چوبیسواں درس:
اعمال کے محاسبہ و مواز نہ کی اہمیت اورخدائے متعال سے شرم
* محاسبہ، ایک ناقابل اختناب ضرورت
* مشارطہ، مراقبہ اور محاسبہ:
الف: مشارطہ
ب: مراقبہ
ج :محاسبہ
* محاسبہ نفس کا فائدہ
* برے عمل کا نتیجہ، شرمندگی
* شرم و حیا کا مفہوم اور اس کی حد
* غلط رسم و رواج کے فروغ پانے کے عوامل
اعمال کے محاسبہ موازنہ کی اہمیت خدائے متعال سے شرم
''یا اباذر؛ حاسب نفسک قبل ان تحاسب فهو اهون لحسابک غداً وزن نفسک قبل ان توزن و تجهز للعرض الاکبر یوم تعرض لا تخفی علی اللّٰه خافیة''
''یا اباذر؛ استح من اللّٰه فانی و الذی نفسی بیده لا ازال حین اذهب الی الغائط متقنعاً بثوبی ' استحیی من الملکین اللذین معی''
پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی نصیحتوں کا یه حصه محاسبه اور حیائے الهٰی سے مربوط هے روایتوں میں من جمله نهج البلاغه میں ''محاسیه نفس'' پر فراواں تاکید کی گئی هے اور علمائے اخلاق ''محاسبه'' کو سیر و سلوک اور تهذیب نفس کے لئے ابتدائی مراحل جانتے هیں:
''یا اباذر؛ حاسب نفسک قبل ان تحاسب فهو اهون لحسابک غداً''
''اے ابوذر! اپنے نفس کا حساب لو، اس سے پہلے تمھارے نفس کا حساب لیا جائے تاکہ کل تمھارے لئے محاسبہ آسان ہوجائے۔''
بالکل یہی مضمون ایک اور روایت میں تکرار ہوا ہے:
''حَاسِبوا اَنُفُسَکُم قَبلَ اَن تُحَا سَبُوا''
''اس سے پہلے کہ تمہارا محا سبہ کیا جائے، تم اپنا محاسبہ خود کرلو''
جو کچھ دوسری روایتوں میں آیا ہے، اس کے علاوہ اس روایت میں ایک نکتہ کا اضافہ ہوا ہے کہ اس دنیا میں محاسبہ، تمہارے قیامت کے حساب کو سبک اور آسان کرتا ہے۔
محاسبہ، ایک ناقابل اجتناب ضرورت:
تمام کارکردگی کا محاسبہ اور جانچ پڑتال بنیادی طور پر ایک ناقابل اجتناب امر ہے اور یہ ہر ایک کے لئے قابل درک و فہم ہے، ہر ایک اپنی زندگی میں حساب و کتاب رکھتا ہے، خاص کر وہ لوگ جو اہل کسب و تجارت ہیں اور ان کا واسطہ سرمایہ، پیسے اور نفع و نقصان سے ہے، ان کے لئے حساب نہایت اہمیت رکھتا ہے، عام طور پر ہر بازار ی سال میں ایک بار اپنے حساب کی جانچ کرتے ہیں، تاکہ سالانہ حساب آسان طور پر انجام پائے، اگر تاجر اپنے روزانہ، ہفتگی اور ماہا نہ حساب کی جانچ پڑتال انجام نہ دے اور حساب و کتاب کو انبار کر کے رکھدے تو اس کا کام مشکل ہو جائے گا اور کبھی اس لاپروائی اور بے توجہی کے نتیجہ میں بہت بڑی غلطیاں رونما ہوجاتی ہیں۔
بات یہ ہے کہ جس طرح تاجر وقت سے اپنے نفع نقصان کے حساب و کتاب کا خیال رکھتا ہے اور ایک پیسہ کے بارے میں کوتا ہی نہیں کرتا ہے، مومن کو بھی خدائے متعال سے اپنا حساب چکا نا چاہیے، اس سلسلہ میں اسے اپنے نفس کے مکر سے پرہیز کرنا چاہیے کہ نفس اسے فریب نہ دے اور گناہوں کی توجیہ کر کے دقیق محاسبہ انجام دینے میں رکاوٹ نہ ڈالے، اسے اپنی تمام کارکردگی کے مقابلے میں اپنے نفس سے اطمینان بخش جواب حاصل کرنا چاہیے اور اسے اپنی تمام کارکردگی کے مقابلے میں اپنے نفس سے اطمینان بخش جواب حاصل کرنا چاہیے اور اسے اپنے آپ کا ایسے محاسبہ کرنا چاہیے جیسے قیامت کے دن خدا کے مامور اس کا محاسبہ کریں گے۔
اصولی طور پر اگر گناہوں کا محاسبہ وقت پر انجام پائے اور گناہ جمع ہو کر انبار نہ ہوجائیں،تو محاسبہ دقیق ہوتا ہے اور انسان صحیح نتیجہ اخذ کرتا ہے اور کم تر مشکلات سے روبرو ہوتا ہے، یہ ایک رخ ہے اور دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر ہم اپنے گناہوں کے حساب میں تاخیر کر دیں، رفتہ رفتہ انہیں فراموش کردیں گے اور ہمیں یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ کن کن گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور کتنے گناہوں کا ڈھیر لگ گیا ہے،اس کے علاوہ جب ہم اپنے گناہوں پر توجہ نہیں کرتے، تو ان کی چارہ جوئی کی بھی ہمیں فکر نہیں ہوتی اور اپنے گناہوں کے حجم کے بارے میں باور نہیں کرتے، اگر مجھ سے سوال کیا جائے کہ میں زندگی میں کتنے گناہوں کا مرتکب ہوا ہوں، میں اگر بڑے انصاف سے کام لوں تو کہوں گا ہزار گناہ، جبکہ اگر دقیق حساب کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شاید ایک دن، ایک ہفتہ یا ایک مہینے میں ہزار سے زیادہ گناہ کا مرتکب ہوا ہوں! جب ان سارے گناہوں کا ڈھیر لگ جائے گا تو ان کی ایک بہت بڑی تعداد بن جائے گی۔
ہم غافل ہیں اور خیال کرتے ہیں چونکہ ہم نے چوری نہیں کی ہے کسی کو قتل نہیں کیا ہے، اس لئے ہمارے گناہ اہم نہیں ہیں، شاید اگر ہمیں گناہ گار کہا جائے تو ہم اعتراض کریں گے ہیں اور کہیں گے : مگر ہم نے کونسا گناہ انجام دیا ہے؟ انسان کی فطرت فراموش کار ہے، خاص کر اس چیز کے بارے میں جو اس کے لئے نقصان دہ ہو:
علم نفسیات کے بحث میں یہ بھی ہے چونکہ انسان خطائوں اور گناہوں کی یاددہانی اس کے لئے شرم و حیا کا سبب بنتی ہے اس لئے وہ مائل نہیں ہے کہ ان کی طرف توجہ کرے اور کوشش کرتا ہے کہ ان خطائوں کو فراموش کردے، آج کل ماہرین نفسیات نے، فراموش کاری، حوادث و واقعات کو ذہن کے سپرد کرنے میں ، یہ کہ انسان کس طرح کی چیز کو فراموش کرتا ہے، فراموشی اور خود کو فراموش کاربنانے میں کونسے عوامل موثر ہیں اور یہ کہحوادث اور واقعات کو ذہن کے حوالے کرنے میں کون کون سے عوامل کا رفرما ہیں،بہت زیادہ بحث کی ہے،افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ ان موضوعات میں جانچ پڑتال ہمارے دین و دنیا کی مصلحت میں انتہائی اہم ہیں ہم نے اس بارے میں کوئی کام نہیں کیا ہے اور دوسروں سے پیچھے ہیں۔
پس، انسان جسے پسند نہیں کرتا، نہیں چاہتا اسے اپنے سے نسبت دے، نفسیاتی تحقیقات کے مطابق، انسان ہر جرم و ظلم انجام دینے کے درپے ہے لیکن اپنے گناہ کی توجیہ کرتا ہے، انسان، اس عمل کو انجام دینے کی وجہ سے پیدا شدہ روحی عذاب سے اپنے آپ کو نجات دینے کے لئے گناہ کے انجام کو اپنی ذات سے جدا کر نا چاہتا ہے، دوسرے الفاظ میں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنا چاہتا ہے، اس لئے کوشش کرتا ہے کہ یا اپنے گناہ کو فراموش کردے یا دوسرے افراد، یا ماحول، یا دنیا، یا شیطان، یا سماجی سسٹم یا کسی دوسرے عامل کے سرتھونپے، اس طرح اپنے آپ اور اپنے عمل کے دفاع کے لئے ''دفاعی میکانزم'' کا سہارا لیتا ہے اور اگر ''دفاعی میکانزم''سے متوسل ہونا انسان میں تقویت پاگیا اور ہر گناہ کی وہ توجیہ کرنے لکا اور صحیح طور پر اپنے آپ کو مور دسوال قرار نہیں دیا' اور اپنے بارے میں عادلانہ فیصلہ نہیں کیا اور اپنے آپ کو مجرم قرار نہیں دیا تو اس سے بالا تر جرائم کے ارتکاب کا خطرہ موجود ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے اس عمل سے اپنے آپ کو گناہ کے تاریخ سے آزاد کیا ہے اور اب اس سلسلہ میں رنج والم نہیں رکھتا ہے تاکہ گناہ کے بُرے انجام سے ڈرے،یہی وہ جگہ ہے جہاں پر گناہ کی توجیہ اور اس کا خطرہ خود گناہ سے بیشتر ہے۔
چونکہ انسان حب نفس رکھتا ہے، اس کے علاوہ لوگوں کے پاس محترم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پاس بھی سربلند ہونا چاہتا ہے، وہ نہیں چاہتا اپنی نظر میں شرمساراور خود کو نا قص دیکھے۔ وہ کمال وعزت کا مالک بننا چاہتا ہے،اس لئے جو اس کے لئے نقص و تنزل کا سبب بنے اسے اپنے ذہن سے فراموش کرتا ہے، کیونکہ اس کی یاد اپنے پاس حقیر و پست ہونے کا سبب بنتی ہے اور یہ انسان کی فطری چاہت کے خلاف ہے، اس نکتہ کے پیش نظر اگر اس دوران ایسے لوگ موجود نہ ہوں جو انسان کو ان نواقص، کوتاہیوں اور انحرافات کی یا ددہانی کرائیں، تو ایک بُرا انجام اس کے انتظار میں ہے جو اسے ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر دے گا، اس لئے، نامناسب کردار کی یاد دہانی اور ان کی تلافی کی تلاش کے لئے عوامل کی منصوبہ بندی کے طور پر روایتوں میں بہترین شیوہ منتخب کیا گیا ہے اور علمائے اخلاق نے ان روایتوں کے پیش نظر اپنی کتابوں جیسے: معراج السعادة، جامع السعادات، اور احیا العلوم میں ، تہذیب و تزکیہ نفس اور سیر و سلوک کے متلاشیوں کے لئے ''مشارطہ''، ''مراقبہ'' اور ''محاسبہ'' نام کے تین مرحلے بیان کئے ہیں۔
مشارطہ' مراقبہ اور محاسبہ
الف)۔ مشارطہ
صبح کے وقت جب انسان نیند سے اٹھتاہے، اسے توجہ کرنی چاہیے کہ ایک نیا سرمایہ اس کے اختیار میں قرار پایا ہے: اگر ہم نیند سے بیدار نہ ہوتے اور ہماری روح ہمیشہ کے لئے ہمارے بدن سے پرواز کر کے چلی جاتی تو کیا یہ ہماری زندگی کا خاتمہ نہ ہوتا؟
(
اللّٰه یتوفی الا نفس حین موتها والتی لم تمت فی منامها فیمسک التی قضی علیها الموت ویرسل الاخری الی اجلٍ مسمی ان فی ذٰلک لآیات لقوم یتفکرون
)
(زمر٤٢)
''اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلا لیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روحوں کی بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے اس کی روح کو روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدت کے لئے آزاد کر دیتا ہے، اس بات میں صاحبان فکر و نظر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں''
پس، نیند سے ہم نے موت کے ایک مرحلہ کو طے کیا ہے اور مردے کے مانند کوئی عمل انجام نہیں دیا ہے، اب اگر ہم دوبارہ نیند سے اٹھے ہیں، تو ہمیں دوبارہ زندگی عنایت ہوئی ہے اور ایک نیا سرمایہ ہمارے اختیار میں قرار پایا ہے، پس ہمیں اس نئی زندگی کے لئے خدا کا شکر بجالانا چاہیے، اپنے نفس کو مخاطب قرار دے کر اسے کہدیں: اے نفس! خدائے متعال نے اس قیمتی سرمایہ کو تیرے اختیار میں قرار دیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ آخرت کی سعادت حاصل کرو ،اگر تم سے لغزش رونما ہوجائے، تو اپنے سرمایہ کو تم نے کھو دیا اور نقصان سے دوچار ہو جائو گے۔ ہمیں اپنے نفس سے شرط کرنی چاہیے اور اس سے عہد و پہچان لینا چاہیے کہ گناہ کے پیچھے نہ پڑے اور اس سے کوئی ایسی چیز سرزدنہ ہو جائے جو غضب الہٰی کا سبب بنے، ہمیں اس سے عہد و پیمان لینا چاہیے کہ اس گراں بہا سرمایہ کو ایک ایسی راہ میں خرچ کرے جو خدا کی خوشنودی اور انسان کی سعادت کا سبب بنے، کیونکہ خدا کی خوشنودی سے انسان کو سعادت ملتی ہے اور اگر خدا راضی نہ ہو، تو انسان سعادت تک نہیں پہنچ سکتا،ہمیں اپنے نفس سے شرط کرنی چاہیے کہ واجبات اور احکام الہٰی کو انجام دینے میں کوتا ہی نہ کریں اور ہر نیک کام جو اس کے لئے ممکن ہے، اسے ترک نہ کریں۔
بہتر ہے یہ 'مشارطہ'' صبح کی نماز اور اس کی تعقیبات کے بعد انجام پائے اور انسان اپنے نفس سے مخاطب ہو کر کہے: اے نفس! میرے پاس ان چند دنوں کی عمر کے علا وہ کوئی سرمایہ نہیں ہے اور اگر یہ میرے ہاتھ سے چلا جائے تو میرا سرمایہ برباد ہوگا، اے نفس! خدائے رحمن نے آج بھی مجھے مہلت دیدی ہے، اگر میں آج مر چکا ہوتا، تو میں آرزو کرتا کہ خدائے متعال مجھے دوبارہ دنیا میں بھیجدے تاکہ کچھ زادراہ کٹھا کر لوں پس اے نفس! تصور کرو کہ تم مر چکے تھے اور دوبارہ دنیا میں بھیجے جانے کی تمنا کرتے تھے اور تجھے پھرسے دنیا میں بھیجد یا گیا ہے، پس ایسا نہ ہو کہ آج کے دن کو ضائع کردو، کیونکہ ہر سانس جو لیتے ہو وہ ایک گراں بہا اور بے نظیر گوہر کے مانند ہے اور اس سے ایک ابدی اور ختم نہ ہونے والا خزانہ اخذ کیا جاسکتا ہے جو ہمیشہ کے لئے آرام و آسائش کا سبب بن سکتا ہے۔
ب) ۔ مراقبہ:
مرحلہ مشارطہ کے بعد مرحلہ مراقبہ ہے کہ انسان اپنے ساتھ کی ہوئی شرط کے بارے میں پورے دن کے دوران چوکنا رہنا چاہیے، اور اس پر عمل کرنا چاہیے اور ہر لمحہ ہوشیار رہنا چاہیے کہ گناہ کا مرتکب نہ ہوجائے،اسے نگراں رہنا چاہیے کہ صحیح راستہ پر چل رہا ہے یا انحراف و لغزش کا شکار ہو رہا ہے، دوسرے الفاظ میں یہ اسی تقویٰ کی مراقبت ہے، کیونکہ تقویٰ اقدار الہٰی کا تحفظ اور اعمال کی نگہبانی ہے ایک روایات میں آیا ہے کہ تقویٰ اس کے مانند ہے کہ انسان ایک اندھیری رات میں سانپ اور بچھو سے پرُ ایک بیابان میں قدم رکھتا ہے اور ہر لمحہ ممکن ہے سانپ پر قدم پڑے اور اس کے ڈسنے سے اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے، اب جس طرح وہ انتہائی دوراندیشی اور احتیاط سے کام لیتا ہے تاکہ سانپ اور بچھو سے رو برو نہ ہو اس طرح انسان کو بھی اپنی زندگی میں پوری دقت اور احتیاط کرنی چاہیے تاکہ شیطان کے خطرہ سے بچ جائے اور جہنم کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائے،پس تقویٰ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے کردار کی فکر میں رہے اور اپنے اعمال کے انجام کو مدنظر رکھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آکر ایک شخص نے عرض کیا:
اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !مجھے کوئی نصیحت فرمائیں! پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: اگر میں تجھے نصیحت کر وںتو کیا تم اسے قبول کرو گے؟ ہر بار اس مرد نے جواب دیا: جی ہاں، اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میری نصیحت تیرے لئے یہ ہے کہ اگر کسی کام کو بجالا نے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے انجام کے بارے میں فکر کرو۔ پس اگر اس کام کا انجام اچھا ہے تو اسے بجالا ئواگر اس کام کا انجام اچھا نہیں ہے اس سے پرہیز کرو۔ ١
نفس کی مراقبت، خدا کی معرفت اور اس یقین کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے کہ خدائے متعال انسان کے اندرونی اسرار سے واقف ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے،اس لحاظ سے کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ انسان کے اس بجالا نے کے وقت مراقبت کا محتاج نہ ہو، کیونکہ بندہ، یا خدا کی بندگی اور اطاعت کی حالت میں ہے یا معصیت انجام دینے کی حالت میں ، یا مباح کام انجام دینے کی حالت میں ہے، اطاعت و بندگی کے دوران اس کی مراقبت عمل کو کمال بخشنے کے لئے اخلاص وکوشش اور عمل کو آفات سے بچانے کے لئے ادب اور حفاظت کی مراعات کرنا ہے، معصیت کے دوران بندہ کی مراقبت، توبہ، ندامت، شرم اور اس معصیت کی تلافی کے لئے اہتمام کرنا ہے،انسان کے مباح کام میں مراقبت یہ ہے کہ آداب کی رعایت کرے اور ہمیشہ نعمتوں سے استفادہ کرتے وقت منعم کو مدِ نظر رکھے اور ان نعمتوں کے لئے اس کا شکر بجالائے اور بلائوں کے مقابلہ میں صبر کرے۔
ج)۔ محاسبہ:
محاسبہ، تیسرا مرحلہ ہے کہ علمائے اخلاق نے تہذیب نفس کے لئے اس کی تأکید کی ہے۔ محاسبہ، یعنی انسان دن کے خاتمہ پر اپنے ایک روز کی رفتار کی جانچ پڑتال کرے اور دیکھ لے کہ جو فرائض الہٰی اور واجبات اس کے ذمہ تھے، ان پر عمل کیا ہے یانہیں، اگر تحقیقات کے بعد معلول ہوا کہ اس نے اپنے الہٰی فرائض بجالائے ہیں اور اس کی روزانہ رفتار حکم شرع کے مطابق تھی، تو اسے خدا کا شکر بجالا نا چاہیے کہ اس نے اسے فرائض انجام دینے کی توفیق عنایت کی ہے، چونکہ انجام فرائض انہیں توفیق الہٰی پر ہے، اس توفیق کے لئے شکر بجالانا چاہیے، اس طرح کوشش کرنی چاہیے کہ دوسرے دنوں میں بھی اس صحیح وسالم راستہ پر گا مزن رہے ،لیکن اگر اس نے الہٰی فرائض پر عمل نہیں کیا ہے یا انہیں نا قص انجام دیا ہے، اور لغزش و انحراف کا شکار ہوا ہے، تومستحبات اور خاص کرنافلہ نمازیں پڑھ کر نقائص کی تلافی کرنے کی کوشش کرے اور فرائض الہٰی کو ترک کرنے اور معصیت میں آلودہ ہونے کے بارے میں اپنی ملامت کرے اور استغفار کرے تاکہ خدائے متعال اس کے گناہوں کو نجش دے، اس طرح نیک اعمال کو انجام دیکر اپنے گناہوں کی تلافی کرنے کی کوشش کرے، اس صورت میں سوتے وقت اس نے اپنا حساب چکا دیا ہے اور کوئی گناہ اس کے لئے باقی نہیں رہتا ہے،یہ وہی محاسبہ ہے جس کی اہل بیت اطہار علیہم السلام اپنے اصحاب کو نصیحت فرماتے تھے اور علمائے اخلاق نے بھی ائمہ اطہار علیہم السلام کے دستورات کی بنیاد پر دوسروں کو اس کی تاکید کی ہے۔
تہذیب نفس میں محاسبہ کی اہمیت کے پیش نظر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:
''لیس منامن لم یحاسب نفسه فی کل یوم فان عمل حسناً استزاد اللّٰه وان عمل سیئاً استغفرالله منه وتاب الیه''
''جو ہر روز اپنا محاسبہ نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ پس اگر نیک عمل انجام دیا ہے، تو خدا سے اعمال نیک کے زیادہ ہونے کی دعا کرے اور اگر کوئی گناہ اور برا کام انجام دیا ہے تو خدا سے توبہ اور استغفار کرے۔''
پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں:
''الا انبئکم باکیس ا لکیّسین و احمق الحمقیٰ؟ قالوا: بلی یارسول اللّٰه ' قال: اکیس الکیّسین من حاسب نفسه و عمل لما بعد الموت' واحمق الحمقیٰ من اتبع نفسه هواه و تمنی علی اللّٰه الامانی
۔''
کیا تمھیں عاقل ترین عاقلوں اور نادان ترین نادانوں کی خبر دیدوں؟ اصحاب نے کہا: جی ہاں، یا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عاقل ترین انسان وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اپنے مرنے کے بعد کے لئے عمل کرے اور احمق ترین انسان وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کا غلام ہو اور ہمیشہ اپنی آرزئوں کے بارے میں خدا سے درخواست کرے۔''
محاسبہ نفس کا فائدہ:
محاسبہ نفس کے جملہ فوائد میں سے یہ ہے کہ جب انسان اپنی خطائوں اور لغزشوں کے بارے میں آگاہ ہوجاتا ہے تو فوراً اس کی تلافی کرتا ہے اور اس کے آثار کو اپنی روح میں باقی رہنے نہیں دیتا۔ اگر انسان اپنا محاسبہ نہ کرے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کتنے گناہ کئے ہیں اگر ہم سے سوال کیا جائے کہ صبح سے شام تک کتنے نیک کام اور کتنے بُرے کام انجام دیئے ہیں اور کہاں پر خطا اور لغزش کے مرتکب ہوئے ہیں؟ ہم نہیں جانتے۔ لیکن جب ہم اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کی ہمت کریں، اپنے ایک ایک کام کو یاد کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اعمال میں سے کس قدر صحیح تھے اور کس قدر غلط۔
جب انسان اپنے گناہوں کی طرف توجہ نہیں کرتا، تو وہ گناہ اس کی روح میں اثر ڈالتے ہیں اور ہر گناہ کے نتیجہ میں اس کے دل میں ایک سیاہ داغ نمودار ہوتا ہے، یہاں تک گناہوں کی افزائش کی بنا پر یہ سیاہی اس کے پورے دل کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اور ممکن ہے اس میں کوئی نور انی نقطہ باقی نہ رہے۔ یہ مطلب بعض روایتوں کا مضمون ہے، من جملہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں:
''اذااذنب الرجل خرج فی قلبه نکتة سوداء فان تاب انمحت وان زاد زادت حتی تغلب علی قلبه فلا یفلح بعدها ابدا
''
''جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے، اس کے دل میں ایک سیاہ داغ پیدا ہوتا ہے۔ پس اگر وہ توبہ کرے تو یہ داغ زائل ہوجاتا ہے اور اگر اس گناہ کے بعد اور بھی گناہ انجام دے تو وہ سیاہ داغ بڑھتا ہے یہاں تک اس کے پورے دل پر پھیلتا ہے اور وہ شخص کبھی کامیاب نہیں ہوتا''
بعض اوقات انسان غافل ہوتا ہے، جس وقت متوجہ ہوتا ہے کہ اس کے گناہوں نے اس کے دل پر غلبہ کرلیا ہے، اور اس وقت کی اپنی موجودہ حالت کا پچھلے سال کے ساتھ موزانہ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں ایک بڑی تبدیلی رونماہوچکی ہے، بعض لوگ، جو ایک مدت سے علم حاصل کرنے میں مشغول ہیں، اپنے ذہن کردار اور اخلاق میں ایجادشدہ تنزل کے پیش نظر مشاہدہ کر نے کے بعد اپنے آپ سے کہتے ہیں:
اپنی تعلیم کے ابتدائی مراحل میں ہم بلند حوصلہ اورنورانی دل کے مالک تھے، یہ کیا ہوا کہ رفتہ رفتہ ہمارے وہ حوصلے کمزور ہوگئے؟ بعض لوگ اس تنزل کو علم کے سر تھونپتے ہیں اور تصور کرتے کہ علم حاصل کر نا ان کے دل کی تاریکی کا سبب بنا ہے۔ ایسے لوگ یہ باور کرنا نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے گناہ ان کے معنوی حوصلوں کے تنزل اور دل کے سیاہ ہونے کا سبب بنے ہیں۔ یقینا علم حاصل کر ناانسان کے قابل قدر کاموں میں سے ہے، اگر چہ کبھی انسان کے یہی اچھے کام بہت سے عیب کے حامل ہوتے ہیں جن کا سر چشمہ انسان کی کمزوری اور لاپروائی ہوتی ہے۔
یہ ایک قسم کی خود فریبی ہے کہ جب انسان علم حاصل کرتے ہوئے تھک جاتا ہے یا امید نہیں رکھتا ہے کہ وہ کہیں پہنچ پائے گا، یادرس پڑھنے کو اپنی نفسانی خو اہشات کے مطابق نہیں پاتا ہے، بلکہ اسے اپنے تنزل کا حامل تصور کرتا ہے اور کہتا ہے، درس پڑھنا ہی میرے دل کے سیاہ ہونے کا سبب بنا ورنہ جب میں نے درس پڑھنا شروع کیا تھا، اس وقت میرا دل پاک تھا، صحیح ہے کہ ابتدا میں ہمارا دل پاک تھا اور اب تاریک ہوگیا ہے، لیکن کلی علت ہمارا درس پڑھنا نہیں ہے بلکہ اس کا سبب صحیح طور پر درس نہ پڑھنا ہے، اس کا سبب گناہ اور تہذیب نفس اوراصلاح کے بغیر علم حاصل کرنا ہے۔
جی ہاں، جب انسان محاسبہ نہیں کرتا ہے، تو گناہ کے واقعی اور تکوینی آثار نابود نہیں ہوتے ہیں اور اس کے دل کو تاریک کر ڈالتے ہیں اور وہ متوجہ نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص سفید لباس پہنتا ہے اس پرداغ لگ جاتا ہے وہ آنکھیں بند کر کے یہ نہیں دیکھتا ہے کہ اس کے لباس پر داغ لگ گیا ہے اور وہ لباس گندہ اور کثیف ہوگیا ہے، یقینا، داغ زیادہ ہونے سے وہ لباس اس قدر آلودہ اور نفرت انگیز ہوجاتا ہے کہ ہر دیکھنے والا اس سے متنفر ہوتا ہے، لیکن خود انسان اس سے بے خبر ہوتا ہے، کیونکہ اس نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں! محاسبہ نفس سے دوری کا سب سے بڑا عیب اور نقصان یہ ہے کہ گناہ کے اثرات دل پر باقی رہتے ہیں اور انسان دن بہ دن آلودہ ہو کر اس کا دل سیاہ اور تاریک ہوجاتا ہے اور خدا سے بیشتر دور ہوتا رہتاہے، لیکن خود متوجہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ خیال کرتا ہے وہ ایک شائستہ اور اچھا انسان بن گیا ہے اور اپنے آپ پر ناز کرتا ہے کہ میں ایسا ہوںویسا ہوں، جبکہ ہر روز تنزل کی منزلیں طے کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں شقاوت و بدبختی سے دو چار ہوتا ہے:
(
قل هل ننبئکم بالأ خسرین اعمالاً الذین ضل سعیهم فی الحیوٰة الدنیا وهم یحسبون انهم یحسنون صنعاً
)
(کہف ١٠٢و١٠٣)
''پیغمبر! کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بد ترین خسارہ میں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں۔''
علا مہ طبا طبائی اس آیۂمبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
''جو کسب معاش نفع کما نے کے لئے انجام پاتا ہے، اس میں خسارہ و نقصان اس وقت پیش آتا ہے جب کسب معاش کا مقصد حاصل نہ ہو یا سرمایہ کم ہو یا انسان کی کوشش ناکام ہوجائے۔ آیۂ شریفہ میں کوشش کے ضائع ہونے یا سعی کے نابود ہونے کی تعبیر کی گئی ہے، جیسے کہ انسان راستہ کو گم کر کے سفر کو جاری رکھنے کے باوجود مقصد تک نہیں پہنچتا ہے۔
بعض اوقات انسان کا کسب معاش میں نقصان اٹھانا اس کے کام میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہوتا ہے یا طریقہ کار سے بے خبری یا دوسرے ناخواستہ عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ نقصان اور ضرر، ممکن ہے دور ہوجائے، کیونکہ امید کی جاتی ہے کہ نقصان اٹھانے والا بیدا ر ہوجائے اور کام کو پھر سے شروع کرے اور کھوئی ہوئی چیزوں کو دوبارہ پاکر نقصان کی تلافی کرے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان نقصان اٹھاتا ہے اور خود تصور کرتا ہے کہ اسے فائدہ ہوا ہے! وہ ضرر کرتا ہے لیکن معتقد ہے کہ نفع کے علاوہ اسے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ یہ بدترین نقصان و خسارہ ہے جو ناقابل تلافی ہے۔
دنیا میں انسان کا فریضہ، صرف سعادت کے لئے کوشش کرنا ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی اور خواہش نہیں ہونی چاہئے۔ اگر وہ حق کی راہ میں گامزن ہوکر مقصد کو حاصل کر لے تو وہ حقیقی سعادت تک پہنچ گیا ہے، لیکن اگر وہ حق سے منحرف ہوگیا اور اپنی غلطی اور انحراف کی طرف متوجہ نہیں ہوسکا، تو اس نے اپنی سعی و کوشش میں نقصان اٹھایا ہے لیکن اسے نجات کی ایک امید ہے۔ ہاں اگر وہ حق کے راستہ سے منحرف ہوگیا اور باطل کو پا کر اس پر مصر رہا اور اگر حق کی ایک کرن اس کے لئے ظاہر ہوئی، لیکن اس کے نفس نے اس پر پردہ ڈال دیا اور اسے بزرگ بینی اور جاہلانہ تعصب میں مبتلا کردیا تو اس قسم کا شخص عمل و کوشش میں بدترین نقصان اٹھانے والا ہے، کیونکہ اس کے نقصان و خسارہ کے بر طرف ہو نے کی کوئی امید نہیں ہے اور توقع نہیں ہے کہ وہ سعادت حاصل کر سکے۔ یہ وہی نکتہ ہے کہ خدائے متعال اس آیۂ شریفہ میں بیان فرماتا ہے۔
جیسے کہ اس سے پہلے کہا گیا، محاسبہ نفس کے فوائد میں سے یہ ہے کہ انسان اپنی خطائوں کے بارے میں متوجہ ہوتا ہے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ گناہ کے تکوینی آثار کو اپنی روح میں باقی رہنے نہیں دیتا تاکہ اس کے تنزل کا سبب بنے۔ اس حقیقت کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دولازم وملزوم تعبیروں سے بیان فرمایا ہے۔
پہلے فرمایا:''حاسب نفسک قبل ان تحاسب
''
اس کے بعد فرمایا:''فهوا هون لحسابک غداً
''
اس سے پہلے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے، خود اپنے اعمال کامحاسبہ کرلو کیونکہ یہ محاسبہ تمھارے قیامت کے حساب کو آسان کر دے گا۔ کیونکہ اگر تم نے خود اپنے اعمال کامحا سبہ کیا تو تم اپنی خطائوں اور انحرافات کے علاج کے در پے رہو گے اور اس کے نتیجہ میں تمھاری قیامت کا حساب ہلکا ہوگا۔ لیکن اگر ایسا نہ کیا تو گناہوں کا انبار لگ جائے گا قیامت میں مشکل زیادہ ہوگی: تم دنیا میں اپنے گناہوں سے بے خبر ہو اور نہیں جانتے ہو کہ کس قدر پستی میں گر چکے ہو، لیکن جب قیامت کے دن اپنے نامہ اعمال کو پائوگے اور اپنے بے شمار گناہوں کو دیکھو گے تو اس کی حسرت تمہیں جہنم کے عذاب سے زیادہ رنج والم سے دوچار کر ے گی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
''وزن نفسک قبل ان توزن و تجهز للعرض الاکبر یوم تعرض لا تخفی علی اللّٰه خافیة''
''اپنے آپ کو جانچ لو، اس سے پہلے کہ قیامت کے دن خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لئے تجھے جانچاجائے، آمادہ رہنا کہ خدائے متعال سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے''
قیامت کے دن جانچ پڑتال کے بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے:
(
والو زن یومئذٍ الحق
)
) (اعراف٨)
''اس (قیامت) دن اعمال کا وزن ایک برحق شئے ہے۔''
اعمال کا موازنہ اور ناپ تول ہمارے اعتقاد میں سے ہے۔ اعمال کی پڑتال، ان کے موازنہ اور کم وزیاد سے مربوط ہے، اب اگر ہم اپنے اعمال کے بارے میں خود جانچ پڑتال کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمارے گناہ بہت سنگین ہوگئے ہیں تو اپنے بوجھ کو ہلکار کھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے اپنے اعمال کامحا سبہ نہ کیا، اپنے گناہوں اور ہماری روح پر ان کے اثرات کے بارے میں توجہ نہ کی، تو ہم الہٰی میزان کے حاضر کئے جانے کے دن رسوا ہوں گے اور کف افسوس ملیں گے۔ پس، جو اپنے اعمال کا محاسبہ کرے گا، جس دن اس کے تمام مخفی و آشکار اعمال خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو وہ ہلکا ہو گا، کیونکہ اس نے اپنے گناہ اور اخلاقی کو تاہیوں کی تلافی کی ہے۔ لیکن جس نے اپنے اعمال کا محاسبہ نہیں کیا ہے، خدا کے سامنے اس کے اعمال پیش کرنے کے دن جس دن انسان کے تمام چھوٹے بڑے اعمال آشکار ہوں گے حسرت کھائے گا۔
قیامت کے دن حسرت سے دو چار نہ ہونے کے لئے، آج ہی سے کوشش کرنی چاہئے اور اپنے اعمال کو اپنے سامنے ہمہ وقت مجسم رکھنا چاہئے، تصور کیجئے کہ آپ کی زندگی اختتام کو پہنچ چکی ہے چونکہ کوئی مطمئن نہیں ہے کہ وہ کل تک زندہ رہے گا یا نہیں اور تمہارے اعمال خدا کے حضور میں پیش کئے جائیں گے۔ دیکھیے کہ خدائے متعال کو کیا پیش کر رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں کیا حال رکھتے ہیں۔ جب ائمہ اطہار علیہم السلام اپنی مناجات میں ''عرض اکبر'' کے دن جس دن انسان کے اعمال خدا کو پیش کئے جاتے ہیں سے خدا کی پناہ چاہتے ہیں، مناسب ہے اس دن خطر ناک و مہلک ترین عذابوں کا دن ہے کہ حسرت میں مبتلا نہ ہونے کی تلافی کریں تاکہ وہ ہمارے نامہ ٔاعمال کی کتاب سے مٹ جائیں۔
بُرے اعمال کا نتیجہ، شرمندگی:
یقینا جب خدا کے حضور اعمال کے پیش کئے جانے کی گفتگو کی جاتی ہے تو، خدا سے شرم و حیا کی بحث بھی پیش آتی ہے۔ جب انسان کوئی بُرا کام انجام دے یا کسی ظلم کا مرتکب ہوجائے اور اسے فراموش کردے، اور اس کے یہاں کوئی فرق نہ آئے اس کے ذہن میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو یہ اس لئے ہے ہم ضعیف ہیں اور حقائق کو صحیح درک نہیں کر سکتے، مزید اس لئے کہ تدریجاً حقائق کو درک کریں، ایک محسوس امر کی مثال پیش کرتے ہیں: فرض کیجئے عرصہ سے دو آدمی آپس میں دوست تھے اوریہ عہد کر چکے تھے کہ ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہیں کریں گے۔ اب اگر ان دو میں سے کسی ایک نے اپنے دوست کے ساتھ ظلم کیا، اگر اس کا دوست اس کے ظلم سے بے خبر تھا یا اسے بھول گیا ہو، جب اپنے دوست سے ملتا ہے تو اس کا برتائو بالکل عادی ہے، لیکن اگر وہ دوست ظلم کی اور خیانت کی ویڈیو یا فوٹوگرافی بنا لے، اور ایک مدت کے بعد اسے دکھا کر کہے: تم نے میرے ساتھ عہد و پیمان کیا تھا کہ مجھ پر ظلم نہ کرو گے، اس قدر دوستی کا دم بھر تے تھے، پس کیوں تم نے میرے ساتھ یہ ظلم کیا اور خیانت کی؟ یہاں پر ظالم کے لئے ایک ایسی شرم و حیا پیش آتی ہے، جو تمام عذاب اور جسمانی اذیت سے سخت ہوتی ہے۔ وہ ایک تو ایک ظلم کا مرتکب ہونے کے بعدزمانۂ ظلم کو فراموش کر چکا تھا اور یقین نہیں رکھتا تھا اس کا دوست اس واقعہ سے خبر دار ہوگا، اگر اس کا دوست اس ظلم کے منظر کی تصویر اسے دکھادے، تو اس کا کیا حال ہو گا؟
ہم نے دنیا کے اعمال پیش کرنے کے لئے، ظلم کی تصویروں کی نمائش کی مثال پیش کی، لیکن قیامت کے دن خود اعمال حاضر ہوتے ہیں۔ اگر چہ ہماری عقل حضور اعمال کے مجسم ہونے کی کیفیت کو درک نہیں کرسکتی ہے، لیکن ہمارے مذہبی اعتقادات کی بنا پر، اعمال کا مجسم ہونا ثابت ہو چکا ہے:
(....(
ووجد واما عملوا حاضرا
)
(کہف٤٩)
''اور سب لوگ اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے''
اس آیۂ شریفہ میں خدائے متعال صاف الفاظ میں عین عمل کے حاضر ہونے کو بیان فرماتا ہے اور آیت کی دوسری صورت میں تفسیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس آیت کے علاوہ دیگر آیات بھی اعمال کے مجسم ہونے کو بیان کرتی ہیں، من جملہ:
(
یوم تجد کل نفسٍ ماعملت من خیرٍ محضراً وما عملت من سوئٍ
)
...) (آل عمران ٣٠)
''اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک اعمال کو بھی حاضر پائے گا اور اعمال بد کو بھی''
حتی اگر قیامت کے دن، انسان کو اس کے اعمال کی تصویریں دکھائیں، تب بھی وہ انکار نہیں کرسکتا ہے۔ چہ جائے کہ اسے عین اعمال یا ان کی تصورت دکھائے جائے گی: فلاں گھڑی یا فلاں رات کو تم نے ایسا کیا ہے، اس وقت جب خدا کے حضور حاضر ہوا ہے، اس پر ایک ایسی شرم طاری ہو گی جو تمام عذاب سے سخت ہے۔
انسان کو محشر کی یاد ذہن میں تازہ کرنے کے لئے اور خدا کے سامنے اس کے اعمال پیش کئے جانے کو اپنے سامنے مجسم کرنا چاہئے، یا اگر اس دنیا میں کسی رسوائی سے روبرو ہوا ہے، تو اسے اپنے سامنے مجسم کرے، مثال کے طور پر کبھی پوشیدہ طور پر ایک بڑا کام انجام دے رہا تھا، اچانک ایک بچہ آکر اسے رنگے ہاتھوں پکڑلے۔ شاید اس قسم کی رود اد ہر ایک کے لئے پیش آئی ہوگی کہ دائیں بائیں توجہ کئے بغیر کسی بُرے کام میں مشغول تھا اور اچانک معلوم ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا تھا۔ ایسے موقع پر انسان اس قدر شرمندہ ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے لئے زمین دھنس جائے اور زندہ دفن ہوجائے، اب اگر دیکھنے والا بچہ نہ ہو اور عاقل و باشعور ہو یا اس شخص پر کوئی حق رکھتا ہو اور وہ ناپسند کام اس کے حق میں خیانت حساب ہوتا ہو تو اس کی بات ہی جدا گانہ ہے ۔
اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہمارے اختیار میں ہے وہ خدا کی طرف سے ہے ہر نامناسب عمل خدائے متعال سے خیانت ہے۔ اگر انسان صحیح طور پر سوچ لے، تو اسے معلوم ہوگا کہ صاحب حق کے حضور میں اس کا گناہ انجام دینا اس کے ساتھ خیانت تھی۔ اسے معلوم ہوگا کہ جس کی وہ معصیت اور نافرمانی کرتا ہے، اس گناہ کو انجام دینے میں بھی اس کی ہستی اور قدرت اس کی طرف سے ہے۔ سانس لینے اور بات کرنے کی طاقت جو کچھ ہم رکھتے ہیں، اس کی طرف سے ہے۔ اس نے یہ سب نعمتیں اور توانائیاں ہمیں عطاکی ہیں تاکہ تکامل وترقی کی راہ میں اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے ان سے استفادہ کریں، کتنی شرم ناک بات ہے کہ ہم خدا کی نعمتوں کو اس کی نافرمانی، معصیت، اس سے دوری اور اس سے خیانت کے لئے استفادہ کریں!
مذکورہ بیان کے پیش نظر، اگر انسان کسی رات کو چندلمحہ اپنے نفس کے محاسبہ کے لئے مخصوص کرلے اور اپنے سامنے مجسم کرے کہ اس نے اس خدا کے سامنے گناہ انجام دیا ہے، جس کی طرف سے سب چیزیں ہیں۔ یقینا یہ محاسبہ اور توجہ کہ خدا کے حضور میں گناہ انجام دیا ہے، گناہ میں تخفیف کا سبب بنتا ہے۔ حتی اگر توبہ نصوح بھی نہ کرے جو تمام گنا ہوں کو نابود کردیتی ہے، یہی شرمندگی کا احساس گناہ کے بوجھ کو تھوڑا سا کم کرتا ہے اور گناہ کے پھیلنے اور اس کے آثار کے باقی رہنے کو روکتا ہے، اور اس کے بعد انسان آسانی کے ساتھ مرتکب گناہ نہیں ہوتا ہے۔ اب اگر یہ تصور کہ وہ ہروقت خدا کے سامنے ہے، تنبیہ و توجہ کی حالت میں اس کے لئے ملکہ اور عادت بن جائے تو پھر وہ کبھی گناہ نہیں کرے گا۔
شرم و حیا کا مفہوم اور اس کی حد:
اعمال کا خدا کے حضور پیش ہونے اور شرم وحیا کے بارے میں مذکورہ بیانات کے ضمن میں حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث کے دوسرے حصہ میں مسئلہ حیا کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:
''یا اباذر؛ استح من اللّٰه فانی والذی نفسی بیده لا ازال حین اذهب الی الغائط متقنعاً بثوبی استحیی من الملکین اللذین معی''
''اے ابوذر! خدائے متعال سے حیا کرو، اس خدا کی قسم جس کے اختیار میں میری جان ہے، جب میں بیت الخلا میں جاتا ہوں، اپنے ہمراہ دو فرشتوں سے شرم کی وجہ سے اپنے سراور چہرے کو چھپاتا ہوں''
شرم و حیا کا مسئلہ انتہائی اہم ہے، افسوس کہ اس کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں، دشمنوں کے ثقافتی نفوذ کے نتیجہ میں ، شرم و حیا کے بارے میں ہمارے لئے فکری مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ اس لحاظ سے مناسب ہے اس موضوع پر کچھ تحقیق انجام دی جائے۔ اگر چہ ہم چاہتے ہیں اس فرصت میں موعظوں کے بیان پر اکتفا کریں، شاید ان مباحث کو بیان کرنے کے لئے جلسہ میں آمادگی نہ ہو، لیکن اس مسئلہ کی فکری بنیاد کی طرف اشارہ کرنا ضروری جانتا ہوں:
ہم سب جانتے ہیں کہ اسلامی تہذیب میں ، شرم و حیا اقدار میں شمار ہوتی ہے اور گستاخی، بے شرمی نا ہمواری اقدار کے مقابل میں اس کی ضد شمار ہوتی ہے۔ پہلے جب کسی کو بُرا بھلا کہنا چاہتے تھے، تو اسے کہتے تھے: گستاخ، کیونکہ کلمئہ گستاخ، گالی محسوب ہوتا تھا۔ اگر اس سے غلیظ اور عظیم گالی دینا چاہتے تو کہتے تھے: بے شرم! بے شرم بہت بڑی گالی تھی، یہ ہماری تہذیب ہے۔ لیکن آج مغربی تہذیب اور کفر کی دنیا شرم و حیا کو عیب جانتے ہیں۔
آج جس مسئلہ کا، علم نفسیات، فلسفہ اخلاق اور تعلیم و تربیت میں فراوان استفادہ ہوتا ہے وہ مسئلہ شرم اوربے حیائی ہے، کیا علم نفسیات ، اخلاق اور تربیتی اصول کے نقطہ نظر سے انسان کو باشرم یا بے شرم ہونا چاہئے؟ البتہ جو ہم کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب میں انسانی تہذیب کے برخلاف بے شرمی کی ترویج کی جاتی ہے، اس معنی میں نہیں ہے کہ شرم و حیا کے بارے میں ہمارا تصور اور شیوہ مکمل طور پر صحیح ہے، اس لحاظ سے یہ موضوع قابل بحث وتحقیق ہے اور مطلب کو واضح کرنے کے لئے ہم انسان میں شرم و حیا کی بنیاد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
انسان میں موجود ہ فطرت کی بنیاد پر، اگر انسان کوئی ایسا کام انجام دے کہ اسے بُرا جانتا ہو، تو اس میں شرم نام کا ایک مخصوص ردِ عمل پیدا ہوتا ہے۔ البتہ اس روحی تأثر عمل کی پیدائش دوامر پر منحصر ہے: پہلے یہ کہ انسان اسی کام کوبرا جانتا ہو، دوسرے یہ کہ اس کی فطرت پامال نہ ہوئی ہو چونکہ انسان کے فطری حالات بہت ہیں، لیکن جب اس نے اپنی فطرت کو پامال کردیا، تو اس کے فطرت کمزور پڑ گئی اور آہستہ آہستہ نابود ہونے لگی پس، بُرے کام کے مقابل میں شرم کا احساس، ایک فطری امرہے، لیکن برائی کی شناخت کبھی، عقل کے توسط سے انجام پاتی ہے اور بعض مواقع پر تعلیم و تربیت کے ذریعہ اور بعض مواقع پر انسان محیط (ماحول و معاشرہ)کے تابع ہوتا ہے کہ کس چیز کو بُرا اور کس چیز کو اچھا سمجھے۔
ابتدا میں ماں باپ اپنے بچے کو یاد دلاتے ہیں کہ کونسی چیز بُری ہے اور کونسی چیز اچھی، اب اگر یہ تلقین اور یادد لانا صحیح انجام پایا ہے تو جب بچہ کسی بُرے کام کا مرتکب ہوجائے اور اسے معلوم ہوجائے کسی دوسرے نے اسے دیکھ لیاہے، تو وہ فطری جبلت کی بنا پر شرمندہ ہوتا ہے اور سرجھکا لیتا ہے اور کبھی پسینہ پسینہ ہوجاتا ہے۔ اس بچے کی طرف سے برے کام کے مقابل قدرتی امر ہے، کیونکہ اس نے اچھے اور بُرے کو تعلیم و تربیت سے سیکھا ہے۔
غلط رسم ورواج کے فروغ پانے کے عوامل:
اخلاقی و اسلامی ا قدار کے علاوہ بعض آداب و رسوم، محیط اور سماج کی چاہت کے اثر سے یا قوم پرستی اور دوسری قوم اور نسلی شرائط کی وجہ سے ہم میں رائج ہوگئی ہے کہ جن کی بنیاد پر ہم بعض چیزوں کو نیک وبد جانتے ہیں۔ یہ نظریہ شرع سے مربوط نہیں ہے بلکہ ممکن ہے مخالف شرع بھی ہو، مثلاً ہم بُرا جانتے ہیں کہ بچے بڑوں کے سامنے بات کریں، ہم اسے کہتے ہیں؛ چپ ہوجائو بُرا ہے، چونکہ اس بچے نے اچھے اور بُرے کو ماں باپ اور اپنے پاس لوگوں سے سیکھا ہے، تصور کرتا ہے فلاں کام بُرا ہے، یہی کہ وہ دیکھتا ہے دوسرے لوگ اس کے کام کے مقابل میں منفی ردِّ عمل دکھاتے ہیں، ناک بھوں چڑھا تے ہیں اور ناپسند رفتار دکھاتے ہیں تو کام کی برائی کو سمجھتا ہے اور اس کو بجالاتے وقت شرم و حیا کا احساس کرتا ہے، اسی لحاظ سے بزرگوں کے سامنے بات کرنے کی جرات نہیں کرتا ہے، کلاس میں استاد سے سوال کرنے میں شرماتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے لئے یہ حالت ملکہ میں تبدیل ہوجاتی ہے اور جتنا آگے بڑھتا ہے اور اس کی عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے پھر بھی بات کرتے وقت اس میں شرم و حیا کی حالت پیدا ہوتی ہے: جب درس خارج میں اعتراض کرنا چاہتا ہے، اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور اس کے چہرے کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔
یقینا شرع پسند نہیں کرتی ہے کہ انسان اپنی بات نہ کہہ سکے اور اگر سوال کرنا چاہتا یاکوئی سچی بات کرنا چاہتا ہو تو اسے بیان نہ کرسکے۔ اس قسم کا غلط تصور عورتوں کے شرم و حیا میں بھی ہے: ہماری تہذیب میں عورت کا سب سے بڑا سرمایہ، شرم و حیا ہے، لیکن اس قیمتی مفہوم کے مصادیق کے بارے میں ہمارے معاشرے میں کچھ بے جا افراط موجود ہیں۔ ایک باشرم اور باحجاب لڑکی کی ایسی تربیت کرتے ہیں تاکہ کسی نامحرم مرد کے سامنے بات نہ کرسکے اور اسے سمجھاتے ہیں کہ یہ عمل شرم و حیا کا انعکاس ہے! اسلام کے نقطئہ نظر سے، ایک عورت کو دوسرے کے سامنے بولنے کی طاقت کو اپنے اندر اجاگر کرنا چاہئے، لیکن یہ امر بہت بجا اور پسندیدہ ہے کہ جہاں پر اسے بات نہیں کرنی چاہئے، وہاں پر بات نہ کرے، یا اس کی آواز اس قدر سریلی نہ ہو کہ دوسروں کے جذبات کے مشتعل ہونے کا سبب بنے ، لیکن اسے یہ عادت بھی نہیںبنانی چاہئے کہ کبھی نامحرم اس کی آواز نہ سننے پائے۔ حقیقت میں ہم مسائل اور مختلف جوانب کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکے ہیں۔
اگردوسروں کے سامنے عورت کابولنا ناپسند ہوتا، تو حضرت فاطمئہ زہرا سلام اللہ علیہا کیوں مسجد النبی میں وہ شعلہ بیاں تقریر کر تیں؟ یا حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کیوں ابن زیاد کے دربارمیں زبانوں کو کھولتیں؟ جنھیں، شرع کہاجاتا ہے: عورت کو ایسے بات نہیں کرنی چاہئے جو دوسروں کو مشتعل اور منحرف کرنے کا سبب بنے اور اس کے بولنے کا انداز شہوت کو ابھارنے کا سبب بنے، ورنہ شائستہ نہیں ہے کہ عورت بولنے کی جرأت نہ رکھے۔
بعض مسائل خاص کر اخلاقی و تربیتی اقدار میں ہم بعض افراط اور تفریط سے کام لیتے ہیں کہ جن کے بہت بُرے اثرات رونما ہوئے ہیں۔ یورپیوں نے جب ہمارے افراط کے بُرے اثرات دیکھے، تو انہوں نے ان منفی آثار کو رو کنے کی کوشش کی اور وہ تفریط کے شکار ہوگئے اور خودا قدار کو بالائے طاق رکھدیا: ہم نے اپنے بچوں کو شرمیلا بنا دیا تاکہ بزرگوں کے سامنے بات نہ کر سکیں۔ ہم نے عورتوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ مردوں کے سامنے بول نہ سکیں۔ انہوں نے جب دیکھا کہ یہ ایک نامناسب اور غلط کام ہے، تو کہا: بچہ کو ہر کام میں آزاد ہونا چاہئے، عورت کو آزاد ہونا چاہئے اور کسی چیز کی پروا اور شرم نہیں کرنی چاہئے، حتی اگر مردوں کے سامنے ننگی بھی ہوجائیں۔ ہمارے شرم و حیا کے اس بے جاتصور کا مغرب میں یہ ردِ عمل ہوا کہ انہوں نے حدود و قیود کو بالکل ہی ہٹا دیا:
''الجاهل اما مفرط واما مفرط''
''نادان اور جاہل یا افراط کرتا ہے یا تفریط''
نہ ہم نے اسلام کو صحیح پہچانا ہے اور نہ وہ صحیح راستہ پر چلے ہیں، نہ ہم نے صحیح معنوں میں اسلامی اقدار کا استفادہ کیا ہے اور نہ انہوں نے الہٰی اقدار پر توجہ کی ہے۔ البتہ ان سے توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ان کی فکری بنیادہی فاسد ہے۔ معلوم نہیں ہے کہ وہ خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ یورپ میں حتی کلیسا جانے والے معتقد عیسائی بھی معلوم نہیں دین پر اعتقاد رکھتے ہیںیا نہیں، وہ صرف زبان سے دین اور دینی قدروں کے ساتھ دلچسپی رکھنے کا اظہار کرتے ہیں ورنہ وہ حقیقت میں دین کے بارے میں کوئی میلان نہیں رکھتے ہیں۔ لہذا ان سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم نے کیوں اسلام کے حقائق کو نہیں پہچانا اور ان پر صحیح عمل نہیں کیا ہے، تاکہ ان کا صحیح استعمال کر کے اس سے شائستہ استفادہ کرتے اور دوسروں کی مذمت کا نشانہ نہ بنتے۔
گزشتہ مطالب کے پیش نظر ضروری ہے کہ شرم و حیا کے حدود معین ہوجائیں، یہ کہ حیا کا مفہوم کیا ہے اور کہاں پر حیا کی جانی چاہئے اور کہا ںپر شرم و حیا ناپسند اور قابل مذمت ہے؟ یقینا احساس شرمندگی ہر موقع پر مطلوب نہیں ہے اور ہر کمزوری جو شرم کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے مطلوب نہیں ہے۔ ہمیں اچھے اور بُرے کو پہچاننا چاہئے اور دونوں کو قوی استدلال اور شرع کے مطابق ایک دوسرے سے ہماہنگی چاہئے۔ ہم کیوں بچے سے کہیں کہ بزر گوں کے سامنے بولنا بُرا ہے؟ کیا یہ حکم خدا اور پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہے؟ کیا ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت یہی تھی؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ جی ہاں چیخ پکار کسی کے لئے مطلوب نہیں ہے، البتہ بچہ تدریجاً اور دوسروں کی صحیح تربیت سے سمجھ سکتا ہے کہ اسے ایسے بولنا چاہئے کہ مخاطب سن پائے اور حد سے زیادہ اس کی آواز بلند نہیں ہونا چاہئے، نہ یہ کہ بالکل بات ہی نہ کرے۔
کسی نے کہا ہے کہ عورت میں اس قدر جرأت کم ہو کہ دوسروں کے سامنے بات کرنے کی اس میں ہمت نہ ہو یا اگر عدالت میں اپنا حق ثابت کرنا چاہے یا کسی جگہ پر نہی از منکر کرنا چاہے، تو اس میں قدرت نہ ہو ؟! لہٰذا، ہمیں خوب اور بد کو اسلامی معیاروں کے مطابق پہچاننا چاہئے، ہمیں جاننا چاہئے کہ اسلام کی نظر میں حقیقت میں خوب و بد کونسی چیزیں ہیں پھر حقیقی بد کے مقابل میں شرم و حیا مطلوب ہے، نہ کہ ایک سماج اورقوم و ملت یا کسی نسل یا علاقہ کے پیدا کئے گئے رسم و عادت کے سامنے شرم کرنا، یہ شرم و حیا آداب و رسوم کی پیدا وار ہیں، نہ اخلاقی و معنوی اقدار کی۔ آداب و رسوم اگر اسلامی قدروں کی بنیادوں پر ہوں، تو قابل احترام ہیں اور اگرحق اور الہٰی اقدار کے خلاف ہوں تو کے مخالف ہیں۔ اس لحاظ سے، ہمیں اسلام کے احکام پر صحیح عمل اور پیروی کرنے کے لئے، ابتدا میں حقیقی خوب و بد کو پہچاننا چاہئے تاکہ جان لیں کہ کن اعمال اور رفتاروں کے سامنے شرم و حیا کرنی چاہئے۔
بیان کیا گیا کہ خوب و بد کو غریزہ فطری کی بنیاد پر پرکھنا چاہئے اور انسان کو غلط کام انجام دینے کے بعد شرم محسوس کرنا چاہئے اب اگر یہ غریزہ فطرت سے برسر پیکار ہو جائے، تو تدر یجاً شرم وحیا کی یہ فطری جبلت ضعیف ہو کر انسان میں بے حیائی کی عادت رسوخکرنے لگتی ہے۔ یہ امرشرم وحیا سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اگر انسان ہر فطری امر کے مقابل میں مقاومت کرے، تو وہ فطری امورفتہ رفتہ ضعیف اور بے اثر ہونے لگتے ہیں، جب انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کے انجام کے بارے میں بے تفاوتی سے کام لیتا ہے توآہستہ آہستہ ان میں گناہ کا ملکہ تقویت پاتا ہے، اور اس کے بعد اگر یہ تصور بھی کر لے کہ خدا کے حضور میں گناہ انجام دے رہا ہے پھر بھی احساس شرمندگی نہیں کرتا، کیونکہ اس کی فطرت مردہ چکی ہے۔
بیشک، محاسبہ نفس کا فقدان اور مسلسل پے در پے گناہ کا مرتکب ہونا فطرت کو رفتہ رفتہ بے اثر کر دیتا ہے اور نتیجہ کے طور پر انسان ہر قسم کے گناہ کو انجام دینے میں کوئی پروا نہیں کرتا اور اس کا ضمیر اس کی سزرنش نہیں کرتا، جو انسان ہر بُرے کام کو انجام دینے پر شرمندہ ہوتا تھا، اب شرمندگی کا احساس نہیں کرتا ہے،البتہ دوسرے عوامل بھی موجود ہیں جو احساس شرمندگی کو نابود کرنے کا سبب بنتے ہیں اور روایتوں میں ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن بے شرمی اور بے حیائی کا اصل عامل، شرم و حیا کے فطری ہونے کے مقابلے میں مقاومت اور اس کی بے اعتنائی ہے۔ اس کے مقابل میں اس فطرت کی تقویت کے لئے بعض نکات کی رعایت کی جانی چاہئے کہ من جملہ ان میں ایک نکتہ یہ ہے جس کی طرف اس روایت میں اشارہ کیا گیا ہے: پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس روایت میں جناب ابوذر کو خدا سے شرم کرنے کی نصیحت فرماتے ہیں اور اس کے بعد فرماتے ہیں: ''جب میں بیت الخلا میں جاتا ہوں، اپنے سر اور چہرے کو چھپا لیتا ہوں، اور اپنے ہمراہ موجودہ فرشتوں سے حیا کرتا ہوں'' یہ رفتار، شرم کی جبلت کو تقویت بخشنے کے لئے ہے۔
ابو سعید خدری نے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے انتہا شرم و حیا کے بارے میں کہا ہے:
''کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم' اشد حیائً من العذراء فی خدرها وکان اذاکره شیئاً عرفناه فی وجهه''
''رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجلہ عروسی کی دلہن سے زیادہ باحیا تھے، جب آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کسی چیز سے رنجیدہ ہوتے تھے اس کو (زبان پر نہیں لاتے تھے) ہم آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے چہرہ سے سمجھ لیتے تھے''
معروف ہے کہ جناب سلمان نے فرمایا ہے: ''میں نے عمر بھر میں اپنی شرم گاہ پر نظر نہیں ڈالی ہے''! جناب سلمان بوڑھے تھے۔ وہ طولانی عمر کے مالک تھے۔ یقینا جس کا ایسا جذبہ ہو، وہ کبھی زنا نہیں کرتا۔ لیکن اگر انسان لاپروا ہو، خوب و بد میں فرق نہ کرتا ہو، رفتہ رفتہ اس کی فطری شرم و حیا نا بود جاہوتی ہے اور گناہ کے عامل و محرک اسے معصیت و لغزش کی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ نابودی کے دہانے پر قرار پاتا ہے اور منتظر ہوتا ہے کہ ہوا کا ایک جھونکا آئے اور وہ گر جائے۔ لیکن اگر ابتدا سے اپنی رفتار کے بارے میں ہوشیار رہے اور فطرت کو تقویت بخشنے والے عوامل کو اپنے اندر اجاگر کرے، تو شرم و حیا کا جذبہ اس میں تقویت پائے گا اور وہ گناہ سے آلودہ نہیں ہوگا۔
____________________