گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)0%

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 138

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

مؤلف: حجة الاسلام شیخ محمد حسین بهشتی
زمرہ جات:

صفحے: 138
مشاہدے: 82422
ڈاؤنلوڈ: 3520

تبصرے:

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 138 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82422 / ڈاؤنلوڈ: 3520
سائز سائز سائز
گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

مؤلف:
اردو

ابن ابی الحدید

وہ شرح نہج البلاغہ میں حضرت امیر المؤمنین ؑکے اس جملہ (وبنا يختم لا بکم ) کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں آپؑ کا اشارہ اس جملہ میں امام مھدی ؑکی طرف ہے کہ جو آخری زمانے میں ظہور کریں گے۔ اکثر محدثین کا کہنا ہے کہ آپؑ اولاد حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا میں سے ہیں ۔

معتزلہ کے ماننے والے اس بات کا انکار نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنی کتابوں میں وضا حت سے بیان کرتے ہیں ۔ ان کے اکابرین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگرچہ آپؑ پیدا نہیں ہوئے ہیں مگر آپؑ ضرور تشریف لا ئیں گے ۔(۱)

____________________

(۱) الامام مہدی عند اہل سنہ؛ ج ۲،ص ۱۶۰، ص۱۵۸

۴۱

علاّمہ خیرین آلوسی

آپؑ کتاب'' غایة المواعظ '' میں بیان فرماتے ہیں ۔ اکثر علماء اور بزرگان کے کہنے کے مطابق ظہور مھدی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، اگر کوئی اہل فضل اس بات سے انکار کردے توگویا اس کا کوئی اعتبار اور قیمت نہیں ہے اس کے بعد وہ کہتے ہیں :ہم نے حضرت امام مھدی ؑکے بارے میں جو بات کی ہے وہ اہل سنت کی نظر میں معتبر، صحیح اور موثق ہے ۔(۱)

____________________

(۱) الامام مہدی عند اہل سنہ؛ ج ۲،ص ۱۶۰،ص ۱۵۸

۴۲

حذیفہ

حذیفہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اگر دنیا کی عمر صرف ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہ جائے تو اس دن خداوند عالم ایک ایسے شخص کو ظاہر کرے گا جس کا نام میرا نام ہو گا جس کا خلق وخو میرا خلق وخو ہوگا جس کی کنیت میری کنیت ہو گی۔ جس کا کام میرا کام ہو گا۔

حضرت بقیة اللہ ا لاعظم امام مہدی ؑکے بارے میں شیعوں کی لکھی ہوئی کتابیں درج ذیل کتابیں علماء شیعہ سے منسوب ہیں مرحوم علامہ آقا بزرگ تہرانی نے کتاب شریف '' الذریعہ الیٰ تصانیف شیعہ '' میں نقل فرمایا ہے:۔

١۔ المھدی مرحوم خندق آبادی

٢۔ کتاب الغیبہ والحیرہ ابی العباس حمیری قمی

٣۔ المھدی جلال الدین مردوشتی

٤۔ کتاب الغیبہ و ذکر القائم ابی اخی طاہر

٥۔ المھدی ابو موسیٰ عیسیٰ بن مہران

٦۔ رسالة فی الحجہ مرحوم شیخ صدوق

٧۔ المھدی موعود سید علی لاہوری

٨۔ رسالة فی غیبة الحجہ سید مرتضیٰ علم الھدیٰ

٩۔ کتاب قائم علی بن مھزیار

١٠۔ رسالة فی غیبة الحجہ میرزا علی اکبر عراقی

١١۔ رسالةفی غیبة الامام سید دلدار

١٢۔ کتاب الغیبہ شیخ مفید

یہ وہ کتابیں ہیں جو بہت قدیمی ہیں اور گزشتہ صدیوں میں لکھی گئی ہیں ۔

۴۳

حضرت امام مہدی ؑکے بارے میں اہل سنّت کی لکھی ہوئی کتابیں :

١۔ البیان فی الاخبار صاحب الزمان گنجی شافعی

٢۔ المھدی حماد بن یعقوب

٣۔ عقد الدرر فی اخبار مھدی المنتظر ابی بدر مقدس

٤۔ علامات المھدی المنتظر ابن حجر عسقلانی

٥۔ البرھان فی علامات مھدی آخر الزمان متقی ہندی

٦۔ علامات المھدی جلال الدین سیوطی

۴۴

امام زمان ؑ کی ابتدائی دنوں کے مشکلات

گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعدحضرت کے لئے ٣٢٨؁ھ تک کا دور بڑی مشکلات اور مصیبتوں کا زمانہ رہا ہے۔ ان دنوں میں محمد وآل محمد علیہم السلام پر بنی عباس کے مظالم، بنی امیہ کے مظالم سے کچھ کم نہ تھے۔ اس دور میں سادات اور ان کے ارادتمندوں، عقیدتمندوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں ان کے خون سے گارے بنائے گئے۔ مکانوں کی بنیادوں میں، دیواروں میں زندہ چنوائے گئے۔ سولیوں پر چڑھائے گئے حبس ابد کی سزائیں ملیں، جائدادیں ضبط ہوئیں مختلف قسم کے مصیبت اور آلام میں گرفتار ہوئے۔ بنی عباس کے خلیفہ معتمد نے حضرت امام زمان علیہ السلام کو شہید کرنے کا مکمل پروگرام بنایا۔

اس حالے سے ہر طرف سے جاسوس مقرر کئے۔ مردوں، عورتوں، غلاموں ،کنیزوں کی شکل میں معین کئے۔ پروگرام کے مطابق حضرت امام زمان علیہ السلام کو پیدا ہوتے ہی قتل کرنا تھا مگر اس میں وہ ناکام رہے تو حضرت کی سراغ رسانی کے لئے دوسرے بڑے بڑے انتظامات کئے گئے اس دوران آپ کی خفیہ تلاش صرف شہروں تک محدود نہیں تھی بلکہ جنگل ، ریگستان، صحرا، میدانی علاقے اور غیر آباد جگہوں پر حکومت کی طرف سے جاسوس لگے ہوئے تھے خاص طور پر جہاں پر شیعہ اکثریت سے بستے تھے۔ جس شخص پر شک ہوتا تھا کہ وہ حضرت امام زمان علیہ السلام سے رابطہ میں ہے اسے مار دیا جاتا تھا۔

۴۵

مومنین کی حالت یہ تھی کہ عزیزوں سے دوستوں سے آپس میں ملنا چھوڑ دیا تھا باپ بیٹے کے درمیان عہد وپیمان کے بعد حضرت کے بارے میں کوئی بات کرسکتے تھے۔ان پریشان حال لوگوں کا نہ کوئی کاروبار تھا نہ ہی روزگار، نتیجہ یہ ہوا کہ اپنا اپنا شہر بار چھوڑ کر خاندان کے خاندان اطراف عالم میں نکل گئے اور مختلف ملکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ان میں سے اکثر جنگلوں ،پہاڑوں میں حیران وپریشان،سرگردان پھرتے رہے اور خانہ بدوشی میں زندگی بسر کی بہت سے غریب عالم غربت ومسافرت میں بہت ہی مظلومانہ مرگئے۔ ہزاروں درود وسلام ہو اس زمانے کے راسخ العقیدہ شیعوں پر جنہوں نے نہیات ہی صبر وتحمل اور ثابت قدمی کے ساتھ ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بنی عباس کے حکمرانوں کی طرف سے قیامت خیر مظالم سے صفحہ قرطاس پر ہیں۔ یہاں پر مومنین اور مسلمین کی آگاہی آیئے صرف ایک واقعہ نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ ایک دفعہ معتضد نے حکم دیا کہ حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو کسی طریقے سے گرفتار یا قتل کر ڈالیں۔ اس حوالے سے صدارتی گارڈ کے ایک فوجی دستے کو سامراء میں امام علی نقی علیہ السلام کے گھر کا محاصرہ کرنے کا اور جس کو بھی جس حالت میں ملے گرفتار کر کے لے آئیں۔

چنانچہ اس فوجی دستے نے شاہی حکم پر چاروں طرف سے مکان کو گھیر لیا آمد ورفت کے تمام راستے بند کردیئے۔ کچھ فوجی مع افسران کے گھر کے اندر داخل ہوئے حسب دستور اس سرداب مقدس کے قریب پہنچ گئے جو مکان کے آخری حصے میں ایسے مخفی مقام پر واقع تھا جہاں کسی کے رہنے کا احتمال نہیں ہوسکتا ہے ایسے میں وہاں سے کسی کی دلنشین انداز میں تلاوت قرآن مجید کرتے ہوئے سنایا گیا۔جس کو سن کر سب حیران رہ گئے فوجی دستے کے افسر نے باہر کے سپاہیوں کو بھی اند ر بلا لیا اور کہا ہمارا جو ہدف ہے وہ اسی سرداب کے اندر موجود ہے پس اس کو گرفتار کرنا ہے وہ یہیں پر موجود ہیں محاصرہ کی ضرورت نہیں ہے اب سب مل کر اس کو پکڑ لینا۔اتنے میں حضرت امام زمان علیہ السلام سرداب سے باہر آئے اور ان لوگوں کے سامنے سے نکل کر سب کی نگاہوں سے غائب ہوگئے بہت سے سپاہیوں نے حضرت کو نکلتے ہوئے دیکھا کچھ کی نظریں نہ پڑیں مگر جب فوجی افسر نے سرداب کے اندر داخل ہونے کا سپاہیوں کو حکم دیا تو دیکھنے والوں نے کہا کہ ایک صاحب ابھی برآمد ہوئے تھے اور اس طرح کو چلے گئے افسر نے کہا کہ ہم نے تو کسی کو نکلتے نہیں دیکھا جب آپ نے کچھ نہ کہا تو ہم نے بھی توجہ نہ کی۔ اس صورت حال سے سب دنگ رہ گئے پھر ہر چند کوشش کی گوشہ گوشہ چھان ڈالا لیکن کوئی نشان نہ ملا۔ آخر کار ندامت وشرمندگی کے ساتھ یہ گروہ واپس ہوگیا اور معتضد کو صورت حال سے آگاہ کیا۔

۴۶

نور خدا کفر کے حرکت پر خندہ زن پھونکوں سے یہ نور بجھایا نہ جائے گا

جن کو قدرت نے یہ بتا دیا کہ حجت خدا کا نگہبان خدا ہے جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون!

معاندین کی کوئی ظالمانہ حرکت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ پہلے بھی خدا والوں کے کیسے کیسے محاصرے ہوتے رہے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے گرفتار کرکے پھانسی دینے کے ارادے سے ایک گھر میں بند کردیا تھا مگر خداوند عالم نے ان کو تو اٹھا لیا اور یہودیوں کے سردار یہودا کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں کردیا جو سولی پر چڑھا دیا گیا،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کرنے کے سلسلہ میں کفار ومشرکینن نے بڑی بڑی تدبریں کرتے رہے یہاں تک کہ شب ہجرت کیسا محاصرہ ہوا مگر حضرت اندر سے باہر تشریف لائے دشمنوں کے سامنے سے چلے گئے اور کسی نے نہ دیکھا اسی طرح حضرت حجت علیہ السلام کی حفاظت کا واقعہ ہوا کہ سرداب سے تشریف لا کر حملہ کرنے والوں کے درمیان سے نکلے لیکن ان قاتلوں کی آنکھوں پر ، عقلوں پر ایسے پردے پڑے کہ کچھ نہ کرسکے مگر اپنی اس ناکامی وشان الٰہی کے مظاہرہ سے بھی کچھ سبق نہ لیا اور گمراہی کی دیواروں میں محصور رہے۔

غیبت کا آغاز ، غیبت صغریٰ ، غیبت کبریٰ

الف۔ غیبت کا آغاز

حضرت امام حسن عسکری ؑآٹھ ربیع الاوّل ٢٦٠ ؁ ہجری قمری کو عباسی خلیفہ معتمد کے ہاتھوں شہید ہوئے تو حضرت مہدی ؑجنکی عمر ابھی پانچ سال سے زیادہ نہ تھی آپ نے اپنے والد بزرگوار کی پیکر مبارک پر نماز اداکی ۔(۱)

____________________

(۱) سید محسن امین؛ ص ۲۵۹

۴۷

ب۔ غیبت صغریٰ و غیبت کبریٰ

(وله قبل قَياَمه غيبَتَان: احدايهما اَطوَلُ مِنَ الاُخریٰ کما جاأت بذالک الاخبارفَاِنّما القصریٰ مِنهمامنذئوقتِ مؤ لد الیٰ انقطاع السّفارةبينّة و بين شيعته وعدم السُّفراء بالوفاه و امّا الطّول لی فهی بعدالأولیٰ وفی آخرِها يقوم با السّيف )(۱)

حضرت ؑ کے قیام سے پہلے دو غیبت ہیں ۔ ایک، دوسرے سے زیادہ طولانی ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں کچھ اس طرح آیا ہے۔

ایک (غیبت صغریٰ) ہے جو آپؑ کی ولادت سے لے کرآپؑ کے سفراء اور نائبین تک کے زمانہ پر محیط ہے آپؑ کے معتمد نائبین کی رحلت کے بعد آپؑ غیبت کبریٰ میں چلے گئے جس میں آپؑ اپنے ظہور پر نورتک لوگوں سے مخفی رہیں گے۔

____________________

(۱) ارشاد مفید؛ باب ۳۵، ص ۶۷۳

۴۸

غیبت صغریٰ

حضرت امام زمان علیہ السلام کی غیبت ایسی ہی ہے کہ جیسی گذشتہ امتوں میں بعض انبیاء علیہم السلام وا ولیاء علیہم السلام کی غیبتیں ہوئیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ میری امت میں ہو بہو وہ باتیں ہوں گی جو گذشتہ امتوں میں پیش آتی رہیں ہیں لہٰذا حسب حالات مذکورہ اس امت میں بھی حجت خدا حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت ہوئی۔

سب سے پہلے ظالمین کے ظلم وستم کی وجہ سے حضرت ادریس علیہ السلام کو جو حضرت آدم علیہ السلام کی پانچویں پشت میں حضرت نوح علیہ السلام کے پر دادا ہیں غیبت کا حکم ہوا جبکہ بادشاہ وقت ان کے قتل کی فکر میں تھا چنانچہ وہ غائب ہوئے اور قوم کی شقاوت اور نافرمانی سے اس شہر میں اور اس کے اطراف میں بیس ٢٠ برس تک بارش تک نہ برسی اتنی مدت میں حضرت ادریس علیہ السلام پہاڑوں میں ویرانوں میں پوشیدہ رہے جب وہ ظالم حکمراں ہلاک ہوگیا اور قوم نے توبہ کی تو حضرت ادریس علیہ السلام ظاہر ہوئے اور آپ کی دعا سے بارش ہوئی پھر وہ وقت آیا کہ بالائے آسمان اٹھا لئے گئے۔

حضرت نوح علیہ السلام نے وقت وفات مومنین سے فرمایا تھا کہ میرے بعد غیبت کا زمانہ آئے گا یہاں تک کہ مدت کے بعد قائم آل نوح علیہ السلام ظاہر ہوں گے جن کا نام ہود ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور محبت خدا کی غیبت کا زمانہ اتنا طویل رہا کہ لوگ حضرت ہود علیہ السلام کے ظہور سے ناامید ہونے لگے تھے حضرت خضر علیہ السلام کی غیبت اب تک ہے اور حضرت امام زمان علیہ السلام کے رفیق ہیں آپ کا معجزہ یہ رہا ہے کہ آپ جس خشک زمین پر بیٹھتے وہ سر سبز وشاداب ہوجاتی جس خشک لکڑی پر تکیہ کرتے اس سے پھول پتے نکل آتے چونکہ خضرۃ کے معنی سبزی کے ہیں اس لئے ان کو خضر کہتے ہیں آپ نے آب حیات پیا ہے اسی لئے قیامت کے وقت صور پھونکے جانے کے وقت تک زندہ رہیں گے۔ بعض صالحین نے ان کو مسجد سہلہ اور مسجد صعصعہ میں دیکھا ہے جس قوم کی طرف وہ مبعوث ہوئے تھے اس نے ان ہیں ایک کمرے میں بند کرکے راستے میں مٹی پتھر سے روک دیئے تھے جب دروازہ کھولا گیا تو کمرہ خالی تھا وہ بحکم الٰہی وہیں سے غائب ہوگئے خداوند رب العزت نے وہ قوت عطا فرمائی کہ جس شکل وصورت میں چاہیں متشکل ہوجائیں حضرت خضر علیہ السلام کا تعلق دریاؤں سے ہے بے راہیوں کی رہبری فرماتے ہیں ہلاکت سے بچاتے ہیں اور حضرت امام زمان علیہ السلام کے رفقاء میں سے ہیں۔

۴۹

اسی طرح حضرت الیاس علیہ السلام کی غیبت ہے بنی اسرائیل کے پیغمبر رہے قوم ان کی تکذیب کرتی اور ان کی توہین کرتی رہی مدت تک ان کے ظلم وستم پر صبر کرتے رہے مگر جب وہ قتل کرنے پر تل گئے تو آپ ایک پہاڑ میں غائب ہوگئے اور سات برس اسی حالت میں گزرے کہ زمین کی گھاس غذا رہی خداوند رب العزت نے وحی کی کہ اب آپ جو چاہو سوال کرو عرض کیا کہ میں قوم بنی اسرائیل سے بہت بیزار ہوں تو مجھے دنیا سے اٹھالے ارشاد رب العزت ہوا کہ یہ وہ زمانہ نہیں ہے جو زمین واہل زمین کو تم سے خالی دیکھوں اس عہد میں زمین تمہاری وجہ سے قائم ہے اور ہر زمانہ میں میرا ایک خلیفہ ضرور رہتا ہے پس خداوند عالم نے وہ طاقت وکرامت فرمائی کہ حضرت الیاس علیہ السلام بھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح زمین پر موجود وغائب ہیں حضرت حجت علیہ السلام کی رفاقت کا شرف حاصل ہے جنگلوں میں پریشان حالوں کی رہنمائی ضعیفوں کی دستگیری فرماتے ہیں حضرت صالح علیہ السلام جب اپنی قوم ثمود کو ایک سو بیس ١٢٠ برس تک ہدایت کرتے رہے مگر انہوں نے بت پرستی نہ چھوڑی تو ان سے پوشیدہ ہوگئے اور اتنی مدت تک غیبت رہی کہ کچھ لوگ خیال کرنے لگے کہ آپ انتقال فرماگئے ایک گروہ کو یقین تھا کہ وہ زندہ ہیں جب ظاہر ہوئے تو کسی نے ان کو نہ پہچانا۔ حضرت صالح علیہ السلام سے کہا گیا تھا کہ اس پتھر سے جس کی لوگ پرستش کرتے تھے اونٹنی مع بچہ کے نکال دو تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے آپ نے دعا کی قبول ہوئی پھر بھی ایمان نہ لائے اور ایک شقی القلب کو لالچ دے کر اس اونٹ کے پاؤں کٹوا دیئے ٹکڑے ٹکڑے کیا گوشت کو کھایا توبہ کے لئے تین دن کی مہلت ملی لیکن وہ نہ سمجھے۔ چوتھے روز بڑی چیخ وپکار کی آواز ہوئی کانوں کے پردے پھٹ گئے زمین کو زلزلہ آیا قلب وجگر پاش پاش ہوگئے آسمان سے آگ آئی جس نے سب کو جلا کر خاکستر کردیا۔

۵۰

حضرت شعیب علیہ السلام کی عمر دو سو بیالیس ٢٤٢ برس کی ہوئی قوم کو ہدایت کرتے کرتے بوڑھے ہوگئے اور مدت تک غائب رہے پھر خدا کی قدرت اور عنایت سے جوانی کی حالت میں پلٹ گئے اور رہنمائی میں مصروف ہوئے قوم نے کہا ہم نے تمہارا کہنا اس وقت تک نہ مانا جب تم بوڑھے تھے اب تو جوانی میں تمہاری باتوں کا کیسے یقین کریں۔حضرت یونس علیہ السلام بھی اپنی قوم سے غائب ہوئے بلکہ ان کی غیبت تو ایسی ہے کہ مچھلی کے پیٹ میں رہے ٣٣ برس سمجھایا مگر دو افراد کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ بارگاہ خداوندی میں بڑے اصرار کے ساتھ نزول عذاب کی دعا کی بالآخر عذاب نازل ہونے کا مہینہ، دن اور وقت مقرر ہوا جس کی اطلاع دے کر خود آبادی سے باہر آئے اور پہاڑ کے کسی گوشے میں چھپ گئے جب عذاب کا وقت قریب آیا تو اس قوم نے صحرا میں پہنچ کر بوڑھوں کو جوانوں سے جدا، عورتوں کو شیر خوار بچوں سے جدا، حیوانوں کو ان کے دودھ پیتے بچوں سے جدا کرکے فریاد شروع کردی ۔یکایک عذاب کے آثار دیکھے کہ زرد آندھی آئی جس میں خوفناک صدائے عظیم تھی سب نے گریہ وزاری کے ساتھ توبہ واستغفار کی آوازیں بلند کیں بچے اپنی ماؤں کو ڈھونڈتے اور روتے تھے جانور اپنے بچوں سے علیحدہ ہونے پر شور کررہے تھے رحمت الٰہی جوش میں آئی اور عذاب ٹل گیا۔ اس کے بعد حضرت یونس علیہ السلام یہ خیال کرکے کہ سب ہلاک ہوگئے ہوں گے شہر کی طرف آئے مگر وہاں سے چرواہوں کو آتے دیکھا اور سمجھ گئے کہ عذاب الٰہی نہیں آیا ہے آپ اس تصور میں کہ قوم مجھے جھوٹا کہے گی مخفی ہوگئے بیابانوں میں پھرے یہاں تک کہ دریا پر آئے کشتی میں سوار ہوئے اور مچھلی نگل گئی پھر باہر نکلے اپنی قوم میں واپس آئے تب سب نے تصدیق کی اور ان میں رہنے لگے حضرت یونس علیہ السلام کی غیبت ایسی تھی جس سے متعلق خداوند عالم نے فرمایاہے کہ اگر وہ اس کی تسبیح نہ کرتے تو روز قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔

۵۱

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طرح طرح سے ستایا جب یہودی تھک گئے تو پھانسی دینے کے ارادے سے ان کو ایک مکان میں بند کردیا رات کا وقت تھا بحکم الٰہی جبرئیل آئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دشمنوں سے نکال کر بالائے آسمان لے گئے۔ صبح کو یہ سب ظالم پھانسی لگانے کے قصد سے جمع ہوئے اور ان کا سردار جس کا نام یہودا تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو باہر لانے کے لئے تنہا اس مکان میں داخل ہوا خداوند رب العزت نے اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں کردیا۔ جب اس نے ان کو وہاں نہ پایا تو دوسروں کو خبر دینے کے واسطے لوٹا اس کے باہر آتے ہی قبل اس کے کہ وہ کچھ کہے یہودا کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر پکڑ لیا اس نے شور مچایا کہ میں عیسیٰ ؑ نہیں ہوں یہودا ہوں۔ مگر کسی نے اس کی نہیں سنی اور اس کو سولی پر چڑھایا پھر خدا کی قدرت سے اس کی اصلی صورت ہوگئی۔

اس وقت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی غیبت ہے جب حضرت امام زمان علیہ السلام کا ظہور ہوگا تب آسمان سے اتریں گے اور ظاہر ہونگے۔

مذکورہ غیبتوں کے علاوہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی غیبتیں بھی ہیں ، جب بنی اسرائیل پر بلاؤں کا وقت آیا تو چار سو سال تک انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام ان سے غائب رہے باوجودیکہ روئے زمین پر حجت خدا موجود تھے لیکن غیبت رہی یہاں تو صرف چند حضرات سے متعلق روایات کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے جس پر نظر کرنے سے امام زمان علیہ السلام کی غیبت صغریٰ اور غیبت کبریٰ دونوں کی صورتیں سمجھنے میں آسانی ہوجائیگی۔

۵۲

نوّاب امام مھدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا تعارف:

غیبت صغریٰ کے دوران حکومتی کا رندے امام ؑ کو نہیں دیکھ سکتے تھے اور عام لوگ بھی آپ کے دیدار سے محروم تھے لیکن امامؑ کے ماننے والے اور قریبی افراد آپؑ سے وقتاً فوقتاً ملاقات کرتے رہتے تھے اس عرصہ میں چار افراد ایسے تھے جو امام ؑ کے قریبی اور خاص تھے انہیں کے توسط سے لوگ اپنے مسائل حل کراتے تھے یہ افراد امامؑ اور لوگوں کے درمیان واسطہ اور پل کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :۔

١۔ عثمان بن سعید عَمری

یہ شخص حضرت امام علی نقی ؑکے خاص صحابی اور مورد اعتماد تھے ۔عثمان بن سعید حضرت امام حسن عسکری ؑکے دور امامت میں گھی بیچنے کے بہانے امامؑ اور لوگوں کے درمیان واسطہ کا کردار ادا کرتے تھے۔ امام عسکری ؑکی شہادت کے بعد آپ حضرت امام مھدی ؑکے پہلے نائب مقرر ہوئے ،لوگ آپ کے ذریعہ امامؑ سے اپنے مسائل حل کراتے تھے۔

۵۳

٢۔ محمد بن عثمان

حضرت امام مہدی ؑکے پہلے نائب کی رحلت کے بعد محمد بن عثمان امام کے نائب خاص منتخب ہوئے ،شیعہ آپ کے علاوہ کسی اور کو نائب امام نہیں مانتے تھے۔ آپ سے لوگوں نے بہت سی کرامات دیکھےں ۔محمد بن عثمان ۵۰سال تک نیابت امامؑ کے منصب پر فائز رہے۔آپ اپنی وفات سے پہلے حضرت امام زمان ؑکی توسط سے جانتے تھے کہ آپ کب رحلت فرمائیں گے۔

٣۔ حسین بن روح نوبختی

دوسرے نائب امام ؑ کی رحلت کے بعد حسین بن روح نوبختی نائب امام منتخب ہوئے اور مسلمانوں کے مالی امور کے عہدہ کو سنبھالا۔ جب بغداد کو حامد بن عباس نے فتح کیا تواس وقت حسین بن روح نو بختی کو گرفتار کیا گیا۔ اس عرصہ میں ابوجعفر محمد بن علی سلمخانی نیابت کی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ جب بعد میں اس کے انحراف فکری کو پہچان لیا تو حسین بن روح نو بختی نے ایک خط کے ذریعے لوگوں کو اطلاع دی کہ سلمخانی کو اس عہدہ سے ہٹایا گیا ہے سال ۳۲۶ہجری قمری کو حسین بن روح رحلت فرماگئے۔

٤۔ علی بن محمد سمری

تیسرے نائب امامؑ کی رحلت کے بعد حضرت امام زمان ؑکے حکم سے علی بن محمد سمری کو حسین بن روح کا جانشین اور نائبِ امام منتخب کیا گیا۔ تین سال تک آپ امامؑ اور لوگوں کے درمیان واسطے کا کردار ادا کرتے رہے آپ کی وفات سے قبل لوگوں نے سوال کیا کہ آپ کے بعد نائب امام اور آپ کا جانشین کون ہوگا؟تو آپ نے فرمایا: خدا کا حکم ہے جو ذمہ داری میری گردن پر ہے میں اسے انجام دوں ۔ اس طرح آپ دنیا سے رحلت فرماگے۔

جب غیبت صغریٰ کا زمانہ ختم ہوا تو پھر غیبت کبریٰ کا دور شروع ہوا جو امام ؑکے ظہور تک جاری رہے گا۔

۵۴

غیبت کبریٰ کے ظاہری اسباب

در حقیقت حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا مخفی رہنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ غیبت کے ضرور ایسے اسباب ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو غیبت بھی نہ ہوتی ، جیسا کہ باقی ائمہ طاہرین علیہم السلام میں سے کسی کی غیبت نہیں ہوئی سب کچھ برداشت کیا مگر نظروں سے مخفی نہیں ہوئے ۔ اگرچہ ان کے اوپر کڑی پہرے لگے ہوئے تھے مگر سلاطین جانتی تھیں کہ یہ انہی دنیوی حکومت بنانے کے لئے کھڑے نہیں ہونگے بلکہ اس کا تعلق مہدی موعود سے ہے جو گیارہ اماموں کے بعد آنے والے ہیں اس لئے حکمرانوں اور سلاطین کی آنکھیں اول ہی سے حضرت امام زمان علیہ السلام کی طرف ایسی لگی ہوئی تھیں کہ قدرت کے انتظامات سے حضرت کی ولادت بھی پوشیدہ طور پر ہوئی وہ یہ تو سمجھے ہوئے تھے کہ بارہویں امامت کے زمانہ میں دنیا کی صورت بدلے گی مگر یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس زمانہ میں یہ سب انقلابات کب ہونگے کس وقت ہونگے اگر انہیں یہ معلوم ہوتی کہ ہماری حکومت ان کے ہاتھ سے نہیں بلکہ پہلے ہی حوادث زمانہ سے ختم ہوجائے گی تو شاید حضرت امام زمان علیہ السلام کے تجسّس میں ایسی کوششیں نہ کرتے جو ہوئیں۔

باقی ائمہ طاہرین علیہم السلام کے واقعات اور امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے حالات میں بڑا فرق تھا ۔ ان حضرات علیہم السلام کی شہادتوں پر سب کے قائم مقام موجود تھے اور ہر امام نے اپنے بعد کے لئے امت کی ذمہ داریاں اپنے جانشین کے سپرد فرمائی ہیں لیکن حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ آخری امام تھے بارہ کے بعد تیرھواں آنے والا نہ تھا آیندہ کے لئے امامت کا دروازہ بند ہوچکا تھا اگر حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ پر دشمنوں کا غلبہ ہوجاتا تو نتیجہ میں زمین حجت خدا سے خالی ہوجاتی ۔ وہ پیش گوئیاں صحیح نہ رہتیں جو روز اوّل سے مھدی موعود علیہ السلام کے بارے میں ہوتی چلی آرہی تھی وعدہ الٰہی غلط ہوجاتا کہ ان کی حکومت تمام روئے زمین پر ہوگی ان کے مبارک ہاتھوں سے ظالمین کا خاتمہ ہوگا اور ساری زمین ان ظالم اور فاسق حکمرانوں سے پاک ہوکر عدل وداد سے بھر جائے گی حالانکہ یہ ناممکن ہے کہ خدوند کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان جو آنے والے حالات اور واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ وقوع میں نہ آئیں یہ سب باتیں دنیا کے آخری حصہ میں پوری ہوکر رہیں گی اور اس وقت تک دنیا میں حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ کا موجود رہنا لازمی امر ہے۔

۵۵

خداوند عالم کی طرف سے بھی مجبور نہیں کئے جاسکتے تھے کیونکہ بندے اپنے افعال میں مختار ہیں اور جبر غلط چیز ہے پس حضرت کی حفاظت صرف صورت غیبت میں منحصر تھی اس لئے عوام کی نظروں سے مخفی ہوئے ہیں ۔

حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی غیبت کبریٰ سے پہلے غیبت صغریٰ رہی چونکہ حضرت کے وجود امامت کا مسئلہ مشتبہ بنایا جانے والا تھا اس لئے ضرورت تھی کہ ایک زمانہ ایسا بھی ہو جو عین دیکھنے والے حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ کو بحیثیت امامت پہچان کر دیکھ لیں تاکہ حضرت کے وجود اقدس سے انکار کرنے والوں کو یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ جس کو کسی نے کبھی نہ دیکھا اس کی موجودگی اور امام ہونے پر کیسے ایمان لایا جائے یہ تو خدا ہی کی خصوصیت ہے کہ اس کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ آیندہ کبھی کوئی دیکھ سکتا ہے وہ خود دکھائی نہیں دیتا بلکہ اس کے آثار وجود نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت کی ولادت کے بعد پدر بزرگوار نے بقدر ضرورت اپنے فرزند کو دیکھا یا اور بہت سے لوگوں کو اطلاع دیں پھر کافی زمانہ تک خود حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف نے مومنین کو اپنی ملاقات سے مشرف فرمایا یا ہزاروں انسان مطلع ہوئے اور نائبین کے ذریعہ سے تمام کام پورے ہوتے رہے لیکن جب حالات بدلے اور نائب خاص کی خدمت میں لوگوں کی حاضری نظروں سے کھٹکی اور ان کی مرجعیت بھی حکومت کو ناگوار ہونے لگی اور اس میں بھی مصیبتوں کا مقابلہ ہوا تو غیبت صغریٰ کی صورت ختم ہوئی اور غیبت کبریٰ کا وقت آگیا ۔

۵۶

غیبت صغریٰ میں یہ صورت بھی پیش آئی کہ نیابت اور سفارت کے جھوڑے مدعی پیدا ہونے لگے جن پر حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ نے اپنے فرمانوں میں لعنت فرمائی ہے اور اظہار برائت کیا ہے ۔

ابو محمد شریعی ، محمد بن نصیر نمیری ، احمد بن ہلال کرخی ، محمد بن علی شلغمانی وغیرہ نے اپنے اپنے لئے غلط دعوئے کرکے فتنہ وفساد پھیلانا شروع کردیا یا خمس وغیرہ کی رقمیں وصول کرنے لگے حضرت پر افتراء اور بہتان ، باطل عقیدے ، بہیودہ مسئلہ تلقین ہونے لگے ، کفر والحاد کی نوبت پہنچ گئی اور ایسی خلاف شریعت باتوں کا سادہ لوح افراد پر بُرا اثر پڑنے لگا ، حکومت کے مظالم تو جھیلے جارہے تھے لیکن عقیدتمندوں کے پردے میں ان دشمنوں کا یہ ظلم وستم طرح طرح کی گمراہیاں پھیلانا مومنین میں تفرقہ اندازی اور ان کو دھوئے دینا حضرت کی طرف سے اپنا تقریر بتا کر رسوخ پیدا کرنا اس جھوٹی نسبت کو اپنی بدکرداریوں میں کامیابی کا ذریعہ بنانا ناقابل عفو جرائم تھے جن کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

۵۷

اور جن کے انسداد کی یہی صورت تھی کہ سفارت اور وکالت کا وہ سلسلہ ہی ختم کردیا جائے جس کے بہانے سے یہ کاذب وظالم سب کچھ کررہے تھے چنانچہ نیابت کا دروازہ بند ہوگیا ، جس کی اطلاعات مخلص مومنین کو پہنچ گئیں اور وہ ان کی بلاؤں سے محفوظ ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت کا وہ نور ہدایت بھی حجاب میں آگیا جو زمانہ غیبت صغریٰ نائبین کے ذریعہ نفاذ احکام سے مومنین میں پھیلا ہوا تھا اور غیبت کبریٰ واقع ہوگئی ۔

غیبت کبریٰ کا یہ سبب بھی کس قدر روشن اور واضح ہے کہ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو دنیا میں خونریزی کا سلسلہ جاری ہوجاتا کیونکہ لوگ جانتے تھے کہ آخری امام کا وجود آخری وقت تک رہنے والا ہے جس میں سارے عالم پر آپ کی حکومت ہوگی اس خوف میں ہرزمانہ کی تمام سلطنتیں اپنے اپنے زوال کے خیال سے حضرت کے مقابلہ میں آتیں چاہیے یہ مدافعانہ لڑائیاں ہوتیں لیکن روئے زمین پر خون کی ندیاں بہتی رہتی حالانکہ اسلامی نظریہ ہمیشہ صلح اور امن پسندی رہا ہے مسلمان ہر ایک انسان کی سلامتی کا خواہاں رہتا ہے مومن دنیا میں بقاء امن وامان کا حامی ہوتا ہے اس لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کسی جنگ کی ابتداء نہیں ہوتی اور تبلیغ اسلام کے واسطے حضرت نے اخلاقی ہتھیاروں کو چھوڑ کر مادی آلات کو استعمال نہیں کیا اور کبھی تلوار نہیں اٹھائی بلکہ جتنی لڑائیاں ہوئیں سب دفاعی اور جوابی کاروائی تھی ۔ حضرت ائمہ طاہرین علیہم السلام کے پیش نظر ہمیشہ دنیا میں امن وامان کے قیام کا مسئلہ رہا ، طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں مگر صبروتحمل سے کام لیا اپنے حقوق پامال ہوتے دیکھئے مگر صبر کیا۔

۵۸

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام جن کی تلوار کے جوہر بدر ، احد ، خندق اور خیبر وغیرہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کی لڑائیوں میں یادگار ہیں انہوں نے پچیس برس کی خاموشی سے گزارے اور اپنی حق طلبی کے لئے جنگ پر آمادہ نہ ہوئے کیونکہ جانتے تھے کہ اس سے اسلام کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ حق کا مطالبہ زبانی ہوتا رہا لیکن شمشیر انتقام نیام سے باہر نہ آئی اور کوئی ایسا اقدام نہیں فرمایا جس سے ظاہری امن وامان کو ٹھیس لگے البتہ جب تمام مسلمانوں نے اپنی خوشی سے مملکت کی ذمہ داریاں حضرت کو سپرد کردیں اور کچھ لوگ اپنی ذاتی اغراض ومقاصد کے تحت فتنہ وفساد پر آمادہ ہوئے تو حضرت بھی ان کی شرارتوں کو روکنے اور ان کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور جنگ جمل ، صفین اور نہروان میں ہوا جو کچھ ہوا۔

حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اسی امن وامان کی خاطر معاویہ سے صلح فرمائی باوجودیکہ یہ بات ساتھیوں کو ناگوار ہوئی لیکن حضرت نے اس مخالفت کی کچھ پروا نہ کی اور جنگ کی آگ کو بھڑکنے نہ دیا۔

۵۹

اسی طرح سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام بھائی کی شہادت کے بعد دس برس خاموش رہے مگر جب یزید پلید نے بیعت کا مطالبہ کیا اور جان کے پیچھے پڑگیا تو حضرت نے بغیر لشکری تیاری کے جس سے امن وامان میں خلل پڑتا تھا فوج یزید کا مقابلہ کیا کربلا کے میدان میں اپنا سارا گھر بار قربان کردیا راہ خدا میں جان دیدی مگر بیعت نہ کی اور اسلام کو موت سے بچالیا۔

حق کبھی باطل کا اتباع نہیں کرسکتا یہ کارنامہ ہے جس سے اسلام زندہ رہا اور حسین علیہ السلام کے نام کا سکّہ ساری دنیا میں چل رہا ہے اور کربلا والوں کی صدائے بازگشت فضاء عالم میں گونچ رہی ہے ،پھر اس قیامت خیز واقعہ کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام سے لیکر امام حسن العسکری علیہم السلام تک سب حضرات کی عمریں مصیبتوں میں گزریں بڑے بڑے مظالم جھیلے مگر کسی وقت لڑائی کا خیال بھی نہ کیا قید خانوں میں رہے مگر صبر کیا ، یہاں تک کہ خفیہ طور پر زہر دے کر شہید کئے گئے ، پس جسطرح ان جملہ حضرات کے پیش نظر امن وامان کا مسئلہ رہا ہے اسی طرح بارہویں امام علیہ السلام کی اس غیبت میں امن وامان کے بقاء کا راز مظہر ہے۔

دشمنوں کا قابو نہیں چلتا خون ریزی کی نوبت نہیں آتی بلکہ جب ظہور ہوگا تب دعوت ایمان کے لئے تلوار نہ اٹھائی جائے گی بلکہ خداوند تعالیٰ کی نشانیاں سامنے آئیں گی اور ان آیاتوبینات سے پوری دنیا روشن ومنوّر ہوں گی ایک ندائے آسمانی بلند ہوگی کہ تمام عالم متوجہ ہوجائے گا کہ حق کیا ہے تو باطل کیا ہے؟

۶۰