آفتاب ولایت

آفتاب ولایت0%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی شیر حیدری
زمرہ جات: صفحے: 272
مشاہدے: 148393
ڈاؤنلوڈ: 4718

تبصرے:

آفتاب ولایت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148393 / ڈاؤنلوڈ: 4718
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فَخَطُّوْا جَمِیْعاً مَنْقَباً بَعْدَ مَنْقَبٍ

لَمٰا خُطَّ مِنْ تِلْکَ الْمَنٰاقِبِ وٰاحِدٌ

”لوگ مجھے کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی مداحی کروں۔ اگر میں آنحضرت کی مداحی نہ کروں تو ڈرتا ہوں کہ مجھے اُن کا دشمن کہیں گے۔ اگر کبھی کبھی میں اُن کی شان میں کچھ شعر کہہ دیتا ہوں تو وہ ضعف نفس کی وجہ سے نہیں اور میں وہ نہیں ہوں جو مذہب حق سے پھر جاؤں۔ اگر سات دریا جو پیدا کئے گئے ہیں،اُن کے پانی کو جمع کیا جائے اور تمام آسمان کاغذ کی شکل بن جائے اور

تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام لوگ یکے بعد دیگرے لکھ لکھ کر تھک جائیں اور چاہیں کہ آنحضرت کی فضیلتیں اور خوبیاں لکھیں تووہ آنحضرت(علی علیہ السلام) کی ایک فضیلت بھی نہ لکھ سکیں گے“۔

حوالہ

ابن ابی الحدید، کتاب ”علی ،چہرئہ درخشان اسلام“ترجمہ: علی دوانی، صفحہ۵(مقدمہ کتاب)

اَلَمْ تُخْبَرِالاخبارَ فی فتحِ خیبرٍ

ففیها لِذِی الُّلبِّ الملبِّ أعٰاجیب

وما اَنَساالْاُنسَ اللَّذین تَقدَّما

وفرَّهما والفرُّ قد عَلِماحوب

۲۰۱

وللرّایة العظمی وقد ذَهَبابها

مَلابِسُ ذُلٍّ فوقَها و جلابیب

یَشِلُّهُمٰا من آل موسیٰ شَمَردَلُ

طویلُ نجادِ السَّیف اجیدُ یعبوب

یَمجُّ مَنوناً سیفُه وسنانُه

ویَلْهَبُ ناراً غَمْدُهُ والانابیب

اُحَضِّرْهُمٰا اَمْ حُضِّرْاخَرْجَ خاضبٍ

وَ ذانَهُمٰاام ناعم الخدّ مخضوب

عذرتکما انّ الحمام لمبغض

وانّ بقاء النّفس للنّفس محبوب

لیکره طعم الموت والموت طالب

فکیف یلذّالموت والموت مطلوب

۲۰۲

”کیا تو نے فتح خیبر کا پورا واقعہ نہیں پڑھا ہے جو مختلف رموز و اشارات و عجائب سے بھرا پڑا ہے اور عاقلوں کیلئے موجب حیرت ہے کیونکہ وہ دونوں حضرات(یعنی ابوبکر  اور عمر  )علوم و فنون جنگ سے آشنا نہ تھے۔لہٰذا انہوں نے اُسے(پرچم باعظمت کو) پشیمانی و ذلت والا لباس پہنایا اور جنگ میں فرار کو قرار پر اختیار کیا حالانکہ یہ بھی جانتے تھے کہ جنگ میں فرار گناہ ہے۔ یہ اس لئے کہ یہودیوں کے سرداروں میں ایک جوان بلند قدوقامت،مضبوط گھوڑے پر سوار، ہاتھ میں ننگی تلوار لئے ہوئے،ہوا میں لہراتا ہوا ان پر ایسے حملہ آور ہوا تھا جیسے دست بستہ دوخوش صورت پرحملہ کررہا ہو۔

موت کا خوف ،تلوار کی جھنک اور نیزے کی کھنک نے اُن کے دل ہلا دئیے ۔(ابن ابی الحدید کہتے ہیں) کہ میں آپ(حضرت ابوبکر  اور حضرت عمر  ) کی طرف سے معذرت چاہتا ہوں کیونکہ موت ہر انسان کیلئے باعث ترس ہے اور زندگی ہر انسان کیلئے محبوب ہے۔ آپ دونوں بھی(دوسروں کی طرح) موت کا مزہ چکھنے سے بیزار تھے ،حالانکہ موت ہر ایک کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ پس کس طرح تم خود موت کو چاہتے اور اُس کا مزہ چکھتے“۔

حوالہ کتاب شبہائے پشاور،صفحہ۴۱۶،یہ اشعار اُن سات قصیدوں میں سے ہیں جو ابن ابی الحدید نے مولا علی علیہ السلام کی شان میں کہے تھے۔

قاضی ابوالقاسم تنوخی

من ابن رسول اللّٰه وابن وصیّه

الی مدغل فی عقبة الدّین ناصب

نشابین طنبور وزق و مزهر

وفی حجر شاد اوعلی صدر ضارب

۲۰۳

ومن ظهر سکران الی بطن قینه

علی شبه فی ملکها و سوائب

یعیب علیّاً خیر من وطأ الحصی

واکرم سارفی الانام وسوائب

ویزری علی السبطین سبطی محمّد

فقل فی حضیض رام نیل الکواکب

و ینسب افعال القرامط کاذباً

الی عترة الهادی الکرام الأطائب

الی معشر لایبرح الذّم بینهم

ولا تزدری اعراضهم بالمعائب

اذا ما انتدواکانواشموس بیوتهم

وان رکبواکانواشموس المواکب

۲۰۴

وان عبسوا یوم الوغی ضحک الردی

وان ضحکوا أبکواعیون النوادب

نشوبین جبریل وبین محمّد

وبین علیّ خیر ماش و راکب

وزیر النبی المصطفی ووصیه

ومشبهه فی شیمه وضرائب

ومن قال فی یوم الغدیر محمّد

وقدخاف من غدر العداة النواصب

أمٰااِنَّنِی اولی بکم من نفوسکم

فقالوا:بلی قول المریب الموارب

فقال لهم:من کنت مولاه منکم

فهذا أخی مولاه بعدی وصاحبی

اطیعوه طراً فهومنی بمنزل

کهارون من موسی الکلیم المخاطب

۲۰۵

”یہ پیغام فرزند رسول اور فرزند وصی رسول کی جانب سے اُس کی طرف ہے جو دھوکے باز اور ناصبی ہے(اس میں مخاطب عبداللہ بن معز عباسی ہے جو آل ابوطالب کا سخت دشمن تھا اور تمام دشمنان آل ابوطالب بھی مخاطب ہیں)اور جس نے بلاشک و شبہ طبلہ و سارنگی ،موسیقی و نغمہ کے ماحول میں پرورش پائی ہے۔ یہ پیغام اُس کی طرف ہے جو علی علیہ السلام جیسی جری اور بہادر شخصیت اسلام میں عیب جوئی کرتا ہے۔ اُس کی طرف ہے جو دوفرزندان رسول اللہ کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ اُسے کہہ دیجئے کہ اُس کا مقام پست ترین جگہ ہوگا۔

یہ وہی ہے جو افعال بد کو اپنی گمراہی کی وجہ سے پیغمبر خدا کے خاندان کی طرف نسبت دیتا ہے جبکہ خاندان پیغمبر خدا انتہائی پاک اور بلند ہیں اور کسی قسم کی برائی اُن تک رسائی نہیں پاسکتی اور کسی قسم کا بھی کوئی عیب اُن کی عصمت و طہارت کو چھو نہیں سکتا۔ وہ (خاندان رسول) جس محفل میں ہوں،اُسے منور کردیتے ہیں اور اُس میں مانند خورشید چمکتے ہیں۔

وہ جس سواری پر سوا رہوں،ا ُس کیلئے باعث شرف ہوتے ہیں۔ وہ سواری باقی سواریوں میں مثل خورشید ممتاز ہو جاتی ہے۔ اگر جنگ کے روز آنکھیں کھولیں تو ہلاکت ہنستی ہے اور اگر وہ ہنسیں تو دیدئہ حوادث روتی ہے۔

یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم ،حضرت علی علیہ السلام اور حضرت جبرئیل جو کہ بہترین پیادہ اور بہترین سوار ہیں، کے درمیان پرورش پائی ہے۔ علی علیہ السلام جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کے وزیر ہیں اور اُن کے وصی ہیں اور اخلاق و اطوار میں اُن کی شبیہ ہیں اور ان کے بارے میں پیغمبر اسلام نے اُن مخصوص حالات میں جب وہ ناصبیوں سے دشمنی کا خطرہ بھی محسوس کررہے تھے، فرمایاکہ:’اے لوگو! کیا تمہیں میں تمہاری جانوں سے زیادہ عزیز نہیں ہوں؟‘ تو سب نے بغیر کسی تردد کے کہا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ہیں۔ پس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا:

”جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ علی جو میرا بھائی اور دوست ہے، میرے بعد مولا ہے۔ سب اُس کی اطاعت کریں ۔ اُس کی نسبت میرے نزدیک ایسے ہے جیسے حضرت ہارون کی نسبت حضرت موسی کلیم اللہ سے تھی“۔

۲۰۶

تعارف قاضی ابوالقاسم تنوخی

قاضی ابوالقاسم تنوخی چوتھی صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ وہ ایک دانشمند اور مذہب حنفی سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کا یہ کلام کتاب ”الغدیر“،جلد۳،صفحہ۳۷۷سے نقل کیا گیا ہے۔

خطیب خوارزمی(مذہب حنفیہ کے بہت بڑے مفکر)

ألاهل من فتی کأبی ترابٍ

امام طاهر فوق الترابِ

اذاما مقلتی رمدت فکحلی

ترابٌ مسَّ نعل أبی ترابٍ

محمّد النّبیُ کمصر علم

امیرالمومنین له کَبٰابٍ

هوالبکّاء فی المحراب لکن

هوالضحاک فی یوم الحرابِ

۲۰۷

وعن حمراء بیت المال أمسی

وعن صفرائه صفر الوطابِ

شیاطین الوغی دُحروا دحوراً

به اِذ سلَّ سیفاً کالشهابِ

علیٌ بالهدایة قد تحلّی

ولمّا یدرع برد الشبابِ

علی کاسر الأصنام لمّا

علاکتف النَّبیِّ بلا احتجابِ

علیٌ فی النساء له وصیٌ

أمین لم یمانع بالحجابِ

علیٌ قاتلٌ عمرو بن ودّ

بضرب عامر البلد الخرابِ

۲۰۸

حدیث برائة وغدیر خمّ

ورایة خیبر فصل الخطابِ

هما مثلاً کهارون و موسیٰ

بتمثیل النَّبیِّ بلا ارتیابِ

بنی فی المسجد المخصوص باباً

له اذ سدَّ أبواب الصّحابِ

کأنُ الناس کلّهم قشورٌ

و مولانا علیٌ کاللبابِ

ولایة بلاریب کطوقٍ

علی رغم المعاطس فی الرّقابِ

اذا عُمَرُ تخبَّط فی جواب

ونَبّهه علیٌ بالصَّوابِ

یقول بعَدلِه لولا علیٌّ

هلکتُ هلکتُ فی ذاک الجوابِ

ففاطمةٌ و مولانا علیٌ

ونجلاء سروری فی الکتابِ

۲۰۹

و من یک دأبه تشبید بیتٍ

فها أنا مدح أهل البیت دابی

و ان یکن حبّهم هیهات عاباً

فها أنا مذ عقلت قرین عابٍ

لقد قتلوا علیّاً مذ تجلّی

لأهل الحقِّ فحلاً فی الضَّرابِ

و قد قتلوا الرضا الحسن المرجّی

جواد العرب بالسمّ المذابِ

وقد منعواالحسین الماء ظلماً

وجُدّلِ بالطعان وبالضّرابِ

ولولا زینب قتلوا علیاً

صغیراً قتل بقٍّ او ذُبابٍ

وقد صلبواامام الحقِّ زیداً

فیاللّٰهِ من ظلم عجابٍ

بنات محمد فی الشمس عطشی

و آل یزید فی ظلّ القبابِ

لآل یزید من اٰدم خیامٌ

و أصحاب الکساء بلا ثیابٍ

۲۱۰

”ابوتراب جیسا جوان کہاں ہے اور ابوتراب جیسا پاک رہبر اس دنیا میں کہاں ہے؟ اگر میری آنکھیں تکلیف میں مبتلا ہوجائیں تو میں ان کے جوتے سے لگی ہوئی خاک کو سرمہ بنالوں۔حضرت محمد مصطفےٰ علم کا شہر ہیں اور امیرالمومنین علی علیہ السلام اس شہرعلم کا دروازہیں۔ محراب عبادت میں گریہ کرتے اور میدان جنگ میں ہنستے ہوئے آتے۔ آپ نے دنیاوی زرودولت سے آنکھیں بند کرلیں اور درہم و دینار اکٹھے نہ کئے۔وہ میدان جنگ میں شیطان کے لشکر کو تہس نہس کردیتے تھے کیونکہ اُن کی شمشیر بجلی بن کر دشمن پر گرتی تھی۔

یہ حضرت علی علیہ السلام ہیں جو نور ہدایت سے مز ّین تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ جوانی میں قدم رکھتے، انہوں نے اہل مکہ کے بت پیغمبر اسلام کے دوش مبارک پرکھڑے ہوکر پاش پاش کردئیے۔ یہ علی علیہ السلام ہی تھے جو بہ نص وصیت پیغمبراُمہات المومنین کے کفیل بنے۔ علی علیہ السلام اور پیغمبر خدا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں تھا۔ علی علیہ السلام نے اپنی شمشیر کی ضرب سے عمر بن عبدود کو زمین پر گرادیا۔ یہ ایسی ضربت تھی جس نے اسلام کو آباد کردیا اور کفر کو برباد کردیا۔ حدیث برائت اور غدیر خم اور روز خیبرآپ کو پرچم کا عطا کرنا ذرا یاد کرو۔حضرت محمد اور حضرت علی علیہ السلام کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے حضرت موسیٰ کی حضرت ہارون سے تھی۔ یہ نسبت خود پیغمبر اسلام نے بیان فرمائی ہے۔ مسجد میں تمام کھلنے والے دروازے بند کروادئیے مگر علی علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رکھا۔ تمام انسان مانند جسم ہیں اور مولا امیر المومنین علی علیہ السلام کی مثال مغز کی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت تمام مومنوں کی گردنوں میں مانند طوق ہے۔آپ نے دشمن کی ناک کو خاک پر رگڑا۔جب بھی عمر بن خطاب نے مسائل دینیہ میں غلطی کی توعلی علیہ السلام نے اُس کو ٹھیک کردیا۔ اسی واسطے حضرت عمر نے کہا کہ اگر علی علیہ السلام نہ ہوتے اور میری غلطیوں کی اصلاح نہ فرماتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ لہٰذا جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور امیرالمومنین علی

۲۱۱

علیہ السلام اور اُن کے دو بیٹے ہمارے لئے باعث خوشی و مسرت ہیں۔ کوئی جس خاندان کی چاہے مدح خوانی کرے مگر میں تو اہل بیت محمد کا ثناء خواں ہوں۔ اگر اُن سے محبت باعث ندامت و شرمندگی ہے، اور حیف ہے کہ ایسا ہو تو پھر جس روز سے مجھے عقل آئی تو میں اُس روز سے اس ندامت و شرمندگی کو قبول کرتا ہوں۔علی علیہ السلام جو کہ حق پرستوں کے رہبر تھے، وہ اکیلے ہی مرد میدان تھے۔ اُن کے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو قتل کردیا۔ اُن کے بیٹے امام حسین علیہ السلام کو آب فرات سے محروم رکھا اور تیروتلوار اور نیزہ سے اُن کو خاک و خون میں غلطان کردیاگیا۔ اگر سیدئہ زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو(وہ لوگ) علی ابن الحسین علیہما السلام کو بھی قتل کردیتے۔ کمسن زید بن علی علیہ السلام کو سولی پر چڑھا دیا۔ پروردگار!یہ کتنا بڑا ظلم تھا۔کیا یہ عجیب نہیں کہ محمد کی بیٹیاں دھوپ میں پیاسی کھڑی ہوں اور یزید کے اہل خانہ محل میں آرام کررہے ہوں۔ آل رسول کیلئے جو اصحاب کساء ہیں،کوئی چادر نہ ہو جبکہ اہل یزید کیلئے زرق برق لباس ہوں“۔

حوالہ کتاب ”الغدیر“جلد۴،صفحہ۳۹۷میں ،یہ خوارزمی کا قصیدہ درج ہے۔ یاد رہے کہ حافظ ابوالموید،ابومحمد، موفق بن احمد بن ابی سعید اسحاق بن موی د مکی حنفی علمائے اہل سنت میں مشہور عالم ہیں جو چھٹی صدی ہجری میں گزرے ہیں۔

۲۱۲

محی الدین عربی(مذہب حنفی کے ایک معروف مفکر)

رَأَیتُ وِلاٰئی آلَ طٰه فَریضةً

علیٰ رغمِ اَهْلِ الْبُعْدِ یُورِثُنِی الْقُرْبیٰ

فمٰا طَلَبَ الْمَبْعُوْثُ اَجراً عَلیَ الْهُدیٰ

بِتَبْلِیْغِهِ اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ

”اہل بیت محمد کو دوست رکھنا میرے اوپر واجب ہے کیونکہ ان کی دوستی مجھے خدا کے نزدیک کردیتی ہے ،برخلاف اُن کے جن کی دوستی خدا سے دور کردیتی ہے۔ پیغمبر اسلام نے تبلیغ دین پر اپنی کوئی اُجرت طلب نہیں کی سوائے اس کے کہ اُن کے قرابت داروں(اہل بیت یعنی علی علیہ السلام، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام) سے محبت کی جائے“۔

حوالہ

کتاب”زندگانی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا“،مصنف:شہید محراب آیة اللہ دستغیب، صفحہ۳۵،نقل از ”الصواعق“۔

قاضی فضل بن روزبہان(عالم معروف اہل سنت)

سلامٌ علی المصطفیٰ المجتبیٰ

سلامٌ علی السیّد المرتضیٰ

سلام علی سیّدِتنا البتول

مَن اختارها اللّٰه خیر النّساء

۲۱۳

سلام من الْمِسْک اَنفاسُهُ

علی الحسن الامعیِّ الرّضا

سلام علی الاورعی الحسین

شهید یری جسمه کربلا

سلام علی سیّد العابدین

علی ابن الحسین الزّکی المجتبیٰ

سلام علی الباقر المهتدی

سلام علی الصّادق المقتدی

سلام علی الکاظم الممتحن

رضیّ السجایا امام التقی

سلام علی الثّامن الموتمن

علیّ الرّضا سیّدِ الاصفیاء

سلام علی المتّقی التّقی

محمّد الطیب المرتجی

سلام علی الالمعیّ النّقی

علیّ المکرّم هادی الوری

۲۱۴

سلام علی السیّد العسکری

امام یجهزّ جیش الصَّفا

سلام علی القائم المنتظر

أبی القاسم الغرّ نورالهدی

سیطلع کالشّمس فی غاسق

ینجیه من سیفه المنتفی

تری یملا الارض من عدله

کما ملأت جور اهل الهوی

سلام علیه و آبائه

و انصاره ما تدوم السَّماء

”سلام ہو اُن پر جو مصطفےٰ بھی ہیں اور مجتبیٰ بھی ہیں۔ سلام ہو ہمارے مولا علی المرتضیٰ پر۔

سلام ہو سیدہ فاطمة الزہرا پر جو بتول ہیں ،جن کو خدا نے دنیا کی تمام عورتوں کا سردار چن لیا۔

سلام ہواُس پر کہ جس کے نفس سے مُشک و عنبر کی خوشبو آتی تھی یعنی امام حسن علیہ السلام جونہایت عقلمند اور ہردلعزیز ہیں۔

سلام ہو پرہیزگار ترین فرد شہید کربلاحسین ابن علی پر کہ جن کا جسم شہادت کے بعد کربلا میں دیکھا گیا۔

۲۱۵

سلام ہو سید الساجدین علی ابن الحسین پر جو پاک و مجتبیٰ ہیں۔

سلام ہو امام باقرعلیہ السلام(حضرت محمد ابن علی) پر جو ہدایت یافتہ ہیں۔

سلام ہو امام جعفر صادق علیہ السلام پر جو امام اور پیشواہیں۔

سلام ہو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام پر جو امتحان شدہ ہیں جو امام المتقین ہیں۔

سلام ہو آٹھویں امین، سید الاوصیاء امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام پر۔

سلام ہو متقی امام محمد ابن علی تقی علیہ السلام پر جو پاک و طاہر ہیں اور سرمایہ اُمید ہیں۔

سلام ہو عقلمند اور باخبر امام علی ابن محمد نقی علیہ السلام پر جو بزرگ اور ہادی العالمین ہیں۔

سلام ہو ہمارے مولا امام حسن ابن علی العسکری علیہ السلام پر جو لشکر پاکیزگی سےمز ّین ہیں۔

سلام ہو امام القائم والمنتظر(حضرت مہدی علیہ السلام) حضرت ابوالقاسم پر جو امام نورانی ہیں اور راہ ہدایت کی روشنی ہیں ۔ جو انشاء اللہ ظہور کریں گے جیسے سورج جب طلوع ہوتا ہے تو تمام تاریکی غائب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب یہ امام ظہور فرمائیں گے تو تمام روئے ارض عدل و انصاف سے اس طرح بھر جائے گی جیسے اس سے پہلے ظلم و ستم اور ہوس سے بھری ہوئی ہے۔

سلام ہو اُن پر اور اُن کے آباء و اجداد پر اور اُن کے انصار پر تا قیام قیامت“۔

حوالہ

کتاب شبہائے پشاور، مصنف: مرحوم سلطان الواعظین شیرازی، صفحہ۷۵،نقل از کتاب ابطال الباطل، مصنف: قاضی فضل بن روزبہان۔

۲۱۶

حسان بن ثابت

تعارف حسان بن ثابت

حسان بن ثابت ایک بلند پایہ شاعر اسلام ہیں۔ یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کے زمانہ میں حیات تھے۔ پیغمبر اسلام ان کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حسان کے شعروں کو شعر نہ کہو بلکہ یہ سراسر حکمت ہیں۔

یُنادِیْهِمُ یومَ الغدیر نبیّهم

بخُمٍّ واسمع بالرّسول منادیاً

وقال فمن مولا کُمْ وَوَلِیُّکُمْ

فقالوا ولم یَبْدوا هناک التعامیا

الهُک مولانا وانت ولّینا

ولم تلقَ منّا فی الولایة عاصیا

فقال له قُمْ یا علیُّ فَاِنَّنِیْ

رَضیتُک من بَعْدی اماماًوهادیا

فمن کُنْتُ مولاه فهذا ولیّه

فکونواله انصارَ صدقٍ مُوالیا

هناک دَعَا اللّٰهُمَّ والِ ولیَّه

وکن للّذی عادیٰ علیّا معادیا

۲۱۷

”غدیر خم کے روز پیغمبر اکرم نے اُمت کو آواز دی اور میں نے آنحضرت کے منادی کی ندا سنی۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا:تمہارا مولیٰ اور ولی کون ہے؟ تو لوگوں نے صاف صاف کہا کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور آپ ہمارے ولی ہیں اور کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا۔پس آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ یا علی : اٹھو! میں اس پر راضی ہوں کہ میرے بعد آپ اس قوم کے امام اور ہادی ہوں اور فرمایا کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں، اُس اُس کا یہ علی مولا ہے، تم تمام سچائی اور وفاداری کے ساتھ اس کے حامی و مددگار بن جاؤ۔ پھر آپ نے دعا کی کہ خدایا! تو اُس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اُس کا دشمن ہوجو علی سے دشمنی کرے“۔

حوالہ خوارزمی، کتاب مقتل، باب۴،صفحہ۴۷اور حموینی، کتاب فرائد السمطین اور گنجی شافعی ،کتاب کفایة الطالب، باب اوّل۔

من ذا بخاتمة تصدّق راکعاً

واسرَّها فی نفسه اسراراً؟

من کان باتَ علی فِراشِ محمّدٍ

ومحمّدٌ اَسْریٰ یَومُّ الغارا؟

من کان فی القرآن سُمِّی مومناً

فی تِسْعِ آیاتِ تُلینَ غَزارا؟

۲۱۸

”وہ کون ہے جس نے حالت رکوع میں اپنی انگشتری فقیر کو دے دی اور اس بات کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا؟ وہ کون ہے جو پیغمبر خدا کے بستر پر سویا جب پیغمبر عازم غار ثور تھے؟ وہ کون ہے جو قرآن میں نو مرتبہ مومن کے لقب سے پکارا گیا ہے اور یہ آیتیں بہت پڑھی جاتی ہیں؟“

حوالہ

کتاب الٰہیات و معارف اسلامی، مصنف: استاد جعفر سبحانی، صفحہ۳۹۵نقل کیا گیا ہے تذکرة الخواص سے صفحہ۱۸، اشاعت نجف۔

وکان علیٌّ ارمدَ العین یبتغی

دواء فلمّا لم یحسّن مداویاً

شفاه رسولُ اللّٰه منه بتفلةٍ

فبورکَ مرقّیاً و بورکَ راقیاً

وقال ساُعطی الرایةَ الیومَ صارماً

کمیّاً محبّاً للرسول موالیاً

یُحبّ الهی والالهُ یُحبّه

به یَفْتَحِ اللّٰهُ الحُصونَ الأِوابیا

فأصفی بها دونَ البریّة کلِّها

علیّاً وسمّاه الوزیرَ المواخیا

۲۱۹

”حضرت علی علیہ السلام کی آنکھوں میں درد تھا۔ انہوں نے دواتلاش کی مگر دوانہ مل سکی۔ پیغمبر خدا نے اُن کی آنکھوں پر لعاب لگایا اور علی علیہ السلام کو شفا ہوگئی۔ اس طرح بیمار بھی انتہائی خوش تھا اور طبیب بھی۔ آپ نے فرمایا کہ کل(روز خیبر) میں پرچم اُس کو دوں گا جو مرد میدان ہوگا ، جو خدا اور اُس کے رسول کو دوست رکھتا ہوگا، خدا اور اُس کا رسول بھی اُس کو دوست رکھتے ہوں گے اور یہ در خیبر خدا اُس کے ہاتھ سے کھلوائے گا۔ پس پیغمبر اسلام نے علی علیہ السلام کو ان اعزازات کی وجہ سے تمام لوگوں سے بلندی عطا فرمائی ہے اور اُن کو اپنا وزیر اور بھائی قرار دیا ہے“۔

حوالہ

کتاب مصباح الموحدین، مصنف: حجة الاسلام حاجی شیخ عباس علی وحیدی منفرد، صفحہ۱۵۹ اور کتاب شبہائے پشاور،صفحہ۴۲۲ میں نقل کیا گیا ہے۔ کتاب”فصول المہمہ“ سے مصنف ابن صباغ مالکی، صفحہ۲۱اور گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب، باب۱۴سے۔

عمربن فارض مصری

ذَهَبَ العُمْرُ ضیاعاً وانقضیٰ

باطلاً اِنْ لم اَفُزْ منک بشَی

غیرَما اوتیتُ مِن عهدی الولا

عترةَ المبعوثِ مِن آلِ قُصُی

۲۲۰