سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت0%

سرچشمۂ معرفت مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 112

سرچشمۂ معرفت

مؤلف: حجة الاسلام شیخ محمد حسین بہشتی
زمرہ جات:

صفحے: 112
مشاہدے: 47209
ڈاؤنلوڈ: 2479

تبصرے:

سرچشمۂ معرفت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 112 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47209 / ڈاؤنلوڈ: 2479
سائز سائز سائز
سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

مشخصات کتاب

نام کتاب ...........................سرچشمۂ معرفت

مؤلف......حجة الاسلام والمسلمین شیخ محمد حسین بہشتی

کمپوزینگ............................سید سجاد اطہر کاظمی

ناشر.....................................

طبع...............................................اوّل

تعداد طبع........................................۵۰۰

سال طبع................۲۰۰۹ء بمطابق ۱۴۳۰ھ ق

۳

تقریظ:

سراپا اخلاق ، ذہین وفطین دانشمند، زیرک انسان، متحرک اور فعّال شخصیّت، شگفتہ رو ، برگزیدہ خو، علم اور اہل علم پر والہ وشیدا، ادب اور ادیبوں کے عاشق، فکر جس کی عمیق، نظر جس کی گہری ، کردار جس کا پہلو دار، سوچوں اور خیالوں کی پرتو اور تہوں میں جسکی علمیّت پنہاں، تحقیق وجستجو کے حد درجہ دلدادہ،

حالی کا شعر جس پر صادق آئے

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں

منزلیں قبول نہ کرنے والے رہ نور دِشوق، کوئی بھی محمل لیلائے مقصود کے حصول پر قبول نہ کرنے والے مسافر بمصداق شعر اقبال

تورہ نوردِشوق ہے منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشین ہو تو محمل نہ کر قبول

زمانے کی پابندیاں قبول نہ کرنے والے زمانہ شاز اہل کمال ۔ راقم کے اس شعر کے مفہوم پر عمل پیرا

۴

ہوتے نہیں پابند زمانہ اہل کمال ان کے اپنے پاس زمانے ہوتے ہیں

خطابت جس کا معمول ، تحریر جس کی زبان، تقریر جس کابیان، تدریس جس کی پہچان، کثیر المشرب اور مجلسی انسان، حسن سلوک کامجسمہ، پیکر حلم وحیاء ، پر تو مہر ووفا، سعی مسلسل اور عمل پیہم کی علامت ، فکر وفن جس کے سلامتِ آزاد روی کی سچی ضمانت ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جس کی عبادت ، تبلیغ دین اور احترام آدمیّت کا درس جسکی سلامت روی کی شہادت ، جسکی زندگی کابنیادی مقصد ہدایت ہی ہدایت،جس کی ہر حرکت وسکون ریاضت ہی ریاضت اور جس کاہر قول وفعل قائدانہ صلاحیّت کی عملی تصویر ، میری مراد ہے دوست محترم ، برادر گرامی حجّة الاسلام والمسلمین جناب شیخ محمّد حسین بہشتی ۔

شیخ موصوف کا تعلق کے ٹو اور سیاچن کی سرزمین ، سیّاحوں کی جنّت ارض بلتستان کے صدر مقام سکردو کے علاقہ ژھونگ دوس(سندوس) سے ہے۔

عرصے سے مشہد مقدس اسلامی جمہوریہ ایران میں حصول تعلیمات دینیہ میں مشغول ہیں اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ تحقیق وجستجو کے میدان میں بھی شہسواری کرتے ہیں ۔ خطابت اور تحریر وتقریر کے ساتھ ساتھ گلستان زبان وادب کے بھی بلبل خوش نوا ہیں۔

بہشتی صاحب نے فارسی اور اردو زبانوں میں کئی تحقیقی کتابیں لکھی ہیں ۔ جب کہ مختلف النوع موضوعات پر پُر مغز مقالات بھی لکھے ہیں ، جن کی قدر دانی اور اعتراف میں انہیں اہم اسناد بھی عطا ہوئی ہیں۔

زیر نظر کتاب ''سرچشمۂ معرفت'' ان کے اردو مقالات کا مجموعہ ہے ، ان مقالات کے عنوانات یہ ہیں۔ ۱۔ مکتب تشیع ۲۔ ائمہ علیہم السلام معدن علم الٰہی ۳۔ قرآن اور علی ۴۔سب سے پہلا مسلمان ۵۔دین اور غدیر ۶۔اولی الامر کون؟ ۷۔ علی ای ہمائی رحمت۔

۵

ساتواں اور آخری مقالہ نہایت سبق آموز ، ایمان افروز اور روح پرور مقالہ ہے۔ اس مقالے میں اس حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے کہ فکری پاکیزگی ، روحانی بلندی اور ریاضت سے انسان کتنا بلند مقام حاصل کرتا ہے۔ اور اس کی سوچوں کے دریچے کس طرح کھل جاتے ہیں، علی ای ہمائے رحمت ، استاد شہریار نے حضرت علی مرتضیٰ کی شان میں جو منقبت لکھی ہے یہ منقبت فصاحت وبلاغت کے اصولوں کو جاننے والوں ، حسن کلام کی باریکیاں جاننے والوں اور معانی ومفاہیم کے معارف پر گہری نظر رکھنے والوں کے نزدیک الہامی ، عرفانی اور لافانی کلام ہے ۔ اس کلام کے محاسن اور اس میں پنہاں فلاسفہ وحکمت اور وجدانیت دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ۔ شاعر کاربطہ براہ راست خدا سے اور اس کے برگزیدہ ترین محبوب بندہ علی مرتضیٰ سے ۔

قارئین سے امید کی جا تی ہے کہ وہ '' علی ای ہمائی رحمت '' استاد شہریار کی حضرت علی کی شان میں لکھی گئی منقبت کو دقّت نظر اور فکری گہرائی کے ساتھ پڑھیں گے یقیناً اس کے مطالعے کے نتیجے میں خداوند عالم ان کے عرفانیات اور توفیقات میں بھی اضافہ فرمائے گا۔

بالخصوص شعراء اس کلام سے بے پناہ فیض حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے مطالعے سے شعراء کی صلاحیّتیں اور فکری توانائیاں یقیناً معراج تک پہنچ جائیگی ۔ اس سلسلے میں راقم اپنی نعت کا یہ ایک شعر پیش کرکے قارئین کے شوق کو مہمیز کرنا چاہتا ہوں۔

۶

نہیں معراج ان کی انتہائے رتبۂ عالی

عروج عالم امکان سے برتر محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں

ان سات مقالات سے ان کی تحقیقی صلاحیّت ، علمی بصیرت ، اور تحریر ی قوّت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ قارئین سے راقم کی گزارش ہے کہ وہ بہ نظر عمیق اور نہایت ذوق وشوق عرفان سے ان کا مطالعہ فرمائیں۔ میری دعا ہے کہ خداوند عالم بہشتی صاحب کی بہشتی فکر سے ہم سب کو فیض حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائیں۔

کمال فکر وفن کے راستوں میں یہ کہا ہم سے

ہمیں مشکل سے پاؤگے کہ آسان ہم نہیں ہونگے

فقط آپ کا مخلص ودعا گو!

حشمت علی کمال الہامی

فیڈرل گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو

۷

حرفے چند:

کسی زمانے میں جب مسودے ہاتھ سے لکھے جاتے تھے اور کتابیں ہاتھ سے نقل ہوتی تھیں ، اس وقت قلم ، قلم کار اور کتاب ایک مثلث کے تین اضلاع کہلاتے تھے۔ لیکن ! چھاپ خانے کی ایجاد کے بعد اس مثلث میں ایک ضلع کا اضافہ مطبع یا ناشر کی شکل میں ہوا ۔ اس طرح سے یہ مثلث نکل کر مربّع بن گیا۔ آج کے زمانے میں اب قلم کی جگہ کمپیوٹر اور ناشر وکتاب کی جگہ انٹر نٹ اور سی ڈیز وغیرہ نے لے لی ہے۔ یعنی پھر سے وہی مثلث قائم ہوگیا ۔ لیکن تخلیق کا ر اب بھی وہی انسان ہے قلم کارکی جگہ کوئی نہیں لے سکا ہے ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کتاب کا متبادل نہ پہلے تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کیوں لکھتا ہے ؟ عالمی دانشوروں اور ماہرین نفسیات کے مطابق اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی نظریات ، اعتقادات ، معلومات ، تجربات اور مشاہدات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے اور یہ سب کچھ آنے والی نسلوں کو ورثے میں دینا چاہتا ہے ۔ اور یہی لکھنے کا سب سے بڑا محرّک بتا یا جاتا ہے۔ لکھنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انسان لا فانیت کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے ہر انسان چاہتا ہے کہ موت کے بعد وہ ایک ایسا خلا اپنے پیچھے چھوڑ جائے جس کو بڑی کوششوں کے بعد بھی پُر کرنا ممکن نہ ہو اور موت کے بعد بھی جاودانی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتا ہے پس ادب اور فنون لطیفہ کی تخلیق اور ترقی کے پس پشت انسان کا یہی فطری رجحان کا ر فرما رہا ہے۔ اس طرح سے دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں کتابیں وجود میں آئیں اور انہی کتابوں کے ذریعے علم کا نور چار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ یوں انسانی تہذیب میں قلم ، قلم کار اور کتاب کے مثلث کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ اسی مثلث نے انسانی زندگی کی تاریک راہوں کو روشن کیا ہے زخمی دلوں پر پھاہا رکھا ہے ۔ لیکن گاہے بگاہے کچھ دل آزار اور اشتعال انگیز کتابوں اور تحریروں نے ہنگامہ بھی کھڑا کیا ہے۔خون خرابہ بھی ہوا ہے اور انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔

۸

پس اس پوری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں انسانی معاشرے پر سب سے زیادہ مثبت اور منفی دونوں اثرات کتابوں نے مرتب کئے ہیں ۔ کتابوں ہی کے ذریعے ایک مکتب فکر نے اپنے اعتقادات کو نہ صرف اپنے اندر راسخ کرنے بلکہ دوسرے مکاتب فکر تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔

زیر نظر کتاب کے خالق محترم شیخ محمّد حسین بہشتی صاحب ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ شعلہ بیان مقرر اور صاحب قلم بھی ہیں۔ راقم کو ان سے علم اور قلمی تعلق کے ساتھ ساتھ نسلی اور خونی رشتہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ مجھے ان کی کامیاب علمی وعملی زندگی پر فخر ہے ۔ شیخ صاحب کی زیر نظر کتاب کا مسودہ دیکھنے کے بعد مجھے بڑی خوشی ہوئی اور یہ احساس ہوا کہ اس نوجوان قلم کار نے علم کے کتنے مدارج طے کئے ہیں ۔ ان کی یہ کتاب انسانی تہذیب کے ارتقائی سلسلے کی ایک ایسی کڑی ہے جو صدیوں سے انسانی زندگی میں تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے۔

برادر محترم شیخ محمد حسین بہشتی نے پہلے کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ۔ آپ گورنمنٹ کالج کراچی سے عربی فاضل اور جامعہ امامیہ کراچی سے ممتاز الواعظین کے سند یافتہ بھی ہیں۔ اب گذشتہ پندرہ برسوں سے حوزۂ علمیہ مشہد مقدس ایران میں زیر تعلیم ہیں ۔ دنیا میں ہر انسان بہ یک وقت طالب علم بھی ہوتا ہے اور استاد بھی ۔ شیخ محمد حسین بہشتی صاحب بھی اسی فارمولے کے تحت ایک طرف تحصیل علم میں مصروف ہیں تو دوسری طرف اردو وفارسی زبانوں میں مضامین ، مقالے اور کتابیں لکھ کر علم بانٹ رہے ہیں ۔ چند ایک فارسی کتابوں کے اردو میں ترجمے بھی کئے ہیں جبکہ چند ایک علمی ، ادبی اور ثقافتی مجلوں کو منظر عام پر لانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اقبالیات آپ کا سب سے مرغوب موضوع ہے اور اس موضوع پر آپ بیس سے زیادہ مقالے لکھ کر ایران کی مختلف یونیورسٹیوں میں منعقدہ کانفرنسوں میں پیش کر چکے ہیں ۔ آپ کی ان قلمی خدمات کے صلے میں ایران کے مختلف علمی اداروں کی جانب سے آپ کو '' لوح تقدیر'' یعنی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے ۔

۹

زیر نظر کتاب شیخ بہشتی صاحب کا اثر خامہ ہے جو مختلف عنوانات پر لکھے گئے ان مقالوں کا مجموعہ ہے ۔ اس کتاب میں تاریخ تشیع ، ائمہ علیہم السلام معدن علم الٰہی ، قرآن اور علی، سب سے پہلا مسلمان، دین اور غدیر، اولوالامر کون؟ اور علی ای ھمایٔ رحمت جیسے موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ مجھ جیسے طالب علموں کے لئے یقیناً اس کتاب کے ذریعے مذکورہ موضوعات سے متعلق خاطر خواہ مواد حاصل ہوگا۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

محمد حسن حسرت

ریجنل ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سکردو

۱۰

تقریظ

(ترجمۂ متن فارسی)

بسمہ تعالیٰ

اتحاد بین المسلمین اسلام کے ایسے اہم ترین اصول میں سے ایک ہیں جن میں اسلام کی پائیداری اور مسلمانوں کی شان وشوکت پنہاں ہیں۔ اس کو محض ایک ٹیکنیک کے طور پر نہیں بلکہ ایک اسٹراجیک کے طورپر مدّ نظر رکھنا چاہئے ۔

خداوند رب العزّت جل ّشانہ ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید اس عنوان وحدت کے محور ومرکز شمار ہوتے ہیں۔

حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی عظیم ذات گرامی بھی تمام فرق اسلامی کے درمیان مورد اتفاق شخصیت ہیں اور مرکزی محور میں اہم کرادر اداکرتے ہیں۔

برادر عزیز گرامی جناب حجة الاسلام والمسلمین آقای محمد حسین بہشتی ایک مخلص محقق اور جستجو گر شخصیت ہیں ۔ اس اہم مسئلے کے اثبات کے درپے ہیں ۔

امید ہے کہ مورد تائید وعنایات حضرت بقیة اللہ الاعظم ارواحنافداہ قرار پائیں۔

السلام علی عباداللہ الصالحین

محمد حسین مھدوی مہر

رئیس جامعة المصطفیٰ العالمیہ مشہد مقدس

۱۱

پیش گفتار:

خدا کا شکر ہے کہ جس کے لطف وکرم نے اس قابل بنایا کہ کائنات کی ان عظیم ومقدّس ہستیوں کے عشق ومحبت سے مالا مال اور ان کی اطاعت اور پیروی سے سرفراز ہوجاؤں۔ اور اس قابل بنایا کہ ان کی شان میں اپنی بساط کے تحت کچھ عرض تحریر کروں اور ان کی حقیقت کو بیان کروں۔ البتہ مجھے میری کم علمی ،بے بضاعتی اورناتوانی کا شدّت سے احساس ہے البتہ یہ سعادت میرے لئے کائنات کا سب سے بڑا اعزاز ہے کہ مجھ جیسے حقیر اور کائنات کے ضعیف اور کمزور شخص کو مولائے کائنات کے بارے میں کچھ لکھنے کی توفیق ہونا معجزے سے کم نہیں ۔ یہ لمحہ میرے لئے زندگی کا حسین لمحہ ہے ،قیمتی لمحہ ہے ، میرے پاس کچھ بھی نہ ہو مگر محبت علی ہو تو مجھے کائنات میں سب سے زیادہ یہی چیز پسند ہے۔سب سے شیرین ترین چیز عشق علی ہے سب سے خوش قسمت انسان وہ ہے جو عشق علی رکھتا ہو۔ سب سے بدقسمت انسان وہ ہے جس کے دل میں حبّ علی نہ ہو۔ علی ہی میری شام ہے علی ہی میری صبح ہے ۔علی میری زندگی ہے علی میری کامیابیوں کا راز ہے میرے آسمان کا نام علی ہے میری بلندیوں کا نام علی ہے میری صبح ومساء علی ہے۔ زندگی کی مہارتوں کانام علی ہے۔ علی میرا ادب ہے علی میری ثقافت ہے علی میرا ہنر ہے میری سیاست علی ہے میری دیانت علی ہے علی نہیں تو کچھ بھی نہیں !۔میں کبھی شہریار کے ہمنوا ہو کر علی کو ھمای رحمت کہا کبھی میں اقبال کے ہم خیال ہوکر علی کو سرمایۂ عشق کہا کبھی میں غالب کے ندیم دوست سے بندگی بوتراب تک گیا ۔ہرانسان کاعلمی و فکری نہج خود بہتر جانتا ہے میں بھی اپنے فکری نہج اور علمی سطح سے آگاہ ہوں۔ بچپن سے اب تک بغیر کسی کی راہنمائی کے جو منزلیں طے کیں اس میں مجھے شدّت سے احساس ہے کہ علمی اور فکری لحاظ سے بہت کمی بیشی ہے۔ لیکن عشق محمد وآل محمد علیہم السلام کے دریا میں غوطہ زن ہوکرقلم کو حرکت دی۔ اوریہ جو کچھ آپ کے سامنے ہے یہ سب میرے مولا وآقا کے دئے ہوئے کرم کا کرشمہ ہے۔ میری زندگی میں جب بھی جو کچھ ادھر سے عطاہوا یہی کہتا رہا آج بھی یہی کہتا ہوں کہ:

یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

۱۲

اسلام اور تشیع کی نشرو اشاعت کے حوالہ سے مالی اور معنوی لحاظ سے جن لوگوں نے میرے ساتھ تعاون فرمایا ہے۔ خصوصاً پروفیسر محترمہ عزیز فاطمہ صاحبہ کا شکریہ ادا کرتاہوں ، جنہوں نے مدّت مدید سے میری مالی اور معنوی مدد فرماتی رہی ہے۔

انکے علاوہ جناب پروفیسر حشمت علی کمال الہامی صاحب ، بلتستان کے نامور محقق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سکردو ریجن کے ڈائریکٹر جناب محمد حسن حسرت صاحب اور جامعة المصطفیٰ العالمیہ شعبہ مشہد مقدس کے رئیس جناب حجة الاسلام والمسلمین آقای محمد حسین مہدوی مہر صاحب کا انتہائی شکر گزار ہوں جن کی قلمی اور معنوی عنایات ہمیشہ شامل حال رہی ہیں ۔

میری بچپن سے اب تک میری علمی وفکری لحاظ سے جن لوگوں کا کردار ہے( خصوصاً علامہ سید علی کرّار نقوی صاحب جن کی پدرانہ محبت وشفقت کبھی فراموش نہیں کرسکتا)ان تمام بزرگوں اور ان تمام مرحومین (جن کے احسانات کا میں مدیون ہوں )کے نام اس کوشش اور سعی میں سے ثواب کے حصّے ھدیہ کرتاہوں۔

لطف عالی متعالی

محمد حسین بہشتی مشہد مقدس ایران

۱۳

مقدمہ

تمام مسلمان اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ ذات امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ایک بے نظیر اور منفرد شخصیت ہے ۔ جو کچھ آپ کے اندر ہے وہ کسی اور کے ہاں نہیں ہے۔ یہ وہ عظیم الشان شخصیت ہے جو کعبہ میں پیدا ہوئی ہے اور بچپن سے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں تربیت پائی ۔ سچ کہیں تو علی کون ہے؟

کیا انسانی عقل اس بحر بیکران کو سمجھنے کی طاقت رکھتی ہے؟ ہرگز نہیں ! جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ اے علی مرتضیٰ ! خدا اور میرے علاوہ کسی نے آپ کو نہیں پہچانا۔

جی ہاں ! علی وہ ہے کہ پیغمبر گرامی اسلام نے تمام مسلمانوں خصوصاً صحابہ کرام کے درمیان صرف اور صرف علی بن ابی طالب کو اپنا بھائی بنایا۔

علی وہ ہے! اگرآپ نہ ہوتے تو حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاکے لئے کوئی ہمسر اور کفو نہ ہوتا۔ علی وہ ہے! جو محراب عبادت میں بے مثل اور میدان جنگ میں شجاعت اور بہادری کے حوالے سے آپ کا کوئی بدیل نہیں۔ علی وہ ہے! اگر آپ کی ذوالفقار نہیں ہوتی تو اسلام کا پرچم سربلند نہیں ہوتا ۔ علی وہ ہے! جس کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے۔ علی وہ ہے! کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اللہ کی کتاب اور سنّت پیغمبرکو سمجھنے والے تمام اصحاب سے عقلمند اور دانا ، اسلام کے حوالے سے آپ کی ایثار ووفاداری سب سے زیادہ ہے ۔ آپ کا کلام فصاحت وبلاغت سے پرتھا ، آپ عدل وانصاف کے حوالے سے نمونہ کامل ، لذت دنیا کے ضمن میں پاک وپاکیزہ اور پارسا اور مسلمانوں کی مصلحت کے حوالے سے سب سے آگاہ تر اور مہربان تر تھے ۔ جی ہاں! اے میرے مولا وآقا:

۱۴

کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست

کہ ترکنم سرانگشت وصفحہ بشمارم

آپ کا مقام ومرتبہ کے حوالہ سے یہی کافی ہے کہ حضرت نبی ختم المرتبت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لو ان الریاض اقلام والبحر مداد والجن حساب والانس کتاب مااحصوا فضائل علی ابن ابی طالب(۱) اگرتمام درخت قلم اور تمام سمندر سیاہی اور جن حساب کرنے والے اور تمام انسان لکھنے والے بن جائیں تب بھی علی ابن ابی طالب علیہماالسلام کے فضائل کومکمل نہیں کرسکیں گے ۔یا یوں فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میرے بعد کائنات میں افضل واشرف علی کی ذات ہے جہاں سورج اور چاند چمکتا اور دمکتاہے۔(۲) اور فرماتے ہیں : علی بہترین انسان ہے اگر کوئی اس میں شک کرے وہ کافر ہے(۳) میرے پیارے بھائی : تم خدا کی راہ ہو ! تم نباء عظیم ہو ! تم صراط مستقیم ہو! تم مثل اعلیٰ ہو! تم امام مسلمین اور امیر المؤمنین ہو! تم بہترین میرے جانشین اور صدیق اکبر وفاروق اعظم ہو!(۴) ۔

ہزاروں قسم کی دوسری احادیث اور روایتیں اپنی جگہ محفوظ ہیں جو شیعہ اور سنی طریقہ سے نقل ہوئی ہیں۔ جی ہاں! علی تنہا وہ گوہر یکتا ہے کہ دنیاء عالم نے اس کی مثل کبھی نہیں دیکھی اور نہ ہی دیکھے گی۔ جو کچھ کہا گیا اور کہا اور آئندہ کہیں گے اور لکھیں گے سب کے سب سمندر میں ایک قطرہ کی مانند ہیں فضائل علی بن ابی طالب کے مقابلہ میں۔

____________________

(۱) کفایة الطالب ، گنجی شافعی بات ۶۲ ص ۲۵۱

(۲) لسان میزان ، عسقلانی جلد ۶ ص ۷۸

(۳) کنز العمال جلد ۶ ص ۱۵۹

(۴) ینابیع المودة قندوزی حنفی

۱۵

تاریخ تشیع

یا صاحب الزمان ادرکنی

یا علی مدد

بشنو از تاریخ در د و رنج و خون

تا ببینی شیعہ را در خاک و خون

خون کلام شیعہ را گویدر جلی

شیعہ یعنی عشق بازی با علی

تاریخ شیعہ ایک ایسی تاریخ ہے کہ جس میں ہزاروں نشیب و فراز، رنج و الم، خون ریزی اور قید و اسیری ہے ان تمام حوادث کے باوجود صبر و استقامت کے باعث عظیم الشان کامیابیاں اس کا مقدر قرار پائی ہیں۔ تاریخ شیعہ اپنے امتیاز کی وجہ سے سخت ترین حالات اور دشوار ترین منازل میں ظالموں کی زور گوئی سے ٹکرا گئی لیکن ظالموںاورحق کے غاصبوں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا(هیهات منا الذلة )(۱) اسی لیے قلم تاریخ شیعہ کی عظمت و سربلندی کو باطل کے سر چڑھ کر لکھا (شِیْعَةُ عَلِیٍّ هُمُ الْفَائِزُوْنَ )(۲) اور خاور و باختر میں یہ نغمۂ عشق علی صفحات کی زینت بنا ہوا ہے۔

زمشرق تا بمغرب گر امام است

علی و آل او ما را تمام است

____________________

۱۔ اللھوف صفحہ ۹۷

۲۔ الدرالمنثور ج ۸ صفحہ۵۳۸

۱۶

جی ہاں! شیعیان علی نے اپنے عشق علی کا تاوان ادا کیا ہے.

آنہا کہ نوای عشق موزون زدہ اند

ہر نیمہ شبی سجادہ در خون زدہ اند

نشنیدستی کہ عاشقان خیمہ عشق

از گردش ھفت چرخ بیرون زدہ اند

اگر سینہ میں دل اور دل میں احساس رکھتے ہیں تو جذبات قابو کرتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے ۔ حق کی حمایت میں علی پچیس (۲۵) سال...خانہ نشین رہے فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا نے حمایت حق اور دفاع امامت میں وہ کونسی مصیبت نہیں دیکھی حتیٰ کہ پہلو پہ زخم کھا کر دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔

اے فاطمہ میری جسم و جان تو ہے

میری کشتی و نوح و طوفان تو ہے

ہر رخ پہ امامت کی حفاظت کردی

شکستہ پہلو اور مجروح جان تو ہے

امام حسن مجتبی علیہ السلام نے خاموشی سے زہر قاتل کو نوش کیا کہ جس سے جگر کے بہتر (۷۲) ٹکڑے ہوگئے لیکن حق کی حمایت سے ہاتھ نہیں اٹھایا.

غریب الدیار امام حسین علیہ السلام کی جودرد بھری آواز کل صحرائے کربلا میں بلند ہوئی تھی وہ آج بھی کائنات کی فضاء میں گونج رہی ہے.

(هَلْ مَنْ نَاصِرٍ یَّنْصُرْنِیْ )ہے کوئی مجھ مظلوم و بیکس کی مدد کرنے والا؟

جناب زینب نے وطن سے دور بھائی کی شہادت کے بعد بیکسی میں جلتے خیمے دیکھے. اور آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیہم السلام کے درّوں کو کربلا کی تپتی ریت میں ملتے دیکھا.

۱۷

کسی کا سر کٹا تھا تو کسی کے سینہ پر برچھی کا پھل لگا. کسی کی لاش پائمال تھی تو کسی کے بازو قلم تھے۔ سروں سے چادریں چھینیں، بازاروں میں تشہیر ہوئیں تو کہنے پر مجبور ہوئیں۔

(اَمَا فِیْکُمْ مُسْلِم و ....؟ ) کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں؟

عشق علی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے جوہر کس و ناکس کو نصیب نہیں ہوتی ہے اور جسے نصیب ہوتی ہے تو وہ گھر بار لٹا کرسولی پر چڑھ کر اس عشق کا سود ا شب ہجرت کے نفس علی کے خریدار سے کرتا ہے.

اگر انسان تعصب کی عینک اتار کر حقیقت کی نظر سے دیکھے تو میثم تمار عشق علی کے جرم میں فراز دار پر چڑ ھ کر مدح علی کرتے نظر آئیں گے گویا مدح کرنے کی خاطر میثم کو منبر مل گیا کہ منبر پر بیٹھ کر خطیب فضیلت علی بیان کر رہا ہے ۔

وفا داری اصول عاشقان است

کہ جان را دادہ میثم یا علی گفت

عمار یاسرکا اسی عشق کی سزا میں جنگ صفین میں باغی گروہ نے خون بہا دیا اور یہ نہیں سوچا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ عمار یاسر کا قاتل باغی و گمرا ہ ہے اور عمار یاسر معیار حق ہے.

ابوذر غفاری نے علی کی حمایت اور لوٹ مار کرنے والوں کی مخالفت میں آواز حق بلند کر کے مسلمانوں کو حق کی طرف بلا یا تو جلا وطن کر کے ربذہ بھیج دیا گیا۔

حبیب ابن مظاہر کے سر اقدس کو فرزند علی و بتول کی حمایت میں تن سے جدا کیا گیا. مسلم بن عقیل کو دار الامارہ کی چھت پر سر قلم کر کے جسم مبارک نیچے گرا کر کوفہ کی گلیوں میں پاؤں میں رسی باندھ کر کھینچا گیا تو فاطمہ زہرا تڑپ کر جنت سے کوفہ آگئی.

شہید اول کو حریم ولایت کے دفاع میں دار پر چڑھا کر سنگسار کیا گیا اس کے بعد جسم مبارک کو جلا کر راکھ کردیا گیا.

۱۸

شہید ثانی کے سر مبارک کو بدن سے جدا کر کے حاکم وقت کے دربار میں بھیجا گیا(۱) . ابھی ظالم مہلت کی زندگی گزار رہا ہے اور منتقم خون شہداء اللہ جل جلالہ کی آخری حجت اما م زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف غیبت کے پردہ میں نوحہ کناں ہیں اور فریاد کر رہے ہیںکہ: اے میرے مظلوم جد بزرگوار میں صبح و شام آپ کی غربت و مظلومیت پر خون کے آنسو رو رہا ہوں۔

اور ہر روز بارگاہ خداوندی میں دعا کرتا ہوں۔ (اَللّٰهُمَّ انْجِزْ لِیْ مٰا وَعَدْتَنِیْ )(۲)

اگر آج ہم کو کامیابی در کار ہے تو ہمیں احکام الہی کی پابندی اور سیرت معصومین علیہم السلام پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونا پڑے گا ، مذہب تشیع کی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی و سستی نہیں کرنا ہوگی اور اپنے اندر شیعیت کی علامتیں پیدا کرنا ہوں گی تو کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی۔

تاریخ شیعہ پر بحث و گفتگو کرنے سے پہلے چند مطالب کا ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔

۱۔ شیعہ لغت میں

شیعہ یعنی پیرو ئے مولا علی

لیکن بعد میں یہ لفظ ِشیعہ ایک خاص گروہ کے ساتھ مخصوص ہوگیا یعنی (موالیان علی ابن ابی طالب)

بندہ ٔیک تن فقط، آنہم علی

لغت کے اعتبار سے شیعہ کے تین معنی ہیں۔ پیرو کار، حامی، گروہ یا پارٹی فیومی مصباح المنیر میں

____________________

۱:مقدمۂ شرح لمعہ

۲:کمال الدین ج ۲ ص۹۲

۱۹

کہتے ہیں: کہ شیعہ کے معنی پیروکار اور حامی کے ہیں لفظ شیعہ ہر اس فرد پر منطبق ہوگا کہ جو کسی گروہ کے ساتھ ہو یا جوافراد کسی ایک بات پر اتفاق کرلیں۔

وَ کُلُّ قَوْمٍ اجْتَمَعُوْا عَلٰی اَمْرٍ فَهُمْ شِیْعَة (۱)

۲۔محمد بن یعقوب فیروز آبادی صاحب قاموس ''المحیط'' میں لکھتے ہیں کہ:شِیْعَةُ الرَّجُلِ اَتْبَاعُه وَ اَنْصَارُه وَ قَدْ غَلَبَ هٰذا الْاِسْمُ عَلٰی کُلِّ مَنْ یَّتَوَلّٰی عَلِیاً وَّ اَهْلَ بَیْتِه (۲)

یعنی جو انسان جس شخص کی اطاعت و حمایت و اتباع کرے اسے شیعہ کہا جاتاہے اور یہی اصل معنی ہیں لیکن بعد میں یہ لفظ علی اورانکی اولاد کی ولایت رکھنے والوں پر غالب آگیا یعنی علی و اہلبیت کے پیروکاروں سے مخصوص ہوگیا ۔

علماء لغت نے شیعہ کے اور بھی تین معنی بیان کئے ہیں جن کا یہاںبیان کردینا مناسب سمجھتا ہوں:

لفظ شیعہ مذکر مونث، مفرد، تثنیہ میں یکسان استعمال ہوتا ہے شیعہ : لغت میں کسی کا کسی کے طریقہ و مکتب و نظریہ کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ پیروی و اطاعت اور اتباع کرنے والا مقدم ہو یا مؤخر پہلے آیا ہویابعد میںجیسا کہ پروردگار عالم نے قرآن مجید میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

( وَحیلَ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَا یَشْتَهُوْنَ کَمَا فُعِلَ بِاَشْیَاعِهِمْ مِنْ قَبْلُ ) (۳)

'' اور اب تو انکے اور ان چیزوں کے در میان جن کی یہ خواہش رکھتے ہیں پر دے حائل کردئے گئے ہیں جس طرح ان سے پہلے والوں کے ساتھ کیا گیا تھا کہ وہ لوگ بھی بڑے بے چینی کرنے والے ،شک میں پڑے ہوئے تھے'' مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ یہ آیت شریفہ زمانہ استقبال پہ دلالت کرتی ہے جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ آیت کے ما قبل کے افراد بھی کافر تھے اور ما بعد والوں نے بھی کفر کیا ہے۔

____________________

۱ : مصباح المنیر، مادۂ شاع

۲ : قاموس المحید، چاپ بیروت

۳ :سورہ مبارکہ سبا، ۵۴

۲۰