تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت0%

تفسیر انوار الحجّت مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 217

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین سید نیاز حسین نقوی
زمرہ جات:

صفحے: 217
مشاہدے: 146607
ڈاؤنلوڈ: 5071

تبصرے:

تفسیر انوار الحجّت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 146607 / ڈاؤنلوڈ: 5071
سائز سائز سائز
تفسیر انوار الحجّت

تفسیر انوار الحجّت

مؤلف:
اردو

فساد فی الارض

فاسقون کی تیسری صفت یہ ہے کہ یہ لوگ زمین مین فساد برپا کرتے ہین یعنی خداوندعالم نے انہیں اس دنیا کو قبول کرنے ضروریات پر عمل پیرا ہونے اور توحید انبیاء اور قیامت پر صحیح عقیدہ رکھنے کا حکم دیا ہے یہ اس دین کے مقابلہ میں اپنا غلط عقیدہ رکھتے ہیں لوگوں کو اسلام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے روکتے ہیں حق و حقیقت کا استہزاء کرتے ہیں مومنین کو اذیتیں دیتے ہیں اس نظام ہستی میں موجود اصلاح سے سبق حاصل نہیں کرتے بلکہ خلق خدا کی گمراہی کا سامان پیدا کرتے ہیں یعنی یہ لوگ اپنے طرز عمل سے زمین خدا پر فساد برپا کرتے ہیں تا کہ لوگوں کے عقائد حقہ میں تزلزل پیدا ہو جائے۔

فاسق خسارے میں ہیں

اس آیت کے آخر میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ مندرجہ بالا صفات کے مالک ہیں وہ خسارے اور نقصان میں ہیں یعنی جو لوگ ہدایت فطری کا سرمایا اپنے ہاتھوں سے دے دیتے ہیں،حقوق اللہ اور حقوق الناس کا خیال نہیں رکھتے بانی شریعت کو تکلیف میں مبتلا کرنے میں کوشاں رہتے ہیں اسلامی احکام پر عمل پیرا نہیں ہوتے فساد کا موجب بنتے ہیں۔

یہ اس دنیا میں بھی خسارے میں ہیں کیونکہ ان پر کوئی اعتماد نہیں کرتا انہیں قلبی سکون میسر نہیں ہوتا،ہر وقت پریشانی انہیں دامن گیر رہتی ہے،ساری زندگی منافقت اور غلط کاری میں گزار دیتے ہیں اپنی تمام سعادتیں بدبختی اور سیاہ کاری میں خرچ کرتے ہیں اور دین الہی سے کارج ہو جاتے ہیں اور آخرت میں بھی یہ لوگ خسارے میں ہوں گے اور جہنم کا ابدی عذاب نہ صرف ان کا بلکہ ان کے خاندان کا بھی مقدر ہو گا،جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ ) (۱)

فسق کی راہ اختیار کرنے والے خود بھی خسارے اور گھاٹے میں ہیں اور اپنے خاندان کو بھی قیامت تک اس خسارے اور نقصان میں مبتلا کر دیں گے۔

___________________

۰۰۰ زمر آیت ۱۵ ۰۰۰

۱۴۱

( کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِاللهِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ) ( ۲۸)

تم کس طرح اللہ کا انکار کر سکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہی تمہیں موت دے گا اور وہی تمہیں زندگی دے گا اور پھر اس کی طرف لٹا ئے جاؤ گے۔

توحید شناسی۔

خدا کی سر زنش

یہ اور اس کے بعد آنے والی آیت انسان کو خدا کی عظمت اور توحید شناسی کی طرف متوجہ کر رہی ہے گویا خدا وند عالم نے۔ ۱۲،۲۲ آیت میں تو حید شناسی کے حوالہ سے جو دلائل بیان کیے تھے ان کی تکمیل کرتے ہوئے انسانوں کو سر زنش کر رہا ہے کہ میں نے تمہیں اس قدر نعمتیں عطا کیں ہیں اس کے باوجود تم کیونکر انکار کرتے ہو۔اس آیت میں خدا بیک وقت کافر،منکر اور مسلمان سب کو مخاطب ہے کافروں کے لئے یہ برھان اور حکمت کے عنوان سے ہے۔

جبکہ تمہارا اور اس پوری کائنات کا خالق میں ہوں تو پھر انکار کیسا؟ لیکن جو لوگ اللہ کو خالق مانتے ہیں لیکن شرک کرتے ہیں ان کے لئے یہ آیت جدال ہے کہ جو حقیقی خالق ہے موت وحیات بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہے وہی پوری کائنات کو مدبر ہے۔

اس کے علاوہ کوئی رب نہیں ہوسکتا تم صرف اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرسکتے ہو،جب وہی سب کچھ ہے تو پھر انکار کیسا؟اور جو لوگ خدا کی خالقیت اور ربوبیت کے قائل ہیں لیکن معصیت اور سرکشی کر بیٹھے ہیں اور خود کو مسلمان کہلوانے کے باوجود بد عملی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

۱۴۲

ان کو وعظ و نصیحت اور سرزنش کی جا رہی ہے کہ خود کو سنبھال لو۔موت وحیات سب اس کے قبضہ قدرت میں ہے تمہیں اس کی بارگاہ میں لوٹ کر جانا ہے تو پھر صراط مستقیم سے منحرف کیوں ہو جاتے ہو کیوں خدا کی اطاعت اور پیروی میں سستی سے کام لیتے ہو۔

بہرحال اتنے واضح اور روشن دلائل کے بعد اس ہستی کا انکار یا اس کے احکام پر عمل کرنے میں کوتاہی درست نہیں ہے انہیں تو اپنی خلقت اور موت حیات کے متعلق غور فکر کرنا چاہیے۔شاید اس کی وجہ سے اللہ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔

دنیاوی زندگی

خداوند عالم انسان کو اس کی حقیقت یاد دلا رہا ہے کہ خدا نے جو کچھ تجھے عطا کیا ہے وہ اس کا لطف ہے تم کچھ بھی نہ تھے ہم نے تمہیں خلق کیا جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا ) (۱)

یعنی تم کچھ بھی نے تھے ہم نے تمہیں پیدا کیا۔

خداوند متعال اس مقام پر فرما رہا ہے کہ تم مردہ تھے ہم نے تمہیں نعمت حیات سے نوازا ہے اگر تم صحیح معنوں میں اپنے متعلق غور فکر کرو تو تمہیں خدا کی وحدانیت کا یقین پیدا ہو جائے گا۔

___________________

( ۱) مریم ۹ ۔

۱۴۳

یہ جملہ انسانی وجود کی حقیقت کو بیان کر رہا ہے انسان اپنے سفر کا آغاز نقص سے شروع کرتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ راستہ طے کرتا چلا جاتا ہے اور نقطہ کمال تک جا پہنچتا ہے۔

اس دنیا میں آنے سے پہلے یہ مردہ تھا پھر نجانے کتنے مراحل طے کرنے کے بعد اس دنیا میں آیا خدا نے اسے نعمت حیات سے سرفراز کیا پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ اسے اس دنیا سے جانا پڑا پھر اسے قیامت والے دن دوبارہ زندگی ملی حساب کتاب ہوا گویا اس کی زندگی آغاز سے انجام تک تغیرات سے پر ہے۔

خدا اس انسان سے مخاطب ہو کر ارشاد فرما رہا ہے تم کس طرح کفر اختیار کرتے ہو کیوں خدا کی طرف نہیں آتے حالانکہ تم مردہ تھے تمہیں زندگی ملی اور تم جانتے ہو تم کن کن مراحل سے گزرے ہوئے کیسی کیسی تبدیلیوں کا تمہیں سامنا کرنا پڑا تم کتنے حجابوں اور پردوں میں پوشیدہ تھے ہم نے تمہیں حیات دی اور تمہارے بے جان جسم میں روح پھونکی۔یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ تم عدم سے وجود میں آئے لہذا اس نعمت حیات کا قدر دان کبھی بھی جنت کے علاوہ کسی اور چیز سے اس کا معاملہ نہیں کرے گا جو لوگ ایسی عظیم نعمت دینے والی ہستی سے غافل ہیں انہیں بہت جلد اس نعمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور آخرت کا دردناک عذاب ان کا ٹھکانہ ہو گا۔

جیسا کہ خدا کا فرمان ہے۔

( لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ) ۔

اگر تم میرا شکر بجا لائے تو میں تمہیں انعامات سے نوازوں گا اور اگر تم نے کفر کیا تو میراعذاب بھی شدید تر ہے۔

لہذا انسان کو اپنے اس زندگی کے ابتدائی مرحلے میں اپنے اختیار کی وجہ سے ایسی راہ کا انتخاب کرنا ہو گا جس میں سعادت ہی سعادت ہو اور وہ اگر اپنے سوء اختیار کی وجہ سے اس دنیا میں بد کاری اور غلط کاری میں مصروف رہے،اصول دین پر اس کا صحیح اعتقاد نہ ہو،فروع دین کی بناآوری میں کوتاہی کرتا رہے تو اس نے اپنی زندگی کے اس مرحلے میں اپنے لئے کچھ مہیا نہیں کیا لہذا اس کی سزا بھی اس کے اپنے سوء اختیار کی وجہ سے ہے اور جہنم کی آگ اس کا ٹھکانہ ہو گی۔

۱۴۴

عالم برزخ کی زندگی

قرآن مجید کی یہ آیت عالم دنیا میں اور عالم آخرت کے درمیانی عالم،عالم برزخ کی زندگی پر ایک واضح دلیل ہے کیونکہ اس آیت میں ایک اور اس کے بعد زندہ کرنا ہے۔پھر موت اور زندگی ہے اور تیسرے مقام پر خدا کی طرف لوٹنا ہے کیونکہ اس آیت میں صرف الیہ یرجعون نہیں ہے بلکہ ثم الیہ یرجعون ہے،ثم فاصلے پر دلالت کرتا ہے یہ ایک فاصلے کا زمانہ عالم برزخ ہے

اس دنیا سے جانے کے بعد اور آخرت سے پہلے انسان کو عالم برزخ کا سامنا کرنا ہو گا،عالم برزخ کا سفر قبر میں شروع ہو جاتا ہے اس پر تمام مذاہب اسلام متفق ہیں کہ انسان سے قبر میں منکر نکیر آکر سوالات کرتے ہیں اور انہیں جوابات دینا ہو ں گے عالم برزخ انسان سے اس کے اعتقادات کے متعلق سوال کیے جاتے ہیں اگر وہ اس کا درست جواب دے دیں تو اس کی قبر روشن ہو جائے گی اور اس کے لئے جنت کا دروازہ کھل جائے گا تاکہ نسیم بہشت سے بہر مند ہوسکیاور اگر جواب نہ دے سکے تو اس کی قبر میں آگ لگ جائے گی اور عذاب اس کا مقدر ہو گا۔

جیسا کہ حضرت رسول اعظم کا ارشاد ہے۔

القبر روضة الجنة او حفرة من حفر النیران

قبر یا تو جنت کے باغات میں ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہوتی ہے۔

۱۴۵

قبر کے سوالات

انسان کا عالم برزخ کے لئے سفر کا آغاز قبر سے ہی شروع ہو جاتا ہے،اس عالم میں انسان کے اعتقادات کے متعلق سوالات ہو تے ہیں،اصول دین کے متعلق پوچھا جاتا ہے فروع دین کے متعلق سوالات عالم آخرت میں ہو ں گے یہاں اسے تو حید،عدل،نبوت،امامت اور قیامت کے متعلق جواب دینا ہوں گے۔جیسا کہ صحیح اورمستند روایات میں موجود ہے کہ جب حضرت فاطمہ بنت اسد کی وفات ہوئی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کی تجھیز،تکفین اور تدفین میں شریک ہوئے آپ نے اپنی ردا مبارک سے بی بی کو کفن پہنایا،آپ کو دفن کرنے سے پہلے حضرت آپ کی قبر میں لیٹے اور اس کے بعد،بی بی کو دفن کیا تعویض قبر بند کرنے کے بعد قبر کے نزدیک ہی بیٹھ رہے اور پھر بلند آواز سے ارشاد فرمایا۔

ابنک،ابنک،ابنک،

آپکا بیٹا،آپکا بیٹا،آپکا بیٹا،

جب آپ واپس تشریف لائے تو اصحاب نے سوال کیا

یا رسول اللہ آپ نے کسی کے ساتھ لطف و کرم نہیں فرمایا جتنا آپ نے بی بی کے لئے کیا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ بی بی میری ماں کا رتبہ رکھتی ہے اس نے اولاد سے بڑھ کر میرا خیال رکھا ہے میں نے اسے اپنی چادر میں اس لئے کفن دیا ہے تاکہ اس کی حرمت و بزرگی کو محفوظ رکھ سکوں اور قبر میں اس لئے لیٹا تھا تاکہ حشرات الارض اسے اذیت نہ دے سکیں۔

اصحاب نے سوال کیا قبر بند ہونے کے بعد آپ نے ابنک،ابنک،ابنک فرمایا تھا،اسکا کیا معنی ہے؟

۱۴۶

حضرت نے فرمایا جب تعویض قبر بند ہوا تو منکر نکیر آگئے اور انہوں نے سوال کیا:

من ربک

تیرا رب کون ہے؟

جواب ملاالله ربی ۔

اللہ تبارک و تعالی میرا رب ہے۔

پھر سوال ہوا

من امامک،

فاطمہ بنت اسد خاموش ہوگئیں تو میں نے انہیں تلقین کی

ابنک،ابنک،ابنک، آپکا بیٹا،آپکا بیٹا،آپکا بیٹا،آپ کا امام ہے

یہ سننے کے بعد منکر نکیر وہاں سے چلے گئے۔

روایات میں ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی اسے زندہ کرتا ہے اسے دوبارہ حیات ملتی ہے،اسکے حواس پلٹ آتے ہیں بدن میں روح وآپس آجاتی ہے تاکہ وہ منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دے سکے توحید کی وحدانیت،رسالت پیغمبر کی گواہی اور امامت و ولایت امیر المومنین اور دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کو بیان کر دے تو اس کے لئے جنت کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ آرام دہ زندگی گزارتا ہے۔

۱۴۷

عالم آخرت کی زندگی

ثم الیہ ترجعون سے خداوندعالم آخرت کی زندگی کی طرف اشارہ فرما رہا ہے بلکہ یہ آیت معاد پر ایک محکم دلیل ہے کیونکہ کافر مبداء و معاد کا انکار کرتے ہیں قرآن مجید ان کی تصویر کشی کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے کہ یہ لوگ اس طرح کہتے ہیں۔

( ما یُهْلِکُنا إِلاَّ الدَّهْرُ )

ہم تو ایک زمانے تک ہلاک ہو نگے اور اللہ کا فرمان ہے۔

( وَ ما نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ ) ۔

ہم دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے۔

خداوندعالم انہیں اس آیت میں کہہ رہا ہے تمہیں قیامت والے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس دن دوبارہ زندہ کرنا بے مقصد اور عبث نہیں ہے۔اس دن اپنے اعمال و حساب وکتاب کے بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونا ہو گا اور خدا تعالی کے حکم سے جہنم اور جنت کی طرف روانگی ہو گی نیک

اور صالح لوگ اپنے اعمال کی جزا دیکھنے کے لئے جنت میں جائیں گے اور بد کار و فاسق لوگ اپنے اعمال کی سزا پانے کے لئے جہنم میں دھتکارے جائیں گے۔

لہذا قرآن مجید کی یہ آیت انسان کے آغاز وسط اور اختتام کو بیان کر رہی ہے یعنی انسان کی تین حالتیں ہیں ایک اس کا آغاز ہے،عدم سے وجود میں آنا ہے اس دنیا میں انسان کی پیدائش اس کا آغاز ہے،اور مرنے کے بعد اس کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے وہ مرحلہ عالم برزخ ہے

__________________

۰۰۰۰ جاثیہ ۲۴۔۰۰۰۰ ۰۰۰۰انعام ۲۹۔۰۰۰۰

۱۴۸

یہاں اس سے اعتقادات کے متعلق سوال ہو گا اور اس کے بعد آخری مرحلہ حساب کتاب اور سزا و جزا کا ہے جیسا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کیف تکفرون باللہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

( کنتم امواتا ) ،فی اصلاب ابائکم و ارحام امهاتکم ( فا حیاکم ) اخبرکم احیاء ( ثم یمیتکم ) فی هذا الدنیا و یقبرکم ( ثم یحیکم ) فی القبور ( ثم الیه ترجعون ) فی الاخرة بان تموتوا فی القبور بعد ثم تحیو ا للبعث یوم القیامه ترجعون الی ما وعدکم

تم باپ کے صلب اور ماں کے رحم میں مردہ تھے خدا نے تمہیں زندہ پیدا کیا پھر تمہیں اس دنیا میں موت دے گا اور تمہیں قبروں میں ڈالا جائے گا پھر تمہیں قبروں سے زندہ نکالے گا پھر تمہیں آخرت والے دن اس کی طرف لوٹ کر جانا ہوگا یعنی تم مردہ قبروں میں ڈالے گئے

،تمہیں زندہ کیا گیا قیامت کی طرف بھیجا گیا اور پھر تمہیں (جزا سزا کے بعد)تمہارے وعدے کے مطابق بھیجا جائے گا۔

لہذا اس آیت میں خدا انسان کو خبردار کر رہا ہے کہ جب تیری ابتداء بھی خدا کے قبضہ قدرت میں ہے تیری انتہا بھی اس کے ہاتھ میں ہے اور درمیانی مرحلہ میں بھی تو خدا کا محتاج ہے تو پھر بھی تو خدا کا کفر اور انکار کرتا ہے۔

( هُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ )

وہ اللہ جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لئے پیدا کیا اور پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے سات مستحکم آسمان بنا دئیے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔

۱۴۹

عظمت انسان

خداوندمتعال گزشتہ آیت سے الہی نعمتوں کاتذکرہ فرما رہا ہے اس آیت میں انسان کی نعمت حیات کاتذکرہ کیا تھا اور اب اس آیت میں خدا زمین جیسی اہم نعمت کا تذکرہ فرما رہا ہے یہ زمین قدرتی ذخائر کا خزانہ ہے اس میں نباتات،جمادات اور معدنیات جیسی عظیم نعمتیں موجود ہیں یہ سب انسان کی بقا کے لئے خلق کی گئیں ہیں۔

خداوندعالم انسان کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اس جہاں میں موجود ہر چیز انسان کے لئے خلق کی گئی ہے تاکہ انسان اس سے استفادہ کرے۔

خداوندعالم ان نعمتوں کی یاد دھانی اس لئے کروا رہا ہے تاکہ انسان کو دعوت توحید دینے کے ساتھ ساتھ مہذب بھی بنائے۔

دعوت توحید اس طرح ہے کہ جب وہ یہ سوچ لے گا کہ کائنات کی ہر چیز اس کے لئے خلق کی گئی ہے اور اسے اس چیز سے فائدہ اٹھانے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور اسے جب یہ معلوم ہو جائے گا کہ کائنات کی تمام چیزیں اللہ کی مخلوق اور اس کی نشانیاں ہیں تو وہ ان کے مشاہد ہ اور مطالعہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی معرفت پیدا کرے گا۔

انسان کو مہذب اس عنوان سے بنایا ہے،جب اسے یہ معلوم ہو گا کہ یہ سب نعمتیں صرف اور صرف انسان کے لئے خلق ہوئی ہیں تو وہ غور کرے گا کہ میں کس لئے پیدا کیا گیا ہوں تو اسے مقصد تخلیق صرف عبادت خداوندی نظر آئے گا یعنی زمین و آسمان اور نعمتوں کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کی خدمت کے لئے ہیں اور انسان کا کمال یہ ہے کہ خدا کا عبادت گزار عبد کہلوائے۔

لہذا جو لوگ صرف مادی فوائد اور ان نعمتوں کے حصول کو اپنی زندگی کا مطمع نظر قرار دیتے ہیں وہ سب خسارے میں ہیں حتی کہ وہ تمام کہکشاؤں کے بدلے اپنا عقیدہ اور عمل ہاتھ سے دے بیٹھے تب بھی وہ خسارے میں ہے اس کا نفع صرف اور صرف عبادت خداوندی ہے۔

۱۵۰

جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے۔

یا عم ! والله لو وضعوا الشمس فی یمینی والقمر فی یساری علی ان اترک هذا الامر

چچا جان! خدا کی قسم اگر میرے دائیں ہاتھ پر آفتاب رکھ دیں اور بائیں ہاتھ پر مہتاب رکھ دیں تب بھی میں ھدف الہی سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔

لہذا ایسے انسان پر تعجب ہے جسے خدا نے اتنی عظیم نعمتوں سے نوازا ہے اور اس کے باوجود

یہ کفران نعمت کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالی نے زمین آسمان کی تمام نعمتیں اس کے اختیار میں دے رکھی ہیں لہذا یہ بھی اپنا حق ادا کرے اور خدا کی عبادت کو ہی مشعل راہ قرار دے اور کسی صورت میں اپنے عمل اور عقیدے سے منحرف نہ ہونے پائے۔

نعمت آسمان

خداوندعالم زمین جیسی عظیم نعمت کے بعد نعمت آسمان کو بیان کیا ہے کہ یہ بھی انسان کے فائدے کے لئے خلق کیے گئے ہیں یہ زمین کی فضا پر ایک مضبوط چھت کی طرح ہے اور یہ اس قدر مضبوط اور قوی ہے اس کی وجہ کے آسمانوں سے پتھروں سے محفوظ ہو جاتا ہے یہ پتھر شب روز کشش زمین کے مرکز میں کھنچے آتے ہیں اگر یہ مضبوط چھت نہ ہوتی تو ہم ہمیشہ ان خطرناک پتھروں کی زد میں رہتے یہ اس کی جلد کا سبب ہے کہ یہ پتھر زمین کی فضا میں ہی جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں اور ہم ان کے شر سے محفوظ ہیں۔

۱۵۱

سات آسمان

اس حوالہ سے علماء مفسرین میں ایک بحث موجود ہے کہ سات آسمانوں سے کیا مرادہے۔

بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد سیارات سبع یعنی عطارد،زہرہ،مریخ، مشتری، زحل،چاند اور سورج ہیں۔بعض کے نزدیک ان سے مراد زمین سے اوپر ھوائے متراکم کی مختلف تہیں مراد ہیں اور کچھ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ یہاں سات کے عدد کو کثرت کے معانی میں استعمال کیا گیا ہے یعنی اس سے عالم بالا کے کرائت مراد ہیں کوئی مخصوص عدد مراد نہیں ہے۔

بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد سات آسمان ہی ہیں اور جتنے کرات اور سیارات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں یہ سب پہلے آسمان کا جز ہیں جبکہ دوسرے چھ آسمان ہماری نگاہوں اور علمی آلات کی دسترس سے باہر ہیں۔

جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ ) ۔(۱)

ہم نے نچلے آسمان کو ستاروں کے چراغوں سے سجایا

اور دوسری آیت میں ارشاد ہے۔

( إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ ) ۔(۲)

یقینا ہم نے نچلے آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی۔

ان آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ جن چیزوں کا آپ دیکھ رہے ہیں یہ سب آسمان اول پر ہیں اس کے علاوہ چھ آسمان اور بھی موجود ہیں ان کے متعلق ہمیں زیادہ علم نہیں ہے اور مزیدیہ کہ جب خود خدا کہہ رہا ہے کہ آسمان سات ہیں تو ہم اس کا نکار کریں زیادہ سے زیادہ یہی کہیں کہ ہم ان سات آسمانوں کی شکل اور کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔

جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ کا ارشاد ہے۔( اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ) ۔(۳)

اللہ وہ ہے جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔

__________________

فصلت :۱۲۔۰۰۰۰صافات :۶۔۰۰۰۰سورہ طلاق :۱۲۔۰۰۰

۱۵۲

علم مطلق خداوند

اس سورہ کی بیسویں آیت خداوند متعال کی قدرت مطلقہ پر دلالت کرتی ہے قدرت خدا کا تزکرہ اس کے ضمن میں ہو چکا ہے لیکن ابھی تک اس سورہ میں خداوند متعال کے علم مطلق کے متعلق تذکرہ نہیں ہوا۔

یہ پہلا مقام ہے جہاں اس صفت کو بیان کیا جا رہا ہے۔قرٓن مجید نے خداوندعالم کو ”عالم“ ”علیم“ اور علام سے یاد کیا ہے اگر یہ تینوں کلمے اللہ تعالی کے وصف علم کو بیان کر رہے ہیں لیکن علیم اور علام کسی اور خصوصیت کو بھی بیان کر رہے ہیں جو کلمہ عالم میں نہیں ہے۔کلمہ علیم علام کی طرح مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا کا علم تمام جوانب،اشیاء،اشخاص اور مخلوقات پر محیط ہے۔کسی چیز کا خالق اس کے متعلق مکمل علم رکھتا ہے اور اللہ اس پوری کائنات کی ہر ہر چیز کا خالق ہے لہذا معلوم ہو گا کہ اللہ تعالی کا ئنات کے ذرے ذرے کا علیم اور جاننے والا ہے۔

( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِیهَا مَنْ یُفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ )

اوراے رسول !(اسوقت کو یاد کرو) جب تمھارے پرور دگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنا نے والا ہوں تو انہوں نے کہا۔کیا اسے بنا ئے گا جو زمیں میں فساد اورخونریزی کرے جبکہ ہم تیری تسبیح اورتقدیس کرتے ہیں۔تو ارشاد ہوا میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔

نعمت خلافت۔

گزشتہ آیات میں خدا وندعالم سے خلقت انسان کے مقصد اورھدف کو بیان کیاتھااب اس آیت میں اس ھدف اور مقصد تک پہنچنے کیلئے راہ اور راہنماکو بیان کررہاہے کیونکہ جس چیز کا آغاز اور انجام ہوتاہے اس کیلئے راہ اور راہنما کا ہونا ضروری ہے۔اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ ایک آیت میں اپنی بہترین نعمت ” خلافت “ کا تذکرہ فرمارہے۔

۱۵۳

خداوند متعال کی خواہش یہ تھی کہ وہ روئے زمین پر اپنا جانشین اور خلیفہ مقررکرتے اوراسکی تمام صفات صفات خداوندی کا پر تر ہوسکا مقام و مرتبہ فرشتوں سے بلاتر ہو ‘پوری کائنات کی تمام نعمتیں ‘سب خزانے ‘غرض ہر چیز اس کے سپرد ہو۔اورایسے شخص کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ عقل ‘ شعور ‘ادراک اور خصوصی استعداد کا حامل ہو اوران چیزوں کی بدولت موجودات ارضی کی رہبری اور پیشوائی کا منصب سنبھال سکے۔

اس وقت خداوند عالم ملائکہ سے انسان کا تعارف کروارہاہے۔یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ خداوندعالم نے فرشتوں کو اس تدبیر الہی سے کیوں آگاہ کیااور یہ کیوں کہاکہ میں زمین میں اپنا جانشین اورخلیفہ مقررکرنے والاہوں۔

اس حوالہ سے مفسرین نے کئی وجوحات بیان کی ہیں۔بہرحال اسکا ایک مقصد یہ ہوسکتاہے کہ خدا انسان کی عظمت کو بیان کرے اوراسے خلیفہ الہی کے لقب سے ملقب کرے اور بتائے کہ یہ احسن تقویم کا مصداق مخلوق ہے اس وجہ سے خدا وند متعال اپنے آپ کو تبریک پیش کرتے ہوئے بتارہاہے کہ خدابارک اللہ یعنی کتنی بابرکت ذات ہے جس نے انسان جیسی مخلوق کو پیدا کیا۔شاید ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے فرشتوں اورانسانوں کے درمیان ایک خاص رابطہ اور تعلق برقرار رہے گا۔فرشتے ہی اس کے عظیم رسولوں کے پاس وحی اوراللہ کا پیغام لانے والے ہوں گے یعنی یہ انبیاء الہی کے پاس اللہ کا پیغام پہنچائیں گے تاکہ انبیاء وحی الہی کو لوگوں تک پہنچائیں۔

بہرحال خداوند متعال نے انسان کو جو منصب خلافت عنایت فرمایاہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ خداکسی کا محتاج ہے اوراسے اپنا جانشین اور نائب بنا رہاہے تاکہ اسکے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاسکے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص یہ قدرت نہیں رکھتاکہ وہ فیعض وبرکات الہی درک کرسکے۔یہ کام فقط خاصان خدا کا ہے اسی لئے تو فرمادیا۔

( مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ )

جس نے (میرے ) رسول کی اطاعت کی اس نے (مجھ) اللہ کی اطاعت کی۔

۱۵۴

حقیقی خلیفہ کون؟

قرآن مجید کی اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہورہاہے کہ خداوند عالم نے قرمایا‘ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والاہوں‘کہ حقیقی خلیفہ وہی ہے جیسے خود خدابنائے اس کا معیارتقوی اور تقدس کیساتھ علم اسماء کو قرار دیاہے۔

خد انے ملائکہ کو بھی تعلیم دی تھی جسکا انہوں نے اقرار بھی کیاتھا لیکن وہ اسے شنوصیات پر منطبق نہ کرسکے بہرحال خلیفہ اللہ صاحب کردار اوراعلم کائنا ت ہوتاہے۔حقیقی خلیفہ کی معرفت کے لئے ہم اس روایت کو بیان کرتے ہیں جس میں حضرت عمر نے مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے جناب سلمان ‘ حباب طلحہ‘ جناب زبیر ‘ اور کعب الاجبار سے سوال کیا کہ کیاتم لوگ جانتے ہو کہ حقیقی خلیفہ اور بادشاہ میں کیا فرق ہے طلحہ اور زبیر نے کہا ہمیں معلوم نہیں ہے لیکن حضرت سلمان نے کہا میں ان کے درمیان فرق کوجانتاہوں۔وہ فرق یہ ہے۔

الخلیفه هوالذی یعدل بالاعیه ‘ ویقسم ‘ باسویه ویشفق علیهم شغقه الرجل علی اهله و یقضی لکتاب الله

یعنی خلیفہ وہ ہوتاہے جو اپنی رعیت کیساتھ عدل وانصاف کرے انہیں برابر برابر حقوق اوراپنی رعیت پر اسقدا مہربان ہو جتنا اپنے اہل خانہ پر مہربان ہے اسکا ہر قیصلہ قرآن کے مطابق ہوتاہے۔

اور وہ اللہ کے اور اولاامر نواہی کو کسی کمی اورزیادتی کے بغیر اسی طرح بیان کرتاہے جستطرح وہ نازل ہوئے ہیں۔اور بادشاہ اسکے علاوہ ہے۔

یہ سنتے ہی کعب الاجبار نے کہا سلمان تم نے کتنی اچھی بات کہی ہے ‘ مجھے بھی خلیفہ کے معنیٰ کا علم نہ تھا اور میرے علاوہ یہ بھی اس کے معنیٰ سے آگاہ نہ تھے۔سلمان تم علم وحکمت سے کتنے بسریز ہو۔(۱)

بہر حال اللہ اوراسکے خلیفے کے درمیان قرب معنوی پایاجاتاہے اسی وجہ سے خلیفہ کیلئے ضروری ہے خلیفہ الہی مظہرالعجائب اور مظہر الغرائب ہونا چاہیے۔اسے جسمانی ‘ روحانی اور تمام جامع حقائق صفات میں پوری کائنات سے افضل ہونا چاہیے۔

_____________________

(۱) منھبح الصادقین جلد۔۱۔ص ۲۲۰۔۲۲۱

۱۵۵

چار خلفاء

اکثر مفسرین نے اس آیت اکے ضمن میں قرآن مجید میں چار ایسی ہستیوں کا ذکر کیاہے جنمیں خدا نے خلیفہ بنایاہے۔

البتہ بعض کتب میں چار کے بجائے تین خلفاء کا تذکرہ ہے جیسا کہ حافظ جسکانی نے شواہد تنزیل میں تین خلفاء خدا کا تذکرہ کیاہے اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت بیان کرتے ہوئے ذکر کیاہے کہ قرآن مجید میں تین افراد کو اللہ تعالی ٰ کی خلافت نصیب ہوئی ہے سب سے پہلے خلیفہ حضرت آدم ہے۔ان کیلئے خدا نے فرمایا۔

( إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ )

بقرہ : ۳۰

دوسرے خلیفہ حضرت داؤد میں جن کے لئے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا۔

( يَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الأرْضِ )

اور تیسرے خلیفہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ اسلام ہیں ان کیلئے خدا وندعالم نے ارشاد فرمایا۔

جیسا کہ حضرت امام رضا اپنے اباؤاجداد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب نے ارشاد فرمایا!

ایک مرتبہ میں مدینہ کے راستوں پررسول خدا کا ہمسفرتھا۔اس وقت ہماری ایک خوبصورت بڑی داڑھی والے شخص سے ملاقات ہوئی اس نے حضرت رسول خد ا کو سلام کیا اور پھر میری طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا۔

السلام علیکم یارابع الخلفاء

اے چوتھے خلیفہ آپ پر سلام ہو۔

۱۵۶

اس کے بعد اس نے حضرت کو مخاطب کر کے فرمایایا رسول جیسے میں نے کہا ہے اسی طرح ہے۔

حضرت نے فرمایاجی ہاں !پھر وہ شخص چلاگیا۔

حضرت علی کہتے ہیں میں نے رسول خد ا کی بارگاہ میں عرض کی۔

یارسول اللہ یہ کیاہے ! اس بزرگ نے جو کچھ کہاہے آپ نے اسکی تصدیق بھی کی ہے؟

حضرت نے فرمایا!یہ بالکل حقیقت ہے۔

اللہ تبارک تعالی ٰ نے انی جاعل فی الارض سے خلیفہ سے حضرت آدم کو پہلا خلیفہ بنایا

( لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ .) ۔ شوری: ۵۵

یعنی حضرت آدم حضرت داؤد جس طرح خلیفہ تھے اس طرح یاعلی آپ اس زمین میں میرے خلیفہ ہو۔

شواھد التنزیل۔ج ۱ ۔ص ۷۵ ۔ ۷۶

اورفرمایا

( يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ )

سے داؤد کے خلیفہ خد اہونے کا اعلان کیا۔

اور حضرت موسی ٰ نے جب حضرت ہارون کیلئے جب یہ کہا‘اخلفنی می قومی واصلح اس سے حضرت ہارون کی خلافت کا اعلان کیا

اوراللہ تعالی ٰ کا یہ فرمان ‘اذان من الله ورسوله الی النساس یوم الحج الکبیر ‘ آپ کے لئے کہا آپ اللہ اوراسکے رسول کے مبلغ میں اورآپ میرے وصی ‘وزیر ‘ میرے دین کے قاضی اور میری امانتیں لوٹانے والے ہیں ‘ آپ کی قدرومنزلت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ کے نزدیک ہے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ آئے گاآپ چوتھے ہیں جیسا کہ اس بزرگ نے آپ کو سلام کیا۔آپ کو معلوم ہے وہ بزرگ کون تھے۔

۱۵۷

حضرت نے فرمایا !لنیس۔

حضرت رسول خدانے فرمایا!وہ تمہارے بھائی حضرت خضر علیہ اسلام تھے۔

عظمت رسول اعظم۔

خداوند متعال اس آیت میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اس انداز مین بیان فرماتے ہے۔کہ اے رسول جب تمہارے پرودگار نے ملائکہ سے کہا یعنی اللہ تعالیٰ نے ربک فرمایاہے ‘ رب العالمین نہیں کہا۔اس سے بات کی طرف اشارہ فرمارہاہے کہ آپ کااس

خلافت میں اہم حصہ ہے ‘ درحقیقت اس کائنات میں آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ اللہ کے سب سے بڑے نائب اور خلیفہ میں اور آپ ہی کی ذات گرامی زمین وآسمان میں امام اقدم کہلوانے کی حقدار ہے۔

اگر خداوندمتعال آپ کو یہ شرف نہ بخشتا تو حضرت آدم کو پیدا ہی نہ فرماتا۔(۱)

بلکہ حضرت آدم کو خدا نے جن اسماء کی تعلیم دی تھی وہ اسماء حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل تھے۔(۲)

___________________

(۱)لایخفی لطف الرب هنا معنا فاالی ضمیر ه (ص) بطریق المظاب وکان فی تنولعه والحروج من عامه الی خاصه رمزاًالی ان المقبل علیه بالخطاب له ‘الخط الاعظم والقسم الاو ضرمن الجملة المجنربها رسول صلی الله علیه (وآله ) وسلم علی الحقیفه الخلیفة الاعظم فی الخلیقة والامام المقدم فی الارض والسموات العلی ولولاة ماخلق آدم روح المعانی جلد۱۔ص۲۱۸۔وفرقان۔ج۱۔ص۲۷۹

(۲) قرقان۔ج۱۔ص۲۸۴

۱۵۸

اس آیت میں مزید چار صفات کو بیان کیاجارہاہے دو صفات ایسی ہیں جو خلافت کے منافی ہیں اور دو صفات وہ ہے جنکا کسی خلیفہ میں پایاجانا لازمی اور ضروری ہے سب سے پہلے ہم اس آیت کی ترتیب کے مطابق ان دو صفات کا تذکرہ کرتے ہیں جو خلافت کے منافی ہیں اوران صفات کا حامل خلیفہ الہی کہلوانے کا حقدار نہیں ہے۔

فساد اور خونریزی۔منافی خلافت

ملائکہ خدا کی معصوم مخلوق میں اور انکی عصمت پر قرآن مجید کی یہ آیت دلالت کرتی ہے۔

( وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ) ۔(۱)

یعنی جو حکم دیا جائے یہ اسی پر کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

حضرت آدم کی خلقت سے پہلے خداوند عالم نے انسان کی عظمت سے فرشتوں کوآگاہ کیا اورانہیں بتایاکہ میں آدم کو زمین پراپنا خلیفہ بنا رہا ہوں تو فرشتوں نے حقیقت کاادراک کرنے کےئے خدا وند عالم کی بارگاہ میں عرض کیا۔

پروردگار !کیاتو اسے اپنا جانشین اور خلیفہ قراردے گا جو روئے زمین پر فساد پھیلائے گااورخون ریزی کرتے گا؟

اس مقام پر مفسرین نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں کہ فرستوں کو کستطرح معلوم ہواکہ یہ مخلوق زمین پر فساد اور کون ریزی کی مرتکب ہوگئی؟

____________________

(۱) ۱۶۔۵۰

۱۵۹

بعداز مفسرین کے نزدیک خدانے خود فرشتوں کو آئیندہ کے حالات سے بطور اجمال آگاہ کیاتھا۔بعض کے نزدیک ”فی الارض “ کی لفظ سے ملائکہ خودہی سمجھ گئے تھے کہ انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے اور مادہ ہونے کی وجہ سے نزاع اورتزاھم کا احتمال ہے۔بعض کے نزدیک حضرت آدم سے پہلے بھی روئے زمین پر اور مخلوقات بستی تھیں ان میں نزاع۔جھگڑا‘ فساد اور کون ریزی پائی جاتی تھی اسی وجہ سے انہوں نے یہ کہا کہ یہ مخلوق بھی فساد اور خونریزی کا شیکار رہے گئی۔

بہرحال ان تین وجوہات میں سے جو وجہ بھی ہوفرشتے اتنا ضرور جانتے تھے کہ تمام شر‘ فساد اور خون ریزی ہے خواہ یہ انفرادی حدتک ہو یا اجتماعی حدتک ہو۔اور یہ بھی جاتنے تھے کہ ان صفات کا حامل شخص خلیفہ الہی کہلوانے کا حقدار نہیں ہے کیونکہ ایساشخص جو غضبی اور شھوی قوتوں سے مرکب ہے۔

ان کے درمیان مزاحمتیں زیادہ ہیں ان کے انتظامت فساد پر مبنی ہیں ارحتمی طور پر اسکی زندگی کے نوعی اورشخصی جینے اسکو کمال تک نہیں پہنچنے دیں گے اوراسکی پوری زندگی فساد اورخوں ریزی کے علاوہ کچھ نہ ہوگی اس وجہ سے یہ مخلوق لائق خلافت نہیں ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے جو شخص بھی فرشتوں کے اس تجزیہ اورتحلیل کے موافق ہوگاوہ خلافت الہی جیسے منصب کے قابل نہیں ہے لہذا کہاجاسکتاہے کہ فساد اورخون ریزی ایسی صفات میں جنھیں خدا کے جانشین میں موجود نہیں ہونا چاہیں بلکہ یہ صفات خلافت کے منافی اور مخالف ہیں۔

تقدیس اور تسبیح۔لازمہ خلافت

فرشتوں نے جب یہ کہا کہ خدایا ہم تیر ی تسبیح اور تقدیس تقرب الہی کا وسیلہ ہیں اور یہ دونوں صفات کا حامل شخص ہی خلیفہ الہی کی منزل تک پہنچ سکتاہے۔

۱۶۰