زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

زاد راہ (پہلی جلد)9%

زاد راہ (پہلی جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 34 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 25794 / ڈاؤنلوڈ: 3844
سائز سائز سائز
زاد راہ (پہلی جلد)

زاد راہ (پہلی جلد) جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

چھٹا سبق

خداوند عالم کے حقوق اور اس کی نعمتوں کی عظمت و وسعت اور فرائض کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت

*خداوند عالم کے حقوق کی عظمت اور اس کی بے شمار نعمتیں

* چند روزہ زندگی اور انسان کے اچھے اور برے اعمال کی بقا

الف : انسان کے دنیوی اعمال کا قیامت کے دن مجسم ہونا

ب۔ موت کا ناگہانی ہونا ، تنبیہ و بیداری کا سبب

*انسان کے رزق کامعین ہونا اور ا س کا دوسرو ںکی دست رس سے محفوظ رہنا۔

* توحید افعالی اور خدائے متعال کا سرچشمہ خیر ہونا۔

خداوند عالم کے حقوق اور اس کے نعمتوں کی عظمت و وسعت اور فرائض کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت

'' یَا اَبَاذَر ! اِنَّ حُقُوقَ ﷲ جَلَّ ثَنَاؤُهُ اَعْظَمُ مِنْ اَنْ یَقُومَ بِهَا الْعِبَادُ ، وَ اِنَّ نِعَمَ ﷲ اَکْثَرُ مِنْ اَنْ یُحْصِیَهَا الْعِبَادُ وَ لَاکِنْ اَمْسُوا وَ اصْبَحُو تَائِبِینَ

یَا اَبَاذَر ! اِنَّکُمْ فِی مَمَرِّ اللَّیْلِ وَ النَّهَارِ فِی آجَالٍ مَنْقُوصَةٍ وَ اَعْمَالٍ مَحْفُوظَةٍ وَ الْمَوتُ یَتِیْ بَغْتَةً وَ مَنْ یَزْرَعْ خَیْراً یُوْشِکُ اَنْ یَحْصُدَ خَیْراً وَ مَنْ یَزْرَعُ شَرّاً یَوْشِکُ اَنْ یَحْصُدَ نَدَامَةً وَلِکلُّاِ زَارِعٍ مِثْلُ مَا زَرَعَ

'' یَا اَبَاذَرٍ! لَا یُسْبَقُ بَطِیئُ بِحَظِّهِ وَ لَاَا یُدْرِکُ حَرِیص مَالَمْ یُقَدَّر لَهُ وَ مَنْ اُعْطِیَ خَیْراً فِانَِّ ﷲ اَعْطَاهُ وَ مَنْ وُقِیَ شَرّاً فﷲ وَقَاهُ''

خدا وند عالم کے حقوق کی عظمت اور اس کی بے شمار نعمتیں

'' یَا اَبَاذَر ! اِنَّ حُقُوقَ ﷲ جَلَّ ثَنَاؤُهُ اَعْظَمُ مِنْ اَنْ یَقُومَ بِهَا الْعِبَادُ ، وَ اِنَّ نِعَمَ ﷲ اَکْثَرُ مِنْ اَنْ یُحْصِیَهَا الْعِبَادُ وَ لَاکِنْ اَمْسُوا وَ اصْبَحُو تَائِبِینَ''

اے ابو ذر ! خداوند عالم کے حقوق اس سے بڑے ہیں کہ بندے اس کے سامنے کھڑے ہوسکیں اور اس کی نعمتیں اس سے زیادہ ہیں کہ بندے انکا شمار کرسکیں ، لیکن تم ہر صبح و شام توبہ کرتے ہوئے اپنی خطاؤں کا اعتراف کرنا ''

حدیث کے اس حصہ میں بحث کا محور ذمہ داریوں کا احساس اور فرائض کو انجام دینے کی اہمیت ہے

انسان کو یہ سمجھنے کے بعد کہ اسے اپنی عمرسے بخوبی استفاد ہ کرنا چاہیے اور یہ جاننے کے بعد کہ وقت اور فراغت سے بہتر استفاد کرنے کیلئے علم و آگاہی سے آراستہ ہونا ضروری ہے ، اس کی تلاش و سرگرمی کیلئے محرک ایجاد کرنے کی ضرورت کی نوبت آتی ہے، اور یہ محرک کیسے وجود میں آتا ہے محرک ایجادکرنے کیلئے اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ خداوند عالم اپنے بندوں پر کچھ حقوق رکھتا ہے اور اس لحاظ سے انسان کے اپنے پروردگار کیلئے کچھ فرائض ہیں انسان اپنی عقل و فطرت سے جانتا ہے کہ اگر کسی کا اس پر کوئی حق ہے تو اسے ادا کرنا چاہیئے اور ہر عاقل انسان جانتا ہے کہ خداوند عالم کے سب سے زیادہ حقوق اس پر ہیں

جب انسان یہ توجہ رکھے کہ تمام وہ نعمتیں جو اسے حاصل ہیں حیات و زندگی کی اصل سے لے کر دیگر تمام مادی اور معنوی نعمتوں تک خداوند عالم کی طرف سے ہیں ، تو ممکن نہیں ہے وہ بندگی کے فریضہ کو بھول جائے ، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اپنے ولی نعمت کی شکر گزاری اور قدر دانی کرنی چاہئے اوریہ بذات خود سب سے بڑا محرک ہے جو مؤمن کو فرائض انجام دینے پر مجبور کرتا ہے ۔

لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روایت کے اس حصہ کے پہلے جملہ میں انسانو ںپر خداوند عالم کے حقوق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کسی بھی صورت میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر بجالانے کا حق ادا نہیں کرسکتا ۔

جب انسان یہ جان لے کہ اپنی پوری عمر صرف کرنے کے باوجود حقوق الٰہی ، فرائض ، اور خدا کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتا ہے تو اسے اپنے آپ کو ہمیشہ مقروض جاننا چاہیئے حتی اگر اس نے گناہ بھی نہ کیا ہو تب بھی خد اکا حق اس کی گردن پر باقی ہے اور اسے ادا کرنا چاہیئے ،ایسا نہ ہو کہ شیطان اسے دھوکہ دے اور وہ تصور کرے کہ وہ خدا سے طلبگار ہے ،اگر کوئی خدا کے لطف و کرم سے گناہوں سے اجتناب کرنے میں کامیاب ہوجائے اور اپنے اوپر فخر کرتے ہوئے کہے کہ الحمد للہ میں کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہوں! تو ایسا شخص خود پسند ی اور غفلت سے دوچار ہے لہذا اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیئے کہ انسان ہرگز خداوند عالم کے حقوق اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا ہے جیساکہ خداوند عالم نے فرمایا :

( وَ اِنْ تَعُدُوا نِعْمَة َ ﷲ لَا تُحصُوها ) (نحل ١٨)

اگر خدا کی نعمتوں کا شمار کرناچاہو گے تو ہر گز ایسا نہیں کرسکو گے ''

بالفرض ، اگر انسان خدا کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہے ، ان میں سے ایک کا بھی حق ادا نہیں کرسکتا ہے حتی اگر اس نعمت کا شکر ادا کرنے کیلئے ایک '' الحمد لللّہ'' کہنے پر بھی اکتفا کرے ، پھربھی اس کے شکر کا حق ادا نہ کرسکا ہے ، کیونکہ الحمد ﷲ کہنا بھی ایک نعمت اور توفیق ہے جو اللہ تعالی نے اسے عنایت کی ہے اور بذات خود اس کی بھی شکر گزاری ہونی چاہئے یعنی اگر ہم قیامت تک الحمد ﷲ کہتے رہیں تو ایک الحمدللہ کا حق ادا نہیں کرسکتے ہیںپس ، کیسے ان ساری نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حق ادا کیا جاسکتا ہے ، جن کا شمار کرنے سے انسان عاجز ہے؟

اس امر کو مدنظر رکھنا کہ خداوند عالم کی نعمتیں بے شمار ہیں اور وہ انسان پربہت سے حقوق رکھتا ہے ، انسان میں حقارت اور فروتنی کا احساس پیدا کرنے کا سبب ہے حتیٰ اگر کسی گناہ کا مرتکب نہیں بھی تب بھی ، احساس کرتا ہے وہ مقروض ہے ۔

پس ، اگر انسان خدا کی نعمتوں کا شکر نہیں بجا لاسکتا ہے اور اسکے حقوق کو انجام نہیں دے سکتا ہے ، تو سب سے بڑا کا م جو وہ انجام دے سکتا ہے وہ توبہ ، استغفار ، گناہ اور وظائف کی انجام دہی میں کوتاہی کا اعتراف ہے یہ چیز بذات خود انسان کو غرورتکبر اور فریفتگی سے بچاتی ہے کیونکہ انسان صحیح راستہ سے بھٹکنے کی وجہ سے دنیا طلبی ، راحت طلبی اور تن پروری میں مبتلا ہوتا ہے ، اب جبکہ صحیح راستہ پر ہدایتپاکر وظائف کو انجام دینے کیلئے آمادہ ہے ، تو غرور و خودخواہی میں مبتلا ہوجاتا ہے ، اپنے کو دوسروں سے موازنہ کرتا ہے اور اپنی جگہ پر کہتا ہے لوگ خدا کی نعمتوں کی قدر نہیں جانتے ہیں اور گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن میں وظائف کو انجام دینے اور خدا کی نعمتوں کی قدر جانے میں کامیاب ہوا ہوں!

پس ہمیں اہل کار اور فرائض پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ غرور و تکبر میں مبتلا ہونے سے بچنا چاہیئے ، یہ تربیت کا سب سے بڑا درس ہے جو اہل بیت علیہم السلام کے فرمودات سے حاصل ہوتا ہے ۔

اسی حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم انسان کو عمل ، تلاش ، فرائض کی انجام دہی اور حقوق الٰہی کی اہمیت کو درک کرنے کی نصیحت کے ساتھ اسے غرور و تکبر اور خود پسندی میں مبتلا ہوئے سے بچنے کی بھی نصیحت کرتے ہیں ۔

چند روزہ زندگی اور انسان کے اچھے اور برے اعمال کی بقا :

'' یَا اَبَاذَر ! اِنَّکُمْ فِی مَمَرِّ اللَّیْلِ وَ النَّهَارِ فِی آجَالٍ مَنْقُوصَةٍ وَ اَعْمَالٍ مَحْفُوظَةٍ وَ الْمَوتُ یَتِیْ بَغْتَةً وَ مَنْ یَزْرَعْ خَیْراً یُوْشِکُ اَنْ یَحْصُدَ خَیْراً وَ مَنْ یَزْرَعُ شَرّاً یَوْشِکُ اَنْ یَحْصُدَ نَدَامَةً وَلِکلُّاِ زَارِعٍ مِثْلُ مَا زَرَعَ''

اے ابوذر! تم شب و روز کی گزرگاہ میں ایک ایسی عمر کے مالک ہو جو مسلسل کم ہوتی جارہی ہے اور تیرے اعمال محفوظ رہتے ہیں اور اچانک موت آجاتی ہے اس وقت جس نے اچھے اعمال انجام دیئے ہیں اچھا نتیجہ پائے گا اور جس نے برے کام انجام دیئے ہیں اسے پشیمانی کی فصل کاٹنا پڑے گی اور ہر کاشتکار کو وہی کا ٹتاہے جو اس نے بویا ہے ۔

انسان کو خود کام اور تلاش پر مجبور کرنے نیز اسکی سرگرمیوں اور فرائض کی انجام دہی میں تحریک پیدا کرنے والے امور میں اس نکتہ کی طرف توجہ اور غور کرنا ہے کہ انسان کی عمر گزرنے والی ہے ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہر لمحہ گزرنے کے ساتھ ہماری عمر میں کمی واقع ہوتی ہے گردش زمانہ کو روکا نہیں جاسکتا اور سیکنڈوں کو واپس لوٹا یا نہیں جاسکتا ہے ، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''نَفَسُ المرِٔ خُطاهُ الی اجلهِ ''(۱)

'' انسان کی ہر سانس اس کا ایک قدم ہے جو وہ موت کی طرف اٹھاتا ہے''

ہوشیار رہنا چاہیئے کہ یہ سرمایہ مفت میں ضائع نہ ہوجائے یہ وہ دولت ہے جو مسلسل کم اوربوسیدہ ہوتی جارہی ہے یہاں تک کہ انسان کو موت آجاتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں حضرت علی فرماتے ہیں :

''فَمَا یَنْجو مِنَ المَوتِ مَنْ خَافَهُ وَ لَا یُعْطَی الْبَقَائُ مَنْ اَحَبَّهُ ''(۲)

جو موت سے خائف ہے وہ اس سے نجات نہیں پاتا اور جو زندگی سے محبت رکھتا ہے وہ ہمیشہ زندہ نہیں رہے گا۔

سرمایۂ عمر کو ضائع ہونے سے بچانے کا تنہا راستہ ،سود مند تجارت ہے اور اسے بہتر تجارت کیا ہوسکتی ہے کہ انسان اپنی عمر کے بدلے میں بہشت کو خرید لے ، کیونکہ وہ تنہا مال ہے جو انسان کی عمر کی قیمت قرار پاسکتا ہے مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے :

'' اَلاَحُرّ یَّدعُ هٰذِهِ اللُّمٰاظَةَ لِاَهْلِهَا؟ اِنَّهُ لَیْسَ لِاَنْفُسِکمُ ثَمَن اِلَّا الْجَنَّةَ ، فَلَاتَبِیْعُوهَا اِلَّا بِهَا '' (۳)

کیا کوئی ایسا آزاد خیال نہیں ہے جو منہ میں باقی بچے کھانے(حقیر دنیا ) کو اہل دنیا کے حوالے کردے ؟ تمہاری زندگی کی قیمت بہشت کے علاوہ کچھ نہیں ہے اسے اس کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے میں نہ بیچو۔

پس کتنے گھاٹے میں ہیں وہ انسان جو اپنی عمر کی عظیم دولت کو قہر الٰہی کی آگ سے سودا کرتے ہیں ، شاید باطل راہ میں اپنی عمر کو خرچ کرنے والے اس خیال میں ہیں کہ عمر کے گزرنے کے ساتھ ان کے اعمال بھی نابود ہوجائیں گے ، یہ ایک باطل خیال ہے ! جبکہ یہ نشہ، ایک وقتی نشہ ہے ا ور قیامت کا خمار (نشہ) پائدا ر اور ابدی خمار ہے لیکن انسان کے اعمال باقی رہتے ہیں کیوںکہ اعمال کا رابطہ انسان کی روح اور ﷲ تعالی سے ہے اگر چہ ہم ایک ایسی مستی میں زندگی بسر کرتے ہیں جو فانی ہے لیکن ہم عالم بقا اور جہان آخرت سے بھی رابطہ رکھتے ہیں اور ہمارے اعمال وہیں باقی رہیں گے ۔

الف ۔ انسان کے دنیوی اعمال کا قیامت کے دن مجسم ہونا:

قیامت کے بارے میں مسلمہ اصولوں میں سے ایک ، اعمال کا محفوظ رہنا اور ان کا مجسم ہونا ہے خداوند متعال نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، من جملہ ارشادفرماتا ہے :

( وَ وُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مشفقین مِمَّا فِیهِ وَ یُقُولُونَ یَا وَیْلَنَاویلتنا مالِ هٰذَا الْکِتَابِ لاَ یُغَادِرُ صَغِیرَةً وَ لَا کَبِیرَةً الاَّ اَحْصَاهَا وَ وَجَدُواْ مَا عَمِلُوا حَاضِراً وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَداً ) (کہف ٤٩)

اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس ! اس کتاب نے تو چھوٹا بڑا کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرے گا ''

ایک دوسری جگہارشاد فرماتا ہے :

( فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرََّةٍ خَیْراً یَرَهُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَراً یَرَه ُ ) (زلزال ٧۔٨)

پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا ''

ب ۔ ناگہانی موت تنبیہ و بیداری کا سبب:

کوئی نہیں جانتا ہے کہ کب تک زندہ ہے اور کب اسکی موت آئے گی ۔ قرآن مجید فرماتا ہے :

( وَمَا تَدْرِی نفسمَّا ذَا تَکْسِبُ غَداً وَ مَا تَدْرِی نَفْس بَاَیّ ا رْضِ تَمُوتُ ) ( لقمان ٣٤)

اور کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ وہ کیا کمائے گا اور کسی کو نہیں معلوم ہے کہ اسے کس زمین پر موت آئے گی ۔

خدا کے من جملہ الطاف ( کرم و نوازش) میں سے یہ ہے کہ انسان اپنی موت کے وقت سے آگاہ نہیں ہے ، اگر ہم اپنی موت سے باخبراور آگاہ ہوتے تو غفلت و غرور میں زیادہ مبتلا ہوتے ، البتہ جو لوگ بلند روحانی ظرفیت کے مالک ہیں ان کیلئے موت کے وقت سے آگاہ ہونا یا نا آگاہ ہونا کوئی فرق نہیں کرتا کیونکہ وہ ہمیشہ فرائض کی انجام دہی کی فکر میں رہتے ہیں ۔ ممکن ہے خداوند عالم اعلان فرمائے کہ ان کی موت کب آنے والی ہے ، لیکن ہمارے لئے موت کے وقت سے آگاہ ہونا بیشتر لاپروائی اور اعمال کو التوا میں ڈالنے کا سبب ہوگا ، حکمت الٰہی یہ نہیں ہے کہ خداوند متعال ہماری موت کے وقت کا اعلان فرمائے بلکہ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ہمیشہ فکر مند رہیں کہ شاید ہر آنے والے لمحہ میں موت آجائے، اس صورت میں اپنی عمر کا بہتر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔

حدیث مبارک کے اس جملہ '' وَ مَنْ یزرع خیراً'' میں دنیا کو کھیتیسے تشبیہ دی ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں ہر بیج کو ثمر بخش بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے جو اس میں بو یا جائے خواہ وہ بیج انسان کے نیک اعمال ہوں یا برے اعمال، اس سلسلہ میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

از مکافات عمل غافل مشو

گندم از گندم بروید جو ز جو

ہر چہ کشتی در جہاں از نیک و بد

حاصلش بینی بہ ہنگام درو

اپنے اعمال کے نتائج سے غافل نہ رہو ، گندم سے گندم اور جو سے جو اگتا ہے جو کچھ تم نے دنیا میں نیک و بدکی صورت میں بویا ہوگا فصل کاٹتے وقت ( قیامت کے دن ) اس کا ما حصل پاؤ گے۔

انسان کے رزق کا معین ہونا اور اس کا دوسروں کی دست رس سے محفوظ رہنا :

''یَا اَبَاذَر ؛ لَا یَسبِقُ بطیء بِحظّه ولاَ یَدرَک حریص ما لم یُقَدّر له ''

اے ابوذر ! عجلت نہ کرنے والے کی کمائی کو دوسرا نہیں لے سکتا ہے اور لالچ و طمع رکھنے والا شخص وہ چیز حاصل نہیں کرسکتا جو اس کی قسمت میں نہیں ہے ''

انسان کو زندگی میں دو اہم آفتوں کا سامنا ہوتا ہے : ایک یہ کہ اس کی زندگی کی ضروریات اسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان کو پورا کرنے کی تلاش و جستجو کرے ، اس کے نتیجہ میں فرائض کو انجام دینے سے رہ جاتا ہے، دوسری یہ کہ جب فرائض انجام دینے لگتا ہے تو غرور تکبر و خود پسندی سے دوچار ہوتا ہے جو اس کے اعمال کو نابود کر دیتی ہیں اسے ان آفتوں سے بچنے کیلئے غور وفکر کرنا چاہیئے ۔

بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ الٰہی اور اجتماعی فرائض کو انجام دینا ان کی زندگی کو ابتر کرنے کا باعث ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ دنیوی امو رکو انجام دینا ایک ایسی ضرورت ہے جس سے اجتناب نہیں کیا جاسکتا ہے ان کا یہ تصور بذات خود الٰہی فرائض کے انجام دینے میں رکاوٹ کا سببہے یہ عذر اور بہانے شیطانی وسوسے ہیں ان وسوسوں سے نجات پانے کی راہ یہ ہے کہ انسان اس امر کی طرف توجہ کرے کہ خدائے متعال نے ہر شخص کیلئے اس کا رزق معین اور مقدر فرمایا ہے ۔

قرآن و سنت کی بیان شدہ تعلیمات میں جن کی طرف انسان کو توجہ کرنا ضروری ہے ، رزق کے مقدر ہونے کا مسئلہ ہے ہم اس وقت روزی کے مقدر ہونے کے مفہوم کے بارے میں اور اس سلسلہ میں کیا انسان کو رزق حاصل کرنے کیلئے تلاش و کوشش کرنا چاہیئے یا نہیں ، وضاحت کرنا نہیں چاہتے بلکہ اجمالی طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ دینی معارف میں اس مسئلہ کوکافی اہمیت دی گئی ہے ۔

نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پر رزق کے مقدر ہونے کے بارے میں اشارہ کیا گیا ہے اسی مذکورہ روایت میں بھی یہ ذکر ہوا ہے کہ اگر کوئی اپنا رزق حاصل کرنے میں سستی دکھائے تو کوئی دوسرا ہرگز اس کا رزق نہیں کھا سکتا ہے اگر کوئی مال جمع کرنے سے زیادہ لالچ دکھائے اور تلاش کرے کہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مال ذخیرہ کرلے لیکن جو اس کی قسمت میں نہیں ہے وہ اسے حاصل نہیں کرسکے گا پس اس امر کی طرف توجہ رکھنا شیطانی وسوسوں کیلئے رکاوٹ بن سکتا ہے ۔

جب شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان کوالٰہی فرائض انجام دینے سے روکے تو فرائض انجام دینے کے دوران اس کے دل میں یہ وسوسہ ڈالٹا ہے کہ اس وقت تجھیاپنی روزی روٹی کی تلاش میں ہوناچاہیے تھاایسے وقت میں چاہئے شیطان کے منہ پرلات مار کر یہ کہے کہ ہٹ جا ؤ !میرا رزق میری قسمت میں لکھا جا چکا ہے اسے کوئی اورنہیںلے سکتا ہے ۔

لیکن یہ اعتقاد اس وقت حاصل ہوتاہے جب انسان خدا کی طرف سے رزق کے مقدر ہونے کے سلسلہ میں اطمینان پیدا کرلے ۔

یہ جو کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے رزق کو مقدر بنایا ہے اس معنی میں نہیں ہے کہ انسان رزق حاصل کرنے کیلئے تلاش و کوشش سے ہاتھ کھینچ لے اور کہے : اللہ تعالی میرے رزق کو خود مجھ تک پہنچا دے گا اس موضوع پر اپنی جگہ پر بحث ہوئی ہے کہ انسان کو اپنی ضروریات پورا کرنے کیلئے جستجو اور تلاش کرنی چاہیئے اور اللہ تعالی کا ہل اور آرام طلب انسان سے بیزار ہے ۔

رزق کے مقدر ہونے کی بحث ان لوگوں کیلئے ہے جو شیطانی وسوسوں سے دھوکہ کھاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر الٰہی فرائض انجام دینے میں لگ گئے تو وہ اور ان کے اہل و عیال بھوک سے مرجائیں گے، جو انساں خد اکی بندگی کرے گا بعید ہے اللہ تعالی اسے بھوکا چھوڑدے گا ۔

توحید افعالی اور اللہ تعالی کا سرچشمہ خیر ہونا :

''وَ مَنْ اُعطِیَ خیراً َعطَاهُ و مَنْ وَقٰی شراً فﷲ وقاه ''

جس شخص کو کوئی خیر پہنچے خدا نے اسے عطاکیا ہے اور جو شخص کسی شر سے محفوظ رہا ہے تو خدا نے اس کی حفاظت کی ہے ''

ایک اور مطلب جسے بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم الٰہی فرائض کو انجام دینے اور گناہوں سے بچ کر عبادات انجام دیتے ہیں تو ہمیں یہ تصور نہیں کرناچاہیئے کہ ہم شائستہ انسان بن گئے ہر وہ نیک کام جو ہم سے انجام پاتا ہے بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ وہی ہے جس نے نیک کام انجام دینے اور گناہ سے اجتناب کی توفیق بخشی ہے جو کچھ ہمیں تکوینی طور پر دنیا کی نیکیوں سے تلاش یا تلاش کے بغیر ملتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اور یہ خداوند عالم ہی ہے جو بلاؤں کو ہم سے دور کرتا ہے اس اعتقاد کایقین اور اس فکر کا سرچشمہ توحید افعالی میں جلوہ گر ہوتا ہے کہ انسان کو تمام خوبیوں اور نیک اعمال کو اللہ تعالی کی طرف سے جاننا چاہیئے اور اسے بلاؤں اور برائیوں کو دور کرنے والا جانناچاہیئے ۔

توحید افعالی کی بحث انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو بھی مطالب '' قضا وقدر '' وغیرہ کے بارے میں کہے گئے وہ بذات خود '' توحید افعالی '' کے بارے میں انسان کے اعتقاد کا ایک مقدمہ ہے ۔

'' توحید افعالی '' پر توجہ کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کے اندر سے غرور و تکبر دور ہوتا ہے اور حقیقت میں '' توحیدا فعالی '' پر توجہ کرنا، سستی ،کاہلی ، حسادت اور حقارت جیسی اکثر اخلاقی برائیوں کا علاج ہے '' توحید افعالی '' پر توجہ کرنے سے انسان میں نہ حسد کیلئے کوئی مقام ، اور نہ تکبر وحقارت کیلئے کوئی گنجائش باقی رہتی ہے جب انسان خود کو خداوند عالم سے مربوط دیکھتا ہے تو پھر وہ احساس حقارت نہیں کرتا ہے ۔ اس طرح جو خد کی عظمت پر نظر رکھتا ہے تو پھر اپنی بزرگی کا ہر گزسودا نہیںکرتا ہے ، کیونکہ وہ ہر چیز کواللہ تعالی کی طرف سے جانتا ہے اس طرح اگر کسی کا یہ ایمان ہو کہ تمام طاقتیں خدا کی طرف سے ہیں اور کوئی اس کی اجازت کے بغیر کسی کام کو انجام نہیں دے سکتا ہے تو وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہے جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ خداوند عالم تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کوئی نیکی نہیں پہنچ سکتی ہے تو وہ خدا کے سوا کسی اور سے دلچسپی نہیں رکھتا ہے بلکہ صرف اللہ تعالی سے امید وار ہوتاہے۔

____________________

۱۔ نہج البلاغہ ترجمہ فیض الاسلام ،حکمت نمبر ٧١ ، ص ١١١٧۔

۲۔ نہج البلاغہ فیض الاسلام ، خطبہ ٣٨ ، ص ١٢٢۔

۳۔ نہج البلاغہ فیض ، حکمت ٤٤٨ ،ص١٢٩٥

تیسرا سبق

زندگی کے حقائق کا صحیح ادراک اور عمر کا بہتر استفادہ

* فرصتوں کے مواقع سے استفادہ اور طولانی آرزوؤں سے کنارہ کشی

* لاپروائی کے مراحل

* ترکِ دنیا اور اس کی بے جاتفسیر

* ترکِ دنیا اور آخرت کو اصل جاننا

* فرائض اور تکالیف کی بروقت انجام دہی ۔

*موت کی یا دطولانی آرزوؤں کا خاتمہ

* دنیا سے وابستگی کے نتائج

زندگی کے حقائق کا صحیح ادراک اور عمر کا بہتر استفادہ

'' یَا اباَذَر ! اِیَّاکَ وَ التَّسْوِیفَ بِاَمَلِکَ فَاِنَّکَ بِیَومِکَ وَ لَسْتَ بِمَا بَعْدَهُ فَاِنْ یَکُنْ غَد فَکُنْ فِی الْغَدِکَمَا کُنْتَ فِی الْیَومِ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ غَد لَکَ لَمْ تنَدَمْ عَلٰی مَافَرَّطْتَ فِی الْیَومِ

یَا اَبَاذَر ! کَمْ مِنْ مُسْتَقبِلٍ یَوْماً لَا یَسْتَکْمِلُهُ وَ مُنْتَظِرٍ غَداًلاَ یَبْلُغُهُ ، یَا اَباذرَ ! لَوْ نَظَرْتَ اِلَی الاَجلِ وَ مَسِیرِهِ لَاَبغَضْتَ الْاَمَلَ وَ غُرُوْرَهُ یَا اَبَاذَر!کُنْ کَاَنَّکَ فِی الدُّنْیَا غَرِیب اَوْ کَعَابِرِ سَبِیلٍ وَ عُدَّ نَفْسَکَ مِنْْ اَصْحَابِ الْقُبُورِ یَا اَبَاذَر ! اِذَا اَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالمَسَائِ وَ اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالصَّبَاحِ وَ خُذْ مِنْ صِحَّتِکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَ مِنْ حَیٰوتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ لِاَنَّکَ لَا تَدْرِی مَااسْمُکَ ''

فرصتوں کے مواقع سے استفادہ اور طولانی آرزوئوں سے کنارہ کشی

'' یَا اباَذَر ! اِیَّاکَ وَ التَّسْوِیفَ بِاَمَلِکَ فَاِنَّکَ بِیَومِکَ وَ لَسْتَ بِمَا بَعْدَهُ ''

اے ابوذر ! ایسانہ ہو کہ طولانی آرزوئوں کی وجہ سے نیک کام انجام دینے میں تاخیر کرو ۔

( یہ بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گزشتہ فرمائشات کو مکمل کرتاہے اور فرصتوں سے استفادہ کرنے اور اپنی عمر کے اوقات کو ہاتھ سے نہ دینے پرایک تاکیدہے )

'' تسویف '' ان آفتوں میں سے ہے جو نیک اور شائستہ کام انجام دینے میں رکاوٹ بنتی ہیں ، اسی لئے روایتوں میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ تسویف کاموں کو تاخیر میں ڈالنے کے معنی میں ہے ، اس امید کے ساتھ کہ بعد میں انجام دیئے جائیںگے اس حالت کیلئے بہت سے دلائل ہوسکتے ہیں ، لیکن اس کا خاص اور اصلی سبب ( جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہوا ہے ) انسان کی آرزوئیں ہیں یعنی جس کام کو آپ کو انجام دینا چاہیئے انسان اس امید میں کہ کل تک زندہ ہے اوراکل انجام دے ، آج اسے انجام نہیں دیتا جب دوسرا دن ہوتا ہے تو پھر تیسرے دن کی امید میں اور اسی طرح دوسرے مہینے اور آئندہ سال کی امید میں کام کو تاخیر میں ڈالتا رہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : اگر چاہتے ہو تمہاری یہ حالت اور داخلی خصوصیت تم سے دور ہوجائے تو تصور کرناکہ صرف اسی دن اسی لمحہ اورآج کی فرصت رکھتے ہو اور اس کے بعد زندگی کی کوئی اور فرصت نہیں ملے گی ۔

'' تسویف'' کا مفہوم بہت سے دوسرے اخلاقی مفاہیم خواہ نیک ہوں یا بد کی طرح تشکیکی اور گوناگوں مراتب کا حامل مفہوم ہے یہ تشکیلی مفاہیم مختلف افراد کی نسبت ، مومن سے لے کر غیر مؤمن تک ، حتی مراتب ایمان کی نسبت ، متفاوت ہیں ، ان کے بعض مراتب واجب عمومی ہیں اور بعض واجب موکد ہیں ، ، بعض مستحب عمومی ہیں اور بعض مستحب موکد ہیں ، بعض مراتب اس قدر دقیق ہیں کہ عام لوگوں کیلئے ان کا تصور ممکن نہیں ۔

لاپروائی کے مراحل :

''تسویف '' کا پہلا مرحلہ : دنیوی کاموں کے بارے میں آرام طلبی اور سستی ہے جس کے سبب انسان اپنے کاموں میں تاخیر کرتا ہے اس بری عادت کا اعتقادی مسائل سے کوئی ربط نہیں ہے مؤمن بھی اس میں مبتلا ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کافر بھی مبتلا ہوجائے ،کیونکہ کافر بھی بعض اوقات دنیوی کاموں کے سلسلہ میں سستی اور لاپروائی کرتا ہے یہ عادت جو انسان کو اپنے کام میں تاخیر ڈالنے کا سبب بنتی ہے مومن اور کافر دونوں کیلئے ایک بری صفت شمارہوتی ہے البتہ چونکہ اگر مومن اپنے کام کو بر وقت انجام نہ دینے کی عادت کرے تو رفتہ رفتہ یہ عادت اس میں ملکہ کی حالت پیدا کرتی ہے اور اس کے دینی مسائل میں بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اس امر کاسبب بنتی ہے کہ وہ اپنے دینی فرائض کو بھی وقت پر انجام نہ دے ، اس لئے اس عادت کی برائی مومن کیلئے شدید تر ہے اگر ایسے عادات سے مقابلہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ اگر انسان دینی امور میں سستی اور لاپروائی کرے تو رفتہ رفتہ یہ عادت اس میں ملکہ پیدا کرے گی اور وہ اخروی امور میں بھی سستی اور لاپروائی کرنے پر اتر آئے گا۔

'' تسویف '' کا دوسرا مرحلہ : فرائض اور واجبات کی انجام دہی میں لاپروائی ہے کہ یہ لاپروائی واجبات کی تین اقسام کی بنا پر تین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے ۔

١۔ واجبات موسع ( جن واجبات کے انجام دینے کا وقت کا فی ہوتا ہے ) میں غفلت اور لاپروائی ، جیسے نماز پنجگانہ کہ ہر ایک نماز کا ایک وسیع وقت ہے ۔ بعض لوگ ان نمازوں کو انجام دینے میں غفلت اور لا پروائی کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کو انجام دینے میں تاخیر کرتے ہیں اور آخری لمحات میں انجام دیتے ہیں ، اگرچہ یہ لاپروائی اور غفلت حرام نہیں ہے لیکن ایک ناپسند کام شمار ہوتا ہے ۔

٢۔ ان واجبات میں لاپروائی ، جنہیں فوراً انجام دینا چاہیئے ، اگر چہ ایسے واجبات اس معنی سے بالکل ہی فوری نہیں ہوتے کہ اگر پہلی فرصت میں ترک ہو تو انہیںدوسری اور اسی طرح بعد والی فرصتوں میں انجام دیا جائے ، جیسے کہ توبہ کا وجوب ، یہ پہلی ہی فرصت میں واجب ہے کہ انجام پائے اور اس میں تاخیر کرنا حرام ہے ، اگر اس میں تاخیر ہوئی تو ایسا نہیں ہے کہ اس کا وجوب اور فوریت ساقط ہوجائے ۔

٣۔ مضیق واجبات ( یعنی ایسے واجبات جن کے بجا لانے کا وقت کم اور محدود ہے ) میں لاپروائی اور غفلت جیسے : روزہ ، کہ اس کا وقت محدود ہے ۔ بعض لوگ اس واجب کو اس کے اداکے وقت میں انجام دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں اور اپنی جگہ پر کہتے ہیں کہ بعد میں اسے قضا کے طور پرانجام دیں گے ۔ اگرچہ اس قسم کے شخص کا گناہ ایسے واجب کی قضا بجالانے کاارادہ نہ کرنے والے سے کم تر ہے لیکن اس کا یہ عمل حرام ہے ۔

ترک دنیا اور اس کے بے جا تفسیریں :

ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہت سی آیات اور روایات میں ایسے مطالب ذکر ہوئے ہیں کہ ان کی گوناگوں اور بعض اوقات متضاد تفسیریں کی جاسکتی ہیں ،ان کی تفسیر کرنے میں دینی امور میں مہارت اور تفقہ کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے مواقع پر غلطی کے امکانات اور نامناسب نتائج کا احتمال زیادہ ہے ۔ نمونہ کے طورپر دنیا اور اس کی مذمت میں یا گوشہ نشینی اور ترکِ دنیا کے بارے میں بعض آیات و روایات ذکر ہوئی ہیں کہ ان کے بارے میں گوناگوں ، بعض اوقات متضاد تفسیریں کی گئی ہیں ۔ ان تفسیروں میں صوفیانہ تفسیر بھی ہے جو اسلام کے تمام جوانب اور قطعی معارف کو مد نظر رکھے بغیر انجام پائی ہے اس عقیدہ کے مطابق انسان کو ترکِ دنیا کرنا چاہیئے، لوگوں سے دور تنہائی میں عبادت کرنی چاہیئے یا ایسے لوگ حیوانوں سے الفت رکھتے ہیں جبکہ اس قسم کا استنباط قرآن مجید کی آیات ، روایات اور دین کی قطعی بنیادوں سے متضاد ہے ۔

اگر گوشہ نشینی ، تنہائی اور ترکِ دنیا بنیاد ہے تو دین کی اجتماعی تکالیف جیسے :انفاق ، ظلم کا مقابلہ ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلامی حکومت برقرار کرنے کی تلاش جو اسلام کے قطعی ضروریات میں سے ہیں کا کیا ہوگا؟

اور انھیں کہاں عملی جامہ پہنایا جائے گا ؟ کیا خلوت اور تنہائی میں ان فرائض کو انجام دیا جاسکتا ہے ؟ لہذا ایک معرفت دینی کے استنباط کیلئے تمام معارف دینی میں تفقہ اور اس کے تمام جوانب پر توجہ کرنالازم اور ضروری ہے ۔

اس غلط فہمی کے جواب میں کہنا چاہیئے :اگر دنیا طلبی زندگی کے مقصد کے طور پر پیش کی جائے تو قابل مذمت ہے لیکن اگر دنیا اخروی کمال تک پہنچنے کا وسیلہ بن جائے تو نہ صرف قابل مذمت نہیں ہے بلکہ قابل تعریف و ستائش بھی ہے ۔ دنیا کو وسیلہ قرار دینے کے چند مراتب ہیں کہ ان میں سے بعض مراتب لازم ہیں اور بعض مراتب کمالات کے جز شمار ہوتے ہیں اس کی ضروری حد بندی یہ ہے کہ دنیا کی لذتوں سے استفادہ کرنا اور مادی امور میں مشغول ہونا ترکِ واجب یا فعل حرام انجام دینے کا سبب نہ بنیں وہ دنیا طلبی حرام ہے جو ارتکاب گناہ یا ترکِ واجب کا سبب بنے اور اگر دنیا طلبی انسان میں ایک نا پسند عادت بن جائے تو اس کے ساتھ مقابلہ کرنا واجب ہے ۔

اسلام کی نظر میں ،مثالی انسان وہ ہے جو کسی بھی صورت میں دنیوی امور کو بنیاد قرار نہ دے اور کسی بھی دنیوی کام کو اگرچہ مباح بھی ہو مادی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے انجام نہ دے ۔ دور اندیش اورہوشیار انسان اس مقام پر جو بلند ترین انسانی مقام ہے فائز ہوئے ہیں یعنی وہ اس طرح عمل کرتے ہیں کہ ان کے تمام کردار و رفتار ، حتی سانس لینا بھی عبادت شمار ہوئے ہیں ان کے تمام جسمانی اعمال و رفتار ، جیسے کھانا پینا، ورزش کرنا حتی حلال جنسی لذتیں بھی اخروی امور کا مقدمہ ہیں اور اس لحاظ سے واجب یا مستحب عبادت شمار ہوتی ہیں ۔

ترک دنیا اور آخرت کو اصل جاننا :

بہر صورت مادی اور دنیوی امو رکو بنیاد قرار دینا یا بنیاد قرار نہ دینا ایک ظریف اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کا معیار گفتگو میں معلوم نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس کا انحصار افراد کی نیت پر ہے : مثال کے طورپراگر انسان لذت کی غرض سے کھانا کھائے تو اس نے مادیت کو بنیاد قرار دیا ہے ، اگرچہ زبان سے انکار بھی کرے اور اگر اس کی نیت یہ ہو کہ کھانے کے مزہ سے لذت پاکر خداکا شکر بجالائے تو اس نے آخرت کو بنیاد قرار دیا ہے ، کیونکہ اس کا مقصد اللہ تعالی کا شکر بجالانا ہے اسی لحاظ سے قرآن مجید میں بعض نعمتوں کا ذکرکرنے کے بعد ، بارگاہ الٰہی میں شکر گزاری ، نعمتوں سے استفادہ کرنے کے مقصد کے طور پر بیان ہوئی ہے پس مقصد ، شکر گزاری ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب تمام مادی کام خدائی رنگ پیدا کریں ۔

اکثر لوگ اپنی رفتار کے معنوی پہلو کی طرف توجہ نہیں رکھتے اور اس قدر مادی لذتوں میں غرق ہوتے ہیں کہ مادیات اور مادی لذتوں کے علاوہ کسی اور مقصدکو مدنظر نہیں رکھ سکتے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معنوی مقامات تک پہنچنے اور اخروی امو ر کو بنیاد قرارد ینے کیلئے انسان کو مربی کی ضرورت ہے ، کیونکہ ممکن ہے اعتدال کی راہ سے بھٹک کر افراط و تفریط کا شکار ہوجائے ۔

جولوگ نفس کے تکامل وترقی اور اس کی تربیت کے بارے میں قدم اٹھانا چاہیں انھیں اپنے ذہن میں دنیوی پہلوؤں کو ضعیف کرنے ، مادی لذتوں کی چاہت کو کم کرنے اورا خروی لذتوں کے رجحان اور برتری کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،دنیوی لذتوں سے چشم پوشی کرنے کیلئے اپنے آپ کو تلقین کرے کہ مادی لذتیں اخروی لذتوں کے مقابلہ میں حقیر اور ناچیزہیں ۔ اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام اپنی فرمائشات میں لوگوں کو آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کی ترغیب دیتے ہیں ترک دنیا کی حوصلہ افزائی نہیںکرتے کہ مکمل طور پر دنیا کو چھوڑدیں ،کیونکہ اگرانسان دنیا کو اخرت کا مقدمہ قرار دے ، تو نہ صرف یہ کہ وہ دنیا طلب نہیں ہے بلکہ آخرت طلب ہے مباحات سے استفادہ کرنا بذات خود حرام میں مبتلا نہ ہونے کا مقدمہ ہے اس لحاظ سے عبادت میں شمار ہوتا ہے اس کے علاوہ بعض اوقات مباحات سے استفادہ کرنا بلند ترین فرائض انجام دینے میں تقویت اور آمادگی کا سبب بن جاتا ہے ۔

حضرت اما م موسیٰ بن جعفر علیہ السلام روزانہ اوقات کی تقسیم بندی کے بارے میں فرماتے ہیں:

'' ایک گھنٹہ حلال لذتوں سے استفادہ کرنے کیلئے مخصوص رکھنا چاہیئے کیونکہ حلال کے استفادہ سے ہی انسان تمام فرائض کو انجام دینے کی طاقت پیدا کرسکتا ہے ''

چنانچہ ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جملۂ ''ِیَاکَ و التسویف''میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ '' تسویف '' کے پیدا ہونے کا سبب انسان کی لذتیں حاصل کرنے کی آرزوئیں ہیں ۔ یعنی انسان ہمیشہ دنیوی لذتوں کو حاصل کرنے کی تلاش میں ہوتا ہے اور یہ امر بذات خود دینی فرائض کو تاخیر اور التوا میں ڈالنے کا سبب ہے دوسرے الفاظ میں انسان اس دوراہے سے دوچار ہوتا ہے کہ فرصت کو فوری اور مادی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کرے یا اخروی نتائج حاصل کرنے کیلئے ، چونکہ لذات دنیا کو نقد اور آخرت کو ادھار سمجھتا ہے اس لئے فرضت کو اسی کیلئے صرف کرتا ہے ، حقیقت میں اس کا ایمان آخرت کی نسبت دنیا پرزیادہ ہے اور عارضی اور فوری لذتوں کو آخرت کی پائدارلذتوں پر ترجیح دیتا ہے ۔

حیرت کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر کافی حد تک شرک میں مبتلا ہیں کیونکہ ہم آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کے قائل نہیں ہیں :

( وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُهُمْ بﷲ اِلَّا وَ همُ مُشْرِکُونَ' ) ( یوسف ١٠٢)

'' اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ ''

اگر انسان کسی کام کوغیر خدا کیلئے انجام دے ، حتی اگر وہ کام اخروی ثواب حاصل کرنے کیلئے بھی ہوشرک ہے ۔ خالص توحید میں ، خدا کے سوا کوئی اور مقصد نظر میں نہیں ہوتا ہے ، حتی جہنم کا خوف اور بہشت کا شوق بھی مقصد نہیں ہے ، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''اِلٰهی مَا عَبَدْتُکَ خَوفاً مِنْ عِقَابِکَ وَ لَا طَمْعاً فِی ثَوَابِکَ وَ لٰکِنْ وَجَدْتُکَ اَهْلاً لِلْعِبَادةِ فَعَبَدْتُکَ ''(۱)

میرے پروردگار ! تیرے لئے میری عبادت نہ جہنم کے خوف کی وجہ سے ہے اور نہ بہشت کی طمع کے سبب ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ میں تجھے عبادت کے لائق جانتا ہوں ''

طولانی آرزوئیں ، انسان کی سعادت کو خطرہ میں ڈالتی ہیں ، اس لئے حضرت علی علیہ السلام اکثر اس بات سے خائف تھے کہ لوگ اپنی طولانی آرزوؤں میں مبتلا ہوکر فرائض الہی کو اپنی نفسانی خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھائیں :

''وَ اِنَّ اَخْوَفَ مَا أَخَافَ عَلَیکُمْ اِثْنَانُ: اِتِّبَاعُ الْهَویٰ وَ طُولُ الْاَمَلِ ، لِاَنَّ اِتِّبَاعَ الْهَویٰ یَصُدُّ عَنِ الْحَقَّ وَ طُولَ الْاَمَلَ یُنْسِی الآخِرَةَ ''(۲)

'' مجھے تم لوگوں کے بارے میں دو چیزوں کا زیادہ خوف ہے ایک نفسانی خواہشات کی

پیروی اور دوسری طولانی آرزوئیں ، کیونکہ نفسانی خواہشات کی پیروی حق کی راہ میں رکاوٹ اور طولانی آرزوئیں آخرت کو فراموش کرنے کا سبب بنتی ہیں ''

فرائض و تکالیف کی بروقت انجام دہی :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم '' تسویف '' سے پرہیز کرنے کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''فانک بِیَومِکَ و لست بما بعده ''

'' کیونکہ تمہیں صرف آج کے دن کی فرصت ہے اور کل کا دن تمھارے اختیار میں نہیں ہے ''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ابوذر سے نصیحت فرماتے ہیں کہ آج کے فریضہ کو کل پر نہ چھوڑنا ، کیونکہ کل کے آنے کی کوئی ضمانت اور اطمینان نہیں ہے ، اوراگربالفرض کل آبھی جائے تو تمہیں دوسرے فرائض انجام دینے ہیں ، کل کے نہ آنے کا تجھے افسوس نہیں ہے ، لیکن اگر تم نے اپنے فریضہ کو تاخیر میں ڈال دیا اور کل کا دن نہ آیا تو کیسے اسے انجام دو گے تو اس حسرت اور افسوس کو اپنے ساتھ دوسری دنیا میں لے جاؤ گے۔

لہذا اسی لمحہ کے بارے میں سوچنا چاہیئے اور اسی لمحہ کو غنیمت سمجھنا چاہیئے نیز '' تسویف'' اور کاموں کو اس امید سے التوا میں ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کہ انہیں کل انجام دیں گے ، مطالعہ اور تحقیق کے دوران اپنے آپ سے یہ نہ کہیں کہ وقت کافی ہے کل مطالعہ کریں گے ، کیونکہ آنے والے کل کے دن بھی ہمیں دوسرے فرائض انجام دینے ہیں:

''فَاِنْ یَکُنْ غَدلک فَکُنْ فِی الْغَدِکَمَا کُنْتَ فِی الْیَومِ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ غَد لَکَ لَمْ تنَدَمْ عَلٰی مَافَرَّطْتَ فِی الْیَومِ ''

اگرتمھارے لئے کوئی آنے والا کل ہے تو اس دن بھی آج کے مانند فریضہ انجام دینے کی فکر میں رہو اور اگر کوئی آنے والا کل تمھارے لئے نہیں ہے تو صرف آج کے دن کو بطور فرصت پانے پر پشیمان نہیں ہوگے ۔

ممکن ہے کوئی شخص اپنے روز مرہ کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس بات پر پشیمان ہوجائے کہ وہ زیادہ کامیابی حاصل نہیںکرسکا ہے لیکن اس کی طاقت کی محدودیت کے پیش نظر یہ کہ اس نے اپنی صلاحیت کے مطابق فرائض انجام دئے ہیں ، پشیمان نہیں ہوگا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی گزشتہ نصیحتوں کو مکمل کرتے ہوئے اور اس امر کی تاکید فرماتے ہوئے کہ آنے والے کل کے انتظار میں نہیں بیٹھا جا سکتا ہے ، فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَر ! کَمْ مِنْ مُسْتَقبِلٍ یَوْماً لَا یَسْتَکْمِلُهُ وَ مُنْتَظِرٍ غَداًلاَ یَبْلُغُهُ ''

اے ابو ذر ! کتنے ایسے لوگ ہیں جو صبح سے شام تک نہیں پہنچتے اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو آنے والے کل کے انتظار میں ہوتے ہیں لیکن اس تک نہیں پہنچتے۔

غوروفکر کا مقام ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے تربیتی بیانات میں کس طرح مخاطب کو آمادہ فرمارہے ہیں تاکہ اپنی عمر کے لمحات سے کیسے بہترین فائدہ اٹھائیں ۔ ابتداء میں اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کس قدر مستقبل پر بھروسہ اور امید کرسکتا ہے تاکہ اس آنے والے زمانہ کیلئے کسی کام کو التوا میں رکھے ۔ اگر وہ اپنے آنے والے کل پر بھروسہ نہیں رکھتا ہے تو کیوں اپنے کام کو التوا میں ڈالتا ہے : ظہر کی ابتدا میں ظہر کی نماز کا وقت ہے ، کونسی گارنٹی ہے کہ اسے مزید ایک گھنٹہ زندہ رہنا ہے تا کہ نماز کو التوا میں ڈال دے ؟ واضح ہے کہ اگر اول وقت پر نماز پڑھے ، تو بعد میں پشیمان نہیں ہو گا ، اس کے علاوہ دوسرے کام بھی انجام دے سکتا ہے ۔

موت کی یاد ،طولانی آرزؤں کا خاتمہ:

'' یَا اَباذرَ ! لَوْ نَظَرْتَ اِلَی الاَجلِ وَ مَسِیرِهِ لَاَبغَضْتَ الْاَمَلَ وَ غُرُوْرَه''ُ

اے ابوذر! اگر موت کے بارے میں سوچ لواور یہ کہ کس تیز رفتاری سے تیری طرف آرہی ہے ، تو آرزو اور اس کی فریب کاری سے دشمنی کرو گے ۔

آرزوؤں اور ان کی فریب کاریوں سے مقابلہ اور جنگ کرنے کی بہترین راہ یہ ہے کہ اپنی موت کی فکر میں رہو اور جان لو کہ اجل ، طولانی آرزوئوں کو ناکام بنا دیتی ہے اور انسان کو ناامیدی کے عالم میں دوسری دنیا کی طرف لے جاتی ہے ، امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' وَمَنِ اسْتَشْعَاَرَ الشَّغَفَ بِهَا ، مَلَاَتْ ضَمِیْرَهُ اَشْجاناًلَهُنَّ رَقْص عَلٰی سُوَیْدائِ قَلْبِهِ هَمُّ یَشْغَلُهُ وَ غَمّ یَحْزُنُهُ ، کَذٰلِکَ حَتّٰی یُوْخَذَ بِکَظْمِهِ فَیُلْقیٰ بِالْفَضَائِ '' (۳)

'' اور جس نے دنیا کی محبت کو دل میں جگہ دی ، وہ اندر سے غم و اندوہ سے بھر جائے گا اور یہ غم و آلام اس کے دل میں موجزن ہوں گے ، ایک مسلسل اور حزن سے بھرا غم یہاں تک اس کی سانس رک جائے گی اور ایک گوشہ میں پڑی اس کی زندگی کی رگیں کٹ جائیں گی ۔'''

ایک اور جگہ پر حضر ت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

'' وَ مِنْ عِبَرِهَا اَنَّ الْمَرْئَ یُشْرِفُ عَلَی اَمَلِهِ فَیَقْتَطعِاُهُ حَضُوْرُ اَجَلِهِ ، فَلَا اَمَلاً یُدْرَکُ وَ لَا مُوْمِّل یُترَکَ ...'' (۴)

دنیا کی عبرتوں میں سے یہ بھی ایک عبرت ہے کہ جب تک انسان اپنی آرزوئوں تک پہنچنا چاہتا ہے ، موت پہنچ کر اسے ناامید کردیتی ہے ، پس نہ آرزو اس کے ہاتھ آتی ہے اور نہ موت کے چنگل سے بچ سکتا ہے ۔

دنیا سے وابستگی کے نتائج :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

''یَا اَبَاذَر!کُنْ کَاَنَّکَ فِی الدُّنْیَا غَرِیب اَوْ کَعَابِرِ سَبِیلٍ وَ عُدَّ نَفْسَکَ مِنْاْ اَصْحَابِ الْقُبُور''

'' ا ے ابوذر ! دنیا میں ایک اجنبی اور مسافر کی صورت میں زندگی گزارنا اور خود کو ایک مردہ شمار کرنا''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نصیحت فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک ایسے اجنبی کی طرح رہنا جو کسی شہر میں داخل ہوتا ہے ، سوچ لو کہ اگر اس کا اس شہر میں کوئی دوست یا آشنا نہ ہو تو وہ کیسے زندگی گزارے گا کیا اس کے باوجود کہ کسی سے الفت پیدا نہیں کرسکتا ہے ، عیش و عشرت میں زندگی بسر کرسکتا ہے ؟ مومن کا وطن آخرت ہے اور دنیا میں مسافر اور راہی کے مانند ہے ، اس لئے وہ اس فکر میں نہیں ہے کہ اپنے لئے عیش و عشرت کی بساط کو پھیلائے ، اسی طرح پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نصیحت فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک راہی کے مانند رہنا کہ جوراستہ پر چلتا ہے لیکن رکنے کی مجال نہیں رکھتا ۔

ممکن ہے اس قسم کے جملوں پر ظاہری توجہ کرنے سے انسان غلط فہمی کا شکار ہوجائے اور یہ فکر کرنے لگے کہ دوسروں سے کنارہ کشی کرنی چاہیئے اور گھر بنانے اور خاندان کو تشکیل دینے کی فکر کو ذہن سے نکال دینا چاہیئے او ر بالآخر دنیا کی نعمتوں سے دوری اختیار کرکے صرف اخروی دنیا کی فکر کرنی چاہیئے ، کیونکہ وہاں پر انسان کی ابدی قیام گاہ ہے ! اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اس قسم کا طرز تفکر اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق نہیں ہے ، کیونکہ ممکن ہے دوست و احباب کا انتخاب ، خاندان کی تشکیل ، مال و دولت اور گھر بنانا و.. سب آخرت کے محور بن جائیں اور دنیا کی محبت انسان کا مقصد قرار نہ پائے بلکہ آخرت کی توجہ اور حکم خدا کی اطاعت انسان کا مقصد قرار پائے ، کیونکہ دنیا کے ذریعہ اور اس کی لذتوں سے فائدہ اٹھا کر اخروی کمالات اور قرب الہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

حقیقت میں جس نے آخرت کو اپنا مقصد قرار دیا ہے اس نے دنیا کو وسیلہ کے طور پرا نتخاب کیا ہے ، اب اگر کوئی انسان دنیا سے چشم پوشی کرکے اسے آخرت کیلئے وسیلہ قرار نہیں دے سکتا ہے ، تو کم از کم اسے ایک راہی کا رول ادا کرنا چاہیئے کہ راستہ سے چلتے ہوئے تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے قدرے رک کر آرام کرے ۔اگرچہ ایسے شخص کی نظر میں دنیوی امور اصلیت کے حامل ہیں اور مکمل طور پر انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، کم از کم ان سے مدد حاصل کرے اور ضرورت کو پورا کرنے کی حد تک دنیوی مباحات سے استفادہ کرنا چاہیئے ۔ چنانچہ حضرت امام موسی بن جعفرعلیہ السلا م نے اس مطلب کے پیش نظر فرمایا ہے :

'' اپنے وقت کے ایک حصہ کو حلال لذتوں سے استفادہ کرنے کیلئے مخصوص کرو ''

جملۂ '' وَعُدَّ نَفْسَک من اصحاب القبور '' بلند ترین تعبیر ہے جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استعمال کیا ہے، لیکن ممکن ہے اس سے بھی غلط مطلب لیا جائے ، جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں : '' اپنے آپ کو مردہ قرار دو '' اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ چونکہ مرد ے ضروری ترین نعمتوں ، جیسے کھانے پینے سے محروم ہیں ، اور تم بھی دنیا اور اس کے امکانات سے فائدہ اٹھانے سے اجتناب کرنا۔ جبکہ یہ ایسی صورت میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ انسان اپنی مستقل قیام گاہ کی طرف توجہ رکھے ۔ جب دنیوی زندگی آخرت کی گزرگاہ اوردوسری دنیا میں پہنچنے کیلئے ایک پل ہے ، تو انسان کی توجہ اصلی مقصد اور ابدی قیام گاہ کی طر ف رہنا چاہیئے اور ایک د ن کیلئے اپنے آپ کو آمادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور کافی زادراہ اپنے ساتھ اٹھانے کی فکر کرے تا کہ وہاں پر پشیمان اور شرمندہ نہ ہوجائے۔پس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد یہ نہیں ہے کہ انسان دنیوی امو رکو مکمل طور پر چھوڑدے اور ذریعہ معاش اوراپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کیلئے مستقبل کے وسائل و آسائش کی کوئی فکر نہ کرے ۔

آیات و روایات سے غلط مطلب نکالنے کی عادت ، مسلمانوں میں زمانہ قدیم سے رہی ہے ، چنانچہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں عذاب کے بارے میں ایک آیت نازل ہوئی تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض اصحاب ، گھر بار ، ازدواجی زندگی ، کھانا پینا اور لباس وغیرہ کو چھوڑ کر عبادت میں مشغول ہوگئے تو جب یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اپنے پاس بلاکر فرمایا: ' ' ایسا کیوں کرتے ہو؟ میں جو تمہارا پیغمبر ہوں ،عبادت و روزہ داری کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی بھی چلا رہا ہوں اور دنیوی لذتوں سے بھی استفادہ کرتا ہوں ،تم لوگ بھی میرے نقش قدم پر چل کر گھر بار اور اپنی زندگی کو نہ چھوڑو ''

مذکورہ مطلب کے پیش نظر اس بات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ ممکن ہے کوئی انسان دنیا میں کثرت سے مالی و مادی امکانات کا مالک ہو، لیکن دنیا پرست نہ ہو، کیونکہ تمام مادی امکانات کو حق کی راہ ڈھونڈنے میں وسیلہ کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب دنیا کی مذمت کا مسئلہ ہو تو اس مذمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قدرتی وسائل کو حقیر سمجھا جائے ، کیونکہ وہ سب خدا کی پیدا کردہ اور الٰہی آیات ہیں ۔ بلکہ درحقیقت مذمت انسان کی فکراور نیت کے بارے میں کی گئی ہے جو اسے دنیا کی نعمتوں سے وابستہ کردیتی ہے اور انہیں اصلی مقصدکے طورپر انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اس کے وسیلہ کے رول سے غافل ہوتا ہے ، پس حقیقت میں انسان کی مادی وسائل سے استفادہ کی نا پسندیدہ طریقہ سے مذمت کی گئی ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توصیف میں فرماتے ہیں:

'' فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنیا بِقَلبِهِ وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَا عَنْ نَفْسِهِ '' (۵)

'' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب کو دنیا کی طرف کوئی توجہ نہ تھی اور آپ نے اس (دنیا ) کے نام اور یاد کو اپنے نفس میں مار ڈالا تھا''

'' یَا اَبَاذَر ! اِذَا اَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالمَسَائِ وَ اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِالصَّبَاحِ''

اے ابوذر ! صبح کے وقت شام کی خوش فہمی میں نہ رہو اور شام کے وقت اپنے آپ کو صبح کی نوید نہ دو ۔

'' یہ بات گزشتہ مطالب کی ایک تاکید ہے کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے مستقبل کے بارے میں مطمئن نہیں ہوسکتا ''

'' وَ خُذْ مِنْ صِحَتِّکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَ مِنْ حَیٰوتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ لِاَنَّکَ لَا تَدْرِی مَااسْمُکَ ''

اس وقت بیمار ہونے سے پہلے اپنی تندرستی سے اور مرنے سے پہلے اپنی زندگی سے فائدہ اٹھائو کیونکہ تم نہیں جانتے ہو کہ کل تمھارا انجام کیا ہوگا۔

یہاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نصیحت فرماتے ہیں : فرصت سے استفادہ کرو اور آج کی زندگی کو غنیمت جانو کیونکہ نہیں معلوم کہ تم کل زندہ رہوگے کہ نہیں ۔ اس طرح بیمار ہونے سے پہلے اپنی تندرستی سے استفادہ کرو۔

____________________

۱۔بحار الانوار ، ج ٤١، ص ١٤

۲۔ بحار الانوار ، ج ٧٧ ، ص ٤١٩

۳۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، حکمت نمبر ٣٥٩، ص ١٢٥٦۔

۴۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ،خ١١٣،٣٥٣

۵۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، خططہ ١٠٨ ، ص ٢٩٤۔


5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22