تینتیسواں درس
زبان کو محفوظ رکھنے کی ضرورت او راس کے آفات کی مذمت
* اعمال کا ایک دوسرے کے مقابل اثر احتیاط و تکفیر
*دوسروں کی عیب جوئی کرنے کی مذمت
*چاپلوسی او ر بے جا ستائش کی مذمت
*دوسروں کی طعنہ زنی اور زخم زبان کی مذمت
*اپنی بات پرھٹ دھرمی کرنے کی مذمت
زبان کو محفوظ رکھنے کی ضرورت او راس کے آفات کی مذمت
''یا اباذر؛ ما عمل من لم یحفظ لسانه. یا اباذر؛ لاتکن عیّابا و لا مدّاحاً و لا طعّاناً و لا مماریاً، یا اباذر؛لایزال العبد یزداد من اللّٰه بعدا ما ساء خلقه''
''اے ابوذر! جو اپنی زبان کو کنٹرول نہ کرتا ، اس کا نیک کا م ضائع ہوجاتاہے۔ اے ابوذر! عیب جوئی ،بے جا تعریف، جھگڑالو، اور طنز گوئی کے مرتکب نہ ہونا۔ اے ابوذر ! جب تک انسان بد اخلاق رہتاہے خدائے متعال سے دور ہوتا ہے۔''
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحتوں کا یہ حصہ زبان سے مربوط ہے۔ (جیسا کہ ملاحظہ ہو رہا ہے کہ یہ فقرے موضوع کے لحاظ سے پہلے او ربعد والے جملوں سے کوئی ربط نہیں رکھتے ہیں، لگتا ہے کہ نقل میں آگے پیچھے ہوگئے ہیں اور ان فقروں کا ذکر زبان سے متعلق نصیحتوں کے بعد آنا چاہئے تھااس سے پہلے جملہ ان من اجلال اللّٰہ ذکر کیا گیا ہے میرے خیال میں لگتا ہے کہ جملہ انّ من اجلال اللّٰہ کو نقل کرنے میں مقدم کر دیا گیا ہے)
اعمال کا ایک دوسرے کے مقابل اثر یا احباط و تکفیر:
ان بیانات میں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گفتگو کرنے میں احتیاط کی اہمیت کو ایک دوسرے طریقہ سے بیان فرمایا ہے۔ یہ اس جہت سے ہے کہ انسان اپنی زبان کو کھلی ڈھیل نہ دے کہ جو جی چاہے بول دے اور جو زبان پر آئے بک دے بلکہ زبان پر تالا لگائے اور فکر کرے۔ چونکہ انسان کے لئے بات کرنابہت آسان ہے، کبھی معمولی اور چھوٹے اغراض بھی زیادہ باتیں کرنے اور دوسروں کی بدگوئی کرنے کاسبب بنتے ہیں۔بزرگان دین نے کوشش کی ہے کہ مختلف تعبیروں اور طریقوں سے ہمیں اس بات کی تاکید کریں کہ ہم اپنی زبان کے بارے میں ہوشیار رہیں اور اسے آزادنہ چھوڑیں ۔ انھیں تعبیرات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ نصیحت بھی ہے کہ جس نے اپنی زبان کو کنٹرول نہیں کیا اس نے کوئی عمل انجام نہیں دیا ہے۔ شاید اس بات میں یہ نکتہ پوشیدہ ہوکہ زبان انسان کی روح میں ایسے شر پسند عناصر کو جنم دیتی ہے کہ جوانسان کے تمام اعمال کو نابود کردیتے ہیں چونکہ آیات و متواتر روایات میں آیا ہے کہ انسان کے اعمال ایک دوسرے میں اثر ڈالتے ہیں، کبھی انسان ایک فعل انجام دیتاہے لیکن اس کے بعد جو فعل انجام دیتا ہے وہ پہلے والے فعل کی خاصیت کو بدل کے رکھ دیتا ہے اور اس میں ایک ایسا اثر ڈالتا ہے کہ اس کا اپنا اثر نابود ہوتاہے، خواہ وہ اثر اچھا ہو یا بُرا۔
علم کلام کی کتابوں میں ''احباط و تکفیر'' کے عنوان سے ایک بحث پیش کی گئی ہے۔''حبط'' نیک کاموں کے بے اثر ہونے کے معنی میں ہیں۔یعنی انسان کے بُرے کام اس کے اچھے کام کو حبط و ضائع کردیتے ہیں اور انھیں بے فائدہ او ربے نتیجہ کرڈالتے ہیں. اور ''تکفیر'' گناہوں کی تلافی کے معنی میں ہے اور یہ اچھا اور پسندیدہ عمل ہے، او رپہلے والے کام کے نقص کی تلافی کرتاہے۔ چونکہ ہمارے تمام اعمال کی بنیاد ایمان وکفر پر ہے، لہذا ''احبا ط و تکفیر '' کے واضح ترین مصداق ایمان و کفر ہیں:
انسان جو گناہ او ربُرے اعمال کے بعد ایمان اور صالح عمل انجام دیتا ہے، وہ اپنے گزشتہ کفرو ناشائستہ عمل کی تلافی کرتاہے اور روشن نور کی طرح گزشتہ کی تاریکیوں کو زائل کردیتاہے اور اس کے بر عکس کفرا ور ناشائستہ اعمال ، گزشتہ نیک اعمال کو نابود کرکے رکھ دیتے ہیں اور انسان کے ریکارڈ کو سیاہ اور اس کے انجام کو تباہ کر دیتے ہیں یہاں تک کہ خرمن میں لگی آگ کی طرح سب کچھ خاکستر ہو جاتا ہے۔دوسرے الفاظ میں ، ایمان اس نوارنی چراغ کے مانند ہے جو دل اور روح کے گھر کو روشن اور منور کر دیتا ہے اور تاریکیوں اور سیاہیوں کونابود کر دیتا ہے اور کفر اس چراغ کے بجھنے کے مانند ہے کہ جس کی وجہ سے تمام روشنی ختم ہو جاتی ہے اور تاریکیاں پھیل جاتی ہیں۔ جب تک انسان کی روح اس تغیر ہونے والی شیٔ سے تعلق رکھتی ہے ہمیشہ روشنی و تاریکی ، نور و ظلمت کی کمی بیشی سے د وچار ہوتی رہتی ہے،یہاںتک اس دنیا سے رخصت ہوجائے اور اس پر ایمان و کفر کو انتخاب کرنے کی راہ بند ہوجائے ، پھر جس قدر بھی دوبارہ اس دنیا میں آکرتاریکیوں کو دور کرنے کی آرزو کرے گا، کوئی فائدہ نہیں ہوگا:
(
حتی اذا جاء احد هم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فیما ترکت کلا انها کلمة هو قائلها ومن ورائهم برزخ الی یوم یبعثون
)
(مؤمنون /٩٩و١٠٠)
''یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹادے، شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں(ان سے کہا جائے گا) ہرگز نہیںایسا ہر گز نہیں ہو سکتا جو یہ کہہ رہا ہے وہ حسرت کی بنا پر اور اس کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والاہے''
قرآن مجید کے نقطۂ نگاہ سے ایمان و کفر کے درمیان اس تاثیر وتاثّر میں کسی قسم کے شک اور تذبذب کی گنجائش نہیں ہے۔ اس مطلب کی دلالت میں فراوان آیتیں موجود ہیں، من جملہ خدائے متعال فرماتاہے:
(
ومن يؤمن باللّٰه و یعمل صالحاً یکفّر عنه سیئاته
)
(تغابن/٩)
''اور جو اللہ پر ایمان رکھے گااور نیک اعمال انجام دے گا، خدا اس کی برائیوں کو دور کرے گا''
ایک اور جگہ پر فرماتاہے:
(
ومن یرتدد منکم عن دینه فیمت و هو کافر فاولئک حبطت اعمالهم فی الدّنیا و الآخرة و اولئک اصحاب النار هم فیها خالدون
)
(بقرہ/٢١٧)
''اور تم ہی سے جو اپنے دین سے پلٹ جائے او رکفر کی حالت میں مرجائے اس کے سارے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوجائیں گے اور وہ جہنمی ہوگا اور وہیں ہمیشہ رہے گا''
ایمان و کفر کے درمیان جیسا رابطہ اجمالی طور پر نیک و بد کاموں میں بھی موجود ہے، لیکن کلی طور پر اور ایسا نہیں کہ انسان کے نامہ اعمال میں ہمیشہ یا نیک کام درج ہوں گے اور اس کے گزشتہ بُرے اعمال نابود ہوجائیں گے یا بُرے کام محفوظ ہوں گے اور اس کے گزشتہ نیک اعمال نابود کردیئے جائیںگے، بلکہ اعمال کے بارے میں تفصیل کا قائل ہونا چاہئے ، اس معنی میں کہ بعض نیک اعمال اگر قابل قبول اور شائستہ صورت میں انجام پائیں گزشتہ برے اعمال کے آثار کو نابود کردیتے ہیں، جیسے توبہ اگر مطلوب صورت میں انجام پائے، توانسان کے گناہ بخش دیئے جائیں گے:
(
ومن یعمل سوء او یظلم نفسه ثمّ یستغفر اللّٰه یجد اللّٰه غفوراً رحیماً
)
(نسائ/١١٠)
''اور جو بھی کسی کے ساتھ برائی کرے گا یا اپنی نفس پر ظلم کرے گا اس کے بعد توبہ و استغفار کرے گاتو خدا کو غفور و رحیم پائے گا''
مزید فرماتاہے:
(
والذین اذا فعلوا فاحشة او ظلموا انفسهم ذکروااللّٰه فاستغفروا لذنوبهم و من یغفر الذنوب الا اللّٰه ولم یصرّوا علی ما فعلواوهم یعلمون
)
(آل عمران /١٣٥)
''نیک لوگ وہ ہیں کہ جب کوئی نمایاں گناہ کرتے ہیں یا اپنے نفس پرظلم کرتے ہیں تو خدا کویاد کرکے اپنے گناہوںپر ستغفار کرتے ہیںاورخدا کے علاوہ کون گناہوں کا معاف کرنے والاہے اور وہ اپنے برے عمل پر جان بوجھ کراصرار نہیں کرتے اس لئے کہ گناہ کی پلیدی سے آگاہ ہیں''
پس توبہ بالکل نور کی شعاع کے مانند ہے جو درست تاریکی کے نقطہ پر چمکتی ہے اور اسے روشن کرتی ہے۔ پس ایسا نہیں ہے کہ ہرنیک عمل تمام گناہ کے اثر کونابود کردے، اس لحاظ سے ممکن ہے مومن شخص ایک مدت تک گناہ کے عذاب میں گرفتار رہے اور سرانجام ہمیشہ کے لئے بہشت میں داخل ہوجائے۔
گویا انسان کی روح کے مختلف اور گوناگوں رخ ہیںا ور نیک و بد اعمال کاہر مجموعہ ان کے ایک پہلو سے مربوط ہوتاہے۔مثلا جو نیک عمل کا پہلو ''الف'' سے مربوط ہے، وہ ''ب''کے پہلو سے ربط رکھنے والے گناہ کے اثر کو نابودنہیں کرسکتا، مگریہ کہ عمل صالح اس قدر نوارنی ہو کہ روح کے دوسرے جوانب پر بھی سرایت کرے ، یا گناہ اس قدر آلودہ کرنے والاہو کہ روح کے تمام رخ کو بھی آلودہ کردے۔ مثلاً نماز کے بارے میں قرآن مجید میں آیاہے:
(
وأقم الصلوة طرفی النهار و زلفا من الّیل انّ الحسنات یذهبن السیئات
)
(ھود/١١٤)
''اوراے پیغمبر ! آپ دن کے دونوں حصہ میں اور رات گئے نماز قائم کریں بیشک نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں''
عاق والدین اورشراب نوشی جیسے بعض گناہ ایکحد (مدت) تک عبادت کے قبول ہونے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شراب نوشی کے نامطلوب اثر کے بارے میں فرماتے ہیں:
''اقسم ربّی جل جلاله فقال: لایشرب عبدلی خمرا فی الدنیا الا سقیته یوم القیامه مثل ماشرب منها من الحمیم....''
''میرے پروردگار نے قسم کھائی او رفرمایا: میرا بندہ دنیا میں شراب نہیں پیتا ہے مگر یہ قیامت کے دن اسے اسی مقدار میں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گاجتنی کہ اس نے شراب پیہے۔''
مناسب ہے اس بات کی طرف اشارہ کریں کہ نیک و بد اعمال ، بعض اوقات خوشی و غم یا توفیق او رسلب توفیق جیسے اور دوسرے امور میں اسی دنیا میں مؤثر ہوتے ہیں، چنانچہ دوسروں کااحسان، خاص کرماں باپ اور رشتہ داروں کا احسان عمر کے طولانی ہونے اور آفات و بلیات سے
دور ہونے کاسبب ہے۔ اسی طرح دوسروں کی بے احترامی خاص کراستاد کی بے احترامی ، سلب توفیق کاباعث ہے۔
جی ہاں، بعض اوقات نیک کام، گزشتہ برے کاموں کی تلافی کرتے ہیں اور کبھی برے کام گزشتہ نیک اعمال کونابود کر دیتے ہیں۔ جب تک انسان اس دنیا میں ہے اس کے اعمال میں یہ تاثیر و تاثرات موجود ہیں۔ بعنوان تشبیہ ، انسان کے دل و روح کاگھرایک کمرے کے مانند ہے، کبھی وہ کمرہ تاریک ہے اور ایک نور روشن ہوتاہے اور اس کی تاریکی کوختم دیتا ہے اور کبھی وہ کمرہ روشن ہے اور ہواکا ایک جھونکاآتاہے اور اس چراغ کو بجھادیتاہے۔
پس جب تک انسان اس دنیا میں ہے یہ تحولات اور تغیر ات پیش آتے رہیںگے اور ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی نیک کام انجام دیا اس کااثر ابدتک باقی رہے گا، بلکہ ممکن ہے ایک ناشائستہ عمل سے اس کا اثر ضائع ہو جائے. پس اعمال کا ایک دوسرے پر اثر ڈالنا ایک کلی قاعدہ ہے کہ اس کی بنا پر بعض گناہ گزشتہ نیک اعمال کے اثرات کونابود کردیتے ہیں یا حتی آئندہ انجام پانے والے نیک کام کے قبول ہونے ہیں رکاوٹ بنتے ہیںچنانچہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ بعض گناہ اس بات کا سبب ہیں کہ انسان کانیک عمل اور اس کی نمازیں چالیس روزتک قبول نہ ہوں:
''من اغتاب مسلما اومسلمة لم یقبل الله تعالی صلاتة و لا صیامه اربعین یوماً ولیلة الا ان یغفرله صاحبه''
''جو شخص کسی مسلمان مرد یا عورت کی غیبت کرے، چالیس دن رات تک خدائے متعال اس کی نماز وروزے قبول نہیں کرتاہے، مگر جس کی غیبت کی ہو وہ اسے بخش دے۔''
یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا ہے:
''اطب کسبک تستجاب دعوتک فان الرجل یرفع اللقمة الی فیّه حراما''فما تستجاب له دعوة اربعین یوما''
''اپنے کسب و معاش کو پاک کرتاکہ تمھاری دعا قبول ہو، بیشک انسان جب لقمہ حرام کھاتاہے تو چالیس دن تک اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے''
یا شراب نوشی کے بارے میں فرمایاہے:
''من شربها لم تقبل له صلاة اربعین یوماً ''
''شراب پینے والے کی نماز چالیس روز تک قبول نہیں ہوتی''
حدیث کے اس حصہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کا مضمون یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی زبان پر قابونہ پائے اور جو زبان پر آئے اسے کہہ ڈالے تو کوئی عمل اس کے لئے باقی نہیں بچے گا، یعنی انسان کی زبان میں ایسا اثر ہے کہ انسان کے تمام گزشتہ اعمال کو نابود کردے۔ یہ انسان کے لئے ایک انتباہ ہے کہ منہ میں موجود اس چھوٹیسے گوشت کے ٹکڑے کو معمولی نہ سمجھے اور بات کرنے سے پہلے اس پر غور کرے اور دیکھ لے کہ جس بات کو کرنا چاہتاہے اس کاکیا اثر ہوگا، کیا خدا اس سے راضی ہے؟ کیا اس کی یہ بات انسان کی روح پر اچھا اثر ڈالتی ہے یا بُرا اثر؟
اس کلی نصیحت کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زبان کے بعض گناہوں کو بیان فرماتے ہیں۔ طبعی طور پر زبان کے بعض گناہوں کاذکر اس کے اس فراوان نقش کے پیش نظر ہے جووہ انسان کی ہویت میں تغیر پیدا کرنے اور اسے گرانے میں رکھتے ہیں اس کے علاوہ اس لئے بھی ہے کہ انسان کے لئے ہمیشہ اس سے آلودہ ہونے کا خطرہ ہے۔
دوسروں کی عیب جوئی کی مذمت:
بُری صفتوں میں سے ایک صفت، جس کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذکر فرمایاہے، دوسروں کی عیب جوئی کرناہے۔بیشک عیب جوئی ایک ناپسندیدہ اور غیر شائستہ عادت ہے۔ دشمنی اور حسد کی وجہ سے لوگوں کے عیب اور لغزشوں کی جستجو کرنے اور پھر انھیں بر ملا کرنے کو عیب جوئی کہتے ہیںاور انسان اس کام سے لذت محسوس کرتاہے۔ آیات و روایات میں اس پست خصلت کی سرزنش کی گئی ہے، ہم ان افراد کی تحقیق کریں گے جو مسلمانو ں کی عیب جوئی کرکے انھیں رسوا کرنے کے در پے تھے، یہ خبیث ترین اور بدترین لوگ ہیں، چنانچہ خدائے متعال فرماتاہے:
(
ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشة فی الذین آمنوا لهم عذاب الیم فی الدنیا والاخرة
)
(نور/١٩)
''جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبان ایمان میں بدکاری کا چرچاپھیل جائے ان کے لئے بڑادردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔''
اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
''من اذاع فاحشة کان کمبتدئها ومن عیّر مومناً بشی ئٍ لم یمت حتی یرتکبه''
''جو شخص کسی کے ناشائستہ عمل کو ظاہر او رنشر کرے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے خود اس نے وہ عمل انجام دیاہے اور جو شخص کسی مومن کواس کے عیب کی وجہ سے سرزنش کرے گاوہ شخص تب تک نہیں مرے گا جب تک اسی عیب کا مرتکب نہ ہوجائے گا''
منجملہ محرکات جوانسان کو دوسروں کی عیب جوئی کرنے پر مجبور کرتے ہیں احساس کمتری ہے۔جب انسان میں کوئی کمی ہوتی ہے اور حقیر اور پست ذہنیت کا مالک ہوتا ہے اپنے دل میں اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ دوسروں کے کما لات کو دیکھ کر برداشت کرے، اس لئے کوشش کرتاہے کہ دوسروں کی شخصیت کو داغدار بنائے اوران کے کمالات کو کم کرکے پیش کرے۔ کوشش کرتا ہے کہ دوسروں میں کوئی کمزور نکتہ پیدا کرے تاکہ اسے لوگوں میں پیش کرسکے۔ جب بھی کسی کی بات چھڑتی ہے، بجائے اس کے کہ اس کی زندگی کے مثبت نکات بیان کرے اس کے عیب بیان کرتاہے۔
جب ایک مجلس میں کسی مومن کانام لیاجاتاہے کچھ افراد اسلامی آداب و تقوی کی بنا پر کوشش کرتے ہیں کہ اس کے اچھے او رپسندیدہ صفات کو بیان کریں او راس کے مقابلہ میں کچھ افراد اپنے ایمان کی کمزوری، حسد اور احساس کمتری کی بناپر اس کے کمزور اور منفی نکات ، اس کی لغزشوں اورکوتاہیوں کو بیان کرتے ہیں۔ حتی کبھی اس سے بڑھ کر مشکوک اور مشتبہ امور کی اس کی طرف نسبت دے کر اسے یقین کی صورت میں پیش کرتے ہیں، اور بعض اوقات تہمت لگانے سے بھی فروگذاشت نہیں کرتے۔
یہ ایک بری خصلت ہے کہ انسان دوسروں کے ضعف کو ذکر کرنے کی کوشش کرے۔افسوس ہے کہ اس آفت میں مبتلا افراد فراواں ہیں او رہر ایک اپنے آپ کی آزمائش کرسکتاہے کہ جب کسی مومن بھائی یادوست کانام لیاجاتا ہے ، خاص کر اگر اس مومن کے ساتھ اس کی رقابت ہے ، وہ مختلف طریقوں سے دوسروں کویہ سمجھانے کی کوشش کرتاہے کہ فلاں شخص میں یہ یہ عیب موجود ہیں!
فطری طور پر انسان کو دیکھناچاہئے کہ جب کسی شخص کانام لیاجاتاہے توکیاوہ اس کی نیک صفات بیان کرکے دوسروں کے سامنے اس کی ستائش کرتاہے اور لوگوں کی نگاہوں میں اسے محترم بیان کرتاہے، یا جب کسی کانام لیا جاتاہے تو اس کی بری صفتیں بیان کرکے اسے حقیر بناکرپیش کرتاہے۔ یہاںانسان میں ایک بہت بڑی کمزوری اور اس کاسرچشمہ ، جیسا کہ بیان ہوا، حسد اور احساس کم تری ہے یعنی دوسرے فلاں صفات کے مالک کیوں ہیں وہ اس پر وہ رنجیدہ ہے اور برداشت نہیں کرتاہے کہ دوسرے مالدار ہوں او روہ اس سے محروم رہے۔
ہمیں توجہ رکھنی چاہئے کہ بہت اچھا ہے کہ ہماری حالت ایسی ہو کہ مومن کانام لیتے وقت اس کی خوبیوں کو شمار کرے، اگر چہ بعض اوقات شرائط او رمحرکات کاتقاضا ہوتاہے کہ انسان دوسروں کے عیب ذکر کرے، مثال کے طور پر انسان مشاورت کی ذمہ داری انجام دیتاہے، ایسی حالت میں اگر کوئی کسی کے بارے میں بہ طور تحقیق پوچھ رہا ہے تو یہاں پر اسے اس کاعیب بتانا ضروری ہے، البتہ ایسے موقع استثناہیں۔
دوسروں کے پاس مال یا کسی اور صفات کے پائے جانے سے ہمیں رنجیدہ نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں جاننا چاہئے کہ مومن کا اصل سرمایہ خدا سے رابطہ ہے اور مومن اس کے علاوہ کسی اور سرمایہ کو نہیں جانتا ہے۔ اگر انسان اس قسم کے سرمایہ کامالک ہو گیا تو وہ اپنی روح میں ایک ایسی عظمت کا احساس کرتاہے کہ دوسری عظمتیں اور سرمائے اس کی نظر میں حقیر ہوجاتے ہیں۔ وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتاہے جہاں عظمت کے ایک بے انتہا سمندر میں غرق ہوکر ناقابل توصیف مسّرت اور لذت کا احساس کرتا ہے، پھر اس کے لئے اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ دوسرے لوگ اس کا احترام کریں یا نہکریں اس کی ستائش کریں یا سرزنش ۔ یقینا اس قسم کا انسان جس کے دل میں ایمان کانور روشنہے، مومنوں کے احترام کی فکر میں ہوتاہے، کیونکہ وہ اس کام کو خدا کی خوشنودی اور اس کے تقرب کاسبب جانتاہے۔
مومن کا سرمایہ صرف ایمان کا ہوناہے۔اس کی توجہ خدا پر ہوتی ہے وہ نہ لوگوں کے احترام کرنے پر خوش ہوتاہے اورنہ ان کی طرف سے بے احترامی پررنجیدہ ہوتا ہے، اس کے مقابلہ میں جو کمی کااحساس کرتے ہیں او رایمان جیسے سرمایہ سے محروم ہیں، اپنی شخصیت کی عظمت اور اپنے وجودی سرمایہ کو لوگوں کی طرف سے کئے جانے والے احترام کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔وہ چیز جسے آج کل ''اجتماعی شخصیت'' کہتے ہیں، یعنی اپنی شخصیت کو دوسروں کی جانب سے کئے جانے والے فیصلہ کے آئینہ میں دیکھتے ہیں اور اجتماعی عظمت بخشنے کو اپنا سرمایہ جانتے ہیںاگر دوسرے ان کی تعریف کریں تو اپنے کو محترم تصور کرتے ہیں اور اگر وہ سرزنش اور مذمت کریں تو خود کو گھٹیا اور سماج میں گراہوا پا تے ہیں اور جب مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوگ ان سے بد ظن ہورہے ہیں تو فکر کرتے ہیں کہ سب کچھ لٹ گیا ہے۔ اب جو مال اور مادی کمیوں سے دوچار ہیں۔ جیسے علم ، کمالات، ثروت اور دنیوی وسائل ۔وہ دوسروں کی برتری کو نہیںدیکھ سکتے، اس لئے کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کے کمالات کو شک و شبہ میں ڈال کر خدشہ دار کریں ، یہ عیب جوئی کرنے والے کی فطری خصلت ہے کہ وہ دوسروں کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے ایسا شخص اپنی دنیوی و اخروی سعادت کو خطرہ میں ڈالتا ہے اور ایک مومن کے عیب کو برملا کرکے قہر الہی میں مبتلا ہوجاتاہے۔
حضرت علی علیہ السلام دوسروں کی عیب جوئی اور غیبت کی نہی کرتے ہوئے انسان کی اپنی کمیوں سے غفلت کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''یا عبداللّٰه لا تعجل فی عیب احد بذنبه فلعلّه مغفور له، و لا تامن علی نفسک صغیر معصیتک فلعلک معذّب علیه فلیکفف من علم منکم عیب غیره لما یعلم من عیب نفسه...
''
اے بندہ خدا! گناہ انجام دینے والے کے عیب کو بیان کرنے میں جلدی نہ کرنا، شاید اسے بخش دیاگیا ہواپنے چھوٹے گناہ کے بارے ہوشیار رہنا، شاید تجھے اس کے لئے عذاب میں مبتلا کیا جائے ، پس اگر تم میں سے کسی دوسرے کے عیب کے بارے میں علم رکھتا ہے تو وہ اپنے آپ میں پائے جانے والے عیب کے پیش نظر اس کو بیان کرنے سے پرہیز کرتا ہے۔
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
''من نظر فی عیب نفسه اشتغل عن عیب غیره''
''جو اپنے عیب پر نظر ڈالتا ہے وہ دوسروں کے عیب کو نہیں دیکھتا ۔''
مذکورہ مطالب کے پیش نظر بجاہے کہ ہم دوسروں کی عیب جوئی کرنے سے پرہیز کریں اور دوسروں کی شخصیت کو داغدا رنہ بنا ئیں ۔ہمیں جاننا چاہئے کہ معاشرے میں عیب جوئی کو رواج دینے سے معاشرے کی بنیاد متزلزل ہو کر اس کا شیرازہ بکھر جاتاہے۔اسی طرح عیب جوئی معاشرے میں بد ظنی ، عداوت ، دشمنی نیز عزت کو پامال کرنے کا باعث بنتی ہے، اس کی وجہ سے انسان اتنا گرجاتاہے کہ وہ دوسروں کی شخصیت کو پامال کرنے ہی کو اپنی عظمت اور بزرگی سمجھتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں عیب جوئی کی آفت کے پھیلنے سے اخلاقی حدود پارہ پارہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ آفت گناہ کرنے پر اکساتی ہے ان تمام لوگوں میں جو سماجی لحاظ سے بہت سے گناہوں سے پرہیز کرتے تھے مشتعل کرکے انھیں قوت بخشتی ہے۔
چاپلوسی اور بے جاستائش کی مذمت :
جن ناپسند یدہ صفات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیان فرمایاہے ان میں سے ایک دوسروں کی ستائش اور بے جا تعریف کرنا ہے۔ کا سہ یسی اور خوشامد بھی عیب جوئی کی طرح انسان کی شخصیت کی کمزوری او راحساس کم تری کی پیداوار ہے۔ حقیقت میں یہ ان لوگوں کی خصلت ہے جو اپنی احساس کم تر ی کی تلافی کی جستجو میں دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ شاید دوسروں کی بے جا ستائش سے اپنے لئے ایک برتر حیثیت پیدا کرسکیں۔ یہ خصلت خود فروش اور کمزور ایمان والے افراد کی ہے کہ پروردگار عالم کی لازوال قدرت و مملکت پر نظر نہیں رکھتے ، اس لئے دوسروں پرطمع آمیز نظریں رکھتے ہیں اور اپنی عزت و سرداری کی درخواست بارگاہ الہی کے حقیقی فقیروں سے کرتے ہیں۔ اگر کسی نے غنی مطلق کی بارگاہ کی طرف رخ کیا اور سرچشمہ ھستی سے مدد طلب کی تووہ لالچ ، چابلوسی او ردوسروں کی ستائش کا سہارا نہیں لیتا ہے۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں کہ صرف خدائے متعال حمدو ستائش کاسزاوار ہے، فرماتے ہیں:
''اللّٰهم انت اهل الوصف الجمیل و التعداد الکثیر ان تومل فخیر مؤمل وان تُرْجَّ فاکرم مرجو، اللهم و قد بسطت لی فیما لا امدح به غیرک ولا اتنی به علی احد سواک... و عدلت بلسانی عن مدائح الآدمیّین و الثناء علی المربوبین المخلوقین...
''
''خداوند ا ! صرف تو ہی نیک اوصاف کی ستائش اور بی انتہا نعمتو ںکو گننے کا سزوار ہے۔ اگر تجھ سے امیدیں باندھی جائیں توتویقینا بہترین ہے کہ جس سے امیدیں باندھی جائیں او راگر تجھ سے امیدوار ہوا جائے تو تو محترم ترین ہے کہ جس سے امید کی جائے۔ خدواندا !تم نے مجھ کو اپنی بہت سی نعمتوں سے نوازا اورمجھی ایسی زبان عطا کی کہ اس سے تیرے سواکسی کی ستائش نہ کروں لوگوں کی ستائش او رمخلوق کی ثنا خوانی سے میری زبان کو محفوظ رکھ۔''
کبھی انسان خدا کی خوشنود ی اور مومنوں کے احترام کے لئے کس مومن کی ستائش کرتے ہوئے اس کی خوبیاںبیان کرتاہے، لیکن کبھی لالچ اور نفسانی خواہشات کی بنا پر دوسروں کی ستائش کرتاہے تاکہ اس کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرسکے اور ضرورت کے وقت وہ اس کی مادی مدد کرے، اسیا شخص در حقیقت اپنے عمل سے دوسروں کو بہ طور قرض روٹی دیتا ہے۔
چاپلوسی کی ذہنیت انسان کی بُری صفتوں میں سے ایک ہے اور یہ صفت خدا پر ایمان رکھنے سے ہما ہنگ و سازگار نہیں ہے ۔چونکہ جب انسان اپنے مقدر کو دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھتا ہے تو اس غرض سے کہ وہ کسی طرح اس سے کوئی فائدہ حاصل کرے تو تملق اورچاپلوسی کرنے لگتا ہے، یہ اس حالت میں ہے کہ انسان کو اپنے مقدر کو خداکے ہاتھ میں دیکھنا چاہئے۔ جیسا کہ بیان ہوا کہ اس صفت کا روحی اور نفسیاتی سر چشمہ احساس کم تری ہے کہ انسان احساس کرتا ہے کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے اور کوشش کرتاہے کہ خود کو دوسروں سے وابستہ کرے اور اس وابستگی کے نتیجہ میں تملق اور چاپلوسی کے ذریعہ ممکن ہے وہ اسے کوئی مدداور بھلائی پہنچا دے ؟
مناسب ہے کہ ہم معاشرے میں تملق و چاپلوسی کی ذہنیت کے وسیع رد عمل پر توجہ کریں اور دیکھیں کہ دوسروں کی چاپلوسی اور افراد کی حدسے زیادہ ستائش ان پرکیا اثر ڈالتی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دوسروںکی ستائش ان کے لئے غرور و تکبر کاسبب بنتی ہے او رافراد کو بگاڑ کر انھیں پر توقع بنادیتی ہے اور ان میں خودستائی و بزرگ بینی کی حس کو اجاگر کردیتی ہے، او رظالموں کے بارے میں ستائش ان کے اعمال کی ایک طرح سے تائید و تشویق ہے۔
دوسروں کی چاپلوسی او رستائش اس امر کا باعث ہے کہ وہ اس ستائش کو اپنے لئے خوبی اور جنبہ مثبت تصور کریں اس کے علاوہ اپنی کوتاہیوں کو بھول جائیں اور دوسری طرف سے یہ کہ، جن بُرے اور غیر شرعی اعمال کے وہ مرتکب ہوئے ہیں، وہ ان کی نظر میں پسندیدہ کام شمار ہوگا۔
تملق اور چاپلوسی،اس کے علاوہ بعض اخلاقی اصلاحات میں رکاوٹ بنتی ہے تنگ نظر اور خودخواہ افراد کی راہ کو الٹ پلٹ کردکھ دیتی ہے اور انھیں اپنی اخلاقی کمزوریوں ، ظالمانہ اور خلاف عقل و شرع تمام روش کونمایاں کرنے میں گستاخ بنادیتی ہے۔ اسی لئے دین کے پیشوا خود عملا اس قابل مذمت روش سے بیزاری کاا ظہار کرتے تھے اور دوسری طرف سے اپنے پیرؤں کو انتباہ کے ساتھ اس سے مبارزہ کرنے کی تاکید فرماتے تھے ۔چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
''احثوالتراب علی وجوه المداحین
''
''چاپلوسوں اوربے جا تعریف کرنے والوں کے چہروں پر مٹی پھینک دو''
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا یہ بیان اس شخص کے بارے میں ہے جو ایک مسلمان کی چاپلوسی کرے ،ورنہ کافر کی چاپلوسی کرنے کاحکم اس سے شدید تر ہے۔ یہ تعبیر اس لئے ہے کہ معاشرے میں چاپلوسی کی ذہنیت کے رواج اور اس کے پھیلنے کو روک دیاجائے ، یہاں تک ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام جیسے شخص جو تمام انسانی فضائل وکمالات کے جامع تھے اور عمومی انسانوں سے بلند تر اور جمال و جلال الہی کے مظہر تھے اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی ان کے سامنے ان کی ستائش کرے۔
جب ایک گروہ نے حضرت علی علیہ السلام کی آپ کے سامنے ستائش کی تو حضرت نے فرمایا:
''خداوندا! تو میرے بارے میں مجھ سے بہتر جانتا ہے اور میں اپنے بارے میں ان سے بہتر جانتا ہوں، خدایا! مجھے اس سے بہتر قرار دے جو یہ میرے بارے میں گمان کرتے ہیں، اور جو میرے بارے میں (برائیوں کو) نہیں جانتے ، مجھے بخش دے ''
مرحوم الہی قمشہ ای صاحبان تقوی کے متعلق دوسروں کی ستائش کے خوف کے بارے میں فرماتے ہیں:
چو آنان را بہ نیکویی ستائی
بیندیشد و بر نیکی فزاید
ہمی گویند در پاسخ ما را
بہ خود ماییم دانا تر ز اغیار
سریرت ہست بر خویش آشکارا
زمابہ داند آن دانای اسرار
جب ہم ان (صاحبان تقوی ) کی ستائش کرتے ہیں تو، تصور کرتے ہیں کہ ان کی نیکیوں میں اضافہ کر رہے ہیں، لیکن وہ (صاحبان تقوی) ہمارے جواب میں کہتے ہیں : ہم اپنے بارے میں غیروں سے بہتر جانتے ہیں ۔
اپنا باطن اپنے لئے واضح ہے ہمارے بارے میں ہم سے بہتر ہمارا خداجانتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام انھیں یہ سمجھا ناچا ہتے تھے کہ انھیں ان کی ستائش کی ضرورت نہیں ہے اس لئے وہ انھیں ستائش کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہ رہے تھے تاکہ یہ ناشائستہ صفت یعنی چاپلوسی کی ذہنیت اسلامی معاشرہ میں رواج نہ پائے کیونکہ اگر اُس دن علی علیہ السلام کی ستائش کررہے تھے تو دوسرے دن دوسر ے حاکم کی بھی ستائش کریں گے ، سب معصوم نہیں ہیں کہ ان کی چاپلوسی کے دھو کے میں نہ آئیں بلکہ بعض لوگوں میں آہستہ آہستہ یہ چاپلوسیاں اثرڈالتی ہیں اور وہ تصور کرتے ہیں کہ جو کچھ دوسرے لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں وہ سچ ہے اور یہ ایک بہت بڑی آفت ہے کہ انسان دوسروں کو جہل پر مجبور کرے اور دوسروں کے لئے سبب بنے اور لوگ خلاف واقع اس کو اس کی حیثیتچ سے بلند تر تصور کریں اور جو کچھ اس کے بارے میں کہاجا رہا ہے وہ رفتہ رفتہ یقین میں تبدیل ہو جائے ،اس طرح سے انسان اعتدال سے خارج ہوکر اپنے آپ کو اپنی حیثیت سے بالا تر تصور کرے گا اور اس بڑی آفت کا سبب بے جا ستائش کے علاوہ تملق اور چاپلوسی ہے اور تملق نفاق او ردورخی کی نشانی ہے، چنانچہ حضر ت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق''
''دوسروں کی اس کے استحقاق سے زیادہ ستائش کرنا چاپلوسی ہے ''
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
''من مدحک بما لیس فیک فهو خلیق ان یذمک بما لیس فیک''
''جو شخص کسی ایسی فضیلت پرکہ جو تجھ میں نہیں ہے جھوٹی تیری ستائش کر ے وہ دوسرے دن ایسی بری صفت پر تیری سرزنش کرنے کا سزوار ہے جو تجھ میں نہیں ہے''
حضرت علی علیہ السلام کا بیان اس نکتہ کو آشکار کرتاہے کہ چاپلوس حق و حقیقت کہنا نہیں چاہتاہے،
بلکہ اس کے ذاتی اغراض نے اسے دوسروں کی ستائش پر مجبور کیا ہے۔ اس لحاظ سے اگر ایک دن پاساالٹ گیا اور چاپلوس نے اپنے ذاتی منافع کو اس شخص کی تذلیل و تحقیر دیکھا کہ جس کی اس سے پہلے بے جا ایسی فضیلتیں بیان کرکے ستائش کرتا تھا جو اس میں موجود نہیں تھی، تو وہ اس کی سرزنش اور مذمت میں ایسی غلط باتوں کی نسبت دے گا جواس میں موجود نہیں ہے، تا کہ اس طرح سے اسے کوئی نفع ملے یا کسی حیثیت کا مالک بنے۔
پس اسلام اجازت نہیں دیتاہے کہ انسان چاپلوس بنے، کیونکہ چاپلوسی اور ستائش کرنے کی ذہنیت، چاپلوسی کرنے والے اور وہ شخص کہ جس کی ستائش کی جارہی ہے کی روح اور معاشرے میں بُرے اثرات پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ حقیقت میں ستائش کرنے والا اس قدر پست و حقیر او رخود فروش بن جاتا ہے کہ خلاف واقع کلمات کو زبان پر جاری کرتاہے۔ خدائے متعال قطعاراضی نہیںہے کہ مومن اپنی عظمت اور عزت نفس کو پامال کرکے اس قدر اپنے آپ کو ذلیل و حقیر بنالے تا کہ دوسروں کی چاپلوسی کرے۔تملق چاپلوسی کا مد مقابل پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ خود کو بھول جاتاہے اور خیال کرتا ہے کہ ایسے مقام ومنزلت کا مالک ہے کہ وہ دوسروں کی ستائش کا سزاوار ہے، نتیجہ کے طور پر اپنی کوتاہیوں، کمیوں اور کمزوریوں کو فراموش کرتاہے اور اپنی زندگی و رفتار کو برجستہ اور مثبت پہلوؤںسے لبریز تصور کرتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
''اذا مدحت اخاک فی وجهه امررت علی حلقه موسی''
''اپنے بھائی کی اس کے سامنے ستائش کرنا اس کی گردن پر چھری پھیرنے کے مانند ہے''
مذکورہ مطالب کے علاوہ ، بد ذات اور فاسد انسانوں کی چاپلوسی و ستائش کرنا ، انھیں گستاخ بنا کردوسروں کے حقوق پر تجاوز اور لوٹ مارکرنے کی جرأت بخشتاہے۔ چاپلوسی کرنے والا، اس کے علاوہ کہ نفاق و جھوٹ کا مرتکب ہوتاہے، اپنی بے جاتعریف و تمجید سے، سرکشی، انتہا پسندی، بے راہ روی اور فاسدوں خاص کر باطل حکام کو تجاوز کرنے کے لئے مناسب موقع فراہم کرتاہے اور حقیقت میں وہ خود لوگوں کے خلاف فساد پھیلانے والوں کے جرم و نقصانات میں شریک بن جاتاہے۔ اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
''اذا مدح الفاجرا هتزّ العرش و غضب الرّب
''
''جب فاجر کی ستائش کی جاتی ہے تو، عرشِ خدا کا نپنے لگتاہے اور خدائے متعال غضب ناک ہوتاہے''
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں:عیب جونہ بنو کہ صرف لوگوں کی کمزوریوں کو پاکر انھیں بیان کرکے ان کی عزت و آبرو کو طشت از بام کرو، کیونکہ خدائے متعال راضی نہیں ہے کہ لوگوں کی آبرو ریزی کی جائے ، حتی وہ عیب جو اس میں موجود ہیں وہ بھی فاش نہیں ہونا چاہئے۔ اس نے لوگوں کے عیبوں پر پردہ کھینچا ہے تا کہ وہ آپس میں الفت کے ساتھ زندگی گزاریں اور اجازت نہیں دیتاہے کہ مومنین ایک دوسرے کے عیبوں کو فاش کریں، حتی اجازت نہیں دیتا ہے کہ مومن اپنے ذاتی عیب کو بھی دوسروں سے بیان کریں، کیونکہ انسان حق نہیں رکھتا ہے کہ وہ اپنی آبروریزی کرے۔
اس طرح آنحضرت مزید فرماتے ہیں: تملق اور چاپلوسی کیذریعہدوسروں کو اُن اچھے صفات سے منسوب کرنا جو ان میں موجود نہیں ہیں۔در حقیقت یہ افراط و تفریط ہے جو مومن کے لئے مضر ہے اور انسان کو اعتدال سے خارج نہیں ہونا چاہئے۔اگروہ دوسروں کی اچھی صفتوں کو بیان کرنا چاہتاہے تو حقیقت کی حد میں اور خیرو مصلحت پر اکتفاکرے، نہ یہ کہ ان صفات کو بیان کرنے میں اپنے لئے نفع کی فکر میں ہو یا اعتدال کی حد سے خارج ہوجائے۔
دوسروں کی طعنہ زنی اور زخم زبان کی مذمت:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حن ناپسند صفات کا ذکر فرمایا ہے، ان میں لوگوں کی طعنہ زنی کرنا اور ڈنک مارنے والی زبان کا ہونا بھی ہے طعنہ زن اور دلخراش باتوں سے مؤمن کو تکلیف پہنچانے کو زخم زبان کہتے ہیں، کہ انسان کوشش کرتا ہے دوسروں کی ناکامیوں او رکمزوریوں کو اس پر تھونپ دے اور اس طرح اس کے دل کو مجروح کرے۔ مناسب ہے کہ انسان دوسروں کی دلجوئی کرنے کی کوشش کرے اور اگر ان کی زندگی میں کچھ ناکامیاں ہوئی ہوں توبھی اپنی باتوں سے ان کے دل کے زخموں پر مرہم رکھے،نہ یہ کہ انھیں ان نقصانات کامستحق و سزوار جانے اور زخم زبان سے ان کے دل دکھائے، حضرت اما م علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
''حدّ اللسان امضی من احد السنان''
''زبان کی تیزی اور شدت نیزہ سے زیادہ ہے ''
طعنہ زنی کاسرچشمہ ، عداوت و کینہ اور بعض اوقات حسد ہے کہ طعنہ دینے والے کو مجبور کرتاہے کہ دوسروں کے ساتھ بات کرتے وقت اس کی بات دلخراش ہو۔ ممکن ہے ظاہری با ت اور اس کا مفہوم حق ہو، لیکن اسے دلخراش اور تکلیف دہ انداز میں پیش کیا جائے کہ جو مخاطب کی رنجش و تکلیف کاسبب ہو۔جب انسان کسی سے بحث و مباحثہ کرتاہے، اگر مخاطب مطلب کو پیش کرنے میں غلطی کرتا ہے،تو اس نرم لہجہ میں سمجھا یا جاسکتاہے کہ فلاںعبارت کو آپ نے صحیح نہیں پڑھا اور فلاںمطلب کو صحیح بیان نہیں کیا، لیکن کبھی وہ اسے طنزیہ کلمات کہ جو اذیت کا باعث ہیں سمجھاتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو اس کی غلطی کی طرف توجہ دلاناچاہتاہے، تو اسے ایسے لہجہ میں کہنا چاہئے کہ جو اس میں اثر کرے اور اس طرح اسے سمجھا ئے کہ وہ اسے قبول کرنے پر مجبور ہوجائے اور ہٹ دھرمی نہ کرے، ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غلطی پر اصرار کرے اور پہلی غلطی کے اوپر اس کے غلط رویہ کی وجہ سے دوسری غلطی کابھی مرتکب ہوجائے کہ جس کے نتیجہ میں وہ صحیح راستہ سے منحرف ہو جائے اور غلط طریقہ کار کے سبب جہل اور من مانی کرنے لگے اور اس کی اصلاح دشوار ہوجائے۔
بعض افراد امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلہ میں ایسا برتاؤ کرتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ مخاطب کی اصلاح نہیں کرتے اور اسے معروف اور نیکیوںکی طرف کھینچ کر نہیں لاتے بلکہ نصیحت کے غلظ طریقہ کار بلکہ ملامت و سرزنش کے ذریعہ اسے دوسری برائیوں میں مبتلا ہونے پر مجبور کردیتے ہیں ، اس لئے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
''ایاک ان تعاتب فیعظم الذنب و یهون العتب ''
''ملامت و سرزنش سے پرہیز کروکہ یہ کام گناہ کو بڑھاچڑھا کر پیش کرتاہے اور ملامت کو بے اثر کرڈالتا ہے۔''
یا افراد کی سرزنش کرنے اور ملامت کی تکرار کے بارے میں فرماتے ہیں:
''الافراط فی الملامة یشبّ نیران اللّجاج ''
''ملامت و سرزنش میں افراط و زیادتی ، ہٹ دھرمی کی آگ کو شعلہ ور کرتا ہے۔''
''ایاک ان تکرر العتب فانّ ذالک یغری بالذنب و یهوّن بالعتب''
''باربارر سرزنش سے پرہیز کرو، کیونکہ سرزنش کی تکرار گناہ گار کو اس کے ناپسندیدہ فعل کے انجام دینے میں گستاخ بنادیتی ہے اور اس کے علاوہ خود ملامت و سرزنش کو پست اور حقیر بنادیتی ہے۔''
پس جب کسی کو اس کی کمزوری کے بارے میں توجہ دلاناچاہتے ہو تو اس کے ساتھ ہشاش بشاش مہربانی اور ہمدردی کے ساتھ پیش آئو نہ یہ کہتمھاری زبان بچھوکی طرح ڈسنے والی ہو۔ اس طرح بات کرو کہ وہ شخص اپنی کمزوریوں کی تلافی کرنے پر آمادہ ہو جائے ورنہ اگر اسے کہوگے کہ تم نے غلطی کی ہے،یا تم نہیں سمجھتے ہو،یا اس جیسے کلمات تو فطری بات ہے کہ وہ اسے پسند نہیں کرے گا اور رنجیدہ ہوگا ۔ اور اس رد عمل کے طور پر اس کے برخلاف انجام دے گا ،سواء اس کے کہ کوئی اہل تقویٰ ہو جو بزرگی کے پاس و لحاظ میں سکوت اختیار کرے اور کوئی جواب نہ دے۔
پس جب ہم ناشائستہ او رتند برتاؤ کو پسند نہیں کرتے، کس طرح توقع کریں گے کہ طعنہ زنی والے کلام سے دوسروں کی اصلاح کریں۔ہمیں ہرحالت میں دوسروں کے ساتھ نیکی اور اچھائی کی فکر میں رہنا چاہئے اور ہماری بات او ر رفتار نیک انسانی اخلاق کی ترجمان اور اس بات کی دلیل ہونی چاہئے کہ ہم اس وصف کے حامل ہیں۔ سعدی کہتا ہے:
آنکس کہ بہ دینار و درم خیر نیندوخت
سر عاقبت اندر سرِ دینا رو درم کرد
خواہی کہ متمتع شوی از دنیی و عقبی
با خلق کرم کن چو خدا با تو کرم کرد
(جس نے دینار و درہم سے نیکی ذخیرہ نہ کی، اس کا سرانجام دینارو درہم ہی ہوگا،اگر دنیا و آخرت سے بہرہ مند ہونا چاہتے ہو، تو لوگوں کے ساتھ اسی طرح نیکی کرو جس طرح خدانے تمھارے ساتھ نیکی کی ہے)
اپنی بات پر اصرار کرنے کی مذمت:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس چوتھی ناپسندیدہ صفت کا ذکر کیا ہے وہ مراء اور خطا پر اصرار ہے۔ مراء یعنی دوسروں کی بات کو مسترد کر کے اپنی برتری کو ثابت کرنا، اس طرح کہ جب انسان کوئی غلطی کرتاہے تو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتاہے اور اپنی باتوں کی دوسرے نادرست مطالب سے توجیہ کرتاہے اور اسے ترمیم کرنے لگتا ہے اور اس کام کو مسلسل انجام دیتا ہے، جب انسان ہر بار اپنی غلطی پر اصرار کرتاہے اورمدمقابل شخص بھی دیکھتا ہے کہ یہ آدمی ایک باطل مطلب کو حق کے طور پر بیش کرناچاہتاہے تو وہ اس کی بات کو مسترد کرنے میں اصرار کرتاہے۔
جب جدال اور اصرار کی ذہنیت انسان میں پیدا ہوجاتی ہے تووہ متواتر کوشش کرتاہے تاکہ اپنی بات کا سکہ دوسرے پر بٹھائے اور اس ذہنیت کاسرچشمہ اس کی خودخواہی اور خود پسندی ہے۔ یعنی انسان یہ کہنا چاہتاہے کہ میں نے غلطی کی اور وہ اپنی غلطی کے اعتراف میں کسرشان سمجھتا ہے۔ باوجود اس کے وہ جانتا ہے کہ اس نے غلطی کی ہے، لیکن نہیں چاہتا کہ دوسرے یہ سمجھ لیں کہ اس نے غلطی کی ہے، اس لئے جب مطلب کی وضاحت کرکے اسے اپنی غلطی کے بارے میں متوجہ کرنا چاہیں تو وہ ہٹ دھری سے اسے مسترد کرتا ہے اور اپنی بات کو حق جتاتے ہوئے کہتا ہے: جو کچھ میں نے کہا وہی صحیح ہے!
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اصرار،اور پے در پے ایک بات کی رٹ لگانامد مقابل کے، غصہ کو برانگیختہ کرنے میں کلیدی رول انجام دیتاہے، اس لئے اصرار سبب بنتا ہے کہ اصرار کرنے والے ایک دوسرے سے لڑپڑیںاور ہر کوئی کوشش کرے کہ اپنی بات کو برتر ی بخشے اس لئے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے ہیں:
''ذرو االمراء فانّه لا تفهم حکمته و لا تؤمن فتنته''
''ہٹ دھرمی کو چھوڑ دو اس لئے کہ اس کی حکمت روشن نہیں ہے (یعنی اس میں کوئی حکمت نہیں ہے) اور کوئی اس کے شر سے محفوظ نہیں ہے ''
اپنی غلط بات پر ہٹ دھرمی او راصرار، ایک بری صفت ہے، افسوس ہے کہ بعض اہل علم بھی اس سے آلودہ ہوتے ہیں۔ بحث کے دوران جب کوئی شخص ایک غلط نظریہ پیش کرتاہے، تو وہ اپنے نظریہ پر اصرار کرتاہے اور اگر دوست کے سامنے ہتھیار ڈالنا چاہے تو احساس ناکامی کرتاہے، خاص کر اگر کوئی تیسرا آدمی بھی ان کی گفتگو کا مشاہدہ کررہاہو تواپنی آبرو کو بچانے کے لئے کوئی کسر باقی نہیںرکھتا ہے اور اپنی بات کا دفاع کرتاہے، خاص کراگر وہ تیسرا شخص اس کا مرید بھی ہو؛ آخر کار یہ سب چیزیں انسان کو حق قبول نہ کرنے اور نا حق پر ترجیح دینے کے محرک بن جاتے ہیں۔
ہٹ دھرمی اور اصرار کے نتیجہ میں جن آفات سے انسان دوچارہوتا ہے ان کے پیش نظر مناسب ہے انسان اس صفت سے مبارزہ کرنے کی ہمت کرے۔ اصرار اور ہٹ دھری کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی آفتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان خلاف حقیقت نظریات پیش کرنے پر مجبور ہوتاہے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
''اللّجاج یفسد الرّای''
''ہٹ دھرمی انسان کی رای کو فاسد کردیتی ہے( اور اسے خلاف حقیقت اظہاررای کرنے پر مجبور کرتی ہے)
ہٹ دھرمی کی من جملہ آفتیں جو حضرت علی علیہ السلام کے کلام میں موجود ہیں، انسان کی روح کا مریض ہونا بھی ہے:
''اللّجاج یشین العقل''
ہٹ دھرمی روح کو ناقص اور زخمی کردیتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کے کلام میں ذکر ہوئی آفتوں میں انسان کی فکر ونظر میں زوال بھی ہے:
''اللجوج لا رای له ''
ہٹ دھرم صاحب عقل و نظر (اور صحیح نظر) نہیں ہے۔
لیکن غلط نظریہ پرہٹ دھرمی اور اصرار کے علاج کا طریقہ یہ ہے کہ ، اظہار فضیلت کا باعث بننے والے تکبر کی اپنی اندر سے بیخ کنی کی جائے اور جان لے کہ ہٹ دھرمی دشمنی اور کدورت کاسبب بنتی ہے اور الفت و برادری کو نابود کردیتی ہے۔اسی طرح یونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے شائستہ ہے کہ وہ کوشش کریں کہ جدال و اصرار سے پرہیز کرکے اس کے ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ پر کنٹرل کریں اور ہمیشہ حرف حق کے تابع رہیں اور نیک گفتار اپنا شیوہ قرار دیںتا کہ اس کے نتیجہ میں احترام و حق قبول کرنے کی ذہنیت ان میں ملکہ بن جائے اور اصرار و ہٹ دھرمی کی ناشائستہ صفت ان کے دل سے نابود ہو جائے۔
جدال او راصرار سے پرہیز کرنے کے لئے انسان کو اپنے آپ کو باور کرانا چاہئے کہ ہرکوئی خواہ نخواہ غلطیوں اور لغزشوں سے دوچار ہوتا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ تمام انسان غلطیوں سے محفوظ ہیں۔ صرف معصومین غلطیوں سے محفوظ ہیںاور دوسرے افراد ممکن ہے غلطی کریں ، یا کسی چیز کے بیان اور نقل کرنے میں غلطی کریںیا ان کے فہم و درک کرنے میں ۔ یہ چیز خلاف توقع نہیں ہے اور ہر ایک کے لئے پیش آسکتی ہے، پس اسے عیب شمارنہیں کرناچاہئے۔ البتہ انسان کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس سے کم غلطیاں سرزد ہوں، خاص کر درس و مباحثہ کے لئے زیادہ مطالعہ کرے تا کہ کم تر غلطی کرے، لیکن اگر اس سے کوئی غلطی سرزدہوئی ہے تو اسے اپنے لئے بڑا عیب نہیں سمجھنا چاہیے اور فکر نہیں کرنی چاہیے کہ اس کی عزت ختم ہوگئی اور وہ ناکام ہوگیا۔
دوسرے مرحلہ میں جب انسان سمجھ گیا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے، اسے فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کرناچاہئے اور کہنا چاہئے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور آپ حق پر ہیں البتہ ابتدا میں اپنی غلطی کا اعترا ف کرنا مشکل ہے لیکن اس کے بعد جب اپنی غلطی کے اعتراف کی حلاوت کو درک کرتاہے اور سمجھ لیتا ہے کہ نظریہ کے مطابق غلطی عیب نہیں ہے، تو اس کے لئے غلطی کا اعتراف کرنا آسان بن جاتاہے۔وہ اپنے آپ سے کہتا ہے:''میں انسان ہوںاور انسان خطا سے محفوظ نہیں ہے اور کبھی میں خطا کرتاہوں اور دوسرا صحیح سمجھتا ہے اور کبھی اس کے بر عکس ۔'' کیا اچھا ہے اپنے اس دوست کا شکریہ بجالائے ، جس نے اسے اس کی غلطیوں کے بارے میں متوجہ کیا ہے اور اسے صحیح راستہ و نظریہ دکھایا ہے، اس کے سامنے صرف خاموش رہنے پر اکتفا نہ کرے، چونکہ اگر ہم جدال اور اصرار کی خصوصیت اور اس کی آفتوں سے نجا ت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے نقطہ مقابل کو اپنا نے کی کوشش کرنی چاہئے اور جدال و اصرار کا نقطۂ مقابل غلطی کااعتراف کرناہے۔ اپنے دوست سے کہے : آپ نے مطلب کو اچھا سمجھا ہے اور میں متوجہ نہیں تھا۔اس شیریں اور شائستہ برتاؤ کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ شکست وکمی کا احساس نہیں کرتاہے بلکہ یہ مناسب برتاؤ تفاہم اور ایک شیریں زندگی کے ایجاد کاسبب بنتاہے اورانسان دوسروں کے دل میں بیشتر جگہ پاتاہے او رلوگ اس کی بات پر زیادہ اعتمادکرتے ہیں۔
اگر انسان اپنی غلطیوں کی توجیہ کرنے کی کوشش کرے گا او ران پر پردہ ڈالنے کی جستجو کرے گا، تو لوگوں کے دلوں میں اس کااعتماد ختم ہوجائے گا اور اگر وہ کبھی صحیح بات بھی کہے گا تو لوگ اس پر اعتماد نہیں کریں گے ، لیکن جب اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتاہے اور دوسروں کے صحیح نظریہ کے سامنے ہتھیار ڈالتا ہے، تو اس کی باتوں پر اعتماد کرتے ہیں، چونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ یوں ہی بات نہیں کرتا ہے، اور اس رفتار کے نتیجہ میں اس کی اجتماعی حیثیت بھی بہترہوجاتی ہے، البتہ مومن کو اپنی اجتماعی حیثیت کی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے، لیکن اس رفتار او رحق کو قبول کرنے کے ایسے آثار بھی ہوتے ہیں۔ اس کی نسبت دوسروں کا اعتماد بھی بیشتر ہوتا ہے اور وہ ان میں محبوب بھی ہوتاہے او ربہتر اجتماعی مقام بھی پاتا ہے ، اس کے علاوہ بُرے اور ناپسند اخلاق سے نجات بھی پاتاہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک چیز سے وابستگی نہیں رکھنی چاہئے بلکہ خدا سے دل لگا ناچاہئے اور ہرکام میں انسان کامحرک خدا کی مرضی حاصل کرنا چاہئے اور مذکورہ آثار مؤمن کے رفتار کے اضافی منافع ہیں۔
____________________