• ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4335 / ڈاؤنلوڈ: 3565
سائز سائز سائز
معیار معرفت

معیار معرفت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

معیار معرفت

مؤلف: استا د المحقق سید جعفر سیدان

مترجم :محمد حسین بہشتی

مشخصات

نام کتاب : ___________________________معیار شناخت

مؤلف:_____________________________ استادالمحقق سید جعفر سیدان

مترجم:______________________________ محمد حسین بہشتی

تصحیح : ______________________________ شبیہ الحسن فیضی

کمپیوزنگ: ____________________ ________ کوثرنقوی

پیشگفتار

دین کے پر اہمیت موضوعات میں سے ایک یہ ہے کہ دینی معارف کی شناخت کے لئے صحیح اور درست راستہ کو پالیا جائے ۔ کیونکہ انسان کا نظریہ راستہ کے انتخاب کرنے میں تغییر کرتا رہتا ہے اور اس کے نتیجہ میں انسان کے لئے ایسے اعتقاد ات حاصل ہوتے ہیں کہ آخر کار یہ اعتقادات انسا ن کی کامیابی یا گمراہی کے باعث بنتے ہیں ۔

لہٰذابعض دوستوں کے سوال کی بناپر مسائل اعتقادی کے معیار شناخت کے بارے میں ایک مقالہ : دیماہ ١٣٦٤(ایرانی تاریخ کے مطابق) میں اسی موضوع شناخت کے سلسلہ میں کیہان فرہنگی نامی مجلہ میں چھپا تھا۔مگر اسے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ مختصر طور پر مسائل اعتقادی کے معیار شناخت کے بارے میں کتابچہ کی شکل پیش کیا گیا ہے۔

امید ہے کہ صحیح اعتقادات تک پہنچنے کے لئے ایک مفید قدم اٹھایا ہو۔

کیہان فرہنگی کا مقدمہ

کیہان فرہنگی کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اس کی ایک مناسب موقعیت رہے تاکہ ملک کے مفکر ین و دانشوروں کو اپنے افکار وآراء اور نظریات کو مختلف موضوعات کے بارے میں نقد و تنقید کا موقع فراہم ہو۔ اور اس کے صفحات ایک زمینہ کی حیثیت رکھیں فکری و نظری بحثوں کی رشد و ارتقاء کے لئے ، اسی طرح ہمارے سماج کے حوادث و مشکلات اور مسائل کے راہ حل کے لئے ایک مناسب فضا و جود میں لائے۔

آخر کار اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی حد تک مشکلات فکری کے حل کرنے اور ارتقاء وترقی کے لئے اس قسم کے مطالب و مباحث مفید ثابت ہوں ۔

اسی چیز کے پیش نظر ایسے مقالے کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ ارتقاء کا تازہ اور نیا زمینہ فراہم کریں ان کی نگاہیں ہمیشہ ایسے مطالب کی تلاش میں رہتی ہیں ،یہ صحیح ہے کہ اس ارتباط کے سلسلہ انھیں مفید تجربہ حاصل ہے۔ اوران کا اعتقاد ہے کہ تجربے کے ذریعہ باق راستوں کو طے کیا جائے اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔

دوبارہ تمام صاحبان فکر و نظر اور مفکروں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ افکار و آراء کی بحثوں میں شرکت فرمائیں ۔ اس کا نتیجہ ملک کے اندر نونہالوں کے تفکر کی ثمرآوری و شگوفائی کا باعث بنے گا۔ لوگوں کو چاہئے کہ اس نشر یہ کی امداد و اعانت سے دریغ نہ کریں ۔

درج ذیل نوشتہ ،کلام وحی ماننے والوں اور فلاسفہ کے درمیان جو فرق ہے اس کو میزان شناخت کے عنوان سے حاضر خدمت کیا جارہا ہے جو مطالعہ کرنے والوں کی نگاہوں سے گزرے گا ۔

کیہان فرہنگی ،شمارہ ١٠، سال دوم ،دی ماہ ١٣٦٤ ۔

گفتار مترجم

استاد محقق حضرت آیة اللہ سید جعفر سیدان کی شخصیت، تعارف کی محتاج نہیں ہے، بس آپ کے لئے یہی کافی ہے کہ حوزہ علمیہ مشہد مقدس میں ایک مایۂ ناز استاد ،مفکر ، محقق اور دانشور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مشہد مقدس میں استاد سیدان کو بہ عنوان استا د متکلم ،فقیہ ،عارف مفسر اور پورے ایران اسلامی میں اہل علم و دانش کے درمیان آپ ایک عظیم خطیب ،منقولات اور معقولات کے ماہر استاد اور مسلک تفکیک کے سر برآورہ رہنمائوں میں سمجھے جاتے ہے،علمی دنیا میں آپ ایک خستگی ناپذیر مجاہد اور مذہب حقہ اثناعشریہ کے عظیم مدافع اور مبلغ ہیں آپ صفرہ درس پر ایک کہنہ مشق استاد ،منبر سلونی کے ایک مایہ ناز سخنور ،کلام اللہ مجید کی نشرو اشاعت میں ایک عظیم مفسر ،خصوصا علم کلام میں آپ کی ایک پہچان ہے نیز آپ کو عالیقدر استاد کے طور مانا جاتا ہے، آپ نے اب تک کئی علمی ،فکری اعتقادی اور فلسفی نکات پر قلم فرسائی کی ہے جس میں سے ایک کتاب( بنام) میزان شناخت ہے جس کا ترجمہ آپ کے مبارک ہاتھوں میں (بنام معیار شناخت)موجود ہے انشاء اللہ المستعان مورد پسند قرار پائے گی۔

بس خدا وند منّان سے دعا کرتے ہیں کہ موصوف کو راہ حق وحقیقت میں مزید توفیق عطا فرمائے اور راہ حق و معرفت میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی عنایت کرے۔

لطف عالی متعالی

محمد حسین بہشتی

حوزہ ٔ علمیہ مشہد مقدس (ایران)

معیار شناخت( Epistemology )

غورو فکر اور شناخت کی اہمیت کو ملاحظہ کرتے ہوئے اور یہ کہ صحیح شناخت، انسان کے اہم ترین امتیاز ات میں سے ایک ہے، کسی چیز کی صحیح پہچان ہی اس کی معرفت ہے ہم اختصار کے ساتھ اہم بشری مکاتب اورا س کے معیار شناخت کے بارے میں بحث کریں گے اس کے بعد بعض راہ و روش اور طور طریقوں کا مقابلہ کرتے ہوئے صحیح پہچاننے کے طریقے پیش کریں گے۔ جیسا کہ فہم اور درک کی قدرو قیمت اوراس کی حقیقت وسند مختلف ادیان اور ملل کے لئے قابل قبول ہیں اس کے باوجود دانشوروں اور ہستی و جہان کے حقائق میں تحقیق کرنے والوں نے صحیح پہچان کے بارے میں متعدد طریقے اورآرائبیان کئیہیں ۔

مادیوں کا مکتب( Materialistic School )

مادیوں کی نظر میں حق وحقیقت تک پہنچنے کا راستہ حس و تجربہ ہے یہ لوگ کہتے ہیں وہ افکار اور آراء جو حس اور تجربہ کی نبیاد پر معین اور مشخص ہوئے ہیں وہ قابل قبول ہیں اور بس۔ لہٰذا حس و تجربہ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ نظریہ کا جواب موجود ہے :ہاں بہت سے حقائق تک پہنچنے کے لئے حواس بڑا کردار ادا کرتا ہے اسی وجہ سے یہ کہاگیا ہے:

''من فقَدَ حِسًا فَقَدْ فَقَدَ علمًا''؛

جو حواس میں کسی ایک کو کھودے تو یقینا اس نے علم کاا یک حصہ کھودیا ہے۔

بیشمار دلائل موجود ہیں جو مادیوں کے نظریہ کو باطل کرتے ہیں ہم ان میں سے بعض کو یہاں بیان کریں گے۔

الف: حواس کی خطا قطعی اور بدیہی باتوں میں سے ہے اور سب کے لئے قابل قبول ہے اسی وجہ سے خود حس، کسی میزان اور وسیلہ کی محتاج ہے۔

ب: مختلف علوم کے کلی قوانین، مثلا ریاضی ،فیزکس اور دوسرے علوم جو سب کے لئے قابل قبول ہیں لیکن اس کے باوجود ان علوم کیتمام قانون حس کے ذریعہ حاصل نہیں ہوئے۔اور حس کے ذریعہ ان کی تحقیق نہیں ہوئی ہے۔

صوفیوں کا مکتب( Sufi School Of Thought )

صوفیوں کی نظر میں عقلی اور فکری اہمیت کے ساتھ بہت سے عادی مسائل میں کسی حق و حقیقت تک پہنچنے کا معیار اور ذریعہ کشف اور مکاشفہ ہے اور کہتے ہیں ''پائے استدلالیان چوبین بود''

یہ لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ انسان ہستی کے مہم حقائق کو بغیر کشف و شہود کے نہیں سمجھ سکتا لہٰذا اہل استدلال و منطق کو بہت سے مسائل میں عاجز او ر ناچار سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ان حقائق تک پہنچنے کا راستہ ( طور وراء طور العقل) ہے۔(١)

ان لوگوں کے نظریہ بھی نامکمل اور خدشہ دار ہیں ۔

اس بات کوپیش نظر ر کھتے ہوئے ہوسکتا ہے کشف و شہود بعض موقعوں پر حقیقت کو پالیں لیکن کسی حق و حقیقت تک پہنچنے کا معیا ر نہیں بن سکتے ہیں ، کیونکہ:

پہلا :

بہت سے موارد میں کشف کرنے والے افراد ایک دوسرے سے اختلاف اور تضاد رکھتے ہیں اس وجہ سے صحیح اور غلط کی پہچان کے لئے مکاشفہ کے علاوہ کسی دوسرے معیار کی ضرورت ہوگی۔

____________________

(١) عقل کی حالت و کیفیت کے ماوراء ایک حالت کا نام ہے ۔

دوسرا:

احتمال پایا جاتا ہے کہ جو کچھ مکاشفہ میں مشاہدہ ہوا ہے یہ وہی ریاضت اور مکاشفہ کے مقد مہ کا اثر ہو نہ کہ حقیقت اور واقع تک پہنچنے کامعیار ، اس سلسلہ میں بہت سی مثا لیں موجود ہیں مثال کے طور پر کسی دواکے استعمال سے جواثر اور حالت پیدا ہو تی ہے یہ وہی دوا کا اثر ہے نہ کہ حقیقت اور واقع کا آشکار کرنے والا ۔(١)

____________________

(١)ثالثا: یہ کہ بہت سے کشف وشہود ایسے ہیں جو ہمارے یقینی و قطعی مسائل کے خلاف ہیں لہٰذا وہ معیا ر شناخت نہیں بن سکتے ۔

جیسے محی الدین بن عربی کا کشف ہے کہ خصوص الحکم کے فص داودیة میں کہتے ہیں :

''ولهذا مات رسو ل الله صلی الله علیه وآله وما نص بخلافة عنه الی احد ولا عینه لعلمه ان فی امته من یاخذ الخلافة عن ربه فیکون خلیفة عن الله مع الموافقة فی الحکم المشروع فلماعلم ذلک لم یحجر الامر.

صاحب کتاب ممدالہمم ،شرح فصوص الحکم ،ص ١٤٠، پر اس عبارت کی شرح کے بعد حاشیہ میں کہتے ہیں :

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنا جانشین معین کیا ہے اور وہ امیر المومنین حضرت علی ـ ہیں ۔چنانچہ اس میں بھی شک نہیں ہے کہ رسول خدا نے رحلت کے وقت اپنا خلیفہ و جانشین معین نہیں کیا اس لئے کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کاغذ و قلم مانگا تو عمر نے کہا: کتاب خدا ہمارے لئے کافی ہے (وان الرجل لیهجر ) ''یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ''اوریہ مسئلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے حضور میں نزاع و جھگڑے کی حد تک پہنچا جیسا کہ اس کی تفصیل فریقین (شیعہ سنی) کی کتابوں میں مذکور ہے۔

جبکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ جانتے تھے کہ ان کی امت میں ایسا شخص موجود ہے کہ جو خلیفہ ہے اورحقیقت میں وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ کا جانشین ہے۔

اورا گر لفظ میں بہت زیادہ ثبوت وجمود کیا جائے تو کہنا چاہیئے کہ شیخ ،صاحب عصمت نہ تھے اور اول کتاب میں تصریح کے طور پر کہا ہے کہ میں رسول و نبی نہیں ہوں ۔ لیکن وارث اور پاسبان آخرت ہوں ۔ اور چونکہ وہ صاحب عصمت ،رسول اور نبی نہیں ہے لہٰذا اس کا کشف اس کے اعتقاد کے مطابق اورانس و الفت کے سابقہ کی بنا پر حق تعالیٰ کی جانب سے ہے جس میں اشتباہ واقع ہوا ہے۔

فلاسفہ کا مکتب( School Of Philosophy )

فلاسفہ کی راہ و روش کے مطابق تنہا عقل معیار حق و حقیقت ہے اور اس مکتب میں جو کچھ بھی عقل و فکر اور دلیل سیحاصل نہ ہوں وہ معتبر نہیں ہیں اور وہ اعتبار سے ساقط ہیں ، اس کو قبول نہیں کرتے ہیں ،لہٰذا یہ روش بھی پہلے والی راہ و روش کی طرح شرعی اور مکتب و حی کے مطابق مثبت اور منفی ہونے کے حوالے سے قابل ذکر نہیں ہے یعنی ایک فلسفی دلیل اور برہان کی بنیاد پرراستہ طے کرتا ہے وہ اپنی راہ و روش کے موافق اور مخالف ہونے کے نتیجہ کے بارے میں شریعت کو مورد توجہ قرار نہیں دیتا ہے اس ضمن میں اسلامی فلسفہ کے حوالے سے جو بات آتی ہے وہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔

میری نظر میں اعتراضات میں سے ایک اعتراض جو راہ و روش فلسفی کے بارے میں ہے وہ یہ کہ کہا جاتا ہے عقل جہاں بھی واقعی معنیٰ میں راہ پیدا کرے جو کچھ بھی درک کرے اور حکم کرے تو بغیرکسی چوں و چرا کے قابل قبول ہے لیکن دوسری طرف بہت سے عقلاء اور دانشوروں کی طرف سے جو حکم ،اساسی اختلاف وہ بھی تضاد کی حد تک بہت سے مہم مسائل میں جو فلسفی کتابوں میں موجود ہیں ان کی طرف رجوع کر نے سے پتہ چلتا ہے تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عقل کو تمام مسائل میں راہ نہیں حاصل ہے اس حوالے سے عقل محدود کی شعاع سے بہت سے مہم مسائل، نور عقل کے دسترس سے خارج ہیں نیز بہت سے مسائل، جو عقل کے دائرہ میں آتے ہیں ان مراحل میں بھی عقل کا ان حقیقتوں تک پہنچنا بہت دشوار دقیق ہے،یہاں تک کہ ان حقائق تک رسائی فقظ ان عظیم المرتبہ انسان کے بس میں ہے۔

لہٰذا ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ عقل کا استعمال بہت ہی محدود ہے اس لحاظ سے تمام مسائل میں عقل سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا ہے اس کے مدنظر فلسفی راہ و روش کو معیار کامل اور کافی و وافی نہیں جانا سکتا ہے۔

شیخ الاشراق اور شیخ الفلا سفہ کے نظریہ کے بنیادی اختلافات :

تضاد کی بنیاد اور نظریات شیخ اشراق اور شیخ الفلاسفہ ابن سینا اور اخوند ملا صدرا اور دوسرے فیلسوف حضرات، اکثر اہم مسائل علم جیسے ارادہ ، حدوث، قدم اورخدا کے فاعل ہونے کے بارے میں ،جوہر میں حرکت ،اتحاد عاقل و معقول اور اصالت وجود ،تشکیک ،وحدت وجود ،مسئلہ روح، کیفیت حشرو معاد اور دوسرے فلسفی مسائل جو مکمل طور پر اس راہ و روش کوپُر خطر او رناامن بنادیتے ہیں مذکور ہ بالا نظریات سے ہم نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ حجیت عقل اپنی جگہ محفوظ، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ عقل کی کار کردگی بہت محدود ہے اس محدود یت میں اطمینان کے ساتھ تمام مباحث اور مسائل پر اعتماد نہیں کرسکتے ہیں اس وجہ سے یہ بات واضح ہے کہ حقائق ہستی اور جہان تک پہنچنے کا صحیح راستہ اور طریقہ اسی مستقلات عقلیہ کے حدود میں کہ جس میں عام طور سے اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے وہی عقل پر منحصر ہے اور اسی پر اعتماد و بھروسہ ہے۔

خداوند عالم کی واحدانیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رسالت اور مکتب وحی پر اعتقاد کے بعد جو اسیعقلی فطری ثابت ہوتی ہے ،اطمینان بخش،صحیح راستہ اس وحی الٰہی میں تدبر اور تعقل ہے اور جو کچھ وحی کے ذریعہ سند اور دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح طورپر استفادہ ہو وہی قابل اطمینان ا ور حق حقیقت ہے اس صورت کیعلاوہ انسان کے لئے بڑی بڑی غلطیوں اور لغزشوں میں واقع ہونے کا خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے سر پر منڈلاتار ہے گا اسی مطلب کومرحوم شیخ انصاری رحمة اللہ علیہ نے کتاب رسائل میں قطع (یقین ) کی بحث میں ذکر کیاہے:

''واوجب من ذلک تر ک الخوض فی المطالب العقلیة النظریه لادراک ما یتعلق باصول الدّین فانه تعریض للهلاک الدائم والعذاب الخالد وقد اشیرالی ذلک عند النهی عن الخوض فی مسئلة القضاء والقدر ۔''

احکام میں عقلی استدلال پر اعتماد کو ترک کرنے سے واجب تر ہے کہ غور و فکر کیا جائے عقلی و نظری مطالب میں جو اصول دین سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہیہ طور اور طریقہ انسان کے لئیدائمی ہلاکت اور ہمیشگی عذاب کا باعث ہے۔ جیسا کہ مسئلہ قضا و قدر میں غورو خوض کرنے سے منع کرتے وقت اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

میں بحث کے اس حصہ میں تین مطلب کا ذکر کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں :

الف: اگر کہا جائے مختلف مسائل میں فلاسفہ کے اختلاف کو بنیاد بنا کر نہیں کہاجاسکتا ہے کہیہ فلسفی روش کے غلط اور عدم اطمینان کی دلیل ہے ،جس طرح اختلاف فقہا ء کو فقہ و فقاہت غلط ہونے کی دلیل نہیں بنا سکتے اسی طرح اختلاف فلاسفہ کو دلیل نہیں بناسکتے ہیں ، تو عرض کروں گا روش فلاسفہ کو روش فقہاء سے مقائسہ کرنا اس اعتبار سے صحیح مقائسہ نہیں ہے، کیونکہ

اول:

فلسفیوں کا قطعی طور پر حق و حقیقت تک پہنچنے کا دعویٰ ہے لیکن ان کے درمیان ایک دوسرے سے شدید اختلافات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کہی ہوئی بات قطعی و یقینی نہیں ہوگی لیکن فقہاء نے قطعی و یقینی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے ان کے اختلافات ان کے مدعا کے خلاف کسی چیز کو ثابت نہیں کرتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے استنباط بہت سے موار د میں ہمارے لئے اطمینان بخش ہیں ۔

دوسرے:

فقہاء نے اپنی تکلیف اور ذمہ داری کے مطابق عمل کیا وہ ذمہ داری اور مسئولیت جو قطعی اور یقینی ہے قرآن اور حدیث اور معصومین (ع) کے فرامین میں رجوع کیا ہے اور دوثقل عظیم سے تمسک کیا ہے، استنباط میں اگر اشتباہ کریں ، غلطی کریں تو یہ لوگ معذور ہیں کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

لیکن اس کے برعکس فلاسفہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ واقعیت و حقیقت کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ عقائد اور معارف اسلامی کے ساتھ ارتباط رکھتے ہیں اسی لئے راستہ بھییقینی ہونا چاہیئے اگرایک احتمال بھی ہزاراحتمال میں واقع کے خلاف دیں تب بھی چاہئے کہ تمام کے احتمالا ت کو نظر انداز کر کے واقع کوجس طرح سے وہ ہے مبہم ہو یا مجمل اور جو کچھ بھی اعتقاد رکھیں بلکہ وحی کو قبول کرنے کے حوالے سے ان لوگوں کو وحی کے بارے میں تدبر اور دقت نظر سے کام لینا چاہیئے۔

٢۔ مرحوم شیخ انصاری رحمة اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ اصول دین میں عقلی استدلال سے پرہیز کرنا ضروری ہے حالانکہ فقہائے کرام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :

''اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے''۔

ان دو مطالب کو کیسے جمع کریں اور سلجھائیں نیزکس طرح بیان کریں ؟ تو ہمارا جواب ہے کہ ان دو مطالب کے درمیان کوئی اختلاف اور منافات نہیں ہے اس کے علاوہ یہ ہے کہ اجتہاد بعض موارد میں منقول اسناد کی بنیاد پر جیییمعاد اور امامت ہے اورعقلی استدلالات سے نفی کرنے سے مراد اصول دین میں مستقلات عقلیہ کی نفی نہیں ہے بلکہ مستقلات عقلیہکا حجت ہونا یقینی اور واضحہے اس بناپر اصول دین میں اجتہاد کا لازمہ درج ذیل دو معنی میں سے ایک معنی ہے:

الف:۔ اصول دین مستقلات عقلیہ اور فطری عقل کی بنیاد پر ہو جیسے توحید اور نبوت۔

ب:۔ اصول دین مستند اور معتبر دلیلوں کی بنیاد پر ہو جیسے معاد اور امامت۔

بہرحال اصول دین میں کسی دوسرے کی تقلید اورپیروی جائز نہیں ہے بلکہ فطری عقل کے ذریعہ انسان خود درک کر ے اور مقصد وواقع تک پہنچنے ، اگر چہ تذکرہ اور یاد دہانی کے ذریعہ کیوں نہ ہو ۔ جیسے توحید اور نبوت یا دوسرے مطالب کو سمجھنے کے لئے کتاب و سنت کا سہارا لیاجائے۔

٣۔ا گر کہا جائے جو کچھ بھی فلاسفہ کے بارے میں کہا گیاہے وحی اور شرعی دلیل کے حوالے سے مثبت یامنفی طور پر ان کے لئے ثابت نہیں ہے ۔ یہ وہ بات ہے جو غیر اسلامی فلاسفہ کی نسبت یا کلی طورپر فلسفی روش کی بنیاد کے بارے میں بمعنای خاص کلمہ ہے جیسا کہ مشہور فلسفی جناب ملا ہاد ی سبزواری اپنی کتاب شرح منظومہ میں حصہ فلسفہ صفحہ ٦٨ پر ان الفاظ کے ساتھ رقم طراز ہیں :

ضرورة القضیةالفعلیة

لوازم الاول والمهیة

اس کی شرح میں آیا ہے :

''قولنا المتصدین لمعرفته الحقایق وهم اربع فرق، لانهم اما ان یصلوا الیها بمجرد الفکر او بمجرد تصفیه النفس بالتخلیة والتخلیة او بالجمع بینهما فالجامعون هم الاشراقیون والمصفون هم الصوفیه والمقصرون علی الفکر اما یواضبون موافقة اوضاع ملة الادیان وهم المتکلمون او یبحثون علی الاطلاق وهم المشائون والفکر مشی العقل اذ الفکر حرکة من المطالب الی المبادی ومن المبادی الی المطالب'' ۔

وہ لوگ جو حق و حقیقتکی شناخت کی جستجو اور تلاش میں ہیں چار گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں چونکہ یہ لوگ فقظ فکرکے ذریعہ حقائق تک پہنچنے کی تلاش میں ہیں ۔ یا تزکیہ نفس اور بری چیز وں سے پرہیزنیز اپنے نفس کو خوبیوں سے مزین اور اپنے اخلاق کو ٹھیک کرکے ان مقاصدتک پہنچتے ہیں اور معرفت حاصل کرتے ہیں یاان دونوں کو جمع کر کے فکر اورتزکیہ وتہذیب نفس کے میدان میں آگے بڑھ جاتے ہیں انھیں اشراقیون اور وہ جماعت جو صرف تزکیہ نفس کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے انھیں صوفیہ کہتے ہیں وہ لو گ جو تنہا فکر پراعتماد کرتے ہیں اور ادیان کا لحاظ کرتے ہیں ان کو متکلمین کہتے ہیں وہ لوگ جو تنہا فکر پراعتماد کرتے ہیں بغیر کسی ادیان و مذاہب کے وہ فلاسفہ مشاء ہیں ۔ مگر اسلامی فلاسفہ نے بار بارتصریح کی ہے کہ وہ فلسفہ جو شرع اور شریعت کے خلاف ہو مطرود اور غلط ہے لہٰذا وہ خود شرعی موازین کے پابند ہیں ۔ کہا جاتا ہے بعض اسلامی فلاسفہ جو مکمل طور پر مبانی فلسفہ کے بارے میں تسلط اور آگاہی رکھتے ہیں فقط ان مسائل و مباحث میں کہ جو اسلامی مسائل سے مربوط نہیں ہیں یاجگہوں پراتفاق رکھتے ہیں انھوں نے مباحث سے استفادہ کیاہے لیکن ان مواقع پر جہاں وحی الٰہی سے اتفاق نہیں رکھتے وہاں مکمل طور پر وحی الٰہی کی پیروی اور اس پر اعتمادکیا ہے ،نیز مکتب وحی کے نظریہ کو منتخب کیا ہے اور اس کے معتقد ہیں ۔

البتہ ایسے افراد در حقیقت فقیہ اور عالم ربانی ہیں ۔ دوسرے کچھ اسلامی فلاسفہ اس کے باوجودکی اسلام سے وابستگی رکھتے ہیں عملی طور پر علمی مباحث میں افکار و آراء نوابغ بشری اوربزرگوں کو اپنا محور قرار دیا ہے ۔ اور اپنے افکار میں مختلف مسائل پر اعتماد کیا ہے یہاں تک کہ اگر مکتب وحی سے حاصل شدہ نتائج ان کے افکار کے موافق نہ ہوں تو منابع و اسناد وحی کی تاویل و توجیہ کرنے لگتے ہیں جیسا کہ اس مقالہ کا خاتمہ اس گفتار کے شواہد میں سے ایک ہے ۔

مکتب عرفان واشراق

( Gnosticism and Illumination School )

عرفا ء اور اشراقیوں میں جو تفاوت اور فرق ہے اس اعتبارسے یہ دونوں مشترک ہیں کہ عقل اور کشف کو جمع کرنے کے قائل ہیں ۔ دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی ایک حد مقرر کی ہے نہ اس معنیٰ میں کہ یہ دونوں تمام مراحل میں ہمراہ رہیں کہ کشف حقائق کے اعتبار سے عقل و کشف دونوں اسے ثابت کریں اور اس پردلیل ہوں بلکہ دونوں میں سے کوئی بھی کسی مورد میں کوئی چیز ثابت کرے تو وہ قابل قبول ہے ، گزشتہ مطالب سے روشن اور واضح ہوجاتاہے کہ یہ روش او ر طریقہ بھی مخدوش ہے اور جو ااعتراض روش دوم اور سوم میں وارد ہوا ہے اس مذکورہ مورد میں بھی صادق آتاہے۔ یہ لوگ فلاسفہ سے زیادہ آیات اور روایات میں توجیہ اور تاویل کرتے ہیں اور اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لئے متشابہ آیات اور احادیث سے تمسک کرتے ہیں ۔

مکتب وحی ( The School Of Revlation )

گزشتہ بحث سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کشف اور حقائقکے بارے میں جو معیار ہے وہ عقل فطری ہے اور یہ وہ حجت ہے ۔اصطلاحی حوالے سے مستقلات عقلیہ کے حدود میں عقل قطعی طور پر حجت ہے۔

عقل فطری ہے کہ ہمیں اسی عقل فطری کے ذریعہ مکتب وحی تک پہنچنے کا راستہ مل جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم خداوند عالم اور رسالت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ پر پختہ ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں ۔ یہی مکتب وحی کا معیا ر اور میزان ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے بارے میں غور وفکر اور تدبر کریں تاکہ اس سے فائدہ اٹھاسکیں یہ اس شخص کے مانند ہے جوشمع کے نور کے ذریعہ تاریک بیابان و صحراء میں کہ جو کانٹے اور خش وخاشاک اور قیمتی گوہر سے پرہے،اس میں نفیس اور قیمتی ہیرے اور لعل و یاقوت کی تلاش میں ہو اور اسی دوران وہ شخص بے انتہا نورانی منبع سے روبرو ہوجائے توظاہرسی بات ہے ایسی صورت میں انسان کو چاہئے کہ بہتر سے بہتر طریقے سے اس نورانی جلوے سے فائدہ اٹھائے ،کسی سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ مکتب وحی اور مستند گفتار سیتحقیق اور اس سے فائدہ اٹھائیں تو یہ بات کبھی بھی عقل فطری کے مخالف ، نہیں پیش آئے گی اگر خدا نخواستہ قرآن اور احادیث سے استدلال شدہ مطالب کے مقابلے میں دانشمند وں اور فلاسفہ کی بات نظر آئے( کہ جو دانشمند حضرات جو آپس میں اختلاف رکھتے ہیں ) توواضح سی بات ہے کہ قرآن اور احادیث سے استفادہ کئے گئے مطالب بغیرکسی توجیہ و تاویل کے قابل قبول ہونگے ۔

کیونکہ جو کچھ بھی بنام استدلا ل عقلی وجود میں آتاہے اور ایک دوسرے کے مقابل قرار پاتا ہے ان میں سے ہر ایک میں اپنی جگہ خطا اور غلطی کا احتمال موجود ہے بلکہ بعض اوقات تو ان سب میں یہ احتمال ہوتا ہے اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے تعقل و تدبر و تفکر ،قرآن اور عترت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ سے تمسک کا سلسلہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سب کچھ مکتب وحی کا طرہ امتیاز ہے قرآن اور حدیث میں یہ بات متعدد بار ذکر ہوئی ہے ان میں سے ہم یہاں بعض کا ذکر کرتے ہیں :

١۔( اولم یتفکروا فی انفسهم ما خلق اللّٰه السموات والارض وما بینهما الا بالحق واجل مسمی وان کثیرا من الناس بلقاء ربهم لکافرون ) (١)

کیا ان لوگوں نے اپنے اندر فکر نہیں کی ہے کہ خدا نے آسمان و زمین اور اس کے درمیان کی تمام مخلوقات کو برحق ہی پیدا کیاہے اور ایک معین مدت کے ساتھ لیکن لوگوں کی کثرت اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار کرنے والی ہے ۔

٢۔( وما اتٰکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) (۲)

اور جو لوگ کچھ بھی رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ )تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے ر ک جائو ۔

٣۔'' عن ابی عبداللّٰه ں قال حجة اللّٰه علی العباد النبی والحجة فیما بین العباد وبین اللّٰه العقل'' ۔(۳)

امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں : لوگوں پر خدا کی حجت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور بندوں اورخداکے درمیان حجت عقل ہے ( عقل کے وسیلے سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حجت خدا ہونے کے معتقد ہوتے ہیں ۔)

٤۔'' یا هشام ما بعث اللّٰه انبیائه ورسله الی عباده الا لیعقلوا عن اللّٰه'' ۔(۴)

____________________

(١)-روم:۸

(۲)حشر :٧۔

(۳) اصول کافی ،ج١ کتاب العقل والجہل ، حدیث ٢٢،ج٢، ص٢٥۔

(۴) اصول کافی ،ج١ کتاب العقل والجہل ، حدیث ١٢،ج٢،ص١٦۔

حضرت موسیٰ بن جعفر ـ ہشام سے فرماتے ہیں : خداوند عالم نے انبیاء اورمرسلین کو لوگوں کی طرف نہیں بھیجا ہے مگر یہ کہ لے لیں اور درک کریں جوخدا کی طرف سے ہے یعنی ایک طریقہ اور راستہ جو اللہ نے اپنی طرف قرار دیا ہے وہ مطالب حقہ الہٰی کو لوگپیغمبر وں اور رسولوں کے ذریعہحاصل کریں ۔

٥۔'' من اخذ دینه من کتاب الله وسنة نبیه صلوات الله علیه واله زالت الجبال قبل ان یزول ومن اخذ دینه من افواه الرجال ردته الرجال'' ۔(١)

امام علیہ السلام فرماتے ہیں : جو شخص اپنے دین(عقائدو مختلف سعادت بخش مسائل) کو قرآن اور سنت پیغمبر صلوات اللہ علیہ وآلہ سے لے تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں گے لیکن وہ بندہ خدا اپنی جگہ ثابت و استوار رہے گا او رجوشخص اپنے دین کو لوگوں کی زبان و افواہ سے حاصل کرے تو وہی لوگ اس کواس حق سے جوان سے لیا ہے دور کردیں گے۔ پس حق و حقیقت تک پہنچنے کے معیار کوبیان کرنے کے بعد بعض صحیح روش کے نتائج (مکتب وحی میں تعقل و تدبر)کو بعض بشری مکتب فکر کے نتیجہ کو مقائسہ کے طور پر آپ کی خدمت میں بیان کرتے ہیں ۔

____________________

(١)اصول کافی ،خطبة الکتاب ،ج١۔

معاد جسمانی اور روحانی

منجملہ مسائل میں سے جو قرآن ا ور احادیث سے مستفاد مطالب اور فلاسفہ و عرفاء کے آراء و افکار کے ماحصل کے درمیان تضاد اور اختلاف کھل کر سامنے آتا ہے وہ مسئلہ معاد ہے اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے سب سے پہلے قرآن اور حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں اور نہایت ہی دقت کے ساتھ قرآن اور معتبرحدیث سے استفادہ کرتے ہوئے نتیجہ حاصل کرتے ہیں تاکہ غیر مکتب وحی سے اپنے دل و دماغ کوسیر اورپر نہ کیا،اس کے بعد ہم مشہور فلسفی اخوند ملا صدر کے فلسفی نظریہ کو پیش کریں گے۔ ان کی مشہور فلسفی اور عرفانی روش جس کو جو آخری صدی کے فلسفی اور عرفانی روش کا مرکز اور محور سمجھا جاتاہے بیان کریں گے اس میں جو کچھ قرآن اور احادیث معتبرہ سے فائدہ اٹھائیں گے اس کی مغایرت ان کی نظر میں پائیں گےآخر کار اس عظیم اور مشہور فلسفی اور عرفانی شخصیت کے بعض تاویلات کو اس بحث میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے وہ آیات اور احادیث جو خاص طور سے معاد جسمانی کے حوالے سے بیان ہوئی ہیں آپ دیکھیں گیکہ ان سے صراحت کے ساتھ استفادہ کیا جاتا ہے قیامت کے دن یہی انسانی بدن ہونگے جو دنیا میں اسی روح اورجسم کے ساتھ تھے اسی کے ساتھ محشور ہوں گے ایسا نہ ہوگا کہ قیامت میں فقط یہی روح ہوگی اور بس ۔

آیات قرآن کریم:

اس بارے میں قرآنی آیات بہت زیادہ ہیں ان میں سے بعض کو یہاں بیان کیاجاتا ہے :

١۔( وضرب لنا مثلاً وَّ نَسِیَ خلقه قال من یحیی العظام وهی رمیم ئقل یحییها الذی انشاها اول مر ةوهو بکل خلق علیم ) ۔(١)

____________________

(١)یٰس ٧٨و٧٩۔

اور ہمارے لئے مثل بیان کرتاہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے اور کہتاہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتاہے ۔(اے رسول)آپ کہہ دیجئے کہ اس کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو (جب یہ کچھ نہ تھے)پہلی مرتبہ زندہ کیا وہ ہر طرح کی خلقت سے واقف ہے۔

اس آیت میں صراحت کے ساتھ اسی ہڈی کو جو اس وقت مٹی اور دھول ہوچکی ہے اس کے زندہ کرنے کے بارے میں اعلان فرمارہا ہے اور قدرت خداوندی اس وقت کو یاد دلاتی ہے کہ یہ ہڈیاں نہیں تھیں تب تو انھیں خلق کردیا اور اب تو فقط موجود ہڈیوں کو جمع کرنا ہے۔

٢۔( ایحسب الانسان ان لن نجمع عظامه ) (١)

کیا یہ انسان یہ خیال کرتاہے ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے۔

آیت غلط سوجھ بوجھ اور فکررکھنے والے انسان اور منکر قیامت کے بارے میں ہے، اور ایسے انسان کی سرزنش کر رہی ہے اور بوسیدہ ہڈیوں کیجمع کرنے کو بتاتی ہے کہ جو جمع آوری متفرع پر تفرق ہے.

یہ تمام بوسیدہ ہڈیاں جو تمہارے ظاہری بدن کے اجزاء ہیں اس سر زنش کے ساتھ منکرین قیامت کو یاد دلایاگیاہے کہ ہم ان ہڈیوں کو جمع کریں گے۔

٣۔( وانظر الی العظام کیف ننشزها ثم نکسوها لحما فلما تبین له قال اعلم ان اللّٰه علی کل شیء قدیر ) ۔(٢)

پھر ان ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح جوڑ کر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں پھر جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی تو بیساختہ آوازدی کہ مجھے معلوم ہے کہ خدا ہر شے پر قادر ہے

____________________

(١)قیامت: ٣

(٢)بقرہ:٢٥٩

یہ آیت معاد جسمانی کو اچھی طرح پیش کر تی ہے جو سوسال گزر نے بعد عزیرکی سواری کومتلاشی ہونے کے بعد دوبارہ گوشت اور پوست چڑھتے ہوئے دیکھایا او رصراحت کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ روح کا ارتباط اسی انسانی بدن کے اجزاء کے ساتھ ہے اور اس بات کوذکر کیا ہے۔

٤۔( وان اللّٰه یبعث من فی القبور ) ۔(١)

اور اللہ قبروں سے مردوں کو اٹھانے والا ہے ۔

____________________

(١)حج:٧