تئیسواں درس:
فقیہ کامل اورتوحید کے اعتقاد کی عملی صورت
* حضرت ابراہیم علیہ السلام اور توحید افعالی پر اعتقاد
* غیر خدا پر اعتماد' توحید افعالی پر عدم اعتقاد کا نتیجہ
* شیخ انصاری اور شیطان کے پھندے سے فرار
* تواضع عزت و سربلندی کا سبب
* حضرت سجاد علیہ السلام اور نقص و فقر ذاتی کا ادراک
* پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام میں حقیقی ایمان کا نتیجہ
توحید کے اعتقاد کی عملی صورت
''یا اباذر: لا یفقه الرجل کل الفقه حتیٰ یری الناس فی جنب اللّٰه تبارک و تعالیٰ امثال الأ باعر' ثم یرجع الی نفسه فیکون هو احقر حاقرٍ لها یا اباذر! لا تصیب حقیقه الایمان حتی تری الناس کلهم حمقیٰ فی دینهم ' عقلا فی دنیا هم''
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جناب ابوذر کو کئے جانے والے موعظہ کے سلسلے میں ہم ایک ایسی بحث تک پہنچ گئے جوتوحید افعالی سے مربوط ہے' جس کی وضاحت ضروری ہے: توحید پر اعتقاد کے چند مراتب ہیں کہ ان کا سب سے ادنی مرتبہ اسلام میں نصاب توحید ہے اور ہر شخص اس اعتقاد کی بنیاد پر اسلام کے نقطہ نظر سے موحد کہلاتا ہے' خدا کی وحدانیت پر اعتقاد اس کی ذات و صفات میں ''ربوبیت تکوینی'' اور ''ریوبیت تشریعی
'' کی توحید پر اعتقاد نیز اس پر اعتقاد کہ خدائے متعال تنہا معبود ہے۔ اس مرحلہ سے بالا تر وہ مراحل ہیں کہ منجملہ ان میں توحیدا فعالی پر اعتقاد رکھنا ہے توحید افعالی یعنی انسان ابتداء علم کے ذریعہ اور اس کے بعد شہود کے ذریعہ یقین پیدا کرے کہ کائنات کے اندر موثر حقیقی خدا وند عالم ہے ، اس کے علاوہ کوئی بھی مخلوق مستقل حیثیت سے اثر نہیں رکھتی ( رہی یہ بحث کہ یہ اعتقاد مسئلہ اختیار و تکلیف سے مناسبت رکھتاہے یا نہیں تو یہ کلامی و فلسفی بحثوں میں بیان ہو اہے یہاں پر اس کی گنجائش نہیں ہے۔
جیسا کہ ذکر ہوا کہ توحید افعالی کے اعتقاد کے لئے دو مرحلے ہیں' پہلا مرحلہ: استدلال کے ذریعہ توحید افعالی کا اعتقاد' یعنی اس امر کا برہان و علم حاصل کرنا کہ کوئی بھی مخلوق ذاتی طور پر آزاد اور مستقل نہیں ہے بلکہ ہر مخلوق علت(خدا) کے ساتھ مربوط و وابستہ ہے۔ تمام تاثیر' علت اور معلول ذات مقدس پروردگار کا سرچشمہ ہیں۔ اگرچہ توحید پر اعتقاد کا یہ مرحلہ بہت اہم اور قابل قدر ہے' لیکن اس کی اہمیت توحید افعال کی شہود کے مرحلہ کے برابر نہیں ہے۔
دوسرا مرحلہ: انسان توحید افعالی پر علم حاصل کرنے کے بعد سیر و سلوک اور شہود کی راہ سے ایک عرفان تک پہنچتا ہے اور باورکرتا ہے کہ کائنات میں حقیقی موثر صرف اللہ ہے۔ اس مرحلہ میں انسان اس بات کو درک کرتا ہے کہ شدت و ضعف کے لحاظ سے اللہ کے علاوہ کوئی بھی انسان کی تقدیر کے بارے میں موثر نہیں ہے اور یہ خدائے متعال ہے جو نفوذ رکھتا ہے اور اسباب و وسائل میں ظہور پیدا کرتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور توحید افعالی پر اعتقاد:
توحید افعالی کے معتقدافرادکی بہترین مثالیں' جو اسباب و مسبات کے نظام کو مشیت الہٰی کے ارادہ سے وابستہ جانتے ہیں اور مستقل و براہ راست تاثیر کو صرف اللہ سے مربوط جانتے ہیں' اس کے علاوہ کسی کو ملجاوماوی نہیں جانتے' انبیاء علیہم السلام اور دین کے پیشوا ہیں۔ یہاں پر ہم موحدوں کے نمایاں اسوہ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس نے دعوت الہٰی کی راہ میں کسی سے خوف نہ کیا' بابل کے مشرکوں اور بت پرستوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے اور ان کی عدم موجودگی میں بتوںکو توڑ ڈالا' اور جب وہ لوگ شہر کی طرف واپس آئے تو بتوں کے توڑے جانے کے بارے میں آگاہ ہوئے۔ حضرت ابراہیم نے ان سے مجادلہ و مناظرہ کیا اور واضح روشن اور قوی استدلال سے ان کے بے بنیاد اعتقادات کو باطل ثابت کیا۔ یہاں تک وہ لوگ اس کی قوی منطق کے مقابلے میں کچھ نہ بول سکے صرف ایک ہی چارہ ان کی نظروں میں آیا کہ حضرت ابراہیم کو اپنے غضب کی آگ میں جلا دیں:
(قالوا حرّ قوه وانصروا اٰلهتکم ان کنتم فاعلین
) (انبیائ٦٨)
''ان لوگوں نے کہا ابراہیم کو آگ میں جلا دو اور اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو۔''
اس کے بعد بہت سی لکڑیاں جمع کی گئی اور مقررہ دن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے اندر ڈال دیا، اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام صرف ذات مقدس الہٰی کی طرف متوجہ تھے۔ یہاں تک حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں: اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام صرف یہ فرماتے تھے:
''یا احدُ یا احدُ یا صمدُ یا صمدُ یا من لم یلد ولم یولد ولم یکن له کفواً احد''
اس کے بعد فرمایا: ''صرف خدائے متعال پر توکل کرتا ہوں ''
وہ اس قدر خدا پر اعتماد رکھتے تھے اور اپنے ایمان پر راسخ الاعتقاد تھے اور پورے وجود کے ساتھ اپنے آپ کو ر ب العزت کا محتاج پاتے تھے اور انہوں نے خدا کے سوا کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا یہاں تک خدا کے مقرب فرشتے کی طرف سے مدد کی پیشکش بھی قبول نہیں کی:
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
''لما القی ابراهیم' علیه السلام' فی النار تلقّاه جبرئیل فی الهواه وهو یهوی فقال: یا ابراهیم الک حاجة ؟ فقال اما الیک فلا''
''جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا گیا، جبرئیل نے آسمان سے نازل ہوتے ہوئے انھیں دیکھا اور عرض کی: کیا کوئی حاجت ہے؟ حضرت ابراہیم نے فرمایا: ہے لیکن تم سے نہیں؟''
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیان جو شیعہ و سنی دونوں سے نقل ہوا ہے' اس الہٰی سورما کی بزرگ روح میں توحید کے بلند مراتب کے وجود پر دلالت کرتا ہے اور یہ ایسا اعتقاد اور جذبہ ہے جس نے انہیں غیبی امداد کے لائق قرار دیا۔ اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ سرد ہو جائے۔ کہا جاتا ہے :آگ اتنی ٹھنڈی ہو گئی کہ حضرت ابراہیم سردی سے کانپ رہے تھے اور ان کے دانت بج رہے تھے اور انھوں نے اپنے دانتوں کو دبا رکھا تھا یہاں تک خدائے متعال نے دوبارہ حکم دیا: ''اے آگ ان پر سالم ہو جائو ''!اس کشمکش کے دوران جبرئیل نازل ہوئے اور آگ کے اندر حضرت ابراہیم کے پاس بیٹھ گئے اور گفتگو کی۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
''حضرت علی علیہ السلام کے غلام قنبر حضرت سے انتہائی محبت کرتے تھے' اور جب حضرت گھر سے باہر نکلتے تھے' توقنبر بھی ایک تلوار لئے ہوئے ان کے پیچھے ہو لیتے تھے ،ایک رات حضرت علی نے جب انھیں دیکھا تو فرمایا: اے قنبر! کیا کر رہے ہو؟ عرض کی: یا امیر المومنین، آیاہوں تاکہ آپ کے پیچھے پیچھے چلوں۔ حضرت نے فرمایا: افسوس ہو تم پر! تم اہل آسمان یا اہل زمین سے میری حفاظت کر رہے ہو؟ عرض کی: اہل زمین سے۔ حضرت نے فرمایا: اہل زمین خدا کی اجازت کے بغیر میرے ساتھ کچھ نہیں کرسکتے ہیں، تم واپس چلے جائو، وہ واپس چلے گئے۔
غیر خدا پر اعتماد، تو حید افعالی پر عدم اعتقاد کا نتیجہ:
جو کچھ بیان ہوا وہ توحید افعالی پر اعتقاد، نقطہ نظر اور رفتارو کر دار کا انعکاس تھا کہ انسان کوچاہئے صرف خدا پرتکیہ کرے اور اس کے علاوہ کسی کو خاطر میں نہ لائے، جبکہ توحید افعالی کے مرحلۂ شہود تک پہنچنے سے پہلے انسان دوسروں پر بھر وسہ کرتا ہے اور سوچتا ہے ان کا محتاج اور نیاز مند ہے اور امید رکھتا ہے کہ وہ اس کی حاجت پوری کریں گے اور اس کی مشکل کو دور کریں گے۔ یایہ کہ اسے کوئی نقصان پہنچائے گا ، اس لئے وہ خوف و تشویش میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں وہ تاثیر کے بارے میں مستقل اور آزاد اسباب و مسبات کا قائل ہے اور ان پر بھروسہ کرتا ہے۔ یقینا یہ رویہ توحیدی تفکر کے ساتھ تناسب نہیں رکھنا یہ تصور ''بحول اللّٰه وقوته اقوم و اقعد'' اور ولاحول ولا قوته اِلاّٰ باللّٰه
'' کے ساتھ تناسب نہیں ہے۔ توحیدی معرفت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی پر تکیہ نہ کرے اور ماسوا اللہ کسی پر اعتقاد نہ رکھے۔ اس سلسلہ میں پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
''یا اباذر! لا یفقه الرجل کل الفقه حتی یری الناس فی جنب اللّٰه تبارک و تعالیٰ امثال الا باعر ' ثم یر جع الی نفسه فیکون هو احقر حاقر لها''
''اے ابوذر! انسان تب تک کامل فہم و ادراک تک نہیں پہنچتا یہاں تک کہ لوگوں کو عظمت الہٰی کے سامنے بے شعور اونٹوں کے مانند دیکھے، اس کے بعد اپنے آپ پر نظر ڈال کر خود کو ان سے کم ترجان لے۔''
دلچسپ بات یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظرمیں کوئی شخص کامل فقیہ نہیں ہوتا، مگر یہ کہ انسانوں کے اختیارات کسی اور کے ہاتھ میں دیکھے، اونٹوں کی طرح جن کی لگام ساربان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ اونٹوں کے گلہ کی ہدایت کرتا ہے اور وہ آزاد نہیں ہیں، حرکت کی جہت کا انتخاب اور کاموں کی تنظیم و تدبیر کسی اور کے ہاتھ میں ہے، لگام اس کے ہاتھ میں ہے۔
ابتدا میں انسان تصور کرتا ہے کہ دوسرے لوگ اپنی حرکتوں، جنگوں، کامیابیوں اور پیدا ہونے والے تحولات میں آزاد ہیں۔ لیکن جب اس کی معرفت میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور معرفت تو حیدی تک پہنچتا ہے، تو انہیں اونٹوں کی قطارکے مانند دیکھتا ہے کہ ان کی لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور ان اسباب کے متحرک سلسلہ کو خدا جانتا ہے۔ صحیح ہے کہ کچھ اسباب و مسبات کی بنا پر یہ سلسلہ حرکت میں ہے، لیکن یہ سلسلہ متزلزل ہے۔ کوئی ہے جس نے ان اونٹوں کی لگام کو پکڑ رکھا ہے۔ البتہ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ انسان مجبور ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ مطلق تاثیر اس کے اختیارمیں نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہی سب کچھ ہیں اور فیصلہ کرنے والے ہیں:بلکہ کسی اور نظام کے تحت ہیں اور بشری ارادہ سے بالا کوئی اور ارادہ ان پر حکومت کر رہا ہے۔ پس، موحد وہ ہے جو اللہ کو فراموش نہ کرے اور کائنات کے نظام میں دست قدرت الہٰی سے آنکھ بند نہ کرے، اگر ایسا نہیں ہے تو۔ توحید کو درک نہیں کیا ہے۔ البتہ ان مطالب کا بیان اور وضاحت آسان نہیں ہے۔ اس حقیقت کے فہم و ادراک میں بیان کا کوئی بنیادی رول نہیں ہے، بلکہ ہمیں خدا وند متعال سے درخواست کرنی چاہئے تاکہ ان حقائق کو درک کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں فقیہ، وہ اصطلاحی فقیہ نہیں ہے کہ جس کا آج مجتہد کے لئے احکام شرعی کے استنباط کے سلسلہ میں اطلاق ہوتا ہے، بلکہ یہ لغوی معنی میں ہے، یعنی وہ شخص جسے معارف دینی میں حقیقی فہم و شعور ہو)
معرفت کی اس حد تک پہنچنے کے باوجود بھی انسان کو شیطانی وسوسوں سے اپنے کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ شیطان کسی بھی وقت انسان کو نہیں چھوڑتا ہے۔ خاص طور پر شیطان ان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تلاش کرتا ہے جنھوں نے حق و کمال کی راہ میں قدم رکھا ہے۔ لیکن کمزور ایمان والے لوگ خود شیطان کے پیچھے قدم بڑھاتے ہیں اور شیطان کو انھیں منحرف کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے۔
شیخ انصاری اور شیطان کے پھندے سے فرار:
ایک معروف داستان ہے کہ شیخ انصاری کے زمانے میں ایک شخص نے خواب میں شیطان کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کافی تعداد میں رنگا رنگ رسیاں ہیں، ان میں سے بعض رسیاں سبز، بعض سرخ اور بعض زرد رنگ کی تھیں ان رسیوں میں سے کچھ رسیاں باریک تھیں اور کچھ موٹی۔ ان رسیوں میں ایک رسی کافی موٹی تھی جو ٹوٹ گئی تھی۔ اس شخص نے شیطان سے پوچھا: یہ رسیاں کس لئے ہیں؟ شیطان نے کہا: یہ وہ پھندے ہیں جن کے ذریعہ میں نبی آدم کو اپنے جال میں پھنسا کر دھوکہ دیتا ہوں۔ اس شخص نے ہر ایک رسی کے بارے میں سوال کیا۔ ایک رسی کے بارے سوال کیا تو شیطان نے کہا: یہ عورت ہے، یہ گھر ہے کسی سوال کے جواب میں کہا یہ زندگی، پیسہ اور مقام ہے۔ سوال کیا: میرا پھندا کونسا ہے؟ شیطان نے کہا: تجھے پھندے کی ضرورت نہیں ہے، تم تو خود میرے پیچھے آرہے ہو! یہ پھندے ان لوگوں کے لئے ہیں جو میرے پیچھے نہیں آتے ہیں، میں ان پھندوں کو ان کی گر دنوں میں ڈال کر زبردستی اپنے پیچھے کھینچ لیتا ہوں پھر سوال کیا: یہ رسی جو دو ٹکڑے ہو گئی ہے وہ کس لئے ہے ؟ کہا: مدتوں محنت کر کے اس رسی کو شیخ انصاری کے لئے درست کیا تھا، لیکن گزشتہ رات جب اسے ان کی گردن میں ڈالا ، تو انھوں نے اسے ایک جھٹکا دیکر توڑ دیا! شیطان غم و غصہ کے مارے ایک چیخ ماری دور چلا گیا۔
وہ شخص نیند سے بیدار ہوا اور صبح تک ناراض اور پریشان تھا کہ یہ کیسا حادثہ پیش آیا۔ صبح کو جب اس نے مرحوم شیخ انصاری کے پاس جاکر خواب بیان کیا۔ شیخ سن کر روپڑے اور کہا: گزشتہ رات میری بیوی کے وضع حمل کا وقت آپہنچا، دایہ اور ہمسایہ کی عورتوں نے کہا: جننے والی کو تیل پینا چاہئے۔ مجھے کہا: جاکر تھوڑا سا تیل خریدلایئے۔ تیل خرید نے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں تھے، میرے پاس مال امام کے صرف دو تومان تھے جنہیں میں نے الگ رکھ رکھا تھا تا کہ کسی مستحق کو دیدوں۔ انہی پیسوں کو اٹھا کر چلا گیا تاکہ اپنی بیوی کے لئے تیل خرید لوں۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ اگر آج رات کسی طالب علم کی بیوی کے لئے یہی صورت حال پیش آگئی تو کیا اس کے پاس تیل خرید نے کے لئے پیسے ہیں؟ اس کے بعد اپنے آپ سے کہا: شاید نجف کے کسی گوشے میں کوئی طالب علم ہوگا جس کی بیوی آج رات وضع حمل کرنا چاہتی ہو اور اس کے پاس تیل خریدنے کے لئے پیسے نہ ہوں۔ میں واپس لوٹا اور پیسے اپنی جگہ پر رکھدیئے اور کہا رہنے دو تیل کو! یہ ایک پھندا تھا جسے شیطان نے میرے لئے پھیلایا تھا اور نو مہینوں سے منتظر تھا کہ ایسی ایک رات پہنچے تاکہ میں سہم امام پر تصرف کروں، لیکن خدائے متعال نے مجھے توفیق بخشی اور میں نے اس پھندے کو توڑ دیا۔
جی ہاں، شیطان اپنی پوری طاقت ایسے افرادکو منحرف کرنے پر صرف کرتا ہے، جو کمال کی راہ میں گامزن ہوتے ہیں۔ جب انسان نے کمال و معرفت کے مراحل میں قدم رکھا ہے، اس کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کا دل منور ہوا اور توحید کے کچھ جلوے اس کے لئے رونما ہوئے، یا اس کے لئے کوئی مکاشفہ ہوا، کسی چیز کو دیکھا یا کوئی آواز سنی تو فوراً شیطان حاضر ہوتا ہے اور وسوسہ کرتا ہے اور انسان کو مغرور کر ڈالتا ہے کہ تم عالی مقام پر پہنچے ہو دوسروں سے بہت فرق رکھتے ہو۔ جب انسان تلاش و کوشش کے نتیجہ میں معرفت کے اس مرحلہ میں پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دوسرے انسان اثر ڈالنے میں آزاد اور مستقل نہیں ہیں ان کی اتنی قدر و منزلت نہیں ہے کہ انسان تھوڑے سے پیسوں کیلئے یا اس لئے کہ اسی کے لئے کوئی کام انجام دیں' ان کے سامنے جھک جائے یا ہاتھ پھیلائے اور ان سے مدد طلب کرے، تو اچانک شیطان اسے وسوسہ میں ڈالتا ہے کہ تم نے عجیب بلند معرفت حاصل کی ہے! بڑی اہم شخصیت بن گئے ہو اس صورت میں انسان غرور میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایسے ہی غرور کو روکنے کے لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرمانے کے بعد کہ: ''دوسروں کو خدا کے پاس، اونٹوں کے مانند دیکھو'' فوراً فرماتے ہیں: ''لیکن خود کو ان سے پست تر دیکھو'' خود کو بھی دوسروں کے مانند بلکہ ان سے چھوٹا دیکھو کہ تم مخلوقات کی مسلسل کڑیوں میں سے ایک کڑی ہو دوسری اور ان کڑیوں کو ہلانے والا کوئی اور ہے نہ صرف دوسروں کی حرکت بلکہ تیری حرکت بھی اس سے ہے، بقول شاعر :
ما ہمہ شیریم ولی شیر علم
حملہ مان از باد باشد دم بہ دم
حملہ مان باد و نا پید است باد
جان فدای آنکہ نا پید است باد
''ہم سب شیر ہیں لیکن وہ شیر جو پرچم پر (نقشہ) بنا ہوتا ہے، ہماراحملہ ہوا کے ذریعہ ہوتا ہے (جب ہوا کے جھونکوں سے پرچم ہلتا ہے۔ ہمارا حملہ ہوا کے ذریعہ سے ہے لیکن ہوا دیکھائی نہیں دیتی۔ اس پر ہماری جان قربان ہو جو دکھائی نہیں دیتا''
لہٰذا اگر دین میں کوئی فقیہ بن گیاتو،پہلے یہ کہجب تمام لوگوں کا خدائے متعال سے موازنہ کرتا ہے تو انہیں ناچیز دیکھتا ہے، دوسرے یہ کہ جب دیگر لوگوں کا اپنے سے موازنہ کرتا ہے تو سب کو اپنے سے بہتر دیکھتا ہے اور یہ خصوصیت عجیب ہے۔ یعنی خدائے متعال انسان کو ایسی توفیق عطا کرتا ہے کہ ایک طرف تمام لوگوں کو اہمیت نہیں دیتانیز، اپنی زندگی میں اثر ڈالنے کے لحاظ سے دوسروں کو اہمیت نہیں دیتا اور دوسری جانب سے آداب شرعی کی بھی رعایت کرتا ہے، جبکہ اس حالت میں دوسروں کے لئے کسی رول یا مقام کا قائل نہیں ہے، انہیں تواضع، ادب اور احترام کرنے سے اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ آداب شرعی کی رعایت کرتا ہے اور حقیقت میں اپنے آپ کو دوسروں سے چھوٹا سمجھتا ہے۔
ایک طرف سے انسانوں کی خدا کے سامنے بوجھ اٹھانے والے اونٹوں کے مانند دیکھتا ہے کہ ان کی لگام خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف سے خود کو ان کے درمیان ایک چھوٹے اونٹ کے مانند دیکھتا ہے۔ نہ یہ کہ ان کو اونٹ کے مانند دیکھتے وقت اپنے کو اونٹ سوار دیکھے! بلکہ خود کو چھوٹا اور دوسروں سے ذلیل تر دیکھتا ہے اور اپنی نفس کے حقیر ہونے کا اعتراف کرتا ہے، لیکن یہ مشکل ہے انسان اس نظر یہ کے مطابق دوسروں کے مقابل میں خود کو اس طرح چھوٹا شمار کر کے تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آئے۔ لیکن یہ ممکن ہے اور حقیقت بھی ہے۔ اگر انسان اس مطلب کو درک کرے اور دوسروں کے لئے کسی رول اور اثر کا قائل بھی نہ ہو اور ان کے سامنے کمال انکساری اور تواضع بھی رکھتا ہو، تو معارف دینی میں موجود ہ بہت سوالات کا جواب واضح ہوجاتا ہے۔ حقیقت میں پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے اس بیان سے تواضع کی حد بھی واضح ہوجاتی ہے اور تواضع اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے ذلیل و خوار کرنے کے معنی میں نہیں ہوتا ہے بلکہ پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام مبارک میں تواضع انسان کی عظمت و عزت کو بڑھاتا ہے۔
تواضع، عزت و سربلندی کا سبب:
ایک روایت میں حسن بن جہم حضرت امام رضاعلیہ اسلام سے تواضع کی حد کے بارے میں سوال کر تے ہیں، حضرت جواب میں فرماتے ہیں:
''تو اضع کے چند درجات ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپنی قدر و منزلت کو پہچان لے اور اپنے آپ کو خوشی اوررضایت قلب کے ساتھ اپنی جگہ پر قرار دے اور جس طرح لوگوں نے اس کے ساتھ برتائو کیا ہے وہ بھی ان کے ساتھ ویسا ہی برتائو کرے (اگر اس کے ساتھ نیکی کی ہے تو وہ بھی نیکی کرے) اگر ان سے برائی دیکھے تو اسے نیکی سے پردہ پوشی کرے۔ اپنے غصہ کو پی جائے اور لوگوں کو معاف کردے اور خدائے متعال بھی نیک انسانوں کو دوست رکھتا ہے۔
یقینا اس قسم کا تواضع نہ صرف انسان کی پستی و خواری کا سبب نہیں بنتا ہے بلکہ اس کی عظمت اور عزت میں اضافہ کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس بارے میں حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
''....وان التواضع یزید صاحبه رفعة فتواضعوا یرفعکم اللّٰه...
''
بعض ماہر نفسیات معتقد ہیں کہ اگر انسان اپنے آپ کو دوسروں سے چھوٹا اور حقیر سمجھے تو ''احساس کم تری'' کاشکار ہو کر دوسروں سے رابطہ برقرار نہیں کرسکتا۔ وہ اچھی طرح بات بھی نہیں کرسکتا ہے۔ شرم و حیا سے دوچار ہوتا ہے، خود اعتمادی کو کھو دیتا ہے۔ معاشرتی زندگی کو ترک کر کے گوشہ نشینی اختیار کرتا ہے۔ اس صورت میں تو اضع اور خود اعتمادی کو کیسے جمع کیا جاسکتا ہے، یعنی ہم ایک طرف سے تو اضع کو اپنا شیوہ بنائیں اور دوسری طرف سے اپنی روح کی حفاظت کریں، ایک طرف سے خود کو دوسروں سے حقیر سمجھیں اور دوسری طرف سے اپنی روحانی نشاط کی حفاظت کریں۔
ایسا لگتا ہے کہ انسانوں میں موجودہ بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا سرچشمہ (بغیر اس کے کہ ہم خاندان اور موحول کے رول کو مدِنظر نہ رکھیں) خداوند متعال پر بھروسہ نہ کرنا ہے، اگر انسان اس بنیادی اعتمادی اور اہم نقطہ کو کھودے، نفسیاتی حوادث و بحرانوں کا ایک سیلاب اسے اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس کی روح آفات و امراض کے حملوں کا نشانہ بن جائے گی،لیکن اگر انسان اپنے عمل اور ردعمل کو آسمانی معیاروں کے مطابق منظم کرے تو وہ بہت سی نفسیاتی بیماریوں سے نجات پائے گا، اس لحاظ سے روایتوں میں تواضع کے خدا نے قید لگائی ہے: ''منِ تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ'' اگر انسان کا تواضع دوسروں کے مقابلے میں صرف خدا کی خوشنودی کے لئے ہو اور اس کا عمل خدا کے لئے مخلصانہ ہو، تو وہ کسی قسم کی حقارت کا احساس نہیں کرے گا۔ پس وہ تو اضع پسندیدہ ہے جس کا سرچشمہ خدا کے کے لئے اخلاص ہو ورنہ اگر تواضع کا سرچشمہ ضعف، ناکامی اور احساس کمتری ہو تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور اس کے لئے کوئی ثواب بھی نہیں ہے۔
اس تجزیہ کے مطابق کہنا چاہئے: اگر انسان کا تواضع دوسروں کے سامنے، صرف فرمان الہٰی کی عبودیت و اطاعت پر مبنی ہوتو، نہ صرف ضعیفِ نفس کا سبب نہیں بنے گا بلکہ انسان کے فخر و مباہات کا سبب بھی بنے گا، یعنی انسان تو اضع کو خدا کی عبادت جانتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے سامنے خاک پررکھنا، پیشانی کو مٹی پر رگڑنا اور سجدہ کرنا کسی مومن کے لئے احساس کمتری کا سبب نہیں بنتا، بلکہ اس کے لئے فخر و عزت فراہم کرتا ہے، اسی طرح انسان کا دوسروں کے سامنے جب خدا اور اس کے احکام پر عمل کرنے کے لئے ہوتو، فخر و مباہات کا سبب بنتا ہے۔
حضرت سجاد علیہ السلام نقص اور فقرذاتی کا ادراک:
گزشتہ مطالب کے پیش نظر ہم بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابوحمزہ ثمالی میں اس مقام عصمت و طہارت نفس کے باوجود کیوں بارگاہ الہٰی میں یوں پیش آتے ہیں:
''...فمن یکون اسوء حالاً منّی ان انا نقلت علی مثل حالی الیٰ قبر لم امهده لرقدتی...
''
''کون مجھ سے بد حال تر ہے اور کس کا دن مجھ سے تاریک تر ہے، اگر میں اسی حالت میں جو اس وقت رکھتا ہوں قبر میں منتقل ہو جائوں تو اسے میں نے اپنے آرام کے لئے آمادہ نہیں کیا ہے''
(امام تکلف اور مذاق نہیں کرتے ان کی بات سنجیدہ ہے) یہ کہ امام معصوم کا حال کس طرح تمام لوگوں سے بدتر ہے، یہ ایک پیچیدہ معما ہے لیکن اگر انسان معارف توحیدی سے آشنا ہو جائے تو یہ معما اس کے لئے حل ہوجائے گا۔ جب انسان کو یہ علم ہو جائے کہ تمام ظروف خالی ہیںجو بھی جو کچھ بھی رکھتا ہے،اسے خدا نے دیا ہے، وہ اسی سے نتیجہ اخذ کرے گا کہ جو بھی نقص ہے وہ ہماری وجہ سے اور ہم میں موجودہ فقر کی وجہ سے ہے۔ یہ ہمارے گناہ انجام دینے کی وجہ سے ہے، یا اس لئے ہے کہ ہم معرفت نہیں رکھتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کس کے سامنے ہیں، کس کی مخالفت کرتے ہیں، یا ہمارا ارادہ اس قدر ضعیف ہے کہ شہوت اور غضب کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں یہ سب ہماری کمزوری کی حکایت کرتے ہیں اور انسان، ضعف و کمزوری کے علاوہ اپنی کوئی چیز نہیں رکھتا ہے۔
ہمارا اپنا کیا ہے کہ خدا نے ہمیں نہیں دیا ہے؟ علم، فہم، اندیشہ، عبادت اور عبادت و عمل کی توفیق اور جو بھی ہم رکھتے ہیں وہ خدا سے ہے،یہ سب چیزیں توفیق الہٰی سے ہمیں ملی ہیں، سوال کرنا بھی اس نے ہمارے اختیار میں رکھا ہے، ورنہ ہم اپنی طرف سے کوئی چیز سوائے ان نابود ہونے والی حیثیت (ضعف و نقص)کے نہیں رکھتے اور اگر ہم خدائے متعال سے اپنے حساب کو جدا کرنا چاہیں تو ہمارے پاس صرف ایک خالی ظرف بچے گا،اگر تعبیر ظرف صحیح ہے تب، ہم اپنی طرف سے نہ ثروت رکھتے ہیں اور نہ فہم وعقل، جو کچھ ہماری طرف سے ہے وہ جہل، بے چارہ گی، کج فہمی اور کمزور ارادہ ہے کہ یہ سب نقص و کمزور یاں ہیں۔
اگر نقائص اور کمزوریاں انحراف اور لغزش کا سبب بنتی ہیں، تو جس میں نقائص اور کمزوریاں زیادہ ہوں اس میں منحرف ہونے کے زیادہ امکانات ہیں، جس میں نقص و ضعف زیادہ ہو اس میں ظرفیت و جودی زیادہ ہے: جب ظرف بڑا ہے تو، زیادہ گنجائش رکھتا ہے اور اسے پُر کرنے کے لئے زیادہ اشیاکی ضرورت پڑتی ہے، جب انسان کی ظرفیت وجودی زیادہ ہو، تو اسے بیشتر کمال عنایت ہونا چاہیے، بہر صورت وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں رکھتا ہے،ایک چڑیا، اس کے چھوٹے پن کے پیش نظر تھوڑی سی ظرفیت کی مالک ہے تو اس کی ظرفیت کی حد میں خدائے متعال نے اسے آنکھ، کان، پرواز کی طاقت اور شور مچانے کی قدرت عطا کی ہے،اگر خدائے متعال ان چیزوں کو اس سے لے لے، تو ایک چڑیا کے برابر ظرف خالی ہوگا ، لیکن ایک ہاتھی جس کی ظرفیت زیادہ ہے، خدانے اسے اس کی ظرفیت کی حد میں اعضا و جوارح اور قدرت و توانائی عطا کی ہے، اب اگر ان کو اس سے لے لے، تو ایک ہاتھی کے برابر ظرفیت خالی ہوگی۔
کیا ہماری معنوی ظرفیت حضرت امام سجاد علیہ السلام کی معنوی ظرفیت کے برابر ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے،ہماری ظرفیت کم ہے، ہمارے فہم و شعور کے مطابق ہے، اس لحاظ سے ہم اپنی ظرفیت کے مطابق مجازات ہوں گے اور جس طرح امام سجاد علیہ السلام کا حساب و کتاب ہوگا، ہر گز ہمارا اس طرح نہیں ہوگا۔ جو تکلیف پیغمبر اور امام علیہم السلام کے لئے ہے، کبھی ہمارے لئے وہی تکلیف نہیں ہے، کیونکہ ہم اسے برداشت کرنے کی توانائی نہیں رکھتے ہیں، پس ہماری ظرفیت معصوم کی نسبت بہت محدود ہے، اس لحاظ سے ہماری کمزور یاں اور ضعف بھی محدود ہیں، امام جب خود پر نظر ڈالتے ہیں جو کچھ خدا نے انہیں دیا ہے اس کو نظرانداز کرتے ہوئے، تو بے شمار کمزور یاں مشاہدہ کرتے ہیں، کیونکہ خدا نے جو کچھ انہیں دیا ہے یادے گا اس کی نسبت زیادہ توانائی' ظرفیت اور قابلیت رکھتے ہیں۔
اس لحاظ سے جب اپنے پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں ان کی کمزوریاں دوسروں سے زیادہ ہیں، کیونکہ ان کی ظرفیت زیادہ ہے، لہذا فرماتے ہیں: ''فمن یکون اسوئَ حالاً منّی''
کیا اگر ایک نوجوان جوابھی بالغ ہوا ہے، اور محدود معرفت رکھتا ہے، ایک اشتباہ و خطا کا مرتکب ہوجائے تو اس کا گناہ ایک دانشمند جو پچاس سال تک درس پڑھ چکا ہے حدیث و قرآن مجید کے علوم پڑھ چکا ہے، اور اسی گناہ کا مرتکب ہو جائے تو، اس کے برابر ہے؟ یقینا اس عالم کا گناہ زیادہ ہے، کیونکہ وہ زیادہ ظرفیت و قابلیت رکھتا ہے، اس نوجوان کا گناہ بہت کم ہے کیونکہ اس کی فہم و ظرفیت بہت کم ہے اور وہ عالم چونکہ زیادہ ظرفیت رکھتا ہے، اس کا گناہ زیادہ اور اس کی سزا سخت تر ہوگی، اس لحاظ سے ایک روایت میں آیا ہے:
''...یغفر للجاهل سبعون ذنباً قبل ان یغفر للعالم ذنب واحد...
''
''عالم کے ایک گناہ کو بخش دئے جانے سے پہلے جاہل کے ستر گناہ بخش دئے جاتے ہیں''
جاہل کے گناہ کم ہیں، کیونکہ اس کی فہم و ظرفیت کم تر ہے، بہ فرض محال، اگر امام معصوم کسی گناہ کا مرتکب ہوتو اس کی سزا عام انسانوں کی سزا کے ہزاروں برابر ہے، کیونکہ ان کی ظرفیت زیادہ ہے، امام جب خود پرنظر ڈالتا ہے تو مشاہدہ کرتا ہے کہ جو کچھ اس نے بندگی، اطاعت اور شائستہ اعمال انجام دیا ہے سب خدا کی طرف سے ہے اور اس کی توفیق سے انجام پایا ہے اور اس سے صنعف کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں بچتی، اور چونکہ وہ اپنے صنعف کو زیادہ دیکھتا ہے، اس لئے، دیگر لوگوں سے شرمندہ تر ہے، یہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے بیانات کے بارے میں ایک توجیہ تھی۔
اگر انسان کے چشم و دل کھل جائیں اور حقائق کو بیشتر ملاحظہ کرے تو وہ درک کرے گا کہ خدا کے سامنے کتنا ضعیف اور کمزور ہے، احساس کرے گا کہ اسے خود پر ناز نہیں کرنا چاہیے، اسے اپنے آپ کو دیکھ کر خود خواہی کو پہچاننا چاہیے، کیا وہ نجس پانی کے ایک قطرہ سے زیادہ تھا، کہ اب اس مرحلہ پر پہنچا ہے؟ اب جبکہ رشد و تکامل اور ترقی کے مرحلہ پر پہنچا ہے، جو کچھ رکھتا ہے کیا وہ اس کا اپنا ہے تاکہ اس پر ناز کرے؟ پس حقیقت میں اگر ہم اپنے آپ پر نظر ڈالیں تو یقینا خود کو حقیر دیکھیں گے، یہ نفاق ہے کہ انسان ظاہر میں اور زبان پر یہ کہے: میں سب سے حقیر اور چھوٹا ہوں اور دل میں خود کو دوسروں سے برتر سمجھے، ہمیں دل سے اپنے آپ کو دوسروں سے حقیر اور چھوٹا سمجھنا چاہیے اور یہ توفیق الہٰی اور اس کی طرف سے عنایت کے لئے نور معرفت کے علاوہ کسی اور چیزسے حاصل نہیں ہوتا، امید رکھتا ہوں خدائے متعال ہمیں یہ معرفت اور اس سے بالاتر معرفت عنایت فرمائے گا۔
پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے کلام میں حقیقی ایمان کا نتیجہ:
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
''یا اباذرً! لا تصیب حقیقة الایمان حتیٰ تری الناس کلهم حمقیٰ فی دینهم عقلا ئِ فی دنیا هم ''
''اے ابوذر! ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچوگے، مگر یہ کہ لوگوں کو اپنے دین میں احمق اور اپنی دنیا میں عاقل پائو گے''
اے ابوذر! جب حقیقت ایمان کو درک کرو گے اور دیکھو گے کہ لوگ اپنی دنیا میں ترقی کر رہے ہیں اور مختلف کام انجام دے رہے ہیں، تو جان لینا کہ وہ اپنی دنیا کے بارے میں عاقل ہیں اور فہم و شعور رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنی آخرت کے بارے میں کافی نادان اور احمق ہیں۔ (پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کینصیحتوں میں ''کلھم'' کی تعبیر آئی ہے، یعنی سب لوگ ایسے ہیں، کیونکہ جو لوگ اپنی آخرت کے بارے میں عاقل ہیں، بہت کم ہیں اور خالص ہونے کے مانند نایاب ہیں، اس لحاظ سے عام لوگوں کے مقابلے میں ، جو اپنی آخرت کے بارے میں احمق ہیں قابل تو جہ تعداد نہیں ہے)
عاقل وہ ہے کہ اگر اسے مفید و مفید تر کے درمیان انتخاب کرنا ہو، تو وہ مفید کاانتخاب کرے، اگر ہم دنیا کا آخرت سے موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آخرت، دنیا کی نسبت کئی گنا زیادہ فائدہ مند اور مفید تر ہے، کیونکہ مدت اور وسعت کے لحاظ سے بھی لامتنا ہی ہے، انسان کی دنیوی عمر ٧٠ سے ٨٠ سال یا حد اکثر ١٠٠ سے زیادہ نہیں ہے، حتی اگر ہم فرض کریں کہ انسان کی عمر ہزار سال کی ہوجائے، پھر بھی آخرت کی ابدی زندگی کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے اور کیفیت کے لحاظ سے بھی دنیوی لذت، دسیوں مشکلات اور محنتوں کے بعد ہاتھ آتی ہے اس کے باوجود مشکلات اور سختیوں سے ملی ہوئی ہوتی ہے البتہ ہم نے رنج و آلام سے ایسا انس پیدا کیا ہے کہ اسی تھوڑی لذت وہ بھی رنج والم سے مخلوط شدہ پر قناعت کرتے ہیں، کھانا کھانے سے جولذت ہم پاتے ہیں اس کے لئے کس قدر محنت کرنا پڑتی ہے، پیسے پیدا کریں ان سے غذا خرید لیںپھر اس غذا کو چباتے وقت ہمارے جبڑوں میں تھکاوٹ پیدا ہوتی ہے،یہ سبب رنج و مشکلات اس لئے ہے کہ غذا ہمارے منہ سے نیچے اترے اور ہم تھوڑی سی لذت پائیں! پھراس کے بعد تھکاوٹ اور سستی ہم پر طاری ہوتی ہے،لیکن اخروی لذت، رنج و تھکاوٹ کا سبب نہیں ہے، نہ اس کو آمادہ کرنے میں انسان کو محنت کرنی ہے نہ اس کو مصرف کرنے میں اور نہ استفادہ کرنے کے بعد تھک جاتا ہے:
(
''لا یمسُنا فیها نصب ولا یمسنا فیها لغوب''
)
(فاطر ٣٥)
''جہاں نہ کوئی تھکن ہمیں چھوسکتی ہے اور نہ کوئی تکلیف ہم تک پہنچ سکتی ہے۔''
آخرت کیفیت کے لحاظ سے بھی دنیا سے برتر ہے اور کمیت کے لحاظ سے بھی دنیا سے بے انتہا اور برتر ہے: ''والآخرة خیر وابقیٰ'' (اعلیٰ١٧)''جبکہ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔''
آخرت کی دنیا پر ناقابل تصور برتری کے پیش نظر، ان دو نوںکا موازنہ کر کے عقل ان میں سے کس کو اختیار کرے گی؟ یقینا عقل آخرت کا انتخاب کرے گی،لیکن لوگوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس قسم کا موازنہ کر کے اس پر عمل کریں، چونکہ اکثر لوگ ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچتے ہیں، لیکن جو حقیقت ایمان تک پہنچے ہیں وہ آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کے علا وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ لوگ اپنی دنیا کے بارے میں عاقل ہیں، لیکن آخرت کے بارے میں جاہل ہیں: انہوں نے امور کے بارے میں نفع و نقصان کی اچھی طرح تشخیص دیتے ہیں اور اپنے مادی منافع کے بارے میں آگاہ ہیں، لیکن آخرت کے بارے میں کسی قسم کی معرفت نہیں رکھتے ہیں،وہ یقین نہیں کرتے ہیں کہ آخرت بھی ہے اور وہ دنیا سے بہتر ہے۔
شاید پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بیان کا راز اس میں مضمر ہو کہ جب مومن اس یقین پر پہنچتا ہے کہ اکثر لوگ اپنے دین میں جاہل و احمق ہیں، تو اپنی زندگی سلسلہ میں ان کی پیروی کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اور اپنے راستہ کو ان سے جدا کرلے گا، کوشش کرے گا کہ آخرت کے بارے میں دوسروں کی خطائوں سے عبرت حاصل کرے اور خود حقیقت کی راہ کو طے کرے، دوسری جہت سے دنیا کے بارے میں عقلمندوں کے تجربہ سے دنیا میں استفادہ کرے گا، البتہ دینی قواعدو ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے۔
____________________