زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

زاد راہ (دوسری جلد)0%

زاد راہ (دوسری جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (دوسری جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 40509
ڈاؤنلوڈ: 3943


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40509 / ڈاؤنلوڈ: 3943
سائز سائز سائز
زاد راہ (دوسری جلد)

زاد راہ (دوسری جلد) جلد 2

مؤلف:
اردو

تیسواں درس:

ذکر کی اہمیت ،تربیت ساز معاشرت اور انتخاب دوست کا معیار

* گو شہ نشینی کے فوائد

*معاشرت اور دوسروں کے ساتھ زندگی گزار نے کے فوائد

* الفت و برادری، خدا کی ایک مہر بانی

*دوست کے انتخاب کامعیار

* غا فلوں کے اجتماع میں ذکر خدا کرنے کی عظمت

* گفتگو کرنے کے بارے میں انسان کی ذمہ داری

* مومن کے ساتھکھانا کھانے کے محاسن اور فاسق کے ساتھ کھانا کھانے سے پرہیز

ذکر کی اہمیت ،تربیت ساز معاشرت اور انتخاب دوست کا معیار

'' یا اباذر:الذاکرفی الغافلین کالمقاتل فی الفارّین؛یااباذر؛ الجلیس الصالح خیرمن الوحدة والوحدةخیرمن جلیس السوء واملاء الخیر خیر من السکوت و السکوت خیر من املاء الشر''

''یا ابا ذر: لا تصاحب الا مؤمنا ولا یا کل طعا مک الا تقی ولا تاکل طعام الفاسقین؛ یااباذر؛اطعم طعامک من تحبه فی الله وکل طعام من یحبک فی الله عزوجل''

حضرت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جناب ابوذر سے نصیحتوںکا یہ حصہ ایک دوسر ے سے میل جول اور نشست وبرخاست سے مربوط ہے ،علمائے اخلاق نے اپنی کتا بوں میں جن مسا ئل کا ذکر کیا ہے اور ان میں کم و بیش اختلاف ہے ، وہ یہ ہے کہ اسلامی اخلاق کی نظر میں میل جول اور اجتماعی ہو نا بہتر ہے یا تنہائی و گو شہ نشینی؟دو سروں سے میل جول کی اہمیت کے سلسلے میں بعض روایتں نقل ہوئی ہے کہ من جملہ حضرت محمد باقر علیہ السلام فر ماتے ہیں:

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے احتضار اور جان کنی کے عالم میں ،اپنے بیٹوں حسن و حسین علیھماالسلام اور محمد حنفیہ نیز اپنے چھو ٹے فرزندوں کو اپنے پاس بلا کر انھیں و صیت کی اور وصیت کے آخر میں فرمایا :

''میر ے فر زندو!لو گو ں کے ساتھ ایسی معاشرت کرو کہ اگر تم ان سے دور ہو گئے تو وہ تمھیںدو بارہ دیکھنے کے لئے مشتاق رہیں اور مرجاؤ تو تم پر روئیں ''(۱)

علمائے اخلاق نے تنہائی اور گو شہ نشینی کے کچھ فوائد بیان کئے ہیں کہ ان کا ذکر لو گوں کے ساتھ میل جول اور نشست وبر خاست کرنا مطلو ب دکھا یا ہے، اس کے مقابلہ میں دوسروں کے ساتھ معا شرت کے بھی کچھ فوائد بیان کئے ہیں اور گو شہ نشینی کے کچھ نقصا نات بھی ذکر کئے ہیں۔

گو شہ نشینی کے فوائد:

گو شہ نشینی کے درج ذیل فائدے بیان کئے گئے ہیں:

الف۔ اجتماعی زندگی سے گو شہ نشینی اختیار کر نا، عبادت کے لئے فرا غت پیدا کر نے ،دنیوی و اخروی امور میں تفکر کرنے ،خدا کے ساتھ مناجات سے انس پیدا کر نے، اسرار الہی کو درک کر نے اور خدا متعال کی حیرت انگیز مخلو قات پر غور وخوض کر نے کا سبب ہے اور لوگوں کے ساتھ میل جول انسان کو بلند تو فیقات سے محروم کر دیتاہے بیان کیا گیا ہے کہ:گو شہ نشینی کے اہم تربیتی رول کی وجہ سے ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی رسالت کے آغاز پر تنہا کوہ حر ا میں تشریف لے جاتے تھے اور اپنے پر ور دگار سے مناجات میں مشغول ہو تے تھے اور معاشرے سے دوری اختیار فر ماتے تھے ، یہاں تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قلب مبارک میں نور نبوت و رسالت روشن ہوا اور اس کے بعد لوگ آپ کو خدائے متعال سے جدا نہ کر سکے۔

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر چہ جسم و بدن کے سا تھ لوگوں میں ہوا کرتے تھے ،لیکن آپ کا دل خدا کے ساتھ ہو تاتھا اورتنہائی میں خدا کی یاد اورذکر کیاکرتے تھے۔ نبوت و رسالت کی طا قت اور قرب الٰہی پر فائز ہونے کی طاقت کے بغیر انسان لوگوں کے ساتھ ظاہری میل جول اور خدا وند متعال سے مخفی تو جہ کو آپس میں جمع نہیں کر سکتا ہے۔

ب۔ لوگوں سے کنارہ کشی کرنے سے انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے ،خاص کر ان گناہوں سے جو غالباً لوگوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے ہی سر زد ہو تے ہیں ،مثال کے طور پر:

١)غیبت۔

٢)ریاکیونکہ انسان لوگوں کے ساتھ معاشرت کی وجہ سے ہی ریا اور نفاق میں مبتلا ہو تا

ہے وہ اگر لوگوں کے ساتھ نرمی نہ کرے اور انھیںبُرے کاموں اور نامناسب باتوں سے روکنا چاہے تو اسے تکلیف پہنچا تے ہیں ۔ اس کے مقا بلہ میں خاموشی اختیا ر کرے تو ریا میں مبتلا ہو تا ہے ۔

٣)۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں خا موشی،٤۔ پست اخلاق اور ناپسند اعمال سے انسان کی طبیعت اور فطرت کو پاک نہ کرناجس کی وجہ سے انسان دنیا کی طمع میں مبتلا ہوتاہے ،جو لوگوں سے میل جول کی وجہ سے ہی انسان میں پیدا ہو تی ہے۔

فطری و طبعی بات ہے کہ جب انسان نے اپنی اصلاح نہ کی ہو اور ایک ایسے مر حلہ تک نہ پہنچاہو جہاں پر وہ اپنے نفس کو لگام دے سکے اور اسے لغزشوں سے بچا سکے تو وہ اجتماع میں گناہ کا مر تکب ہو تا ہے ، کیونکہ لوگوں سے گفتگو کر نا اور میل جول بذات خود گناہ سے آلودہ ہونے کا موقع فراہم کر تا ہے۔

ج)۔ اختلاف اور ٹکرائو سے بچنا، دین کا تحفظ اور اپنے نفس کو معاشرتی لغزشوںسے رو کنا : کیونکہ اجتماعات ،تعصبات ، عداوت اور دشمنیوں سے خالی نہیں ہیں ، اس لحاظ سے جو اجتماعات سے بچتا ہے ،وہ ان انحرافات سے محفوظ ہے۔

د)۔ لوگوں کی طرف سے پہنچنے والے نقصانات سے نجات:کبھی دوسرے لوگ غیبت کرکے انسان کو اذیت و آزار پہنچاتے ہیں اور کبھی بد ظن ہو کے ، کبھی تہمت سے اور کبھی ناروا باتوں اور طمع و لالچ سے آزار پہنچا تے ہیں ۔ اس لحاظ سے جب انسان لوگوں سے دوری اختیار کر تا ہے تو ان امور سے آزاد ہوتاہے ۔ اگر لوگوںسے میل جول کرے اوران کے ساتھ نشست وبر خاست رکھے اور خود کو ان کے کاموں میں شریک قرار دے ، توحسادت اور دشمنیوں کے شر سے محفوظ نہیںہے ۔ ہر لمحہ اسے فتنے ضر بہ لگانے کے در پے ہیں تاکہ اسے اپنے مقام و منزلت سے گرادیں۔

ھ)۔ گوشہ نشینی اور تنہائی لوگوں کی طرف سے انسان کے لئے طمع نہ کرے اور انسان کی طرف سے لوگوں کے لئے طمع نہ کرنے کا سب بن جاتاہے ۔ انسان کی آسائش اس میں ہے کہ لوگوں کی طمع اس سے کم ہو جائے ، انسان کبھی لوگوں کی رضا مندی حاصل نہیں کر سکتا ہے ،کیو نکہ امیدیں اور توقعات حد سے زیادہ ہو تی ہیں، اس لحاظ سے نفس کی اصلاح کر نا لوگوں کی ر ضا مندی حاصل کر نے سے بہتر ہے۔

جو انسان دوسروں کے حقوق جیسے لوگوں کے تشییع جنازہ میں شرکت کرنا ، بیماروں کی عیادت اورشادی وغیرہ میں شرکت کرنااداکرنے کی تلاش میں ہوتاہے،اگران تمام امور کو انجام دینا چاہے اس کا وقت ضائع ہو تاہے اور دوسر ے فرائض انجام دینے سے پیچھے رہتاہے ، اگر ان امور سے بعض کو انجام دے تو بعض دوسرے امور رہ جاتے ہیں، اگر دوسروں کی خواہشات کے مقا بلہ میں کوئی عذر پیش کرے تو اس کے عذرکو قبول نہیںکرتے اس لحاظ سے وہ دوسروں کا مقروض رہتاہے اور یہ بذا ت خود کدو رت اوردشمنی کا سبب بنتا ہے ۔ لیکن جو مکمل طور پر ان امور سے دوری اختیار کر تاہے ، اس کے لئے کم تر مشکلات اور درد سرپیدا ہو تا ہے۔

و)۔ جو تنہائی اور گوشہ نشینی اختیار کر تاہے ، وہ مغرور ،ہٹ دھرم اور احمق انسانوں جن کو دیکھنا انسان کیلئے رنجش کا سبب بن جاتاہے کو دیکھنے سے بچتا ہے ۔اعمش سے پو چھا گیا کہ:تیری آنکھ میں کیوں تکلیف ہوئی ہے؟ اس نے کہا:کیونکہ میں نے مغرور متکبروں پر نگاہ کی۔ اس لئے دنیوی نقطہ نظرسے، احمقوں،متکبروں مغروروں کو دیکھنا انسان کی روح پر بُرا اثر ڈالتاہے اور اخروی جہت سے، جب انسان ان کو دیکھنے سے رنجیدہ ہو تا ہے ،تو ان کی غیبت میں تاخیر نہیں کرتا ۔ اس کے علا وہ جب انسان دوسروں کی غیبت، اپنے اوپر تہمت اور دوسروں کے حسد اورچغلخوری سے اذیت و آزار محسوس کر تا ہے ، تو ان کی تلا فی میں کو تاہی نہیں کرتا اور یہ سب انسان کے لئے اس کے دین میں خرابی پیدا کرنے کا سبب بن جاتاہے اور انسان گوشہ نشینی کے ذریعہ ان مصیبتوں سے محفو ظ رہ سکتاہے۔

معاشرت اوردوسروں کے ساتھ زندگی گزار نے کے فوائد:

بہت سے مقاصد اور دینی اور دنیوی ضرورتیں دوسروں کی مدد سے حاصل ہو تی ہیں اور یہ چیزیں دوسروں کی معاشرت اور میل جول کے بغیر حاصل نہیں ہو تیں۔ پس جو کچھ دوسروں سے معاشرت کی بناپر ہاتھ آتا ہے ،وہ گو شہ نشینی اور اختیار کرنے سے ہاتھ سے چلا جاتا ہے اور فطری بات ہے کہ ان منا فع کے ہاتھ سے چلا جانا، گوشہ نشینی اور تنہائی کے نقصانات اور آفات ہیں ۔ مذکو رہ بیان کے پیش نظر دوسروں سے معاشرت کے چند فوائد کو حسب ذیل عبارت میں ذکر کیا جاسکتا ہے:

الف)۔ سیکھنااور دوسروں کو سکھانا( تعلیم و تعلم) جس کی اہمیت کسی سے پو شیدہ نہیں ہے، اور یہ بڑی عبادتوں میں سے ہے، جو دوسروں سے معاشرت اور میل جول کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ گوشی نشینی ور تنہائی اختیار کر نے والا (تعلیم و تعلم) علم کے سیکھنے اور سکھانے اوراس کے نشر و اشاعت سے محروم رہتا ہے۔ یقینا اگرانسان گوشہ نشینی کی وجہ سے دینی اوردنیوی علوم سیکھنے سے محروم رہا اور اس نے دینی احکام نہ سیکھے تو وہ ناقا بل تلافی نقصان سے دو چار ہو گا۔

ب)۔دوسروں سے فائدہ اٹھانا اور دوسروںکوفائدہ پہنچانا: فطری بات ہے کہ لوگوںسے استفادہ کرنا ،ان کے ساتھ کسب و تجارت اور کام کر نے سے حاصل ہوتا ہے اور یہ امر ممکن نہیںہے مگر یہ کہ لوگوں سے معاشرت کی جائے اور جو دوسروں سے استفادہ کر نا چاہتاہے، اسے گو شہ نشینی کو ترک کرناہوگا اور لوگوں سے روابط اور میل جول بر قرار کرنے کی کو شش کرنا ہوگی۔ لیکن اس کی یہ کوشش اور کام خداکی راہ میں انجام پانا چا ہئے۔

لیکن دوسروںکافائدہ اٹھانااس معنی میں ہے کہ انسان اپنے مال ،جسم اور فکرسے دوسروں کو فائدہ پہنچائے اور ان کی ضرورتوںکوپورا کرے ۔ حقیقت میں لوگوںکی ضرورتوںکو پورا کرنے کے لئے اقدام کر نا ثواب کاکام ہے اور یہ لوگوں سے معاشرت اور میل جول کے بغیرحاصل نہیںہو سکتا۔جولوگوں کے بوجھ کو ہلکا کرتا ہے اور ان کے مشکلات کو دور کر نے کی کو شش کرتا ہے تو اس نے ایک بڑی فضیلت حاصل کی ہے اور یہ امر گوشہ نشینی سے حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ انسان گو شہ نشینی میں صرف اپنی انفرادی عبادت جیسے نوافل،مستحبات اورشخصی کام انجام دے سکتا ہے۔

ج)۔ تر بیت کرنا اور ادب وتر بیت قبول کرنا: ادب و تربیت قبول کرنا،یعنی لوگوں کی نامناسب عادات کا علاج اور انھیں بر داشت کر نے کی کو شش کرنا اور لوگوں کے نا شائستہ اخلاق اور ان کی اذیتوں کو بر داشت کر نے کی کوشش کرنا، تاکہ اپنے نفس اور شہوانی خواہشات کو کچل سکے۔یہ امر صرف لوگوں سے معاشرت اور ان کے ساتھ نشست بر خاست سے حاصل ہو سکتا ہے ۔جو تز کیہ نفس اور اصلاح نہ کر سکا وہ حدود شر عی کی رعا یت سے اپنی شہوت کو کنٹرول نہیں کر سکتا ہے ، تو اس کے لئے لوگوں کے ساتھ تعمیری معاشرت تنہائی اور گوشہ نشینی سے بہتر ہے۔

دوسروں کی تادیب و تربیت کا معنی یہ ہے کہ انھیں نا پسند کاموں کے بارے میں ڈرا یا جائے اور روکا جائے،چونکہ معلم اپنے شاگردوں سے ایسا ہی کر تاہے ۔گوشہ نشینی اور لوگوں سے معاشرت کے نتائج کا آپس میں موازنہ نہیں کرنا چاہئے اور جاننا چاہئے کہ لوگوں سے میل جول انسان کے اخلاقی سدھار میں کس قدربہتر رول ادا کرتا ہے، اس کے بعد بہترین پہلو کواختیار کر نا چاہئے۔

د)۔ دوسروں سے رفا قت اور انس: یہ امر مجالس میں شرکت اور دوسروںسے معاشرت وانس سے حاصل ہو تاہے ۔ البتہ ایسی رفاقت ومجانست سے دوری اختیا ر کرنا چاہئے جو حرام کام میں ملوث ہونے کا سبب ہو، بلکہ انس و دوستی خداکی مرضی اور احکام شرع کے مطا بق ہو نی چاہئے۔ انسان کو میل جول کی کوشش کر نی چاہئے تا کہ لوگوں سے نشست وبر خاست اس کے کمال وعلم کے عروج کا سبب بنے ۔ نہ یہ کہ وقت کے ضائع ہو نے اور مادی و معنوی استعدادوں کو کھو دینے کا سبب بنے۔ کیو نکہ انسان کے دوست و ساتھی اس کے سعادت و کمال یا شقا وت و بدبختی حاصل کر نے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔اس لحاظ سے دوست کو منتخب کر نے میں انتہائی سنجید گی اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما تے ہیں:

''المرء علی دین خلیله فلینظر احد کم من یخا لل'' (۲)

''انسان اپنے دوست کے دین پر ہے، پس تم سے ہر ایک کو دیکھنا چاہئے کہ کس سے دوستی کر رہے ہو''

حضرت لقمان علما اور دانشمندوں سے ہم نشینی کی اہمیت کے سلسلہ میں اپنے بیٹے سے کہتے ہیں:

''یابنیّ جالس العلماء فزاحمهم برکبتیک فان القلوب تحی با لحکمة کما تحی الارض المیتة بوا بل المطر ''(۳)

میرے بیٹے: علما کی ہمنشینی اختیار کرو اور ان کے آگے زانوئے ادب تہہ کرو ، بیشک دل حکمت سے اسی طرح زندہ ہو تے ہیں ، جس طرح مردہ زمین بار ش کے قطروں سے زندہ ہوجا تی ہے۔

سعدی نے عابد و عالم کی ہم نشینی کے فرق کے بارے میں کہا ہے:

صاحب دلی بہ مدرسہ آمد ز خانقاہ

بشکست عہد صحبت اہل طریق را

گفتم میان عالم و عابد چہ فرق بود

تا اختیار کر دی ازآن این فریق را

گفت آن گلیم خویش بدر می بر دز موج

وین جہد می کند کہ بگیرد غریق را

( ایک عارف خانقاہ کو چھوڑ کر مدرسہ میں آگیا۔ تاکہ اہل طریقت کی ہم نشینی کے عہد و پیمان کو تو ڑ دے میں نے اس سے پو چھا کہ عا بد اور عالم میں کیا فرق ہے اور تم نے عبادت کو چھوڑ کر علم کے راستہ کو کیوں اپنایا؟ اس نے جواب میں کہا: عابد دریا کی لہر وں سے اپنی گلیم کو حاصل کر نے کی فکر میں ہوتاہے اور عالم ڈوبنے والے کو بچانے کی کو شش کر تا ہے۔)

ھ)۔ لو گوں سے معاشرت کا فائدہ ،ثواب حاصل کر نا اور دوسروں کو ثواب پہنچانا ہے۔ لوگوں کے مردوںکے تشییع جنازہ میں شرکت کرنے، بیماروں کی عیادت کو جانے، رشتہ داروں اور جانے پہچانے لوگوں کے گھر جانے اور ان کے غم وشادی میں شریک ہونے سے ثواب حاصل ہو تا ہے۔ کیو نکہ ان امور کو انجام دینا برادری کے مستحکم ہو نے اور مسلما نوں کے دلوں میں مسرت و شاد مانی داخل ہونے کا سبب بنتا ہے اور یہ بذات خود فراوان ثواب رکھتا ہے ۔لیکن دوسروںکو ثواب پہنچانے کا معنی یہ ہے کہ، انسان اپنے گھر کے دروازہ کو دوسروں کے لئے کھلا ر کھے تاکہ مشکلات اور مصیبتوں میں لوگ آجائیں اور اسے تسلیت و تعزیت پیش کریں اور خوشیوں ا ور نعمتوں سے بہرہ مند ہو نے پر ا سے مبارکباد پیش کریں ،کہ اس کام سے لوگ ثواب پاتے ہیں۔چنانچہ اگر ایک عالم اپنے گھر کے دروازہ کو دوسروں کے لئے کھلا رکھے ،تو یہ اس امرکا سبب بن جاتاہے کہ لوگ اس کی زیارت سے ثواب پا ئیں۔

و)۔ تواضع و انکساری:دوسروں کے ساتھ معا شرت اور میل جول سے ،انسان میں تواضع اور انکساری کی بلند عادت پیدا ہو تی ہے،اور حقیقت میں یہ ایک ایسا بلند مقام ہے جو انسان کو گو شہ نشینی اور تنہائی میں حاصل نہیں ہو تاہے ،کیو نکہ بعض او قات بذات خود تکبر گو شہ نشینی کا سبب بنتاہے ۔نقل کیاگیا ہے کہ ایک فلسفی نے حکمت کے مو ضوع پر تین سو ساٹھ مقالے لکھے تاکہ خدا کے نزدیک ایک بلند مقام حاصل کرے خدائے متعال نے اس زمانے کے پیغمبر کو و حی کی کہ اس فلسفی سے کہو: تم نے زمین کو نفاق و پر یشانی سے بھر دیا ہے، میں تمھاری پر یشانی پھیلا نے والے کاموں کو پسند نہیں کر تا ہوں ۔ اس کے بعد اس حکیم نے گوشہ نشینی اختیا ر کی اور لوگوں سے دور ہو گیا اور کہا:شایداب خدائے متعال مجھ سے خوش ہوگیاہے۔

خدا وندمتعال نے اپنے پیغمبروں کو وحی کی کہ اس سے کہہ دو :میں تجھ سے خو ش نہیں ہو ںگا مگر یہ کہ تم لوگوں کے ساتھ معاشر ت رکھو اور انکی آزارو اذیت کو بر داشت کرو۔ اسکے بعد وہ حکیم لوگوںسے جا ملا اور کوچہ بازار میں ان کے ساتھ معاشرت اور میل جول کر نے لگا ، ان کے ساتھ نشست بر خاست کرتا تھا ،یہاں تک خدائے متعال نے وحی بھیجی: میں تم سے خوش اور راضی ہوا۔

ز)۔کسب تجارت:لوگوں کے ساتھ معاشرت، ہم نشینی اور ہمراہی سے تجر بے حاصل ہوتے ہیں ، چونکہ انسان لوگوںکے حالات ، افکار اور اعمال کے بارے میں آگاہ ہو تاہے ۔ ان کی زندگی میں موجود ہ کردار اور اتار چڑھائوسے آگاہ ہونے کے بعد ،صحیح زندگی گزارنے کے لئے توشہ راہ مہیا کرتے ہیں۔یقینا دینی اور دنیوی مصلحتوں کو سمجھنے کے لئے صرف فطری عقل کافی نہیںہے اور تجربہ اس کی مدد کر تاہے اسکے مقابلہ میں جو تجربہ سے استفادہ نہ کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر تاہے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

مذکورہ بیانات کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ نہ مکمل طور پر تنہائی اور گو شہ نشینی سے انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ لوگوں سے معاشرت اور میل جول کو مکمل طور پرمطلوب سمجھا جا سکتا ہے، بلکہ ہر فرد کے حالات وجذ بات اور اس کے ہم نشین کے حالات و جذ بات اور ان کی دوستی و معاشرت کے محرک کے پیش نظر حکم فرق کر تاہے ۔مختصر یہ کہ لوگوں سے دوری اختیار کرنا ، عدا وت و دشمنی کا سبب بن جاتاہے اور ان سے میل جول میں افراط،بد کر داری کا سبب بن جاتاہے، لہذا انسان کو ہر حالت میں گو شہ نشینی اور لوگوں سے معاشرت کے درمیان اعتدال کی رعایت کی جانی چاہئے۔

الفت و برادری ، خداکی ایک مہر بانی:

بیشک خدائے متعال نے ، کوہ و بیابان ،جنگل و در یاسے لے کر انسان و حیوانا ت تک جو کچھ خلق کیاہے،ان سب کو نعمت قرار دیا ہے ۔اہل فن کی تعبیر میں ، یہ عالم ایک ہم آہنگ نظام کا حامل ہے جس کے اجزا ایک دوسرے سے مر تبط اور ہم آہنگ ہیں، حقیقت میں عالم پر ایک بہتر ین نظام حاکم ہے اور ہر چیز اپنی جگہ پر قرار پائی ہے اور تمام مخلو قات ،آپس میں منظم ربط کے پیش نظر ایک دوسرے کو بہرہ مند کر تے ہیں ۔ اس اصول کے مطا بق ،خدا ئے متعال نے انسانوں کی زندگی کے لئے جو مقصد مد نظر رکھا ہے ،جسے انسانی کمال سے تعبیر کیا گیا ہے ، لوگوں کو اس مقصد کو حاصل کر نے کے لئے ایک دوسرے کے لئے مفید واقع ہونا چاہئے اور ایک دوسرے سے استفادہ کر نا چاہئے دوسری طرف سے اگر چہ خدائے متعال نے بنیا دی طور پر انسان کو ایک دوسرے کے لئے نعمت قرار دیا ہے کہ بہترین نظام کے راستے میں کمال کی طر ف قدم بڑھائیں، لیکن چونکہ انسان صاحب اختیار ہے ،اس لئے وہ خداکی نعمتوں کو شقاوت اور بد بختیوں میں تبدیل کر سکتاہے ،جیسا کہ خدا ئے متعال فر ما تا ہے:

( الم تر الی الّذین بد لوا نعمة اللّٰه کفراً واحلّوا قو مهم دار البوار ) (ابراہیم٢٨)

'' کیا تم نے ان لوگوںکو نہیںدیکھا ،جنھوں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت سے تبدیل کردیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیا''

مذکو رہ مطالب کے پیش نظر ، انسان خود کو دوسروں کے لئے نعمت بھی قرار دے سکتا ہے تاکہ دوسرے اس سے استفادہ کر سکیں ، اور انکے لئے مشکلات اور بد بختی کا سبب بن سکتا ہے۔اخوت و، برادری اور معاشرتی زندگی خدائے متعال کی ایسی عظیم نعمتیں ہیں کہ خدائے متعال نے ان پر خاص نظر عنایت کی ہے،یہاں تک کہ فر ما تاہے:

(...( واذ کروانعمة اللّٰه علیکم اذ کنتم اعداء فالّف بین قلو بکم فا صبحتم بنعمته اخوا نا ) ...) (آل عمران١٠٣)

''... اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمھا رے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے ''

پس لوگوں کے درمیان الفت اور برادری کا رابطہ ایک نعمت الہی ہے، اس کی قدر کرنی چاہئے اور مزید اس الفت کو مستحکم کر نے کے لئے کو شش کر نی چاہئے ۔ ایک مسلمان کو ہر حا لت میں اپنے مسلمان بھائی کا یار و غمخوار ہو ناچاہئے نہ یہ کہ اس کے لئے ر نجید گی کا سبب بنے اور اس پر ظلم کرے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں،

''المسلم اخوا لمسلم هو عینه و مر آته و دلیله لا یخو نه ولا یظلمه و لا یکذ به ولایغتابه'' (۴)

'' مسلمان،مسلمان کابھائی، اس کی آنکھ ، آئینہ اور اس کا رہنما ہے وہ اس کے ساتھ خیانت نہیں کر تاہے اوراس پر ظلم نہیں کر تاہے اور اس سے جھو ٹ نہیں بولتاہے اور اس کی غیبت نہیں کر تاہے''

لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ سب انسانوں کے ساتھ معاشرت اور ہم نشینی مفید ہے اور اس کے بر عکس یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ تمام انسانوں کے ساتھ معاشرت بالکل مضر ہے اور انسان کوکسی سے میل جول نہیں رکھنا چاہئے، بلکہ ایک معیار مد نظر رکھنا چاہئے،جس کے پیش نظر مطلوب اور تعمیری معاشرتوں کو نا مطلوب اور مضر معاشرتوں سے جداکر کے پہنچاننا چاہئے۔انسان کو جانناچاہئے کہ کیسے افراد سے معاشرت اس کو الہی اور معنوی مقاصد تک پہنچنے میں مدد کر سکتی ہے ،اسے اپنی معنوی اورروحی تکامل و ترقی کے لئے اور فرائض کو انجام دینے کے لئے کن افرادسے معاشرت کر نی چاہئے ،یا کن افراد سے معاشرت کر ے تاکہ ان پر تعمیری اثر ڈال سکے ،کیو نکہ دوسروں پر تعمیری اثر ڈالنابھی انسان کے لئے تکامل و ترقی کا سبب بنتا ہے۔ اگر انسان دوسروںکی خدمت کرنا ا پنا فرض قرار دے خواہ خد مت مادی ہو یا معنوی البتہ معنوی مدد کی قدر وقیمت زیادہ ہے اور فرائض کو انجام دینے کیلئے دوسروںکی ہدایت اورانھیں خیر و سعادت کی طرف رہنمائی کرے تووہ خود تکامل و ترقی پاتا ہے کیو نکہ فریضہ انجام دے کر اس نے خداکی عبادت کی ہے جس کے نتیجہ میں وہ پر خود کامل تر ہواہے ۔

حقیقت میں اس دنیا میں ہم دوسروںکی جو بھی خدمت انجا م دیں،اگر وہ صحیح نیت اور شرعی صورت میں ہو،تو وہ خدمت در اصل خود ہما ری طرف پلٹتی ہے، یعنی ہم نے خدائے متعال کی عبادت کی ہے اور اس کا ثواب ہما ریطرف پلٹتاہے۔پس اگر معاشرت و ہمنشینی سبب ہو کہ انسان دوسروں کے ساتھ نیکی کرے یا دوسروںسے معنوی خیرحاصل کرے اور ان سے معاشرت کر کے ہدف ومقصد کی طرف اچھی طرح متوجہ ہو تو ،اس کے علم اور قلبی توجہات میں اضافہ ہو گا اور وہ اپنی زند گی کے لئے بہتر راستہ کاانتخاب کرے گا تو یقینایہ معاشرت اس کے لئے گراں قیمت ہے۔

اس کے مقابل میں ،ایسے افراد سے معاشرت کرنا مطلوب نہیں ہے جو نہ صرف انسان کو خدا کی یاد نہیں دلا تے بلکہ اس سے غافل کر تے ہیں اور اپنی گفتاراور عمل سے انحطاط وانحراف کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔اس لحاظ سے ہر انسان کواپنا دوست قرارنہیں دینا چاہئے ۔دوستی اور رفاقت کے لئے دوست کی بلنداور قابل قدر خصلتیں معیار ہیں ،البتہ رفیق اور دوست میں پائی جانے والی عمدہ ممتاز خصلتیں دوسروں کے ساتھ ہم نشینی و مصا حبت سے ان کی طرف مفید اور اچھے پیغامات پہنچتے ہیں۔اگر چہ بعض اوقات دوستی اور رفاقتوںسے دینوی فوائد، جیسے مال اورمقام سے استفادہ مدنظر ہو تاہے ،لیکن اہم ترین فوائد ، دینی فوائد ہیں،جیسے ہم نشین کے علم و عمل سے استفادہ کر نا کسی کی طرف سے خدا کی عبادت و بندگی میں رکاوٹ ڈالنے کی غرض سے ایجاد کئے گئے آزار اور مزاحمت سے محفو ظ رہنے کی سعی کرنا۔یا اس کے مال سے استفادہ کر ے تاکہ اپنے و قت اور عمرکودینوی امور میں ضائع کرنے سے محفوظ رکھے اور فرائض الہی کو بہتر صو رت میں انجام دے۔

دوست کے انتخاب کا معیار :

منا سب دوست کے انتخاب میں مشکلات اور نیک وبد دوستوں کے مثبت و منفی اثرات کے پیش نظر اسلامی منا بع و مصادر میں دوست بنانے کے معیاروں کے سلسلے میں چند باب مختص کئے گئے ہیں اور اولیائے دین نے مناسب دوست کے او صاف اور ان کی خصو صیتیںبیان کی ہیںمن جملہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پو چھا گیا کہ :بہترین ہم نشین کون ہیں؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فر مایا:

''من ذکّرتکم با اﷲ رؤ یته و زادکم فی علمکم منطقه وذکّرکم با لا خرة عمله'' (۵)

'' جس کا دیدار تمھیں خداکی یاد دلا ئے اور اس کا کلام تمھارے علم میں اضافہ کرے اوراس کا عمل تجھے قیامت کی طرف متوجہ کرے''

یاجب حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ السلام سے ان کے اصحاب سوال کر تے ہیںکہ:ہم کس کے ساتھ معاشرت کریں ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا:

''اس شخص سے ہم نشینی اختیارکرو، جس کا دیدار تجھے خدا کی یاد دلائے اوراس کا عمل تجھے آخرت کا مشتاق بنائے اور اس کا علم تمھاری عقل و منطق میں اضافہ کرے ۔مزید فرمایا: اہل دنیاسے دوری اختیارکر کے خدا کے نزدیک ہو جائو اور گناہگاروں سے دشمنی کرتے ہوئے، خداکے دوست بن جائو' '(۶) اور قرآن مجید ایک نقصان اٹھائے ہوئے فرد کی زبانی کہ جس نے راہ حق اورخدا کے پیغمبرو ں سے انحراف کر کے ، خود اور دوسروں پر ظلم کیا ہے ،خشم اور غصب الہی کی آگ میں پھنس گیا ہے اور بے انتہا پشیمانی و اندوہ کے عالم میں حسرت سے کہہ رہا تھا:

(( یاویلتٰی لیتنی لم أَتخذفلاناخلیلالقداضلنی عن الذکر بعد اذ جاء نی ) ) (ر قان٢٨و٢٩)

''ہائے افسوس :کاش میں نے فلاں شخص کو اپنادوست نہ بنایا ہو تا ۔اس کی دوستی نے مجھے پیروی قرآن اور رسول حق کی اطاعت سے محروم کر دیا اور مجھے گمراہ کر دیا۔۔۔''

اس قسم کی آیتیں،اس پر دلالت کر تی ہیں کہ انسان کے گمراہ ہو نے کے عوامل میں نا مناسب دوست اور گمراہوں کے ساتھ رفا قت ہے،اس لئے تاکید کی گئی ہے کہ مو من ناسا لم افراد اور آلودہ اجتماعات سے پر ہیز کرے ۔البتہ تمام افراد یکساں نہیں ہو تے ۔کچھ لوگ ایسے خود ساختہ اورمصمم ارادے کے مالک ہیں کہ ہر شرائط میں دوسروں سے متاثر نہیں ہو تے بلکہ ان پر ہی اثر ڈالتے ہیں ،لیکن کچھ لوگ ارادہ میں سستی اور ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ، جس سے بھی میل جول کر تے ہیں انھیں کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں اور انکے اخلاق اور رفتار سے متاثر ہو تے ہیں ۔اس لئے انسان کو ہو شیار رہنا چاہئے کہ وہ کس سے معاشرت کر تا ہے اور کون اس پر اثر ڈال رہا ہے جولوگ مضبوط اور قوی دل کے مالک ہیں ،اگرچہ دوسروںسے متاثر ہو کر ان کے رنگ میں نہیں ڈھل سکتے،پھر بھی انھیں دیکھنا چاہئے کہ کس سے بہتر استفادہ کر سکتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ وہ معاشرت میں تر جیحات کو مد نظر رکھیں۔

لہٰذا جن شرائط میں بھی ہم ایسے لوگوںاور ایسی جماعت میں ہوں کہ ان کی معاشرت ہمیں زیادہ سے زیادہ خدا اور آخرت کی یاد دلائے، ہما رے علم میں اضافہ کا باعث ہو،کا ر خیر کو انجام دینے اور دوسروں کی خد مت کر نے میں ہمارے لئے تشو یق کا سبب ہو اور ان کی مدد سے زندگی کے صحیح راستہ پر آرام سے ہم چل سکتے ہیں بڑھا سکیں ، تو یقینا ایسی معاشرت منا سب اور تعمیری ہے ، اگر ایسا نہیں ہے تو معاشرت معکوس اور نا مطلوب ہے ،لہذا مطلق طور پر نہیں کہا جا سکتاہے کہ ہر معاشرت مطلو ب ہے اور انسان کو ہر اجتماع میں داخل ہو نا چاہئے اور ہر ایک سے معاشرت کر نی چاہئے ،اس بہانہ سے کہ خوش اخلاقی اور خوش رفتاری اچھی ہے ،حقیقت میں ایسے تصور سے انسان اپنے آپ کودھوکہ دیتا ہے۔

ہر کسی کے ساتھ معاشرت انسان کے فائدے میں نہیںہے ۔ ممکن ہے انسان ابتدا میں پاک نیت سے ایک اجتماع میں داخل ہوجائے اور اس کے بعد اسے معلوم ہوجائے کہ ان کے ساتھ معاشرت اس کے نقصان میں ہے،کیو نکہ وہ غیبت کر نے والے اور جھوٹ بولنے والے ہیں، بیہودہ گفتگو کر تے ہیں اور اسے دنیا پرستی کیطر ف دعوت دیتے ہیں۔یا ان کی رفتار ایسی ہے کہ انسان کو دنیا کی طرف کھینچتی ہے اور آخرت سے غافل کر تی ہے اس حالت میں انسان کو نیکی، خوش اخلاقی اور نیک رفتاری کے بہانہ سے اس جماعت کے ساتھ میل جول نہیں کرناچاہئے،مگر یہ کہ ایسی قدرت اور ہمت رکھتاہو کہ ان پراثرانداز ہو ،اگر چہ جانتا ہے کہ انکی رفتار نا پسند ہے ،لیکن مطمئن ہے کہ نصیحت اور مو عظہ سے انکی ہدایت کر سکتاہے ۔ایسی معاشرت،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دوسروں کی راہنمائی کے طور پر،جس کو شرع مقدس میں خاص اہمیت دی گئی ہے مطلوب ہو سکتی ہے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک روایت میں فر ماتے ہیں:

''انظروا من تحادثون،فانه لیس من احد ینزل به المو ت الا مثل له اصحا به الی اللّٰه فان کانوا خیا را فخیا را و ان کانواشر ارا فشرارا'' (۷)

''دیکھو کہ کس کے ساتھ بات کر رہے ہو،کیو نکہ جب کسی کو موت آتی ہے تو خداکے حضور اس کے دوست اس کے سامنے مجسم ہو تے ہیں۔اگر وہ نیک ہیں تو وہ بھی نیک افرادکے زمرہ میں قرار پاتا ہے اگر وہ برُے ہیں تو وہ بھی بروں کے ساتھ قرار پاتاہے''

پس اگر سوال کیا جائے کہ اخلاق اسلامی کی نظر میں معاشرت اور میل جول مطلوب ہے یا گو شہ نشینی جواب میں کہا جاتا ہے:ایسا نہیںہے کہ معاشرت تمام مو اقع پر مطلوب ہے اور گوشہ نشینی اور تنہائی نا مطلوب، بلکہ اس شخص سے دوری اور گوشہ نشینی اختیار کر نا بہت بجا اور لازم ہے جو انسان کو گناہ کے انجام دینے پر اکساتا ہے اور اسے صحیح راہ سے منحرف کرتا ہے اور اس کے ایمان کو کمزورکر کے ا سے شک و شبہ میں ڈالتاہے۔اس کے مقابلہ میں ،معاشرت کو ترک کر کے گو شہ نشینی اختیا ر کر نا انسان کو اجتماعی مسائل اور خدا کی طرف سے اجتماعی زندگی کے سایہ میں قرار دی گئی نعمتوں سے محروم کر تا ہے اور اسے دوسروںکے متعلق انجام دینے والے فرائض سے رو کتا ہے ۔حقیقت میں گو شہ نشینی کا منفی اثر یہ ہے کہ بہت سے واجبات اور تکالیف کو ترک کرنے کا سبب ہے انسان اجتماعی زندگی کے سائے میں حاصل ہو نے والے علم ودانش اور کمالات سے محروم ہو جاتا ہے ۔صحیح و سالم اخلاقی طریقہ کار اور آداب اور دوسروں کی مادی اور معنوی مدد جو اس کے لئے دنیا و آخرت میں مفید ہے سے بھی محروم ہو جاتاہے ۔اگر سب لوگ گوشہ نشینی اختیا ر کریں اور دوسروںسے معاشرت نہ کریں ،تو اسلام کے اجتما عی احکام معطل اور ترک ہوجائیں گے۔ اس لئے گوشہ نشینی اور دوسروں سے معاشرت ،دونوں میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر مطلوب اور پسندیدہ ہے۔

خود بخود تنہائی میں بسر کر نا اچھا اور مطلوب نہیںہے ، مگر یہ کہ یہ کام ایک عبادت کو ریا سے بچانے کے لئے ہو اور روزانہ کی مشکلات اور لوگوں سے معاشرت اس میں رکاوٹ بنے،تواس صورت میں عبادت کو تنہائی اور رات میں انجام دینا چاہئے،کیو نکہ شب خداکی عبادت اور مناجات الہی کے لئے منا سب ہے،تاکہ انسان روز مرہ کی فعالیتوں سے فارغ ہو کر اپنے بارے میں فکر کرے اور اپنے دل کو خدا کی مناجات سے جلا بخشے۔خدا ئے متعال فرماتا ہے:

(( ا ن نا شئة الیل هی اشد و طأ واقوم قیلا ان لک فی النهار سَبَحاً طویلا ) (مزمل ٦و٧)

'' بیشک رات کااٹھنا(نماز شب کے لئے)نفس کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے۔یقینا آپکے لئے دن میں بہت سی مصروفیت ہیں''

انسان کو دن میں تسبیح ہاتھ میں لئے ہوئے ایک گو شے میں بیٹھ کر ذکر میں مشغول نہیں ہو نا چاہئے بلکہ اسے لوگوں کے اجتماعات میں داخل ہو ناچاہئے اور ان کے ساتھ فرائض انجام دینا چاہئے لوگوں کے اجتماعات میں شر کت کئے بغیر اور لوگوں سے میل جول رکھے بغیر صرف ایک کمرے یا مسجد میں بیٹھ کر تعلیم و تعلم اور وعظ و نصیحت کا فریضہ انجام نہیں دیا جا سکتاہے اور نہ محتاجوں اور فقرا کی مدد کی جاسکتی ہے اور نہ خیر کی دعوت د ی جاسکتی ہے اور نہ انسان دیگر ایسے اجتماعی فرائض کو انجام دے سکتا ہے کہ جو اس پر نجام دینا ضروری ہیں۔ انسان کے سیا سی پہلوئوں میں فرائض کوانجام دینے کی بات ہی نہیں جو اس سے ملکی اور بین الا قوامی سطح پردوسرے ممالک میں زندگی گزا رنے والے دنیا کے مسلمانوںکی مدد کے طور پرانجام دینے چاہئے۔دوسری طرف سے انسان کو یہ تصور نہیں کر نا چاہئے کہ چو نکہ یہ بر کتیںاور نیکیاں اجتماع میں پائی جاتی ہیں،لہذا ہر اجتماع اورہرایک سے ہر حالت میں معاشرت مطلوب ہے،یہ بذات خود انسان کی لغزش اور انحراف کا سبب بن جا تا ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بیان ہوا انسان کو الہی مصلحتوں اور معاشرت کے شر عی پہلوئوں کی رعا یت کی کوشش کر نی چاہئے، تاکہ اپنے اصلی مقصد یعنی سعا دت تک پہنچنے سے پیچھے نہ رہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام صالح نامی اپنے ایک صحا بی سے فر ما تے ہیں:

''اتبع من یبکیک وهولک ناصح ولا تتبع من یضحکک وهولک غاشّ وستردون علی اللّٰه جمیعا فتعلمون'' (۸)

''اس کی پیر وی کرو جو تجھے رلائے اور تیری نصحت کرے ،اور اس کی پیروی نہ کرو جو تجھے ہنسائے اور دھوکہ د ے تم جلدی ہی خداکے پاس پہنچ جائو گے اور اپنے کردار سے آگاہ ہو جائو گے۔''

غا فلوں کے اجتماع میں ذکر خداکی عظمت:

اگر انسان ناخواستہ طور پر غافلوں کے اجتماع میں پھنس جائے،جو نہ خدا کا پاس ولحاظ رکھتے ہیںاورنہ قیامت کا ،تواس سے کیا کر نا چاہئے تاکہ وہ گناہ میں آلودہ نہ ہو ۔اگر وہ اس اجتماع سے باہر نکلنا چاہے تو وہ مناسب رد عمل نہیں دکھائیں گے بلکہ ممکن ہے وہ تصور کریں کہ شخص اپنے آپ کو دوسروں سے منزہ اوربر تر جانتا ہے ۔اسلامی آداب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان نہ دل میں اپنے کو دوسروں سے بر تر تصور کرے اور نہ اس کا عمل ایسا ہو نا چاہئے جس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،جناب ابو ذر کو اپنی ایک نصیحت میں جس پراس سے پہلے بحث ہوئی فرما تے ہیں:

انسان تب تک مکمل فقہ تک نہیں پہنچتا،جب تک لوگوںکو خدا کی عظمت کے سامنے درک و فہم سے فاقد اونٹوں کے مانند نہ دیکھے ، اس کے بعد اپنے آپ پر نظر ڈال کر خودکو ان سے پست نہ سمجھے۔

حتی انسان اپنے آپ کو ایک فاسق سے بھی برترنہ جانے ،ممکن ہے وہ فاسق تو بہ کر چکا ہو گا اور اس کے گناہ بخش دئے گئے ہوں ،جبکہ وہ مومن اپنی عبادت پر ناز کرتے ہوئے غرور و تکبر میں مبتلا ہوگیا ہو جو اس کی ہلاکت کا سبب ہو،لہذا بعض او قا ت ایسے شرائط پیش آ تے ہیںکہ انسان اپنے آپ کو ایک جما عت سے جدا نہ کرے تاکہ وہ منفی رد عمل نہ دکھا ئیں اور اس پر بد گمانی نہ کریں۔اس کے علاوہ بعض او قات امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک سماج اور معاشرے کے اندر انجام دینا چاہئے جو گناہ اور معصیت میں مشغول ہوں ،تاکہ ان کو گناہ سے ڈرائے،ان کے در میان رہنا نہی از منکر کے لئے ایک و سیلہ ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیںہے ،یعنی ممکن ہے ایک جماعت اہل خیرو نیک راستہ پر نہیں ہے اور غافل ہے اور بیہودہ باتیں کر تی ہے لیکن کسی معصیت و حرام کی مر تکب نہیں ہو تی ہے کہ اسے ڈرانا واجب ہو ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسی جما عت کے بارے میں فرماتے ہیں:

''یا ابا ذر'الذاکر فی الغافلین کا لمقاتل فی الفارّین''

اے ابو ذر:جو غافلوں کے در میان خدا کو یاد کرے ،اس کی مثال اس شخص کے مانند ہے جو جنگ سے فرار کرنے والوں میں جہاد کو جاری رکھے۔

جبکہ غافلوں کے اجتماع میں مو جود انسان ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر تا ہے ، وہ کوشش کر تا ہے کہ اپنے دل میں خدا کی یاد کو تقو یت بخشے تاکہ وہ اس شخص کے جیسا ہو کہ جب دوسرے میدان جنگ سے فرار کر تے ہیں تو وہ تن تنہا دشمن کے مقا بلہ میں مبا رزہ کر تا ہے اس سے پہلے ذکر کیا گیا کہ خدا ئے متعال ایسے شخص کے بارے میں اپنے فرشتوں پر فخر و مباہا ت کرتا ہے جو دوسروں کے جنگ سے بھاگنے کے باو جود تن تنہا جہاد کو جاری رکھتا ہے ۔اسی طر ح خدائے متعال اس شخص پر بھی فخر کرتا ہے جوایک ایسے معاشرے میں ہو جو خدا سے غافل ہیںاور دنیا کے پست امور کی طرف توجہ کرتے ہیں اور ایسے کام انجام دیتے ہیں جو خداپسند نہیںکرتا لیکن وہ مو من اپنے دل میں خدائے متعال کی طرف توجہ رکھتاہے ، تو خدائے متعال اس پر فخر ومبا ہات کرتاہے۔

گفتگو کرنے کے بارے میں انسان کی ذمہ داری:

اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ما تے ہیں:

''یا اباذر!الجلیس الصالح خیرمن الوحدةوالوحدة خیرمن جلیس السوء و املاء الخیر خیر من السکوت و السکوت خیر من املاء الشر''

'' اے ابو ذر !:نیک انسان سے ہم نشینی تنہائی سے بہتر ہے اور تنہائی برے کی ہم نشینی سے بہتر ہے اور نیک گفتگو خامو شی سے بہتر ہے اور خاموشی بُرے کلام سے بہتر ہے''

فطری بات ہے کہ جب انسان دوسروںسے میل جول رکھتاہے تو گفتگو کرنے کے امکا نات فراہم ہو تے ہیں،کیا اس حالت میں بات کرنا بہتر ہے یا خامو شی؟ چنانچہ ہم نے معاشرت اور گوشہ نشینی کے اصولوں کی بحث میں کہا کہ اس کے معیار متفا وت ہیں کبھی معاشرت مطلو ب ہے تو کبھی گو شہ نشینی۔اسی طرح بات کرنے اور خاموشی اختیا ر کرنے کے بارے میں بھی کوئی ثابت اور معین معیار نہیں ہے ،دیکھنا چاہئے کہ بات کس غرض سے کہی جاتی ہے ۔ بات کرنا اس وقت مطلوب اور اچھا ہے کہ خدا کیلئے اور دوسروں کے فائدے کے لئے کہی جائے اورخدا کی توجہ اور احکام و مسائل الہی بیان کرنے کی غرض سے ہو

بہر صورت نیک بات،وہ ہے جو ہدایت اور دوسروں کو مطلوب کمال کی طرف رجحان پیدا کرنے کی غرض سے کی جائے،خواہ وہ بات معنوی او راخروی تکامل و ترقی سے براہ راست مربوط ہو یا تکامل معنوی اور سعادت اخروی کے لئے ایک مقد مہ ہو ،اگر چہ دنیوی امور سے ہی مر بوط ہو۔ بات کرنے والے کا مقصد یہ ہے کہ مخاطب کو مادی وسائل کے ذریعہ آگاہ کر کے کمال و ترقی تک پہنچنے کے راستہ کو ہموارکرے،کیو نکہ انسانیت اور کمال کے راستہ میں مادی وسائل سے استفادہ کرنا ناگزیر ہے ۔لیکن جب اپنی بات سے انسان نہ خود استفادہ کر سکتاہو اور نہ دوسرے تو اس حالت میں خاموشی بہتر ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ روایتوں میں (املائ))کی تعبیر استعمال ہوئی ہے نہ((تکلم)) یعنی بات کرنا ۔ اس تعبیر میں ایک عنایت ہے: عربی اور فارسی میں ((املائ)) اس معنی میں ہے کہ کوئی کسی چیز کو کہے اور دوسرااسے لکھے.ہر بات جو انسان بولتاہے وہ املاء نہیں ہے ،کیونکہ وہ ہمیشہ اس لئے نہیں بولتا ہے کہ دوسرے اسے لکھیں، پس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیوں نہیں یہ فرمایا: خیر کے متعلق گفتگو خاموشی سے بہتر ہے اورخاموشی بُری بات سے بہترہے؟''املائ''کی تعبیر استعمال کرنے کے لئے دو نکتے بیان کئے جاسکتے ہیں:

پہلا نکتہ: جب انسان بات کرتاہے ، تو اس کی بات سننے والے کے ذہن میں محفوظ ہوجا تی ہے اور اسکے ذہن کے حافظہ میں واقع ہوتی ہے .پس دیکھنا چاہئے کہ کونسی بات سننے والے کے ذہن میں محفوظ ہوتی ہے اور اسکے ذہن پر کو نسا اثرڈالتی ہے،اس کاخیال رکھنا چاہئے کہ بات کرنا صرف یہ نہیں کہ منہ سے کوئی آواز نکلے ، بلکہاس بات کا کوئی نہ کوئی اثر ہوتا ہے،گویا جب انسان بات کرتاہے تو دوسرے ا سے لکھتے ہیں۔پس انسان کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ وہ دوسروں کی روح پر کونسا اثر ڈالتاہے اور سننے والے کے ذہن اوردل کی تختی پر کونسی چیزنقش ہوتی ہے ، اگر وہ بات نیک ہے تواس کا بولنا مناسب ہے اور وہ اپنا اچھا اثرڈالتی ہے،لیکن اگر بات نیک نہیںہے ،تو کیوں انسان اس امر کا سبب بنے کہ نا مناسب بات کااثر دوسروں کے ذہن میں باقی رہے؟

دوسرا نکتہ: جو کچھ انسان کہتاہے ،اس کے لکھنے کے لئے دوفرشتے مامور ہیں،اس لحاظ سے انسان کی بات ((املائ)) کہی جاتی ہے،جیسے خدائے متعال فر ما تا ہے:

( ما یلفظ من قول الا لدیه رقیب عتید ) (ق١٨)

اور کوئی بات منہ سے نہیں نکلتی ہے مگر یہ کہ ایک نگہبان اس کے پاس موجود رہتا ہے۔

ایک اور جگہ پر خدائے متعال فرماتاہے :

( وان علیکم لحا فظین، کرا ما کا تبین یعلمون ما تفعلون ) (انفطار١٠۔١٢)

'' اور یقینا تمہارے سروں پر نگہبان مقرر ہیں .جو با عز ت لکھنے والے ہیں .وہ تمہارے اعمال کو خوب جانتے ہیں''

مو من کے ساتھ کھانا کھانے کے محاسن اور فاسق کے ساتھ کھانا کھانے سے پر ہیز:

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

'' یا اباذر ؛لا تصاحب الا مؤ منا ولا یاکل طعامک الا تقی ولا تا کل طعام الفاسقین''

''اے ابو ذر!با ایمان افراد کے علاوہ کسی سے ہم نشینی نہ کرو ،تمھارا کھانا پرہیز گار کے علاوہ کوئی نہ کھائے اور تم بھی فاسق لوگوں کا کھانا نہ کھائو''

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روایت کے اس حصہ میں سب سے پہلے معاشرت کے مسئلہ کو پیش کیاہے اور اس کے بعد اس سے مربوط بعض مسائل کی طرف اشارہ فرمایا ہے، ان مسائل اور معاشرت کے آثار میں آپس کی گفتگو تھی ،اب دوسروں کے ساتھ غذاکھانے کے مسئلہ کو بیان فرماتے ہیں۔کیو نکہ دوسروں سے معاشرت کے نتیجہ میں بعض او قات انسان مجبور ہوتاہے تاکہ اپنے ہم نشینوں کے ساتھ کھاناکھائے۔آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں کہ مو من کے علاوہ کسی کی ہمنشینی اختیار نہ کرو اور ہر ایک کا کھانا نہ کھائو اور ہر کسی کو اپنا مہمان نہ بنا ئو اور صرف مو من کے ساتھ کھانا کھائو ۔

فاسق کی غذا کھانے کا پہلا نتیجہ اس کا احسان مند ہونا ہے اورجب انسان فاسق کا مہمان ہوتا ہے اور اس کا کھانا کھاتا ہے تو وہ فاسق بھی اس سے توقع رکھتاہے اگر وہ غیر شرعی چیز کی درخواست کرے اور توقع و امید رکھے کہ فلاں حکم پر دستخط کرے،فلاں ناحق اور غیرشرعی سفارش کو انجام دے اور بعض اوقات انسان اس کی خواہشات کو پورا کرنے پر مجبور ہوجا تاہے اس کے بر خلاف اگر انسان فاسقو ں کے ساتھ معاشرت نہ کرے اور ان کاکھا نا نہ کھائے تو ان کا احسان مند نہیں ہوگا اوروہ اس سے کوئی امید بھی نہیں رکھے گا ۔اگر اس سے کسی نا حق چیز کی درخواست بھی کرے تو وہ پوری جرأت کے ساتھ اس سے مستردکردے گا،کیونکہ اس درخواست کو منظور کرنا وہ اپنے فرائض کے حدود میں نہیں جانتا ہے ۔دوسری طرف سے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ فاسق کی غذ ا حلال ہے کیوں کہ ،وہ تو اسلام کے احکام کا پا بند نہیں ہے،معلوم نہیںہے اس نے مال کہاں سے حاصل کیا ہے،معلوم نہیں وہ اپنے مال میں خمس وزکو١ة کا پابندہے کہ نہیں یہ بھی معلوم نہیںہے کہ اس نے یہ مال رشوت کے ذریعہ حاصل کیاہے یا کسی اور ذرائع سے۔انسان مومن پر تواعتمادکر سکتاہے کہ ا س سے اپنے مال کو حلال راہ سے حاصل کیا ہو گا ،لیکن فاسق پراعتمادنہیں کیا جاسکتاہے،ممکن ہے انسان اسکی غذا کھائے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس کا مال حلال نہیں تھا۔

مذکورہ مطا لب کے علاوہ بعض روایتوںسے یہ بھی استفادہ کیاجاسکتاہے کہ مشکوک غذا انسان کی روح پر اثر کرتی ہے اور اس کا طبیعی اثر ہو تاہے ،اگر انسان بے خبری میں بھی مشکوک غذا کو کھائے تو اس غذا کے طبعی اثرات مرتب ہوں گے اس سلسلہ میں بعض بزرگوں سے عجیب و غریب داستانیں نقل ہوئی ہیں:ایک بزرگ سے نقل ہے کہ انھوں نے اپنے بیوی سے کہا تھا :میں احساس کر رہاہوں کہ مردار حیوان کا گوشت کھا رہاہوں! ان کی بیوی تعجب کر تی تھی کہ اسکا شو ہر یہ کیا باتیں کررہاہے لیکن تحقیق کے بعدمعلوم ہوا کہ پانی کے مخصوص بر تن میں ایک جانور( گزشتہ زمانے میں نجف اشرف میں پانی رکھنے کا ایک مخصوص ظرف ہوتا تھا)پڑا تھا اور وہ اسی نجس پانی کو پیتے تھے! اور وہ بزرگ عالم اس نجس پانی کے طبیعی اثرکو محسوس کر رہے تھے۔

بعض بزرگوںکے حالات میں پا یا جاتا تھا کہ وہ ہر ایک کی دعوت کو قبول نہیں کر تے تھے اور ہر جگہ نہیں جا تے تھے ا ور ہر غذا کو نہیں کھا تے تھے۔کر بلا ئی کاظم نامی ایک شخص کی ایک معروف داستان ہے کہ وہ خداکی خاص عنایت سے معجزانہ طور پر حا فظ قر آن ہوئے تھے ۔ طلبگی کے ابتدائی دنو ں میں جب ہم مدرسۂ حجتیہ میں سکو نت پذیر تھے ، وہ ہمارے مدرسے میں آ ئے تھے اور طلا ب ان سے امتحان لیتے تھے کہ واقعا وہ حافظ قرآن مجید ہیں یانہیں. وہ ایک عجیب قسم کے حافظ تھے، یہا ں تک قرآن مجیدکی آیات کو بر عکس آخر سے اول تک پڑ ھتے تھے اور قرآن مجیدکے نقطوں کی تعدادکو بھی جانتے تھے .۔ وہ ہرایک کے گھر نہیں جاتے تھے۔بعض لوگوں کی دعوت کو قبول کرتے تھے اور بعض کی دعوت کو قبول نہیں کر تے تھے ۔انھوں نے کہا تھا:جب بعض دعوتوںپر جاتا ہوں،اس کے بعد دل میں کدورت اور تاریکی کا احساس کر تا ہوں اوراس دعوت سے پہلے جن انوار کو دیکھتا تھا، اب انھیں نہیں دیکھتا ہوں(یقینا یہ مذ کو رہ باتیںہمارا ادراک ہے ، لیکن یہ حقیقت ہے)

مر حوم آیت اللہ حاج آقا مرتضی حائری رضوان اللہ تعالے علیہ نے نقل کیاہے: میں نے کتاب جواہر کربلائی کا ظم کے سامنے رکھی ، چو نکہ وہ ان پڑھ تھے اس لئے نہیں پڑھ سکتے تھے اور ''الف'' کو''ب'' سے تشخیص نہیں دے سکتے تھے ، لیکن قرآن مجید کی آیتوںپرانگلی رکھ کر کہتے تھے: یہ قرآن مجید کی آیت ہے! آقاحائری نے ان سے کہا تھا: تم تو ان پڑھ ہو،قرآن مجید کی آیت کو کیسے تشخیص دیتے ہو؟ اس نے کہا: یہ آیتیں نو رانی ہیں اور میں انھیں نور سے تشخیص دیتا ہوںکہ یہ قرآن مجید کی آیتیں ہیں! جی ہاں ایسی حقیقتیں مو جود ہیں ،چونکہ ہم درک نہیں کرتے ہیں،ہمیں انکار نہیں کرنا چاہئے۔

ہمیں کو شش کرنی چاہئے کہ ایسے لوگوںسے معا شرت کریں،ایسے لوگوںکے ہمراہ کھاناکھائیں ،ایسے لوگوں کے مال سے استفادہ کریں اور ایسے افراد کا تحفہ قبول کریں جو اہل ایمان و تقوی ہو ں۔ اسی طرح جب خدائے متعال کسی کو کوئی مال عطا کرے،تو اسے کوشش کرنی چاہئے کہ اس نعمت سے بنحو احسن استفادہ کرے۔ اگر اس مال سے کھانا تیار کرے تو ایسے افراد کو کھلائیجو با ایمان و با تقوی ہوں تاکہ اس کا عمل خداکے نزدیک پسندیدہ قرار پائے اس کے علاوہ اس کی دعوت اور اسکا کھانا کھلا نا ان دونوںکے درمیان رابطۂ الہی کے بر قرار ہونے کا سبب ہو نہ یہ کہ وہ دعوت پست مادی ہوس رانیوں کے لئے ہو:

'' یا اباذر: اطعم طعامک من تحبه فی اللّٰه و کل طعام من یحبک فی اللّٰه عزو جل ''

'' اے ابو ذر!اپنی غذا اس کو کھلا ئو کہ جسے خد ا کی راہ میں دوست رکھتے ہو تم بھی اس کا کھا نا کھائو جو تجھے خدا کی راہ میں دوست رکھتا ہے''

انسان کو اپنی غذا اس کو دینی چاہئے اور اسکی غذا کھانی چاہئے جس کے ساتھ دوستی اورمودت کا رابطہ بر قرار ہو اور وہ دوستی الہی اصولوں پر مبنی ہو۔جب کوئی کسی انسان کو غذا دیتاہے،معلوم ہے کہ وہ اسے دوست رکھتاہے،لیکن دیکھناچاہئے کہ اسے خدا کے لئے دوست رکھتا ہے یا دوسرے مقاصد کے لئے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاکید فر ماتے ہیں کہ دعوت پر جانا اور دعوت کرنا خدا کے لئے ہو تا کہ خدا کی نعمتوں سے پورا پورا استفادہ کیا جاسکے اور خدا کے مومن بندوں کے در میان الہی رابطہ مستحکم ہو ۔ کیو نکہ ایک دوسرے کو کھانا کھلانے سے مومن بندوں کے در میان محبت مستحکم اور پائیدار ہو تی ہے اور الہی محبت سے مومن بندے نشوو نما پاتے ہیں ،اس کے مقابلہ میں اگر محبت غیر الہی اور شیطانی ہو تو اس کا اثر انسان کے لئے انحطاط و پستی کا سبب ہے۔

احکام ظاہری حلال و حرام کی سفارش کے علاوہ ۔۔جو ضروری فقہی احکام ہیں۔ او لیائے الہی بعض دوسرے سنجیدہ اور ظریف مسائل کی ر عایت کرنے کی بھی تاکید کر تے تھے ۔کیونکہ صرف واجبات انجام دینا اور محر مات کو ترک کرنا انسان کے تکا مل و ترقی اور نشوونما کے لئے کافی نہیںہے اور ان فرائض کو انجام دینا جو ابھی ابتدائی قدم ہے (کہ البتہ ہم میں سے بہت سے لوگ اسی ابتدائی مر حلہ میں رک گئے ہیں) مو من کی ہمت بلند ہونی چاہئے اور وہ یہ خیال نہ کرے کہ واجبات ومحرمات الہی کی رعا یت سے انتہائی مقصد تک پہنچ سکتاہے ،بلکہ ا سے جاننا چاہئے کہ دوسراقدم آدا ب شرعی اور مستحبات کی رعایت کرنا ہے، ان میں سے بعض من جملہ آداب معاشرت، آداب گفتگو ،کھانا کھانااور حسن اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔دوسرے مستحبات کی رعایت اور مشکوک چیزوں سے پرہیز نیز دوسرے شرعی آداب وغیرہ۔

اس مرحلہ کو طے کرنے اور دوسرا قدم اٹھانے کے بعد ،بھی انسان کو تکامل وترقی تک پہنچنے کے لئے ایک طولانی راستہ طے کرناہے ۔اسے اپنی قلبی رجحانات کی تحقیق کرنی چاہئے اور دیکھ لے کہ اس کا دل کس چیز کی طرف مائل ہے۔ اس کے رفتاری مقاصد کیا ہیں ؟ حتی اگر وہ ایک نیک یا مستحب کام انجام دیتا ہے ،اسے بھی دیکھ لے کہ کیا غرض رکھتا ہے ۔بالآخر دل اور نفس کی تحقیق اور جانچ کرنا انسان کے تکامل و ترقی کے مراحل میں سے ہے،ہم جو ابھی اپنے ظاہری اعمال کی تصحیح وتطہیر نہیں کر چکے ہیں ،ابھی اس مر حلہ تک نہیں پہنچے ہیں ۔ اس کاانتہائی اور آخری مرحلہ یہ ہے کہ او لیائے الہی کو شش کرتے ہیں کہ ان کی توجہ صرف خدائے متعال پر متمرکز ہو ، ان کے دل خدا کی محبت کے مظہر بن جائیں ،ان کی امیدیں صرف خدا سے ہو ،اوراسی سے ڈریں نہ غیر خدا سے.وہ ایسی زندگی گزاریں کہ گویا اس دنیا میں خدا کے علاوہ کسی سے سروکار نہیں رکھتے ہیں جبکہ اسی حالت میں سب کے ساتھ معاشرت کرتے ہیں اور دوسروںسے گفتگو کرتے ہیں اور اجتماعی زندگی بسر کرتے ہیں ،انکے دل خداسے اس طرح لو لگائے ہیں کہ گو یا خداکے سوا کسی سے کوئی سر وکار نہیں رکھتے ہیں۔

حدیث معراج میں ، جواراور قرب الہی میں پہنچے ہوئے مو من کی روح کی زبانی خدائے متعال فرماتاہے:

''ثم یقال لها :کیف ترکت الدنیا ؟فتقول:الهی وعزتک وجلالک لا علم لی بالدنیا انا منذ خلقتنی خائفه منک'' (۹)

اس مومن کی روح سے کہاجاتا ہے ،تم نے کیسے دنیا کو ترک کیا ؟ وہ جواب میں کہتی ہے: خداوندا!تیری عزت وجلال کی قسم کہ میں دنیا کے بارے میں علم و آگاہی نہیں رکھتی ہوں جس دن تونے مجھے پیداکیا اس دن سے تیرے مقام سے خائف ہوں۔

وہ مومن دنیا کی کوئی خبرنہیں رکھتاہے ، کیونکہ اس کی توجہ صرف خداکی طرف ہے اور جو امور خداسے مربوط نہ ہوں وہ ان سے بے خبر ہے۔ دنیا کے گوشہ وکنار میں خدائے متعال ایسے بندے رکھتاہے ۔اگر ہم بھی ہمت کریں ،اپنے ارادہ کو مستحکم کریں، اپنے نفس کی اصلاح کریں اوراپنے آپ کو طاہر قرار دیں ، تو ہم بھی اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے انجام دیئے گئے کاموں پر مغرور نہیں ہونا چاہئے اور ظاہر کو نہیں دیکھنا چاہئے کوشش کرنا چاہئے اپنی روح اور دل پر نگاہ رکھیں۔

____________________

١۔ بحارالانوار :ج ٤٢ ، ص ٢٤٧

۲ ۔بحا ر الا نوار،ج٧٤ ص١٩٤

۳۔بحار الانوار ، ج١ص٢٠٤

۴۔اصول کا فی،ج٢ص١٦٦

۵۔بحارالانوار،ج٧١،ص١١٨٦

۶۔بحار الانور ج٧١ ص١٨٩ح١٨

۷ ۔ اصول کافی،ج٤ص٤٥

۸۔اصول کافی، ج٤ ص٤٥١

۹۔ بحارلانوار،ج٧٧ ،ص٢٧