تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت0%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی
زمرہ جات:

صفحے: 217
مشاہدے: 146711
ڈاؤنلوڈ: 5080

تبصرے:

تفسیر انوار الحجّت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146711 / ڈاؤنلوڈ: 5080
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

ب عبودیت کا مقام۔

قرآن مجید میں لفظ عبد جب مطلق استعمال ہو ا ہے اور یہ پیغمبر اسلام کے ساتھ خاص ہے کیونکہ دوسرے انبیاء کے لئے جب یہ لفظ استعمال ہوتا ہے وہاں ساتھ پہلے یا بعد میں نبی کا نام یا صفت بھی ساتھ بیان ہوتی ہے اس مقام پر بھی چونکہ لفظ عبد مطلق ہے(۱) یہ پیغمبر اسلام کے ساتھ خاص ہے۔

جس طرح خد ا کے علاوہ کوئی ذات بھی مطلق حر نہیں ہے اسی طرح آپ (ص) کے علاوہ کوئی بھی مطلق عبد نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم جیسے ابو الانبیاء بھی آپ(ص) کے پرچم کے سایہ میں ہو ں گے جیسا کے آپ کا ارشاد گرامی ہے۔

آدم و من دونه تحت لوائی یوم القیامة

آدم اور اسکے بعد آنے والے سب لو گ قیامت والے دن میرے سایہ میں ہونگے۔

یہ مقام عبودیت اس قدر بلند ہے کہ مو لی کائنات حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فر ماتے ہیں۔

الهی کفی بی غدا ان اکون لک عبدا

اے میرے معبود میرے لئے یہ بہت بڑی عزت ہے کہ میں تیرا عبد ہوں۔(۲)

لہذا مطلق سرداری اور سیادت بھی آپ کے لئے ہے،آپ عبد خدا کے نام سے پہلے ہی سے پوری کائنات میں مشہور ومعروف تھے اسی لئے اس آیت میں بھی عبد مطلق لایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے عبد پر جو کچھ نازل کیا ہے اس میں تمہیں شک ہے تو اس جیسا ایک سورہ لے آؤ۔

____________________

(۱)کذبت قبلهم قوم نوح فکذبوا عبدنا ۔سورہ قمر آیت نمبر ۹ان سے پہلے قوم نوح نے بھی تکذیب کی تھی اور انہوں نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا۔واذکر عبدنا ایوب۔سورہ ص آیت نمبر ۴۱۔ ہمارے عبد ایوب کا ذکر کرو۔

(۲)مفاتیح الجنان مناجات حضرت امیر المومنین علیہ السلام ص۲۶۶۔

۱۲۱

قرآن کا چیلنج

الف۔قرآن مجید تمام شکوک سے پاک ہے

ریب اس شک کو کہتے ہیں جو تہمت کے ساتھ ہو،قرآن مجید ہر قسم کے ریب و شک سے پاک ہے لہذا اگر تمہں قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے میں شک ہے اور تم رسول خدا (ص) پرتہمت لگاتے ہو کہ انہوں نے خدا پر اختراء باندھا ہے اور یہ اس کا اپنا کلام ہے تو تم بھی اس قسم کا کلام بنا لا ؤ یہ لا ریب کتاب ہے اور تم اس میں شک کرتے ہو اور اسے رسول خدا کا کلام کہتے ہو قرآن کی اس آیت میں پیغمبر اسلام کی صداقت بیان کر رہا ہے کہ لوگ کبھی تو توحید میں شک کرتے ہیں۔(۱) کبھی وحی کے بارے میں شک وگمان میں مبتلا ہوتے ہیں(۲) کبھی قیامت کو نہیں مانتے۔(۳)

____________________

( ۱)( وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ ) (ابراہیم آیت نمبر ۹)

ہمیں اس بات کے بارے میں واضح شک ہے جس کی طرف تم ہمیں دعوت دے رہے ہو ۰۰۰

( ۲)( أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي ۖ ) (ص آیت ۸)

کیاہم سب کے درمیان تنہا انہیں پر کتاب نازل ہوئی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں ہماری کتاب میں شک

( ۳)( وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ ۗ )

اورشیطان کو ان پر اختیار حاصل نہ ہوگا مگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کون آخرت پر ایمان رکھتاہے اور کون شک میں مبتلا ہے (سباء آیت نمبر ۲۱)

۱۲۲

یہ سب شکو ک و شبھات ا س لئے نہیں کہ ان میں کسی قسم کا ریب وشک ہے بلکہ یہ اس لئے شک کرتے ہیں کہ یہ لوگ اندھے ہو چکے ہیں ان میں غور وفکر کی قدرت نہیں رہی یہ اپنے سوء اختیار کی وجہ سے راہ راست سے دور ہیں اس لئے یہ شک کرتے ہیں کہ بلکہ یہ اندھے ہیں انہیں حق سجھائی نہیں دیتا۔(۴) حا لانکہ ان کی آنکھیں ہی اندھی نہیں ہیں بلکہ ان کے دل اندھے ہو چکے ہیں۔(۵) کیونکہ آنکھ اور کان تو ادراک کے وسائل ہیں جب قلب ہی کام نہ کر سکے تو یہ کیا کام کر سکتے ہے۔

____________________

(۴)جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

(بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا ۖ بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ) ۔سورہ نمل آیت نمبر ۶۶۔

بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ناقص رہ گیا ہے اور یہ شک میں مبتلا ہو گئے ہیں بلکہ (یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ )یہ با لکل اندھے ہیں۔

(۵)(أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ) ۔حج آیت نمبر ۴۶۔

کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلے پھرے نہیں ہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے ہیں جن سے (حق بات)سمجھنے یا اس کے کان ہوتے جن سے یہ سنتے کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ سینے میں موجود دل ہی اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔

۱۲۳

انہوں نے غور وفکر اور سوچنے کے چراغ گل کر دیتے ہیں اسی وجہ سے یہ لوگ شک وشبہ میں مبتلا ہو گئے ہیں اور قرآن مجید جیسے واضح روشن حقائق کے متعلق شک و تردید کر بیٹھے۔کبھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ ہم بھی اس قسم کی کلام بنا سکتے ہیں۔(۱)

قرآن مجید ان لوگوں سے بر ملا کہہ رہا ہے کہ اگر تمہیں اس کے قرآن ہونے کے بارے میں شک ہو تو تم بھی اس جیسا کوئی سورہ ہی لے آؤ لہذا اس آیت میں اللہ تعالی ایک طرف تو قرآن مجید کے معجزہ ہو نے کو بیان کر رہاہے اور دوسری طرف پیغمبر اسلام کی صداقت کو بیان کر رہا ہے کہ یہ میرا کلام ہے اور میں نے اسے اپنے عبد پر نازل کیا ہے یہ اس کا کلام نہیں ہے،تم اپنے دعوے میں جھوٹے ہو تمہار ا شک تمہارے اندھے پن کی وجہ سے ہے۔

قرآن ہمیشہ رہنے والا ایک معجزہ ہے

معجزہ وہ غیر معمولی چیز ہے جو کسی نبی کو دعوائے نبوت یاکسی اور منصب الہی والے کو اس منصب کے ثبوت میں خدا وند عالم کی وجہ سے عطاء ہوا ہواور اس کے مقابل لانے سے ساری دنیا عاجز ہو یعنی معجزہ ان غیر معمولی آثار کا نام ہے جو ایک مدعی نبوت میں اس کے دعوی کی خصوصی دلیل بن سکیں۔

قرآن مجید ہمارے رسول کا ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے جب کہ گذشتہ انبیاء کے معجزات ایک زمانے تک محدود تھے مثلا حضرت عیسی کا پیدا ہوتے ہی گفتگوکرنا،مردوں کو زندہ کرنا،مادر ذاد اندھوں کو بینائی دینا،یا برص کے مریضوں کو تندرست کرنا،یا حضرت موسی علیہ السلام کو ید بیضاء عنایت فرمانا یہ سب کے سب ایک زماننے تک محدود ہیں۔لیکن قرآن مجید تا قیامت معجزہ ہے اور آغاز سے انجام تک معجزہ ہے یعنی جس طرح حضرت کے زمانہ میں معجزہ تھا اسی طرح آج بھی معجزہ ہے اور قیامت تک معجزہ رہے گا۔

_____________________

(۱) لو نشاء لقلنا مثل هذا (انفعال آیت نمبر ۳۱)

۱۲۴

قرآن کی حقانیت یقینی ہے

خداوند عالم اس ایک معجزہ میں پوری کائنات کو چیلنج کر رہا ہے کہ جو کچھ ہم نے اپنے خاص بندے پر نازل کیا ہے اگر تمہیں اس کے متعلق شک ہے تو کم از کم اس جیسا ایک سورہ ہی بنا لا ؤ۔ یعنی قرآن مجید کی حقا نیت پر اس قدر یقین ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ حتمی اس جیسی پوری کتاب بنا لاؤ وہ تو تم یقینا نہیں بنا سکتے،اچھا ( ۱۰) آیات ہی بنا لاؤ،اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو فقط و فقط ایک سورہ بنا لاؤ یہاں ایک سورہ جو کہا ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم( ۲۸۶) آیات پر مشتمل سورہ بقرہ جتنا سورہ بنالاؤ بلکہ تمہیں اختیار ہے کہ ( ۳) آیات پر مشتمل سورہ کو ثر جتنا سورہ بھی بنا سکتے ہو تو بنا کر دکھاؤ۔ اگر تم قرآن مجید جیسا ایک سورہ لے آو گئے تو ہم اسے پورے قرآن کے مقابلے میں تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں۔

مخالف قرآن جھوٹے ہیں

خدا وند عالم نے عرب جیسی با حمیت اور با غیرت قوم کو للکارا کر کہا ہے کہ اگر تمہں قرآن پر شک ہے تو اس جیسا ایک سورہ ہی بنا لاؤ اگر تم اکیلے ایسا نہیں کر سکتے تو اللہ کو چھوڑ کر جتنے تمہارے مدد گار ہیں ان سب کو بھی جمع کر لو اور اجتماعی کوشش کرو سب کے سب مل کر اس قرآن جیسا ایک سورہ بنا لاؤ لیکن اگر تم سورہ نہ بنا سکے تو پھر تم جھوٹے ہو اور تمہارا خیال بھی غلط ہے۔

قرآن مجید کسی بھی انسانی طاقت کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ صرف اور صرف اللہ کا نازل کر دہ کلام ہے یہ فصاحت اور بلاغت میں بلغاء کے لئے معجزہ ہے اپنی حکمت میں حکماء کے لئے معجزہ ہے اپنے علمی مباحث کے عنوان سے علماء کے لئے معجزہ ہے قانون دانوں کے لئے اجتماعی قانون گذاری کرنے کے لحاظ سے معجزہ ہے۔

غرض قرآن مجید ہر پہلو اور ہر لحاظ سے معجزہ ہے اور اللہ کی نازل شدہ کتاب ہے اس میں شک و شبہ کرنے والا اگر اس کے مقابل کچھ نہیں لا سکتا تو سمجھ لے کہ میں جھوٹا ہوں اور میرا دعوی غلط ہے۔

( فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ )

اگر تم ایسا نہ کر سکے اور یقینا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور یہ کافروں کے لئے تیارکی گئی ہے۔

۱۲۵

الف۔ قرآن کا چیلنج لا جواب ہے

قرآن مجید نے نفسیاتی طریقہ اختیار کیا ہے اس نے تیز سے تیز اور سخت سے سخت الفاظ میں چیلنج کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ اگر تمہیں اس میں شک ہے تو اس جیسی کوئی اور کتاب بنالاؤ یعنی انہیں غیرت اور حمیت دلاتی ہے تاکہ وہ اپنی پوری طاقت اور قوت کو استعمال کرتے ہوئے مقابلہ کی کوشش کریں۔

وہ غیور اور باحمیت اور پر جوش عرب جو چھوٹی چھوٹی بات پر جان دینے کے لئے آمادہ ہو جا تے تھے اگر ان میں دم وخم ہوتا اور وہ قرآن کے چیلنج کا جواب دے سکتے ہوتے تو وہ ان طعنوں،سرزنشوں،اور مبارزہ طلیبوں کو سن کر ضرور اپنی فکر کی طاقتوں سے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔

لیکن وہ ناکام اور عاجز رہے انہوں نے واضح طور پر جان لیا کہ یہ انسانی طقت سے باہر ہے اور یہ خدائی کام ہے حضرت محمد (ص) نے تو اسے اپنی حقانیت کی دلیل بنا کر پیش کیا ہے مضحائے عرب کو مقابلہ کی دعوت دی وہ قرآن مجید کے چیلنج کا جواب لانے سے عاجز آگئے۔ قرآن کاچیلنج لا جواب رہا اور قیام قیامت لا جواب رہے گا کیونکہ اس کی حقانیت کا ثبوت ہمہ گیر حیثیت رکھتا ہے اسی وجہ سے یہ صرف عربوں کے لئے معجزہ نہ تھا۔

بلکہ پوری خلق کے لئے عربی ادیب عمر بن بحر حافظ کہتے ہیں۔عرب قوم کا قرآن جیسا کلام پیش نہ کر سکنا اور اس کے مقا بلے میں عاجز آجانا دنیا کے تمام غیر عرب لوگوں کے لیئے قرآن کی حقانیت کا ثبوت ہے۔

جہاں تک عرب قوم کا تعلق ہے اس نے اس قرآن کے مقابلہ میں اپنی عاجزی کا اظہار کردیا تھا ۱۴۰۰ سال بعد بھی قرآن مجید اسی انداز میں اپنی مقابل دنیا کے ہر طبقہ کو پکار پکار کر مقابلہ کی دعوت دے رہا ہے اور مخالفین کو سرتوڑ کوشش کے بعد ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ ماننا پڑا کہ قرآن مجید کا یہ دعوی لا یا تون بمثلہ۔تا قیام قیامت سچا رہے گا یہ سچائی پر اعتماد کی انتہا ء ہے دشمنوں کے ماحول میں داعی حق انتہائی اطمنان و سکون بلکہ یقین کے ساتھ کہ رہا ہے تم ہرگز ہرگز اس کا مثل نہ لا سکو گے اور قرآن کا مثل لانا اس کائنات کی طاقت سے باہر ہے۔

۱۲۶

ب :دعوت ایمان

قرآن مجید ایک بار بھی انہیں ایمان قبول کرنے کی دعوت دے رہا ہے کہ جب تم اس کی مثل نہیں لا سکے ہو تو پھر جان لو کہ قرآن مجید پوری کائنات کے لیئے معجزہ ہے۔

لہذا تم ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر قرآن مجید اور پیغمبر اسلام کی رسالت پر ایمان لے آؤ ضروریات اسلام کو تسلیم کرو تب تمہاری بخشش کا سامان ہو سکتا ہے کیونکہ بخشش کے لیئے اسلام کے اصولوں کو دل وجان سے تسلیم کرنا ضروری ہے یہ تمہارے لیئے اتمام حجت ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گناہوں سے توبہ کرلو جہنم کی آگ سے بچاؤ کی یہی ایک صورت ہے کہ اس دعوت ایمان پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کرلو۔

ج: اتمام حجت کے بعد انکار کا نتیجہ

قرآن مجید نے اتمام حجت کردی تھی منکرین کے لیئے جہنم کی آگ سے بچنے کا ایک موقعہ فراہم کیا تھا اب جن لوگوں نے اتمام حجت کے بعد بھی اگر اسلام کی پیروی نہ کی تو تم اور تمہارے معبود جہنم کا ایندھن بنو گے جیسا کہ خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔

( إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ )

تم اور جس کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو سب کے سب جہنم کا ایندھن ہیں۔(۱)

آتش جہنم کا عذاب در حقیقت نا فرمان لوگوں کے لیئے ہے ان لوگوں کی اس سے بڑھ کر اور کیا توہین ہو گی کہ ان کے وہ معبود جن کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں انہیں بھی جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے اس آگ کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو ان کے معبود تھے۔

____________________

(۱)انبیاء آیت ۹۸۔

۱۲۷

چونکہ یہ لوگ یہ خیال کرتے تھے قیامت والے دن یہ بت اللہ کے سامنے ہماری شفاعت اور سفارش کریں گے آج انہیں بھی ان کے ساتھ جہنم کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تمہاری کیا شفاعت کر سکتے ہیں یہ تو بالکل بے بس ہیں اگر تم اس جہنم کی آگ سے بچنا چاہتے ہو تو اللہ،رسول اور ضروریا ت دین کو دل سے تسلیم کر لو تب اس درد ناک عذاب سے تمہارا چھٹکارہ ہو سکتا ہے۔

( وَبَشِّرْ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ کُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِی رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِیهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِیهَا خَالِدُونَ )

اے پیغمبر! جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے انہیں خوشخبری دے دیجئے ان کے لیئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جب بھی انہیں ان باغات سے کوئی پھل کھانے کے لیئے ملے گا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے بھی ہمیں کھانے کے لیئے مل چکا ہے اور جو پھل انہیں پیش کیے جا ئیں گے( وہ خوبی و زیبائی )میں یکساں ہیں اور بہشت میں ان کے لیئے پاک و پا کیزہ ہوں گی اور یہ لوگ اس بہشت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

گزشتہ آیات میں ان لوگوں کا تذکرہ ہو رہا تھا جنہوں نے دعوت عبودیت کو قبول نہ کیا اور کفر اختیار کیا حالانکہ ان کے لیئے اتمام حجت بھی ہو چکی تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ لوگ جہنم کی آگ سے بچ جائیں اور اھل ایمان میں داخل ہو جائیں اس کے بعد انہیں حجج بینہ کے ساتھ دردناک عذاب سے ڈرایا گیا لیکن یہ لوگ راہ راست پہ نہ آئے۔

اب اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے دعوت عبودیت پر لبیک کہی ان کے لیئے بروز قیامت بلند مقام درجات اور نعمتوں کو بیان کیا جارہا ہے۔

۱۲۸

بشارت الہی

قرآن مجید میں کئی طرح کی بشارت ہوتی ہے کبھی تو اس مورد کی عظمت کو بیان کرنے کے لیئے بشارت دی جاتی ہے جیسا کہ اس آیت میں صاحبان ایمان کو جنت کی بشارت دی جارہی ہے اس سے جنت کی عظمت کو بیان کیا جا رہا ہے اسی طرح خداوند عالم کا یہ فرمان بھی جنت کی عظمت کو بیان کر رہا ہے۔

( جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ )

جنت جس کی وسعت سارے زمین و آسمان کے برابر ہے اور متقین کے لئے مہیا کی گئی ہے۔(۱)

اگرچہ اس آیت مجیدہ میں تشبیہ کا حکم ہے پیغمبر اسلام (ص) سے خطاب ہے لیکن آپ کے وسیلے سے آپ کی نیک اور صالح امت کو بھی شامل ہے جب امت آپ اور آپ کے حقیقی جانشینوں سے معارف الہی حاصل کر کے حقیقی متقی بن جائیں اور خدا کی واحدانیت،انبیاء کی نبوت اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی امامت کے ساتھ ساتھ ضروریات دین و مذہب پر عمل پیرا ہوجائیں تو اس وقت یہ بشارتیں ان کے لئے ہیں۔

ایمان اور عمل صالح

خدا وند عالم کی یہ سب بشارتیں ان لوگوں کی ہیں جو صاحب ایمان اور عمل صالح بجا لانے والے ہیں،ایمان، عمل صالح سے جدا نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں جہاں بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے وہاں صرف صاحب ایمان نہیں کہا گیا بلکہ ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔(۲)

لہذا جنت میں جانے کے لئے مومن ہونے کے ساتھ،عمل اور اصول عقائد کی پابندی بھی ضروری ہے۔ایمان اور عمل صالح سے ہی انسان کامل بنتا ہے،ایمان جڑ ہے اور عمل صالح اس کا پھل ہے جس طرح جڑ اور پھل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

____________________

(۱)آل عمران آیت نمبر ۱۳۳

(۲)ملاحظہ فرمائیں سورہ طلاق آیت نمبر ۱۱،سورہ نور آیت نمبر ۵۵۔

۱۲۹

اسی طرح ایمان اور عمل بھی ہیں نیکی ایمان سے الگ نہیں ہو سکتی،بلکہ عمل صالح کی عملی شکل کا نام ایمان ہے۔رضائے الہی کے مطابق جو کام بھی کریں گے وہ عمل صالح ہو گا جو جتنا زیادہ رضائے الہی کا پابند ہو گا وہ اتنا بڑا مومن ہو گا،عمل صالح کے حقیقی مصداق آئمہ اطہار علیہم السلام ہیں جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

فالذین امنو ه و عملوالصالحات علی ابن ابی طالب والا صیاء من بعد ه و شیعتهم

حقیقی ایمان لانے والے اور عمل صالح بجا لانے والے تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ان کے بعد ان کے اوصیاء ہیں اور پھر ان کے شیعہ ایمان و عمل کا نمونہ ہیں(۱)

بہر حال ایمان کے ساتھ ضروریات دین و مذہب پر قلبی طورپر عمل کرنے والا ہی جنت کی بشارت کا مستحق ہے اور حقیقی مومن ہے جیسا کہ سلیم بن قیس ھلالی حضرت علی ابن ابی طالب علیہ ا لسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے۔

جو شخص اس دنیا سے اس حالت میں اٹھے کہ وہ اپنے امام کو جانتا بھی ہے اور اس کا مطیع بھی ہے تو کیا ایسا شخص اہل جنت سے ہو گا؟

حضرت نے فرمایا :

جو شخص بھی ایمان کی حالت میں اپنے اللہ سے ملاقات کرے وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جو اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام انجام دیے۔(۲)

____________________

(۱)بحار الانوار ج ۳۶ ص ۱۲۹۔

(۲)بحار الانوار ج۲۸ ص ۱۶،حدیث ۲۲۔

۱۳۰

بہشت اور اس کی نعمتیں

صاحبان ایمان و عمل کے لئے جنت اور اس کی نعمتیں ہیں یعنی ان لوگوں نے دنیا میں جتنے نیک اعمال کیے تھے آخرت میں وہ سب ان کے سامنے ظاہر ہونگے کیونکہ اس کا عمل زندہ ہے اور بہشت و اس کی نعمتیں اسی عمل کا ظہور ہیں

الف :بہشت کے باغات

انسان کو اسکے عمل صالح اور ایمان کی وجہ سے ایسی جنت کے باغوں کی بشارت دی جا رہی ہے ان باغات کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان درختوں پر انوع و اقسام کے پھل لگے ہوئے ہیں یہ لوگ جب بھی ان کا اردہ کریں گے یہ پھل ان کے سامنے حاضر ہو جائیں گے اور یہ اسے تناول کریں گے۔

جب انہیں کھانے کے لئے پھل دیے جاےئں گے تو یہ لوگ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جسے پہلے ہم کھا چکے ہیں لیکن جب اسے کھائیں گے تو انہیں محسوس ہوگا کہ اس کی لذت اور ذائقہ بہت عمدہ ہے اور حقیقت کے لحاظ سے بہت مختلف ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اس کو ان پھلوں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ مشابہت کے لئے ضروری ہے کہ دونوں چیزیں ذاتی طور پر ایک دوسرے سے جدا ہوں لیکن شکل وصورت میں ایک جیسی ہوں تو پھر ایک دوسرے کے مشابہ کہلاتی ہیں۔

ب:پاکیزہ بیویاں

صاحبان ایمان و عمل کے لئے ایک بشارت یہ ہے کہ انہیں وہاں پاکیزہ بیویاں میسر ہونگی اس سے مراد حوریں بھی ہو سکتی ہیں اور اس دنیا والی نیک بیویاں بھی ہو سکتی ہیں جب یہ بہشت میں داخل ہونگے تو اس دنیا میں جتنی جسمانی اور روحانی کثافتیں تھیں سب ختم ہو جائیں گی اور وہ ازداج مطا ھرہ کہلوانے کی مستحق قرار پائیں گی۔بہر حال مومنین کو حورالعین ملیں گی وہ حوریں،اخلاق کمال اور جمال میں بے نظیر ہونگی اور وہ ہر قسم کی نجاسات سے پاک و پاکیزہ ہونگی۔حضرت رسول اکرم (ص) سے منقول ہے۔ اگر جنت کی عورت ایک دفعہ زمین کی طرف دیکھ لے تو اس کی خوشبو پوری زمین کو معطر کر جائے گی۔ لہذا جسمانی اور روحانی نجاستوں سے پاک،تمام خصوصیات نسوانی کا مرقع بیویا ں صرف اہل ایمان کو نصیب ہونگی۔

۱۳۱

نعمتوں میں دوام و ہمیشگی

انسان کو جب بھی اس دنیا میں کوئی نعمت ملتی ہے اسے یقین ہوتا ہے ایک دن وہ اس سے ختم ہو جائے گی اس کے باوجود اسے نعمت میسر آنے کے ساتھ ہی خوشی محسوس ہونے لگتی ہے اور خدا کا شکر بجا لانے کے لئے اپنا سر سجدے میں رکھ دیتا ہے۔لیکن آخرت میں ان صاحبان ایمان و عمل کو بشارت دیجارہی ہے یہاں دنیا والا معمالہ نہیں ہے یہاں کی نعمتیں ا بدی ہیں اور جاودانی ہیں ان کے لئے فنا اور زوال کا تصور تک نہیں ہے۔

مومن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہے گاجنت کی نعمات سے لطف اندوذ ہوتا رہے گا۔ جنت کی کسی چھوٹی سے چھوٹی نعمت کے مقابلے میں بھی دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت نہیں آسکتی کیونکہ دنیاوی نعمت کتنی ہی بڑی ہی کیوں نہ ہو آخر اس نے فنا ہو نا ہے اور جنت کی نعمت تو جاودانی ہے،یہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے اور کافر اور منافق کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہو گا۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس کی علت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

انما خلد اهل النار فی النار لان ینانیهم کا نت فی الدنیا ان لو خلا وا فیها ان یعصوا الله ابدا و انما خلد اهل الجنة لان نیاتهم کانت فالدنیا ان لو لقوا فیها ان یطیعوا لله ابدا،النیات خلد هو لاء و هولا

اہل جنہم اس لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہم میں رہیں گے کیونکہ اس دنیا میں ان کی نیت ہی بد تھی اگر وہ کچھ دیر اس دنیا میں اور رہ لیتے تو خدا کی نافرمانی میں مبتلا رہتے۔ اہل بہشت اس لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے کہ اس دنیا میں ان کی نیت اچھی تھی اور اگر کچھ عرصہ اس دنیا میں اور زندہ رہتے تو اللہ تعالی کی اطا عت میں ان کی زندگی گزرتی اس لئے یہ ہمیشہ جنت میں اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔(۱)

____________________

(۱)نور الثقلین ج ۱ ص۴۴۔

۱۳۲

( إِنَّ اللهَ لاَیَسْتَحْیِی أَنْ یَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَیَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِینَ کَفَرُوا فَیَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلًا یُضِلُّ بِهِ کَثِیرًا وَیَهْدِی بِهِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ )

بے شک اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے کم تر کسی چیز کی مثل بیان کرے اب جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ یہی کہتے ہیں کہ آخر ان مثالوں سے خدا کا مقصد کیا ہے خدا اس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے اور گمراہی میں صرف فاسقوں کو ڈالتا ہے۔

شان نزول

اس آیت مبارکہ کے شان نزول کے حوالے سے ابن مسعود روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے منافقین کی پہچان کے لیئے اسی سورہ کی ۱۷ ویں اور ۱۹ ویں آیات میں مثال کے ذریعے ان کے حقائق سے پردہ اٹھایا تو وہ کہنے لگے خدا سے بعید ہے کہ وہ ایسی مثالیں بیان کرے۔

ان کے جواب میں خداوندعالم نے اس آیة مبارکہ کو نازل کیا کہ اللہ تعالی کو مچھر اور اس سے کمترکسی چیز کی مثال بیان کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہے۔اسی طرح اس آیت کے شان نزول کے حوالہ سے قتادہ کی یہ روایت بھی کتب تفسیر میں موجود ہے کہ خداوندعالم نے سورہ عنکبوت کو نازل کیا تو یہودی اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے یہ خدا کی نازل کردہ سورہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی سے بعید ہے کہ وہ ایسی چیزیں بیان کریں۔

اس وقت یہ اایت نازل ہوئی اور خداوندعالم منافقین اور کافرین کے حقائق کو ایسی مثالوں سے بیان کرسکتا ہے۔مچھر ہو یا عنکبوت کی مثال سب اللہ کی طرف سے ہیں اسی کمتر مخلوق مچھر ہی نے تو نمرود جیسے مغرور شخص کو ہلاک کر دیا تھا اور عنکبوت (مکڑی) نے غار ثور کے دھانے جالہ بن کر پیغمبر اسلام کی حفاظت کی تھی،یہ حقیر چیزیں نہیں ہیں بلکہ انہوں نے تو تاریخ کا رخ ہی موڑ دیا تھا نمرود ظالم تھا اسے مچھر نے ہلاک کر کے نئی تاریخ لکھی ادھر مکڑی نے ظالموں سے حضرت کی حفاظت کر کے تا ریخ رقم کی۔

۱۳۳

قرآنی تمثیل

قرآن مجید وحی الہی ہے اور ہر قسم کے نقص سے پاک ہے قرآن کے مخالف کھبی تو قرآن کے انداز بیان پر اعتراض کرنے لگتے ہیں اور کھبی قراانی مطالب کو پسند نہیں کرتے۔اس آیت میں خدا ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمارہا ہے کہ تمہیں مطلب سمجھانے کے لیئے مثال دی ہے یعنی انسانی ذہن محسوسات سے مانوس ہے وہ اس وقت تک کسی حقیقت کا آسانی سے تصور نہیں کرسکتا جب تک حسی شکل میں اس کی مثال نہ بیان کر دی جائے اور انسانی مشاہدے کو مدنطر رکھ کر مثال نہ پیش کر دی جائے۔

اسی وجہ سے قرآن مجید نے چھوٹی اور بڑی چیزوں کی مثالیں بیان کر کے مطالب کو سمجھایا ہے لہذا خدا ایسی مثالیں دینے سے نہیں شرماتا اور اس مثال کو اپنی اور اپنے کلام کی شان کے خلاف نہیں جانتا خواہ مچھر سے مثال دی جائے یا اس سے کمتر کسی اور مخلوق سے مثال دی جائے کیونکہ اللہ کا مقسد صرف حقیقت کو انسان کے ذہن کے قریب لانا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالی مطالب کو کبھی برہان ذریعہ بیان کرتا ہے کبھی جدال احسن،کبھی موعظہ اور کبھی مثال کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

مچھر کی مثال کیوں

منافق کافر اور مشرک آپس میں مل بیٹھ کر اعتراض کرتے تھے کہ مچھر ایک حقیر سی مخلوق ہے خدا وند متعال نے اس کا تذکرہ کیوں کیا ہے اس کی نسبت کسی بڑی مخلوق کو بیان کرتا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ مچھر بھی بہت بڑی مخلوق ہے،اسی مچھر کے متعلق حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں۔

۱۳۴

ولو اجتمع جمیع حیوانها من طیرها و بها ئمها و کان من صراحها و سائمها و اضاف اسناخها و اخباسها و قبلدة اممها و اکیاسها علی احداث بعوضةما قدرت علی احداثها ولا عرضت کیف السبیل الی ایجادهاو تحیرت عقولها فی علم ذلک و تاهت و عجزت ۔

تمام حیوان خواہ پرندے ہوں یا جانور رات کو پلٹ کر آنے والوں میں سے ہوں یا چراگاہوں میں رہنے والے ہوں،یعنی کسی صنف سے تعلق رکھتے ہوں اور تمام خواہ کند ذہن ہوں یا ذہین اور ہوشیار اگر یہ سب مل کر بھی ایک مچھر پیدا کرنا چاہیں تو وہ اسے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کر سکتے کہ اسے کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے اسے جاننے کے لیئے ان کی عقلیں حیران و سر گردان ہیں قوتیں عاجز اور درماندہ ہو جائیں گی۔ آخر کا ر شکست خوردہ ہو کر اقرار کر لیں گے کہ وہ اسے نہیں بنا سکتے اور ہم اپنے عجز کا اقرار کرتے ہیں اور یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ہم اسے فنا کرنے پر بھی قادر نہیں ہیں۔(۱)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام مچھر کی مثال کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں۔

خداوندعالم نے مچھر کی مثال دی ہے حالانکہ وہ جسامت کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے جسم میں وہ تمام آلات و اعضاء و جوارح ہیں جو خشکی پر رہنے والے سب سے بڑے جانور (ہاتھی )کے جسم میں ہیں بلکہ اس کے جسم میں دو اعضاء ہاتھی کی نسبت زیادہ ہیں (سینگ و پر ) جو ہاتھی کے پاس بھی نہیں ہیں۔(۲)

خداوندعالم اس مثال سے خلقت و افرینش کی خوبی و عمدگی بیان کررہا ہے یہ ظاہرا کمزور جانور ہے جسے خدا نے ہاتھی کی طرح کلق کیا ہے اس میں غور و فکر انسان کو اس خالق حقیقی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔اس مچھر کی سونڈ ہاتھی کی سونڈ کی مانند ہے اور اندرسے خالی ہے اور مخصوص قوت سے خون کو اپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ یہ دنیا کی عمدہ سرنگ معلوم ہوتی ہے اور اس کا اندورنی سوراخ بہت باریک ہے۔ خدا مچھر کو جذب دفع اور ہاضمے کی قوت دی ہے اسی طرح اسے مناسب ہاتھ پاؤں اور کان عطا فرمائے ہیں اسے پر دیئے ہیں تا کہ غذا تلاش کر سکے اور یہ پر اتنی تیزی کیساتھ اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں کہ آنکھ سے یہ حرکت نہیں دیکھ سکتے

____________________

۰۰۰نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۶۔۰۰۰۰۰۰صافی ج ۱ ص ۱۰۴۔۰۰۰

۱۳۵

اور یہ جانور اتنا حساس ہے کہ کسی چیز کے اٹھنے کے ساتھ ہی یہ خطرہ معلوم کر لیتا ہے اور بڑی تیزی سے خود کو خطرہ سے دور کر لیتا ہے اور انتہائیہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اتنا کمزور ہونے کے باوجود بڑے بڑے جانوروں کو عاجز کر دیتا ہے۔

قرآنی مثالیں اور انسانی رویہ

قرآن مجید میں بہت سی مثالیں موجود ہیں خداوندعالم نے مچھر یا اس جیسے یا اس سے کمتر مخلوق کی مثالوں کے ساتھ حق کو بیان کرتا ہے اس طرح عقلی حقائق کو حسی مثالوں کی شکل میں بیان کر کے ھق کو واضح کرتا ہے۔خدا وندعالم نے مچھر مکھی مکڑی شہد کی مکھی اور چیونٹی جیسی چیزوں کے ساتھ مثالیں پیش کی ہیں ان کی وجہ سے لوگو ں کا رویہ دوطرح ہو گیا ہے زیرنطر آیت میں لوگوں کے دوگروہوں میں تقسیم ہو کر مثالوں کے متعلق مختلف نطر اور رویہ کو بیان کیا گیا ہے۔

جو لوگ ایمان لائے انہوں نے توحید قرآن مجید انبیاء اور آئمہ اطہار علیہم السلام کو قبول کر لیا اور پکے مومن بن گئے جب ان کے سامنے ایسی مثالیں پیش کی جاتی ہیں تو انہیں یقین کامل ہوتا ہے کہ یہ مثالیں پروردگار عالم کی طرف سے حق ہیں انہیں کسی حکمت اور مصلحت کی وجہ سے پیش کیا گیا ہے لیکن ان کے مقابل کافر فاسق اور دوسرے لوگ جو حق کو چھپاتے ہیں ان کا رویہ مومنین سے جدا ہے یہ لوگ جب ایسی مثلیں سنتے ہیں تو دشمنی کی وجہ سے کہتے ہین بھلا ان مثالوں کا کیا فائدہ نجانے خدا نے انہیں کیوں بیان کیا ہے ہمیں تو یہ ایک عبث اور فضول کلام لگ رہا ہے اس میں کوئی مصلحت نہیں ہے۔

ہدایت اور گمراہی

خداوندعالم اس آیت میں ارشاد فرمارہا ہے کہ ان مثالون کا فائدہ یہ ہے کہ بعض ان مثالوں سے ہدایت پا جاتے ہیں اور بعض لوگوں کا مقدر ضلالت اور گمراہی ہے کیونکہ ان لوگوں نے اپنی فکر سے تدبیر نہیں کی جس کی وجہ سے یہلوگ حقیقت کا انکار کر بیٹھے خدا نے بھی اپنے لطف و تو فیق کا ان پر راستہ بند کر دیا ہے اور انہیں ضلالت و گمراہی کی وادی میں سرگردان چھوڑ دیا ہے۔

جن لوگوں نے ان مثالوں میں غور وفکر کیا انہوں نے عقل اور توفیق سے ہدایت کی راہ تلاش کر لی تو ان کی آنکھوں سے حجاب ہٹ گئے اور انہیں ان مثالوں کے ذریعے ہدایت نصیب ہوئی۔

۱۳۶

خداوندعالم نے اس آیت میں ہدایت و گمراہی کو اپنی طرف نسبت دی ہے اس مراد یہ ہے کہ یہ گمراہی انسان کے برے عمل کی وجہ سے ہے کیونکہ انسان حجت عقل نقل کتاب سنت کے ہوتے ہوئے بھی صراط مستقیم پر نہ چل سکے تو بہ کا دروازہ کھلا ہونے کے باوجود گناہ طغیانی اور سرکشی پر مصر رہے تو ایسا شخص اپنے سو اختیار کی وجہ سے صراط مستقیم سے منحرف ہو جائے گا اس وقت اللہ بھی اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور مزید لطف توفیق کا راستہ اس پر بند کر دیتا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ ) ۔(۱)

جب وہ اپنے حق سے منحرف ہوئے تو خدا نے بھی ان کے دلوں کو منحرف کردیا۔

جبر کی نفی

اس آیت کے آکر مین خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ گمراہی صرف ان فاسقوں کا مقدر ہے یعنی جو لوگ اپنے ارادے اور سو اختیار کی وجہ سے د ین سے خارج ہو گئے ہیں یہ فاسق کہلاتے ہیں۔(۲)

اللہ کا مقصد انہین گمراہ کرنا نہیں ہے لیکن ان مثالوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بعض تو ہدایت یافتہ ہو جاتے ہیں اور بعض تعصب اور عناد کی وجہ سے مزید گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور گمراہی ان کے لیئے ہے جو ابتداء ہی سے راہ حق سے ہتے ہوئے ہیں یعنی یہ گمراہی ہمارے اپنے سو اختیار اور بد اعمالی کی وجہ سے ہے اللہ نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا بلکہ انہیں تو اختیار تھا انہوں نے گمراہی کو اختیار کر لیا اور ہدایت کو چھوڑ بیٹھے۔

____________________

۰۰۰ صف آیت ۵۔۰۰۰

(۲)المراد بافاسقین ھنا الخارجون عن حدودالایمان،روح المعانی ج ۱ ص ۲۱۰،

۱۳۷

( الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ أُوْلَئِکَ هُمْ الْخَاسِرُونَ )

اور جو خدا سے محکم عہد و پیمان کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن (تعلقات)کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں قطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ خسارے میں ہیں۔

گزشتہ آیت مین خداوندعالم نے صرف فاسقوں کو گمراہ قرار دیا ہے اس آیت میں ان کے تین اوصاف بیان کر کے انہیں بالکل مشخص کردیا ہے،ان لوگوں نے قرآنی امثال سے ہدایت حاصل نہ کی بلکہ گمراہی کو اختیار کیا یہ گمراہی ان کی طبیعت فسق کا نتیجہ ہے ذیل میں ان کی صفات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

( ۱) عہد شکنی

اس آیت مین خداوندعالم نے فاسقوں کی پہلی صفت عہد شکنی قرار دیا ہے عہد شکنی دو طرح سے ہو سکتی ہے کبھی تو انسان بذات خود کسی عہد کو وفا نہیں کرتا اور کبھی اپنے اور عہد کے درمیان رابطہ کو منقطع کر لیتا ہے وہ کتابیں جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں وہ سب اللہ کا عہد ہیں جو شخص ان میں تحریف کا موجب بنے یا ان سے اپنا تعلق اور رابطہ منقطع کرلے تو وہ عہد شکن ہے۔

خداوندعالم بتا رہا ہے کہ فاسق خداسے محکم عہد وپیمان باندھ کر عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں یعنی انسانوں نے خدا سے مختلف عہد وپیمان باندھ رکھے ہیں مثلا توحید و خداشناسی کا پیمان شیطان کی پیروی نہ کرنے کا پیمان،ضروریات دین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا پیمان،انبیاء،آئمہ قیامت و دین کے تمام اوامر و نہی کو قبول کرنے کا پیمان،گویا خدا کے ساتھ محکم عہد پیمان باندھنے کے بعد توڑنا فاسق کی نشانی ہے۔

۱۳۸

اس خدائی عہد کو توڑنے والے مختلف گروہ مراد ہو سکتے ہیں منافق اس لیئے عہد شکن ہے کیونکہ اس نے ظاہری اسلام قبول کیا حضرت رسالت کو قبول کیا احکام الہی پر عمل پیرا ہونے کا عہد وپیمان باندھنے کے باوجود یہ لوگ کبھی قرآن میں اعتراض کا پہلو تلاش کرتے کبھی حضرت کو اذیت پہنچانے کی کوشش کرتے کبھی احکام الہی کا استھزاء کرتے لہذا یہ لوگ عہد شکن کہلائے۔

کافر اس لیئے عہد شکن ہیں کیونکہ یہ لوگ عقل سلیم،فطرت کے خلاف برسرپیکار ہیں انہیں بہت سی نعمتیں دی گئیں ان کی ہدایت کے لیئے عقل کے علاوہ انبیا اور آئمہ اطہار علیہم السلام بھیجے گئے تا کہ کسی نہ کسی طرح یہ اپنے فطری عہد پر عمل پیرا ہوں جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا فرمان ہے۔

و بعث فیهم رسله وواتر الیه انبیائه یستادوه میثاق فطرته،

خداوندعالم نے لوگوں کے پاس اپنی طرف سے یکے بعد دیگرے انبیاء اور رسول بھیجے تا کہ وہ ان سے یہ خواہش کریں کہ وہ اپنے فطری پیمان پر عمل کریں۔

جب ان لوگوں نے اپنی فطرت کے مطابق عمل نہ کیا تو گویا انہوں نے عہد پیمان کو توڑ دیا،اس طرح خدا سے عہد شکنی کرنے والے اھل کتاب بھی ہیں خدا نے ان سے ان کی کتابوں میں عہد لیا تھا ان کی کتب میں انہیں پہلے سے نبی آخرالزمان کی بشارتیں دی گئی تھیں لیکن جب آپ(ص) مبعوث ہوئے تو انہوں نے اللہ سے کیا عہد وپیمان توڑ ڈالا اور اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لہذا فاسقوں کی یہ صفت صرف اس دور کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ آج بھی جو دین اسلام،حجرت نبی آخر الزمان،اور آخری آسمانی کتاب قرآن مجید اور ضروریات دین کو نہ مانے تو حقیقتا وہ اللہ سے باندھے ہوئے مستحکم عہد و پیمان کو توڑنے والا ہو گا۔

۱۳۹

قطع تعلق

خداوندعالم نے جن تعلقات کا انہیں حکم دیا ہے یہ لوگ ان تعلقات کو منقطع کر لیتے ہیں یعنی خداوندعالم نے جن رشتوں اور تعلقات کو جوڑنے اور مضبوط کرنے کا حکم دیا ہے یہ خدا کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر قائم نہیں رہتے،اس سے تمام حقوق مراد ہیں خواہ وہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق الناس ہوں اللہ نے ان حقوق کو قطع کرنے سے منع فرمایا ہے۔جو انسان،خدا،اسکی وحدانیت،اس کے فرامین اس کے انبیاء اور انکے آئمہ اطہار سے رابطہ منقطع کر لیتا ہے تو گویا وہ فاسق ہے جیسا کہ بعض روایات میں بھی اس آیت کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے ہمیں حضرت امیرالمومنین اور آئمہ اہلبیت علیہم السلام سے تعلق جوڑے رکھنا چاہیے(۱)

ان سے تعلق کو توڑنے والا اور ان سے رابطہ منقطع کرنے والا فاسق ہے،اسی طرح حقوق الناس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے،اس میں صلہ رحمی،عزیزوں اور دوستوں سے تعلق اور محبت ان سے قطع تعلق ان کے دوسرے حقوق کا خیال رکھنا ان کی حق تلفی نہ کرنا معاشرے سے رشتہ جوڑے رکھنا ضروری ہے جو لوگ حقوق الناس کا خیال نہیں کرتے وہ اس آیت کی روسے فاسق ہیں کیونکہ اللہ تعالی اس آیہ مجیدہ میں فاسق کی دوسری علامت اور صفت قطع تعق کو بیان فرمارہا ہے۔

۰۰۰ولیقطعون ما امر الله به یعنی من صله امیر المومنین والآئمه،

____________________

نور الثقلین ج ۱ ص ۴۵۔۰۰۰

۱۴۰