راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135650
ڈاؤنلوڈ: 3485

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135650 / ڈاؤنلوڈ: 3485
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

کے لہجے میں ایک قسم کی مدح ہے یعنی صحیح ہے کہ آپ کو دوسروں کی خوا ہش کا خیال کرنا چاہئے لیکن کس قدر؟ کیا اس حد تک کہ خود کو زحمت میں ڈال دیں ؟ہم یہ نہیںچاہتے کہ آپ بذات خود اپنے کو اتنی زحمت میں ڈال دیں کہ دوسروں کی خو ا ہشوں پر حلال چیزوں کو بھی اپنے لئے حرام قرار دیدیں یہ خداوندعالم کا امر ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کام پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انجام دیا ہے وہ برا کام ہے بلکہ یہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے دوسروں کی نسبت ہمدردی ، محبت، مہر بانی اور ایثارکے مقابلہ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر خداوند عالم کا لطف و کرم ہے اس لئے کہ آپ نے اپنی ازواج کے لئے اپنی خوا ہشات کو قربان کردیا خداوند عالم نے اس ایثار و قر بانی کے جواب میں کہاہے کہ اے رسول اپنی قسم سے صرف نظر کرومیں اپنے حق سے در گذر کر تا ہوں اس بناء پر یہ لہجہ اگرچہ ظاہر میں جواب طلب کر نے کا ہے لیکن حقیقت میں ایک طرح کی مدح ہے جس میں پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دوسروں کی نسبت کمال ہمدردی اور ایثار کی تعریف ہے ۔

بہر حال یہ آیت بھی ان دوسری آیات میں سے ہے جو اس چیز پردلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی زندگی اور گھر یلوما حول میں کتنی مشکلوں کو برداشت کیا کرتے تھے ، اس مسئلہ کی اہمیّت اس وقت اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے جب ہم بقیہ سورئہ تحریم کا آخر تک مطالعہ کریں اس لئے کہ خداوندعالم نے سورہ کے آخرمیں مومنوں اور کافروں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی ازواج اور ان کے مقابلہ میں فرعون کی زوجہ اور حضرت مریم کی مثالیں بیان کی ہیں ،سورہ کا لہجہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر آپ کو اس طرح کی ازواج کا سامنا ہے تو حضرت نوح اور حضرت لوط بھی اس طرح کی ازواج کا سامنا رہا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کو نہ توکوئی شخص چھپا سکتا ہے اورنہ ہی اس کے لئے کوئی بہانہ تلاش کرسکتا ہے ان ازواج کے سلسلے میں آیہ شریفہ کا لہجہ اتنا سخت ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ۔

پانچویں آیت

یہ آیت شک و شبہ ایجاد کر نے کے اعتبار سے دوسری تمام آیتوں سے زیادہ محکم ہے یعنی اس آیت سے پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت میں یہاں تک کہ مقام تبلیغ رسالت میں بھی شبہ پیدا ہو جاتا ہے گذشتہ آیات ایک شخص کے عمل سے متعلق تھیں لیکن اس آیت کا شبہ اصل تبلیغ رسالت سے متعلق ہے سورئہ حج میںخداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

۱۸۱

( وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ وَ لَا نَبِیٍّ اِ لَّا اِذَا تَمَنَّیٰ اَلْقَی الشَّیْطَٰنُ فِیْ اُمْنِیَّتِهِ فَیَنْسَخُ اللَّهُ مَا یُلْقِیْ الشَّیْطَٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللَّهُ آیَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِیْمُ حَکِیْم لِیَجْعَلَ مَایُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِ یْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضوَالْقَاسِیَةِقُلُوْبُهُمْ وَاِنَّ الظَّالِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍوَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَیُؤْمِنُوْابِهِ ) ( ۱ )

''اور (اے رسو ل ) ہم نے تم سے پہلے کو ئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجامگر یہ کہ جس وقت اس نے کو ئی آرزو کی تو شیطان نے اس کی آ رزو میں (اپنی طرف سے ) خلل ڈالا تو خدا نے جو وسوسہ شیطا ن نے پیدا کیا تھا اسے مٹادیا پھر اپنی آیات (احکام ) کواستحکام بخشا اور خدا تو بڑا دا نا اور حکیم ہے ایسا اس لئے ہے کہ ان کی با توں میں جو کچھ شیطان نے خلل ڈالا ہے اس کو ان لو گو ں کی آ زما ئش (کا ذریعہ )قرار دے کہ جن کے دلو ں میں (کفرکا مرض ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور ظا لمین یقیناً بہت سخت اختلاف میں پڑ ے ہو ئے ہیں اوریہ اس لئے بھی ہے کہ صا حبا نِ علم جان لیں کہ بیشک یہ قر آن تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے بر حق ہے اور اس پر وہ ایمان لا ئیں ''۔

اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق اہل سنت کی تفسیرو ں اور احا دیث کی کتا بو ں میں ایک عجیب و غر یب داستان نقل کی گئی ہے جس نے تبلیغِ رسالت میں پیغمبراکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت سے متعلق ایک بہت بڑا شبہہ ایجا د کردیا ہے اور اس با رے میں انھو ں نے سعیداور ابن عباس سے متعدد روا یتیں بھی نقل کی ہیں اور سیو طی اورابن حجر جیسے کئی دو سرے افراد نے صراحت کے ساتھ کہاہے کہ ان روایتوں کی سند بھی صحیح ہے ۔

داستان کچھ اس طرح ہے : جب سورئہ نجم نا زل ہوا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ میں اس کی قرا ئت فر ما رہے تھے ۔یہاں تک کہ آ پ اس آیت:

( اَفَرَأیْتُمْ اللَّا تَ وَالْعُزَّیٰ وَمَنَوٰ ةَ الثَّا لِثَةَ الْاُ خْرَیٰ ) پر پہنچے ' 'کیا تم لو گو ں نے لا ت و عزّیٰ کو دیکھا ہے اور منا ت کو جو ان کا تیسرا ہے؟ ''اس وقت شیطان نے آ پ کی زبا نِ اقدس پر یہ دو جملے جا ری کردیئے :

''تِلْکَ الْغَرَانِیْقَ الْعُلَیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَهُنَّ لَتُرْ تَجَیٰ '' اس کے بعد آ نحضرت سجدہ ریز ہو ئے اور لو گو ں نے بھی سجد ہ ادا کیا پھر جبر ئیل نا زل ہو ئے اور سوا ل کیا کہ آ پ نے یہ کیا پڑھ دیا ؟ نبی نے فر ما یا کہ میں نے اپنی زبا ن پر یہ دو جملے جا ری کئے ہیں جبر ئیل نے کہا کہ میں نے آ پ پر یہ وحی نہیں کی تھی ۔ یہ جملے شیطان نے القا ء کئے ہیں اس وقت پیغمبراکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لو گو ں کے سا منے یہ اعلان فر ما یا کہ یہ دو جملے قر آنی جملے نہیں ہیں ۔

بعض اہلِ سنّت نے اس دا ستان کے صحیح السند ہو نے کی تا ئید کے بعد اس داستان کو مند رجہ بالابات کامصداق

____________________

۱۔ سورئہ حج آیت۵۲سے ۵۴۔

۱۸۲

قرار دیا ہے ان کی نظر میں سے آیت کا مضمو ن کچھ اس طرح سے ہے : کہ جب بھی کو ئی پیغمبر آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرنا چا ہتاشیطان اس میں کوئی چیز القاء کر دیتا۔ اس اعتبا رسے تمنّیٰ کے معنی تلا وت اور قر ائت کے ہیں اور انھو ں نے شاہد مثال کے لئے شعرا ئے عرب میں سے کسی ایک شا عر کا شعر بھی نقل کیا ہے جس میں تمنّیٰ قرا ئت کے معنی میں استعما ل ہو ا ہے پس ''اِذَا تَمَنّیٰ''یعنی جس وقت وہ تلا وت کر نا چا ہتے تھے تو ''اُلْقِیَ الشَّیْطَان فِی اُمْنِیَّتِهِ ''یعنی فِیْ قَرَائَتِهِ' 'شیطا ن ان کی قرا ئت میں کچھ چیز وں کا القا ء کر دیتا تھا ۔ منجملہ اس داستان میں شیطان نے دو جملے القا ء کر دیئے اورچو نکہ شیطان یہ کام انجام دیتا ہے لہٰذا :(فَیَنْسَخَ ﷲ مَایُلْقِیْ الشّیَطَان ) ''خدا شیطان کے القا ء کئے ہو ئے جملو ں کو نسخ کر دیتا ہے ''

جیسا کہ یہا ں پر جبر ئیل آ ئے اور اُس کے جملو ں کو نسخ کیا اور یہ کو ئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس میں تمام انبیاء مبتلا ء ہو ئے ہیں شیطان اپنی بات القاء کر تااوراس کے بعدخداوندعالم اس کومنسوخ کردیاکرتا ۔

یہ بات قطع نظر اس سے کہ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت میں شبہ ایجاد کر تی ہے اس سے تو بنیادی طور پروحی اور قرآن کریم پر اعتماد ختم ہوجاتاہے یعنی دشمنان اسلام کے لئے ایک بہت بڑی دستا ویز ہے جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ خود قرآن کریم میں یہ کہاگیاہے کہ وحی کے وقت شیطان کچھ مطالب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر القاء کرد یتا تھا اس بناء پریہ کیسے معلوم ہوکہ جن آیات کو قرآن کریم کا جزء کہاجاتا ہے وہ شیطانی القائات کا حصہ نہ ہو اور اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ بعدمیں جبرئیل نازل ہوئے اور انھوں نے یہ فرمایا کہ وہ آیات نسخ ہوگئی ہیں تو بھی ممکن ہے وہ نسخ تو ہوگئی ہوں لیکن قرآن کریم سے نکا لی نہ گئی ہوں ۔

قرآن کے اعتبارو اعتماد پر سب سے بڑی ضرب جو لگا ئی جا سکتی تھی یہی ہے اور ا فسوس! وہ بات کہ جس کو ہم حقیقی معنی میں (القی الشیطان فی اُ مْنِیَّتِهِ )کہہ سکتے ہیں یہی روایت اور داستان ہے جو ہمارے برادران اہلسنّت نے اپنی کتابوں میں لکھ دی ہے بلا شبہ یہ وہی شیطانی القائات ہیں ۔

یہ روایت اوّل سے آخر تک اپنے جھوٹے ہونے کی خود گواہی دیتی ہے، ایسا فرض کرلیجئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ ہوتے بلکہ کوئی عام شخص ہوتا جو عوام الناس کو توحید کی دعوت دیتا تو کیاایک عام موحّد بھی تین بتوں کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے :''اِنََّ شَفَاعَتَهُنّ تَرْتَجِیْ ؟!''وہی شخص جو (ھٰؤُلََائِ شُفَعَائُ نَاعِنْدَ ﷲ )کے دعوے کی مذمت کر رہاہے کہ ان کی حیثیت کیا ہے؟! یہ شفاعت کے کیا کام آئیں گے؟! کیا ان میں شعور و عقل ہے ؟ کیا خدا نے ان کو شفاعت کرنے کی اجازت دیدی ہے ؟ کیا شفاعت کاکوئی قاعدہ و قانون نہیں ہے کہ جس کا دل چاہے وہ شفاعت کرے ؟اس وقت یہی شخص کہہ رہاہے کہ ہم ان بتوں سے شفاعت کے امید وار ہیں اور پھر ان کے سامنے سجدہ ریز بھی ہوجاتا ہے؟

۱۸۳

کیا ایک عام شخص سے بھی اس طرح کا فعل سرزد ہونا معقول ہے ؟چہ جائیکہ ہم اس فعل کو پیغمبر اکرم سے منسوب کریں !بعض نے عذر تراشا ہے کہتے ہیں کہ یہ سبقت لسانی تھی زبا ن پھسل گئی تھی، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دل سے یہ جملے زبان پر جاری کئے ہوں،ایسا نہیں ہے لیکن یہ عذر گناہ سے بد ترہے ۔

ایک تو یہ کہ سبقت لسانی ایک حرف یا ایک جملہ میں ہوتاہے نہ کہ دو طویل جملے کہ ان کا مطلب ہی بنیادی طورپر دعوت پیغمبر کے مخالف ہو۔

دوسرے یہ کہ سبقت لسانی کے بعدبات کر نے والا سجدہ ریز نہیں ہوتا !

بہر حال کسی شک و شبہ کے بغیر یہ داستان دشمنان اسلام کی گڑھی ہوئی ہے اور ان کے گڑھنے کی علامتیں بھی اس میں آشکار و ظاہر ہیں ۔

لیکن آیۂ شریفہ کی تلاوت اورتلاوت میں شیطانی خلل سے کوئی ربط نہیںہے ۔اگر کسی شعر میں لفظ ِ تمنّیٰ پڑھنے کے معنی میں استعما ل بھی ہوا ہو (جو خود بھی قابل غور ہے ) توشا ید ا س کی وجہ یہ ہوکہ جب انسان کسی چیز کی آرزو کر تا ہے تو عموماً زبا ن پر جا ری کر تا ہے اور یہ زبا ن پر جا ری ہو نا ہی تمنّا کی حکا یت کر تا ہے شاید اسی وجہ سے اس کو تمنّا کہا گیا ہو ورنہ کلمۂ تمنّا کا اصل مطلب پڑ ھنا اور تلا وت کر نا نہیں ہے ۔ سب جا نتے ہیں کہ تمنّا یعنی آ رزو کرنا اور آ رزو کرناکسے کہتے ہیں ؟ آ رزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن میں ایک خا کہ اور منصوبہ تیا ر کر ے اور دل اس کو عملی جا مہ پہنانا چا ہے ۔ ایک پیغمبر، پیغمبر ہو نے کی حیثیت سے کس چیز کی تمنّا کرتاہے ؟ ظاہرہے وہ پیغمبر اپنی رسالت کے محقق ہو نے کی آرزو کر تا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کو ئی پیغمبر کو ئی آرزو کرے وہ محقق ہوجائے ۔ بلکہ شیطان اس آ رزو کے متحقّق ہو نے میں خلل اورمشکلیں ایجا د کر تا ہے وہ کیسے ان مشکلوں کو ایجا د کر تا ہے ؟ شیطان کا کام وسو سہ کر نا ہے ، وہ لو گو ں کے اذہا ن میں وسو سہ کر تا ہے ، ان کو ایمان نہیں لا نے دیتا کہ پیغمبر کی آرزو پوری ہو اور خدا وند عا لم ان شیطانی وسو سو ں کو نیست و نا بود کردیتا ہے اور اس شبہہ کی بنیاد پر آیت کا یہ فقرہ ہے '' فَیَنْسَخَ ﷲ مَا یُلْقِیْ الشّیْطَانُ '' چو نکہ لفظ نسخ کے اصطلا ح میں ایک خاص معنی ہیں اور اس کا متعلّق کلام یا حکمِ الٰہی ہے جبکہ نسخ کے لغوی معنی زائل کر نا اور محو کر نا ہیں ۔ نسخ کے دو معنی ہیں :

۱۸۴

۱۔ایک چیز کو دو سری جگہ نقل کر نا ، نسخہ کر نایا فو ٹو کا پی کر نا ۔

۲۔کسی چیز کا محو کر نا

جملہ ''فَیَنْسَخَ ﷲ ''یعنی خدا وند عا لم ان شیطا نی وسوسوں کو نیست و نا بود اور اس کے با لمقا بل آ یاتِ الٰہی کو محکم و مضبو ط کردیتا ہے ۔ آخر کا ر انبیاء علیہم السلام غا لب ہو ں گے ''لَاَ غْلَبَنَّ اَنَاوَرُسُلِیْ ''''میں اور میرے رسول غالب آ نے وا لے ہیں '' لیکن آیت کے ذیل میں جو یہ فر مایا ہے:

( لِیَجْعَلَ مَایُلْقِیْ الشّیْطَا نُ فِتْنَةً لِلَّذِ یْنَ فِیْ قُلُوْ بِهِمْ مَرَض )

''اور شیطان جو (وسوسہ) ڈ التا( بھی) ہے اس لئے ہے کہ خدا اسے ان لو کو ں کی آ زما ئش (کا ذریعہ ) قرار دے کہ جن کے دلو ں میں( کفر کا )مرض ہے ''

شا ید اس بات کی طرف اشا رہ ہو کہ ٹھیک ہے با لآ خر، کار خدا وند ی کو ہی کا میاب و کا مران ہو ناہے اور انبیا ء علیہم السلام غالب آئیں گے لیکن بنیادی طورپر شیطان کا وجو د عا لَم کے کلی مصا لح کا جزاور انسا ن کی آ زما ئش و امتحان کا وسیلہ و ذریعہ ہے تا کہ ایک طرف جن لو گو ں کے دلو ں میں کفر کا مر ض ہے اور قسی القلب ہیں شیطا نی وسوسوں سے دو چا ر ہو ں اور دوسری طرف :

( وَلِیَعْلَمَ الَّذِ یْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ )

'' جن لو گو ں کو کتب سما وی کا علم عطا ہو ا ہے وہ جا ن لیں کہ یہ وحی بیشک تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے برحق ہے '' ۔

مو منین شیطا نی وسوسو ں کا مقا بلہ کر یں ،گمراہ انسانو ں اور جنو ں کی کا ر شکنی ان کو متز لزل نہ کرے اور جو کچھ پیغمبر پر نا زل ہو ا ہے اس کے بر حق ہو نے پر علم یقینی کے ساتھ پختہ و راسخ رہیں ۔

معلوم ہوا کہ جو کچھ ان لو گو ں نے تصورکیا ہے اس پر یہ آیۂ شریفہ ہر گزدلا لت نہیں کر تی اور وہ داستان تو بالکل گڑھی ہو ئی ہے ۔

۱۸۵

غیرانبیا ء علیہم السلام کا معصوم ہو نا

ہم عرض کر چکے ہیں کہ قرآ ن ِ مجید کی آ یات سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبرپیغام وحی لینے اور پہنچا نے میں معصو م ہو تے ہیںیہا ں تک کہ رسالت الٰہی کسی خطا اور انحراف کے بغیر لو گو ں تک پہنچ جاتی ہے اور دوسرے دلا یل سے چا ہے وہ عقلی ہو ں یا نقلی یہ ثابت ہے کہ انبیا ء علیہم السلام تبلیغِ وحی میں معصوم ہو نے کے علا وہ وحی کے مطابق عمل کر نے میں بھی معصوم ہو تے ہیں بلکہ شیعہ حضرات کے کھلے عقا ید کی رو سے وہ کسی غلطی ، اور سہو و نسیان سے بھی دوچار نہیں ہو تے ۔ اس سلسلہ میں کچھ شکوک بھی تھے جن کی حتی المقدور وضاحت کے ساتھ ہم نے جواب بھی عرض کر دیئے ہیں :

اب اس مقا م پر ایک دوسرا سوا ل یہ پیش آ تا ہے :کیا عصمت، انبیا ء علیہم السلام سے مخصوص ہے ؟ یا انبیا ء علیہم السلام کے علا وہ بھی کچھ لو گ معصو م ہو سکتے ہیں ؟ اور کیا قر آ ن مجید کی آ یا ت اس سلسلہ میں ہما ری کچھ رہنما ئی کر تی ہیں یا نہیں؟

اس بحث کو چھیڑ نے سے پہلے خود عصمت کے مفہوم کی وضا حت کر نا ضرو ری ہے ۔ عصمت سے مرا د صرف گناہ کا ترک کرنا نہیں ہے ۔ اگر کسی انسان سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو تو کافی نہیں ہے کہ ہم اس کو معصوم کہہ بیٹھیں ۔اس لئے کہ اولاً انسان مکلف ہونا چا ہئے یعنی اس عمر کو پہنچ چکا ہو کہ اس پر شرعی فریضہ عا ئد ہو تا ہواور اس وقت وہ فریضہ کی مخالفت نہ کرے ورنہ اگر کوئی انسان ابھی مکلّف نہیں ہو اہے تو وہ اس مقام پر نہیں ہے کہ اس کے لئے کہیں معصو م ہے کہ نہیں ؟ مثلاً بچے کے لئے بالغ ہونے سے پہلے (معصوم ہونے یا نہ ہونے کی)بحث نہیں اٹھتی اگر ان کو معصوم کہاجاتا ہے تویہ ایک تسامح ہے معلوم ہواان کے اندر گنا ہ کرنے کی قوت ہونی چاہئے یعنی مکلف ہوں البتہ سب انسانوں کے لئے احکام یکسان نہیں ہوتے ہمارے پاس ایسے دلایل موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ممکن ہے کچھ لوگ قانونی سن سے پہلے ہی مکلف ہوجائیں جیسے ائمہ اطہار رسمی اور ظاھری بلوغ سے پہلے ہی مکلف ہیں اور ان بلند مرتبوں پر فائز ہونے کی بنا پر اپنی ذمہ داریوں کی بہ نسبت متعہد اور ملتزم ہیں امام پانچ سال یا اس سے کم و بیش عمرمیں امام ہوسکتاہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ذمہ داریوں کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ بہر حال عصمت کا مسئلہ اس شخص سے متعلق ہوتاہے جو مکلف ہو،چاہے وہ معمو لی اعتبار سے مکلف ہو جیسے عام طو ر سے لو گ ایک مخصو ص عمر میں مکلف ہو تے ہیں چا ہے مخصوص طو ر پر مکلف ہو جیسے انبیا ء اور ائمہ علیہم السلام غیر متعارف عمر میں مکلف ہو تے ہیں ۔

۱۸۶

دو سرے اگر مکلّف شخص میں معصیت کر نے کی طا قت نہ ہو جس کی بنا ء پر اس سے گنا ہ سرزد نہیں ہو تا تو اس کو بھی معصو م نہیں کہا جاتا ۔ عصمت کا مطلب یہ ہے کہ انسا ن کے اندر گنا ہ کر نے کی طا قت اور تمام شر طیں مو جو د ہو ں اس کے با و جود بھی وہ گنا ہ نہ کر ے ۔ چا ہے معمو لی اور متعا رف شرطیں ہو ں یا استثنا ئی شر طیں ہو ں ۔ اس کی وضا حت کچھ اس طرح ہے :

ہر انسان کچھ ایسے ملکہ کا ما لک ہو تا ہے جس کی وجہ سے اس سے کچھ مخصو ص کام صا در ہو تے ہیں مثلاً بہا در آدمی کے اند ر ایک ملکہ ہو تا ہے یعنی اس میں ایک ایسی کیفیت را سخ ہو جا تی ہے جو اس سے کچھ کا مو ں کے انجا م دینے اور دوسرے کا مو ں کے تر ک کر نے کا تقا ضا کر تی ہے ۔ پس ملکۂ عفت اور ملکۂ سخا وت بھی ایسے ہی ہیں معمولی طور پر یہ ملکا ت جن کے متعلق اخلا ق میں بحث کی جا تی ہے اسی طرح کے ہیں جو متعا رف و معمولی حا لات و شر طو ں میں کچھ کا مو ں کے انجام دینے کا منشاء ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل نہ کرنا محال نہیں ہو تا یعنی بہا در آ دمی اس کو کہا جا تا ہے جو معمو لی حالات و شرطوں میں نہیں ڈرتا لیکن اگر کو ئی غیر معمو لی وا قعہ پیش آ جا ئے تو ممکن ہے وہ ڈرجائے ۔ہا ں اگر انسان کے اندر یہ ملکہ بہت زیا دہ راسخ ہو جا ئے اور در جۂ کما ل تک پہنچ جا ئے تو غیر معمو لی اور استثنا ئی حو ا دث بھی اس پر اثر اندا ز نہیں ہو سکتے ۔ مثا ل کے طور پر ملکۂ عفت اتنا مستحکم و قوی ہو جا ئے کہ اگر وہ حالات جو حضرت یوسف علیہ السلام کو پیش آئے اس کے سامنے آجا ئیں تو بھی گنا ہ نہیں کر تا، اسی طرح دو سرے تمام ملکا ت اس قدر قو ی ہو ں کہ کسی بھی حال میں گنا ہ سر زد نہ ہو اگر چہ غیر معمولی حا لات ہی کیو ں نہ پیدا ہوجائیں۔ اگر کسی انسان کے اندر ایسا ملکہ پیدا ہو جا ئے تو اس کو معصو م کہاجا تا ہے ۔

عصمت کی تعریف یوںکر سکتے ہیں ''عصمت انسا ن میں پا یا جا نے وا لاوہ ملکہ ہے جو انسان کو ہر حا ل میں گناہ سے محفو ظ رکھتا ہے ''البتہ ہما را یہ کہنا کہ یہ ملکہ انسا ن کی حفا ظت کر تا ہے اس بات سے منا فات نہیں رکھتا کہ خدا انسان کی حفا ظت کر تا ہے اس لئے کہ تو حید افعا لی تقا ضا کر تی ہے کہ کسی بھی مو جو د کے پاس جو کچھ ہے اور جوکام بھی وہ انجام دیتا ہے اس کی انتہا ء اور بنیادی با زگشت خدا کی طرف ہے ۔ خدا ہی اس کے اندر موجود ملکہ عصمت کے ذریعہ اس کی حفا ظت کر تا ہے۔

۱۸۷

اب ہمیں یہ دیکھناہے کہ کیا یہ ملکہ صر ف انبیا ء علیہم السلام سے مخصو ص ہے یا غیر ا نبیا ء علیہم السلام میں بھی اس کے پا ئے جا نے کا امکان ہے، اس کے بھی دو مر حلے ہیں ایک مر حلۂ ثبو ت دوسرا مر حلۂ اثبات ،یعنی پہلے یہ ثابت ہو نا چا ہئے کہ ایک شخص میں اس طرح کا ملکہ پا یا جا نا کیاممکن ہے؟ اور دوسرے مر حلے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا غیر انبیاء میں اس طرح کا ملکہ ثابت کر نے کی ہما رے پا س کو ئی دلیل ہے یا نہیں ؟ جہاں تک ایک انسان کے اندر اس طرح کاملکہ پائے جانے کی بات ہے تو ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے اور نہ ہی اس مفروضہ میں کوئی محا ل عقلی لا زم آ تا ہے ۔ ہما رے پا س ایسی دلیلیں اور ثبوت مو جو د ہیں جن سے یہ ظا ہر ہو تا ہے کہ یہ ملکہ انبیا ء سے مخصو ص نہیں ہے مثال کے طور پر آ یۂ کر یمہ (الّا عِبَا دَ ﷲ الْمُخْلَصِیْنَ )یعنی ''شیطا ن ﷲ کے مخلص بندوں کو گمرا ہ کرنے کی ہوس نہیں کر سکتا'' عام ہے اورمخلصین میں غیر انبیا ء بھی شامل ہو سکتے ہیں اس اخلا ص اور عصمت کوصرف انبیاء میں مخصو ص کر دینے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے ۔ جو شخص بھی مخلَص ہو اس آ یۂ کریمہ کے مطابق معصوم ہو گا چونکہ شیطان اس کو فریب نہیں دے سکتا ۔رہی یہ بات کہ معصو مین کو ن لو گ ہیں ؟ اورکیا صرف انبیا ء علیہم السلام ہی معصوم ہیںیا نہیں ؟ اس کے لئے الگ سے دلیل کی ضر و رت ہے خود آ یۂ کریمہ اس با ت کا انکا ر نہیں کر تی کہ غیر انبیاء بھی معصوم ہو سکتے ہیں حتی ذہن کو مطمئن اور ما نوس کر نے کے لئے ہم نمو نہ کے طو ر پر کچھ ایسے مقامات بیان کر رہے ہیں کہ جن میں قرآن کریم نے غیر انبیا ء کے معصو م ہو نے کی طرف اشا رہ کیا ہے :

مثال کے طو ر پر خدا وند عا لم حضر ت مریم سلا م ﷲ علیہا کے با رے میں فر ما تا ہے:

( وَاِذْقَالَتِ الْمَلَا ئِکَةُ یَامَرْیَمُ اِنَّ اللَّهَ اصْطَفٰیکِ وَطَهَّرَکِ وَاصْطَفٰیکِ عَلَیٰ نِسَآئِ الْعَالَمِیْنَ ) ( ۱ )

''اور جب فرشتو ں نے کہا اے مر یم بیشک ﷲ نے آپ کو منتخب کیاہے اور آپ کوپا ک و پا کیزہ بنا یا ہے اور عا لمین کی تمام عو رتوں پر آپ کو بر تری عطا کی ہے ''۔

ہما ری بحث کلمۂ (طَھَّرَکِ )سے ہے کہ لفظ تطہیر تقا ضا کر تا ہے کہ کسی طرح کی آ لو دگی ان کے قریب نہیں آسکتی وہ گناہان صغیرہ اور کبیرہ کی ہر برائی سے پاک ہیں پس یہ ثابت ہے کہ غیر انبیا ء بھی عصمت و طہا رت کے اس در جہ پر فا ئز ہو تے ہیں کہ تمام عمر ان سے کو ئی بھی گنا ہ صغیرہ اور کبیرہ سر زد نہیں ہو سکتا ۔

____________________

۱۔سورئہ آل عمران آیت ۴۲۔

۱۸۸

اَئمہ علیہم السلام کی عصمت

اہلِ تشیّع کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوربا رہ اما م علیہم السلام اور اسی طرح حضرت فا طمہ زہرا سلا م ﷲ علیہا پیغمبریا امام نہ ہو نے کے با وجود معصو م ہیں معلوم ہو ا کہ عصمت انبیا ء سے مخصو ص نہیں ہے بلکہ غیر انبیاء بھی معصوم ہو سکتے ہیں یہاں اس بات کی طرف دھیان رہے کہ جس عصمت سے ان تیرہ شخصیتو ں کو منسو ب کیا جا تا ہے وہی عصمت ہے جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ثابت ہے، یعنی شیعہ حضرات کے مشہو ر قو ل کے مطابق ( گناہ سے بھی معصوم ہیں اور خطا اور سہو و نسیا ن سے بھی معصوم ہیں )اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس امت میں چو دہ معصو مو ں کے علا وہ کوئی او ر گنا ہو ں سے محفو ظ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے دو سرے افرا د کے ہو نے کا بھی امکا ن ہے جو اس طرح کے ما حول میں زند گی بسر کر رہے ہو ں کہ تمام حالات میںملکۂ تقو یٰ و عدالت ان کو گنا ہ سے اس طرح محفو ظ رکھے کہ انھو ں نے کبھی کو ئی گنا ہ نہ کیا ہو حتی یہ بھی ممکن ہے کہ ان چو دہ ہستیو ں کے علا وہ کچھ لوگ ملکۂ تقو یٰ کے ان اعلیٰ مرا تب پر فا ئز ہو ں کہ حتی غیر معمو لی حا لات بھی اگرپیش آ ئیں تو ان سے کو ئی گنا ہ سرزد نہ ہو ۔ ان چو دہ ہستیو ں کے لئے عصمت کا مخصو ص ہونا اس معنی میںہے جو پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ثابت ہے اورجس کا لا زمہ خطا اور نسیان سے بھی محفو ظ ہونا ہے ۔ پس یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ حضر ت سلما ن بھی ملکۂ عصمت پر فا ئز ہوں اور مختلف حالات میں ان سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو اہو اور اگر اس سے بھی زیا دہ سخت حا لات ان کے لئے پیش آ جا تے تب بھی ان سے کو ئی گنا ہ سرزد نہ ہو تا لیکن ممکن ہے کہ کسی مقام پر اپنے فیصلے میں غلطی کر گئے ہو ں کیونکہ اپنے تمام فیصلوں میں خطا سے محفو ظ رہنے کا چو دہ معصو مو ں کے علا وہ کسی اور کے لئے اثبا ت نہیں کیا جا سکتا اگرچہ ممکن ہے وہ ملکۂ عدالت کے ایک ایسے بلند مر تبہ پر فا ئز ہو ں کہ اس کو بھی عصمت کا نام دیا جاسکے اور اس کی نفی کے لئے بھی ہمارے پاس کو ئی دلیل نہیں ہے اور شاید پیغبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول (سَلْمَا نُ مِنَّا اَهْلَ الْبَیْت ) اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ بعض خصو صیا ت جو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت ہیں ان کے لئے بھی ثابت ہو ں ، اورشاید علما ء ، فقہا ء اور شیعوں کی عظیم شخصیتو ں کے درمیا ن ایسے افرا د مو جو د رہے ہو ں اور اب بھی مو جو د ہو ں جو عدالت اور تقوےٰ کے اس بلند درجہ پر فا ئز ہو ں کہ کسی بھی طرح کے حالات میںہوں معصیتِ خدا سے پر ہیز کر تے ہو ں ۔ مرحوم سید رضی اور سید مر تضیٰ کا مشہو ر و معرو ف واقعہ ہے ( البتہ یہ داستا ن سوفیصدی صحیح ہے میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ) لیکن ان دو بزرگوں کا شما ر ان افراد میں ہو تا ہے جو عدالت اور تقویٰ کے اعتبا ر سے غیر معمولی مرتبہ پر فا ئز تھے واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن طے پایا یہ دو نوں متقی عا لمو ں میں سے ایک نما ز جما عت میں امام بنے اور دوسرا ما مو م، اب یہ کہ گھر میں تھے اور ان کی ما در گرا می کی پیشکش تھی یا کچھ اور ،میں نے جزئیات قلمبند نہیں کی ہیں اور یقین سے نہیں کہہ سکتا)

۱۸۹

مر حوم سید مرتضیٰ نے امامت کے لئے اشا رتاً او لو یت کا اظہا ر کر تے ہو ئے فر مایا : ٹھیک ہے وہ شخص پیش امام بنے جس نے اب تک کو ئی گنا ہ نہ کیا ہوتواس وقت سید رضی نے فر مایا : بلکہ بہتر ہے وہ شخص پیش امام ہو جس نے گنا ہ کا خیا ل تک نہ کیاہو، یہ اس بات کی طرف اشا رہ تھا کہ انھو ں نے اپنی عمر بھی گناہ کا تصو ر تک نہیں کیا ہے، اور یہ بعید بھی نہیں ہے خدا کے بہت سے ایسے لا ئق بندے ہیں اگر ہم اس کے اہل نہیں ہیں تو ہمیں اس کا انکا ر بھی نہیں کر نا چاہۓ۔ پس وہ عصمت کہ جس کی ہم ان چو دہ معصو مو ں کی طرف نسبت دیتے ہیں وہی عصمت ہے جو خو د پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں پا ئی جا تی ہے جس کی وجہ سے وہ ہرطرح کی غلطی اور سہوو نسیان سے بھی محفوظ تھے ۔ اسی طرح ہما ری مراد اس عصمت سے ہے جو مقامِ اثبا ت میں دلیل رکھتی ہو ممکن ہے کو ئی شخص اپنی زند گی میں گنا ہ کاخیال تک نہ کرے لیکن اس کے پاس اس کی کو ئی ضمانت نہ ہو اور وہ دوسروں کے سامنے یہ ثابت نہ کر سکے کہ اس کے دل میں کبھی گنا ہ کا تصورآیاہے یا نہیں ؟ آیا کسی کے حق میںسو ء ظن کیا ہے یا نہیں ؟ لیکن چو دہ معصو مو ں کے سلسلے میں عصمت ثابت کرنے کی دلیل مو جو د ہے۔

بہت سی روا یات اس بات کو ثا بت کر تی ہیںپس معلوم ہوا چو دہ معصو موں کی عصمت اور ان افرادکے درمیان کہ جن سے کو ئی گنا ہ سرزد نہ ہوا ہوحتی انھوں نے گنا ہ کا تصور بھی نہ کیا ہو دو فر ق ہے :

۱۔ائمہ علیہم السلام کی عصمت اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ وہ خطاا ورسہوو نسیان سے بھی محفو ظ ہیں ۔

۲۔ ان کی عصمت پر ہما رے پاس دلیلیں مو جو د ہیں ۔

اَئمہ علیہم السلام کی عصمت پر قر آ نی دلیل

کیاقرآن کریم کی آیات سے ان ذواتِ مقدسہ کی عصمت پر کو ئی دلیل مو جو د ہے یا نہیں ؟

اس کے جواب میں متعدد آیات مو جو د ہیںلیکن ہم ان میں سے نمو نہ کے طور پرصرف دو آ یتیں پیش کررہے ہیں ارشاد ہو تا ہے:

( یَااَیُّهَاالَّذِیْنَ آمَنَوُااَطِیْعُوْااللَّهَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الْاَمْرِمِنْکُمْ ) ( ۱ )

''اے ایما ن لا نے وا لو ﷲ کی اطاعت کر واور اپنے رسول اور اولی الا مر کی اطا عت کرو ''۔

اہل تشیّع اور اہل سنّت دونوں کی معتبر روایات کے مطا بق او لی الامر سے مراد با رہ امام ہیں حتی برادران اہلسنّت نے کچھ ایسی روا یتیں نقل کی ہیں کہ جن میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اولی الا مر کے عنوان سے بارہ اما موں کا تعا رف

____________________

۱۔سو رۂ نسا ء آیت۵۹۔

۱۹۰

کرا یا ہے۔ شیعہ حضرات سے تو اس سلسلہ میں بہت سی روا یتیں نقل ہو ئی ہیں ہم روا یا ت کے قطع نظرپہلے یہ جا ئزہ لیتے ہیں کہ کیا خوداس آیت سے اولی الامر کے لئے عصمت ثا بت کی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ پھر مقام تطبیق میں ہم یہ دیکھیں کہ او لی الامر کو ن لوگ ہیں ؟

آیۂ کریمہ میں یہ بیا ن کہاگیا ہے کہ اے ایما ن لا نے وا لو خدا، رسو ل اور او لی الا مر کی اطاعت کرو ۔ آیت کے آغاز میں ''اَ طِیْعُوْا ﷲ'' اس کے بعد ''( اَطِیْعُوْا الرَّ سُوْل ) ''اور اس کے بعد ''( وَاُوْ لِیْ الاَمْرِمِنْکُمْ ) '' آ یا ہے۔ خدا کی اطا عت کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کے نا زل کر دہ احکام پر عمل کر ے اور ہر گز مخا لفت نہ کرے لیکن اطا عتِ رسول اور او لی لامر کا جہاں تک سوال ہے تورسول کی اطا عت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک یہ کہ لو گو ں تک رسالتِ الٰہیہ کے عنوان سے جو کچھ پہنچا یا ہے یعنی وہ احکام جو خدا نے اس کے ذریعہ نا زل کئے ہیں اُن پر عمل کریںدر حقیقت خدا کے ان اوا مر و نوا ہی پر عمل کر نا اطا عتِ رسول بھی ہے کیو نکہ پیغمبر ، خدا اور لو گو ں کے درمیا ن ابلاغ کا ذریعہ ہیں ۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک اور حیثیت ا ور منزلت بھی ہے جس کی وجہ سے ان کی اطا عت وا جب ہے اور وہ مقامِ ولا یت و حکو مت ہے۔ ہم پر صرف اس چیز کا حکم نہیں ہے کہ پیغمبر کی بس انھیں احکام میں اطاعت کریں جو اس نے خدا کی جانب سے احکام کلی کے طور پر بیان کئے ہیں بلکہ ان کے علاوہ ہما را فریضہ ہے کہ اپنی زندگی کے دوران جو بھی اوامرو نوا ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولویت اور ولا یت کے عنوان سے دیئے ہیںہم ان کی بھی اطاعت اور پیر وی کریں ۔ مزیدوضا حت کے لئے عرض کروںکہ ایک دفعہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک آیت کی تلا وت فر ما تے جوکسی حکمِ الٰہی پر دلالت کر تی ہے تو ہم اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً نماز وروزہ وغیر ہ وا جب ہیں اور اس واجب پر عمل ضروری ہے پس ان احکام پر عمل کر نا خدا کی اطا عت بھی ہے اور اس کے رسو ل کی بھی اطاعت ہے ۔

خدا کی اطا عت اس لئے ہے کہ وہ حکم نا زل کر نے والا ہے اور پیغمبر کی اطا عت اس لئے ہے کہ وہ اس حکم کو پہنچا نے والے ہیں ۔بنیادی طور پر نبوّ ت اور رسالت اس سے زیا دہ کا تقاضا نہیں کر تی، جب ہم یہ سمجھ گئے کہ ایک شخص ﷲ کا رسو ل ہے تو اس کے رسو ل ہو نے تقا ضا یہ ہے کہ وہ جو کچھ رسا لتِ الٰہی کے عنوا ن سے ہما رے لئے لے کر آ ئے اسے قبول کریں لیکن اس کے ہر حکم کی اطا عت ضروری ہے یا نہیں ؟ خود رسا لت اس کا تقاضانہیں کر تی اس کے لئے ایک اوردلیل کی ضرو رت ہے ایک مرتبہ وحی کے ذریعہ حکم ہو تا ہے کہ ر سول جو کچھ دے یاکہے اس کی اطاعت کر و،تو اب اس حکم سے رسول کے لئے ایک دو سرا مقام ثا بت ہو تا ہے کہ عا م امو ر میں بھی اس کی اطا عت ضروری ہے ۔ کبھی خود وحی کے الفاظ میں یہ بات نہیں ملتی بعد میں جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسا لت ہما رے لئے ثابت ہوگئی آ نحضر تصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسا لت میںہی یہ بات کہی جاتی ہے:

۱۹۱

( وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّالِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللَّهِ ) ( ۱ )

''اور ہم نے کسی پیغمبر کو نہیںبھیجا مگر یہ کہ لو گ اذنِ خدا سے ان کی اطا عت کریں ''۔

ہم اس قرآنی دلیل کے تحت چونکہ ہر رسو ل کی اطا عت کر نا وا جب سمجھتے ہیں اگر یہ آیت نا زل نہ ہو ئی ہوتی تو صرف عقلی دلیل کے تحت چونکہ یہ پیغمبر ہے اور پیغمبر کی تمام مسا ئل میں اطا عت ہو نی چاہئے ہم نہ سمجھ پا تے لیکن چونکہ یہ آیت نازل ہوئی لہٰذا اس دلیل نقل پر اعتما د کر تے ہو ئے کہتے ہیں کہ رسو ل کی اطاعت ضروری ہے ۔ لہٰذا پیغمبر حکو مت سے متعلق معا ملات اور لو گو ں کی زندگی سے متعلق امو ر میں جو امر و نہی کرتا ہے '' ولیِ امر '' کی حیثیت سے اس کی اطا عت واجب ہے ۔ یہ رسالت کے علاوہ ایک دوسرا مقام ہے ۔ اسی طرح اگر وہ کسی معا ملہ کا فیصلہ کریں تو ان کے فیصلہ کو بھی تسلیم کر نا چا ہئے کیونکہ وہ خدا وند عا لم کی طرف سے قا ضی بن کر آ ئے ہیں ۔

معلوم ہوا مندر جہ با لاجا ئزے کی روشنی میں تین مقام ثابت ہو تے ہیں :

ایک مقا مِ حکومت :یعنی نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولیِّ امر ، مد بّر اورمعا شرہ کی عنان ہاتھ میں رکھنے والے سائس رہبر ( ساسة العباد )ہیں ۔یعنی حاکم ہیں۔دو سرا مقا مِ قضا وت : یعنی دو فریقوں کے مابین فیصلہ کر نا ،قاضی و منصف ،اورتیسرا مقام، رسالت اور الٰہی پیغام رسانی،یعنی رسول ہیں اور ان تینو ں مقا ما ت کے لئے قرآن کریم میں آ یات موجو د ہیں :پہلے مقام و مرتبہ سے متعلق خدا وند عالم قرآ ن کریم میں ارشاد فر ماتا ہے :

( اِ نَّآاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآاَرَٰکَ اللَّهُ ) ( ۲ )

''(اے رسو ل )ہم نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتا ب اس لئے نا زل کی ہے کہ جس طرح خدا نے تمہا ری رہنمائی کی ہے لو گو ں کے در میا ن فیصلہ کرو ''۔اور اسی سو رئہ نساء کی دوسری آیت میں ارشا د ہو تا ہے :

( فَلَا وَرَبِّکَ لَایُوْمِنُوْنَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَبَیْنَهُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْافِیْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجاًمِمَّاقَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْاتَسْلِیْماً ) ( ۱ )

'' پس (اے رسول ) آ پ کے پر ور دگا ر کی قسم یہ لوگ صاحبِ ایمان نہ ہو ں گے جب تک اپنے با ہمی جھگڑو ں میں آپ کو اپنا حا کم (نہ) بنا ئیں اور جو کچھ آپ فیصلہ کردیں اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ہوں اور آپ

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت ۶۴ ۔

۲۔سو رئہ نساء آیت۱۰۵۔

۳۔سورئہ نساء آیت ۶۵۔

۱۹۲

کے فیصلے کے سا منے سرا پا تسلیم ہو جا ئیں '' ۔

اسی طرح ولا یتِ امر ، تد بیر اور حا کمیت کے مسئلے میں کہ وہ مسلما نو ں کو جس چیز کا بھی حکم دیں سب کو تسلیم کرلینا چا ہئے ۔ خدا وند عا لم ارشاد فرما تا ہے :

( اَ لنَّبِیُّ اَوْلَیٰ بِالْمَوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ) ( ۱ )

''نبی تو مو منین پر خود اُن سے بڑھکر حق رکھتے ہیں '' ۔

اس سلسلہ میں دو سری آ یتیں بھی ہیں منجملہ وہ آیت جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں:( اَطِیْعُوْااللَّهَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الْاَمْرِمِنْکُمْ ) ( ۲ ) ''خدا کی اطاعت کرو اور رسو ل کی اور تم میں سے جو صا حبانِ امر ہیں اُن کی اطاعت کرو ''۔

اس آیۂ شریفہ میں کلمۂ(اَطِیْعُوْ ا ) دو مر تبہ استعما ل ہو ا ہے ایک مرتبہ اس کو خدا سے منسو ب کیا گیا ہے اور دوسری مر تبہ اسکی رسو ل اور او لی الامر سے نسبت دی گئی ہے اور رسو ل اور او لی الا مر کی اطاعت کا ایک(اَطِیْعُوْا)کے تحت ایک ساتھ حکم ہوا ہے ۔ خدا وند عا لم نے( اَطِیْعُوْاﷲ وَالرَّسُوْلَ وَاَطِیْعُوْااُولِی الاَمْرِمِنْکُمْ ) نہیں فر ما یا ہے ۔ خدا کو ایک (اَطِیْعُوْا)کے ساتھ بیا ن فر مایا اور رسو ل اور اولی الامر کو ایک ساتھ ایک ہی امر کامتعلق قرار دیا ہے، اس سے یہ ظا ہر ہو تا ہے کہ دوسرا (اَطِیْعُوْا)رسول اور اولی الا مر کے درمیان مشترک ہے ۔

اولی الامر کی شان کیا ہے ؟

اولی الامر یعنی وہ افراد جو لو گو ں کے امو ر کو چلا تے ہیں اور لو گو ں پرحکومت کا حق رکھتے ہیں ظا ہر ہے کہ رسول اور اولی الا مر سے یکساں طورپر متعلق ہو نے والا یہ امر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسا لت کے اس پہلو سے تعلق رکھتا ہے جو ولا یتِ امر ، تدبیر اور معا شرہ کے امور سے مر بوط ہے لہٰذارسو ل اور او لی الا مردو نو ں خدا کی طرف سے واجب الاطا عت ہو نے کے امر میں مشترک ہیںتو کیا،اس اطاعت کا واجب ہو نا کسی قید وشرط کے ساتھ ہے یا نہیں ؟ آیت مطلق ہے جس طرح (اَطِیْعُوْ ا ﷲ)َحکم ہے اسی طرح ''( اَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْ لِیْ ا لْامْرِمِنْکُمْ ) '' حکم ہے ؟! دو اعتبا ر سے آ یۂ شریفہ اس بات پر دلالت کر تی ہے کہ آیۂ شریفہ میں جن اولی الا مرکا ذکر ہے ان کی مطلق طو رپراطاعت

____________________

۱۔سو رئہ احزاب آیت ۶۔

۲۔سورئہ نساء آیت ۵۹۔

۱۹۳

وا جب ہے :ایک تو اس لحاظ سے کہ ''اَطِیْعُوْ ا '' مطلق طو ر پرکہا ہے اور دوسرے اس لحا ظ سے کہ اولی الا مر کی اطاعت کا حکم ،رسو ل کی اطا عت سے جڑی ہوئی ہے اور دونو ں کی اطا عت خدا وند متعا ل کی اطاعت سے وابستہ ہے۔ تو معلو م ہو ا کہ ان او لی الامر کے اوامر و نوا ہی کی مطلق طو ر پر اطا عت ہو نا چا ہئے ۔ اگر یہ افراد معصیت سے محفوظ نہ ہو تے اور ان افراد کے با رے میں معصیت کا احتمال پایا جا تا تو ممکن تھا کہ ان کے اوا مر و نوا ہی بھی معصیت سے مربو ط ہو ں اور خدا وند عا لم کے امر و نہی کی مخالفت کا با عث بنیں تو اس صورت میں یہ صحیح نہیں تھا کہ خدا کی اطا عت بھی واجب ہو اور ان کی اطاعت بھی وا جب ہو۔'' اَطِیْعُوْا ﷲ '' کا تقاضاء یہ ہے کہ جس چیز کا خدا نے حکم دیا ہے اس کی اطا عت کرو اگر چہ دوسرے اس کے خلاف کیوں نہ حکم دیں اور ''اطیعوا الرسول واولی الامر''کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی مطلق طو ر پر اطا عت واجب ہو اب اگر خدا وند عالم کے حکم کے خلاف ہوتوبھی اس کے مطلق ہو نے کا مقتضی یہ ہے کہ ان کی اطاعت وا جب ہے توایسی صورت میں لا زم آئیگا کہ ہمارے لئے ایک ہی وقت میںدومتناقض امرواجب ہوںمثال کے طو رپراگر(العیاذ با للہ) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی گنا ہ کا حکم صا در فر ما تے تو ''اطیعو اﷲ''کا تقاضاتھاکہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کریں اور ''اطیعو االرسول ''کا تقاضا ہوتاکہ نبی کی بات مانیں یعنی ایک ہی مسئلہ میں دو متضاد فرائض ہوجاتے !پتہ چلا کہ آیت میں اس چیز کی ضمانت ہے کہ رسول اور اولی الامر کے اوامر کبھی بھی خداوندعالم کے اوامر کے خلاف نہیں ہوسکتے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوںمعصوم ہیں اور یہ خود اس چیز کی ضمانت ہے کہ یہ بزرگان کبھی بھی حکم الٰہی کے خلاف امرو نہی نہیں کرسکتے ممکن ہے کوئی یہ فکر کر بیٹھے کہ اس اطلاق کو بھی مقید کیا جاسکتا ہے ۔یعنی ''اَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ وَ اُوْلیَ الامْرِمِنْکُمْ'' اس معنی میں مقید یا تخصیص کے قابل ہے کہ ''اطیعواالرسول الافیما خالف ﷲ''اور یہ اسی طرح ہے کہ جیسے قرآن میں بہت سے مطلق اور عام احکام ہیں جن کی دوسری عقلی یانقلی دلیلوں کے ذریعہ تخصیص یا تقیید کی گئی ہے،ہمارے پاس دلیل نقلی ہے ''لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق ''جو تخصیص کا کام کرتی ہے دلیل عقلی بھی ،وہ محکم قرینہ ہے کہ کسی بھی صورت میں خداوند عالم کی مخالفت جائز نہیں ہے معلوم ہواکہ یہ عقلی اور نقلی دلیل آیت کے اطلاق کو مقیدکرتی ہے ان کے معصوم ہونے پر دلالت نہیں کرتی ۔

لیکن یہ بات ذہن کی پیداوار ہے یعنی کبھی کبھی ہم اپنے ذہن میں اس طرح کاقاعدہ فرض کرلیتے ہیں کہ ہاں عام قابل تخصیص ہے اور مطلق قابل تقییدہے لیکن جب ہم الگ سے بعض عام اور خاص پر نگاہ ڈالتے ہیںتو دیکھتے ہیں کہ وہ تخصیص اور تقید کو قبول نہیں کرتے اور اگر ان پر تخصیص یا تقیید کا حکم جاری کیاجائے تووہ عرف عام میں قبیح اور مستہجن ہے ۔علم فقہ میںایسے بہت سے موارد ہیں جہاں ہمارے فقہا ء یہ فرماتے ہیں کہ''مامن عام الاوقد خص''لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ بعض عام کے لئے تخصیص کی گنجائش نہیں ہے یعنی عرف عام میں کلام کا مفہوم ایسی عمومیت رکھتا ہے کہ اگر اس پر تخصیص لگا ئی جا ئے تو اس کو متناقض خیال کرتے ہیں مخصّص نہیںمانتے اور یہاں اسی طرح کی صورت ہے مثال کے طور پر آیہ شریفہ میں خدافرماتاہے :

۱۹۴

( وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ رَسُولٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاذْنِ اللَّهِ )

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی پیغمبر فرمائیں اسکی اطاعت کرنی چاہئے بعد میں اگرکہاجا ئے کہ (لا تطع الر سول فیھاخالف امراللَّہ)''یعنی ﷲ کے حکم کے خلاف جو حکم دے اس میں رسول کی اطاعت نہ کرو '' تو عرف عام میں ان دو نوں بیانوں میں تناقص ہے یعنی آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی امر میں رسول کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے ۔ اسکے علاوہ قرآن کریم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اہم موارد میں جہاںشک و شبہ کا اندیشہ ہو اگر ان میں تخصیص و تقیید کی ضرورت ہو تو صاف طور پر بیان کردیتا ہے ۔ اس طرح کے بہت سے مقامات جہاں اس سے کم اہمیت کے مسائل ہیں جب قرآن کریم دیکھتا ہے کہ ممکن ہے حکم عام سے غلط مطلب نکال لیا جائے تو وضاحت کے لئے تقیید کردیتا ہے ۔ مثال کے طور پر والدین سے نیکی کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( وَقَضَیٰ رَبُّکَ اَلَّاتَعْبُدُوااِلَّااِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً ) ( ۱ )

''اور تمہارے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔۔۔''۔

یہاں چونکہ یہ شبہہ ہو تا ہے کہ اگر والدین کہیں کہ فلا ں کام انجام نہ دو یا فلا ں گنا ہ کر و تو اس صو رت میں ہمارا کیا فریضہ ہے ؟تو خدا وند عالم فر ماتا ہے :

( وَاِنْ جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَالَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْم فَلاَ تُطِعْهُمَا ) ( ۲ )

''اوراگروہ کسی کو میرا شریک بنانے پرمجبور کریں جسکا تمھیں علم نہیں ہے تو خبردار ان کی اطاعت نہ کرنا۔۔۔'' اب ایک ایسے مسئلہ میں جہاںیہ احتمال ہو کہ اولی الا مر ہو نے کے اعتبار سے کہیں کوئی غلط فا ئدہ نہ اٹھا ئے اور

____________________

۱۔ سورئہ اسراء آیت۲۳۔

۲۔سورئہ عنکبو ت آیت ۸۔

۱۹۵

اپنے ذاتی نظریات لو گو ں پر نہ لاد دے(کیو نکہ یہ عام سی چیز ہے کہ جب بھی کسی نا اہل کے ہاتھ میں حکو مت آجاتی ہے وہ اپنے نظر یا ت لو گو ں پر لاد دیتا ہے اور اپنے مفادات حا صل کر نے کے چکر میں لگا رہتا ہے ) اس طرح کے حالات میں قر آ ن کریم مطلق طو ر پر فر ماتا ہے : (اَطِیْعُوْاالر سول و اُوْلِی الْاَ مْرِ مِنْکُمْ )اور اس میں کوئی قیدو شرط بیان نہیں فرمائی یہ طریقہ قرآن کریم کے اندازبیان سے بالکل بعیدہے مطلب اتنا واضح و روشن ہے کہ ''فخر رازی''(جن کو بعض نے''امام المشککین'' کے لقب سے یاد کیا ہے )اعتراف کرتے ہیں کہ یہ آیت اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے البتہ اولی الامر کی مطابقت اور مصادیق معین کرنے میں غلطی کر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں : ''اولی الامر سے مراد کسی بھی اسلامی معاشرہ کے اہل حل و عقد ہیں اوریہ بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اجماع حجت ہے اور جہاں بھی اہل حل وعقد کسی بات پر اجماع کر لیں تو ان کی نظرغلطی و خطا سے محفوظ ہے( ۱ ) بہر حال قرآن کریم نے اس امت کے جن افراد کو اولی الامر کہا ہے ان کی عصمت پراس آیہ کریمہ کو دلیل کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے مصادیق معین کرنے کے سلسلے میںتمام احکام کی تفصیل کی طرح پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھناچاہئے ۔

ائمہ اطہار علیہم السلام کے زمانہ میں کبھی کبھی مخالفین اس طرح کے شبہے ایجاد کیا کرتے تھے کہ اگر تم یہ عقیدہ رکھتے ہوکہ بارہ امام خداکی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں اوران کی اطاعت واجب ہے اور ان کا مقام تمام لوگوں سے بلند و بالا ہے تو ان میں سے کسی کا نام قرآن کریم میں کیوں نہیں آیا؟ ہمارے آج کے دور میں بھی اس طرح کے عا میانہ شبہے پیدا کئے جاتے ہیں متعدد روایتیں اس چیز کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس طرح کے شبہات رائج تھے۔ حضرات نے اس کے جواب کا طریقہ بتایا ہے: قرآن کریم میں نماز قائم کرنے کا حکم ہے لیکن کیا نماز کی رکعتوں کی تعداد بھی معین کی گئی ہے ؟ تو اس بارے میں عوام کا فریضہ کیا ہے ؟رکعتوں کی تعداد کس سے پو چھیں گے ؟کیا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کرنے کے علاوہ ان کا کوئی اور فریضہ تھا ؟!اس بار ے میں قرآن کریم فرماتا ہے:

( وَاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ) ( ۲ )

''اور آپ کی طرف بھی ذکر کو(قرآن )نازل کیا ہے تاکہ وہ احکام واضح کردیں جو لوگوں کے لئے نازل کئے گئے ہیں اور شاید وہ غور وفکر کریں ''۔

____________________

۱۔مزید تفصیل کے لئے ملا حظہ فر مائیں ''تفسیر المیزان ''علامہ طبا طبائی نیز الامامت والولایت فی القرآن الکریم' '۔

۲۔ سورئہ نحل آیت۴۴۔

۱۹۶

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کام احکام کی تفصیل بیان کرنا ہے اسی طرح زکوٰةدینے کا حکم نازل ہواکیا قرآن کریم میں ہے کہ ہرچالیس درہم میں سے ایک درہم زکوٰة ادا کرنی چاہئے ؟یہ حکم روایت میں آیاہے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیان فرمایا ہے ،حج کا حکم نازل ہواتو کیا قرآن کریم میں طواف کے بارے میں بیان ہواہے کہ طواف میں سات چکّر لگانا چاہئے ؟ لوگوں نے کہاں سے سیکھا؟کیا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان کے علاوہ کہیں اورسے ملا ہے ؟

اس آیت کے با رے میں بھی سب سے اولیٰ اور سب سے زیادہ جاننے والے مفسراور حامل قرآن ،یعنی حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اولی الامر کا تعین کر دیا ہے جب آپ سے سوال کیا گیا توحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارہ اماموں کا تعین فرمادیااور میں عرض کر چکا ہوںکہ اہل سنت کی روایات میں بھی آیاہے؛ انھوں نے ''جابربن عبدﷲانصاری ''سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارہ اماموں کو معین و مشخصّ فرمایا ہے ۔

اس بناء پر اولی الامر کومعین ومشخّص کرنے کے سلسلے میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ہم کو ان کی بات ماننا چا ہئے اور اس کے مطابق روایتیں بھی موجودہیں اور اس بارے میں ہمارے لئے ذرہ

بھی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔

اہل بیت علیہم السلام کی عصمت کے ثبوت میںیہ آیت پیش کی جاتی ہے :

( اِنَّمَایُرِیْدُاللَّهُ لِیُذْ هِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا ) ( ۱ )

''(اے اہل بیت )خدا تو بس یہ چا ہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح کی )برا ئی سے دور رکھے اور جو پا ک و پا کیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پا کیزہ رکھے ''۔

اس آیہ شریفہ سے یہ استدلال کیاجاتاہے کہ خداوندعالم نے اس آیت میں ''اہل بیت '' کے نام سے ایک گروہ کو خطاب فرمایاہے اورحصر کے طورپر کہاہے کہ خدانے تو بس تم کو پاک رکھنے کا ارادہ کرلیاہے ۔یقیناًیہ ارادہ اور فیصلہ اس گروہ سے مخصوص ہے اور خداوندعالم نے جوعام انسانوں کے پاک کرنے کااعلان کیا ہے اس سے مختلف ہے وہ تشریعی ارادہ ہے جس کا واقع ہونا لازم نہیں ہے خداوند عالم غسل اوروضو کے حکم کے ساتھ فرماتا ہے :(یُرِیْدُ ﷲ لِیُطَھِّرَکُمْ)خداوند عالم تم کو وضو اور غسل کے ذریعہ سے پاک کرناچاہتاہے یہ تشریعی ارادہ ہے اور متحقق ہونے کی ضمانت نہیں رکھتا ۔

اب اگر جو طہارت اس آیت میں بیان کی گئی وہی طہارت ہو جو ارادۂ تشریعی کے تحت ہے تووہ ایک خاص

____________________

۱۔سورئہ احزاب آیت ۳۳۔

۱۹۷

گروہ سے مخصوص نہیں ہے ،خداوندعالم کا تشریعی ارادہ تمام انسانوں کی طہارت سے تعلق رکھتا ہے لیکن یہ ارادہ جو ایک خاص گروہ سے مخصوص ہے تکوینی ارادہ ہے جو متحقق ہونے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ معلوم ہواکہ خداوندعالم نے اس امت میں وہ لوگ کہ جن کو ''اہل بیت علیہم السلام''ہونے کا شرف حاصل ہے ان کی نسبت تکوینی ارادہ فرمایا ہے کہ یہ افراد طاہرر ہیں اور مطلق طور پر ان میں یقیناًطہارت متحقّق ہوگی اور ''یطھرکم تطھیرا ''کی تکراراُن کی تطہیر میں مبالغہ پر دلالت کرتی ہے ۔

اہل بیت علیہم السلام کون ہیں ؟

بعض برادران اہل سنّت اور شیعہ کے نام سے منسوب ایک گروہ جس نے اُن ہی کی پیروی کی ہے آیة تطہیر سے قبل کے جملوں کو قرینہ قرار دیکر یہ خیال کیا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام سے مراد پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج ہیں چونکہ اس آیت سے پہلے کی آیات میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج سے خطاب ہے ، اسی کو قرینہ مان کر انھوں نے کہاہے کہ اس ارادہ سے تشریعی ارادہ مرادہے کیونکہ کوئی بھی ازواج نبی کی عصمت کا مدعی نہیں ہے یہاں تک کہ اہل سنت بھی مانتے ہیں کہ وہ معصوم نہیں تھیں ۔ قرآ ن نے بھی صاف طور پر بیان کیا ہے کہ وہ معصوم نہیں تھیں انھوں نے حتی پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تکلیفیں بھی دی ہیں اور قرآن نے ان کی سرزنش کی ہے معلوم ہوا کہ یہ آیت ان کی عصمت پر دلالت نہیں کرتی ۔

اس غلط فہمی کا جواب یہ ہے کہ خودآیت کاسیاق اس بات کا شاہد ہے کہ اس میں ''ازواج نبی '' سے خطاب نہیں ہے اس لئے کہ آیت سے پہلے کے جملوںمیں تمام ضمیریں مؤنث کی ضمیریں ہیں جبکہ اس آیت میں خدا فرماتاہے (لِیُذْھِبَ عَنْکُمْ) اور بظاہر اس کی کوئی وجہ نظر نہیںآتی کہ اگر اُن ہی سے خطاب تھا تو ضمیر اور آیت کاسیاق و لہجہ کیوںبدل دیا گیا ۔اس کے علاوہ شیعہ اور اہلسنّت کی ستّر سے زیادہ صحیح اور غیر صحیح طریقہ سے نقل ہونے والی روایتیں ہیں (جن میں بیشتر (روایتیں بہ ظاہراہلسنّت سے نقل ہوئی ہیں )اور ان سبھی میں کہا گیاہے کہ یہ آیت ''خمسہ طیّبہ ''یا ''پنجتن پاک'' سے مخصوص ہے اور یہ جملۂ شریفہ تمام جملوں سے جدا اور مستقل طور پر خمسۂ طیبّہ کی شان میں نازل ہواہے ۔

اگر ہم اس بارے میں فریقین کے طریقہ سے نقل ہونے والی ستّر روایتوں پر اعتماد نہ کریں تو پھر کس چیز پر اعتماد کریںگے ؟!اس بناء پر کسی بھی با انصاف محقق کیلئے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ یہ آیت، خمسۂ طیبّہ کی شأن میں نازل ہوئی ہے اور ان کی مخصوص طہارت پر دلالت کرتی ہے جس کوہم ''عصمت''کہتے ہیں اور جودلیل کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے یعنی گناہان صغیرہ اور کبیرہ سے پاک ہونا اور یہ ارادۂ تکوینی الٰہی کا مقتضی ہے ۔

۱۹۸

خداوند عالم کے ارادۂ تکوینی کا مطلب یہ ہے کہ عصمت و طہارت یقیناً متحقق ہوگی اور ہوئی ہے البتہ اسکامطلب جبر نہیں ہے اور ہم نے الٰہی ارادہ کی بحث میں یہ واضح کردیا ہے کہ خداوندعالم کا تکوینی ارادہ ،چاہے وہ عالم میں پوراہوچکاہویا پوراہونے والا ہو،فاعل مختار کے اختیار سے ہوچاہے نظام جبرکے تحت قدرتی کا رندوں کے ذریعہ پورا ہوبہ ہر صورت پورا ہوتاہے لیکن الٰہی ارادہ فاعل مختار کے ارادہ کے طول میںہے نہ کہ عرض میں ۔ یہاں پر جب خدا فرماتاہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی طہارت یقینی اور خداوند عالم کے ارادۂ تکوینی کے تحت ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مجبورہیںبلکہ ان کے لئے ضمانت لی گئی ہے کہ وہ خود اپنے اختیار سے گناہ نہیں کرتے اور وہ طاہر خلق ہوئے ہیں ۔

لیکن نبی کی ازواج کا واقعہ بھی دلچسپ ہے جن روایتوں کو اہلسنّت نے نقل کیاہے ان میں قابل توجہ مطالب موجود ہیں مثال کے طورپر ''تفسیر ثعلبی ''میں عائشہ سے نقل ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تومیں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا : أ انا مِنْ اَھلَ بَیْتِکَ ؟کیا میں آپ کے اہل بیت علیہم السلام میں سے ہوں ؟ آنحضرت نے فرمایا:(تنحی انت علی خیر)نہیں ، الگ ہی رہو، ام سلمہ سے نقل ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تومیں نے عرض کی کیا میں آپ کے اہل بیت علیہم السلا م میں سے ہوں تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : (انت علی خیر ) تم خیرپرہو،لیکن یہ نہیں فرمایا کہ تم میرے اہل بیت علیہم السلام میں ہو ۔

ان روایتوں کو خود ازواج نے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ازواج نبی شامل نہیں ہیں لیکن دیگ سے زیادہ گرم چمچے پیدا ہوگئے اور کہتے ہیں کہ یہ آیت ازواج نبی کی شان میں نازل ہوئی ہے اور عصمت پر دلالت نہیں کرتی، خداوند عالم جو قابل ہدایت ہیں ان کی ہدایت فرمائے(انشاء ﷲ)اور جو ہدایت کے قابل نہیںہیں مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔

۱۹۹

ادیان کا اشتراک اور امتیاز

قرآن کریم سے پتہ چلتاہے کہ نبوت کا سلسلہ اول سے لیکر آخر تک ایک ہی سلسلہ ہے اس لحاظ سے بھی کہ تمام انبیاء علیہم السلام کو خدائے وحدہ لاشریک نے ہی مبعوث کیاہے اور اس اعتبار سے بھی کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی بنیاد بھی ایک ہی ہے ،نبوت کے پیغامات جن کو دین کہاجاتا ہے اسی اصول پر مبنی ہیں کہ خدائے وحدہ لاشریک کی ہی عبادت کرنی اور اسکی اطاعت کرنی چاہئے دوسرے لفظوں میں انسان کوخدائے واحد کے حضور مطلق طورپر بغیر کسی قیدو شرط کے اپنے کو تسلیم کردینا چاہئے۔

اسلام ،دعوت انبیاء علیہم السلام کی روح

ہم مندرجہ بالا مطلب کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام آسمانی ادیان کی اسا س و بنیاد ایک چیز سے زیادہ نہیں ہے اور وہ یہ کہ اپنے کو خداوندعالم کے سامنے تسلیم کردیں، دوسرے لفظو ں میں تمام آسمانی ادیان ایک ہی دین ہیں وروہ ''اسلام'' ہے ۔

البتّہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وحی کے مطالب میں جوتمام انبیاء علیہم السلام پر کسی بھی زمان و مکان میں نازل ہو ئے ہیں کسی طرح کاکوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ،بلکہ بعض احکام کے جزئیات کامختلف زمانوں اور جگہوں یا مختلف اقوام کے اعتبار سے الگ ہوناممکن ہے لیکن سب کی اساس و بنیاد ایک ہی ہے اوروہ خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت ہے۔

۲۰۰