آفتاب ولایت

آفتاب ولایت0%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی شیر حیدری
زمرہ جات: صفحے: 272
مشاہدے: 148445
ڈاؤنلوڈ: 4736

تبصرے:

آفتاب ولایت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148445 / ڈاؤنلوڈ: 4736
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کیا تمہارے پاس یہ روایت نہیں پہنچی جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:

”یٰا عَلِیُ: لا یُحِبُّکَ اِلَّا مُومِنٌ وَلَا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ“

”یا علی ! تم سے محبت نہیں رکھے گا مگر مومن اور تم سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق“۔

ہم نے کہا:ہاں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی علی علیہ السلام سے فرمایا تھا۔ احمد بن حنبل نے کہا کہ اب بتاؤ کہ مرنے کے بعد مومن کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:بہشت۔ احمد بن حنبل نے پھر پوچھا کہ بتاؤ کہ مرنے کے بعد منافق کی کونسی جگہ ہونی چاہئے؟ ہم نے کہا:آتش جہنم۔ اس پر احمد بن حنبل نے کہا کہ بے شک

”فَعَلِیٌّ قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّة“

حوالہ آثار الصادقین،جلد۱۴،صفحہ۴۴۰،نقل از امام الصادق،جلد۴،صفحہ۵۰۳۔

عبداللہ بن احمد حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے علی علیہ السلام اور امیر معاویہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ علی علیہ السلام کے بہت زیادہ دشمن تھے۔ انہوں نے علی علیہ السلام کے عیب ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن ایک بھی نہ ڈھونڈ سکے۔لہٰذا علی علیہ السلام کی شخصیت کو ختم کرنے کیلئے دشمنان علی علیہ السلام کی مدح سرائی کی۔

حوالہ جات

۱۔ کتاب”شیعہ“ مذاکرات علامہ طباطبائی مرحوم اور پروفیسر ہنری کرین کے درمیان ،

صفحہ۴۲۹،باب توضیحات،نقل از صواعق،صفحہ۷۶۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ینابیع المودة،باب سوم،صفحہ۳۴۴پر نقل کیا ہے۔

”جتنے فضائل حضرت علی علیہ السلام کی شان میں آئے ہیں، اتنے فضائل کسی اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نہیں آئے“۔

۱۸۱

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،کتاب ینابیع المودة،باب۵۹،صفحہ۳۳۵۔

۲۔ حاکم، المستدرک میں،جلد۳،صفحہ۱۰۷۔

۳۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال علی ،ج۳ص۶۳حدیث۱۱۰۸شرح محموی”علی ہمیشہ حق کے ساتھ تھے اور حق بھی ہمیشہ علی کے ساتھ تھا، جہاں کہیں بھی علی ہوں“۔

حوالہ

بوستان معرفت،مصنف:سید ہاشم حسینی تہرانی، صفحہ۶۸۰،نقل از ا بن عساکر، تاریخ حضرت علی علیہ السلام،جلد۳،صفحہ۸۴،روایت۱۱۱۷۔

”عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد کے پاس بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ وہاں آئے اور حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان کی خلافتوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے لگے ،یہاں تک کہ خلافت علی کا بھی ذکر آگیا تو میرے والد نے خلافت علی کے بارے میں کہا:

”اِنَّ الْخِلَافَةَ لَمْ تَزَیَّنْ عَلیّاً بَلْ عَلِیٌّ زَیَّنَهَا“

”خلافت از خود علی علیہ السلام کیلئے باعث زینت نہیں تھی بلکہ علی علیہ السلام کا خلیفہ بننا خلافت کیلئے زینت تھا“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،باب شرح حال امام علی ،جلد۳،صفحہ۱۱۴،حدیث۱۱۵۴

۲۔ خطیب،تاریخ بغدار میں،جلد۱،صفحہ۱۳۵،باب شرح حال علی علیہ السلام، شمارہ۱۔

۱۸۲

احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے صحابیوں کی افضلیت کے بارے میں سوال کیا تو میرے والد نے جواب دیا کہ ا بوبکر، عمر،عثمان(یعنی حضرت ابوبکرحضرت عمر سے افضل اور حضرت عمرحضرت عثمان سے افضل)۔میں نے پھر سوال کیا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس مرتبہ پر فائز ہیں تو میرے والد نے جواب دیا:

”هُوَمِنْ اَهْلِ الْبَیْتِ لَایُقَاسُ بِه هَولَاءِ“

”وہ(یعنی حضرت علی علیہ السلام) اہل بیت سے ہیں، اُن کا ان سے کوئی مقابلہ ہی نہیں“۔

ابن صباغ(مذہب مالکی کے مشہور مفکر)

ابن صباغ علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ:

”حکمت و دانائی اُن کے کلام سے جھلکتی تھی۔عقل و دانش ظاہری اور باطنی اُن کے دل میں بستی تھی۔ اُن کے سینے سے ہمیشہ علوم کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا اُبلتے تھے اور رسول خدا نے اُن کے بارے میں فرمایا:

”اَنَامَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُهَا“

”میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے“۔

حوالہ بوستان معرفت،صفحہ۶۹۸،نقل از فصول المہمة،تالیف ابن صباغ ،فصل اوّل،ص۱۸

شبلنجی(عالم مذہب شافعی،اہل مصر)

”سب تعریف اُس خدائے بزرگ کیلئے جس نے نعمتوں کا مکمل لباس ہمیں پہنا دیا اور ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام عرب و عجم پر چن لیا اور اُن کے خاندان کو سارے جہان پر برتری بخشی اور فضل و کرم سے اُن کو سب سے اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔ وہ دنیا و آخرت کی سرداری میں گویا سب سے آگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہر و باطن کے کمالات اُن کو عطاکردئیے اور وہ قابل فخر افتخارات و امتیازات کے مالک بنے“۔

حوالہ بوستان معرفت،صفحہ۶۹۹،نقل از نورالابصار،تالیف شبلنجی۔

۱۸۳

ابوعَلَم شافعی(عالم مذہب شافعی)

”اُس خاندان پاک کے بارے میں تم کیا سوچتے ہو کہ جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

”اِنَّمَایُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً“

”پس یہ اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہل بیت تم سے ہر قسم کے رجس(کمزوری،برائی،گناہ اور ناپاکی) کو دوررکھے اور تمہیں ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے“۔

پس یہ خاندان عنایت پروردگار سے معصوم ہیں اور قوت پروردگار سے اُس کی بندگی و اطاعت کیلئے آمادہ ہیں۔ ان کی دوستی اللہ نے مومنوں پر واجب کردی ہے۔ اس کو ایمان کا ستون قرار دیا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی )

”آپ کہہ دیجئے کہ میں اس پر کوئی اجر رسالت تم سے نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قریبیوں (اہل بیت ) سے محبت کرو“۔

پیغمبر اسلام نے بڑے واضح طریقہ سے بیان کیا ہے کہ میرے اہل بیت کشتی نجات ہیں اور اُمت کو اختلافات اور انحراف کی ہلاکتوں سے پناہ دینے والے ہیں۔

حوالہ بوستان معرفت،صفحہ۷۰۲،نقل از کتاب اہل بیت ،مصنف ابوعلم شافعی،آغازکتاب۔

خطیب خوارزمی(مفکر مذہب حنفی)

” امیر المومنین علی علیہ السلام،شجاعت و بہادری کا مرکز،علم نبوت کا وارث، قضاوت میں سب صحابہ سے بڑھ کر دانا، دین کا مضبوط قلعہ،امین خلیفہ،ہر اُس انسان سے زیادہ دانا اور عقلمند جو اس روئے زمین پر ہے اور آسمان کے نیچے ہے۔

رسول خدا کے بھائی اور چچا کے بیٹے کے غم و تکلیف کو مٹانے والا، اُس کا بیٹا پیغمبر خدا کا بیٹا،اُس کا خون پیغمبر خدا کا خون، اُس کا گوشت پیغمبر خدا کا گوشت،اُس کی ہڈیاں پیغمبر خدا کی ہڈیاں، اُس کی عقل و دانش پیغمبر خدا کی عقل و دانش، اُس کی اُس سے صلح جس سے پیغمبر خدا کی صلح اور اُس سے لڑائی جس کی پیغمبر خدا سے لڑائی ہے۔

۱۸۴

دنیا میں فضیلتیں ڈھونڈنے والوں کو انہی کے درسے فضائل ملتے ہیں۔توحید و عدل کے باغ انہی کے شگفتہ کلام سے سرسبز ہیں۔

وہی ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ وہی اندھیروں میں چراغ ہیں۔ اصل دانائی وہی ہیں۔ سر سے پاؤں تک انہی کی غیبی طاقت(حضرت جبرائیل ) تعریف کرتی ہے اور ان کے فضائل کی گواہ ہے“۔

حوالہ

بوستان معرفت،مصنف:سید ہاشم حسینی تہرانی،صفحہ۶۹۸،نقل از مناقب خوارزمی۔

”کیا ابوتراب کی طرح کوئی جوان ہے؟کیا اُس کی طرح پاکیزہ نسل کوئی رہبروپیشوا ہے۔ جب بھی میری آنکھ میں درد پیداہوتا ہے، اُسی کے قدموں کی خاک میری آنکھ کا سرمہ بنتی ہے۔ علی وہی ہے جو رات کو بارگاہ ایزدی میں گرکرروتا ہے اور دن کو ہنستے ہوئے میدان جنگ کی طرف جاتا ہے۔ اُس کا دامن بیت المال کے سرخ اور زرد ہیروں اور جواہرات سے پاک ہے۔ وہ وہی ہے جو بت توڑنے والا ہے۔ جس وقت اُس نے دوش پیغمبر پر اپناپاؤں رکھا، ایسے لگتا تھا جیسے تمام لوگ جسم کی کھال کی مانند ہیں اور مولیٰ اُس جسم کا مغز ہیں“۔

حوالہ

”داستان غدیر“،صفحہ۲۸۶،نقل از ”الغدیر“،جلد۴،صفحہ۳۸۵(جو مطالب بیان کئے گئے ہیں، یہ قصیدہ خوارزمی کے چند اشعار کا ترجمہ ہے)۔

ابن حجر عسقلانی(مفکرمعروف شافعی)

”امام علی جنگ ہائے جمل و صفین میں، جہاں بہت کشت و خون ہوا تھا،حق پر تھے“۔

حوالہ

”حق با علی است“،مصنف:مہدی فقیہ ایمانی، صفحہ۲۱۵،نقل از فتح الباری،شرح صحیح بخاری،۲۴۴/۱۲۔

۱۸۵

حمّوئی(عالم مذہب حنفی)

”سب تعریف اُس خدائے بزرگ کیلئے ہے جس نے اپنی نبوت و رسالت کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتہا کیا اور ان کے چچا زاد بھائی سے ولایت کا آغازکیا جو حضرت محمدکیلئے وہی نسبت رکھتے ہیں جو ہارون حضرت موسیٰ سے رکھتے تھے، سوائے اس کے کہ نبی نہ تھے۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرمکے پسندیدہ وصی تھے۔ علی علیہ السلام شہر علم کا دروازہ تھے۔ احسان و بخشش کی مشعل ،دانائی و حکمت کے مرکز،اسرار قرآن کے عالم،اُن کے معنی سے مطلع،قرآن کی ظاہری و باطنی حکمتوں سے آگاہ، جو لوگوں سے پوشیدہ ہے ،وہ اُن سے واقف اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے خاندان پر ولایت کو ختم کیایعنی اُن کے بیٹے حضرت حجت ابن الحسن علیہ السلام پر“۔

حوالہ بوستان معرفت،صفحہ۶۹۶،نقل از فرائد السمطین،مصنف:حموینی،اوّل کتاب۔

فوادفاروقی(اہل سنت کے مشہور مفکرو مصنف)

”میری جان علی علیہ السلام پر فدا ہو جن کے دل میں شجاعت اوردرد،بازؤوں میں طاقت،آنکھوں میں چمکوہ اُس کسی(پیغمبر اسلام)کے سوگ میں آنسو بہاتا ہے جو اس دنیا میں سب سے زیادہ صرف دو انسانوں سے محبت کرتے تھے، پہلی اُن کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور دوسرے آپ کے شوہر ۔“

حوالہ ۲۵سالہ سکوت علی علیہ السلام،مصنف: فواد فاروقی،صفحہ۱۶۔

”حضرت علی علیہ السلام کو دوسرے تمام مسلمانوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ علی علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ اس لحاظ سے مورخین و مصنفین اُن کو فرزند کعبہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اُن کی والدہ نے انہیں کعبہ میں جنا جو تمام مسلمانوں کیلئے مقدس ہے۔ علی علیہ السلام سب سے پہلے مرد ہیں جنہوں نے اسلام کو قبول کیا“۔

۱۸۶

حوالہ ۲۵سال سکوت علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ۳۸۔

”دوسری بڑی فضیلت جو اللہ تعالیٰ نے علی علیہ السلام کو عنایت فرمائی ،وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے بچپن ہی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں پرورش دلائی اور براہ راست وہ حضرت خدیجہ اور پیغمبر خدا کے زیر سایہ اورزیر عنایات رہے“۔

حوالہ ۲۵سال سکوت علی علیہ السلام، مصنف:فواد فاروقی،صفحہ۱۳۷۔

”اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ علی علیہ السلام بعدپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود کو مسلمانوں کی رہنمائی و خلافت کیلئے سب سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود جب تاریخ میں خلافت کا مسئلہ علی علیہ السلام کی خواہش قلبی کے برعکس طے ہوا تو انہوں نے مخالفت کی پالیسی اختیار نہ کی کیونکہ علی علیہ السلام کے نزدیک اسلام سب سے زیادہ اہم تھا“۔

حوالہ ۲۵سال سکوت علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ۳۹۔

”جب بھی بزرگان دین اور مفکرین کسی مسئلے کے حل کیلئے بے بس ہوجاتے تھے ،جانتے تھے کہ اب علی علیہ السلام کے پاس جانا چاہئے۔ ایسے دوست کے پاس جانا چاہئے جہاں سے وہ مدد مانگ سکیں اور جس کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی قضاوت کی تائید فرمائی ہو“۔

حوالہ ۲۵سال سکوت علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ۵۴۔

”حضرت علی علیہ السلام نے تمام زندگی اسلام اور مسلمین کی خدمت کرتے ہوئے تکالیف برداشت کیں۔چاہے وہ زمانہ پیغمبر اسلام کے ساتھ جنگوں میں شامل ہوکر شمشیر زنی کی ہو یا زمان خلافت صحابہ ہو یا اپنی خلافت کا زمانہ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ علی علیہ السلام نے سب سے زیادہ تکالیف اپنی خلافت و امامت کے زمانہ میں اٹھائیں کیونکہ وہ عدل و انصاف کے نمونہ تھے اور جتنی سختیاں مسلمانوں کو راہ راست پر لانے کیلئے برداشت کرنا پڑیں، اُن سے کئی سو گنا سختیاں علی علیہ السلام نے اپنی ذات پر برداشت کیں اور اُن کے گھر والوں نے برداشت کیں تاکہ اُن کے تقدس میں کوئی خلل نہ آنے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی صدیاں گزرجانے کے باوجود حضرت علی علیہ السلام کی حکمرانی دلوں پر قائم ہے ،زندہ باد نام علی علیہ السلام“۔

حوالہ ۲۵سال سکوت علی علیہ السلام،مصنف:فواد فاروقی،صفحہ۲۸۱۔

۱۸۷

شیخ عبداللہ شبراوی(عالم مذہب شافعی)

”یہ سلسلہ ہاشمی کہ جس میں خاندان مطہر نبوی،جماعت علوی اوربارہ امام شامل ہیں، ایک ہی نور سے پیوستہ ہیں جس نے سارے جہان کو روشن کیا ہوا ہے۔ یہ بہت فضیلتوں والے ہیں۔ اعلیٰ صفات کے مالک ہیں۔ شرف و عزت نفس والے ہیں اور باطن میں بزرگی محمدی رکھتے ہیں“۔

حوالہ : ”آئمہ اثنا عشری“،مصنف:شیخ احمد بن عبداللہ بن عباس جوہری،مقدمہ :آیت اللہ صافی گلپائیگانی،صفحہ۴۵،نقل از ”الاتحاف بحب الاشراف“،مصنف:شیخ عبداللہ شبراوی شافعی۔

ابوھذیل(اہل سنت کے مفکر اور دانشمند و استاد ابن ابی الحدید)

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں:”میں نے اپنے اُستاد ابوھذیل سے سنا ہے: جب کسی شخص نے اُن سے پوچھا کہ خدا کے نزدیک علی علیہ السلام افضل ہیں یا حضرت ابوبکر؟تو جواب میں ابوھذیل نے کہا:

وَاللّٰهِ لَمُبٰارِزَةِ عَلِیٍّ عَمْرویَوْمَ الْخَنْدَقِ تَعْدِلُ اَعْمٰال الْمُهٰاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِوَطٰاعٰاتِهِمْ کُلَّهَا تُرْبٰی عَلَیْهَا فَضْلاً عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ وَحْدَهُ

”خدا کی قسم! علی علیہ السلام کا جنگ خندق میں عمروبن عبدودسے مقابلہ بھاری ہے تمام مہاجرین و انصار کی عبادتوں اور اطاعتوں پر، حضرت ابوبکر کا تنہا کیا مقابلہ!“

حوالہ محمد رازی، کتاب’چراشیعہ شدم‘نقل از شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید،ج۴ص۳۳۴

ابن مغازلی(عالم معروف مذہب شافعی)

خدا کی حمدوثناء اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام کے بعد لکھتے ہیں:

”درودوسلام ہو علی علیہ السلام پر ،مومنوں کے امیر ، مسلمانوں کے آقا،سفید اور چمکدار پیشانی والوں کے رہبر، نیکوکاروں کے باپ، روشن چراغ۔درود ہو سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا پر، بتول عذرا پر،نساء العالمین کی سردا رپر،دختر رسول پر اور اُن کے دوفرزندوں پر،رسول کے نواسوں پر،جوانان جنت کے سرداروں پر“۔

حوالہ بوستان معرفت،ص۶۹۴،نقل از مناقب،مصنف:ابن مغازلی،کتاب کے آغاز میں

۱۸۸

عبدالرؤوف مناوی(عالم مذہب شافعی)

”اوّل وآخر کا خالق جانتا ہے کہ کتاب خدا کو سمجھنے کا انحصار علم علی علیہ السلام پر ہے“۔

حوالہ

بوستان معرفت،صفحہ۶۸۰،نقل از” مناوی در فیض القدیر“جلد۳،صفحہ۴۷پر عبدالرؤوف مناوی نے حدیث۲۷۰۵(انامدینة العلم وعلی بابھا) میں لکھا ہے۔

جاحظ(مفکر مذہب معتزلی)

”حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے برسر منبر کہا:’ہمارے خاندان کا کسی سے مقابلہ نہیں ہوسکتا‘۔

بالکل صحیح فرمایا۔ کس طرح مقابلہ ہو اُس خاندان سے کسی کا!اسی خاندان سے تو پیغمبر خداہیں اور اسی سے دو پاک فرزند (حسن اور حسین ) ہیں اور سب سے پاک یعنی علی و فاطمہ اور پیغمبر اسلام اورراہ خدا کے دو شہید :شیر خدا حمزہ اور صاحب عظمت حضرت جعفر “۔

حوالہ بوستان معرفت،صفحہ۶۸۸،نقل از شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۵۲۔

”حقیقت میں ذاتی دشمنیاں عقل سلیم کو نقصان پہنچاتی ہیں اورانسان کے اخلاق حسنہ کوخراب کرتی ہیں اور خصوصاً اہل بیت علیہم السلام سے دشمنی ،یعنی اُن کے فضائل اور اُن کی مسلّمہ افضلیت کو دوسروں کے مقابلہ میں جھگڑے کاباعث بنانا۔ لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم حق طلب کریں۔ اُسی کی پیروی کریں اور قرآن سے وہی مراد چاہیں جو حقیقتاً منظور خدا ہے۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تعصب و خواہشات نفس اور متقدمین(باپ دادا اور اساتذہ) کی غلط تقلیدکو دور پھینک دیں اور اہل بیت اطہار علیہم السلام اور عترت پیغمبرکی دوسروں پر افضلیت کو تسلیم کریں“۔

حوالہ بوستان معرفت،صفحہ۹۹۹،نقل از شیخ سلیمان قندوزی حنفی، باب۵۲،ینابیع المودة۔

”امیر المومنین علی علیہ السلام کے کئی سواقوال حکمت ہیں اور آپ کے ہر قول سے ہزار ہزار حکیمانہ اقوال تفسیرہوسکتے ہیں“۔

حوالہ بوستان معرفت،صفحہ۶۹۰،نقل از مناقب خوارزمی،باب۲۴،صفحہ۲۷۱۔

۱۸۹

حضرت علی علیہ السلام شعرائے اہل سنت کی نظر میں

شعروشاعری کی زبان میٹھی اور اثر انگیز ہے۔ اکثر اوقات شعراء حضرات دو مصرعوں میں مخاطب کو وہ بات کہہ دیتے ہیں کہ یہ کلمات اُس کو گزشتہ گمراہی سے باہر لاتے ہیں اور نور کی طرف ہدایت کرتے ہیں۔اس دنیا میں کوئی شخص ایسانہیں جو اشعار کی ان خصوصیات سے انکار کرے۔ اسی حقیقت کو نظامی ان الفاظ میں کہتے ہیں:

قافیہ سنجان کہ سخن برکشند

گنج دو عالم بہ سخن درکشند

اس بناء پر ایک مختصر سی نظر شعرائے اہل سنت کے کلام پر بھی ڈالیں گے جس میں انہوں نے منقبت و مدح مولیٰ علیہ السلام کی ہے۔

یہ نکتہ یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ شیعہ شعراء نے منقبت و مدح حضرت علی علیہ السلام میں کمال درجہ کے اشعار لکھے ہیں لیکن اس کتاب میں ہمارا مقصد اُن اشعار کو اکٹھا کرنا ہے جو برادران اہل سنت نے علی علیہ السلام کی شان میں کہے ہیں۔ لہٰذا ہم شیعہ شعراء کے کلام سے یہاں اجتناب کریں گے۔

۱۹۰

محمد بن ادریس شافعی(امام شافعی)

اذافی مجلس ذَکَرُواعلیاً

وسِبْطَیْهِ وَفاطمةَ الزَّکیَةَ

فَاجْریٰ بَعْضُهم ذِکریٰ سِوٰاهُ

فَاَیْقَنَ اَنَّهُ سَلَقْلَقِیَةَ

اِذٰا ذَکَرُوا عَلیَاً اَو ْبَنیهِ

تَشٰاغَلَ بِالْرِّوایاتِ الْعَلِیَةِ

یُقال تَجاوَزُوا یاقومِ هٰذا

فَهٰذا مِنْ حَدیثِ الرّٰافَضِیََّّةِ

بَرِئتُ الی الْمُهَیْمِن مِن اناسٍ

بَرونَ الرَّفْضَ حُبَّ الْفٰاطِمَیةِ

عَلیٰ آلِ الرَّسولِ صَلوةُ رَبِّی

وَ َلَعْنَتُهُ لِتِلْکَ الْجٰاهِلِیَّةِ

۱۹۱

”جب کسی محفل میں ذکر علی علیہ السلام ہویا ذکر سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاہویا اُن کے دوفرزندوں کا ذکر ہو، تب کچھ لوگ اس واسطے کہ لوگوں کو ذکر محمد و آل محمدسے دور رکھیں، دوسری باتیں چھیڑ دیتے ہیں۔ تمہیں یہ یقین کرلینا چاہئے کہ جوکوئی اس خاندان کے ذکر کیلئے اس طرح مانع ہوتا ہے،وہ بدکار عورت کا بیٹا ہے۔ وہ لمبی روایات درمیان میں لے آتے ہیں کہ علی و فاطمہ اور اُن کے دو فرزندوں کا ذکر نہ ہوسکے۔وہ یہ کہتے ہیں کہ اے لوگو! ان باتوں سے بچو کیونکہ یہ رافضیوں کی باتیں ہیں(میں جو امام شافعی ہوں) خدا کی طرف سے ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو فاطمہ سے دوستی و محبت کرنے والے کو رافضی کہتے ہیں۔ میرے رب کی طرف سے درودوسلام ہو آل رسول پر اور اس طرح کی جہالت(یعنی محبان آل رسول کو گمراہ یا رافضی کہنا) پر لعنت ہو“۔

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ۳۲۹،باب۶۲،از دیوان شافعی۔

۲۔ شبلنجی،کتاب نورالابصار میں،صفحہ۱۳۹،اشاعت سال۱۲۹۰۔

علیٌّ حُبُّهُ الْجُنَّة

اِمامُ النّٰاسِ وَالْجِنَّة

وَصِیُّ المُصْطَفيٰ حَقّاً

قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّة

”حضرت علی علیہ السلام کی محبت ڈھال ہے۔ وہ انسانوں اور جنوں کے امام ہیں۔ وہ حضرت محمد مصطفےٰ کے برحق جانشین ہیں اور جنت اور دوزخ تقسیم کرنے والے ہیں“۔

حوالہ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں،جلد۱،صفحہ۳۲۶۔

۱۹۲

قٰالُوا تَرَفَّضْتَ قُلْتُ کَلّٰا

مَاالرَّفْضُ دِیْنی وَلَااعْتِقٰادِی

لٰکِنْ تَوَلَّیْتُ غَیْرَ شَکٍّ

خَیْرَ اِمامٍ وَ خَیْرَ هٰادٍ

اِنَّ کٰانَ حُبُّ الْوَصِیِّ رَفْضاً

فَاِنَّنِی اَرْفَضُ الْعِبٰادِ

”مجھے کہتے ہیں کہ تو رافضی ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کہ رافضی ہونا ہرگز میرا دین اور اعتقاد نہیں۔ لیکن بغیر کسی شک کے میں بہترین ہادی و امام کو دوست رکھتا ہوں۔ اگر وصی پیغمبر سے دوستی و محبت رکھنا رفض(رافضی ہونا) ہے تو میں انسانوں میں سب سے بڑا رافضی ہوں“۔

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة،صفحہ۳۳۰،اشاعت قم،طبع اوّل۱۳۷۱۔

۲۔ شبلنجی، کتاب نورالابصار،صفحہ۱۳۹،اشاعت ۱۲۹۰۔

۱۹۳

یٰارٰاکِباً قِفْ بِالْمُحَصَّبِ مِنْ مِنیٰ

وَاهْتِفْ بِسٰاکِنِ خِیْفِهٰا وَالنّٰاهِضِ

سَحَراً اِذَافَاضَ الْحَجِیْجُ اِلٰی مِنیٰ

فَیْضاً کَمُلْتَطَمِ الْفُراتِ الْفٰائِضِ

اَنْ کٰانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ

فَلْیُشْهَدِ الثَّقَلاٰنِِ اِنِّیْ رٰافِضِیْ

”اے سواری! تو جو مکہ جارہی ہے،ریگستان منیٰ میں توقف کرنا،صبح کے وقت جب حاجی منیٰ کی طرف آرہے ہوں تو مسجد خیف کے رہنے والوں کو آواز دینا اور کہنا کہ اگر دوستی آل محمد رفض ہے تو جن و انس یہ شہادت دیتے ہیں کہ میں رافضی ہوں“۔

حوالہ جات

۱۔ ابن حجر مکی،صواعق محرقہ،باب۹،صفحہ۹۷،اشاعت مصر۔

۲۔ یاقوت حموی، کتاب معجم الادباء،جلد۶،صفحہ۳۸۷۔

۳۔ فخر رازی، تفسیر کبیر میں،جلد۷،صفحہ۴۰۶۔

۱۹۴

وَلَمَّا رَأَیْتُ النّٰاسَ قَدْ ذَهَبَتْ بِهِمْ

مَذَاهِبُهُمْ فِیْ اَبْحَرِ الْغَیِّ وَالْجَهْلِ

رَکِبْتُ عَلَی اسْمِ اللّٰهِ فِیْ سُفُنِ النَّجٰا

وَهُمْ اَهْلُ بَیْتِ الْمُصْطَفیٰ خٰاتِمِ الرُّسُلِ

وَاَمْسَکْتُ حَبْلَ اللّٰهِ وَهُوَوِلاٰوهُمْ

کَمٰا قَدْ اُمِرْنٰا بِالتَمَسُّکِ بِالْحَبْلِ

اِذَا افْتَرَقَتْ فِی الدِّیْن سَبْعُوْنَ فِرْقَةً

وَنِیْفاًعَلیٰ مٰاجٰاءَ فِیْ وٰاضِحِ النَّقْلِ

وَلَم یَکُ ناجٍ مِنْهُمْ غَیْرَ فِرْقَةٍ

فَقُلْ لِیْ بِهٰا یٰا ذَاالرَّجٰاجَةِ وَالْعَقْلِ

أَفِی الْفِرْقَةِ الْهُلاٰکِ آلُ مُحَمَّد

اَمِ الْفِرْقَةُ الّلا تِیْ نَجَتْ مِنْهُمْ قُلْ لِیْ

۱۹۵

فَاِنْ قُلْتَ فِی النّٰاجَیْنِ فَالْقَوْلُ وٰاحِدٌ

وَاِنْ قُلْتَ فِی الْهُلاٰکِ حَفْتَ عَنِ الْعَدْلِ

اِذَاکٰانَ مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْهُمْ فَاِنَّنِیْ

رَضِیْتُ بِهِمْ لاٰزٰالَ فِیْ ظِلِّهِمْ ظِلِّیْ

رَضِیْتُ عَلِیّاً لِیْ اِمٰاماً وَنَسْلَهُ

وَاَنْتَ مِنْ الْبٰاقِیْنَ فِیْ اَوْسَعِ الْحَلِ

”جب میں نے لوگوں کو جہالت اور گمراہی کے سمندر میں غرق دیکھا تو پھر بنام خدا کشتی نجات (خاندان رسالت اور اہل بیت اطہار علیہم السلام) کا دامن پکڑا اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو تھاما کیونکہ اللہ کی رسی جو دوستی خاندان رسالت ہے ،کو پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔جس زمانہ میں دین تہتر فرقوں میں بٹ جائے گا تو کہتے ہیں کہ صرف ایک ہی فرقہ حق پر ہوگا ،باقی باطل پر ہوں گے۔اے عقل و دانش رکھنے والے! مجھے بتا کہ جس فرقہ میں محمد اورآل محمد ہوں گے، کیا وہ فرقہ باطل پر ہوگا یا حق پر ہوگا؟ اگر تو کہے کہ وہ فرقہ حق پر ہوگا تو تیرا اور میرا کلام ایک ہے اور اگر تو کہے کہ وہ فرقہ باطل اور گمراہی پر ہوگا تو تو یقینا صراط مستقیم سے منحرف ہوگیا ہے۔

یہ جان لو کہ خاندان رسالت قطعاً اور یقینا حق پر ہے اور صراط مستقیم پر ہے۔ میں بھی اُن سے راضی ہوں اور اُن کے طریقے کو قبول کرتا ہوں۔ پروردگار! اُن کا سایہ مجھ پر ہمیشہ قائم و دائم رکھ۔ میں حضرت علی علیہ السلام اور اُن کی اولاد کی امامت پرراضی ہوں کیونکہ وہ حق پر ہیں اور تو اپنے فرقے پر رہ ،یہاں تک کہ حقیقت تیرے اوپر واضح ہوجائے“۔

حوالہ

کتاب شبہائے پشاور،صفحہ۲۲۷،نقل از ذخیرة المال،مصنف:علامہ فاضل عجیلی۔

۱۹۶

یااَهْلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰهِ حُبُّکُمْ

فَرَضٌ مِنَ اللّٰهِ فِی الْقُرآنِ اَنْزَلَهُ

کَفَاکُمْ مِنْ عَظِیْمِ الْقَدْرِ اِنَّکُمْ

مَنْ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْکُمْ لَاصَلوٰةَ لَهُ

”اے اہل بیت رسول اللہ!آپ کی دوستی و محبت اللہ کی جانب سے قرآن میں فرض قرار دی گئی ہے:

(مندرجہ بالا اشعار میں امام شافعی کا اشارہ آیت زیر کی طرف ہے:

( قُلْ لا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی )

آپ کی قدرومنزلت کیلئے یہی کافی ہے کہ جو آپ پر درود نہ پڑھے، اُس کی نماز قبول

نہیں ہوتی“۔

اشعار کے آخر میں سخت و تند لہجہ میں دشمنان اہل بیت کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

لَولَمْ تَکُنْ فِی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ

ثَکَلَتْکَ اُمُّکَ غَیْرَ طَیِّبِ الْمَوْلِدِ

”اگر تم میں آل محمدکی محبت نہیں تو تمہاری ماں تمہارے لئے عزا میں بیٹھے کہ تم یقینا حرامزادے ہو۔

حوالہ جات

۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینا بیع المودة،صفحہ۳۵۴،۳۶۶،اشاعت قم،طبع اوّل۱۳۷۱۔

۲۔ ابن حجر، کتاب صواعق محرقہ، صفحہ۸۸۔

۱۹۷

ابن ابی الحدید معتزلی(اہل سنت کے بہت بڑے عالم)

لو لا ابو طالبٍ و ابنُهُ

لَمَا مِثْلُ الدِّیْنِ شخصاً فقاما

فذاک بمکة اوی و حامی

و هذا بیثربٍ جَسََّ الْحَمٰامٰا

تَکَفَّلَ عَبْدَ مَنٰافٍ بامرٍ

وَ أودیٰ فکان عَلِیٌّ تَمٰامٰا

فَقُلْ فِیْ ثَبِیْرٍ مضی بعد ما

قضیٰ ما قضاء وأبقی شَماما

فَللّٰهِ ذا فاتحاً لِلْهدی

وَلِلّٰهِ ذَالِلْمَعٰالِیْ خِتاما

وَمٰاضَرَّ مَجْدَ اَبِیْ طالبٍ

جَهُوْلٌ لَغٰا اَوْ بَصِیْرٌ تعامیٰ

کما لا یضر اِیٰابُ الصَّبا

حِ مَنْ ظَنَّ ضَوْءَ النَّهٰارِ الظَّلامٰا

۱۹۸

”اگر حضرت ابو طالب اور اُن کا بیٹا(حضرت علی علیہ السلام) نہ ہوتے تو دین اسلام اس طرح مضبوط اور اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکتا۔ حضرت ابوطالب نے حضرت(پیغمبر اسلام) کو مکہ میں پایا اور حمایت کی جبکہ علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام کو مدینہ میں تلاش کیا اور حمایت کی۔حضرت ابوطالب اپنے والد عبدالمطلب کے حکم پر عبد مناف کے فرزندوں کے امور کے محافظ بن گئے اور علی علیہ السلام نے یہ ذمہ داری احسن طریقہ سے آخر تک نبھائی اور اس کی تکمیل

کی۔ پس کہو اُس کے بارے میں جو قضائے الٰہی سے فوت ہوگئے لیکن اپنی خوشبو(علی علیہ السلام) کی صورت میں چھوڑ گئے۔ حضرت ابوطالب نے رضائے خدا کیلئے دین کی خدمت کی اور علی علیہ السلام نے اُس کی تکمیل کی اور اُس کو اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔ جاہلوں اور نادانوں کی لغو باتیں اور داناؤں کی اندھی باتیں عظمت ابوطالب کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ اگر کوئی روز روشن کو رات کہے اور روشنی کو تاریکی لکھے تو اس سے نورانیت روز اور روشنی پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا“۔

حوالہ

شرح نہج البلاغہ میں ابن ابی الحدید نے جلد۳،صفحہ۳۲۱،اشاعت بیروت،صفحہ۳۱۸اور اشاعت مصرمیں یہ اشعار بزرگی ابو طالب علیہ السلام کیلئے لکھے۔

و خیرُ خلقِ اللّٰهِ بَعْدَ الْمصطفیٰ

اعظمُهُم یومَ الفَخار شَرَفا

السَّیِّدَ الْمُعَظَّمُ الْوَصِیُّ

بَعْلُ الْبَتُولِ المرتضیٰ عَلِیٌّ

وابناهُ ثُمَّ حَمزةٌ و جَعفرٌ

ثُمَّ عتیقٌ بَعْدَهُمْ لاٰ یُنْکَرُ

۱۹۹

”رسول خداکے بعد بہترین انسان، یوم افتخار میں سب شرفاء سے زیادہ بزرگ، وصی مصطفےٰ، ہمسر بتول ، عزت و شرف والا سید وسردار علی مرتضیٰ علیہ السلام ہیں۔ اُن کے بعد اُن کے دو بیٹے(حسن اور حسین ) اور اُن کے بعد حمزہ و جعفر طیار ہیں“۔

حوالہ

ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،جلد۳،صفحہ۴۰،اشاعت مصر اور اشاعت بیروت۔

یَقُوْلُوْنَ لِیْ قُلْ فِیْ عَلِیٍّ مَدَائِحُ

فَاِنْ اَنَالَمْ اَمْدَحْهُ قٰالُوْا مُعٰانِدٌ

وَمٰاصُنْتُ عَنْهُ الشِّعْرَمَنْ ضَعْفِ هٰاجِسٍ

وَلاٰ اِنَّنِیْ عَنْ مَذْهَبِ الْحَقِّ عٰائِدٌ

فَلَوْ اَنَّ مٰاءَ الْاَبْحُرِ السِبْعَةِ الَّلتِیْ

خُلِقْنَ مِدٰادٌ وَالسَّمٰوٰاتِ کٰاغِذٌ

وَاَشْجٰارَ خَلْقِ اللّٰهِ اَقلاٰمُ کٰاتِبٍ

اِذِالْخَلْقُ اَفْنٰاهُنَّ عٰادَتْ عَوٰائِدٌ

وَکٰانَ جَمِیْعُ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ کٰاتباً

اِذاًکَلَّ مِنْهُمْ وٰاحِدً بَعْدُ وٰاحِدٌ

۲۰۰