راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135671
ڈاؤنلوڈ: 3485

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135671 / ڈاؤنلوڈ: 3485
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

استکبار اور استضعاف کی اہمیت

قر آ ن کی رو سے استکبا ر اور استضعاف کا مطلب بیان کر نے کے بعد یہ مطلب بیان کر دینا ضرو ری ہے کہ کیا قر آن کی رو سے استکبا ر اور مستضعفین کی خا ص اہمیت ہے ؟ یا اخلاقی لحا ظ سے ان کا بذا ت خود کو ئی مثبت یا منفی رخ نہیں ہے ؟

جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ استکبا ر میں چو نکہ اپنے کو بڑا سمجھنے ، فخر و مبا ہات کر نے اور ایک دوسرے پر بر تری جتا نے کے معنی پا ئے جا تے ہیں لہٰذا یہ اخلا قی اعتبا ر سے ایک بری صفت سمجھی جا تی ہے اور ہم یہ پہلے عرض کر چکے ہیں کہ ( یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَا دَ تِیْ )کے مثل تعبیر و ں میں حق سے رو گر دا نی کر نا اور طغیا ن و سر کشی کر نے کے معنی پائے جا تے ہیں اور اخلا قی اعتبا ر سے یہ تمام صفتیں مذ مو م ہیں ۔ اس بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قر آ ن کر یم میں (استکبار ) ایک گرا ہوا ،ناپسند اور منفی رخ کا حا مل امر ہے ۔

لیکن استضعاف کا مسئلہ دوسرا ہے استضعاف میں بذات خود منفی مفہوم نہیں پا یا جاتا۔کیونکہ یہ کلمہ حقیقت میں ایک شخص کے بارے میں دوسرے اشخاص کے رو یہ اور طرز فکر کو بیان کرتا ہے خود کسی شخص کی صفت بیان کرنانہیںہے اور اسی وجہ سے استضعاف کے افعال مجہول استعمال ہوتے ہیں معروف میں استعمال نہیںہوتے : (اُسْتُضْعِفُواْ) یعنی کمزور شمار کیے گئے یا(کمزور)بنادیئے گئے؛(اِسْتَضْعَفُوْا) ''یعنی کمزوری کا اظہار کرنااستعمال ''نہیںکرتے البتّہ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ زیادہ تر مقامات پر جہاں مستضعفین یعنی (کمزورو بنادیئے گئے یاشمار کئے گئے) استعمال ہواہے،اس کے مصادیق حقیقت میں بھی بعض پہلو سے کمزور و محروم تھے لیکن یہ کمزوری اور محرومی (مثال کے طورپر مادی اعتبار سے فقیر ہونا یا معاشرہ میں کسی عہد ہ پر فائز ہونا) بذات خود بری بات نہیں ہے ۔

۳۰۱

دوسرا قابل توجہ نکتہ ''استکبار''اور دولتمند ہونے کا تعلق ہے ۔بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ تمام دولتمند افراد مستکبرہیں اور کبھی کبھی ان دونوںلفظوں کو ایک دوسرے کے مترادف شمار کرلیتے ہیں لیکن یہ تصور غلط ہے ۔جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ''استکبار'' اس اعتبار سے کہ اس کا مطلب خود کو بڑا سمجھ لینا ہے اور اس کے اندر حق کے مقابلہ میں طغیان و سرکشی کرنا شامل ہے جو ایک مذموم بات ہے اورایک منفی رخ پایاجاتا ہے لیکن استکبار کا مطلب نہ تو دو لتمند ہوناہے اور نہ ہی دونوںایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں لہٰذا استکبار سے متعلق آیات کی بنیاد پرقطعی نہیں کہا جاسکتا کہ دولتمندہونا با لذات نا پسند چیز ہے اورہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ تاریخ میں سب سے زیادہ دولت رکھنے والوں میں سے ایک حضرت سلیمان علیہ السلام بھی ہیں ۔تو کیا پیغمبر خدا کو، صرف ان کے پاس دولت ہونے یا معاشرہ میں ممتاز مقام وحیثیت ہونے کی وجہ سے مستکبر کہا جاسکتا ہے؟قطعاًایسانہیںکہا جاسکتا ۔تو معلوم ہواکہ کسی کو صرف اسکے دولتمندہونے یاکسی سماجی عزت و منصب پر فائز ہونے کے سبب مستکبر نہیں سمجھناچاہئے ۔اس مدعا کا دوسرا شاہد یہ ہے کہ قرآ ن کریم کی روسے ایک روزخود مستضعفین مقام ولایت وحکومت پر فائز ہوںگے اور معاشرہ میں اعلی سماجی حیثیت حاصل کریںگے :( وَنَجْعَلَهُمْ اَئمِةً وَنجْعَلُهُمْ ) ( ۱ )

''اورہم ان کو (لوگوں کا )پیشوا قراردیں گے اور ان کو (زمین کا)وارث بنادیں گے ''

کیا یہ گروہ صرف وعدئہ الٰہی پورا ہوتے ہی واضح متکبروں کی صف میں شمارکیا جانے لگے گا ؟

اسی طرح قرآن کے بقول مستضعفین مستکبروں کے وارث ہو ںگے اور ان کا اموال و اسباب سب کچھ اپنے اختیار میں لیںگے :( وَاَوْرَثْنَاالْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْایُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَٰرِقَ الْاَرْضِ وَمَغَٰرِبَهَاالَّتِیْ بٰرَکْنَافِیْهَا ) ( ۲ )

''اور جن گروہ کو مسلسل محروم وکمزور رکھا گیاانھیں (سرزمین فلسطین کا )ایک مغربی اور مشرقی حصہ ہم نے وراثت میں عطا کردیا ۔۔۔''۔

____________________

۱۔سورئہ قصص آیت۵۔

۲۔سورئہ اعراف آیت ۱۳۷۔

۳۰۲

عوام کا انبیا ء علیہم السلام کے ساتھ برتائو

جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ قرآن کریم کی بعض آیات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امت کے تمام لوگ انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور بعض آیات یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس کا م کا آغاز لوگوں کے ایک خاص طبقے یعنی مترفین اور مستکبرین کے ذریعے ہوتا اور پھر ان کے پروپگنڈوںاور دوسروں کے مطیع بن جانے کے سبب انبیاء علیہم السلام کی وسیع پیمانے پر مخالفت اورانہیںجھٹلاناشروع ہوجاتا۔انبیاء علیہم السلام سے جنگ کرنے والے مستکبروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے جھوٹے معیارات کی بنیا د پر معاشرہ میں اپنا خاص مقام بنائے ہوئے تھے اور اپنی دولت کی بنیاد پر عیش و عشرت میں زندگی بسر کرنے میں مصروف رہتے تھے،کمزور طبقہ کے لوگوں پر فخر و مباہات جتاتے اور معاشرہ میں اپنے مقام و منصب سے فائدہ اٹھاکر دوسروں کوبھی اپنی اطاعت پر مجبور کرکے لوگوں کو انبیاء علیہم السلام کے خلاف جنگ کی دعوت دیا کرتے تھے ۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ انبیائے الٰہی کی تعلیمات کفر و شرک کے علم برداروں کے ظالمانہ اقتدار کو نیست و نابود کرتی ،ان کے تسلّط کو پاش پاش کردیتی اور لوگوں کو خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کے قوانین کی اطاعت و پیروی کی دعوت دیا کرتی تھیں ۔اس طرح کے ماحول میں ظاہر سی بات ہے کہ کفّار و مشرکین مختلف طریقوں سے انبیا ء کے خلاف جنگ میں مشغول ہوجایا کرتے تھے وہ سمجھتے تھے اس طرح ان کی تبلیغ کے فر وغ کو روک دیں گے اور اپنے طاغوتی تسلّط کو ہمیشہ بر قرار رکھنے میں کا میاب ہو جا ئیں گے ہم گفتگو کے اس حصّہ میں قرآن کریم کی آیات کی روشنی میںانبیاء علیہم السلام کے خلاف (کفّار و مشرکین )کی جنگ کے اہم طریقوں کا جا ئزہ لیں گے۔

۳۰۳

مذاق اڑا نا

بعض آیات میں ملتاہے کہ بلاکسی استثناء کے لوگوں نے تمام انبیاء علیہم السلام کا مذاق اڑا نے کی کو شش کی ہے:

( یَٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبادِمَایَا تِیْهِمْ مِنْ رَسُوْلٍ اِلّاَ کَانُوْا بِهِ یَسْتَهْزِئُ وْنَ ) ( ۱ )

'' افسوس ان بندوں کے حال پر کہ جس کے درمیا ن کوئی رسول نہیں آیا مگر یہ کہ ان لوگوں نے اسکے ساتھ مسخرا پن ضرورکیا ''

( وَمٰا یَأْتیهِمْ مِنْ نَبیٍ اِلّاٰکٰانُوا بِه یَسْتَهْزُؤُنَ ) ( ۲ )

''اور ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر یہ کہ ان لوگوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو ''

( وَمَا یَْ تِیْهِمْ مِنْ رَسُوْلٍ اِلّاَکَانُوْا بِهِ یَسْتَهْزِئُ وْنَ ) ( ۳ )

''ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر ان لوگوں نے اس کی ضرور ہنسی اڑائی ''

ان تینوں آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مخا لفین کا ایک طریقہ ان کا مذاق اڑانا تھا لیکن یہ مذاق اڑا نے کا اندازکیا تھا ؟اس کے جوا ب میں ہماری راہنمائی کے لئے قرآن کریم کی بعض آیات موجود ہیں ۔نمونہ کے طور پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کا فروں کے رویہ کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے:

( وَاِذَارَئَ اکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااِنْ یَتَّخِذُوْنَکَ اِلَّاهُزُواً َهَٰذَاالَّذِی یَذْکُرُ اٰلِهَتَکُمْ ) ( ۴ )

''اور جب تمھیں کفّار دیکھتے ہیں تو بس تم سے مسخر اپن کرتے ہیں (اور کہتے ہیں )کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کو (برا بھلا )کہتا ہے ؟۔۔۔''

مشرکین اپنے ان حقارت آمیز الفاظ سے (کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبو دوں کو برے الفاظ سے یاد کرتا ہے ؟ پیغمبر اسلام کامذاق اڑا نے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ ان کو لوگوں کی نظروں میں گرا دیں ۔اسی سے ملتی جلتی یہ تعبیر ایک اور آیت میں بھی نقل ہوئی ہے :

____________________

۱۔سورئہ یس آیت۳۰۔

۲۔سورئہ زخرف آیت۷۔

۳۔سورئہ حجر آیت۱۱۔

۴۔سورئہ انبیاء آیت۳۶۔

۳۰۴

( وَاِذَارئَ اکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا هُزُواًأَهَٰذَاالَّذِی یَذْکُرُ ئَ الِهَتَکُمْ ) ( ۱ )

'' اور (اے رسول )یہ لوگ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو محال نہیں کہ آپ کا مذاق نہ اڑائیں (کہ ) کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کو (برا بھلا)کہتا ہے؟''۔

مشرکین اپنے ان حقارت آمیز الفاظ سے ( کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے مبعو دوں کو برے الفاظ سے یاد کرتا ہے ؟ ) پیغمبر اسلا م کا مذاق اڑا نے کی کو شش کیا کرتے تھے کہ ان کو لو گوں کی نظروں میں گرا دیں ۔ اسی سے ملتی جلتی تعبیر سورئہ فر قان میںبھی نقل ہوئی ہے :

( وَاِ ذَارَئَ وْک اِن یتَّخِذُ وْنَکَ اِلَّا هُزُواً اَهَٰذاَالَّذِی بَعْثَ ﷲ رَسُوْ لاً ) ( ۲ )

'' اور ( اے رسول ) یہ لوگ جب آپ کودیکھتے ہیں تو محا ل نہیں کہ آپ کا مذاق نہ اڑا ئیں (کہ ) : کیا یہ وہی ہیں جنھیں ( ﷲ نے) رسول بنا کر بھیجا ہے ''

بعض آیات میں مومنین کا مذاق اڑا نے کی باتیں بھی ملتی ہیں :

( اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْاکَانُوْامِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْایَضْحَکُوْ نَوَاِذَامَرُّوْابِهِم یَتَغَامَزُوْ نَوَاِذَا انْقَلَبُوْااِلَیٰ اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْافَکِهِیْنَ وَاِذَارَأَوْهُمْ قَالُوْااِنَّ هَٰؤُ لَائِ لَضَالُّونَ ) ( ۳ )

''ہاں، دنیا میں جو گنہگار، مو منوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے اور جب ان کے پاس سے گذر تے تو آپس میں آنکھیں ما را کرتے تھے اور جب اپنے گھر والوں میں لو ٹ کر آتے تو ٹھٹے لگاتے اور جب ان ( مو منین ) کو دیکھتے تو کہتے تھے کہ(دیکھو ) یہ لوگ توگمراہ ہو چکے ہیں '' ۔

بہر حال انبیاء علیہم السلام کے مخالفوں میں رائج عام روش یہ تھی کہ وہ اپنے نبیوںاور ان کے پیرؤوں کی رفتا ر و گفتار کا مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ وہ ان کا اتنا زیادہ مذاق بناتے کہ اگر انبیا ء علیہم السلام عام افراد ہو تے اورخداوند عالم کی قدرت اور حمایت پر اعتماد نہ کرتے تو یقیناً پیچھے ہٹ جاتے اور میدان چھوڑکر باہر ہو جاتے ۔ اس لئے کہ جب معاشرہ میں کسی شخص کا خاص و عام تمام افراد مضحکہ کرنے لگیں تو وہ بڑی مشکل سے ہی ان کے سامنے ٹھہر پاتا ہے اور ایسے مواقع پر اگر کو ئی مصلحت ا ند یش ہو ا تو وہ عام طور پر مسخرہ کرنے والے گروہ سے دوری اختیار کرلیتا ہے بلکہ اس معاشرہ ہی کو ترک کردیتا ہے لیکن چونکہ انبیاء علیہم السلام کی رسالت خداوند عالم کی عطا کر دہ رسالت تھی اور انھیںخدا

____________________

۱۔سورئہ انبیا آیت ۳۶ ۔۲۔سورئہ فرقان آیت۴۱۔۳۔سورئہ مطففین آیات ۲۹۔ ۳۲۔

۳۰۵

کی طرف سے صبر و استقامت کا حکم تھا وہ جان پر بن آنے کے با وجود دشمنوں کی ہنسی مذاق کا مقابلہ کرتے تھے ۔

تہمت

جب مخالفوں کو ہنسی مذاق چھچھو ری حر کتوںسے کو ئی فا ئدہ نہ ملتا اور انبیاء علیہم السلام اسی طرح محکم و استوار اپنا کام جا ری رکھتے تو وہ دوسرا طریقہ اختیار کرتے تھے جس کو آج کل کی اصطلاح میں '' شخصیت کا قتل '' یاخا تمہ کہا جاتا ہے ۔اس کا ایک طریقہ یہ تھا کہ نا روا تہمتیںلگا ئی جا تی تھیں ۔ مخالفین تہمتوں اور ناروا نسبتوں کے ذریعہ یہ کوشش کرتے تھے کہ انبیا ء علیہم السلام کی کار کردگی کو مناسب اور الٹی تصویر پیش کریںاور لوگوں کو انبیاء علیہم السلام کے قریب نہ ہو نے دیں ۔ قرآن کریم نے انبیاء علیہم السلام کے بارے میں عام طور پر رائج جس تہمت کا ذکر کیا ہے وہ جادوگری ''سحر'' اور دیوانگی '' جنون'' کی تہمت ہے ۔ قرآن کریم کی بعض آیات سے پتہ چلتا ہے کہ خداوند عالم کے تمام انبیاء علیہم السلام پر یہ دو تہمتیں لگائی گئی ہیں :

( کَذَلِکَ مَا اَتَیَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّاقَالُوْاسَاحِراَوْمَجَنُوْ ن ) ( ۱ )

'' اسی طرح ان سے پہلے کے لو گوں کے درمیان بھی کو ئی نبی نہیں آیا مگر یہ کہ اس کو جادو گر کہتے یا دیوانہ کہہ دیا گیا ''۔

اس کے بعد خدا وند عالم فرماتا ہے :

( اَتَوَاصَوْابِهِِ بَلْ هُمْ قَومطَاغَوْنُ ) ( ۲ )

'' کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کردیا کر تے ہیں ؟ ( نہیں ) بلکہ یہ لوگ ہیں ہی سر کش '' ۔

جا دو گری اور دیوانگی کے الزام کا منصوبہ اس وسیع سطح پر رواج پا چکا تھا کہ لگتا تھا لوگوں نے ایک دو سرے کو اس کام کی وصیت کردی ہو اور گو یا لو گوں نے ہر پیغمبر کو ان دو آفتوں سے متہم کرنے کی سازش رچ رکھی ہو البتہ حقیقت پو چھئے تو پہلے سے کسی سازش کے رچے جا نے کی بات نہیں تھی '' بل ھم قوم طاغون'' بلکہ اس گروہ کی لو گوں سے سرکشی اس طرح تہمتیں لگانے کا باعث ہو تی تھیں۔

بعض آیات میں مخصوص انبیاء علیہم السلام کو جنون اور( دیوانگی ) سے متہم کرنے کا ذکر بھی مو جود ہے مثال کے طور حضرت نو ح علیہ السلام کی قوم کے با رے میں آیا ہے :

____________________

۱۔سو رئہ ذاریات آیت ۵۲ ۔۲۔سورئہ ذاریات آیت ۵۳۔

۳۰۶

( کَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَکَذَّ بُواعَبْدَنَاوَقَالُوْامَجْنُوْن وَازْدُجِرَ ) ( ۱ )

'' ان سے پہلے نوح کی قوم نے ( بھی ) جھٹلایا تھااور انھوں نے ہمارے بندے (نوح) کو جھٹلایا اور کہنے لگے : یہ تو دیوانہ ہے ۔ اور اس کے بعد ان کو جھٹر کا بھی '' ۔

اور یہ بھی امت نوح کی زبانی نقل ہو ا ہے:

( اِنْ هُوَاِلّاَرَجُل بِهِ جِنَّة فَتَرَ بَّصُوْابِهِ حَتَّیٰ حِیْنٍ ) ( ۲ )

'' وہ تو یو ں ہی بس ایک آدمی ہے جسے جنون ہوگیا ہے پس ایک خاص وقت تک اس سے دست بردار ہوجاؤ''

اور کبھی ان پر گمراہی اور ضلالت کی تہمت لگایا کرتے تھے :

( قَٰالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ اِنَّا لَنَرَیٰکَ فِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ ) ( ۳ )

''ان کی قوم کے چند سرداروں نے کہا :ہم تو یقین ہے کہ تم کُھلم کُھلّا گمراہی میں ہو ''۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی اسی طرح کی آیات موجود ہیں کہ جن میں ان پردیوانگی کی تہمت کو نقل کیاگیا ہے ۔منجملہ ان کے سورئہ مبارکہ شعراء میں ہے :

( قَالَ اِنَّ رَسُوْلَکُمْ الَّذِی اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُون ) ( ۴ )

''(فرعون )نے کہا (لوگو! )واقعاً یہ رسول جو تمہارے پاس بھیجا گیا ہے ۔ہونہو دیوانہ ہے'' ۔ جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کٹ حجتی کی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محکم و استوار جوابات کے مقابلہ میں کو ئی بس نہ چلا تو اس کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیوانہ کہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا ۔اگرہم غور کریں تو مندرجہ بالا آیت فرعون کی تہمت نقل کرنے کے ساتھ اس کے مذاق اڑا نے کے لہجے کو بھی بیان کرتی ہے اس لئے کہ فرعون کی گفتگو کا انداز یہ ہے کہ جو شخص حقیقت میں پیغمبر نہ ہو بلکہ صرف پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ دیوانہ ہے ۔

فرعون کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دیوانگی اور جادو گری کی تہمت لگانے کا قصہ دوسری آیت میں بھی نقل ہواہے :

____________________

۱۔سورئہ قمر آیت ۹۔۲۔سو رئہ مو منون آیت ۲۵۔۳۔سورئہ اعراف آیت۶۰۔۴۔ سورئہ شعراء آیت۲۷۔

۳۰۷

( فَتَوَلّیَٰ بِرُکْنِهِ وَ قَالَ سَٰحِراَوْمَجْنُوْن ) ( ۱ )

''پس( فرعون) نے منھ پھیر لیا اور کہا:(یہ شخص)جادوگر دیوانہ ہے ''۔

چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے دربار میں داخل ہونے کی اجازت بڑی مشکلوں کے ساتھ ملی تھی فرعون نے ایک دم لا پرواہی کے ساتھ منھ موڑتے ہوئے کہا :وہ یا توجادوگر ہے یا دیوانہ ہے ۔ عربی میں ''تولّی بِرُکنہ'' اس مقام پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں ایک شخص کسی دوسرے شخص یا چیز کی طرف سے لا پروا ہ ہوکر منھ پھیر لے ۔

حضرت ہود علیہ السلام پر بھی بے وقوفی اور کم عقل ہو نے کی تہمت لگائی گئی ہے :

( قَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ کَفَرُوْامِنْ قَوْمِهِ اِنَّالَنَرَیٰکَ فِی سَفَاهَةٍ وَاِنَّالَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ ) ( ۲ )

''ان کی قوم کے چند سردار کا فر تھے کہنے لگے :ہم کوتو تم حماقت میں (مبتلا) نظر آرہے ہو اور ہم کو یقین ہے کہ تم جھو ٹے ہو ''۔

جنون و دیوانگی کی تہمت تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی لگائی گئی ہے :

( وَقَالُوایَااَیُّهَاالَّذِی نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّکْرُاِنَّکَ لَمَجْنُون ) ( ۳ )

''اور انھوں نے کہا :اے وہ شخص کہ جس پر قرآن نازل ہواہے یقینا تو دیوانہ ہے ''۔

اس آیت میں کفا ر کا لہجہ فرعون کے لہجہ کی مانند ہے ۔وہاں اُس نے کہاتھا :

( اِنَّ رَسُولَکُمْ الَّذِی اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُون )

'' (لوگو)یہ رسول جوتمہارے درمیان بھیجا گیا ہے ہونہ ہو دیوانہ ہے ''اور یہاںکفّار تمسخرآمیز لہجہ میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتے ہیں :اے وہ شخص کہ جس پر قرآن نازل ہواہے یعنی اے وہ جو خودپر آسمان سے کتاب نازل ہونے کا دعویٰ کررہا ہے توحقیقت میں دیوانہ ہے (ورنہ ایسی بات نہ کرتا)گو یایہاں بھی مخالفین نے پیغمبر پر بڑے پُرزور لہجے میں دیوانگی اور جنون کی تہمت لگائی ہے اس لئے کہ جملہ اسمیۂ( اِنَّکَ لَمَجْنُونْ ) اور حرف تاکید (اِنَّ)اور ''لام''کا استعمال بتا تا ہے کہ انھیں اپنے دعوے پر زیادہ اصرارتھا ۔

____________________

۱۔سورئہ ذاریات آیت۳۹۔۲۔سورئہ اعراف آیت۶۶۔۳۔سورئہ حجرآیت۶۔

۳۰۸

( وَیَقُولُونَ اِنَّهُ لَمَجْنُون ) ( ۱ )

''۔۔۔اوروہ کہا کرتے تھے :وہ واقعاً دیوانہ ہے :

( ثُمَّ تَوَلَّواعَنْهُ وَقَالُوامُعَلَّم مَجْنُون ) ( ۲ )

''پھر انھوں نے اس سے منھ چراتے ہوئے کہا یہ تو تعلیم یافتہ دیوانہ ہے ''۔

دیوانگی کی تہمت کے علاوہ وہ لوگ پیغمبر کو بعض وقت سر پھرا شاعر بھی کہا کرتے تھے اورشاعری کی تہمت کو خاص طور پر اس وقت اور زیادہ بڑھتی تھی جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فصاحت و بلا غت سے لبریز قرآنی آیا ت زبان پر جاری فرماتے تھے ۔اس مقام پر پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخالفوں نے آپ کو ایک شاعری جاننے والا پیغمبر ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھکر آپ کو( اشعار کا)گویّا قرار دیا ہے :

( وَ یَقُولُونَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْائَ الِهَتِنَالِشَاعِرٍمَجْنُوْنٍ ) ( ۳ )

''اور یہ لوگ کہتے تھے کہ کیا ایک پاگل شاعر کے لئے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑبیٹھیں ؟''۔

( بَلْ قَالُوْااَضْغَٰثُ اَحْلٰمٍ بَلِ افْتَرَیٰهُ بَلْ هُوَشَاعِر ) ۔۔۔''( ۴ )

''بلکہ کہتے:(یہ قرآن تو) اس کے خوابہائے پریشان کا مجموعہ ہے (نہیں )بلکہ اس نے (اپنے جی سے) جھوٹ موٹ گڑھ لیا ہے بلکہ یہ شخص (خالص) شاعر ہے ''۔

( اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِر نَتَرَبَّصُ بِهِ رَیْبَ الْمَنُوْنِ ) ( ۵ )

''یا یہ لوگ کہتے کہ (یہ )شاعر اور ہم اب اس کی مو ت کا انتظار کررہے ہیں یعنی موت کے سوا اب کو ئی چیز اس کا علا ج نہیں کر سکتی ''۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نا روا تہمتیں اور طرح طرح کی نسبتیںلگا ئی جاتی تھیںحتیّٰ کہہ دیا کہ پیغمبر پر جادو کیا گیا ہے اورآپ پر جادو گروں کے جادو کااثر ہے:

( ذْیَقُوْلُ الظَّٰالِمُوْنَ اِنْ تَتََّبِعُوْنَ اِلّارَجُلاً مَّسْحُوْراً ) ( ۶ )

____________________

۱۔سورئہ قلم آیت۵۱۔ ۲۔سورئہ دخان آیت۱۴۔۳۔سورئہ صافات آیت۳۶۔ ۴۔سورئہ انبیاء آیت۵۔۵۔سورئہ طور آیت۳۰۔ ۶۔سورئہ اسراء آیت۴۷۔

۳۰۹

''اور جب ظالم کہتے ہیں کہ تم تو بس ایک (دیوانے)آدمی کے پیچھے بھاگ رہے ہوجس پر کسی نے جادو کردیا ہے ''۔

اس طرح ایک طرف تو کفار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جادوگری کاا لزام لگاتے تھے اور دوسری طرف آپ کی رسالت کو بے اعتبار کرنے کے لئے آپ کوجادو سے متأثر اور مسحور شخص کہا کرتے تھے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کا ہن ہو نے کا الزام بھی لگا یا گیا ۔کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جس کاجنوں سے ر ابطہ ہو یا جس نے جن کو قبضہ میں کر رکھا ہو اوروہ ان (اَجِنَّہ ) کے سکھا ئے پر عمل کر تا ہو چنا نچہ مشرکین نے جب دیکھاکہ پیغمبر کو ساحر ،شاعر اور دیوانہ کہنے سے کو ئی فا ئدہ حا صل نہیں ہو رہا ہے تو انھوں نے آپ کو کا ہن کہنا شروع کر دیا ۔

یہ بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے پیغمبراکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لگائی جانے والی تہمتوں کے جواب میں چپ رہنا جائز نہیں سمجھا اور آپ کی ذات گرامی کا دفاع کرتے ہوئے جواب دیا ہے :

( اِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ وَمَاهُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍقَلِیلْاً مَّا تُؤْمِنُوْنَ ) ( ۱ )

''بے شک یہ (قرآن )ایک محترم ایلچی کا پہنچایا ہوا قول ہے کسی شاعر کی تک بندی نہیں ہے (کہ)تم میں بہت کم لوگ ایمان لائے ہیں''۔

( وَمَاعَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَوَمَا یَنْبَغِِیْ لَهُ ) ( ۲ )

''اور ہم نے نہ اس (پیغمبر )کو شعر کی تعلیم دی ہے اور نہ شاعری ان کی شایان شان ہے ''۔

( فَذَکِّرْفَمَااَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِکَاهِنٍ وَلاَمَجْنُونٍ ) ( ۳ )

''تو (اے رسول)تم نصیحت کئے جاؤ (کیونکہ)تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ کا ہن ہو ا ور نہ مجنون ''

( وَلاٰبِقَوْلِ کَٰاهِنٍ قَلِیْلاً مٰا تَذَکَّرُونَ ) ( ۴ )

''اور نہ کسی کا ہن کی (خیالی )بات ہے کہ تم لوگ (اس سے ) کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو ''۔

یہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ انبیائے الٰہی پر لگا ئے گئے سب سے اہم الزامات کامحض ایک حصہ ہے ۔ یقیناً انبیاء

پر دوسری تہمتیں بھی لگائی گئی ہیں جو بہت زیادہ رائج نہیں تھیں لہٰذا ہم ان کے بیان کرنے سے قطع نظرکرتے ہیں۔

____________________

۱۔سورئہ حاقہ آیت ۴۰۔ ۴۱۔۲۔سورئہ یس آیت۶۹۔۳۔سورئہ طور آیت۲۹۔۴۔سورئہ حا قہ آیت۴۲۔

۳۱۰

بہانہ تلاش کرنا

گذشتہ قوموں کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے اپنے انبیا ء کا مذاق اڑا تے اور اس کے بعد ان پر دیوانگی اورجادوگری کی ناروا نسبتیں دیتے لیکن جب انبیاء علیہم السلام سے معجزے ظاہر ہوتے اور مخالفین کی سا زشیں نا کام بنا دی جا تیں تو وہ دوسرا طریقہ اپنا تے اور بہا نے بنانا شروع کردیتے تھے کہ پیغمبرگھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جا ئے اور اپنی دعوت تبلیغ سے باز آجائے چنا نچہ ہم اس حصّہ میں مختصر طور پر ان بہانوں کوبیان کریں گے جوعام طور پر مختلف امتوں کے درمیان رائج تھے ۔

مخالفین کا ایک عام بہانہ اپنے آباؤ اجد اد کے دین پر باقی رہنا اور نئے دین کے انتخاب پر تیار نہ ہو نا تھا :

( وَاِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْامَااَنْزَلَ اللَّهُ ُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاوَجَدْ نَاعَلَیْهِ آبَائَ نَا ) ( ۱ )

''اور جب ان سے کہا جاتا :جو خدانے نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو (چھوٹتے ہی )کہتے : (نہیں!)بلکہ ہم تو اسی(طریقہ )پرچلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داداؤں کو پایا''

کافروں کا ایک اوربہانا جس کا وہ سہا را لیتے یہ تھا :خدا کو ہم سے براہ راست گفتگو کرنا یا ہمارے لئے براہ راست معجزے بھیجنا چاہئے:

( وَقَالَ الَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ لَوْلَا یُکَلِّمُنَا اللَّهُ اَوْتَْتِیْنَا آیَة کَذَلِکَ قَالَ الذین مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ ) ( ۲ )

''اور جا ہل و نا دان افراد کہتے ہیں کہ خدا ہم سے (خود ) کلام کیوں نہیں کرتا ؟ یا ہمارے پاس معجزہ کیوں خود نہیں آتا ؟ اسی طرح کی باتیں وہ لوگ کرچکے ہیں جو ان سے پہلے تھے اُن سب کے دل اور فکریں آپس میں ملتی جُلتی ہیں ۔۔۔''

اس طرح کفار پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت قبول کرنے سے بچنے کے لئے نار و اقسم کی خوا ہشیں کیا کرتے تھے بعض( خواہشوں ) کے تو پورا نہ ہونے سے وہ خود بھی آگاہ ہو تے تھے ۔

قرآن نے اس آیت میں بیان کیاہے کہ اس طرح کے بہانے تلاش کرنا مکہ کے مشر کوں سے مخصوص نہ تھابلکہ گذشتہ قوموں کے درمیان بھی ایسے لوگ مو جود تھے اور یہ یکسانیت جو کافروں کے دلوں اور نیّتوں کی مشابہت کا

____________________

۱۔سورئہ لقمان آیت۲۱۔

۲۔سورئہ بقرہ آیت۱۱۸۔

۳۱۱

نتیجہ تمام زمانوں میں رہی ہے ۔

قرآن کریم نے سورئہ مبارکہ انعام کی آیات میں بھی اسی کے مشابہ بہانے تلاش کرنے کی طرف میں اشارہ کیاہے :

( وَکَذَلِکَ جَعَلْنَافِی کُلِّ قَرْیَةٍاَکَابِرَمُجْرِمِیِْهَالِیَمْکَُرُوْافِیْهَاوَمَایَمْکُرُوْنَ اِلَّابِاَنْفُسِهِمْ وَمَایَشْعُرُوْنَوَاِذَاجَائَتْهُمْ آیَة قَالُوْالَنْ نُؤمِنَ حَتّیَٰ نُوْتَیٰ مِثْلَ مَااُوْ تِیَ رُسُلُ ﷲ ) (۱)

'' اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے قصور واروں کواس کام میں لگادیاکہ ان میں مکاری کیا کریں اور وہ لوگ جو بھی مکاری کرتے ہیںخود اپنے ہی خلاف کر تے ہیں اور اس کا شعور نہیں رکھتے اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں : جب تک ہم کو وہ چیز نہ دی جائیگی جو پیغمبر انِ خدا کو دی گئی ہے ہم ہرگز ایمان نہ لائیںگے ۔۔۔'' ۔

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبرجس شہر اور جس جگہ بھی مبعوث کئے جاتے تھے وہا ں کے غنڈوں اور بد معاشوں کے سردار اور بڑے بڑے مجرمین مکروحیلے سے کام لیتے تھے اور ان کا ایک بہانہ یہ تھا کہ وہ اپنے ایمان لانے کے لئے یہ شرط لگاتے تھے کہ خدا کو ان کے ساتھ بھی اپنے انبیاء جیسی رفتار کرنا چا ہئے اور جس طرح اس نے اپنے رسولوں کو معجزے عطا کئے ہیں ان کو بھی معجزے عطا کرے ۔

اورکبھی کبھی مشر کین و کفا ر اس طرح کی بے عقلی کے مطالبے بھی کیا کرتے تھے کہ خو د ان کے پاس فر شتے کیوں نہیںنا زل ہوتے یا وہ براہ راست اپنے پر ور دگا ر کو کیوں نہیں دیکھتے!

( وَقَالَ الَّذِیْنَ لَایَرْجُوْ نَ لِقَائَ نَالَوْلَااُ نْزِلَ عَلَیْنَاالْمَلَاْ ئِکَةُاَوْنَرَیٰ رَبَّنَا ) ( ۲ )

'' اور جن لوگوں کو ہماری ملاقات کی امید نہیں ہے کہا کر تے ہیں کہ آخر ہم پر فر شتے کیو ں نہیں نا زل کئے گئے یا ہم اپنے پر ور دگار کو( کیو ں نہیں) دیکھتے ؟''

( لَوْمَاتَاتِیْنَابِالْمَلَٰئِکَةِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ ) ( ۳ )

'' اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو فر شتے کو ہما رے سامنے کیو ں نہیں لا کھڑا کر تے''۔

بعض او قات ان کا یہ بہا نہ ہو تا کہ پیغمبر پر (کیوں ایسا ) فرشتہ نہیں نا زل ہو تا کہ جس کو ہم بھی دیکھیں ؟یا ان

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت ۱۲۳۔۱۲۴۔۲۔سورئہ فر قان آیت ۲۱۔۳۔سورئہ حجر آیت۷۔

۳۱۲

کے ساتھ( فرشتہ) کیو ں نہیں چلتاپھرتا ؟اوریا خدا وند عالم آسمان سے اپنے پیغمبر پر خزا نہ کیو ں نہیں نا زل کرتا :

( وَقَالُوْالَوْلَااُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَک ) ( ۱ )

''اور انھوں نے کہا :ان پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ؟۔۔۔''۔

سورئہ ہود میں ارشا د ہوتا ہے :

( لَوْلَااُنْزِلَ عَلَیْهِ کَنْزاَوْجَائَ مَعَهُ مَلَک ) ( ۲ )

''ان پر خزانہ کیوں نہیں نازل کیاگیا یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا ؟۔۔۔''۔

بعض آیات میں کفار کی زبانی یہ بھی نقل ہوا ہے کہ وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراضات کیا کرتے کہ آخر ان پر کوئی آیت یا معجزہ کیوں نہیں نازل ہوتا :

( وَیَقُوْلُ الَّذَینَ کَفَرُوْالَوْلَااُنْزِلِ عَلَیْهِ آیَة مِنْ رَّبِّهِ ) ( ۳ )

''اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں کہتے ہیں کیوں ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر کوئی معجزہ نازل نہیں ہورہا ہے ؟۔۔۔''۔

( وَقَالُوالَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْهِ آیَات مِنْ رَبِّهِ ) ( ۴ )

''اور انھوں نے کہا :کیوں ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے معجز نمانشانیاں نازل نہیںہوتیں ؟۔۔۔''

اس طرح کی گفتگو سے کافروں کا مقصد کیا تھا اس بارے میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:

۱۔اولاً:وہ یہ جتا نا چاہتے تھے کہ قرآن معجزہ نہیںہے اور اس کی کوئی اہمیّت نہیں ہے اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ کوئی معجزہ لیکر نہیں آئے ہیں ۔

۲۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ (آیات من ربہ )سے ان کی مراد مطلق طور پر معجزہ نازل ہو نے سے انکار نہیں تھا بلکہ ان کے مد نظر مخصوص قسم کا معجزہ تھا جس کے بعد کوئی بھی پیغمبر کی مخالفت کی جرأت نہ کرے اور سب ان کے سامنے

____________________

۱۔سو رئہ انعام آیت ۸۔۲۔سورئہ ہودآیت۱۲۔۳۔سورئہ رعدآیت۷۔۲۷۔۴۔سورئہ عنکبوت آیت۵۰۔سورئہ انعام آیت۳۷۔سورئہ طٰہ آیت۱۳۳۔

۳۱۳

سر تسلیم جھکانے پر مجبور ہو جائیں ۔قرآن کریم نے سورئہ مبارکۂ شعرا ء میں اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر چہ یہ کام قدرت الٰہی کے دائرہ سے دور نہیں ہے لیکن خدا نے خود ایسا نہیں چا ہا ہے :

( اِنْ نَشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِنَ السَّمَآئِ آیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَاخَاضِعِیْنَ ) ( ۱ )

''اگر ہم چاہیںتو آسمان سے ان پر ایسا معجزہ نازل کردیں کہ اس کے سامنے ان لوگوں کی گردنیںجھک جائیں ''۔

بہر حال بہانہ ڈھونڈنے والے مشرکین اسی طرح کی باتیں بنایا کرتے تھے کہ خداوند عالم اپنے پیغمبر پر معجزہ کیوں نہیں نازل کرتا ۔

کفّار کا ایک گروہ وہ بھی تھا جو قرآن سے متعلق بہانے تلاش کیا کرتا تھا کبھی وہ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوسرا قرآن لانے یا موجودہ قرآن میں تغیر و تبدل کرنے کی درخواست کرتے ہو ئے کہتے:

( وَذَا تُتْلَیٰ عَلَیْهِمْ ئَ ایَاتُنَا بَیِّنَٰتٍ قَالَ الَّذِ یْنَ لَایَرْجُوْنَ لِقَائَ ناَائْتِ بِقُرْئَ انٍ غَیْرِهَذَااَوْبَدِّلْهُ ) ( ۲ )

''اور جب ان لوگوں کے سامنے ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جن کو ہماری ملا قات کی امیدنہیں ہے کہتے ہیں :(اس قرآن کے بجائے کوئی اور دوسرا قرآن لاؤیا اس کو بدل ڈالو )''۔

کفّار کا یہ عمل بڑا ہی ہو شیارانہ تھا وہ کہا کرتے تھے ا گر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئیں تو دوسراقرآن لے آئیے یا اس قرآن کو بدل دیجئے ۔اب اگر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان مطالبوں کوقبول کرلیتے ۔ تو وہ یہ نتیجہ نکالتے کہ یہ حقیقی پیغمبر نہیں ہیںکیو نکہ یہ جس کتاب کے آسمانی ہونے کے مدعی تھے اس میںانھوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے ردّو بدل کردی ہے یا اس کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔

اوراگر پیغمبر ان کے مطالبے کو قبول نہیں کرتے (اور حقیقتاً ایسا ہی ہو ا)تووہ کہہ سکتے ہیں :چونکہ آپ نے ہماری درخواست قبول نہیں کی لہٰذا ہم آپ پر ایمان نہیں لائے ۔قرآن کے بارے میں کفّار کے دوسرے بہانوں میں ایک اعتراض قرآن کے تدریجی طور پر نازل ہونے کے متعلق تھا :

( وَقَالَ الَّذینَ کَفَرُوالَوَْلَانُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ شعرا ء آیت ۴۔ ۲۔سورئہ یونس آیت۱۵۔۳۔سورئہ فرقان آیت۳۲۔

۳۱۴

''اور کفّار کہنے لگے کہ:ان پر قرآن ایک ساتھ کیوں نہیں نازل کیا گیا ۔۔۔؟''۔

کبھی کبھی اُن کے لبوں پر یہ شکوہ بھی ہو تاکہ یہ قرآن ایک عام انسان پر (کہ جس کے پاس نہ مال ہے نہ دولت اور نہ ہی معاشرہ میں کوئی مقام ) کیوں نازل کیاگیا اور شہر مکہ یا مدینہ کی کسی بڑی شخصیت پر کیوں نہیں نازل ہوا :

( وَقٰالُوا لَوْلَانُزِّلَ هَذَاالْقُرآنُ عَلَیٰ رَجُلٍ مِنَ الْقَریَتَیْنِ عَظیِْمٍ ) ( ۱ )

''اور (کفّار) کہتے:یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑںے آدمی پر کیوںنہیں نازل کیا گیا ''۔

کفار کے کچھ اور بہانے جن کو الزامات کی ہی ایک قسم شمار کیا جاسکتاہے یہ تھاکہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی دعوت کے تمام مطالب دوسرے انسانوںسے ہی سیکھے ہیں خداوند عالم کی جا نب سے نہیں ہیں لہٰذا آپ پر ایمان لانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی :

( ثُمَّ تَوَلَّوْاعَنْهُ وَقَالُوْامُعَلَّم مَّجْنُون ) ( ۲ )

''پس لوگوں نے ان سے رو گردانی کی اور کہنے لگے :یہ تو سکھایا پڑھا یاہوا دیوانہ ہے ''۔

کفّار کے اس بہانہ کو سورئہ مبارکۂ نحل میں ذرا صاف طور پر بیان کیا گیا ہے:

( وَلَقَدْ نَعْلَمُ َ نَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَایُعَلِّمُهُ بَشَر ) ( ۳ )

''اور ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ (کفّار) کہا کرتے ہیں :بجز اس کے کچھ نہیں کہ کو ئی آدمی ان کو پڑھا تا ہے ۔۔۔''

قرآن کریم کی بعض آیات میں کفّار کے مختلف بہانوں کو ایک ساتھ بھی بیان کیا گیا ہے :

( وَقَالُوْالَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّٰی تَفْجُرَلَنَامِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعاً اَوْتَکُونَ لَکَ جَنَّة مِنْ نَخِیْلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَالْاَنْهَارَخِلَٰلَهَاتَفْجِیْراًاَوْتُسْقِطَ السَّمائَ کَمَازَعَمْتَ عَلَیْنَاکِسَفَاًاَوْتَْتِیَ بِﷲ ِ وَالْمَلَٰئِکةِ قَبِیْلاًاَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْتمِنْ زُخْرُفٍ اَوْتَرْقَیٰ فِی السَّمَائِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّیٰ تُنَزِّلَ عَلَیْنَاکِتَابَاًنَقْرَؤُهُ ) ( ۴ )

____________________

۱۔سورئہ زخرف آیت۳۱۔۲۔سورئہ دخان آیت۱۴۔۳۔سورئہ نحل آیت۱۰۳۔۴۔سورئہ اسراء آیت۹۰،۹۳۔

۳۱۵

''او ر انھوںنے کہا :جب تک تم ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ نہیںبہانکا لوگے ہم ہر گزتم پر ایمان نہ لائیں گے یا کھجوروں اور انگوروں کا تمہارا اپنا باغ ہواوراس میں تم سب کے سا منے بیچ سے نہریںجاری کرکے دکھادو یا جیسا تم ادعا کرتے ہو ہم پرآسمان ہی کو ٹکڑے (ٹکڑے) کرکے گرادو یا خدا اور فرشتوں کو ( ہمارے روبرو )گوا ہ میں پیش کرو یا تمہارے پاس کوئی طلائی محل ہو یا تم آسمان پر چڑھ کے د کھاؤ اور ہم تمہارے اوپر چلے جانے سے (بھی) مطمئن نہ ہوںگے جب تک ہمارے پڑھنے کے لئے آسمان سے کو ئی کتاب نازل نہ کرو ''۔

قارئین کرام جیسا کہ آپ نے دیکھاکہ قرآن کریم نے ان آیات میں کفّار کے نا روا مطالبوں کو اور ناقابل قبول توقعات کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ کیسے اس گروہ نے اپنا ایمان لانا ان ناروا مطالبوںکے پوراہونے کے ساتھ مشروط کر دیا ہے مندرجہ ذیل آیت میں بھی اسی طرح کے کچھ اور بہانے نقل کئے ہیں :

( وَقَالُوامَالِ هَٰذَاالرَّسُولِ یَْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْواقِ لَولَااُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَک فَیَکُونَ مَعَهُ نَذِیْراًاَوْ یُلْقَیٰ اِلَیْهِ کَنْزاَوْتَکُونُ لَهُ جَنَّة یَْکُلُ مِنْهَا ) ( ۱ )

''اور انھوں نے کہا :یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں نا زل ہواتا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ڈرا یا کرتا ؟یا ان کے پاس کوئی خزانہ ہی نا زل کردیا جاتا یا ان کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا کہ اس سے کھاتے(پیتے)؟۔۔۔''۔

یہاںیہ بات بیان کردینا بھی مناسب ہے کہ یہ بہانے تلاش کرنا مکہ کے مشرکوں سے مخصوص نہیں تھا بلکہ اہل کتاب کا بھی ایک گروہ اسلام قبول نہ کرنے کے لئے بہانے تلاش کیا کرتا تھا۔ قرآن کریم نے ان بہانوں کو بطور مفصّل بیان کیاہے یہ پہلی آیت یہودیوں کے بارے میں ہے :

( اَلَّذِیْنَ قٰالُوْااِنَّ اللَّهَ عَهِدَاِلَیْنَااَلاَّنُؤمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّیٰ یَْتِیَنَابِقُرْبَانٍ تَْکُلُهُ النَّارُ ) ( ۲ )

''انھوں نے کہا کہ:خدانے تو ہم سے عہد با ند ھاہے کہ ہم اس وقت تک رسول پر ایمان نہ لا ئیں کہ جب تک وہ ہمارے لئے قربانی نہ لائے اور اس (قر بانی) کو (آسمانی )آگ (قبول ہو جانے کی نشانی کے طور پر )بھسم نہ کر دے) ''۔

____________________

۱۔سورئہ فرقان آیت۷۔۸۔۲۔سورئہ آل عمران آیت۱۸۳۔

۳۱۶

اس طرح اہل کتاب اپنے لئے ایک مخصوص آسمانی کتاب کے خواہاں تھے :

( یَسْئَلُکَ اَهْلُ الْکِتَابِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ کِتٰبَاًمِنَ السَّمَآ ئِ فَقَدْسَأَلُوْامُوسَیٰ اَکْبَرَمِنْ ذَلِکَ فَقَالُوْااَرِنَااللَّهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصَّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمُ ) ( ۱ )

''اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تم ان پر آسمان سے کوئی کتاب پوری (ایک ساتھ) اترو ادو البتّہ یہ لوگ موسیٰ سے تو اس سے بھی بڑے مطالبے کرچکے ہیں چنانچہ وہ کہتے تھے :ہمیں خداکو کھلم کھلا دکھادو تب اُن کو اُن کی شرارت کی (سزا کے طور پر )بجلی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا''۔

ڈرانااوردھمکانا

جب مخالفین کی طرف سے تمسخر ،تحقیر اور تہمت کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکی اور ان کی بہانے بازیاں ان کے کسی کام نہ آئیں تو انھوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے اہداف سے روکنے لئے دوسرے حربے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا یہ نیا حربہ انبیاء علیہم السلام کو ڈرانا، دھمکانا اورخوف زدہ کر نے کا حر بہ تھا :

( وَقَالَ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْالِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ اَرْضِنَااَوْلَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاْ فَاَوْحَیٰ اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَ ) ( ۲ )

''اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اپنے پیغمبروں سے کہا :ہم تم کواپنی سرزمین سے نکال با ہر کریں گے مگر یہ کہ تم پھر ہمارے مذہب کی طرف پلٹ آئو ۔پس ان کے پروردگار نے ان پر وحی کی کہ ہم ان ظا لمین کو ضرور ہلاک کردیں گے ''۔

جملہ ''لِرُسُلِھِمْ ''سے یہ بات واضح ہے کہ ڈرانے یاد ھمکانے کا مسئلہ ایک یادو انبیاء سے مخصوص نہیں رہا ہے بلکہ کفّار کی تمام قوموںکا یہی شیوہ تھاکہ جب مقابلے کے تمام راستے بے نتیجہ رہ جاتے تووہ اپنے انبیاء سے کہا کرتے تھے :یا تو تم اپنی دعوت سے باز آجائو اور ہمارے ہم مذہب بن جائو یا ہم تم کو اپنی سرزمین سے باہر نکال دیںگے

____________________

۱۔سورئہ نساء آیت۱۵۳۔۲۔سورئہ ابراہیم آیت۱۳۔

۳۱۷

البتہ جب یہ نوبت آجاتی تو خدا اپنے انبیاء علیہم السلام کو اطمینان دلاتاتھا کہ وہ ان کے مخا لفین کو ہلاک کردے گا :دوسری آیت میں خداوند عالم ارشادفرما تا ہے :

( کَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَالْاَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ وَهَمَّتْ کُلُّ اُمَّةٍ بِرَسُوْلِهِمْ لِیَْخُذُوْهُ وَجَٰدَلُوْابِالبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْابِهِ الْحَقَّ فََخَذْتُهُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ ) ( ۱ )

''ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور ان کے بعد مخا لفین کے (دو سرے گروہوں)نے (اپنے پیغمبروں کو ) جھٹلایا اورہر امت نے اپنے پیغمبر کے بارے میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کو گرفتار کرلیں اور باطل باتوں کے ذریعہ جنگ و جدل سے کام لیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے حق کو اکھاڑ پھینکیں تو ہم نے بھی ان کو گرفت میں لے لیاپھرتم نے (دیکھا کہ ان پر) ہمارا عذاب کیسا (سخت )ہوا ؟''۔

مندرجہ بالا آیت حقیقت سے پردہ اٹھا دیتی ہے کہ نہ صرف پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قوم بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی قوموں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو جھٹلا یا ہے اور اس بات کی کو شش کی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو گرفتار کرلیں اوران کو باطل و بیہودہ بحثو ںکے ذریعہ شکست دیدیں ۔

یہی طریقہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابل بھی اختیار کیاگیا ارشاد ہو تا ہے:

( وَاَنْ کَادُوالَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْهَاوَاِذَالّاَیَلْبَثُونَ خِلَٰفَکَ اِلّاَقَلِیْلاً سُنَّةَ مَنْ قَدْاَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُسُلِنَاوَلَاتَجِدُ لِسُنَّتِنَاتَحْوِیْلاً ) ( ۱ )

''اور تم کو اس سرزمین سے اکھاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی تھی تاکہ تم کو اس سے نکال باہر کریں اور اس صورت میں وہ (بھی)تمہارے بعد یہ لوگ چند روز کے سوا ٹھہرنے بھی نہ پاتے ''۔

مندرجہ بالا آیات سے اس اہم نکتہ کا پتہ چلتا ہے کہ خداوند عالم کی سنّت انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے والوں اور ڈرانے دھمکانے والوں سے مقابلہ کرنے میں ہے ۔یہ خداوند عالم کی ایک سنّت ہے کہ جب بھی انبیاء کا مقابلہ اس حد تک پہنچ جائے کہ کوئی گروہ ان کی جان لینے کا قصد کرلے اور عملی طور پر ایسے حالات پیدا ہوجائیں جس سے لوگوں کی ہدایت کے تمام راستے بند ہوجائیں اور حق کے کامل طور پر مخفی ہونے کا خوف پیدا ہوجائے تو اس وقت خداوند عالم دشمنوں اور مخالفوں کی جماعت پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے ۔یہ وہ سنت ہے جو گذشتہ تمام اقوام میں جاری تھی :

____________________

۱۔سورئہ غافر آیت۵۔۲۔سورئہ اسراء آیت۷۶۔۷۷۔

۳۱۸

سورئہ احزاب میں ارشاد ہو تا ہے:( وَلَنْ تَجِدلِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِیْلاً ) ( ۱ )

''اور تم خداکی سنّت میں ہرگز تغیر و تبدیلی نہ پاؤگے ''۔

اور اصولی طور پر قرآن کریم میں اکثر وہ مقامات جہاں پر سنت خدا کے بارے میں گفتگوہوئی ہے وہ ان قوموں اور گروہوں پر عذاب نازل ہونے سے مربوط ہے جہاں ان کی مخالفت خداوندعالم کے رہبروں سے انتہا کو پہنچ چکی ہواور ان کی ہدایت کی کوئی امید کی کرن باقی نہ رہ گئی ہو ۔

یہاں یہ سوال ممکن ہے کہ اگر اس طرح کی سنّت موجود ہوتی تو کوئی پیغمبر ہی قتل نہ کیا جاتا اس لئے کہ جب تک انبیاء علیہم السلام کو شہر بدر کرنے اور قتل کرنے کی بات نہ چھڑے وہ اس وقت تک تبلیغ کرتے رہیں ،مخالفوں کا مقابلہ کرنے میں مقاومت کریں اور جب کام اس منزل (ان کو شہر بدر کرنے یا قتل کر نے کی نوبت آجا ئے ) تک پہنچ جائے تو عذاب الٰہی نا زل ہو جا ئیگا اورانبیاء علیہم السلام کے تمام دشمن نیست و نا بود ہو جا ئیں گے۔

حالانکہ قر آن کریم میں انبیاء علیہم السلام کو قتل کرنے کے بارے میں آیات موجود ہیں :

( وَقَتْلِهِمُ اْلَنبِیَائَ بِغَیْرِحَقِّ ) ( ۲ )

''۔۔۔اور ان (بنی اسرائیل )کا ناحق انبیاء کو قتل کرنا ۔۔۔''۔

ایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے :( فَلِمَ تَقْتُلُونَ اَنْبِیَائَ ﷲ ) ِ( ۳ )

''۔۔۔پس تمہارے بزرگ کیوں خداکے پیغمبروں کو سابق میں قتل کیا کرتے تھے ؟۔۔۔''۔

جواب:قرآن کریم میں یہ مطلب صاف طور پر بیان نہیں ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کی مخالفت اور ان کا مقابلہ دو طریقوں سے ہوتا :

کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگوں کے مابین خداوندعالم کی طرف سے کوئی کتاب شریعت نہیں ہوتی تھی اور ایسے ہی حالات میں ایک پیغمبر مبعوث کیا جاتا تھا تا کہ ان کو کفر و شرک سے نجات دلائے۔ ان پر اپنی حجت تمام کرے اور چراغ ہدایت کو روشن رکھے ۔ان حالات میں اگر وہ پیغمبر اپنی قوم کے ہاتھوں قتل کردیا جاتا تو چراغ ہدایت مکمل طور پر خاموش ہوجاتااور خداوند عالم کی پیغمبر کو مبعوث کرنے کی غرض نقض ہوجاتی ۔

____________________

۱۔احزاب آیت۶۲۔۲۔سورئہ نساء آیت۱۵۵۔۳۔سورئہ بقرہ آیت۹۱۔

۳۱۹

اور جب لوگوں پر خداکی حجت تمام ہوجاتی اوروہ حق قبول کرنے سے انکار کردیتے تو عذاب الٰہی نازل ہوتاتاکہ پیغمبر اور مومنین کو چھٹکارامل جائے اور زمین، خداکی حجت سے خالی نہ رہنے پائے۔

لیکن بعض زمانوں میں لوگوں کے درمیان کتاب خدا اور شریعت الٰہی موجود تھی اورحق کے طالبوں کے لئے حق کی معرفت کا راستہ ہموار تھا۔اس طرح کے تاریخی دور میں مبعوث ہونے والے انبیاء علیہم السلام کا فریضہ لوگوں کو اسی دین اور کتاب کی دعوت دینا اور ارشاد کرناتھا۔مثال کے طورپر بنی اسرائیل کے درمیان حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت رائج تھی اور آپ کے بعد جو متعدد پیغمبر مبعوث کئے گئے وہ لوگوں کو آپ کی ہی کتاب و شریعت کی دعوت دیا کرتے تھے اور حقیقت میں وہ مولوی دین کے مبلّغین تھے ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں ایک یا چند انبیاء علیہم السلام کا قتل ہونا حق کے کلی طور پر محو ہوجانے، سارے معاشرے کے گمراہ ہوجانے اور ہدایت کے تمام راستوں کے مسدود ہوجانے کے مساوی نہ تھا ۔خداوند عالم ایسے حالات میں اپنی حکمت بالغہ کی بنیاد پر لوگوں کے انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخی کرنے یہاں تک کے لوگوں کو ان کے قتل کرنے تک کی فرصت عطا کرتاتھااور اسی وجہ سے بنی اسرائیل کے بہت سے پیغمبر کا فروں اور اپنے دشمنوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے ۔

ہم نے جو کچھ مندرجہ بالا حصّہ میں بیان کیا مختلف طریقوں سے لوگوں کے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ برتاؤ کرنے کے بارے میںتھا۔اب ہم یہ بیان کریں گے کہ خداوندعالم نے انبیاء کی قوموں کے ساتھ کیابرتاؤ کیا ہے ۔

۳۲۰