زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

زاد راہ (دوسری جلد)0%

زاد راہ (دوسری جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (دوسری جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 40508
ڈاؤنلوڈ: 3943


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40508 / ڈاؤنلوڈ: 3943
سائز سائز سائز
زاد راہ (دوسری جلد)

زاد راہ (دوسری جلد) جلد 2

مؤلف:
اردو

چونتیسواںدرس

عبادتوں کے جلوے اور اسلام میں مسجدوں کا نقش

*عبادت کامفہوم اور اس کی وسعت:

الف۔عبادت کی ایک تقسیم بندی۔

ب۔نماز،کمال بندگی اور تقر ب الہی۔

ج۔مقدمات کے شرعی ہونے کا فلسفہ اور نماز کی جانب توجہ دینے والے عوامل۔

* مسجد ،لقاء اللہ کے عاشقوں کی معراج۔

*مسجد کی طرف لوگوں کے تو جہ دینے کا فلسفہ۔

*مساجد کی اہمیت کو درک کرنے کی ضرورت اور اس میں

حاضر ہو نے کے آداب ۔

*مسجد میں حاضر ہو نے اور اس میں عبادت کرنے کی فضیلت۔

*خدا کے محبوب تر ین بندے۔

عبادتوں کے جلوے اور اسلام میں مسجدوں کا نقش

'' یااباذر!الکلمة الطیبة صدقة وکل خطوة تخطوهاالی الصلوٰة صدقةیااباذر!من اجاب داعی اللّٰه واحسن عمارةمساجد اللّٰه کان ثوابه من اللّٰه الجنة فقلت :بابی انت وامیّ یا رسول اللّٰه کیف تعمر مساجد اللّٰه؟قال لا تر فع فیها الا صوات ولا یخاض فیها بالبا طل ولا یشتری فیها ولا یباع واترک اللغو مادمت فیها فان لم تفعل فلا تلومن یوم القیامة الا نفسکیااباذر! ان اللّٰه تعالی یعطیک مادمت جالسا فی المسجد بکل نفس تنفّست درجة فی الجنه و تصلی علیک الملائکة وتکتب لک بکل نفس فیه عشر حسنات وتمحی عنک عشر سیات

یااباذر !أتعلم فی ایٔ شی ء انزلت هذه الایة:(اصبروا ورابطوا واتقوااللّٰه لعلکم تفلحون)(۱) قلت:لا،فداک ابی وامیقال:فی انتظارالصلوٰةخلف الصلوٰة ''

یا اباذر!اسباغ الوضوء فی المکاره من الکفارات وکثرة الاختلاف الی المساجد فذلکم الرباط

یااباذر!یقول اللّٰه تبارک وتعالی:ان احب العباد الی المتحابون من اجلی،المتعلقة قلو بهم بالمساجدوالمستغفرون بالاسحار اولئک اذا اردت باهلا الارض عقوبةذکرتهم فصرفت العقوبة عنهم

''یااباذر!کل جلوس فی المسجد لغو الاّ ثلاثة:قرا ء ةمصل اوذکر اللّٰه او سائل عن علم''

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جناب ابو ذرسے کی گئی پند و نصائح کے بعض حصوں پر بحث و تحقیق کے بعد اب ہم ا س کے ایک اور حصہ کی بحث و تحقیق کریں گے جس کا مو ضوع مسجد،مسجد میں حاضر ہونے کے آداب اورنماز کی اہمیت ہے۔

عبادت کا مفہوم اور اس کی وسعت:

ابتدا میں ہم عبادت کے مفہوم اور اسکی وسعت کے بارے میں بحث کریں گے ۔چنانچہ ہم نے اس سے پہلے بیان کیا ہے کہ انسان کا حقیقی کمال قرب الہی میں ہے اور اس قرب الٰہی یا حقیقی تکامل کو حاصل کر نے کا وسیلہ عبادت ہے ۔عبادت و پر ستش کہ جس کے بہت ہی وسیع اورعمیق مفاہیم ہیں اور یہ ایک ایسے جاذبہ سے بہرہ مند ہے کہ جو حیرت و پریشانی کے سمندر میں پھنسے ہر شخص کو آرام و سکون کے ساحل سے ہم کنار کر دیتا ہے اور آخرکار فنافی اللہ کے مقام تک پہنچا تا ہے حقیقت میں کوئی قلم اور بیان، عبادت و پرستش کے ملکو تی جاذبہ کی بلندی و گہرائی کی تو صیف نہیں کر سکتا ہے اور سچ یہ ہے کہ یہ بلند مفہوم الہی الفاظ وبیان کے قالب میں نہیں آسکتا ہے ۔صرف وہ امام بر حق سخی و جوانمرد نیز اطاعت وعبادت کے شیدائی حضرت علی ابن ابیطالب علیھما السلام ہیں کہ جو فر ماتے ہیں:

''الهی کفی بی عزا ان اکون لک عبد اوکفی بی فخرا ان تکون لی ربا'' (۲)

'' پرور دگارا!میری عزت کے لئے کافی ہے کہ تیرا بندہ ہوں اور میرے فخر کے لئے کافی ہے کہ تو میرا پروردگار ہے!''

یہ بات اللہ کی عبودیت و بندگی کے عشق میں غرق شدہ روح سے نکلی ہے،اس بلند روح سے کہ فرماتا ہے:

''ولا لفیتم دنیا کم هذه ازهد عندی من عفطةعنز'' (۳)

تم جانتے ہو:کہ یہ تمہاری دنیا میری نظروں میں بکری کی چھینک سے پست تر ہے؟

بندگی درکوی عشق ازپادشاہی خوشتر است

بستگی صدرہ در این دام ازرہائی خوشتر است

تجربت ہا کردم از روی حقیقت چند بار

دلق درویشی زتاج پادشاہی خوشتر است

یک نظردربارہ صافی کن ودرجام می

تا ببینی بی خودی از خودنمائی خوشتراست

ذوق شبہای درازونالہ ہای جان گداز

گرچشی دانی کہ شاہی ازگدائی خو شتراست

(کوی عشق میں بندگی کرناپادشاہی سے بہتر ہے ۔اس بندگی کے پھندے میں سو بار پھنسنا رہائی سے بہتر ہے ۔میں نے حقیقت کی رو سے کئی بار تجر بہ کیا ہے کہ درویشوں کا لباس تاج پادشاہی سے بہتر ہے۔لمبی راتوں کے ذوق اور جانسوز نالہ و فریاد وں کو اگر چکھ لوگے تو سمجھ لو گے کہ یہ (بندگی) ایسی شاہی ہے کہ جو اس گدائی (ظاہری پادشاہی) سے بہتر ہے۔)

جی ہاں، عبا دت و پرستش کاایک پائداراور ثابت نظام ہے کہ بشریت کی پیاسی روح اسکے علاوہ کسی اور چیز سے سیراب نہیں ہوتی ہے اور مادی جاذبے اور مادی ترقیاں اس میں اثر نہیںڈال سکتی ہیں اور نہ اس کے خلاکو پر کر سکتے ہیں،کیو نکہ بشر جس قدر صنعت اور ٹیکنا لوجی کے میدانوںمیں تر قی کرے اور مادیا ت کے میدانوں کو فتح کرلے ،نہ صرف غنی مطلق سے بے نیاز نہیں ہو تا ہے بلکہ اس کی احتیاج اور ضرورت میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

الف۔عبادت کی ایک تقسیم بندی:

ایک عام اور وسیع نقطہ نگاہ سے عبادت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

١۔ عبادت بہ معنی خاص جو کہ افعال عبادی سے عبارت ہے،جیسے نماز،روزہ وحج و...

٢۔ عبادت بہ معنی عام سے مراد ہر وہ اچھا کام جو خدائے متعال کی اطاعت کی نیت سے انجام دیا جائے۔اس تعریف میں حتی کھانا،بیٹھنا،اٹھنااور بات کرنا اور دیگر وہ تمام کام جنھیں خدائے متعال نے نیک کام شمار کیا ہے اور اس کی اطاعت وبندگی کے قصد سے انجام پاتے ہیں ۔ پس اس لئے کہ انسان کی عمر ایک صحیح راستہ پر صرف ہو اور بیہودہ طور پرصرف نہ ہواور اس کا سر مایہ ضائع نہ ہو،اسے کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زندگی کے لمحات کو ز یادہ سے زیادہ خدائے متعال کی عبادت خواہ بہ معنای خاص یاعام میں گزاریںیا جو کچھ شرع میں عبادت کے طور پر بیان ہوا ہے اسے انجام دیں اور فرائض نیزافعال تو صلی کو قصد قربت سے انجام دینے کی کو شش کریں۔

اگرانسان سے کوئی چھوٹا بڑا کام انجام پائے اور وہ کام مذکورہ عبارت کے زمرے میں نہ آتاہو ،یعنی اس پر عبادت کاخاص یاعام عنوان صدق نہ آتا ہو،تو وہ کام بیہودہ اور لغو ہے اور قیامت کے دن انسان کے لئے حسرت کا باعث ہے ۔اگرنعوذباللہ،گناہ ہو تو دنیا وآخرت میں خسارت کا باعث اور ابدی عذاب کا سبب ہو گااور اگر گناہ نہ بھی ہو بلکہ مباح یامکروہ ہو،تو بہرحال انسان کا سر مایہ اس کے ہاتھ سے چلا گیاہے اور ایک ایسی چیزپر خرچ ہوا ہے کہ اس کے لئے کوئی نفع نہیں ہے ۔شرع میں بہت سے ذاتی طور پر مباح کام انجا م دینے کی تاکیدکی گئی ہے اور یہی تشویق اور تاکید مو جب ہوتی ہے کہ انسان انھیں انجام دے،اب اگر وہ کام اسی امرکی اطاعت کے قصد سے ہو کہ جس عمل عبادی سے اس کا تعلق ہے انجام دیاجائے تو عبادت ہے۔

انسان کی زندگی سے مربوط اسلامی اور قرآنی نظر یہ زندگی کا مقصد اور سعادت اور اس کے اعمال و رفتار کے پیش نظر فطری بات ہے کہ اسلام کی دعوت یہ ہو نی چاہئے کہ انسان سے جس قدر زیادہ اوربہتر ممکن ہو سکے عبادت کرے :کمیت اور مقدار کے لحاظ سے، انسان کے انجام دئے جانے والے تمام کام عبادت ہو سکتے ہیں اور حقیقت میں عبادت میں اس قدر وسعت پائی جاتی ہے کہ وہ انسان کی پوری زندگی کو احاطہ کرسکتی ہے۔لیکن کیفیت کے لحاظ سے (عبادت کی کیفیت انسان کی نیت و معرفت سے وابستہ ہے)جس قدر انسان کی معر فت خدائے متعال کے بارے میں زیادہ ہو گی ،جس قدرخدا کے بارے میں اس کی محبت میں اضافہ ہو گا اسی اعتبار سے،عبادت کو انجام دینے میں اس کا قصدخالص تر ہو گا اور عبادت کے دوران بیشتر حضور قلب کی کیفیت پیدا ہو گی اور عبادت کی کیفیت بھی بہتر ہوتی جائے گی۔کبھی اگر انسان دو رکعت نماز با کیفیت انجام دے تو ،اس کاثواب ہزاروں رکعت نماز سے بیشتر ہے ،یہ وہ چیز ہے جس کو ہم سب جانتے ہیں اور اسی لئے اسلام نے ہمیں اس کی طرف تو جہ دلائی ہے کہ جس قدر زیادہ کو شش کریں گے ہمارے کام میں خدائی رنگ اتنا ہی زیادہ ہوگا اور ہماری زندگی سراسرخدا کی بندگی میں تبدیل ہو جائے گی،کیو نکہ انسان کا کمال خداکی بندگی میں ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''افضل الناس من عشق العبادةفعانقها واحبها بقلبه وبا شررها بجسده وتفرغ لها فهو لا یبالی علی مااصبح من الدنیا علی عسر ام علی یسر'' (۴)

''لوگوں میں سب سے قابل قدر وہ ہے جو عبادت کے ساتھ عشق رکھتا ہے ،عبادت سے بغل گیر اور ہم آغوش ہوتاہے اور دل سے اس کے ساتھ محبت کرتے ہوئے اپنے اعضاوجوارح کے ذریعہ اس سے لمس کرتاہے اور اپنے تمام ہم وغم کو اس کی طرف متو جہ کر تا ہے اوراس کے لئیدنیاوی آرام یا تکلیف کو اہمیت نہیںدیتاہے ۔''

مذ کورہ مطالب کے پیش نظر ،فطری بات ہے کہ پروردگار جس نے انسان کے لئے ایسے مقصد کو مد نظررکھاہے اور اس کیلئے ایسے اسباب فراہم کئے ہیں کہ وہ اپنے تمام کاموں کو عبادت اور خدائی رنگ دے سکتا ہے ،تمام وہ وسائل اس کے لئے فراہم کئے ہیں، جن سے لوگ مدد لے کر بہتر اور زیادہ تر خدا کی عبادت کر سکیں اوراس سے قریب ہو جائیں ،کیو نکہ خدائے متعال کی رحمت سب سے زیادہ ہے اور وہ دوسروں سے زیادہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس سے قریب ہو جائیں۔جس طرح اس کا وجود اور عمل لامتناہی ہے ،اسی طرح اس کی خیر خواہی بھی لامتناہی ہے ۔

خدائے متعال کے تمام اوصاف لامتناہی ہیں،اپنے بندوں کے ساتھ اس کی الفت و محبت کی بھی کو ئی حد نہیں ہے۔جو اس قدر بے انتہارحمت کا مالک ہے اور اپنے بندوں کے لئے اس قدر خیر خواہ ہے تشریعی مراحل میں اس نے ایسے احکام صادر فرما ئے ہیں تاکہ اس کے بندے اس سے زیادہ قریب ہو جائیں۔ اس لئے شرعی احکام،عبادت،خواہ واجب یا مستحب اور ان کی کیفیت و آداب ،سب الطاف الٰہی ہیں۔خدا وند متعال چاہتاہے کہ ہم اپنے ارادہ و اختیار سے کمال وسعادت تک پہنچیں اور بیشتر تکامل وارتقاء حاصل کریں،اسی لحاظ سے اس نے ہمارے لئے ضروری تکو ینی و تشریعی و سائل فراہم کئے ہیں۔

ب:نماز ،کمال بندگی اور تقرب الٰہی:

تکو ینی مراحل میں ،خدائے متعال جس قدر اپنے بندوںپر زیادہ لطف وعنایت کرے گا ،اتنی زیادہ انھیں توفیق ہوگیکہ وہ فرائض اور عبادات کوانجام دیں ،البتہ جو کچھ خداوند کریم انجام دیتا ہے وہ بیہودہ نہیں ہے بلکہ ایک خاص قوانین الہی کے تابع ہے۔ تشریعی مراحل میں تشویق کر تاہے اورایسے احکام جعل کرتاہے کہ لوگ ان احکام کو انجام دے کر زیادہ سے زیادہ خدا سے نزدیک ہو جائیں ۔من جملہ نماز کو شر عاًواجب فرمایا ہے کہ جوتقرب الٰہی کے لئے بہترین وسیلہ ہے ،چنانچہ معصوم نے فرما یا ہے:

''الصلوة قر بان کل تقی'' (۵)

''نماز ہر با تقوی مؤمن کے لئے وسیلۂ تقر ب ہے''

البتہ قا بل توجہ امر یہ ہے کہ نماز کی ظاہری صورت قرب الہی نہیں ہے ،بلکہ نماز کی حقیقت اور اس کا باطنی صورت خداکے قرب کا سبب ہے اورآیات و روایات کے لحاظ سے یہاں نماز کی حقیقت مراد ہے نہ اسکی ظاہری صورت۔خدائے متعال فر ماتا ہے :

( اقم الصلوة لذکری ) ( طہ ١٤ )

''نماز کو میری یاد کے لئے قائم کرو ''

(اس آیت میں تعبیر''اقامہ''نماز کی حقیقت کے ساتھ تناسب رکھتی ہے ،نہ اس کی ظاہری صورت سے)

خدائے متعال مزید فرماتاہے :

( واقم الصلٰوة ان الصلوةتنهی عن الفحشاء والمنکر ) ۔۔۔)(عنکبوت ٤٥)

''اور نماز قائم کریں کہ نماز ہر برائی اور بد کاری سے روکنے والی ہے۔''

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:

سیاق آیت اس بات کی شاہدہے کہ نماز کا بد کاریوں سے روکنے سے مراد ،طبیعت نمازکا بدکاریوں او ر منکرات سے روکنا ہے اب سوال یہ پیدا ہو تاہے کہ نمازکیسے بدکاریوں اور منکرات سے روک سکتی ہے ؟جواب میں کہتے ہیں:اگر خدا کا بندہ روزانہ پانچ بارنماز بجالائے اور پوری عمر میں اس کام کو جاری رکھے،خاص کر اگر اسے ایک صالح معاشرے میں بجالائے اور اس معاشرے کے افراد بھی ہر روز نمازکو بجا لائیںاور اسی کی طرح اس کا اہتمام کریں توفطری طور پر وہ نماز گناہان کبیرہ سے موافقت و میل نہیں کھائی گی ۔جی ہاں ،بندگی کے عالم میں خداکی طرف توجہ ، وہ بھی ایسے ماحول اور ایسے افراد میں کہ جو،انسان کو ہر اس گناہ اور عمل سے کہ جس کو دینی ذوق ناپسندیدہ اور گھنائونا عمل جانتا ہے ،جیسے قتل نفس ، یتیموں کے جان و مال پر تجاوز کرنا اور زنا وغیرہ سے باز رکھے بلکہ نہ صرف ان کے ارتکاب سے روکے بلکہ ان کے بارے میں تصور کرنے سے بھی منع کرے ۔چونکہ نمازذکر خدائے متعال پر مشتمل ہے ،لہذاسب سے پہلے خدائے متعال کی وحدانیت ،رسالت اور روز قیامت کے جزا پر ایمان کو نماز گزارکے لئے تلقین کیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتاہے کہ اپنے خداکو ایمان و اخلاص کے ساتھ خطاب کرے،اس سے مدد طلب کرے اور درخواست کرے کہ اسے سیدھے راستہ پر ہد ایت کرے اسی طرح گمراہی اور اس کے قہر و غضب سے پناہ طلب کرے دوسرے یہ کہ اسے بر انگیختہ کرتاہے کہ اپنی روح وبدن کو خدائے متعال کی عظمت و کبر یائی کی طرف متو جہ کر ے ،اپنے پروردگارکو حمد وثنا ،تسبیح و تکبیر سے یاد کرے۔(۶)

لیکن روایات کے نقطہ نظرسے،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ خدائے متعال اس نماز پر نظرنہیں ڈالتا،جس میں نمازی ا پنے دل کو اپنے بدن سے ہم آہنگ نہ کرے او ر اس کا دل اس نماز کے پاس نہ ہو ۔بالکل واضح ہے کہ یہ روایت نماز کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو وہی ذکر اور خدا کی یاد ہے ،کیونکہ ذکر اورخدائے متعال کی یاد عبادت کا مقصد ہے اور انسان کے دل کو جلا وروشنی بخشتا ہے اور اسے تجلیا ت الہی کو قبول کر نے کے لئے آمادہ کر تاہے۔حضرت علی علیہ السلام یاد حق جو عبادت کی روح ہے کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:

''ان اللّٰه سبحانه وتعالی جعل الذکر جلاء للقلوب ،تسمع به بعد الوقرةو تبصربه بعد العشوةوتنقاد به بعد المعا ندة ''(۷)

''خدائے متعال نے اپنی یاد کو دلوں کے لئے صیقل و جلا قرار دیاہے کہ اس کے سبب (اس کے اوامرونواہی)بہرے پن کے بعد سنتے ہیں اور تاریکی (نادانی)کے بعد دیکھتے ہیں اور

جنگ و دشمنی کے بعد فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔''

سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

خدائے متعال کے لئے ہمیشہ جس کی نعمتیں اورکرم فرمائیاں بلند ہیں ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے میں اور اسے زمانے میں جب شریعتوں کے آثار گم ہو جاتے ہیں ،کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں جو اپنے خیالات و تصورات میں اس کے ساتھ رازو نیاز کر تے ہیں اورحقیقت میں عقلیں ان کے ساتھ باتیں کرتی ہیں۔

نماز کی حقیقت و اہمیت کاعالم یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام جنگ صفین میں دشمن سے جہادو برسرے پیکار ہونے کے ساتھ سخت گرمی کی حالت میں سورج کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں ،تاکہ اگرظہر کاوقت آپہنچا ہے تو نماز کے لئے کھڑے جائیں۔ابن عباس سوال کرتے ہیں'کیا کر رہے ہو ؟ حضرت جواب میں فرماتے ہیں:

''انظر الی الزوال حتی نصلی''

(آسمان کی طرف) دیکھ رہا ہوں کہ اگر وقت زوال ہوگیا ہے تو نماز پڑھوں۔ابن عباس کہتے ہیں : کیایہ نماز پڑھنے کا وقت ہے؟ اس وقت تو جنگ و جہادنے نماز پڑھنے کیلئے کوئی فرصت باقی نہیں رکھی ہے !حضرت جواب میں فرماتے ہیں:

''علی مانقا تلهم؟ انمانقاتلهم علی الصلٰوة'' (۸)

''مگر ہم ان سے کس لئے لڑرہے ہیں ؟ہم تو ان کے ساتھ نماز کے لئے ہی تو لڑرہے ہیں!''

جی ہاں، علی علیہ السلام کی نظر میں نماز کی اتنی عظمت و بلندی ہے کہ کوئی چیز ان کے لئے نماز سے منہ موڑ نے کا سبب نہیں بن سکتی تھی۔اس کے علاوہ آپ کی نظر میں عالم عبادت ،لذتوں سے لبریز ہے، ایسی لذت جو مادی لذتوں سے قابل موازنہ نہیں ہے۔آپ کی نظر میں ،عالم عبادت سراسر نور ہے ، اس میں تاریکی ،کدورت اور اندوہ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے اور عبادت بالکل نورانی اور خلوص ہے۔آپ کی نظر میں خوش قسمت وہ ہے جو اس بے انتہا دنیا ( دنیائے بندگی) میں قدم رکھے اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ اپنی جان کو اس جان بخشنے والی حقیقت (ذات خدا) کے سپرد کردے،کیونکہ جس نے اس لامتنا ہی دنیا( دنیائے عبودیت) میں قدم رکھا ،اس کی نظر میں دنیاچھوٹی اور حقیر بن جاتی ہے ،یہاں تک وہ دشمن سے جنگ کی حالت میں نمازکو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہو تا ہے ،کیونکہ وہ ہر چیزکو نماز کے لئے چاہتا ہے اور نماز کو اس لئے چاہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ راز و نیاز اور گفتگو کر تی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام عثمان بن حنیف انصاری کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

''خوشانصیب اس شخص کا کہ جس نے اللہ کے فرائض کو پوراکیا ۔سختیوں اور مصیبتوں میں صبر کیا ،راتوں کو اپنی نیدوں سے پہلو تہی اختیار کی اورجب نیند کا غلبہ ہو ا تو زمیں کوبچھونا اور اپنے ہاتھ کو تکیہ بنا لیا قیامت کے خوف نے جن کی آنکھیں بیدار،پہلو بچھونوں سے الگ اور ہونٹ یاد خدا میں زمزمہ کرتے رہتے ہیںاور کثرت استغفار سے جن کے گناہ (پراکندہ بادلوںکی طرح )چھٹ گئے ہیں(۹) ''یہی اللہ کا گروہ ہے۔اور بیشک اللہ کا گروہ ہی کامیاب کامران ہو نے والاہے''(۱۰)

ج۔مقدمات شرعی ہونے کا فلسفہ اور نماز کی طرف متوجہ کرنے والے عوامل نماز کی اہمیت اورانسان ومعاشرہ کی سلامتی میں اس کے مؤثر ہونیکے پیش نظر،خدائے متعال نے اس کو بہتر صورت میں انجام دینے کے لئے بعض مقدمات قرار دئے ہیں اور اس کے لئے بعض آداب معین کئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بندے اس کو یاد کریں اور اس کی عبادت کی اہمیت کو درک کریں ۔انسان کو کسی کار خیر کو انجام دینے کے لئے ،پہلے جاننا چاہئے؛کہ وہ کام خیرہے کہ نہیں اس کے بعد اس کے بارے میں فکر کرے.ہم بہت سے امور کے نیک ہونے کے بارے میں آگاہ ہیں،لیکن ان کو وقت پرانجام دینا بھول جاتے ہیں ہمیں نماز کو بھولنے سے بچانے کے لئے، خدائے متعال نے بعض مقدمات معین کئے ہیں، مثلا اذان کو نماز کے لئے واجب قرار دیا اور تاکید فرمائی کہ اسے ترک کرنے سے اجتناب کریں ۔اس کے علاوہ ایک اور عبادت کو اذان کے نام پر معین فرمایا،یہ نماز کا مقدمہ اور اس کی یاددہانی کرنے والی ہے اور فرمایا کہ اذان کو بلندآوازمیں کہوتاکہ دوسرے لوگ نماز اور اس کے وقت کے ہو جانیکے بارے میں متو جہ ہو جائیں اور ان میں نماز کو قائم کرنے کے لئے شوق پیدا ہو جائے۔اگر چہ نماز کے شرعی ہونے کی بنیاد اور اس سلسلہ میں نقل ہوئی آیات وروایات ،سب انسان کو نماز کی اہمیت اور موقعیت کو سمجھنے کے لئے مدد کرتی ہیں ،لیکن جب نماز کے وقت اذان کی آواز بلند ہو تی ہے تو لوگوں کی توجہ نماز کے وقت اوراس کی اہمیت کی طرف مبذول ہو تی ہے اور یہ لوگوںکو نماز کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایک مؤثرسبب ہے۔

یہاں تک بہت سے ایسے لوگ جو نماز کو اول وقت پر پڑھنے کا ملکہ رکھتے ہیں ، جب کسی کام کو انجام دینے میں سرگرم ومشغول ہوتے ہیں تو ممکن ہے نمازکو انجام دینے سے غافل ہوجائیں اور بھول جائیں کہ نماز کا وقت آپہنچا ہے،لیکن جب اذان کی آواز بلند ہوتی ہے تو خواہ نخواہ نماز کی طرف متو جہ ہو جاتے ہیں۔پس شریعت میں اذان اوراس کو بہ آواز بلند کہنے کی تاکید، دوسروں کو نماز کی طرف توجہ اور تذکر دلانے کے لئے ہے اور یہ بذات خود دوسروں کو اول وقت پر عبادت انجام د ینے کی دعوت ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اول وقت میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں فرماتے ہیں:

''اذا صلّیت صلاة فریضة فصلها لو قتها صلاة مودّع یخاف ان لا یعود الیها ابدا'' (۱۱)

''جب تم واجب نماز پڑھنا چاہو تو اسے اول وقت میں اس شخص کی طرح بجالائو جس کا اس دنیا سے رخصت ہو نے کا وقت آپہنچا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں پھر سے نماز پڑھنے کی اسے فرصت میسر نہ ہو، اسی طرح ابن مسعود سے نقل ہوا ہے :

''سألت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :ایّ الاعمال احب الی الله عز وجل ؟قال :الصلوة لوقتها'' (۱۲)

''میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا : کونسا عمل خدائے متعال کے نزدیک بہتر و محبوب تر ہے ؟تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا( محبوب ترین عمل خداکے نزدیک) اول وقت میں نماز پڑھناہے ۔''

پھر بھی خدائے متعال نے لوگوںمیں عبادت اور بندگی کی روح کو ایجاد کرنے کے لئے مزید تشویق کی خاطر نماز کے لئے خاص زمان ومکان معین فرمائے ہیں ۔مثلا شب اور روز جمعہ کو عبادت کے لئے معین فرمایا ہے اورخود روز جمعہ کو عبادت کے لئے مخصوص کیا گیا ہے، انسان کو عبادت انجام دینے اور بیہودہ کاموں سے پرہیز کرنے کی طرف تر غیب و تلقین کرتاہے۔ا سی طرح جو فضیلت خدائے متعال نے ماہ ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے لئے قراردی ہے وہ بذات خود خداکی عبادت کی یاد دہانی ہے کیونکہ ان چالیس دنوں (ایک ماہ ذی القعدہ اور دس روز ذی الحجہ) تک حضرت مو سی علیہ السلام کوہ طور پر عبادت پروردگار میں مشغول رہے ہیں خدائے متعال اس سلسلہ میں فرماتا ہے:

(وواعدنا موسی ثلثین لیلةواتممناها بعشر فتم میقات ربه اربعین لیلة وقال موسی لأخیه هرون اخلفنی فی قوم واصلح ولا تتبع سبیل المفسدین ) ( اعراف ١٤٢)

''اور ہم نے موسی سے تیس راتوں کا وعدہ لیا اورپھر مزید دس راتوں کا اضافہ کیا تا کہ اس طرح ان کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا مکمل ہو جائے اور انہوں نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم قوم میں میری نیابت کرو اور اصلاح کرتے رہواور خبر دار مفسدوں کے راستہ کا اتباع نہ کرنا''

حضرت مو سی علی نبینا وعلیہ السلام نے چالیس دن عبادت میں گزارے وہ ((اربعین کلیمیہ)) کے نام سے مشہور ہیں اور اہل سیر وسلوک ان کیلئے فراوان اہمیت کے قائل ہیں اور ان کے لئے خاص آداب واحکام ذکر کئے ہیں اور اس کے دوران بیشتر عبادت میں مشغول رہتے ہیں،چونکہ ہماری احادیث کے منابع میں اربعین کے بارے میں ایک خاص اہمیت ذکر ہو ئی ہے، مثلا ایک روایت میں آیا ہے:

''من أخلص لله اربعین یومافجر اللّٰه ینابیع الحکمة من قلبه علی لسانه'' (۱۳)

جوچالیس روز تک خدائے متعال کی مخلصانہ عبادت کرے ،خدائے متعال اس کے دل سے حکمت کے چشمے زبان پر جاری فرمائے گا۔

(چالیس دن تک عبادت کرنا یاچالیس حدیث حفظ کرنا وغیرہ کے بارے میں فراوان فائدے ذکر کئے گئے ہیں۔)

اسی طرح مبارک ایام ،عیدیں، احیاء (بیداری)کی راتیں اور ماہ رمضان المبارک ایسے امتیازات اورخصوصیات رکھتے ہیں تاکہ ان سے استفادہ اور ان زمانوں سے مربوط مواقع کو درک کرنا لوگوں کو بیشتر خداکی یاد میں مشغول کرے اور وہ زیادہ سے زیادہ عبادت کریںاور وہ سمجھ لیں کہ ان کی سعادت خداکی بندگی اوراس کی عبادت میں ہے،اور شائستہ نہیں ہے کہ انسان خدائے متعال سے منہ موڑ کر دوسروں کی طرف رخ کرے۔

مادرخلوت بہ روی خلق ببستیم

از ہمہ بازآمدیم وباتونشستیم

ہرچہ نہ پیوند یار بودبریدیم

وآنچہ نہ پیمان دوست بودشکستیم

در ہمہ چشمی عزیز ونزدتوخواریم

در ہمہ عالم بلندوپیش تو پستیم

(ہم نے خلوت اور تنہائیوںمیں لوگوں سے منہ موڑ لیا ہے ۔سب کو چھوڑ کے تیرے حضور آبیٹھے ہیں ۔جو بھی دوست کاپیوند نہ تھا اسے ہم نے پھاڑ دیا۔اور جو بھی دوست کا عہد و پیمان نہ تھا اسے توڑدیا ، ہم سبھی کی نظروں میں عزیز ہیں لیکن تیرے حضور میں ذلیل وخوار ہیں،تمام دنیا میں بلند لیکن تیرے سامنے پست ہیں)

مسجد، لقاء اللہ کے عاشقوں کے کی معراج:

خاص زمانوں کے علاوہ خدائے متعال نے عبادت کیلئے چند خاص مکان بھی عبادت کے لئے معین فرمائے ہیں ،کہ جب لوگ ان مکانوںکو دیکھتے ہیں اور ان میں داخل ہو تے ہیںتو انھیں خود بخود خدا اوراس کے عبادی فریضہ کی یاد آتی ہے اس لحاظ سے ان مکانوں کا وجود ،خدا کے طرف تو جہ کر نے اور اس کی بندگی کے لئے زیادہ شو ق پیدا کرتاہے ،کلی طور پر مسجدیں اس قسم کا رول ادا کرتی ہیں۔

اگر چہ انسان کے لئے نماز کو بجالانا ہر جگہ پر غصبی جگہوں یا ایسی جگہوںپر، جہاں کسی وجہ سے نماز پڑھنا جائز نہیںہے ،کے علاوہ جائز ہے، لیکن اسلام میں سخت تاکید کی گئی ہے کہ انسان واجب نمازوں کومسجد میں پڑھے اورمسجد میں رفت وآمد کے لئے پابند رہے،خاص کرہمسایہ کی مسجد میں ، چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''لا صلوة لجارالمسجد الا فی مسجده'' (۱۴)

''مسجد کے ہمسایہ کی نمازقبول نہیں ہے ،مگر مسجدمیں ۔''

روایتوںمیں کی گئی تاکید وںکے پیش نظر فقہا نے مسجد کے ہمسایوںکے لئے مسجد میں نماز پڑھنے کو مستحب مو کد اوراس کے ترک کرنے کو مکروہ جاناہے۔ مرحوم آیت اللہ سید محمد کاظم یزدی فرماتے ہیں:

مسجد کے ہمسایہ کے لئے عذر کے بغیر اس مسجد کے علاوہ کہیں اور نماز پڑھنامکروہ ہے(۱۵) پس انسان کوہمیشہ مسجد میں حاضر ہوناچاہئے تاکہ نماز کو مسجد میں پڑھے اور مسجد کے مقام ومنزلت اور اس کے آداب و احترام کی رعایت اور اس میں عدم حضور کی قباحت کے بارے میں فکر کرے اور یہ بھی سوچ لے کہ مسجد میں حاضر ہونے اور وہاں پر نماز پڑھنے کے ثواب کے علاوہ خدائے متعال نے مسجد کو اپنا گھر قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کو اس میں داخل ہونے کی اجازت دیکر انھیں اپنا مرہون منت بنایا تا کہ وہ اس میں حاضر ہو کر مستفید و باریاب ہوں،کیو نکہ مسجد خدا کاگھر ہے ۔

فطری بات ہے کہ تمام زمین خدائے متعال کے نزدیک یکساںہے اور کوئی ایک جگہ دوسری کی نسبت خدا سے زیادہ نزدیک نہیں ہے،پس کعبہ اورمسجد کے خداکا گھرہونے کا مقصد یہ ہے کہ خداوند متعال کا ان مکانات کے ساتھ بر تائوویسا ہی ہے جیسا ہم اپنے گھروں سے رکھتے ہیں ۔یعنی خدا ئے متعال نے ان مکانات کواپنی ملاقات اور انس اور زیارت کی جگہ قرار دیا ہے اور اپنے بندوںاور زائرین کو وہاں پر اپنی ملاقات سے سر فراز کر تاہے اور ان سے بات کر تاہے اس کے علاوہ جس جگہ کے بارے میں ہم مسجدبنانے کا ارادہ کریںاور اسے خدائے متعال سے منسوب کریں اورجس جگہ کو بھی ہم اسکی ملاقات اس کے وہاں حاضر ہونے اور اسکی زیارت کے لئے قرار دیں وہ اسے قبول کرتاہے اور یہ اس معنی میں ہے کہ ملاقات اور زیارت کی جگہ کومعین کر نا بھی ہمارے ذمہ رکھا ہے اور یہ خدائے متعال کی طرف سے ہمارے لئے سب سے بڑی سخاوت اور مہر بانی ہے۔

پس مسجدوں کا سب سے بڑا رول ،انسان کا خداوند متعال کی طرف توجہ کرنا اور ان میں عبادت و بندگی کی حس کو اجاگر کرناہے ،اگر چہ سب مسجدیں رتبہ اور مقام کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیںاور اہمیت کے لحاظ سے بعض مسجدوں کی عظمت بلند ہے ۔حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

''مذہب اسلام میں تاکید کی گئی ہے کہ نماز کو مسجدمیں پڑھا جائے، تمام مسجدوں میں سب سے بہترمسجد الحرام ہے، اس کے بعد مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،اس کے بعد مسجد کو فہ ،اس کے بعد بیت المقدس ، اس کے بعد ہر شہر کی جامع مسجد اسکے بعد محلہ کی مسجد،اور اس کے بعدبازارکی مسجد ہے۔ ''(۱۶)

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اربعةمن قصور الجنة فی الدنیا:المسجدالحرام،و مسجد الرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ومسجد بیت المقدس ومسجد الکوفه'' (۱۷)

یہ چار مسجدیں دنیا میں قصر بہشت ہیں، مسجد الحرام ، مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مسجد بیت المقدس ، مسجد کوفہ ۔

یہ چار مسجدیں اس قدر عظیم اور مقدس ہیں کہ حتی بعض روایتوں میں تاکیدکی گئی ہے کہ انسان دور ونزدیک راستوں سے سفر کر کے ان مساجد کی زیارت کرے اور ان میں اعتکاف کرنے کا ثواب ہے ۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لو یعلم الناس مافی مسجد الکوفه لأعدواله الزاد والرواحل من مکان بعید ان الصلاة فریضة فیه تعدل حجة وصلاة نافلة فیه تعدل عمرة'' (۱۸)

اگر لوگ مسجد کوفہ کو پہچانتے ،تو دور دراز منزلوںسے اس مسجدمیں پہنچنے کے لئے زاد راہ اور سواری کا انتظام کرتے ۔اس مسجد میں ایک واجب نماز کا ثواب حج کے ثواب کے برابر اور ایک مستحب نماز کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہیں۔

یا یہ کہ مسجدالحرام کی اس قدر عظمت ہے کہ مسلمانوں کی قبلہ گاہ یعنی کعبہ اسی میں قرار پایا ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنی نماز کو اس مسجد اور خانہ کعبہ کی طرف بجا لائیں۔ اس کے علاوہ مستطیع ہو نے والوں پر اسکا حج کرنا واجب ہے اوراس مسجد میں ایک رکعت نماز کا ثواب دوسری مسجدوں میں دس لاکھ رکعتوں کے ثواب کے برابر ہے ۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے:

''صلاة فی مسجدی تعدل الف صلاة فی غیره وصلاة فی المسجد الحرام تعدل الف صلاة فی مسجد'' (۱۹)

''میری مسجدمیں ایک رکعت نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں ہزاررکعتیں پڑھنے کے برابر ہے اور مسجد الحرام میں ایک رکعت نمازپڑھنامیری مسجد میں ہزاررکعتیں نماز پڑھنے کے برابر ہے''

اس کے علاوہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اس مسجد مقدس کی فضلیت میں فرماتے ہیں:

''من صلّی فی المسجد الحرام صلاةمکتو بة قبل الله منه کل صلاة صلاها منذیوم وجبت علیه الصلاة وکل صلاة یصلیهاالی ان یموت'' (۲۰)

''جس شخص نے ایک واجب نمازکو مسجدالحرام میں بجا لا یا، تو خدائے متعال اس پر واجب ہو نے کے دن سے پڑھی گئی تمام نمازوں کواور آئندہ مر تے دم تک پڑھی جانی والی تمام نمازوں کو قبول فرماتاہے ۔''

مذکورہ مسجدوں کے علاوہ کچھ اور مسجدیں بھی بافضیلت ہیں، یہاں تک حدیث قدسی میں آیا ہے:

''قال الله تبارک و تعالی:ان بیوتیٰ فی الارض المساجد ،تضیٔ لاهل السماء کما تضیٔ النجوم لا هل الارض الا طو بیٰ لمن کانت المساجد بیو ته الا طوبیٰ لعبد توضأ فی بیته ثم زارنی فی بیتی الاان علی المزور کرامة الزائر الابشر المشائین فی الظلمات الی المساجد بالنور الساطع یوم القیامة '' (۲۱)

پروردگار عالم فرماتاہے:زمین پر مسجد یں میرا گھر ہیں جو اہل آسمان کے لئے اسی طرح چمکتی ہیں جس طرح اہل زمین کے لئے ستارے چمکتے ہیں ۔خوشا نصیب ان کیلئے جنھوں نے مسجدوں کو اپنے گھر قرار دیا ہے ۔خو شا نصیب اس بندے کے لئے ،جو اپنے گھر میں وضو کر تا ہے اور اس کے بعد میرے گھر پرمیری زیارت کر تاہے ۔آگاہ ہوجائو کہ جس کی زیارت کی جاتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے زائر کا احترام کرے اور اس پر احسان کرے ۔جو لوگ رات کی تاریکی میں مسجد کی طرف قدم بڑھاتے ہیں انھیں قیا مت کے دن ایک چمکتے نورکی بشارت دو۔

مسجدوں کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کی حکمتیں:

لوگوںکو مساجد کی طرف متوجہ کرنے کی فراوان حکمتیں ہیں ، ان کو کلی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

١۔اجتما عی حکمتیں:جب کی مسجد کو مرکزیت مل جائیگی اور روزانہ چند مر تبہ لوگ وہاں جمع ہوںگے یا جمعہ کے دن لوگوں کاایک پر شکوہ اجتماع مسجد میں اکٹھا ہوگا تو معاشرے کو بہت ساری اجتماعی ، اقتصادی اور سیاسی بر کتیں نصیب ہوں گی۔ اورمسلمان صدر اسلام سے آج تک ان منفعتوںاور برکتوں سے بہرہ مند ہو تے آئیں ہیں۔مسجد، پوری تاریخ میں فکری ،مذہبی ،سیاسی اور اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا مرکز رہی ہیں اس کے علاوہ مساجد اسلام کی غنی ثقافت کی تر ویج اور معاشر ے کے لئے ضروری علوم سیکھنے کا مر کز رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مسجدیںدشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے جنگجوئوں اور مجاہدین کا مر کز رہی ہیں۔ ہم کلی طور پر مسجد کے لئے چار اہم نقش کے قائل ہو سکتے ہیں:

الف۔عبادت اور خداکی یاد کا مرکز

ب۔ فکری جہاد اور تعلیم و معارف اسلامی سیکھنے کا مر کز ۔

ج۔مسلمانوں کی وحدت اورآشکار و مخفی دشمنوں سے مقابلہ کے لئے اتحاد و یکجہتی کے مظاہرہ کا مرکز ۔

د۔ لشکر اسلام اور مجاہدین کے جمع ہو نے اور دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے ان کو محاذ جنگ پر روانہ کرنے کا مرکز ۔

٢۔انفرادی حکمتیں: مذکورہ مطالب کے علاوہ ،مسجد خود ایک فرد کے لئے بھی بہت سی بر کتیں رکھتی ہے. جب کوئی شخص مسجد سے گزرتا ہے اور اس میں داخل ہوتا ہے تو اس میں عبادت کے لئے مزید آمادگی ظاہر کرتاہے۔ پس مسجد تذکر دینے کی جگہ ہے جو انسان کو خدا اور عبادت کی یاددلا تی ہے۔حتی اگر انسان یادخدا سے غافل بھی ہو ، جب وہ مسجد کے سامنے سے گزر تاہے یا مسجد کے گنبد یا مینار کو دیکھتا ہے،تووہ متوجہ ہو تاہے کہ یہاںپر خداکا گھرہے اور فو راً اسے خدا کی یاد آتی ہے۔جو خدائے متعال کی بندگی کے خواہشمند ہو تے ہیں ، ان میں عبادت کے شوق کو اجاگر کر نے والے عوامل پیدا ہوتے ہیںاس لحاظ سے وہ عوامل ، اس کے تکامل وارتقاء کے لئے بہترین وسیلہ ہیں،اور انسانوں کو زیادہ سے زیادہ خدا اور اس کی عبادت کی طرف مائل کر نے والے عوامل میں عبادت و بندگی کے لئے مشخص کئے گئے مخصوص مکان بھی ہیں۔اس لئے تاکید کی گئی ہے کہ انسان اپنے گھر میں بھی نماز خانہ یا مصلی کے طورپر ایک جگہ کو معین اور مشخص کر لے اور اس بات کا دھہان رکھے کہ وہ جگہ نجاست سے آلودہ نہ ہو ،جب انسان نماز کے لئے مخصوص کی گئی اس جگہ یا نماز کے لئے بچھائی گئی جانماز کو دیکھتا ہے ،اسے خدا کی یاد آتی ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''کان علی علیه السلام قد جعل بینا فی داره لیس بالصغیرولا بالکبیر لصلاته وکان اذا کان اللیل ذهب معه بصبی لا یبیت معه فیصلی فیه'' (۲۲)

''امیرالمو منین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے گھر میں ایک متو سط قسم کا کمرہ نماز کے لئے قرار دیاتھا اور جو بچہ شب میں بیدار ہو تا تھا اسے ساتھ لے کرنماز پڑھنے کے لئے اس کمرہ میں جاتے تھے اور نماز پڑھتے تھے ۔ ''

گھر کے نمازخانہ کے علاوہ ،شہر اور محلہ کی مسجدیں بھی یاد دہانی کرانے والی ہیں اور انسان کوخدا کی طرف متو جہ کرتی ہیں اور ان وسائل میں سے ہیںکہ جنھیں خدائے متعال نے انسان کے لئے کمال و سعادت کی راہ میں قرار دیا ہے۔اس لحاظ سے جب کسی جگہ پر مسجد تعمیر ہو تی ہے ،تو لوگوں کو اس میں جانے کی تشویق کرنا چاہئے اور مسجدمیں جانے کاثواب اور مسجد کی طرف جانے کے لئے ہر کے لئے جو ثواب ہیں،انھیں بیان کیا جاناچاہئے تا کہ لوگوں میں مسجد میں جانے کاشوق پیدا ہو ، انھیں کہنا چاہئے کہ مسجد میں حاضر ہو نا ثواب میں اضافہ ہونے اور گناہ کے نا بود ہو نے کاسبب ہے ۔ حضرت امام صادق علیہ السلام فر ما تے ہیں:

'' قال رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و من مشی الی مسجد یطلب فیہ الجماعة کان لہ بکل خطوة سبعون الف حسنة و یرفع لہ من الدرجات مثل ذلک''(۲۳)

''پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو نماز میں شرکت کرنیکی نیت سے مسجد کی طرف قدم بڑھا تا ہے ،خدائے متعال اس کے ہر قدم کے عوض میں سترہزار ثواب پاداش (جزا) کے طور پر دیتا ہے اور اسی قدر اس کے درجات بھی بلند ہو تے ہیں ''

مساجد کی اہمیت کو درک کرنے کی ضرو رت

اور ان میں حاضر ہو نے کے آداب :

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث میں نصیحتوں کا ایک حصہ مو منین کو مسجدمیں حاضر ہو کر اس کے معنوی بر کات سے بہرہ مند ہو نے کے لئے تشو یق کرنے پر مشتمل ہے۔اس کا ایک اور حصہ مسجد میں حاضر ہو نے کے آداب سے مر بوط ہے کہ کس طرح مسجد سے بہتر استفادہ کیا جائے ، ہمیں کن قواعد وضوابط پر عمل کر نا چاہئے تاکہ خدا نخواستہ اس الہی اورعظیم نعمت سے محروم نہ ہو جائیں ، کیو نکہ بعض او قات انسان اس قدر غفلت اور شیطان وسوسوں میں مبتلا ہو تا ہے کہ خیر و سعادت کے وسائل کو اپنے ہی ہاتھ سے شر اور تاریکی کے وسائل میں تبدیل کر دیتا ہے :

( الم تر الی الذین بدلو ا نعمت الله کفرا ) ۔۔۔ ) (ابراہیم ٢٨)

''کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت سے تبدیل کر دیا''

جی ہاں،انسان کے لئے یہ خطرہ مو جود ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں سے خداکی ایک نعمت کو کفران نعمت میں تبدیل کردے اور خیر ونیکی کے وسیلہ کو شر کے وسیلہ میں تبدیل کرے ، لہذا جب لوگ مسجد میں جانے اور مسجد کی طرف قدم بڑھانے کے ثواب شما ر کرتے ہیں تو جائیے کہ اس کے علاوہ انھیں یہ بھی یاد دہانی کرائی جائے کہ وہ مسجد سے مناسب استفادہ کرنے کی کوشش کریں اور اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ کس لئے مسجد میں آئے ہیں ،تاکہ خدا نخواستہ دنیوی امور ، خرید و فروش، گران وارزان ،ڈالر اور زمین کی قیمت جیسی چیزوں کی گفتگو میں مشغول نہ ہو جائیں اور اس بات کو بالکل ہی فراموش کرجائیں کہ کہاں ہیں اور کس لئے آئے ہیں !اس لحاظ سے مسجد کے لئے کچھ مخصوص آداب معین ہوئے ہیں تاکہ ان کی رعایت سے انسان غفلت میں مبتلا نہ ہو اور مسجد کی بر کات سے محروم نہ رہے ۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیا نات پر غور و تحقیقا ت سے پہلے ہم ایک نکتہ کی طرف یاد دہانی کرانا ضروری سمجھتے ہیںاور وہ یہ ہے جب انسان مسجد جانیکا ارادہ کر تاہے ، تواسے اپنی استعداد کے مطا بق مسجد میں حاضر ہو نے کے آداب کو جاننے کی کوشش کرنا چاہئے ، کیو نکہ جس قدر معر فت ہوگی ،اسی قدرعمل کی قدر وقیمت میں اضافہ ہوگا اور ادب کی ر عایت خود بندہ کے لئے خدائے متعال سے قریب ہو نے کا سبب ہے، اس کے علاوہ جو شخص مسجد میں حاضرہونے کے آداب کی رعایت کرتاہے ، اس کا عمل قرب الٰہی اور اعمال کے قبول ہونے کا سبب واقع ہو تاہے ہمیں جاننا چاہئے کہ جب ہم مسجد میں حاضر ہوتے ہیں تو گویا ہم خدا ئے متعال کی چو کھٹ پر وارد ہوتے ہیں اور اس کے حضور میں ہو تے ہیں اور مناسب ہے حضرت حق کی بارگاہ میں حاضر ہو نے کے آداب کو اپنے بزرگوں اور محترم شخصیتوں کے وہاں حاضر ہو نیکے آداب کو معیار قرار دیں اور دیکھیں کہ جب ہم کسی محترم بزرگ شخصیت کی خدمت میں حاضر ہو تے ہیں،تو کس طرح خضوع و خشوع کے ساتھ نیز انکساری اور احساس کم تری کی کیفیت ہم پر طاری ہو تی ہے عع۔ اس کے پیش نظر کہ بزرگوں کی عظمت خدائے متعال کی عظمت سے قابل موازنہ نہیں ہے اور اسی طرح خداکے حضور میں حاضر ہو نے کے آداب کی نسبت بزرگوں کے حضور میں حاضر ہو نے کے آداب سے قابل موازنہ نہیں ہے ۔

مذکو رہ مطالب کے پیش نظر معلوم ہو تا ہے کہ کوئی بھی شخص خدا کے حضور میں حاضر ہو نے کے آداب کے حق کی رعایت کرنے کی طاقت نہیں رکھتاہے ۔اس لحاظ سے ہم خدا کے حضور میں حاضر ہونے کے آداب کی رعایت نہیں کرسکتے ہیںپس کم از کم اتنا تو دیکھ لیں کہ ہماری رفتار کیسی ہے اور اپنی کو تاہیوں کو مد نظر رکھیں کہ یہی مختصراقدام ہما رے لئے خدا کے کرم کا دروازہ کھلنے کا سبب بنے گا ۔ حضرت امام صادق علیہ السلام ایک مفصل حدیث میں ،مسجد میں حاضر ہو نے کے آداب کو یوں بیان فرما تے ہیں:

جب کسی مسجد کے دروازہ پر وارد ہو ، تو جان لو کہ تم نے ایک ایسے سلطان وبادشاہ کی ملا قات کا ارادہ کیا ہے جس کی بساط پر پاک و پاکیزہ لوگوں کے علاوہ کوئی قدم نہیں رکھ سکتا ہے اور اس کی مصاحبت کے لئے صدیقین اور اچھے کردار والوں کے علاوہ کسی کو اجازت نہیں دی گئی ہے اور جب اسکی بساط پر قدم رکھو ،تو جان لو کہ اگر معمولی سی غفلت تم سے سر زد ہوئی تو تم ایک بڑے خطرے اور خطرناک گڑھے کے دہانے پر واقع ہو اور یہ بھی جان لو کہ وہ اپنے عدل یافضل سے تمھارے ساتھ معا ملہ کرے گا ۔پس اگر اس نے مہر بانی کی اوراپنے فضل و رحمت سے تمھارے ساتھ معاملہ کیا تو وہ تمھاری معمو لی اطا عت کو بھی قبول کرلے گا اور اس کے مقا بلہ میں تجھے ثواب دے گا اور اگر وہ تجھ سے اپنے عدل سے معاملہ کر نا چاہے اور جس چیز کے تم مستحق ہو وہ تمہیں عطا کرے تو وہ تمہیں تمہاری اطاعت سمیٹ واپس کردے گا چاہئے جس قدر بھی زیادہ ہو،مسترد کر دے گااوروہ جو چاہے گا وہ انجام دیگا۔

پس اسکی بار گاہ میں اپنی عاجزی،کو تاہی اور فقر کا اعتراف کرو،کیونکہ تم نے اسکی عبادت اور اس سے انس کی نیت کی ہے ۔اپنے اسرار کواس کے سامنے پیش کروا اور جان لوکہ وہ تمام مخلو قات کے پنہاں وآشکار امورکے بارے میں علم رکھتاہے اور ایک ذرہ بھی اس سے پو شیدہ نہیں ہے اور تم اس کے حضور میں ایک فقیر ترین بندہ کے مانند رہو اوراپنے دل کو ان تمام چیزوںسے پاک کر و جو تجھے اپنی طرف مشغول کرے اور تیرے اوراس کے درمیان حجاب اور مانع ہو، کیونکہ وہ پاکیزہ ترین اور مخلص ترین دلوں کے علاوہ کسی کو قبول نہیں کر تا ہے اور اچھی طرح دیکھ لو کہ تمھارا نام کس رجسٹر میں درج ہے۔پس اگر تم نے اس کے ساتھ مناجات کی حلاوت کو چکھا اور اسکے ساتھ گفتگو میں لذت کا احساس کیااور اس کی رحمت وکرامت کے جام نوش کئے،تو یہ اسکی طرف تجھے قبول کر نے اور تیری دعوت کو اجابت کرنے کی نشانی ہے اوراس صورت میں جان لوکہ تم اس کی خدمت میں جانے کے سزاوار ہوپس تم مسجد میں داخل ہوجائو کہ تجھے پروانہ اذن وامان مل گیا اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم ایک ایسے دربدر شخص کی طرح ہو کہ جس کے لئے تمام دروازے بندکردیئے گئے ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتا ہے ۔ تمھیں جان لینا چاہئے کہ اگراسے معلوم ہو جائے کہ تم نے حقیقت میں اس کے یہاں پناہ لی ہے ، تو وہ تجھے مہر بانی، رحمت اور کرم کی نگاہ سے دیکھے گا اور تجھے اپنی مرضی سے کامیاب بنا دے گا،کیو نکہ وہ کریم اور عظمت والا ہے اور اپنے ایسے بندوںسے عطوفت و محبت کرتاہے جو بے چارہ مضطرب حالت میں اس کی بار گاہ میں کھڑے ہو کر اس کے لطف وکرم کے لئے امید وار ہوتے ہیں،کیونکہ وہ خود فرما تاہے:

( ''امن یجیب المضطر اذا دعاه و یکشف السو ئ ) ۔۔۔'' (نمل٦٢)

''بھلا وہ کون ہے جومضطر کی فریاد کو سنتاہے؟ جب وہ اس کو آواز دیتاہے اوراسکی مصیبت کو دور کردیتاہے ۔''

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں حاضر ہونے کی تشو یق کے لئے فرماتے ہیں:

''یا اباذر!الکلمة الطیبة صدقة وکل خطوةتخطوها الی الصلوٰة صدقة''

''اے ابوذر !نیک گفتاراور جو بھی قدم نماز کیلئے اٹھائو گے وہ صدقہ ہے''

''صدقہ'' ان عناوین میں سے ہے جس کو اسلامی ثقافت میں مختلف صورتوں میں پیش کیا گیاہے اور اس کی اہمیت واضح ہے،جب کہتے ہیں کہ فلاں کام صدقہ ہے ،تو اس کا مفہوم ومعنی یہ ہو تا ہے کہ اس کام کی غیر معمولی اہمیت ہے اوراس کا بہت زیادہ ثواب ہے ۔اس لحاظ سے جب کسی چیزکی عظمت کو بیان کرنا چاہتے ہیں توکہتے ہیں : یہ کام صدقہ ہے ۔ من جملہ جب نیک اور شائستہ بات ہم کسی سے کہنا چاہتے ہیں،تو کہتے ہیں صدقہ ہے،تاکہ اسے کم اہمیت نہ سمجھیں اور توجہ رکھیں کہ ہم نے جب کسی سے اچھی بات کہی جواس کے کام کی تھی اور اسے خدا کی طرف متوجہ کرنے والی تھی نیز ،برے کام سے باز رکھنے والی تھی یا ایسی بات جو ایک غمزدہ اور پریشان مومن کے لئے خوشنودی کا باعث ہو اور اس کی ناامیدی اور افسردگی کو برطرف کردے تو ایسی بات مطلوب اور خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے اگر خدا وند عالم کی اطاعت کے قصد سے انجام دی جائے تو عبادت ہے ۔

پہلے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما تے ہیں کہ ہر نیک بات صدقہ ہے اور اس کے بعد فرما تے ہیں جو بھی قدم مسجد کی طرف اٹھائو گے وہ بھی صدقہ ہے اور اس کے بعد بحث کا محور مسجد ہے ۔فطری بات ہے کہ جب ایک انسان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس بیان کے مفہوم و معنی سے آگاہ ہو گیااور اس نے یقین کر لیا کہ جو بھی قدم وہ مسجد کی طرف اٹھائے گا وہ صدقہ ہے اور اس بہت زیادہ اجر اور ثواب ہے ،تو مسجد اس کے گھر سے چاہے جتنی دور ہو پھر بھی مسجد میں جانے کے لئے وہ عجلت کرے گااور اس کے لئے مسجد میں جانا مشکل نہیں ہوگا اور بہانہ نہیں کرسکتا کہ مسجد دور ہے، چونکہ وہ جانتا ہے کہ جتنی زیادہ مسجد اس کے گھر دور ہوگی اتنی زیادہ وہاں جانے کا ثواب زیادہ ہوگا ۔

اس کے بعدنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں حاضر ہونے کے آداب کے بارے میں فرماتے ہیں:

''یا اباذر !من اجاب داعی اللّٰہ و احسن عمارة مساجد اللّٰہ کان ثوابہ من اللّٰہ الجنة''

اے ابو ذر !جو شخص خدائے متعال کی طرف دعوت کرنے والے کی بات پر لبیک کہے اور مسجد کو آباد کرنے میں اچھی طرح حصہ لے، تو خداکی طرف سے اس کی پاداش (جزا )بہشت ہے۔

ظاہرا ًخدا کی طرف بلانے والے سے مقصود وہ مؤذن ہے جو اذان کہتا ہے،کیو نکہ وہ خداکی طرف سے لوگوں کو خدا کے گھر کی جانب دعوت دیتاہے اور اس کا کام یہ ہے کہ بلند آواز میں اذان کہے اور اعلان کرے کہ نماز کا وقت آپہنچا ہے ،تاکہ لوگ عبادت کے لئے مسجد میں حاضر ہو جائیں۔ اگر کسی نے اس کی دعوت قبول کی ،یعنی اذان کی آواز سن کرمسجد کی طرف روانہ ہوا ،تو اس نے مسجد کو آباد کرنیکی کوشش کی،اس کی پاداش بہشت ہے۔

ابتدا میں کسی مسجد کو تعمیر کر نے سے مراد یا اس کو آباد کرنے کسی ویران ہو نے والے کی مسجد کی حفاظت اور مرمت کامسئلہ انسان کے ذہن میں آتا ہے،لیکن اس معنی کا گزشتہ جملہ کے ساتھ کوئی تناسب نہیں ہے۔ اس بناپر عمارت یعنی مسجد کو آباد کرنے کا معنی ، تعمیر اور مرمت کے معنی سے وسیع تر ہو نا چاہئے ۔(عمارت مسجد) کا عنوان جو قر آن مجید اور روایا ت میں استعمال ہوا ہے ،لغوی معنی میں مسجد کی ابتدائی تعمیر بھی ہے اور اس کی محافظت بھی ہے اور اس کے علا وہ اس کی زیا رت کر نے اور مسجد میں رفت و آمد کے معنی میں بھی آیا ہے، ائمہ معصومین علیھم السلام سے نقل کی گئی ایک روایت میں ان تینوں معنی کے بارے میں تاکید کی گئی ہے:مسجدتعمیر کرنا،اس کی مرمت کرنامساجدمیں رفت وآمد کی مزید تاکید کی گئی ہے ۔

مذکورہ مطالب کے پیش نظر لگتا ہے کہ جناب ابوذر بھی متو جہ ہوئے کہ''عمارت مسجد'' کے عنوان سے مسجد تعمیر کرنے، ظاہری طور پر آباد کرنے اور مرمت و محافظت کے علاوہ کوئی دوسرا معنی بھی مد نظر ہے اور اسی لئے کیفیت عمارت کے بارے میں سوال کر تے ہیں ۔چونکہ اگر عمارت سے مسجد کو تعمیر کرنا مقصود ہو تا تو جنا ب ابوذر کے لئے کوئی ابہام باقی نہ تھا کہ سوال کر تے۔

جناب ابو ذر پوچھتے ہیں :اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قر بان ہوں ،ہم مسجد کو کیسے آباد کریں ؟

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب میں فرماتے ہیں:

''لا تر فع فیها الاصوات ولایخاض فیها بالباطل ولا یشتری فیها ولا یباع واترک اللغو مادمت فیهافان لم تفعل فلا تلوا من یوم القیامة الا نفسک ''

( مسجد کو آباد کرنا اس معنی میں ہے کہ) اس میں آواز بلند نہ ہو،باطل اور بیہودہ کام کو انجام دینے سے پرہیز کیا جائے ، اس میں خرید و فروخت نہ کیا جائے اور جب تک مسجد کے اندر ہے لغو بیان سے پرہیز کرے ورنہ قیامت کے دن اپنے علاوہ کسی اور کی سرزنش نہ کر ے۔

مذ کورہ جملوں میں ،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذر کے لئے چار اخلاقی اور تربیتی قواعدوضوابط کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:

١۔مسجد میں شور مچانے اور بلند آواز سے بات کرنے سے پر ہیز ! کیونکہ مسجد عبادت کی جگہ ہے ممکن ہے اونچی آوازمیں بات کرنادوسروں کے ہواس کے مختل ہونے کاسبب ہوتا ہے اور ممکن ہے عبادت گزار نماز و عبادت میں اپنی فکر کو متمرکز نہ کرسکیں۔اس کے علاوہ کسی اجتماع میں اونچی آواز میں بولنا ایک قسم کی بے ادبی شمار ہوتا ہے اور مناسب ہے انسان مسجدمیں شائستہ رفتار کا مظاہرہ کرے اور جو کام انسانی آداب کے متناسب نہ ہو اس سے پرہیز کرے ۔اس بنا پر مسجد کی آبادی کاری کا ایک مصداق یہ ہے کہ انسان اس میں وقار اور سنجیدگی کے ساتھ رہے اورخاموشی کی رعایت کرنیکی کوشش کرے اوراگر بات کرنا چاہتا ہے تو آہستہ بو لے تاکہ دوسروں ۔۔جو نما ز یادوسرے کام میں مشغول افراد کے لئے رکاوٹ نہ بن جائے۔پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں آواز کو بلند کر نے سے پرہیز کرنے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

''اذافعلت امتی خمس عشرة خصلة حل بها البلائقیل:یا رسول الله ماهن؟ قال: اذا ار تفعت الاصوات فی المساجد'' (۲۵)

''جب میری امت میں پندرہ خصلتیں رائج ہو جائیں ان پر بلا نازل ہو گی،ان خصلتوں میں سے ایک مسجد میں آواز بلند کرناہے ''

٢۔باطل اور بیہودہ گفتگو سے پر ہیز کرنا :مسجد خدا کا گھر اور عبادت کی جگہ ہے اور مسجد میں باطل اوربیہودہ باتیں کرنا اورایسی نا مناسب باتیں کر نا جو بالکل نا جائز ہیں ، ان کی مذمت کی گئی ہے ، کیونکہ یہ مسجد کے لئے ایک قسم کی بے احترامی اور اس کی شأن کی رعایت نہ کر نے کے برابر ہے۔ جیسا کہ کوئی کسی کے گھر میں مہمان ہو اور میز بان کے دشمنوںکی بات کرے اور ان کی ستائش کرے اور ایسے موضوعات پر بات کرے کہ میز بان کے لئے اذیت و تکلیف کاباعث یا ایسا کام انجام دے جو صاحب خانہ کو پسند نہ ہو ،یقینا اس قسم کی رفتار انسانی ادب کے خلاف ہے۔مہمان کو میز بان کے حقوق کی رعایت کرنی چاہئے اور ایسا بر تائو کرے کہ جس سے میز بان کو خوشی و مسرت ہو ،خدائے متعال یہ پسند نہیں کر تا ہے کہ اس کے بندے ایسی بحثیں اور گفتگو کریں جو ان کیلئے مضر ہوں اور ان کی سعادت کو خطرہ میں ڈالتی ہو اس کے علاوہ مسجد میں بیہودہ کام کر نا اورباطل باتیں کرناکہ جو،مسجد کی حیثیت کو فراموش اور مائمال کرنے کا سبب ہے ، کیو نکہ جب مسجد میں بیٹھ کر بیہودہ باتیں کرتے ہیں ، تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں پر مسجد ہے اور کس لئے وہاں گئے ہیں۔

٣۔مسجد میں خرید و فروخت سے پر ہیز کر نا :خرید و فروخت اور وہ امورجو مشغلہ شمار ہو تے ہیں ،جیسے :آہنگری ، بخاری اور نائی وغیرہ کاکام ،مسجد میں انجام دینا ممنو ع ہے ۔حضرت امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں:

''جنِّبوا مساجد کم البیع والشراء ''(۲۶)

''اپنی مسجدوں کو خرید و فروخت کی جگہ قرار نہ دو''

تجارت،خرید و فروخت اور معاشرے کی ضروریات نیز اپنے مشغلوںکو انجام دینے کے لئے بازار بنائے گئے ہیں اور مسجد عبادت کے لئے مخصوص ہے اور اس میں دنیوی کام جیسے،خرید و فروخت انجام نہیں دینا چاہئے ۔ فطری با ت ہے جب مسجد بھی خرید وفروخت اور تجارت کی جگہ ہو جائے گی تو وہ یاد دہانی اور موعظہ و نصیحت کے پہلو سے عاری ہو جائے گی اور نہ صرف یہ کہ انسان کو خداکی یاد نہیں دلائے گی بلکہ اس کی توجہ دنیا اور کسب ِ معاش اورآمدنی کی طرف زیادہ مشغول کردے گی ، اس لحاظ سے مسجدکو بازاراور محل تجارت میں تبدیل کرکے اس سے مناسب استفادہ نہیں کیا جاسکتاہے ۔

مسجد خدا وند متعال کے ذکر کی جگہ ہے اوراسلام کی اس پر تاکید ہے کہ یہ مکان مقدس ہر اس کام سے خالی ہو جانا چاہئے جو لوگوں کی توجہ کو غیرخدا کی طرف متو جہ کر نے کا سبب بنے ۔ تاکہ اس میں ذکر وعبادت کا موقع مکمل طورپر فراہم ہوسکے ۔ اس لئے کسبِ معاش والے کام، جیسے آہنگری اور نجاری و غیرہ بھی مسجد میں انجام دیناممنوع قراردیا گیا ہے ، ایک روایت میں آیا ہے:

''ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم مرّ برجل یبری مشاقص له فی المسجد فنها ه و قال :انها لغیر هذا بنیت'' (۲۷)

''رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں ایک آدمی کو اپنا تیر تیز کر تے ہوئے دیکھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اس کام سے منع کرتے ہوئے فر مایا:مسجد کوان کاموں کے لئے تعمیر نہیں کیا گیا ہے''

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''ان امیر المؤمنین علیه السلام رأی قاصا فی المسجد فضر به بالدرة وطرده'' (۲۸)

''امیرالمومنین نے مسجد میں ایک نائی کو کہ جو حجامت بنا نے میں مشغول تھا کوڑے مارکر مسجد سے نکال باہر کیا''

٤۔مسجد میں لغو کام انجام دینے سے پرہیز :پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفارش کرتے ہیں کہ مسجد میں بیہودہ باتیں نہ کرو اور لغو کام انجام دینے سے پر ہیز کر و ۔کوشش کرو کہ مسجد میں تمھاری رفتار مطلوب ہو تاکہ خدائے متعالی کو پسند آئے اورپاداش،ثواب اور کمال کا سبب بنے ۔جو کام تمھارے نفع میں نہ ہو ،کم از کم انھیں مسجد میں انجام نہ دو اس کے علاوہ انسان کو ہر جگہ پرلغوگفتار ورفتار سے پرہیز کر نا چاہئے اور مومنین کے اوصاف یہ ہیں کہ وہ لغوبات سے پرہیز کرتے ہیں:

( قدافلح المومنون الذین هم فی صلاتهم خاشعون والذین هم عن اللغو معرضون ) (مومنون١۔٣)

''یقینا صاحبان ایمان کامیاب ہوگئے ،جو اپنی نمازوں میں گڑ گڑانے والے ہیں، اور لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں''

مومن کو بنیادی طور پرلغوکام انجام نہیں دینا چاہئے اوراسے اپنی عمر کو بیہودہ ضائع نہیںکرنا چاہئے ، لیکن چونکہ عام لوگ کم وبیش بیہودہ کام بھی انجام دیتے ہیں اور کم ازکم ایسے مباح کام بھی انجام دیتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہو تا، انھیں کو شش کرنی چاہئے کہ ان کاموں کو مسجد میں انجام دینے سے پر ہیز کریں اور مسجد کو عبادت سے مختص رکھیں ،تاکہ مسجد کی شان و عظمت محفوظ رہے اور خود اس سے زیادہ تر معنوی استفادہ کریں ، تاکہ مسجد کے حوالے سے موعظہ و نصیحت اور ہدایت کرنے کا پہلو باقی رہے۔

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :اگر تم مسجد کے آداب کی رعایت نہیں کی تو،قیامت کے دن صرف اپنی مذمت کرنا۔ اس دن انسان کو سمجھ میں آئے گا کہ مسجد سے کونسے فائدے اٹھاسکتا تھا ۔انہی لمحات سے کہ وہ جب مسجد میں بیٹھتاتھا ،کس قدر اپنی آخرت کے لئے استفادہ کر سکتاتھا ،لیکن نہ صرف اس نے اس سے استفادہ نہیں کیابلکہ اس کے بر عکس ایسا کام انجام دیا کہ جس سے اپنی آخرت تباہ کر لی ۔اس وقت وہ ایک ایسی حسرت سے دو چار ہو گا کہ جو قابل تو صیف نہیں ہے۔

مسجد میں حاضر ہونے اوراس میں عبادت کرنے کی فضیلت:

'' یااباذر!ان اللّٰه تعالی یعطیک مادمت جالسا فی المسجد بکل نفس تنفست درجة فی الجنة''

اے ابو ذر !جب تک تم مسجد میں ہو ،خدائے متعال تمھاری ہر سانس کے بدلے میں بہشت میں تمھارے لئے ایک درجہ عطا کر تاہے۔

ہمارے گھر سے نکلنے اور مسجد کیطرف روانہ ہونے کے بعد جب ہم مسجد کے آداب کی رعایت کرتے ہیں اور اپنی نماز پڑھتے ہیں،تو ہمیں مزید تاکید کی گئی ہے کہ نماز تمام کر نے کے فورا بعد اٹھ کر نہ چلے جائیں ،بلکہ کو شش کریں کہ زیادہ سے زیادہ وقت تک مسجد میں رہیں ،کیو نکہ جب تک ہم مسجد میں ہیں خدائے متعال ہماری لی گئی ہرسانس کے بدلے میں بہشت میں ہمارے لئے ایک درجہ عنایت کر تاہے۔اگر ہم نے وہاں پر قرآن مجید کی تلا وت کی ،خدا کا ذ کر کیا اور عبادت و سجدہ میں مشغول رہے تو ان اعمال کے ثواب بھی ہمیں ملیں گے اور اس کے علاوہ مسجد میں ہمارا سانس لینا بذات خود سبب بنتا ہے کہ خدائے متعال ہمارے لئے بہشت میں ہر سانس کے بدلے میں ایک درجہ عطاکر ے کیونکہ یہی ہماراسانس لیناخدا کی عبادت کی نیت سے تھا اور اس غرض سے تھا کہ ہم خدا کی خو شنودی کے لئے مسجد اوراس کے گھرمیں ٹھہرے ہیں اور جو بھی کام ہم خداکی توجہ حاصل کرنے کے لئے اور اس کی اطاعت کی غرض سے انجام دیتے ہیں ،وہ عبادت ہے اور ہر عبادت کے بدلے میں بہشت میں ایک درجہ ہے ۔لیکن ہمیں توجہ رکھنا چاہئے کہ اس سانس لینے کا ثواب جو عبادت کے عالم ہو نہ کہ دنیوی امور کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سانس لینا عبادت ہے ۔

کہا گیا کہ مسجد میں رکنا اور وہاں پر سانس لینا مستحب ہے اور اس کا ثواب ہے،لیکن یہ اس معنی میں نہیں ہے ہم اپنے تمام کارو بارکو چھوڑ کر مسجد میں معتکف (اعتکاف کرنے والا)بن جائیں ۔ممکن ہے دو مستحب کاموںکے درمیان تزاحم و تضاد وجودمیں آئے،اس معنی میں کہ انسان ان دومیں سے صرف ایک کوانجام دینے کی قدرت رکھتا ہو ،اس صورت میں ہمیں جو زیادہ مستحب کام ہے اس کو انجام دینا چاہئے، بعض او قات ممکن ہے مستحب اور واجب کے درمیان تزاحم وتضاد پیدا ہو تو اس صورت میں واجب کوانجام دیناچاہئے اور مستحب کوچھوڑ نا چاہئے۔ اس بنا پر اگر کسی مستحب عمل کوبہت زیادہ بجالانے کی شفارش کی گئی ہے،تو وہ اس معنی میں نہیں ہے کہ اگر کسی واجب کام سے مزاحم و معارضہو تو بھی و اجب کو چھوڑکرمستحب کو انجام دیں ،ہمیں اس مطلب کی طرف توجہ رکھنی چاہئے ۔

جب کسی عمل کے حسن کو بیان کرتے ہیں تو وہ حسن اس عمل کی ذات سے مربوط ہوتا ہے ،یعنی دوسرے عمل سے تزاحم اور مزاحمت کے بغیر ،اس لحاظ سے ممکن ہے ایک بات یا اس کا بیان کا ظاہرا مطلق ہو،لیکن دوسر ی عبادت سے یا کسی دوسرے واجب عمل سے تزاحم وتضاد رکھتا ہے تو اس صورت میں وہ مستحب کام مطلو بیت سے گرتا ہے اوراسے انجام نہیں دینا چاہئے ۔پس اگراس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ انسان زیادہ دیر تک مسجد میں ٹھہرا رہے ،تو یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ درس وبحث اوراپنے ضروری کام کو چھوڑ کرمسجد میں بیٹھ جائے اور ذکر خدا کرتا رہے ۔واجب درس وبحث کومسجد میں بیٹھنے یا ذکر کرنے یا مستحب عبادت انجام دینے کے لئے نہیں چھوڑا جاسکتاہے اور یہ درس وبحث کے جا نشین نہیں بن سکتے ہیں اور کسی بھی وقت کوئی مستحب عمل واجب کی جگہ نہیں لے سکتا ہے ،ضروری اور واجب تکالیف اور فرائض اہمیت کے حامل ہوتے ہیں انھیں مسجد میں بیٹھنے اورذکر کے بہانے سے ترک نہیں کیا جاسکتا ہے۔

''وتصلی علیک الملائکة و تکتب لک بکل نفس فیه عشر حسنات و تمحی عنک عشر سیئات''

''اور فرشتے تجھ پر درود بھیجتے ہیں اور تیری ہر سانس کے بدلے دس حسنات لکھے جاتے ہیں اور دس گناہ زائل کئے جاتے ہیں ''

جو کچھ بیان ہواوہ مسجد میں بیٹھنے کے فائدے سے مربوط تھا ،چونکہ مسجد عبادت کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر انسان خدا کی طرف توجہ کرتا ہے ۔ اس لحاظ سے روایتوں میں مسجد کوآخرت کا بازار کہا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ انسان دوسروں سے پہلے مسجد میں داخل ہو اور سب سے آخرمیں مسجد سے خارج ہو :

''قال رسو ل اللّٰه صلی اللّٰه علیه واله وسلم لجبرئیل:ای البقاع احب الی اللّٰه تعالی؟قال: المساجد واحب اهلها الی اللّٰه اولهم دخو لا الیها وآخرهم خروجا منها''

''پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے سوال کیا: کونسی جگہ خداکے نزدیک محبوب تر ہے؟ جبرئیل نے عرض کی :مساجد، اور اہل مسجدمیں سے محبوب ترین بندہ وہ شخص ہے جو سب سے پہلے مسجد میں داخل ہو تاہے اور سب سے آخرمیں مسجدسے خارج ہوتاہے''

'' یااباذر!اتعلم فی ای شی ء انزلت هذه الایة:(( اصبروا و صابروا ورابطواواتّقوا اللّٰه لعلکم تفلحون ) )قلت:لا فداک ابی وامیقال : فی انتظار الصلوٰة خلف الصلوٰة''

''اے ابوذر ! کیا تم جانتے ہو کہ آیۂ مبارکہ: اے ایمان والو ! صبر کرو،صبرکی تعلیم دو، جہاد کے لئے تیاری کرو اور اللہ سے ڈرو شاید تم فلاح یافتہ اور کامیاب ہو جائو ''کس سلسلہ میں نازل ہوئی ہے ؟میں نے کہا: نہیںمعلوم،میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قر بان ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :نماز کے بعد نماز کے لئے انتظار کرنے کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے''

آیہ مبارکہ میں '' مر ابط''کے معنی ومفہوم کے بارے میں گوناگوں تفسیریں کی گئی ہیں۔اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ چونکہ''مرابط'' لفظ ''ربط''باندھنے کے معنی میں بھی اور لفظ''رباط'' کسی چیز کو کسی جگہ پر باندھنے کے معنی میں بھی آیا ہے،جیسے: گھوڑے کو ایک جگہ پر باندھنے اوراس کے بعدگھوڑوںکو قطار میں کھڑا کرنے اورانھیں دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کرنے کے معنی میں آیا ہے۔اس لحاظ سے''مرابط''سرحدوںکی حفاظت اور ہوشیاری اوردشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہو نے کے معنی میں ہے ،لیکن اس آیت اوراس سے قبل والی آیتوںپر دقت کر نے سے آیت کا ایک وسیع تر معنی معلوم ہو تا ہے جو اسلامی ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور دفاع کے معنی کو بھی شامل ہے اور ایمان وعقائد کی سرحدوں کے مقام کے معنی میں بھی آیا ہے،اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض احادیث میں علمااور دین کے دانشمندوں نے اسکی تعبیر''مرابطوں''یعنی سرحد وں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''علماء شیعتنا مرابطون بالثغر الذی یلی ابلیس وعفاریته ویمنعونه عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا وعن ان یتسلط علیهم ابلیس'' (۳۰)

''ہمارے شیعہ(پیرو) علماء ان سرحد ی محافظوں کے مانند ہیں جوابلیس کی فوج کے سامنے صف بستہ کھڑے ہیں اور اپنے دفاع کی طاقت نہ رکھنے والے افرادپر ان کے حملوںکو روکتے ہیں''

دانشمندوں اور علما کے علاوہ ایسے محافظ بھی ہیں جو سرحدوں کی محافظت کرتے ہیں چونکہ جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ہیں اور علماء عقائداسلامی ثقافت کے محافظ ہیں ،اور یقینا جس امت کی ثقافت اور عقائد کی سرحدوں پرغیروں کا حملہ ہو اوروہ اپنادفاع نہ کر سکتے ہوں، تو انھیںمختصر مدت کے اندر عقیدہ وثقافت کے لحاظ سے شکست اٹھانا پڑے گی اور اس کے علاو ہ سیاسی اورعسکری لحاظ سے بھی انھیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

''مرابط''چبکے بارے میں کی گئی تفاسیر میں یہ بھی ہے کہ ہر نماز کے بعد دوسری نمازکے انتظار میں رہنااور پے در پے نماز بجالانا،اس کے علاوہ ''مرابط'' مسجد میں رفت وآمد کے معنی میں بھی آیا ہے،چونکہ

مساجد میں رفت وآمدانسانوںاورمو منوںکے دلوں کے درمیان روابط کا سبب بنتا ہے۔

''یااباذر!اسباغ الوضوء فی المکاره من الکفّارات وکثرة الاختلاف الی المساجد فذلکم الرباط''

''اے ابوذر! مشکلات میں (جیسے سردیوں میں ) ٹھیک طرح سے وضوکرنا کفارات میں سے ہے اور مسجدوں میں زیادہ جانا''رباط''ہے کہ آیت میں اس کاحکم ہواہے''

جب موسم سرد ہو تو وضو کرنا مشکل ہے ،اگر کوئی شخص اس حالت میں ہمت و شادابی کے ساتھ وضو کر نیکی کو شش کرے تو اس کا یہ وضوگناہوں کا کفارہ ہوتاہے ۔یہ سردموسم میں سرد پانی سے وضوکی فضیلت کے پیش نظر ہے،چنانچہ ایک اور روایت میں بھی آیا ہے :

''قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم ألاادلّکم علی شی یکفر اللّٰه به الخطا یا ویزید فی الحسنات ؟قیل:بلیٰ یا رسول اللّٰه قال اسباغ الوضوء علی المکاره وکثرة الخطا الی هذه المساجد وانتظار الصلاة بعدالصلاة'' (۳۱)

''رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا: کیاتم آمادہ ہو کہ میں تمہیں ایک ایسی چیز کی راہنمائی کروںجو گناہوں کے بخش دیئے جانے اور حسنات اورخو بیوںکی افزائش کا سبب ہو؟ عرض کی :جی ہاںیا رسو ل اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، فرمایا:مشکلات میں صحیح طریقہ سے وضو کرنامساجد میں بہت زیادہ پیدل جانا اور نماز کے بعددوسری نماز کاانتظار کرنا''

خدا کے محبوب ترین بندے:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

''یااباذر! یقول اللّٰه تبارک وتعالی:ان احب العباد الی المتحا بون من اجلی،المتعلقة قلوبهم بالمساجد والمستغفرون بالاسحار اولئک اذا اردت باهل الارض عقوبة ذکرتهم فصرفت العقوبة عنهم''

''اے ابوذر!خدائے متعال فرماتاہے :میرے نزدیک محبوب ترین بندے وہ لوگ ہیںجو میرے لئے ایک دوسرے سے محبت اور دوستی کر تے ہیں۔وہ جن کے دل مسجدوںسے وابستہ ہیںاور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر اہل زمیں پر کوئی عذاب نازل کرنا چاہتاہوں توان لوگوں کی وجہ سے اس عذاب کو روک دیتا ہوں''

جی ہاں،خدائے متعال اپنے محبوب ترین بندوں جن کے دل مسجدوں سے وابستہ ہیں اور مسجد میں جانیکی فرصت کے انتظارمیں ہوتے ہیں اور نصف شب کو اپنے پروردگارسے راز ونیاز کرتے ہیں،ان کی وجہ سے معاشرے سے بلائوںاور عذاب کواٹھا لیتا ہے۔اس کے علاوہ کہ وہ قیامت کے دن بلند مقامات اور بے شمارثواب حاصل کریں گے ،ان کے وجود کے آثار میں معاشرے سے عذاب کا دورہونابھی ہے ۔اس کے علاوہ معاشرے کے حوالے سے اس گروہ کے اور بھی بہت سے آثار ہیں کہ یہ سب آثار مسجد میں رفت وآمد اور خدائے متعال کی طرف تو جہ کے نتیجہ میں حاصل ہو تے ہیں۔

انسان کو مسجد سے انس ومحبت اور رفت وآمدکے نتیجہ میں جو فائدہ نصیب ہو تا ہے ،وہ صرف ثواب اخروی اور دوسری دنیا میں نعمت الہی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مسجد میں رفت وآمدکے طفیل میں اسی دنیامیں بھی انسان کے لئے اخلاقی ، علمی ،تربیتی،اجتماعی وسیاسی حتی فراوان مادی فوائدہیں ۔ امیرالمو منین علیہ السلام،مسجد میں رفت و آمدکے نتیجہ میں حاصل ہو نے والے بعض قابل قدر اور تعمیری آثار کے بارے میں فرماتے ہیں:

''من اختلف الی المساجد اصاب احدی الثمان:اخاً مستفاداً فی اللّٰه اوعلما مستطر فا اوآیة محکمةاو یسمع کلمة تدل علی هدی اورحمة اوکلمةترده عن ردی اویترک ذنبا خشیةاوحیائ'' (۳۲)

جو مسجد میں رفت وآمدکرتاہے (کم از کم) درج ذیل آٹھ امور میں سے ایک اسکے نصیب میں ہوتا ہے:

١۔مونین کے درمیان اخوت و برادریجس سے خدا کی راہ میں استفادہ کرے۔

٢۔ جدید علم ودانش تک رسائی۔

٣۔قرآن مجید کی آیات کا علم و ادراک۔

٤۔ ایک ایسی بات کو سننا جو اس کے لئے ہدایت کی رہنمائی کرے۔

٥۔ایک ایسی رحمت ،جس کا اسے انتظار تھا۔

٦۔ایک ایسی بات جو اسے گمراہی اور ہلاکت سے بچائے۔

٧مسجد میں آمدو رفت کی وجہ سے اس کے دل میں پیداہوئے خداکے خوف کے نتیجہ میں گناہ کو ترک کرنا۔

٨۔مسجد میں آشناہوئے اپنے مومن بھائیوں کی حیاء کی وجہ سے گناہ کو ترک کرنا۔

اس حدیث کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہیں:

''یا اباذر!کل جلوس فی المسجد لغو الاثلاثة :قراء ة مصل اوذکر اللّٰه اوسائل عن علم''

''اے ابو ذر!تین صورتوں کے علاوہ مسجد میں بیٹھنا بے فائدہ ہے :یاحالت نماز میں قرائت قرآن میں مشغول ہو،یا خداکی یاد میں ذکر کہتا ہو،یا علم سیکھنے میں مشغول ہو''

مسجد میں رفت وآمد کی یہ سب تاکید یں،مسجدمیں حاضری دینے کے معنوی اورمادی آثارکو گننا اورمسجدمیں سانس لینے کے ثواب کا شمار کرنا اس لئے ہے کہ انسان مسجدکوخداسے رابطے اور معنویت حاصل کرنے کا مرکز قرار دیتا ہے اور اپنے معنوی تکامل و اور سعادت کو اس کے ذریعہ حاصل کرتا ہے ورنہ اگر آخرت سے مربوط کوئی کام نہ ہو تو ،ا سے مسجد میں انجام دینے سے پر ہیز کر ناچاہئے ۔اس لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں انجام دینے والے شائستہ اور مثبت کاموںکو تین حصوں میں تقسیم فرماتے ہیںاور ان کے علاوہ کسی کام کو مسجد میں انجام دینے کو لغو جانتے ہیں:

الف۔ انسان نماز میں مشغول ہواور اس میں قرآن مجید پڑھے یا اس کے بعدقرآن مجیدپڑھنے میں مشغول ہو۔

ب۔خدائے متعال کے ذکرکو زبان پر جاری کرے یاقلبی توجہ خدا کی طرف مرکوز ہو ۔

ج۔مسجدمیں علوم معارف سیکھنے میں مشغول ہونا اور مسجد کو علم و آگاہی کی ترویج اور اس کی نشرو اشاعت کا مرکزقراردینا، کہ اس صورت میں تیرا کام بھی نتیجہ بخش وقیمتی ہو گا اور تیرے درجات میں اضافہ ہو گا اور یہ تمہاری ابدی خوش قسمتی کا سبب ہو گا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث کے اس حصہ میں مساجد کی اہمیت ، اس میں رفت وآمدکر نیکی ضرورت ،اس میں عبادت کرنے والوںکی فضیلت اور مسجد سے مناسب استفادہ کرنے کے بارے میں جوکچھ فرمایا ہے اس کے پیش نظر مناسب ہے کہ مسجد، یعنی خداکے گھر کوزیادہ سے زیادہ اہمیت دیں اور کوشش کریں کہ مساجد کو آباد رکھیں اور ہمیں ڈرنا چاہئے کہ قیامت کے دن یہ مسجد ہماری بے اعتنائی کی وجہ سے شکایت نہ کرے ،چنانچہ امام جعفر صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں:

''شکت المساجد الی اللّٰه الذین لا یشهد ونها من جیرانها فاوحی اللّٰه الیهاوعزتی وجلا لی لا قبلت لهم صلاةواحدة ولااظهرنّ لهم فی الناس عدالة ولانالتهم رحمتی ولا جاورونی فی جنتی'' (۳۳)

''مساجد نے اپنے ہمسایوں کے ایک گروہ کی خدا سے شکایت کی جو اس میں حاضر نہیں

ہوتے ہیں. خدا متعال نے ان مساجد کی طرف وحی کی: مجھے مرے عزت و جلال کی قسم ہے کہ ان کی ایک رکعت نماز بھی قبول نہیں کروں گا اور لوگوں میں ان میں کوئی عدالت آشکار نہیں کروں گا، انھیں میری رحمت نہیں ملے گی اور وہ بہشت میں میرے ہمسایہ اورنزدیک نہیں ہوں گے۔''

____________________

۱۔ آل عمران٢٠٠

۲۔بحارالانوار،ج٧٧ص٤٠٢

۳۔نہج البلاغہ(فیض الاسلام)خ٣،ص٥٢

۴۔اصول کافی،ج ٣،ص ١٣١

۵۔١بحارالانوار ج١٠،ص٩٩

۶۔المیزان ،ج١٦(طبع اسما عیلیان)ص١٣٣

۷۔نہج البلاغہ(فیض الاسلام)خ٢١٣،ص٧٠٣

۸۔بحار الانوار، ج ٨٠، ص ٢٣

۹۔نہج البلا غہ(فیض الاسلام مکتوب نمبر٤٥،نمبر١٥،ص٩٧٤

۱۰۔مجادلہ١٢٢

۱۱۔بحار الاانوار،ج٨٠،ص١٠

۱۲۔ بحارالانوار ، ج ٨٠، ص ١٣

۱۳۔بحار الانوار،ج٧،ص٢٤٩

۱۴۔وسائل الشیعہ ،ج ٣، ص ٤٧٨

۱۵۔ عروةالوثقی ،امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے حاشیہ کے ساتھ ،ص ٢١١

۱۶۔رسالہ تو ضیح المسائل،مسئلہ٨٩٣

۱۷۔وسائل الشیعہ،ج٣ ص٥٤٥

۱۸۔وسائل الشیعہ،ج٣ ص٥٢٥

۱۹۔ وسائل الشیعہ، ج ٣،ص ٥٤٥

۲۰۔وسائل الشیعہ، ج ٣،ص ٥٣٦

۲۱۔وسائل الشیعہ ،ج١،ص٢٦٨

۲۲۔ وسائل الشیعہ،ج ٣ ،ص ٥٥٥

۲۳۔ وسائل الشیعہ ،ج ٥،ص ٣٧٢

۲۴۔مصباح الشریعہ(مرکزنشرکتاب،جیبی سائز)ص١٠،باب١٢

۲۵۔تحف العقول،باب مواعظ النبی وحکمہ،ص٥٢

۲۶۔ وسائل الشیعہ ، ج ٣، ص ٥٠٧

۲۷۔وسائل الشیعہ،ج٣ص٤٩٦

۲۸۔وسائل الشیعہ،ج٣ص٥١٥

۲۹ -وسائل الشیعہ ،ج١٢،ص٣٤٥

۳۰۔بحا رالانوار،ج٢،ص٥

۳۱۔وسائل الشیعہ،ج١،ص٢٦٧

۳۲-بحارالانوار،ج٨٣ص٣٥١

۳۳۔وسائل الشیعہ ،ج٣ص٤٧٩