شیخ الاشراق اور شیخ الفلا سفہ کے نظریہ کے بنیادی اختلافات :
تضاد کی بنیاد اور نظریات شیخ اشراق اور شیخ الفلاسفہ ابن سینا اور اخوند ملا صدرا اور دوسرے فیلسوف حضرات، اکثر اہم مسائل علم جیسے ارادہ ، حدوث، قدم اورخدا کے فاعل ہونے کے بارے میں ،جوہر میں حرکت ،اتحاد عاقل و معقول اور اصالت وجود ،تشکیک ،وحدت وجود ،مسئلہ روح، کیفیت حشرو معاد اور دوسرے فلسفی مسائل جو مکمل طور پر اس راہ و روش کوپُر خطر او رناامن بنادیتے ہیں مذکور ہ بالا نظریات سے ہم نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ حجیت عقل اپنی جگہ محفوظ، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ عقل کی کار کردگی بہت محدود ہے اس محدود یت میں اطمینان کے ساتھ تمام مباحث اور مسائل پر اعتماد نہیں کرسکتے ہیں اس وجہ سے یہ بات واضح ہے کہ حقائق ہستی اور جہان تک پہنچنے کا صحیح راستہ اور طریقہ اسی مستقلات عقلیہ کے حدود میں کہ جس میں عام طور سے اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے وہی عقل پر منحصر ہے اور اسی پر اعتماد و بھروسہ ہے۔
خداوند عالم کی واحدانیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رسالت اور مکتب وحی پر اعتقاد کے بعد جو اسیعقلی فطری ثابت ہوتی ہے ،اطمینان بخش،صحیح راستہ اس وحی الٰہی میں تدبر اور تعقل ہے اور جو کچھ وحی کے ذریعہ سند اور دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح طورپر استفادہ ہو وہی قابل اطمینان ا ور حق حقیقت ہے اس صورت کیعلاوہ انسان کے لئے بڑی بڑی غلطیوں اور لغزشوں میں واقع ہونے کا خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے سر پر منڈلاتار ہے گا اسی مطلب کومرحوم شیخ انصاری رحمة اللہ علیہ نے کتاب رسائل میں قطع (یقین ) کی بحث میں ذکر کیاہے:
''واوجب من ذلک تر ک الخوض فی المطالب العقلیة النظریه لادراک ما یتعلق باصول الدّین فانه تعریض للهلاک الدائم والعذاب الخالد وقد اشیرالی ذلک عند النهی عن الخوض فی مسئلة القضاء والقدر
۔''
احکام میں عقلی استدلال پر اعتماد کو ترک کرنے سے واجب تر ہے کہ غور و فکر کیا جائے عقلی و نظری مطالب میں جو اصول دین سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہیہ طور اور طریقہ انسان کے لئیدائمی ہلاکت اور ہمیشگی عذاب کا باعث ہے۔ جیسا کہ مسئلہ قضا و قدر میں غورو خوض کرنے سے منع کرتے وقت اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
میں بحث کے اس حصہ میں تین مطلب کا ذکر کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں :
الف: اگر کہا جائے مختلف مسائل میں فلاسفہ کے اختلاف کو بنیاد بنا کر نہیں کہاجاسکتا ہے کہیہ فلسفی روش کے غلط اور عدم اطمینان کی دلیل ہے ،جس طرح اختلاف فقہا ء کو فقہ و فقاہت غلط ہونے کی دلیل نہیں بنا سکتے اسی طرح اختلاف فلاسفہ کو دلیل نہیں بناسکتے ہیں ، تو عرض کروں گا روش فلاسفہ کو روش فقہاء سے مقائسہ کرنا اس اعتبار سے صحیح مقائسہ نہیں ہے، کیونکہ
اول:
فلسفیوں کا قطعی طور پر حق و حقیقت تک پہنچنے کا دعویٰ ہے لیکن ان کے درمیان ایک دوسرے سے شدید اختلافات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کہی ہوئی بات قطعی و یقینی نہیں ہوگی لیکن فقہاء نے قطعی و یقینی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے ان کے اختلافات ان کے مدعا کے خلاف کسی چیز کو ثابت نہیں کرتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے استنباط بہت سے موار د میں ہمارے لئے اطمینان بخش ہیں ۔
دوسرے:
فقہاء نے اپنی تکلیف اور ذمہ داری کے مطابق عمل کیا وہ ذمہ داری اور مسئولیت جو قطعی اور یقینی ہے قرآن اور حدیث اور معصومین (ع) کے فرامین میں رجوع کیا ہے اور دوثقل عظیم سے تمسک کیا ہے، استنباط میں اگر اشتباہ کریں ، غلطی کریں تو یہ لوگ معذور ہیں کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
لیکن اس کے برعکس فلاسفہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ واقعیت و حقیقت کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ عقائد اور معارف اسلامی کے ساتھ ارتباط رکھتے ہیں اسی لئے راستہ بھییقینی ہونا چاہیئے اگرایک احتمال بھی ہزاراحتمال میں واقع کے خلاف دیں تب بھی چاہئے کہ تمام کے احتمالا ت کو نظر انداز کر کے واقع کوجس طرح سے وہ ہے مبہم ہو یا مجمل اور جو کچھ بھی اعتقاد رکھیں بلکہ وحی کو قبول کرنے کے حوالے سے ان لوگوں کو وحی کے بارے میں تدبر اور دقت نظر سے کام لینا چاہیئے۔
٢۔ مرحوم شیخ انصاری رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ اصول دین میں عقلی استدلال سے پرہیز کرنا ضروری ہے حالانکہ فقہائے کرام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
''اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے''۔
ان دو مطالب کو کیسے جمع کریں اور سلجھائیں نیزکس طرح بیان کریں ؟ تو ہمارا جواب ہے کہ ان دو مطالب کے درمیان کوئی اختلاف اور منافات نہیں ہے اس کے علاوہ یہ ہے کہ اجتہاد بعض موارد میں منقول اسناد کی بنیاد پر جیییمعاد اور امامت ہے اورعقلی استدلالات سے نفی کرنے سے مراد اصول دین میں مستقلات عقلیہ کی نفی نہیں ہے بلکہ مستقلات عقلیہکا حجت ہونا یقینی اور واضحہے اس بناپر اصول دین میں اجتہاد کا لازمہ درج ذیل دو معنی میں سے ایک معنی ہے:
الف:۔ اصول دین مستقلات عقلیہ اور فطری عقل کی بنیاد پر ہو جیسے توحید اور نبوت۔
ب:۔ اصول دین مستند اور معتبر دلیلوں کی بنیاد پر ہو جیسے معاد اور امامت۔
بہرحال اصول دین میں کسی دوسرے کی تقلید اورپیروی جائز نہیں ہے بلکہ فطری عقل کے ذریعہ انسان خود درک کر ے اور مقصد وواقع تک پہنچنے ، اگر چہ تذکرہ اور یاد دہانی کے ذریعہ کیوں نہ ہو ۔ جیسے توحید اور نبوت یا دوسرے مطالب کو سمجھنے کے لئے کتاب و سنت کا سہارا لیاجائے۔
٣۔ا گر کہا جائے جو کچھ بھی فلاسفہ کے بارے میں کہا گیاہے وحی اور شرعی دلیل کے حوالے سے مثبت یامنفی طور پر ان کے لئے ثابت نہیں ہے ۔ یہ وہ بات ہے جو غیر اسلامی فلاسفہ کی نسبت یا کلی طورپر فلسفی روش کی بنیاد کے بارے میں بمعنای خاص کلمہ ہے جیسا کہ مشہور فلسفی جناب ملا ہاد ی سبزواری اپنی کتاب شرح منظومہ میں حصہ فلسفہ صفحہ ٦٨ پر ان الفاظ کے ساتھ رقم طراز ہیں :
ضرورة القضیةالفعلیة
لوازم الاول والمهیة
اس کی شرح میں آیا ہے :
''قولنا المتصدین لمعرفته الحقایق وهم اربع فرق، لانهم اما ان یصلوا الیها بمجرد الفکر او بمجرد تصفیه النفس بالتخلیة والتخلیة او بالجمع بینهما فالجامعون هم الاشراقیون والمصفون هم الصوفیه والمقصرون علی الفکر اما یواضبون موافقة اوضاع ملة الادیان وهم المتکلمون او یبحثون علی الاطلاق وهم المشائون والفکر مشی العقل اذ الفکر حرکة من المطالب الی المبادی ومن المبادی الی المطالب''
۔
وہ لوگ جو حق و حقیقتکی شناخت کی جستجو اور تلاش میں ہیں چار گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں چونکہ یہ لوگ فقظ فکرکے ذریعہ حقائق تک پہنچنے کی تلاش میں ہیں ۔ یا تزکیہ نفس اور بری چیز وں سے پرہیزنیز اپنے نفس کو خوبیوں سے مزین اور اپنے اخلاق کو ٹھیک کرکے ان مقاصدتک پہنچتے ہیں اور معرفت حاصل کرتے ہیں یاان دونوں کو جمع کر کے فکر اورتزکیہ وتہذیب نفس کے میدان میں آگے بڑھ جاتے ہیں انھیں اشراقیون اور وہ جماعت جو صرف تزکیہ نفس کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے انھیں صوفیہ کہتے ہیں وہ لو گ جو تنہا فکر پراعتماد کرتے ہیں اور ادیان کا لحاظ کرتے ہیں ان کو متکلمین کہتے ہیں وہ لوگ جو تنہا فکر پراعتماد کرتے ہیں بغیر کسی ادیان و مذاہب کے وہ فلاسفہ مشاء ہیں ۔ مگر اسلامی فلاسفہ نے بار بارتصریح کی ہے کہ وہ فلسفہ جو شرع اور شریعت کے خلاف ہو مطرود اور غلط ہے لہٰذا وہ خود شرعی موازین کے پابند ہیں ۔ کہا جاتا ہے بعض اسلامی فلاسفہ جو مکمل طور پر مبانی فلسفہ کے بارے میں تسلط اور آگاہی رکھتے ہیں فقط ان مسائل و مباحث میں کہ جو اسلامی مسائل سے مربوط نہیں ہیں یاجگہوں پراتفاق رکھتے ہیں انھوں نے مباحث سے استفادہ کیاہے لیکن ان مواقع پر جہاں وحی الٰہی سے اتفاق نہیں رکھتے وہاں مکمل طور پر وحی الٰہی کی پیروی اور اس پر اعتمادکیا ہے ،نیز مکتب وحی کے نظریہ کو منتخب کیا ہے اور اس کے معتقد ہیں ۔
البتہ ایسے افراد در حقیقت فقیہ اور عالم ربانی ہیں ۔ دوسرے کچھ اسلامی فلاسفہ اس کے باوجودکی اسلام سے وابستگی رکھتے ہیں عملی طور پر علمی مباحث میں افکار و آراء نوابغ بشری اوربزرگوں کو اپنا محور قرار دیا ہے ۔ اور اپنے افکار میں مختلف مسائل پر اعتماد کیا ہے یہاں تک کہ اگر مکتب وحی سے حاصل شدہ نتائج ان کے افکار کے موافق نہ ہوں تو منابع و اسناد وحی کی تاویل و توجیہ کرنے لگتے ہیں جیسا کہ اس مقالہ کا خاتمہ اس گفتار کے شواہد میں سے ایک ہے ۔
مکتب عرفان واشراق
( Gnosticism and Illumination School )
عرفا ء اور اشراقیوں میں جو تفاوت اور فرق ہے اس اعتبارسے یہ دونوں مشترک ہیں کہ عقل اور کشف کو جمع کرنے کے قائل ہیں ۔ دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی ایک حد مقرر کی ہے نہ اس معنیٰ میں کہ یہ دونوں تمام مراحل میں ہمراہ رہیں کہ کشف حقائق کے اعتبار سے عقل و کشف دونوں اسے ثابت کریں اور اس پردلیل ہوں بلکہ دونوں میں سے کوئی بھی کسی مورد میں کوئی چیز ثابت کرے تو وہ قابل قبول ہے ، گزشتہ مطالب سے روشن اور واضح ہوجاتاہے کہ یہ روش او ر طریقہ بھی مخدوش ہے اور جو ااعتراض روش دوم اور سوم میں وارد ہوا ہے اس مذکورہ مورد میں بھی صادق آتاہے۔ یہ لوگ فلاسفہ سے زیادہ آیات اور روایات میں توجیہ اور تاویل کرتے ہیں اور اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لئے متشابہ آیات اور احادیث سے تمسک کرتے ہیں ۔
مکتب وحی ( The School Of Revlation )
گزشتہ بحث سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کشف اور حقائقکے بارے میں جو معیار ہے وہ عقل فطری ہے اور یہ وہ حجت ہے ۔اصطلاحی حوالے سے مستقلات عقلیہ کے حدود میں عقل قطعی طور پر حجت ہے۔
عقل فطری ہے کہ ہمیں اسی عقل فطری کے ذریعہ مکتب وحی تک پہنچنے کا راستہ مل جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم خداوند عالم اور رسالت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ پر پختہ ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں ۔ یہی مکتب وحی کا معیا ر اور میزان ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے بارے میں غور وفکر اور تدبر کریں تاکہ اس سے فائدہ اٹھاسکیں یہ اس شخص کے مانند ہے جوشمع کے نور کے ذریعہ تاریک بیابان و صحراء میں کہ جو کانٹے اور خش وخاشاک اور قیمتی گوہر سے پرہے،اس میں نفیس اور قیمتی ہیرے اور لعل و یاقوت کی تلاش میں ہو اور اسی دوران وہ شخص بے انتہا نورانی منبع سے روبرو ہوجائے توظاہرسی بات ہے ایسی صورت میں انسان کو چاہئے کہ بہتر سے بہتر طریقے سے اس نورانی جلوے سے فائدہ اٹھائے ،کسی سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ مکتب وحی اور مستند گفتار سیتحقیق اور اس سے فائدہ اٹھائیں تو یہ بات کبھی بھی عقل فطری کے مخالف ، نہیں پیش آئے گی اگر خدا نخواستہ قرآن اور احادیث سے استدلال شدہ مطالب کے مقابلے میں دانشمند وں اور فلاسفہ کی بات نظر آئے( کہ جو دانشمند حضرات جو آپس میں اختلاف رکھتے ہیں ) توواضح سی بات ہے کہ قرآن اور احادیث سے استفادہ کئے گئے مطالب بغیرکسی توجیہ و تاویل کے قابل قبول ہونگے ۔
کیونکہ جو کچھ بھی بنام استدلا ل عقلی وجود میں آتاہے اور ایک دوسرے کے مقابل قرار پاتا ہے ان میں سے ہر ایک میں اپنی جگہ خطا اور غلطی کا احتمال موجود ہے بلکہ بعض اوقات تو ان سب میں یہ احتمال ہوتا ہے اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے تعقل و تدبر و تفکر ،قرآن اور عترت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ سے تمسک کا سلسلہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سب کچھ مکتب وحی کا طرہ امتیاز ہے قرآن اور حدیث میں یہ بات متعدد بار ذکر ہوئی ہے ان میں سے ہم یہاں بعض کا ذکر کرتے ہیں :
١۔(
اولم یتفکروا فی انفسهم ما خلق اللّٰه السموات والارض وما بینهما الا بالحق واجل مسمی وان کثیرا من الناس بلقاء ربهم لکافرون
)
کیا ان لوگوں نے اپنے اندر فکر نہیں کی ہے کہ خدا نے آسمان و زمین اور اس کے درمیان کی تمام مخلوقات کو برحق ہی پیدا کیاہے اور ایک معین مدت کے ساتھ لیکن لوگوں کی کثرت اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار کرنے والی ہے ۔
٢۔(
وما اتٰکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا
)
اور جو لوگ کچھ بھی رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ )تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے ر ک جائو ۔
٣۔'' عن ابی عبداللّٰه ں قال حجة اللّٰه علی العباد النبی والحجة فیما بین العباد وبین اللّٰه العقل''
۔
امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : لوگوں پر خدا کی حجت پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہیں اور بندوں اورخداکے درمیان حجت عقل ہے ( عقل کے وسیلے سے پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے حجت خدا ہونے کے معتقد ہوتے ہیں ۔)
٤۔'' یا هشام ما بعث اللّٰه انبیائه ورسله الی عباده الا لیعقلوا عن اللّٰه''
۔
____________________