راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135583
ڈاؤنلوڈ: 3485

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135583 / ڈاؤنلوڈ: 3485
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں پہلی نظر میں ان آیات سے یہی گمان پیدا ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت رسالت ایک خا ص جما عت سے مخصوص تھی لیکن ان آیات کے اسلوب و روش پر غور کر نے سے یہ بات وا ضح ہو جا تی ہے کہ ان میں سے کو ئی بھی آیت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کو کسی جما عت میں منحصر و مخصوص ہو نے پر دلالت نہیں کر تی ۔ ان میں کچھ آیتیں اس بات کو بیان کر تی ہیں کہ پیغمبرعر بوں کے درمیان کیوں مبعوث ہوئے ؟اور بیان کر تی ہیں کہ اس کی ایک وجہ عر بو ں کا ایک عرصہ سے انبیا ئے الٰہی سے محر وم ہو نا تھا اور یہ مسئلہ خود اپنی جگہ اس بات کا سبب بنا کہ وہ عام طور پر جہالت و بے خبری کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ ظا ہر ہے کہ پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عربوں کے در میان مبعوث ہو نا کسی بھی طرح آپ کی رسا لت کا ان (عر بوں )سے مخصوص ہو نا نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ آیات بھی کچھ دوسری آیات سے ملتی جلتی ہیں جو بیان کر تی ہیں کہ عر بوں کے درمیان کیو ں خو د ان ہی کی قو م سے پیغمبر مبعوث ہوئے ارشاد ہو تا ہے :

( وَلَوْنَزَّلْنٰهُ عَلَیٰ بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ فَقَرَاَهُ عَلَیْهِمْ مَاکَانُوْابِهِ مُوْمِنِیْن ) ( ۱ )

''اور اگر ہم اس قر آ ن کو کسی غیر عرب زبان قوم میں نا زل کر تے اور (پیغمبر ) ا ن کے سا منے پڑھتا تو وہ اس پر ایمان نہ لا تے'' ۔

ہما ری بحث سے مر بوط بعض دو سری آ یتیں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کے مختلف مر حلوں کو بیان کر تی ہیں۔ ہم جا نتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت اگر چہ سبھی کے لئے تھی پھر بھی تبلیغ کی راہ ہموا ر کر نے اور عملی رکاوٹوں کو بر طرف کر نے کی غرض سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کا آغا زایک خاص دا ئرہ میں ہوا اور پھر بعد کے مرحلوں میں دا ئرہ وسیع ہو تا چلا گیا یہا ں تک کہ اپنے دور کی سب سے بڑی تہذیب و تمدن کو اس نے اپنا مخا طب قرار دیا۔ یہی وجہ ہے بعثت کے آغاز میں (وَاَ نْذِرْعَشِیْرَ تَکَ الْاَ قْرَبِیْنَ )''اپنے قر یبی خا ندان وا لوں کو ڈرائیے''والی آیتیں صرف پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبلیغ کے ابتدا ئی مرا حل کے دا ئرے کو بیان کر تی ہیں( ۱ ) بہر حال اگر چہ پہلی نظر میں ممکن ہے کہ ان آیات سے رسا لت اسلام کے محدود ہو نے کا گمان ہو لیکن ان آیات انذار پر غور و

____________________

۱۔سورئہ شعرا ء آیت ۹۸ا۔۱۹۹ ۔

۲۶۱

۱۔ظا ہری طور پر سورئہ شو ریٰ کی( آیت۷)کو سو رئہ انعام کی (آیت ۹۲)پر حمل کر تے ہو ئے رسالت کے عالمی ہو نے کے دو سرے مرحلہ کو جا نا جا سکتا ہے ۔

فکر کرنے سے (خاص طو ر سے ان آیات پر تو جہ کے بعد کہ جن میں رسالت کے عام ہو نے کا ذکر ہے) یہ گمان بھی ختم ہو جا تا ہے کسی غرض یا تعصب سے عا ری وہ شخص جو عمو میت پر دلا لت کر نے وا لی آیات کو ان آیا ت کے پہلو میں قرار دے کر دیکھتا ہے تو تصدیق کر تا ہے کہ پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت اسلام عر بوں سے مخصوص نہیں تھی ۔ اس کے علاوہ تا ریخ کے مسلم الثبوت شوا ہد بھی (مثلاً پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جا نب سے تمام مما لک کے سر برا ہو ں کے پاس دعوت اسلام کے لئے اپنے سفیروںکابھیجاجانا)اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔

تبلیغ اسلام کے تئیں جنوںکا کر دار

یہا ں تک یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ تمام لوگ (ناس) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبلیغ کے مخا طب تھے اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا یہ دعوت اسلام جنا ت کو بھی شامل ہے ؟

بہ ظا ہر قر آ ن کر یم میں یہ بات صاف طور پر بیان نہیں ہو ئی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیںکہ لفظ ''ناس '' (یعنی لوگ )(جو بعض آیات میں آیا ہے جیسے ''ھُدیً لِلنّاسِ''،''کَا فَّة للنَّا س''ِ اور''بَلَا غ للنَّاسِ''بہ ظا ہر انسانو ں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے اور جنو ں کو شا مل نہیں ہے البتہ سو رئہ ''ناس '' کی آخری آ یتوں میں یہ احتمال پایاجاتا ہے کہ ممکن ہے ''ناس ''میں جنو ں کو بھی شا مل رکھا گیا ہو:

( مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِاَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِالنَّاسِمِنَ الْجِنَّةِ وَالنََا سِ ) ( ۱ )

''اند ر سے وسوسہ کر نے وا لے کے شر سے پنا ہ ما نگتا ہو ں جو لو گو ں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر تا ہے ۔وہ (وسو سہ پیدا کر نے والا )جنات میں سے ہو یا انسا نو ں میں سے ''

عبا رت ''مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّا سِ ''میں حرف ''مِنْ ''منِ بیانیہ ہے ۔ اس عبارت میںدو احتمال پا ئے جا تے ہیں : ایک تو یہ کہ اس میں ''خنّا س ''کی وضا حت کی گئی ہے ۔ دو سرے یہ کہ اس ''ناس '' کے ذریعہ ''فی صدورالنّا س'' کی وضا حت کی گئی ہو ،چنا نچہ دوسری صورت میں آیات کے معنی یہ ہو ں گے ''لو گو ں کے دلو ں میں'' یعنی ''جنا ت اور انسانو ں کے دلوں میں '' البتہ حق یہ ہے کہ دو سرا احتمال بہت ضغیف ہے اور لفظ ''ناس ''کا ظاہری طو ر پر انسان سے مخصوص ہو نا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن دو سرے احتمال کو صرف احتمال کی حد تک ر د بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

____________________

۱۔سورئہ ناس آیت ۴۔۶۔

۲۶۲

بہر حال جن آیات میں لفظ '' ناس ''استعمال ہو ا ہے وہ صاف طور پر دلالت کر تی ہیں کہ جنا ت اسلام کی دعوت میں شا مل نہیں تھے لیکن جن آیات میں لفظ ''عا لمین ''استعمال ہو ا ہے ان سے یہ مطلب نکا لا جا سکتا ہے ۔اس لئے کہ ''عا لمین ''ہو ش و خرد رکھنے وا لے تما م عا قلو ں کو شا مل ہے اور اس اعتبار سے اس میں جنا ت کی جما عت بھی شامل ہے ۔

ان آیات کے علا وہ بعض روا یات میں بھی آیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) ''ثقلین '' کی جا نب مبعوث کئے گئے ہیں( ۱ ) سورئہ احقاف کی آیات بھی اسی مفہو م کی تا ئید کرتی ہیں ارشاد ہو تا ہے :

( وَاِذْصَرَفْنَااِلَیْکَ نَفَراًمِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ ) ( ۲ )

''اور جب (قوم ) جن سے کچھ افراد آپ کے پاس بھیجے کہ قر آن کو سنیں ۔۔۔''۔

اس آیت کو اپنا مد عا ثابت کر نے اور اس پر دلیل لا نے کے لئے میں نے اس لئے نہیں پیش کیا کہ معلوم ہے آیت میں اس بات کی کو ئی تصر یح نہیں کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنو ں کو اپنا پیغام سنا نے کے لئے دعو ت دی ہو بلکہ ممکن ہے خدا وند عالم نے خود کو ئی سبیل نکا لی ہو کہ جنو ں کا ایک گروہ خود آئے اور پیغمبر کی با تیں غور سے سنے ۔

دوسری بات یہ کہ حتی اگر ہم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ جن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعو ت کے مخا طب نہیں تھے اور آپ کی تبلیغ انسا نو ں سے مخصو ص تھی تو بھی گز شتہ مطالب کی بنیاد پر جنو ں کا فر یضہ تھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت سے آ گا ہی کے بعد اس کو قبو ل کر ے اور اس پر ایمان لا ئے ۔

ظہو ر اسلام کے بعد بقیہ تمام ادیان کا غیر معتبر ہو نا

قر آن کر یم کی بعض آیات سے گما ن ہو تا ہے کہ ان آیات کے مطابق پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہونے کے بعدبھی دو سرے ادیا ن کی قا نونی حیثیت باقی ہے ۔

گذ شتہ بحثو ں سے یہ وا ضح ہے کہ اس طرح کا نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے اور ظہو ر اسلام کے بعد اسلام سے باخبر ہو نے وا لے ہر با لغ و عا قل پر اسلام قبو ل کر نا اور مسلما نوں کی صف میں شا مل ہو نا وا جب ہے ۔

اسی طرح قر آن میں ایسی آیات مو جو د ہیں جن میں اہل کتا ب کے بعض گرو ہ کی تعر یف کی گئی ہے ۔

____________________

۱۔ ملا حظہ فر ما ئیے: بحا ر الا نوار جلد ۶۳ صفحہ ۲۹۷ ،حد یث نمبر ۴ ۔ اور جلد ۱۰۲ صفحہ ۱۰۵ حدیث ۱۳۔

۲۔سورئہ احقاف آیت ۲۹۔

۲۶۳

نمو نہ کے طور پر ہم سورئہ آل ِعمران میں پڑھتے ہیں :

( لَیْسُواسَوَائً مِنْ اَهْلِ الْکِتَابِ اُمَّة قَائِمَةیَتْلُوْنَ ئَ ایٰتِ ﷲ آنٰائَ اللَّیْلِ وَهُمْ یَسْجُدُوْنَ ) ( ۱ )

''یہ لوگ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔(بلکہ) اہلِ کتاب میں کچھ لوگ درست کر دا ر بھی ہیں جو راتو ں کو اُٹھکر خدا کی آیتیں پڑ ھا کر تے اور سجدے کیا کر تے ہیں ''۔

اس آیت میں بعض اہل کتاب کی تعر یف سے ممکن ہے یہ گمان پیدا ہو کہ دین اسلام کے ساتھ ہی قر آن نے ان کی بھی تا ئید کی ہے اور ان کے دین کی قا نو نی حیثیت کو قبول کیا ہے لیکن یہ خیال غلط ہے اس لئے کہ اس آیت کا مطلب دو حال سے خا رج نہیں ہے :

پہلا احتمال تو یہ ہے کہ اس آیت میں ان اہل کتاب کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے کہ جنھو ں نے رسول اسلام کے دور حیات میں دین اسلام قبو ل کر نے سے انکار کیا تھا ۔ بلکہ اس کلیہ کو بیان کیا ہے کہ اہل کتاب کے در میان بھی (چا ہے ما ضی کی بات ہو یا حا ل کی )اچھے اور برے دو نوں طرح کے افراد رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ تمام یہو دی یا عیسا ئی خدا نا شناس انسان رہے ہو ں ۔ اسی بنا پر کہا جا تا ہے کہ تمام اہل کتاب کی تمام زما نوں میں، ایک ہی طرح سے مذ مت نہیں کر نا چا ہئے بلکہ ان میں ایک گروہ خدا کی عبا دت اور آیا ت الٰہی کی تلا وت کر نے والا بھی رہا ہے ۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ مند ر جہ بالا آیت ان لو گو ں کے با رے میں ہو کہ جن تک اس وقت دعو ت اسلام نہ پہنچی ہو یا جن پر ﷲ کی حجت تمام نہ ہو ئی ہو ۔ لہٰذا جب بھی حجت تمام ہو جا ئے تو اہل کتاب کے اچھے افراد بغیر کسی شک و شبہہ کے اسلام قبول کر لیں گے ۔سورئہ مبا رکۂ ما ئدہ میں نصا ریٰ کے ایک گروہ کی اس طرح صفت بیا ن کی گئی ہے :

( وَاِذَاسَمِعُوْامَااُنْزِ لَ اِلَیٰ الرَّسُوْ لِ تَریٰ اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ مِمَّاعَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ) ( ۲ )

''اور جب یہ لوگ اس (قرآن)کو سنتے ہیں جو ہما رے رسول پر نا زل کیا گیا ہے تو دیکھو کس طرح حقیقت سے آشنا ہو جا نے کے سبب انکی آنکھو ں سے بیسا ختہ آنسو جا ری ہو جا تے ہیں '' ۔

یہ گرو ہ ان ہی لو گو ں کا ہے جو حجت تمام ہو نے سے پہلے اہل عبا دت و دعا تھے :

( اُ مَّةً قَائِمَةً یَتْلُوْنَ آیَٰا تِ ﷲ )

____________________

۱۔سو رئہ آل عمران آیت۱۱۳۔

۲۔سورئہ ما ئدہ آیت ۸۳۔

۲۶۴

''جو را توں کو اٹھکر خدا کی آیتو ں کی تلاوت کر تے ہیں ''اور جب وہ قر آن سے آشنا ہو جا تے ہیں تو(تَریٰ اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ

'' ان کی آنکھو ں سے بیساختہ آ نسو جا ری ہو جا تے ہیں ''۔

اس بنا پر اہل کتاب کا وہ گر وہ جو حجت تمام ہو جا نے کے بعد بھی اپنے دین پر ڈٹا رہے قرآن کی نظر میں کسی بھی صورت قا بل ستا یش و تعریف نہیں کہا جا ئے گا ۔

انبیاء علیہم السلام کی امتیں

انبیاء علیہم السلام کے عا م طور پر مشتر ک اوصاف کی تحقیق و جستجو کے بعد اب ''انبیاء ''کی قوموں کے بارے میں گفتگو ضروری ہے لیکن بحث کے آ غاز سے پہلے خود اس بحث کے طریقہ و روش سے متعلق چند نکتے بیا ن کردینا مفید ہیں ۔میری نظر میں انبیاء علیہم السلام کی امتو ں کے با رے میں کسی قر آنی تحقیق و جستجو کے دوطریقے ہوسکتے ہیں :

ایک تو یہ کہ مختلف امتو ں سے متعلق آیات کو تفصیل کے ساتھ الگ الگ رکھ کر تحقیق کی جا ئے اور پھر آیات کی تقسیم بندی اور تحقیقی جا ئزے کے بعد ان سے حا صل ہو نے وا لے نتیجو ں کا جا ئزہ لیا جا ئے ۔ تحقیق کا یہ طریقہ طویل گفتگو کا طا لب ہے اور اس مقام پر اس کی گنجا ئش نہیں ہے ۔

دوسرا طریقہ جس کو ہم نے اپنا یا ہے یہ ہے کہ پہلے تو تمام امتو ں کے ما بین بعض مجمو عی اور مشترک موضوعات کو پیش نظر رکھا جا ئے اور پھر قر آ ن کریم کی آیات کی بنیاد پر ان کا جا ئزہ لیا جا ئے ۔

انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے با رے میں قر آ ن کریم سے ایک تو اس نکتہ کا پتہ چلتا ہے کہ ان تمام قو موں میں ہر ایک نے اپنے پیغمبر کے ساتھ کسی نہ کسی طرح مخا لف مو قف اپنایا اور ان کا مقا بلہ کر نے کے لئے اٹھ کھڑ ے ہو ئے ہیں بعض آیات اس بات کی شہا دت دیتی ہیں کہ تمام الٰہی انبیاء کو ان کی امتو ں نے جھٹلایا ہے ۔ اس تا ریخی حقیقت کو دیکھ کر جس کی قر آن کریم نے تا ئید فر ما ئی ہے چند سوا ل پیدا ہو تے ہیں ،کیا ایک قوم کے تمام افراد یکساں طور پر ایک دو سرے کے ہمراہ ہو کر اپنے پیغمبر سے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے یا شرو ع میں معا شرہ کے مخصوص افراد مخا لفت کا پرچم بلند کر تے اور اس کے بعد دو سرے گر وہ ان سے آکر مل جا یا کر تے تھے ۔

اس حقیقت کے پیش نظر کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت انسانی فطرت کے مطابق ہوا کر تی تھی اور دین اسلام (اپنے عام معنی کے لحا ظ سے )چو نکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ہے اور دین فطرت ہے

۲۶۵

لہٰذا دیکھنا چا ہئے کہ انبیا ء علیہم السلام کی طویل تا ریخ میں وہ کو نسے اسباب تھے جن کی وجہ سے تمام قو میں اپنے پیغمبر کی مخا لفت کے لئے کھڑی ہوجایا کر تی تھیں ؟ مخا لفین کا رویہ انبیاء علیہم السلام سے کس طرح کا تھا اور وہ انبیاء علیہم السلام سے مقا بلہ کے لئے کن طریقو ں سے فا ئدہ اٹھا تے تھے ؟ان گر و ہو ں کا انجام کیا ہوا؟اور وہ کس عا قبت کے منتظر ہیں ؟

مو جو دہ بحث کا علو م سما جیات ونفسیات سے رابطہ !

مذ کو رہ سوا لو ں کے جوابات تلاش کر نے سے پہلے منا سب معلوم ہو تا ہے اس بحث کے ساتھ مختصر طور پر علوم سما جیات اور اجتماعی نفسیات کے تعلق کے با رے میں کچھ گفتگو ہو جا ئے چنا نچہ اس سلسلہ میں چند سبق آموز نکات کہ جن کا قر آ ن کر یم سے استنباط کیا جا سکتا ہے ہم بیا ن کر تے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے کہ قر آن کریم کی روش یہ نہیں ہے کہ ہر بات تفصیل سے ،مختلف عنو ا نو ں کے تحت اور جدا جدا بیان کرے بلکہ کبھی کبھی قر آن کر یم بعض اہم مطالب صرف اشا رہ میں بیان کر جا تا ہے کہ اگر ان کے با رے میں غور کر یں تو انسان کے سا منے معر فت کے بہت سے ابواب کھل جا ئیں ۔ ایسے موقعوں پر ہم اگراپنے سوالات قر آن کے سا منے پیش کر یں تو قر آن کے مخصوص طریقہ کو سا منے رکھ کر اپنے سوا لات کے جوا بات حا صل کر سکتے ہیں ۔ اس صورت میں اشا روں میں بیان کی گئی قر آنی تعبیر یں ایسی بیش قیمت کنجی ثا بت ہو ں گی کہ جن سے علوم و معا رف کے بیش بہا خزا نو ں سے بھرے بڑے بڑے در وا زوں کے قفل کھو لے جا سکتے ہیں اور شاید مو جو دہ بحث کچھ اسی انداز کی ہے اگر اس مو ضوع سے متعلق قر آن کریم کی آیات پر غور کر یں تو سما جیات ،فلسفۂ تا ریخ ، اجتما عی اور انفرا دی نفسیات وغیرہ سے متعلق بہت سی ایسی با تیں معلوم ہو جا ئیں گی کہ جن سے ہر ایک کے با رے میں عرصۂ دراز تک تحقیق و جستجو کی ضرورت محسوس کی جا سکتی ہے ۔ آئندہ بحثو ں میں ایسے بعض مطالب جو قابل استنباط ہیں ہم اشا رہ کر یں گے ۔

اب ہم مختصر طور پر مو جو دہ بحث کے ساتھ دو اہم علوم یعنی سما جیات اور اجتما عی نفسیات کے تعلق پر گفتگو کر تے ہیں ۔ ہم کو معلوم ہے کہ سما جیات میں بنیا دی ترین بحث یہ ہے کہ اس میں مختلف موجو دات کے وجو د کے اسباب ، پیدائش کی کیفیت نشو و نما کے مرا حل اور تغییرات اور ان کے نتا ئج و اثرات پر گفتگو ہو تی ہے ۔ اس بنیاد پر مختلف معاشروں میں لو گو ں کا پیغمبروں کی مخا لفت کر نا یہ خود ایک عجیب اور قا بل توجہ اجتما عی مسئلہ ہے کہ جس کی علم سما جیا ت کے نقطۂ نظر سے علل و اسباب کی تحقیق، سما جی ڈھا نچے کی بنا وٹ ،اس میں رو نما ہو نے وا لے تغییرات اور آثار و نتا ئج کا جا ئزہ لیا جا سکتا ہے اور یہ بات مسلّم ہے کہ اس با رے میں قر آن کر یم سے سوا لو ں کے جوا بات حا صل کئے جاسکتے ہیں ، قر آن کر یم کا مخصوص تبصرہ معلوم کیا جا سکتا ہے ۔

۲۶۶

چنا نچہ اس طرح کی تحقیقات ایک طرف تو سما جیات کے مبا حث کو کہیں زیا دہ مالا مال کر دے گی اور دو سری طرف ان سے حا صل شدہ نتیجو ں کی بنیاد پر علم سما جیات کے بہت سے اسلامی یا قر آنی نظر یا ت کا ایک بڑا حصہ معلوم کیا جا سکتا ہے ۔

یہ بحث اجتما عی نفسیات کے ساتھ بھی اسی بنیاد پر تعلق پیدا کر لیتی ہے کہ اجتما عی مسائل جیسے لو گو ں کا انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نا ، اس حیثیت سے کہ انسان کے ہی ایجا د کر دہ مسائل ہیں اور مخصوص د ما غی اور نفسیاتی وجوہات کے تحت پیدا ہو تے ہیں اس بنا پر کو ئی بھی اجتما عی عمل جومعا شرے کے کسی ایک طبقہ میں یا پو رے معا شرے میں رو نما ہو تا ہے اس طبقے یا معا شرے کی نفسیاتی خصو صیات کا نتیجہ ہو تا ہے اور ان نفسیاتی اسباب و عوا مل کا مطا لعہ اجتما عی نفسیات کے فر ائض میں سے ہے ۔

اس بنا ء پر امتو ں کی انبیا ئے الٰہی کے ساتھ مخا لفت اِن قو موں کی کو نسی نفسیا تی خصو صیت سے متأثر ہے اس بات کی تحقیق اجتما عی نفسیات کی بحثو ں کے دا ئرے میں شما ر ہو گی ، علاوہ بر این انبیاء کے خلاف اجتما عی مقا بلہ آرا ئی کے سا تھ افراد اور معا شرے کے با ہمی ار تباط کا مطا لعہ بھی ایک اور اہم مسئلہ ہے جس کو قر آن کر یم میں علم سما جیات کے اصول و نظر یات یا اجتما عی نفسیات کے نقطۂ نظر سے تحقیق و جستجو کا محور قرار دیا جا سکتا ہے ۔

خو د امتو ں کے ذریعے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب

سو شل سا ئنس کے بعض علو م کے ساتھ بحث کے بعض پہلو ؤںکے رابطہ کی طرف اشارہ کے بعد ہم گفتگو کے اس حصہ میں پہلے اُن آیات کا ذکر کر رہے ہیں جن میں گذشتہ امتوں کی جانب سے اپنے انبیاء علیہم السلام کی اصل مخالفت کو بیان کیاگیا ہے ۔

قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیات ہیں کہ جو کسی نہ کسی انداز سے اس تاریخی حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ ان میں سے بعض آیات میں (نمونہ کے طور پر ) بعض قوموں کے نام لئے گئے ہیں اور پھر ان کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کے خلاف مشترکہ رد عمل کو بیان کیا گیا ہے :

قر آن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :( اَلَمْ یَا تِکُمْ نَبَؤُالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَعَادٍوَثَمُوْدَ وَالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَا یَعْلَمُهُمْ اِلَّاﷲ جَا ئَتْهُمْ رَسُلُهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرَدُّوْااَیْدِیَهُمْ فِیْ اَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوْااِنَّاکَفَرْنَا بِمَا اُرْسِلْتُمْ بِهِ وَ اِنَّالَفِیْ شَکٍ ِمَّا تَدْعُوْنَنااِلَیْهِ مُرِیْبٍ ) ( ۱ )

____________________

۱۔سورئہ ابراہیم آیت ۹۔

۲۶۷

''کیا تمہا رے پاس ان لو گو ں کی خبر نہیں پہنچی جو ہم سے پہلے تھے (جیسے)نوح کی قوم اور عاد و ثمو د اور جو ان کے بعد ہو ئے ہیں جن کو خدا کے سوا کو ئی جانتا ہی نہیں؟ ان کے پاس ان کے انبیاء علیہم السلام واضح دلیلیں لیکر آئے لیکن ان لو گوں نے (اعتراض کے عنوان سے منھ بند کرنے کے لئے ) ان کے ہاتھ ان کے منھ پر رکھ دیئے اور کہنے لگے : تم کوخدا کی طرف سے جو ذمہ داری دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کو نہیں ما نتے اور جس دین کی طرف تم ہم کو بلارہے ہو تو اس کے بارے میںہم بڑے گہرے شک میں ہیں '' ۔

آیت میں( وَالَّذین من بعد هم ) کی عبارت سے واضح ہے کہ یہ بات کچھ خاص قو موں سے مخصوص ہیں۔

بلکہ بہت سی قوموں میں جاری رہی ہے ۔ اسی طرح صیغۂ جمع (انبأئ)کے مقام پر صیغۂ مفرد(نبأ)کا استعمال اس چیز کی غمّازی کرتا ہے کہ ان تمام قوموں کی ایک مشترک داستان ہے : ان سب کے درمیان خدا کے پیغمبر مبعوث ہو ئے لیکن ان سب نے ان نبیوں کو جھٹلایا ۔ عبارت (فَرُدُّوُااَیدِ یَھُمْ فیِ اَفوَا ھِھِم) عربی زبان کی ایک ضرب المثل ہے جو ایسے مقام پر بولی جاتی ہے جہاں بات بالکل صاف صاف دو ٹوک کرنا ہوتا ہے چنانچہ اس عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اپنے نبیوں سے بالکل صاف و واضح طور پر کہدیا تھا کہ ہم آپ کی رسالت کو تسلیم نہیں کرتے اور ہمیں آپ کی دعوت کے صحیح ہونے میں شک ہے ۔

قرآن کریم کی بعض دوسری آیات میںپیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تسلی اور دلداری کی گئی ہے کہ آپ کی رسالت کی مخالفت اور تکذیب صرف ان عرب مشرکوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ گذشتہ اقوام نے بھی اپنے انبیا ء علیہم السلام کی تکذیب کی ہے سورئہ حج میں قرآن کریم رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرماتا ہے :

( وَاِنْ یُکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَعَاد وَثَمُوْدُ وَقَوْمُ اِبْرَٰهِیْمَ وَ قَوْمُ لُوْطٍ وَاَصْحَابُ مَدْیَنَ وَکُذِّ بَ مُوْسَیٰ فَاَمْلَیْتُ لِلْکَافِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْ تُهُمْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ ) ( ۱ )

اور اگر پیغمبر یہ لوگ آپ کو جھٹلا تے ہیںتو ان سے پہلے قوم نوح نے اور ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم نے اور اسی طرح مدین کے رہنے والوں نے (اپنے اپنے پیغمبروں کو)جھٹلایا ہے ۔اور موسیٰ (بھی)جھٹلا ئے جاچکے ہیں پس میں نے کافروں کو کچھ مہلت دیدی اور پھر (ان کا گر یبان )کس دیا دیکھئے تو میرا عذاب کیسا تھا ''۔

____________________

۱۔سورئہ حج آیت ۴۲۔۴۴۔

۲۶۸

ایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَاِنْ یُکَذِّ بُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُل مِنْ قَبْلِکَ ) ( ۱ )

''اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا ئیں تویقین ما نئے آپ سے پہلے (بھی)بہتیرے پیغمبر جھٹلائے جا چکے ہیں۔۔۔''

ارشاد ہو تا ہے :

( کَذَّ بَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَاَصْحَا بُ الرَّ سِّ وَثَمُوْ دُوَعَٰاد وَفِرْعَوْ نُ وَ اِخْوٰانُ لُوْط وَاَصْحَا بُ الْاَ یْکَةِ وَ قَوْمُ تُبَّعٍ کُلُّ کَذَّ بَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیْدٍ ) ( ۲ )

'' ان سے پہلے قوم نو ح کی قوم اصحا ب رس اور ثمو د نے بھی تکذیب کی تھی اور قوم عا دو فرعون اور برا درانِ لوط نے بھی اور اصحا بِ ایکہ اور قوم تبع نے( مختصر یہ کہ ) سبھی نے ہما رے پیغمبروں کو جھٹلا یا(نتیجہ میں) ہما را (عذاب کا) وعدہ پو را ہو کر رہا ''۔

سورئہ فاطر میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَاِ نْ یُکَذِّ بُوْکَ فَقَدْکَذَّبَ الَّذِ یْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ جَائَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنَٰاتِ وَبِالزُّبُرِوَبِالْکِتَٰابِ الْمُنِیْرِ ثُمَّ اَخَذْ تُ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْافَکَیْفَ کَا نَ نَکِیْرِ ) ( ۳ )

''اور اگر یہ لو گ آپ کو جھٹلا ئیں تو یقینا ان سے پہلے وا لو ں نے بھی (اپنے اپنے پیغمبروں کو ) جھٹلایاہے (حا لا نکہ )جب ان کے پاس ان کے پیغمبرواضح و روشن دلیلیں،صحیفے اور کھلی کتاب لیکر آئے تھے پس ہم نے ان لوگوں کو جو کا فر ہو بیٹھے تھے جکڑ لیا(دیکھئے تو) میرا عذاب( ان پر) کیسا (سخت) ہوا ؟'' ۔

قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے:

( فَاِنْ کَذَّ بُوْکَ فَقَدْ کُذِّ بَ رُسُل مِنْْ قَبْلِکَ جَائُ وْابِا لْبَیِّناتِ وَالزُّبُرِ وَالکِتَابِ الْمُنِیْرِ ) ( ۴ )

''اگر انھو ں نے آپ کو جھٹلایاتوآپ یقین رکھئے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسو ل روشن معجزے ، صحیفے

____________________

۱۔سورئہ فا طرآیت ۴۔

۲۔سورئہ ق آیت ۱۲۔۱۴۔

۳۔سورئہ فا طر آیت۲۵۔۲۶۔

۴۔سورئہ آلِ عمران آیت ۱۸۴۔

۲۶۹

اورنو را نی کتاب لیکر آ چکے ہیں(جن کو جھٹلا یا گیا ہے )''۔

سورئہ سبا میں ارشاد ہو تا ہے :( وَکَذّ بَ الَّذِ یْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَمَابَلَغُوْامِعْشاَرَمَٰااٰ تَیْنٰهُمْ فَکَذَّبُوْارُسُلِی فَکَیْفَ کا نَ نَکِیْرِ ) ( ۱ )

'' اورجو لوگ ان سے پہلے تھے انھو ں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلا یا تھا حا لانکہ ہم نے جتنا ان لو گو ں کو دیا تھا یہ کفار (ابھی )اس کے دسو یں حصہ کو (بھی)نہیں پہو نچے پس ان لو گو ں نے میرے پیغمبر کو جھٹلا یاتو( دیکھا کہ) ہما را عذاب(ان پر ) کیسا (سخت )ہوا ''۔

مندر جہ بالا آیات کے علا وہ دوسری آیات میں بھی مخصوص قو موں کے جھٹلا نے کا ذکر ہے اور خدا وند عا لم کے پیغمبروں کی مخا لفت کا پردہ چا ک کیا گیا ہے۔ہم یہاں ان آیا ت کے کچھ نمو نے پیش کر رہے ہیں :

سورئہ شعراء میں ارشاد ہو تا ہے :( کَذَّ بَتْ قَوْمُ نُوْ حِ الْمُرْ سَلِیْنَ ) ( ۲ )

'' نو ح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا''۔

اس کے بعد اسی سورہ میں فر ماتا ہے:

( کَذَّ بَتْ عَا د الْمُرْسَلِیْنَ ) ( ۳ )

'' ( قو م) عا د نے خدا کے پیغمبروں کو جھٹلایا ''۔

اور آگے بڑھکر کہتا ہے :

( کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَ ) ( ۴ )

'' ( قو مِ) ثمو د نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا '' ۔

اور اسی سورہ کی ایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے:

( کَذَّ بَتْ قَوْمُ لُوْطِ الْمُرْسَلِیْنَ ) ( ۵ )

''اور قوم لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا ''۔( ۶ )

____________________

۱۔سورئہ سبا آیت۴۵۔ ۲۔سورئہ شعراء آیت ۱۰۵۔۳۔سورئہ شعراء آیت۱۲۳۔ ۴۔سورئہ شعراء آیت ۱۴۱۔ ۵۔سورئہ شعراء آیت۱۶۰۔ ۶۔اسی طرح سورئہ قمر آیت ۹ ،۱۸، ۲۳ اور ۳۳ ملا حظہ فر ما ئیں ۔

۲۷۰

انبیاء علیہم السلام سے جنگ کر نے وا لے سردا روں کی پہچان

گذ شتہ گفتگو کے پیش نظر قر آن کر یم کی آیات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ گذ شتہ تمام قو مو ں نے نبیو ں کو جھٹلایا اور انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کرنا ان کا معمول تھا۔اب یہ سوال ہے کہ کیا اس مخالفت میں معاشرہ کے تمام افراد برابر سے شریک تھے یا ابتداء میں کسی مخصوص طبقہ کے افراد مخالفت کیلئے اٹھتے اور پھر ان کی دعوت پر دوسرے لوگ پیغمبر کی مخالفت میں ان کے ساتھ ہوجایا کرتے تھے ؟

اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن نے دوسرے مفروضے پر زور دیا ہے اور کچھ مخصوص گروہوں کا انبیاء علیہم السلام سے جنگ کی ابتدا کرنے اور انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے میں پیش پیش رہنے کے عنوان سے تعارف کرا یا ہے ۔چنانچہ قرآن کے مطابق پہلے ایک خاص طبقہ کے لوگ ہی انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کیا کر تے تھے اور ا س کے بعد مختلف طریقو ں سے یہ گروہ یا افراد عامل لو گوں کے افکار کو منحر ف کر نے کے وسا ئل فر ا ہم کیا کرتے تھے ۔ قر آن کر یم نے انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نے وا لے سر دا روں کے کچھ او صا ف بیان کئے ہیں جن میں سب سے اہم صفت'' اتراف '' ہے ۔''اتراف'' کا مطلب یہ ہے کہ انسان نعمتو ں کی فر ا وانی کی وجہ سے سر کشی اور طغیان پرتُل جا ئے اور مترف اس شخصکو کہتے ہیں جو ما دی نعمتوں اور لذّتوں میں غر ق ہو جا ئے قر آن کر یم کی متعدد آیات میں انبیاء کی مخا لفت کر نے والوں میں سب سے پہلے متر فوں کا تذ کر ہ ہوا ہے :

سورئہ سبامیں ارشاد ہو تا ہے :

( وَمَااَرْسَلْنَٰافِیْ قَرْیةٍ مِنْ نَذِیْرٍ اِلّاَقَا لَ مُتْرَفُوهَٰااِنَّٰابِمَٰا اُرْسِلْتُمْ بِهِ کَٰافِرُوْنَوَقَٰالُوْانَحْنُ اَکْثَرُ اَمْوَٰالاً وَاَوْلَادَاً وَمٰانَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ) ( ۱ )

''اورہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا(پیغمبر)نہیں بھیجامگر یہ کہ وہا ں کے عیش پسندبڑ ے لوگ یہ کہہ اٹھے کہ جو چیز دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں ما نتے اور( یہ بھی )کہتے ہما رے پاس تو مال اور اولاد دو سروں سے کہیں زیا دہ ہے اور ہم پر عذاب نہیں ہو گا ''۔

اس آیت سے چند نکتے حا صل ہو تے ہیں :

۱۔ہر قوم کے درمیان سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نے والا گروہ اس قوم کے آرام پسند بڑے لو گو ں کا ہو تا تھا ۔یہ گروہ با لکل صاف صاف انبیا ء علیہم السلام کی دعوت قبو ل نہ کر نے کا اعلان کر تا تھا ۔

____________________

۱۔سورئہ سبا ٔ یت ۳۴ ۔۳۵۔

۲۷۱

۲۔اِن بڑے لو گو ں کا یہ کہنا تھا کہ ہما رے خا ندان کاقوم و قبیلہ کے لحا ظ سے طا قتور ،دولتمند اور اجتما عی اقتدار کا حا مل ہو نا انبیاء علیہم السلام سے ہر طرح بلند و بر تر اور ہر طرح کے عذاب سے محفو ظ ہو نے کا معیار ہے ۔

اُن کے اس فلسفے سے ایک دوسرا نکتہ یہ نکلتا ہے کہ ان معا شروں میں کسی طبقہ کی دو سرے طبقوں سے بلندی و بر تری کا معیار دولت و ثر وت اور انسانی طا قت و قوت کا زیا دہ ہو نا تھا ۔

قرآن میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَکَذَ ٰلِکَ مَااَرْسَلْنٰامِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیةٍ مِنْ نَذِیْرٍاِلّاَقَٰالَ مُتْرَفُوهَااِنّٰاوَجَدْ نَا اَبٰائَ نَاعَلَیٰ اُمَّةٍ وَاِنّٰاعَلَیٰ آثٰارِهِمْ مُقْتَدُوْنَ ) ( ۱ )

''اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرا نے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہا ں کے آرام پسند لوگو ں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا ؤںکو ایک آئین اور طریقہ پر پایاہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ''۔

اس آیت میں بھی دو لتمند طبقہ کے با رے میںگفتگو ہے اور ان کے ایک دو سرے بہا نہ کا ذکر ہے کہ ہم اپنے دادا کے طریقہ کو ہی جا ری رکھیں گے اور ہم کو کسی نئے طریقہ کی کو ئی ضر ورت نہیں ہے ۔

بعض آیات میں ''ملأ ''کا لفظ بھی آیا ہے نمو نہ کے طور پر قرآن کریم میںنوح کی قوم کے متعلق خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :

( َٰالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ اِنّٰا لَنَرَٰکَ فِیْ ضَلاٰلٍ مُبِیْنٍ ) ( ۲ )

''ان کی قو م کے سر داروں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ ہم تم کو کھلم کھلا گمر ا ہی میں مبتلا دیکھتے ہیں ''۔

اس بنیاد پر انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت میں پیش پیش افراد کی ایک صفت یہ ہے کہ قوم کے سر دار اپنے نبی پر کھلم کھلا گمرا ہی میں مبتلا ہو نے کی تہمت لگا تے تھے ہم اس با رے میں انبیاء علیہم السلام کے مخا لفو ں کے طریقوں سے متعلق بحث میں تفصیل سے گفتگو کر یں گے ۔

( َٰالَ الْمَلَاُ الَّذِْیْنَ کَفَرُوامِنْ قَوْمِهِ اِنّٰالَنَرَیکَ فِیْ سَفَٰاهَةٍ وَاِنّٰالَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ زخرف آیت۲۳۔

۲۔سورئہ اعراف آیت۶۰۔

۳۔سورئہ اعراف آیت۶۶۔

۲۷۲

قوم ثمود کے با رے میں ار شاد ہو تا ہے :

''قوم کے سر دار جو کا فر تھے کہنے لگے ہم تو بیشک تم کو ایک طرح کی حماقت میں مبتلا دیکھتے ہیں اور پوری سنجید گی سے تم کو جھو ٹا سمجھتے ہیں ''۔

اس آیت میں بھی ایک خاص طبقہ '' ملأ ''یعنی وہی قوم کے سر داروں پر زور دیا گیا ہے اور یہ زور دینا اس چیز کو بیان کر تا ہے کہ یہ گروہ مخا لفت کر نے میں آگے آگے تھا ایک اور آیت میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ یہ طبقۂ'' ملأ ''اہل استکبار کا مغرور و سر کش گروہ تھا خداوند عالم قرآن میں ار شاد فر ما تا ہے :

( قَالَ الْمَلَا ُٔ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَن مِنْهُمْ اَتَعَلَمُونَ اَنَّ صَلِحاً مُرْسَل مِنْ رَّبِّه قَالُوْااِنّٰابِمَااُرْسِلَ بِهِ مُؤمِنُوْنَ قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا اِنّٰابِالَّذِیْ اٰمَنْتُمْ بِهِ کَافِرُوْنَ ) ( ۱ )

'' ان کی قوم کے سر دار نے جن کوقوت و اقتدار نے بڑا بنا دیا تھا کمزو ر و محروم لو گو ں سے جو ان میں ایمان لائے تھے کہاکیا تمھیں معلوم ہے کہ صالح اپنے پر ور دگا ر کی طرف سے بھیجے گئے سچے رسول ہیں انھوں نے جواب دیا کہ بلا شبہ جن باتو ں کا وہ پیغام لا ئے ہیں ہما را تو اس پر ایمان ہے تب جن لوگوں کو (اپنی استکباری طاقت و قوت پر ) گھمنڈ تھا کہنے لگے ہم تو جس پر تم ایمان لائے ہو اسے نہیں مانتے ''۔

مستکبرین بذات خود حق قبول کر نے اور انبیا ء علیہم السلام کی دعوت پر لبیک کہنے سے انکار کے علا وہ دوسروں کو بھی بہکا نے ،چنگل میں جکڑ لینے اور ان کے دل و دماغ میں شک و شبہ کے بیج بو کر ان کے ایمان کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے ۔

بہر حال مذ کو رہ تمام آیتو ں کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ وہ خاص طبقہ جو انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کا جھنڈا بلند کر نے میں پہل کیا کر تا تھا معا شرے میںخو ش حال آرام پسند اور عیاش طبقہ تھا جو اپنی دولت اور اپنے قوم و قبیلہ کے بل بو تے پر افتخار و گھمنڈ کر تا تھا ۔

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت ۷۵۔۷۶۔اور سورئہ اعراف آیت ۸۸۔

۲۷۳

انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کے نفسیاتی اسباب

اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ قوم کے سر دار اور مستکبرین کس وجہ سے انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کیا کر تے تھے

تھے ؟ اس با رے میں قر آن کریم میں بہت سے نکات ذکر ہو ئے ہیں جن پر غور و فکر کر نے سے انسان علوم نفسیا ت کے بہت سے انفرا دی اور اجتما عی مسا ئل سے وا قف ہو سکتا ہے قر آ ن نے کچھ امو ر جذ بۂ مخا لفت کے عنوا ن سے بیان کئے ہیں کہ جن کی بنیاد پر شاید کچھ اصل اور بنیادی قسم کے اسباب و عوا مل ہا تھ آجا ئیں ۔ہم اس جگہ مخا لفت کے چند اہم جذ بو ں کو بیان کر رہے ہیں

استکبار (خود کو بڑا سمجھنا )

قرآن کریم سے معلوم ہو تا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نے وا لے قوم کے سر دار اپنی ممتاز سما جی حیثیت کی وجہ سے بڑا ئی میں مبتلا تھے اور اسی جذ بہ سے وہ انبیاء علیہم السلام کے پیغام سننے اور ان کی اطاعت کر نے سے دریغ کر تے تھے ۔ گو یا اس گروہ کے لئے انبیاء علیہم السلام کے کلام کو دل میں جگہ دینا ایک قسم کا ننگ و عار تھا یہ لوگ ہمیشہ دو سروں کو اپنے راستہ پر لگا نے اور ان کو ہر طرح سے اپنے افکا ر کا تا بع بنا نے کی فکر میں لگے رہتے تھے اور یہی بڑا ئی کا تصور انبیاء علیہم السلام کی دعو ت قبول کر نے میں رکا وٹ بنتا تھا ۔قرآن کریم میں '' استکبار ''کی لفظ اسی مفہوم کو بیان کر تی ہے :

( قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْااِنّٰابِالَّذِیْ اٰمَنْتُمْ بِهِ کَافِرُوْنَ ) ( ۱ )

''جو لو گ بڑا ئی میں مبتلا تھے کہنے لگے ہم تو جس پر تم ایمان لائے ہواسے نہیں ما نتے ''۔ہم جا نتے ہیں کہ کسی حکم کا کسی مو ضو ع پر معلق اور وا بستہ ہو نا اس کی سببیت کا پتہ دیتا ہے ۔یعنی اس گروہ کا استکبار (خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنا )ہی ان کے کفر کا سبب تھا اور استکبار کا سر چشمہ ان کی وہی غرور و تکبر کی حا لت ہے جو ان کے دل و دما غ میں رچ بس گئی تھی البتہ بعض مقا مات پر ''استکبار'' کو علت کے طور پر بیا ن بھی کیا گیا ہے ۔( وَاَقْسَمُوْابِﷲ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآئَ هُمْ نَذِیْر لَّیَکُوْنُنَّ اَهْدَٰی مِنْ اِحْدَی الاُمَمِ فَلَمَّاجَآئَ هُمْ نَذِیْر مَّازَادَ هُمْ اِلَّانُفُوْرًااِسْتِکْبَارًافِی الْاَرْضِ ) ( ۲ )

''اور یہ لوگ تو خدا کی بڑی بڑی قسمیں کھا (کر کہتے )تھے کہ اگر ان کے پاس کو ئی ڈرا نے والا (پیغمبر) آئیگا تو وہ ضرور دوسری کسی بھی امت سے زیا دہ راہ یا فتہ بن جا ئیں گے پھر جب ان کے پاس ڈرا نے والا (رسول ) آ پہنچا تو نفرت کے سوا ان کے یہا ں کسی بھی چیز کا اضا فہ نہ ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ رو ئے زمین پر خود کو سب سے

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت۷۶۔ ۲۔سورئہ فاطر آیت۴۲و۴۳۔

۲۷۴

بڑا سمجھتے تھے ۔۔۔''۔

اِس آخر ی آیت میں لفظ '' استکبار ''مفعول لہ کے عنوان سے آیا ہے اور صاف طو ر پر بیان کر تا ہے کہ ان کے کفر (یعنی انکار ) کی وجہ ان کا جذ بۂ استکبار ہے ۔

اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے با رے میں آیا ہے کہ وہ آپ کی دعوت کے جواب میں حالت کفر پر با قی رہنے پر زور دیتے تھے اور '' استکبار '' سے کام لیتے تھے:

( وَاَصَرُّوْاوَاسْتَکْبَرُوااسْتِکْبِاراً ) ( ۱ )

''۔۔۔اور اَڑ گئے اور بہت شدت سے اپنی استکباری اکڑ کو بڑھا تے چلے گئے '' ۔

اور فر عون کی قوم کے با رے میں ار شاد خدا وندی ہے :

( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِ هِمْ مُوْسَیٰ وَهَارُوْنَ اِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَائِهِ بِآیَاتِنَا فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُُوْا قَوْماً مُجْرِمِیْنَ ) ( ۲ )

''پھر ہم نے اِن (پیغمبروں ) کے بعد مو سیٰ و ہا رون کو اپنی نشا نیا ں دے کر فر عون اور اس (کی قوم ) کے سرداروں کے پاس بھیجا لیکن انھو ں نے اکڑ دکھا ئی اور یہ جرا ئم پیشہ برے لو گ تھے ''۔

جب حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فر عو نیوں کو تو حید کی دعو ت دی تو انھو ں نے آ پ کی اس دعوت کے جوا ب میں اکڑ اور بڑا ئی دکھا ئی اور وہ بلند مقام جس پر وہ خود کو فا ئز سمجھتے تھے جناب مو سیٰ علیہ السلام کی بات کو قبول کر نے میں مانع ہوا ۔ مذ کورہ آیت میں حضرت مو سیٰ علیہ السلام اور ان کے بھا ئی ہا رون کے مبعوث ہو نے کا ذکر کر نے کے فوراً بعد کہا گیا ہے '' فَا سْتَکْبَرُوْا ''یہ انداز اس چیز کی علامت ہے کہ ان کی مخا لفت کی وجہ ان کا وہی استکبار اور اکڑپن تھا ۔ ضمناً لفظ ''مجر مین ''سے بھی یہ استفا دہ کیا جا سکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی رسالت کے انکار کا ایک اور سبب گنا ہو ں اور جرا ئم کا ارتکاب ہے ۔

کچھ دوسری آیات کہ جن میں انبیا ء علیہم السلام کی مخا لفت کا سبب غر ور و تکبر بیان کیا گیا ہے ان میں ایک مند ر جہ ذیل آیت بھی ہے ارشاد خدا وندی ہے:

( اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَٰدِلُوْنَ فِیْ آیٰاتِ ﷲ بِغَیْرِسُلْطَانٍ اَتَاهُمْ اِنْ فِیْ صُدُوْرِهِمْ اِلّاَکِبْر مَاهُمْ بِبََٰلِغِیْهِ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ نوح آیت۷۔ ۲۔سورئہ یونس۷۵۔۳۔سورئہ غافر آیت۵۶۔

۲۷۵

'' بیشک جو لوگ خداکی طرف سے کو ئی دلیل آ ئے بغیر خداکی آ یتوں کے با رے میں(خواہ مخواہ) جھگڑتے ہیں ان کے دلوں میں بڑائی جھا ڑ نے کے سواکچھ نہیں ہے حا لا نکہ وہ لوگ اس بڑائی تک کہ جس کی وہ آرزو رکھتے ہیں کبھی نہیں پہنچیں گے ۔۔۔ ''۔

کچھ دوسری آیتو ں میں بھی انبیاء علیہم السلام کے مخا لفوں کے استکبار کے با رے میں ذکر ہے مثال کے طور پر قر آن مشر کو ں کی صفت بیان کر تے ہو ئے ار شاد فر ما تا ہے :

( اِنَّهُمْ کَانُوْااِذَاقِیْلَ لَهُمْ لَااِلَٰهَ اِلّاَ ﷲ ُ یَسْتَکْبِرُونَ ) ( ۱ )

''ان سے جب کہا جاتاتھاکہ خدا کے سواکوئی معبود نہیں ہے تو اکڑ دکھا تے تھے ''۔

ظا ہر ہے صرف خدا ئے وحدہ لا شریک کی پر ستش کی دعوت ،استکبار کا سبب نہیں ہو سکتی لیکن جب اس دعو ت کا مطلب مشر کو ں کا گمراہ اور ان کے آباء و اجداد کے دین کا غلط ہو نا اور اس سے اپنے دیرینہ اعتقاد ات سے ہاتھ دھوبیٹھنا لا زم آ رہا ہو تو ان کا جذبۂ استکبار حق کو تسلیم کر نے میں رکا وٹ بن جا تا ہے ۔ بنا بر این مشر کو ں کے توحید کو نہ ماننے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خدا کی وحدا نیت پر کو ئی معقول اور وا ضح دلیل نہیں پا ئی جا تی یا حق ان پر پو شیدہ تھا ،ایسا نہیں ہے بلکہ ان کے اندر کچھ ایسے جذ بات مخفی تھے جو ان کو کفر کی طرف کھینچ لے جا تے تھے ۔ایک دو سری آیت میں استکبار کو عا لم آخرت کے وجود سے انکار کا سبب قرار دیا گیا ہے :

( اِلَهُکُمْ اِلَٰه وَاحِد فَالَّذِیْنَ لَایُؤمِنُونَ بِالْآخِرَةِقُلُوبُهُمْ مُنْکِرَة وَهُمْ مُسْتَکْبِرُوْنَ ) ( ۲ )

''تمہاراپر ور دگارایک اور اکیلا ہے پس جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے دل حق کے منکرہیں اوروہ ذا تی طور پر بڑے مغرورہیں ''۔

ظا ہری طور پر آیت کے آخری جملے '' وَھُمْ مُسْتَکْبِرُوْ نَ ''میں وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دل سے قیامت کے منکر کیو ں ہیں ۔یعنی آخرت پر ایمان لا نے میں رکا وٹ مشر کو ں کا جذ بۂ استکبار ہے جو ان کے وجود میں پنہاں ہے ۔

دوسری طرف قر آن کریم بعض عیسا ئی علماء اور پا دریوں کی اس طرح تعریف کر تا ہے :

( وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ قَالُوْانّٰانَصَٰرَیٰ ذَلِکَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُهْبَانًاوَّاَنَّهُمْ لَایَسْتَکْبِرُوْنَ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ صافات آیت۳۵۔ ۲۔سورئہ نحل آیت۲۲۔۳۔سورئہ مائدہ آیت۸۲۔

۲۷۶

''اور قطعی طور پر وہ لوگ جو کہتے ہیں ہم عیسا ئی ہیں مو منین سے دو ستی کے میدان میں سب سے زیا دہ مردم دوست نظر آئیں گے کیو نکہ ان میں بعض وہ مذ ہبی رہنما اور دا نشور ہیں کہ جن میں بڑا ئی ہا نکنے کی عا دت نہیں ہے ''۔

قر آن کی نظر میں اس گروہ کا امتیاز یہ ہے کہ ان میں غرور اور گھمنڈ نہیں ہے ۔ وہ منکسر المزاج افراد ہیں جب ان کو حق کی معر فت ہو جا تی ہے تو وہ اس کو تسلیم کر لیتے ہیں ۔

احساس بر تری

انبیا ء علیہم السلام کو جھٹلا نے کا ایک اور سبب جو کسی حد تک کبر و غرور سے مشا بہ ہے دو سروں پر بر تری کا جذ بہ ہے ۔ قر آن فر عون کی حا لت کو بیان کر تے ہو ئے فر ما تا ہے :

( ثُمَّ اَرْسَلْنَامُوْسَیٰ وَاَخَاهُ هَٰرُوْنَ بِآ یَٰتِنَاوَسُلْطَٰنٍ مُبِیْنٍاِلَیٰ فِرْعَوْ نَ وَمَلَا ئِهِ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَا نُوْا قَوْماًعَا لِیْنَ ) ( ۱ )

'' پھر ہم نے مو سیٰ اور ان کے بھا ئی ہا رون کو اپنی نشا نیوں اور واضح دلیل کے ساتھ فرعون اور اس کے در با ر کے امرا کے پاس (رسول بنا کر )بھیجا تو ان لو گو ں نے بڑا ئی دکھائی اور وہ تھے ہی بڑے سرکش لو گ ''۔

یہ لوگ معا شرہ میں دوسرو ں سے بر تری اور بلندو با لا مقام کی خو اہش رکھتے تھے اور اگر وہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو قبول کر لیتے تو ان کا کھو کھلا جاہ و حشم چھن جا تا لہٰذا انبیاء علیہم السلام پر ایمان نہیں لا تے تھے ۔

ظلم

انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کا ایک اور سبب ''ظلم '' ہے ۔قر آن کر یم کی بعض آیات میں دو سروں سے بر تری کی ہو س کے ساتھ ظلم و ستم کی روش کا بھی انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی مخا لفت کے دو سبب کے عنوان سے ذکر ہو ا ہے:

( وَ جَحَدُوْابِهَاوَاسْتَیْقَنَتْهَا اَنْفُسُهُمْ ظُلْماًوَعُلُوًّا ) ( ۲ )

'' با وجو دیکہ ان کا دل ان کے معجزات کا قا ئل تھا ان لو گو ں نے سر کشی اور تکبر کے سبب سے ان کا انکار کیا ''( بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّ ةٍ وَ شِقَاقٍ ) ( ۳ )

''ہا ں جنھو ں نے کفر اپنا یا تکبر اور عدا وت میں ہیں ''

____________________

۱۔ سورئہ مومنون آیت۴۵و ۴۶۔۲۔سورئہ نمل آیت۱۴۔۳۔سورئہ ص آیت۲۔

۲۷۷

'' عزّة کے دو معنی ہو سکتے ہیں :

۱۔ایک تو عمل کے اعتبار سے بہت زیا دہ اکھڑ اور اڑیل ہو جس کو جمو د کہا جاتا ہے ۔

۲۔ دوسرے معنی غرور اور خود پسندی کے ہیں دو سرے معنی کے اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ پیغمبر کی اطاعت کو ایک طرح کی ذلت سمجھتے تھے ،غرور اور خود کو دو سروں سے با لا تر سمجھنے کے سبب ان کو نظر میں نہیں لا تے تھے ۔

کچھ اور آیات میں آیا ہے کہ اصل میں ،کا فروں اور مشرکو ںکے لئے پیغمبر کی دعوت قبول کر نا بہت سخت و گراں ہو تا تھا :

( کَبُرَ عَلَیٰ الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْ عُوْ هُمْ اِلَیْهِ ) ( ۱ )

'' تم مشر کین کو جس کی طرف بلا تے ہو اُن پر بہت شاق گزر تا ہے '' ۔

بیشک شاق گزر نا ان ہی نفسیا تی اور اند رو نی حالات یعنی تکبر و غرور اور بر تری کے تصور کی وجہ سے تھا ۔

حضرت نو ح علیہ السلام نے بھی اپنی امت کے ساتھ بحث ومنا ظرہ کر تے وقت اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔سورئہ یونس میں ارشاد ہو تا ہے:

( َ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبأَنُوْ حٍ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ یٰقَوْ مِ اِنْ کَا نَ کَبُرَعَلَیْکُمْ مَقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِآیَا تِ ﷲ فَعَلیَ ﷲ تَوَ کَّلْتُ ) ( ۲ )

''تم ان کے سا منے نو ح کا حال پڑ ھ دو جب انھو ں نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم والو ! اگر میرا (تمہارے درمیان ) ٹھہر نا اور خدا کی آیتو ں کے ذریعہ نصیحت کر نا تم پر شاق و گراں گزر تا ہے تو(یا د رکھو ) میںصرف خدا ہی پر بھر و سہ کر تا ہو ں ''۔

نفسانی خوا ہشات

انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نے کا ایک اور اہم سبب نفسا نی خو اہشات کا غلبہ ہے البتہ یہ نفسانی خوا ہشات تمام معنوی عیو ب کو جنم دیتی ہے۔ چنا نچہ اس کو ظلم تکبر ،غرور اور جا ہ طلبی کی ما نندتمام بر ا ئیو ں کا سر چشمہ شما ر کیا جاسکتا ہے ۔ چو نکہ جو کچھ انبیاء علیہم السلام فر ما تے تھے وہ مخا لفین کی خو اہشا ت نفسا نی سے میل نہیں کھا تا تھالہٰذا وہ ان کے مقا بل اکڑ دکھا تے تھے او ر ان کے فر مان قبول کر نے میں اپنی بے عزتی سمجھتے تھے ۔

____________________

۱۔سورئہ شو ریٰ آیت ۱۳۔ ۲۔سورئہ یو نس آیت ۷۱۔

۲۷۸

سورئہ بقرہ میں ارشاد ہو تا ہے:

( اَفَکُلَّمَاجَا ئَ کُمْ رَسُوْل بِمَا لَا تَهْوَٰ ی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ ) ( ۱ )

''پس کس لئے جب بھی کو ئی پیغمبر تمہا رے پا س تمہا ری نفسا نی خو اہشات کے خلاف کو ئی حکم لے کر آ یاتو تم نے اکڑ دکھا نی شروع کر دی ''۔

اس آیت میں بنی اسرا ئیل سے خطاب ہے اور اُن کی سر زنش ہے کہ کیوں صرف اتنی سی با ت پر کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت تمہا ری خو اہش کے مطابق نہیں ہے تم اکڑ دکھا نے لگتے ہو ۔

گنا ہ میں آلو دہ ہو نا

بعض آیا ت میںروز قیا مت اہل عذاب سے خدا وند عالم کے سوال اور احتجاج کا ذکر ہے، کہ ایسا کیوں کیا ؟ اور ان میں بھی ان کی مخا لفت کے دو اسباب تکبر اور گناہ میں آلودہ ہو نے کا ذکر ہے سورئہ جا ثیہ میں خدا فر ماتا تا ہے :

( وَاَمَّا الَّذِ یْنَ کَفَرُوْا اَ فَلَمْ تَکُن آ یَٰا تِیْ تُتْلَیٰ عَلَیْکُم فَا اسْتَکْبَرْ تُمْ وَکُنْتُمْ قَوْماً مُجْرِمِیْنَ ) ( ۲ )

''اور جنھو ں نے کفر اختیار کیا (ان سے کہا جا ئے گا )کیا تمہا رے سا منے ہما ری آیتیں نہیں پڑھی جا تی تھیں (لیکن) تم نے تکبر کیا اور تم لوگ تو گنا ہگار اور بد کار افراد تھے '' ۔

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ جرا ئم اور گنا ہو ں کا مر تکب ہو نا بھی آیا ت الٰہی کے قبول نہ کر نے کا با عث ہوتا ہے ۔اس حقیقت کا سر چشمہ وہ رابطہ ہو تا ہے جو انسان کے عمل اور اس کے نفسانی ملکات کے درمیان بر قرار ہے اور اس قد رتی رابطہ کی بنیاد پر انسان کا گنا ہ میں آلو دہ ہو نا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ اس کے نفس میں کچھ ایسے رذائل اخلاقی پیدا ہو جا تے ہیں جو اس کو حق سے رو گر دانی کی طرف رغبت دلا تے ہیں ۔ ایک اور آیت میں حق سے منھ موڑنے میں تکبر کے اثر کو ایک دو سرے طریقے سے بیان کیا گیا ہے :

( قَدْ کَا نَتْ ء َایَا تِیْ تُتْلَیٰ عَلَیْکُمْ فَکُنْتُمْ عَلَیٰ اَعْقٰبِکُمْ تَنْکِصُوْ نَ مُسْتَکْبِرِیْنَ بِهِ سَٰمِراً تَهْجُرُوْ نَ ) ( ۳ )

''درحقیقت (جب ) ہما ری آیتیں تمہا رے سا منے پڑھی جا تی تھیں تو تم الٹے پا ؤں پھر جا تے تھے تمہا ری

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۸۷۔۲۔سورئہ جا ثیہ آیت ۳۱۔۳۔سورئہ مو منون آیت ۶۶۔ ۶۷۔

۲۷۹

حا لت غرور و نکبت کی تر جمانی کر تی اور تم وقت شب (اپنی نشستوں میں ) بد خلقی کی با تیں کیا کر تے تھے ''۔

بعض آیا ت میں تعلیما ت انبیاء علیہم السلام کو جھٹلا نے میں گنا ہ کے اثر کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

( اَلَّذِیْنَ یُکَذِّ بُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ وَمَا یُکَذِّبُ به اِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ ) ( ۱ )

'' جو لو گ روزِ جزا ء کو جھوٹ سمجھتے ہیں اور اِس گناہ میںحد سے گزر جا نے وا لے افراد کے سوا کو ئی جھو ٹ نہیں سمجھتا '' ۔

اس آیت میں قیا مت کے انکار کی ایک نفسیاتی وجہ کی طرف اشارہ ہے ۔ انسان جب گنا ہ کا عا دی ہو جا تا ہے ، ظلم و زیاد تی اور ستمگر ی اس کا پیشہ بن جا تا ہے تو آہستہ آہستہ ظلم اور گنا ہ کے آثار و نتا ئج سے اس کے دل و دماغ مانوس ہو جا تے ہیں اور وہ دل سے ان کا بندہ بن جاتا ہے ۔ایسی حا لت میں جو بھی اس کے عیش و آرام میں خلل پیدا کر ے یا اس کے گنا ہو ں کی راہ میں رکا وٹ ڈالے وہ اس سے جنگ کے لئے تیار ہو جا تا ہے اور چو نکہ حساب و کتاب اور روز آخرت پر یقین ،ظلم و زیادتی اور گنا ہ کے جا ری رہنے میں ایک اہم ترین رکا وٹ ہے اس لئے آسودہ خا طر ہو کر اپنے گندے اعمال انجام دیتے رہنے کے لئے برا ئی کا عا دی انسان حیات اخر وی کا ہی سرے سے انکار کردیتا ہے۔ اس بنا ء پر مندرجہ بالا آیت کی رو سے قیا مت کے انکار کا سبب ایک نفسیاتی محر ک ہے جو انسان کے وجود میں گناہ اور ظلم و زیا دتی کے زیر اثر پیدا ہو جا تا ہے ۔ اسی نکتہ پر سو رئہ قیامت میں زور دیا گیا ہے۔

( بَلْ یُرِیْدُ الاِ نْسا نُ لِیَفْجُرَاَ مَا مَهُ ) ( ۲ )

''مگر انسان تویہ چا ہتا ہے کہ اپنے آ گے بھی(ہمیشہ) برا ئی کر تا چلا جا ئے ''۔

قیا مت کے انکا ر کا سبب یہ نہیں ہے کہ قیا مت کا انکا ر کر نے وا لے قیا مت میں اپنی نئی زندگی کے سلسلے میں خدا وند عالم کے ہا تھو ں کو بندھا ہوا پا تے ہیں کہ خدا ان کو دو با رہ کیسے زندہ کر ے گا بلکہ اس کا اصل سبب وہی نفسیاتی محرک یعنی گنا ہ کی عا دت اور آزادانہ طور پر فسق و فجو ر کے ارتکاب کا شوق ہے ۔

بے نیا زی(بے فکری) کا احساس

انبیائے الٰہی کے خلاف اڑ جا نے کا ایک اور سبب اپنے کو دو سروں سے بے نیاز سمجھنا ہے۔ آدمی جب اپنے کو دوسروں خاص طور پر خدا کے نبیوں اور الٰہی رہنما ؤں سے بے نیاز سمجھنے لگتا ہے تو اس میں تکبر و غرور کی آگ کے

____________________

۱۔سورئہ مطففین آیت ۱۱۔۱۲۔۲۔سورئہ قیا مت آیت۵۔

۲۸۰