راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135874
ڈاؤنلوڈ: 3496

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135874 / ڈاؤنلوڈ: 3496
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

یعنی اسی دلیل سے وحی کو صحیح طورپر وصول کرنے اور اس کو لوگوں تک پہنچانے کے سلسلے میںانبیاء علیہم السلام اور ملائکہ کی عصمت کی ایک قسم ہے جو انبیاء علیہم السلام کیلئے اور انبیاء سے پہلے ملائکہ کیلئے ثابت ہوتی ہے۔

لیکن عصمت کے دوسرے معنی اوردوسرے مراتب بھی ہیں منجملہ یہ کہ عمل کے میدان میں بھی انبیاء کو غلطی نہیں کرنا چاہئے یعنی وہ اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی کی نہ صرف خلاف ورزی نہ کریں بلکہ ان کا عمل بھی خود ان پر نازل ہونے والی وحی کے مطابق ہونا چاہئے حتّیٰ اس سے بھی بڑھکر ان کو اپنی نبوت ورسالت سے پہلے بھی معصوم ہونا چاہئے اور کبھی کسی گنا ہ کا ار تکاب نہیں کر نا چا ہئے اور پھر اس سے بھی بڑھکر نہ صرف یہ کہ وہ گنا ہ و سر کشی نہ کریں بلکہ احکام کو بیان کر نے کے علا وہ بھی ان سے کو ئی غلطی اور سہو و نسیان صا در نہیں ہو نا چا ہئے ۔مذ کو رہ دلیل ، عصمت کے ان مر اتب کو بیان نہیں کرتی بلکہ فقط اتنا بیا ن کر تی ہے کہ وہ ہدف الٰہی کہ جس کا بندو ں کے لئے سمجھنا ضرو ری ہے ، اصل صور ت میں ان تک پہنچنا ہی چا ہئے لیکن یہ کہ انبیا ء علیہم السلام کو اس کے مطابق عمل بھی کر نا چاہئے یا نہیں ؟ یہ دلیل اس بات کو ثابت کر نے کی قدرت نہیں رکھتی بلکہ ہمیں آیات، روا یا ت اور دوسری دلیلو ں سے اس مطلب کو معلوم کر نا ہو گا ۔

پہلے مسئلے میں یعنی ''وحی کو لیکر لو گو ں تک پہنچا نے میں انبیاء علیہم السلام کا معصوم ہو نا ''اس طور پر کہ وہ کوئی غلطی نہیں کر تے ، یعنی جا ن بو جھ کر خود پر نا زل ہو نے والی وحی کے خلاف ،کو ئی بات لو گو ں تک نہیں پہنچا تے ۔ اس ذیل میں عقلی دلیل کے علا وہ بہت زیا دہ آیات و روا یات مو جو د ہیں جو اس بات کی تا ئیدکرتی ہیں لیکن یہا ں قا بل توجہ بات یہ ہے کہ جس شخص پر ابھی نبی کی نبوت نیز اس کی کتاب کی حقانیت ثابت نہ ہو ئی ہو اس کے لئے کتاب کے مطالب سے استد لال کر نا بے فا ئدہ ہے اس لئے کہ فرض یہ ہے کہ اس کو ابھی نبی اور اس کی کتاب کے با رے میں شک ہے ۔لہٰذا ایسے شخص کے سا منے پہلے عقلی دلیل ہی قا ئم کرنا چا ہئے ۔ہا ں یہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ خداوند عا لم کی طرف سے ایک کتا ب ہی نا زل ہو ئی ہے ۔ اس کتا ب کے مطا لب بھی اس کے لئے حجت ہو ں گے۔مثال کے طور پر یہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ قرآن خدا وند عالم کی طرف سے معجزہ ہے فطری طور پر اس کے مطالب بھی تمام لو گو ں کے لئے حجت ہو ں گے لیکن اس سے پہلے کے مر احل میں ہم جو بھی دلیل پیش کریں اس کی بنیا د عقل پر استوار ہو نا چا ہئے ۔

۱۴۱

ملا ئکہ کی عصمت

قر آ ن کریم میں وہ آیات مو جو د ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ملا ئکہ معصوم ہیں اور وہ الٰہی پیغامات پہنچا نے میں کو ئی غلطی نہیں کرتے اسی طرح انبیا ء علیہم السلام بھی جان بو جھ کر خطا سے محفوظ ہو نے کے ساتھ ساتھ وحی کے پیغام وصول کر نے اور لو گو ں تک پہنچا نے میں بھی غلطی اور خطا سے محفو ظ ہو تے ہیں ۔

ہم ملا ئکہ کی عصمت کے با رے میں کچھ آیا ت ذیل میں پبش کر رہے ہیں قر آ ن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَقَا لُوْااتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَداً سُبْحَٰنَهُ بَلْ عِبَا دمُّکْرَمُوْنَلَایَسْبِقُوْنَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهِ یَعْمَلُوْنَ ) ( ۱ )

''اور (اہل مکہ ) کہتے ہیں کہ خدا ئے رحمان صا حب او لاد ہے وہ اس سے پاک و مبرا ہے بلکہ (وہ فرشتے)خدا کے معزز بندے ہیں جو اس کی بات پر اپنی بات مقدم نہیں کر تے اور یہ لو گ اسی کے حکم پر چلتے ہیں ''۔ دوسری آیت

ل( َا یَعْصُوْنَ اللَّهَ مَاأَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُوْمَرُوْنَ ) ( ۲ )

''خداجس بات کا حکم دیتا ہے فرشتے اس کی نا فر ما نی نہیں کر تے اور وہی کر تے ہیں جو انھیں حکم دیا گیا ہے ''۔

قرآن نے خاص طور سے حضرت جبرئیل کے با رے میں (جو قر آنی وحی میں وا سطہ رہے ہیں) یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ خدا وند عا لم جو کچھ ان پر وحی کر تا تھا وہ من و عن پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک اسی طرح پہنچا دیتے تھے ۔ خدا کی وحی اور پیغام وصول کر نے اور اس کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچا نے کے سلسلے میں عصمتِ جبر ئیل کی تصدیق ہے، رہا یہ مسئلہ کہ جنا ب جبر ئیل کے سلسلے میں یہ خا ص طور سے اہتمام کیو ں کیا گیا ؟ اس کا راز یہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت جبر ئیل کی نسبت بہت زیا دہ حسا سیت رکھتے تھے بنی اسرا ئیل پر جو کچھ بھی عذا ب نا زل ہو ئے ( خو د ان کے عقیدہ کے مطابق)حضرت جبر ئیل کے ذریعہ ہی نا زل ہو ئے تھے ۔ اسی بنا ء پر وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خد مت میںحا ضر ہو کر کہنے لگے آپ پر جو فرشتہ نا زل ہو تا ہے کو ن ہے ؟اگر وہ جبر ئیل ہے تو ہم آپ کی با تو ں کو قبو ل نہیں

____________________

۱۔سو رئہ انبیاء آیت ۲۶۔۲۷۔

۲۔سورئہ تحریم آیت۶۔

۱۴۲

کریں گے کیو نکہ ان کو ہم سے دشمنی ہے اس وقت یہ آیت نا زل ہو ئی :

( قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوّاً لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهُ نَزَّ لَهُ عَلَیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ ا للَّهِ ) ( ۱ )

''(اے رسول ان لو گو ں سے )جو جبر ئیل کے دشمن ہیں کہد یجئے انھو ں نے خدا کے حکم سے(اس قرآن کو)تمہارے قلب پرنازل کیاہے''۔ اس آیۂ شریفہ سے اس با ت کا پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ بھی حضرت جبرئیل نے پیغمبر ِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی کیا ہے وہی ہے جو خدا نے ان سے فر ما یا ہے اور انھو ں نے اس کو پہنچا نے میں کو ئی کو تا ہی یا مدا خلت اور تصرف نہیں کیا ہے ۔ قرآن کریم میں ار شاد ہو تا ہے:

( اِ نَّهُ لَقَوْ لُ رَسُوْلٍ کَرِ یْمٍ ذِ یْ قُوَّ ةٍ عِنْدَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ ) ( ۲ )

''بیشک یہ (قرآن )ایک معززپیغا مبر( جبرئیل )کی بات ہے جو عرش کے ما لک کی با رگا ہ میں بلند رتبہ ہے فرشتو ں کا سر دار اور اما نت دار ہے ''۔

یہ ان مقا مات میں سے ہے جہا ں ملا ئکہ کو بھی رسو ل کہا گیا ہے اور کچھ دو سری آیات جیسے سورئہ حج میں آیا ہے :

( ﷲ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَٰئِکَةِ رُسُلاً ) ( ۳ )

'' خدا فر شتو ں میں سے بعض کو اپنے احکام پہنچا نے کے لئے (رسول یعنی پیغا مبر کے طور پر) منتخب کر لیتا ہے ''۔

جن اوصاف کا ان آیتو ں میں ذکر ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ فرشتۂ وحی کی طرف سے کسی تشویش کی ضرورت نہیں ہے فرشتہ ''رسو لٍ کریمٍ ذی قوةٍ '' ہے ۔

چو نکہ ممکن ہے کو ئی یہ خیال کرے کہ جس وقت جبر ئیل وحی لیکر پیغمبر کے پاس آ رہے ہو ںراستہ میں ان پر شیاطین حملہ کر کے وحی (کی آیات ) چھین لیں اور اس میں کو ئی کمی یا زیا دتی کر دیں ۔اسی لئے یہا ں پر جبرئیل کی اس قوت و طاقت پر زور دیا گیا ہے کہ جبر ئیل اس قدر قوی ہیں کہ پیغام پہنچا نے میں کو ئی بھی طا قت ان پر قا بو حا صل نہیں کر سکتی ۔ یقیناً ہم نہیں کہہ سکتے کہ جنا ب جبرئیل تک کس طرح وحی پہنچتی تھی اور پیغمبرتک کس طرح وہ پہنچا تے تھے لیکن معقو ل کے ساتھ محسوس کی تشبیہ کے طور پر یہ فرض کر لیجئے کہ ایک شخص کسی چیز کو لیکر کسی دو سرے شخص کے پاس

____________________

۱۔ سورئہ بقرہ آیت ۹۷۔

۲۔سو رئہ تکویر آیت ۱۹ ۔ ۲۱ ۔

۳۔سورئہ حجآیت ۷۵۔

۱۴۳

پہنچا نے جا رہا ہے اور راستہ میں کو ئی چو ر اس پر حملہ کر دے یا کسی بہا نہ سے اس چیز میں رد و بدل کر دے ،یا اس میں کسی چیزکی کمی یا زیادتی کر نا چا ہتا ہے ۔ قرآ ن کریم ایسے میں فر ما تا ہے کہ جنا ب جبر ئیل اس طا قت کے مالک ہیں کہ کو ئی بھی طا قت کسی طرح بھی ان کی پیغا م رسا نی میں کو ئی مدا خلت اور تصرف نہیں کر سکتی۔ اب جبکہ معلوم ہو گیا کہ شیا طین جبر ئیل پر غا لب آ کر ان کی رسالت میں کو ئی مد ا خلت او ر تصر ف نہیں کر سکتے تو اب سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ کیا خود جبرئیل اس وحی میں کو ئی تصر ف کر سکتے ہیں ؟ قر آ ن کریم فر ما تا ہے :''مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ'' جبر ئیل تمام فر شتو ں کے سردار اور اما نتدار ہیں ۔ اس بنا پرجبرئیل کی طرف سے بھی وحی میں دخل اندازی اور تصرف کا احتمال نہیں رہ جا تا ۔

ایک اور آیت میںخدا وند عا لم فر ماتا ہے :

( وَمَانَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِرَبِّکَ لَهُ مَا بَیْنَ اَیْدِ یْنَا وَمَاخَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذَٰلِکَ وَمَاکَانَ رَبُّکَ نَسِیّاً ) ( ۱ )

''اور ہم (فرشتے )آپ کے پر ور دگا ر کے حکم کے بغیر زمین پر نہیں اتر تے جو کچھ ہما رے سا منے اور ہما ری پس پشت اور جو کچھ ان کے در میان ہے (سب کچھ ) اسی کا ہے اور تمہا را پر ور دگا ر کچھ بھو لتا نہیں ہے ''۔

پس یہ آیتیں اس چیز کی ضما نت ہیں کہ ملا ئکہ ہر طرح کی خطا اور شیا طین کے تسلط و تصر ف سے محفو ظ ہیں ۔

عصمتِ انبیا ء علیہم السلام( وحی سمجھنے میں )

کیا انبیا ء علیہم السلام سے وحی سمجھنے میں غلطی ممکن ہے ؟ عا م انسا نو ں کے لئے تو ایسا ہو تا ہے کہ جب وہ کسی سے گفتگو کر تے ہیں تو بعض او قات ان کی بات صحیح طو ر پر نہیں سمجھ پا تے یا کچھ کا کچھ سن لیتے ہیں تو کیا انبیا ء کے بارے میں بھی اس بات کا احتمال ہے کہ مثلاً جب جبر ئیل ان کے پاس خدا کا پیغا م لائیں تو وہ جبر ئیل کی با تیں کچھ کا کچھ سمجھ لیں ؟ یا فرض کیجئے خدا کا پیغام صحیح طور پر سمجھ تو لیں لیکن کیا یہ احتمال پا یا جا تا ہے کہ وہ تبلیغ کے مر حلے میں پیغا م خدا لوگوں تک پہنچا تے وقت غلطی سے دو چا ر ہو جائیں ؟ اور اگر وہ غلطی کے مر تکب نہیں ہو تے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟

مذ کو رہ عقلی دلیل کے قطع نظر ، اس سلسلہ میں بھی آ یتیں مو جو د ہیں جو اس بات کی ضا من ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام نہ تو وحی کے سمجھنے میں غلطی کر تے اور نہ ہی اس کو لو گو ں تک پہنچا نے میں خطاکر تے ہیں خدا وند عالم ارشا د فر ما تا ہے:

( عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَیُظْهِرُعَلَی غَیْبِهِ َحَدًاِلاَّمَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ فَِنَّهُ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًالِیَعْلَمَ َنْ قَدْ َبْلَغُوارِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وََحَاطَ بِمَالَدَیْهِمْ وََحْصَی کُلَّ شَیْئٍ )

____________________

۱۔سورئہ مریم آیت ۶۴ ۔

۱۴۴

( عَدَدًا ) ( ۱ )

''(خدا ) غیب کا عالم ہے اور اپنی غیب کی بات کسی پر ظاہر نہیں کر تا مگر وہ جس پیغمبر کو منتخب فر ما ئے تو اس کے آگے اور پیچھے نگہبا ن (فرشتے ) مقرر کر دیتا ہے تا کہ دیکھ لے کہ انھو ں نے اپنے پرور دگار کے پیغا مات (لو گوں تک ) پہنچا دیئے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے سب اس کے حصار میںہے اور ایک ایک چیز اس کے زیر تسلط ہے ''۔

( ''فانّهُ یَسْلَکُ مِنْ ) ''اب وہ جس رسول اور پیغمبر کو پسند اور منتخب کر لیتا ہے اس کے آ گے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے اور اپنے حصار میں رکھتا ہے کو ئی ان پر اعتراض نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان کی رسالت میں خلل اندازی کر سکتا ہے ۔ وہ اس طرح الٰہی نگہبا نوں کے احا طہ میں رہتے ہیں کہ کو ئی خطا نہیں کر تے ۔

( ''لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ ) ۔۔۔''خدا یہ کام انجام دیتا ہے تا کہ وہ سمجھ لے کہ انھو ں نے اپنے پر ور د گا ر کے پیغا مات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیئے ہیں۔

اس آیۂ شریفہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیا ئے الٰہی وحی کے سمجھنے اور بعینہ ان ہی الفاظ میں لو گو ں تک (منطوق کلا م پہنچا نے میں )غلطی نہیں کر تے ۔ اس لئے کہ اگر ان میں خطا کا احتمال ہو تو ''لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَ بْلَغُوْا رِسَا لَاتِ رَبِّھِمْ ''متحقّق نہیں ہو گا جب خدا وند عالم کے علم میں انھو ں نے اس کے پیغا مات صحیح طور پر لو گو ں پہنچا دیئے ہو ں تو ان میں کسی خطا کا احتما ل نہیں پا یا جاتا ۔ یہ آیت اس چیز کا بہترین ثبو ت ہے کہ انبیا ئے الٰہی وحی کا پیغام سمجھنے اور لو گو ں تک پہنچا نے میںکو ئی غلطی اور خطا نہیں کر تے ۔ یعنی یہ بھی اسی عقلی دلیل کے ما نند ہے کہ اگر ایسانہ ہو تو مقصد بھی فوت ہوجائے گا اور یہ حکمت الٰہی کے خلا ف ہے ۔

کیا انبیا ء علیہم السلام وحی میں کسی چیز کا اضا فہ کر سکتے ہیں ؟

اب جبکہ طے پا گیا کہ انبیاء علیہم السلام وحی کے سمجھنے اور تبلیغ کر نے میں کو ئی غلطی نہیں کر تے بالکل صحیح اور مکمل طور پر لو گو ں تک پہنچا تے ہیں تو کیا ان کے لئے وحی میں کسی چیز کا اضا فہ کرنا ممکن ہے ؟ گذشتہ آیت میں خداوند عالم نے فر ما یا تھا کہ خدا وند عا لم جو کچھ ان پر وحی کر تا ہے انبیا ء اسی طرح اس کو لو گو ں تک پہنچا تے ہیں اور ان کی اس طر ح حفا ظت کرتے ہے کہ خد اوند عا لم کے پیغاما ت بالکل صحیح طور پر لوگوں تک پہنچ جا ئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے لئے ممکن ہے و ہ وحی میںکسی اور چیز کا اضا فہ کردیں ؟اور کوئی ایسی با ت پر جو خد اوند عا لم نے ان پر وحی نہ کی ہو وحی کے عنو ان سے لوگوں تک پہنچا دیں ؟

____________________

۱۔سورۂ جن آیت ۲۶۔ ۲۸ ۔

۱۴۵

اس منزل میں بھی (گذ شتہ آیات میں ذکر شدہ علت سے عمو می استفا دہ کے علا وہ )بہت سی دلیلیں ہیں جو اس چیز پر دلا لت کر تی ہیں کہ خدا وند عالم بندو ں تک اپنے پیغا ما ت پہنچا نے کے لئے کسی ایسے ہی شخص کو منتخب کر تا ہے کہ جس کے با رے میں اطمینان ہوکہ وہ خیا نت نہیں کرے گا ۔ ور نہ خدا کا مقصد فوت ہو جا ئے گا اگر رسو ل معصوم نہ ہو اوریہ احتمال پا یا جا ئے کہ وہ اپنی طرف سے بھی لو گو ں کے سا منے کچھ بیان کر سکتا ہے تو خدا کی غرض فوت ہوجا ئے گی کیو نکہ لوگ شبہہ میں پڑ جا ئیں گے اور وحی اور غیر وحی میں فرق نہیں کر سکیں گے ۔

ہم اس سلسلہ میں بھی متعدد آ یات سے استفا دہ کر سکتے ہیں پہلے ان آیات کو بیان کر دیں کہ جن میں کلی طور پر کہا گیا ہے کہ نبی پیغام وحی میں اپنی طرف سے کو ئی اضا فہ نہیں کرتا :

( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ اِلَّابِاِذْنِ اللَّهِ ) ( ۱ )

''اور ہم نے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ خدا کے حکم کے تحت لو گ اس کے حکم کی اطا عت کریں ''۔

ظا ہر ہے کہ خدا کا رسول جو کچھ بھی لو گو ں تک پہنچا ئے اس پر عمل کرنا لو گو ں کا فریضہ ہے اب اگر پیغمبر اپنی طرف سے کو ئی بات اضافہ کر دے تو اس پر عمل ضروری نہیں ہو گا ۔ حا لا نکہ خداوندعالم نے حکم دیا ہے کہ ہر رسول کی مطلق طور پر اطا عت کر نا چا ہئے ۔ معلوم ہوا کہ جو کچھ بھی انبیاء علیہم السلام الٰہی پیغام کے عنوان سے بیا ن کر تے ہیں وہ خدا کی رضا کے مطابق تا ئید شدہ ہے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ انبیاء علیہم السلام جن با توں کی تبلیغ فر ما تے ہیں وہ سب خدا وند عا لم کی تا ئید شدہ ہیں اور ان کی کلی طور پر اطا عت ہو نی چا ہئے دو سرے لفظو نمیں : خدا وند عا لم ایسے کو پیغمبر نہیں بنا تا جو خدا وند عا لم کے پیغا مات میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضا فہ کر دے ۔دوسری آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے با رے میں ہے نصا ریٰ کا عقیدہ تھا کہ عیسیٰ بن مر یم نے اپنے کو لو گو ں کے سا منے خدا کے بیٹے کی حیثیت سے پہچنو ا یا ہے اور اپنی پر ستش کر نے کی دعوت دی ہے ۔ بہت سی آیتو ں میں اس مو ضو ع کے با رے میں بحث کی گئی ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے اور اسی انتساب کی بنیا د پر جو نصا ریٰ نے حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف دی ہے ایک آیت میں خدا وند عالم حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کر تا ہے :

( ئَ أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُ مِّیَ اِلَٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللَّهِ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ نسا ء آیت ۶۴۔

۲۔سو رئہ مائدہ آیت ۱۱۶۔

۱۴۶

''کیا تم نے لو گو ں سے کہا ہے کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ما ں کو خدا بنا لو ''۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی نفی میں جوا ب دیتے ہو ئے عرض کر تے ہیں :

( اِنْ کُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ )

''اگر میں نے ایسا کچھ کہا ہو تا تو تجھ کو خود معلوم ہو تا کیونکہ تو میرے دل کی سب بات جا نتا ہے ''۔

پیشِ نظر آیت میں گو یا خدا وند عالم استد لال کے پیرا ئے میں فر ما تا ہے کہ اس کا کو ئی سوال ہی نہیں ہے کہ خداوند عالم کسی کو رسول بنا ئے اور وہ خدا وند عا لم کے اغراض و مقا صد کے خلاف بات کرے ۔ خدا وند عالم بھی کسی ایسے شخص کو کہ جس کے یہاں اس طرح کا احتمال بھی ہو رسا لت کے لئے منتخب نہیں کر سکتا ۔اس کی دو ہی صو رتیں ہوسکتی تھیں یا تو خدا جا ہل ہو تا اور اس کو یہ معلو م ہی نہ ہو تا کہ یہ شخص ایسا کرے گا یا یہ کہ وہ عا جز ہو تا اور اس کو ایسا کرنے سے نہ روک سکتا اور خدا وند عالم نہ جا ہل ہے اور نہ عاجز،اور وہ فر ماتا ہے :

( وَمَاکَانَ لِبَشَرٍاَنْ یُوْ تِیَهُ اللَّهُ الْکِتَٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنَّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِکُوْنُوْا عِبَا داً لِّی مِنْ دُوْنِ ﷲ ) ( ۱ )

''کسی آدمی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ خدا اسے کتاب ، حکم اور نبوت عطا فر ما ئے اور وہ لو گو ں سے کہے کہ خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جا ؤ ''۔

کیا خدا ایسے کو پیغمبر بنا سکتا ہے کہ خدا نے تو اس کو تو حید کی رہنما ئی کے لئے بھیجا ہو اور وہ لوگوں کو شرک کی دعوت دے ؟ خدا وند عالم کبھی بھی ایسے پیغمبر کا انتخاب نہیں کر سکتا ۔

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں ہے کہ مشر کین آپ کی طرف افتراء کی نسبت دیتے تھے ۔ وہ کہتے تھے (العیاذ با ﷲ ) آپ جو کلمات خدا سے منسوب کر تے ہیں وہ خود آپ ہی کے کلمات ہیں صرف اس لئے کہ لو گ قبو ل کر لیں، کہتے ہیں کہ خدا نے ایسا فر ما یا ہے ۔ بہت سی آ یات ہیں جن میں خدا وند عا لم نے مشر کین کی زبا نی پیغمبر پر افترا ء کی نسبت نقل کی ہے ۔ آج بھی بعض دا نشور اور مستشر قین جب دین اسلا م کا ایک تر قی یا فتہ دین کے عنو ا ن سے تعا رف کرا تے ہیں اور دین اسلا م کی تعلیما ت کی تعریف کر تے ہیں اس کے سا تھ ہی یہ کہتے ہیں کہ اسلا م کا قانون بنا نے وا لے (نبی) بات منو ا نے کے لئے اپنی با ت کو خدا سے منسوب کر دیتے تھے ۔ اس زما نہ میں بھی اس طرح کی

____________________

۱۔سورئہ آل عمران آیت ۷۹۔

۱۴۷

با تیں تھیں لیکن جو دین اسلا م قبو ل نہیں کر نا چا ہتے تھے ۔وہی اس طرح کی با تیں بنا یا کر تے تھے۔ خداوندعالم فر ما تا ہے کہ اگر یہ طے ہو تا کہ جو کچھ ہم نے اپنے نبی پر وحی کی ہے وہ اسکے خلاف ایک حرف بھی لو گو ں سے کہیں گے تو ہم ان کو ایسا کر نے کی مہلت ہی نہ دیتے ار شا د ہو تا ہے:

( وَ لَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَابَعْضَ الاَ قَاوِیْلِلَاَخَذْنَامِنْهُ بِالْیَمِیْنِثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْه الْوَ تِیْنَفَمَامِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْهُ حَٰجِزِیْنَ ) ( ۱ )

''اگر رسو ل ہما ری طرف سے کو ئی با ت گڑھ کر کہتے تو ہم پو ری قو ت کے سا تھ ان کو رو ک دیتے اور پھر ہم ان کی رگِ حیا ت ہی قطع کر دیتے اور تم میں کو ئی مجھے اس سے روک نہیں سکتا تھا '' ۔

یہا ں پر( لَا خَذْ نَا مِنْه ُ بِا لْیَمِیْنِ ) ''تو ہم ان کو دا ہنے ہا تھ سے پکڑ لیتے ''سے مرا د یہ ہے کہ ہم ان کو اپنی پو ری قوّت سے روک دیتے ۔ ( عربی زبان میں اس طرح کے جملے قد رت کی علا مت ہو تے ہیں کیو نکہ عام طو ر پر انسا ن کا داہنا ہاتھ اس کے با ئیں ہا تھ سے زیا دہ قو ی ہو تا ہے ) اور نہ صرف یہ کہ ہم ایسی بات کر نے سے روک دیتے بلکہ ان کی رگ حیا ت کو منقطع کر دیتے ''ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَ تِیْنَ ''اور کو ئی شخص ہم کو ایسا کر نے سے روک بھی نہیں سکتا تھا۔

یہ آیا ت اس چیز پر دلا لت کر تی ہیںکہ انبیا ء علیہم السلام وحی کو سمجھنے اور اس کو من و عن لو گو ں تک پہنچا نے میں کو ئی بھی غلطی یاخطا نہیں کر تے اور نہ ہی اپنی طرف سے اس میں کسی چیز کا اضا فہ کرتے ہیں ۔

مقا مِ عمل میں انبیاء علیہم السلام کی عصمت

عقل ہم سے کہتی ہے کہ بندو ں تک الٰہی پیغام من و عن با لکل صحیح پہنچنا چا ہئے لہٰذا انبیا ء علیہم السلام کاوحی کے سمجھنے اور لوگو ں تک پہنچا نے میںقطعی طو ر پر معصو م ہو نا ثا بت ہے لیکن مقا م عمل میں بھی خود انبیا ء علیہم السلام ان پیغامات پر ضرور عمل کر تے ہیں اس کو ثا بت کر نے کے لئے یہ دلیل کا فی نہیں ہے۔ بعض علما ء علم کلام نے مقا م عمل میں انبیاء علیہم السلام کی عصمت عقل کے ذریعہ ثا بت کر نے کی چند صورتیں بیا ن کی ہیں منجملہ وہ کہتے ہیں :

قو ل کی طرح عمل بھی کسی کا م کے جا ئز ہو نے پر دلا لت کر تا ہے ۔ اگر پیغمبر (العیا ذ با ﷲ ) کسی گنا ہ کا ارتکاب کر تے تو لو گ ان کے عمل کو اس گنا ہ کے جا ئز ہو نے کی دلیل سمجھتے اور اس سے بھی خدا وند عالم کی حکمت فوت ہوجاتی۔ خدا وند عالم نے انبیا ء علیہم السلام کو اسی لئے بھیجا ہے کہ وہ لو گو ں کوسمجھائیںکہ کونسا کام کر نا چا ہئے اور کو نساکام

____________________

۱۔سورئہ الحا قہ آیت ۴۴تا۴۷۔

۱۴۸

نہیں کر نا چا ہئے ۔ اگر کو ئی پیغمبر عملی طور پر کسی گنا ہ کا مرتکب ہو تولوگ اُس کو اِس گنا ہ کے جا ئز ہو نے کی دلیل سمجھیں گے اور اس سے خدا کی حکمت فوت ہوجا ئے گی ۔

یہ دلیل بہت زیا دہ یقین آور نہیں ہے اس لئے کہ ممکن ہے کو ئی شخص خدا کے پیغا م کو صحیح طو ر پر لوگوں تک پہنچادے اور اُن سے کہے کہ اس کے مطابق کام انجا م دینا چا ہئے لیکن میں بھی تمہا ری طرح کبھی کبھی گنا ہ کا مر تکب ہو جا تا ہوں اور میرا فلا ں کام خلا ف ورزی کی وجہ سے تھا لیکن تم اس گنا ہ کا ارتکاب نہ کر نا ۔ عقل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اتنا کہنا کا فی نہیں ہے اور یہ عقلی طور پر محا ل بھی نہیں ہے البتہ ہما رے پاس کتا ب و سنت سے کا فی دلیلیں موجود ہیں جو اس چیز پر دلا لت کر تی ہیں کہ انبیاء علیہم السلام حتیٰ رسالت سے پہلے بھی معصوم ہو تے ہیں لیکن عصمت کی ضرورت پر عقلی دلیل کاقا ئم کر نا آ سا ن نہیں ہے ۔ ہم عقل کے ذریعہ جو بات انبیا ء علیہم السلام کی عصمت کے لئے ثابت کر سکتے ہیں وہ وحی کے سمجھنے اور اس کو ٹھیک ٹھیک لو گو ں تک پہنچا نے کے سلسلے میں ان کا معصوم ہو نا ہے ۔ ہاں یہ خدا وند عالم کی طرف سے ایک لطف ہے کہ انبیا ء علیہم السلام عملی طور پر بھی خطا و غلطی سے معصوم ہو تے ہیں کیونکہ خطا و غلطی سے معصوم ہو نے کی وجہ سے لوگ ان پر زیادہ اعتماد کر یں گے اور ان کی رفتا ر لو گو ں کیلئے نمو نۂ عمل ہوگی اور لوگ ان (معصو موں ) کی رفتار و کر دار سے پو ری طرح تمسک کر سکیں گے۔ یہ ان پر خداوند عالم کا ایک لطف ہے لیکن ہم اس بات کی ضرو رت عقلی دلیل کے ذریعہ ثا بت نہیں کر سکتے البتہ انبیا ء علیہم السلام کی عصمت پربہت سی آیات دلالت کر تی ہیں اور روا یات بھی کثر ت سے مو جو د ہیں۔

اس مسئلہ میں مسلما نو ں کے مختلف فر قو ں کے در میان کئی جہتو ں سے کم و بیش اختلاف رہا ہے انبیا ء علیہم السلام نبو ت ملنے کے بعد معصو م ہو تے ہیں اس با رے میں تقر یباً سبھی متفق ہیں لیکن بعض کے نز دیک نبو ت ملنے سے پہلے معصیت کا امکان پایا جا تا ہے اور بعض کا خیا ل ہے کہ انبیا ء علیہم السلام ایسا فعل انجا م دے سکتے ہیںجو بعد میں خود ان کے دین میں حرا م ہو جا ئے لیکن ابھی حرا م نہیں ہو ا ہے اور بعض کا یہ نظر یہ ہے کہ وہ صرف گنا ہ کبیرہ سے معصو م ہو تے ہیں ۔

ان تمام نظر یو ں کے طر فدا روں نے اپنے اپنے نظر یو ں کو ثا بت کر نے کے لئے کچھ عقلی دلیلیں پیش کی ہیں منجملہ یہ کہ : اگر کو ئی شخص کسی گنا ہ کامر تکب ہو ا ہوتو یہ اس شخص کے وقار کو ختم کر دیتا ہے اور لوگ ایسے شخص پر اعتماد نہیں کر تے۔ لہٰذا نبی کو خو د بھی عملی طور پر بُرے اعمال سے محفو ظ رہنا چا ہئے تاکہ لو گو ں کی نظر میں قا بل اعتماد رہے ۔ اس دلیل کی بنیاد بھی گمان پر ہے اس لئے کہ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ایک شخص کے پاس کتاب ہے اور وہ اِس کتاب کو خداوند عا لم کی طرف سے لو گو ں کے لئے لیکر آیا ہے اور اس کتا ب کو اس نے لو گو ں تک پہنچا کر حجت تمام کر دی ہے تو اس صورت میں خود اس کو بھی کتا ب کے خلا ف عمل نہیں کر نا چا ہئے اس پر کو ئی عقلی دلیل قا ئم کرنا مشکل ہے البتہ اس کی تر جیح اور اولو یت میں کو ئی شبہ نہیں ہے ۔

۱۴۹

بہر حا ل شیعو ں کا عقیدہ ہے کہ انبیا ء علیہم السلام اپنی پیدا ئش سے مو ت تک تمام گنا ہو ں سے خواہ کبیر ہ ہو یا صغیرہ محفو ظ ہیں اور حضرت آ دم علیہ السلام سے لیکر حضرت خا تم النبیین تک کسی ایک نبی نے بھی اپنی پو ری عمر کے دوران چھو ٹے سے چھو ٹے گنا ہ کا بھی ارتکا ب نہیں کیا ہے لیکن اہلسنت کے بعض فر قے ہم سے اس با رے میں کم و بیش اختلاف رکھتے ہیں اور انھو ں نے بعض شکو ک و شبہات بھی پیدا کئے ہیں شا ید ہم بعد میں ان میں سے بعض شبہات کو بیا ن کریں ۔

مقا مِ عمل میں انبیا ء کے معصوم ہو نے پر کیا کو ئی قر آ نی دلیل ہے ؟

قر آن کریم کی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ انسا نو ں کے در میا ن کچھ ایسے ''مخلَص ''بند ے ہیں جن کی خلقت کے پہلے دن سے ہی جب شیطا ن نے بنی آ دم کو گمرا ہ کر نے کا اعلان کیا ہے ۔ اس کے یہا ں ان افرا د کو گمرا ہ کر نے کی طمع نہیں تھی چنا نچہ خدا وند عا لم کے در با ر سے نکا لے جا نے کے بعد اس نے قسم کھا کر کہا تھا :

( فَبِعِزَّ تِکَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ اِ لَّا عِبَادَ کَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ) ( ۱ )

''تیری عزت (و جلال ) کی قسم تیرے مخلَص بند و ں کے سوا ہر ایک کو ضرور گمرا ہ کر وں گا ''۔

یہ''مخلصین ''بندے کس طرح کے ہیں کہ خو د شیطا ن بھی جانتا تھا کہ میں ان کو گمراہ نہیں کرسکتا ؟ وہ کون سے بندے ہیںاور ان کی کیا خصوصیتیں ہیں ؟تعبیر مخلص سے یہ مطلب نکالا جاسکتاہے کہ یہ وہ افراد ہیں جن کو خداوند متعال نے صرف اپنے لئے پاک و مخلص کیا ہے ۔

قا رئین کرام : یہا ں یہ بیان کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ َمخلص (لام پر زبر )کے ساتھ اور مخلِص (لام پر زیر ) کے ساتھ دو الگ الگ مفہوم کے حامل ہیں (زیر کے ساتھ ) مخلصین وہ لوگ ہیں جو اپنی جگہ خود خلوص نیت سے خدا کے لئے عمل انجام دیتے ہیں لیکن (زبر کے ساتھ ) مخلصین وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے پاک نیت اور مخلص بنایا ہے صرف ان کے عمل میں ہی خلوص نہیں ہے بلکہ وہ خود بھی مجسمۂ خلوص ہیں یعنی ان کا پورا وجود خدا کے لئے ہے ۔ چنانچہ ان افراد سے شیطان کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔ یہ مخلص کی تعبیر تقریباً اسی اصطلاح معصوم پر منطبق ہوتی ہے ۔ جب ہم معصوم کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ جس کو خداوند عالم نے گناہوں سے محفوظ کردیا ہے ( البتہ یہاں پہ

____________________

۱۔سورئہ ص آیت ۸۲ ۔۸۳ ۔

۱۵۰

یاد رکھنا چاہئے کہ یہ چیز صاحب اختیار ہونے کے منافی نہیں ہیں۔ خدا نے صرف ان کے گناہ نہ کرنے کی ضمانت لی ہے ۔ اْ ن کا اختیار سلب نہیں کیا ہے ) قرآن کریم میں معصوم کی اصطلاح استعمال نہیں ہو ئی ہے جو تعبیر'' معصوم '' کے مفہوم پر منطبق ہوتی ہے ۔ یہ وہ بندے ہیں جن کو خداوندعالم نے خالص اپنے لئے قرار دیا ہے ، اور ان کے یہاں شیطان کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے اور وہ اس طرح کے ہیں کہ خود شیطان بھی ان کو گمراہ کرنے کی ہو س میں نہیں آتا۔ قرآن کریم نے کچھ ایسے انبیا ء علیہم السلام کے نام لئے ہیں جو خدا کے مخلص بندے ہیں :

( اِ نَّهْ مِنْ عِبَادِنَاالْمُخْلِصِیْنَ وَکَانَ مُخْلِصَاً )

''بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھا اور وہ میرا مخلَص بندہ تھا ''۔

ان مخلص بندوں کے با رے میں بعض مقامات پر وضاحت کی گئی ہے کہ خداوند عالم چاہتا ہے کہ ان کو برے کاموں سے دور رکھے اور ان کے وجود کو ہر طرح کے انحرافات اور پلیدیوں سے محفوظ رکھے اور ان ہی مقامات میںسے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہے جس میں قرآن نے عزیز مصر کی بیوی زلیخا کا حضرت یوسف علیہ السلام پر عاشق ہو جا نا ذکر کیا ہے یہا ں تک کہ زلیخا نے ایک ایسا کمر ہ تیا رکیا جو ہر رخ سے محفو ظ اور تنہا ہو اور وہا ں حضر ت یوسف علیہ السلام کو مشتعل کر نے کے تمام وسا ئل بھی فرا ہم تھے ا ور وہ بہا نے سے آپ کو کمرہ میںلے گئی اور دروازوں کو اس طرح بند کیا کہ کسی دو سرے کو اس کی خبر نہ ہو سکے ۔ روا یات میں یہا ں تک ہے کہ اس نے کمرہ کے چاروں طرف آ ئینہ بندی کر دی تھی کہ حضرت یو سف علیہ السلام جس طرف بھی نظر اٹھا ئیں زلیخا ہی کی تصو یر دکھائی دے اس طرح کے حا لات میں قر آ ن کریم فر ما تا ہے :

( وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا اَنْ رَّئَ ا بُرْهَٰنَ رَبِّهِ کَذَٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْئَ وَالْفَحْشَآئَ اِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَاالْمُخْلَصِیْنَ ) ( ۱ )

''اس عو رت نے تو ان کو حا صل کر نے کا پکا ارادہ کر لیا تھا اب اگر انھو ں نے اپنے پر ور دگا ر کی دلیل نہ دیکھی ہو تی تو وہ بھی اس کا قصد کر بیٹھتے (لیکن ) ہم نے ایسا کیا کہ ان سے برا ئی اور بد کا ری کو دور رکھیں ، بیشک وہ (یوسف) ہما رے ''مخلَص '' بندو ں میں تھے ''۔

ظا ہر ہے اس طرح کے مو ا قع پراگر خدا وند عالم کا خا ص لطف نہ ہو تو ایک عا م انسان اپنے نفس پر کنٹرو ل نہیں کر سکتا ۔ ایسے میں جب عزیز مصر کی بیو ی حضر ت یو سف علیہ السلام کی طرف بڑھی تو قبل اس کے کہ آپ بھی اس

____________________

۱۔سو رئہ یو سف آیت ۲۴ ۔

۱۵۱

کی طرف ما ئل ہو ں خدا وند عا لم نے ان پراپنی دلیل آشکا ر کر دی اور یہ کام اس لئے کیا کہ حضرت یو سف گنا ہ سے محفو ظ رہیں ۔ رہی با ت کہ وہ دلیل کیا تھی جو خدا وند عا لم نے حضرت یو سف علیہ السلام پر آشکار کی تھی ؟ اس بارے میں کچھ ایسی آ یا ت نقل ہو ئی ہیں جن کے مطالب اطمینان بخش نہیں ہیں ۔

قر آ ن کریم نے وا ضح طور پر یہ بیا ن نہیں کیا ہے کہ حضرت یو سف علیہ السلام نے کیا چیزدیکھی تھی ۔ قر آ ن نے صرف اتنا کہا ہے کہ حضر ت یو سف علیہ السلام نے ''خدا کی دلیل ''کا مشا ہد ہ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ کو ئی غیبی بات ان پر آ شکا ر ہو ئی تھی ''دلیل ''یا ''بر ہا ن ''کی لفظ عا م طو ر سے اس جگہ بو لی جا تی ہے جہا ں انسان کو کو ئی علم حاصل ہو ۔ حضرت یو سف علیہ السلام نے کو ئی ایسی نشا نی کا مشا ہد ہ کیا جس نے ان کو غفلت سے بچا لیا ۔ ہم عر فان کی اصطلا ح میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ''الٰہی تجلّی '' تھی لیکن کیا تھی اور کس طرح کی تھی ؟ قر آ ن اس با رے میں کچھ نہیں کہتا اور ہم کو بھی نہیںپتہ کہ وہ کیا ہے کہ انھو ں نے کس چیز کا مشا ہدہ فر ما یا تھا ۔ بہر حال کو ئی ایسی چیز دیکھی تھی جس نے ان کو غفلت سے بچا لیا اور ان کی توجہ خدا وند عالم کی طرف مبذو ل کر دی ، الٰہی دلیل تھی ، خدا وند عا لم فر ماتا ہے کہ ہم نے یہ کام انجام دیا ''لنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْئَ وَالْفَْحْشَا ئَ ''تا کہ ان کو گنا ہ اور برائی سے دور رکھے ، کیوں؟ ''اِ نَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ''اس لئے کہ حضرت یو سف علیہ السلام خدا کے مخلَص بند وں میں سے تھے اور ہم اپنے مخلص بند وں سے اسی طرح پیش آ تے ہیں ۔ یعنی جب بھی ان کے سا منے انحراف کے بیر ونی عوا مل آتے ہیں ہم ان کو راہ سے ہٹا دیتے ہیں ۔

قر آ ن کریم میں خدا وند عا لم نے پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے با رے میں بھی اسی طرح کے بعض حا لا ت نقل کئے ہیں ایک جگہ خدا فر ماتا ہے :

( وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنَٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْهِمْ شَیْئاً قَلِیْلاً اِذاً لَّاَذَقْنَٰکَ ضِعْفَ الْحَیَوَٰةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَانَصِیْراً ) ( ۱ )

''اور اگر ہم تم کو ثا بت قدم نہ رکھتے تو دور نہیں تھا کہ تم بھی کسی حد تک ان کی طرف راغب ہو جا تے اور (اگر تم ایسا کر تے تو )ہم تم کو زند گی میں بھی اور مر نے پر بھی دو ہرے (عذاب ) کا مزہ چکھا دیتے اور پھر تم کو ہمارے مقابلہ میں کو ئی مدد گا ر نہ ملتا ''

اللہ نے اس وا قعہ کی طرف اس آ یت میں اشا رہ کیا ہے کہ کچھ لو گ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ذاتی مقا صد کے تحت

____________________

۱۔سورئہ اسراء آیت ۷۴ ۔۷۵ ۔

۱۵۲

اپنے فر یضہ کی انجام دہی میں کمزور دکھا نا چا ہتے تھے چنا نچہ آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے طو یل دور میں کئی ایسے مواقع پیش آ ئے ہیں کہ کچھ لوگ (کبھی کبھی آ پ کے دو ست و احباب بھی) ایسے کام کر نے کی فکر میں رہتے تھے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوبعض الٰہی احکام انجام دینے سے رو ک دیا جا ئے ۔ مثال کے طو ر پر کبھی کبھی بیجا قسم کی سفارشیں کرتے یعنی آ ج کی زبا ن میں پا رٹی با زی سے کام لیتے تھے چنا نچہ اگر کو ئی چو ری کر تا تو قانو ن کے تحت اس کے ہاتھ کٹنے چا ہئے تھے لیکن اس کے خا ندان کے افراد اپنے خا ندان کو اس بدنا می اور ننگ و عار سے بچا نے کے لئے متعدد بہانوں کے ذریعہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سا منے یہ کو شش کر تے کہ آ نحضر ت اس چو ر کے متعلق حد جاری کرنے سے با ز آ جا ئیں اس قدر با تیں بنا تے اور ایسا ما حو ل تیا ر کر تے کہ کو ئی بھی اور شخص ہو تا تو ان کی بات قبول کر لیتا ۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھی ایک انسان کی حیثیت سے جب ایسے حا لات پیش آجا تے تھے تو متا ثر ہونا ایک فطری امر تھا لیکن خدا وند عا لم ایسا نہیں ہو نے دیتا تھا، آ پ کو ملا ئکہ کی تا ئید حا صل تھی وحی نا زل ہو تی یا الہام ہو تا اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے فیصلے میں ثا بت قدم رہتے اسی طرح کے ایک مو قع کا اس آیت میں ذکر ہے خداوندعالم فرماتا ہے ''لَوْلا اَنْ ثَبَّتْنَا کَ '' ''اگر ہم تم کو ثا بت قدم نہ رکھتے ''''( لَقَدْ کِدْ تَّ تَرْکَن اِ لِیْهِمْ شَیْئاً قَلِیْلاً ) '' ''تو قریب ہو تا کہ تم بھی کسی حد تک ان کی طرف ما ئل ہو جا ؤ اور ان کی با توں پر اعتماد کر لو '' لیکن ہم تمہا ری حفاظت کرتے اور تم کو ثا بت قدم رکھتے ہیں یقیناً کو ئی انسان اگرچہ وہ خدا کا پیغمبر ہی کیو ں نہ ہو کسی بھی عالم میں اللہ کی مدد سے بے نیا ز نہیں ہے اور پیغمبر کی فضیلت یہی ہے کہ خدا وند عا لم اس کی حفا ظت کر تا ہے۔ ان آیتو ں سے یہ استفا دہ ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی خدا وند عا لم کے تما م مخلَص بندوں کی ما نند جب بھی بیر و نی عوا مل شکوک و شبہا ت میں گھیر تے تو خدا وند متعال غیبی طریقہ سے آپ کی مدد کرتا اور آپ ہر طرح کی لغز ش سے محفو ظ رہتے اور عصمت کا مطلب بھی یہی ہے ۔

کیا عصمت ''جبر '' ہے ؟

عصمت یعنی حدا وند عا لم ایک انسا ن کو ہر اُس وسیلہ سے جو اس کے علم میں ہے گنا ہ اور برا ئی سے محفو ظ رکھے لیکن کیا اس کا مطلب جبر ہے یا نہیں ، انسا ن خود اپنے اختیا ر سے گنا ہ کو تر ک کر تا ہے اس با رے میں ہم اجما لی طو ر پر عر ض کر دیں کہ اس چیز پر بہت سی دلیلیں مو جو د ہیں پیغمبر بھی دو سرے تمام انسا نو ں کی طرح مکلف ہیں اور ان کو بھی ان کے اعما ل پر ثو ا ب دیا جا ئے گا اور چو نکہ اعما ل اختیا ری ہیں ، وہ گنا ہ کو ترک کر نے میں مجبور نہیں ہیں بلکہ مختا رہیں لیکن خدا وند عا لم نے ان کو اس طرح خَلْق فر ما یا ہے اور اُن کو وہ عقل عطا کی ہے کہ اپنے اختیا ر سے بُرے کامو ں کو ہاتھ نہیں لگا تے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اُ ن سے اُ ن کا اختیار سلب کر لیا گیا ہو، ور نہ اختیا ر کے بغیر گنا ہ نہ کر نا کو ئی ہنر نہیں ہو گا ، اس لئے کہ جس شخص کو خدا بُرے کا مو ں سے زبر دستی رو کے گا وہ رک ہی جا ئیگا ۔

۱۵۳

ایک انسان کے عنوان سے پیغمبر کا کما ل یہی ہے کہ وہ اپنے اختیا ر کے با وجود خو د کو گنا ہ سے دور رکھتا ہے ۔ تو اب سوا ل یہ ہے کہ یہ کس طرح کی عصمت ہے ؟ یعنی اس کو یو ں سمجھئے کہ خدا وند عا لم نے انسا نو ں کے درمیان کچھ افرا د اس قدر مستعد اور کا مل خلق کئے ہیں کہ ان کے با رے میں اسے علم ہے کہ وہ افراد بذا ت خود گنا ہ کے مر تکب نہیں ہو ں گے ، خدا وند عا لم کے احکام کی اطا عت کر تے رہیں گے ۔ خداوندعا لم اپنے اسی علم غیب کے تحت چو نکہ وہ ان کی سر نو شت سے آ گا ہ ہے ان کو ہی اپنی رسا لت کے لئے منتخب کر تا ہے جو اپنے اختیا ر کے با وجود خدا کی نا فر ما نی کے ذریعہ گناہوں کا ارتکا ب نہیں کرتے ۔ البتہ یہ کو ئی زیا دتی یا نا انصا فی نہیں ہے یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا وندعا لم پیغمبر کی جو برے کامو ں سے بچنے میں مدد فر ما تا ہے اس میں دو سرو ں کی مدد سے دریغ کر تا ہے بلکہ قا عدہ اور اصو ل کے تحت خدا مدد کر تا ہے در اصل ، خدا وند عا لم تمام مو منین اور راہ خیر میں قدم اٹھا نے وا لے تمام لو گو ں کی مدد کر تا ہے۔ مگر اس کی مدد نہ ان افراد کی سعی و کوشش کے مطابق ایک قاعدے اور اصول کے تحت ہوتی ہے جو شخص ایک قدم آگے بڑھاتا ہے خداوند عالم دس قدم بڑھکر اس کی مدد کرتا ہے اگر کوئی سو قدم آگے بڑھاتا ہے اسی اعتبار سے خدا اس کی مدد کرتا ہے چونکہ پیغمبر اپنی تمام قوت و توانائی خدا کی بندگی کی راہ میںلگا دیتے ہیں اور کسی قسم کی کوئی کو تاہی نہیں کرتے۔ خداوند عالم بھی جہاں ان کی غیر معمولی مددکی ضرورت ہوکوئی دریغ نہیں کرتا لیکن اس مدد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو جبر کانام دیا جائے یا ان سے ان کا اختیار سَلْب کرلینے کے مترادف ہو۔

جب خداوند عالم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے اپنی دلیل آشکار کی ہے وہاں مد د تواسی بنیادپر ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اس طرح کی مدد کی لیاقت رکھتے تھے اور انھوں نے بھی جب خدائی دلیل دیکھی تو اس کی مدد سے استفادہ کرتے ہوئے (زلیخا کے خیال سے)منصرف ہوگئے اور ان کے دل میں گناہ کا قصد بھی پیدا نہ ہوسکا ۔

خداوند عالم کی جانب سے اس طرح انبیاء علیہم السلام کی جو غیبی امداد ہوتی ہے اس کے بھی قاعدے اور اصول ہیں اور کسی بھی طرح یہ چیز اختیار سلب کرنے کا باعث نہیں بنتی ۔اس بات کو ذہن سے قریب کرنے کیلئے یوں سمجھئے کہ بہت سے ایسے برے کام ہیں کہ جن کی تمام برائیوں سے ہم آگا ہ ہیں اور کبھی بھی ہم ان کو انجام دینے کا قصد نہیں کرتے لیکن ہم اسکے انجام دینے سے مجبور بھی نہیں ایک بہت ہی گندی چیز جس کا کھانا کوئی شخص اپنی عمر کے کسی بھی مرحلے میں قصد و ارادہ کے ساتھ پسند نہیں کرتا اور نہیں کھاتا تو کیا کسی نے اس کو نہ کھانے پر مجبور کیا ہے؟قطعاًمجبور نہیں ہے لیکن اسکا کھانا اسکے خیال میںنہیں آتا۔انبیاء علیہم السلام بھی خداوند عالم کے عطا کردہ علم کے ذریعہ گناہوں کی گندگی کو اس طرح مشاہدہ کرتے ہیں کہ کبھی بھی ان کے ارتکاب کی ہوس نہیں کرتے لیکن ہم ایک بارپھر تاکید کے ساتھ کہدیں کہ اس کا مطلب ہر گز جبر نہیں ہے ۔

۱۵۴

عصمت انبیاء علیہم السلام سے متعلق شبہات

ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ شیعہ حضرات کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام اپنی خلقت سے لے کر اپنی زندگی کی آخری سانس تک معصوم ہوتے ہیںا ور صرف یہ کہ وحی سمجھنے اور اسکی تبلیغ کرنے میں غلطی نہیں کر تے بلکہ اپنے شخصی افعال و کر دارمیں بھی غلطی یاخطا نہیں کرتے لیکن اہلسنت کے درمیان خاص طور سے اس مسئلہ میں ، متعدد اقوال موجود ہیں جس میں انھو ں نے عصمت کے بعض در جا ت کا انکار کیا ہے ،ان میں سے بعض علماء کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا نبوت ملنے سے پہلے معصوم ہونا لازمی نہیں ہے اور بعض کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام نبوت ملنے کے بعدبھی ممکن ہے گناہان صغیرہ کے مرتکب ہوں۔ انھوں نے اپنے اقوال کے لئے قرآن کریم کی آیات بھی سند میں پیش کر تے ہوئے کہا ہے کہ بعض آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام فی الجملہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں بہر حا ل یہ بحث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان صدر اسلام سے ہی مو جو د ہے اور عصمت انبیاء علیہم السلام کی دلیل میں انبیاء علیہم السلام کی عصمت کا انکار کرنے والوںکے شکو ک و شبہات کے جواب کے بار ے میں ا ہل بیت علیہم السلام سے بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیںیہاں تک کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام کے دور میں مامون نے جو سوالات آپ سے کیے تھے ان میں سے بعض سوالات عصمت انبیاء علیہم السلام اور ا س کے با رے میں بعض شبہات کے سلسلے میںتھے جو ہماری حد یث کی کتابو ں میں نقل ہوئے ہیں۔

ہم اس بحث میں بعض ان آیات کو نقل کر رہے ہیں جن میں انبیاء کے معصوم نہ ہونے کے بارے میںوہم پیدا ہو اہے ۔

۱۵۵

حضرت آدم علیہ السلام

بعض آیات میں یہ مطلب پیش کیا گیا ہے کہ خداوند عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک مخصوص درخت کے پاس جانے سے منع کردیا شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کو وسوسہ دلایا اور آپ نے اس درخت سے پھل کھالیا جوآپ کے بہشت سے نکلنے کا با عث بنا ۔

قرآن کریم میں یہ واقعہ کئی جگہ پربیان ہواہے اور سب سے زیا دہ صاف طور پر ان آیات میں بیان ہواہے :

( وَعَصَیٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَیٰثُمَّ اجْتَبَٰهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَیْهِ وَهَدَیٰ ) ( ۱ )

''اور آدم نے اپنے پروردگار کا گناہ کیا اور راہ گم کر دی اس کے بعد ان کے پروردگار نے ان کو منتخب کیا اور ان کی توبہ قبول کی اور ا ن کی ہدا یت کر دی ''۔

دوسری آیتوں سے بھی یہ مطلب نکلتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے اس ترکِ اولیٰ کے بعد استغفار کیا :

( فَتَلَقَّیٰ آدَمُ مِنْ رَبِّهِ کَلَمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ) ( ۲ )

''پھرآدم نے پروردگار سے چند الفاظ سیکھے پس خدا نے ان(الفاظ کی برکت سے) ان کی توبہ قبول کرلی ''۔

قر آ ن کریم میں اس وا قعہ کے ذیل میں''عصیا ن استغفار اور توبہ '' کے ما نند الفاظ استعمال ہو ئے ہیں ۔ دوسرے انبیا ء کے با رے میں بھی ایسے ہی الفاظ آئے ہیں کہ جن سے اس با ت کا وہم پیدا ہو تا ہے ۔ مقد مہ کے طور پر ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چا ہئے کہ عصیان ، استغفاراور توبہ کی مانند الفاظ جہاں کہیں بھی استعمال ہوںہر جگہ یہ اُس عصمت کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ، جس کے ہم قائل ہیں چنانچہ جس عصمت کے ہم معتقد ہیں اس کا مطلب حرام چیزوں کے ارتکاب سے معصوم ہونا ہے ۔یعنی اگر شارع مقدس کی طرف سے کسی حرام کام سے منع کیا گیا ہو تو انبیاء علیہم السلام اس کام کے مرتکب نہیں ہوتے لیکن اگر نہی اور مخالفت تنز یہی یا ارشاد ی ممانعت ہو (یعنی تقدس اور پاکیزگی کی شان باقی رکھنے کے لئے نصیحت کے طور پر کسی چیز سے روکاگیا ہوتو ) اگرچہ اس پر عصیان کا ا طلاق ہی کیوں نہ ہو تاہو تو یہ عصیان عصمت کے منافی نہیں ہے ۔

____________________

۱۔سورۂ طہ آیت ۱۲۱و۱۲۲۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت۳۷۔

۱۵۶

اسی آیۂ شریفہ کے با رے میں کہ جس میں حضرت آدم علیہ السلام کی طرف عصیان اور توبہ کی نسبت دی گئی ہے ایک غلط فہمی ہے کہ جس کے جواب میں شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ یہ عصیان کسی فعل حرام کی مما نعت کی نسبت نہیں ہے ۔ در اصل، خداوند عالم کسی بندہ کو کسی کام سے اس لئے منع کرے کہ اس کام کا کر نا آخرت کے عذاب کا باعث ہوگا یعنی اگریہ کام کیا تو آخرت میں شقاوت اور خداوند عالم سے دوری کا باعث ہوگا اور یہ کہ کسی کام سے اس لئے روکا جا ئے کہ یہ کام دنیا میں نا مطلوب نتا ئج کا با عث بنے گا اگر چہ یہ شقاوت اور عذاب آخرت یا خداوند عالم سے دور ی کا باعث نہ ہو ۔ ان دونوں با توں میں بڑا فرق ہے درخت کاپھل کھا نے کی مما نعت ،نہی تحریمی یعنی فعل حرام کی مما نعت نہ تھی کہ اس کا نہ کرنا لازم و ضروری ہو، اس کی دلیل اور گواہ اسی سورئہ طہٰ کی وہ آیات ہیں کہ جن میں خداوندعالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو جہاں اس امر سے رو کا ہے خود ہی اس نہی کی علت بھی بیان کردی ہے :

( فَلَایُخْرِجَنَّکُمَامِنَ الجَنَّةِ فَتَشْقَیٰاِ نَّ لَکَ اَلَّاتَجُوْعَ فِیْهَاوَلَاتَعْرَیٰ وَاَنَّکَ لَا تَظمَؤُا فِیْهاوَ لَا تَضْحَیٰ ) ( ۱ )

''ہم نے آدم سے کہدیا:شیطان تم دو نوں کو بہشت سے نکال نہ دے ورنہ تم ( دنیا کی مصیبت میں پھنس جائو گے) ( بہشت میں ) تمھیں یہ ( آرام ) ہے کہ نہ تم یہاں بھو کے رہو گے اور نہ برہنہ اور نہ یہاں پیاسے رہو گے اور نہ دھوپ میں جلوگے '' ۔

اس ممانعت کی وجہ خداوند عالم کا یہ فرمان ہے : تم مو جو د ہ آرام و آسائش سے محروم ہو جا ئو گے۔

اس مقام پر بہت سی بحثیں وجود میں آتی ہیں یہ کہ جس دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام سے یہ خطاب ہوا ہے۔ آیا وہ دنیا عالم تکلیف تھی اور بندوں پر احکام عائد ہو چکے تھے یا نہیں ؟ فرائض اورتکلیف اِس دار دنیا اور اس عالم خاکی سے تعلق رکھتے ہیں اور جب آدم علیہ السلام اس عالَم میں بھیج دئے گئے تو آپ سے خطاب ہوا :

( فَاِمَّایَا تِیَنَّکُمْ مِنِّی هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَاخَوْفعَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ( ۲ )

''اگر تمہارے پاس میری طرف سے کو ئی رہنما ئی کی جا ئے تو جو میری ہدایت پر چلیں گے اُن پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ ر نجیدہ ہو ں گے ''۔

اس سے پہلے سرے سے کو ئی فریضہ تھا ہی نہیں ، یہ اوا مر و نوا ہی ایک امر تکوینی کی حکا یت کر تے ہیں یا یہ کہئے

____________________

۱۔سورئہ طہ آیت ۱۱۷۔۱۱۹۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت ۳۸۔

۱۵۷

کہ عقل کی رہنما ئی کی گئی ہے ان زحمتو ں کی طرف رہنما ئی ہے جو اس نہی کی مخا لفت پر مر تب ہو تی ہیں ۔ اس مقام پر شیعہ علما ء نے جو وضا حتیں دی ہیں مختلف ہیں بعض علماء کا کہنا ہے کہ وہ عالَم عا لَمِ تکلیف نہیں تھا اور بعض علما ء کا کہنا ہے کہ یہ فریضہ تحر یمی نہیں تھابلکہ تنز یہی تھا اور عام طور پر یہ ا صطلا ح رائج ہے کہ حضر ت آ دم علیہ السلام نے ترک اولیٰ کیا تھا یعنی ایک تنز یہی تکلیف نہ کھا نے کے سلسلہ میں تھی اور حضرت آ دم علیہ السلام نے اس تنز یہی تکلیف کے خلاف کیا۔ اس دلیل کا مطلب یہ ہو ا کہ اس زما نہ میں بھی شرعی تکلیف یا (فریضہ) اگر چہ تنز یہی صو رت میں ہی سہی مو جو د تھا لیکن دوسری تو ضیح یہ ہے کہ اس زما نہ میں سرے سے فریضہ مرتب ہی نہیں ہوتا تھااور اس حکم اور ممانعت کی کو ئی دوسری صورت بیان کر نے کی ضرورت ہے ۔

بہر حال اس غلط فہمی کا ہم یہ جواب دے سکتے ہیں کہ عصیا ن یا ''گناہ '' کی اصطلاح چو نکہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ عصیان ایک شر عی فریضے کی ادا ئیگی سے متعلق تھا اور اس کی تا ئید اس بات سے ہو تی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو اس درخت کے پا س جا نے سے منع کیا گیا تواس مما نعت کی علت بھی بیان کر دی گئی کہ اگر تم نے اس کا م کو انجام دیا تو زحمت میں پڑ جا ؤ گے اور تم سے(بہشت کی) یہ آ رام و آ سا ئش چھن جا ئے گی اوریہ زبان کسی فعل حرام سے منع کرنے کی زبان نہیں ہے اور ائمہ علیہم السلام سے عصمت کے متعلق نقل ہو نے وا لی روا یا ت کے منا فی نہیںہیں۔

حضرت ابر اہیم اور حضرت یو سف علیہما السلا م

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قو م سے چا ند ،سورج اور ستا روں کی پر ستش کے متعلق مبا حثہ کیا اور بت پر ستی کے خلاف جنگ کا فیصلہ کر لیا اور مو قع کی تلاش میں تھے کہ بتوں کے خلاف آواز بلند کریںاور ایک توحیدی تحریک کی بنیا د رکھیں۔ لہٰذا آپ کے ذہن میں یہ با ت آ ئی کہ اہل شہر جس دن مخصوص رسو ما ت انجام دینے کیلئے شہر سے با ہرجاتے ہیں اسی دن یہ کام کیا جا سکتا ہے اور پھر خود کو اس کے لئے آمادہ کرلیا کہ جب شہر والے شہر سے باہر نکل جائیںگے تو وہ بت خانہ میں جاکر بتوں کو توڑڈالیں گے۔ اہل شہر باہر جاتے وقت ظا ہر ہے آپ سے بھی کہتے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلئے۔چونکہ آپ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے کہ جس کے سر پرست (آزر)بت تراش تھے اس طرح کے پیشہ کا یہی تقاضا تھا کہ جب خاندان والے شہر سے باہر جائیں تو تمام افراد منجملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی (جو اس خاندان کی ایک فرد تھے) اپنے ہمراہ لے جائیں ۔حضرت ابراہیم نے شہر سے باہر نہ جانے اور اپنے منصو بے پر عمل کرنے کی غرض سے اپنے کو مریض ظا ہرکیا قرآن کریم فرماتا ہے:

۱۵۸

( فَنَظَرَنَظْرَةً فِی النُّجُوْمِفَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْم ) ( ۱ )

''تو ابراہیم نے ستاروں کی طرف ایک نظر دیکھا ا ور کہا کہ میں بیمار ہوں '' ۔

اس آیت سے کچھ مفسرین نے یہ استفادہ کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حقیقت کے بر خلاف بات کی تھی کیونکہ آپ مریض نہیں تھے اور فرمایا تھا( اِنِّیْ سَقِیْمُ ) (میں بیمار ہوں) پس معلوم ہواکہ پیغمبر کا نبوت سے پہلے کذب بیانی سے کام لینا ممکن ہے اب یا تو نبوت سے پہلے گناہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،یا یہ کہ پھروہ گناہ صغیرہ تھا جس کے ارتکاب سے نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا۔

اسی طرح کی گفتگو حضرت یو سف علیہ السلام کے با رے میںبھی ہے ۔ وہ مشہور و معروف واقعہ ہے کہ جب (قحط میںگرفتار)حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپ کے پاس کھانے پینے کی اشیاء لینے کیلئے آئے اور دو سری مرتبہ ا پنے ساتھ اشیائے خو ردو نوش لینے کے لئے بنیا مین کو بھی لے آئے توحضرت یو سف علیہ السلام نے کا رندوں کو حکم دیا کہ چپ کے سے وزن کر نے والا پیمانہ ان کے سا مان میں رکھ دیا جائے تا کہ اس کے بہا نے ان کے بھائی ''بنیا مین '' کو وہاں روکاجاسکے چنا نچہ چپکے سے ایک پیمانہ ان کے سامان میں رکھ دیا گیا ۔ جب وہ جانے لگے تو کا رندوں نے کہا کہ تم لوگ یہاں سے نہیں جاسکتے اس لئے کہ تم نے چوری کی ہے اور تم کو عدالت میں پیش کیا جا ئے گاخداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے:

( فَلَمَّاجَهَّزَهْم بِجَهَازِهِم جَعْلَ الِسّقَا یَةَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْهِ ثْمَّ اَ ذَّنَ مُؤَذِّن اَ یََّتُهَاالْعِیْرُ اِ نَّکُمْ لَسَارِقُوْنَ ) ( ۲ )

'' پھر جب یو سف نے ان کا سازو سامان (سفر غلّہ و غیرہ ) درست کرادیا تو(اشارے سے) اپنے بھائی کے اسباب میںایک پیمانہ رکھوادیا پھر ایک شخص للکار کے بولا کہ اے قافلہ والو تم لوگوں نے چور ی کی ہے ''۔

انھو ں نے کہا نہیںہم چوری کرنے نہیں آئے ہیں آخر کار ان کے سامان کی تلاشی لی گئی تو وہ پیمانہ ان ہی کے سامان سے نکلا اور اس طرح بنیامین کو آپ نے اپنے پاس روک لیا ۔

گویاحضرت یوسف علیہ السلام کے حکم سے ان کے بھا ئیوں پر چوری کی تہمت لگائی گئی حالانکہ تہمت لگا نا جائز

____________________

۱۔سورئہ صافات آیت ۸۸و ۸۹۔

۲۔سور ئہ یو سف آیت ۷۰ ۔

۱۵۹

نہیں ہے ۔ پتہ چلا کہ ایسے فعل کا انبیاء علیہم السلام سے سرز د ہو نا ممکن ہے ۔

ان غلط فہمیوں کے مختلف انداز سے جواب دیئے گئے ہیں :

بعض کہتے ہیں کہ یہ '' تو ریہ '' تھا ۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو فرمایا '' اِنِی سقیم'' اس سے آپ نے واقعاً بیمار ہونامراد نہیںلیا تھا بلکہ آپ نے توریہ کیا تھا ۔ اسی طرح جب حضرت یو سف علیہ السلام کے ملازموں نے یہ اعلان کیا کہ '' اِ نَّکْم سَاَرِقُوْنَ '' ( یقیناً تم لوگوں نے چور ی کی ہے ) تو اس سے مراد یہ تھی کہ(مثلاً) ''تم نے حضر ت یو سف علیہ السلام کو چْرا یا ہے'' ۔ تو یہ تو ریہ تھا لیکن اس کا اور زیادہ مد لّل و قاطع جواب دیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام جگہوں پر جھوٹ بو لنا حرام نہیں ہے بلکہ بعض مو قعوں پر حتّیٰ جھوٹ بو لنا واجب بھی ہو سکتاہے اور بعض مو قعوں پر جھوٹ بولنا مباح بھی ہے اور یہ خیال کہ ''مطلق طور پر جھوٹ بولنا حرام ہے'' ایک با طل تصور ہے ۔ ان تمام واقعوں میں ایک ضروری مصلحت تھی جو اگر جھوٹ نہ بولا جاتاتو مصلحت فوت ہوجاتی ۔ مثال کے طور پر اگر ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا دقیق نظر وں سے مطالعہ کریں تو یہ دیکھیں گے کہ آپ ایک انقلاب اور تحریک کے ذریعہ لوگوں کو اس بات کی طر ف متو جّہ کرنا چاہتے تھے کہ بت پر ستش کے لایق نہیں ہیں اور اس کی راہ یہی تھی کہ بیماری کے بہانے شہر میں رک کر بتوں کو تو ڑ دیں اور شرعی طور پر بیماری کا یہ بہانہ حرام نہیں ہے۔

اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں اگر آپ کے بھائیوںکی سمجھ میںیہ آجاتا کہ حضرت یوسف علیہ السلام ان کے بھائی ہیں تو شرمندگی اور شر مساری یا سزا کی وجہ سے فرار کرجاتے اور پھر آپ کے پاس نہ آتے اور اگر وہ اپنے ساتھ بنیامین کو لیجاتے تو پھر آپ کے پاس حضرت یعقوب کے آنے کی کوئی راہ نہ ر ہتی اور اس کام میں جو مصلحتیں مضمر تھیں حا صل نہ ہوپاتیں ۔فرض کیجئے یہ صاف جھوٹ بھی ہو تو بنیامین کواپنے پاس رو کنے کے لئے آپ نے جو چال چلی اس لئے تھی کہ حضرت یعقوب کے مصر آنے کی راہ ہموارہوسکے اور آپ کے بھائی اپنے کئے پر توبہ کریں وغیرہ وغیرہ ۔

بنا بر ایں ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ جس کے تحت اس طرح کا جھوٹ بھی حرام ہو۔ اس کے علاوہ یہ جملہ''انکم لسارقون'' بھی حضرت یو سف علیہ السلام کا جملہ نہیں ہے بلکہ یہ اعلان کرنے والے کا جملہ ہے شاید اس نے یہ خیال کیا ہو کہ حقیقت میں انھوں نے چوری کی ہے اگرقابل اعتراض بات ہے تو اس کے مقدمات میں ہے کہ جنا ب یوسف علیہ السلام نے یہ حیلہ کیوں کیا یعنی آپ نے یہ حکم کیوںصادر کیاکہ ناپ کا پیمانہ ان کے سامان میں رکھ دیا جائے کہ وہ شخص ''انکم لسارقون''کہنے پر مجبور ہو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام حالات الٰہی تدبیرکے تحت بعض مصلحتوں کو پورا کرنے کی غرض سے طے پا ئے تھے کہ جن کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: (کَذَلِکَ کِدْنَا لِیِوْسُفْ)''یوسف کو بھائی کے روکنے کی یہ تدبیرہم نے بتائی تھی ''۔

۱۶۰