اکتیسواں درس:
زبان،وسیلہ ہدایت یاوسیلہ گمراہی
* ترقی اور بالیدگی کے لئے زبان اور دیگر عضاء و جوارح سے استفادہ کرنا
* زبان سے بہرہ مند ہونے اور اس کی آفات سے بچنے کاطریقہ
* مذاق اور مزاح میں مشغول کرنے والی اور افراطی باتوں سےپرہیز
* ہدایت کے طریقوں کا یکساں نہ ہونا
* بولنے اور دیگر رفتار کے رد عمل اور نتائج پر ایک نظر
* محققانہ باتوں کو نقل کرنے کی ضرورت اور افواہوںسے پرہیز
زبان،وسیلہ ہدایت یاوسیلہ گمراہی
''یا اَباذَرٍّ؛ ان اللّٰه عزّوجل عند لسان کل قائل فلیتّق اللّٰه امرء ولیعلم ما یقول. یا اباذر؛ اترک فضول الکلام و حسبک من الکلام ما تبلغ به حاجتک یا اباذر؛ کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما یسمع. یا اباذر؛ ما من شی ء احق بطول السجن من اللسان''
رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث شریف کا یہ حصہ زبان اور اس کے کنٹرول کے بارے میں ہے۔ البتہ گزشتہ درس میں بھی زبان کے کنٹرول کی ضرورت کے بارے میں تھوڑی سی بحث ہوئی اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ بیانات اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسان اپنی گفتگو میں بیشتر احتیاط کرے۔ اس امر کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری احادیث کی کتابوں میں بات کرنے کے طریقہ اور بولنے کے آداب اور اس کی آفتوں کی بارے میں کئی باب مخصوص کئے گئے ہیں ۔اس سے پہلے ذکر کیا گیا کہ کونسی بات کرنا ضروری ہے او رکونسی بات ناپسندید ہے کہ جس کو بولنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ چونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحتوں کے سلسلہ میں ہم اس مرحلہ تک پہنچے ہیں، اس لئے ہم اسی مناسبت سے اس موضوع کی وضاحت کرتے ہیں۔ پہلے اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ زبان ، خدا کی نعمتوں میں سے ایک قیمتی نعمت ہے، اس کے بعد زبا ن کی بعض آفتوں اور نقصانات کی طرف اشارہ کریں گے.
ترقی و بالیدگی کے لئے زبان اور دیگراعضاء و جوارح سے استفادہ :
خدائے متعال نے جن تمام نعمتوں کو انسان کے وجود میں قرار دیا ہے خواہ وہ اس کے ظاہری اعضاء و جوارح ہوں، جیسے:آنکھ ، کان، ہاتھ پاؤں وغیرہ خواہ اس کے داخلی اعضاء ہوں خواہ انسان کی غیر مادی خصوصیات کہ جو روحانی پہلو رکھتے ہیں، جیسے تفکر وتخیّل کی صلاحیت کہ جو دماغ سے مربوط ہے اور انسان کے روحی جذبات ، مختصر جو کچھ انسان کے بدن اور روح سے مربوط ہے یہ تمام کی تمام چیزیں انسان کے تکامل و ترقی کے لئے وسائل ہیں نہ کہ مقصد اور نہ ہی ان کی چاہت اور ان کا ماحصل انسان کا آخری مقصد ہے، چیزوں کو ہمیں اس نگاہ سے دیکھنا چاہئے جو انسان کے کمال اور اخروی ثواب کا سبب بنے، اس طر ح دوسرے تمام اعضائ، من جملہ زبان۔
انسان کو ایسی بات کرنی چاہئے جو اس کی بلندی اور خدائے متعال کی خوشنودی کاسبب بنے۔ خدا کی تمام نعمتوں کو، خدا کا تقرب حاصل کرنے اور کمال تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دینا چاہئے اور یہ نعمتیںتماشا نہیں ہیں کہ انسان ہر نیت وغرض سے ان کا استعمال کرے۔ انھیں زبان جیسیعضو سے حاصل ہونے والی خواہشات اور نتائج کو اپنا اصلی مقصد نہیں سمجھنا چاہئیکیونکہ اس کا اصلی مقصد ان چیزوں سے بلندتر ہے اور انسان کا بات کرنا اصل مقصد نہیں ہے۔ اس لحاظ سے زبان کو خیرکمال کی راہ میں استعمال کرنا چاہئے۔ حضرت اما م جعفر صادق علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں:
''زکاة اللسان النصح للمسلمین و التّیقّظ للغافلین و کثرة التسبیح و الذّکر
..،،
''زبان کی زکوة مسلمانوں کو نصیحت اور غافلوں کو بیدا رکرنا اور فراوان تسبیح و ذکر ہے۔''
بات کرنا وسیلہ ہے او رچونکہ خدائے متعال نے انسان کی خلقت کا مقصد کمال اور اپنا تقرب قرار دیا ہے ، لہذا اس نیک مقصد تک پہنچنے کے لئے زبان سے فائدہ اٹھا نا چاہئے، نہ کہ اس کے ذریعہ اپنے لئے بدبختی کے وسائل فراہم کئے جائیں۔ سوچ اور سمجھ کے بات کرنی چاہئے اور بیہودہ باتوں سے و انسان کی اجتماعی و معنوی منزلت کے انحطاط کا باعث ہے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ انسان کا بولنا اس کی شخصیت و منزلت کا مظہر ہے۔ پس اگر انسان نے اپنی بات کے نتائج کے بارے میں سوچے سمجھے بغیر بات کی تو اس نے اپنی بے مایہ ماہیت کو فاش کردیا، چنانچہ حضرت امام علی فرماتے ہیں:
''تکلّموا تعرفوا فانّ المرء مخبوء تحت لسانه''
''بات کرو تا کہ پہچانے جائو،بیشک انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے.''
دوسری جگہ پر بیہودہ بات کرنے اور اس کے نتیجہ کے بار میں فکر نہ کرنے کو منافقوں کے صفات جانتے ہوئے فرماتے ہیں:
''و انّ المنافق یتکلّم بما علی لسانه لایدری ماذاله و ما ذا علیه ''
''منافق کی زبان پر جو آتا ہے اسے بولتا ہے اور وہ نہیں جانتا ہے کہ اس کے نفع میں کیا ہے اور نقصان میں کیا ہے۔''
اس کے برعکس مومن:
''اذا اراد ان یتکلم بکلام تدبره فی نفسه، فان کان خیراً ابداه وان کان شرّاً واراه ''
''جب چاہتا ہے کوئی بات بولے اس کے بارے میں صحیح طور پر غور و فکر کرتا ہے، اگر اچھی ہے تو اسے اظہار کرتاہے اور اگر بری ہے تو اسے چھپاتاہے.''
اگر چہ ہم اجمالا ًجانتے ہیں کہ زبان کے وسیلہ سے خدا ئے متعال کے تقرب کی کوشش کرنی چاہئے ، لیکن بات اس تقرب کی کیفیت میں ہے اس کی وضاحت میں یہ کہنابہتر ہے: ہماری بات اور گفتگو کبھی عبادت کے زمرے میں ہے، کہ انسان نماز اور عبادت کے دوران کچھ کلمات زبان پر جاری کرتاہے، ہمارایہ بولنا واجب اور مستحب عبادتوں میں شمار ہوتاہے۔ لیکن دوسرے مواقع پر ، زبان ایک وسیلہ ہے اپنے مافی الضمیرکو سمجھانے کے لئے اس کے ذریعہ سے انسان اپنی نیت اور ارادے سے دوسروں کو آگاہ کرتا ہے ،اس سلسلہ میں بھی انسان کو الٰہی مقصد ملحوظ رکھنا چاہئے کہ کونسی بات خداکو پسند او راس کا تقرب حاصل کرنے کا
سبب ہے اور اس میں اخروی ثواب ہیں، اس صورت میں انسان اپنی زبان کو حرکت دینے اور بات کرنے سے رضائے الہی تک پہنچتا ہے۔
بعض مواقع پر ، بات کے مطلوب او ر پسندیدہ ہونے کے سلسلے میں شرعی راہ سے معلومات حاصل کرنی جاہئے ورنہ انسان مطلوب کے حدود اور مشخصات کو نہیں پاسکتا ہے۔
بہت سے مواقع پر انسان اپنی عقل کے ذریعہ بات کے نیک ہونے کو تشخیص دیتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات پسندید ہ ہے ، واجب یا مستحب ہے۔ اس صورت میں اگر انسان قصد قربت رکھتا ہو، تو اس کی بات عبادت شمارہوگی، مثال کے طور پر وہ اپنی بات کے ذریعہ کسی مظلوم سے ظلم کو دور کرنا چاہتا ہے یا اپنی بات سے کسی مظلوم کا حق ظالم سے واپس لینا چاہتا ہے۔یہ موارد''مستقلات عقلیہ'' میں سے ہیں کہ عقل ان کو درک کرنے میں آزاد ہے اور اسے حکم شرعی کی ضرورت نہیں ہے۔اگر ہمیں کوئی شرعی حکم بھی نہیں ملتا، تب بھی ہم اس بات کو درک کرتے ہیں کہ مظلوم سے ظلم کو دور کرنا واجب ہے اور اگر ہم اپنی بات سے کسی مظلوم سے ظلم کو دور کر سکیں ، تو وہ بات واجب اور رضائے الہی کا سبب ہے، اگر وہ بات واجب کی حد تک بھی نہ پہنچے تو کم از کم اس کے نیک ہونے کو ہم درک کرتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ یتیم کے سرپردستِ شفقت پھیرنا اور اسے خوش کرنا اور اپنی بات سے مصیبت سے دوچار ہوئے مومن کے غم و اندوہ کو دور کرنا ، پسندیدہ ہے ۔ ایسی صورت میں اگر انسان قصد قربت کرے تواس کا عمل عبادت ہے۔ ان مواقع کے مقابلہ میں بعض جگہوں پر ہم فعل کے جائز ہونے کے حدود تشخیص نہیں دے سکتے ہیں، ایسے مواقع پر شرعی احکام کے مانند ، شارع کو ہمارے لئے حکم بیان کرنا چاہئے ۔اگر چہ ہماری عقل بعض کلی چیزوں کو درک کرتی ہے ، لیکن ان کی خصوصیات شرائط اور حدود کو شارع مقدس معین کرتاہے، کہ وہ منابع فقہی سے استنباط کے بعدہمارے اختیار میں قرار دے، لہذا ایسے مواقع پر حکم شرع کا انتظار کرنا چاہئے بعض مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا کوپسند نہیں ہیں، ان کا انجام دیناصحیح نہیں ہے ، اور اگر انسان انھیں انجام دے تواس نے گناہ کیا ہے، اسے سزا ملے گی، چونکہ وہ خدا کوپسند نہیں ہیں اس لئے قصد قربت سے وہ عبادت نہیں بن سکتے۔ایسے مواردکے بارے میں انسان کی عقل مستقل طور پر تشخیص دیتی ہے اور شارع مقدس کی طرف سے حکم حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔مثال کے طور پر زبان کے ذریعہ دوسروں کو تکلیف دینا، جھوٹ، تہمت اور دومومنوں کے درمیان زبان کے ذریعہ اختلاف پیدا کرنا یہ سبب امور عقلی کی بنا پر قابل مذمت ہیں۔
مذکورہ باتوں سے ہم نے نتیجہ حاصل کیا کہ بعض باتوں کے پسندیدہ یا ناپسندیدہ ہونے کو ہم واضح طور پر درک کرتے ہیں اوربعض دوسرے موارد ایسے ہیں کہ جہاں پر پسندیدیا ناپسندیدہ باتوں کے حدود و شرائط کو ہمارے لئے شارع مقدس بیان کرتا ہے۔
زبان سے بہرہ مند ہونے اور اس کے آفات سے بچنے کا طریقہ :
یاد رکھنا چاہئے کہ زبان ، خدائے متعال کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اس کی لطیف ترین مخلوقات ہے۔ اگر چہ اس کا حجم چھوٹا ہے لیکن اس کی اطاعت و جرم بڑے ہیں ۔چونکہ کفر و ایمان زبان کے ذریعہ سے ظاہر ہوتے ہیں اور یہ دونوں انسان کی اطاعت و عصیان کی سر حد ہیں ۔ اس لئے زبان پر کنٹرول کرنے کے لئے کوشش کی جانی چاہئے ، کیونکہ زبان کو کھلی ڈھیل دینا انسان کے لئے فروان نقصانات کا سبب بن جاتا ہے۔ انسان زبان کے شر سے تب محفوظ رہتاہے ۔جب اسے شرعی احکام اور قوانین کے ذریعہ کنٹرول کرے اور اسے دنیا و آخرت کے فائدہ کے علاوہ کسی اور چیزکے لئے آزادانہ رکھے اور جہاں پر بات کرنے سے دنیوی و اخروی خطرات کے ایجاد ہونے کا خوف ہو، اسے کنٹرول کرے۔انسان کو فریب دینے اور غافل کرنے کے لئے شیطان کا سب سے بڑا وسیلہ انسان کی زبان ہے۔ اسی لئے روایتوں میں خاموش رہنے کی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
''من صمت نجا
''
''جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پائی''
ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:
''لا یستقیم ایمان عبدٍ حتی یستقیم قلبه و لا یستقم قلبه حتی یستقیم لسانه
''
''کسی بندے کا ایمان تب تک مستحکم نہیں ہو تا جب تک اس کا دل مستحکم نہ ہو جائے اور اس کا دل اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتا ہے جب تک نہ اس کی زبان استوار نہ ہوجائے ''
اوحدی شاعرنے خاموشی کی توصیف میں یہ شعر کہے ہیں:
غنچہ کو درکشد زبان دوسہ روز
ہم بزاید گلی جھان افروز
گر چہ پرسند کم جواب دھد
بہ نفس بوی مشک ناب دھد
راہ مردان بہ خود فروشی نیست
در جھان بہتر از خموشی نیست
(غنچہ دوتین دن کے لئے اپنی زبان بند رکھتاہے تا کہ عالم کو منور کرنے والے پھول اور خوشبوکو کو جنم دے جب اس سے پوچھتے ہیں توکم جواب دیتا ہے بلکہ نفس کو خاص مشک کی خوشبو دیتا ہے خودفروشی مردوں کا شیوہہے دنیامیں خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے)
زبان کو جھوٹ ، تہمت اور غیبت و غیرہ جیسی آفتوں سے محفوظ رکھنا چاہئے اور نیک اورشائستہ گفتگو کرنی چاہئے تا کہمخاطب یا کسی دوسرے کوکوئی اذیت نہ پہنچے ۔پس ایسے موقع پر گفتگو کرنی چاہئے جہاں اس کی ضرورت ہواور اس سے کوئی مقصد نکلے، ممکن ہے کبھی انسان ایسی بات کہے جس کے نتیجہ میں اس کے لئے بہشت میں ایک محل تعمیر کیا جائے۔پس جو اپنی بات سے خزانے حاصل کرسکتا ہے اگر اس کے بجائے خس وخاشاک حاصل کر ے تو اس نے بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ یہ مثال اس کے لئے ہے جوذکر الہی تر ک کرکے مباح کا موں میں لگ جائے جس کا اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر چہ اس نے گناہ نہیں کیا ہے ، لیکن اس لحاظ سے کہ اس نے ایک بڑ ے فائدے کو جو ذکر خدا کے ذریعہ اسے حاصل ہورہا تھا کھو دیا ہے اس لئے وہ خسارے میں ہے چنانچہ اما م جعفر صادق علیہ ا لسلام اولیائے الہی کی توصیف میں فرماتے ہیں:
''انَّ اولیاء اللّٰه سکتوا فکان سکوتهم ذکراً و نظروا فکان نظرهم عبرةً ونطقوا فکان نطقهم حکمةً و مشوا فکان مشیهم بین الناس برکة''
'' اولیائے الہی نے خاموشی اختیار کی ان کی خاموشی ذکر تھی ، ان کا نگاہ اٹھا کر دیکھا ان کا دیکھنا عبرت تھا اورانھوں نے گفتگو کی ان کی گفتگو حکمت تھی۔ وہ لوگوں کے درمیان پیادہ روی کی اور ان کا چلنا برکت تھا ''
انسان کی سعادت و شقاوت اس سے بڑھ کر معاشرے کی تعمیر یا ایک سماج کے اقدار کی بیخ کنی کرنے میں زبان کا جو نقش رہا ہے اس کے پیش نظر خدائے متعال اور اولیائے الہی کی طرف سے اس کے متعلق بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے کہ انسان اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے۔ اور اجتماعی و اسلامی آدابنیز رفتار سے آگاہی حاصل کرے، اولیائے دین کی رفتار و کردار کے طریقوں کو اپنے لئے نمونہ قرار دے اپنی زبان کو خود سازی اور معاشرے کی اصلاح کے لئے استعمال کرے۔ اس لحاظ سے زبان کو کنٹرول کرنے اور اس سے صحیح استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ انبیاء و اولیای الہی کی بات کرنے کے آداب کو مد نظر رکھنا ہے۔
معاشرت کے درمیان انبیاء لوگوں کو بات کرنے کے بہترین آداب کے طریقہ پیش کئے کہ نمونے کے طور پر ان کفار کے ساتھ انجام شدہ استدلالی مناظر پیش کئے جاسکتے ہیں، جو قرآن مجید میں بھی نقل ہوئے ہیں ، اس طرح جو باتیں وہ مومنوں کے ساتھ کرتے تھے اور جو مختصر سیرت ان کی نقل ہوئی ہے۔ اگر ہم پیغمبروں کی کفار اور ہٹ دھرم افراد کے ساتھ کی گئی گفتگو کی جانچ پڑتال کریں تو ہم اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ملے گی کہ جو کفار کے لئے خوشی کا باعث نہ ہواور بے ادبی اور بی احترامی پر مبنی ہو۔ جی ہاں، خدا کے پیغمبر کفار کی طرف سے اس قدر مخالفت ، گالم گلوج، طعنہ زنی، بے احترامی اور مذاق اڑ انے کے با وجود جواب ہیں بہترین بیان اور خیر خواہانہ نصیحتوں کے علاوہ کچھ نہیں کہتے تھے اور ان سے جدا ہوتے وقت سلام کئے بغیر جدا نہیں ہوتے تھے:
(
وَ عبادُ الرَّحمٰن الّذین یَمشُونَ عَلی الارضِ هوناً وَ اِذا خاطَبَهُم الجاهلونَ قالوا سلاماً
)
(فرقان / ٦٣)
'' اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں ، تو وہ انھیں سلام کرتے ہیں ''
جی ہاں، مشرکین جو خدا کے پیغمبروں کے خلاف اس قدر زخم زبان، تہمتیں اور بے احترامیاں رو ارکھنے کے با وجود قرآن مجید کے نقل کے مطابق کسی ایک پیغمبرنے بھی ان اذیت و آزاروں کے مقابلہ میں سختی یا بد زبانی سے جواب نہیں دیا ہے، بلکہ اس کے بر عکس نیک گفتار ، د ل کو موہ لینے والی منطق اور نیک اخلاق سے پیش آتے تھے۔جی ہاں یہ بزرگوار ایسی تعلیم و تربیت گاہ کے پروردہ تھے کہ جنھیں بہترین کلام کرنے اور زیبا ترین اد ب کی تعلیم دی جاتی تھی اور انہیں تعلیمات الہی میں سے ایک دستور ہے کہ جسے خدا ئے متعال حضرت موسیٰ اور ہاورن کو دیتے ہوئے فرماتا ہے:
(
اذهبا الی فرعون انّه طغی فقولا له قولاً لیّنا لعلّه یتذکّرا و یخشی'
)
(طہ ٤٣و٤٤)
''تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت قبول کرے یا خوف خداپیدا ہو''
انبیاء کی بات کرنے کے آداب میں یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں میں سے جانتے تھے اور ان کے ہر گروہ اور طبقہ سے ان کے فہم کے مطابق گفتگو کرتے تھے اور یہ حقیقت ان کی مختلف لوگوں کے ساتھ کی گئی گفتگوجو تاریخ اور روایتوں میں نقل ہوئی ہے سے بخوبی معلوم ہوتا ہے. چنانچہ شیعہ اور سنی دونوں کی طرف سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
''انّا معاشر الانبیاء امرنا ان نکلِّمَ الناس علی قدر عقولهم''
'' ہم پیغمبروں کا بنیادی کام یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کی عقل کے مطابق بات کریں''
مزاح میں مشغول کرنے والی اور افراطی باتوں سے پرہیز:
آفات زبان اور زیان آور بحث و مباحثہ کے سلسلہ میں بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں اور ہمارے فقہانے فقہ میں حرام باتوں کے بارے میں کئی باب مخصوص کئے ہیں ، جیسے جھوٹ ، غیبت ، مذاق اڑانا، مومن کو اذیت کرنا، ایسی بیہودہ اور مشغول کرنے والی باتیں ، جن کو ''لھو الحدیث'' سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ انسان کو خدا سے دور کرتی ہے اور انسانی طبیعت کو معنویت اور خدا کے نور سے خالی کردیتی ہے۔ (اخلاق کی کتابوں میں اس پر مفصل بحث کی گئی ہے) بعض مواقع پر کسی عمل کے مذموم او ر حرام ہونا انسان کے لئے واضح ہوتا ہے، اس لئے انسان اس گفتگو یا عمل کے حکم کے بارے میں شک نہیں کرتا۔ لیکن بعض مواقع پر کچھ باتیں بظاہر مباح لگتی ہیں حتی انسان تصور کرتاہے کہ یہ پسندیدہ ہیں لیکن حقیقت میں وہ باتیں ناشائستہ اور حرام ہوتی ہیں ۔ایسے مواقع پرشیطان ہمیں دھوکہ دیتاہے اور ہم مشکوک باتوں کو آگاہانہ یا نیم آگاہانہ طور پر زبان پرلاکر گناہ میں آلودہ ہوتے ہیں ، اگر چہ کبھی انسان کافی توجہ نہ کرنے کی وجہ سے خود اپنے کو دھوکہ دیتا ہے۔ اگر انسان مشکوک مواقع کے بارے میں صحیح فکر اور دقت کرے ، تو حقیقت کو درک کر سکتاہے، لیکن چونکہ وہ خواہشات سے مغلوب عمل کرتاہے، اپنی کام میں دقت نہیں کرتاہے اور اپنے عمل کو انجام دینے کے لئے ایک نہ ایک بہانہ تلاش کرتا ہے۔مثلاً ایک شوخ مزاج انسان جب ایک مجلس کو سرگرم کرنا چاہتا ہے اور اپنی باتوں سے دوسروں کہ شاد و مسرور کرنا چاہتاہے۔ تو بہانہ جوئی کرتاہے کہ مثلاً آج شبِ عید ہے اورمیں دوسروں کو شادکرناچاہتا ہوں۔ اسی بہانہ سے اوقات کو ضائع کرنے والی ایسی باتیں کرتاہے کہ ان کا کوئی معنوی حتی دنیوی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اپنی عمر ضائع کرنے، دوسروں کو تکلیف پہنچانے اور برے اثرات کے علاوہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا ہے۔
کلمہ ''لھو'' کا معنی ہر وہ چیز ہے جوا نسان کو ضروری اور اہم کاموں سے روکے اور ''لھوالحدیث'' مشغول کرنے والی بات ہے کہ انسان کو حق سے منصرف کرکے اپنی طرف مشغول کرلے، مثال کے طور پر خرافاتی حکایتیں اور وہ داستانیں جو انسان کو فسق و فجور کی طرف کھینچتی ہیں۔اس طرح مبتذل ترانے اور موسیقی و غیرہ ''لھو الحدیث'' کے مصداق ہیں۔
تفسیر مجمع البیان میں آیا ہے کہ یہ آیت نصربن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ چونکہ وہ ایک تاجر تھا ایران سفر کرتا تھا او ر وہا ں پر ایرانی اخبار اور افسانوں کو ان کے منابع سے حاصل کرتا تھا او رپھرانھیں قریش سے بیان کرتاتھا اور ان سے کہتاتھا: محمد تمھیں عاد و ثمود کی داستانیں سناتے ہیں اور میں رستم ، اسفندیار اور کسری کی داستانیں سناتاہوں، لوگ بھی اس کی داستانوں کو کان لگا کے سنتے تھے اور قرآن مجید کی آیتو ں کو نہیں سنتے تھے۔
اس امر کی طرف دھیان رکھنا چاہئے کہ ایک بے چین اور افسردہ مومن بھائی کو خوش کرنے کے لئے صرف یہ وسیلہ نہیں ہے کہ اسے بیہودہ او رہنسانے والی باتوں سے سرگرم کیاجائے، بلکہ افسردہ اور غمگین فردکے مزاج کے مطابق خدا کی رحمتوں سے متعلق کسی روایت کو منتخب کرکے اسے بیان کیا جاسکتا ہے تا کہ اس کے اندر خوشی اور مسرت پیدا ہواور اس کی بے چینی اور افسردگی دور ہوجائے، نہ یہ کہ ہم اسے بعض خرافات اور بیہودہ باتوں سے خوش کریں. اس بناپر دوسروں کے دلوں میں مسرت پیدا کرنے اور انھیں خوش کرنے کا کوئی منکر و مخالف نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی مکرر طور پر دینی کتابوں میں تاکید کی گئی ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ انسان کا بیان او راس کی بات میں مثبت مادی و معنوی نتیجہ ہونا چاہئے تا کہ نہ دوسروں کا وقت ضائع ہو اور نہ زبان جیسی نعمت الہی کا پست اور بے اہمیت طریقہ سے استعمال کیا جائے۔
اما م محمد باقر علیہ السلام نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
''من سرّ مومناً فقد سرّنی و من سرّنی فقد سرّ اللّٰه ''
''جو شخص کسی مومن کو خوش و مسرور کرے ، اس نے مجھے خوش کیا ہے اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے بیشک خدائے متعال کو خوش کیا ہے۔''
ایک اورروایت میں حضرت اما م سجاد علیہ السلام نقل فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
''انَّ احبَّ الاعمال الی اللّٰه عزّ و جل ادخال السرور علی المومنین''
''خدائے متعال کے پاس سب سے بہترین عمل مومنوں میں مسرّت و شادمانی پیدا کرناہے۔''
کبھی مومن امور دنیوی یا اخروی کی وجہ سے غمگین ہوتا ہے ، غم و حزن اس کی فعالیت اور سرگرمی میں روکاوٹ کا باعث ہوتے ہیں اور اس کی توانائیوں کو مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اس بناپر وہ اپنی قابلیتوںاور توانائیوں سے استفادہ نہیں کرسکتا ہے، کیونکہ وہ نشاط و آرام سے محروم ہوتا ہے. اگر وہ مطالعہ کرے تو کسی چیز کو حفظ نہیں کرسکتا ہے یانماز کے وقت حضور قلب نہیں رکھتا ہے۔ بہر صورت کسی کام میں اسے دلچسپی نہیں ہوتی اور کسی کام کوانجام دینے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھا تا اس صورت میں اسے اس غم و اندوہ سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کو خوش کرناچاہئے تا کہ وہ عبادت اور دیگرسرگرمیوں کو انجام دے سکے۔ اُسے خوش کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے اور اگر خدائے متعال کے لئے ہو توعبادت بھی ہے.
کبھی انسان خود اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور ایک مومن کو خوش کرنے کے لئے، بے فائدہ کہانیاں نقل کرنے اور لغو و بیہودہ باتیں،مذاق اور مضحکہ خیز کلمات کا سہارا لیتا ہے، گویا راستے کو انہی پرمنحصر جانتاہے ۔اس سے غافل کہ اس سلسلے میں کوئی منطقی ، موزوں او رقابل قدر بات کہہ سکے اور دلیل و استدلا ل سے اس مومن کو اس کے غم و آلام سے نجات دلا سکے۔ اس مومن کی رہنمائی کی جاسکتی ہے اور اسے یاددہانی کرائی جاسکتی ہے کہ یہ اضطراب اور غم و اندوہ تمھارے ذہن کو نقصان پہنچانے اور بیکار کرنے کے علاوہ تمھارے درد کاعلاج نہیں کرسکتے ہیں اس سے تجھے کوئی فائدہ نہیں مل سکتاہے۔
شوخ طبیعت اور لطیفہ باز انسان جب دیکھتا ہے کہ اس کا دوست مضطرب و رنجیدہ ہے تو وہ لطیفے اور ہنسانے والی باتیں کہنا شروع کرتا ہے تا کہ اپنے دوست کو خوش کرسکے، البتہ وہ اس سے غافل ہے کہ مزاح بہت کم پسندیدہ ہے اور اس میں افراط قابل مذمت ہے۔مزاح میں افراط اس امر کا سبب ہے کہ انسان متواتر اپنے اور دوسروں کو کھلونا بنا لیتا ہے اور اس میں افراط کے علاوہ حد سے زیادہ ہنسی کا موجب ہو تا ہے اور حد سے زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور انسان کی عظمت اور وقار کو زائل کرتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی مزاح و شوخی کم کرتے تھے، چنانچہ فرمایاہے:
''انّی لاامزح و لا اقول الّا حقاً''
''میں بھی مزاح کرتا ہوں ، لیکن مزاح ( مذاق ) میں سچی باتیں کہتاہوں''
یا زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرنے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:
''واللّٰه لو تعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلاً و لبکیتم کثیراً
''
''خدا کی قسم! اگر تم لوگ اس چیز سے آگاہ ہوتے جس سے میں آگاہ ہوں تو زیادہ روتے اور کم ہنستے۔''
مذکورہ مطالب کے پیش نظر کوشش کرنی چاہئے کہ مذاق و مسخرہ حد سے تجاوز نہ کرے ۔ کیونکہ کبھی مذاق و مسخرہ میں اعتدال سے تجاوز کرنا ادخال السرور کے بہانے اذیت، آزار ، گستاخی ، تہمت و غیبت کا مرتکب جاتا ہے۔ اس بہانہ سے کہ مومن کو خوش کرنا مستحب ہے، انسان شیطان کے دھوکے میں آتا ہے اور غیبت جیسے گناہ کبیرہ میں آلودہ ہوتاہے ، یعنی اپنے دوست کو بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ غیبت کوسن کرگناہ میں آلودہ ہوجائے۔
بہر حال ، بہت سے مواقع پرشیطان انسان کو دھو کہ دیتا ہے وہ اپنے خیال میں نیک عمل انجام دیتا ہے، لیکن در حقیقت وہ مرتکب گناہ ہوتا ہے۔اب اگر انسان صحیح طور پر غور و فکر کرے تو اسے اپنی غلطی کا علم ہوگا، اگر چہ بعض اوقات انسان اس قدر آگاہی و بصیرت نہیں رکھتا ہے، حتی اگرغور بھی کرتا ہے تب بھی اپنی غلطی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا؛ اس صورت میں دوسروں کی ذمہ داری ہے کہ اسے آگاہ کریں کہ یہ ناپسندیدہ عمل ہے اور ایک مطلوب فعل جیسے دوسروں کو خوش کرنا دوسرے انداز میں کہ جو صحیح اور مطلوب طریقہ ہے انجام دیا جاسکتاہے۔
ہدایت کے طریقوں کا یکساں نہ ہونا:
افراد کو آگاہ کرنے اور انھیں ناپسندیدہ اعمال کے بارے میں متوجہ کرانے کے لئے یکساں طریقہ سے استفادہ نہیں کیاجاسکتاہے۔ جولوگ واجبات اور محرمات سے خاص آگاہی نہیں رکھتے ہیں اور دینی منابع ، جیسے قرآن مجید اور روایات تک جن کی رسائی نہیں ہے، انھیں جھوٹ، چغل خوری اور غیبت کے دنیوی نقصانات سے آگاہ کرنا چاہئے، یعنی غیبت کرنا مردار کا گوشت کھانے کے برابر ہے و غیرہ لیکن جو ہمیشہ کتاب و سنت سے سروکار رکھتے ہیںان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم انھیں ان گناہوں کے نقصانات کی طرف اشارہ کریں، کیونکہ وہ خود آگاہ ہیںبلکہ انھیں ان موارد سے آگاہ کرناچاہئے جن کے بارے میں وہ غفلت سے دوچار ہوئے ہیں۔انھیں اس بات سے آگاہ کرنا چاہئے، کہ اگر چہ بعض باتیں صحیح ہیں اور نیک نیتی سے کہی جاتی ہیں لیکن درست نہیں ہے اور اس میں خدا کی مرضی نہیں ہے اور ایسی باتیں سبب بنتی ہیں کہ انسان نقصان اٹھائے۔
جی ہاں، بعض مواقع پرکام ایک دوسرے کے دورخی ہوتے ہیں اور یہ انسان کی نیت اور غرض پر منحصر ہے کہ انھیں پسندیدہ ھویت بخشے یا ناپسندیدہ کبھی اگر کسی کام کو نیک نیتی سے انجام دیاجائے تو وہ کام نیک محسوب ہوتا ہے اور اگر اسی کام کو بُری نیت سے انجام دیاجائے تو وہ کام بُرا اور پست ہوتاہے، کیوں کہ اسلام میں ہر کام کی اہمیت انجام دینے والے کی نیت پر منحصر ہے۔ ممکن ہے انسان لاعلمی اور غفلت کے عالم میں ایک بُرے کام کو نیک نیتی سے انجام دے اور ممکن ہے اس کی نیت کی بنا پراسے ثواب ملے، اگر اسے ثواب نہ بھی ملے تو کم از کم معذور ہے۔ لیکن اگر ایک اچھے کام کو بُری نیت سے انجام دے تو اس کا کوئی ثواب نہیں ہے،اور وہ عبادت بھی نہیں ہے، ممکن ہے سزابھی ہو،کیونکہ اس کا عمل حسن اخلاق پر مبنی نہیں تھا۔ بولنے اور بات کرنے میں ایسی مثالیں زیادہ پائی جاسکتی ہیں۔
کبھی کسی شخص کی بارے میں بات چھڑ جاتی ہے اور انسان اس کی نیکیوں کوبیان کرنا چاہتاہے اور کبھی اس کی خوشنودی کے لئے، چاپلوسی ، مبالغہ اور بے جاتعریفیں کرتاہے۔اگر اس سے پوچھاجاتاہے: تم کیوں اس قدر چابلوسی، مبالغہ آرائی اور تملّق سے کام لیتے ہو؟ تو وہ جواب میں کہتاہے: میں دوسروں کا ذکر خیر کر کے تواضع او رانکساری دکھاناچاہتاہوں! البتہ انسان کی عالی اورممتاز خصوصیات میں سے ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کو شمار کرے اور کوشش کرے دوسروں کی نیکیوں کا ذکر کرے، روایتوں میں بھی اس نکتہ کی طرف تاکید کی گئی ہے ۔ایسا کر کے ہم ایک مومن کو عزت بخشتے ہیں اور اس کی آبرو بڑھاتے ہیں او ردوسروں کو بھی نیک صفات کے حوالے سے تشویق کرتے ہیں۔لیکن دیکھنا چاہئے کہ ہم کس نیت سے دوسروں کی ستائش کرتے ہیں؟ کیا ہم مومن کو عزت بخشنے کے لئے ، خداکی مرضی حاصل کرنے کے لئے اور معاشرت میں نیکی کی ترویج کے لئے دوسروں کی ستائش کرتے ہیں؟ یا اس کے سامنے یا اس کی عدم موجود گی میں اس کی ستائش کرتے ہیں کہ وہ ہم سے خوش ہو اور ہم اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں! اور وہ بھی ہماری اسی طرح تعریف کرے حقیقت میں یہاں پر ہمای مثال:''من تراحاجی بگویم تو مرا حاجی بگو'' کے مانند ہے۔ میں اپنے دوست کی عدم موجود گی میں اس کی تعریف کرتا ہوں او روہ بھی میری عدم موجود گی میں میری ستائش کرتاہے۔یہ ایسے مواقع میں جہاں پر شیطان پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اپنے شیشے میں اتارلیتاہے۔
عوام او رعام افراد کو جو حکم الہی سے آگاہ نہیں ہیں شیطان جھوٹ، غیبت اورمعروف گناہوں کو انجام دینے پراکساتاہے، لیکن علما کو دوسرے طریقوں سے دھوکہ دیتا ہے۔ جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر کسی کی عدم موجود گی میں اس کی تعریف کریں تا کہ وہ بھی مقابلہ میں ان کی ستائش کرے، تو انہوں نے اچھا کام انجام دیا ہے، حقیقت میں یہ اچھا کام نہیں ہے بلکہ یہ ان کے نفس کے مکر و فریب کا نتیجہ ہے۔
لہذا انسان کو ہوشیار رہنا چاہئے، اگر وہ کسی کام کو انجام دیناچاہتا ہے ، تو اسے پہلے اپنے دل میں پوری طرح غور و خوض کرنا چاہئے کہ اس کام کو انجام دینے کے لئے کو نسا مقصد مد نظر رکھتاہے۔ہرکام کو انجام دینے سے پہلے اس پر تھوڑاغور کرے اس کے بعد اس کام کو انجام دے، ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی زبان کوآزاد رکھے اور کسی قسم کی فکر کئے بغیر بات کہے ، کیونکہ احمق کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی زبان کو کنٹرول نہیں کرتاہے اور جوچاہتاہے کہہ دیتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام گفتگو کرنے کے حوالے سے عاقل اور احمق کے درمیان فرق کے بارے میں فرماتے ہیں:
''لسان العاقل وراء قلبه و قلب الاحمق وراء لسانه''
''عقلمند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بیوقوف کادل اس کی زبان کے پیچھے ہے۔''
مرحوم سید رضی رحمةاللہ علیہ اس عظیم المرتب بیان کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
''یہ تعجب آور بات ہے کہ امام علیہ السلام کا مقصود یہ ہے کہ عقلمند شخص، اپنی زبان کو کھلی ڈھیل نہیں دیتا بلکہ اپنے دل میں غور و خوض کرنے کے بعد اظہارکرتا ہے. اس کے مقابلہ میں بیوقوف کی زبان پرجو آتاہے اسے بولتاہے اور غور وفکر کرنے سے پہلے بات کہنے کو ترجیح دیتا ہے۔پس گویا عقلمند کی زبان اس کے دل کے تابع ہے اور بیوقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے''
پس ہمیں بات کرتے وقت غور و خوض کرنا چاہئے کہ ہم کس لئے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہماری غرض کیا ہے تا کہ خدا کی عنایت سے زبان کی آفتوں اور نفسانی خواہشات اور شیطانی حیلوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ لیکن اگر ہم غور و فکر نہ کریں اور اپنی کام میں ضروری دقت نہ کریں اور تامل کئے بغیر بے حساب بات کریں، تو ہم آہستہ آہستہ شیطان کے پھندے میں پھنس جائیں گے اور غیر شعوری طور پر اس کے مکرو فریب میں گرفتار ہوں گے۔ البتہ یہ لغزشیں اور یہ انحرافات جو غفلت ، جلد بازی،امور کی انجام دہی میں غور و فکر نہ کرنے اور صحیح محرک (مقاصد) کے نہ ہونے کی وجہ سے ہیںاور یہ چیز صرف بات کرنے اور گفتگوکی حدتک محدود نہیں ہے ، بلکہ انسان اپنے بدن کے دوسرے تمام اعضا اور توانائیوں سے استفادہ کرنے میں بھی اپنی لغزشوں اور انحرافات سے دوچار ہوتاہے۔البتہ اس وقت ہماری بحث کاموضوع ان آفتوں کے بارے میں ہے جو انسان کو زبان کی وجہ سے پیش آتی ہیں اور دوسرے خطرات کی نسبت بیشتر نقصان پہنچانے والی ہے۔ہمیں بات کرتے وقت خدا کی مرضی اور اس کی خوشنودی کو حاصل کرنے کی فکر میں ہونا چاہئے نہ یہ کہ اپنی نیت اور ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی فکر میں رہیں۔
پہلے مرحلہ میں ہماری گفتگو خدا کے نزدیک پسندیدہ او رمطلوب ہونی چاہئے اور دوسرے درجہ میں اس بات کے کہنے میں ہمارے ا غراض او رمقاصد صحیح ہونے چاہئے، یعنی فعل بھی نیک ہوناچاہئے اور فاعل بھی ۔ بات کا قالب بھی صحیح ہو اور اس بات کا ہدف اور مقصد بھی ، بات کی صورت بھی صحیح ہو اور اس کا مفہوم و معنی بھی ۔
حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اور دوسرے بزرگ بارہا فرمایا کرتے تھے: شیطان ہرگز عالم کو شراب نوشی او رزشت اعمال جو اس کی شایان شان نہیں ہے انجام دینے پر مجبور نہیں کرتا کیونکہ اس صورت میں عالم کے لئے آبروباقی نہیں رہے گی اور وہ ہرگز ایسا خطرہ اور نقصان اٹھا نے کے لئے آمادہ نہیں ہوگا۔لیکن شیطان علما اور اہل علم کو ایسی لغزشوں اور انحرافات سے دوچار کرتاہے کہ جو حقیقت میں شراب نوشی سے بھی بدتر ہیں۔وہ عالم کو ایسا کام انجام دینے پر مجبور کرتاہے کہ ظاہر میں وہ کام برانہیں لگتا ہے او رکوئی اسے مذمت نہیں کرتاہے کہ تم نے کیوں ایسا کیا،لیکن اس کام کا ضرر اور گناہ بہت ہوتاہے اور ممکن ہے خود انسان بھی متوجہ نہ ہوکہ وہ کیسے اتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوگیا اور کس قدر اپنی حیثیت سے گرگیاہے! اس لئے بہتر ہے ہم مزید غور فکر سے کام لیں اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی کوشش کریں اور اپنی زبان کو لگام دیں، تاکہ ہر بات کو زبان پرجاری نہ کریں اورسوچ سمجھ کر گفتگوکریں ۔جب تک بات کرنے کہ ضرورت نہ ہو زبان نہ کھولیں، چنانچہ سعدی کہتاہے:
ندہد مرد ہوشمند جواب
مگرآنگہ کزاو سوال کنند
''عقلمند تب تک بات نہیں کرتا جب تک اس سے سوال نہ کیا جائے''
بولنے اور دیگر رفتار کے ر دعمل اور نتائج پر ایک نظر:
ہمیں توجہ رکھناچاہئے کہ جب ہم گفتگو کرنے میں محو ہوتے ہیں،تو پھر زبان پر قابوپانامشکل ہے، اس لئے زبان کھولنے سے پہلے جو ہم کہناچاہتے ہیں اس کے بارے میں غور کر لیں تا کہ حد سے تجاوز نہ کریں۔ہم اگر اپنی زبان پر قابونہیں رکھتے تو جب ایک مجلس میں ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی ہیں، لوگ دوسروں کی باتیں سن کر ہنستے ہیں اور بات کرنے والے کی ہمت افزائی کرتے ہیں، تو انسان کے لئے ایسے ماحول میں خاموش بیٹھنامشکل ہے۔لہٰذا باتوں باتوں میں انسان مذاق و مسخرہ کرنے پراترتاہے اورہر طریقہ سے، حتی غیبت کے ذریعہ دوسروں کو ہنسانے کی کوشش کرتاہے۔حقیقت میں ایسی حالت میں زبان کنٹرول میں نہیں رہتی ہے بلکہ سرکش گھوڑے کے مانند ہے ، کہ جو لگام توڑ کر بھاگ جاتاہے تو اسے پھر سے قابومیں لانادشوارہوتاہے۔لہذاانسان کو ابتدا سے ہی اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو بھی مطالب یا گفتگو پیش کرنا چاہے پہلے اس کے بارے میں فکر کرے کہ وہ بات مناسب وسزاوار ہے یا نہیں اس کے علاوہ گفتگو میں حد سے تجاوز کرنے اور افراط سے بھی پرہیز کرے۔
انبیا ء اور اولیائے الہی انسانوں کی تربیت کی غرض سے انھیں یاددہانی کراتے تھے کہ ان کے کام کا ایک حساب و کتاب ہے،ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی گفتار و کردار میں جوابدہ نہیں ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ایک گھنٹہ گفتگو کرنے کے بعد ہم فکر کریںکہ کہیں کوئی اتفاق تو پیش نہیں آیا! بلکہ ہرکلمہ جوانسان کے منہ سے نکلتاہے وہ ثبت ہوتا ہے اور اس کے بارے میں اس سے سوال ہوتا ہے کہ تم نے کیوں ایسا کہا اور کیوں فلاں نیت سے کہا۔اس مطلب کو مدنظر رکھناانسان کے لئے سبب بنتاہے کہ انسان کسی حد تک اپنی آپ کو کنٹرول کرے و رنہ انسان کانفس قوی ہے اور آسانی کے ساتھ قابومیں نہیں آتاہے۔
مومن کے نفس کو کنٹرول کرنے کی من جملہ راہوں میں سے ایک راہ یہ بھی ہے کہ وہ اس امر کی طرف متوجہ رہے کہ خدائے متعال حاضر وناظر ہے اور وہ اس کی باتوں کو سنتاہے اور قیامت کے دن اس کے بارے میں سوال کرے گا، اس نکتہ کوپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنے کلامِ مبارک میں یوں بیان فرمایا ہے:
''یا اباذر؛ ان اللّٰه عزّو جلّ عند لسان کلِّ قائلٍ فلیتّقِّ اللّٰه امرء و لیعلم ما یقول''
''اے ابوذر! خدائے متعال ہر بولنے والے کی زبان کے پاس ہے، پس بات کرنے والے کو خدا سے ڈرناچاہئے اوروہ جان لے کہ کیا کہتا ہے''
اگر انسان اس حقیقت کو مد نظر رکھے کہ اس کی گفتگو کے دوران خدائے متعال حاضر و ناظر ہے اور اس کی کوئی بات خدا سے پوشیدہ نہیں ہے، تو وہ احتیاط سے کام لے گا ہر با ت کو زبان پرجاری نہیں کرے گا۔اس کے علاوہ تقوائے الہی اس امر کا سبب بن جاتاہے کہ انسان خدائے متعال سے ڈرے، نتیجہ کے طور پر اپنی رفتار کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کی اجازت نہیں دیتا کہ سوچے سمجھے بغیر کوئی بات اس کی زبان پر جاری ہوجائے۔
اس طرح اولیائے الہی کی تربیت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے پیرو کار افراد کو نفسانی خواہشات پر کنٹرول کی تاکید کرتے ہوئے انھیں فضول اور بے جا باتوں سے پرہیز کرنے کی تشویق کرتے ہیں اور احتیاج اور ضرورت کے مطابق بات کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ زبان پر کم کلمات جاری کریں۔اگر دوجملوں سے کسی کو کوئی مطلب سمجھاسکتے ہیں تو تیسرا جملہ کہنے سے پرہیز کریں ۔یہاں تک اگر کسی واجب حکم ، جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں بات کرناچاہتے ہیں تو کوشش کریں کہ اپنے مقصود کی حدمیں بات کریں اور اضافی بات کرنے سے پرہیز کریں۔اس سلسلہ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
''یا اباذر؛ اترک فضول الکلام وحسبک من الکلام ماتبلغ به حاجتک''
''اے ابوذر!زیادہ بات کرنے سے پرہیز کرو، اتنی ہی بات کروجس سے تمھاری حاجت پوری ہو جائے''
بعض اوقات جب انسان کسی مجلس میں باتیں کرنے میں مشغول ہوجاتاہے ، تو غیر شعوری طور پر فضول اور بیہودہ باتیں اس کی زبان پرجاری ہوتی ہیں نہ ان سے اس کاکوئی دنیوی فائدہ ہوتا ہے اورنہ اخروی۔ اپنی زندگی کے ناقابل تلافی سرمایہ کو فضول باتوں میں ضائع کرتا ہے ! لہذا مناسب ہے انسان اندازہ کے مطابق بات کرے اور فضول اور اضافی باتوں سے پرہیز کرے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں:
''طوبی لمن طاب خلقه وطهرت سجیّته وصلحت سریرته وحسنت علانیته علانیه وانفق الفضل من ماله وامسک الفضل من کلامه''
''کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے اخلاق اچھے ، صفات پاکیزہ، باطن شائستہ اور ان کاظاہر نیک ہے اور وہ اپنے اضافی مال کو انفاق کرتے ہیں اور زیادہ باتیں نہیں کرتے.''
ایک بزرگ کاکہنا ہے: مومن وہ ہے ، جو بات کرتے وقت پہلے فکر کرتاہے، لہٰذااگر بات
کرنے میں مصلحت ہے تو بات کرتاہے ورنہ بات نہیں کرتاہے۔ لیکن فاسق و فاجر ، بات کرتے وقت اپنی زبان کو مکمل طور پر کھلی ڈھیل دیتا ہے۔
جی ہاں، زبان کے نقصانات اور آفتوں کے بار ے میں بہت سی باتیں قابل بیان ہیں من جملہ زبان انسان کی شخصیت اور اجتماعی حیثیت کو خراب کرتی ہے آخرت میں اس کی پشیمانی کاسبب بنتی ہے ، کیونکہ جب انسان قابوسے باہر ہوکرباتیں کرتا ہے، خواستہ یانخواستہ وقت ضائع کرنے کے علاوہ زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے کی وجہ سے گناہوں میں بھی مبتلا ہوتا ہے، لہذا اس طرح اپنے قیمتی وقت کے سرمایہ کو بھی ضائع کرتا ہے اور خدا کے غضب و خشم سے بھی دوچار ہوتاہے۔
محققانہ باتوں کو نقل کرنے کی ضرورت اور افواہوں سے پرہیز :
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
''یا اباذر؛ کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل مایسمع''
''اے ابوذر ! جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان جو سنے اسے نقل کرے''
زبان کی آفتوں میں سے ایک آفت یہ ہے کہ انسان جو کچھ سنے اس کی حقیقت کی بارے میں تحقیق و تفحّص کے بغیر بلافاصلہ اسے دوسروں کے لئے نقل کرے۔اگر چہ وہ جھوٹ بولنے کامقصد نہیں رکھتا ہے ، اور جو کچھ سناہے اسے کسی قسم کی کمی بیشی کے بغیر نقل کرتا ہے، لیکن اس کی بات جھوٹ شمار ہوتی ہے ، کیونکہ جو کچھ وہ کہتاہے اس کے سچ ہونے کے بارے میں اطمینان نہیں رکھتا ہے۔ اس لئے انسان کو جھوٹ بُری اور ناپسند باتوں سے بھی پرہیزکرنا چاہئے اور ساتھ ہی ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے جن کی سچائی کی بارے میں یقین نہیں رکھتا ہے، بلکہ ہمیں ہر بات کی بارے میں پہلے تحقیق کرنی چاہئے اگر اس کی سچائی کی بار ے میں اطمینان پیدا ہواتو اسے نقل کرناچاہئے.اس سلسلہ میں شاعر کہتا ہے:
تا نیک ندانی کہ سخن عین صوابست
باید کہ بہ گفتن دہن ازہم نگشائی
گر راست سخن گویی و در بند بمانی
بہ زانکہ دروغت دہد از بندرہائی
''جب تک تجھے یقین نہ ہوجائے کہ تیری بات صحیح ہے، اسے کہنے کے لئے اپنا منہ نہ کھولو ۔ اگر سچ کہہ کر تجھے قید وبند میں ڈالاجائے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ جھوٹ تجھے قید سے رہائی بخشے''
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم فرماتے ہیں: اگر انسان جو کچھ سنتا ہے اسے نقل کرے تو وہ جھوٹ بولنے والوں میں شمارہوتاہے، لیکن کبھی ہم بھی جو کچھ سنتے ہیں اس پر دقت نہیں کرتے ہیں بلکہ ممکن ہے اس میں کمی یا بیشی کرکے دوسروں کے لئے نقل کرتے ہیں جبکہ ۔ ہمیں بات کرتے وقت دقت کرنی چاہئے اور ہر چیز کو نقل نہیں کرنا چاہے ، جب انسان جو کچھ سنتا ہے اسے نقل نہیں کرناچاہئے پس چہ جائے کہ ، کوئی بات نقل کرنے میں مبالغہ کرے اوردوسرے کی بات کو گھڑ کرپیش کرے!! ۔
جھوٹ کے بارے میں جو تصور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیش کیا ہے، اس کے پیش نظر یقیناً افواہ جھوٹ کا واضح مظہرہے۔ افواہ شیطان کے کارآمد حربوں میں سے ایک حربہ تھا کہ جب بھی اولیائے دین، بشر کی ہدایت اور سالم معاشرے کے تشکیل کی لئے قدم اٹھاتے تھے، تو خدا او ر دین کے دشمن تمام شیطانی وسائل کے ساتھ من جملہ جھوٹ ،تہمت اور افواہ سے ان کا مقابلہ کرتے تھے تا کہ الہی قائدین کے گرد جمع ہوئے لوگوں کو متفرق کرکے اپنے شیطانی مقاصد تک پہنچ جائیں۔
تاریخی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صدر اسلام میں بھی دشمن ، مسلمانوں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حمایت اور دین کی راہ میں پائداری سے روکنے کے لئے ان کے دلوں میں خوف و وحشت ایجاد کرتے تھے اور اس سلسلہ میں افواہ کا سہارا لیتے تھے ، چنانچہ خدائے متعال فرماتاہے:
(
واذاجاء هم أمرمن الأمن أوالخوف اذاعوابه ولوردّوه الی الرّسول والی أولی ألامر منهم لعلمه الّذین یستنبطونه منهم
)
...) (نسا ئ ٨٣)
''اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر آتی ہے تو اسے فوراً نشر کردیتے ہیں (تاکہ دشمن آگا ہوجائیں) حالانکہ اگررسول اور صاحبان امر کی طرف پلٹا دیتے تو ان سے استفادہ کرنے والی حقیقت حال کا علم ہوتا... ''
یہ آیہ مبارکہ بدر صغری کی داستان بیان کرتی ہے کہ جنگ احد کی روداد کے بعد مسلمانوں کی پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حکم کی نافرمانی کے نتیجہ میں شکست سے روبرو ہونے کے بعدآخر میں اللہ تعالی نے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی مددکی تاکہ وہ اپنے مختصر سپاہیوں کے ذریعہ دشمنوں پر فتح پاسکیںاور اسلام کو قطعی نابودی سے نجات دیں،منافقین دشمن کی طاقت کو بیان کرنے اور جنگ احد میں ان کی فتح یابی کا ذکر کرکے مسلمانوں اور پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اصحاب کے دلوں میں شک و شبہ پیدا کرنا چاہتے تھے او راپنی افواہ سے مومنوں کو گمراہ کرناچاہتے تھے، ان کامقصد رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی مخالفت کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
اس آیہ مبارکہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ خوف و امن کے بارے میں جو کچھ منافقین کو پہنچتاتھا وہ اسے نشر کردیتے تھے، سے مرادوہ افواہ ہیں جو کفار اوران کے چیلوںکے ذریعہ ایجاد کی جاتی تھیں تا کہ مومنین میں نفاق اور اختلاف پیدا کریں ، ضعیف الایمان مومنین بھی انھیں نشر کرتے تھے اور اس کی پروا نہیں کرتے تھے کہ ان خبروں کا پھیلنا مسلمانوں میں سستی اور عدم استحکام ایجاد ہونے کا سبب بنے گا۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
جنگ احد میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد ہمیشہ لوگوں کو کفار سے جہاد کرنے کی دعوت دیتے تھے اور کچھ لوگ اس کوشش میں تھے کہ مومنوں کو جہاد میں شرکت کرنے اور پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی مدد کرنے سے لوگوں کو روکیں اور اس غرض سے افواہ پھیلاتے تھے کہ مشرکین تمھارے خلاف لشکر جمع کررہے ہیں ، خدائے متعال مسلمانوں کو اطمینان دلاتاہے کہ یہ ڈرانااور افواہ شیطان کی طرف سے ہے اور یہ شیطان کی باتیں ہیں جو اس کے دوستوں کے منہ سے باہر آتی ہیں ، اور اس کے بعد مومنوں پر واجب کرتاہے کہ ان افواہ پھیلانے والوں سے نہ ڈرو اگر خدا ئے متعال پرایمان رکھتے ہو تو صرف اسی سے ڈرو ۔
آج کل کی دنیا میں ، خاص کر انقلابی ممالک بالاخص ہمارے ملک (ایران) میں ، جو اکیلے ہی دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے مقابلہ میں کھڑاہے اور کوشش کرتاہے کہ اپنی آزادی کو تحفظ بخشے اور اپنے تمام وجودسے اسلامی اور انقلابی قدروں کی حفاظت کرے، افواہ پھیلانے والوں کارواج ہے ۔ منافقین او رانقلاب دشمن عناصر، لوگوں کے آپسی اتحاد میں رخنہ اندازی کرتے ہیں اور انھیں انقلاب کے مقاصد اور نتائج سے میں بد ظن کرنے کے لئے ، افواہ ہیں گڑھتے ہیں اورکر انھیں نشر کرتے ہیں ۔
افسوس ہے کہ جب ناآگاہ لوگ ان افواہوں کو سنتے ہیں تو مخالف اغراض کے لئے ان افواہوں کو دست بہ دست پھیلا تے ہیں ۔ شاید وہ ان افواہوں کو نقل کرنے میں کوئی برا مقصد نہ رکھتے ہوں کوئی شخص کسی دوست کے پاس بیٹھ کر مختلف گفتگو کی بعد ایک افواہ کو بھی نقل کردے۔
انسان اگر افواہ کو نقل کرنے میں کوئی بُرا ارادہ حتی خودنمائی کامقصد بھی نہ رکھتاہو،پھربھی اسے سوچناچاہئے کہ اس خبر کو نقل کرنے میں کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں، اس کے علاوہ اسے سوچناچاہئے کہ کیا اس افواہ کی کوئی بنیاد بھی تھی یا نہیں؟ شاید جس نے اس افواہ کو میرے لئے نقل کیا ہے ، اس نے غلطی کی ہوگی یا کسی دوسرے نے وہ جھوٹی خبر اسے پہنچادی ہوگی لہذا ہمیں خبر کو پیش کرنے سے پہلے اس کی حقیقت کے بارے میں تحقیق کرناچاہے اور ہمیں دقت اور غور و خوض کے بعد خبر کو نقل کرنا چاہئے تا کہ اگر کوئی ہماری بات کو سنے ہم پر اطمینان کرے اور کہے کہ فلاںکی بات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتاہے اور جو کچھ وہ کہتا ہے وہ ۔ صحیح ہے اور وہ سوچے سمجھے بغیر بات نہیں کرتا ہے۔
انسان کو صحیح اور سوچ سمجھ کربات کرنی چاہئے تا کہ لوگ اس پر اعتماد کریں اور وہ لوگوں کے اعتماد کے سائے میں معاشرے میں بلند مقام حاصل کرے۔اگر کوئی معاشرے میں بلند مقام پانے کی فکر میں ہے اسے کوشش کرناچاہئے کہ اس مقام کومعاشرہ میں اعتمادکے ذریعہ حاصل کرے اور اپنی ایسی حیثیت بنائے کہ لوگ اس کی رفتار و گفتار پر پوری طرح اعتماد کریں او رکہیں : فلاں بیہودہ باتیں نہیں کرتا ہے اس کی باتیں سچی اور صحیح ہوتی ہیں، ایسی حیثیت دنیوی اور اخروی لحاظ سے فائدہ مند ہے، کیونکہ دنیوی پہلو سے صداقت اور راست گوئی کے عنوان سے مشخص ہے اور اخروی لحاظسے بھی خدا کی خوشنودی اور بہشت کے بلند درجات کی صورت میں اس کا نفع ہو گا۔
لہٰذا ہمیں کسی بھی بہانہ سے سنی سنائی باتوں کو نقل نہیں کرنا چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ غور و خوض نہ کرنے کی وجہ سے ہم جو کچھ سنتے ہیں اس میں کچھ تصرف بھی کرتے ہیں یا ان میں کمی کرتے ہیں یااس میں کچھ بڑھادیتے ہیں، ہر صحیح اور درست مطلب کو بیان کرنا بھی صحیح نہیں ہے، ممکن ہے ایک سچی بات کو نقل کرنے میں مصلحت نہ ہو، ممکن ہے اس سے کسی کی آبرو خطرہ میں پڑجائے جو حرام او رناپسندیدہ ہے اور خدائے متعال کے غضب کا سبب بنے ، اس کے علاوہ بعض افواہیں ضعیف النفس اور سست ایمان افراد حکومت اور حکومت کے اراکین سے بدظن کرنے کا سبب واقع ہو لہذا بعض خبروں کو نقل کرتے وقت مصلحتوں کو مد نظر رکھناچاہئے۔ ہمیں فکر کرنی چاہئے کہ اس کا نقل کرناکوئی فائدہ رکھتا ہے یا نہیں؟مخاطب خبر کو برداشت اور قبول کرنے کی ظرفیت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ کیاوہ خبر کو دوسروں کے لئے نقل کرنے میں احتیاط اور دقت سے کام لیتاہے یا ہر جگہ ضرورت اور بے ضرورت نقل کرتاہے اور خبر کو کسی قسم کی کمی و بیشی کے ساتھ نقل کرتا ہے یا اسے کئی گنا بڑھاکر ہرایک کے لئے نقل کرتا ہے اور اس خبر کے نشر ہونے کے نتیجہ میں حکومت کمزور ہوگی، لوگوںکاحکومت کے بارے میں اعتماد ضعیف ہو جائے گا۔
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبراسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں:
''یا اباذر؛ ما من شی ئٍ احقُّ بطول السجن من اللِّسان''
''اے ابوذر !قید کی جانے والی ا شیاء میں زبان سے زیادہ سزاوارکوئی چیز نہیں ہے''
یہ بیان پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی طرف سے ایک دستور تربیت ہے جوانسان کوبات کرنے میں زیادہ سے زیادہ دقّت اور احتیاط کرنے اور زبان کو قید میں رکھنے کی تاکید کرتاہے تاکہ وہ بے جا بات نہ کرے۔بعض علمائے اخلاق فرماتے تھے: خدائے متعال نے زبان کے سامنے دانتوں کو اور دانتوں کے سامنے ہونٹوں کو قرار دیا ہے ، حقیقت میں ہونٹوں اور دانتوں کو خلق کرنا ایک اشارہ ہیکہ ہم ان کے پیچھے اپنی زبان کو قید کئے رہیں۔
____________________