آفتاب ولایت

آفتاب ولایت0%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی شیر حیدری
زمرہ جات: صفحے: 272
مشاہدے: 148335
ڈاؤنلوڈ: 4718

تبصرے:

آفتاب ولایت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148335 / ڈاؤنلوڈ: 4718
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حوالہ

آثار الصادقین،جلد۱۴،صفحہ۴۹۲،نقل از ”امام الصادق“،جلد۲،صفحہ۵۸۲۔

(ت)۔عَنْ اِبْنِ عَبّٰاسٍ قٰالَ:کُنْتُ أِسِیْرُ مَعَ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ فِی لَیْلَةٍ،وَوَعُمَرعَلیٰ بَغْلٍ وَ اَناعَلیٰ فَرَسٍ،فَقَرَأَ آ یَةً فِیْهٰا ذِکْرُ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِبِ فَقٰالَ:أَمٰاوَاللّٰهِ یٰا بَنِی عَبْدُالْمُطَّلِبْ لَقَدْ کٰانَ عَلِیٌّ فِیْکُمْ أَوْلیٰ بِهٰذَاالأَمْرِمِنِّی وَمِنْ أَبِیْ بَکْرٍ،(اِلٰی اَنْ قٰالَ) وَاللّٰهِ مٰا نَقْطَعُ اَمْراً دُوْنَهُ،وَلاٰ نَعْمَلُ شَیْئاً حَتّٰی نَسْتَأذِنَهُ

”ابن عباس روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ایک شب میں اور حضرت عمرہم سفر تھے۔ حضرت عمرخچر پر سوار تھے اور میں گھوڑے پر۔ اس دوران ایک آیت پڑھی گئی۔ اُس آیت میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر آیا۔ اُس پر حضرت عمر بن خطاب نے کہا:خدا کی قسم! اے عبدالمطلب کے بیٹو! ہوشیاررہو۔ تم سب میں علی علیہ السلام سب سے زیادہ اس (خلافت) کے اہل ہیں، مجھ سے اور ابو بکر سےیہاں تک کہ خدا کی قسم! میں کسی کام کو بھی اُن(علی علیہ السلام) کے بغیر مکمل نہیں کروں گا اور کوئی کام اُن کی اجازت کے بغیر نہیں کرونگا“۔

حوالہ راغب،محاضرات میں، جلد۷،صفحہ۲۱۳۔

(ث) عَنِ الْحٰافِظِ الدّٰارِالْقُطْنِیْ عَنْ عُمَرَ، وَقَدْجٰاءَ هُ اَعْرٰابِیّٰانِ یَخْتَصِمٰانِ فقالَ لِعَلِیٍّ:اِقْضِ بَیْنَهُمٰا

فَقٰالَ اَحَدُهُمٰا:هٰذَا یَقْضِی بَیْنَنٰا؟!فَوَثَبَ اِلَیْهِ عُمَرُوَاَحَدَ بِتَلْبِیْبِهِ،وََقٰالَ وَیْحَکَ مٰا تَدْرِی مَنْ هٰذَا؟هٰذَا مَولاٰیَ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مَوْلاٰهُ فَلَیْسَ بِمُومِنٍ

۱۶۱

”حافظ دار قطنی حضرت عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ دو عرب لڑتے جھگڑتے حضرت عمر کے پاس آئے۔ پس حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ ان کے درمیان فیصلہ فرمادیجئے۔اُن میں سے ایک نے کہا کہ کیا یہ شخص ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا؟یہ سن کر حضرت عمراُس شخص کی طرف لپکے اور اُس کا گریبان پکڑ کر کہا:حیف ہے تجھ پر۔ کیا تو جانتا ہے کہ یہ شخص کون ہے؟ یہ میرے مولیٰ ہیں اور جس کے یہ مولیٰ نہیں، وہ شخص مومن نہیں“۔

حوالہ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،جلد۲،صفحہ۸۲،باب حال امام علی علیہ السلام،حاشیے پر۔

(خ)۔عَنْ عُمَیْرِبْنِ بِشْْرٍالْخَثْعَمِیّ قٰالَ:قٰالَ عُمَرُ:عَلِیٌّ اَعْلَمُ النّٰاسِ بِمٰااَنْزَلَ اللّٰهُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ ۔

”عمیر بن بشیر کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام سب انسانوں سے بڑے عالم ہیں اُس میں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا ہے“۔

حوالہ بوستان معرفت،ص۶۷۷نقل از حسکانی، شواہد التنزیل جزو اوّل،ص۳۰حدیث۲۹

(ذ)۔قال عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ(یَوْمَ غَدِیْرِخُمٍّ)هَنِیئاً لَکَ یَابْنَ اَبِی طٰالِبٍ اَصْبَحْتَ مَوْلیٰ کُلِّ مُومِنٍ وَمُومِنَةٍ ۔

”حضرت عمر بن خطاب نے غدیر خم کے دن( جس دن پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام کو ولایت پر منصوب فرمایا تھا) حضرت علی علیہ السلام سے کہا :یا علی !آپ کو مبارک ہو، آپ سب مومن مردوں اور عورتوں کے مولیٰ ہوگئے ہیں“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب حال علی ،جلد۲،صفحہ۴۸تا۵۱(شرح محمودی)۔

۲۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۵۰۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں،باب اوّل، صفحہ۶۲(حضرت ابوبکر اور عمر کی حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد)۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،ینابیع المودة، باب مناقب السبعون،صفحہ۲۸۳،حدیث۵۶اور باب۴،صفحہ۳۳،۳۴اور دوسرے۔

۱۶۲

(ض)۔عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ اَنَّهُ قٰالَ:اُشْهِدُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰهِ لَسَمِعْتُهُ وَهُوَیَقُوْلُ:لَوْاَنَّ السَّمٰاوٰاتِ السَّبْعَ وُضِعَتْ فِیْ کَفَّةٍ وَوُضِعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍّ فِیْ کَفَّةٍ لَرَجَّعَ اِیْمٰانُ عَلِیٍ ۔

”حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول خدا سے سنا کہ اگر ساتوں آسمانون کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں حضرت علی کا ایمان رکھ دیا جائے تو علی علیہ السلام کے ایمان والا پلڑا بھاری رہے گا“۔

حوالہ کنزالعمال،جلد۱۲،صفحہ۴۸۹(موسسة الرسالہ،بیروت،اشاعت پنجم)۔

(ظ)۔عَنْ اِبنِ عَبّٰاسٍ قٰالَ:سَمِعْتُ عُمَرَبْنِ الْخَطّٰابِ یَقُوْلُ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ:یٰاعَلِیُّ اَنْتَ اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اِسْلاٰماً وَاَوَّلُ الْمُومِنِیْنَ اِیْمٰاناً ۔

”ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب سے سنا ،حضرت عمر کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا :یا علی ! آپ مسلمین میں پہلے مسلمان ہیں اور مومنین میں پہلے مومن ہیں“۔

حوالہ جات

۱۔ آثار الصادقین، جلد۱۴،صفحہ۳۴،نقل ازمناقب ابن شہر آشوب،جلد۲،صفحہ۶۔

۲۔ متقی ہندی،کتاب کنزالعمال میں،روایت کے آخر میں،جلد۶،صفحہ۳۹۵۔

(غ)۔عُمَرُبْنُ الْخَطّٰابِ رَفَعَهُ:لَوِاجْتَمَعَ النّٰاسُ عَلیٰ حُبِّ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِبٍ لَمٰاخَلَقَ اللّٰهُ النّٰارَ ۔

”حضرت عمر بن خطاب (حدیث مرفوع) روایت کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم نے فرمایا تھا کہ اگر تمام انسان علی کی دوستی و محبت پر اکٹھے ہوجاتے تو اللہ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ فرماتا“۔

حوالہ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب المودة السادسة،صفحہ۲۹۹۔

۱۶۳

ایک اور مثال

”حضرت عمر بن خطاب اپنی خلافت کے دوران حج سے مشرف ہوئے اور طواف کے دوران اُن کی نظر ایک جوان پر پڑی کہ اُس کی صورت ایک طرف سے سیاہ ہوگئی تھی اورآنکھیں سرخ اور خون آلودہ تھیں۔ حضرت عمر نے اُس کو آواز دی اور کہا:

یٰافتٰی مَنْ فَعَلَ بِکَ هٰذَا؟

اے جوان! تجھے اس طرح کس نے کیا اور تجھے کس نے مارا ہے؟ اُس جوان نے جواب دیا:

ضَرَبَنِی اَ بُوْالْحَسَنِ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طٰالِبٍ ۔

حضرت علی علیہ السلام نے مجھے مارا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: تھوڑا رک جاؤکہ علی علیہ السلام آجائیں۔ اسی حال میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام وہاں پہنچ گئے۔ عمر نے کہا:

یٰا عَلِیُّ أَ اَنْتَ ضَرَبْتَ هٰذَاالشَّبٰابَ؟

یا علی ! کیا آپ نے اس جوان کو مارا ہے؟ علی علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاں! میں نے اسے مارا ہے۔ عمر نے کہا: کیا وجہ بنی کہ آپ نے اس کو مارا ہے؟ علی علیہ السلام نے جواب دیا:

رَأَیْتُهُ یَنْظُرُ حُرُمَ الْمُسْلِمِیْنَ

میں نے اسے مسلمان عورتوں اور ناموس مسلمین کی طرف نگاہ کرتے ہوئے دیکھا۔ عمر نے جواب دیا:اے جوان! لعنت ہو تجھ پر،یہاں سے اٹھ اور چلا جا۔

فَقَدْ رَاٰ کَ عَیْنُ اللّٰه وَضَرَبَکَ یَدُاللّٰهِ

بے شک تمہیں اللہ کی آنکھ نے دیکھا اور اللہ کے ہاتھ نے مارا ہے“۔

حوالہ جات

”میں شیعہ کیوں ہوا“، تالیف محمد رازی، صفحہ۲۱۸،نقل از شہرستانی”ملل و نحل“ اور طبری،ریاض النظرہ میں اور ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ۔

۱۶۴

۳۔کلام حضرت عثمان بن عفان

(الف)رَجَعَ عُثْمٰانُ اِلٰی عَلِیٍّ فَسَأَ لَهُ الْمَصِیْرَاِلَیْهِ،فَصٰارَاِلَیْهِ فَجَعَلَ یَحُدُّ النَّظَرُ اِلَیْهِ،فَقٰالَ لَهُ عَلِیٌّ:مٰالَکَ یٰاعُثْمٰانُ؟مٰالَکَ تَحُدُّ النَّظَرَ اِلَیَّ؟قٰالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقُوْلُ:النَّظَرُاِلٰی عَلِیٍّ عِبَادَةٌ ۔

”حضرت عثمان،حضرت علی علیہ السلام کی طرف پلٹے اور اُن سے درخواست کی کہ وہ اُن کی طرف آجائیں۔ حضرت علی علیہ السلام، حضرت عثمان کی طرف آئے۔ اُس وقت حضرت عثمان نے حضرت علی علیہ السلام کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ اے عثمان!تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟تو حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ’علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے‘۔“

حوالہ جات

۱۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۸،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۳۹۳(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۲۔

(ب)۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان نے تین مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کو دعوت دی کہ وہ اُن کے ساتھ تعاون کریں۔ پہلی مرتبہ ۲۲ھ میں یعنی اُسی سال جب وہ خلیفہ بنے۔ دوسری مرتبہ ۲۷ھ میں اور تیسری مرتبہ۳۲ھ میں۔ حضرت علی علیہ السلام نے کسی دفعہ بھی حضرت عثمان کی کسی دعوت کو سیاسی تعاون کیلئے قبول نہ کیا۔ البتہ ہر دفعہ حضرت علی علیہ السلام یہی جواب دیتے رہے کہ ایک کام واجب ہے یعنی قرآن کی جمع آوری اور اُس کو ایک کتابی شکل دینا۔ میں اس واجب شرعی کام کیلئے تم سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہوں۔

حوالہ

فواد فاروقی، کتاب پچیس سال خاموشی علی علیہ السلام، نقل از روڈولف زائیگر کی کتاب”علم اور تلوار کا خداوند“۔

۱۶۵

(ج)۔ حضرت عثمان کا حضرت علی علیہ السلام سے خطاب:

”خدا کی قسم! اگر قرار یہ ہو کہ آپ (علی علیہ السلام) مجھ سے پہلے مرجائیں تو میں زندہ رہنے کو پسند نہیں کرتا کیونکہ میں آپ کے علاوہ اپنا کوئی جانشین نہیں دیکھتا اور اگر آپ زندہ رہیں تو میں کسی بھی سرکش اور باغی کو نہیں دیکھتاجو آپ کورہبر،مددگار اور مستضعفین کی پناہ گاہ کے طور پر انتخاب کرے میری نسبت تو آپ سے وہی ہے جو کسی عاق شدہ بیٹے کی باپ سے ہو“۔

حوالہ ”امام علی علیہ السلام“باب روزگار عثمان، تالیف عبدالفتاح عبدالمقصود،صفحہ۲۰۲۔

فضائل علی علیہ السلام اُم المومنین حضرت عائشہ کی نظر میں

حضرت عائشہ،حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ کی بیٹی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔ معتبر تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ کا رویہ حضرت علی علیہ السلام،جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اُن کے دو فرزندان ارجمندکے ساتھ اچھا نہ تھا اوراس کااظہار جنگ جمل میں مکمل طور پر ہوا۔ وہ کھل کر حضرت علی علیہ السلام کے مقابل آگئیں جبکہ پیغمبر اکرمنے واضح طور پر پیروی اور اطاعت علی علیہ السلام کا حکم دیا تھا۔

لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ فضائل و کمالات علی علیہ السلام اور اہل بیت اطہار اس قدر زیادہ ہیں کہ کوئی بھی ان کو چھپا نہیں سکتا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے چمکتے آفتاب کی روشنی کو کوئی بھی چیز ڈھانپ نہیں سکتی۔ حضرت عائشہ بھی باوجودیکہ اُن کی سوچ علی علیہ السلام کے بارے میں مختلف تھی، حضرت علی کے فضائل کی معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔آئیے اب اُن کے کلام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

۱۶۶

(الف)۔عَنْ هِشٰامِ بْنِ عُرْوَةٍ،عَنْ اَبِیْهِ،عَنْ عٰائِشَةَ قٰالَتْ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ ذِکْرُ عَلِیٍّ عِبٰادَةٌ ۔

”ہشام بن عروہ اپنے والد سے اور وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی کا ذکر کرنا عبادت ہے“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۲۴۳،صفحہ۲۰۶۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق،باب حال امام علی ،ج۲ص۴۰۸حدیث۹۱۴شرح محمودی

۳۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۸۔

۴۔ متقی ہندی،کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۶۰۱۔

۵۔ سیوطی،تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،باب مناقب السبعون،ص۲۸۱،حدیث۴۶ اور۳۱۲۔

(ب)۔عَنْ عٰائِشَةَ،اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ خَرَجَ وَعَلَیْهِ مَرْطٌ مُرَجَّلٌ مِنْ شَعْرٍأَسْوَدٍ،فَجٰاءَ الْحَسَنُ فَأَدْخَلَهُ،ثُمَّ جٰاءَ الْحُسَیْنُ فَاَدْخَلَهُ،ثُمَّ فٰاطِمَةٌ،ثُمَّ عَلِیُّ،ثُمَّ قٰالَ:اِنَّمٰایُرِیْدُاللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ

”حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر آئے۔ انہوں نے چادر اوڑھی ہوئی تھی جو سیاہ ریشوں سے بنی ہوئی تھی۔ اتنے میں حضرت حسن علیہ السلام آئے، آپ نے انہیں چادر کے اندر کرلیا۔پھر امام حسین علیہ السلام آئے، آپ نے انہیں بھی چادر کے اندر کرلیا۔ اس کے بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا اور علی علیہ السلام تشریف لائے، وہ بھی چادر کے اندر آگئے(جب یہ ہستیاں چادر کے اندر آگئیں) تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

۱۶۷

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

( اِنَّمٰا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرا )

”اے اہل بیت ! سوائے اس کے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر قسم کے رجس سے دوررکھے اور تم کو ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے“۔

حوالہ

زمخشری،تفسیر کشاف،ج۱،ص۳۶۹،ذیل آیت۶۱،سورئہ آل عمران’فَمَنْ حَاجَّکَ

(ج)۔عَنْ عٰائِشَةَقٰالَتْ:رَحِمَ اللّٰهُ عَلِیّاً لَقَدْکٰانَ عَلَی الْحَقِّ

”حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ علی پر رحمت نازل فرمائے، بیشک وہ حق پر تھے“۔

حوالہ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۰۵،حدیث۱۴۔

(د)۔عَنْ جَمیعِ بْنِ عُمَیْرٍقٰالَ دَخَلْتُ عَلیٰ عٰائِشَةَ،فَقُلْتُ لَهٰا:مَنْ کٰانَ اَحَبُّ النّٰاسِ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ قٰالَتْ:أَمّٰامِنَ الرِّجٰالِ فَعَلِیٌّ،وَأَمّٰامِنَ النِّسٰاءِ فَفٰاطِمَةُ ۔

”جمیع بن عمیر سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ تک پہنچا اور میں نے اُن سے پوچھا کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب ترین شخص کون ہے؟حضرت عائشہ نے کہا کہ مردوں میں حضرت علی علیہ السلام اور عورتوں میں جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں“۔

۱۶۸

حوالہ جات

۱۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۵۴،۱۵۷۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۵۵،صفحہ۲۰۲،۲۴۱۔

۳۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۱۶۷،شرح محمودی۔

۴۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۵اور دوسرے۔

(ھ)۔عَنْ شُرَیْحِ بْنِ هٰانِی،عَنْ اَبِیهِ،عَنْ عٰائِشَةَ قٰالَتْ:مٰاخَلَقَ اللّٰهُ خَلْقاً کٰانَ اَحَبُّ اِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰهِ مِنْ عَلِیٍّ ۔

”شریح بن ہانی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ اللہ نے کسی کو خلق ہی نہیں کیا جو رسول اللہ کو علی سے زیادہ محبوب ہو“۔

حوالہ

ابن کثیر،تاریخ دمشق ،باب حال امام علی ،ج۲،ص۱۶۲،حدیث۶۴۸،شرح محمودی

(و) عَنْ عَطٰاءٍ قٰالَ:سَأَلْتُ عٰائِشَةَ عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلام فَقٰالَتْ:ذٰاکَ خَیْرُالْبَشَرِلاٰ یَشُکُّ فِیْهِ اِلّٰاکٰافِرٌ

”عطاء سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ علی علیہ السلام سب انسانوں سے بہتر ہیں اور اس میں سوائے کافر کے کوئی شک نہیں کرسکتا“۔

۱۶۹

حوالہ

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،باب حال امیرالمومنین ،جلد۲،صفحہ۴۴۸،حدیث۹۷۲۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب مودة الثالثہ،صفحہ۲۹۳۔

(ز)۔حَدَّثْنٰا جَعْفَرُبْنُ بَرْقٰان قٰالَ:بَلَغَنِی اَنَّ عٰائِشَةَ کٰانَتْ تَقُولُ:زَیِّنُوْامَجٰالِسَکُمْ بِذِکْرِعَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِب ۔

”جعفر بن برقان سے روایت ہے کہ مجھ تک یہ حدیث رسول حضرت عائشہ کے ذریعے سے پہنچی ،وہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اپنی مجلسوں کو ذکر علی سے زینت دو“۔

(ح) عٰائِشَةُ رَفَعَتْهُ:اِنَّ اللّٰهَ قَدْعَهِدَ اِلیٰ مَنْ خَرَجَ عَلیٰ عَلِیٍّ فَهُوَکٰافِرٌفِی النّٰارِ،قِیْلَ:لِمَ خَرَجْتِ عَلَیْهِ؟قٰالَتْ:أَنَا نَسِیْتُ هٰذَاالْحَدِیْثَ یَومَ الْجَمَلِ حَتّٰی ذَکَرْتُهُ بِالْبَصْرَةِ وَأَ نَااَسْتَغْفِرُاللّٰهَ

”حضرت عائشہ سے حدیث مرفوع(پیغمبر اکرم)روایت ہے کہ بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی بھی علی علیہ السلام سے جنگ کرے گا، وہ کافر ہے اور جہنم میں جائے گا۔ اُن سے پوچھا گیا تو پھر آپ نے کیوں علی علیہ السلام سے جنگ کی؟ کہنے لگیں کہ جنگ جمل کے روز میں یہ حدیث بھول گئی تھی جب مجھے یہ حدیث یاد آئی تو میں نے اللہ سے توبہ کرلی“۔

حوالہ

شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مودة الثالثہ،صفحہ۲۹۴۔

۱۷۰

(ط)۔عَنْ عَطَاءِ بْنِ اَبِی رَبَاحٍ، عَنْ عٰائِشَةَ، قٰالَتْ: عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طٰالِبٍ اَعْلَمُکُمْ بِالسُّنَّةِ

”عطا ابن ابی رباح روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ سنّت پیغمبر میں عالم ترین شخص علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

حوالہ جات

۱۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء میں،صفحہ۱۷۱۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۳،صفحہ۳۴۳۔

۳۔ ابن عبدالبر،کتاب استیعاب ، شرح حال علی ،جلد۳،صفحہ۱۱۰۴،حدیث۱۸۵۵۔

۴۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،باب حال امام علی ،ج۳حدیث۱۰۷۹ص۴۸شرح محمودی

۵۔ بلاذری،کتاب انساب الاشراف میں۔ ،باب شرح حال علی ،جلد۲،حدیث۸۶،صفحہ ۱۲۴،اشاعت اوّل، بیروت اور دوسرے۔

(ی)۔عَنْ عَطٰاءٍ عَنْ عٰائِشَةَ قٰالَتْ:عَلِیٌّ اَعْلَمُ اَصْحٰابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ

”عطاء حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ اصحاب پیغمبر میں سب سے بڑے عالم حضرت علی علیہ السلام تھے“۔

حوالہ

بوستان معرفت، صفحہ۶۵۸،نقل از کتاب شواہد التنزیل(مصنف حسکانی)جزو اوّل،صفحہ۳۵،حدیث۴۰۔

۱۷۱

(ک)۔عَنْ عٰائِشَةَ،قٰالَتْ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ،وَهُوَفِی بَیْتِهٰالَمّٰاحَضَرَهُ الْمَوْتُ:اُدْعُوا لِیْ حَبِیْبِی (قٰالَتْ) فَدَعَوْتُ لَهُ اَبَابَکرَ فَنَظَرَاِلَیْهِ ثُمَّ وَضَعَ رَأسَهُ ثُمَّ قٰالَ:اُدْعُوْا لِیْ حَبِیْبِیفَدَعُوْا لَهُ عُمَرَ،فَلَمّٰانَظَرَاِلَیْهِ وَضَعَ رَأسَهُ،ثُمَّ قٰالَ:اُدْعُوْا لِی حَبِیْبِی، فَقُلْتُ:وَیْلَکُمْ اُدْعُوالَهُ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طٰالِبٍ،فَوَاللّٰهِ مٰا یُرِیْدُ غَیْرُهُ(فَدَعُوْاعَلِیّاً فَأَتٰاهُ)فَلَمّٰا أَتٰاهُ أَفْرَدَالثُّوبَ الَّذِی کٰانَ عَلَیْهِ ثُمَّ أَدْخَلَهُ فِیْهِ فَلَمْ یَزَلْ یَحْتَضِنَهُ حَتّٰی قُبِضَ وَیَدُهُ عَلَیْهِ ۔

”حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب رحلت پیغمبر کا وقت قریب تھا تو آپ نے فرمایا کہ میرے حبیب کو میرے نزدیک بلاؤ۔ پس ہم نے حضرت ابوبکر کو بلایا۔ پیغمبر اکرمنے ایک نگاہ کی اور اپنا سرجھکا دیا۔پھر فرمایا کہ میرے حبیب کو میرے نزدیک بلاؤ۔ پس ہم نے حضرت عمر کو بلالیا۔ پیغمبر اسلام نے ایک نگاہ کی اور پھر اپنا سرجھکا دیا۔ پھر فرمایا کہ میرے حبیب کو میرے نزدیک بلاؤ۔ میں نے کہا حیف ہے، علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ان کیلئے بلاؤ۔خدا کی قسم! آپ نے علی علیہ السلام کے سوا کسی کو نہیں چاہا ہے۔ پس علی علیہ السلام کو بلایا گیا۔ جس وقت وہ آئے تو پیغمبر نے وہ چادرجو خود اوڑھی ہوئی تھی، اُس میں علی علیہ السلام کو داخل کیا اور پھر اُن سے جدا نہ ہوئے،یہاں تک کہ رحلت فرمائی اور اس حالت میں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ علی علیہ السلام کے بدن پر تھا“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۶۰(روایت عبداللہ بن عمر سے)۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،باب شرح حال امام علی علیہ السلام ،ج۳،ص۱۴،حدیث۱۰۲۷،شرح محمودی۔

۳۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۳۸،۱۳۹۔

۴ ۔ ذھبی، کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۲،صفحہ۴۸۲،شمارہ۴۵۳۰۔

۵۔ سیوطی،اللئالی المصنوعہ میں،جلد ۱،صفحہ۱۹۳،اشاعت اوّل۔

۶۔ مناقب خوارزمی، جلد۱،صفحہ۳۸،باب۴۔

۱۷۲

(ل)۔عَنْ عٰائِشَةَ قٰالَتْ:رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ اِلْتَزَمَ عَلِیّاً وَقَبَّلَهُ وَ(هُوَ)یَقُوْلُ:بِأَبِی الْوَحِیْدَ الشَّهِیْدَ،بِأَبِی الْوَحِیْدَ الشَّهِیْدَ ۔

”حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ اُن کو اپنے ساتھ چمٹایا ہوا تھا اور اُن کا منہ چوم رہے تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اے شہید تنہا!میرے والد تم پر فدا۔ اے شہید تنہا! میرے والد تم پر فدا“۔

حوالہ جات

۱۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۳۸۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق،باب حال علی ،ج۳،ص۲۸۵،حدیث۱۳۷۶،شرح محمودی

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،باب۵۹،صفحہ۳۳۹۔

۴۔ متقی ہندی،کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۶۱۷(اشاعت بیروت، پنجم)۔

۱۷۳

فضائل علی علیہ السلام علمائے اہل سنت کی نظر میں

مقام حضرت علی علیہ السلام کو سمجھنے کا ایک بہترین اور اہم ترین ذریعہ علمائے اہل سنت کے نظریات اور اُن کا کلام ہے۔ یہ انتہائی دلچسپ بات ہوگی کہ علی علیہ السلام کے بلندوبالا مقام کو اُن افراد کی زبانی سنیں جو مسند خلافت کیلئے تو دوسروں کو مقدم سمجھتے ہیں لیکن علی علیہ السلام کی عظمت کے قائل بھی ہیں اور احادیث نبوی کی روشنی میں علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل کو مانتے بھی ہیں لیکن چند صحابہ کے قول و فعل کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت و نصیحت پر ترجیح دیتے ہیں۔اس سے خود اُن کو بہت بڑا نقصان ہوا کیونکہ وہ علوم اہل بیت سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے اور حکمت و دانائی کے وسیع خزانوں اور قرآن کی برحق تفسیر سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے سے قاصر رہے۔

علمائے اہل سنت کے نظریات کو لکھنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان بزرگوں کے اقوال اور نظریات پر غوروفکر کیا جائے جو علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے ہیں اور جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت علی کی شخصیت،پیغمبر اسلام کے مقدس وجود کے بعد سب سے بلند ہے جیسے کہ قرآن کی آیات، احادیث نبوی اور کلام خلفاء کو جمع کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت واضح ہوئی ہے۔ اب ہم علمائے اہل سنت کے کلام اور نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ مولیٰ علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔اُمید ہے کہ حق طلب حق کو پالیں گے، انشاء اللہ۔

شروع میں ابن عباس کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ابن عباس کو اُمت مسلمہ کے تمام فرقے قبول کرتے ہیں۔

ابن عباس

ابن عباس نے اپنی عمر کے آخری لمحوں میں سربلند کرکے یہ کہا:

”اَلَّلهُمَّ اِنِّی اَ تَقَرَّبُ اِلَیْکَ بِحُبِّ الشَّیْخِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طٰالِب“ ۔

”پروردگارا! میں علی کی دوستی اورمحبتکا واسطہ دے کر تیری قربت چاہتا ہوں“۔

۱۷۴

ابن ابی الحدید معتزلی

”میں اُس شخص کے بارے میں کیا کہوں کہ جس پر تمام فضائل انسانی کی انتہاہوجاتی ہے۔ تمام اسلامی فرقے اُسے اپنا سمجھتے ہیں۔ وہ تمام خوبیوں کا مالک ہے اور تمام فضیلتوں کا سرچشمہ ہے۔ وہ پہلوں میں کامیاب ترین شخص تھا اور بعد میں آنے والوں میں اگر کوئی فضیلت دیکھی گئی تو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خوبی بھی وہاں سے ہی شروع ہوئی۔ پس چاہئے کہ خوبیاں اُسی پر اکتفا کریں اور اُس جیسے کی اقتداء کریں“۔

حوالہ ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ، جلد۱،صفحہ۱۶۔

ابن ابی الحدید اپنے قصیدہ عینیہ جو کہ اُس کے سات قصیدوں میں بہترین قصیدہ ہے اور وہ اس کو سونے کے پانی کے ساتھ مولیٰ علی علیہ السلام کے روضے پر لکھنے میں سالہا سال مصروف رہا، اُس میں کہتے ہیں:

”میں نے اُس برق سے جس نے رات کی تاریکی کو پھاڑ دیا، مخاطب ہوکرکہا:

اے برق! اگر تو سرزمین نجف میں نہیں تو بتا کہاں ہے؟ کیا تجھے پتہ ہے کہ تجھ میں کون کونسی ہستیاں پوشیدہ ہیں؟

موسیٰ بن عمران، عیسیٰ مسیح اور پیغمبر اسلام اس میں ہیں اورنور خدائے ذوالجلال تجھ میں ہے بلکہ جو بھی چشم بینا رکھتا ہے،آئے اور دیکھ لے۔

خدا کی قسم!اگر علی نہ ہوتے تو نہ تو زمین ہوتی اور نہ ہی اُس پر کوئی مرد ہوتا۔

قیامت کے روز ہمارا حساب کتاب اُسی کے وسیلہ سے خدا کے حضور پیش کیا جائے گا۔

قیامت کے ہولناک دن وہی ہمارا ایک مددگار ہوگا۔

یا علی !میں آپ ہی کی خاطر مکتب اعتزال کو بڑا سمجھتا ہوں اور آپ ہی کی خاطر سب شیعوں کو دوست رکھتا ہوں۔

حوالہ

ابن ابی الحدید، کتاب”علی علیہ السلام،چہرئہ درخشان اسلام“،حصہ پیش لفظ،صفحہ۹۔

۱۷۵

وہ مزید کہتے ہیں:

”یا علی ! اگر آپ میں آثار حدث موجود نہ ہوتے تو میں کہتا کہ آپ ہی بخشنے والے اور جانداروں کی روح کو قبض کرنے والے ہیں۔ اگر طبعی موت آپ پر اثر انداز نہ ہوتی تو میں کہتا کہ آپ ہی سب کے روزی رساں ہیں اور آپ ہی جس کو کم یا زیادہ چاہیں، بخشیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ دین اسلام کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرانے اور اس جہاں میں عدل و انصاف بھرنے کیلئے آپ کے بیٹے مہدی علیہ السلام جلد تشریف لائیں گے“۔

حوالہ داستان غدیر، صفحہ۲۸۵،بہ نقل از ”المراجعات السبع العلویات“، صفحہ۴۳۔

ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

اِنَّهُ علیه السلام کَانَ اَولٰی بِالْاَمْرِوَاَحَقَّ لَاعَلٰی وَجْهِ النَّصِّ، بَلْ عَلٰی وَجْهِ الْاَفْضَلِیَّةِ،فَاِنَّهُ اَفْضَلُ الْبَشَرْبَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰه وَاَحَقُّ بِالْخِلاٰ فَةِ مِنْ جَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ ۔

”حضرت علی علیہ السلام منصب ولایت کیلئے سب سے بہتر اور سب سے زیادہ حقدار تھے۔ وہ اس کیلئے از طریق نص نہیں بلکہ اپنے افضل ہونے کی وجہ سے اہل تھے کیونکہ رسول اللہ کے بعد وہ سب سے افضل بشر تھے اور تمام مسلمانوں سے زیادہ خلافت پر حق اُن کا تھا“۔

۱۷۶

ابوحامدغزالی(شافعی مذہب کے سکالر)

ابوحامد محمد ابن محمد غزالی کتاب”سرّالعالمین“میں لکھتے ہیں:

”اَسْفَرَتِ الْحُجَّةُ وَجْهَهٰاوَاَجْمَعَ الْجَمٰاهِیْرُعَلٰی مَتْنِ الْحَدِیْثِ عَنْ خُطْبَةِ یَوْمِ غَدِیْرِ خُمٍّ بِاتِّفَاقِ الْجَمِیْعِ وَهُوَ یَقُوْلُ:مَنْ کُنْتُ مَوْلاٰهُ فَعَلِیٌّ مَوْلاٰهُ فَقٰالَ عُمَرُ بَخٍ بَخٍ لَکَ یٰااَبَالْحَسَنِ لَقَدْ اَصْبَحْتَ مَوْلاٰیٰ وَمَوْلٰی کُلِّ مُومِنٍ وَمُومِنَةٍهٰذَا تَسْلِیْمٌ وَرَضِیٍّ وَتَحْکِیْمٌثُمَّ بَعْدَ هَذٰاغَلِبَ الْهَوٰی لِحُبِّ الْرِّیٰاسَةِ وَحَمْلِ عَمُودِ الْخِلاٰفَةِالخ

”رخ حقیقت سے پردہ اٹھ گیا اور تمام مسلمانان عالم حدیث غدیر خم اور خطبہ یوم غدیر کے متن پر متفق ہیں۔ جب پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اُس وقت حضرت عمر نے کہا:اے ابا الحسن ! مبارک مبارک ۔ آج آپ نے اس حال میں صبح کی کہ میرے بھی مولیٰ ہیں اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کے بھی مولیٰ ہیں۔ اس طرح مبارک باد دینا پیغمبر کے فرمان کو تسلیم کرنا ہے اور علی علیہ السلام کی خلافت پر راضی ہونا ہے(لیکن افسوس) اس کے بعد نفس امارہ نے ریاست طلبی اور خلافت طلبی کی خاطر اُن پر غلبہ پالیا“۔

حوالہ شبہائے پشاور،صفحہ۶۰۸،نقل از ”سرّ العالمین“، غزالی۔

عبدالفتاح عبدالمقصود(مصنف معروف مصری)

”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو آپ کی جانشینی کے قابل ہو،سوائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک فرزندوں کے والد یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔ میں یہ بات اہل تشیع کی طرفداری کیلئے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ تاریخی حقائق اس کے گواہ ہیں۔ امام (علی علیہ السلام) سب سے بلند مرتبہ مرد ہے جسے کوئی بھی ماں آخری عمر تک پیدا نہ کرسکے گی اور وہ ایسی شخصیت ہے کہ جب بھی ہدایت تلاش کرنے والے اُس کے کلام، ارشادات اور نصیحتوں کو پڑھیں گے تو ہر جملے سے اُن کو نئی روشنیاں ملیں گی۔ ہاں! وہ مجسم کمال ہے جو لباس بشریت میں اس دنیا میں بھیجا گیا“۔

حوالہ داستان غدیر،صفحہ۲۹۱،نقل از”الغدیر“، جلد۶۔

۱۷۷

ابوحنیفہ( مذہب حنفی کے امام)

”کسی ایک نے بھی علی سے جنگ و جدل نہیں کیا مگر یہ کہ علی علیہ السلام اُس سے اعلیٰ اور حق پر تھے۔ اگر علی علیہ السلام اُن کے مقابلہ میں نہ آتے تو مسلمانوں کو پتہ نہ چلتا کہ اس قسم کے افراد یا گروہ کیلئے اُن کی شرعی ذمہ داری کیا ہے“۔

حوالہ

مہدی فقیہ ایمانی،کتاب”حق با علی است“، نقل از مناقب ابو حنیفہ، خوارزمی،۸۳/۲،

اشاعت حیدرآباد۔

فخر رازی(اہل سنت کے مشہور و معروف مفکر)

”جوکوئی دین میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا تسلیم کرے گا، وہی کامیاب ہے اور اس کی دلیل خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان پاک ہے۔آپ نے فرمایا:

”پروردگار!حق کو اُدھر پھیر دے جدھر علی ہو“۔

حوالہ

داستان غدیر،مصنف:بہت سے استاد، صفحہ۲۸۵،نقل از تفسیر فخر رازی، جلد۱،صفحہ۱۱۱،اور الغدیر،جلد۳،صفحہ۱۷۹۔

۱۷۸

زمخشری(اہل سنت کے مشہور مفکر)

”میں اُس مرد کے فضائل کے بارے میں کیا کہوں کہ جس کے دشمنوں نے اپنے حسد اور کینہ کی وجہ سے اُس کے فضائل سے انکار کیا اور اُس کے دوستوں نے خوف و ترس کی وجہ سے اُس کے فضائل چھپائے۔مگر اس کے باوجود اُس کے فضائل دنیا میں اتنے پھیلے کہ مشرق و مغرب کو گھیر لیا“۔

زمخشری اس حدیث قدسی کے ضمن میں کہتے ہیں:

”مَنْ اَحَبَّ عَلِیّاً اَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ وَاِنْ عَصَانِیْ وَمَنْ اَبْغَضَ عَلِیّاً اَدْخَلَهُ النّٰارَ وَاِنْ اَطَاعَنِی“

ٍ ”جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی، وہ جنت میں جائیگا ،گرچہ وہ میرا نافرمان ہی کیوں نہ ہو اور جس نے علی سے دشمنی و بغض رکھا، وہ جہنم میں جائیگا، بے شک وہ میرا فرمانبردار ہی کیوں نہ ہو“۔

اس کے بارے میں زمخشری کہتے ہیں کہ محبت و تسلیم ولایت علی علیہ السلام انسان کے ایمان کے کمال کا سبب ہے اور اگر کمال ایمان ہو تو فروع میں چھوٹی غلطی زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی، لیکن اگر محبت و ولایت علی نہ ہو تو ایمان ناقص ہے اور وہ شخص جہنم کا مستحق ہے۔

حوالہ جات

۱۔ داستان غدیر،صفحہ۲۸۴بہ نقل از زندگانی امیر المومنین علیہ السلام، صفحہ۵۔

۲۔ مباحثی در معارف اسلامی،مصنف:علامہ فقید آیت اللہ حاجی سیدبہبہانی،صفحہ۱۶۹۔

شافعی(رہبر مذہب شافعی)

”اگر مولیٰ علی مرتضیٰ اپنے ظاہر وباطن کو لوگوں پر ظاہر کردیں تو لوگ کافر ہوجائیں گے کیونکہ وہ انہیں اپناخدا سمجھ کر سجدہ میں گرجائیں گے ۔ اُن کے فضائل و عظمت کیلئے بس یہی کافی ہے کہ بہت سے لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ علی خدا ہیں یا خدا علی ہے یاپھر علی علیہ السلام مخلوق خدا ہیں“۔

حوالہ سید یحییٰ برقعی، کتاب ”چکیدہ اندیشہ ہا“،صفحہ۲۹۷۔

۱۷۹

حافظ ابو نعیم(اہل سنت کے مشہور عالم)

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سردار قوم، محب ذات مشہود،محبوب ذات کبریا،باب شہر علم،مخاطب آیات ایمانی،عالم رمز قرآنی،تلاش راہ حق کیلئے بڑی نشانی،ماننے والوں کیلئے شمع جاودانی، مولائے اہل تقویٰ و ایمان،رہبر عدالت و قاضیان، ایمان لانے والوں میں سب سے اوّل، یقین میں سب سے بڑھ کر، بردباری میں سب سے آگے، علم و دانش کا منبع، اہل عرفان کی زینت،حقائق توحید سے باخبر،خداپرستی کا عالم، حکمت و دانائی کا سرچشمہ، حق سننے اور حق بولنے والا، وفائے عہد کا بادشاہ، اہل فتنہ کی آنکھ پھوڑنے والا، امتحانات الٰہی میں سرفراز و سربلند، ناکثین کو دورکرنے والا، قاسطین و مارقین کو ذلیل و رسوا کرنے والا،خدا کے دین میں سخت کاربند،ذات الٰہی میں فانی حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ۔

حوالہ

حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء،جلد۱،صفحہ۶۱،باب ذکر علی علیہ السلام۔

احمد بن حنبل(رہبر مذہب حنبلی)

محمد ابن منصور کہتے ہیں کہ ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے اباعبداللہ! مجھے اس حدیث کے بارے میں بتائیں جو حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے:

”اَنَا قَسِیْمُ النّٰارِوَالْجَنَّة“

”میں جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والا ہوں“

احمد بن حنبل نے جواب دیا:

”وَمٰا تُنْکِرُوْنَ مَنْ ذٰا؟“

”تم اُس سے انکار کیوں کررہے ہو؟“

۱۸۰