آفتاب ولایت

آفتاب ولایت0%

آفتاب ولایت مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 272

آفتاب ولایت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی شیر حیدری
زمرہ جات: صفحے: 272
مشاہدے: 148446
ڈاؤنلوڈ: 4736

تبصرے:

آفتاب ولایت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 272 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148446 / ڈاؤنلوڈ: 4736
سائز سائز سائز
آفتاب ولایت

آفتاب ولایت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اللہ تعالیٰ کے انتقام کی کوئی مثال دیکھنی ہو تو وہ انتقام ہے جس کا ارادہ تو خدا کی ذات نے کیااور اُسے انجام علی علیہ السلام نے دیا۔ تمام علماء اور مفسرین اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت مذکورسے مراد وجود پاک حضرت علی علیہ السلام ہے کیونکہ آپ نے تمام کفار و منافقین سے اُن مظالم اور زیادتیوں کا جو انہوں نے پیغمبر اسلام پر کی تھیں، کا بدلہ لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان اور دانشمند حضرات حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اعمال سے رسول اللہ کی زندگی میں اور اُن کی ظاہری زندگی کے بعد کفار کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی اور منافقین کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مایوس کردیا تھا۔حق اور صراط مستقیم کو عیاں کردیا۔ اس ضمن میں چند روایات نیچے درج کی جارہی ہیں جو آپ کی توجہ کی طالب ہیں:

(ا)۔عَنْ جَابِرقٰالَ:لَمَّا نَزَلَتْ عَلٰی رَسُوْلِاللّٰه”فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“قٰالَ بِعَلیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”جابر ابن عبداللہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

رسول خدا پر نازل ہوئی توآپ نے آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقام الٰہی لیا جائے گا“۔

(ب)۔ عَنْ حُذَ یْ فَة بن الیَمٰان قٰالَ فی قولہ تعالٰی”فَامَّانَذْهَبَنَّ بکَ فَانَّا منْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ“ یَعْنِ ی بعَلی بن ابی طالب علیہ السلام۔

”حذیفہ بن یمان سے روایت کی گئی ہے ، انہوں نے اس آیت

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

کی تفسیر میں فرمایا کہ علی علیہ السلام کے وسیلہ سے انتقام لیا جائے گا“۔

۶۱

(ج)۔عَنْ جابربن عبداللّٰه عَنِ النَّبی فی قوله’فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ‘نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ اِنَّه یَنْتَقِمُ مِنَ النَّاکِثِیْنَ وَالقَاسِطِینَ بَعْدِی ۔

”جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم نے اس آیت

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ علی میرے بعد ناکثین(بیعت توڑنے والے اصحاب جنگ جمل) اور قاسطین(جنگ صفین میں لشکر معاویہ) سے انتقام لیں گے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی ،تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۰،آیت مذکور کے ضمن میں۔

۲۔ ابن مغازلی شافعی، حدیث۳۶۶کتاب ”مناقب امیر المومنین “، ص۲۷۵اور۳۲۰

۳۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، حدیث۸۵۱، جلد۲،صفحہ۱۵۲، اشاعت اوّل۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة میں، باب۲۶،صفحہ۱۱۴اور اسی کتاب میں

باب(مناقب)۷۰،صفحہ۲۸۷،حدیث۲۴۔

۵۔ طبرانی، کتاب معجم الکبیر میں، جلد۳،صفحہ۱۱۱۔

پچیسویں آیت

علی نے اپنی جان مبارک کامعاملہ اللہ تعالیٰ سے طے کرلیا

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ )

”اور آدمیوں میں سے ایسابھی ہے جو رضائے خدا حاصل کرنے کیلئے اپنے نفس کو فروخت کرتا ہے“۔(سورئہ بقرہ: آیت۲۰۷)۔

۶۲

تشریح

پیغمبر اسلام کا مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا اور اُس سے ہی متعلق دوسرے اُمور ایسے موضوع ہیں جن پر تقریباً تمام تاریخ دانوں نے اپنی اپنی تواریخ میں لکھا ہے اور اس واقعہ میں پیغمبر اسلام کی بردباری ،صبروتحمل اور اُن کے وفادار اصحاب کی شان بیان کی ہے۔

ہجرت پیغمبر میں سب سے اہم واقعہ ہجرت کی رات کا ہے جب پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے اور کفار مکہ جو جنگی ہتھیاروں سے لیس تھے ، کی طرف سے کسی بھی وقت حملہ کے منتظر رہے۔ نصف شب کے قریب مسلح کفار جنہوں نے نبی اکرم کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا، داخل منزل ہوئے۔ حضرت علی علیہ السلام بستر سے اُٹھے اور مقابلہ کیلئے تیار ہوئے۔ کفار مکہ نے جب حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔ اس طرح کفار مکہ کے تمام ارادے خاک میں مل گئے اور پیغمبر خدا کچھ دنوں بعد صحیح و سلامت مدینہ پہنچ گئے۔

بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء نے آیت مذکور کو علی علیہ السلام کی فداکاری سے منسوب کیا ہے اور اس کی تائید میں بہت سی روایات نقل کی ہیں جن میں سے چند ایک بطور نمونہ درج کی جارہی ہیں، ملاحظہ ہوں:

(ا)۔عَنْ علی بن الحسین فی قوله تعالٰی’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ‘قال نَزَلَتْ فِیْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام حینَ بٰاتَ عَلٰی فِراشِ رَسُولِ اللّٰهِ ۔ (المیزان)

”علی ابن الحسین امام زین العابدین علیہما السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰه )

کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جب وہ شب ہجرت پیغمبر خدا کے بستر پر سوئے تھے“۔

۶۳

(ب)۔رَوَی السُّدیُّ عَنْ اِبْنِ عَبَّاس قٰالَ نَزَلَتْ هٰذِهِ الآیةُ فِی عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهَ السَّلَام حِینَ هَرَبَ النَّبِیعَنِ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْغٰارِ ونٰام علی عَلٰی فِراشِ النَّبی ۔(مجمع البیان)

”سدی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ آیت

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰه )

حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام کفار کے شر سے بچنے کیلئے مدینہ کیلئے ہجرت کرتے ہوئے غار ثور کی طرف چلے اور علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سوئے۔

اسی طرح بہت سے علماء نے من جملہ صاحب مجمع البیان نے اس آیت کے بارے میں درج ذیل روایت بیان فرمائی ہے جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل اور قابل توجہ ہے۔ روایت اس طرح ہے:

لَمَّانَامَ عَلِیٌّ فِراشَه قَامَ جِبْرَائِیلُ عِنْدَ رَاسِهِ وَمِیْکَائِیلُ عِنْدَ رِجْلَیْهِ وَجِبْرَائِیلُ یُنٰادِی بَخٌ بَخٌ مَنْ مِثْلُکَ یابْنَ اَبِیْ طَالِب؟ یُبٰاهِی اللّٰهُ بِکَ الْمَلٰائِکَةُ

”جب حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بستر پر(شب ہجرت)سوئے تو جبرئیل سرہانے کی طرف اور میکائیل پاؤں کی طرف کھڑے ہوگئے اور جبرئیل نے بہ آواز بلند کہا:’مبارک ہو،مبارک ہو، تم جیسا(باایمان اور فداکار) کون ہے؟ خداوند پاک فرشتوں کو مخاطب کرکے تم پر فخر کررہا ہے‘۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں، جلد۵،صفحہ۲۰۴،اشاعت دوم،تہران۔ آیت مذکور کے بارے میں۔

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۹۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ۱۰۵،باب۲۱۔

۴۔ ثعلبی، کتاب احیاء العلوم، جلد۳،صفحہ۲۳۸۔

۵۔ شبلنجی، کتاب نورالابصار میں، صفحہ۸۶۔

۶۴

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۴

(چند دوسری مثالیں)

حضرت علی علیہ السلام سورہ والعصر میں

( وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍاِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ )

”وقت عصر کی قسم! انسان ضرور گھاٹے میں ہے۔ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی پیروی کی تاکید کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے رہے“۔

روایت

عَنْ اِبْنِ عباس فِی قوله تعالٰی:”وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ“قٰالَ: هُوَ عَلِی علیه السلام ۔

اس روایت کو علامہ سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور جلد۶،صفحہ۴۳۹(آخری روایت تفسیر سورئہ عصر) پر درج کیا ہے۔ اسی روایت کو حافظ الحسکانی نے کتاب شواہد التنزیل، حدیث۱۱۵۶

جلد۲،صفحہ۳۷۳، اشاعت اوّل اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”ما نزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں بیان کیا ہے اور بہت سے دوسروں نے اسی روایت کو نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلام الٰہی

”وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ“ کی تفسیر میں کہا کہ اس سے مراد ابوجہل لعنة اللّٰہ علیہ ہے اور”اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْر“ کی تفسیر میں کہا گیاکہ اس سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔

۶۵

علی علم الٰہی کا خزینہ ہیں

( قُلْ کَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًام بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَه عِلْمُ الْکِتٰبِ )

”آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی دینے کو (ایک تو) اللہ کافی ہے(دوسرے)وہ جن کے پاس اس کتاب کا پورا علم ہے“۔(سورئہ رعد:آیت۴۳)۔

روایت

عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ سَلٰام رضی اللّٰه عَنْهُ فِی قَولِه تَعٰالٰی”وَمَنْ عِنْدَه عِلْمُ الْکِتٰبِ“قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ قَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِب ۔

اس روایت کو شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ”ینابیع المودة“، باب مناقب، صفحہ۲۸۴،حدیث۶۰میں بیان کیا ہے اور ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے اسی کتاب میں باب۳۰،صفحہ۱۲۱پر بھی درج کیا ہے۔اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،

،جلد۱،صفحہ۳۰۸،اشاعت اوّل، حدیث دوم میں بیان کیا ہے اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تفصیل میں بیان کیا ہے۔

ترجمہ

”عبداللہ بن سلام نے کلام الٰہی”وَمَنْ عِنْدَه عِلْمُ الْکِتٰبِ“ کے بارے میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ اس سے مراد کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ا س سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

علی اور آپ کے اصحاب سچائی کا نمونہ ہیں

( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ )

”اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ“۔(سورئہ توبہ:آیت۱۱۹)۔

۶۶

روایت

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰهُ عنهُ فِی هٰذِهِ الآیَةِ”یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ“قَالَ مَعَ علی واصحابه ۔

اس روایت کو ثعلبی نے اپنی تفسیر(تفسیر ثعلبی) جلد۱اور سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور میں اس آیت کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں باب شرح حال امیر المومنین میں حدیث۹۳۰،جلد۲،صفحہ۴۲۱میں بیان کیا ہے اور اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد۱،صفحہ۲۵۹،حدیث اوّل کے تحت بیان کیا ہے۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت

( یٰٓاَ یُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ )

کے بارے میں انہوں نے کہاکہ” کُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِ یْ ن “سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور آپ کے اصحاب ہیں“۔

ولایت علی و اہل بیت پر اعتقاد رکھنے کا نتیجہ قبولیت توبہ،ایمان، عمل صالح اور ہدایت ہے

وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰی ۔

”اور میں اُس کو جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور نیک عمل کرے اورپھر ہدایت یافتہ بھی ہو، ضرور بخشنے والا ہوں“۔(سورئہ طٰہ:آیت۸۲)۔

روایت

عَنْ علی علیه السلام فِی قولِه تعٰالٰی”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰی“ قَالَ اِلٰی وِلٰایَتِنَا ۔

اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیه السلام“ میں نقل کیا ہے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد۱،صفحہ۳۷۵،

اشاعت اوّل میں امام محمدباقر علیہ السلام اور حضرت ابوذرغفاری کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

۶۷

ترجمہ

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے اس کلام الٰہی

”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهتَدٰی“

کے بارے میں فرمایا:’یعنی وہ جس نے ہماری ولایت کو تسلیم کیا اور اُس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کئے اور پھر ہدایت یافتہ بھی ہوا، اللہ اُس کو ضرور بخشنے والا ہے‘۔“

امت اور ولایت علی پر ایمان اصل میں ایک ہیں

( وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ )

”اور ضروروہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، راہ راست سے ہٹ جانے والے ہیں“۔(سورئہ مومنون:آیت۷۴)۔

روایت

عَنْ علی ابنِ ابی طالب فی قوله تعٰالٰی”وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ“قَالَ عَنْ وَلٰایَتِنَا ۔

اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں ،حموینی نے کتاب”فرائد السمطین“، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۳۰۰اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“ حدیث۵۵۷جلد۱،صفحہ۴۰۲پر نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس آیت خداوندی

( وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُومِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ )

کے بارے میں فرمایا کہ صراط سے یہاں مراد ہماری ولایت ہے(ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ولایت اہل بیت )“۔

۶۸

علی کواذیت پہنچانابہت بڑ اصریح گناہ ہے

( وَالَّذِیْنَ یُوذُوْنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُومِنٰتِ بِغَیْرٍمَااکْتَسَبُوْافَقَدِ احْتَمَلُوْابُهْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا )

”اور جو لوگ ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو بلاقصور ایذا پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے ذمے لیتے ہیں“۔(سورئہ احزاب:آیت۵۸)۔

روایت

عَنْ مقاتِلَ بن سلیمان فِی قولِه عَزَّوَجَل”وَالَّذِیْنَ یُوذُوْنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُومِنٰتِ بِغَیْرِمَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُهْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا“

قَالَتْ نَزَلَتْ فِی علی ابن ابی طالب وَذٰلِکَ اَنَّ نَفَراً مِنَ الْمُنٰافِقِیْنَ کَانُوْایُوْذُوْنَه وَیَکْذِبُوْنَ عَلَیْهِ

اس روایت کو ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ واحدی نے کتاب ”اسباب النزول“،صفحہ۲۷۳اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد۲،صفحہ۹۳،اشاعت اوّل،حدیث۷۷۵میں نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”مقاتل بن سلیمان روایت کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ یہ آیت

وَالَّذِیْنَ یُوذُوْنَ الْمُومِنِیْنَ وَالْمُومِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُهْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا

حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نازل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کچھ منافقین آپ کو اذیت پہنچاتے تھے اور اُن کو جھٹلاتے تھے“۔

۶۹

اللہ تعالیٰ آل محمدپر سلام بھیجتا ہے

( سَلٰمٌ عَلٰی آلِ یَاسِیْنَ )

”آل یاسین تم پر سلام ہو“۔(سورئہ الصّٰٓفّٰت:آیت۱۳۰)۔

روایت

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنهُ فِی قوله تعٰالٰی”سَلٰمٌ عَلٰٓی اِلْ یَاسِیْنَ“قَالَ آلِ محمد صلَّی اللّٰهُ علیه وآله وسلَّم ۔

اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں، ابن حجر ہیشمی نے ”صواعق المحرقہ“ میں صفحہ۷۶پر اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد۲،صفحہ۱۱۰،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ خدا کے اس کلام( سَلٰمٌ عَلٰٓی آلِ یَاسِیْنَ ) سے مراد آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں“۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ معتبر روایات کے مطابق آل محمد سے مراد حضرت علی علیہ السلام،جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام اور اُن کی پاک

اولاد ہیں“۔

علی اور تصدیق نبوت پیغمبر اکرم

( وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٓ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ )

”اور وہ جو سچ کو لے کر آیا اوروہ جس نے اُس کی تصدیق کی(خدا سے) ڈرنے والے وہی تو ہیں“۔(سورئہ زمر:آیت۳۳)۔

۷۰

روایت

عَنْ مُجٰاهِدٍ فِی قوله تعالٰی”وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٓ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ“قَالَ جٰاءَ بِاالصِّدْقِ محمدصلَّی اللّٰه علیه وآله وسلَّم صَدَّقَ بِهِ علی ابنِ ابی طالب ۔

اس روایت کو ابن مغازلی شافعی نے کتاب”مناقب“،صفحہ۲۶۹،حدیث۳۱۷،

اشاعت اوّل میں، حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد۲،صفحہ۱۲۱،حدیث۸۱۲،

اشاعت بیروت اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں آیت مذکور کی تشریح کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔

ترجمہ

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلام الٰہی

( وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٓ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ )

کے بارے میں انہوں نے کہاکہ”جَآءَ بالصدْق“سي مراد پ یغمبر اسلام ہیں اور”صَدَّقَ بہٓ“سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں(یعنی جو کوئی صداقت اور حق کے ساتھ آیاوہ پیغمبر اسلام ہیں اور جس نے اُن کی تصدیق کی، وہ علی علیہ السلام ہیں)“۔

علی اور آپ کے ماننے والے حزب اللہ ہیں اور وہی کامیاب ہیں

( اَ لَآاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ )

”آگاہ رہو کہ خدائی گروہ کے لوگ(پوری پوری) فلاح پانے والے ہیں“۔

(سورئہ مجادلہ:آیت۲۲)

۷۱

روایت

عَنْ علی عَلَیْهِ السَّلام قَال سَلْمَانُ:فَلَمَّااِطَّلَعْتُ عَلٰی رسولِ اللّٰه یٰا اَبَاالْحَسَنْ اِلَّا ضَرَبَ بَیْنَ کِتْفِیْ وَقٰالَ:یَاسَلْمَانُ هَذَاوَحِزْبُهُ هُمُ الْمُفْلِحُوْن

اس روایت کو گنجی شافعی نے کتاب”کفایة الطالب“ باب۶۲،صفحہ۲۵۰میں، حافظ ابن عساکر نے کتاب”تاریخ دمشق“،باب شرح حال امیرالمومنین علیہ السلام،جلد۲،صفحہ۳۴۶

حدیث۸۵۴،اشاعت دوم میں، ابو نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تشریح میں اور حافظ الحسکانی نے ”شواہد التنزیل“،جلد۱،صفحہ۶۸،اشاعت اوّل میں سورئہ بقرہ کی آیت۴کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

ترجمہ

”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سلمان نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:’یا اباالحسن !میں جب بھی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آپ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اے سلمان! یہ شخص اور اس کی جماعت فلاح(کامیابی) پانے والے ہیں“۔

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسول اکرم اور علی کے ماننے والوں کو رسوا نہیں کرے گا

( یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه )

”جس دن خدا تعالیٰ نبی کو اور اُن لوگوں کو جو اُن کے ساتھ ایمان لائے ہیں، رسوا نہ کرے گا“۔(سورئہ تحریم:آیت۸)۔

روایت

قَرَأَ بْنُ عَبَّاس(یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه)قَالَ عَلِیٌ وَاَصْحٰابُهُ

اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے ضمن میں اور علامہ سیوطی نے کتاب”جمع الجوامع“میں جلد۲،صفحہ۱۵۵پر نقل کیا ہے۔

۷۲

ترجمہ

”روایت کی گئی ہے کہ ابن عباس یہ آیت

”یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه“

تلاوت فرمارہے تھے،اُس وقت انہوں نے کہا کہ ”وہ لوگ جو ایمان لائے“سے مراد علی علیہ السلام اور اُن کے ماننے والے ہیں“۔

روزقیامت ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ )

”پھر تم سے اُس دن نعمتوں کی بابت ضرور بازپرس کی جائے گی“۔(سورئہ تکاثر:آیت۸)۔

روایت

عَنْ جَعْفَرِابْنِ محمد علیه السلام فِی قولِهِ عَزَّوَجَلَّ”ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ“قَالَ:عَنْ وِلَایَةِ عَلِیّ ۔

اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل،جلد۲،صفحہ۳۶۸،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔

ترجمہ

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے اس آیت

( ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ )

کے بارے میں فرمایا کہ وہ نعمت جس کے بارے میں روز قیامت سوال کیا جائے گا وہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے“۔

۷۳

فضائل امام علی علیہ السلام احادیث کی نظر میں۔ ۱

(حصہ اول)

پچھلے ابواب میں ہم نے مولائے متقیان امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کا تعارف قرآن کریم کی وساطت سے کروایا اور اس طرح آپ کی عظمت اور بلند مرتبہ شخصیت سے کسی حد تک آشناہوئے۔ اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں جوا ٓیات قرآن کریم میں موجود ہیں، اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم تو صرف چند آیات کو بیان کرسکے ہیں۔

اس باب میں انشاء اللہ روایات کی مدد سے ہم آپ کی شخصیت بزرگ اور نورانی چہرے کو اُجاگر کریں گے۔ یہاں جتنی بھی روایات نقل کی جائیں گی، وہ سب حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں۔ یہ وہ پیغمبر ہیں جو شریف ترین انسان اور عظیم ترین نبی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ سے دیکھیں اور اُن کے بلند ترین مقام کو پہچانیں۔

ان مختصر سے ابتدائی کلمات میں یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ جیسے پچھلے ابواب میں اہل سنت کی کتب سے اسناد پیش کی گئیں، اس باب میں بھی اُسی طرح اہل سنت کی کتب سے اسناد پیش کی جائیں گی۔ یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ برادران اہل سنت کی کتب سے حوالہ جات لکھنے کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ شیعہ علماء نے ان روایات کے بارے میں کچھ نہیں لکھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام روایات کو شیعہ علماء نے اپنی کتب میں واضح طور پر بیان کیا ہے اور اُن کی نظر میں یہ سب معتبر اور تسلیم شدہ ہیں۔ ان کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔لہٰذا ان وجوہات کے پیش نظر شیعہ علماء اور کتب شیعہ سے کوئی حوالہ نہیں لکھا جارہا۔ صرف چند ایک جگہوں پر اشارتاً ذکر کیا گیا ہے۔

اصل مدعا یہ ہے کہ وہ لوگ جو آپ کو صرف مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ مانتے ہیں اور اُن کو رسول اللہ کا خلیفہ بلافصل نہیں مانتے، آپ کے فضائل اُن کی زبانی سنے جائیں۔ اس طرح ایک تو مسلمانان عالم کو صحیح راستہ دکھا سکیں گے اور دوسرے اہل تشیع کے ایمان نسبت بہ محمد و آل محمدکومزید تقویت پہنچاسکیں گے،انشاء اللہ۔

۷۴

پہلی روایت

علی سب سے پہلے نبوت اورکلمہٴ توحید کی گواہی دینے والے ہیں

عَنْ انس ابن مالک قَالَ: قَالَ رَسُوْل اللّٰهِ:صَلّٰی عَلیَّ الْمَلٰا ئِکَةُ وَعَلٰی عَلِیِّ سَبْعَ سِنِیْنَ وَلَمْ یَصْعُدْ اَوْلَمْ یَرْتَفِعْبِشَهٰادَةِ اَنْ لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ مِنَ الْاَرْضِ اِلَی السَّمَاءِ اِلَّا مِنِّی وَمِنْ علی ابنِ ابی طالب ۔

”انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے سات سال تک مجھ پر اور علی علیہ السلام پر درود بھیجتے رہے(یہ اس واسطے کہ ان سات سالوں میں) خدا کی وحدانیت کی گواہی زمین سے آسمان کی طرف سوائے میرے اور علی کے علاوہ کسی نے نہ دی“۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے اسلام لانے کے بارے میں اہل سنت اور شیعہ کتب سے کافی روایات ملتی ہیں۔ جیسے زید بن ارقم کہتے ہیں”اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِی ۱“سب سے پہلے جو اسلام لائے وہ علی تھے۔ اس کے کچھ حوالہ جات نیچے بھی درج کئے گئے ہیں۔ اسی طرح انس بن مالک کہتے ہیں: ۲

”بُعِثَ النَّبِیُّ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَاَسْلَمَ عَلِیٌّ یَوْمَ الثلا ثا“

یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے روز مبعوث برسالت ہوئے اور علی علیہ السلام نے منگل کے روز اسلام قبول کیا۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ،باب شرح حال امام علی ،جلد۱،ص۷۰،حدیث۱۱۶۔

۲۔ ابن مغازلی کتاب مناقب امیرالمومنین ،حدیث ۱۹،ص۸،اشاعت اوّل،ص۱۴پر

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۱۲،صفحہ۶۸۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث ۷۸۶اور ۸۱۹۔

۵۔ سیوطی، کتاب اللئالی المصنوعہ،ج۱،ص۱۶۹و(صفحہ۱۶۶اشاعت بولاق)

۶۔ متقی ہندی، کنزالعمال،ج۱۱،ص۶۱۶(موسسة الرسالہ بیروت،اشاعت پنجم)۔

۷۵

حوالہ جات روایت زید بن ارقم ۱

۱۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۳۵(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۲۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب،باب۲۵،صفحہ۱۲۵۔

۳۔ سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ۱۶۶(باب ذکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام)۔

حوالہ جات روایت انس بن مالک ۲

۱۔ خطیب،تاریخ بغداد میں،جلد۱،صفحہ۱۳۴(حال علی علیہ السلام،شمارہ۱)۔

۲۔ حاکم ،المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۱۲(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۳۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۳،صفحہ۲۶۔

۴۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء،صفحہ۱۶۶(باب ذکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام)۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۱۲،صفحہ۶۸اورباب۵۹،ص۳۳۵۔

۶۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ، حال امیر المومنین امام علی ،جلد۱،ص۴۱،حدیث۷۶۔

دوسری روایت

علی پیغمبر کے ساتھ اورپیغمبرعلی کے ساتھ ہیں

عَنْ علی ابنِ ابی طالب قَالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ علیه وآله وسلَّمْ:یَا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَامِنْکَ

”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:یا علی ! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد۳،صفحہ۱۲۰۔

۲۔ ذہبی، میزان الاعتدال،جلد۱،صفحہ۴۱۰،شمارہ ۱۵۰۵،ج۳،ص۳۲۴،شمارہ۶۶۱۳

۳۔ ابن ماجہ سنن میں، جلد۱،صفحہ۴۴،حدیث۱۱۹۔

۷۶

۴۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد۷،صفحہ۳۴۴(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۵۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب حال امیر المومنین ،ج۱،ص۱۲۴،حدیث۱۸۳

۶۔ سیوطی،تاریخ الخلفاء،صفحہ۱۶۹۔

۷۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۲۷۵،صفحہ۲۲۸،اشاعت اوّل۔

۸۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۷،صفحہ۲۸۴۔

۹۔ شیخ سلیمان قندوزہ حنفی ،کتاب ینابیع المودة، صفحہ۲۷۷،باب۷،صفحہ۶۰۔

۱۰۔ بخاری، کتاب صحیح بخاری میں، جلد۵،صفحہ۱۴۱(عن البراء بن عازب)۔

۱۱۔ نسائی الخصائص میں، صفحہ۱۹اور۵۱اور حدیث۱۳۳،صفحہ۳۶۔

۱۲۔ ترمذی اپنی کتاب میں، جلد۱۳،صفحہ۱۶۷(عن البراء بن عازب)۔

۱۳۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال ،جلد۱۱،صفحہ۵۹۹،اشاعت پنجم بیروت۔

تیسری روایت

پیغمبر اور علی کی خلقت ایک ہی نور سے ہے

عَنْ جٰابِرِبْنِ عَبْدُاللّٰهِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِی(رسول اللّٰه) یَقُوْلُ لِعَلیٍّ:النّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتّیٰ وَاَنَاوَاَنْتَ مِنْ شَجَرَةٍ وٰاحِدَةٍ ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ“

”جابرابن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا سے سنا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب تھے اور فرمارہے تھے ”سب لوگ سلسلہ ہائے مختلف(مختلف اشجار)سے پیدا کئے گئے ہیں لیکن میں اور تو(علی ) ایک ہی سلسلہ(شجرئہ طیبہ) سے خلق کئے گئے ہیں اور پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:

۷۷

( ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ ) ۔(سورئہ رعد:آیت:۱۳)

”اور انگوروں کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ایک ہی جڑ میں سے کئی اُگے ہوئے اور علیحدہ علیحدہ اُگے ہوئے کہ یہ سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث ۴۰۰اور حدیث۹۰،۲۹۷میں۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین،باب۴،حدیث۱۷۔

۳۔ حاکم، کتاب المستدرک،جلد۲،صفحہ۲۴۱۔

۴۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،شرح حال علی ،ج۱،ص۱۲۶،حدیث۱۷۸،شرح محمودی۔

۵۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں،جلد۴،صفحہ۵۱اور تاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب مناقب۷۰،حدیث۳۷،صفحہ۲۸۰۔

۷۔ حافظ الحسکانی،کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۳۹۵۔

۸۔ متقی ہندی، کنزالعمال،جلد۶،صفحہ۱۵۴،اشاعت اوّل ،جلد۲،ص۶۰۸(موسسة

الرسالہ بیروت، اشاعت پنجم)۔

چوتھی روایت

علی ہی دنیا وآخرت میں نبی کے علم بردار ہیں

عن جابر ابنِ سَمْرَةَ قَالَ: قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَنْ یَحْمِلُ ٰرایَتَکَ یَوْمَ القِیٰامَةِ؟ قٰالَ: مَنْ کَانَ یَحْمِلُهَا فِی الدُّ نْیٰاعلی ۔

”جابر ابن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا کی خدمت میں عرض کیا گیا:’یا رسول اللہ! قیامت کے روز آپ کاعَلَم کون اٹھائے گا؟‘آپ نے فرمایا جو دنیا میں میرا علمبردارہے یعنی علی “۔

۷۸

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ، جلد۷،صفحہ۳۳۶(باب فضائل حضرت علی )۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، شرح حال علی ، ج۱،ص۱۴۵،حدیث۲۰۹،شرح محمودی۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین علیہ السلام میں، حدیث۲۳۷،صفحہ۲۰۰۔

۴۔ علامہ اخطب خوارزمی، کتاب مناقب،صفحہ۲۵۰۔

۵۔ علامہ عینی، کتاب عمدة القاری،۱۶۔۲۱۶۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں، جلد۱۳،صفحہ۱۳۶۔

انچویں روایت

پیغمبر اکرم اور علی ایک ہی شجرئہ طیبہ سے ہیں

عَنْ ابنعباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ حُبُّ عَلِیٍّ یَأ کُلُ السِّیِّاتِ کَمٰا تَاکُلُ النَّارُالخَطَبَ ۔

”ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’علی کی محبت گناہوں کو ایسے کھاجاتی ہے جیسے خشک لکڑی کو آگ‘ ۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ،باب شرح حال امیر المومنین ، ج۲،ص۱۰۳حدیث۶۰۷

۲۔ خطیب ،تاریخ بغداد شرح حال احمد بن شبویة بن معین موصلی، ج۴،ص۱۹۴،شمارہ۱۸۸۵۔

۳۔ متقی ہندی، کنزل العمال، ج۱۵،ص۲۱۸،اشاعت دوم، شمارہ۱۲۶۱(باب فضائل

علی ) اور دوسری اشاعت ج۱۱،ص۴۲۱(موسسة الرسالة بیروت، اشاعت۵)

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مناقب سبعون، صفحہ۲۷۹،حدیث۳۳اور باب۵۶صفحہ۲۱۱اور ۲۵۲۔

۵۔ سیوطی دراللئالی المصنوعہ، جلد۱،صفحہ۱۸۴،اشاعت اوّل۔

۷۹

چھٹی روایت

در علی کے علاوہ تمام در مسجد بند کرنے کا حکم

عَنْ زَیْداِبْنِ اَرْقَم قالَ: کَانَ لِنَفَرٍ مِنْ اَصْحٰابِ رَسُولِ اللّٰهِ اَبْوابٍ شَارِعَةٍ فِی الْمَسْجِدِ قَالَ: فَقٰالَ(النَّبِیُّ) یَوْمًا: سُدُّ وا هٰذِهِ الاَ بْوَابَ اِلَّا بَابَ عَلیقٰالَ: فَتَکَلَّمَ فِیْ ذٰالِکَ اُنَاسٍ قٰالَ: فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ فَحَمَدَ اللّٰهَ وَأَ ثْنٰی عَلَیْهِ ثُمَّ قٰالَ أَمَّا بَعْدُ فَاِنِّی اُمِرْتُ بِسَدِّ هٰذِهِ الْاَبْوَابِ غَیْرَ بَابِ عَلِیٍّ فَقٰالَ فیهِ قَاعِلُکُمْ،وَاِنِّی وَاللّٰهِ مَاسَدَدْتُ شَیْئًا وَلَا فَتَحْتُه وَلَکِنِّی اُمِرْتُ بِشَیءٍ فَاتَّبِعُه ۔

”زید بن ارقم کہتے ہیں کہ چند اصحاب رسول خدا کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام دروازوں کو (سوائے حضرت علی علیہ السلام کے دروازے کے) بند کردیاجائے۔ چند لوگوں نے اس پر چہ میگوئیاں کرنا شروع کردیں۔ پس رسول خدا کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا شروع کردی اور فرمایا کہ جب سے میں نے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے ،اُس کے بعد سے کچھ لوگوں نے باتیں کی ہیں(اس کے بارے میں صحیح رائے نہیں رکھتے)۔ خدا کی قسم! میں نے کسی دروازے کو اپنی طرف سے بند کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی کسی کے کھلنے کا حکم اپنی طرف سے دیا ہے، لیکن خدا کی طرف سے مجھے حکم ملا اور میں نے حکم خدا کو جاری کردیا ہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکرتاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، ج۱،احادیث۳۲۳تا۳۳۵۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث۳۰۲،صفحہ۲۵۳۔

۳۔ ابونعیم ، کتاب حلیة الاولیاء، باب شرح حال عمروبن میمون۔

۴۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد۳،صفحہ۱۲۵،حدیث۶۳،باب مناقب علی علیہ السلام۔

۵۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۴۳،اشاعت بیروت۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۵۰،صفحہ۲۰۱۔

۸۰