چوتھا سبق
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نصیحت ، اپنی موجودہ صلاحیتوں سے صحیح استفادہ کرنا
* موت اورانجام گناہ کے بارے میں غورو خوض کا اثر
* زندگی کی قدر جاننے کی ضرورت
* فرائض کی بر وقت انجام دہی اور اگلے دن کی فکر نہ کرنا۔
پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نصیحت موجودہ صلاحیتوں سے مناسب استفادہ کرنا
''یَا َبَاذَرٍ ! اِیَاکَ اَنْ تُدْرِکَکَ الصَّرْعَةُ عِندَ الْعَثرَةِ وَ لَا تَمَکَّن مِنَ الرَّجْعَةِ وَ لَا یَحْمَدُکَ مَنْ خَلَّفْتَ بِمَا تَرَکْتَ وَلَا یَعْذِرُکَ مَنْ تَقْدِمُ عَلَیْهِ بِمَا اشْتَغَلْتَ بِهِ ''
یَا اَبَاذَرٍ ! مَا رَایْتُ کَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا وَلَا مِثْلَ الْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا ، یَا اَبَاذَر!کُنْ عَلٰی عُمُرِکَ اَشَحَّ عَلٰی دِرْهَمِکَ وَ دِینَارِکَ ، یَا َبَاذَر !هَلْ یَنْتَظِرُ اَحَدُکُمْ اِلَّا غَنِیَّ مُطْغِیاً اَوْ فَقْراً مُنْسِیاً اَوْ مَرَضاً مُفْسِداً اَوْ هَرَماً مُقْعِداً اَوْ مَوْتاً مُجْهِزاً اَوْ الدَّجَّالَ ، فَاِنَّهُ شَرُّغَایِبٍ اَوْ السَّاعَةَ تُنتَظُرُ وَ السَّاعَة اَدْهیٰ وَ اَمرُّ''
اس سے پہلے ابوذر کی روایت کے کچھ حصوں پر روشنی ڈالی گئی ۔ ان حصوں میں ا یمان کی تقویت ، فرصتوں کو غنیمت جاننے نیز عمراورخدا کی نعمتوں کی قدر جاننے کی تاکید ہوئی ہے اور پھر سے وہی مطالب دوسری عبارتوں میں بیان ہورہے ہیں ، تاکہ مومنین کے دلوں پر بیشتر اثر ڈالا جائے ۔ جب انسان نے خداوند متعال ، قیامت اور خد کی قدر ومنزلت کا اعتقاد پیدا کیا ہے تو وہ اس بات کی بھی کوشش کرتا ہے کہ بارہ گاہ الٰہی میں سرخرو حاضر ہو اور قیامت کے دن اس پر خد اکی عنایت ہو ، لیکن اس کام کا انحصار اس پر ہے کہ وہ اپنی عمر کی قدر جان لے اور یہ بھی جان لے کہ اسے کس طرح استعمال کرے ، تا کہ اپنے مقصد تک جو کہ ابدی سعادت ہے پہنچ جائے ۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاکید فرماتے ہیں : انسان غفلت ، گناہ اور انحراف میں مبتلا ہونے سے پرہیز کرے ، کیونکہ ممکن ہے اسی حالت میں اس کی موت آجائے اور بدبختی اور شرم و پشیمانی کے عالم میں اپنی ابدی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوجائے ۔
موت اورانجام گناہ کے بارے میں غور و خوض کا اثر
''یَا اباذر ! اِیَاکَ اَنْ تُدْرِکَکَ الصِّرْعَةُ عِندَ الْعَثرة فلا تقال العثرة وَ لَا تَمَکَّنُ مِنَ الرَّجْعَةِ وَ لَا یَحْمَدُکَ مَنْ خَلَّفْتَ بِمَا تَرَکْتَ وَلَا یَعْذِرُکَ مَنْ تَقْدِمُ عَلَیْهِ بِمَا اشْتَغَلْتَ بِهِ ''
اے ابو ذر! اس سے ڈرو کہ کہیں گناہ کی حالت میں تمہیں موت آجائے ، اس صورت میں تمھیں نہ گناہوں کی تلافی کرنے کا موقع فراہم ہوگا اور نہ پھر سے دنیا میں آنے کی قدرت کے مالک ہوسکوگے ، نہ تیرے وارث تمھاری چھوڑی گئی وراثت پر تمھاری ستائش کریں گے اور نہ خداوند متعال ، اس کے دربار میں تیرے بھیجے ہوئے اعمال کی عذر خواہی قبول کرے گا۔
اس سے پہلے بتایا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض اخلاقی مفاہیم کو مختلف عبارتوں میں بیان فرمایا ہے ان اخلاقی مفاہیم کی تکرار کا مقصد مومنوں کے دلوں میں بیشتر اثر ڈالنا ہے قرآن مجید کی آیات پر سرسری نگاہ ڈالنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ مختلف مواقع پر بہت سی آیات تکرار ہوئی ہیں ، حتی بعض مواقع پر من و عن الفاظ بھی تکرار ہوئے ہیں جیسے : آیۂ مبارکہ'' فَبَِیِّ آلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ '' جو سورۂ الرحمن میں اس کی اکتیس بار تکرار ہوئی ہے اگر چہ تکرار کے نتیجہ میں ہر آیت ایک خاص معنی رکھتی ہے ، لیکن تکرار کے دل پر زیادہ اثر ڈالنے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے،بعد والی سطر میں روز مرہ کے کاموں میں بھی تکرار کی رفتار ، عادات اور خوب و بد ملکہ کے تغیر میں اہم رول ہوتا ہے ۔
روایت ہے کہ جب آیۂ شریفہ(
وَاْمُرْ اَهْلَکَ بِالصَّلوٰةِ
)
( طہ ١٣٢)
نازل ہوئی ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل آٹھ مہینے تک حضرت علی علیہ السلام کے گھر پر تشریف لے جا کر فرماتے تھے : نماز ! خدا کی رحمت آپ پر نازل ہو '' بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اے اہل بیت ! تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''
( اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر روز صرف ایک بار علی علیہ السلام کے گھر پر تشریف لے جاتے تو یہ عمل دو سو چالیس بار تکرار ہوا ہے ، جبکہ ظاہراً روزانہ پانچ بار تشریف لے جاتے تھے )
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر انسان یہ نہیں جانتا ہو کہ کونسا عمل اسے سعادت تک پہنچاتا ہے اور کون عمل اسے بدبختی سے دوچار کرتا ہے تو نتیجہ کے طور پر وہ گناہ اور گمراہیوں میں مبتلاہوتا ہے اور گناہ کو انجام دینے کے دوران ہی اسے موت آجائے ، تو اس نے اپنے لئے بدترین نقصان مول لیا ہے ، کیونکہ اس نے اپنی عمر و حیات کے گوہر (جوانی اور خداوند عالم کی نعمتوں) کو گناہ انجام دے کر کھودیا ہے اور اس کے مقابلہ میں تباہی و بردباری کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا ہے ، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : اس امر سے ڈرنا کہ کہیں گناہ کی حالت میں تجھے موت آجائے اور اسی حالت میں تیر ی روح قبض ہوجائے ، اس صورت میں گناہ کی تلافی کیلئے تیرے پاس کوئی فرصت باقی نہیں رہے گی اور تیرے ریکاڑد میں ہمیشہ کیلئے گناہ باقی رہے گا کیونکہ دنیا میں واپس آنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاتی ہے ۔
اس سلسلہ میں قرآن مجید فرماتا ہے :
(
حَتّٰی اِذَا جَاء اَحَدَهُمُ الْمَوتُ قَالَ رَبِّ ارْجْعُون لَعَلِّی َعْمَلُ صَٰلِحاً فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمَة هُوَ قَائِلُهَا
)
(مومنون ٩٩۔ ١٠٠)
''یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگارا ! مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں اور گزشتہ برے اعمال کی تلافی کرلوں ایسا ہرگز نہیں ہوگا یہ ایک ایسی بات ہے جو یہ کہتا رہے گا ...''
اگر انسان گناہ انجام دیتے ہوئے یہ سوچ لے کہ ممکن ہے اسی حالت میں اسے موت آجائے تو وہ گناہ سے ہاتھ کھینچ لے گا ۔ بالفرض ایک غیر شرعی معاملہ کی تجارت میں انسان ایک بڑا نفع کماتا ہے اور اسے اپنے وارثوں کیلئے چھوڑتا ہے ، کیا اس کا خود اس کیلئے بھی کوئی فائدہ ہوگا؟ کیا اس کے وارث جو اس وراثت کا فائدہ اٹھائیں گے اس مشقت کیلئے اس کی ستائش کریں گے اور خدا سے اس کیلئے مغفرت کی دعا کریں گے ؟ یا وہ اس مال سے اپنی لذت کیلئے استفادہ کریں گے اور اس کا نام تک نہیں لیں گے ؟ اگر اس کی ستائش بھی کریں گے تو اس کاا سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ دوسری طرف سے وہ تمام خطاؤں اور کوتاہیوں کے ساتھ خدا کے حضور میں پہنچتا ہے کیا اب اس کے پاس خداکے سامنے کوئی بہانہ موجود ہے اور کیا خداوند عالم اسے معاف کردے گا ؟ وہ تو جانتا تھا کہ وہ کام حرام اور خد اکے حکم کے خلاف تھا اور اس پر حجت تمام ہوچکی تھی ، اس لئے خدا کے حضور کیا بہانہ پیش کرسکتا ہے وہ اپنے آپ پر و بال جانبنی ہوئی آگ کا کیا جواب دے گا ؟
''یَا اَبَاذَرٍ ! مَا رَایْتُ کَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا وَلَا مِثْلَ الْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا''
'' اے ابو ذر ! میں نے جہنم کی آگ کے مانند نہیں دیکھا کہ اس سے بھاگنے والا خواب میں ہو اور نہ ایسی بہشت دیکھی کہ جس کا چاہنے والا خواب میں ہو''
زندگی کی قدر کرنے کی ضرورت :
'' یَا اَبَاذَر!کُنْ عَلٰی عُمُرِکَ اَشَحَّ عَلٰی دِرْهَمِکَ وَ دِینَارِک''
اے ابوذر !اپنی عمر کے بارے میں درہم و دینار سے بھی بخیل تر ہو جائو۔
اگر کسی نے بڑی محنت او رمشقت کے بعد ایک رقم فراہم کی ہے تو کیا وہ آسانی کے ساتھ اسے کسی کو بخش دے گا ؟ چونکہ اس نے اسے حاصل کرنے کیلئے بڑی مشقت اٹھائی ہے ، اس لئے اسے مفت میں ہاتھ سے نہیں دیتا اور اس کی قدر جانتا ہے ۔ اس کے بر عکس یہ ممکن ہے کہ کسی قسم کے نقصان کا احساس کئے بغیر اپنی زندگی کے گھنٹوں کے گھنٹے غلط راستے پر ضائع کر ڈالے دوسرے الفاظ میں ، ممکن ہے ہم اپنے مال کو خرچ کرنے میں بخیل ہوں لیکن اپنی عمر کو خرچ کرنے میں بخیل نہ ہوں ، با وجود اس کے کہ مال و دولت کی قدر و قیمت کو عمر سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔
اگر کسی کی زندگی خطرہ میں پڑجائے تو وہ حاضر ہوتا ہے اپنی دولت کا کئی گنا خرچ کرے تا کہ زندہ رہے ۔ فرض کیجیے تمام دنیا کے سونے ، چاندی اور الماس کی کانیں اور پٹرول کے تمام معادن ایک شخص کے اختیار میں ہوں اور اسے کہا جائے : اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہ ساری دولت دینا پڑے گی ، کیا وہ اس ساری دولت کو نہیں دے گا ؟
انسان ، دنیا کے وسائل کو اپنے استفادہ کیلئے چاہتا ہے ، اب اگر وہ خود زندہ نہ رہے تو اس کیلئے کیا فائدہ ہے ؟ اس لحاظ سے اس کی عمر تمام دنیا کی دولت سے زیادہ قیمتی ہے ، وہ کیوں اس گراں قیمت دولت کو مفت ہاتھ سے گنواتا ہے ؟ نہ صرف وہ اسے مفت میں کھو دیتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی جگہ پر اپنے لئے ابدی عذاب بھی خرید لیتا ہے ہو ؟ اگر درہم و دینار کو برباد کرنا عاقلانہ کام نہیں ہے تو کیا اپنی عمر کو ناپائدار نفسانی خواہشات کیلئے برباد کرنا عقلمندی ہے ؟!
اس گراں قیمت سرمایہ کو مفت اور ارزاں قیمت پر اپنے دوست ، رفیق، بیوی اور بچوں کے ہاتھ میں نہ دینا ، دوسروں کی خوش آمد کیلئے اسے بیہودہ اور فضول کاموں میں خرچ نہ کرنا ، اسے معصیت و گناہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بات ہی نہیں ، جی ہاں ، اگر انسان خداوند متعال کی رضامندی کیلئے اپنی عمر کو دوسروں کی خوشحالی ، بیوی بچے اور مؤمن بھائی کی بھلائی یا مؤمنین کی حاجت روائی کی راہ میں خرچ کرے ، تو اس نے اس صورت میں نہ یہ کہ اپنی عمر کو مفت میں ضائع نہیں کیا ہے بلکہ اس کے بدلے میں خدا کی مرضی بھی مول لی ہے جس کی قدرو قیمت تمام کائنات سے زیادہ ہے لیکن یہ عقلمندی نہیں ہے انسان ایک ایسی عمر کو جس کا ہر لمحہ تمام کائنات کی قیمت کے برابر ہے دوسروں کی سرگرمی اور چاہت کے مطابق خرچ کرے ، کیونکہ اس صورت میں اس نے اسے مفت میں ضائع کیا ہے ۔
فرائض کی بر وقت انجام دہی اور اگلے دن کی فکر نہ کرنا:
'' یَا َبَاذَر !هَلْ یَنْتَظِرُ اَحَدُکُمْ اِلَّا غَنِیَّ مُطْغِیاً اَوْ فَقْراً مُنْسِیاً اَوْ مَرَضاً مُفْسِداً اَوْ هِرَماً مُقْعِداً اَوْ مَوْتاً مُجْهِزاً اَوْ الدَّجَّالَ ، فَاِنَّهُ شَرُّغَائِبٍ اَوْ السَّاعَةَ تُنتَظَرُ وَ السَّاعَة اَدْهیٰ وَ اَمرُّ''
'' ا ے ابوذر ! کیا تم لوگوں میں سے کسی ایک کا ان چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کا انتظار ہے مال و دولت جو تباہ و برباد ہوتی ہے یا فقر و پریشانی جو خدا کو فراموش کرنے کا سبب بنتی ہے یا بیماری جو زندگی کو برباد کرکے ر کھی دیتی ہے یا بڑھاپا جو اسے کام کا ج سے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے یا موت جو تیزی کے ساتھ اس کی طرف آتی ہے یا فتنہ انگیز دجال یا قیامت واقع ہونے کاانتظار ، جو خوفناک ترین اور تلخ ترین ہے ''
یہ بیانات فرائض کی انجام دہی کے سلسلہ میں فرصتوں کو غنیمت سمجھنے کی ایک اور تاکید ہے اگر انسان اپنی موجودہ صلاحیتوں اور ان فرصتوں کو فرائض کی انجام دہی پر خرچ نہ کرے تو وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے کسی فرصت کے انتظار میں ہے ؟ یہ انتباہ ان لوگوں کیلئے ہے جن سے جب کہا جاتا ہے کہ اپنے فرائض کو انجام دو ، تو وہ جواب میں کہتے ہیں : ابھی کافی وقت ہے بعد میں انجام دیں گے ۔ یہ جو تم سستی کررہے ہو اور کام کو التوا میں ڈالتے ہو ، یا فضول کاموں میں مشغول رہتے ہو یا خدا نخواستہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہو تم کسی دن کے انتظار میں ہو کہ ان کی تلافی کروگے اور اپنے فریضہ پر عمل کرو گے ؟ مثلاً فقر و تنگدستی کے د وران کہتے ہو کہ جب فقر کی گرفتاریاں ختم ہو ں گی اور تم مالدار بن جاؤ گے تو اس وقت اپنے فریضہ پر عمل کرو گے ، شاید دولتمند اور مستغنی ہونا فقر و تنگدستی کی نسبت بد تر صورت میں تجھے نافرمانی اور سرکشی کی طرف کھینچ لے ، کیونکہ جب انسان مستغنی ہوتا ہے تو زیادہ بغاوت و سرکشی کرتا ہے :
(
کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی ، اَنْ رَاهُ اسْتَغْنیٰ
)
(علق ٦و ٧ )
یقینا جب انسان اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے تو سر کشی کرتا ہے ۔
کیا تم مستغنی اور دولتمند ہونے کی حالت میں اس چیز کا انتظار کررہے ہو کہ مال و دولت نے جو گرفتاری تیرے لئے ایجاد کی ہے ، وہ دورہوجائے اور فقر و تنگدستی کا زمانہ ، آ جائے تو اس وقت اپنے فریضہ پر عمل کر وگے؟ اس خیال سے کہ مال و دولت کے ہاتھ سے چلے جانے کے بعد مصروفیت اور امور زندگی میں کمی آجاے گی اور تم فراغت کے ساتھ فریضہ کو انجام دے سکو گے ؟ جبکہ فقر و تنگدستی بھی مقاصد و کمالات کو فراموش کرنے کا سبب بن جائے گی اور تجھے اس طرح مشغول کرے گی کہ معنویت کے کمال کو بھی بھول جاؤ گے ۔
جب تم تندرست اور صحت مند ہو تو تصور کرتے ہو کہ انسان بیماری کی حالت میں خدا کو زیادہ یاد کرسکتا ہے جبکہ اس کی کوئی عمومیت نہیں ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ہر انسان بیماری کی حالت میں زیادہ تر ذکر ، دعا اور توسل میں مشغول ہوتا ہے ، بلکہ بعض اوقات بیماری اس طرح انسان پر غلبہ کرتی ہے کہ عبادت اس کی طرف اور توجہ کو بھی اس سے چھین لیتی ہے ۔
جو انی کے عالم میں تم اپنے آپ سے کہتے ہو : ذرا جوانی کی شہوت ، غرور اور شرارتوں کو ختم ہونے دو اس کے بعد بڑھاپے میں عبادتیں انجام دوں گا ، جبکہ تم اس سے غافل ہو کہ بڑھاپے میں مفلوج ہو کر تیرے بدن کی طاقت ختم ہوجائے گی اور تم فریضہ انجام دینے کے قابل نہ رہو گے ، پس تم کب اپنے فرائض انجام دو گے ؟ کیا اس وقت انجام دو گے جب موت تمھارے سر پر کھڑی ہوگی ؟ یا جب فتنہ گرد جال آجا ئے گا؟
لفظ دجال لغت میں زرگر کے سنہرے پانی کو کہتے ہیں اور بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے انسان کو بھی دجال کہتے ہیں جس طرح سنہرا پانی حقیقت میں سونا نہیں ہوتا بلکہ سونا جیسا ہوتا ہے ، جھوٹا انسان بھی ظاہر میں فریب کار اور پر کشش ہوتا ہے اور دوسروں کو دھوکہ اور فریب سے اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے ۔
دجال روایت میں شر پسند اور فتنہ انگیز کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، بہر صورت لفظ دجال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد درج ذیل دو معنی میں سے ایک ہے :
١۔ اس شخص کا نام ہے جو آخر ی زمانہ میں ظاہر ہوگا فتنہ انگیزی ا ور شر پسندی کا سبب بنے گا ۔
٢۔ یا اس سے کوئی خاص شخص مراد نہیں ہے بلکہ دجال ہر فریب کا ر اور دھوکہ باز کے معنی میں ہے : جو ظاہری سجاوٹ اور آراستگی سے دوسروں کو اپنے شیشہ میں اتارتا اور دھوکہ و فریب کاری سے اپنی طرف جذب کرتا ہے ، ایسے لوگ دجال کے مصداق ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ لوگ جو باطل پر حق کا پردہ ڈال کر یا حق پر باطل کا پردہ ڈال کر لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب بنتے ہیں دجال کہلاتے ہیں ۔
دجال حق و باطل کو آپس میں ایسا خلط ملط کرتا ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا ناممکن جاتا ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاکید فرماتے ہیں کہ جب تک تیرے لئے حق و باطل واضح ہے اور حق کو پہچانتے ہو ، فرصت کو غنیمت جان کر حق پر عمل کرنا اور اس کی ضروریات کی پابندی کرنا ، ایسا نہ ہو کہ ایک ایسا دن آئے کہ تم گمراہ ہوجاؤ اور تم پر ہدایت کا راستہ بند ہوجائے ، یہ بدترین حادثہ ہے جس کے انتظار میں انسان ہوتا ہے ، سب سے بدترین اور تلخ ترین انتظار قیامت کا ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ان اقوال میں انسان کو آئندہ کے خطروں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور انہیں اس کے ذہن میں مجسم کرتے ہیں اور یہ احتمال بیان فرماتے ہیں کہ ممکن ہے آنے والی مشکلات موجودہ سے زیادہ ہوں ، پس بہتر ہے انسان آج کی فرصت کو غنیمت جان کر ٹال مٹول نہ کرے ۔
____________________