اٹھائیسواں سبق:
عبادت و بندگی کی عظمت اوراس کے تکوینی اثرات
* انسان کے اعمال کے بارے میں زمین کی گواہی۔
* زمین اور بے جان مخلوقات کی ستائش کی کیفیت۔
* مخلوقات کا شعور و آگاہی اور ان کا اثر قبول کرنا۔
* انوار ائمہ اطہار علیہم السلام کی وسعت اور اس کے حدود ۔
* گواہوں اور شاہدوں کی نظروں سے اعمال کامخفی نہ رہنا
* بندگی میں اخلاص، شادمانی اور فخر و مباہات کا سبب
* اخلاص، بہترین عمل کا سبب۔
عبادت و بندگی کی عظمت اور اس کے تکوینی اثرات
یا اباذر: مامن رجلٍ یجعل جبهته فی بقعة من بقاع الارض الا شهدت له بها یوم القیامة وما من منزل ینزله قوم الا واصبح ذٰلک المنزل یصلی علیهم اویلعنهم
یا اباذر: ما من صباح ولا رواح الا وبقاع الارض تنادی بعضها بعضاً یا جارهل مربک ذاکر للّٰه تعالیٰ او عبد وضع جبهته علیک ساجد اللّٰه؟ فمن قائلة لا ومن قائله نعم ' فاذا قالت نعم اهتزت انشرحت وتری ان لها الفضل علی جارتها''
حدیث کے اس حصہ میں خدائے متعال کی عبادت و بندگی کی عظمت اور بلندی کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اور یہ کہ انسان کا عمل خواہ پسندیدہ ہویانا پسندیدہ گواہوں اور شاہدوں کی نظروں سے دور نہیں رہتا، یہاں تک زمین بھی جس پر ہم عبادت یا برے کام انجام دیتے ہیں قیامت کے دن ہمارے نفع یا نقصان میں گواہی دے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے اعمال وکردار ردّعمل اور نتیجہ نہ ہو، بلکہ دنیوی رد عمل اور نتیجہ کے علاوہ ہمارے اعمال و کردار کا قیامت میں بھی نتیجہ ظاہر ہوگا۔ قیامت کے دن، وہ زمین جس پر ہم عبادت کرتے ہیں، اس عبادت کے انجام کے بارے میں شہادت دے گی، یا اگر اس پر ہم کوئی برا کام انجام دیں تو قیامت کے دن ہمارے خلاف شہادت دے گی اور ہم پر لعنت کرے گی۔
انسان کے اعمال کے بارے میں زمین کی گواہی:
''یا اباذر؛ ما من رجلٍ یجعل جبهته فی بقعة من بقاع الارض الا شهدت له بها یوم القیامة وما من منزل ینزله قوم الاواصبح ذالک المنزل یصلی علیهم اویلعنهم ''
''اے ابوذر! کوئی شخص اپنی پیشا نی کو زمین کے کسی نقطہ پر نہیں رکھتا ہے، مگر یہ کہ وہ نقطہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گا اور کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ ایک گروہ وہاں پر قدم رکھے، مگر یہ کہ وہ جگہ ان پر درود یا لعنت بھیجے گی''
بعض بزرگ یہ کو شش کرتے تھے کہ مسجد کی مختلف جگہوں پر نماز پڑھیں اور ہمیشہ ایک ہی جگہ پر نماز نہیں پڑھتے تھے، یا اگر کسی گھر یا کسی دوسری جگہ داخل ہوتے تھے، پہلے دو رکعت نماز پڑہتے تھے تاکہ قیامت کے دن اپنے لئے زیادہ سے زیادہ گواہ بنائیں۔ یہ بذات خود ایک ہوشیاری ہے جو مؤمن کے لئے مفید و مطلوب ہے۔
اسی روایت اور دوسری روایتوں میں عبادت کے لئے جو بلندی و قدر و منزلت بیان ہوئی ہے اس کے پیش نظر ہماری اس امرکی تاکید کہ عبادت کو مختلف جگہوں پر انجام دینا چاہئے، اس معنی میں ہے کہ ہم نے پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے بیانات پر اعتماد کیا ہے۔
چنانچہ مذکورہ روایت کے اس حصہ اور دوسری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے زمین، درخت اور تمام بے جان مخلوقات، کہ جنھیں ہم انہیں فاقد درک و شعور جانتے ہیں، حقیقت میں درک وشعور کے حامل ہیں اور ہمارے اعمال کو درک کرتے ہیں اور ہمارے نیک کام انجام دینے پر ہمارے لئے دعا کرتے ہیں اور ہمارے بُرے کاموں کی وجہ سے ہم پر لعنت بھیجتے ہیں، اس کے علاوہ قیامت کے دن بھی ہمارے نفع یا نقصان میں گواہی دیتے ہیں۔
زمین اور بے جان مخلوقات کی ستائش کی کیفیت:
روایت کے اس حصہ کے مضمون جس میں زمین اور بے جان مخلوقات کے شعور و درک کی تصویر کشی کی گئی ہے نیز دوسری آیات اور وایات، جو اسی مضمون پر مشتمل ہیں، کے بارے میں بزرگ علمانے تین نظر یہ پیش کئے ہیں:
ٍ پہلا نظریہ: بعض کا خیال یہ ہے کہ یہ تعبیریں کنا یہ ہیں اور ان کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے اور ہر مورد کے لئے مناسب تاویل ذکر کرتے ہیں۔ شاید اکثر مفسرین نے اس قسم کی آیات و روا یات کی تفسیر میں اسی شیوہ کو اپنایا ہے۔
دوسرا نظریہ: عرفا اور عارف مزاج فلاسفہ، جیسے صدر المتاھین اور ان کے شاگرد یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ مخلوقات واقعاً ادراک و شعور رکھتی ہیں اور خدائے تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور خدا سے ڈرتے ہیں، لیکن ہم اس حقیقت کو درک کرنے سے عاجز ہیں۔
شاعر کہتا ہے:
ماسمیعیم و بصیریم و ہُشیم
باشمانا محرمان ما خامشیم
''ہم سنتے، دیکھتے اور باہوش ہیں، لیکن تم نامحرموں کے سامنے خاموش ہیں''
یہ لوگ ان آیات و روایات کے حقیقی معنی اخذ کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
درخت، زمین اور کنکریاں وغیرہ شعور رکھتی ہیں اور خدائے متعال کی تسبیح کرتے ہیں:
(
''تسبح له السمٰوات والارض ومن فیهن وان من شیً الا یسبح
)
(
بحمده ولٰٰکن لا تفقهون تسبیحهم
)
.........) (اسرائ٤٤)
''ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کونہیں سمجھتے ہو ''
مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں:
''آیت عالم مادی کے اجزا کی تسبیح کوثات کرتی ہے اور یہ کہ وہ خدائے متعال کی تسبیح کرتے ہیں اور اسے (ہر)شریک سے منزہ اور پاک جانتے ہیں،تسبیح کے معنی کلام و سخن کے ذریعہ تنزیہ ہے اور کلام کی حقیقت اندرونی مقصود سے اس کے اشارہ اور رہنمائی سے پردہ اٹھانا ہے۔ چونکہ انسان کے پاس اپنے مقصد کی طرف اشارہ کرنے اور اسے پیش کرنے کے لئے کوئی تکوینی راستہ نہیںہے لہذا مجبور ہے ایسے آواز والے کلمہ سے استفادہ کرے جو بہت سے معنی کے لئے وضع ہوئے ہیں، اور ان کے ذریعہ اپنا مقصود واضح کرے ،اس کے بعد تفہیم و تفہم کا طریقہ اسی صورت میں رائج ہوا۔ اس کے علاوہ ممکن ہے اپنا مقصود بیان کرنے کے لئے انسان ہاتھ یا سر کے اشارہ سے مدد لے اور کبھی لکھنے یا علامتوں کے ذریعہمدد حاصل کرے
مختصر یہ کہ جو مقصدسے پردہ اٹھاتا ہے وہ کلام ہے اور اپنے مقصود اور منظور کو بیان کرنے کے لئے ہر چیز اور ہر مخلوق سے استفادہ کرنا، اس کا قول و کلام ہے، اگر چہ وہ مقصود باطنی آواز اور کلمہ سے ہما ھنگ نہ ہو۔ اس نکتہ کی دلیل، بعض کلمات جیسے کلام، قول، امر و نہی ہیں کہ قرآن مجید میں خدائے متعال کی طرف ان کی نسبت دی گئی ہے اور یقینا وہ ہم سے صادر ہونے والی بات اور گفتار جیسی نہیں ہیں۔
یقینا آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں موجود ہے، ایک ایسی چیز ہے جو خدائے متعال کی وحدانیت اور یکتائی کو بیان کرتی ہے اور اسے ہر عیب و نقص سے منزہ جانتی ہے۔ وہ یہ کہ یہ ساری مخلوقات نیازمند اور محتاج ہیں اور احتیاج اس امر کا واضح ترین گواہ ہے کہ کوئی ایسا موجود ہے جس کی طرف سب نیاز مند اور محتاج ہیں اور اس سے کوئی بھی بے نیاز نہیں ہے۔ پس مخلوقات میں ہر ایک مخلوق، اپنے احتیاج و جودی اور ذاتی نقص کی بنا پر خالق غنی کے بارے میں خبر دیتی ہے۔
بحث کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
''خدائے متعال کا بیان اس بات کی دلیل ہے کہ مخلوقات کی پیدائش کے ساتھ علم و آگاہی بھی ان میں پھیلی ہے اور ان میں سے ہر ایک نے وجود وہستی سے بہرہ مند ہونے کی حد میں ، علم سے بھی استفادہ کیا ہے۔ نہ یہ کہ سب ایک ہی حداور دائرہ میں علم رکھتے ہوں اور سبھی کا علم و اور ان کی معلومات ایک ہی قسم کا ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ'' تمام مخلوقات کا علم انسان کے جیسا ہو یا انسان تمام مخلوقات کے علم و آگاہی سے واقف ہو۔ اس بناپر ہر مخلوق کسی نہ کسی صورت میں اپنے وجود کا علم رکھتی ہے اور اپنی ہستی اور وجود سے اپنی محتاجی اور نقصان کا کہ جس کا خدائے بے نیاز میں احاطہ ہے اظہار کرتی ہے اور یہ کہ خدائے متعال صاحب کمال ہے اور اس کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے۔ پس ہر مخلوق اپنے پروردگار کی تسبیح کرتی ہے اور اسے شریک اور ہر نقص سے پاک و منزہ جانتی ہے ''
تیسرا نظریہ: اس دنیا میں موجود تمام مخلوقات کے علاوہ مادی صورت کے ساتھ ملکوتی صورت بھی ہے اور حقیقت میں ان کی یہی ملکوتی اور باطنی صورت درک و شعور رکھتی ہے اور وہی ملکوتی صورت قیامت کے دن ظاہر ہوگی اور شہادت دے گی،ہم اس دنیا میں اس ملکوتی صورت کو درک نہیں کرتے ہیں، اس لئے اشیاکی تسبیح کو نہیں سنتے نہیں سمجھتے ہیں اور ان میں شعور و آگاہی کے آثار کو نہیں دیکھتے، لیکن یہ صورت موجود ہے اور قیامت کے دن ظاہر ہوگی اور جن حقائق کو ادراک کرتی ہے انہیں ظاہر کر کے شہادت دے گی۔
قرآن مجید کے واضح بیان کے مطابق، قیامت کے دن حتی انسان کی کھال بھی اس کے خلاف گواہی دے گی، اس کی زبان اور ہاتھ پائوں بھی اس کے خلاف گواہی دیں گے، اگر یہ اعضاشعور نہ رکھتے ہوں تو ان کی گواہی بے معنی ہے۔ قرآن مجید انسان کے بدن کے اعضاکی گواہی کے بارے میں فرماتا ہے:
(وقالوا لجلودهم لم شهدتم علینا قالوا انطقنا الله الذی انطق کل شیٔ ) '' (فصلت٢١)
''اور وہ اپنے اعضا سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دی تو وہ جواب میں کہیںگے کہ ہمیں اسی خدانے گویا بنایا ہے جس نے سب کو گویائی عطا کی ہے۔''
اگر انسان کی کھال کسی قسم کا شعور نہ رکھتی ہوتی کہ معصیت کے وقت جس کو درک کرسکے، تو کیسے ممکن ہے وہ قیامت کے دن اس کی معصیت کے بارے میں گواہی دے جبکہ اسے درک نہیںکرسکتی تھی؟ شہادت کا اس وقت معنی درست ہوںگے جب شاہد معصیت کے منظر کو درک اور احساس کرے ورنہ شہادت کا کوئی معنی نہیںہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان کے اعضا اس کی معصیت کے بارے میں درک نہ رکھنے کے باوجود، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں بات کرنے پر مجبور کردے گا، تو کہنا چاہئے کہ اس صورت میں شہادت کا کوئی معنی و مفہوم ہی نہیں ہے اور شہادت کا اطلاق ایسے مورد پر بے معنی ہے۔ اس بنا پر اعضا کا گواہی دینا درک و احساس اور عمل کے بارے میں ایک قسم کے علم کے بعد انجام پاتی ہے اس کے بغیر شہادت ہی انجام نہیں پاسکتی ہے۔
پس دوسرے اور تیسرے نظر یہ کے مطابق، بنیادی طور پر تمام مخلوقات میں شعور، احساس اور ایک قسم کی آگاہی و علم کے موجود ہونے میں کس قسم کا شک و شبہ نہیں ہے، بلکہ ان کی کیفیت میں اختلاف ہے کہ کیا یہ علم اشیا کی ملکوتی روح کے ساتھ ہے، یا یہ کہ بذات خود درک و شعور کے حامل ہیں۔ البتہ پہلے نظریہ کے قائل کہتے ہیں: جب انسان کے اعضا و جوارح قیامت کے دن ظاہر ہوں گے، جو انسان کی رفتار کے آثار ان میں باقی رہے ہیں وہ ان کی شہادت کے درجہ پر ہیں۔
مخلوقات کا شعور و آگاہی اور ان کا اثر قبول کرنا:
شاید مذکورہ تینوں نظریات میں تیسرا نظریہ بہتر ہوگا،اور ہر صورت میں آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اشیاا ور مادی مخلوقات ایک قسم کا شعور و ادراک رکھتی ہیں۔ نہ صرف ان میں تکوینی شعور موجود ر ہے، بلکہ اپنے سے مربوط حوادث سے متاثر ہوتی ہیں اور حوادث ان میں اثر ڈالتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر ان میں ایک نئی قوت پیدا ہوتی ہے: اگر روی زمین پرعبادت انجام دی جاتی ہے تو، وہ اس سے نیک اثر قبول کرتی ہے اور اس لحاظ سے خوش ہوتی ہے اور اپنے اوپر نازکرتی ہے ، اس کے برعکس اگر روی زمین پر کوئی معصیت انجام دی جاتی ہے تو ایک منفی اثران پر پڑتا ہے، اس لحاظ سے زمین ناراض ہوتی ہے اور گناہ کار پر لعنت بھیجتی ہے، البتہ ہم اس قسم کے مفاہیم کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ان آیات و روایات کا مضمون ہمارے لئے صحیح طورپر واضح اور نمایاں نہیں ہے، لیکن ہمیں یہ تسلیم کرناچاہئے کہ کائنات میں بعض نا معلوم حقائق موجود ہیں جو ہمارے درک و فہم کے حدود اور دائر کے باہر ہیں یا ان کے بارے میں ہماری معرفت بہت محدود ہے، چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے:
(...(
وما اوتیتم من العلم الاقلیلاً
)
) (اسرائ٨٥)
''اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔''
کائنات میں بہت حقائق موجود ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہے اور ان میں سے بعض کو ہم نے وحی کے ذریعہ پہچان لیا ہے اور یا انبیائے عظام صلوات اللہ علیہم اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے ہمارے لئے انہیں بیان کیا ہے اور ہم بھی ان کے کہنے پر اعتماد کرتے ہیں اور ہمیں ان کا شکر گزار ہوناچاہئے کہ انہوں نے ان حقائق کو بیان فرمایا ہے ورنہ ہماری عقل ان تک نہیں پہنچ سکتی تھی اور ممکن نہیںتھا ہم اپنی ناقص عقل کے ذریعہ ان حقائق تک پہنچ سکتے:
(
کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیا تناویزکیکم و یعلمکم الکتاب والحمکة ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون
)
(بقرہ ١٥١)
جس طرح ہم نے تمہارے درمیان تمہیں میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر ہماری آیات کی تلاوت کرتا ہے، تمہیں پاک و پاکیزہ بناتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور سب کچھ بتاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر ہمارے لئے دو نکتے واضح ہوگئے: پہلا نکتہ یہ کہ اگر ہم ہزاروں دانش و علم بھی حاصل کرلیں اور تمام بشری مخلوقات کو پالیں، پھر بھی ہماری معلومات ہماری نامعلوم چیزوں کے مقابلہ میں محدود ہیں اور قابل شمار نہیں ہیں، پس ہمیں مغرور نہیں ہونا چاہئے اور اپنے اوپر ناز نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ممکن نہیں ہے کوئی تمام بشری معلومات کو پاسکے، بلکہ ہر شخص علوم کے ایک حصہ کو حاصل کرسکتا ہے اور علم کے بے انتہا سمندر سے ایک قطرہ اس کو نصیب ہوتا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے، کہ ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار ہے ہیں کہ اگر ایک خلوت گاہ پر کوئی کام انجام دیں تو کوئی ہمیں نہیں دیکھتا ہے: اگر زمین درک نہ کرے اور نہ سمجھے، تمھارے اعمال پر مقرر کئے گئے فرشتے تو اسے درک کرتے ہیں اور ہمارے اعمال کو لکھتے ہیں اور ان کے علاوہ بھی ایسے اشخاص موجود ہیں جو اس دنیا پر تسلط رکھتے ہیں اور ان کی نظروں سے کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔
انوارائمہ اطہار علیہم السلام کی وسعت اور اس کے حدود:
ہم، شیعوں کے عقیدہ کی بنیاد پر، ائمہ اطہار علیہم السلام کا نور ہر جگہ حاضر ہے، اگرچہ ہم سب ان کے نور کو کماحقہ درک نہیں کرتے ہیں۔ ذخیرہ الہٰی، حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کو اگر کوئی انہیں سلام کرے تو وہ جواب دیتے ہیں، لیکن ہمارے کانوں میں ان کا کلام سننے کی توانائی نہیں ہے۔ اگر کوئی ان سے فریاد کرے، تو وہ جواب دیتے ہیں، اگر بیابان میں گم شدہ کوئی شخص انہیں پکارے تو وہ مدد کے لئے پہنچتے ہیں اور اس کی رہنمائی کرتے ہیں اور آپ درماندہ وعاجز ، مصیبت زدہ بیمار کوشفا بخشتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے آپ حاضر ہیں اور سنتے ہیں، ورنہ اگر حاضر نہ ہوتے اور نہیں سنتے اور تو کیسے سمندروں کی لہروں میں گرفتار یا جنگل و بیابان میں مشکل سے دو چار شخص کی فریاد سنتے اور اس کی مدد کو پہنچتے نیز اس کو نجات دیتے ؟
علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ اپنے والدسے نقل کرتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں ایک صالح شخص جو صاحب تقوی اور اہل معرفت تھا اس نے بہت سے حج کئے تھے ۔ اس کے بارے مشہور تھا کہ اس نے ''طی الارض'' کیا ہے، ایک دن وہ اصفہان آیا تو میں نے اس سے ملاقات کی۔ میں نے اس سے سوال کیا: تمھارے متعلق ''طی الارض'' کی روداد کیا ہے؟ اس نے کہا: میں ایک سال حاجیوں کے ہمراہ بیت اللہ کے لئے روانہ ہوا۔ ہم ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے مکہ مکرمہ کی مسافت سات یانو منزل رہ گئی تھی۔ میں قافلہ سے بچھڑ گیا اور قافلہ والے میری نظروں سے غائب ہوگئے، میں نے راستہ کو گم کردیا اور حیرانی و سر گردانی کی حالت میں ادھر ادھر بھٹک رہا تھا پیاس کی شدت کی وجہ سے زندگی سے نا اُمید ہوگیا تھا، اسی حالت میں ، میں نے فریاد بلند کی: ''یا اباصالح، میری مدد کیجئے '' اچانک دور سے ایک سوار نمودار ہوا۔ جب وہ میرے نزدیک پہنچا تو میں نے ایک خوبصورت جوان کو لباس فاخرہ پہنے ہوئے بزرگوارانہ صورت میں اونٹ پر سوار دیکھا اور ان کے ساتھ پانی کا ایک برتن بھی تھا۔
میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا: کیا تم پیاسے ہو؟ میں نے عرض کی: جی ہاں،انہوں نے مجھے پانی پیش کیا اور میں نے اسے پیا،اس کے بعد فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ تمھیں تمھارے قافلہ کے پاس پہنچادوں؟ میں نے عرض کی: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: میرے اونٹ کی پشت پر سوار ہوجائو؟ میں سوار ہوا اور وہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مجھے ہر روز ''حرزیمانی'' پڑھنے کی عادت تھی میں نے اسے پڑھنا شروع کیا ،پڑھنے کے بعد اس عرب جو ان نے مجھ سے فرمایا: بعض کلمات کو یوں پڑھا کرو تھوڑی دیر گزرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے فرمایا: اس جگہ کو پہنچانتے ہو؟ میں نے نظر ڈالی اور دیکھا کہ میں سرزمین ابطح یعنی مکہ کے قریب پہنچاگیا ہوں۔ اس نے فرمایا نیچے اتر جائو۔ جوں ہی میں اونٹ سے نیچے اتراوہ غائب ہوگئے۔ یہاں پر مجھے معلوم ہوا کہ وہ خوبصورت جوان، امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف تھے۔
پس امام علیہ السلام کا نور ہر جگہ حاضر ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہے، چونکہ اس حقیقت کو درک کرنا تمام لوگوں کے لئے مشکل ہے۔ اگر یہ حقائق لوگوں کے لئے کھلم کھلا بیان کئے جائیں تو وہ غلو میں مبتلا ہوجائیں گے، اس لئے ان کے ادنی مراتب بیان ہوئے ہیں من جملہ ہمارے نامۂ اعمال امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ یا بعض روایتوں میں ہمارے اعمال کے خدائے متعال اور پیغمبر خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت میں پیش کئے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ جب ہفتہ کے دنوں میں من جملہ جمعرات کا ذکر آیا تو حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
''...(
هو یوم تعرض فیه الاعمال علی اللّٰه وعلیٰ رسوله' صلی اللّٰه علیه وآله وعلی الائمة...
)
''
''جمعرات کا دن وہ دن ہے جس میں بندوں کے اعمال خدائے متعال' رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔''
یا بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب ملائکہ انسان کے اعمال لکھتے ہیں، اسی دن شب کو عرش پر لے جا کر خدائے متعال کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہاں پر یہ سوال کیا جائے کہ کیا خدائے متعال ہر جگہ حاضر نہیں ہے کہ اعمال کی رپورٹ کو عرش پر اس کی خدمت میں پہنچا ئی جائے؟ لیکن جاننا چاہئے کہ وجود کے مراتب کی خاص صورتیں ہیں اور اعمال کوپیش کرنے کا بھی ایک خاص نظام ہے جو بارگاہ ربوبیت کے متناسب ہے اور یہ خدا کے ہر جگہ پر حاضر ہونے کے منافی نہیں ہے۔
گواہوں اور شاہدوں کی نظروں سے اعمال کا مخفی نہ ہونا:
مذکورہ مطالب کے پیش نظر، ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی نہیںبسر کر رہے ہیں، جو درک و شعور سے خالی ہو: اس دنیا میں دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان موجود ہیں جو ہمارے اعمال اور بیان کے گواہ ہیں اور بعض آیات و روایات کے ظاہر کی بناء پر زمین، درخت اور پر ندے بھی شعور رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں، البتہ ہم غافل ہیں! اس سے بالا تر امام زمان عجل اللہ تعالےٰ فرجہ الشریف کا وجود مقدس ہمارے اعمال پر ناظر ہے، سب سے افع و اعلیٰ ذات مقدس باری تعالےٰ ہمارے اعمال پر گواہ ہے:
(...(
ان اللّٰه کان علی کل شیً شهیداً
)
(نسائ٣٣)
''بیشک اللہ ہرشے پرگواہ اور نگراں ہے''
خدائے متعال انسان کے پنہان اور آشکار اعمال کے بارے میں اپنی آگاہی اور فرشتوں کی نگرانی کے سلسلہ میں فرمایا ہے:
(
ولقد خلقنا الانسان ونعلم ما توسوس به نفسه ونحن اقرب الیه من حبل الورید اذیتلقی المتلقیان عن الیمین وعن الشمال قعید مایلفظ من قول الا لدیه رقیب عتید
)
(ق: ١٨١٦)
اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کانفس کیا کیا وسو سے پیدا کرتا ہے اور ہم اس سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔ جب کہ دو لکھنے والے فرشتے اس کے نامہ اعمال لکھنے کے لئے مامور ہیں جو داہنے اور بائیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ کوئی بات منہ سے نکالتا ہے مگر یہ کہ ایک نگہبان اس کے پاس موجود رہتا ہے( جو اس کی باتوں کو لکھ لیتا ہے ) ۔ ایک دوسری جگہ پر قیامت کے دن پیغمبراکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی گواہی کے بارے میں فرماتا ہے:
(
فکیف اذاجئنا من کل امةٍ بشهیدٍ وجئنا بک علی هولاء شهیداً
)
(نسائ ٤١)
''اس وقت کیا ہوگا جب ہم ہرامت کو اس کے گواہ کے ساتھ بلائیں گے اور اے پیغمبرتمھیں بھی ان پر گواہ بنائوں گا ''
قیامت کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر گواہوں کی شہادت کے بارے میں بیان کرنے والی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گواہ دنیا میں بندوں کے اعمال کے شاہد ہیں ورنہ اگر وہ دنیا میں لوگوں کے اعمال کے شاہد نہ ہوتے تو قیامت کے دن کیسے شہادت دیتے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی حادثہ کو دیکھے بغیر اس کے بارے میں شہادت دے؟
اگر ہم اس نکتہ کی طرف توجہ کریں کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، وہ خاموش اور شعور و درک سے خالی نہیں ہے بلکہ ایسے اشخاص موجود ہیں جو ہمیں دیکھتے ہیں اور وہ ہمارے اعمال کے شاہد اور ناظر ہیں، اگر چہ ہم ان کو نہیں دیکھ رہے ہیں، ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور اپنی رفتار پر نظر ثانی کرنی چاہئے یہ شرم و حیا ہے کہ جو بعض ناپسندیدہ حرکتوں کے سرزد ہونے سے ہمارے لئے مانع ہوتی ہے۔ جب ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ ہمارے اعمال ثبت ہو کر قیامت کے دن ظاہر ہوں گے تو شرم و حیا بُرے کام کو انجام دینے سے ہمارے لئے مانع ہو جاتی ہے۔ جب انسان کسی گناہ کا مرتکب ہونا چاہتا ہے، اگر یہ توجہ کرلے کہ زمین و آسمان اور بعض صفحات ( تختیاں) ہیں جن پر انسان کے اعمال کی صورت ثبت ہوتی ہے اور ایک دن ظاہر ہوگی، تو وہ اس گناہ سے پرہیز کرے گا اور خلوت میں بھی گناہ نہیں کرے گا، کیونکہ حضرت علی فرماتے ہیں:
''اتقوا معاصی اللّٰه فی الخلوات فان الشاهد هو الحاکم ''
''پوشیدہ حالت میں خدا کی نافرمانی سے پرہیز کرو، کیونکہ جو شاہد اور ناظر ہے وہ حاکم بھی ہے''
اگر آپ اپنی کسی حالت کے بارے میں پسند نہیں کرتے کہ کوئی اس حالت کو دیکھ لے، تو اگر کسی نے اس حالت کی تصویر لے لی ہے تو، آپ ہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ اس تصویر کو نابود کر دیں تاکہ اسے آئندہ کوئی نہ دیکھ سکے۔ یقینا انسان ہر گز نہیں چاہتا ہے کہ کوئی اس کی ایسی تصویر کھینچے جو اس کی شرمندگی کا سبب بنے۔ وہ تصویر کھینچتے وقت اپنے آپ کو آراستہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کا قیافہ اچھا ہو زیر لب ہنستا رہے تاکہ اس کی تصویر بہتر ہو۔ اس کے لئے پسندیدہ نہیں ہے کہ اس کی تصویر اس حالت میں کھینچی جائے جو اس کے لئے شرمندگی اور رسوائی کا سبب بنے۔ اس مثال کے پیش نظر، ہمیں جاننا چاہئے۔ کہ طبیعیعوامل جیسے زمین، آسمان اور در و دیوار مسلسل ہماری تصویریں کھینچ رہے ہیں اور قیامت کے دن ان تصویروں کو ظاہر کریں گے۔ لہٰذاہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ نامناسب اور بد حالت میں ہماری تصویریں نہ کھینچی جائیں تاکہ قیامت کے دن ہماری تمام رفتار اور کردار رونما ہو کر ہماری رسوائی کا سبب نہ بنیں:
(
یوم تجدکل نفسٍ ماعملت من خیرٍ محضراً وما عملت من سوئٍ تود لو ان بینها وبینه امدًابعیداً...
)
(آل عمران٣٠)
''اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک و بد اعمال کو حاضر پائے گا جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے اور ان بُرے اعمال کے درمیان طویل فاصلہہوجاتا''
بندگی میں اخلاص، شادمانی اور فخر و مباہات کا سبب:
''یا اباذر: مامن صباح ولا رواح الا وبقاع الارض تنادی بعضها بعضاً یا جارهل مربک ذاکر للّٰه تعالیٰ او عبد وضع جبهته علیک ساجد اللّٰه؟ فمن قائلة لا ومن قائلة نعم ' فاذا قالت نعم اهتزت وانشرحت وتری ان لها الفضل علی جارتها''
''اے ابوذر! کوئی صبح و شام ایسی نہیں ہے مگر یہ کہ زمین کا چپا چپا ایک دوسرے سے کہتا ہے: اے میرے ہمسایہ! کیا تم پر کوئی ایسا دقت گزرا جو ذکر خدا کرے، یا کوئی ایسا بندہ جو خدا کو سجدہ کرنے کے لئے تجھ پر پیشانی رکھے؟ بعض کہتے ہیں: ہاں اور بعض کہتے ہیں: نہیں، جو بھی ہاں کہے وہ اپنے اوپر ناز اور شادمانی کرتا ہے اور اپنے کو دوسروں پر برتر جانتا ہے۔''
ایک اور مطلب، جس کی طرف اس حدیث شریف میں اشارہ ہوا ہے، وہ یہ ہے، کہ جس زمین پر خدا کا بندہ عبادت کرتا ہے اور سجدہ کرنے کے لئے اپنی پیشانی اس پر رکھتا ہے، وہ اپنے اوپر ناز کرتے ہوئے مخر و مباہات کرتی ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ اس ناز کرنے اور فخر و مباہات کا راز کیا ہے؟ اس کا راز یہ ہے کہ جو چیز بنیادی طور پر خدا کے سامنے قدر و قیمت رکھتی ہے، وہ اس کی طرف توجہ ہے اور دوسرے کام اس وقت قدر و منزلت رکھتے ہیں، جب خدا کی توجہ کے ہمراہ اور قربت الی اللہ انجام پائیں۔ کام اس وقت خدا کے لئے انجام پاتا ہے، جب انسان خدا کی یاد میں ہو ورنہ جو خدائے متعال سے غافل ہو، اس کا کام قربة الی اللہ انجام نہیں پاتا ہے، بلکہ وہ کام یا اپنے دل کی مرضی یا اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے یا دیگر مادی نیتوں سے انجام دیا جاتا ہے اور اس کی خدا ئے متعال کے پاس کوئی قیمت نہیں ہے۔
پس خدا کی یاد، اس کی طرف توجہ اور جو چیز انسان کو ذات ابدیت سے ملحق کرتی ہے وہ اصالت اور حقیقت رکھتی ہے اور اسی طرح دوسری تمام چیزیں خدا کی یاد کے سائے میں قابل اہمیت ہیں اور خدا کی یاد کے بغیر ان کی کوئی حقیقت و اہمیت نہیںہے۔ اس لحاظ سے، انسان کا حقیقی کمال خدا کی توجہ کے سائے میں حاصل ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو، خدا کی طرف توجہ کے بغیر اور اعمال و عبادت کو قربةً الی اللہ اور اخلاص کے بغیر انجام دینا بے روح بدن کی طرح ناچیز اور بے قیمت ہے۔ پس، ہمارے تمام اعمال خدائے متعال کے لئے انجام پانا چاہئے:
(
قل انی امرت ان اعبد اللّٰه مخلصاً له الدین
)
(زمر١١)
''(اے پیغمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
!) کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کروں اور اپنے دین کو اس کے لئے خالص قرار دوں''
اخلاص، خاص کر دین میں اخلاص پر خدائے متعال کی تاکید، اس لئے ہے کہ انسان خدا کا بندہ ہے اور اسے خدا کی بندگی اور عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اسے اپنی زندگی کی راہ میں اور زندگی کے دوسرے تمام مراحل میں ، تکامل وترقی، سعادت اور بالیدگی کی فکر میں ہونا چاہئے یہ چیز اخلاص اور خدا کے سائے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے عبادت کو خدا کے لئے خالص بنانا، دین کا سب سے بڑا حکم ہے، کیونکہ انسان کے لئے خدا کے تقرب اور کمال تک پہنچنے کے لئے یہ بذات خود ایک اہم عامل ہے۔ اس لئے خدائے متعال ، چنانچہ قرآن مجید میں جگہ جگہ پر مخلصین کی ستائش کی گئی ہے، حضرت موسی کے بارے میں فرماتا ہے:
(
واذکرفی الکتاب موسیٰ انه کان مخلصاً و کان رسولاً نبیا
)
(مریم ٥١)
''اور اپنی کتاب میں موسیٰ کا بھی تذکرہ کرو کہ وہ میرے مخلص بندے اور رسول و نبی تھے''
(لام پر کسرہ کے ساتھ) مخلص اس معنی میں ہے جو اخلاص رکھتا ہے اور اپنے کام اخلاص سے انجام دیتا ہے۔ لیکن (لام پر فتحہ کے ساتھ) مخلص، یعنی جو خالص ہوا ہے۔ فطری بات ہے کہ ''خالص شدہ'' کو ایک خالص کرنے والے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ یقینا خدائے متعال ہے جو مخلصین کو خالص کرتا ہے، تاکہ شیطان ان کو گمراہ نہ کرسکے:
(
قال فبعزتک لا غوینهم اجمعین الاعبادک منهم المخلصین
)
(ص: ٨٢ ٨٣)
''اس نے کہا تو پھر تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا۔ سواء تیرے ان بندوں کے جو تیری بندگی میں خالص ہین۔''
اس آیت کی وضاحت میں قابل ذکر بات ہے کہ ''مخلصین'' نفسانی، روحانی اور معنوی توانائی کے مالک ہوتے ہیں جو شیطان کے دام میں پھنسنے سے مانع ہوتی ہے اور شیطان ان پر بُرا اثر نہیں ڈال پاتا ہے۔ البتہ خدائے متعال کے لطف و عنایت سے مخلصین اس توانائی سے بہرہ مند ہوئے ہیں، چنانچہ خدائے متعال حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:
(
ولقد همت به وهم بها لولا ان رء ا برهان ربه کذٰلک لنصرف عنه السوء والفحشاء انه من عبادنا المخلصین
)
(یوسف ٢٤)
''اور یقینا اس عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیا اور وہ بھی ارادہ کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں کیوں کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔''
اس آیۂ شریفہ میں تاکید ہوئی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام برائی اور گناہ میں مبتلا نہیں ہوئے، باوجود اس کے کہ ان کے لئے ایسے مناسب اور وسوسہ انگیز شرائط فراہم ہوچکے تھے کہ اگر دوسرا کوئی بھی انسان ان شرائط میں قرار پاتا، تو شیطان کے جال میں پھنس جاتا۔ کیونکہ حضرت یوسف غریزہ جنسی اور خواہشات کے نقطہ عر وج پر تھے اور عزیز مصر کے گھر کا ماحول بھی آرام و آسائش سے بھرا تھا اور عزیز مصر کی بیوی نے ایسے شرائط فراہم کئے تھے کہ اگر حضرت یوسف برہان الہٰی کا مشاہدہ نہ کرتے تو پھسل جاتے۔
اخلاص، بہترین عمل کا سبب:
مذکورہ مطالب کے پیش نظر، جو چیز انسان کے عمل کو قدر و منزلت بخشتی ہے اور انسان کے لئے شیطان کے آشکار و مخفی پھندوں سے نجات پانے کا سبب بنتی ہے، وہ خدائے متعال کی طرف توجہ دینا اور اخلاص ہے۔ اس لحاظ سے اگر مقدس ترین اور بڑے بڑے کام خدا کے لئے انجام نہ دئے جائیں تو ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ آیات و روایات کی تعبیر میں سب سے بہتر عمل جہاد ہے، یہاں تک خدائے متعال فرماتا ہے:
(
فضل اللّٰه الجاهدین باموالهم وانفسهم علی القاعدین درجةً وکلا وعد اللّٰه الحسنیٰ وفضّل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیماً
)
(نسائ٩٥)
'' اللہ نے اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر فضیلت و برتری عنایت کی ہے اور ہر ایک سے نیکی کا وعدہ کیا ہے اور مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں کے مقابلہ میں اجر عظیم عطا کیا ہے۔''
اب اگر اس عظمت اور شوکت کے با وجود جہاد خدا کی مرضی کے بغیر اور غیر الہٰی قصد سے انجام دیا جائے تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ بعض روایتوں کے مطابق، صدر اسلام کی جنگوں میں سے ایک جنگ میں ایک شخص بڑی شجاعت کے ساتھ لڑتے ہوئے قتل ہوا۔ اس شخص کی مجاہدت دلیری نے دوسروں کو اس کی ستائش کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس لئے انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: وہ شخص جس بہادری اور شجاعت سے لڑا، خدا کے نزدیک عظیم مقام رکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا: وہ خدا کی راہ میں شہید نہیں ہوا ہے بلکہ وہ اپنے گدہے کہ راہ میں قتل ہوا ہے۔ (جب اس کا گدھا خوف و وحشت کی وجہ سے دشمن کی فوج میں گھس پڑا تھا تو وہ شخص اپنے گدہے کو حاصل کرنے کے لئے دشمنوں سے لڑرہا تھا!)
جی ہاں، ہر جہاد و مبارزہ اور قتل ہونا انسان کو کمال تک نہیں پہنچاتا ہے۔ بلکہ انسان کو وہ شہادت کمال تک پہنچاتی ہے جو خدا کی یاد کے ساتھ ہو، ہمارے عزیز شہداء کی طرح کہ (ایران عراق جنگ کے دوران نذر کرتے تھے کہ شہید ہوجائیں۔ بعض اوقات چالیس شب جمعہ یا شب بدھ کو مسجد جمکران جاتے تھے اور شہادت کے لئے درخواست و آرزو کرتے تھے۔ یہ شہادتیں چونکہ خدا کی یاد اور اس کی توجہ کے ساتھ ہیں، اس لئے ان کی قدر و منزلت ہے۔
اعمال و رفتار ،قدر و قیمت اور عظمت یا پستی انسان کی نیت پرمنحصر ہے، اگر انسان کی نیت پاک ہو اور اس کا عمل خدا کے لئے انجام پائے تو اس عمل کی قدر و قیمت ہے، اب جس قدر خدا کی یاد زیادہ ہوگی اور محبت و معرفت الہٰی میں اضافہ ہوگا اسی اعتبار سے، اس کے عمل کی قدر و قیمت بھی زیادہ ہوگی۔ اس کے مقابلہ میں اگر عمل خدا کی معرفت و محبت اور اس کی یاد اور توجہ کے بغیر انجام دیا جائے تو وہ اس جسد کے مانند ہے جو بے روح و بے خاصیت ہے۔
زمین کے حصے جب ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں، تو وہ یہ نہیں کہتے ہیں: کہ کسی نے تم پر جہاد کیا یا تم پر انفاق کیا یا نہیں، بلکہ پوچھتے ہیں کہ کسی نے تمھارے او پر خدا کو یاد کیا ہے یانہیں؟ پس اگر انسان کا عمل خدا کی توجہ کے ساتھ انجام پائے تو وہ عبادت شمار ہوتا ہے اور اس صورت میں اس کا جہادکرنا، نماز پڑھنا اور انفاق کرنا سب عبادت کہلائے گا۔ علم حاصل کرنا، تدریس، بحث و گفتگو حتی تقریر سننا بھی عبادت میں شمار ہوگا لیکن اگر اخلاص نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کا عمل عبادت نہیں ہے، بلکہ دوسروں کی توجہ مبذول کرنے کاایک وسیلہ ہے!لہٰذا جو بات بہت ہی زیادہ قابل توجہ ہے اور جس کی اہمیت کو زمین کے ٹکڑے بھی درک کر چکے ہیںوہ خدا کی طرف توجہ اور اس کے دربار میں حاضری دینا ہے۔
جب ہم قرآن مجید کی ورق گردانی کرتے ہیں، تو ہم کسی ایسے صفحہ کو نہیں پا تے جس پر خدا کے ذکرا ور اس کی تسبیح کی بات نہ کہی گئی ہو۔ من جملہ خدائے متعال فرماتا ہے:
(
یا ایّها الذین آمنو اذکر وا اللّٰه ذکراً کثیراً
)
(اسرائ٤١)
''ایمان والو! اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو''
ایک دوسری جگہ پر خدائے متعال، عقلمندوں کے لئے، آسمان، زمین اور شب و روز کی گردش کی تخلیق کے دلائل ذکر کرتے ہوئے عقل مندو ں کا تعارف فرماتا ہے:
(
الّذین یذکرن اللّٰه قیاماً وقعو داوعلیٰ جنوبهم ویتفکرون فی خلق السمٰوات والارض...
)
(آل عمران ١٩١)
''جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں''
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے خدائے متعال سے عرض کی:
''یارب تمر بی حالات استحیی ان اذکرک فیها ' فقال: یا موسیٰ' ذکری علی کل حالٍ حسن''
خدا وندا! میرے لئے ایسے حالات پیش آتے ہیں، ان حالات میں تجھے یاد کرنے میں مجھے شرم آتی ہے (شاید ان کا مقصود قضائے حاجت کے وقت ہو) خدائے متعال نے جواب میں فرمایا: اے موسیٰ! میرا ذکر ہر حالت میں نیک ہے''
اس لئے حتی قضائے حاجت کرنے کے لئے بیت الخلا میں جاتے وقت بھی بعض دعائیں نقل ہوئی ہیں، تاکہ انسان اس حالت میں بھی خدا کی عبادت سے غافل نہ رہے، کیونکہ خدائے متعال راضی نہیں ہوتا ہے حتی ہماری عمر کا ایک لمحہ بھی اس کی توجہ اور عبادت کے بغیر گزرے اور انسانی کمال خدائے متعال کی عبادت و بندگی کے سایہ میں ہی ممکن ہے۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہر صورت اور ہر حالت میں ، خواہ ضعیف انداز میں کیوں نہ ہو لیکن خدا کی طرف توجہ رکھنی چاہئے۔ خدا کی یاد اور اس کی طرف توجہ ایک ایسی اکسیر ہے جو ہر ناچیز شیٔ پر لگا دی جائے، تو وہ گراں بہا چیز میں تبدیل ہو جاتی ہے، یہ اکسیر ہی ہے جو ہماری زندگی کو قدر و قیمت بخشتی ہے۔
____________________