گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)0%

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف) مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 138

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

مؤلف: حجة الاسلام شیخ محمد حسین بهشتی
زمرہ جات:

صفحے: 138
مشاہدے: 82424
ڈاؤنلوڈ: 3520

تبصرے:

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 138 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 82424 / ڈاؤنلوڈ: 3520
سائز سائز سائز
گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

گل نرگس مهدئ صاحب زمان(عجّ اللہ فرجہ الشریف)

مؤلف:
اردو

حضرت امام مہدی ؑکے پیاروں اور یاروں کو خوش خبری

خوش قسمت وہ ہے جو اس سے ملاقات کرے۔

خوش قسمت وہ ہے جوآپ کو دوست رکھے۔

خوش قسمت وہ ہے جو آپ کی امامت کا قائل ہو۔

امام مہديؑ اور خدا و رسول ؐپر اعتماد رکھنے کی خاطر اس گروہ کو ہلاکت سے نجات ملے گي۔ خداوند منان کے حکم سے ان کے لئے جنت کے دروازے کھول دئے جائیں گے ان کی مثال مشک و عنبر کی ہیں مشک و عنبر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنے خوشبوسے دوسروں کو معطر کرتے ہیں کسی تغیر و تبدل کےبغیر۔

غیبت کے زمانے میں منتظرین امام ؑکی ذمہ داریاں

غیبت کے دوران شیعوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔اس کے بارے میں بہت سے اقوال موجود ہیں یہاں تک کہ بعض کتابوں میں ۸۰سے اوپر ذمہ داریاں لکھی گئی ہیں جو امام زمان ؑکے منتظرین میں پائی جانی چاہئے۔ ان تمام ذمہ داریوں کو ہم یہاں بیان نہیں کر سکتے ہیں فقط چند مہم و ظائف کی جانب اشارہ کریں گے۔

۸۱

حجت خدا اور امام مہدی ؑکی معرفت

ہر شیعہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت کی حجت خدا اورامام زمان ؑکی معرفت حاصل کرے تاکہ دشمنان اسلام و تشیع مختلف سوالوں کے ذریعے شبہہ پیدا نہ کر سکےں ۔

اگر ہماری معرفت مکمل اور مستحکم ہو تو ہم مؤمن حقیقی ثابت ہونگے اور دشمن کی کوئی طاقت ہمیں کمزور نہیں کر سکتی اور اگر ہماری معرفت مستحکم نہ ہو توہم دنیا کی باطل طاقتوں کے پروپیکنڈوں اور مختلف سوالوں کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔

اس صورت میں ہماری دنیا و آخرت دونوں خراب ہوجائے گی یعنی نہ ہم دنیا کے رہيں گے نہ آخرت کے۔ روایات میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی معرفت کے حوالے سے اتنا زور دیا ہے کہ ملحدوں اور منافقوں کے جھوٹے دعووں سے پریشان نہ ہو جائیں اور ولایت و امامت کے حوالے سے بھی ثابت قدمی سے رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔

اس حوالے سے امام کی معرفت کے لئے سب سے پہلے نام و نسب و صفات و خصوصیات کی شناخت و معرفت حاصل کرنا واجب ہے خاص طور پر دور جدید میں جھوٹے دعوے کرنے والے بہت نکلیں گے اورمختلف بہانوں اور حیلوں سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لہذا امامؑ کے نسب اور خصوصیات سے آگاہی حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ یہاں اس ضمن میں ایک مہم نکتہ کی طرف اشارہ ضروری سمجھتا ہوں کہ حقیقی امام کی شناخت و معرفت صرف خدا کے لطف و کرم سے ہی ہو سکتی ہے لہذا بارگاہ خداوند میں دعا کی جائے کہ دشمن عناصر اور غلط پروپیکنڈے سے محفوظ رہیں ۔

۸۲

تزکیہ نفس اور اخلاقی تربیت

ایک مہم وظیفہ اور ذمہ داری امام زمان ؑکے منتظروں پر یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ تزکیہ نفس اور اخلاقی تربیت سے آراستہ ہوں ، چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ؑسے نعمانی نقل کرتے ہیں ۔جو شخص امام زمانہ ؑکے دوستوں میں سے ہونے کی تمنا رکھتا ہو اور اسی حالت میں مرجائے اوراس کے مرنے کے بعد امام زمان ؑکا ظہور ہو جائے تو اس کا درجہ وہی ہوگا جس نے امام زمان ؑکو درک کیا ہو، پس ہمیں کوشش کرنی چاۀے کہ خداوند عالم ہمیں بھی منتظرین واقعی میں قرار دے۔ تہذیب نفس ، گناہوں سے دوری ،برے اعمال انجام دینے سے پرہیز ایک ایسا موضوع ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔حضرت امام عصر و الزمان ؑکی طرف سے جو توقیع مرحوم شیخ مفید کو عنایت ہوئی اس میں سر فہرست یہ ہے کہ میری غیبت کے طولانی ہونے کی ایک وجہ ہمارے شیعوں کا گناہوں سے دور نہ رہنا اور نامناسب اعمال بجا لانا ہے۔

(فما يحْسَبُنا عَنْهُم الّا ما يتصل بنا ممّا نکرهه ، ولا نؤثره منهم )

۸۳

امام ؑسے قلبی محبت رکھنا

حضرت امام عصر( عجل اللہ فرجہ الشریف) سے قلبی لگاؤ اور محبت اس بات کا سبب ہے کہ امام سے کئے گئے عہدو پیمان کے پابندی کریں اور یہ احساس نہ کریں کہ امام تو غائب ہيں لهٰذا ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور معاشرہ میں کسی ذمہ داری اور مسؤلیت کے بغیر زندگی کریں ، بلکہ امام ؑ کے ماننے والوں پر دو برابر ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اسے دوسرے مسلمانوں سے زیادہ ذمہ دار شخص ہونا چاۀے تا کہ ہمارے اعمال اور کردار کی وجہ سے امام زمان ؑخوش ہو جائیں اور معاشرہ بھی فلاح و بہبود سے آراستہ ہواور امام ؑ کے مدد گاروں میں اضافہ ہو۔ اس سلسلے میں ایک مؤمن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسکا ایمان دوسروں کی نسبت زیادہ مضبوط اور مستحکم ہو۔

حضرت امام باقر ؑسے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ خدا وند عالم کی اس آیت (ياايہاالذين آمنوا اصبرو ا وصابروا ورابطوا واتقوی اللہ لعلکم تفلحون)کی ذیل میں فرما تا ہے:(اصبروا علیٰ اداء الفرائض صابروا عدّوکم و رابطوا اما مکم)

واجب چیزوں کے ادا کرنے میں صبر کرو،

دشمنوں کے مقابل میں مضبوط و مستحکم رہو،

اپنے امام کے ساتھ مخلصانہ رابطہ رکھو۔

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق ؑبھی اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں :

(اصبرو علیٰ الفرائض وصابرو ا علی المصائب ورابطوا علی الائمہ)

انجام واجبات پر صبر سے کام لو!

مشکلات اور سختیوں میں صابر رہو

امام ؑسے رابطہ اور تعلقات میں مستحکم رہو۔

۸۴

ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی روایات ایسی ہیں جن میں ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے شیعوں کو اپنے امام کے ساتھ کئے ہوئے عہدو پیمان پر وفادار اور پابند رہنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور ہم سے ہر روز بلکہ ہر نماز کے بعد دعائے عہد پڑھنے کی سفارش فرمائی ہے یہ ساری علامات شیعوں کو اپنے زمانے کے امام کے ساتھ مخلص و وفادار اور حجت خدا اور مرتبہ و مقام عظمائے ولایت سے رابطہ قائم و دائم رکھنے کی بہت سفارش کی گئی ہے۔

مشہور ترین دعائے عہد میں سے ایک دعا یہ ہے کہ جو مرحوم سید ابن طاؤوس اپنی بہترین کتاب ''مصباح الزائر'' میں حضرت امام صادق ؑسے نقل فرمائی ہے :

(من دعا بهذا الدعا اربعين صباحاً کان من انصار قائم )

جو شخص چالیس دن تک اس دعاکو پڑھے تو وہ حضرت قائم ؑکے مدد گاروں میں سے ہو گا۔

اگر حضرت کے ظہور سے پہلے مر جائے تو خداوند عالم اس کو زندہ کرے گا۔ تاکہ وہ حضرت ؑ کے رکاب میں جہاد کرسکے اور ہر کلمہ کے بدلے میں اس کو ہزار حسنہ عنایت فرمائے گا۔ اس دعا کے مضمون کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ عبارت کو ہم یہاں نقل کریں گے۔

۸۵

خداوند کریم کا ذکر اور محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرصلوٰت اور اپنے امام غائب پر درود و سلام کے بعد عبارت اس طرح سے ہے۔

(اللهم انی اجددله فی صبیحة یومی هذا وما عشت من ایّام حیاتی عهداً وعقداً وبیعة له فی عنقی لا احول عنها ولا از ول ابداً اللّهم اجعلنی من النصار واعوانه و الذابین عنه والمسارعین الیه فی قضاء حوائجه والممتشلین لا امره و نواهیه والمحامین عنه والسابقین الیٰ اراته والمستشهدین بین یدیه )

خداوندا ! مجھے اس کے یارومددگاروں ، اصحاب و انصار اور اس کے دفاع کرنے والوں میں سے اس کی طرف جلد جانے والوں اور ان کے اوامر پر عمل کرنے والوں ، اس کی طرف سبقت کرنے والوں اور اس کے رکاب میں لڑتے ہوئے شہید ہونے والوں میں سے قرار دے آمین۔

مذکورہ دعا کی عبارت پر توجہ کرنے سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ مفہوم ِ عہد و پیمان کس قدر اہمیت کے حامل ہے خصوصاً امام زمان ؑاور حجت خدا کے ساتھ عہدو پیمان بڑی قدرو قیمت اور سنگین ذمہ داری ہے امام زمان علی ؑاور حجت خدا کی یاری و نصرت مخلصانہ اطاعت چاہتی ہے۔خداوند کریم کے امر و نہی کا لحاظ کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا خود ایک قسم کی نصرت و یاری امام زمان ؑہے۔

اگر شیعیان علی بن ابی طاب ؑہر روز اس دعا کی تلاوت کرتے رہیں اور اس دعا کے مفہوم و معنی پر توجہ دیتے رہیں تو ہر ذلت و رسوائی سے بچ سکتے ہیں ۔ظلم و بے عدالتی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور کبھی بھی گمراہی و ضلالت کے کنارے سیرو سفر نہیں کریں گے۔

۸۶

ظہور پُرنور حضرت حجت ؑکے لئے تیاری

حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے منتظرین کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ زمان و مکان کے حالات و واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکمل تیاری کے ساتھ چاہے وہ تیاری ذہنی ، فکری ، علمی ، معاشی ، معاشرتی ، سیاسی ، نظامی غرض یہ کہ جس طرح ممکن طریقہ سے ہو اپنے ّآپ کو آمادہ کرنا ہے۔ میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ شیعوں کے درمیان فکری لحاظ سے جس بلند فکری کی اہمیت ہونی چاۀے، کم نظر آتی ہے اس کی بنیادی وجہ اور علت یہ ہے کہ ایسے علماء اور دانشمندوں کی صحبت میں کم رہے ہیں جن سے فکری اور روحی غذا نصیب ہو جائے اور معرفت امام ؑ کے حوالہ سے اپنے آپ کو تیار کریں ۔

حضرت امام مہدی ؑکے انتظار کی جزاء

حضرت امام باقر ؑفرماتے ہیں : جان لیجئے ! جو بھی امام زمان ؑکے انتظار میں ہے وہ حق و عدالت کی حکومت

کے قیام کے درپے ہے اس کی مثال یوں ہے جس نے تمام عمر عبادت میں گزاری ہو اورپوری زندگی روزے رکھے ہوں ۔

حضرت امیرالمؤمنین علی ؑنے فرمایا:۔ ہمیشہ ظہور کے انتظار میں رہو۔ خدا کی طرف سے رحمت اور فرج حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے مایوس نہیں ہونا چاۀے ،کیونکہ خدا کے نزدیک محبوب ترین عمل امام زمان ؑکے ظہور کے انتظار میں رہنا ہے اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا:جو بھی ہمارے فرزند کے فرج کے انتظار میں رہے گا۔ گویا وہ خدا کی راہ میں خون میں لت پت ہے۔

حضرت امام صادق ؑنے فرمایا:۔ اے ابا بصیر ! خوش قسمت ہیں ہمارے شیعہ جو ہمارے قائم کی غیبت کے ظہور کا انتظار کرتے رہے امام زمان ؑکی اطاعت اور پیروی کو اپنی گردنوں پر واجب جانا۔ یہی لوگ اولیاء خدا ہیں اور ان کے لئے قیامت میں کوئی حزن و غم نہیں ہوگا۔

۸۷

حضرت امام مہدی ؑکے ظہور کی تعجیل کے لئے دعا:

حضرت امام زمان ؑکے ظہور کی دعا اور ان کی زیارت کرنا شیعوں کابہترین عمل سمجھا جاتا ہے اتنے بڑے پیمانے پر دعا و زیارت کی تاکید یقیناً خدا کی آخری حجت امام زمان ؑکے ظہور انور میں خاص اہمیت کی حامل ہے اور ایک ایسی حکومت کی امید دلاتی ہے جو مکمل طور پر عدل وانصاف پر مبنی ہے۔ جس میں ظلم و ستم نابود ہو جائے گا۔ اس حوالہ سے بہت سی دعائیں نقل ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک کا نام یہ ہیں :۔

دعائے ندبہ ، دعائے عہد ، دعائے سلامتی امام زمان ، زیارت آل یٰسین ، نماز صبح کے بعد حضرت کے لئے زیارت ، روز جمعہ حضرت امام زمان ؑکی زیار ت اور دعا ، دعائے نیمہ شعبان ۔

دعا کے لئے مناسب مقامات:

مسجد کوفہ ،مسجدسہلہ، حرم حضرت امام حسین ؑ، مسجد حرام ، میدان عرفات، سرداب حضرت امام زمان ؑ، حرم ائمہ معصومین علیہم السلام ...۔

۸۸

حضرت امام مہدی ؑکیسے قیام فرمائیں گے؟

مفضّل نے حضرت امام صادق ؑسے پوچھا ! اے میرے آقا !

حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کہاں اور کیسے ظہور فرمائیں گے؟

حضرت امام صادق ؑنے فرمایا:۔ اے مفضّل ! وہ تنہا ظہور کریں گے اور تنہا خانہ کعبہ کے پاس بیٹھیں گے اور تنہا رات وہاں گزاریں گے۔ جب سب لوگ سو جائیں گے ،صبح کے وقت جبرئیل ، میکائل اور فرشتوں کے گروہ آپ ؑکی خدمت میں حاضر ہوں گے، جبرئیل کہیں گے اے میرے سید و سرور! آپؑ کی بات قبول ہے آپؑ کا امر و حکم جائز ہے اس وقت آپؑ دست مبارک کو اپنے چہرہ انور پر پھیر یں گے اور فرمائیں گے: ساری تعریف اور حمد پروردگار علام کے لئے سزاوار ہے کہ جس نے اپنے وعدہ کو پورا فرمایا اور ہمیں روئے زمین کا وارث بنایا اور خدا وند عالم بہترین جزا دینے والا ہے(۱)

اے گروہ نقباو خاصان ! خدا نے لوگوں کو میرے لئے ظہور سے پہلے ذخیرہ فرمایا ہے ابھی میں تم لوگوں کو حکم کرتا ہوں کہ میرے حکم کی تعمیل کرو اور اس صیحۀ آسمانی کو سن لو جو پورے شرق و غرب عالم سے لوگ کہاں (کنار کعبہ) جمع ہو جائیں گے اور پلک جھپکنے کے اندر رکن و مقام کے درمیان جمع ہو جائیں گے ۔(۲)

____________________

(۱) سورہ زمر؛ آیت۷۴

(۲) بحارلانوار؛ ج ۵۳ ، ص ۷

۸۹

سب سے پہلے حضرت ؑ کے ہاتھ بیعت کرنے والے

قال ابو عبد اللہ علیہ السلام: (انّ اوّل من یبا یع القائم(عج) ینزل فی صورہ طیر اَبیض فیبا یعہ ثمّ یضع رجلاً علی بیت اللہ الحرام ورجلاً علی بیت المقدس ثمّ ینادی بصوت طلق ذلق تسمعہ الخلائق)

( اتی امر الله فلا تستعجلون ) (۱)

حضرت امام صادق ؑنے فرمایا:۔ حضرت قائم ؑکے مبارک ہاتھوں میں سب سے پہلے جو بیعت کرے گا وہ حضرت جبرئیل ؑہو گا۔ جو سفید مرغ کی شکل میں نازل ہو جائیں گے اور حضرت قائم ؑکے مبارک ہاتھوں میں بیعت کریں گے اس وقت آپؑ اپنے قدم مبارک کو کعبہ میں رکھیں گے اور دوسرے قدم کو بیت المقدس میں رکھیں گے اور بلند آواز میں فرمائیں گے۔

( اتیٰ امر الله فلا تستعجلون )

یہ آواز پوری دنیا کو سنائی جائے گی۔

____________________

(۱) سورہ زمر؛ آیت ۷۶

۹۰

حضرت ؑکے پروگرام تلوار کے سایہ میں :

حضرت امام باقر ؑفرماتے ہیں :۔

قائم آل محمد علیہم السلام پانچ پیغمبروں سے شباہت رکھتے ہیں ، سب سے پہلی شباہت اپنے جد گرامی حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تلوار کے حوالہ سے قیام فرمائیں گے تاکہ خدا کے دشمن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ، ظالم ، جبار اور سرکش افراد کو قتل کریں(۱)

حضرت امام زمان ؑکے حتمی کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ تمام ظالموں اور جابروں سے جنگ کریں گے۔ تاریخ بشریت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو تی ہے جب تک خون ریزی اور فساد کے تمام اسباب کو راستے سے نہ ہٹائے جائیں اس وقت تک ترقی کرنا ممکن نہیں ہے اخلاقی تعلیم اور اصولوں کی تربیت اگرچہ اچھے نتیجہ کے حامل ہے لیکن ہم اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں اچھے افرادکی موجودگی کے باوجود جب طاقت کے زور پر ، دنیاپرست اور ظالم جب ان کے سیاسی م اقتصادی ، نظامی معاشرہ میں خطرہ میں پڑجائیں تو اس وقت ان صالح افراد کی نصیحت اور وعظ سے ان کے اوپر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لهٰذا ان کوراستے سے ہٹانے کے لئے دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑے گا تا کہ معاشرہ امن و سلامتی اور آزاد طریقے سے ترقی ہو سکے۔اسی دلیل کے بناء پر مسئلہ جنگ کو بہ عنوان ایک ہدف اور ضرورت کے طور پر استعمال کریں گے۔تاکہ ظلم و ظالم ، جابر ، دہشت گرد ، استکبار اور طاغوت کو اپنی جگہ بٹھائیں اور معاشرہ کے اقتصادی ، سیاسی ، سماجی ، امنیت ، صلح و صفائی اپنی جگہ برقرار رہیں اور معاشرہ کے لئے آزاد انہ طور طریقوں سے معاشرہ کی خدمت کرنے والے اور امن و سلامتی کے حوالہ سے اپنی سعی و کوشش کو جاری و ساری رکھ سکیں ۔

____________________

(۱) کمال الدین ، ج ۷، ص ۴۲۷

۹۱

تاریخ انبیاء علیہم السلام کو بھی ہم دیکھتے ہیں جنگ و جدل سے پُرہے ظالم اور ستمگروں اور طاغوت زمان فرعون ، نمرود ، ھامان ، وغیرہ سے جنگ ہوتی رہی اسی لئے علامہ اقبال ؒ کہتے ہیں :۔

موسیٰ ؑ و فرعون و شبیر ؑ و یذید

این دو قوت از حیات آمد پدید

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلی وسلم مرکز رحمت اور معلم اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ کفر و طاغوت سے ۸۳جنگیں لڑیں ،حضرت علی ؑ، حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑاور حضرت ابا عبد اللہ الحسین ؑنے بھی ظلم و ستم کے خلاف خدا کی راہ میں اور معاشرہ کو ظلم و بربریت سے نجات دلانے کے لئے ظالم اور طاغوتیوں سے جنگ کیں ۔

حضرت امام مھدی ؑبھی اسی طرح انبیاء علیم السلام کی سیرت و صورت کو جاری و ساری رکھنے کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی راہ و روش کو قائم و دائم اور معاشرہ میں نافذ کرنے کے لئے عالمی استکبار اور ظلم و ستم کرنے والے ظالموں اور دہشت گردوں کو نابود کرنے کےلئے جنگ فرمائیں گے۔

۹۲

مساوات و برابری

حضرت امام باقر ؑفرماتے ہیں :۔حضرت امام زمان ؑمال کو برابر تقسیم کریں گے ، نیک اور برے لوگوں کے درمیان عدالت سے پیش آئیں گے، حضرت امام زمان ؑکے پروگراموں میں سے ایک پروگرام مساوات کا اجراء ہے اسلام دین مساوات و برابری کا نام ہے حضرت امام مہدی ؑروئے زمین پر عدل و مساوات اس طرح اجراء فرمائیں گے کہ انسان تو انسان، چرند، پرند ، حیوانات ، نباتات اور دنیا کے تمام ذی روح امام مہدی ؑکے مساوات سے فائدہ اٹھائیں گے ایسا فائدہ جس کا تصور تک انسان نہیں کرسکتا ہے قانون سب کےلئے یکساں ہو گا فقیر ہو یا امیر ، طاقتور ہو یا کمزور اسی طرح سیاہ ہو یا سفید، ملازم ہو یا آفسیر ، نوکر ہو یا آقا سب ایک ہی زمرے میں آئیں گے۔

ایک اہم بات بیت المال کی تقسیم ہے ۔بیت المال میں قومی صنعت و تجارت ، قومی معدنیات وغیرہ ہیں غرض ہر وہ مال جو قومی سطح پر حکومتوں کے پاس موجود ہے یہ سب لوگوں کے درمیان تقسیم کئے جائیں گے حضرت امام مہدی ؑکی حکومت کوئی امتیازی عہدہ نہیں ہو گا مثلاً یہ صدر ،وہ وزیر اعظم ، یہ وزیر خارجہ ،وہ وزیر داخلہ وغیرہ بلکہ بڑے بڑے وزیر و وزراء عام لوگوں کی سطح سے نیچے زندگی کریں گے اور لوگوں کی خدمت گزار ہو ں گے۔ وزیر و وزراء عقل اور ایمان کی بنیاد پر ہوں گے جس کا ایمان اور عقل سب سے کامل تر ہو۔ امام مھدی ؑکے ظہور کے بعد کوئی جنگ و جدل ، اختلافات ، فساد اور چور ی نہیں ہوگی۔ سارے انسان بھائیوں کی طرح رہیں گے ایک دوسرے کی محبت اور مدد کرنے کی فکر میں رہیں گے طاقت ور ، کمزوروں کی مدد کریں گے اور ان کی مشکلات کو حل کریں گے ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کریں گے اس عرصے میں تمام انسان ایک ہی گھر کے افراد کی طرح رہیں گے ۔لوگوں کے رابطے اور تعلقات، محبت اور دوستی کی بنیاد پر ہوں گے۔ یہ بات معاشرہ اور انسانی سماج کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہوں گی۔ لوگوں کے چہروں سے دوستی ، محبت اور اخلاص نظر آئیں گے اور یہ سب کچھ حکومت امام مھدی ؑکے ذریعے انجام پائیں گے۔

۹۳

مستضعفین کی حکومت

حضرت امیر المؤمنین علی بن طالب ؑفرماتے ہیں :۔

یہ روئے زمین پر مستضعفین کی میراث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان میں سے ہیں کہ خداوندعالم سختیوں اور مشکلات کے بعد مھدی ؑکو ظہور فرمائیں گے اور ان کمزورں کو عزت بخشیں گے اور ان کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرمائیں گے۔ زمین پر مستضعفین اور محروموں کی حکومت قا ئم کریں گے۔ آپؑ کے ظہور پُر نور کے بعد ظالموں اور ستمگروں کو ٹھکانے لگانے کے بعد جو کمزوروں کے راہ میں ہمیشہ روڑے اٹککاتے رہتے تھے تمام حکومتی ذمہ داریاں اور عہدوں کو ان کمزوروں اور مستضعفین کو دیئے جائیں گے گویا کہ غریب اور فقیر لوگ اس معاشرہ پر حکومت کریں گے دیگر ظالم و ستمگر نامی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ یہ وہ اعلیٰ اہداف تھے جن کے لئے تمام انبیاء علیہم السلام اور مرسلین نے سختیاں برداشت کیں ، صبرو تحمل سے کام لیا ، سارے ائمہ معصومین علیہم السلام اسی مقصد کے لئے جد وجہد کرتے رہے یہاں تک وہ اس مقدس راہ میں شہید ہو گئے۔

انسانوں کی ذہنی اور فکری تربیت

حضرت امام باقر ؑفرماتے ہیں :۔

جب قائم ؑ قیام فرمائیں گے اس وقت خدا وند عالم لوگوں کی فکری قوت کو بڑھائیں گے اور ان کے اخلاق کو کامل کریں گے، حضرت امام زمان ؑکے پروگراموں میں ایک پروگرام انسانی فکر کی تربیت کرنا ہے تاکہ ان کی رشد فکری و عقلی کامل ہو جائیں ۔ صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے اچھے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے لهٰذا تمام اچھے اقتصادی ، سیاسی ، جنگ ، صلح ، نظم ، بد نظمی ، نیکی و بدی وغیرہ سب انسانوں سے مربوط ہیں لهٰذا حضرت امام زمان ؑمعاشرے کا سارا نظام اچھے اور نیک بندوں کے سپرد کریں گے۔

۹۴

بیس احادیث امام زمان ؑکے بارے میں :

مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ بیس احادیث کو بھی جو امام زمان ؑسے متعلق ہیں یہاں پر نقل کرتا ہوں تاکہ مؤمنین زیادہ سے زیادہ آگاہی اور نفع حاصل کرسکے ۔ کتاب کے آخر میں تنوع کے طور پر کچھ اشعار آقا ومولا حضرت حجة ابن الحسن روحی وارواح العالمین لہ الفداء کے بارے میں درج کیا ہے خداوند منان اس سعی قلیل کو قبول ومقبول فرمائے۔

حدیث نمبر ١:

عن سلیمان الجعفری؛ قال: سألت ابالحسن الرضا فقلت: أتخلوالأرضُ من حجة ؟فقال:لو خلت من حجة طرفة عینٍ لساخت بأهلها ۔(۱)

سلیمان جعفری کہتے ہیں : میں نے حضرت ابوالحسن الرضا ؑکی خدمت میں عرض کیا:

کیا زمین حجت خدا سے خالی ہو سکتی ہے؟

آپ ؑ نے فرمایا: اگر زمین پلک جھپکنے کی مدت تک کے لئے بھی حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ اپنے مکینوں کو نگل جائے گی۔

٭ کسی قسم کے شک و شبہ کے بغیر اس زمانہ میں زمین پر اللہ کی حجت ،حضرت ابا صالح المھدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف، بارہویں امام، قائم آل محمدؐ ہیں ۔ حضرت امام ہشتم ؑکے فرمان کے مطابق زمین پر زندگی بسر کرنے والی تمام مخلوق خدا(انسان ہو حیوانات، نباتات ہوں یا جمادات ) حجت خدا کے وجود مبارک کی برکت سے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ انہیں کے طفیل میں خداوند عالم ہم کو روزی دیتا ہے اور ہم لوگ اس کے مقدس سایہ میں اللہ کے لطف و کرم سے بہرہ مند ہو رہے ہیں ۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق، ص ٢٠٤

۹۵

حدیث نمبر ٢:

عن صفوان بن یحیٰ قال: سمعت الرضا یقول: انّ الأرض لا تدخلو من اَن یکون فیها امامٌ منّا ۔(۱)

صفوان بن یحیٰ کہتے ہیں : میں نے حضرت امام رضا ؑسے سنا کہ آپ ؑ نے فرمایا:

زمین ہمارے خاندان کے امام کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتی۔

٭ امامؑ کے وجود مبارک سے زمین کاخالی نہ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات میں حجت خدا کا وجود کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔

٭ خداوند عزوجل کبھی بھی اپنے بندوں کو امام کے بغیر نہیں چھوڑتا اور یہ سنت کبھی بھی بدل نہیں سکتی ۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق:ص ٢٢٨

۹۶

حدیث نمبر ٣:

عن الفضل بن یسار، عن ابی جعفر قال:

من مات ولیس له امامٌ ،مات میتة جاهلیّة ، ولایعزر النّاس حتّیٰ یعرفوا امامهم (۱)

فضیل بن یسار کہتے ہیں : ابو جعفر حضرت امام باقر ؑفرماتے ہیں : امام معصومؑ جسے خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کے لئے خلق فرمایا ہے جو بھی ان کی پیروی اور اطاعت کے بغیر مرجائے تو وہ جاہلیت اور مشرک کی موت مرتا ہے ۔ اس سلسلے میں لوگوں کا کوئی بھی عذر اور بہانہ امام ؑ کو درک نہ کرنے کے حوالے سے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے۔

موحد اور یکتا پرست وہ شخص ہے جس کے تمام اعمال اور کردار خالق زمین و آسمان کے حکم کے مطابق ہوں ۔ خداوند عالم کے فرامین، پیغمبران الٰہی اور امام معصومؑ کے علاوہ کوئی اور لوگوں کو ابلاغ نہیں کرتا ہے۔

٭ ہواوہوس کی پیروی اور غیر حجت خدا کی اطاعت شرک اور بت پرستی ہے۔

٭ حضرت آدم ؑسے لے کر خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء ؑ خدا کی طرف سے بار نبوت کے حامل تھے۔ رسالت و نبوت کی سنگین ذمہ دا ریاں رکھتے تھے تا کہ خدا کی امانت و رسالت کو لوگوں تک پہنچانے میں کوئی غلطی نہ ہونے پائے۔ اور امامؑ کی معرفت اور پہچان میں ان کا نام،لقب اور مدت عمر تک بیان فرمائی۔

٭ حضرت بقیہ اللہ الاعظم ، حجت ابن الحسن العسکری ؑکو تمام پیغمبروں اور اماموں نے ان کی تمام خصوصیات کے ساتھ لوگوں کو متعارف کرایا۔

٭ مذکورہ حدیث کے معنیٰ و مفہوم سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ امام زمان ؑکی پہچان اور معرفت سب پر واجب ہے کیونکہ مسلمانوں کی عبادت ولایت کو قبول کئے بغیر بارگاہ خداوندی میں قبول نہیں ۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق:ص٤١٢

۹۷

حدیث نمبر ٤:

عن الحسین بن ابی العلاء، عن ابی عبد الله قال: قلت له: تکون الأرض بغیر امام؟ قال: لا ،

قلت، اَفَیکون امامان فی وقتٍ واحدٍ؟قال: لا ، الّا واحدُهما صامت قلت: فالامامُ یُعرف الامام الّذی من بعد؟

قال: نعم قال: قلت: القائم امامٌ ؟ قال: نعم ، امام بن امام ، قداوتم به قبلَ ذٰلک (۱)

حسین بن ابی العلا ء کہتے ہیں : میں نے حضرت امام جعفر صادق ؑکی خدمت میں عرض کیا :

کیا زمین بغیر امام کے رہ سکتی ہے؟

آپؑ نے فرمایا: نہیں !

عرض کیا ؟ کیا ایک وقت میں دو امام ہو سکتے ہیں ؟

آپؑ نے فرمایا: نہیں ! مگر یہ کہ ان دو میں سے ایک خاموش رہے۔

عرض کیا ؟ کیا امام اپنے بعد والے امام کی لوگوں کے سامنے معرفی کرتا ہے ؟

آپؑ نے فرمایا: جی ہاں !

عرض کیا گیا؟ کیا قائم آل محمد(عج) امام ہیں ؟

آپؑ نے فرمایا: جی ہاں ! امام ہیں اور امام کے بیٹے ہیں ۔

٭ ہر زمانے میں کسی ایک معصوم کی زندگی میں معمولاً دوسرے معصوم بھی زندگی کرتے رہے،ایک ہی وقت میں حضرت امیر المو، منین علی ؑ، امام حسن مجتبیٰ اور امام حسین علیہم السلام بھی زندگی کرتے تھے اورسب کے سب ائمہ حق تھے اور زمان پیغمبر اکرم ؐ میں موجود تھے لیکن پیغمبر اکرمؐ کی موجودگی میں یہ تینوں امام، خاموش (ساکت و صامت)رہتے تھے اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ یہ لوگ امام معصوم نہیں تھے، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے دو سو بیس(۲۲۰ ھجری قمری) سے آج تک قرآن ناطق حضرت حجت ابن الحسن العسکری،امام زمان ؑامامت کے عظیم عہدے پر فائز ہیں آپؑ کے آنے سے پہلے بھی تمام پیغمبران الهٰی اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے آپؑ کی تائید فرمائی ہے۔

____________________

(۱) کمال الدین صدوق:ص ٢٢٣

۹۸

حدیث نمبر ٥:

عن محمد بن مسلم قال:

قلت لأ بی عبدالله فی قول الله عزّول: انّما أنت منذرٌ ولکلٍّ قوم هادٍ فقال: کلّ امامٍ هادٍ لکلّ قومٍ فی زمانهم؟ (۱)

محمد ابن مسلم کہتے ہیں : حضرت امام صادق ؑکی خدمت میں عرض کیا ؟

خداوند متعال کا فرمان کہ ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہے کے بارے میں آپؑ کیا فرماتے ہیں ؟

تو آپؑ نے فرمایا: ہر امام اپنے زمانے کے لوگوں کا ہادی ورہبر ہوتا ہے۔

٭ خداوند عالم جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

٭ امام زمان ؑجو کہ خدا کے خلیفہ برحق ہیں وہ بھی اللہ کی دی ہوئی قدرت سے جس کو چاہیں ، ہدایت کرسکتے ہیں ۔

٭ حضرت امام زمان ؑکے شیعوں اور دوستوں کو تمام امور میں آپؑ سے متوسل رہنا چاۀے، گناہوں اور خطاؤں سے دوری اور گمراہی سے نجات حاصل کرنے کے لئے حضرت امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے ہدایت اور مدد کی درخواست کرنی چاۀے۔

____________________

(۱) قرآن مجید:(سورہ رعد آیۃ ٧) ٢(کمال الدین صدوق ٦٦٧)

۹۹

حدیث نمبر ٦:

عن أبی ا لجا رود، عن جابر بن عبد الله الانصاری قال:

دخلت علیٰ فاطمة علیها السلام و بین یدیها لوحٌ فیه اسماءُ الأوصیاء من وُلدها ، فعددت اثنیٰ عشر ، آخرُهم القائم ثلاثة منهن محمد و ثلاثة علی (۱)

ابو جارود نے جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ایک لوح آپؑ کی خدمت میں موجود تھی جس پر پیغمبر اکرم ؐ کے جانشینوں کے نام درج تھے میں نے انہیں گنا تو وہ بارہ ۱۲ نفر تھے ان کے آخری حضرت قائم ؑتھے ان میں سے تین کا نام محمدؑ تھے اور تین کا نام علیؑ تھا۔

٭ معصوم امام خدا کے منتخب بندے ہیں جو حضرت آدم ؑکی تخلیق سے پہلے وجود میں آئے ہیں ۔

٭ چونکہ گیارہ نفر پیغمبر اکرم ؐ کے اوصیاء حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے فرزندوں میں سے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کےجانشین حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے اولاد میں سے ہیں ۔

٭ جیسا کہ حدیث میں کہا گیا تین علی سے مراد ؛ امیر المو،منین علی ؑچونکہ حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد میں سے نہیں ہیں اس لئے انہیں حساب نہیں کیا ہے وگرنہ چار علی ہوتے۔

____________________

(۱) اصول کافی، ج ١ ص٢٣٥

۱۰۰