راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135678
ڈاؤنلوڈ: 3485

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135678 / ڈاؤنلوڈ: 3485
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

شعلے بھڑ ک اٹھتے ہیں اور وہ حق کے مقابلہ میں اکڑتا اور سر کشی کر نے لگتا ہے قرآن کر یم اس حقیقت کو بڑے ہی اچھے انداز میں بیان کر تا ہے :

( کَلَّا اِ نَّ الْاِ نْسَا نَ لَیَطْغَیٰ اَنْ رَئَ اهُ اسْتَغْنَیٰ ) ( ۱ )

''بیشک انسا ن جیسے ہی اپنے کو غنی سمجھنے لگتا ہے سر کش ہو جاتاہے ''۔

اب تک ہم نے امتوں کی جا نب سے انبیا ء علیہم السلام سے مخالفت کے اصل عوا مل کا قرآن کی رو شنی میں جائزہ پیش کیا ہے اب اگر ہم ان امور کے متعلق غور وفکر کریں تو ان عوا مل کے ایک ایسے مر کزی نقطہ پرپہنچیں گے کہ جس سے معلوم ہو تا ہے کہ ان عوامل کا ایک دوسرے سے خاص رابطہ ہے ان عوامل کا دوسرے بہت سے عوامل کے ساتھ طول میں رابطہ ہے یعنی ایک عامل دوسرے عامل کو اکساتا ابھارتا )ہے دوسرے گروہ کے اندر بھی یہ عوامل اسی طرح کا رابطہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طورپر بہت سے نفسیاتی ا سباب (خاص کاموں کے انجام دینے کا سبب ہو تے ہیں اور وہ کام اپنے وقت ومقام پر مذکو رہ حالات کی عطاکردہ قوت کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ مذکورہ عوامل کے رابطہ کے با رے میں ایک طولانی بحث کی ضرورت ہے اور بہت زیادہ وسعت چاہتی ہے جو ہماری اس بحث کے دائرہ سے باہر ہے ۔

انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کے چند نمونے

اب تک ہم اس نتیجہ پر پہو نچے ہیں کہ ملأ،مترفان اور مستکبرین کی انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخالفت کی وجہ ان نفسیا تی ملکات یعنی مادیات سے وابستگی اور نفسانی خواہشات تھی بیشک یہ حالات اور ملکات ایک خاص سانچے میں ظہور کر تے تھے اور ایک خاص عمل کا باعث بنتے۔ قرآن کریم کی بعض آیات میں ان نفسانی حالات کے کچھ جلوؤں کو بیان کیا گیا ہے ۔مثال کے طور پر کچھ مقامات پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب کا فروں کے درمیان کسی شخص کو مبعوث کیا جاتا تھا تو وہ تعجب کیا کر تے تھے ۔قرآن مجید حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی نقل کر تا ہے کہ آپ اپنی قوم سے عتاب آمیزلہجہ میں خطاب فر ما تے تھے:

( اَوْعَجِبْتُمْ اَنْ جَا ئَ کُمْ ذِکْر مِنْ رَبِّکُمْ عَلَیٰ رَجُلٍ مِنْکُمْ لِیُنْذِرَ کُمْ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْ نَ ) ( ۲ )

____________________

۱۔سورئہ علق آیت ۶۔۷۔۲۔سورئہ اعراف آیت۶۳۔

۲۸۱

''کیا تمھیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد پر ذکر (پند و نصیحت) نا زل ہو جا ئے کہ وہ تمھیں ڈرا ئے اور یہ کہ تم متقی بن جا ؤ اور شا ید تم پر رحم کیا جا ئے ''۔

حضرت ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے گفتگوکر تے ہو ئے اسی مسئلہ پر زور دیا ہے:

( اَوْعَجِبْتُمْ اَنْ جَا ئَ کُمْ ذِکْر مِنْ رَ بِّکُمْ عَلَیٰ رَجُلٍ مِنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ وَاذْکُرُوْاذْجَعَلَکُمْ خُلَفَائَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَةً ) ( ۱ )

''کیا تم لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ تم تک ذکر خداتمھارے ہی کسی آدمی کے ذریعہ آجائے تاکہ وہ تمھیں ڈرائے اور (وہ وقت ) یاد کرو جب ( اس نے) تم کو قوم نوح کے بعد اُن کا خلیفہ( جانشین) بنایا اور تمہا ری خلقت و قوت میں اضا فہ کر دیا '' َ۔

بہ ظا ہر ا ن کے متعجب ہو نے کی اصل وجہ (علیٰ رجل منکم )ہی ہو نا چا ہئے اس لئے کہ علی القا عدہ کو ئی صرف اس بات پر کہ خدا وند عالم نے اُن ہی کے در میان سے ایک شخص کو کیو ں پیغمبر قرار دیا ہے ؟کیوں حیرت میں پڑسکتا ہے انبیا ئے الٰہی بھی اس مسئلہ سے اچھی طرح وا قف تھے اور ہمیشہ یہ کو شش کر تے تھے کہ اس مسئلہ پر اُن کے تعجب اور حیرت کا بے بنیاد ہو نا آشکا ر کر دیں اور اپنی امت کو متنبہ کر یں کہ ان کے تعجب کی کو ئی وجہ نہیں ہے ۔یہی بات پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کے با رے میں بھی ذکر ہو ئی ہے ۔

( اَکٰانَ لِلنّٰاسِ عَجَبَاً اَنْ اَوْحَیْنَااِلَیٰ رَجُلٍ مِنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِالنَّاسَ ) ( ۲ )

''کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک مردپر وحی کی ہے تا کہ وہ لوگوں کو ڈرائے ۔۔۔''۔

اس بات پر کا فروں کی حیرت کا مسئلہ کہ اُن ہی کے درمیا ن سے ایک شخص کو پیغمبر بنا دیا گیا ہے اس قدر سنجیدگی اختیار کر گیا تھا کہ سورئہ ص کی ابتدا ئی آیات میں اس پر بہت زیا دہ زور دیا گیاہے

( وَعَجِبوُاَنْ جَائَ هُمْ مُنْذِرمِنْهُمْ وَقَالَ الْکَافِرُوْنَ هَذَاسَاحِرکَذَّاب ) ( ۳ )

''اور انھیں اس با ت پر حیرت ہے کہ انھیں میں کا ایک ڈرانے والا ان کے درمیان آیا ہے اور کافر لوگ کہتے ہیںکہ یہ تو بڑاجادو گر اور پکّاجھوٹاہے ''۔

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت ۶۹۔۲۔سورئہ یونس آیت۲۔۳۔سورئہ ص آیت۴۔

۲۸۲

ظاہر ہے کہ جس کا نفس پاک اور سالم ہو کبھی اس بات پر حیرت نہیں کرے گا کہ خداوند عالم نے امت کے ایک سب سے قابل شخص کو دوسروں کی ہدایت کے لئے منتخب فرمایا ہے ۔ لیکن جو انسان حالات اور غلط قسم کے نفسانی جذبوں میں محصور اورمقید ہو اور استکباری تصورات ، دو سروں پر برتری کی خواہش اور خواہشات نفسانی کی پیروی میں زندگی بسر کررہا ہو اُس کو ضرور اس مسئلہ پر حیرانی ہوگی بہر حال یہ حیرانی کا فروں اور منکروں کی نفسیاتی کیفیت کو ظاہر و آشکار کرتی ہے کہ جس سے قرآن نے پردہ اُٹھا یا ہے ۔ مذکورہ حالات اسی طرح کے کافروں کے مختلف بہانوں میں بھی جلوہ نما ہیں ۔ ان میں سے بعض بہانے خداوند عالم اور بندوں کے مابین تعلقات کے طریقۂ کار سے تعلق رکھتے ہیں مثال کے طور پر کفّار کا ایک ناروا مطالبہ یہ تھا کہ خداوند عالم ان سے براہ راست کلام کرے یااُن پر معجزہ ظاہر کرے :

( وَقَالَ الَّذِیْنَ لَایَعْلَمُونَ لَوْ لَایُکَلِّمُنَاﷲ ُ اَوْتَتینَا ئَ ایَة کَذَلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ) ( ۱ )

''یہ جاہلو ں کا کہنا تھاکہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا خود ہمارے لئے کوئی معجزہ کیوں نہیںآتا؟ اسی طرح ان ہی جیسی باتیںوہ لوگ (بھی) کرچکے ہیں جو ان سے پہلے تھے''۔

آیت میں( کذلک قال الذین ) سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ بہانے تلاش کرنا کسی قوم سے مخصوص نہیں تھا جی ہاں یہ وہ بہانہ ہے جو عام طور پر رائج تھا لوگ کہتے تھے کہ خداوند عالم جو کچھ اپنے انبیا ء علیہم السلام کو عطا کرتا ہے وہ ہم کو کیوں نہیں عطا کرتا :۔

( وَاِذَاجَائَتْهُمْ آیَة قَالُوْالَنْ نُؤْمِنَ حَتَّی نُؤتَیٰ مِثْلَ مَااُوْتِیَ رُسُلُ ﷲ ) ِ( ۲ )

''اور جب ان کے پاس کوئی آیت آتی توکہتے :جب تک ہم کوا(بھی)وہی چیز نہیں دی جائے گی جو پیغمبران خدا کو دی گئی ہے ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے۔۔۔''۔

قرآن نے بھی اس احمقانہ مطالبے کا جواب فیصلہ کن انداز میں دیا ہے :

( اللَّهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۱۱۸۔۲۔سورئہ انعام آیت۱۲۴۔۳۔سورئہ انعام آیت۱۲۴۔

۲۸۳

''۔۔۔خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے ۔۔۔''۔

کفّار کا دوسرا بہانہ یہ تھا کہ چو نکہ انبیا ء علیہم السلا م بھی انسان سے بالاتر نہیں ہیں لہٰذا اُن پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں ان بہانوں کو نقل کیا ہے:

( قَالَتْْ رُسُلُهُمْ َفِی اللَّهِ شَکّ فَاطِرِ السَّمَٰوَٰاتِ وَالَرْضِ ) ۔۔۔( قَالُوْااِنْ اَنْتُمْ اِلَّابَشَر مِّثْلُنَا ) ( ۱ )

''ان کے پیغمبروں نے کہا کیا تم کو خدا کے بارے میں شک ہے جو سارے آسمان و زمین کوپیدا کرنے والا ہے؟ ۔۔۔وہ کہنے لگے : تم بھی تو ہمارے ہی ایسے آدمی کے سوا کچھ نہیں ہو ۔۔۔''۔

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُؤمِنُوْااِذْ جَائَ هُمُ الْهُدَیٰ اِلَّااَنْ قَالُوْا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَراً رَسُوْلاً ) ( ۲ )

''اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آچکی تو ان کو ایمان لانے سے کوئی شے مانع نہیں ہوئی مگر یہ کہ وہ کہنے لگے کہ کیا خدا نے کسی بشر کو رسول بنا کر بھیجاہے''۔

( ذَلِکَ بِاَنَّهُ کَانَتْ تَْتِیْهِمْ رُسُلَهُمْ بِالْبَیِّنَٰاتِ فَقَٰالُوْاأَبَشَر یَهْدُوْنَنَافَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوا ) ( ۳ )

''یہ( برا نتیجہ) اس وجہ سے ہے کہ ان کے درمیان ان کے انبیا ء واضح اور روشن دلیلیں لے کر آچکے ہیںلیکن وہ لوگ کہہ دیا کرتے تھے کیا ایک آدمی ہماری ہدایت کرے گا ؟ پس یہ لوگ کافر ہو بیٹھے َاور منھ پھر لیا ۔۔۔'' ۔

اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ کفار کا اس طرح کے بہا نہ تلاش کر نا اُن کے اُسی غرور و تکبر کے سوا کچھ نہیں تھا۔ حقیقت میں وہ انبیاء علیہم السلام سے کہتے تھے کہ تم بھی تو ہما رے ہی ایسے آدمی ہو اور جب تم کو ہم پر کو ئی بر تری وفو قیت حا صل نہیں ہے تو پھر کو ئی وجہ نہیں کہ تمہا ری بات مان لیں ۔

یہ وہ چند با تیں ہیںجو انبیاء علیہم السلام کے مخا لفین کی نفسا نی کیفیت کو ظا ہر کر تی ہیں اب ہم یہ دیکھنا چا ہیں گے کہ انھوں نے انبیا ء علیہم السلام کا مقابلہ کر نے کے لئے کن طریقوں کو اپنایا لیکن اس سے پہلے مناسب ہے کہ استکبار کی بحث کو (انبیاء علیہم السلام سے جنگ و مقا بلہ کر نے کی ایک علت کے عنوان سے) مکمل کر نے کے لئے ہم قرآن کریم کے اندر مستکبروں اور مستضعفوں کا ایک جا ئزہ پیش کر دیں اور اس کے بعد اصل بحث کو آگے بڑھائیں۔

____________________

۱۔سورئہ ابراہیم آیت۱۰۔۲۔سورئہ اسراء آیت۹۴۔۳۔سورئہ تغابن آیت۶۔

۲۸۴

مستکبر اور مستضعف قرآن کی نگا ہ میں

گذشتہ بحث میں قر آن کر یم کی رو سے یہ بات واضح و روشن ہو گئی کہ تقریباً تمام معا شروں میںسب سے پہلے معا شرہ کے مستکبر افراد ہی انبیاء علیہم السلام سے جنگ و مقا بلے کے لئے اٹھتے رہے ہیں اوراس کے بعد وہ محروموں اور کمزوروں کو اپنے ساتھ کر لیتے اور ان کو انبیاء علیہم السلام کے خلاف ابھا رتے تھے ۔ قرآن کر یم میں ان دونوں اصطلاحات ''مستکبر ''اور ''مستضعف ''کے استعمال اور ا س کے مفہوم کی اہمیت نیز ہما رے آجکل کے معاشرے میں ان دو نوں لفظوں کو جو خاص مقام حا صل ہے اُن کے پیش نظر ان دونوں اصطلاحات کے مفا ہیم کا قرآن کے نقطۂ نظر سے مختصر طور پر ایک جا ئزہ نا منا سب نہ ہو گا ۔اس بحث میں ہم پہلے استکبار اور استضعاف کے لغوی مفہوم کو بیان کر یں گے اور اس کے بعد قر آن کریم میں ان دو نوں لفظوں کے محل استعمال کا جا ئزہ لیں گے تا کہ ہم ان دونوں لفظوں کے با رے میں قر آن کر یم کے آخری فیصلے تک پہو نچ سکیں ۔

استضعاف اور استکبار کے لغوی معنی

''استکبار ''اور ''استضعاف ''دو نوں اصطلا حیں ،مصدر اور باب استفعال سے ہیں ۔ استکبار کا مادہ ''کِبر '' ''بڑائی ''کے معنی میں ہے ۔ اس بنا پر ''استکبار ''مصدر متعدی '' ہے جو مفعول کا محتاج ہو تا ہے ۔عام طور سے مستکبر کسی چیز یا کسی شخص کو بڑا شما ر کر تا ہے اگر چہ اکثر مقا مات پر استکبار کا مفعول بیان نہیں کیا جاتا ۔ مثال کے طور پر قر آن کر یم شیطان کے با رے میں فر ما تا ہے :( اَبَیٰ وَا سْتَکْبَرَ وَ کَا نَ مِنَ الْکَا فِرِیْنَ ) ( ۱ )

'' اس نے نا فر ما نی کی اور اکڑ دکھا ئی اور کا فر ین میں سے ہو گیا ''۔

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۳۴۔

۲۸۵

اس آیت میں فعل ''استکْبَرَ''کا کو ئی مفعول نہیں آیا ہے عام طور سے ایسے مقا مات پر استکبار کا مفعول وہی فا عل ہو تا ہے ۔یعنی وہی شخص اپنے کو بڑا سمجھتا ہے ۔

یہا ں ایک دوسری بات جس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کبھی کلمۂ استکبار اور اس کے دو سرے مشتقات میں دو سرے فعل کے معنی شا مل ہو تے ہیں ۔یا نحویو ں کی اصطلاح میں دو سرے فعل کے معنی متضمن ہو تے ہیں اور زیا دہ تر ایسے مقا مات پر اس فعل کو حر ف جر ''عن ''یا ''علیٰ '' کے ذریعہ متعدی کیا جاتا ہے مثال کے طور پر قرآن کریم کے سورئہ غا فرمیں ارشاد ہو تا ہے :

( اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْ نَ عَنْ عِبَا دَتِیْ ) ( ۱ )

''در حقیقت جو لوگ ہما ری عبا دت کر نے میں اکڑ دکھا تے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم وا صل ہوجائیں گے ''۔

کلمۂ ''استکبار''کا حرف جر کے ساتھ متعدی ہو نا اس بات کی علا مت ہے کہ اس میں دو سرے فعل کے معنی متضمن اور شامل ہیں اور اکثر مقا مات پر حرف ''عن ''لا کر ''اعراض اور اضراب (منھ پھیر لینا یا پیٹھ دکھا نا )اور حرف ''علیٰ ''کا استعمال کر کے ''زیادتی ''اور جا رحیت ''کے معنی میں استعمال کر تے ہیں ۔اس بنا پر ''اِسْتَکْبَرَ عَلیٰ فُلَا نٍ ''کا مطلب ہے اس نے خود کو بڑا سمجھا اور یہ اپنے کو بڑا دیکھنا ہی سبب بنا کہ وہ دو سرے پر ظلم اور ا س کے حقوق میں زیا دتی کرے ۔

( ''اِسْتَکْبَرَ عَنْ شَیْئ ) ''یعنی خود کو بڑا دیکھا اور اس کی وجہ سے اس نے ایک چیز سے منھ مو ڑلیارو گر دا نی کی ۔

لیکن لفظ ''استضعاف ''کا ما دہ ''ضعف ''ہے اور ا س کے معنی سستی اور نا توا نی کے ہیں ۔ ''استضعاف '' اپنی ہیئت کے اعتبار سے دو معنی رکھتا ہے :ایک تو کمزو ر شما ر کر نا یا کمزور جا ننا ہے ۔ ''اِسْتَضْعَفَہُ ''یعنی '' راٰہُ ضَعِیْفاً '' عَدَّ ہُ ضَعِیْفاً ''اس کو کمزور دیکھا اس کو کمزور شما ر کیا۔

استضعاف کے دو سرے معنی : کسی شحص کو یا کسی چیز کو کمزور بنا نا یا کمزور کر دینا ہے ۔اس صورت میں ''اِسْتَضْعَفَہُ ''یعنی '' حَمَلَہُ عَلیَ الضَّعْف ''یعنی اس کو کمزو ر بنا دیا ۔

دو سرے لفظوں میں کلمۂ استضعاف اپنے دو محتمل معنی کی وجہ سے لفظ ''استخفاف '' کے مشا بہ ہے ۔ استخفاف بھی کبھی ''ہلکا شما ر کر نے ''اور کبھی ''ہلکا کر دینے ''کے معنی میں استعمال ہو تا ہے ۔قر آن کر یم نے فر عون کے با رے

____________________

۱۔سورئہ غافر آیت۶۰۔

۲۸۶

میں دو نو ں لفظیں استعمال کی ہیںیعنی فر عون اپنی قوم کے ساتھ استضعاف بھی کر تا تھا اور استخفاف بھی :

( فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَاَطَاعُوْهُ ) ( ۱ )

''پس فر عون نے اپنی قوم کو (ذہن کا ) ہلکا کر دیا اور وہ ا س کے تا بعدار ہو گئے'' ۔

( وَجَعَلَ اَهْلَهاَ شِیَعاً یَسْتَضْعِفُ طَا ئِفَةً مِنْهُمْ ) ( ۲ )

'' اور ا س نے وہا ں کے رہنے وا لو ں کو طبقات میں با نٹ دیا اور ان میں سے ایک طبقہ کو محر وم اور زبوں حال کر دیا ''۔

مذکو رہ مطالب کی رو سے '' مستضعف '' کے دو معنی ہیں :

۱۔جس شخص کو کمزور شما ر کیا جا ئے ۔

۲۔جس شخص کو کمزور کر دیا جا ئے ۔

مستکبروں اور مستضعفو ں کی گفتگو

اس حصہ میں ہم پہلے ان آیات کو تحریر کر یں گے جن میں مستکبرین اور مستضعفین ایک دو سرے کے مقا بل کھڑے نظر آتے ہیں ۔ ان آیات کی رو سے ہر معا شرہ میں دو بنیا دی طبقے کے افرا د پا ئے جا تے ہیں : مستکبرین اور مستضعفین ۔اس کے بعد بحث سے متعلق تمام آیات کا جا ئزہ بھی لیں گے اور آخر میں نتیجۂ بحث کے عنوان سے یہ دیکھیں گے کہ قر آن کر یم میں اصو لی طور پر استضعاف اور استکبار کے معنی کیا ہیں اور مستضعفوں کی کتنی قسمیں ہیں ۔

قرآن کر یم کی کچھ آیات میں آخرت کی اس طرح نقشہ کشی کی گئی ہے کہ وہا ں مستکبرین اور مستضعفین ایک دو سرے کے آمنے سا منے (مقا بل کھڑے ہو کر ) گفتگو کر یں گے ۔ یہ بات تین مقامات پر بیان ہو ئی ہے ۔ ایک جگہ ارشاد ہو تا ہے :

( وَ لَوْ تَرَیٰ اِذِ الظَّا لِمُوْ نَ مَوْ قُوْ فُوْ نَ عِنْدَ رَبِّهِمْ یَرْجِعُ بَعْضُهُمْ اِلَیٰ بَعْضٍ الْقَوْ لَ یَقُوْ لُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لَوْلاَ اَنْتُمْ لَکُنَّا مُوْمِنِیْنَ ) ( ۳)

''اور اے کا ش جب ظالموں کو ان کے پر ور دگا ر کے سامنے حا ضر کیا جا ئے گا تم دیکھتے (کہ کس طرح ان کے

____________________

۱۔سورئہ زخرف آیت ۵۴۔ ۲۔سورئہ قصص آیت ۴۔ ۳۔سورئہ سبأ آیت۳۱۔

۲۸۷

بعض افراد بعض )دو سرے افراد سے گفتگو کر تے ہیں ان میں جو کمزور اور ما تحت تھے بڑے لو گو ں سے جو سر داری کیا کر تے تھے کہہ رہے ہو ں گے کہ اگر تم نہ ہو تے تو ہم ضرور ایمان دار ہو تے ''۔

اس آیت میں قابل تو جہ نکتہ یہ ہے کہ قر آن کر یم میں ابتداء میں تو مستکبروں اور مستضعفوں دو نوں کو ظالموں اور ستم گروں کے زمرہ میں شمار کیا ہے اور اس کے بعد ان کی آخرت میں ہو نے والی گفتگو کو نقل کرتا ہے ۔پہلے مستضعفین اپنی گفتگو کا آغاز کر تے ہو ئے متکبروں سے خطاب کر یں گے :

اگر تم نہ ہو تے تو ہم ضرور ایماندار ہو تے اور آج اہل دوزخ نہ شما ر ہو تے ۔اس طرح مستضعفین مقام عذر میں اپنی گمرا ہی کا ذمہ دار متکبروں کوٹھہرا ئیں گے اور ان کو اصلی قصور وار کے عنوان سے پیش کریں گے ۔ لیکن مستکبرین بھی چپ نہیں رہیں گے اور ان کا جوا ب اس طرح دیں گے :

( أَنَحْنُ صَدَدْنا کُم عَنِ الْهُدَیٰ بَعْدَ اِذْجَا ئَ کُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُجْرِ مِیْنَ ) ( ۱ )

'' کیا ہم نے (جب تمہا رے پاس خدا کی طرف سے ہدا یت آئی تھی) تم کو راہ ہدایت سے زبر دستی رو کا تھا ؟ (نہیں )بلکہ تم خود گنہگار ہو ''۔

مستکبرین استفہا م انکا ری کے ذریعہ مستضعفو ں سے سوال کر یں گے کہ کیا ہم نے تم پر ہدا یت کا راستہ بند کردیا تھا ۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ تم خود مجرم ہو اور اس قصور کے تم خود ذمہ دار ہو مستضعفین دو با رہ لب کشا ئی کر تے ہوئے جوا ب دیں گے :

( بَلْ مَکْرُاللَّیْلِ وَالنَّها رِاِذْ تَا مُرُوْنَنَا اَنْ نَکْفُرَبِا ﷲِ وَنَجْعَلَ لَهُ اَنْدَا داً )

'' ۔۔۔(نہیں) بلکہ ( تمہا ری )رات دن کی چال با زیوں نے ہم کو (گمراہ کیا کہ )اس وقت جبکہ تم لوگ ہم کو خدا کے نہ ما ننے پر ورغلا تے اور اس کا شریک ٹھہرا نے کا حکم دیتے رہتے تھے ''۔

اور اس طرح دونوں گروہوں کا مناظرہ ختم ہوتاہے۔سورئہ مبارکہ ابراہیم میں بھی ان دونوں گروہوں کی گفتگو اس طرح نقل کی گئی ہے :

____________________

۱۔سورئہ سبأ آیت ۳۱۔

۲۸۸

( وَبَرَزُواْلِلّٰهِ جَمِیْعاً فَقَالَ الضُّعَفَٰائُ لِلَّذِ یْنَ اسْتَکْبُرُوْااِنَّاکُنَّالَکُمْ تَبَعاً فَهَلْ اَنْتُمْ مُغْنُوْنَ عَنَّامِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ شَیئٍ قَالُوْالَوْهَدٰنَاَٰاللَّهُ لَهَدَیٰنَاکُمْ سَوٰائ عَلَیْنَاأَجَزِعْنَااَمْ صَبَرْنَامَالَنَامِنْ مَحِیْصٍ ) ( ۱ )

'' اور تمام لوگ خدا کے سامنے آکھڑے ہوںگے ۔پس کمزور و محروم لوگ متکبّرین سے کہیں گے :ہم تو بس تمہارے قدم بقدم چلاکرتے تھے تو کیا (آج) تم خداکا عذاب دور کرنے میں بھی ہمارے کچھ کام آسکتے ہو؟وہ جواب دیںگے :خدانے ہماری ہدایت کردی ہوتی تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کردیتے خواہ بیقراری سے کام لیں خواہ صبر کریں اب تو ہمارے لئے (دونوں )برابر ہیں (کیونکہ عذاب سے )تو اب ہمیں چھٹکارا نہیں مل سکتا ''۔

اس آیت میں اگر چہ ''مستضعفین ''کے مقام پر کلمہ''ضعفائ''استعمال کیا گیا ہے لیکن قرائن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ضعفاء سے مراد وہی مستضعفین ہیں۔اس آیت کی بنیاد پر مستضعفین مستکبرین سے کہیں گے کہ:ہم تمہاری پیروی کرنے سے ہی گمراہ ہوئے اور اس دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوئے ہیں تو کیا اب یہ ممکن ہے کہ تم ہمارے عذاب میں بھی کچھ حصہ بانٹ سکو ۔

متکبرین جواب دیتے ہیں :اگر خدا نے ہماری ہدایت کی ہوتی تو ہم بھی تمہاری راہ راست کی طرف ہدایت کرتے اور دوسرا احتمال یہ ہے :اگر خداوند عالم نے (یہاں آخرت میں ) ہماری جنت کی طرف راہنمائی کی ہوتی تو ہم بھی اپنے پیچھے پیچھے تم کو اپنے ساتھ جنّت میں لے جاتے اوردوزخ کے عذاب سے چھٹکارا دلادیتے ۔

بہر حال متکبرین مستضعفین کی نجات سلسلے میں اپنی ناتوانی کا اظہار کریں گے اور وہ نجات کے راستے اپنے لئے بھی اور ان کے لئے بھی بند پائیں گے لہٰذا وہ آخر میں کہیں گے:خواہ بیقراری دکھائیں خواہ صبر کریں جس چیز میں گرفتار ہوچکے ہیں اس کے تحمل کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔''مالنامن محیص''ہمارے لئے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے ۔

____________________

۱۔سورئہ ابراہیم آیت۲۱۔

۲۸۹

ایک تیسرے مقام پر جہاں قرآن کریم نے ان دونوں گروہوںکی گفتگو نقل کی ہے سورۂ غافر میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَاِذْ یَتَحَاجُّوْنَ فِی النَّارِفَیَقُوْلُ الضُّعفآؤُالِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْااِنَّاکُنَّالَکُمْ تَبَعاً فَهَلْ اَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّانَصِیْباًمِنَ النَّارِقَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْااِنَّا کُلّ فِیْهَااِنَّ ﷲ قَدْ حَکَمَ بَیْنَ الْعِبَٰادِ ) ( ۱ )

''اور جب یہ لوگ جہنم میں آتے وقت ایک دوسرے سے کٹ حُجَتّی کریں گے تو کم حیثیت والے بڑے آدمیوں سے کہیں گے:ہم تمہارے ماتحت اور مطیع تھے تو کیا تم اس وقت دوزخ کی آگ کا کچھ حصہ ہم سے دور کرسکتے ہو سرکشی کرنے والے بڑے لوگ کہیں گے(اب تو )ہم اور(تم) سب ہی اس آگ میں پڑے ہیں خدا ہے جس نے بندوں کے بارے میں (جو کچھ )فیصلہ (کرنا تھا) کیا ہے''۔

جیسا کہ آپ نے دیکھا آیات کی روسے متکبرین اور مستضعفین دونوں قصوروار ہیں اور دونوں میں کوئی بھی دوسرے کے عذاب کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے اس سلسلے میں دونوں بے بس ہیں۔ ہاں مستکبرین جنھو ںنے کام کی ابتداء کی اور مستضعفین کو عذاب کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا لیکن یہ عمل متکبرین کی زبر دستی اور (مستضعفین ) کی بے بسی اور ان کا اختیار سلب کرلینے کا مفہوم نہیں رکھتا اگر مستعضعفین چاہتے تو ان کی پیروی سے انکار کرسکتے تھے۔مختصر یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ مستضعفین زبر دستی کا فر بنادئے گئے ہوں بلکہ وہ اپنے ارادئہ و اختیار سے کافر ہوئے ہیں لہٰذا اسکے وہ خود ذمہ دار بھی ہوںگے۔

قرآن میں مستکبر اور مستضعف کا مطلب

اب یہ دیکھنا ہے کہ قر آن کریم کی مذ کورہ آیات میں '' ضعفاء ''یا ''مستضعفان ''سے کون لوگ مراد ہیں ؟

جیسا کہ ہم پہلے بھی اشا رہ کر چکے ہیں کہ جس وقت انبیا ء ٪ لو گو ں کے سا منے اپنی رسالت کا اعلان کر تے تھے تو ان کا ایک گروہ جو خود کو قوی اور بر تر سمجھتا تھا اپنی بڑا ئی جتا نے پر اتر آتا تھا یہی ''مستکبرین ''ہیں لیکن ان کے نزدیک خود کو بڑا سمجھنے کا معیار و ملاک کیا تھا؟ یہ تو بعید ہے کہ وہ اپنی جسمانی خصوصیتوں (جیسے قد اور وزن وغیرہ)کی وجہ سے اپنے کو مستکبر سمجھتے رہے ہو ں ۔ بلکہ معقول بات یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے کو بڑا سمجھنے کا معیار و ملاک یا تو اپنے پاس مال و دولت کی زیا دتی کو بنا تے ہوں یا پھر وہ اپنی سیا سی معا شرتی حیثیت سے فا ئدہ اٹھا تے ہوں دو سرے لفظوں میں ان معا شروں پر حکمراں اقدار و معیارات اس کا تقا ضا کر تے تھے کہ ایک انسان کی بزر گی اور اہمیت کامعیار

____________________

۱۔سورئہ غافر آیت ۴۷۔۴۸۔

۲۹۰

اس کی دولت اور مقام و منصب ہے ۔ایسے معا شروں میں جن کے ہاتھ مال و دو لت سے خا لی تھے اور جن کی پشت پر کو ئی گروہ ، خا ندان اور قبیلہ نہیں تھا ان کو مستضعفین کے گروہ میں شما ر کیا جاتا تھا کیو نکہ وہ بزرگی اور طاقت کے معیار و ملا ک سے عا ری تھے ۔

اس طرح یہ معا شرے عملی طور پر دو اہم گروہ میں تقسیم ہو جا تے ہیں اور ایسے حالات میں گروہ (مستکبرین ) کی معا شرتی حیثیت اس بات کا تقاضا کر تی ہے کہ ان کی با تیں بڑی (حد تک ) دو سرے گروہ پر اثر انداز ہوں اور خود مستضعفین بھی سماج پر حکمراں معیارات کو تسلیم کر تے ہوں اور ان کے ذہنوں میں مستکبروں کی بر تری کا تصور ایک سما جی حقیقت کا روپ اختیار کر چکا ہو ،اور وہ بڑے آرام وسکون کے ساتھ ما لدا روں کی پیروی کر رہے ہوں (اِنَّا کُنَّالَکُمْ تَبَعاً)۔ یہی نفسیا تی عمل (معا شرے پر حکمران جھو ٹے اقدار و معیارات اور یہ کہ دو لتمند اور بڑے قوم و قبیلہ کا مالک ہو نا بر تری اور بزر گی کا معیار و ملاک ہے )سبب ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے مقا بلہ میں مستکبرین کی طرف سے کفر کی دعوت مستضعفین کے گروہ پر کا ر گر ثابت ہو تی تھی ۔

البتہ یہ اثر اتنا قوی نہیں تھا کہ وہ اپنا اختیار کھو بیٹھیں اور کفر پر مجبور ہو جا ئیں ۔ بیشک یہ گروہ مجرم نہ ہو تا صرف قاصر ہو تا تو ہر گز اہل دوزخ نہ قرار پاتا ۔خدا وند عالم اس سے کہیں زیا دہ مہر بان و کریم ہے کہ وہ ایک مجبور و قاصر شخص کو ان کے دشمن مستکبرین کے عذاب میں سزا دے ۔ لیکن جیسا کہ آخری آیت میں بیان ہوا ہے : (اِ نَّ ﷲ قَدْ حَکَمَ بَیْنَ الْعِبَا د ) خدا وند عالم کا فیصلہ ہے کہ دو نوں گروہ دوزخ میں ڈال دیئے جا ئیں ۔معلوم ہوا دونوں گروہ قصور وار ہیں لہٰذا دو نوں کو اپنے عمل کا بد لا ملے گا اور وہ ایک کے عمل کا بوجھ دو سرے اپنے کا ندھے پر نہیں اٹھا سکیں گے ۔

مندرجہ با لا مطالب کے مد نظر یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ مستضعفین گروہ نے ایک لحا ظ سے خو د بھی کمزوری دکھا ئی ہے اور شا ید اسی وجہ سے مذ کو رہ دو آیات میں ان کو ضعفا ء کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔اسی بناء پر یہ نہیں ہے کہ صرف دو سروں نے اس گروہ کو کمزور و محرو م بنا دیا ہے بلکہ وہ خود بھی کمزور تھے ۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ ان کی یہ کمزوری صرف دولت اور قوم قبیلے اور معا شرتی جاہ و حشم کے اعتبار سے تھی یا اس سے بھی با لا تر وہ عقل و معرفت کے اعتبار سے بھی ضعیف تھے ؟

۲۹۱

تو بہ ظاہر ذکر شدہ آیات کے پیش نظریہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس گروہ کی کمزوری صرف پہلی جہت سے تھی یعنی مال و دولت اور معاشرتی جاہ و حشم کا کم ہو نا کیونکہ اگر کمزوری مذکورہ حالا ت یعنی اعتباری اور قرار دادی جہت سے ہو تو اُن کے اور مستکبّروں کے عذاب میں فرق کا سبب نہیں ہو گا ورنہ عقل اور معرفت میں کمی یا کمزوری انسان کے فرائض اور ذمہ داری کو کم کردیا کرتی ہے جو عذاب میں تخفیف چاہتی ہے ۔ بنابر ایں چو نکہ آیات سے اِن دو نوں گروہو ںکے مابین عذاب کی شدت میں کسی فرق کا پتہ نہیں چلتا اس لئے یہ نتیجہ نکا لا جاسکتا ہے کہ مستضعفین کی عقل اور ہو ش میں کوئی نقص نہیں تھا بلکہ اُن پر ماحول کے صرف وہی نفسانی حالات طاری تھے جو ان کو سرمایہ دار طبقے اور معاشرہ کے قوی و طاقت افراد کی اطاعت و پیروی میں لگائے ہو ئے تھے ۔ دوسرے لفظوں میں اس گروہ میں اندھی تقلید کا جذبہ حکمراں تھا یعنی جو کچھ معاشرہ کی صاحب اقتدا ر اقلیت انجام دے گی وہی یہ بھی انجام دیں گے : اور یہ جذبہ ان معاشروں پر ہی حکمراں ہو تا ہے جو تربیت الٰہی سے محروم ہوں ۔ افسوس کی بات ہے کہ آج بھی بہت سے ایسے مسلمان معاشرے ہیں جن میں مغربی معاشروں کی اندھی تقلید کا جذبہ مو جو د ہے ۔ مختصر یہ کے ان آیات کی بنیاد پر( مستضعفین )اور (ضعفائ) کا مصداق ایک ہی ہیں یعنی ان سے (معا شرتی اور اقتصادی اعتبار سے )معاشرہ کا وہ کمزور طبقہ مراد ہے عام طور سے محرومی کا شکار بھی بنا ئے جا تے رہتے ہیں ۔

۲۹۲

مستضعفین سے متعلق آیات کا ایک جائزہ

قرآن کریم کی بعض آیات میں استضعاف کے با لمقابل استکبار کی طرف اشارہ کئے بغیر استضعاف کے بارے میں بحث کی گئی ہے ۔ ان میں سے ایک آیت مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مکہ میں مسلمانوںکی صورت حال سے متعلق ہے :

( وَاذْکُرُوْااِذْاَنتُمْ قَلِیْل مُستَضْعَفُونَ فِی الاَ رْضِ تَخَا فُوْنَ اَنْ یَتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَئَاوٰکُمْ وَاَیّّدَکُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَکُم مِنَ الطِّیِّبَاتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) ( ۱ )

'' اور (مسلمانوں )وہ وقت یاد کرو جب سر زمین (مکہ)میں بہت مختصراور کمزور و بے بس تھے تم ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تم کو اُچک نہ لے جا ئیں تو (خدا )نے تم کو پنا ہ دی اور اپنی مخصوص مدد سے تم کو قوی کیا اور تمھیں پاک و پا کیزہ روزی عطا کی تا کہ تم شکر گزار رہو ''۔

اس آیۂ شریفہ میں مکہ کے مسلمانوں کو بے بس و کمزور کہا گیا ہے۔اگرچہ مسلما نو ں کے با لمقابل کسی کا ذکر نہیں ہے ۔ یقیناً ان کو مکہ کے مشر کو ں نے محروم ومستضعف بنا رکھا تھا ۔ یقیناً یہ کہنا درست ہو گا کہ مسلمان واقعی طور پر مشر کو ں کے مقا بلہ میں کمزور و محروم تھے ۔نہ یہ کہ صرف مشرکین مکہ اُن کو کمزور شما ر کر تے تھے ۔مسلمان افراد اور تعداد کے لحا ظ سے بھی اور اسلحہ اور جنگی ساز و سامان کے اعتبار سے بھی کمزور و محروم تھے ۔ لہٰذا یہا ں پر بھی '' مستضعف ''اور ''ضعیف ''دو نوں کا مصداق ایک ہے۔ قرآ ن مسلما نوں کو متو جہ کر رہا ہے کہ تم اپنے دشمنوں کی نظر میں بھی اور حقیقت

____________________

۱۔سورہ انفال آیت ۲۶۔

۲۹۳

علنی میں بھی کمزور و بے بس تھے لیکن خدا وند عا لم نے تمہا ری مدد کی اور تم پر اپنی نعمتیں نا زل کیں ۔

یہ نکتہ بھی روشن ہے کہ مشرکو ں کی بہ نسبت مسلما نوں کے کمزور ہو نے سے مراد عقلی اور فکری اعتبار سے کمزور ہو نا نہیں ہے اس لئے کہ بلا شبہ مسلمانوں میں عقلی رشد و ارتقا کا فر وں کی نسبت کہیں بہتر اور زیادہ تھا اور اسی عقلی ارتقا نے ان کو شرک و بت پرستی چھو ڑنے اور اسلام قبول کر نے کی طرف ما ئل کیا تھا ۔ بلکہ مسلمانوں کو مکہ میں ان کی معاشرتی حیثیت کمزور ہو نے کے لحا ظ سے کمزو ر کہا گیا ہے۔ چنا نچہ نتیجہ یہ نکلا کہ آیت میں لفظ ''مستضعف ''ان مسلمانو ں کے لئے استعمال ہوا ہے جو معا شرہ میں مقام و حیثیت اور وسائل و امکانات کے اعتبار سے دشمنوں کے مقابلہ میں کمزور تھے ۔

قر آ ن میں وہ دو سرا مقام جہا ں استضعاف کا مسئلہ ، اس کے با لمقابل استکبار کا ذکر کئے بغیر بیان کیا گیا ہے ، حضر ت ہا رون علیہ السلام کے با رے میں ہے ۔قر آن کر یم کی آیات کی بنیاد پر جب حضر ت مو سیٰ علیہ السلام مناجات کے لئے کو ہ طور پر گئے ہو ئے تھے ، بنی اسرا ئیل نے ایک گو سالہ کا مجسمہ بنا کر اس کی پر ستش شرو ع کر دی ۔ حضرت مو سیٰ علیہ السلام جب کو ہ طور سے وا پس پلٹے تو آپ نے دیکھا کہ بنی اسرا ئیل ایک گو سالہ کی پر ستش کر رہے ہیں۔ اس وقت آپ نے اپنے بھائی حضرت ہا رون علیہ السلام کی سر زنش کی کہ انھو ں نے بنی اسرا ئیل کو بت کی پرستش کر نے سے کیوں نہیں رو کا :

( وَاَخَذَ بِرَْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهُ اِلَیْهِ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ) ( ۱ )

''۔۔۔اور( حضرت موسیٰ )نے اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو (ہارون) نے کہا: اے میرے مانجائے اس قوم نے مجھ کو ناتواں سمجھ لیا اور قریب تھاکہ مجھکو قتل کرڈالیں ۔۔۔''۔

یعنی حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب میں کہا :لوگوں نے مجھکو ناتواں سمجھا اور قریب تھا کہ مجھکو مارڈالیں ۔۔۔گویا اس آیت میں بھی ''استضعاف ''کا مطلب ضعیف و ناتواں شمار کرنا ہے البتہ یہاں بھی حضرت ہا رون علیہ السلا م کو بنی اسرائیل کے ضعیف و نا تواں شمار کر نے کے ساتھ حقیقت بھی یہی تھی کہ وہ ضعیف و ناتواں تھے اس لئے کہ وہ بنی اسرائیل سے جنگ و مقابلہ کرنے اور بت پرستی سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کلمۂ ''استضعاف ''اس آیت میں بھی اور اس سے پہلے والی آیت میںبھی

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت۱۵۰۔

۲۹۴

کوئی منفی پہلو نہیں رکھتا بلکہ اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ ایک شخص اور ایک گروہ کو دوسرے افراد کی نظروں میں کمزور وناتواں شمار کیا گیا ہے۔

قرآن کریم کی بعض آیات میں (ضعیف شمار کرنے کا )مسئلہ مصدر کی حیثیت سے کلمۂ استضعاف کا استعمال کئے بغیر بھی بیان کیا گیا ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم آپ سے کٹ حجتی کے دوران اس نکتہ پر بہت زیادہ زور دیا کرتی تھی کہ حضرت شعیب علیہ السلام ان کی نظر میں ایک کمزور شخص کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں اگر قوم کے درمیان ان کے رشتہ دار نہ ہوتے تو وہ کسی وقت بھی ان کو قتل کرڈالتی :

( قَالُوْا یَا شُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ کَثیراً مِمَّاتَقُوْلُ وَاِنَّا لَنَرٰیکَ فِیْنَاضَعِیْفاً وَلَوْلَا رَهْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَااَنْتَ عَلَیْنَابِعَزِیْزٍ ) ( ۱ )

''ان لوگوں نے کہا:اے شعیب جو باتیں تم کہتے ہو ان میں اکثر ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تم ہمارے درمیان بہت کمزور ہو ،اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تم کو (کب کا)سنگسار کرچکے ہوتے اور تم ہم پر کا میاب نہیں ہوسکتے ''۔

جس وقت حضرت شعیب علیہ السلام لوگوں کو توحید،خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت ،فتنۂ وفساد سے پر ہیز اور کم فروشی نہ کرنے کی دعوت دیا کرتے تھے لوگ کہتے تھے کہ ہم کو تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں اور تم توہمارے مقابلے میں بہت کمزور و ناتواں ہو:''انا لنرئک ضعیفاً ''ہم تم کو کسی شمار میں نہیں لاتے لہٰذا آیت سے ظاہر ہے کہ جناب شعیب کی قوم نے بھی ان کو ضعیف شمار کیا اور وہ ان کے لئے کسی طاقت و قدرت کے قا ئل نہیں تھے ۔لیکن قرآن نے لفظ ''استضعاف ''کے بجائے ''لنرئک فینا ضعیفاً''جیسے جملہ سے استفادہ کیا ہے ۔

بعض آیتوں میں لفظ ''مستضعف ''معاشرہ کے ضعیف و کمزور افراد کے لئے استعمال ہوا ہے :

( وَمَا لَکُمْ لَاتُقَٰتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ ﷲ ِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلیّاً وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْراً ) ( ۲ )

''اور تم کیوں خداکی راہ میں اور کمزور اور بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں (کی نجات)کے واسطے جہاد

____________________

۱۔سورئہ ہودآیت ۹۱۔

۲۔سورئہ نساء آیت ۷۵۔

۲۹۵

نہیں کرتے؟ وہی جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پالنے والے ہم کو اس شہر سے کہ جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں باہر نکال دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست قراردے اور تو خود ہی کسی کو اپنی طرف سے ہمارا مددگار بنائے ''

اس آیہ شریفہ میں بھی مستضعفین وہی بوڑھے مرد بوڑھی عورتیں اور بچّے ہیں جو مکّہ کے مشرکوں اور کافروں کے مقابلہ میں ضعیف و ناتواں تھے ،ان میں اپنا دفاع کرنے کی طاقت نہیں تھی وہ نہ تو کفار سے جنگ و جدل کی طاقت رکھتے تھے نہ ہی ان میں مکّہ سے ہجرت کی ہمّت تھی، وہ بڑی بیچارگی کے ساتھ خداوند عالم کی نصرت کا انتظار کر رہے تھے ۔

اور ﷲ نے مکہ سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ کفّار کے ساتھ جنگ کریں اور کمزور و ناتواں و بے بس مسلمانوں کو نجات دلا ئیں ۔

قرآن کی بعض آیات کی روشنی میں مستضعفین کے دو گرو ہو ں کے درمیان فرق رکھا گیا ہے مستضعفین کا ایک گروہ وہ ہے جو اپنی ذمہ دا ری اور فر ائض سے فرارکے لئے اپنے کو کمزور و نا تواں ظا ہر کر تا تھا اور دوسرا گروہ وہ ہے کہ جس کی کمزوری کا عذر خدا وند عا لم نے قبول کیا ہے ۔ ان دو نوں گروہو ں کی حکایت سورئہ مبا رکہ نسا ء کی آیات میں اس طرح بیان کی گئی ہے:

( اِ نَّ الَّذِ یْنَ تَوَ فَّٰهُمُ الْمَلٰئِکَةُ ظَا لِمِیْ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِیْمَاکُنْتُمْ قَالُوْاکُنَّامُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الاَرْضِ قَالُوْا اَلَم تَکُنْ اَرْضُ ﷲ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْافِیْهاَ فَأُوْلٰئِکَ مَاوٰهُمْ جَهَنَّمُ وَسَائَ تْ مَصِیْراً ) ( ۱ )

''بیشک جن لو گو ں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے جس وقت ان کی قبض روح فر شتوں نے کی ہے اُن سے سوال کیا ! تم کس حال میں تھے ؟تو وہ کہنے لگے :ہم کو زمین پر کمزور بنا دیا گیا تھا (جوا ب میںفرشتے کہتے ہیں )کیا خدا وند عالم کی زمین میں وسعت و گنجا ئش نہیں تھی کہ تم (کہیں ) اور ہجرت کر کے چلے جاتے ؟پس ایسے لو گوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کتنا برا ٹھکا نا ہے'' ۔

آیت میں پہلے تو قر آن کریم نے فر شتوں کی کا فروں سے ان کے مر نے کے بعد کی گفتگو نقل کی ہے ۔ یہ گروہ'' اپنے آپ پر ظلم کر نے وا لے ''''( ظَا لِمِیْ اَنْفُسِهِمْ ) ''ہیں کیو نکہ خود کو کفر میں غر ق کر دینا اور راہ حق سے روگرداں ہو جانا در حقیقت بہت بڑا ظلم و ستم ہے جو کا فر خود اپنے اوپر کر تا ہے فر شتے اس گروہ سے کہتے ہیں : تم کس حال میں تھے؟ یعنی تم ایمان کیوں نہیں لا ئے ؟را ہ حق پر کیوں نہیں چلے ؟مو منوں کی صف میں شا مل نہ ہو نے کا تمہا رے

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت ۹۷۔

۲۹۶

پاس کیا عذر تھا ؟کفار اپنے استضعاف کا بہا نہ کر تے ہو ئے کہتے ہیں :ہم جس سر زمین پر زند گی بسر کر رہے تھے وہا ں مستضعفوں کے گروہ میں تھے ۔ اس وقت فرشتے اُن پر حجت قا ئم کر تے ہو ئے کہتے ہیں !کیا تمہا رے لئے سر زمین کفر سے ہجرت کر کے مو منوں سے مل جانا ممکن نہیں تھا اتنی بڑی زمین تنگ نظر آرہی تھی ۔ چنا نچہ استضعاف کا دعوی کرنے وا لے اس گروہ کا ٹھکانا مندرجہ ذیل(سورئہ نساء کی آیت۹۸) کی شہا دت کی بنیاد پر جہنم ہے ۔چونکہ وہ واقعاً قصور وار ہیں جس جگہ وہ کفر کی زند گی بسر کر رہے تھے وہا ں سے ان کے لئے ہجرت کر نا ممکن تھا ۔پھر بھی ایسا نہیں کیا اور پھر قر آن نے حقیقی مستضعفوں کی طرف اشا رہ کیا ہے اور ان کو خدا وند عالم کی طرف سے بخش دیئے جا نے وا لے افراد میں شما ر کیا ہے :

( الِاَّالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَةًوَلَا یَهْتَدُوْنَ سَبِیلاً فَأُوْ لَٰئِکَ عَسیَ ﷲ اَنْ یَعْفُوَعَنْهُمْ وَکَا نَ ﷲ عَفُوّاً غَفُوْراً ) ( ۱ )

'' مگروہ کمزور و محروم مرد اور عو رتیں اور بچے کہ جن کے سامنے کو ئی راہ تد بیر نہیں ہے جنھیںرہائی کی کو ئی صورت نظر نہیں آتی ،جو لوگ (فی الجملہ معذور ہیں )خدا ایسے لوگوں سے در گزر کرے گااورخدا تو بڑا معاف کرنے والا بخشنے والا ہے ''۔

حقیقی مستضعفین وہ لوگ ہیں جو جسمانی ضعف و نا توانی کی وجہ سے کا فروں کا مقابلہ کر نے سے معذور و عاجز تھے اور مکہ میں رہنے ، جلنے اور کڑھنے اور حالات کے ساتھ سمجھو تہ کر لینے کے علا وہ اور کو ئی چا رئہ کار نہ تھا ۔یہ گروہ اگر اپنے فر ائض کو سمجھنے یا اس پر عمل کر نے میں کا میاب نہ ہو سکا تو خداوند عالم کے نزدیک معذور ہو گا ۔

سورئہ مبارکۂ نساء میں ضعیف و نا تواں ، بے سہا را بچو ں کے با رے میں گفتگو ہے اور ان کو مستضعفین کا مصداق کہا گیا ہے :

( وَ مَا یُتْلَیٰ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتابِ فِیْ یَتا مَی النِّسَائِ الَّتِیْ لَا تُوْتُوْ نَهُنَّ مَا کُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْکِحُوْهُنَّ وَالمُستَضْعَفِینَ مِنَ الوِلْدَانِ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتَٰمَیٰ بِا لْقِسْطِ ) ( ۲)

''۔۔۔اور قر آن میں تمہیں جن سے متعلق تلا وت کے ذریعہ بتا یا جا چکا ہے :ان یتیم لڑکیوں کے با رے میں ہے کہ جنھیں تم ان کا معین کیا ہوا حق نہیں دیتے اور ان سے نکاح کر لینا چا ہتے ہو اور ان کمزور اور نا تواں بچوں کے

____________________

۱۔سورئہ نسا ء آیت ۹۸۔۹۹۔

۲۔سورئہ نساء آیت ۱۲۷۔

۲۹۷

بارے میں ہے اور یہ کہ یتیموں کے ساتھ کیسا بر تا ؤ کرو ۔۔۔''۔

اس آیت میں خدا وند عالم فر ما تا ہے کہ لا وارث بچے ضعیف و نا تواں ہیں اور اپنے حق کا دفاع نہیں کر سکتے پس ان پر ظلم و ستم نہ کرو یہ ظا ہر ہے کہ اس مقام پر بھی جن افراد کو مستضعف کہا گیا ہے ۔حقیقت میں بھی وہ کمزور و ناتواں ہیں ،اور اپنی محدود فکری اور جسما نی طاقت کی وجہ سے وہ اپنے حقوق سے پو ری طرح استفادہ کر نے سے قاصر و نا تواں ہیں ۔

ہم نے یہاں تک جن آیات کی وضا حت کی ہے ان میں '' مستضعف '' سے مراد وہ افراد ہیں۔ جن کو دوسروں نے کسی بھی دلیل کے تحت ، کمزور خیال کیا ہے ۔( یہ استضعاف کے مذکورہ دومعنی میں سے ایک ہے )البتہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ان آیات میں جن افراد کو مستضعف کہا گیا ہے وہ واقعی معنی میں ایک طرح کی کمزوری و ناتوانی کا شکا رتھے ۔مثال کے طور پر آخری آیات میں بچوں، عورتوں اور بو ڑھوں کے با رے میں گفتگو ہے جن میں عام طور پر جسمانی اور فکری کمزوری پائی جاتی ہے اور دوسرے بھی ان کو ضعیف شمار کیا کرتے ہیں ۔بنا بر این مذکورہ آیات میں استضعاف صرف ''ضعیف شمار کرنے ''کے معنی میں استعمال ہواہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا کچھ آیات ایسی بھی ہیں کہ جن میں استضعاف دوسرے معنی میں یعنی ''کسی کو ناتواں کردینے''کے معنی میں استعمال ہوا ہو؟

اسکا جواب یہ ہے کہ ہاں،بعض آیات میں دوسرے معنی کا بھی احتمال موجود ہے۔اگر چہ پہلے معنی میں ہونا بھی مکمل طور پر قابل انکار نہیںہے۔ان آیات میں سے ایک فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں ہے سورئہ قصص میں ارشاد ہو تا ہے :

( اِنَّ فِرعَونَ عَلاَ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلََهَاشِیَعاً یَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ ) ( ۱ )

''فرعون نے (مصر کی )سرزمین میں بہت سراٹھایا تھا اور وہاں کے رہنے والوں کو طبقوں میں تقسیم کردیا اور ایک طبقے کو بہت ہی کمزور و ناتواں کر رکھا تھا ۔۔۔''۔

اس آیت میں احتمال پایا جاتا ہے کہ ''یستضعف ''سے مراد ضعیف و ناتواں شمار کرنا ہو لیکن زیادہ قوی احتمال یہ ہے کہ یہاں استضعاف کے دوسرے معنی یعنی ضعیف و ناتواں بنا دینا مراد ہیں اس احتمال کے تحت فرعون نے اپنی قوم کو کئی طبقوں میں تقسیم کردیا ۔ایک گروہ تو وہی اس کے در باریوں اور امیروں کا تھا جن کو اس نے علیٰ عہدوں پر فائز کررکھا تھااور اس کے خاص الخاص افراد ،شر فا اور امرائمیں شمار کئے جاتے تھے۔ان کے بر خلاف فرعون نے ایک طبقے کو

____________________

۱۔سورئہ قصص آیت ۴۔

۲۹۸

معاشرہ میں کسی بھی مقام ومنصب اورسماجی اقتصادی اقتدار سے محروم کررکھا تھا اور اس طر ح اس نے ان کے کمزور کرنے کے اسباب فراہم کردیئے تھے ۔پس احتمال قوی کی بنیاد پر اس آیۂ شریفہ میں استضعاف سے مراد کمزور و ناتواں کرناہے۔ قرآن کریم اس کے بعد کی (آیت۵)میں آگے بڑھ کر مستضعفین کے بارے میں خداوندعالم کے وعدے کو اس طرح بیان کرتا ہے:

( وَنُریدُ اَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتَضْعِفُوافِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِیْنَ ) ( ۱ )

''اور ہم یہ چاہتے تھے کہ جو لوگ روئے زمین میں کمزور کردیئے گئے تھے ان پر احسان کریں اور ان ہی کو (لوگوں کا )پیشوا بنائیں اور ان ہی کو اس (سرزمین )کا مالک بنائیں ''۔

اگر چہ اس آیۂ شریفہ میں ظاہری طور پر ''الذین استضعفوا ''کے ذریعے پہلی آیت کی طرف اشارہ ہے اور اس سے مراد وہ مستضعفین ہیں جن کو فرعون نے ناتوان اور کمزور کردیا تھالیکن بعض روایات میں بیان شدہ مطلب کے پیش نظر تاویل یا بطن آیہ امام زمانہ عج کے ظہور سے متعلق ہے اور اس میں خبر دی گئی ہے کہ امام مہدی عج کے زمانہ میں خداوندعالم ان افراد کو جو دوسروں کی نظر میں کمزور و ناتواں ہیں یا کمزوروناتواں کردیئے گئے ہیں طاقت و قوّت عطا کرے گا اور لوگوں کا ولی و سرپرست قرار دے گا۔بہر حال ان دو آیتوںمیں لفظ ''یستضعف '' اور ''استضعفوا''سے مراد استضعاف کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں کا احتمال موجود ہے۔

ایک دوسر ی آیت میں بھی بنی اسرائیل کو مستضعفین کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے:

( وَاَوْرَثْنَاالْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْایُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَٰرِقَ الْاَرْضِ وَمَغَٰرِبَهَاالَّتِی ْبَارَکْنَافِیْهَا ) ( ۲ )

''اور وہ گروہ کہ جن کو ہمیشہ کمزور و محروم رہنا پڑا تھا ،سرزمین فلسطین کا کہ جس میں ہم نے برکت پیدا کر دی تھی اسکے پورب پچھم سب کا وارث بنا دیا ''۔

____________________

۱۔سورئہ قصص آیت۵۔

۲۔سورئہ اعراف آیت ۱۳۷۔

۲۹۹

نتیجۂ بحث

استکبار اور استضعاف سے متعلق آیات پر سرسری نظر کے بعد اب حاصل شدہ کلی نتائج کو بیان کردینا مناسب

معلوم ہوتا ہے:

ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ استکبار کے معنی اور اسی طرح استضعاف کے معنی میں ایک طرح کا تقابل ملحوظ رکھا گیا ہے۔یعنی جو شخص اپنی بڑائی جتا تا ہے فطری طور پر خود کو کسی شخص یا گروہ کے مقا بلہ میں بر تر اور بڑا سمجھتا ہے ۔چو نکہ اگر اس طرح کا مقابلہ اور تقابل نظر میں نہ ہو تو بڑا اور چھو ٹا ہو نا کو ئی معنی نہیں رکھتا اس بنا ء پر مستکبر وہ شخص ہے جو خود کو بڑا سمجھتا ہے اور دو سروں کو چھو ٹا اور حقیر۔

اب یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ مستکبرین خود کو کس اعتبار سے بڑا سمجھتے تھے ۔ بعض آیات میں مستکبرین اور مستضعفین کے درمیان مقا بلہ اس بات کی غما ضی کر تا ہے کہ پہلا گروہ اس قوت و اقتدار کی بنیاد پر جو ان کو حا صل تھا اور دو سروں کو حا صل نہیں تھا ان کو ضعیف و نا تواں شمار کر تا تھا ۔بعض آیات میں کہ جن کا ہم نے ذکر کیا طا قت کا معیار و ملاک افرادی قوت کی زیا دتی اور فرا وانی تھی اور اسی بنیاد پر مکہ کے مسلمان مکہ کے مشرکو ں کے مقا بلے میں بہت کمزور و نا تواں تھے :''( فَاذْکُرُوْااِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلمُسْتَضْعَفِینَْ' ) یہ لوگ ممکن ہے بعض حالات میں جسمانی قوت یا ما دی دولت و ثر وت کے اعتبار سے قوی رہے ہوں لیکن چو نکہ ان کی تعداد بہت کم تھی ، قد رتی طور پر ان کی قوت و دولت مشرکین کی مجمو عی دو لت و طاقت کے مقا بلے میں کسی شما رمیں نہیں آتی ۔

لیکن اکثر آیات میںافراد کا کم ہو نا کمزور ہو نے کا ملاک اور بنیاد نہیں ہے اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ عقلی اعتبار سے کم ہو نا بھی کلمہ استضعاف کے استعمال کا معیار نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ زیا دہ تر آیات میں سما جی حیثیت اور معاشرتی جا ہ و حشم ملا ک و بنیاد ہے جو مال و دو لت کی فرا وانی اور حسب و نسب کے افتخار اور خاندانی اور قبیلہ کے بڑے ہونے کے سبب ایک مخصوص گروہ کے استکبار اور خود کو بڑا سمجھ لینے کا باعث بنا ہے مختصر یہ کہ ایسے نظام میں جو کسی خاص اصول و معیار کی بنیاد پر (کہ جن کی قوانین و مذہب نے تا ئید نہ کی ہو )استوار ہوئے ہوں۔ایک گروہ کو معاشرہ میں خاص حیثیت اور اقتدار مل جاتا ہے اور دوسرا گروہ محرومی اور ناتوانی کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے یعنی ان کو ضعیف و ناتواں شمار کیا جانے لگتا ہے اور کبھی کبھی معاشرہ میں ان کو کمزورو محروم کرنے کے اسباب بھی فراہم کئے جاتے ہیں ۔

۳۰۰