کو آخرت کی پائدارلذتوں پر ترجیح دیتا ہے ۔

حیرت کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر کافی حد تک شرک میں مبتلا ہیں کیونکہ ہم آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کے قائل نہیں ہیں :

( وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُهُمْ بﷲ اِلَّا وَ همُ مُشْرِکُونَ' ) ( یوسف ١٠٢)

'' اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ ''

اگر انسان کسی کام کوغیر خدا کیلئے انجام دے ، حتی اگر وہ کام اخروی ثواب حاصل کرنے کیلئے بھی ہوشرک ہے ۔ خالص توحید میں ، خدا کے سوا کوئی اور مقصد نظر میں نہیں ہوتا ہے ، حتی جہنم کا خوف اور بہشت کا شوق بھی مقصد نہیں ہے ، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''اِلٰهی مَا عَبَدْتُکَ خَوفاً مِنْ عِقَابِکَ وَ لَا طَمْعاً فِی ثَوَابِکَ وَ لٰکِنْ وَجَدْتُکَ اَهْلاً لِلْعِبَادةِ فَعَبَدْتُکَ ''(۱)

میرے پروردگار ! تیرے لئے میری عبادت نہ جہنم کے خوف کی وجہ سے ہے اور نہ بہشت کی طمع کے سبب ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ میں تجھے عبادت کے لائق جانتا ہوں ''

طولانی آرزوئیں ، انسان کی سعادت کو خطرہ میں ڈالتی ہیں ، اس لئے حضرت علی علیہ السلام اکثر اس بات سے خائف تھے کہ لوگ اپنی طولانی آرزوؤں میں مبتلا ہوکر فرائض الہی کو اپنی نفسانی خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھائیں :

''وَ اِنَّ اَخْوَفَ مَا أَخَافَ عَلَیکُمْ اِثْنَانُ: اِتِّبَاعُ الْهَویٰ وَ طُولُ الْاَمَلِ ، لِاَنَّ اِتِّبَاعَ الْهَویٰ یَصُدُّ عَنِ الْحَقَّ وَ طُولَ الْاَمَلَ یُنْسِی الآخِرَةَ ''(۲)

'' مجھے تم لوگوں کے بارے میں دو چیزوں کا زیادہ خوف ہے ایک نفسانی خواہشات کی

پیروی اور دوسری طولانی آرزوئیں ، کیونکہ نفسانی خواہشات کی پیروی حق کی راہ میں رکاوٹ اور طولانی آرزوئیں آخرت کو فراموش کرنے کا سبب بنتی ہیں ''

فرائض و تکالیف کی بروقت انجام دہی :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم '' تسویف '' سے پرہیز کرنے کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''فانک بِیَومِکَ و لست بما بعده ''

'' کیونکہ تمہیں صرف آج کے دن کی فرصت ہے اور کل کا دن تمھارے اختیار میں نہیں ہے ''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے نصیحت فرماتے ہیں کہ آج کے فریضہ کو کل پر نہ چھوڑنا ، کیونکہ کل کے آنے کی کوئی ضمانت اور اطمینان نہیں ہے ، اوراگربالفرض کل آبھی جائے تو تمہیں دوسرے فرائض انجام دینے ہیں ، کل کے نہ آنے کا تجھے افسوس نہیں ہے ، لیکن اگر تم نے اپنے فریضہ کو تاخیر میں ڈال دیا اور کل کا دن نہ آیا تو کیسے اسے انجام دو گے تو اس حسرت اور افسوس کو اپنے ساتھ دوسری دنیا میں لے جاؤ گے۔

لہذا اسی لمحہ کے بارے میں سوچنا چاہیئے اور اسی لمحہ کو غنیمت سمجھنا چاہیئے نیز '' تسویف'' اور کاموں کو اس امید سے التوا میں ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کہ انہیں کل انجام دیں گے ، مطالعہ اور تحقیق کے دوران اپنے آپ سے یہ نہ کہیں کہ وقت کافی ہے کل مطالعہ کریں گے ، کیونکہ آنے والے کل کے دن بھی ہمیں دوسرے فرائض انجام دینے ہیں:

''فَاِنْ یَکُنْ غَدلک فَکُنْ فِی الْغَدِکَمَا کُنْتَ فِی الْیَومِ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ غَد لَکَ لَمْ تنَدَمْ عَلٰی مَافَرَّطْتَ فِی الْیَومِ ''

اگرتمھارے لئے کوئی آنے والا کل ہے تو اس دن بھی آج کے مانند فریضہ انجام دینے کی فکر میں رہو اور اگر کوئی آنے والا کل تمھارے لئے نہیں ہے تو صرف آج کے دن کو بطور فرصت پانے پر پشیمان نہیں ہوگے ۔

ممکن ہے کوئی شخص اپنے روز مرہ کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس بات پر پشیمان ہوجائے کہ وہ زیادہ کامیابی حاصل نہیںکرسکا ہے لیکن اس کی طاقت کی محدودیت کے پیش نظر یہ کہ اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق فرائض انجام دئے ہیں ، پشیمان نہیں ہوگا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی گزشتہ نصیحتوں کو مکمل کرتے ہوئے اور اس امر کی تاکید فرماتے ہوئے کہ آنے والے کل کے انتظار میں نہیں بیٹھا جا سکتا ہے ، فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَر ! کَمْ مِنْ مُسْتَقبِلٍ یَوْماً لَا یَسْتَکْمِلُهُ وَ مُنْتَظِرٍ غَداًلاَ یَبْلُغُهُ ''

اے ابو ذر ! کتنے ایسے لوگ ہیں جو صبح سے شام تک نہیں پہنچتے اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو آنے والے کل کے انتظار میں ہوتے ہیں لیکن اس تک نہیں پہنچتے۔

غوروفکر کا مقام ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے تربیتی بیانات میں کس طرح مخاطب کو آمادہ فرمارہے ہیں تاکہ اپنی عمر کے لمحات سے کیسے بہترین فائدہ اٹھائیں ۔ ابتداء میں اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کس قدر مستقبل پر بھروسہ اور امید کرسکتا ہے تاکہ اس آنے والے زمانہ کیلئے کسی کام کو التوا میں رکھے ۔ اگر وہ اپنے آنے والے کل پر بھروسہ نہیں رکھتا ہے تو کیوں اپنے کام کو التوا میں ڈالتا ہے : ظہر کی ابتدا میں ظہر کی نماز کا وقت ہے ، کونسی گارنٹی ہے کہ اسے مزید ایک گھنٹہ زندہ رہنا ہے تا کہ نماز کو التوا میں ڈال دے ؟ واضح ہے کہ اگر اول وقت پر نماز پڑھے ، تو بعد میں پشیمان نہیں ہو گا ، اس کے علاوہ دوسرے کام بھی انجام دے سکتا ہے ۔

موت کی یاد ،طولانی آرزؤں کا خاتمہ:

'' یَا اَباذرَ ! لَوْ نَظَرْتَ اِلَی الاَجلِ وَ مَسِیرِهِ لَاَبغَضْتَ الْاَمَلَ وَ غُرُوْرَه''ُ

اے ابوذر! اگر موت کے بارے میں سوچ لواور یہ کہ کس تیز رفتاری سے تیری طرف آرہی ہے ، تو آرزو اور اس کی فریب کاری سے دشمنی کرو گے ۔

آرزوؤں اور ان کی فریب کاریوں سے مقابلہ اور جنگ کرنے کی بہترین راہ یہ ہے کہ اپنی موت کی فکر میں رہو اور جان لو کہ اجل ، طولانی آرزوئوں کو ناکام بنا دیتی ہے اور انسان کو ناامیدی کے عالم میں دوسری دنیا کی طرف لے جاتی ہے ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' وَمَنِ اسْتَشْعَاَرَ الشَّغَفَ بِهَا ، مَلَاَتْ ضَمِیْرَهُ اَشْجاناًلَهُنَّ رَقْص عَلٰی سُوَیْدائِ قَلْبِهِ هَمُّ یَشْغَلُهُ وَ غَمّ یَحْزُنُهُ ، کَذٰلِکَ حَتّٰی یُوْخَذَ بِکَظْمِهِ فَیُلْقیٰ بِالْفَضَائِ '' (۳)

'' اور جس نے دنیا کی محبت کو دل میں جگہ دی ، وہ اندر سے غم و اندوہ سے بھر جائے گا اور یہ غم و آلام اس کے دل میں موجزن ہوں گے ، ایک مسلسل اور حزن سے بھرا غم یہاں تک اس کی سانس رک جائے گی اور ایک گوشہ میں پڑی اس کی زندگی کی رگیں کٹ جائیں گی ۔'''

ایک اور جگہ پر حضر ت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' وَ مِنْ عِبَرِهَا اَنَّ الْمَرْئَ یُشْرِفُ عَلَی اَمَلِهِ فَیَقْتَطعِاُهُ حَضُوْرُ اَجَلِهِ ، فَلَا اَمَلاً یُدْرَکُ وَ لَا مُوْمِّل یُترَکَ ...'' (۴)

دنیا کی عبرتوں میں سے یہ بھی ایک عبرت ہے کہ جب تک انسان اپنی آرزوئوں تک پہنچنا چاہتا ہے ، موت پہنچ کر اسے ناامید کردیتی ہے ، پس نہ آرزو اس کے ہاتھ آتی ہے اور نہ موت کے چنگل سے بچ سکتا ہے ۔

دنیا سے وابستگی کے نتائج :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَر!کُنْ کَاَنَّکَ فِی الدُّنْیَا غَرِیب اَوْ کَعَابِرِ سَبِیلٍ وَ عُدَّ نَفْسَکَ مِنْاْ اَصْحَابِ الْقُبُور''

'' ا ے ابوذر ! دنیا میں ایک اجنبی اور مسافر کی صورت میں زندگی گزارنا اور خود کو ایک مردہ شمار کرنا''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نصیحت فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک ایسے اجنبی کی طرح رہنا جو کسی شہر میں داخل ہوتا ہے ، سوچ لو کہ اگر اس کا اس شہر میں کوئی دوست یا آشنا نہ ہو تو وہ کیسے زندگی گزارے گا کیا اس کے باوجود کہ کسی سے الفت پیدا نہیں کرسکتا ہے ، عیش و عشرت میں زندگی بسر کرسکتا ہے ؟ مومن کا وطن آخرت ہے اور دنیا میں مسافر اور راہی کے مانند ہے ، اس لئے وہ اس فکر میں نہیں ہے کہ اپنے لئے عیش و عشرت کی بساط کو پھیلائے ، اسی طرح پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نصیحت فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک راہی کے مانند رہنا کہ جوراستہ پر چلتا ہے لیکن رکنے کی مجال نہیں رکھتا ۔

ممکن ہے اس قسم کے جملوں پر ظاہری توجہ کرنے سے انسان غلط فہمی کا شکار ہوجائے اور یہ فکر کرنے لگے کہ دوسروں سے کنارہ کشی کرنی چاہیئے اور گھر بنانے اور خاندان کو تشکیل دینے کی فکر کو ذہن سے نکال دینا چاہیئے او ر بالآخر دنیا کی نعمتوں سے دوری اختیار کرکے صرف اخروی دنیا کی فکر کرنی چاہیئے ، کیونکہ وہاں پر انسان کی ابدی قیام گاہ ہے ! اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اس قسم کا طرز تفکر اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق نہیں ہے ، کیونکہ ممکن ہے دوست و احباب کا انتخاب ، خاندان کی تشکیل ، مال و دولت اور گھر بنانا و.. سب آخرت کے محور بن جائیں اور دنیا کی محبت انسان کا مقصد قرار نہ پائے بلکہ آخرت کی توجہ اور حکم خدا کی اطاعت انسان کا مقصد قرار پائے ، کیونکہ دنیا کے ذریعہ اور اس کی لذتوں سے فائدہ اٹھا کر اخروی کمالات اور قرب الہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

حقیقت میں جس نے آخرت کو اپنا مقصد قرار دیا ہے اس نے دنیا کو وسیلہ کے طور پرا نتخاب کیا ہے ، اب اگر کوئی انسان دنیا سے چشم پوشی کرکے اسے آخرت کیلئے وسیلہ قرار نہیں دے سکتا ہے ، تو کم از کم اسے ایک راہی کا رول ادا کرنا چاہیئے کہ راستہ سے چلتے ہوئے تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے قدرے رک کر آرام کرے ۔اگرچہ ایسے شخص کی نظر میں دنیوی امور اصلیت کے حامل ہیں اور مکمل طور پر انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، کم از کم ان سے مدد حاصل کرے اور ضرورت کو پورا کرنے کی حد تک دنیوی مباحات سے استفادہ کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ حضرت امام موسی بن جعفرعلیہ السلا م نے اس مطلب کے پیش نظر فرمایا ہے :

'' اپنے وقت کے ایک حصہ کو حلال لذتوں سے استفادہ کرنے کیلئے مخصوص کرو ''

جملۂ '' وَعُدَّ نَفْسَک من اصحاب القبور '' بلند ترین تعبیر ہے جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استعمال کیا ہے، لیکن ممکن ہے اس سے بھی غلط مطلب لیا جائے ، جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : '' اپنے آپ کو مردہ قرار دو '' اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ چونکہ مرد ے ضروری ترین نعمتوں ، جیسے کھانے پینے سے محروم ہیں ، اور تم بھی دنیا اور اس کے امکانات سے فائدہ اٹھانے سے اجتناب کرنا۔ جبکہ یہ ایسی صورت میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ انسان اپنی مستقل قیام گاہ کی طرف توجہ رکھے ۔ جب دنیوی زندگی آخرت کی گزرگاہ اوردوسری دنیا میں پہنچنے کیلئے ایک پل ہے ، تو انسان کی توجہ اصلی مقصد اور ابدی قیام گاہ کی طر ف رہنا چاہیئے اور ایک د ن کیلئے اپنے آپ کو آمادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور کافی زادراہ اپنے ساتھ اٹھانے کی فکر کرے تا کہ وہاں پر پشیمان اور شرمندہ نہ ہوجائے۔پس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد یہ نہیں ہے کہ انسان دنیوی امو رکو مکمل طور پر چھوڑدے اور ذریعہ معاش اوراپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کیلئے مستقبل کے وسائل و آسائش کی کوئی فکر نہ کرے ۔

آیات و روایات سے غلط مطلب نکالنے کی عادت ، مسلمانوں میں زمانہ قدیم سے رہی ہے ، چنانچہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں عذاب کے بارے میں ایک آیت نازل ہوئی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض اصحاب ، گھر بار ، ازدواجی زندگی ، کھانا پینا اور لباس وغیرہ کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول ہوگئے تو جب یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اپنے پاس بلاکر فرمایا: ' ' ایسا کیوں کرتے ہو؟ میں جو تمہارا پیغمبر ہوں ،عبادت و روزہ داری کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی بھی چلا رہا ہوں اور دنیوی لذتوں سے بھی استفادہ کرتا ہوں ،تم لوگ بھی میرے نقش قدم پر چل کر گھر بار اور اپنی زندگی کو نہ چھوڑو ''

مذکورہ مطلب کے پیش نظر اس بات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ ممکن ہے کوئی انسان دنیا میں کثرت سے مالی و مادی امکانات کا مالک ہو، لیکن دنیا پرست نہ ہو، کیونکہ تمام مادی امکانات کو حق کی راہ ڈھونڈنے میں وسیلہ کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب دنیا کی مذمت کا مسئلہ ہو تو اس مذمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قدرتی وسائل کو حقیر سمجھا جائے ، کیونکہ وہ سب خدا کی پیدا کردہ اور الٰہی آیات ہیں ۔ بلکہ درحقیقت مذمت انسان کی فکراور نیت کے بارے میں کی گئی ہے جو اسے دنیا کی نعمتوں سے وابستہ کردیتی ہے اور انہیں اصلی مقصدکے طورپر انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اس کے وسیلہ کے رول سے غافل ہوتا ہے ، پس حقیقت میں انسان کی مادی وسائل سے استفادہ کی نا پسندیدہ طریقہ سے مذمت کی گئی ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توصیف میں فرماتے ہیں:

'' فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنیا بِقَلبِهِ وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَا عَنْ نَفْسِهِ '' (۵)

'' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب کو دنیا کی طرف کوئی توجہ نہ تھی اور آپ نے اس (دنیا ) کے نام اور یاد کو اپنے نفس میں مار ڈالا تھا''

'' یَا اَبَاذَر ! اِذَا اَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالمَسَائِ وَ اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالصَّبَاحِ''

اے ابوذر ! صبح کے وقت شام کی خوش فہمی میں نہ رہو اور شام کے وقت اپنے آپ کو صبح کی نوید نہ دو ۔

'' یہ بات گزشتہ مطالب کی ایک تاکید ہے کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے مستقبل کے بارے میں مطمئن نہیں ہوسکتا ''

'' وَ خُذْ مِنْ صِحَتِّکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَ مِنْ حَیٰوتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ لِاَنَّکَ لَا تَدْرِی مَااسْمُکَ ''

اس وقت بیمار ہونے سے پہلے اپنی تندرستی سے اور مرنے سے پہلے اپنی زندگی سے فائدہ اٹھائو کیونکہ تم نہیں جانتے ہو کہ کل تمھارا انجام کیا ہوگا۔

یہاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نصیحت فرماتے ہیں : فرصت سے استفادہ کرو اور آج کی زندگی کو غنیمت جانو کیونکہ نہیں معلوم کہ تم کل زندہ رہوگے کہ نہیں ۔ اس طرح بیمار ہونے سے پہلے اپنی تندرستی سے استفادہ کرو۔

____________________

۱۔بحار الانوار ، ج ٤١، ص ١٤

۲۔ بحار الانوار ، ج ٧٧ ، ص ٤١٩

۳۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، حکمت نمبر ٣٥٩، ص ١٢٥٦۔

۴۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ،خ١١٣،٣٥٣

۵۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، خططہ ١٠٨ ، ص ٢٩٤۔