راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135877
ڈاؤنلوڈ: 3496

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135877 / ڈاؤنلوڈ: 3496
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

اس کے بعد پھراس آخری تحریر سے (میر ) کی کتابت کاموازنہ کر تا تھا تو پھر بھی میں اتنا ہی فرق محسوس کر تا تھا جتنا کہ پہلی مرتبہ میں ،میں خیال کر تا تھا کہ (میر )کی کتابت میری کتابت سے ایک دو درجہ بہتر ہے حالانکہ میں نے اِس وقت پہلے سے سو برابر اچھا لکھا تھا تب بھی میں ایک دو درجہ کا فرق ہی محسوس کر تا تھا ۔

یہ مثال ہم نے اس لئے پیش کی ہے تا کہ انسان یہ سمجھ جا ئے کہ وہ کیفیات میں صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ یہ مثال بہت اچھی ہے۔( ہم نے استاد محترم کا شکر یہ ادا کر نے اور ان کی یاد کو تا زہ کر نے کی خا طر اس مثال سے استفادہ کیا ہے )۔بہر حال انسان کا ذہن کیفیات کا موازنہ کر نے اور ان کے درمیا ن فیصلے کر نے کی بہت کم توا نا ئی رکھتا ہے۔بہت ہی مشکل سے آہستہ آہستہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں کے ما بین کتنا فرق ہے ۔

یہی قا عدہ وقا نون حسن اعمال (اچھے اعمال ) میں بھی جا ری ہو تا ہے ۔ مثال کے طور پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کا عمل بہت خالص ہے (یعنی بڑے ہی خلوص کے ساتھ صرف اور صرف اللہ کے لئے عمل انجام دیتا ہے ) توچونکہ اس کا عمل خالص ہے تولہٰذااس کے عمل کی بھی اتنی ہی اہمیت ہو گی لیکن اس کے عمل کی اہمیت کتنی زیادہ ہے ؟ اس کے لئے کیفیت کو کمیت (تعداد ) میں بدل کر مثال کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیںکہ :اگر خالص عمل انجام دینے والے شخص کا جنت میں ایک درخت ہے توزیادہ خلوص کے ساتھ عمل انجام دینے والے کے دو درخت ہیں یعنی اس کے فرق کو دو گنا تصور کر تے ہیں ۔ لیکن اگر کو ئی دقیق معیار ہو جس کے ذریعہ اس فرق کو سمجھا جا سکے تو اس وقت معلوم ہو تا ہے کہ اخلاص کے ان دو مر تبوں کے درمیان زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے ۔ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور بالکل خلوص کے ساتھ نماز پڑ ھتے ہیں ریا کے لئے نماز نہیں پڑھتے لیکن اس نماز اور حضرت امیر المو منین یا دوسرے تمام ائمہ علیہم السلام کی نمازوں کے درمیان کتنا فرق ہے ؟ اتنا فرق ہے کہ اگر ہم ساری عمر بیٹھکر اس کا حساب کریں کہ ان کی نماز ہماری نماز سے کتنا بلند درجہ رکھتی ہے تو ہر گز ممکن نہیں ہے ۔

۱۲۱

محسوسات کے اندرخاص طور سے معنویات والی چیزوںمیںجہاں معنویت کو سمجھنابھی ضروری ہے یہ مسائل اتنے دقیق و ظریف ہیں کہ انکوعدد کے معیا روں کی کسوٹی پر نہیں پرکھاجا سکتا ۔

آپ نہج البلاغہ کے کسی حصہ کا ایک بہت بڑے شاعر کے کلام سے مقا ئسہ کر یں تو یہ ملا حظہ کریںگے کہ نہج البلاغہ کا کلام بہت ہی زیبا ہے لیکن کتنا زیبا ہے ؟اس کو ہم دقیق طور پر معین نہیں کر سکتے اور یہ فکر کریں گے کہ اس سے بہتر اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے لیکن اگر نہج البلاغہ کے کلام کا قر آن مجید سے مقائسہ کر تے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جتنا فرق شاعر اور قرآن کے کلام میں پایا جاتا ہے اتنا ہی فرق قرآن اور نہج البلاغہ کے درمیان پایا جاتا ہے ۔

یہ مثالیں ہم نے اس لئے بیان کی ہیں کہ کمال اور معنوی امور کے درمیان موجود کیفیت کے فرق کو سمجھنے کے لئے ہمارا ذہن آمادہ وتیار ہو جا ئے اور یہ تسلیم کر لیںکہ یہ مسائل کمیات (عدد )کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہیں اور ان کو عدد کے ذریعہ بیان نہیں کیا جا سکتا ۔اس وقت ہم اس مطلب کو تسلیم کر لیں گے کہ ایک کلام خوبصورتی اور بلاغت کے اعتبار سے اس درجہ پر ہوکہ انسان اس تک نہ پہنچ سکے۔

بہر حال قر آن کے معجزہ ہونے کی ایک وجہ اس کی یہی بلاغت ہے جس کا شاہد یہ ہے کہ ہر ایک کی تمنا ؤں کے با وجود تا ریخ انسانیت میں آج تک کو ئی اس کا مثل نہ لا سکااور لطیف بات تو یہ ہے کہ ہم سے بھی یہ نہیں کہا گیاکہ تم اسکا جا ئزہ لو کہ قر آن کتنا بلند و بہتر و بر تر ہے ،بلکہ یہ کہاگیا کہ اگر تم چا ہتے ہو تو اس کا مثل لے آؤ ۔ورنہ اگر اس کے جا ئزہ کی ذمہ داری ہم کو سو نپ دی جاتی تو ہم کبھی بھی اس کا جا ئزہ نہیں لے سکتے تھے ۔ہم صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ اس کا مثل نہیں لا یا جا سکتا البتہ اس کو بھی محققین اور ماہرین ہی معین و مشخص کر سکتے ہیں ۔

۳۔ اختلاف نہ ہو نا :

قرآن کریم کے معجزہ ہو نے کی ایک اور وجہ جس پر خو د قرآن کا اعتماد ہے وہ اس کے اندر (اختلاف نہ ہونا )ہے :

( اَفَلَا یَتَدَ بَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْکَا نَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوْافِیْهِ اِخْتِلَا فاً کَثِیْراً ) ( ۱ )

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت ۸۲۔

۱۲۲

''کیا یہ لوگ قر آن میں غور و فکر نہیں کر تے ہیں کہ وہ اگر غیر خدا کی طرف سے ہو تا تو اس میں بڑا اختلاف ہو تا ''۔

انسان کا کلام ہوتو اختلاف کیوںہو تا ہے اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے :

انسان کے اندر اس دنیا میںتمام ما دی مو جو دات کی طرح تغیر اور تبدیلی ہو تی رہتی ہے۔ ماحول اور انسان کے اندر ہو نے والے تغیر ات انسان کے روحی حالات اور ان سے ظاہر ہو نے والے آثار میں مو ٔثر ہو تے ہیں ۔

ایک طرف تو انسان ہمیشہ تکامل کی حالت میں ہے ،جن چیزوں کو وہ پہلے نہیں جا نتا تھا ان کو سیکھ لیتا ہے ، یہ نئی چیزیں اس کے کلام میں اثر انداز ہو سکتی ہیں ۔ اسی طرح نئے انجام دئے جا نے والے کاموں میں جب اس کے اثر کو دیکھتا ہے تو اس کے ذریعہ بعد والے کاموں کو بہتر طریقہ سے انجا م دینے کے لئے آمادہ رہتاہے ۔اور دوسری طرف انسان کے حالات جیسے :غم اور خوشی ،خوف اور امید وغیرہ۔۔۔بیرونی عوامل اور کبھی کبھی اند رونی عوامل کے ماتحت اس میں تبدیلی کر تے رہتے ہیں اور اس کے کلام میں اثر انداز ہو تے ہیں ۔انسان خو شی کے مو قع پر ایک طریقہ سے بات کر تا ہے اور غم کے مو قع پر دو سرے طریقہ سے بات کر تا ہے ۔پس انسان ایک ما دی مو جودہے اس پرمختلف عوامل اثرانداز ہو تے ہیں اور وہ خودبھی تکامل پیدا کر تا ہے اور اس کی معلو مات میں اضافہ ہو تا ہے ۔اس کے حالات میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے اور ان سب سے اس کے کلام میں اثر پڑتا ہے ، اس بناء پر ایک بھی انسان ایسا نہیں ہے جو اپنی پوری زند گی میں با لکل ایک ہی طریقہ سے با ت کرے جو بلاغت کے اعتبار سے یکنوا خت ہو ،اور مجبوری کے وقت یابھوک اورشکم سیری ،غم اور خو شی ،صحت اور بیماری،اضطراب اور اطمینان ،شکست اور کا میابی وغیرہ کے مو قع پراس کے کلام میں فرق نظرنہ آتا ہو۔

قرآن نے ان تمام چیزوں کے با رے میں گفتگو کی ہے ،اس وقت جب کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زیادہ مشکلوں میں گھرے تھے اور جب آپ فتح و کامرانی کے بلند درجہ پر فا ئز ہو چکے تھے ،جب آپ فقر کی حالت میں زندگی بسر کررہے تھے اور جس دور میں آپ غنی تھے ،جس وقت آپ مریض تھے اور جب آپ صحیح و تندرست تھے اور آخر کار ۲۳سالہ دور میں (جس میں ہر انسان علمی ترقی اور گفتگو میں مہارت حا صل کر تا ہے ) قرآن نے بلاغت کے اعتبار سے ایک ہی اسلوب پر گفتگو کی ہے ۔یہ صحیح ہے کہ ایک کلام خا ص مو قع کے لحاظ سے کہا گیا ہے اور اس کا انداز دوسرے کلام سے جدا ہے لیکن یہ دو نوں صورتیں بلاغت کے اعتبار سے سب سے بلند درجہ کی مالک ہیں ۔پس قر آ ن کے معجزہ ہو نے کی ایک وجہ (اصل بلاغت کے علاوہ )پوری تاریخ نزول میں ایک ہی اسلوب کا باقی رہنا بھی ہے ۔

۱۲۳

۴۔پیغمبر امی کی جا نب سے ہے

قرآن کے معجزہ ہو نے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن اس شخص پر نا زل ہو ا ہے جس نے کسی سے سبق نہیں پڑھا ،علما ء اور دا نشمندوں سے جس کا کو ئی سرو کار نہ تھا اور اس کا انداز گفتگو بعثت تک دو سرے عام لوگوں کی طرح تھا (شاید ان سے کچھ بلیغ ہو)لیکن آپ کے لہجہ میں ایک دم تبدیلی آئی اور جو چیز آپ کے کلام میں پہلے نہیں پا ئی جاتی تھی وہ دکھا ئی دینے لگی۔پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلمات میں اگرچہ فصاحت و بلاغت کا بلند درجہ پا یا جاتا ہے لیکن اس کے با وجود رسالت کے بعد بھی آپ کے کلمات کا قر آن سے مقائسہ ممکن نہیں ہے۔جیسا کہ خود قر آ ن کریم نے اس مسئلہ کو یوںبیان فر مایا ہے :

( قُلْ لَوْشَائَ اللَّهُ مَاتَلَوْتُهُ عَلَیْکُمْ وَلَااَدْرَیٰکُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراًمِنْ قَبْلِهِ اَفَلَاْ تَعْقِلُوْنَ ) ( ۱ )

''آپ کہد یجئے کہ اگر خدا چا ہتا تو میںتمہا رے سا منے تلاوت نہ کر تا اور تمہیں اس کی اطلاع بھی نہ دیتاآخر میں اس سے پہلے بھی تمہا رے درمیان ایک مدت تک رہ چکا ہوں تو کیا تمہا رے پاس اتنی عقل بھی نہیں ہے ؟''۔

اگر یہ کتاب میری بنائی ہو ئی ہو تی تو فطری طور پر میری پہلی گفتگو کے مشابہ اس میں کو ئی کلام ہو نا چا ہئے تھا۔ یہ مطلب اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کام نا گہانی اور الٰہی کام ہے اور خدا وند عالم چا ہتا ہے کہ میں اس طرح کلام کروں ۔اگر خدا وند عالم مجھ پر وحی نہ کر تا تو میں ان کلمات کو ادا نہیں کر سکتا تھا میں وہی شخص ہو ں جو کل تم لوگو ں سے گفتگو کیا کر تا تھا اور تم میری با توں کو سنا کر تے تھے اورمیرے اور تمہارے درمیان کو ئی غیر معمولی امتیاز نہ تھا ۔پس اگر تم عقل رکھتے ہو تو سمجھو کہ بلاغت کا اچانک یہ عروج امر الٰہی کی تا ئید سے ہے ۔

تا کہ یہ مسئلہ تمام لوگوں پر اچھی طرح واضح ہو جا ئے خدا وندعالم نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تر بیت اس طرح فرما ئی کہ آپ کے پاس درس پڑھنے اور علم حاصل کر نے کی کوئی جگہ نہ تھی ،اور آپ اکثر افراد کی طرح لکھنا اور پڑھنا بھی نہیں جا نتے تھے ،اس دوران کچھ ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا لیکن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لکھنا اور پڑھنا بھی نہیں سیکھا تھا :

( وَمَاکُنْتَ تَتْلُوْامِنْ قَبْلِهِ مِنْ کِتَا بٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِیَمِیْنِکَ اِذاً لاَّرْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ) ( ۲ )

''اور اے پیغمبر آپ اس قر آن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل با طل شبہ میں پڑجا تے ''اور خدا وند عالم نے آپ کی ایسی تربیت کی کہ تمام لوگوں کو یہ معلوم رہے کہ آپ اس کلام کے آنے سے پہلے

____________________

۱۔سورئہ یونس آیت۱۶۔

۲۔سورئہ عنکبوت آیت ۴۸۔

۱۲۴

نہ پڑھتے تھے اور نہ لکھتے تھے تاکہ یہ لوگ سمجھ جا ئیں کہ یہ آپ کا کلام نہیں ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا اورآپ لکھنا اور پڑھنا جا نتے ہوتے تو ممکن تھا کچھ لوگ شک میں پڑجا تے :( اِذاً لاَّرْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ) اورجو لوگ آپ کے دعوے کو با طل کر نا چا ہیں وہ ایسا شبہہ پیداکر سکتے ہیں، لہٰذا کوئی دستا ویز ڈھونڈھ لائیں کہ انھوں نے تو فلاں استاد سے کئی سال تعلیم حا صل کی ہے لیکن آپ اس ماحول ا ور معا شرہ میں پہلے سے مو جود ہیں اور یہ سب آ پ کو پہچا نتے ہیں کہ آپ پڑھنا اور لکھنا نہیں جا نتے تھے اس طرح لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔

۵۔جا معیت :

قرآن کے معجزہ ہو نے کی دوسری چند وجہیں مفسرین نے بیان کی ہیں حتی کہ علما ء کلام نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ جن میں سے بعض کو چیلنج کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے ان میں سے جس کو چیلنج کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے وہ قر آن کی جا معیت ہے ۔یعنی ایک انسان عقاید، سیاست ، اقتصاد ،اخلاق ،فوجی فنون ا ور ایک جملہ میں یہ سمجھئے کہ جن تمام چیزوں کی انسان کو اپنی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے اس میں ماہر ہو ۔ معمولی انسان میں اس طرح کے صفات کا جمع ہو نا محال ہے اور عملی طور پر بھی انسان کی زند گی میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو انسان کسی کام میں تر قی کرنا چاہتاہے وہ اپنی ساری زند گی کو ایک ہی مو ضوع کو حا صل کر نے میں صرف کر دیتا ہے تب کہیں اس علم کا ما ہرہو گا اور لوگوںکی نظروں میںترقی یافتہ شمار کیا جا ئیگا لیکن ایک ہی انسان تمام علوم کا احاطہ کرلے اور ہر شعبہ میں دو سرے تمام ما ہرین سے بہتر ہو جا ئے یہ ایک معمولی انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔

۱۲۵

۶۔علمی نکات کا اظہار :

قرآن مجید کے معجزہ ہو نے کا ایک اور پہلو وہ علمی نکات ہیں جن کو اس زمانہ میں قبول نہیں کیا جاتا تھا اور تعلیم یافتہ طبقہ ان کو تسلیم نہیں کرتاتھا لیکن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باصراحت اور شجاعت کے ساتھ ان کو بیان فر مایا اور اس کے بعد تدریجی طور پر علوم کی ترقی نے ان کااثبات کیا ہے ۔مثلاً یہی کہ ایک ان پڑھ انسان ایک پست اور پچھڑے ہوئے ملک میں ظہور کر ے اور دنیا کے تمام علمی طبقوں کے با لمقابل مکمل صراحت اور پورے یقین و اعتماد کے ساتھ کسی ایسی چیز کا بیان کر ے جس کے وہ سب مخالف ہوں ،خاص طور سے جس دور میں یہ ثابت ہو جائے کہ جو باتیں انھوں نے بیان فر ما ئی ہیں وہ صحیح ہیںاورجو کچھ دو سروں نے بیان کیا ہے وہ باطل ہے یہ خود اس بات کا شاہد ہے کہ یہ کلام خدا کا ہے ۔

ان میں سے ایک نمونہ یہی ہیئت بطلمیوسی کا مسئلہ ہے جس کو دنیا کے علمی طبقوںنے تسلیم کر رکھا تھا لیکن آسمانوں کے سلسلہ میں قرآن کے بیانات افلاک بطلمیوسی کے موافق نہیں تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ افلا ک میں خرق و التیام محال ہے و۔۔۔لیکن قرآن معتقد ہے کہ نہ صرف خرق و التیام محال نہیں ہے بلکہ یہ تمام پاش پاش ہو جا ئیں گے اور قرآن نے کبھی بھی نو آسمانوں پر کوئی تکیہ نہیں کیا ہے وغیرہ۔۔۔۔

۷۔غیبی خبریں :

قرآن کے معجزہ ہونے کی ایک اور و جہ قرآن کا غیبی خبریں دینا ہے۔ یہ خبریں دو حصوں میں تقسیم ہو تی ہیں :

۱۔ وہ گذ شتہ خبریں جن کو قرآن نے بیان کیا ہے اور ان سے مطلع ہو نے کے لئے قرآن کے علاوہ اور کو ئی دوسراراستہ نہیں تھا :( ذَلِکَ مِنْ اَنْبَائِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَا اِلَیْکَ )

''پیغمبر یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کر رہے ہیں ۔

۱۲۶

اور ایک مقام پر ارشاد ہے :

( وَمَاکُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَٰمَهُم اَیُّهُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمََ ) ( ۱ )

''جب وہ قر عہ ڈال رہے تھے کہ مر یم کی کفالت کو ن کرے گا ''۔

یہ سب غیبی خبریں تھیں جو غیب کے پیغمبر کے لئے تھیں ان میں کچھ آئندہ کے لئے پیشینگو ئیاںہیں جو قرآن میں بیان ہو ئی ہیں اور ہم ان میں سے ذیل میں دو نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

ایرانیوں پر رومیوں کا غلبہ

( غُلِبَتِ الرُّوْمُفِیْ اَدْنیَ الْاَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُوْنَ فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ ) ( ۲ )

'' (یہاں سے) بہت قریب ہے کہ ملک میں رومی (نصار ا اہل فارس آتش پر ستوں سے) ہار گئے مگر یہ لوگ عنقریب ہی اپنے ہا ر جا نے کے بعد چند سالوں میں پھر (اہل فارس پر )غالب آجا ئیں گے ۔۔۔''۔

فتح مکہ

( لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُوْ لَهُ الرُّؤْیَابِالْحَقِّ لَتَدْ خُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَا مَ اِنْ شَائَ اللَّهُ آمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُؤُسَکُمْ ) ( ۳ )

''بیشک خدا وند عالم نے اپنے رسول کو با لکل سچا خواب دکھلا یا تھا کہ خدا نے چا ہا تو تم لوگ مسجد الحرام میں امن و سکون کے ساتھ سر کے بال منڈا کر اور تھو ڑے سے بال کا ٹ کر داخل ہو گے اور تمھیں کسی طرح کا خوف نہ ہوگا ۔۔۔''۔

پس قرآن کی غیبی خبریں بھی اس آسمانی کتاب کے معجزہ ہو نے میں شمار کی جا تی ہیں ۔

____________________

۱۔سورئہ آل عمران آیت۴۴۔

۲۔سورئہ روم آیت ۲۔۴۔

۳۔سورئہ فتح آیت ۲۷۔

۱۲۷

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بقیہ معجزات

ہم اس سے پہلی بحث میں بیان کر چکے ہیں کہ قرآن کریم وہ معجزہ ہے جو آخر الزمان کی امت پر منت کے طور پر رکھا گیا ہے اور پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نا زل ہوا ہے تاکہ قیامت تک امت رسول کے ہاتھوں میں رہے اور امت اس سے اسلام کی حقانیت کی راہ کو طے کر ے اور اپنی سعا دت کی راہ کی معرفت حا صل کرے ۔ اب یہ سوال در پیش ہے :

کیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قرآن کے علاوہ دوسرے معجزے بھی عطا کئے گئے ہیں یا نہیں ؟

قرآن مجید میں خود اس کے معجزہ ہونے اور اس میں غیبی خبروں کے مندرج ہو نے کے علاوہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض معجزات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اسی طرح خداوند عالم نے متعددمرتبہ جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آنحضرت کی امت کی غیب سے مدد فرما ئی ہے اس کی طرف بھی اشارہ ہو ا ہے جن میں سے ہر ایک اپنے مقام پر ایک معجزہ شمار کیا جاتا ہے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بر کت کے ذریعہ اس امت کو عطا کیا گیا ہے ۔ان معجزات میں سے بعض معجزات کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں :

شقّ ا لقمر

( اِقتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ القَمَرُوَاِنْ یَرَوْاآ یَةً یُعْرِضُوا وَیَقُولُواسِحْر مُّستَمِرّ ) ( ۱ )

''قیامت قریب آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے اور یہ کوئی بھی نشانی دیکھتے ہیں تومنھ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک مسلسل جادو ہے ''

اس آیۂ شریفہ سے کہ رسول اللہ کے دور حیات میں چاند کے دو ٹکڑے ہوئے اور یہ اللہ کی نشانی تھی ،چو نکہ اللہ اس کے بعد یہ فر ماتا ہے :( وَ اِنْ یَرَوْاآیَةً یُعْرِضُوْا ) ''اوریہ کوئی بھی نشانی دیکھتے ہیں تومنھ پھیر لیتے ہیں ''اس کے

____________________

۱۔سورئہ قمر آیت۱۔۲۔

۱۲۸

باوجود کہ چا ند دو ٹکڑے ہوا لیکن کفار و مشرکین دشمنان پیغمبر کہتے ہیں :

( سِحْرمُسْتَمِرّ )

''یہ ایک مسلسل جا دو ہے ''۔

اس آیۂ شریفہ کے سلسلہ میں دوسرے نظریہ بھی ہیں جو ان افراد کے ہیں جومعجزاتی چیزوں پر ایمان نہیں رکھتے ہم ان میں سے بعض نظریات کی طرف اشارہ کر تے ہیں :

بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ آیت قیامت سے متعلق ہے ۔یعنی قیا مت میں چاند دو ٹکڑے ہو گااور اس کی نشاندہی ا س سے ہو تی ہے کہ اس کے بعد( اِقْتَرَ بَتِ السَّا عة ) بیان ہوا ہے ۔

لیکن جیساکہ قا رئین کرا م آپ نے ملاحظہ فر مایا کہ آیۂ شریفہ کا ظا ہراس نظریے سے سازگار نہیں ہے ، چونکہ ''اِنْشَقَّ الْقَمَرْ ''ایک وقوع پذیر ہو نے والے واقعہ کی نشا ندہی کر تا ہے۔قیامت کے سلسلہ میں فر مایا گیا ہے ''اِقْتَرَبَتِ السَّا عَة '' ''قیامت نز دیک آگئی '' لیکن انشقاق قمر (چاند کا دو ٹکڑے ہو نا)کے متعلق فر ماتا ہے ''وَ انْشَقَّ الْقَمَرْ ''یہ نہیں فرمایا کہ ''اِقْتَرَبَ اِنْشِقَا قَ الْقَمَرُ'' یا ''اِقْتَرَبَتِ السَّاعَة وَاِنْشِقَا قُ الْقَمَر''۔یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم میں قیا مت کے آثار کوبیان کیا گیاہے جس کو روایات میں ( اشرا ط السا عة )کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ان کو عام طور پرکلمہ'' اِذَا '' سے بیان کیا جاتا ہے :( اِذَاالسَّمَا ئُ انْفَطَرَتْ ، اِذَاالسَّمَا ئُ انْشَقَّتْ ) لیکن اس مقام پرانشقّ القمر فر مایا ہے ۔اس کے علاوہ بعد والی آیت اس بات کی شاہد ہے کہ یہ ایک آیت تھی جس کالوگوں نے خود مشاہدہ کیا اوراس کو جا دو سے منسوب کرد یا،خدا فر ماتا ہے کہ یہ اس کے علاوہ دوسری آیت کو بھی دیکھیں گے تو اسی کو جادو کہدیں گے :(وَ اِنْ یَرَوْ اآیَةً یُعْرِضُوْاوَیَقُوْلُوْا سِحْر مُسْتَمِرّ ) ان کے اس قول کی یہاں اس سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے کہ قیا مت میں شق القمر ہو گا یالوگ جس آیت کو دیکھتے ہیں اسے جا دو کہدیتے ہیں یعنی کیا قیامت میں بھی جا دو کہیں گے؟! وہاں حقیقتیں ظاہر ہوں گی اور کو ئی شخص ان حقیقتوں کا انکار نہیں کر سکتا ۔ پس ظا ہر ہے کہ یہ آیت اسی دنیا سے مر بوط ہے ۔

دوسرے بعض افراد کا کہنا ہے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہو نا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ چاند زمین سے جدا ہو ا ہے اور یہ ایک علمی حقیقت ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے ۔دنیا کی معرفت حا صل کر نے کی ایک تھیوری یہ ہے کہ زمین سورج سے جدا ہو ئی ہے اور چاند زمین سے جدا ہوا ہے، اس بنا پر چاند زمین کا چکر لگاتا ہے اور قمر زمین ہے ۔پس قرآن اس نظریہ کی تا ئید کر تا ہے کہ چاند زمین سے جدا ہوا ہے ۔

۱۲۹

اس نظریہ پر بھی پہلے والا اعتراض ہوتا ہے کہ یہ آیت ظاہر کے خلاف ہے ،اس لئے کہ یہ ایک آیت کا بیان معجزہ کی حیثیت سے تھا ایک فطری اور تکو ینی لحا ظ سے نہیں تھا ۔اس کے علاوہ کلمۂ '' انشَقّ''چاند کے زمین سے جدا ہو نے کے با رے میں نہیں ہے ۔اِنْشقَّ یعنی شگافتہ ہو گیا یاپھٹ گیا اگر خدا وند عالم یہ فر مانا چاہتا کہ چاند زمین سے جدا ہوا تو اِشْتَقَّ یا اِنْفَصَل فر مانا چا ہئے تھا۔

بہر حال ہم تو اس سلسلہ میں کو ئی شک ہی نہیں کر تے کہ'' اِنْشَقَّ القمر''سے مراد وہی شق القمر ہے جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دست مبارک کے ذریعہ وقوع پذیر ہوا تھا ،شیعہ اور اہلسنت سے اس با رے میں متعدد روایات نقل ہو ئی ہیں کہ مہینہ کی چو دہویں رات تھی اور چاند ابھی نکلا ہی تھا کہ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اشارہ کیا اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور کچھ دیر تک اسی طرح با قی رہا اور پھر دو نوں ٹکڑے آپس میں مل گئے اور پہلے کی طرح مکمل ہوگئے ۔ یہاں تک کہ بعض اہلسنت علما ء نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ شق القمر کے سلسلہ میں بعض روایات متوا تر ہیں ۔

اس بارے میں بھی کچھ علمی اعتراضات ہو ئے ہیں کہ ایک آسمانی کرہ کا دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جا نااس کا کیا مطلب ہے؟ یا اگر ایسا ہو ا تھا تودوسرے افراد بھی اس کا مشا ہدہ کرتے،اور یہ تا ریخ میں نقل ہوتااسی طرح کے متعد د اعتراضات کئے ہیں ۔

ہما رے بزرگ علما نے ان سوالوں کے یہ جوابات دئے ہیں :

۱۔یہ معجزہ ایک اتفاقی اور اچانک واقعہ تھا ۔ لوگ ہمیشہ بیٹھکر آسمان کی طرف یہ نہیں دیکھاکر تے ہیں کہ کیا کیا حا دثے رو نما ہو رہے ہیں ۔ جو لوگ آسمان کے سلسلہ میں زیادہ جستجو کر تے ہیں وہ اس چیز کے منتظر رہتے ہیں کہ کیا اس طرح کا کو ئی حادثہ واقع ہو سکتا ہے یا نہیں وہ دیکھتے ہیں ۔

۲۔اُس وقت ایسے حالات نہیں تھے کہ تمام حوادث ا ورواقعات تحریر کر لئے جا تے ہوں اور ان سے سب کومطلع کردیا جائے اس زمانہ میں ایک دوسرے سے رابطہ کر نے والے مو جود ہ و سیلے نہیں تھے کہ جن سے فوری طور پرساری دنیا کو مطلع کر دیا جاتا اس کے علا وہ جب کرہ ٔ زمین کے کسی ایک مقام پر اس طرح کا کو ئی واقعہ پیش آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب جگہ اس کا مشاہدہ کیا جا ئے۔چو نکہ رات کی ابتداء میں یہ واقع ہوا اور اس وقت چاند بہت سے مقامات پر طلوع بھی نہیں ہوتا ۔

لو گوں کے ادراک میں تصرف

قرآن فرماتا ہے کہ بعض جنگوں میں خدا وند عالم نے مسلمانوں اور مشرکین کے اذہان میں اس طرح تصرف کیا ہے کہ وہ کسی جنگ میں فوجیوں کی تعداد کو کم یا زیادہ دیکھتے تھے اور اس طرح کہ خداوندعالم مسلمانوں کوجو کا میابی دینا چا ہتا تھا وہ حا صل ہو جا تی تھی ۔دو آیات میں اس مسئلہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :

۱۳۰

( قَدْ کَانَ لَکُم آیَةفِی فِئَتَیْنِ الْتَقَتَافِئَة تُّقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللَّهِ وَأُخرَیٰ کَافِرَة یَرَوْنَهُمْ مِثْلَیْهِمْ رَأیَ العَیْنِ وَاللَّهُ یُؤَ یِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ یَّشَآئُ اِنَّ فِی ذَلِکَ لَعِبْرَةً لِّاُوْلیِ الاَبْصَٰر ) ( ۱ )

''تمہارے واسطے ان دو نوں گرو ہوں کے حالات میں ایک نشانی مو جو د ہے جو میدان جنگ میں آمنے سامنے آئے کہ ایک گروہ راہ ِ خدا میں جہاد کر رہا تھا اور دوسرا کافر تھا جوان مو منین کو اپنے سے دوگنا دیکھ رہا تھا اور ﷲ اپنی نصرت کے ذریعہ جس کی چا ہتا ہے تا ئید کرتا ہے اور اس میں صاحبان نظر کے واسطے سامان عبرت و نصیحت بھی ہے '' ۔

مفسرین قرآن کے ما بین جملہ ''یَرَوْنَھُمْ مِثْلَیْھِمْ ''کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلافات پا ئے جا تے ہیںکہ ''یَرَوْنَ''کا فا عل کو ن ہے ؟اور پہلی ضمیر '' ھُم ''کس کی طرف پلٹتی ہے اور ''مِثْلَیْھِمْ ''کی ضمیر ''ھُمْ ''کا مر جع کیا ہے ؟اس بارے میں کئی وجہیں بیان کی گئی ہیں :

بعض مفسرین کہتے ہیں :مومنین خود کو دو گنا دیکھ رہے تھے تاکہ اپنی کا میابی کی امید لگا ئے رکھیں۔ یہ داستان جنگ بدر سے متعلق ہے ۔مسلمان ۳۱۳افراد تھے خدا وند عالم نے ان کی تعداد خود انھیں دو گنا دکھلائی ۔پس یَرَوْنَ کا فاعل اور ضمیر ''ھُمْ '''' یَرَوْنَھُم ْ '' اور '' مِثْلَیْھِمْ ''میں سب مو منین کی طرف پلٹتی ہیں۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے :ضمیر یَرَوْنَ کا فاعل کفا ر ہیںلیکن ضمیر''ھُمْ ''مو منین کی طرف پلٹتی ہے یعنی کفار مومنین کو دو گنا دیکھتے تھے ۔یہ کفار کے اذہان پر تصرف تھا جس کی وجہ سے کفار یہ سمجھتے تھے کہ مو منین کی تعداد ۶۲۶ ہے حالانکہ ان کی تعداد تین سو تیرہ سے زیادہ نہیں تھی ۔

اور بعض دوسرے مفسرین کا کہنا ہے کہ :یَرَوْنَ کا فاعل کفار ہیں اور مِثْلَیْھِمْ کی ضمیر کفار کی طرف پلٹتی ہے۔ یعنی کفار مو منین کو دو گنا دیکھتے تھے ۔ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی اور مو منین کی تعداد تین سو تیرہ تھی لیکن کفار سو چتے تھے کہ مو منین دو ہزار افراد ہیں ۔یعنی کفار تعدا د کو دو گنا دیکھ رہے تھے مو منین کی تعداد کے دو گنا نہیں ۔

مر حوم علامہ طبا طبائی نے اس احتمال کی تا ئید فر ما ئی ہے کہ یَرَوْنَ کا فاعل کفار ہیں لیکن دو سری دونوں ضمیریں ''ھُمْ ''مو منین کی طرف پلٹتی ہیں یعنی کفار مو منین کو دو گنا دیکھتے تھے یعنی ۶۲۶ آدمی دیکھتے تھے ۔

بہر حال کچھ بھی ہو اس آیت سے ہما رے مقصد کو کو ئی ضرر نہیں پہنچتا ۔یعنی خدا وند عالم نے لوگو ں کے اذہان

____________________

۱۔سورئہ آل عمران آیت۱۳۔

۱۳۱

میں تصرف کیا کہ وہ ایک تعداد کو دو گنا دیکھیں اور یہ مو منین کی کا میابی میں مو ٔثر تھا :

( وَاِذْیُرِیْکُمُوْهُم اِذِالْتَقَیْتُمْ فِیْ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلاً وَیُقَلِّلُکُمْ فِیْ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللَّهُ اَمْراًکَانَ مَفعُوْلاً ) ( ۱ )

''اور جب خدا مقابلہ کے وقت تمہاری نظروں میںدشمنوں کو کم دکھلا رہا تھا اور ان کی نظر میں تمھیں کم کرکے دکھلا رہا تھا تا کہ اس امر کا فیصلہ کردے جو ہو نے والا تھا اور سارے امور کی بازگشت ﷲہی کی طرف ہے '' ۔

یہاں دو اعتراض در پیش ہیں :

جب طرفین ایک دو سرے کو کم دیکھیں تو اس سے تو کا میابی میں کو ئی فرق نہیں پڑتا ۔ اگر ایک طرف کے افراد دو سری طرف کے افراد کو زیادہ دیکھتے ہیں تویہ اس بات کا باعث ہو نا چا ہئے تھا کہ جس طرف زیادہ افراد دکھا ئی دیں وہ غلبہ حا صل کر لیں چو نکہ اس کا نفسیاتی اثر ہو تا ہے لیکن جب دونوں طرف کے افراد ایک دو سرے کو زیادہ دیکھیں تو دونوں کی نسبت ایک ہے لہٰذا کا میابی میں اس کا کو ئی اثر نہیں ہوگا ۔وہ ایک ہزار آدمی ہوں اور یہ ۳۱۳ یا مثال کے طور پروہ ۵۰۰ افراد ہوں اور یہ ۱۵۵ افرادہوں پھربھی دونوں کی نسبت ایک ہے۔

ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ یہ آیت پہلی آیت کے ساتھ کیسے جمع ہو سکتی ہے حالانکہ پہلی آیت میں خداوندعالم نے مو منین پر یہ احسان کیا کہ وہ ان کو دو گنا دیکھتے ہیں ۔یہاں پر بھی احسان کر رہا ہے کہ تم کو کم دیکھتے ہیں۔ان میں مو ٔثر کو نسا ہے ؟اور کس طرح ان کو جمع کیا جا سکتا ہے ؟

ان دو نوں آیات کو اس طرح جمع کیا جا سکتا ہے کہ کفا رمسلمانوں کو جوکم دیکھتے تھے اس میں ایک مصلحت ہے ،اور مو منین کفار کو کم دیکھتے تھے اس میں دوسری مصلحت ہے اور مومنین کو زیادہ دیکھنے میں تیسری مصلحت ہے ۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی وقت میں نہیں تھا ۔ایک مرتبہ کفار مو منین کو کم دیکھتے تھے اور دوسری مر تبہ زیادہ دیکھتے تھے ۔

لیکن یہ سوال کہ کم دیکھنا کس طرح مو منین کی کا میابی میں مؤثرہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر مو منین کفار کی تعداد کو اسی طرح دیکھتے جتنے کہ وہ تھے تو وہ ڈر جاتے اور جنگ کر نے کی ہمت نہ کر پا تے لہٰذا خدا وند عالم نے کفار کی تعداد مو منین کو کم دکھلا ئی تا کہ مو منین خوف نہ کریں ۔

اور کفار کے مو منین کی تعداد کو کم دیکھنے کی مصلحت یہ ہے کہ اگر وہ شروع ہی سے مو منین کی تعداد کو زیادہ دیکھتے

____________________

۱۔سورئہ انفال آیت۴۴۔

۱۳۲

تو فرار کر جا تے اور جنگ ہی نہ ہو تی نتیجتاًجو حکمت اس جنگ کے واقع ہو نے اور مسلمانوں کی کامیابی میں مخفی تھی وہ سا منے نہ آتی ۔خدا وند عالم نے ابتداء میں ان کو مو منین کی تعداد کم دکھلائی تا کہ کفاریہ کہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہیںہم جلدہی ان کا خا تمہ کر ڈالیں گے ۔لیکن جب جنگ شروع ہو گئی اور بھا گنے کا کو ئی مو قع نہ رہ گیا تب انھوں نے مو منین کو اپنے سے دو گنادیکھا لہٰذااُن پر مو منین کا رعب طاری ہو گیا اور وہ شکست کھا گئے ۔

لہٰذا تینوں چیزیں صحیح ہیں اور خدا وند عالم کی طرف سے مو منین کے او پر یہ ایک طرح کی نعمت ہے ۔مو منین کو کم دیکھنے کی مصلحت یہ تھی کہ وہ جنگ کر نے کے لئے قدم بڑھا ئیں ۔''( لِیَقْضِی اللهُ اَمْراً کَانَ مَفْعُوْلاً ) ''۔

مو منین بھی ان کو کم دیکھتے تھے تا کہ پہلے ہی سے ہا ر نہ مان لیں اور اتفاق سے اسی آیت سے پہلے یہ بیان ہوا ہے کہ خدا وند عالم نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خواب میں کفار کی تعداد کم دکھلا ئی ۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ مشرکوں کے کچھ افراد کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں اور اس آیت کے ذیل میں فر ماتا ہے :( وَلَوْاَرَا کَهُمْ کَثِیْراً لَفَشِلْتُمْ ) اگر خدا وند عالم خواب میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کی بہت زیادہ تعداد دکھلا دیتا اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس ما جرے کو مو منین کے سا منے بیان فر مادیتے تو مو منین اپنے کمزور ہو نے کا احساس کر تے اور نتیجہ میں کفارسے شکست کھا جا تے ۔

خلاصہ :یہ آیات اس بات پر دلالت کر تی ہیں کہ مو منین اور کفار کے اذہان پر خداوند عالم کی طرف سے ایسا تصرف واقع ہوا جو مو منین کے نفع میں تھا ۔

''القاء رُعب ''اور'' نزول سکون و اطمینان''

خداوند عالم کی طرف سے مسلمانوں کے نفع اور کا میابی میں غیر معمولی طریقہ سے ''القا ء رعب'' کا مسئلہ واقع ہوا۔ یہ مسئلہ بھی کئی آیات اور کئی مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ روایات میں بھی بیان ہوا ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رعب و دبدبہ تھا ۔جب مو منین کفار پر حملہ کر تے تھے تو ان کفار کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ جنگ میں مات کھا جاتے تھے ۔اس مطلب کو کئی آیات میں بیان کیا گیا ہے جن میں سے چند آیات ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں :

( سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الذَّیْنَ کَفَرُوْاالرُّعْبَ ) ( ۱ )

'' ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں تمھارا رعب ڈال دیں گے ''۔

____________________

۱۔سورئہ آل عمران آیت۱۵۱۔

۱۳۳

( سَاُ لْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الذَّیْنَ کَفَرُوْا الرُّعْبَ ) ( ۱ )

''میں عنقریب کفار کے دلوں میں رعب پیدا کروں گا ''۔

مجمو عی طور پر قرآن کریم میں اس کا تذکرہ چا ر مقامات پر کیا گیا ہے کہ خدا وند عالم کفارکے دلوں میں خوف ایجاد کر تا تھا جو ان کی شکست کا باعث ہو تا تھا ۔

( وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ) ( ۲ )

''اور ان کے دلوںمیں ایسا رعب ڈال دیا ''۔

اور اس کے با لمقابل مو منین کے دلوں میں ''سکینہ''سکون و اطمینان پیدا کردیتا تھا۔

( ثُمَّ اَنْزَلَ اللَّهُ سَکِیْنَتَهُ عَلَیٰ رَسُوْلِهِ وَعَلَیٰ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ( ۳ )

''پھر اسکے بعد خدانے اپنے رسول اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا'' ۔

اور دو سری آیت:

( فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَکِیْنَتَهُ عَلَیْهِ ) ( ۴ )

''پھر خدانے اپنی طرف سے پیغمبر پرسکون نازل کردیا ''۔

یہ آیت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلہ میں ہے ۔البتہ یہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے متعلق ہے کہ جب آپ نے'' غار ثور'' میں قیام فر مایاتھا ۔

دوسری آیات :

( هُوَالَّذِیْ أَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُومِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْا اِیْمَاناًمَعَ اِیْمَانِهِمْ ) ( ۵ )

''وہی خدا ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون نازل کیا ہے تاکہ ان کے ایمان میںمزید اضافہ ہوجائے ''۔

____________________

۱۔سورئہ انفال آیت۱۲۔

۲۔سورئہ احزاب آیت۲۶،سورئہ حشر آیت۲۔

۳۔سورئہ توبہ آیت۲۶۔

۴۔سورئہ توبہ آیت۴۰۔

۵۔سورئہ فتح آیت۴۔

۱۳۴

( فَأَ نْزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَاَثَٰبَهُمْ فَتْحاً قَرِیْباً ) ( ۱ )

''تو اس نے ان پر سکون و اطمینان اتار دیا اور انھیں قریبی فتح عنایت کردی ''۔

( فَأَ نْزَلَ اللَّهُ سَکِیْنَتَةُ عَلَیٰ رَسُوْلِهِ وَعَلیَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ( ۲ )

''تو ﷲنے اپنے رسول اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کردیا ''۔ان مقا مات پر ''انزال سکینہ ''کے بعد دوسری بات بیان فر ماتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا وند عالم آسمان سے فوج بھیجتا تھا کہ لوگ دیکھنے نہ پا ئیں اور وہ فوج مو منین کی مدد کرے :

( وَاَنْزَلَ جُنُوْداً لَّمْ تَرَوْهَا ) ( ۳ )

''اور وہ لشکر بھیجے جنھیں تم نے نہیں دیکھا ''۔

دو سری آیت :

( وَاَیَّدَهُ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا ) ( ۴ )

''اور ان کی تائید ان لشکروں سے کردی جنھیں تم نہ دیکھ سکے ''۔

پس ایک کرامت جس کے ذریعہ سے خدا وند عالم نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مو منین کی مدد فرمائی وہ غیبی لشکرہیںکہ خو د مو منین بھی اس کو دیکھ نہیں پا تے تھے لیکن وہ مو منین کی کامیابی میں مو ٔثر کردار ادا کر تا بعض آیات میں جنود(بہت سے لشکروں )کے علاوہ (ریح)(یعنی ہوا )کا بھی ذکر ہوا ہے۔ یعنی خدا وندعالم نے ہوا(آندھی) بھیجی جو مسلمانوں کی کا میابی اور کفار کی شکست کا سبب بنی:

( اِذْجَائَ تْکُمْ جُنُود فَأَرْسَلْنَاعَلَیْهِمْ رِیْحاًوَجُنُوداً لَّمْ تَرَوْهَا ) ( ۵ )

''جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا ''۔اب سوال یہ ہے کہ یہ جنود کون افراد تھے ؟احتمالی طور پر وہ ملائکہ (فرشتے ) ہی تھے ۔بعض آیات میں صاف

____________________

۱۔سورئہ فتح آیت۱۸۔

۲۔سورئہ فتح آیت۲۶۔

۳۔سورئہ توبہ آیت۲۶۔

۴۔سورئہ توبہ آیت۴۰۔

۵۔سورئہ احزاب آیت۹۔

۱۳۵

صاف یہ بیان ہوا ہے کہ خداوندعالم نے ملائکہ کو بھیجا ،لیکن ان کے دیکھنے یا نہ دیکھنے کا ذکر نہیںہوا ہے :

( وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍوَاَنْتُمْ أَذِ لَّة فَاتَّقُوْااللَّهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) ( ۱ )

''اور ﷲنے بدر میں تمہاری مدد کی ہے جب کہ تم کمزور تھے لہٰذا ﷲسے ڈرو شاید تم شکر گذار بن جائو ''۔

رہا مسئلہ یہ کہ خدا وند عالم نے اس آیت میں مومنین کو ذلیل سے کیوں تعبیر کیا حالانکہ خود اس کا فرمان ہے : (اَلْعِزَّةُ للَّہِ وَلِلْمُوْمِنِیْنَ )''عزت اللہ اور مو منین کے لئے ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر ذلت کفار کے مقابلہ میں یاتو مو منین کی ظا ہری حالت کی مناسبت سے ہے کہ مو منین کی تعداد بہت کم تھی اور جنگی ساز و سامان بھی بہت کم تھا چھ عدد زرہیں اور چند تلواروں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ۔ حالانکہ کفار ہر طرح سے مسلح تھے یا یہ کہ اگر خدا وند عالم کی عطا کردہ عزت نہ ہو توانسان بذات خود ذلیل ہے یعنی بذات خود تم ذلیل تھے اگر خدا وند عالم تم کو عزت نہ دیتا جیسا کہ خدا وند عالم اپنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرماتا ہے : (وَوَجَدَ کَ ضَالّاًفَھَدی)ٰ ''اور کیا تم کو گم گشتہ پا کر منزل تک نہیں پہنچایا ہے '' اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی موجود کی بذات خود کو ئی عزت نہیں ہے یہ خدا ہے جس نے تم کو با عزت بنا یاہے ۔اور تم کو یہ یا د دلاتا ہے کہ تم بذات خود کوئی عزت نہیں رکھتے ہو ۔خدا نے تم کو عزت عطا کی ہے بہرحال وہ یہ فر ماتا ہے کہ تم جنگ بدر میں ذلیل تھے اور خداوند عالم نے تمہا ری مدد فرمائی( فَاتَّقُوْااللَّهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ )

اس کے بعد فر ماتا ہے :

( اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُوْ مِنِیْنَ اَلَنْ یَکْفِیَکُمْ أَنْ یُمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَةِ ئَ الَافٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَةِ مُنْزَلِیْنَ ) ( ۲ )

''اس وقت جب آپ مومنین سے کہہ رہے تھے کہ کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیںہے کہ خدا تین ہزار فرشتوں کو نازل کرکے تمہاری مدد کرے ''

مو منین اپنے دلوں میں کمزوری کا احساس کر تے تھے اور کبھی کبھی اس کو اپنی زبان سے بھی بیان کیا کر تے تھے کہ ہم اتنے کم افراد اور وہ اُتنے زیادہ کفار وہ بھی پورے جنگی ساز و سامان کے ساتھ ہم ان کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں ؟

اس کے بعد خدا دو بنیادی چیزوں یعنی صبر اور تقویٰ کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فر ماتا ہے:

____________________

۱۔سورئہ آ ل عمران آیت۱۲۳۔

۲۔سورئہ آل عمران آیت۱۲۴۔

۱۳۶

( بَلَیٰ اِنْ تَصْبِرُوْاوَتَتَّقُوْاوَیَأَتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هَٰذَایُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَةِ ئَ الَافٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَةِ مُسَوِّمِیْنَ ) ( ۱ )

''یقینا اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے اور دشمن فی الفور تم تک آجائیں گے تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جن پر بہادری کے نشان لگے ہوں گے ''۔

اس آیت میںیہ وعدہ کیا گیا ہے کہ خدا وند عالم ملائکہ (فرشتوں )کو تمہا ری مدد کے لئے بھیجے گا لیکن کیا خداوند عالم نے بھیجا یا نہیں ؟

( اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاْسَتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍِ مِّنَ الْمَلٰئِکَةِ مُرْدِفِیْنَ ) ( ۲ )

''جب تم پروردگار سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں ایک ہزار ملائکہ سے تمہاری مدد کررہاہوں جو برابر ایک کے پیچھے ایک آرہے ہیں ''۔

جنگ بدر میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مو منین نے اپنے ہا تھو ں کو خداوندعالم کی بارگاہ میں بلند کر کے دعا کی اور اس سے مدد کی درخواست کی اور خدا نے بھی ان کی دعا کو مستجاب فر مایا ۔استجابت دعا بھی یہی تھی کہ خدا وندعالم نے فرمایا میں ایک ہزار فر شتوں کو تمہا ری مدد کے لئے نا زل کر وں گا ۔

اب یہ سوال در پیش ہے کہ اس آیت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وعدہ کیا تھا کہ تین ہزار فرشتے اور اس کے بعد خدا وند عالم نے بھی فر مایا تھا اگر صبر اور تقویٰ سے کام لیا تو پا نچ ہزار فرشتے بھیجوں گا لیکن اس آیت میں فر ماتا ہے کہ ہم نے ایک ہزار فرشتے بھیجے ؟

جواب یہ ہے کہ یہ ہزار فرشتے مقد مہ تھے ،اس بات کا شاہد یہ ہے کہ خداوندعالم فرماتا ہے (مُرْدِفِیْنَ) مردف اس مقام پر استعمال ہو تا ہے کہ جب کوئی آگے آگے چلتا ہو اور دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آرہا ہو ۔ ابتداء میں یہ ایک ہزار فرشتے نا زل ہو ئے اور اپنے بعد دو ہزار فرشتوں کو لا نے والے تھے ۔پس وہی تین ہزار فرشتے نا زل ہو ئے۔

اب ان ملائکہ نے نا زل ہو کر کیا کیا ؟

( اِذْیُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰئِکَةِ أَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُوْا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ آل عمران آیت۱۲۵۔

۲۔سورئہ انفال آیت۹۔

۳۔سورئہ انفال آیت۱۲۔

۱۳۷

''جب تمہارا پروردگار ملائکہ کو وحی کررہا تھا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں لہٰذا تم صاحبان ایمان کو ثبات قدم عطا کرو ''۔

ملائکہ نے جنگ بدر میں نا زل ہو کر کیا کردار ادا کیا ،کیا انھوں نے جنگ کی یا کو ئی دو سرا کردار ادا کیا ؟ روایات میں وارد ہوا ہے کہ جنگ بدر میں نا زل ہو نے والے فرشتوں نے کسی شخص کو قتل نہیں کیا ۔جنگ بدر میں اکثر مقتولین کو حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے اصحاب نے قتل کیا تھا، ملائکہ کا کام فقط مو منین کی روحی اور معنوی طاقت کو تقویت دینا تھا ۔اس آیت میں بھی فر مایا گیا ہے کہ خدا وند عالم نے ان پر وحی کی کہ میں تمہا رے ساتھ ہوں تم مومنین کو ثابت قدم رکھنا ،ان کے اندر اطمینان و سکون پیداکر نا ۔اس کے بعد اسی آیت میں فر ماتا ہے:

( فَاضْرِبُوافَوْقَ الْاَعنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ کُلَّ بَنَانٍ ) ( ۱ )

''لہٰذا تم کفار کی گردن کو مار دو اور ان کی تمام انگلیوں کو پور پور کاٹ دو ''۔

ان دو جملوں کے سلسلہ میں مفسرین کے ما بین اختلاف ہے کہ یہ خطاب کس سے ہے ؟کیا یہ خطاب ملائکہ سے ہے یا مو منین سے ؟

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ خطاب ملائکہ سے ہے اور ان کو جنگ کر نے کا حکم دیا گیا ہے ۔یہ وجہ روایات کے مد نظر اور آیۂ شریفہ کے پہلے جملہ سے ساز گا ر نہیں ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں ملا ئکہ سے خطاب ہے لیکن (اضْرِبُوْافَوْ قَ الْاَعْنَاقِ سے مراد سریا ہا تھ یا پیروں کا قطع کر نا نہیں ہے بلکہ ان کا کمزور کر نا مراد ہے ، یعنی فرشتوں نے دو کر دار اداکئے ہیں :ایک یہ کہ مو منین کو تقویت پہنچائیں اور دو سرے یہ کہ دشمنوں کو کمزور کریں ان کے سر پر ما ریںیعنی ان کو ذلیل کریں ، ان کی روحا نی طاقت کو کمزور کریں ،ان کے ہاتھوں پر ضرب لگائیں تاکہ ان کے ہاتھ سست ہو جا ئیں نہ یہ کہ ان کے ہاتھ کٹ جا ئیں ۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آخری جملہ میں مو منین سے خطاب کیا گیا ہے ۔اب جبکہ ہم نے تمہاری مدد کے لئے ملائکہ کو بھیج دیا ہے تو تم اپنی ہمت با ندھے رکھنا اور ان کو نیست ونا بود کر دینا ۔

اس آیت سے متعلق ان تینوں وجہو ں کو بیان کیا گیا ہے اور ممکن ہے دوسری وجہ سب سے بہتر ہو اس لئے کہ( خیرالاموراوسطہا)ہے۔یہ وہ تمام آیات تھیں جو اس بات پر دلالت کر تی ہیں کہ خدا وند عالم کی غیبی طاقت اکثر جنگوں میں مو منین کے شامل حال رہی ہے۔

____________________

۱۔سورئہ انفال آیت۱۲۔

۱۳۸

لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کرامات و معجزات کے سلسلہ میں شیعہ اور اہلسنت سے متعدد روایات نقل ہو ئی ہیںاور چو نکہ ہما ری بحث قر آن سے متعلق ہے لہٰذا ہم ان کو بیان کر نے سے قاصر ہیں لیکن بہت زیادہ متواتر حدیثوں میںہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اتنے زیادہ معجزات ظاہر ہو ئے ہیں کہ ان کا شمار کر نا بہت مشکل کام ہے ۔ کبھی کبھی ایسا اتفاق ہو تا تھا کہ آپ سے ایک ہی دن میں متعددمعجزاتی باتیں ظاہر ہو تی تھیں ۔ان میں سے بعض کفار کی خوا ہش کی وجہ سے اور اپنی نبوت کے اثبات کے لئے ہوا کر تی تھیں ،جبکہ بہت سی دوسری چیزیں اپنی نبوت کے اثبات کے لئے نہیں ہو تی تھیں۔مثال کے طور پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بیابان میں خیمہ کے اندر تشریف لاتے تھے اور وہاں پر کو ئی بکری ہو تی تھی تو آپ اپنا دست مبارک اس پر رکھ دیتے تھے تو وہ فربہ ہو جا تی تھی اور دودھ دینے لگتی تھی ۔اگر بیمار ہو تی تو شفا پا جا تی تھی وغیرہ وغیرہ اس طرح اور بہت سی مثالیں موجودہیں ۔

کثیر احا دیث میں نقل ہوا ہے کہ کفار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کر تے تھے کہ اگر آپ نے فلاںکام انجام دیدیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔مشہور و معروف واقعہ ہے کہ انھوں نے کہا کہ اگر آپ سچ فر ما تے ہیں کہ میں خدا کا نبی ہوں تو وسط بیا بان میں کھڑے اس درخت سے کہئے کہ وہ آگے بڑھ کر آئے اور آپ کی رسالت کی گو اہی دے یا یہ سنگریزے آ پ کے دست مبارک میں آکرکلام کریں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سنگریزوں کو اپنے دست مبارک میں اٹھا یا تو وہ سنگر یزے تسبیح الٰہی کر نے میں مشغول ہو گئے اور اسی طرح کی بہت سی چیزیں بے شمار روایات میں ذکر ہو ئی ہیں۔

۱۳۹

عصمت

گذشتہ مباحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ حکمت الٰہی کاتقاضاہے کہ (خداوند)انسانوں کے درمیان کچھ ایسے افراد منتخب کرے جو اسکے اہداف ومقاصد اور ان تک پہنچنے کی راہیں انسانوں کو تعلیم دیں اورپھروہ لوگ بھی ان کو دوسروں تک پہنچائیں ۔

اب یہ سوال پیش آتا ہے :ٹھیک ہے خداوند عالم نے پیغمبر کو منتخب کیا اور اس پر بعض مطالب کی وحی کی کہ اسے بندوں تک پہنچائے ۔اب ہمیں کیسے اطمینان حاصل ہو کہ خداوند عالم نے جو کچھ اپنے پیغمبر پر وحی نازل فرمائی تھی بالکل وہی من وعن بندوں تک پہنچی ہے ؟

دوسرے الفاظ میںوہ پیام جو خداوند عالم کی طرف سے اسکے بندوں پر نازل ہوتا ہے کئی مرحلوں کو طے کرتا ہے تب بندوں تک پہنچتا ہے فرض کیجئے اگر ان مراحل میں کوئی غلطی ہوجائے، بطور مثال ،وحی پہنچانے والے نے پیغمبرتک وحی پہنچانے میں غلطی یا انحراف سے کام لیا ہو،یا پیغمبر وحی کے سمجھنے میں ،یا وحی کی تبلیغ کے وقت غلطی کر بیٹھے یا یہ احتمال ہو کہ العیاذبﷲنبی نے (جان بوجھ کر) کوئی بات بدل کر بیا ن کردی ہے تو جب تک ان مراحل و مراتب کے سلسلے میںہم کو یہ اطمینان نہیں ہوگا کہ اس دوران کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے اس وقت تک لوگوں پر حجت تمام نہیں ہوگی تو اسی دلیل کی بنیاد پر کہ جن کے تحت حکمت الہٰی تقاضا کرتی ہے کہ لوگ راہ سعادت و شقاوت کو پہچانیں اور خداوند عالم کی معرفت حا صل کریں ۔جہاں تک مقاصد الٰہی کو درک کرنے کی بات ہے تو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہو ئی ہے یہی دلیل کافی ہے ۔

یعنی جب ہم نے اس بات کو سمجھ لیا کہ خود خدا وند عالم کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگ الٰہی مقاصد کا علم حاصل کریں تو جو کچھ اس عالم ہونے کا لازمہ ہے یہی دلیل مرحلہ بہ مرحلہ ان سب کے لئے کافی ہے کیونکہ اگر ان میں سے کسی ایک مرحلہ میں کوئی غلطی یا خطا ہوجائے تو مقصد ہی فوت ہوجائیگا اوروہ الٰہی مقصد پورا نہیں ہوگا پس یہی دلیل اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ الٰہی اغراض و مقاصد اپنے اصل متن کی صورت میں ہی لوگوں تک پہنچتے ہیں اور خدا کی طرح سے معین درمیانی واسطے کی غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے بنابراین وحی کے لانے والے فرشتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وحی کے حصول اور نبی تک پہنچانے میں کوئی غلطی نہ کریں اور خود انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی ضروری ہے کہ پیغام وحی صحیح طورپر وصول کریں اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں بھی کوئی غلطی وخطا نہ کریں معلوم ہوا کہ اسی پیغام کا اپنے اصل سر چشمہ سے لوگوں تک پہنچنے کے تمام مراحل میں غلطی وخطا سے محفوظ رہنا اسی دلیل کے ذریعہ ثابت ہے۔

۱۴۰