سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت0%

سرچشمۂ معرفت مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 112

سرچشمۂ معرفت

مؤلف: حجة الاسلام شیخ محمد حسین بہشتی
زمرہ جات:

صفحے: 112
مشاہدے: 47223
ڈاؤنلوڈ: 2480

تبصرے:

سرچشمۂ معرفت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 112 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47223 / ڈاؤنلوڈ: 2480
سائز سائز سائز
سرچشمۂ معرفت

سرچشمۂ معرفت

مؤلف:
اردو

تفسیر خزان علم:

اس ترتیب کے ساتھ خزائن علم کی تفسیر واضح اور روشن ہوئی کہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام ذات پروردگار عالم کے خزینہ علم ہیں لہٰذا خداوند عالم نے علم غیب کی چابی کو (جو علم خصوصی کے سوا) باقی تمام علوم غیب پر مشتمل ہے اہل بیت علیہم السلام کے ہاتھوں میں دیا اسی لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

''اَناَ مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِیّ بَابُهَا ''(۱) میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہیں لہذا ضروری نہیں ہے کہ جو علوم انبیاء کو عطا ہوئے اور جو علم شب قدر میں نازل ہوا ہے انہی دو علوم پر منحصر اور محدود کریں بلکہ چند نقطے قابل ذکر ہیں توجہ فرمائیں:۔

۱۔ آگاہی انتخابی:

یہ آگاہی انتخابی اور اختیاری ہے یعنی جہاں اور جس وقت ارادہ کریں آگاہی حاصل ہوجاتی ہے حضرت امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:۔

اِنَّ الْاِمَامَ اِذَا شَائَ اَنْ يَّعْلَمَ عَلِمَ ۔یعنی بتحقیق امام جہاں اور جس وقت ارادہ کرے جان لیتا ہے

____________________

۱:کنز العمّال ج ۱۲ ص ۲۰۳ ح ۱۱۵۲

۴۱

دوسری روایت میں آیا ہے کہ عمار ساباطی کہتے ہیں حضرت امام صادق علیہ افضل صلواة سے سوال کیا۔ اَلْاِمَامُ ےَعْلَمُ الْغَےْبَ؟ کیا امام علم غیب رکھتا ہے؟ حضرت علیہ السلام نے فرمایا۔ (وَ لٰکِنْ اِذَا اَرَادَه اَنْ يَّعْلَمَ الشَّیْئَ اَعْلَمَهُ اللّٰهُ ذٰلِکَ ) جی ہاں جس وقت کسی چیز کوجاننے کا ارادہ کریں تو خداوند عالم انہیں آگاہ فرماتا ہے اس ترتیب کے ساتھ اس سوال کا جواب بھی دیتے ہیں کہ کیا حضرت علی علیہ السلام شب ہجرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر پر زندہ رہنے یا مرنے کے بارے میں علم رکھتے تھے؟

تو عرض کروں گا حضرت علی علیہ السلام نے اس بارے میں جاننا ہی نہیں چاہا ورنہ معلوم ہوجاتا چونکہ آپ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہونا چاہتے تھے۔لہٰذا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایک قربانی طلب شخص اپنے زندہ رہنے یا مرنے کی فکر میں رہے البتہ آپ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کی فکر میں ضرور تھے اسی لیے آپ نے سوال کیا یا رسو ل اللہ میرے سونے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچ جائے گی؟ تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :یا علی میری جان بچ جائے گی۔ ہمارے ماں باپ آپ کے اوپر قربان ہوجائیں یا علی مرتضٰی ہزاروں درود و سلام ہوں آپ کے ایثار اور فداکاری پر.

ب: علم افاضی:

بہر حال ہم نے مان لیا کہ یہ علم کوئی مستقل علم نہیں ہے بلکہ پروردگار عالم کی طرف سے عنایت ہوتا ہے لہٰذا ایک طرف ہم دیکھتے ہیںکہ حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں اس قدر روتے ہیں کہ آنکھیں سفید ہوجاتی ہیں (وَ ابْيَضَّتْ عَيْنٰاهُ مِنَ الْحُزْنِِ )ظاہر ہے اگر حضرت یعقوب اپنے فرزندیوسف کے بارے میں جانتے کہ وہ زندہ یا صحت وسلامت ہیں اس قدر نہ روتے، گریہ نہ کرتے، آنکھیں سفید نہ ہوتیں۔ دوسری طرف کچھ عرصہ کے بعد آپ فرماتے ہیں: ۔کہ مجھے یوسف کی بو آرہی ہے اگرتم لوگ مجھے نادانی اور کم عقل ہونے کا الزام نہ لگاؤ؟

۴۲

اِنِّی لَاَجِدُ رِيْحَ يُوسُفَ لَوْلَا اَنْ تُفَنِّدُوْن (۱)

لہٰذا خداوند عالم نے حضرت یعقوب کو معنوی ترقی اور امتحان الٰہی کے حوالے سے یوسف کے بارے میں علم غیب نہ د یاہو بہر حال آخر کار یوسف کے بارے میں علم غیب عطا کیاگیا۔

ج: علم غیب انسان کی ہدایت کے حوالے سے:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں ہمیں یہ چیز ملتی ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام نے علم غیب اور ولایت تکوینی دونوں کے حوالے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ بہ الفاظ دیگر معصومین علیہم السلام علم غیب پر بھی اورولایت تکوینی پر بھی تصرف رکھتے ہیں یعنی جہاں جہاں مناسب سمجھا کہ ان علوم کے استعمال سے انسان ہدایت یافتہ ہوجائے وہاں وہاں تصرف کیا البتہ معصومین علیھم السلام نے کبھی بھی شخصی کاموں میں علم غیب اور ولایت تکوینی کا سہارا نہیں لیا۔ سختی، زندان ، مصیبت، بیماری اور شہادت کوقبول اور برداشت کیا لیکن قدرت خداوندی کو جو انھیں عطا شدہ تھی استعمال نہیں کیا حتی کہ حادثہ کربلا اور روز عاشور کے دن اگر حضرت ابا عبد اللہ امام حسین علیہ السلام ارادہ فرماتے تو آپ کے پائے اقدس کے نیچے سے چشمے ابل پڑتے لیکن امام حسین علیہ السلام نے نہیں چاہا کہ قدرت الٰہی کو استعمال میں لائیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے اسی طرح زندگی کی جس طرح عام انسان زندگی کرتے ہیں بقول حضرت امام صادق علیہ السلام (ےَصْلَحُ وَ ےَمْرِضُ)امام بھی بیمار ہوتے ہیں اور صحت یاب ہوتے ہیں (ےَاْکُلُ وَ ےَشْرَبُ)۔ کھاتے بھی ہیں اورپیتے بھی ہیں(وَ يَفْرَحُ وَ يَحْزُنُ ) خوشی اور غم دونوں لاحق ہوتے ہیں(و يَضْحَکُ وَ يَبْکِی ) ۔ ہنستے بھی ہیں روتے بھی ہیں۔

____________________

۱:یوسف ،۹۴

۴۳

چنانچہ قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں یہ آیت ملتی ہے (( قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَر مِّثْلُکُمْ ) لہذا مذکورہ تین اقوال اس حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ امام شناسی ایک انتہائی مہم اور حساس معاملہ ہے اس ضمن میں دو خطرات کو مد ّ نظر رکھنا نہایت ضروری ہے:

(۱) سب سے بڑا خطرہ غلو ہے:

امام شناسی کے حوالے سے انسان کہیں امام کو خدا کی حد تک نہ لے جائے یا امام کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کہہ بیٹھے۔

(۲) دوسرا خطرہ:

امام کی شخصیت اور مقام کو ایک عام انسان کی سطح تک نہ لے آئیں بہ الفاظ دیگر امام کے صحیح مقام اور مرتبہ کو نہ پہچا ننا، ان کی شخصیت واقعی کی معرفت حاصل نہ ہونا۔ بہر حال وہ انسان ہیں لیکن عام انسان نہیں بلکہ خداوند عالم کے منتخب اور برگزیدہ بندے ہیں لہذا اسی آیت کے تسلسل میں فرماتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ مجھ پر خداوندمتعال کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔

در جھانی ہمہ شور و ہمہ شر

ھا علی بشر کیف بشر

امید واثق ہے خداوندکریم و مہربان ہمیں محمد و آل محمد علیھم السلام کی صحیح معرفت حاصل ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔

اَللّٰهُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَّمْ تُعَرِّفْنَی نَفْسَکَ لَمْ اَعْرِفْ نَبِيَّکَ اَللّٰهُمَّ عَرِّفْنِی رَسُوْلَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُوْلَکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکَ اَللّٰهُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِيْنِی (۱)

____________________

۱:مفاتیح الجنان صفحہ ۹۶۷ انتشارات آستان قدس رضوی

۴۴

زیارت جامعہ کبیرة

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یٰا اَهْلَ بَیْتٍ النُّبُوَّةِ وَمَوْعِضَ الرِّسَالَةِ وَمُخْتَلَفَ الْمَلَائکَِةِ وَمَهْبِطَ الْوَحْیِ وَمَعْدِنَ الرَّحْمَةِ وَخُزّٰانَ الْعِلْمِ وَمُنْتَهٰی الْحِلْمِ وَاُصُوْلَ الْکَرَمِ وَقَادَةَ الُامَمِ وَاَوْلِیَائَ النِّعَمِ وَعَنَاصِرَالْاَبْرَارِ وَدَعَائِمَ الْاَخْیَارِ وَسَاسَةَ الْعِبَادِ وَاَرْکَانَ الْبِلَادِ وَاَبْوَابَ الْاِیْمٰانِ وَاُمَنَائَ الرَّحْمٰنِ وَسُلَالَةَ النَّبِیِّیْنَ وَصَفْوَةَ الْمُرْسَلِیْنَ وَعِتْرَةَ خِیَرَةَ رَبَّ الْعٰالَمِیْنَ

وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه

ترجمہ

اے اہل بیت نبوت، اور مقام رسالت ، اور منزل ملائکة ، اور مقام وحی، اور معدن رحمت، اور علم کے خزانے، اور حلم کے انتہائی مقام، اور کرم کے اصول، اور امتوں کے قائد ، اولیاء نعمت، اور ارکان ابرار، اور نیکوں کے منزل اعتماد، اور بندوں کے قائد ، اور شہروں کے ارکان ، اور ایمان کے دروازے ، اور رحمان کے امین ، اور نبیوں کے فرزند، اور مرسلین کے برگزیدہ، اور رب العالمین کے نیک بندوں کی عترت

سلام ہو آپ پر اور خدا کی رحمتیں اور برکتیں بھی ۔

۴۵

قرآن اور علی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ جَعَلَنٰا مِنَ الْمُتَمَسِّکِيْنَ بِوِلَايَةِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبِ وَ اَوْلَادِه الْمَعْصُوْمِيْنَ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدَانٰا لِهٰذٰا وَ مٰا کُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْلَااَنْ هَدٰانٰا اللّٰهُ القرآن: وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَيْنٰاهُ فی اِمَامٍ مُّبِيْن (۱)

حدیث:عَلِیّ مَعَ الْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِیٍّ (۲)

قرآن: اور ہم نے ہر شے کوایک روشن امام میں جمع کردیا ہے۔

حدیث: علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔

علی علیہ السلام ایک فرد بزرگ ہیں، علی علیہ السلام ایک عالیقدر شخصیت جو تمام ابعاداور خصوصیات انسانی کا ایک مکمل پرتو ہے یہاں تک کہ داخلی بندگی اور بچپن کا دور برجستہ اور ممتاز ہے۔ علی علیہ السلام سب سے پہلے اسلام لانے والے اور اسلام میں پہلے مجاہد فی سبیل اللہ ہیں اسی لیے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

مسلم اول شہ مردان علی

عشق راسرمایہ ایمان علی

از ولائے دودمانش زندہ ام

در جھاں مثل گہر تابندہ ام(۳)

علی علیہ السلام جس کی جان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ پیوند خوردہ تھی اور ان کی زندگی حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ساتھ آمیختہ تھی ۔فقط علی کو یہ فضیلت نصیب ہوئی کہ

____________________

۱۔ یس آیت۱۲

۲ ۔امالی شیخ صدوق صفحہ ۱۴۹

۳۔ کشف الفاظ اقبال ص ایضا کلیات اقبال ص۷۷

۴۶

خدا کے گھر میں آنکھ کھولی بقول شاعرمشرق

کسی را میسر نہ شد این سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

حضرت علی علیہ السلام کے سوا کسی بشر نے یہ عظیم شرف نہیں پایا کہ خدا کے گھر میں اس کی ولادت ہو اور خدا کے گھر میں ہی درجہ شہادت پر فائز ہو۔ حضرت کی پیدائش، حیات مقدس اور شہادت مکتب انسانیت کے لیے ایک درس ہے۔

حضرت علی علیہ السلام دنیائے اسلام کی وہ عظیم دوسری شخصیت ہیں جنہوں نے انسانوں کو اپنی ولادت حیات اور شہادت کے ذریعے رزم، عزم، علم وحکمت، مجاہدت اور شہادت کاوہ سبق سکھا یا جو انسانی زندگی کی نشیب و فراز سے پر تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والا سرمایہ ہے۔ مولا علی علیہ السلام عظمتوں، طہارتوں، تقدسوں اور احساسات کے گوناگون انواع کے رب النوع کی حیثیت کے حامل تھے اسی لیے فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست

کہ ترکنم سر انگشت و صفحہ بشمارم

آپ کی شخصیت وہ بے نظیر شخصیت ہے کہ جس کے سامنے دوست محبت و الفت کے ساتھ اور آپ کے دشمن اور مخالفین حیرت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

یا ابا الحسن بابی انت و امی

شهد الانام بفضله حتی العدیٰ

و الفضل ما شهدت به الاعدأ

آپ کی وہ ملکوتی آواز جو آج پوری دنیا کی حکومتوں کے لیے لمحہ فکر یہ اور سبق آموز ہے آپ فرماتے ہیں :خدا کی قسم میری یہی پیوند دار جو تیاں میرے نزدیک تم جیسے لوگوں پر حکومت کرنے سے زیادہ عزیز ہیںمگر یہ کہ اس حکومت کے ذریعے کسی حق کو اس کی جگہ پر قائم کروں یا کسی امر باطل کو اکھاڑ پھینک سکوں، حقیقت امر یہ ہے کہ مولا علی علیہ السلام کو سوائے خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کوئی درک نہیں کرسکا اور خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو علی کے سوا کوئی نہیں پہچانا ۔ اسی لیے شاعر کہتے ہے۔

۴۷

علی قدر پیمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم را شناسد

کہ ہر کس خویش را بہتر شناسد

معرفت اور غیر معرفت کا اندازہ مولا علی علیہ السلام کے اس جملہ سے کر سکتے ہیں آپ فرماتے ہیںمَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ (۱) نہیں پہچانا ہم نے تجھے جو حق تجھے پہچاننے کا تھا آپ ایک مقام پر فرماتے ہیں:۔ اے میرے معبود! مجھے وہ کمال عطا فرما کہ سب سے کٹ کر تیرا ہوجاؤں اور میرے قلب کی بصارت میں وہ ضیاء عطا فرما کہ جس سے تجھ تک بے خطر پہنچ سکوں یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے حجاب کو چاک کردیں اور معدن رحمت، معدن عظمت ،معدن شرافت اورمعدن عدالت سے متصل ہوجائیں۔

علی علیہ السلام کی عمر ۲۰ سال کی تھی جب انہوں نے بستر مرگ پر خدا کی مرضی کو خرید لیا ۔

''( وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ رَؤُف بِّالْعِبَادِ ) (۲)

علی علیہ السلام کی عمر جب ۲۶ سال ہوئی تو انہوں نے میداں میں عتبہ، ولید اور بطحاء کی سرزمین کے

____________________

۱:پرتوی از انوار نہج البلاغہ ص ۲۳

۲:سورہ بقرہ ۲۰۷

۴۸

پہلوانوں سے پنجہ آزمائی کی، احد کے میدان میں حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد پروانے کی طرح چکر کاٹتے رہے اور احزاب میں عمرو بن عبدود جو کہ شاتم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھا اس کا سر تن سے جدا کیا(بَرَزَ الْاِسْلَامَ کُلُّه اِلٰی کُفْرِ کُلِّه )(۱) اگر طول تاریخ میں نگاہ کریں تو نظر آئیگاکہ تنہا علی وہ انسان ہیں جس کے مختلف ابعاد ہیں کہ جو ایک انسان میں نہیں ہو سکتے۔ علی ایک سادہ مزدور کی طرح زمین اور باغات کی گوڈی کرکے قناعت کرتا ہوا نظر آتا ہے، علی ایک حکیم و دانش کی طرح سوچتے ہیں، علی خدا کے مقابل میں ایک اطاعت گزار بندہ ہے، علی ایک شمشیر زن اور قہرمان بھی ہے،علی معلم اخلاق اور مظہر سرمشق فضائل انسانی ہیں،علی پدر دلسوزاور مہر و محبت کرنے والابھی ہے اورعلی جانشین رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ہیں۔

علی امت اسلامی میں سب سے زیاد ہ محبت کرنے والا اور محبوب شخصیت ہیں ،علی کا نام مردانگی ہے، علی کا نام حق ہے، عدل ہے، امانت ہے، نام علی لیاقت،سخاوت، جوانمردی، ہے ،علی کا نام ہے کہ جس کے بارے میں خود خداوند قدوس نے فرمایا:

( وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَيْنٰاهُ فی اِمٰامٍ مُّبِيْنٍ ) (۲) ۔''ہم نے ہر چیز کو امام مبین میں جمع کیا ہے ''

جس کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

(عَلِیّ مَعَ الْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِیٍّ(۳)

(عَلِیّ مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِیٍّ يَدُوْرُ مَعَه حَيْثُمٰا دَارَ )(۴) ۔ علی حق کے ساتھ اور حق علی

____________________

۱: غوالی اللئالی جلد ۴ صفحہ ۸۸

۲: سورہ یٰسین۱۲

۳: سفینة البحار ج۱ ، ص ۶۴۲

۴:مسند امام علی ج ۷، ص ۳۳۷

۴۹

کے ہمراہ ہے ،اسی طرح حضور ختمی مرتبت آپ کو اپنے بعد امت کے لیے ہادی بنا کرچھوڑ جاتے ہیں اور صریح حدیث ہے ۔

(قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلّٰی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ آلِه وَسَلَّمَ : اِنِّیْ تٰارِک فِيْکُمُ الثِّقْلَيْنِ کِتٰابَ اللّٰهِ وَ عِتْرَتی اَهْلُ بَيْتی مٰا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدی وَ اِنَّمٰا لَنْ يَّفْتَرِقٰا حَتّٰی يَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ(۱)

میں تمھارے در میان دو گران قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسری میرے اہل بیت اگر ان سے متمسک رہیں تو میرے بعد گمراہ نہیںہوںگے اور یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ مجھے حوض کوثر پر آ ملیں گے۔ پیغمبر اسلام کی حضرت علی کے ساتھ دوستی اور محبت قابل دید ہے قرآن مجید جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قلب مبارک پر نازل ہوا اور خدا نے کتاب و حکمت کی تعلیم پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو عطا فرمائی ۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنے عارف قرآن ہیںکہ علی کو اپنا بھائی، وصی، خلیفہ، وارث ، شاہد اور ولی قرار دیا پھر ان کو اپنا نفس قرار دیا۔ شاعر نے اس موقع پر کیا خوب کہا ہے۔

آپ ہے نفس پیغمبر نفس حیدر ہے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

اور شب معراج میں یار و ہمدم یا علی

کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو علی کوتعلیم نہ فرمائی ہو۔ تاویل قرآن ناسخ اور منسوخ ، محکم اور متشابہ کی آپ کو تعلیم فرمائی اسی بناء پر حضرت علی فرمایا کرتے تھے: خدا کے بارے میں مجھ سے پوچھ لو کوئی ایسی آیت نہیں جس کو میں نہ جانتا ہو۔ جو آیات شب و روز میں نازل ہو ئیں،صحراؤں اور پہاڑوں پر نازل ہوئیں میں سب کو جانتاہوں۔

____________________

۱:سنن تزمدی جلد ۵ صفحہ ۶۲۲

۵۰

ایک دن آپ نے مسجد کوفہ میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:سَلُوْنی قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنی (۱) مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ ہوں ۔یہ وہ منزل ہے جہاں فقہاء مجتہدین مور خین، معبرین، علمائ، عرفائ، صوفیاء کرام، محدثین، مفسرین، مولانا روم ،فرید الدین، عطار، شہریاراور علامہ اقبال سب نے اس پر بحث اور گفتگو کی ہے جہاں پربے ساختہ ارشاد ہوتا ہے کہ مٰاعَرَفْنٰاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ (۲) نہیں پہچانا ہم نے تجھ کو حق معرفت کے ساتھ، وہاں مزید ارشاد فرماتے ہیں:۔لَوْکُشِفَ الْغِطَائُ مَا ازْدَدْتُ يَقِيْناً (۳) میرے سامنے سے اگر سارے حجاب ہٹا دیئے جائیں تو میرے یقین میں ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا۔

لوگوں کے درمیان سے ابن کوا نے سوال کیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی غیر موجودگی میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ آپ کیسے بتائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں جو آیات میری غیر موجودگی میں نازل ہوئیں ان آیات کو پیغمبر اسلام نے مجھے بتا یا اے علی خداوند عالم نے اسطرح فرمایا بس میرے سامنے تلاوت کی اور اس کی تاویل مجھے بتائی۔

علی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھی، صحابیت، قرابت، محبت، فداکاری، عشق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آپ سے آگے اور کوئی نہ تھا آپ قرآن کے ساتھ تھے ایسی حالت میں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد تنہا علی عالم قرآن، عارف قرآن، مفسر قرآن تھے چنانچہ ابن عباس مفسر قرآن اور دانشمند اپنے علم کو حضرت علی کے علم کے مقابلے میں سات سمندر میں ایک قطرہ محسوس کرتے تھے ۔

علی قرآن کے ساتھ تھے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: علی قرآن سے ہرگز جدا نہیں ہوگا، معیت اور ہمبستگی کا ایسا عالم تھا کہ رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان کے مطابق علی ابن ابیطالب کی تمام طاقت اور توانائی جسم اور جان ، علم اور فکر ایثار و قربانی ہر لحظہ قرآن کے دفاع ، قرآن کی تدوین و جمع آوری اور

____________________

۱:غرر الحکم ح ۲۰۸۱

۲: پرتوی از انوار نہج البلاغة ص ۲۳

۳: ایمان وعبادت علی ص۴

۵۱

احکام قرآن کی پاسداری میں صرف ہوئی ۔جب تک قرآن کی تدوین اور جمع آوری کے عظیم کام کو سرانجام نہیں دیا عبا بدن پر نہیں ڈالی۔ اس کے بعد آپ نے قرآن کو بیان کرنے میں اور قرآنی تعلیمات کو نشر کرنے میں سخت تکلفیں برداشت کیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک تحریف سے محفوظ رہا۔

نفاذ قرآن میں آداب و سنن قرآن کو واضح کردیا ۔اس حوالے سے فتنہ و فساد کو دفع کرنے میں شبہات اور تحریفات ، غلو اور غلط تاویلات، ناکسین، قاسطین اور مارقین کی جاہلانہ سوچ اور فکر سے قرآن اور ملت اسلامیہ کو محفوظ رکھا۔ اس بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سخت قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا اور آپ نے دشمنان اسلام اور دشمنان قرآن سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

جیسا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تھا: کہ علی قرآن کی غلط تاویل پر جنگ لڑے گا ۔کبھی آپ نے جنگ صفّین میں ذوالفقار حیدری سے فریب کاروںاور جھوٹوں کے خلاف جنگ لڑی اور قرآن و اسلام کے دشمنوں کو شکست فاش دی تو دوسری طرف آپ مسجد کوفہ میں قرآن بیان کرتے اور اس کی تدریس انجام دتیے ہوئے نظر آئیں گے حضرت علی مسلمانوں کی ہدایت میں قرآن اور سیرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عظیم مبلغ کے عنوان سے جانے پہچانے جاتے ہیں اور مشکل حالات میں مسلمانوں کی رہبری اور امامت کے عظیم ذمہ داری کو نبھایا ایسے حالات میں اگر

قرآن بیان ہے تو علی مبین ہے

قرآن ہدایت ہے تو علی ہادی ہے

قرآن صامت ہے تو علی ناطق ہے

قرآن مبین ہے تو علی امام مبین ہے

قرآن مجید نے حضرت علی کے بارے میں صریح آیات اور لطیف کنایات کے ذریعے آپ کے باعزّت اور بلند مر تبہ ومقام کا اشارہ دیا ہے.

۵۲

قرآن مجید کی آیات آپ کے اعلائے کلمہ حق و حقیقت، آپ کے اوصاف اورآپ کے کردار کو کبھی صراحت، کبھی کنایات اورکبھی اشارات کے ذریعے یوں بیان کرتی ہیں:کہ، کبھی آپ کو نباء عظیم، صراط مستقیم، سابق بالخیرات، مجاہد فی سبیل اللہ، حبل اللہ، عروة الوثقی کے نام سے یاد کیا ہے، کبھی آپ اور آپ کے فرزندوں کو مختلف عناوین سابقون، مقربون، خاشعون، صادقون، مطہرون کے نام سے یاد کیا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں: خداوند عالم نے کوئی ایسی آیت نازل نہیں کی ہے مگر یہ کہ وہ خطاب جہاں یا ایھا الذین آمنوا ہیں،مراد حضرت علی کی ذات شریف ہے۔ وہ کہتے ہیں حضرت علی کے بارے میں قرآن مجید میں موجود آیات جتنی ہیں کسی اور کے بارے میں نہیں ہیں جز رسول خدا کے آپ فرماتے ہیں علی کے بارے میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں۔

مجاہد کہتے ہیں حضرت علی کے بارے میں ستر (۷۰) آیات نازل ہوئیں ہیں اس میں کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ حضرت علی کے بارے میں بناء بر عامہ و خاصہ روایات موجود ہیں کہ قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے۔ ایک حصہ ہمارے فضائل کے بارے میں نازل ہوا ہے، ایک حصہ ہمارے دشمنوں کے بارے میں نازل ہوا، ایک حصہ آداب اور مثل کے بارے میں اورایک حصہ واجبات اور احکامات کے بارے میں نازل ہوا ہے۔

قرآن کی بلند یوں میں آخری درجات ہم ہیں۔ اس حوالے سے حضرت علی اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے بارے میں جو آیات نازل ہوئیں اس کے اسباب و علل کے بارے میں ہزاروں شیعہ اور سنی مصنفین، محدثین ،مفسرین نے بحث اورگفتگو کی ہے مثال کے طور پرمَا نزلَ فی عَلِی ما نزل فی اهل البیت و غیرہ کو دیکھ سکتے ہیں۔

خداوند علی و اعلی قرآن مجید میں فرماتا ہے (( وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَيْنَاهُ فی اِمَامٍ مُّبِيْن ) (۱)

ہم نے ہر شیء کو ایک روشن امام میں جمع کردیا ہے ۔روایات میں امام مبین سے مراد ائمہ طاہرین علیہم السلام

____________________

۱:یس، ۱۲

۵۳

کی ذوات مقدسہ کو لیا گیا ہے جنہیں پروردگار عالم نے اپنے علوم کا مخزن اور اپنی مشیت کا محل و مرکز قرار دیا ہے۔

منقول ہے کہ خداوند عالم نے علم کے دس حصہ کئے ہیںنو حصے علی کو دئیے ہیں اور ایک حصہ لوگوں کو دیا ہے اس میں بھی علی کی ذات شریک ہے اور سب لوگوں سے زیادہ واقف ہیں۔ علم ماکان و ما یکون کے مالک اور وارث علی ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں جب یہ آیتوَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنَاهُ فی اِمَامٍ مُّبِيْن نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا امام مبین سے مراد تورات ہے؟

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا نہیں.

انجیل ہے؟ فرمایا نہیں.

زبور ہے؟ فرمایا نہیں.

قرآن ہے؟ فرمایا نہیں.

اسی دوران حضرت علی وہاں حاضر ہوئے تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

هُوْ هٰذٰا اِمَام مُّبِيْن اَحْصٰی اللّٰهُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی فِيْهِ عِلْمُ کُلِّ شَیْئٍ عِلْمَ مَاکَا نَ وَ مَا يَکُوْنُ اِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۔

مولا علی علیہ السلام خود فرماتے ہیں میں ہی امام مبین ہوں۔

۵۴

اگرچہ مفسرین نے امام مبین سے مراد لوح محفوظ ، قرآن مجید اور قلب مبارک حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قرار دیا ہے لیکن امام مبین کو ائمہ طاہرین علیہم السلام نے متعدد مقامات پر خود ان ذوات مقدسہ کو قرار دیا ہے جیساکہ ہم نے پہلے عرض کیاہے۔

ایک دفعہ صحابی رسول حضرت عمار حضرت علی کے ساتھ کسی جنگ میں جارہے تھے راستے میں ایک مقام پر چیونٹیوںکے بل پر پہنچے۔ حضرت عمار نے عرض کیا یا علی خدا کے علاوہ کوئی ہے جو اس روئے زمین پر ان کی تعداد بتا سکتاہے؟ مولا علی مسکرا کر فرمانے لگے میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو نہ صرف ان کی تعداد بتا سکتا ہے بلکہ یہ بھی بتا سکتا ہے کہ ان میں سے کتنے نر ہیں اورکتنے مادہ،عرض کیا یا امیر المومنین علیہ السلام وہ شخص کون ہے؟فرمایا: کیا تم نے سورہ یس میں یہ آیت نہیں پڑھی ہے( وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَيْنٰاهُ فِی اِمَامٍ مُّبِيْن ) عرض کیا بالکل یا ابا الحسن میںنے پڑھی ہے آپ نے فرمایا میں ہی امام مبین ہوں۔

منقول ہے کہ خوارج کے ایک گروہ نے جب حدیث انامدینة العلم کوسنا تو اپنے دل میں بہت پیچ و تاب کھائے اور ان میں سے دس آدمی جو ادعائے علم رکھتے تھے با ہم مشورہ کر کے بغرض امتحان حضرت علی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کی فضیلت میںجو حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمائی کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہے تو ہم لوگ اس حدیث کی اس وقت تصدیق کریں گے کہ ہم ایک ہی سوال کو مسلسل کریں گے آپ ہر ایک سوال کا جواب الگ الگ بیان کریں بہر حال ان میں سے ایک شخص نے سوال کیاعلم بہتر ہے یا مال؟

آپ نے فرمایا: علم بہتر ہے مال سے اس لیے کہ مال فرعو ن و ہامان اور قارون کے متروکات سے ہے جبکہ علم پیغمبرں کی میراث ہے۔

دوسرے نے سوال کیا علم بہتر ہے یا مال؟

آپ نے فرمایا: علم بہتر ہے اس لیے کہ مال کے دشمن بہت ہیں اور صاحب علم کے دوست بہت ہیں۔

تیسرے نے اسی سوال کو دھرایا ۔

آپ نے فرمایا: علم بہتر ہے اس لیے مال کی تو حفاظت کرتا ہے اور علم تیری حفاظت کرتا ہے۔

چوتھے نے پوچھاآپ نے فرمایا:

مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے علم خرچ کرنے سے زیادہ ہوتا ہے، پانچویں کے جواب میں ارشاد فرمایا: مال دار کو بخیل بھی کہتے ہیں اور صاحب علم کو سخی کہتے ہیں۔

۵۵

چھٹے فرد کو اس طرح جوا ب دیا:

مال کے لیے ہمیشہ چور اور ڈاکو کا خوف لگا رہتا ہے اور علم ان سب بلاؤن سے محفوظ ہے۔

ساتویںکے جواب میں ارشاد فرمایا:

مالداروں سے روز قیامت حساب لیا جائے گا اور مواخذہ کیا جائے گا اور دولت علم پر نہ حساب ہے نہ کوئی مواخذہ ۔

آٹھویں سے فرمایا: مال عرصہ تک رکھنے سے کہنہ اور خراب ہوجاتا ہے اور علم امتداد زمانہ سے تازہ اور روشن ہوتا ہے۔

نویں کے جواب میں فرمایا:

علم سے قلب میں روشنی حاصل ہوتی ہے اور مال سے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے،دسویں کے جواب میں فرمایا: کثرت مال سے فرعون و نمرود و غیرہ نے خدائی کا دعوی کیا، صاحب علم ہمیشہ مسکین اور خاشع ہوتا ہے اور احاطہ عبودیت سے باہر نہیں ہوتا۔

اس کے بعد حضرت نے فرمایا: خداکی قسم ہے اگر تم میری زندگی تک اسی طرح سوال کرتے رہوگے تو میں ہر مرتبہ علم کی فضیلت بطرز جدید بیان کرتا جاؤںگا یہ سن کر وہ سب خوارج اور منافق توبہ کر کے مؤمن خالص ہوگئے امام مبین کی یہی شان ہوتی ہے اس لیے رسول خدا نے فرمایا۔ (یٰا اَبَا الْحُسَيْنِ اَنْتَ وَارِثُ عِلْمی )(۱) ۔ اے علی تم ہی میرے علم کے وارث ہو۔ علی اور قرآن ، قرآن اور علی ،قرآن کا ماحصل علی اور علی کا ماحصل قرآن۔ علی علیہ السلام قرآن کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

دیکھو! قرآن حکم کرنے والا بھی ہے اور روکنے والا بھی ہے ،وہ خاموش بھی ہے اور گویا بھی ،وہ مخلوقات پر اللہ کی محبت ہے جس کا لوگوں سے عہد لیا گیا ہے اور ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنا دیا ہے۔ مالک نے اس نور کو تمام بنا یا ہے اور اس کے ذریعے دین کو کامل قرار دیا ہے۔ وہاں امیر المؤمنین فرماتے ہیں:۔ قرآن صامت ہے میں ناطق قرآن ہوں۔قرآن کے حوالے سے علی ولی امر مسلمین ہے۔ جہاں علی قرآن کو دین کا تکمیل قرار دیتا ہے وہاں قرآن روز تاج پوشی علی کے دن میدان غدیر میں آیتاَلْيَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (۲) کہہ کرولایت علی کو تکمیل دین قرار دیتا ہے۔

____________________

۱: نہج الصباغہ خطبہ ۹۸ ۲:مائدہ آیت ۳

۵۶

دین اور غدیر

دین متعدد معنی میں استعمال ہوا ہے بطور مثال جزائ، پاداش اور اطاعت کے معنی میںبھی آیا ہے۔ چنانچہ اسلامی تعلیمات اخلاقیات اور اعتقادات کے مجموعہ کا نام دین ہے جو پروردگار عالم کی طرف سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ابلاغ ہوا ہے قرآن مجید میںدین درج ذیل معانی میں دین استعمال ہواہے: پاداش اور جزاء ،سورہ فاتحہ میں ارشاد ہوتا ہے:( مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ ) (۱) مالک روز جزائ،

سورہ بینہ کی آیت نمبر پانچ میں ارشاد ہوتاہے:( وَ مَا اُمِرُوْ اِلَّا لِيَعْبُدُوْا للّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَه الدِّيْن ) (۲) اور انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ خدا کی عبادت کریں اوراس عبادت کو اس کیلئے خالص رکھیں۔ نماز قائم کریں زکوٰة ادا کریں اور یہی سچا اور مستحکم دین ہے'' اہل کتاب اور مشرکین دونوں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے منتظرتھے اور ان پر ایمان لانے کے لئے آمادگی کا اظہار کر رہے تھے لیکن جونہی آپ نے پیغام الہی کو پیش کیا، انہیں باطل سے اعراض کرنے اور حق

____________________

۱: فاتحة الکتاب ۳

۲:بیّنة ،۵

۵۷

کی عباد ت کرنے کا حکم دیا اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہ شرک کی روش چھوڑ کر اخلاص عبادت سے کام لیں اور اخلاص بھی فقط دل و دماغ کے اندر نہ رہ جائے بلکہ عملی طور پر بھی سامنے آئے، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں یعنی اللہ کے حق کا بھی خیال رکھیں، اور بندگان خدا کے حقوق بھی ادا کریںکیونکہ بہترین خلائق بننے کے لئے یہ دونوں لازم ہیں او رتنہا ایمان کافی نہیں ہے بلکہ عمل صالح بھی ضروری ہے۔ اسی طرح سورہ نساء آیت نمبر ۱۲۵ میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَ مَنْ اَحْسَنُ دِيْناً مِمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَه اِلٰی اللّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِن ) '' اور اس سے اچھا دین دار کون ہوسکتا ہے جو اپنا رخ خدا کی طرف رکھے اور نیک کام اورنیک کردار بھی رکھتا ہو۔

اسلام دین ِایمان بھی ہے دینِ عمل بھی ۔اس نے قومیت یا جماعت کی بنیاد پر نجات کا پیغام نہیں دیا جیسا کہ اہل کتاب کا خیال تھا کہ صرف یہودی اور عیسائی ہی جنت میں جا سکتے ہیں یا پھر بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ مسلمان جہنم میں نہیں جا سکتے، دین اسلام کا کھلا اعلان ہے کہ برائی کروگے تو اس کی سزا بھی برداشت کرنا پڑے گی، اور نیک عمل کروگے تو اس کاانعام بھی ملے گا۔ اس طرز فکر کو بہترین دین سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ایمان کی شرط لگائی ہے اور اس کے بعد اسلا م و تسلیم کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ حسن عمل و کردار کی شرط لگائی ہے جس سے اس امر کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے کہ، نہ ایمان عمل کے بغیر کارآمد ہو سکتا ہے او ر نہ عمل ایمان کے بغیر۔

مولائے کائنات نے اسی نکتہ کو نہایت حسین الفاظ میں واضح فرمایا ہے:بِالْاِيْمَانِ يُسْتَدَلُّ عَلَی الصّٰلِحَاتِ وَ بِالصّٰالِحَاتِ يُسْتَدَلُّ عَلٰی الْاِيْمَانِ (۱) ایمان سے نیک اعمال کی طرف رہنمائی ہوتی ہے اور نیک اعمال سے ایمان کا پتہ ملتا ہے'' بعض مفسرین نے دین سے مراد

____________________

۱: شرح ابن ابی الحدید ص۲۰۱

۵۸

طاعت کو قرار دیا ہے۔ کلی طور پر اسلامی تعلیمات کے اخلاقی واعتقادی پہلو کی طرف اس آیت کریمہ نے اشارہ کیا ہے( اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الاِسْلَام ) (۱) دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔

یہ دلیل کہ اصل دین اطاعت الہی ہے اور اس کا پیغام سارے انبیأ کرام نے دیا ہے لہذا سب کا دین اسلام ہے۔( وَ مَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْناً فَلَنْ يُّقْبَلَ ) مِنْہُ(۲) اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا ۔

( هُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَه بِالْهُدٰی وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلٰی الدِّيْنِ کُلِّه ) (۳) خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاتا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے ۔سورہ کافرون میں ارشاد ہوا:( لَکُمْ دِيْنُکُمْ وَلِیَ دِيْن ) (۴) تمہارے لئے تمہارا دین ہمارے لئے ہمارا دین ،پھر سورہ شوریٰ میںا رشاد ہوا( شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰی بِه نُوْحاً وَّ الَّذِیْ اَوْحَيْنَا اِلَيْکَ وَ مَا وَصَّيْنَا بِه اِبْرَاهيْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِيْسٰی اَنْ اَقِيْمُوْا الدِّيْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ) (۵)

''اس نے تمھارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جو وحی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم و موسی و عیسی کو کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ پیدانہ ہونے پائے۔

دین اس آخری منزل کا نام ہے جس تک ہر انسان کو پہنچنا ہے اس کے بعد اس منزل تک پہنچنے کے لئے مختلف راستے مقرر کئے گئے ہیں جنہیں شریعت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جن کی مجموعی تعداد پانچ ہے،شریعت نوح ،شریعت ابراہیم ، شریعت موسی ،

____________________

۱:آل عمران ۱۹

۲:آل عمران ۸۵

۳:توبہ ۳۳

۴:کافرون ۶

۵:شوری ۱۳

۵۹

شریعت عیسی ، شریعت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔ان قوانین کے باہمی اختلاف کا فلسفہ یہ ہے کہ حالات زمانہ کے تغیر اور ارتقأ کے ساتھ جزئی طور پر قوانین کی تبدیلی ناگزیرہے ورنہ قانون جامد اور بے جان ہو کر رہ جائے گا اور مختلف ادوار حیات میں کارآمد نہ رہ سکے گاجس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ شریعت ایک گھاٹ کا نام ہے جو دریا کے مدو جزر اور اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ورنہ دین کے بنیادی اصولوں میں نہ توحید میں کوئی فرق آسکتا ہے اور نہ قیامت میں ، صرف نبوت ہے جس کی تعدا دمیں حضرت آدم سے مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے اور اسی اضافہ کی بنیاد حالات زمانہ کے تحت جزئی قوانین میں تغیر و تبدل رہا ہے۔ دور نوح کی شریعت اور تھی دور مرسل اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قانون اور ہے۔ مقصد کے اعتبار سے سب متحدہیں لیکن طریقہ کار کے اعتبار سے اختلاف و تغیر ناگزیز ہے۔ اب یہ ایک مصلحت الہی ہے کہ اس نے چار شریعتوں کو وصیت و نصیحت سے تعبیر کیا ہے اور ایک کو وحی قرار دیا ہے جس سے انبیاء کے مراتب پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ قرآن مجید کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصل یہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاتم المرسلین اور خاتم الانبیاء ہیں اس ضمن میں بہت سی قرآنی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ :( وَ مَا کَانَ مُحَمَّد اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْل اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ ) (۱) ،محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ یہ وہ اہم ترین آیت کریمہ ہے جو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ خاتم الانبیاء میں خاتم کو فتحہ کے ساتھ بھی پڑھاجاتا ہے اور کسرہ کے ساتھ بھی،اور یہ قرائت کا سلسلہ عاصم کوفی سے حضرت علی تک جا پہنچتا ہے، جو ''ت'' کو کسرہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اس کے معنی خاتمہ دینے والے کے ہیں آخر تک پہنچانے

____________________

۱: سورہ احزاب آیہ ۰ ۴

۶۰