زاد راہ (دوسری جلد) جلد ۲

زاد راہ (دوسری جلد)0%

زاد راہ (دوسری جلد) مؤلف:
زمرہ جات: معاد

زاد راہ (دوسری جلد)

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
زمرہ جات:

مشاہدے: 40494
ڈاؤنلوڈ: 3943


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 40494 / ڈاؤنلوڈ: 3943
سائز سائز سائز
زاد راہ (دوسری جلد)

زاد راہ (دوسری جلد) جلد 2

مؤلف:
اردو

چھتیسواں درس

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظرمیں بردباری، تواضع اور توکل

* ۔حلم و بردباری کابلند مرتبہ و منزلت

* ۔حلم وبردباری، اولیائے الہی کے لئے زینت بخش

* ۔ نرمی و تواضع اور چاپلوسی اور خوشامدکے در میان فرق

* ۔مشرکوں کے مقابلہ میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کانرمی سے پیش نہ آنا * ۔توکل کی عظمت و منزلت

* ۔توکل اور مادی و معنوی اسباب و عوامل سے استفادہ

* ۔تقوی اور توکل کے در میان رابطہ

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں بردباری ،تواضع او ر توکل

''یا اباذر؛ من لم یأت یوم القیامة بثلاث فقد خسر.قلت: و ما الثلاث؟ فداک ابی و امی. قال:ورع یحجزه عما حرّم اللّٰه عزوجل علیه، و حلم یرد به جهل السفیه، و خُلُق یداری به الناس.

یا اباذر؛ ان سَرَّک ان تکون اقوی الناس فتوکل علی اللّٰه، و ان سَرَّک ان تکون اکرم الناس فاتق اللّٰه، و ان سَرَّک ان تکون اغنی الناس فکن بما فی ید اللّٰه عزوجل اوثق منک بما فی یدیک.

یا اباذر؛ لو ان الناس کلهم اخذوا بهذه الآیه لکفتهم:( و من یتّق اللّٰه یجعل له مخرجا و یرزقه من حیث لا یحتسب و من یتوکل علی اللّٰه فهو حسبه ان اللّٰه بالغ امره قد جعل اللّٰه لکل شی ء قدرا ) (۱)

جس موضوع پر گزشتہ درس میں بحث ہوئی اس کا محور تقوی اور ورع تھا، روایت کے اس حصہ

میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ورع اور گناہ سے پرہیز کے علاوہ حلم، بردباری اور توکل کی عظمت کے بارے میں بھی بیان فرماتے ہیں:

''یا اباذر! من لم یات یوم القیامة بثلاث فقد خسر.قلت: و ما الثلاث؟ فداک ابی و امی. قال:ورع یحجزه عما حرّم اللّٰه عزوجل علیه، و حلم یرد به جهل السفیه، و خلق یداری به الناس''

''اے ابوذر! جس کے ہمراہ قیامت کے دن تین چیزیں نہ ہوں وہ گھاٹے میں ہے ابوذر نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، وہ تین چیزیں کیا ہیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب میں فرمایا:

١۔ورع، جو اسے حرام چیزوں سے بچائے.

٢۔ حلم، جس کے ذریعہ بیوقوفوں کی نادانی سے مقابلہ کرے.

٣۔ نیک اخلاق جس سے لوگوں کی خاطر تو اضع کرے.

سب سے پہلی چیزجو اگر انسان میں نہ ہو تو قیامت کے دن نقصان میں ہے، وہ ورع ہے۔

گزشتہ درس میں ہم نے کہا کہ عام طور پر ورع تقوی کے ملکہ کو کہتے ہیں اور خود گناہ سے پرہیز کو ورع نہیں کہتے ہیں۔ حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعبیر ، اس تفسیر کی تائید کرتی ہے جو واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ ورع وہ ملکہ نفسانی ہے جو انسان کو گناہ سے روکنے کا سبب ہے، اس بنا پر ورع کی خاصیت انسان کو گناہ سے روکناہے۔ فطری بات ہے کہ جس انسان میں اس قسم کی خصوصیت نہ ہوتو وہ گناہ میں ملوث ہوتاہے اور نتیجہ کے طورپر نقصان اٹھاتاہے اور جہنم سے دوچار ہوتاہے.

حلم و بردبار ی کا بلند مرتبہ و منزلت :

دوسری خصوصیت جو انسان کو قیامت کے دن نقصان سے بچاتی ہے، حلم و بردباری ہے۔ لغت میں آیا ہے کہ حلم ، نفس کو قوہ غضبیہ کے بھڑکنے سے روکنے کے معنی میں ہے۔ بیشک حلم پسندیدہ اور قابل قدر صفات میں سے ہے، اور عقل کاسپاہی شمار ہوتا ہے، کیونکہ غضب حلم کے مقابلہ میں قرار پاپاہےجہل کا سپاہی شمار ہوتاہے. معروف ہے کہ انسان کو چاہئے غصہ کی حالت میں نہ کوئی فیصلہ کرے ، نہ کسی کو تنبیہ کرے اور نہ کوئی اقدام کرے کہ بعد میں پشیمان ہو، کیونکہ یہ تینوں چیزیں غصہ کی حالت میں عقل کے کنٹرول سے خارج ہوتی ہیںاس لئے اس حالت میں انسان کی عقل صحیح کام نہیں کرتی ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دن نادانی کی وجہ سے قنبر کی بے احترامی کی گئی اور وہ بے چین ہوئے اور جواب دینا چاہتے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''مهلا یا قنبر، دع شاتمک مهاناً ترضی الرحمن و تسخط الشیطان و تعاقب عدوک فوالذی فلق الحبة و برء النسمة ماارضی المؤمن ربه بمثل الحلم و لا أسخط الشیطان بمثل الصمت و لا عوقب الاحمق بمثل السکوت عنه'' (۲)

''ٹھیر والے قنبر! گالی دینے والے سیبے اعتنائی کرو اور اس کو اسی کی حالت پر چھوڑ دو تا کہ خدائے متعال کو خوش کرو اور شیطان کو غضبناک اوردشمن کوسزاد و (کیونکہ دشمن کی اس سے بڑھ کرکوئی سزا نہیں ہے کہ اس کا اعتنا نہ کیا جائے) قسم اس خدا کی جو دانہ کہ شگافتہ کرنے والا اور انسان کو پیدا کرنے والا ہے،مومن حلم و بردباری سے زیادہ کسی اور چیزسے خدا کو راضی نہیں کرتا ہے ، غصہ کو ضبطکرنے سے زیادہ کسی اور چیز سے شیطان کو ناراض نہیں کرتا اور احمق کے مقابلہ میں خاموشی اختیار کرنے سے زیادہ اسے کسی اور چیز سے سزا نہیں دیتا ہے۔''

حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری جگہ پر فرماتے ہیں:

''لاشرف کالعلم و لا عز کالحلم '' (۳)

''علم کے برابر کوئی عظمت و بزرگی نہیں ہے اور بردباری کے برابر کوئی احترام نہیں ہے۔''

حلم و بردباری کی صفت کی عظمت اور صحیح اجتماعی روابط کے تحفظ اور انسانوں کے متقابل احترام کی حفاظت میں اس کے اہم نقش کے پیش نظر ضروری ہے کہ معاشرے کا فرد فرد اس صفت سے مزین ہو، خاص کر علما جو اصلاح اور تربیت کاکام انجام دیتے ہیں. جو عالم ہدایت اوراصلاح کرنے ولاہوتاہے، اگر ناشائستہ رفتار کے مقابلہ میں وہ بھی جوابا ویسا ہی کردار پیش کرے تو اس کے اصلاحی پروگرام بے اثر اورناکام ہوجائیگا۔ اس لحاظ سے اسے ہمیشہ اپنے علم کو حلم و بردباری سے منسلک کرناچاہئے تا کہ مطلوبہ نتیجہ کو حاصل کرسکے۔ لہذا انسان کو حقائق بیان کرنے اور ان کے تبلیغ میں صابر اور با حوصلہ ہونا چاہئے۔ اس نکتہ کے پیش نظر علم و تربیت کا نتیجہ حلم وبردباری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

''والذی نفسی بیده ما جمع شی ء الی شی ء افضل من حلم الی علم'' (۴)

''اس پروردگار کی قسم جس کی اختیار میں میری جان ہے، حلم کو علم کے ساتھ ملحقہونے کے مانند کوئی چیزاس سے بہتر صورت میں دوسری چیز کے ساتھ ملحق نہیں ہوئی ہے''

جی ہاںعلم کے بعد بلندترین کمالات نفسانی میں حلم و بردباری ہے، جیسا کہ ہم نے کہا کہ علم کا حلم کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے جب کبھی علم کی ستائش ہوتی ہے، حلم کا بھی اس کے ساتھ ذکر ہوتا ہے، حقیقت میں علم و حلم دوقابل قدر او رلازم و ملزوم عناصر کیحیثیت سے ذکر ہوتے ہیں۔ لہذا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''اللهم اغننی بالعلم و زیّنّی بالحلم'' (۵)

''پروردگار!مجھے علم کے سبب بے نیاز اور علم سے زینت عطا کر''

یقینا جو انسان علم و حلم کو اپنی زینت قرار دے، بحرانی مراحل میں جب کینہ و عداوت کی آگ کسی کے داخل سے شعلہ ور ہوتی ہے، تو اس وقت وہ رحم و محبت کے بہترین شیوہ کو اپنا تا ہے اور اس کا حلم کینہ کی آگ کو شعلہ ور ہونے سے روکتا ہے اور اختیار کی باگ ڈور نفسانی خواہشات کے ہاتھ میں نہیں دیتا، بلکہ اسے اپنے نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنے اور اپنی اوردوسروں کے غضب کی آگ کو بچھانے پر مجبور کرتا ہے۔ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے خلاف مشرکین کی طرف سے پہنچائی گئی انواع و اقسام کی اذیت و آزار کے باوجود ،فتح مکہ کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی بردباری کا مظاہرہ فرمایا اور عفو، بخشش اور رحم دلی کو اپنی سرمشق قراردیا۔ اس وقت دشمن یہ توقع رکھتے تھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خون کی ہولی کھیلیں گے حتی بعض اسلامی کمانڈر جو انتقام لینے کی فکر میں تھے،ابوسفیان سے مخاطب ہوکر کہنے لگے:

''الیوم یوم الملحمة''

''آج کا دن سخت جنگ اور انتقام کا دن ہے''

لیکن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انتقامی اشعار کے جواب میں یہ محبت آمیز اشعار فرمائے:

''الیوم یوم المرحمة الیوم اعزّ الله قریشا'' (۶)

آج ، رحمت اور نیک برتاؤ کا دن ہے، آج کے دن خدانے قریش کو عزت بخشی ہے۔

بیشک انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے روابط برقرار کرنے کے لئے مجبور ہے۔ خدائے متعال نے اس کو ایسے خلق کیا ہے کہ اسے اجتماعی زندگی کو قبول کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، اگر وہ معاشرے سے دور تنہائی میں زندگی گزارناچاہے تو اس کو دنیا کی اکثر برکتوں سے محروم ہونا پڑے گا اور وہ تکامل و ترقی کی راہ میں قدم نہیں بڑھا سکے گا، شاید وہ اپنی زندگی کو بھی جاری نہیں رکھ سکے گا۔ لہذا وہ زندگی کو جاری رکھنے اور تکامل و ترقی کے لئے مجبور ہے، تا کہ اجتماعی زندگی اور دوسروں کے ساتھ روابط کو قبول کرے۔ دوسری طرف سے لوگ جذبات ، اخلاق اور فہم و معرفت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے فراوان تفاوت رکھتے ہیں اور اس لئے انسان خواہ مخواہ ایسے افراد سے سروکار پیدا کرتاہے جوبیوقوفانہ عادات رکھتے ہیں۔ کبھی وہ ایسے افراد سے رابطہ پیدا کرتاہے کہ ان کی غیر عاقلانہ عادات اور برتاؤ کی وجہ سے اس کی تو ہین اور بے احترامی ہوتی ہے۔

کمال و معرفت انسانی کے لحاظ سے تمام انسان کمال کی حد تک نہیں پہنچے ہیں اور ایسی عقل نہیں رکھتے ہیں کہ انھیں شائستہ او رمودبانہ برتاؤکرنے پر مجبور کرے۔ اس لحاظ سے کبھی جس شخص سے انسان رابطہ برقرار کرتاہے یا ایک انسان اپنے اہل کار کار یا کسی مسئول سے کہ جس کے پاس لوگ مراجعت کرتے ہیں، اصلاح کے فقدان ، معرفت کی کمی یا زندگی کی مشکلات اور دباؤ کی وجہ سے معاندانہ برتاؤ کامظاہرہ کرتا ہے اور آداب اور دوسروں کے احترام کی رعایت نہیں کرتا تو فطری بات ہے کہ اگر انسان ایسے افراد کے مقابلہ میں ان کاہی جیسا برتاؤ کرے اور فوری طور پر غضبناک ہوکر لڑائی اور جھگڑے کے لئے آمادہ ہوجائے ، تو اختلاف اور ٹکراؤ میں شدت پیدا ہوگی اور اس کے بُرے نتائج نکلیں گے۔ اس طرح انسان کا وقت ضائع ہوگا، آرام و خوشحالی اس سے چھن جائے گی ۔ اور وہ اپنی زندگی کی آرزؤں تک نہیں پہونچ پائیگا۔ پس انسان کو اجتماعی زندگی سے مناسب طور پر بہرہ مند ہونے اور اس کی آفتوں سے بچنے کے لئے اپنے اندر حلم و بردباری ایجاد کرنی چاہئے تا کہ ایسے افراد سے روبرو ہوتے وقت اپنے آپ کو کنٹرول کرسکے۔

انسان کو اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لئے صاحب ورع ہونے کے علاوہ بردبار بھی ہونا چاہئے تا کہ اپنی اجتماعی زندگی سے بہرہ مند ہواور نقصان سے دوچار نہ ہو۔ چونکہ اگر انسان اجتماع سے دور ہوتاہے تو اس کے منافع سے محروم ہوجاتاہے، لیکن اگر اجتماعی منافع سے اپنی اخروی زندگی کے لئے استفادہ کرنا چاہے اور کم عقل اور جھگڑالو انسانوں سے محفوظ رہنا چاہے تو ان سے ٹکراؤ کی حالت پیدا نہ ہونے کے لئے بردبارہوناچاہئے۔ اسے بردباری کی مشق کرنی چاہئے، تا کہ حقارت او رتوہین آمیز حالت کے مقابلہ میں ان سے مظاہرہ کرے اور اپنے فرائض پر عمل کرسکے او اجتماع سے فائدہ اٹھائے اور ناشائستہ برتاؤ اس کے تکامل وترقی میں رکاوٹ نہ بنے اور روایت کی تعبیر میں وہ'' ایک ایسے حلم کا مالک ہو کہ جہل ونادانی کو اپنے آپ سے دور کر سکے۔''

ہمارے تصور کے خلاف کہ ہم جہل کو عدم علم سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے صرف علم کے مقابلہ میں استعمال میں لاتے ہیں،جہل بیوقوفی کے معنی میں بھی ہے اور سفاہت و حماقت کے مانند عقل کے مقابلہ میں استعمال ہوتاہے۔ اسی بنا پر جہل، جاہلانہ اور احمقانہبرتاؤ کا مظاہرہ کرنے کے معنی میں بھی ہے اور قرآن مجید کی اکثر آیات میں اسی معنی میں استعمال ہو اہے، مثلا خدائے متعال حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی نقل کرتاہے:

( والا تصرف عنّی کیدهن أصبُ الیهن وأَکن من الجاهلین ) (یوسف/٣٣)

''اور اگر تم ان کے مکر کو میری طرف سے نہیں موڑ دو گے تو میں ان کی طرف مائل ہوسکتاہوں اور میرا شمار بھی جاہلوں میں ہو سکتاہے۔''

مقصود یہ ہے کہ اگر عورتوں کے حیلہ کومجھ سے دور نہ کروگے تو مجھ سے احمقانہ اور غیر دانشمندانہ کام سرزد ہوگا۔ ایسی آیتوں میں عدم علم کو جہل سے معنی کرنا غلط ہے دوسری طرف سے علم کا فقدان اکثر مواقع پر عذر ہے، حالانکہ یہ کلمہ بیشتر سرزنش و عدم عذر کے مقام پر آیا ہے ، چنانچہ خدائے متعال یوسف کے بھائیوں کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتاہے:

( هل علمتم ما فعلتم بیوسف و اخیه اذ انتم جاهلون ) (یوسف/٨٩)

''معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے جب کہ تم بالکل جاہل تھے؟''

یقینا یوسف کے بھائی اپنے کام اور عمل سے بے خبر نہیں تھے، وہ یوسف کو پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ ان کایہ فعل ناشائستہ ہے اسی حالت میں جاہل بھی تھے کہ ان کاکام جاہلانہ یعنی خلاف عقل و حق تھا۔

اسی طرح جب حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے لوگوں سے کہا کہ خدائے متعال نے تمھیں حکم دیا ہے کہ ایک گائے کو ذبح کرنا، انہوں نے اسے کہا: کیا ہمارا مذاق اڑاتے ہو؟ فرمایا:

(...( اعوذ باللّٰه ان اکون من الجاهلین ) (بقرہ/٦٧)

''...پناہ بخدا کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں''

اس آیت میں جہل سفاہت کے معنی میں ہے نہ علم کے فقدا ن کے معنی میں اور حضرت موسی علیہ السلام عدم علم کے لئے خدا سے پناہ نہیں مانگتے ہیں بلکہ بے عقلی و بیوقوفی ، جاہلانہ، اور خلاف عقل رفتار سے پناہ مانگتے ہیں۔ اصول کافی میں ایک کتاب ''علم'' کے نام سے مخصوص ہے اور ایک دوسری کتاب ''عقل و جہل'' کے نام سے ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ اس کتاب میں جہل عقل کے مقابلہ میں ہے نہ علم کے مقابلہ میں اور جیسا کہ ہم نے کہا: غالبا جہل و جہالت نادانی اور احمقانہ رفتار کو کہا جاتا ہے اور عقل کے مقابلہ میں استعمال ہوتاہے نہ علم کے مقابلہ میں ۔

حلم و بردباری، اولیائے الہی کے لئے زینت بخش:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نصیحتوں میں اس نکتہ کی طرف تاکید فرماتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں کبھی مجبورا کم عقل اور کم شعور افراد سے روبرو ہوتاہے کہ وہ غیر عاقلانہ اور جاہلانہ رفتار رکھتے ہیں، بہترین رفتار جو ان کے ساتھ روا رکھ سکتا ہے، ان کی بے ادبی کو برداشت کرنا اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہے کہ اس صورت میں اجتماعی منافع سے بھی بہرہ مند ہوتاہے اور نادانوں او ربے عقلوں سے ٹکراؤ پیش آنے سے بھی بچ جاتاہے اور ان کی دشمنی سے نجات پاتاہے اور اس طرح خدا کی نظر میں محبوب قرار پاتا ہے:

''قال رسول اللّٰه، صلی اللّٰه علیه و آله و سلم، ان اللّٰه یحب الحی الحلیم العفیف المتعفف'' (۷)

خدائے تعالے باحیا، بردبار، پاک دامن اور عالی ظرف شخص کو دوست رکھتا ہے۔

قرآن مجید نادان دشمنوں سے مبارزہ کے بارے میں یوں بیان فرماتاہے:

( ولا تستوی الحسنة و لا السیئة ادفع بالتی هی احسن فاذاالذی بینک و بینه عداوة کانه ولی حمیم. و ما یلقّیها الا الذین صبروا و ما یلقّیها الا ذو حظّ عظیم و اما ینزغنّک من الشیطان نزغ فاستعذ باللّٰه انه هو السمیع العلیم ) (فصلت/٣٤۔٣٦)

''نیکی او ربرائی برابر نہیں ہو سکتی، لہذا تم برائی کا جواب بہترین طریقہ سے دوکہ اس طرح وہ شخص جو تمہارا دشمن ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے ایک گہرادوست ہوتاہے۔ اور یہ صلاحیت انھیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرنے والے ہوتے ہیں اور یہ بات انھیں کو حاصل ہوتی ہے جو بڑی قسمت والے ہوتے ہیں ۔ اور جب تم میں شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیداہوتو اللہ کی پناہ طلب کرو کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کو جاننے والاہے''

قرآن مجید سرکشوں او ربیوقوفوں کے بارے میں جو شیوہ بیان کرتاہے وہ ظریف ترین، اور اہمیت ترین تربیتی روش ہے۔ کیونکہ جو بھی برائی کرتاہے ، وہ مقابلہ بہ مثل کے قانون کے تحت یہی امید رکھتا ہے کہ مدمقابل بھی اس کے ساتھ یہی برتاؤکرے گا، لیکن جب وہ توقع کے خلاف سالم اور تعمیر ی برتاؤ دیکھتا ہے تو بدل جاتاہے اور اس کے اندر ایک طوفان پیدا ہوتاہے اور ضمیر کے دباؤ کے اثر میں بیدار ہوتا ہے اور احساس کم تری سے دوچار ہوکر اپنی ناشائستہ روش کو تبدیل کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گردپاتے ہیں کہ فرمان الہی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت، او ربردباری کی صفت ان لوگوں کے جمع ہونے کا سبب بنی تھی:

(فبما رحمة من الله لنت لهم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک فاعف عنهم و استغفر لهم و شاورهم فی الامر. ..)(آل عمران/١٥٩)

''پیغمبر ! یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے، لہذا اب انھیں معاف کردو۔ ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو''

اس کے علاوہ خدائے متعال اپنے صالح بندوں کی منطقی رفتار کے بارے میں فرماتا ہے:

(و عباد الرحمن الذین یمشون علی الارض هونا و اذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاما ) (فرقان/٦٣)

''اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔''

نقل کیا گیا ہے کہ ایک دانا شخص کا دوست اس کے گھر تشریف لایا۔ دانا شخص نے اس کے سامنے کھانا پیش کیا، اس حکیم و دانا کی بداخلاق بیوی نے آکر مہمان کے سامنے سے کھانااٹھالیا اور حکیم کو برا بھلا کہا۔وہ مہمان رنجیدہ ہوکر اس کے گھر سے چلاگیا۔ حکیم اس کے پیچھے پیچھے دوڑااور جب اس کے نزدیک پہنچا تو اس سے کہا:کیاوہ دن آپ کو یاد ہے جب ہم آپ کے گھر میں مہمان تھے اور کھانا کھاتے وقت ایک مرغی پرواز کرکے ہمارے دسترخوان پر آپڑی اورسارا کھانا خراب کردیا اور ہم میں سے کوئی بھی رنجیدہ نہیں ہوا؟ اس وقت آپ تصور کریں کہ میری بداخلاق بیوی اسی مرغی کے مانند ہے! یہ بات سن کر اس شخص کاغصہ سرد ہوا اور کہا: دانا نے سچ کہا ہے کہ حلم و بردباری تمام دردوں کی دواہے۔

امام حسن مجتبی علیہ السلام کی زندگی کے حالات میں ذکر ہوا ہے کہ ایک روز ایک شامی شخص نے جو بنی امیہ کے پروپگنڈا کے اثر میں اہل بیت علیہم السلام کا بغض دل میں رکھے ہوئے تھا مدینہ کے ایک کوچہ میں حضرت سے ملاقات کی اور فی الفور حضرت کے خلاف برابھلا کہنا اور گالیاں دینا شروع کردیا۔حضرت نے بردباری اور خاموشی کے بعد فرمایا: مجھے لگتا ہے تم اس شہر میں اجنبی ہو اور تم مغالطہ اور غلط فہمی سے دوچار ہوئے ہو۔ اگرگھرنہیں رکھتے ہو تو میرا گھر حاضر ہے۔ اگر مقروض ہو تو میں تمھارے قرض کو اپنے ذمہ لیتاہوں اور اسے میں ادا کروں گا۔ اگر بھوکے ہوتو تجھے سیر ہونے تک کھانا کھلاؤں گا ۔ حضرت کابرتاؤ اس شخص کے لئیخلاف توقع تھا اور اس رفتار نے اس کے دل میں ایک انقلاب برپاکردیا اور حضرت سے اتنا متاثر ہوا کہ کہا: اے فرزند رسول ! اگر اس سے پہلے مجھ سے سوال کیا جاتاکہ روئے زمین پر کون بدترین انسان ہے تو جواب میں آپ کو اور آپ کے باپ کو بیان کرتا لیکن اب آپ کو بہترین انسان کی حیثیت سے جانتاہوں۔

خواجہ نصیر الدین طوسی کے حالات میں کہا گیا ہے:ایک شخص خواجہ کے پاس آیا اور ایک تحریرانھیں دی کہ لکھنے والے نے اس میں خواجہ کو برابھلالکھاتھا، اس میں گالیاں لکھی تھیں اور اسے کلب بن کلب (کتا او رکتے کا بیٹا) کہاتھا: خواجہ نے اس کی اس نفرت بھری کے مقابلہ میں محبت آمیز زبان میں یوں جواب دیا: یہ جو مجھے کتا کہا گیا ہے صحیح نہیں ہے ،کیونکہ کتا ان جانوروں میں ہے جو ''عوں عوں'' کرتاہے اور اس کی کھال بال (روئیں) سے بھری ہوئی ہے اور اس کے ناخن لمبے ہوتے ہیں اور مجھ میں ان خصوصیات میں سے کوئی بھی خصوصیت موجود نہیں ہے: میرا قد بلند ہے، میرے بدن پر بال (روئیں) نہیں ہیں اور میرے ناخن لمبے نہیں ہیں، باتیں کرتا اور ہنستا ہوں اور جو خصوصیات مجھ میں ہیں وہ کتے میں نہیں ہیں۔ جو کچھ مجھ میں ہے وہ اس لکھنے والے کے دعوی کی تصدیق نہیں کرتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام حلم کے اجتماعی فوائد میں سے ایک یعنی حلم و بردباری کے بارے میں فرماتے ہیں:

''اول عوض الحلیم من حلمه ان الناس انصاره علی الجاهل'' (۸)

''بردبار کی بردباری کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ جاہل و نادان کے مقالہ میں لوگ اس کے حامی اور مددگار بن جاتے ہیں۔''

سعدی کہتے ہیں:

از صدف یادگیر نکتہ حلم

آنکہ برّد سرت گہر بخشش

(نکتہ حلم کو صدف سے سیکھنا۔جب اسے کاٹاجاتاہے تو موتی بخشتاہے)

نرمی و تواضع اور چاپلوسی اور خوشامد کے درمیان فرق:

تیسری خصوصیت ، جس کی طرف توجہ کرنا انسان کو قیامت کے نقصان سے بچانا ہے، لوگوں سے نرمی اور مہربانی سے پیش آناہے۔ ''مدارات'' معنی کے لحاظ سے ''نرمی'' کے نزدیک ہے، کیونکہ ''مدارات''بہ معنی ، نرمی ، رفتار میں ملائمت ، لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت اور ان کی آزار رسانی اور اذیت برداشت کرنے کے معنی میں ہے۔''مدارات'' کی ستائش اور اس کے دنیوی اور اخروی فائدوں کے بارے میں فراوان روایتیں نقل ہوئی ہیں.پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاہے:

''المداراة نصف الایمان''

''لوگوں کے ساتھ مدارات کرنا نصف ایمان ہے''

مزید فرمایا:

''ثلاث من لم یکن فیه لم یتم له عمل: ورع یحجزه عن معاصی اللّٰه و خلق یداری به الناس و حلم یردبه جهل الجاهل''

''تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی میں نہ ہوں تو ان کا کام مکمل نہیں ہے: گناہ سے بچانے والا ورع، لوگوں کے ساتھ مدارات کرنے والا اخلاق ، اور بے عقلوں کی بیوقوفی کو دور کرنے والاحلم''(۹)

ایک اور جگہ پر لوگوں کے ساتھ مدارات کو واجب اور تکالیف کی فہرست میں قرار دیتے ہوئے فرماتاہے:

''انا معاشر الانبیاء امرنا بمدارات الناس کما امرنا باداء الفرائض'' (۱۰)

''ہم انبیاء لوگوں کے ساتھ مدارا ت کرنے کے لئے مامور ہوئے ہیں جس طرح واجبات اورتکالیف کے لئے مامور ہوئے ہیں''

انسان برابر ایسے افراد سے روبرو ہوتاہے جو اپنے خاص اغراض و مقاصد کے لئے ناشائستہ رفتار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات حسد اور اور دیگر بری عاداتیں انھیں دوسروں کے ساتھ معاشرت کے دوران ایسا برتاؤ کرنے پرمحبور کرتی ہیں،جن سے نقصان پہنچتا ہے۔بات یہ ہے کہ ان افراد کے ساتھ روبرو ہوتے وقت انسان کو نسا رویہ اختیار کرے؟ اگر ایسے شخص کے مقابلہ میں کہ جو اس کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں یا اس کے حق میں کوتاہی یا بے ادبی سے پیش آتے ہیں ویسا ہی برتاؤ روا رکھاجائے تو ٹکراؤ اور جھگڑے کی نوبت آجائیگی اور بالکل ایسی مشکل سے دوچار ہونا پڑے گا کہ جیسا انسان کو احمقوں اور نادانوں کے ساتھ پیش آناپڑتا ہے۔

ایسے مواقع پر جوابی کا رروائی کو نظر انداز کرنا چاہئے او رمدارات کا شیوہ اختیار کرناچاہئے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ عفو و گزشت اور چشم پوشی کی مشق سے ایسے افراد کے ساتھ مدارات سے پیش آئے اور ان کے مقابلہ میں جلدی کوئی رد عمل نہ دکھائے۔ بعض مواقع پر ایسے تغافل کا مظاہرہ کرے گویامتوجہ نہیں ہواہے کہ انھوں نے کیا کیا ہے او رکیا کہا ہے۔بعض مواقع پر انسان کو دوسروں کے ناشائستہ برتاؤ کے مقابلہ میں چشم پوشی کرنی چاہئے با وجودیکہ اس کے حق میں دشمنی کی گئی ہے نہ صرف یہ کہ وہ دشمنی نہ کرے، بلکہ ان کی خدمت بھی کرے، اگر انسان اپنی زندگی میں اس قسم کی عادت واطوار کو اپنالے تو اس نے دوسروں کی خود غرضی اورآزار و اذیت کے مقابلہ میں مدارات کا مظاہرہ کیا ہے، ایسا شخصمنزل مقصود تک پہنچ سکتاہے۔ لیکن اگر ہر اس شخص کے ساتھ کہ جس نے اس کے ساتھ دشمنی حق تلفی کی ہے ، لڑناچاہے تو ، لڑنے جھگڑنے سے انسان کی توانائی بیہودہ امور میں صرف ہوتی ہے اور ایک جہت سے اس کا ذہن پریشان ہوتاہے اور دوسرے وقت بھی ضائع ہوتاہے نیز فرصت کے اوقات بھی ہاتھ سے چلے جاتے ہیں اور اس طرح رنجش اور کدور توں کے علاوہ دشمنیاں بھی بڑھتی ہیں۔

پس ایسے افراد سے روبرو ہونے کی صورت میں بہتر ین طریقہ راہ مدارات ہے،کیونکہ دوسروں کے ساتھ مدارات و نرمی سے پیش آنا عاقلوں اور باشعور افراد کا شیوہ اور کامیابی کی کنجی ہے:

''علیک بالرفق فانه مفتاح الصواب و سجیّة اولی الالباب'' (۱۱)

''تمہاری لئے دوسروں کے ساتھ مدارات و نرمی سے پیش آنا لازم ہے، کیونکہ وہ دوستی کی کنجی اور عقلمندوں کی روش ہے۔''

جس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کبھی مدارات کا مداہنت سے مغالطہ ہوتاہے، مداہنت مخالفین ، حق اور انحراف کرنے والوں کے ساتھ ہماہنگی اور موافقت ہے، یعنی انسان حقائق کے بیان اور خدا کے دین کی تبلیغ و ترویج میں سستی کرے اور اگر دوسروں کی طرف سے کسی انحراف کا مشاہدہ کرے تو کسی قسم کا اعتراض نہ کرے ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ولعمری ما علیّ من قتال من خالف الحق و خابط الغی من ادهان و لا ایهان...'' (۱۲)

''اپنی جان قسم، حق کے مخالفوں اور ضلالت و گمراہی میں قدم رکھنے والوں کے ساتھ تسامح و سستی نہیں برتوں گا''

ایک دوسری جگہ پر اپنے زمانے کے ان سست عناصرکی شکایت کرتے ہیں جو حق کی بات نہیں کہتے تھے اور آرام و آسائش کی راہ کو انتخاب کرچکے تھے اور فرماتے ہیں:

''و اعلموا رحمکم اللّٰه، انکم فی زمان القائل فیه بالحق قلیل و اللّسان عن الصدق کلیل و اللازم للحق ذلیل اهله معتکفون علی العصیان مصطلحون علی الادهان...'' (۱۳)

''خدا تمھیں بخش دے، جان لو کہ تم ایک ایسے زمانہ میں زندگیگزاررہے ہو کہ اس میں حق بولنے والے کم، سچ بولنے والی زبانیں کند اور حق کے طالب ذلیل ہیں۔ لوگ نافرمانی پر اترآئے ہیں اور اپنے ہم یاروں اور ہمراہوں کے ساتھ مداہنت کرتے ہیں۔''

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ، حق کی مخالفت میں ، قیام کرنے والوں کے ساتھ ہمدردی اور مداہنت کی سرزنش فرماتے ہیں اور مداہنت کو ایک پست، قابل مذمت، معاشرے کو تباہ کرنے اور اس کی عزت و آبرو کے ارکان کو منہدم کرنے والی خصلت جانتے ہیں۔ اس بنا پر مداہنت کو دشمنوں کے ساتھ مدارات ، نرمی ، اپنے حق اور شخصی منافع کے سلسلے میں اجتماعی مصلحتوں اور دین خدا کو احیاء اور زندہ کرنے کے پیش نظر عفو وبخشش کے معنی کے ساتھ مغالطہ نہیں کرنا چاہئے جوایک شائستہ اور تعمیری خصلت ہے۔

معاشرے میں ، ایسے ٹھنڈے مزاج کے انسان ہوتے ہیں جو اپنے بارے میں رونماہو نیوالی رودادوں کے بارے میں کسی قسم کا رد عمل نہیں دکھاتے اور لوگوں کی مشکلات ،دینی اور ثقافتی مشکلات جو ان کے اپنے لئے یادوسروں کے لئے پیش آتی ہیں، کے مقابلہ میں بے اعتنائی دکھاتے ہیں۔ اس قسم کے افراد جذبات او راحساسات سے عاری ،سست ، کاہل او رآرام طلب ہوتے ہیں اور ایک ایسی جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں جس کے ساتھ ٹیک لگاکردنیا سے بے خبری اور خوشی کے عالم میں آرام میں ہوں۔ جب کبھی مبارزہ کا وقت آتاہے اور جاں نثاری کا مظاہرہ کرنے کے لئے جہاد کے لئے اٹھنے کی باری آتی ہے تویہ لوگ بھاگ جاتے ہیں اور اپنی جان بچاتے ہیں۔ فطری بات ہے کہ یہ لوگ اپنے کام کے لئے توجیہ پیش کرتے ہیں، کیونکہ کوئی یہ کہنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ میں بُرا انسان ہوں اور برا کام انجا م دیتاہوں بلکہ اپنی رفتار کی توجیہ کے لئے کوئی نہ کوئی ظاہر ی بہانا تراشنا ہے۔ عام طور پر ان لوگوں کی توجیہ یہ ہے کہ دشمنوں کے ساتھ مدارات کرنا ضرروی ہے اور سخت گیری نہیں کرنی چاہئے ، کیونکہ تند برتاؤ کا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا اور کبھی اس شعر کا سہارا لیتے ہیں:

آسائش دوگیتی تفسیر این دو حرف است

با دوستان مروت با دشمنان مدارا

(دوجہان کی آسائش ان دو کلموں کی تفسیر ہے،دوستوں سے مروت اور دشمنوں سے مدارات)

بعض اوقات ایسی احادیث کا سہارا لیتے ہیں جو دوسروں سے مدارت کو حاصل کرنے کے عامل کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ اگربنا یہ ہو کہ یہی ذہنیت او رطرز تفکر معاشرے میں پھیل جائے،تو کبھی جہاد و مبارزہ نہیں ہوگا او رکوئی تحریک محقق نہیں ہوگی او رجہاد کا راستہ بند ہوجائے گا. چنانچہ ہم نے کہا کہ، یہ نرمی او رسستی حق کے سلسلہ میں مداہنت ہے اور خودخواہ اور آرام طلب انسان ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے اسے اپنے لئے سند قرار دیتے ہیں اور اسے شرعی رنگ بھی دیتے ہیں تا کہ اجتماعی ذمہ داریوں اور دشمنوں سے جہاد کے فریضہ کے سلسلہ میں بہتر صورت میں پہلوتہی کریں اور دشمنوں سے نہ لڑیں۔ یہ شیوہ انتہائی ناپسند ہے اور اس کے ناشائستہ آثار او غلط رنتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ قرآن مجید اس کی واضح طور پر مذمت کرتاہے۔

مشرکوں کے مقابلہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کانرمی سے پیش نہ آنا:

صدر اسلام میں کفار و مشرکین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مکرر درخواست کررہے تھے کہ آپ اپنے دین میں نرمی دکھائیں تا کہ وہ بھی اپنی رفتار میں نرمی دکھائیں،حقیقت میں وہ اس کوشش میں تھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کو کچھ امتیازات دیکر ان سے کچھ امتیازات حاصل کریں اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے مقابلہ میں نرمی او رانعطاف دکھانے پر مجبور کریں، وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چاہتے تھے کہ دوسرے دنیوی رہبروں کے مانند اپنے مقاصد کو نافذ کرنے کے بارے میں سخت گیری سے ہاتھ کھینچ لیں اور نرمی اور ہمدردی کا مظاہر کرتے ہوئے پنے مخالفوں کے نزدیک آجائیں۔ خدائے متعال ان کی درخواست کے بارے میں فرماتا ہے:

(ودّوا لو تدهن فیدهنون ) (قلم/٩)

''یہ چاہتے ہیں آپ ذرانرم ہوجائیں تویہ بھی نرم ہو جائیں''

یقینا دشمن کے مقابلہ میں نرمی دکھانا اور احکام الہی کے نفاذ اور الہی اقدار کی ترویج، اور فساد سے مبارزہ میں پیچھے ہٹنا،مطلوب مدارات نہیں ہے بلکہ مداہنت ہے، اس لئے خدائے متعال نے اس کام کی سختی سے نہی کی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چاہتا ہے کہ احکام الہی کے نفاذ میں سختی سے اقدام کریں:

( و ان احکم بینهم بما انزل اللّٰه ولا تتّبع اهواء هم واحذرهم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللّٰه الیک فان تولوا فاعلم انما یرید اللّٰه ان یصیبهم ببعض ذنوبهم ) ...) (مائدہ/٤٩)

''اور اے پیغمبر آپ ان کے در میان تنزیل خدا کے مطابق حکم کریں اور ان کے خواہشات کا اتباع نہ کریں اور اس بات سے بچتے رہیں کہ یہ بعض احکام الہی سے منحرف کردیں۔ پھراگریہ خود منحرف ہوجائیںتو یادرکھیں کہ خدا ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کرنا چاہتاہے۔''

ہر قسم کاسازباز اور نرمی ، مدارات نہیں ہے، مدارات اس جگہ پر ہے جہاں اس کے پس منظر میں صحیح عقلائی غرض ہو کہ انسان اس عقلائی مقصد اور بالاتر مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے،لوگوں کی ایجاد کی ہوئی بعض مشکلات کو برداشت کرے۔ نہ یہ کہ انسان ہر کسی اور ہر رفتار کے مقابلہ میں ٹھنڈے مزاج سے رد عمل کا مظاہرہ نہ کرے اور مدارات کے نام پر دشمنوں کے ساتھ ساز باز کرے۔ ہمیں مدارات اور مداہنت میں فرق کرناچاہئے اور جاننا چاہئے کہ اسلامی مقاصد او ردین کے مسائل میں عفو و بخشش سے کام نہیں لینا چاہئے اور نرمی نہیں دکھانی چاہئے اور فکری اور رفتاری اصول کے بارے میں نرمی اور انعطاف دکھانا ایک ناپسندیدہ امرہے، جب انسان کے لئے فریضہ الہی مشخص اور اس کے شرائط فراہم ہوں تواسے قطعی طور پر انجام دینا چاہئے اور اس کوانجام دینے کی راہ میں مضبوط اور مستحکم ہونا چاہئے اور ہر قسم کی بے توجہی اور لاپروائی سے پرہیز کرناچاہئے۔

یہ ذہنیت پسندیدہ نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ نرمی دکھائے اور ہر ایک کے ساتھ سازباز کرے ، حتی الہی اہداف و مقاصد میں بھی سازباز کرے۔ انسان کو زندگی کے آخری لمحہ تک الہی مقاصد کے نفاذ میں ڈٹ جانا چاہئے او راستقامت دکھائے او رعفو و بخشش کا مظاہرہ نہ کرے۔ جب ہم دشمنوں کے لاؤڈ سپیکروں سے پروپیگنڈے کی گنگناہٹ سنتے ہیں،تو جو جملہ قابل توجہ ہے وہ اصول پرست کا عنوان ہے جو ہمیں دیاگیا ہے۔البتہ ان کا اس عنوان کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری ملت کو کمزور کریں اور ہمارے چہروں کو انتہا پسند اور بے رحم کے عنوان سے پیش کریں۔ لیکن جب ہم اس عنوان پر غور کرتے ہیںتو معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک بہت مناسب اور بجالقب ہے، ہمیں اس کا استقبال کرنا چاہئے۔ جی ہاں! ہم اصول پرست ہیںا ور ہمیشہ اپنے اصول کا تحفظ کرتے ہیںا ور اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے اصلی مقاصد اور ارمانوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے اور ان کے بارے میں سازباز نہیں کرنا چاہئے۔بلکہ بعض اوقات ضروری ہے وقتی طور پر مصلحتی نرمی اور بحشش کا مظاہرہ کریں اور غیر اہم اور غیر حیاتی مسائل کے بارے میں قدرے عقب نشینی کریں لیکن بنیادی اصول پر کبھی سودا نہیں کرنی چاہئے۔

مکہ کے سخت دنوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش کے سخت دباؤ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب پر مشروکوں اور بت پرستوں کی طرف سے جسمانی اذیت و آزار ڈھائے جاتے تھے، یہاں تک کہ اسلام کی تبلیغ کی راہ میں اور رسالت کے پیغام کو پہچانیمیں شدید رکاوٹیں ایجاد کی گئیں چنانچہ وقفہ وقفہ سے آپ کی پیروی اور اتباع کرنے والوں میں سے کسی نہ کسی کو بلند الہی ارمانوں کی قربان گاہ عشق کی راہ میں اپنی جان نچھاور کرنا پڑتی تھی۔فطری طور پر اس پکڑدھکڑ کے دوران مظلوم اور زیر عذاب مسلمانوں کا سب سے بڑا مقصد ، ان مشکلات اور دباؤ سے رہائی حاصل کرنا اور ان افراد کی حمایت حاصل کرناتھا، جو ان کو قریش کے مقابلہ میں مسلح کرکے نجات کے اسباب فراہم کرتے۔ مورخین نے کہا ہے کہ اس نازک وقت میں اہل طائف نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں مددکی تجویز پیش کی تا کہ جنگوں اور لڑائیوں میں مسلمانوںکے دوش بدوش رہیں اور اپنی جان و مال سے ان کا دفاع کریں۔ ان کی یہ شرط تھی ان پر نماز پڑھنے کی پابندی نہ ہو۔کیونکہ وہ زمین پر سجدہ کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے، حقیقت میں ان کی ثقافت اس قسم کی رفتار کو قبول نہیں کرتی تھی۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ تجویز اس وقت دی گئی جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائی مشکلات اور سختی سے دوچار تھے اور دشمنوں نے انھیں ہر طرف سے دباؤمیں رکھاتھا۔ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے اجتماعی رہبروں کے مانند ہوتے تو اس قسم کی تجویز کا استقبال کرتے اور فرصت کو غنیمت سمجھتے او رتعہد نامہ منعقد کرکے اپنے ہم پیمان سے پور ا پورا فائدہ اٹھاتے اور ایک مناسب فرصت کے انتظار میں رہتے، تا کہ ان کو آہستہ آہستہ نماز عبادت و بندگی سے آشنا کراتے او ران کے لئے ثقافتی کام انجام دیتے۔ بعض مفسرین کے کہنے کے مطابق اس سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:

( ولولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیهم شیئا قلیلا ) (اسرائ/٧٤)

''اور اگر ہماری توفیق خاص نے آپ کوثابت قدم نہ رکھا ہوتاتو آپ (بشری طورپر)کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ہوجاتے ''(۱۴)

خدائے متعال انتباہ فرماتاہے کہ ایسا نہ ہو کہ مسلمان مشرکوں کے مطالبات کی طرف رجحان پیدا کریں اور دین کے سلسلہ میں سود اکریں؟ تمام جنگ اور مبارزات دینی مسائل میں ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ لوگ خداپرست بن جائیں اور خدائے متعال سے رابطہ پیدا کریں ،پس ان کے نزدیک آنا اور ان سے سودا کرنا کیسے ممکن تھا جب تک کہ وہ خداسے رابطہ پیدا نہ کرتے؟

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل طائف کی تجویز کے جواب میں فرمایا:

''لا خیر فی دین لا رکوع فیه و لا سجود'' (۱۵)

''جس دین میں رکوع و سجود نہ ہوا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے''

وہ چاہتے تھے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نرمی دکھائیں اور اپنے اصول سے منصرف ہوجائیں ، تا کہ وہ ان کے پاس رہیں،لیکن نہ خدائے متعال اس قسم کی اجازت دیتا تھا اور نہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا سودا کرتے،لہذا ان سے فرمایا: میں اس دین کے بارے میں تم لوگوں سے سودا نہیں کروں گا جس میں نماز نہ ہو او رمجھے تمھاری حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے دین کا استحکام بنیادی طور پرنماز اورخدا سے رابطہ پر ہے اور میرے دین و رسالت کا اصلی مقصد، اصل پرستش الہی کو حاکمیت بخشنا ہے۔

بنیادی اصول او رمقاصد کے بارے میں تمام مواقع پر تحفظ کرنے کی ضرورت ثابت ہے، من جملہ ان میں معاشرے کی قیادت اور وسیع پیمانہ پر مدیریت ہے۔ رہبر کو اصول اور بنیادی مقاصد کے تحفظ کے بارے میں ثابت قدم او رجرات مند ہونا چاہئے اور نرم نہیں ہونا چاہئے،لیکن فرعی امور میں اگر ضرورت اقتضا کرے تو نرمی اور چشم پوشی سے کام لے سکتاہے، کیونکہ بعض اوقات اصول کا تحفظ اور بچاؤ کا تقاضا ہوتاہے کہ انسان فرعی امور میں نرمی دکھائے تا کہ اصول کو دھچکانہ پہنچے۔ پس معاشرے کے قائدین کو بھی کبھی سخت او رکبھی نرم ہوناچاہئے۔ چنانچہ ہم نے کہا کہ جس محور پر سخت پالیسی اپنا کر اس کا تحفظ کرنا چاہئے، وہ دین کے اصول اور بنیادی محور اور بلند الہی مقاصد ہیں کہ قابل گزشت اور چشم پوشی روا نہیں ہے۔ لیکن جزئی مسائل کے باب میں کبھی ممکن ہے چشم پوشی، کوتاہی اور خلاف ورزی کی جائے اور رہبر مصلحت کے پیش نظر کبھی چشم پوشی سے کام لے۔

جو کچھبیان ہواوہ اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ مدارات کو مداہنت سے مغالطہ نہ کریں اور ان دونوں کی سرحدوں کی تشخیص دیں۔البتہ پسندیدہ مدارات اور مذموم مداہنت کے درمیان سرحد کی تشخیص بہت مشکل ہے۔ انسان کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے کہ کہاں پر مدارات کرناچاہئے اور کہاں پرمدارات نہیںکرناچاہئے اور کہاں پر چشم پوشی مداہنت ہے۔ کہاں پر سازباز اور نرمی مداہنت کا مصداق ہے۔ مداہنت کو مدارات سے تشخیص دینے کی راہوں میں سے ایک یہ ہے کہ اگر چشم پوشی اور نرمی اصلی اوراہم مسائل کو بالائے طاق رکھنے کاسبب بنے تو مداہنت ہے۔ لیکن اگر انسان کے شخصی منافع خطرے میں پڑیں اور انسان اس لئے کہ بلند تر مقصد تک پہنچ جائے اپنے شخصی فائدہ سے چشم پوشی کرے اور اپنے دشمن سے محترمانہ برتاؤ کرے ، تو اس نے مدارات کی ہے،البتہ اس پرتوجہ رکھنی چاہئے بعض مشکوک مواقع ہیں، کہ جن کے پیش نظر مداہنت اور مدارات کے درمیان تشخیص دینے میں زیادہ دقت کی ضرورت ہے۔

''یا اباذر؛ ان سَرَّک ان تکون اقوی الناس فتوکلّ علی اللّٰه، و ان سَرَّک ان تکون اکرم الناس فاتق اللّٰه، و ان سَرَّک ان تکون اغنی النّاس فکن بما فی ید اللّٰه عزوجل اوثق منک بما فی یدیک .

''اے ابوذر؛ اگر لوگوں میں توانا ترین بنناچاہتے ہو تو خدا پر توکل کرو اور لوگوں میں عزیزترین بننا چاہتے ہو تو تقوائے الہی کے مالک بن جاؤ اور مالدار ترین بننا چاہتے ہو تو جو کچھ خدا کے پاس ہے اس پر اپنے مال کی بہ نسبت زیادہ اطمینان رکھو''

حدیث کے اس حصہ میں دوبارہ تقوی کی بحث آئی ہے چنانچہ ملاحظہ ہوتاہے کہ گزشتہ مطالب سے رابطہ منقطع نہیں ہوا ہے اگر چہ تقوی سے ہم آہنگ کچھ دوسرے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بیان میں تین نکتوں کی طرف یاددہانی کی ہے:

پہلا نکتہ یہ کہ اگر لوگوں میں قوی ترین بننا چاہتے ہو تا کہ بہتر طریقہ سے ، اپنے مقاصد کو حاصل کرلوضعیف نہ ہو کہ جلدی شکست نہ کھاؤ اور مقصد پہنچنے کی قدرت رکھو توخدا پر توکل کرو۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر خدا کے نزدیک عزیز اور محترم ترین فرد قرار پاناچاہتے ہو، تو تقوی کو اپنا اصول بنالو،چنانچہ خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتاہے:

(...( ان اکرمکم عند الله اتقیکم ) (حجرات/١٣)

''تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔''

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر غنی اور بے نیاز ترین شخص بننا چاہتے ہو تو، جو کچھ خدا کے پاس ہے اس پر اپنے پاس موجود ہ مال کی بہ نسبت زیادہ اعتماد کرو۔ ہر شخص کسی حد تک خدا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے اور کچھ مال اپنے اختیار میں رکھتا ہے۔ بعض اوقات اتنے پیسے اور مال رکھتا ہے کہ دوسروں کا محتاج نہیں رہتا اور پیسے حاصل کرنے کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتاہے۔ یا اس کے پاس کافی مقدار میں غذا اور روٹی ہے اور دوسروں سے غذا اور روٹی قرض لینے پر مجبور نہیں ہے، یہ بذات خود ایک قسم کی بے نیازی ہے۔ لیکن جان لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک اپنے مال و ثروت کے بارے میں خوش فہمی میں رہ سکتے ہیں۔ انسان کے پیسے ممکن ہے کم ہوجائے یا ممکن ہے انسان کے مال کو چوراچک لے جائے اور ممکن ہے اس کی تمام نعمتیں نابود ہوجائیں اور انسان کو اس سے استفادہ کرنے کی فرصت نہ ۔ ممکن ہے ضرورت کے وقت انسان کو مال سے ہاتھ دھونا پڑے وہ اور اس سے استفادہ نہ کرسکے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے سارے پیسے گم ہوجائیں، لیکن جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ کبھی گم ہونے والانہیں ہے اور خداکی نعمتیں کبھی خدا کے ہاتھ سے خارج نہیں ہوتی ہیں۔

ممکن ہے کوئی مال ہمارے ہاتھ سے چلاجائے ، لیکن خدا کے ہاتھ سے کوئی چیز چلی جائے یہ ممکن نہیںاور اس کی مالکیت سے کوئی چیز کم ہوجائے یہ تصور نہیں، اس لئے خدائے متعال کی تمام اشیاء اور موجودات کی مالکیت پر قدرت او رتسلط کے پیش نظر ، اور جو کچھ خدائے متعال ارادہ کرے اس میں تبدیلی نہیں ہوتی ہے، حتی اگر کرہ مریخ پر کوئی چیز ہو او رخدائے متعال ارادہ کرے کہ وہ مجھ تک پہونچ جائے تو اس کے ارادہ میں تغییر و تخلف ممکن نہیں ، ہمارا اعتقاد اپنے پاس موجود ہ چیزوں سے زیادہ خداکے پاس موجود ہ چیزوں پر ہونا چاہئے، کیونکہ ممکن ہے ضرورت کے وقت اپنے پاس موجودہ مال سے استفادہ نہ کرسکیں یاوہ گم ہو جائے یا کوئی اور مصیبت اس پرآ پڑے اور ہمیں اس سے استفادہ کرنے سے محروم کردے۔

اگر ہم معرفت کی اس منزل پرپہنچ جائیں کہ تمام ھستی اور تمام ظاہری اور باطنی طاقتوں کو خدا کے قبضہ میں دیکھیں اور یقین کریں کہ اس کی قدرت سے کوئی چیز خارج نہیں ہے، تو ہم خدا کی تمام چیزوں پر مالکیت اور تسلط حتی انسان کی تدبیر پر اس کے تسلط سے آگاہ ہوجائیں اور خدا پر ہمارا اعتماد بڑھ جائے گا اور خدا کی قدرت پر اپنے پاس موجودہ قدرت سے زیادہ اعتماد پیدا کریں گے۔ فطری بات ہے جو خدا کی قدرت پر اعتماد رکھتا ہے وہ غنی ترین فرد ہے، کیونکہ خدا کا ارادہ کبھی نہیں بدلتااور اس کی قدرت سے کوئی چیز خارج نہیں ہوتی، جو شخص اپنے مال پر اعتماد کرتا ہے اور اس کے ساتھ دل وابستہ کرتاہے، چونکہ پیسے ہر وقت انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے لہذا ممکن ہے فائدہ اٹھانے سے پہلے ہی مال اس کے ہاتھ سے چلاجائے ۔

توکل کی عظمت و منزلت:

چنانچہ معلوم ہوا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدائے متعال پر توکل کو مومن کے لئے قدرت حاصل کرنے کا سرمایہ قرار دیتے ہیں ۔ توکل کے مقام کی اہمیت اور انسان کی زندگی میں اس کے رول، مختلف خطرات اور سختیوں سے روبرو ہونے اور اس سے غلط تصورات ایجاد کرنے کے پیش نظر ضروری ہے کہ توکل کے بارے میں ایک مختصر بحث کریں۔

توکل کا مادہ ''وکالة'' ہے اور اسلامی لغت میں اس کا معنی یہ ہے ہ انسان خدائے متعال کو اپنے لئے ایک مطمئن تکیہ گاہ قرار دے اور تمام امور اسی پر چھوڑ دے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرئیل سے توکل کے بارے میں سوال کیا ، جبرئیل نے جواب دیا:

''العلم بانّ المخلوق لا یضرو لا ینفع و لا یعطی ولا یمنع و استعمال الیاس من الخلق فاذا کان العبد کذلک لم یعمل لاحد سوی اللّٰه و لم یرج و لم یخف سوی اللّٰه و لم یطمع فی احد سوی اللّٰه فهذا هو التوکل'' (۱۶)

''توکل اس امر کی آگاہی ہے کہ بندہ انسان کو کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچاسکتا ہے اور اسے کوئی چیز نہیں عطا کرتاہے اور کوئی چیز اس سے واپس نہیں لیتا ، اور توکل مخلوق سے مایوس ہونے کے معنی میں ہے ۔ پس جب بندہ معرفت کے اس مرحلہ تک پہونچ جاتا ہے ، وہ غیر خدا کے لئے کام نہیں کرتا ہے اور خدا کے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتا ہے، اور خدا کے علاوہ کسی سے خوف محسوس نہیں کرتا یہ ہے خدا پر توکل کامعنی ہے''

قرآن مجید میں توکل کے بارے میں فراوان آیتیں موجود ہیں، من جملہ خدائے متعال فرماتا ہے:

( و علی اللّٰه فلیتوکل المؤمنون ) (آل عمران/ ١٢٢)

''اور ایمان والوں کو اللہ پر بھروسہ کرناچاہئے۔''

(اس آیت میں خدائے متعال توکل اور بھروسہ کو ایما ن کا اٹوٹ اور لازمی جزبیان کرتاہے)

جس طرح انسان عام طور پر دنیوی کاموں میں اپنے لئے وکیل منتخب کرتاہے اور اپنے بہت سے کام اس کے سپرد کرتاہے تا کہ واضح اور فائدہ بخش نتائج و آثار حاصل کرے، شائستہ ہے خدا کا بندہ بھی اپنے تمام امور میں خدائے متعال کو اپنا وکیل قرار دے اور اس پر بھروسہ کرے، تا کہ اس کے مطالبات کسی تشویش کے بغیر حاصل ہوجائیں۔ دوسرے الفاظ میں جو اپنی حاجتوں کو برطرف کرناچاہتا ہے، اس کے سامنے تین راہیں ہوتی ہیں: اپنی توانائی پر اعتماد کرے یا دوسروں پر اعتماد کرے اور اُن سے توقع رکھے یا پھر اپنے اعتماد کو خدائے متعال کی ذات پر قرار دے اور اس پر بھروسہ کرے اور اس کے علاوہ ہر ایک سے چشم پوشی کرلے۔

اس میں انسان کا خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کا سرچشمہ خدا کی ربوبیت کے بارے میں اس کی معرفت ہے، کیونکہ اگر انسان خدائے متعال کومالک ، صاحب اختیار اور تمام موجودات پر تسلط رکھنے والے کی حیثیت سے پہچان لے تو پھردوسروں کے پیچھے دوڑنے اور ان کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرے گا۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے مالک سے ایک دعامیں فرماتے ہیں:

''اللهم انک آنس الآنسین لأولیائک واحضرهم بالکفایه للمتوکلین تشاهد هم فی سرائرهم و تطّلع علیهم فی ضمائرهم و تعلم مبلغ بصائرهم''

''خداوندا! تو اپنے دوستوں کے ساتھ دوسروں سے زیادہ محبت کرتا ہے اور تجھ پر توان لوگوں کے امور کیاصلاح کے لئے جو تیری ذات پر بھروسہ کرتے ہیںخود ان سے زیادہ حاضر ہے (کیونکہ ہر چیز کے لئے قدرت رکھتاہے اور اپنے ارادے سے ہر کام کو انجام دیتا ہے) ان کے چُھپے ہوئے اسرار کو جانتا ہے ان کی فکر سے آگاہ ہے ان کی بصیرت کی مقدار سے واقف ہے''

اسی کے ضمن میں فرماتے ہیں:

''ان کے اسرار تیرے پاس آشکار ہیں اور ان کے دل تیرے دیدار کی حسرت میں داغ دار ہیں، اگر تنہائی ان پرو حشت ڈالتی ہے توتیری یادوں کے سایہ میں پناہ لیتے ہیں اور جب مصیبتیں ان پر ٹوٹتی ہیں تیری بارگاہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تمام کاموں کا سرچشمہ تیرے ہاتھ میں ہے۔''(۱۷)

خدا پر بھروسہ کرنے کے نتائج کے بارے میں حضرت محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''من توکل علی اللّٰه لایغلب و من اعتصم باللّٰه لایهزم'' (۱۸)

''جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے وہ شکست نہیں کھاتا اور جو بھی خدا کے پاس پناہ لیتا ہے کبھی ناکام نہیں ہوتا ہے۔''

بہت سے انبیاء کی دعوتوں کے اجنڈے پریہ پیغام لکھاہواتھا کہ خدا پر ایمان لاؤ اور اس پر بھروسہ کرو، اس لئے ایمان کی نشانیوں میں سے ایک خداپر توکل کرناہے۔ اگر انسان خدا کی ربوبیت پر اعتقاد رکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ تمام کائنات اس کی حکومت او رربوبیت کے تسلط میں ہے اور تنہا شائستہ پرستش وہ معبود ہے، تو وہ ہرگز اپنے آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ دوسروں کے پیچھے جا کر کسی اور سے مدد چاہے بلکہ ہمیشہ خدا کی ذات پر بھروسہ کریگااور صرف اسی سے مدد کی درخواست کریگا۔

توکل او رمادی ومعنوی اسباب و عوامل سے استفادہ کرنا

توکل ایک قلبی امر ہے، خارجی رفتار میں سے نہیں ہے، اس لئے توکل اسے نہیں کہتے کہ انسان کسی مسجد میں معتکف ہوجائے اور صرف خداکی عبادت اور اس سے رازو نیاز میں مشغول رہے اور تمام کاروبارسے ہاتھ کھینچ لے، اس امید سے کہ خدائے متعال خود اس کارزق فراہم کرے گا۔ بیشک یہ تصور غلط ہے اور اس روش کا اختیار کرنے والا منحرف ہے اورتوکل کے حقیقی معنی سے آگاہ نہیں ہے، چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے:

''رای رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم، قوما لایزرعون، قال: من انتم؟ قالوا : نحن المتوکلون قال: بل انتم المتکلون'' (۱۹)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ کھیتی باڑی نہیں کررہے تھے۔ان سے کہا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا: ہم توکل کرنے والے ہیں۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم لوگ دوسروں کے رحم و کرم ہو۔''

جی ہاں، جو معارف الہی کی صحیح پہچان نہیں رکھتے، وہ خیال کرتے ہیں کہ توکل یہ ہے کہ انسان مادی و سائل اور امکانات سے استفادہ نہ کرے اور اگر کسی نے مادی وسائل سے استفادہ کیا تو وہ توکل نہیں رکھتا ہے۔ جبکہ نہ مادی وسائل کا سہارا لینے والا شخص توکل سے عای ہے اور نہ ہروہ شخص جو ان وسائل سے استفادہ نہیں کرتاہے وہ صاحب توکل ہے۔ ایسے کاہل اور سست افراد بھی جوایک لقمہ روٹی کے انتظار میں رہتے ہیں تا کہ اسے کھاکر اسی پر قناعت کریں اور کام کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ، جب ایسے لوگوں سے سوال کیا جاتاہے کہ تم لوگ کیوں کام نہیں کرتے اور محنت نہیں کرتے ہو؟ تو جواب میں کہتے ہیں: ہم خدا پر توکل کرتے ہیں یہ توجیہ ان کی کاہلی اور سستی پر ایک پردہ ہے ورنہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور خدا پر بھروسہ نہیں رکھتے ہیں.

البتہ ایسے لوگ بھی ہیں جو حقیقتا صاحب توکل ہوتے ہیں، لیکن بہر صورت یہ تصور غلط ہے کہ توکل کے بہانہ سے عوامل واسباب سے استفادہ نہ کیا جائے۔

چنانچہ ہم نے کہا کہ توکل ایک قلبی امر ہے اور اس کامعنی خدا پر بھروسہ کرناہے کہ انسان اپنے دل میں خداپر بھروسہ کرے۔ اس بناپر ممکن ہے انسان توکل کے عالی ترین مرحلہ تک پہنچ جائے او راسی حالت میں فریضہ انجام دینے اور حکم خداپر عمل کرنے کے لئے مادی و سائل اور اسباب سے بھی استفادہ کرے۔ ممکن ہے کوئی شخص دوسروں سے زیادہ محنت کرے یا اپنے کام میں دوسروں سے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے لیکن پھر بھی اپنے کام پر اعتماد نہ رکھتا ہو اور صرف خدا پر بھروسہ کرتاہو، چونکہ خدائے متعال بے کار اور سست انسان سے بیزار ہے او راس پر کام کرنا واجب قرار دیا ہے اسلئے یہ شخص کام کرتا ہے ، کیونکہ حکمت الہی کا تقاضا ہے کہ دنیا کے امور و اسباب اوروسائل کے ذریعہ آگے بڑھیں:

بنیادی طور پر جو خدا کی معرفت رکھتا ہے، وہ شخص جانتا ہے کہ حکمت الہی کے مطابق جملہ امور اسباب کے ذریعہ واقع ہوتے ہیں۔ حکمت الہی کا تقاضا ہے کہ ہر مظہر اپنے اسباب کے ذریعہ واقع ہو ۔ اس لحاظ سے خدائے متعال کا علم اور اس کی معرفت و حکمت اس کے مقتضائے حکمت کی شناخت نظام اسباب و علل پر برقرار ہے کا سبب ہے اور بالاخر، انسان کا تکامل اور اس کی ترقی اسی نظام سے وابستہ ہے اور اسی کے ذریعہ انسان کی آزمائش اور امتحان سے مواجہ ہوتاہے ورنہ انسان تکامل وترقی کی طرف نہیں بڑھتا۔ انسان کے تکامل و ترقی کے لئے بندگی کے فرائض انجام دینا شرط ہے اور وہ انسان کے ارتباط پرمنحصر ہے اور انسان کا ارتباط نظام اسباب و علل سے منسلک ہے۔ پس اگر انسان آرام و آسائش کی راہ پر چلے او رتنہائی اختیار کرے اور عبادت میں مشغول ہوجائے اور اپنی روزمرہ زندگی میں کسب معاش ونیز سعی و کوششسے ہاتھ کھینچ لے تو اس نے حکمت الہی کے خلاف کام کیا ہے اور اس صورت میں خدا کی طرف سے روزی پہنچنے کی امید رکھنا بیہودہ ہوگا، بقول مولوی:

گر توکل می کنی در کا ر کن

کشت کن پس تکیہ بر جبار کن

(اگر تم توکل کرتے ہو چاہتے ہو تو کام کرو توکل کرو، کھیتی کرنے کے بعد خدا پر بھروسہ کرو)

اس بنا پر حکمت الہی کا تقاضا ہے کہ انسان ضرورتوں کو پانے کے لئے اسباب و عوامل سے استفادہ کرے۔ اگر ایسا ہوتا کہ رزق کی درخواست کرکے خداسے رزق فراہم ہوجاتاتوکوئی عملی رزق کے لئے کوشش نہیں کرتااور انسانوں کی آزمائش نہیں ہوتی۔ اگر کہا جاتا ہے کہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے عوامل اور وسائل سے استفادہ کرناچاہئے تو اس کے یہ معنی نہیں ہے کہ تمھیں رارزق دینے والی زمین، کسب معاش اور دیگر اسباب ہیں، بلکہ یہ سب خدا کی طرف سے ہیں اور تدبیر اس کے ہاتھ میں ہے، رزق بھی اسی سے ہے۔ عوامل و اسباب کے پیچھے جاناتم پر فرض ہے تا کہ دنیا کے نظام میں الہی مقاصد پورے ہوجائیں اور یہ مقاصد انسان کے تکامل و ترقی کے لئے ہیں۔

پس توکل اور بھروسہ کرنے والے کو کسب معاش و تلاش سے غفلت نہیں کرنی چاہئے، چنانچہ جواہل توکل نہیں ہیں وہ ایسا ہی کرتے ہیں، ان دو گروہوں میں قلبی رابطہ کے بارے میں فرق یہ ہے کہ توکل کرنے والا خدا کے حکم کی اطاعت کی غرض اور خدا پر بھروسہ اور امید رکھ کر کوشش کرتاہے، لیکن غیر موحد اور توکل نہ رکھنے والا انسان اپنی روزی کو اپنے کام، کاج اور کوشش دوسروں کے ہاتھ میں ڈھونڈ تا ہے۔ مومن خدا کے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتاہے اورتمام اسباب ووسائل کو خدا کی طرف سے دیکھتا ہے اور اگر وہ تمام اسباب وسائل سے محروم ہو جائے تو بھی اس کی خدا پر امید میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا ہے ،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدائے متعال جو بھی اپنے بندہ کے حق میں انجام دیتا ہے وہ حکمت کی بنیاد پر اور اس کی مصلحت کے لئے ہو تا ہے اور خدائے متعال کسی بھی وقت اپنے بندے کو اس سے محروم نہیں کرتاکہ جس میں ، اس کے لئے خیر ہو۔

پس ایک طرف سے دنیا کا نظام اسباب وعلل کے نظام پرو جود میں آیا ہے اور اس نظام کی زنجیر میں انسان کو کام اور کوشش سے اپنے مطالبات کو حاصل کرنا چاہئے۔ دوسری طرف سے کسب معاش اور دوسروں سے اپنے مطالبات کو حاصل کرنا چاہئے۔ دوسری طرف کام ، کاج اور ذریعہ معاش اور دوسروں سے روابط اس لئے ہے کہ انسان کے لئے امتحان و آزمائش کے مواقع فراہم ہوجائیں، چونکہ اگر انسان کی آزمائش نہ ہو اور اس سے امتحان نہ لیا جائے تو وہ تکامل وترقی کی طرف قدم نہیں بڑھائے گا۔ کام اور انجام فریضہ اور کارکن و مالک کے درمیان رابطہ کی رعایت کی جانی چاہئے تا کہ ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کے سایہ او رسعی و کوشش کے نتیجہ میں تکامل وترقی مواقع فراہم ہوں۔ اس بناپر انسان کا فرض ہے کہ کام اور محنت کرے اور اسی حالت میں اعتقاد رکھے کہ روزی اسے خدا سے ملتی ہے اور اس کا بھروسہ اس پر ہونا چاہئے۔ توکل کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ انسان کام نہ کرے بلکہ حقیقت توکل یہ ہے کہ انسان کا دل خداکے ساتھ ہو اپنے رزق کو خدا کی طرف سے سمجھے ،نہ کام سے تو اس صورت میں وہ کامیاب ہوگا اور زندگی کے مشکل ترین مراحل میں بھی خطرات سے گزر کر مشکلات پر قابوپائے گا۔ کیونکہ وہ خدائے متعال کی لافانی ذات پر بھروسہ کرتاہے۔

نقل کیا گیا ہے کہ حضرت موسی علی نبینا و علیہ السلام بیمار ہوئے اور بنی اسرائیل ان کی عیادت کے لئے آئے او ران سے کہا: اگر فلاںجڑ ی بوٹی سے علاج کریںگے تو آپ ٹھیک ہوجائیںگے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے کہا: میں علاج نہیں کروں گا یہاںتک خدا مجھے شفا عنایت کرے! حضرت موسی علیہ السلام کی بیماری کی ایک مدت گزرگئی لیکن صحت یابی کی کوئی علامت ان میں ظاہر نہیں ہوئی۔ خداکی طرف سے انھیں وحی ہوئی:مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے، تجھے میں تب تک شفانہیں دوںگاجب تک آپ اس جڑی بوٹی سے اپنا معالجہ نہ کریں کہ جس کے بارے میں بنی اسرائیل نے تمہیں خبر دی تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس دوا کو کھانے کے بعد شفا پائی،لیکن جوبات انھوںنے بنی اسرائیل سے کہی تھی اس سے خائف تھے۔ خطاب آگیا: اے موسی !کیا تم اپنے توکل سے میری حکمت کو جھٹلانا چاہتے ہو؟ میرے سواکون ہے جس نے ان جڑی بوٹیوں میں یہ تاثیر رکھی ہے ۔

اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک زاہد شہر سے نکل کر ایک پہاڑکے دامن میں ساکن ہوا اور کہتا تھا: میں کسی سے درخواست نہیں کروں گا یہاں تک کہ خدائے متعال خود مجھے رزق پہنچائے! اسی حالت میں سات دن گزر گئے اور کہیں سے کو ئی غذا اس تک نہیں پہنچا یہاں تک وہ قریب المرگ ہوگیا ۔ اس کے بعد اس نے عرض کی:پروردگارا!مجھے روزی عنایت کر یا میری جان لے لے تا کہ میں مطمئن ہوجاؤں !خطاب ہوا میرے عزت و جلال کی قسم ،تجھے تب تک رزق نہیں دوں گا،جب تک معاشرے میں جاکر لوگوں کے ساتھ زندگی نہ گزاروگے ۔زاہدنے پہاڑ سے اتر کر شہر کی راہ لی ۔جب لوگوں میں پہنچا تو ایک شخص اس کے لئے پانی لا رہا تھا اوردوسرا کھانا ۔اس وقت خدائے متعال نے اسے خطاب کر کے فر مایا : اے زاہد! کیاتواپنے زہد سے میری حکمت کو جھٹلانا چاہتا ہے ؟کیا تم نہیں جانتے ہو کہ مجھے اپنے بندوں کوبندوںکے ہی ذریعہ سے روزی پہنچانا پسند ہے بجائے اس کے کہ انھیں بلا واسطہ اور بغیر سبب روزی پہنچا ؤں۔(۲۱)

رزق صرف مادی رزق اور شکم کے رزق تک محدود نہیں ہے بلکہ منا فع اور معنوی نعمتیں من جملہ علم بھی رزق ہے اس لحاظ سے ممکن ہے کوئی کا ہلی وسستی کی وجہ سے علم حاصل کرنے اور مطالعہ کرنے کے لئے نہ جائے،وقت پر کلاس میں حاضر نہ ہو اور کہے کہ میں نے خدا پر توکل کیا ہے وہ خود مجھے علم عطا کرے گا اور معصوم کے اس بیان کو دستا ویز قرار دے کہ فرماتے ہیں:

''لیس العلم بالتعلم انما هو نور یقع فی قلب من یرید الله تبارک وتعالی ان یهدیه''

'' علم پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتاہے،بلکہ علم ایک ایسا نور ہے کہ جسے خدا ہدایت کرنا چاہے اس کے قلب میں اسے ڈال دیتاہے۔''

جی ہاںعلم خداکی طرف سے ہے اور وہ جسے چاہے مرحمت کرتاہے،لیکن ہمارا بھی کوئی فرض ہے کہ سبق پڑھیںاور مطالعہ کریں اور علم حاصل کرنے میں سنجید گی کا مظا ہرہ کریںاور تمام وسائل سے استفادہ کریں اور ایسا نہیںہے کہ کوئی کو شش وجستجو،محنت اور علم حاصل کرنے کی دشواریوں کے بغیر عالم بن جائے،چنانچہ کام ،کوشش وجستجواور محنت ورنج برداشت کئے بغیردنیوی سرمایہ بھی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔

تمام وہ نعمتیں جن کا انسان طالب ہے،خدائے متعال کے اختیار میں ہیں اور اسباب وسائل ان کوتعین کرنے والے نہیں ہیں۔بلکہ یہ ایسے اسباب ہیں کہ خدائے متعال نے ان کونعمتوں تک پہنچنے کے لئے وسیلہ قرار دیا ہے،اور چونکہ خدائے متعال انہی وسائل واسباب کے ذریعہ ہمیں اپنی مطلو بہ نعمتوں اور رزق تک پہنچاچاہتا ہے،لہذا ہم پر فرض بنتاہے کہ ان سے استفادہ کریں ،اگر چہ یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی کسی کام اور کوشش کے بغیر جب ہم اسباب ووسائل سے کافی محروم ہوجائیں ،خدائے متعال بعض منافع اور نعمتوں کواس طرح ہمارے اختیار میں قرار دیتا ہے کہ ہم اس کا بالکل تصور نہیں کرتے تھے۔اس کے مقابلہ میں ممکن ہے کہ کام وکوشش اور وسائل سے استفادہ کرنے کے بعد بھی اپنے مقاصد تک نہ پہنچ پائیں اور نا کام رہیں ، کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں وسائل کے بارے میں خوش فہمی نہیں رکھنی چاہئے ،بلکہ انسان کوصرف خدا پر بھروسہ اور امید رکھنی چاہئے اور اس پر اعتماد رکھتے ہوئے وسائل واسباب سے استفادہ کرنا چاہئے اور انسان امید رکھے کہ خدائے متعال اس کا رزق اس تک پہنچا ئے گا۔مذکورہ مطالب کے پیش نظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:اگرلوگوں میں تواناترین بننا چاہتے ہو توخداپر بھروسہ کرو اور اپنے قلبی رابطہ کو اس کے ساتھ مستحکم کرو،تاکہ اس کے اعتماد اور ارتباط کے سایہ میں اطمینان خاطر حاصل کر و اور خدا کی قدرت لایزال پر بھروسہ کرو ،وہ ہر کام پر قادر ہے اور سختیوں اور مشکلات میں انسان کا بہترین یاور ومددگار ہے .وہ دشمن کے ساتھ جنگ میں انسان کے باذئو ں کوقدرت بخشتا ہے اور دشمن کے بڑے لشکر کو مومن انسان کے لئے خزاں کے پتوں کی طرح گرا دیتاہے۔

جی ہاں ،اس اعتماد وارتباط کے پیش نظر یقین ہے کہ مولائے متقیان علی علیہ السلام،وہ انسان کامل جو خدا کی بندگی اورعبادت میں نیز رازونیاز کے دوران اس کی بار گاہ میں کانپتے تھے اور بیہوش ہوکر زمین پر گرپڑتے تھے او رخدا کے خوف سے بے تاب ہوجاتے تھے ۔ لیکن دشمن کے ساتھ مقابلہ میں آپ کی تیویوں پر بل بھی نہیں آتے تھے او ر خوف تو آپ کے قرب بھی نہیں آتا تھا اور دشمن آپ کے سامنے سے دم دباکر بھاگئے تھے اور آپ خدائے متعال اور اس کی بے نہایت قدرت سے الہام اخذ کرتے تھے اور قدرت کی طرف سے وہ پشت پناہی ہوتی تھی کہ ضعف و سستی کا تصور نہیں ہوتا تھا اور تمام چیزیں ان کے عزم و ارادہ سے انجام پاتی تھیں۔ جنگ جمل میں اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کے ہاتھ میں پرچم اسلام تھماتھے ہوئے فرماتے ہیں:

''تزول الجبال و لا تزل عضّ علی ناجذک اعر الله جمجمتک تدفی الارض قدمک ارم ببصرک اقصی القوم و غضّ بصرک و اعلم انّ النصر من عند الله سبحانه'' (۲۲)

''پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں ،لیکن تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا(تم کو میدان کارزار میں پہاڑوں سے زیادہ مستحکم اور قوی ہوناچاہئے) اپنے دانتوں کو آپس میں دبا کے رکھنا اور اپنے سر کو خدا کے سپر د کردینا او راپنے قدم زمین میں میخ کی طرح نصب کردینا (میدان کارزار میں ثابت قدم رہنا اور دشمن سے خوف زدہ نہ ہونا) دشمن کی صف کے آخری حصہ پر نگاہ رکھنا او رجان لینا کامیابی خدائے متعال کی طرف سے ہے۔''

اگر انسان خدا پر بھروسہ نہ رکھے تو اس کے باطن میں ہمیشہ اضطراب ، پریشانی اور تذبذب ہوگا اور اس کی زندگی پریشانی اور اضطراب میں مبتلارہے گی اور اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ وہ سچے اور اطمینان بخش پشت پناہی سے غافل ہے اور جھوٹے اور متزلزل پشت پناہی پر اعتماد کئے ہوئیہے۔ اس لئے توانائی حاصل کرنے کے لئے ہمیں خدا پر بھروسہ کرناچاہئے۔

تقوی اور توکل کے درمیان رابطہ

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

''یا اباذر؛ لو انّ الناس کلهم اخذوا بهذه الایه لکفتهم: ( و من یتق اللّٰه بجعل له مخرجا و یرزقه من حیث لا یحتسب و من یتوکل علی اللّٰه فهو حسبه ان الله بالغ امره قد جعل اللّٰه لکل شی ء قدرا ) (طلاق ٢۔٣)

اے ابوذر! اگر سب لوگ اس آیہ مبارکہ پر عمل کرتے توان کے لئے کافی تھا:

(اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کرتا ہے۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال اسے بھی نہیں ہوتاہے اور جوخدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے)

(آیہ مبارکہ میں تقوی اور توکل دونوں ذکر ہوئے ہیں اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں کے در میان گہرا تعلق اور رابطہ ہے اور ممکن نہیں ہے یہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں ۔ شاید تقوی کا پہلے ذکر آنا اس لئے ہے کہ تقوی کا حاصل ہونا توکل تک پہنچنے کا مقدمہ ہے اور جب تک انسان متقی نہیں بنتا خدا پر توکل کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے)

بیشک تمام آسما نی اور زمینی امور خدائے متعال کے ہاتھ میں ہیں اور خدا کی قدرت کے مقابلہ میں کوئی قدرت وجود نہیں رکھتی ہے۔ یہ وہ ہے جو اپنے ارادہ سے کائنات کی تدبیر کرتاہے اور تمام چیزیں اس کے ارادہ اور رائے کے مطابق انجام پاتی ہیں۔ پس ہمیں صرف اس پر اعتماد کرنا چاہئے اور نیازمندی کا ہاتھ اسی کی طرف پھیلانا چاہئیاور اپنے اندر غیر خدا کی بے نیازی کو زندہ کرناچاہئے۔ چونکہ خدائے متعال نے ہمیں دوسروں کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے، اور ان کی نیکیوں کے مقابلہ میں شکریہ ادا کرنے کو کہا ہے ، لہذا ہم فرضیۂ الٰہی کی بنیاد پر ان کا احترام کرتے ہیں، لیکن اس تصور سے کہ کسی دوسری راہ سے کوئی چیز نہیں ملی، چاپلوسی اور خوشامد سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جو خدائے متعال پر اعتماد و توکل رکھتا ہے وہ اپنے رزق کی امید خداسے رکھتا ہے، اس لئے دوسروں کی چاپلوسی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتاکہ بلا وجہ کسی کے سامنے جھکے اور سرخم کرے تا کہ وہ اس کی مدد کریں۔ چاپلوسی اور کسی کے سامنے سر جھکانا انسان کی عزت نفس کے منافی ہے۔

جی ہاں! خدائے متعال او راولیائے دین نے ہمیں حکم دیا ہے کہ، بعض افراد ، جن کا ہم پر بڑاحق ہے ،جیسے ماں باب اور اساتذہ کے سامنے خضوع و خشوع سے پیش آئیں۔ اور اسی طرح تاکید کی گئی ہے کہ سادات او رپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت کے سامنے تواضع او رخشوع سے پیش آئیں، کہ ان کا احترام پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی نسبت کی وجہ او رخدا و رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احترام کی غرض سے ہے، نہ دنیوی اور مادی طمع سے۔

خدائے متعال نے ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احترام کرنے اور ان کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ پیش آنے کے لئے اپنی عبادت و بندگی کے مرتبہ کے بعد ذکر فرمایاہے:

( وقضی ربک الاتعبدواالاایاه وبالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدهما او کلا هما فلاتقل لهمااف ولاتنهرهماوقل لهما قولا کریماواخفض لهما جناح الذل من الرحمة وقل رب ارحمهماکما ربیانی صغیر ) (اسراء ٢٣۔٢٤)

''اور تمھارے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار ان سے اف بھی نہ کہنا او رانھیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرنا۔ اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکادینا اوران کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرماجس طرح کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔''

اما م سجاد علیہ السلام استاد اور معلم کے حق کے بارے میں فرماتے ہیں:

''حق سائسک بالعلم التعظیم له و التوقیر لمجلسه و حسن الاستماع الیه و الاقبال علیه و ان لا ترفع علیه صوتک و لا تجیب احدا یساله عن شی حتی یکون هو الذی یجیب و لا تحدث فی مجلسه احدا و لا تغتاب عنده احدا ..۔''(۲۳)

''جو تجھے علم سکھاتاہے اور تیری روح کی پرورش کرتاہے، اس کا حق یہ ہے کہ اس کہ تعظیم کرو اس کی مجلس کا احترام کرو اس کے بیانات کو اچھی طرح سے سنو، اس کی طرف متوجہ رہو اور اس کے سامنے بلند آواز سے بات نہ کرو اور اس کی مجلس میں کسی دوسرے کے ساتھ بات نہ کرو اور اس کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو۔''

اگر کوئی دنیا اور مادیات کی لالچ میں کسیکے سامنے خضوع کر ے تو اس نے چاپلوسی کی ہے اور اس کے کام کا باطن شرک ہے، وہ حقیقت میں خدا کو نا تواں سمجھتاہے اس لئے دوسروں پر طمع کرتا ہے۔

جو خدا کو پہچانتا ہے اور خدا کے بارے میں اس کی معرفت مکمل ہے اور اس پر بھروسہ کرتاہے اور خدا کے اس بیان کو کا ن لگاکے سنتاہے کہ اس نے فرمایا ہے:

( الیس الله بکاف عبده ) ) (زمر ٣٦)

''کیا خدائے متعال بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟''

تووہ دوسروں سے امید نہیں رکھے گا تا کہ ان کے سامنے جھکے۔ وہ صرف خدائے متعال پر توکل اور اعتماد کرتاہے اور اسی حالت میں اپنے فریضہ پر بھی عمل کرتاہے۔ اگر اس کا فریضہ کام کرنا ہے، توو ہ کا م کرتا ہے، اگر اس کا فریضہ سبق پڑھنا ہے تووہ سبق پڑھتاہے او ر اگر اس کا فریضہ راہ خدا میں جہاد کرنا ہے تو وہ جہاد کرتاہے اور نتیجہ کو خداوند متعال پر چھوڑتاہے۔

حضرت اما م خمینی رحمة اللہ علیہ بارہا فرماتے تھے:

''ہمارا فرض ہے کہ ہم مبارزہ کریں، لیکن یہ کہ ہم کامیاب ہوں یا نہ ہوںیہ خدا پر ہے، جووہ چاہے اور مصلحت جانے وہی واقع ہوگا۔''

____________________

١۔ طلاق / ٢۔٣

۲۔ بحار الانوار ، ج ٧١،ص ٤٢٤

۳۔ نہج البلاغہ(فیض الاسلام) حکمت ١٠٩ص ١١٣٩

۴۔ بحار الانوار،ج ٢، ص ٤٦

۵۔ بحار الانوار،ج٩٧،ص ٣٦٨

۶۔ بحار الانوار،ج١ ٢،ص ١٠٩

۷۔اصول کافی، ج ٣، ص ١٧٤

۸۔نہج البلاغہ(فیض الاسلام)حکمت ١٩٧،ص ١١٧٩

۹۔ اصول کافی(با ترجمہ) ج ٣، ص ١٧٩

۱۰۔ بحار الانوار ،ج ٧٥،ص ٥٣

۱۱۔ غررالحکم (ترجمہ محمد علی انصاری) ص ٤٧٩

۱۲۔ نہج البلاغہ (فیض الاسلام ) خطبہ٢٤، ص ٨٧

۱۳۔ نہج البلاغہ (فیض الاسلام) خطبہ ٢٢٤، ص ٧٢٩

۱۴۔ ابن عباس کی روایت کے مطابق یہ آیت اور سورہ اسراء کی ٧٣ ویں آیت اس وقت نازل ہوئی ہے کہ امیہ بن خلف اورابوجہل کے علاوہ قریش کا ایک گروہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا: آپ ہمارے خداؤں پرہماری طرح ہاتھ پھیروتا کہ ہم آپ کی دین کی طرف مائل ہوجائیں اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے قوم سے دوری سخت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مائل تھے کہ وہ اسلام قبول کریں.( المیزان ، موسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان ،ج ١٥،ص ١٧٧)

۱۵۔بحار الانوار ،ج٢١،ص١٥٣

۱۶۔بحار الانوار ، ج ٧١، ص ١٣٨

۱۷۔ نہج البلاغہ (فیض الاسلام ) خطبہ ٢١٨، ص ٧١٩

۱۸۔ بحار الانوار، ج ٧١، ص ١٥١

۱۹۔ مستدرک الوسائل ج ١١ ، ٢١٧

۲۰۔مہدی نراقی،جامع السعادات ،ج٣،ص٢٨ ٢۔٢٢٩

۲۱۔بحار الانوار،ج١،ص٢٢٥

۲۲۔ نہج البلاغہ (فیض الاسلام) خطبہ ١١، ص ٦٢

۲۳۔ بحار االانوار، ج ٢، ص ٤٢