زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)0%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (پہلی جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24756
ڈاؤنلوڈ: 3321


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24756 / ڈاؤنلوڈ: 3321
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد 1

مؤلف:
اردو

پانچواں سبق

دنیوی مقاصد کے لئے تعلیم حاصل کرنے کی مذمت

*علم پر عمل نہ کرنے اور اس سے سماجی مقام وحیثیت حاصل کرنے کا انجام ۔

* لوگوں کوفریب اور دھوکہ دینے کیلئے علم حاصل کرنے کا انجام۔

*اپنے جہل کا اعتراف کرنا ، علمائے الٰہی کی خصوصیت۔

*قیامت میں عالم کی سب سے بڑی حسرت۔

* حضرت علی علیہ السلام کے بیانات میں علماء کی تقسیم بندی۔

دنیوی مقاصد کیلئے علم حاصل کرنے کی مذمت

''یَا اَبَاذر! اِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ ﷲ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَالِم لَا یَنْتَفِعُ بِعِلْمِهِ، وَمَنْ طَلَبَ عِلْماً لِیَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ اِلَیْهِ لَمْ یَجِدْ رِیْحَ الْجَنَّةِ.

یَا اَبَاذَر ! اِذَا سُئِلْتَ عَنْ عِلمٍ لَا تَعْلَمُهُ فَقُلْ لَا اَعْلَمُهُ تَنْجُ مِنْ تَبِعَتِهِ وَ لَا تُفْتِ النَّاسَ بِمَا لَا عِلْمَ لَکَ تَنجُ مِنْ عَذَابِ ﷲ یَومَ القِیَامَةِ

یَا اَبَاذَر ! یُطْلِعُ قَوم مِنْ اَهْلِ الجَنّةِ عَلٰی قَوْمٍ مِنْ اَهْلِ النَّارِ ، فَیَقُولُونَ : مَا اَدْخَلَکُمُ النَّارَ وَ قَدْ دَخَلْنَا الجَنَّةَ بِفَضْلِ تَادِیبِکُمْ وَ تَعْلِیْمِکُمْ ؟فَیَقُولُونَ: اِنَّا کُنَّا نَاْمُرُ باِلخَیْرِ وَ لَا نَفْعَلُهُ''

علم پر عمل نہ کرنے اور اس سے سماجی مقام و منصب حاصل کرنے کا انجام:

اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دانشوروں سے مخاطب ہیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علماء کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں کہ وہ اپنے علم پر عمل کریں اور علم پر عمل نہ کرنے کے نتائج کی طرف ان کی توجہ مبذول فرماتے ہیں ۔

اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیانات واضح و روشن ہیں اور مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے لیکن مطلب کو دل میں بٹھانے کی غرص سے وضاحت کرتے ہوئے بعض ایسی روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کا مضمون یہاں پر ذکر شدہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیانات سے مشابہ ہے، البتہ ہم اسے پہلے یاد دہانی کرتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں ایک عاقل انسان ذمہ داریوں کے بغیر نہیں رہ سکتاہے لیکن مسئولیت کی مقدار اور حد میں فرق ہے پس ذمہ داری کے لحاظ سے جاہل اور عالم مشترک ہیں ، اگرچہ عالم کی ذمہ داریاں جاہل سے زیادہ ہیں ۔

لہذا چونکہ جاہل بھی ذمہ داری رکھتا ہے اس پر واجب ہے کہ تکالیف الہی اور دینی مسائل کو ضرورت کی حد تک سیکھ لے اور دینی مسائل نہ جاننے سے وہ تکلیف سے مستثنی قرار نہیں پاسکتا ، اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آیۂ مبارکہ :( قُلْ فللّٰهِ الْحُجَّةِ الْبَالِغَةِ ) کے ضمن میں فرماتے ہیں:

''اَنَّ ﷲ تَعَالیٰ یَقُولُ لِلْعَبْدِ یَومَ القِیَامَةِ : عَبْدِی ! َکُنْتَ عَالِماً؟ فَاِنْ قال نَعَمْ قَالَ له : اَفَلَا عَمِلْتَ بِمَا عَلِمْتَ وَ اِنْ قَالَ : کُنْتُ جَاهِلاً قَالَ لَهُ : اَفَلَا تَعَلَّمْتَ حَتّٰی تَعْمَلَ .''(۱)

(قیامت کے دن جب بندہ سے فرائض اور تکالیف انجام نہ دینے کی وجہ سے سوال کیا جائیگا)

خداوند عالم اس بندہ سے پوچھے گا : کیا تم اپنے فرائض اور تکالیف سے آگاہ تھے ؟ اگر اس نے جواب میں یہ کہا کہ ہاں میں اس سے آگاہ تھا ، خداوند عالم پوچھے گا: کیوں اس پر عمل نہیں کیا جس سے تم آگاہ تھے ؟ اور اگر بندہ نے جواب دیا:

میں جاہل تھا، تو خداوند متعال اس سے فرمائے گا : کیوں عالم کے پاس جاکر فرائض نہیں سیکھے تاکہ ان پر عمل کرتے؟

عالم اور جاہل کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ عالم پر حجت الٰہی تمام ہوئی ہے اور فریضہ کے ترک کرنے پر اس سے کوئی بہانہ قبول نہیں کیا جائے گا اس کے بارے میں اس سے سختی سے نپٹا جائے گا اس سلسلہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''یُغْفَرُ لِلْجَاهِلِ سَبْعُونَ ذَنْباً قَبْلَ اَنْ یُغْفَرَ لِلْعَالِمِ ذَنْب وَاحِد... ''(۲)

'' عالم کا ایک گناہ معاف کئے جانے سے پہلے جاہل کے ستر گناہ بخش دیئے جائیںگے ''

یہ گمان نہیں کرنا چاہیئے کہ ہم علم کو نظر انداز کردیں ، تا کہ ہماری ذمہ داریاں سخت تر نہ ہوں اور ہماری حالت جاہلوں سے بد تر نہ ہو جائے ، کیونکہ جس نے علم و آگہی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ، اس سے بھی سوال کیا جائے گا اور علم وآگاہی کو حاصل کرنے سے اجتناب کرنا انسان سے ذمہ داری اور مسئولیت سلب ہونے کا سبب نہیں بن سکتا حقیقت میں ہم کیوں ان علماء میں سے نہ ہوں جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں اور جس طرح دنیا میں دوسرے لوگ ان کی حیثیت پر حسرت کا اظہار کرتے ہیں قیامت کے دن بھی ان کے مقام ومنصب پر رشک کریں گے ۔

ہماری روایتوں کے مجموعہ میں ، علم حاصل کرنے کے سلسلہ میں ، مختلف عناوین سے متعدد باب بیان ہوئے ، حتی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ علوم الٰہی حاصل کرنے والے طالب علموں کیلئے پرندے وحشی حیوانات اور سمندر کی مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں ۔

بہر صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بیان میں فرماتے ہیں : جو عالم اپنے علم پر عمل نہ کرے ، قیامت کے دن اس کا مقام دوسروں سے پست ہوگا اور بہشت کی خوشبو اس تک نہیں پہنچے گی ممکن ہے جو انسان علم حاصل کرنے کیلے قدم اٹھائے ، ابتداء میں اس کی نیت دین کی خدمت اور فرائض انجام دینا ہو اور بیچ میں اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوجائے اور اسے اپنے مقصد تک پہنچنے سے روک لے ، لیکن بعض افراد علم حاصل کرتے وقت الٰہی نیت نہیں رکھتے ہیں ، نہ صرف تعلیم حاصل کرنے میں مخلص نہیں ہیں ، بلکہ اپنے ذہن میں بری نیتیں رکھتے ہیں ، مثال کے طور پر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرانے کیلئے ، لوگوں میں محبوبیت پیدا کرنے کیلئے اور شہرت و مقام حاصل کرنے کیلئے تعلیم حاصل کرتے ہیں ، فطری بات ہے کہ ایسا شخص ابتدا سے ہی منحرف راہ پر چلتا ہے اور نتیجہ کے طور پر ذلت، خواری اور بدبختی کے دلدل میں پھنس جاتا ہے اور قیامت کے دن بہشت کی خوشبو سے استفادہ کرنے کا مستحق نہیں رہ جاتا ۔

دنیوی علوم کو مقام و منزلت اور ذریعہ معاش کیلئے وسیلہ قرار دینے والا ، شاید مورد سرزنش و مذمت قرار نہ پائے ، لیکن جو شخص علوم الہی کو جو سعادت اخروی کیلئے وضع کئے گئے ہیں دنیوی امور کیلئے استعمال کرے تو وہ قابل مذمت ہے ۔در حقیقت ایسا شخص دنیا کے مقام و منزلت کودینی امور سے بالا تر جانتا ہے اور دوسرے الفاظ میں دنیا کو اصل اور بنیاد قراردیتا ہے نہ دین کو ، یہ طرز تفکر ، دینی اقدار کی نسبت بے اعتقادی کی پیداوار ہے اور اس کا انجام خدا سے دوری کے سوا کچھ نہیں ہے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :

''مَنِ ازْدَادَ فِی الْعِلْمِ رُشْداً فَلَمْ یَزْدِد فِی الدُّنْیَا زُهْداً لَمْ یَزْدد مِنَ ﷲ اِلَّا بُعْداً ''(۳)

جس شخص نے اپنے علم و آگہی میں اضافہ ہونے کے باوجود دنیا سے دوری اختیار نہ کرے تو ، وہ خداوند عالم سے بہت دور ہوگیاہے ''

لوگوں کوفریب دینے کیلئے علم حاصل کرنے کاانجام:

''یَا اَبَاذَر ! مَنِ ابْتَغٰی العلم لیخدع به الناس لم یَجد ریح الجنَّة ''

' ' جو لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے علم حاصل کرے ، وہ بہشت کی خوشبو سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا ''

کچھ لوگ نہ صرف شہرت و مقام کیلئے علم حاصل کرتے ہیںبلکہ اس سے بالاتر لوگوں کو فریب دینے غلط فائدہ اٹھانے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کیلئے علم حاصل کرتے ہیں

روایت کے اس حصہ میں یہاں تک علم پر عمل کرنے اور صحیح نیت کے بارے میں بحث ہوئی ہے کہ انسان اپنی جگہ پر سوچ لے کس نیت سے علم حاصل کرنے کیلئے جارہا ہے ، ایسا نہ ہو کہ اس کے دل میں شیطانی ارادے پیدا ہوجائیں ! وہ '' حجة الاسلام '' '' آیت اللہ '' '' فلاسفر'' اور '' مفسر'' جیسے عنوان حاصل کرنے اور لوگوں کا احترام اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے علم حاصل نہ کرے ۔

جو لوگ شہرت حاصل کرنے کی غرض سے علم حاصل کرنے کی مشقت اٹھاتے ہیں شاید تصور کرتے ہیں کہ جو لوگوں کے درمیان زیادہ مشہور ہے ، خدا کے پاس بھی عزیز تر ہے ، یہ ایک غلط تصور ہے جو لوگوں میں شہرت کا حامل ہو گیا اس نے اپنے فرائض انجام دیئے ہیں تا کہ خدا کے پاس عزیز ہو کرسعادت پائے ؟ اگرچہ وہ لوگوں کے درمیان مشہور ہے ، لیکن خداوند عالم کے یہاں دوسروں سے پست اور زیادہ شرمندہ ہے ، کیونکہ انسان کی قدر و قیمت کا معیارعقل ،عمل اور تقویٰ ہے ، معیار یہ ہے کہ انسان خدا کے نزدیک عزیز ہو نہ لوگوں کے نزدیک۔

اپنے جہل کا اعتراف کرنا ، الٰہی علماء کی خصوصیت:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں:

''مَنْ تَعَلَّم عِلْماً مِمَّا یُبْتَغٰی بِهِ وَجُهُ ﷲ عَزَّ وَ جَلَّ لَا یَتعَلَّمَهُ اِلَّا لِیُصِیبَ بِهِ عَرْضاً مِنَ الدُّنُیَا ، لَمْ یَجِدْ عُرْفَ الْجَنَّة یَومَ القِیَامَةِ ''(۴)

جو علم الہی کو کہ صرف خدا کیلئے حاصل کرنا چاہیئے ۔۔ دنیوی مقام حاصل کرنے کیلئے حاصل کرے تووہ بہشت کی خوشبو کو نہیںسونگھ سکے گا ۔

یَا اَبَاذَر ! اِذَا سُئِلْتَ عَنْ عِلمٍ لَا تَعْلَمُهُ فَقُلْ لَا اَعْلَمُهُ تَنْجُ مِنْ تَبِعَتِهِ وَ لَا تُفْتِ النَّاسَ بِمَا لَا عِلمَ لَکَ تَنجُ مِنْ عَذَابِ ﷲ یَومَ القِیَامَةِ''

اے ابوذر ! اگر تم سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے تم نہیں جانتے ہو ، تو کہدو میں نہیں جانتا ہوں تا کہ اس کے انجام سے محفوظ رہو اور جسے تم نہیں جانتے ہو اس کے بارے میں فتویٰ نہ دو تا کہ قیامت کے دن خداوند عالم کے عذاب سے بچ سکو ( جائز نہیں ہے انسان ایک ایسی چیز کہے جس کا اسے علم نہ ہو ، ممکن ہے وہ بات دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے )

عالم کیلئے سب سے بڑی آفت کہ جس میں وہ گرفتار ہوتا ہے یہ ہے کہ اگر اسے کوئی چیز معلوم نہیں ہے تو ، شرمندگی کی وجہ سے اپنے جہل کا اعتراف نہیں کرتا ، یہ اعتراف ، جاہل کیلئے آسان ہے ، لیکن کسی ایسے عالم کے لئے جو مشہور و معروف ہے یہ کہنا مشکل ہے اس لئے وہ یہ کہنے سے کہ میں نہیں جانتا ہوںپہلو تہی کرتا ہے ،جب اس سے کوئی سوال کیا جاتا ہے اور وہ اس کے جواب سے ناواقف ہوتا ہے تو اس کیلئے بہت مشکل ہے کہ وہ اس سوال کا جواب نہ دے ، چونکہ وہ فکر مند رہتا ہے کہ لوگ اسے یہ نہ کہیں کہ تم کیسے عالم ہو کہ ایک مسئلہ بھی نہیں جانتے ''

کیا فرق پڑتا ہے کہ انسان جواب میں کہے کہ : ' ' میں نہیں جانتا '' مگر کیاہر ایک کیلئے واجب ہے کہ سب کچھ جانے ؟ صرف خداوند عالم ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور دوسروں کوا پنے علم سے ایک قطرہ کے برابر عطا کیا ہے ، جیسا کہ قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( ... وَمَا اُوْتِیتمُ مِنَ العِلْمِ اِلَّا قَلِیلاً ) ( اسراء ٨٥)

اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے ۔

مرحوم علامہ طباطبائی شب پنجشنبہ اور شب جمعہ کو جلسے منعقد کرتے تھے جس میں ان کے کچھ شاگرد ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور فلسفی اور غیر فلسفی موضوعات پر بحث ہوتی تھی ، اگر ہمیں کوئی سوال کرنا ہوتا تھا تو جلسہ شروع ہونے سے پہلے یا راستہ میں ان سے پوچھتے تھے ، ایک شب میں نے درمیان راہ ان سے ایک فلسفی سوال کیا ، انہوں نے فرمایا:' 'میں نہیں جانتا '' اس کے بعد چند لمحہ فکر کرنے کے بعد فرمایا: دیکھو اس کا جواب اس صورت میں دیا جاسکتا ہے اسکے بعد ایک دلچسپ اور اطمینان بخش مطلب بیان فرمایا، اس رات انہوں نے فرمایا : ہمیں اپنے مجہولات کا خداوند عالم کی معلومات سے موازنہ کرنا چاہیئے ، اس صورت میں ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم کچھ نہیں جانتے اور ہمارے مجہولات خدائے تعالی کی معلومات کے مانند بے انتہا ہیں ۔

یہ روش مکتب انبیاء و اولیائے الٰہی کے تربیت یافتہ افراد کی روش ہے کہ اگر کسی چیز کے بارے میں یقین نہیں رکھتے تھے توتردید کے عنوان سے جواب دیتے تھے ، اگر وہ جواب دیتے تو وہ ہمارے اطمینان سے زیادہ قابل اطمینان جواب ہوتا ، لیکن اگر وہ اس پر علم و یقین نہیں رکھتے تھے تو وہ قطعاً ابتدا میں ہی کہتے تھے کہ ''میں نہیں جانتا '' حقیقت میں یہ شیوہ انہیں نفس سے جہاد اور اس پر غلبہ پاکر ہی حاصل ہوا تھا ۔

یہ شیوہ ایسے افراد کا ہے جنہوں نے اپنی بابرکت زندگی کے ساٹھ یا ستر سال تزکیہ ، تعلیم و تعلم میں گزارے ہیں ہم جب چار جملے اور کچھ اصطلاحیں سیکھ کر اپنے وطن جاتے ہیں اور ہم سے جب کوئی سوال کیا جاتا ہے تو ہمارے لئے یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ '' ہم نہیں جانتے '' ! ہمیں تمرین کے ذریعہ عادت ڈالنا چاہیئے تاکہ اگر کسی چیز کو نہیں جانتے ہیں آسانی کے ساتھکہہ سکیں کہ '' نہیں جانتے '' اور کسی چیز کے بارے میں ظن رکھتے ہوں تو کہیں :'' احتمال ہے اس طرح ہوگا ، اس صورت میں ہم نے اپنے آپ کو آخرت کی مصیبتوں سے آزاد کیا ہے ۔

قیامت میں عالم کی سب سے بڑی حسرت :

'' یَا اَبَاذَر ! یُطْلِعُ قَوم مِنْ اَهْلِ الجَنّةِ عَلٰی قَوْمٍ مِنْ اَهْلِ النَّارِ،فَیَقُولُون:مَا اَدْخَلَکُمْ النَّارَ وَ قَدْ دَخَلْنَا الجَنَّةَ بِفَضْلِ تَادِیبِکُمْ وَ تَعْلِیْمِکُمْ ؟فَیَقُولُونَ: اِنَّا کُنَّا نَاْمُرُ باِلخَیْرِ وَ لَا نَفْعَلُهُ''

اے ابوذر ! قیامت کے دن بہشتیوں کی ایک جماعت جہنمیوں کی ایک جماعت پر بالادستی رکھتی ہو گی ، اس کے بعد ان سے سوال کریں گے ، تم لوگ کیسے جہنم میں داخل ہوئے ؟ جبکہ ہم آپ لوگوں کی تعلیم و تربیت کی برکت سے بہشت میں داخل ہوئے ہیں ، وہ جواب میں کہیں گے ؛ ہم دوسروں کو نیک کاموں کا حکم دیتے تھے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے ۔

قرآن مجید میں جہنم کے بارے میں منظر کشی کی گئی ان مناظر میں سے ایک منظر یہ ہے کہ بہشتی جہنمیوں پر بالا دستی رکھتے ہیں ، انہیں دیکھتے ہیں ، ان سے گفتگو کرتے ہیں ، جیسا کہ بہشت ایک بلند مقام پر واقع ہو اور جہنم ایک پست مقام پر ، اورا سی لحاظ سے بہشتی ان پر بالادستی رکھتے ہیں ۔

قرآن مجید کی تعبیر یہ ہے کہ کبھی بہشتی ، جہنمیوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور کبھی بر عکس جہنمی بہشتیوں سے مخاطب ہوتے ہیں :

( وَنَادیٰ اَصْحَابُ الْجَنَّةِ اَصْحَابَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقّاً فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَّا وَعَدَرَبُّکُم حَقّاً قَالُوا نَعَمْ فَاَذَّنَ مُؤَذِّن بَیْنَهمْ لَّعْنَةُ ﷲ عَلَی الظَّالِمِینَ ) (اعراف ٤٤)

اہل بہشت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے کہ جو کچھ ہمارے پروردگار نے ہم سے وعدہ کیا تھا وہ ہم نے تو پالیا ، کیا تم نے بھی حسب وعدہ حاصل کرلیا؟ وہ کہیں گے بے شک پھر ایک منادی آواز دے گا کہ ظالمین پر خدا کی لعنت ہے ''

جی ہاں ، اس روایت میں آیا ہے کہ اہل بہشت اہل جہنم کی ایک جماعت سے کہیں گے ہم تو آپ لوگوں کی رہنمائی ، ہدایت اور تعلیم و تربیت کی برکت سے بہشت میں پہنچے ، یہ کیا ہو اکہ آپ لو گ جہنم اور عذاب الہی سے دوچار ہوئے ؟ وہ حسرت و ندامت کی حالت میں جواب دیں گے : ہم نے جو کچھ کہا، خود اس پرعمل نہیں کیا تم لوگوں کو نیک کام انجام دینے کی دعوت دی لیکن خود اس سے پہلو تہی کی ، تم لوگوں کو مستحبات انجام دینے کی دعوت دی ،لیکن خود ہم نے اس پر عمل نہیں کیاتم لوگوں کو گناہ اور غیبت سے دوری اختیار کرنے کی نصیحت کی لیکن ہم خود گناہ و غیبت میں مبتلا ہوئے ،تم لوگوں نے ہمارے کہنے پر توجہ کرکے اس پر عمل کیا اور بہشت میں داخل ہوئے ، لیکن ہم نے اپنے علم پر عمل نہیں کیااور اس بدبختی اور درد ناک انجام سے دوچار ہوئے ۔

یہ رسوائی اور حسرت ان لوگوں کا انجام ہے جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتے ۔ یقینا ان کیلئے یہ حسرت عذاب الٰہی میں جلنے سے درد ناک تر ہے ، کیونکہ روحانی عذاب ، جسمانی عذاب سے شدید تر ہوتا ہے، دشمن کی طعنہ زنی کا درد ، جسمانی عذاب اور جلنے سے شدید تر ہوتا ہے ۔

کتنا درد ناک ہے کہ انسان احساس کرے کہ اس کی رہنمائیوں کے نتیجہ میں دوسرے لوگ بہشت میں پہنچ گئے ہیں اور وہ باوجود اس کے کہ اپنے علم سے استفادہ کرکے بلند تر درجات حاصل کرسکتا تھا ، جہنم میں جاگرے اور اسکے مرید تماشائی بن کر اسے دیکھتے ہیں ! وہ بہشت میں نعمتوں سے مالامال ہیں اور یہ جہنم کے عذاب سے دوچار ہے اگر اسے اپنے شاگردوں کو تربیت کے نتیجہ میں حاصل شدہ نعمتوں سے محرومیت کے علاوہ کوئی اور عذاب نہ ہوتا ، تو اتنا ہی کافی تھا !

اس حدیث شریف میں ذکر ہوئے نکات کے پیش نظر ہمیں اول سے اپنی نیتوں کو صحیح کرناچاہیئے اور خدا وند عالم کے فرائض کی انجام دہی کیلئے علم حاصل کریں اور ابتدا سے ہی جو کچھ کہیں اس پر عمل بھی کریں تا کہ یہ خصوصیت ہم میں ملکہ کی صورت اختیار کرے اور اگر اس صورت میں بیشتر علم حاصل کرسکے تو اس پر عمل کرسکتے ہیں، اگر ہم نے ابتدا سے ہی کوتا ہی اور لا پروائی پر تکیہ کیا تو ابتدا میں ایک فریضہ کو ترک کریں گے اور پھر دوسرے کو اور اس طرح ہم میں عصیان کا ملکہ تقویت پائے گا اور نفس سے جہاد کرنا مشکل بن جائے گا

حضرت علی علیہ السلام کے بیانات میں علما کی تقسیم بندی

علمااور دانشوروں کی طبقہ بندی اور تقسیم بندی کے بارے میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''اَلْعُلَمائُ رَجُلَانِ ، رَجُل عَالِم آخِذ بِعِلْمِهِ فَهَذا ناجٍ وَ رَ جُل تَارِک لِعِلْمِهِ فَهَذَا هَالِک وَ اِنَّ اَهْلَ النَّار لَیَتََذّونَ مِنْ رِیْحِ الْعَالِمِ التَّارِکِ لِعِلْمِهِ وَ اِنَّ اَشَّدَ اَهْلَ النَّارِ نَدَامَةً وَ حَسْرَةً رَجُل دَعَا عَبْداً اِلَی ﷲ سُبْحَانَهُ فَاسْتَجَابَ لَهُ وَ قَبِلَ مِنهُ فََطَاعَ ﷲ فَاَدْخلَهُ ﷲ الْجَنَّةَ وَ َدْخَلَ الدَّاعِیَ النَّارَ بِتَرْکِهِ عِلْمَهُ ''(۵)

دانشور دو قسم کے ہیں : پہلا وہ دانشور جو اپنے علم پر عمل کرتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے ۔

دوسرا وہ دانشور جو اپنے علم پر عمل کرتا ہے اور ہلاک ہوتا ہے ، بے شک جہنمی لوگ بے عمل عالم کی بدبو سے تکلیف اٹھاتے ہیں بے شک پشیمان ترین اور سب سے زیادہ افسوس کرنے والا اہل جہنم وہ ہے جو دوسرے کو خدا کی طرف دعوت دے اور وہ اس کی دعوت قبول کرکے خدا کی اطاعت کرے اور اس کے بعد خدائے متعال اسے بہشت میں داخل کرے ، لیکن دعوت دینے والے کو اپنے علم پر عمل نہ کرنے کے سبب جہنم میں ڈال دے ۔

ایک حدیث قدسی میں خداوند متعال حضرت داؤد علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے :

''اِنَّ اَهْوَنَ مَا َنَا صَانِع بِعَالِمٍ غَیْرِ عَامِلٍ بِعِلْمِهِ َشَّدُ مِنْ سَبْعِینَ عُقُوبَةً اَنْ اُخْرِجَ مِن قَلبهِ حَلاَوَة ذِکْرِی ''(۶)

عالم بے عمل کو میں جس کم ترین عذاب میں مبتلا کروں گا ستّر عذاب سے سخت تر ہے اور وہ یہ ہے کہ میں اپنی مناجات کی حلاوت( میٹھاس) کو اس کے دل سے دور کردوںگا ( اور اسکے بعد میری یاد سے وہ لذت نہیں محسوس کرے گا۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ، ج ٧ ، ص ٢٨٥

۲۔ بحار الانوار ، ج٢، ص ٢٧۔

۳۔ بحار الانوار ج٢ص٣٧

۴۔ بحار الانوار ج٢ص٣٨

۵۔ بحار الانوار ، ج ٢، ص ٣٤

۶۔ بحار الانوار ، ج ٢،. ص ٣٢