گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)0%

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 138

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

مؤلف: حجة الاسلام شیخ محمد حسین بهشتی
زمرہ جات:

صفحے: 138
مشاہدے: 82420
ڈاؤنلوڈ: 3520

تبصرے:

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 138 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82420 / ڈاؤنلوڈ: 3520
سائز سائز سائز
گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

مؤلف:
اردو

حضرت امام زمان علیہ السلام کے طول عمر

ہر سچے مومن کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پروردگار عالم ہر زمانے میں اپنی حجت کا وجود واجب قرار دیا ہے جس کے اوپر ایمان رکھنا ضروری ہے دشمنان اسلام اور محمد وآل محمد کے دشمنوں کے طرف سے حضرت امام زمان علیہ السلام کے طول عمر کے بارے میں مختلف قسم کے نظریات اور خیالات اور سوالات کے بوچھاڑ کرکے سادہ لوح مسلمانوں اور مومنین کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ خود شخص مسلمان اور مؤمن کی ذھن میں یہ سوال ابھرے کہ ایک شخص کیسے اتنی لمبی عمر پاسکتا ہے ؟ بہر حال جو بھی ہو تاریخ کے مطالعہ نہ ہوتے اور تاریخ سے آشنائی اور آگاہی نہ ہونے کے بناء پر یہ سوالات ذھنوں میں پیدا ہوئی ہے یایہ کہ خود اسلام دشمن طاقتوں اور محمد وآل محمد علیہم السلام کے دشمنوں کی طرف سے یہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں اس ضمن میں ہم یہاں پر مختلف زاویوں سے مختصراً کچھ عرائض پیش کردیتے ہیں۔

شیعوں کے ممتاز عالم الدین علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ ودوسرے علماء اور دانشوروں نے اپنی کتابوں میں حضرت امام زمان علیہ السلام کی طول عمر کے ذیل میں بہت سے شخصیات کی ایک فہرست بیان کیں ہیں، جن کے مکمل حالات زندگی کتب تواریخ میں نقل کئے گئے ہیں۔ اگر کوئی عاقل اور انصاف پسند شخص توجہ کریں تو اس کے لئے صرف حضرت خضر علیہ السلام کی ذات کافی ہے جن کے روئے زمین پر موجود ہونے پر کسی کو کوئی اشکال نہیں ہے تو پھر حضرت امام عصر علیہ السلام کے وجود مقدس کی طول عمر پر کیوں اعتراض اور شکایت ہے۔

۶۱

جو پروردگار عالم کی طرف سے سارے کائنات کی حیات کا باعث ہیں ، دو عظیم پیغمبر حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ مسیح علیہم السلام دونوں اب تک زندہ ہیں جن کو خداوند عالم کی طرف سے رزق مل رہا ہے ۔ اصحاب کہف سورہے ہیں زندہ ہیں ان کا کتا بھی زندہ ہے۔

حضرت آدم صفی اللہ کی عمر ١٣٦ سال حضرت شیث علیہ السلام کی عمر ٩١٢ سال حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ٢٥٠٠ سال حضرت سام بن نوح کی عمر ٦٠٠ سال حضرت لقمان حکیم کی عمر ١٠٠٠ سال لقمان بن عاد کی عمر ٣٠٠٠ سال خدا کے دشمن اوج بن عناق کی عمر ٣٠٠٠ ہزار ٦٠٠ (تین ہزار چھے سو سال) شداد کی عمر ٩٠٠ برس ہے ، اسی طرح دوسرے مختلف افراد کی عمریں بھی طولانی ذکر ہوئی ہے مثلاً جمشید نے جو ایران کے پادشاہ تھا ٥٠٠ سال زندگی کی۔

ضحاک نے ایک ہزار سال حیات پائی۔ فریدون عادل نے ایک ہزار سال زندگی کی ، اس کے علاوہ اور بھی افراد موجود ہیں جن کے عمرطولانی ذکر ہوئی ہے۔

۶۲

پس خدواند رب العزت کی آخری حجت حضرت امام زمان علیہ السلام کی عمر طویل ہونے سے تعجب نہیں ہونی چاہئے اور حضرت کے وجود اقدس سے انکار نہیں کرنا چاہئے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ رہنے کی حکمت یہ ہے کہ وہ حضرت امام زمان علیہ السلام کی تصدیق کریں۔

حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہم جو ہزاروں برس پہلے دنیا میں موجود ہیں ان کا یہ بقا اور عمر کی طولانی اس کی مقصد اور غرض انکی پیغمبری نہیں ہوسکتی جسکا آیندہ وہ اظہار فرمائیں نہ ان پر کوئی آسمانی کتاب کسی وقت نازل ہونے والی ہے جس کے انتظار میں ان کو زندہ رکھا گیا ہونہ آگے چل کر ان کے پیش نظر کسی شریعت تازہ کی ترویج ہے نہ ان کے متعلق کسی ایسی پیشوائی کسی خبر دی گئی ہے جس پر بندہ گان خدا کے لئے ان کی اقتداء اور اطاعت لازم ہو بلکہ ان کی زندگی کا فلسفہ یہ ہے کہ مخلوق خدا ان کی طول عمر کو دیکھتے ہوئے آخری حجت خدا حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی طولانی عمر ہونے پر تعجب نہ کریں اور حضرت کے وجود اقدس سے انکار نہ کرے اور اس حیثیت سے بھی بندوں پر حجت الٰہی قائم ہوجائے ۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ رہنے کی حکمت یہ ہے کہ ان کی تصدیق سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر اہل کتاب ایمان لائیں اور ان کی زندگی سے حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ کی زندگی کا ثبوت ہوجائے کیونکہ خاتم الانبیاء صلوات اللہ علیہ کے بعد کسی نبوت ورسالت کا وقت نہیں رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی متابعت کریں گے اور دعوت اسلام میں ان کے معین ومددگار ہونگے۔

۶۳

حضرت امام مھدی ؑکے بارے میں ذکر شدہ احادیث کی تعداد

وہ احادیث جو آپؑ کے ظہور انور کی بشارت کے حوالہ سے ذکر ہوئی ہیں ان کی تعداد ۶۵۷ہے وہ احادیث جو آپؑ کو اہل بیت پیغمبر ؐ میں سے ہونے کی خبر دیتے ہیں ان کی تعداد ۳۸۹ہے۔

وہ روایات جو آپ ؑ کو فرزندان فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے عنوان سے معرفی کراتی ہیں ان کی تعداد۱۹۲ہے ۔روایات میں سے بعض ایسی بھی ہيں جن میں آپؑ کاامام حسین ؑکے نویں فرزند ہونے کی صراحت موجود ہے ان کی تعداد ۱۴۸ہے۔ آپؑ کے امام حسن ؑعسکری ؑکے فرزند ارجمند ہونے پر ایک سوچھیالیس روایات موجود ہیں ۔

وہ روایات جو پوری دنیا کو عدالت سے پر کرنے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ان کی تعداد ۱۲۲ہے۔

وہ روایات جن میں آپؑ کی ولادت کا تذکرہ ہے ان کی تعداد ۲۱۴ ہے۔

وہ روایات جو آپؑ کے بارہویں امام ہونے کو بیان کرتی ہیں ان کی تعداد۱۲۶ہے۔

۶۴

حضرت امام زمان علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر

غیبت صغری میں حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ملاقات کے بارے میں تو کوئی اعتراض اور اشکال نہیں ہے اس زمانے میں مومنین کرام حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے رہے ہیں۔

مگر کچھ افراد کو غیبت کبریٰ میں یہ شکایت رہی ہے کہ حضرت امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف عام طور پر سب کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور کسی شخص سے بھی حضرت کی ملاقات معنی غیبت کے خلاف ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ غیبت کبریٰ کا منشاء یہ ہے کہ غیبت صغریٰ میں خاص خاص افراد سے جو ملاقات کی صورت تھی وہ ختم ہوگئی اور حضرت کی قیام گاہ پر حاضری کا پہلا طریقہ باقی نہیں رہا اب حضرت کا مکان اور مقام نظروں سے پوشیدہ ہے اور اس کا مطلب کہ حضرت نظر خلائق سے غائب ہیں۔

عقل کی رو سے غیبت کا مسئلہ اور ملاقات میں کوئی منافات نہیں ہے مثال کے طور پر ملائکہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں مگر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کی خدمت میں ان کی آمد ورفت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ وہ جن نظروں سے مخفی ہے لیکن بعض لوگ ان کو دیکھتے ہیں ان سے ملاقات ہوتی ہے حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام کی غیبت ہے مگر کچھ لوگ ان دونوں حضرات سے ملتے رہتے ہیں پس بنا برایں جس طرح ان کے مکان ومقام معلوم نہ ہونے کے ان سے ملاقات ہوسکتی ہے اسی طرح حضرت امام زمان عجل اللہ..... سے ملاقات ہوسکتی ہے۔

۶۵

حضرت امام زمان عجل.... سے ملاقات کا شرف حاصل ہونا خود اس انسان کی قسمت ہے بہت خوش نصیب ہیں وہ حضرات جن کو حضرت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہو اس خطرناک دور میں بھی ایسی خوش قسمت اور مسرت والے بھی موجود ہوتے ہیں ہر زمانے میں بڑی بڑی ہستیاں گزری ہیں بڑے بڑے صاحبان زہد وتقویٰ ہوتے رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ ان کو حضرت کی زیارت نصیب ہوئی ہو اور واقعات کو اس غرض سے پوشیدہ رکھا ہو کہ کہیں ریا اور خود نمائی نہ ہوجائے۔ جو واقع یہاں بیان ہوئے ہیں ان سے مومنین اور مسلمین کی کچھ رہنمائی ہوجائے ایسے قصوں اور واقعہ کا پڑھنا، سننا بھی عبادت ہوتا ہے۔

یہاں پر چند واقعات کا ذکر کریں گے جو امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ملاقات کے بارے میں نقل کرنے کے ہیں۔ البتہ شیعہ اعتقاد اور عقیدے کے تحت ملاقات سے مراد یہ ہے کہ وہ صاحب جس نے امام علیہ السلام سے ملاقات کی ہو وہ صاحب تقویٰ وپرہیزگار ہو۔ شہرت طلب نہ ہو نہایت ہی متین اور سلجھا ہوا بندہ ہو۔ یہ جو واقعات نمونے کے طور پر یہاں ذکر کر رہے ہیں جن میں سے اکثر ان صاحب کی وفات کے بعد ہی برملا ہوا ہے لہٰذا یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ہر کوئی بندہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں امام سے ملاقات کئے ہوئے ہوں۔ بلکہ احادیث میں بھی نقل ہوا ہے کہ امام سے ملاقات کے بارے میں دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے حقیقت بھی یہی ہے ورنہ دین میں فتنہ وفساد برپا ہوگا۔

۶۶

امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ظہور

حضرت امام رضا ؑنے فرمایا: قائم آل محمد ؐ کی مثال قیامت جیسی ہے جس طرح قیامت ناگہانی طورپربر پا ہوگی اسی طرح امام زمان ؑاچانک ظہور فرمائیں گے۔

جیسا کہ خدا وند عالم نے قرآن مجید میں اشارہ فرمایا ہے کہ لوگ آپؑ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب برپا ہو گی؟

آپؑ کہہ دیجئے: کہ اس کا علم صرف خدا کے پاس ہے اس کے علاوہ اس وقت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔یہ واقعہ و حادثہ زمین و آسمان پر سخت گزرے گا اور یہ واقعہ اچانک رونما ہو گا ۔(۱)

اس آیت کی ذیل میں دو مہم نشایاں ، اجمالی طور پر قیامت کے بارے میں ذکر ہوئی ہيں :۔

١۔ قیامت کا وقت نہایت ہی سنگین اور سخت ترین وقت ہو گا کیونکہ اجرامی فلکی سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونگے سورج خاموش، چاندتاریک،ستار ے بے نور ، سیارے بے حرکت اور ایٹم تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

٢۔ جس طرح قیامت اچانک برپا ہو گی۔ اسی طرح امام زمان ؑکا ظہور انور بھی پلک جھپکنے میں ہوگا۔ پھر آپؑ سب سے پہلے پوری دنیا کے نظام کی ازسر نو بنیاد گزاری فرمائیں گے۔

٣۔ آپؑ کا ظہور اچانک اور انقلابی طور پر واقع ہو گا۔

____________________

(۱) سورہ اعراف: ۱۸۷

۶۷

حضرت امام مہدی ؑکے ظہور کی جگہ:

حضرت امام رضا ؑفرماتے ہیں :۔ ایک منادی غیب سے اس طرح ندا دے گی کہ روئے زمین کے تمام انسان اس ندا کو سن لیں گے، اس آواز کے ذریعے انسانوں کو دعوت دیں گے مزید فرماتے ہیں :۔

آگاہ ہو جاؤ ! اللہ کی حجت نے خدا کے گھر کے کنارے ظہور فرمایا ہے اس کی اطاعت اور پیروی کرو! کیونکہ حق اس کے ساتھ ہے اور قدرت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔مھدی منتظر تمام ادیان کی زبان اور تمام مسلمانوں کے نزدیک بالاتفاق اور باقی تمام ادیان کے مطابق کعبہ سے ندا دیں گے اور بشریت کو توحید کی دعوت فرمائیں گے۔ کعبہ اور مکہ سے یہ آواز ہر ایک تک پہنچے گی ، لوگوں کو چاۀے کہ اس آواز پر لبیک کہیں اور اس کی پیروی کریں ۔آپؑ کلمہ توحید کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے اور اس مکان مقدس سے آواز آئے گی کہ آج کے بعد ظلم و کفر کی بنیادیں مٹادی جائیں گی اور تمام سیاسی اور بربریتی حکومتیں توڑ دی جائیں گی اور شیاطین کو خصوصاً سب سے بڑے شیطان کو پتھر مارے جائیں گے اور ان چھوٹے اور بڑے شیطانوں کو نیست و نابود کیا جائے گا تاکہ خلیل اللہ و حبیب اللہ اور ولی اللہ مھدی عزیز کی حج بجا لائے جاسکیں گے و ا لّاہمارے لئے کہا گیاہے۔

(ما اکثر الضجيج و اقلَّ الحجيج )

کتنے شور شرابے ہیں اور حج کرنے والے کس قدر کم ہیں ۔(۱)

____________________

(۱) صحیفہ نور؛ ص ۱۸ ،ص ۸۸

۶۸

ظہور امام مہدی ؑکی حتمی علامات

جب حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمان ؑغیب کے پردہ سے تشریف لائیں گے تو اس وقت کے علائم اور نشانیاں جو ائمۀ معصومین علیہم السلام کی طرف سے بیان ہوئی ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔ ان علامات کے ساتھ جو ہم ترتیب وار بیان کریں گے، قدرت ومنشاء الٰہی بھی شامل ہے اور مرضیئ الٰہی یہ ہے کہ جب اس کی مرضی ہوگی انکا ظہور ہوگا۔

بعض علامات اپنے طبیعی مسیر کے مطابق خود بخود واقع ہوئی ہیں جن میں خدا وند متعال کا کوئی دخل نہیں ہے مثلاً انحرافات فکری، انحرافات ثقافتی اور انحرافات عملی وغیرہ ، یہ طبق مرور زمان خود بخود واقع ہوتی ہیں ۔

جو امام زمان ؑکے ظہور کی علامات سمجھی جاتی ہیں ۔ ان میں چاند کا مہینے کی آخری تواریخ میں گرہن لگنا اور سورج کا وسط ماہ میں گرہن لگنا وغیرہ شامل ہیں ۔مگر وہ علائم جو ظہور پر نور کے نزدیک واقع ہوں گی ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر ظہور کے بالکل نزدیک اور ظہور سے متصل قتل نفس ذکیہ کا واقع ہونا۔

دوسری علامات حضرت امام مہدی ؑکے ظہور سے کافی عرصہ پہلے بنی عباس کے درمیان اختلاف وجود میں آنا وغیرہ۔

تیسری تقسیم بندی کچھ اس طرح ہے:۔

۶۹

وہ علائم جن کا واقع ہو نا حتمی ہے یا جن کے واقع ہونے میں کوئی خدشہ وارد نہیں ہو سکتا ہے یہ وہ حوادث ہیں جو احادیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ممکن ہے کہ بداء حاصل ہو جائے یا بداء حاصل نہ ہو ۔(۱)

ہماری بحث ان علائم میں ہو رہی ہے جو حتمی ہیں جو روایات کی روشنی میں پانچ یا چھے علائم میں منحصر ہیں ۔

حضرت امیر المؤمنین ؑنے فرمایا:۔

(قال مولانا امير المؤمنين عليه السلام: من المحتوم الذی لا بُدّ منه ان يکون قبل القائم: خروج السفيانی، وخسف با لبيداء وقتل الذ کيه والمنادی من السماء و خُرُجُ اليمانی )

مولا امیرالمؤمنین ؑنے فرمایا: وہ نشانیاں جو قائم سے پہلے ظاہر ہوں گی اور جن کے واقع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ( یہ وہ بات ہے جو قطع و یقین پر مبنی ہے) وہ یہ ہیں : خروج سفیانی، زمین کا دھنس جانا ، قتل نفس ذکیہ ، نداء آسمانی اور یمانی کا خروج ۔

____________________

(۱) یہ سورہ رعد کی آیۃ ۴۹کی طرف اشارہ ہے

۷۰

١۔ خروج سفیانی

سفیانی ان لوگوں میں سے ہے جو حضرت امام زمان ؑکے ظہور کے موقع پر باطل کے طور پر سامنے آئے گا جو خون آشام اور قتل و غارت میں مشہور ہو گا۔ وہ حق و حقیقت کی مکمل طور پر مخالفت کرے گا اس سے خداوند عالم نے قرآن مجید میں لوگوں کو خبردار کیا ہے۔ یہ بات محققین اور محدّثین کے درمیان یقینی ہے کہ اس شخص کا نام اس لئے سفیانی رکھا گیا ہے کہ یہ شقاوت و بدبختی اور پلیدی کے لحاظ سے ابو سفیان جیسا ہو گا۔ سفیانی کی نسبت ابو سفیان ملعون و پلید اور اس کی بیوی ھندہ جگر خوارۀ حضرت حمزہ سید الشہداء سے ہے اسی لئے اس ملعون اور بدبخت انسان کا نام سفیانی رکھا گیا ہے۔حضرت امیر المؤمنین علی ؑفرماتے ہیں : یہ شخص حد سے زیادہ انسانوں کے جگر کھائے گا اوراس کے بعدصحرا کی طرف نکل جائے گا۔

(۱) اس کا اصلی نام عثمان اور باپ کا نام عتبہ ہو گا اور وہ ابوسفیان کی اولاد میں سے ہے۔ جب بھی کسی ایسی سرزمین پر پہنچے گاجو ہموار اور اس کا پانی صاف و شفاف ہوگا وہاں پر ٹھہرے گا ۔

یہ ملعون ابتداء میں شہر دمشق ، حمص ، فلسطین ، اردن اور قنسرین کو اپنے قبضہ میں لے لے گا، لوگوں کا قتل عام کرنے کے بعد کوفہ، بغداد، نجف اور مدینہ پر حملہ کرے گا اور یہ ملعون شیعوں کا اس قدر سخت ترین دشمن ہے کہ جو کوئی بھی کسی شیعہ کا سر تن سے جدا کر کے لائے گا اسے بڑے بڑے انعامات سے نوازے گا۔ آخر کار سرزمین بیداء جو (مکہ و مدینہ کے درمیان ہے) میں سفیانی کے لشکر زمین میں دھنس جائے گا۔ اور خود سفیانی حضرت امام زمان ؑکے لشکر کے ہاتھوں بیت المقدس میں قتل ہو جائے گا۔

____________________

(۱) کمال الدین ؛ج۲، ص ۶۵۱ ، اعلام الوری ، ص ۴۲۱

۷۱

٢۔ لشکر سفیانی کا سرزمین بیداء میں دھنس جان

٣۔ صیحۀ آسمانی

صیحہ اس وقت واقع ہو گی جب پوری دنیا اختلاف اور جھگڑوں میں گھر جائے گی، تفرقہ و جدائی نے سایہ کیا ہو گا اسوقت ایک آسمانی آواز سب کے کانوں سے ٹکرائے گی اس کے بعد ایک پنجہ ظاہر ہوگا۔اس طرح پورے طور پر صیحۀ آسمانی پھیل جائے گي۔

حضرت امیر المؤمنین علی ؑفرماتے ہیں :۔

(ثُمَّ لا يستقم امر الناس علی شیء ولا يکون لهم جماعة، حتیٰ ينادیَ منادٍ من السماء عليکم بغلان وتطلع کفّ تشير )(۱)

____________________

(۱) اللام ولافتن ؛ص ۴۸، روزگار ھائی؛ ج۲، ص ۸۶۷

۷۲

اس وقت لوگوں کی اصلاح ہر گز نہیں ہو گی اور مسلمان ہر گز ایک مرکز پر جمع نہیں ہو سکیں گے۔ اس وقت منادی آسمان سے آواز دے گی۔ اس کی طرف دوڑئے اس سے د ور نہ ہو جائیں اس وقت ایک پنجہ آسمان سے ظاہر ہو جائے گا اور امام زمان ؑکی طرف کرے گا اس طرح صیحہ کے وقوع کو سب مان لیں گے۔

اس صیحہ کا مطلب کیا ہے؟ کیا بے مقصد آواز ہو گی؟

یہ ایک ایسا پیغام ہے جس میں حکم الٰہی پوشیدہ ہے!

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :۔

(اذا کان عنده خروجِ القائمِ ينادی من السماء!)

(ايهاالنّاس، قطع ، عنکم مدّه الجبارين و ولی الامر خير امّة محمدٍ ، فالحقوا مکّة )(۱)

جب قائم کا ظہور ہوگا اس وقت آسمان سے نداء دی جائے گی : اے لوگو! خداوند عالم نے ستمگروں کی مہلت کو آخر تک پہنچا دیا ہے اور امت محمدؐ کو بہترین امام عنایت کیا ہے اپنے آپ کو جلد از جلد مکۀ مکرمہ میں اس کے پاس پہنچا دو!

یہ واقعہ شب جمعہ، نماز صبح کے بعد ماہ مبارک رمضان کی ۲۳تاریخ کو رونما ہو گا۔

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۵۲ ،ص۴۰۴

۷۳

٤۔ نفس ذکیہ

١۔ نفس ذکیہ کا قتل اور حضرت امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور میں صرف ۱۵دن کا فاصلہ ہو گا۔

٢۔ نفس ذکیہ وہی ہے جو رکن و مقام کے درمیان قتل ہو گا۔

٣۔ نفس ذکیہ بعنوان سفیر امام زمان ؑمکہ میں جائیں گے۔ تاکہ حضرت امام زمان ؑکے پیغام کو مکہ والوں تک پہنچائیں مگر انہیں اسی وقت رکن و مقام کے درمیان کو شہید کیا جائے گا۔

٤۔ نفس ذکیہ رکن و مقام کے درمیان حضرت امام زمان ؑکے ظہور سے پندرہ ۱۵ دن پہلے شہید ہو جائیں گے آپ کا نام محمدؑ اور والد گرامی کا اسم گرامی حسنؑ ہو گا آپؑ حضرت امام حسین ؑکی نسل سے ہونگے۔

۷۴

۵. خروج یمانی

حضرت امام صادق ؑخروج یمانی کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :۔

(خروجُ رجل من ولد عمّی زيد با ليمن )(۱)

یہ وہ شخص ہو گا جو ہمارے چچا زاد بھائی زید شہید کی اولاد میں سے ہو گا جو یمن میں خروج کریں گے۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :۔

(خروج الثلاثه:السفيانیّ ُ والخراسانیُّ واليمانیُّ فی سنة واحدة ، فی شهر واحدٍ ، فی يوم واحد ، وليس فيها من راية اهدایٰ من راية اليمانی ، لانّه يدعو الیٰ الحق )(۲)

تین جھنڈے ایک ہی سال ایک ہی مہینہ، ایک ہی دن میں خروج کریں گے۔ سفیانی ، خراسانی ، یمانی. ان کے درمیان میں سے صالح اور صحیح تر یمانی کے علاوہ کوئی نہیں ہو گا وہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے گا۔

روایات کہتی ہیں :۔ـیمانی، سفیانی سے لڑتے ہوئے عراق میں داخل ہو گا یمانی، خراسانی کی فوج کی مدد سے سفیانی کی فوج سے لڑے گا۔

روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یمانی کا لشکر خراسانی کے لشکر کو اپنی کمانڈ میں رکھے گا ۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپاہ خراسان کی تعریف میں فرماتے ہیں :

(فتخرج راية هدي من الکوفة، فتلحق ذٰلک الجيش فيقتلونهم لا يفلِتَ منهم مُخبِرُ ويستنقذون مافی ايديهم من اسّبی ولغنائم )(۳)

ہدایت کا پرچم کوفہ سے خارج ہو گا اور اس سپاہ (سفیانی )کا پیچھا کر کے سبھی افراد کو قتل کرے گا۔ یہا ن تک کہ ان کا ایک فرد بھی نہیں بچے گااورجوکچھ بھی ان کے پاس ہوگا غنیمت کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لے گا اور لوگوں کو اسیر بنا لے گا۔

____________________

(۱) نور الابصار؛ ص ۱۷۹ ، بشارالاسلام ؛ص ۱۷۵

(۲) بحارالانوار؛ ج۵۲، ص۲۱۰

(۳) مجمع البیان ؛ ج ۸،ص۴۹۸

۷۵

خروج سید حسنی

روایات میں ہے کہ سید حسنی وہ شخص ہے کہ جو شہر ری سے خراج کرے گا اس کا اصل نام شعیب بن صالح ہے اصالتاً قبیلہ بنی تتمیم سے تعلق رکھتا ہو گا۔

یہ شخص گندمی رنگ اور تنومند ہوگا، بنام شعیب بن صالح ،وہ چا رہزار افراد کے ساتھ اس حالت میں نکلیں گے کہ انکے لباس سفید اور جھنڈا سیاہ رنگ کا ہوگا۔ درحقیقت ان کا خروج ظہورِ امام مہدی ؑکے لئے مقدمہ الجیش کی حیثیت رکھتا ہوگا ،جوبھی ان کے سامنے آئے گا ماراجائے گا ۔

۷۶

شعیب بن صالح کی تعریف میں حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

(يخرج علی لواء المهدی غلام حديث السنَّ خفيف الحيه، اصفر ، لو قاتل الجبال لهزَّ ها حتیّٰ ينزل ايليا )(۱)

یہ ایک نوجوان ہوگا ہلکی داڑھی ، گندمی رنگ کا حامل ہو گا۔ اگر پہاڑ بھی اس کے مقابل آجائیں تو پاش پاش ہو جائے گا یہ سید حسن آگے بڑھتے ہوئے بیت المقدس تک پہنچ جائیں گے۔

یہ شخص حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا علمبردار ہو گا۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بارے فرماتے ہیں :۔

(ورود الرايات السود مِن خراسان ، حتّيٰ تنزل ساحلَ دجله )

اس کا لشکر کا اصل مقصد اور ہدف ارض مقدس کو دشمنوں سے پاک اور صاف کرنا ہے۔

خراسانی لشکر اپنے اصل ہدف سے کبھی غافل نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ بیت المال مقدس کو دشمنوں سے پاک کرنے کے بعد دجلہ اور فرات تک پہنچ جائے گا۔

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :۔

سیاہ پرچم خراسان سے برآمد ہو کر دجلہ اور فرات میں داخل ہو گا۔

حضرت امام محمد باقر ؑفرماتے ہیں :۔

اس مقدس لشکر کے ساتھ ایرانی شیعہ اور مستضعف افراد خروج کریں گے اور ہدایت کے پرچم کو لے کر نخیلہ کی طرف جائیں گے، اس دن لوگ حق پر جمع ہو ں گے اور تیس لاکھ افراد مارے جائیں گے۔

حضرت امیر المؤمنین ؑاس وقت کے حالات سے لوگوں کو باخبر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

(اذا رأيتم الريات السود فالز مواالارض لا تحرکوا ايديکم ولا ارجلکم ثم يظهر قوم صغارٌ لا يوبه لهم )

جب تم سیاہ پرچم دیکھو تو اس وقت زمین پر لیٹ جاؤ اور اپنے ہاتھ پاؤں بالکل نہ ہلاؤ پھر ایک چھوٹا سا گروہ ظاہر ہوگا جو بالکل مورد اعتماد اور توجہ کے قابل نہیں ہوگا۔

____________________

(۱) والملاح و الفتن؛ ص ۵۳

۷۷

حضرت امام مھدی ؑکے ظہور کی غیر حتمی علامتیں

علائم غیر حتمی بہت سارے ہیں ہم یہاں پر چند ایک کو ذکر کرتے ہیں ۔

١۔ شدید قحط پڑنا

٢۔ نہر فرات کا جاری ہونا

٣۔ کوفہ خراب ہونے کے بعد دوبارہ آباد ہونا

٥۔ دنیا کی اکثر جگہوں پر زلزلہ اور طاعون کی بیماری پھیلنا

٦۔ قتل عام ہونا

٧۔ نجف کے دریا میں طغیانی پیدا ہونا

٨۔ مسجد براثا کا خراب ہونا

٩۔ دنبالہ دارستارہ کا ظاہر ہونا

١٠۔ قوم عرب کا مطلق ا لعنان ہونا جو جہاں چاہے جائے اور جو چاہے کرے۔

۷۸

حضرت امام رضا ؑکے کلام میں علائم ظہور

١۔ جھوٹے اماموں کا دعوا کرنا

٢۔ مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں عجیب قسم کے واقعات رونما ہونا

٣۔ دوستی اور صلہ رحمی کا قطع ہونا اور معاشرے کے اندر اصول و اخلاص نامی چیز کا باقی نہ رہنا

٤۔ حالات اور واقعات کا نا امن ہونا

٥۔ دین کے اندر بہت ساری بدعتوں کا ظاہر ہونا

٦۔ مسلسل قتل و غارت کا بازار گرم ہونا

٧۔ لوگوں کا امن وسلامتی کی تلاش میں سرگرداں رہنا

٨۔ درد دل میں جلنا اور جلان

۷۹

حضرت ولی اللہ الاعظم امام مہدی ؑکے وفادار

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :۔

تین سو تیرہ (۳۱۳)یعنی اصحاب بدر کی تعداد کے برابر افراد آپؑ کے اردگرد جمع ہوں گے مثل شمشیر در غلاف جب خروج کے وقت نزدیک ہوگا تو یہ سب آپؑ کے وفادار سپاہی آپؑ سے عرض کریں گے یا ولی اللہ قیام فرمائےں اور خدا کے دشمنوں کو ہلاک کریں ۔

حضرت امام رضا ؑفرماتے ہیں :۔

آنحضرت ؑ کے پاس ایسے خزانے موجود ہیں لیکن یہ خزانے سونا چاندی کے نہیں بلکہ بہترین قسم کی سواریاں اور بہترین سپاہی ہیں جن کاایمان اور شجاعت مشخص و معلوم ہے ان کے ہاتھوں میں ایسے پرچے ہونگے جن کے اوپر مہر لگی ہوگی۔ ان کے اوپر ان کی اصحاب کی تعداد اور ان کے شہروں کے اخلاق اور کردار کے بارے میں لکھا ہوا ہوگاان کے چہرے اور شکل و صورت اور کنیت سب درج ہونگے۔ یہ سب کے سب بہترین جنگی سپاہی ہونگے اورامام ؑ کی اطاعت اورپیروی کی تلاش میں ہمہ وقت تیار ہونگے۔ یہ لوگ سخت محنتی اور ہمت کرنے والے اور سب کے سب آپؑ کے فرمانبردار اور مطیع ہونگے۔

۸۰