تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت0%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی
زمرہ جات:

صفحے: 217
مشاہدے: 146710
ڈاؤنلوڈ: 5080

تبصرے:

تفسیر انوار الحجّت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146710 / ڈاؤنلوڈ: 5080
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

(ب)نقصان دہ تجارت

قرآن مجید ہدایت فطری،فہم کی قدرت اور انسانی زندگی اور اس کے کام کرنے کی طاقت کو تجارت کا سرمایہ شمار کرتا ہے اگر یہ سرمایا صحیح عقائد اور معارف الہی کے حصول اور عمل صالح کی راہ میں استعمال ہو تو یہ نفع بخش تجارت ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ )

بے شک اللہ نے صاحبان ایمان سے ان کے جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے۔(۲)

لیکن اگر یہ سرمایہ ضلالت اور گمراہی کی راہ میں خرچ کیا ہو تو یہ نقصان دہ تجارت ہے جیسا کہ اسی آیت میں اللہ تعالی منافقوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ انہوں نے فطرت،عقل اور ہدایت کو فروخت کر کے ضلالت و گمراہی کو خرید کر لیا ہے یہ نادان تاجر ہیں تاریک بیابان میں ہدایت کے چراغ کے بغیر حیران و سرگردان ہیں۔

انہیں دنیا نے فائدہ نہیں پہنچایا ہے کیونکہ ہمیشہ فائدہ سرمایا سے زیادہ ہو اکرتا ہے اور ہدایت الہی کی بدولت انہیں جو اجتماعی اور انفرادی مفادات حاصل ہو سکتے تھے وہ بھی انہیں میسر نہ آسکے اور ان مفادات کے مساوی بھی انہیں کچھ نہ مل سکا اور اس ہدایت سے بھی محروم رہے جو آخروی نجات کی ذمہ دار تھی لہذا ان کی یہ تجارت انہیں فائدہ نہ دے سکی بلکہ یہ ان کی نقصان دہ تجارت ہے لہذا انہیں قیامت والے دن دردناک عذاب دیا جائے گا۔

( مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَائَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ )

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ سلگائی مگر جب اس آگ سے ہر طرف ورشنی پھیل گئی تو خدا نے ان کی روشنی لے لی اور ان کو انھیروں میں چھوڑ دیا کہ اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

__________________

(۲) سورہ توبہ آیت ۱۱۱

۱۰۱

خصوصیات

سب سے پہلی مثال :

یہ قرآن مجید کی سب سے پہلی مثال ہے جس کے ذریعے منافقین کی حالت کو اشکار اور واضح کیا گیا ہے۔

ضرب المثل کی اہمیت

گذشتہ آیات میں منافقوں کی اصلیت بیان کی جا چکی ہے اب ان کی حقیقت کو زیادہ واضح انداز میں بیان کرنے کے لئے ضرب المثل کے ساتھ ان کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ہمیشہ جب کوئی چیز زیادہ مشکل ہو اور اس کا سمجھنا آسان نہ ہو تو اسے مثال کے ذریعہ بیان کیا جاتا یعنی ضرب المثل ایسا نور جس کی عظمت کسی سے مخفی پوشیدہ نہیں ہے یہ حقائق سے اس طرح پردے دور کرتی ہے کہ غائب بھی حاضر کی طرح معلوم ہوتا ہے۔

عظیم علمی معارف کو مثال کی شکل میں بیان کرنا سابقہ کتابوں کا شیوا بھی رہا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( ذَلِکَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاة وَمَثَلُهُمْ فِي الاِنْجِیْلِ )

ان کی یہ مثال تورات اور انجیل میں بھی ہیں۔(۱) سورہ فتح آیت ۲۹

مثال کی خاصیت یہ ہے کہ علمی معارف کو اس سطح پر لے آتی ہے جس کی وجہ سے تمام افراد اسے سمجھ سکتے ہیں اس کی وجہ سے عظیم اورعلمی مطالب کے نقطہ عروج تک سب کی دسترس ہوتی ہے اور قرآن مجید کا بھی مثال بیان کرنے کا ہدف یہ ہے کہ عام آدمی بھی حقائق تک پہنچ سکیں اور ان کے لئے علمی مطالب کی معرفت کا حصول آسان اور سادہ ہو اور بات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔

___________________

(۱)بحارالانوار ج۲۴ ص۲۶۸

۱۰۲

تاریک زندگی

قرآن مجید نے ایک سادہ اور عام فہم مثال کے ذریعے یہ بیان کیا ہے کہ منافقین کی زندگی تاریک ہے ان کا مستقبل بھی تاریک ہے اور اندھیری رات میں،بیا باں میں آگ سلگائی ہے تاکہ اسے راہ سجھائی دے سکے یعنی انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے پاس آکراظہار اسلام کیا ہے جس کی وجہ سے اس نور حقیقت کے قریب آگئے ہیں جو دین ودنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔

انہوں نے ایک آگ سلگائی جس سے فائدہ اٹھانا ان کے لئے آسان تھا۔اس آگ کی گرد وپیش میں پھیل گئی سینکڑوں لوگ اس نور سے منور ہوئے اور دنیا اورآخرت کی کامیابی پر فائز ہوئے لیکن منافقوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اللہ نے اس شعلہ کو خاموش کر دیا اور انہیں اس تاریکی میں تنہا چھوڑ دیا ان کی زندگی تا ریک سے تاریک تر ہو گئی اس کے سوء احثار کی وجہ سے توفیقات الہی سلب ہو گئیں اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا اور تاریکی ان کامقدر بن گئی ہے۔

نور رسالت وامامت سے محروم

منافقین کی تاریکی اور گمراہی کی وجہ یہ ہے کہ لوگ نور رسالت اور نور امامت سے محروم ہیں کیونکہ اس کائنات میں حضرت محمد وآل محمد علیہم السلام کے وجود سے نور اور روشنی ہے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

اضاء ت الارض بنور محمد کما تضئیالشمس فضرب الله مثل محمد الشمس مثل الوصی القمر

خدا وند عالم نے روئے زمین کو آفتاب کی طرح محمد(ص) کے نور سے روشنی بخشی ہے حضرت محمد (ص) کو آفتاب اور ان کے وصی ( علی) کوچاند سے تشبیہ دی ہے۔( نورالثقلین ج ۱ ص ۳۶)

منافقین حضرت محمد مصطفی (ص) کے دار فانی کی طرف کوچ کرنے کے بعد امامت کے نور سے فیض حاصل نہ کیا یہ لوگ آنحضرت (ص)کے زمانہ میں بھی تاریک زندگی بسر کر رہے تھے اور حضرت (ص) کے بعد بھی اہل بیت کے نور امامت سے روشنی نہ لے سکے اور ظلمت و تاریکی میں ڈوبے رہے۔

۱۰۳

جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

قبض محمد مظهرت الظلم فلم یبصروا فضل اهل بیته ۔

حضرت محمد (ص) کی وفات کے بعد تاریکی چھا گئی تب بھی ان لوگوں نے اہل بیت علیہم السلام کے فضل سے بصیرت حاصل نہ کی۔

( صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لاَیَرْجِعُونَ )

وہ بہرے،گونگے اور اندھے ہیں اور اب گمراہی سے پلٹ کر آنے والے نہیں۔

بد ترین مخلوق

آنکھ،کان زبان اور دوسرے ادراک کرنے والے حواس انسان کے لئے بہت عظیم سرمایہ ہیں انہی کے ذریعے انسان علمی اور عملی سعادت حاصل کرتا ہے لیکن منافقین نے حق سے رو گردانی کر کے اس عظیم سرمایہ کو کھو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی اس بد ترین مخلوق کی گونگے بہرے اور اندھے کے عنوان سے پہچان کرورہاہے یہ لوگ کلا م حق کو نہیں سنتے اسے زبان پر نہیں لاتے ان کے معانی اور مفاہیم میں غور وفکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے یہ اللہ،رسول،آئمہ اطہار معجزات اور اسلامی اصولوں کو نہیں مانتے۔

۱۰۴

یعنی یہ اوامر الہیہ،حجج بنیہ اور واضح دلائل میں تفکر نہیں کرتے،خدا نے انہیں جو فہم کی قوت عطا ء فرنائی ہے یہ عناد اور حق دشمنی میں استعمال نہیں کر سکتے جیسا کہ خدا وندعالم فرماتا ہے

( لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ) ( اعراف آیت ۱۷۹)

ان کے پاس دل تو ہیں مگر ان سے سمجھتے نہیں،ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں ان کے کان ہیں مگر اس سے سنتے نہیں ہیں۔

یعنی وہ اس معنی میں بہرے نہیں ہیں کہ ان میں سننے کی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ ان کانوں سے صدائے حق سننے کا کام نہیں لیتے اس لئے وہ بہرے ہیں ان کی زبانیں ہیں مگر تعصب،عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کلمہ حق کے ساتھ گویا نہیں ہوتیں اس عنوان سے یہ گونگے ہیں،ان کے دیکھنے والی آنکھیں بھی ہیں لیکن ان سے آیات بینات کو نہیں دیکھتے تعصب کی وجہ سے انہیں جلوہ حق نظر نہیں آتا اس لحاظ سے یہ اندھے ہیں۔

یعنی یہ لوگ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اب ان کا ایمان کی طرف پلٹنا ممکن نہیں رہا کیونکہ انہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا تھا لہذا ضلالت نفاق سے یقینی ہدایت کی طرف ان کا لوٹنا محال ہے انہوں نے معرفت الہی جیسا اساسی سرمایا اپنے ہاتھ سے دے دیا ہے لہذا اب ان کا ہدایت کی طرف لوٹنے کا راستہ بند ہو گیا ہے اور یہ کائنات کی بد ترین مخلوق کہلوانے کے حقیقی حقدار ہیں۔

( أَوْ کَصَیِّبٍ مِنْ السَّمَاءِ فِیهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِی آذَانِهِمْ مِنْ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِیطٌ بِالْکَافِرِینَ ) ( ۱۹)

یا (ان کی مثال) آسمان کی اس بارش کی ہے کہ جس میں تاریکیاں اور گرج چمک ہو موت کے ڈر سے اس کی کڑک دیکھ کر کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

۱۰۵

خوف و ہراس پر مشتمل زندگی

خداوندعالم اس آیة مجیدہ میں منافقین کی زندگی کی اس طرح تصویر کشی کر رہا ہے کہ ان کی پوری زندگی خوف و ہراس پر مشتمل ہے یہ لوگ انتہائی وحشت اور سرگردانی میں مبتلا ہیں۔

ان کی مثال ایسے مسافر کی مانند ہے جس پر گرج چمک اور بجلیوں کی کڑک کے ساتھ سخت بارش برس رہی ہے بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک اتنی وحشت ناک اور مہیب ہے کانوں کے پردے چاک کیے دیتی ہے وہ اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونسے ہوئے ہیں کہیں اس خطرناک آواز سے ان کی موت واقع نہ ہو جائے۔

اس وقت ان کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے وسیع اور تاریک بیابان میں حیران و سرگردان ہیں تاریکی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ان پر عجیب قسم کا خوف و ہراس حاوی ہے اسلام کے غلبہ سے ان کی دنیا سیاہ ہو گئی ہے اس خطرناک زندگی میں ان کا دل دھلا جا رہا ہے۔اسلامی فتوحات کی وجہ سے ہلاکت سامنے نظر آرہی ہے دل لرز رہے ہیں اس کے متعلق کچھ نہیں سننا چا ہتے اس لیئے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں تا کہ حق کو نہ سن سکیں اور ہلاکت سے بچ جائیں لیکن اللہ ہر طرف سے انہیں گھیرے ہوئے ہے اور ان کے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔

عذاب خدا کا احاطہ

خداوندمتعال اس آیة مجیدہ میں ارشاد فرما رہا ہے کہ میرا ان پر مکمل احاطہ ہے یہ لوگ کسی صورت مین بھی میرے عذاب سے نہ بچ سکیں گے۔اس مقام پر ان الفاظ میں ارشاد فرمارہا ہے کہ میرا کافروں پر مکمل احاطہ ہے یعنی ہر وہ شخص جو قلبا اسلامی اصولوں کو نہیں مانتا وہ حقیقت میں کافر ہے اب ایک شخص زبانی کلامی تو اسلامی عقائد کا اظہار کرتا ہے اور باطن میں اس کا نکار کرتا ہے تو یہ باطنی کفر ہے۔

۱۰۶

خداوندعالم اس آیت میں ارشاد فرما رہا ہے کہ کافر خواہ اپنے کفر کو ظاہر کرتا ہو یا کفر اس کے دل میں ہو اور زبان سے اسلام کا اظہار کرتا ہو وہ عذاب الہی سے ہرگز نہیں بچ سکتا میرا عذاب اس پر محیط ہے اور وہ اس سے نہیں بچ سکتے۔

( یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ کُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِیهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ( ۲۰)

قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو خیرہ کردے جب بھی بجلی چمکتی ہے تو وہ چلنے لگتے ہیں اور جب اندھیر ا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اگر خدا چاہتا تو ان کی سماعت وبصارت کو ختم کردیتا بلا شبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

مضطرب زندگی

خداوندعالم منافقین کی مضطرب اور مردد زندگی کو بیان کر رہا ہے جب بجلی چمکتی ہے تو یہ چند قدم چل لیتے ہیں لیکن جونہی اندھیرا چھا جاتا ہے اور تا ریکی مسلط ہو جاتی ہے تو یہ اپنی جگہ پر رک جاتے ہیں۔

یعنی جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اسلام کو فتح نصیب ہو رہی ہے تو کچھ دیر کے لئے انہیں اسلام بھلا معلوم ہو تا ہے اس وقت انہیں یہ خیال آتا ہے کہ ہمیں اسلام کے نور کی روشنی میں چلنا چاہیے اور مسلمانوں سے تعلقات استوار رکھنے چاہیے لیکن اگر اتفاق سے فتح کامرانی کا سلسلہ رک جائے اور مسلمانوں کو وقتی شکست اور زحمت کا سامنا کرنا پڑے تو فورا ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ یہ متحیر ومضطرب و مردد، ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں یہ صرف دنیاوی مفاد کے تحفظ میں ہیں یہ لوگ دل سے اسلام کی حقانیت پر غور نہیں کرتے اسی وجہ سے مضطرب ہیں۔

قرآن مجید ان کی کیفیت و حالت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ جب روشنی دیکھتے ہیں تو چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ہو جاتی ہے یعنی عارضی طور پر فتح کا سلسلہ رک جاتا ہے تو بد گمان ہو جاتا ہے منافقین میں حق طلبی کا جذبہ نہیں ہے دین اسلام کی کامیابیوں سے انہیں تکلیف ہوتی ہے،جس کے نتیجے میں ان فتوحات کو نظر بھر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے لہذا قریب ہے کہ یہ چمک ان کی نگاہوں کو خیرہ کردے۔

۱۰۷

انتخاب ہدایت کی مہلت

خدا وند عالم نے سماعت اور بصارت جیسی نعمت ہدایت اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے عنایت فرمائی ہے لیکن منافقین نے کفران نعمت کرتے ہوئے ان نعمتوں سے استفادہ نہ کیا انہوں نے حقائق دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھیں بند رکھیں،حق سننے کی بجائے اپنے کانوں میں انگکیاں ٹھونس لیں لہذا ان کے آنکھ اور کان اس قابل نہ تھے کہ ان کے پاس رہیں لیکن اللہ تعالی نے ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں سماعت اور بصارت کی نعمت سے مکمل طور پر محروم نہیں کیا۔ خدا چاہتا تو ان کی یہ صلاحیتیوں کو سلب کر لیتا اس نے ان صلاحیتوں کو سلب نہیں کیا اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا تا کہ ہدایت کے انتخاب میں انہیں مزید مہلت دے اگر کوئی شخص قلبی اعتقاد کے ساتھ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو قبول کر لے،اس کے پاس مکمل مہلت ہے لیکن انہوں نے سوء اختیار کی وجہ سے حق کی راہ کو طھوڑ دیا اورضلالت وگمراہی کی راہ مسافر بنے ہدایت کے انتخاب کی مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا حالانکہ اللہ قادر مطلق ہے وہ چاہتا تو شروع سے ہی یہ نعمتیں سلب کر لیتا۔

( یَاأَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ) ( ۲۱)

اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا شاید تم متقی بن جاؤ۔

خصوصیات

اس آیت کی دو اہم خصوصیات ہیں جو کسی اور آیت میں نہیں ہیں۔

پہلا خطاب

اس آیت میں یا ایھا الناس سے انسانوں کو پکارا گیا ہے۔قرآن مجید کا یہ سب سے پہلا خطاب ہے یہ پہلا مقام ہے جہاں خداوندعالم نے کسی واسطہ کے بغیر فرمایا ہے۔

۱۰۸

اے لوگو ! اس خطاب انسان کو عزت و عظمت دی گئی ہے اور انسان کو اس سے تسکین ملی ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لذة ما فی النداء ازال تعجب العبادة والعناء ۔

ندا الہی میں خطاب کی ایسی لذت ہے جو عبادت کی تکلیف اور تھکاوٹ کو دور کر دیتی ہے۔

خداوند عالم انسان پر کسی واسطہ کے بغیر لطف کرتا ہے لیکن انسان اپنی غفلت،جہالت اور سواختیار کی وجہ سے اس رابطہ کو منقطع کر بیٹھتا ہے اور لطف الہی سے محروم ہو جاتا ہے۔حالانکہ یا ایھا الناس اس بات کی علامت ہے کہ یہ عبد اور معبود کے درمیان نہ ٹوٹنے والا رابطہ ہے۔

پہلا فرمان الہی

قرآن مجید نے سب سے پہلا فرمان الہی یہ جاری کیا کہ تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو اس سے پہلے کوئی فرمان الہی صادر نہیں ہوا۔

دعوت عمومی

گزشتہ آیات میں اس نقطہ کو بیان کیا گیا تھا قرآن مجید کتاب ہدایت ہے اور قرآن مجید نے تین گروہوں متقین کافرین اور منافقین کے اوصاف اور مقام کو بیان کیا کہ متقین ہدایت الہی سے نوازے گئے ہیں اور قرآن ان کا رہنما ہے جبکہ کافروں کے دلوں پر جہل و نادانی کی مہر لگا دی گئی ہے اور منافقین کو کبھی بھی ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی۔

اس آیت میں خداوندعالم نے ایک جامع اور عمومی خطاب کے ساتھ بتایا ہے کہ قرآنی ہدایت کسی ایک گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کی دعوت عام ہے اور یہ سب انسانوں کو یگانہ خدا کی عبادت کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت کریں یعنی متقین اپنی عبادت کو جاری رکھیں اور کافرین اپنے کفر کو چھوڑ کر پروردگار عالم کی بندگی اختیار کریں۔

۱۰۹

منافقین اپنی منافقت کو چھوڑ کر اپنی عبادت میں خلوص پیدا کریں۔دعوت قرآن سب انسانوں کے لیئے ہے یہی وجہ کہ لفظ انسان،مسلم،متقی، مومن اور بنی آدم کی نسبت زیادہ استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ۲۴۱ مرتبہ لفظ انسان استعمال ہوا ہے۔(۱)

زیر نظر پانچوں آیات میں خداوندعلام عمومی دعوت دے رہا ہے کہ یہ دعوت کسی ایک گروہ کے لیئے خاص نہیں ہے اس دعوت عمومی کے وقت لوگ دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں بعض اس دعوت پر لبیک کہتے ہیں انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے اور بعض لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کرتے انہیں جہنم کا ایندھن قرار دیا گیا ہے۔

عبودیت پروردگار

الف، معرفت خداوندی

قرآن مجید عبادت اور پروردگار کے ساتھ مستحکم رابطہ کو انسانی زندگی کی نجات اور سعادت ابدی قرار دیتا ہے خداوندعالم کی معرفت ہی عبادت ہے جیسا کہ حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

اول عبادة الله و اصل معرفته الله توحیده

سب سے پہلی عبادت اللہ تعالی کی معرفت ہے اور اللہ تعالی کی بہترین معرفت اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے۔(۲)

___________________

(۱)فرقان ج ۱ ص ۱۲۴۔۰۰۰۰(۲)نور الثقلین ج ۱ ص ۳۹۔

۱۱۰

ب،صحیح عقیدہ

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اعبدو اربکم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ صحیح عقیدہ رکھنا چا ہیے۔

اجیبوا ربکم من حیث امرکم،ان تعقدوا ان لا اله الا الله،وحده لا شریک له ولاشبیه ولا مثله،عدل لا یجوز،جوادلا ینحل حلم لا یغطل،وان محمد اعبده و رسوله صلی الله علیه و آله الطیبین وبان آل محمد افضل آل النبین وان علیا افضل آل محمد و ان اصحاب محمدالمومنین منهم افضل الصحابه المرسلین وبان امته محمد افضل امم المرسلین ۔(۱)

اپنے پروردگار کی اس طرح اطاعت و عبادت کریں جس طرح اس نے حکم دیا ہے اور یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معباد نہیں ہے وہ وحدہ لاشریک ہے اس کی کوئی شبیہ و مثل نہیں ہے وہ منبع عدل ہے اس کے متعلق ظلم کا تصور نہیں ہے۔وہ ایسا سخی ہے جس کے متعلق بخل کا سوچا بھی نہیں جا سکتا ایسا حکیم ہے جیسے امور میں خلل نہیں ہے

اور عبادت سے مراد یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کے عبد اور رسول ہیں آل محمد تمام انبیا ء (اور ان) کی آل سے افضل ہیں۔حضرت علی (ع) حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی آل میں افضل ترین ہستی ہیں اور اصحاب حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)مومنین ہیں اور ان میں بعض صحابہ تمام انبیا ء کے اصحاب سے افضل ہیں،حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی امت تمام انبیاء کی امتوں سے افضل ہے۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج ۶۵ ص ۲۸۶۔

۱۱۱

(ج) احترام اہل بیت علیہم السلام

اہلبیت اطہار علیہم السلام کا احترام کرنا عبادت ہے کا احترام کرنا عبادت جیسا کہ روایت میں ہے کہ بریدہ نے حضرت رسول (ص) سے اس کے متعلق سوال کیا تو حضرت نے ارشاد فرمایا :

یا بریده ان من یدخل النار ببعض علی اکثر من حصی انحذف یرمی عند الحجمرات، فایاک ان تکون منهم، فذلک قوله تبارک وتعالیٰ، اعبدوا ربکم خلقکم، اعبدوه بتعظیم محمد و علی ابن ابی طالب ۔(۱)

اے بریدہ جہنم میں اکثر لوگ بغض علی کی وجہ سے جائیں گے اور ان کی تعداد حج کے موقع پر شیطانوں کو مارے جانے والوں پتھروں سے بھی زیادہ ہوگی،پس تم ان جیسا بننے سے ڈرو یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اعبدوا ربکم الذی خلقکم فرمایا ہے یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی ابن ابی طالب کی تکریم ہی عبادت ہے۔

انسان کو عبادت خداوندی بجا لانے کیلئے اس کے اوامر، نواہی کا خیال رکھنا چاہیے ولایت اہل بیت اصل عبادت ہے۔اگر کسی کو ولایت نصیب نہ ہوئی تو اسکی عبادت نہیں ہے(۲)

____________________

(۱)بحار الانوار جلد ۳۸ ص ۶۹

(۲) حضرت رسول اعظم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیسوں فرامین اسی مطلب پر دلالت کرتے ہیں جیسا کے آپ کا فرمان ہے۔

من مات علی بغض آل محمد لم یشم رائحة الجنة

آل محمد کا بغض رکھ کر مرنے والا جنت کی بو تک نہیں سونگھ سکتا۔

۱۱۲

اسی طرح مومنین کے ہر عمل کے قابل قبول ہونے کیلئے،حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت ضروری ہے جیسا کہ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

یا علی لو ان عبدا عبد الله مثل ما قام نوح فی قومه و کان له مثل جبل احد ذهبا، فا نففته فی سبیل الله و مد فی عمره حتی حج الف عام علی قدمیه ثم قتل بین الصفاء و المراة مظلوم، ثم لم یوالک یا علی لم یشم رائحة الجنة و لم یدخلها

البتہ ولایت اہل بیت کا صحیح دعوایدار وہی جو فرائض کا تارک نہ ہو جیسا کہ حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لا عبادة کادا الفرائض (۱)

فرائض کی ادائیگی جیسی کوئی عبادت نہیں ہے۔لہذا انسان کو ہر حال میں فرائض کا خیال رکھنا چاہیے اگر کسی مقام پر مستحب اور واجب کا ٹکراو ہوجائے تو اس وقت فرائض کو بجا لانا ضروری ہے بلکہ اس وقت مستحب کی بدولت انسان تقریب الہی بھی حاصل نہیں کر سکتا جیسا کہ مولا متقیان حضرت امیرالمئومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

لا قربته بالنوافل اذا اضرب بالفرائض ۔

ان مستحبات (نوافل)سے قرب الہی حاصل نہیں ہوسکتا جو واجبات کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کریں۔(۲)

یا علی اگر کوئی حضرت نوح کی عمر جتنی زندگی اللہ کی عبادت کرتا رہے اور اس کے پاس پہاڑ احد جتنا سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں دے دے اور اس کی زندگی اتنی طویل ہو کہ وہ ایک ہزار پیدل چل کر حج کرے حالت میں قتل ہو جائے لیکن یا علی اگر وہ تیری ولایت و محبت کا قائل نہیں ہے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکتا چہ جائیکہ وہ جنت میں داخل ہو۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۱۳۔(۲)نہج البلاغہ حکمت ۳۹۔

۱۱۳

خالق اولین و آخرین کی عبادت

ہمیں اس پروردگار عالم کی عبادت کرنا چاہیے جو ہمیں اپنی کامل قدرت اور حکمت کے ساتھ عدم سے وجود میں لایا ہے یہ خدا کی قدرت،حکمت اور رحمت کی نشانی ہے۔ قرآن مجید تمام انسانوں کو توحید کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ تم ذرا غور کرو تو یہی تمہارا حقیقی رب ہے اس نے تمہیں بھی خلق کیا ہے اور تم سے پہلے تمہارے آباؤ اجداد کا بھی وہی خالق ہے بلکہ پوری کائنات خالق وہی ہے اس ذات کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے لہذاعبادت بھی صرف اسی کیساتھ مختص ہے، تم اپنے خود ساختہ خداؤں کو پوجنا چھوڑ دو کسی چیز ہر بھی قادر نہیں ہیں۔اگر تم اپنے اور اباؤ اجداد کی خلقت پر غور کرو اور لا تعداد نعمتوں کے متعلق فکر کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ سب اس ذات کی رحمت ہے جسکا ولم و قدرت لامتناہی ہے اس وقت یقینا تم اسے ہر لحاظ سے یکتا مانو گئے اور اس کے علاوہ کسی کی عبادت کا نہیں سوچو گئے۔

فلسفہ عبادت تقویٰ ہے

تقویٰ ایک نفسانی ملکہ، یہ اعمال صالحہ کی مکمل ادائیگی سے حاصل ہوتا ہے اسی وجہ سے تقویٰ کو عبادت کا فلسفہ کر دیا ہے انسان عبادت کے ذریعے تقویٰ کی منزل تک پہنچ سکتا ہے اور تقویٰ چاہیے والی کی صف میں اپنا ستمار کروا سکتا ہے،عبادت ہی موجد تقویٰ ہے۔ اگر عبادت کرنے کے باوجود بھی انسان میں تقویٰ پیدا نہ ہوسکے تو وہ عبادت نہیں ہے کیونکہ اس کائنات کی خلقت و افرنیش کا مقصد انسانیت کی تکمیل ہے جبکہ انسان کی خلقت عبادت کیلئے ہے اور عبادت کا اصلی ہدف تقویٰ ہے لہذا ہم خدائی دستورات اور فرامین کے مطابق زندگی بسر کریں تو ہم پرہیز گار کہلواسکتے البتہ ہمیں اپنی عبادت میں مفرور بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ غرور اور ریا ہمیں تقویٰ سے بہت دور لیجاتی ہے۔

( الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) ( ۲۲)

جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمہاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے پس تم کسی کو اس کا ہمسر نہ بناؤ حالانکہ تم خوب جانتے ہو۔

۱۱۴

آفرینش کائنات انسان کیلئے ہے۔

یہ آیت گذشتہ آیت کا تتمہ ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمتوں کا احساس دلاتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اس پوری کائنات کی خلقت تیرے لئے ہے تجھے متعدد نعمتوں سے نوزا گیا ہے۔

اس آیت میں بیان کی جانے والی ہر نعمت کئی دوسری نعمتوں کا سرچشمہ ہے زمین کے ساتھ اتنی نعمتیں موجود ہیں جن کا احصی ممکن نہیں ہے اس طرح آسمانی نعمتوں کا شمار انسانی طاقت سے باہر ہے یہ سب کچھ انسان کے لیئے بنایا گیا ہے لہذا اسے خدا حقیقی کی بندگی کرنا چاہیے عبادت میں خلوص پیدا کرنا چاہیے ان سب نعمتوں کا موجود ہونا اللہ کی حقیقی معرفت کا راستہ ہے۔

اللہ کی ذات واحد ویکتا ہے انسان کو خدا کی آیات آفاقی میں غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ اسے یہ معلوم ہوسکے کہخدا نے اس پوری کائنات کی افرینش اس کے لیئے کیوں فرمائی ہے جب وہ اس میں غور کرے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ وہی ذات ہی عبادت کے لائق ہے، وہ و احد و یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

نعمت زمین

خداوندعالم نے اس آیت مجیدہ میں اپنی کئی نعمتوں کو بیان کیا ہے انسان ان نعمتوں کے متعلق غور کرے کہ خدا نے کس طرح زمین کو بچھونا قرار دیا ہے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اسے بچھونا کس ذات نے قرار دیا ہے اس طرح آسمان کو ہمارے لیئے چھت قرار دینے والی ذات بھی وہی ہے، پوری کائنات کا خالق بھی وہی ہے اس نے ہر چیز کو ہماری طبیعت کے مطابق بنایا ہے تاکہ ہم اس سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں۔

۱۱۵

اس آیت مجیدہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

جعلها ملائمه لطباعکم موافقته لاجسامکم ولم یجعلها شدید الحمی والحراره متحرتکم ولا شدیدةالبردمتحمدکم ولا شدیده طیب الرسیح متصدع ها ماتکم ولا شدیدة النتن متعطبکم ولا شدیدة اللین کالما ء فتغرقکم ولا شدیدةالصلابه متمنع علیکم فی دورکم انبیتکم و قبور موتاکم فلذا جعل الارض فراشا

خدا نے زمین کو تمہاری طبیعت اور مزاج کے مطابق خلق فرمایا ہے تمہارے جسم کی وجہ سے اسے زیادہ گرم اور جلا کر راکھ کر دینے والی نہیں بنایا کہ اس کی حرارت سے تم جل کر راکھ نہ بن جاؤ اور اسے زیادہ ٹھنڈا بھی پیدا نہیں کیا ہے کہ کہیں تم منجمد نہ ہو جاؤ۔

اسے زیادہ معطر اور خوشبودار بھی نہیں بنایا ہے کہ کہیں اس کی تیز خوشبو تمہارے دماغ کو تکلیف پہنچائے اور اسے بدبودار بھی نہیں بنایا کہ کہیں تمہاری ہلاکت کا سبب نہ بن جائے اس زمین کو پانی کی طرح بھی نہیں بنایا کہیں تم غرق نہ ہوجاؤ اور اسے اس قدر سخت بھی نہیں بنایا تاکہ تم گھر نہ بنا سکو مردوں کو دفن نہ کر سکو لہذا خدا نے تمہارے لیئے اس زمین کو ایک بچھونا بنایا ہے۔

نعمت آسمان

خداوندعالم نے انسانوں کو آسمان جیسی بہت عظیم نعمت سے نوازا ہے یہ بظاہر تو ایک نعمت ہے لیکن یہ بھی زمین کی طرح کئی نعمتوں کا سرچشمہ ہے خداوندعالم نے اسے ہمارے سروں پر چھت بنایا ہے جیسا کہ خداوندعالم دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔۔

( وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا )

ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے۔

۱۱۶

ہمیں آسمان کے ساتھ گوناگوں نعمتیں میسر آتی ہیں،حتی کہ اس کا آبی رنگ ہونا بھی ایک نعمت ہے جیسا کہ حضرت امام جعفر صاق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

اے مفضل آسمان کے رنگ میں غور وفکر کرو خدا نے اسے آبی رنگ میں پیدا کیا ہے یہ رنگ انسانی آنکھ کے لیئے بہت مفید ہے اس کی طرف دیکھنا بینائی کو تقویت پہنچاتا ہے۔

آسمان کی نعمتوں میں ایک بہت بڑی نعمت ااسمان سے بارش برسنا ہے اس کے فوائد کا احصی ناممکن ہے حضرت امام سجاد علیہ السلام بارش کے آسمان سے نازل ہونے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں۔

یعنی المطر ینزله من اعلی لیبلغ قلل جبالکم و تلالکم وهضالکم و اوهادکم ثم فرقه زذاذا و وابلا و هطلا لتنشفه ارضوکم و لم یجعل ذلک المطر نازلا علیکم قطعة واحدة فیفسد ارضیکم و اشجارکم و زروعکم و ثمارکم

خداوندعالم بارش کو آسمان سے نازل کرتا ہے تاکہ پہاڑوں کی تمام،چوٹیوں ٹیلوں،گڑہوں اور تمام بلند مقامات پر پہنچ جائے یہ بارش کبھی تو نرم اور کبھی سخت دانوں کی شکل میں اور کبھی قطرات کی شکل میں برستی ہے تا کہ پوری طرح زمین میں جذب ہو جائے اور زمین اس سے سیراب ہو جائے۔

اسے سیلاب کی صورت میں نہیں بھیجاکہیں زمینوں درختوں،کھیتوں،اور تمہارے پھلوں کو بہا کر ویران نہ کردیاس بارش کی برکت سے قسم قسم کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں یہ سب انسانوں کی روزی بنتی ہیں یعنی ہمیں اس خدا کی وحدانیت کی طرف غور کرنا چاہیے جس نے بے رنگ پانی سے ہزاروں رنگوں کے میوے انسان کے لیئے پیدا کیے ہیں۔(۱)

____________________

(۱)نور الثقلین ج ۱ ص ۴۱۔

۱۱۷

شرک کی نفی

خداوندعالم انسانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ تم عقیدہ توحید اور عبادت میں خلوص پیدا کرو کسی کو اس وحدہ لا شریک زات کا شریک نہ بناؤ سرف اسی کی عبادت کرو جو تمہارا خالق اور رازق ہے تمہاری عبادت تب عبادت ہے جب اس میں شرک نہیں ہے۔

عبادت میں جتنا خلوص زیادہ ہو گا عبادت کا انتہائی درجہ بلند ہو گا اور خلوص کا بہترین درجہ یہی ہے کہ عبادت کرنے والے کے دل میں خدا کے علاوہ کچھ نہ ہو جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

القلب السلیم الذی یلقی ربه، لیس فیه احد سواه

قلب سلیم وہ ہے کہ یا دالہی کے وقت اللہ تعالی کے علاوہ کسی کا تصور تک نہ ہو۔(۱)

تورات،زبور اور دوسرے صحیفوں میں بھی یہ واضح ہو چکا ہے کہ خدا کی کوئیمثل نہیں ہے حالانکہ تحت الشعور میں تم جانتے ہو کہ اللہ کے علاوہ یہ نعمتیں کوئی بھی نہیں دے سکتا صرف اور صرف وہی ذات ہی زمین و آسمان کی خالق ہے جیسا کہ قرآن فرما رہا ہے۔

( وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ )

اگر ان سے پوچھو کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ یقینا اللہ نے پیدا کیا ہے۔

لہذا عبادت کے وقت بھی صرف اسی اللہ کے سامنے جھکو اس میں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ صرف وصرف وہی ذات لائق عبادت ہے۔

_____________________

(۱)بحار الانوار ج ۶۷ ص ۲۳۹۔

۱۱۸

( وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَائَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ )

اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں شک ہے جسیے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک سورہ ہی لے آؤ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو اللہ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیں ان سب کو (بھی ) بلا لو۔

گزشتہ آیات کے ساتھ ربط

سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا گیا تھا کہ ذلک الکتاب لا ریب فیہ یعنی اس کتاب میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے متعلق کسی نے شک بھی نہیں کیا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ایسی واضح کتاب ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔

منافقین کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ یہ لوگ شک و تردید کی بیماری مین مبتلا ہیں اب انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے اس میں کسی قسم کا شک ہے تو اس جیسا ایک سورہ ہی لے آؤ۔

اسی طرح چوتھی آیت میں مومنین کی نشانی ہی یہ بتائی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے اس پر ایمان لانے والے ہیں اسی طرح ۲۱ ویں آیت میں کہا گیا ہے کہ اپنے رب کی عبادت کریں یہ کتاب ہمیں رہنمائی کرتی ہے کہ ہم نے کس طرح عبادت بجا لانی ہے جو شرک جیسے گناہ سے پاک ہو اور اس سے پہلے والی آیت میں اپنی ایک نعمت آسمان سے پانی نازل ہونا بیان کیا ہے۔

۱۱۹

جس طرح آسما ن سے پانی نازل ہوتا ہے اس کی وجہ سے ہماری روزی کا سامان ہوتا ہے اور ہمیں جسمانی طور پر غذا میسر ہوتی ہے اور اسی کے دم سے ہم زندہ ہیں بالکل اسی طرح آسمان سے نازل ہونے والی ایک نعمت قرآن مجید ہے یہ ہماری روحانی غذا کے عنوان سے ہے۔ اسی قرآن سے قومیں زندہ ہیں اور ان کی روح کو غذا میسر آتی ہے یعنی ہماری جسمانی پرورش آسمان کا پانی کرتا ہے اور ہمیں صحت و سلامتی حاصل ہوتی ہے جبکہ ہماری روحانی پرورش قرآن مجید کرتا ہے ا س کی وجہ سے ہماری روح کی سلامتی اور مقصد پیدائش کی تکمیل ہوتی ہے۔( ۱)

قرآن مجید کا تعارف

خداوندمتعال اپنی کتاب کا تعارف اس انداز سے کرا رہا ہے کہ اللہ تعالی کی اس کتاب میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور اللہ تعالی نے اسے آسمان سے پیغمبر اسلام پر نازل فرمایا ہے یہ سب لوگوں کی ہدایت کا سر چشمہ ہے،ہمیں راہنمائی کر رہی ہے کہ ہم نے کس طرح اللہ کی عبادت کرنی ہے۔ اس میں شک کرنے والا پوری کائنات کو اپنی مدد کے لیئے بلا لے تب بھی اس کا مثل نہیں لا سکتا ہے اور وہ کافروں کے لیئے بنائی گئی جہنم کا ایندھن بنے گا۔

____________________

( ۱) جیسے خداوندعالم کا فرمان ہے

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

۱۲۰