راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان0%

راہ اور رہنما کی پہچان مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 415

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

صفحے: 415
مشاہدے: 135856
ڈاؤنلوڈ: 3496

تبصرے:

راہ اور رہنما کی پہچان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 415 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 135856 / ڈاؤنلوڈ: 3496
سائز سائز سائز
راہ اور رہنما کی پہچان

راہ اور رہنما کی پہچان

مؤلف:
اردو

( فَکَذَّبُوْهُ فََنْجَیْنَٰهُ وَالَّذِیْنَ مَعَهُ فِی الْفُلْکِ وَاَغْرَقْنَاالَّذینَ کَذَّبُوْابَِٔایٰتِنَااِنَّهُمْ کَانُوْاقَوْماًعَمِیْنَ ) ( ۱ )

''پس انھوں نے ان (نوح )کو جھٹلا یا تو ہم نے ان کو اور جولوگ ان کے ساتھ کشتی میں تھے بچالیا اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایاان سب کو غرق کردیا کیونکہ یہ سب کے سب (دل کے) اندھے لوگ تھے''۔

قوم نوح علیہ السلام پر عذاب اور ان کی ہلاکت سے متعلق بقیہ آیات یہ ہیںسورۂ یونس ۷۳،ہود۳۹ ۔۴۰، انبیاء ۷۷،مو منون ۲۷ ،فر قان ۳۷ ، شعرا ء ۱۲۰ ، عنکبوت ۱۴ ، صا فات ۸۲ ، ذاریات ۴۶ ، قمر ۱۱۔۱۵ ، اور سورئہ نوح ۲۵۔

ب ) ہود علیہ السلام کی قوم( عاد )

سورئہ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے:

( فَاَنْجَیْنَٰهُ وَالَّذِیْنَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّاوَقَطَعْنَادَابِرَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْابَِٔایٰتِنَاوَمَاکَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ ) ( ۲ )

''پس ہم نے ان (ہود )کو اورجو لوگ ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت سے نجات دے دی اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایاتھااور ایمان نہیں لائے تھے ہم نے ان کی جڑہی کاٹ دی''۔

قوم عاد پر عذاب سے متعلق اور بھی آیات اس طرح ہیں : سورۂ ہو د ۵۹۔۶۰، مو منون ۴۱ ، شعرا ء ۱۳۹ ، فصلت ۱۶ ، احقاف ۲۱۔۲۵ ،ذاریات ۴۱۔۴۲ ، قمر ۱۹ ۔۲۰ ۔اور سورئہ حا قّہ ۷ ۔

ج ) صالح علیہ السلام کی قوم (ثمود)

سورئہ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے :

( فَاَخَذَ تْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْافِی دَارِهِمْ جَٰثِمِینَ ) ( ۳ )

''تب ان (قوم صالح)کو زلزلہ نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ وہ اپنے گھرہی میں سربہ زانو بیٹھے رہ گئے ''۔

مندرجہ ذیل آیات میں بھی قوم ثمود پر عذاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :

سورئہ ہود ۶۸، شعراء ۱۵۸ ، نحل ۵۱۔۵۲ ، فصلت ۱۷ ، ذاریات ۴۴ ، قمر۳۱ ، حاقّہ ۵ ، اور سورئہ شمس ۱۳ ۔ ۱۵ ۔

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت۶۴۔ ۲۔سورئہ اعراف آیت۷۲۔ ۳۔سورئہ اعراف آیت۷۸۔

۳۴۱

د) لوط علیہ السلام کی قوم

سورئہ اعراف میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَأَمْطَرْنَاعَلَیْهِمْ مَطَراًفَانْظُرْکَیْفَ کَانَ عَٰقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ ) ( ۱ )

''اور ہم نے ان (قوم لوط)کے سرپر(اولوںکا)مینھ برسایا پس ذرا غور توکرو کہ گنہگاروں کا انجام آخر کار کیا ہوا''۔

قوم لوط علیہ السلام پر عذاب کے متعلق مندرجہ ذیل آیات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے :سورئہ ہو د ۸۲، حجر ۷۳ ۔۷۴ ، نحل ۵۸ ، شعراء ۱۷۳۔ ۱۷۴ ،عنکبوت ۳۴۔۳۵ ،صافات ۱۳۶ ،ذاریات ۳۲۔۲۷ اور سورئہ قمر ۳۴۔۳۹ ۔

ہ)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم پر عذاب اور ان کی ہلاکت کے بارے میں صاف طور پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ۔

صرف سورئہ انبیاء میں اس سے متعلق یہ عبارت پا ئی جاتی ہے :

( وَاَرَادُوْابِهِ کَیْداًفَجَعْلْنَٰهُمُ الْاَخْسَرِیْنَ ) ( ۲ )

''اور ان لوگوںنے ابراہیم کے ساتھ چالبازی کرنا چاہی تھی تو ہم نے ان کوسب سے زیادہ گھاٹا اٹھانے والوں میں قرار دے دیا ''۔

یہ آیت اگر چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مخالفوں پر عذاب کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن ان پر عذاب کی کیفیت بیان نہیں ہوئی ہے۔

و:حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم

خدا وند عالم سورئہ ہودمیں ارشاد فرما تا ہے:

( وَلَمَّاجَائَ اَمْرُنَانَجَّیْنَا شُعَیْباًوَالَّذِ یْنََ آمَنُوْامَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّاوَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاالصَّیْحَةُ فاَصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَٰثِمِیْنَ ) ( ۳ )

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت۸۴۔ ۲۔سورئہ انبیاء آیت۷۰۔۳۔سورئہ ہود آیت۹۴۔

۳۴۲

''اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے شعیب اور ان پر ایمان لانے والوں کو اپنی مہربانی سے بچالیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک چنگھاڑنے ہلاک کر دیاپھرتو وہ سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ''۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے کافروں کی ہلاکت کے بارے میں دوسری کچھ آیات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے :سورئہ اعراف ۹۱،شعرائ۱۸۹۔۱۹۰،عنکبوت ۳۷۔

ز)حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی قوم (آل فرعون )

حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی قوم(فر عو نیوں ) کے بارے میں دو قسم کے عذاب کا ذکر ملتا ہے ۔ایک تووہی عذاب ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے مبعوث ہونے کے بعد ان پر تنبیہہ کے طور پر نازل ہو ا تھاکہ شاید وہ خواب غفلت سے بیدار ہوکر خدا کو یاد کرنے لگیں ۔یہ عذاب مختلف صورتوں میں جیسے قحط ،خشک سالی اورطوفا ن وغیرہ کی شکل میں نازل ہوا اور بعض آیات میںاس کی طرف اشارہ کیاگیاہے :

( وَلَقَدْاَخَذْنَائَ الَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِنَ الَّثَمَرَٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ) ( ۱ )

''در حقیقت ہم نے فرعون کے لوگوں کو برسوںکے قحط اور پھلوں کی پیداوارمیں کمی (کے عذاب)میں گرفتار کیا تا کہ وہ لوگ عبرت حاصل کریں''۔

اور دوسری جگہ ارشاد ہو تا ہے :

( فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوفَانَ والْجٰرادوَالقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ ئَ ایَٰتٍ مُّفَصَّلَٰتٍ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُواقَوْماًمُّجْرِمِیْنَ ) ( ۲ )

''پس ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیوں ،جوئوں، مینڈکوں اور خون (کاعذاب)بھیجا جو سب جداجدا آشکار نشانیاں تھیں پھر بھی وہ لوگ سر کشی ہی کرتے رہے اوران کا ایک گروہ بدکار تھا ''۔

موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر دوسرا عذاب، عذا بِ استیصال تھا جس کے تحت فرعون کو دریامیں غرق کر دیا گیا:

( فَانْتَقَمْنَامِنْهُمْ فَاَغْرَقْنَٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ کَذَّ بُوْابِئَآیَاتِنَاوَکَانُوْاعَنْهَا غَٰفِلِیْنَ ) ( ۳ )

''آخر کار ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو دریامیں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایاتھا اور

____________________

۱۔سورئہ اعراف آیت۱۳۰۔۲۔سورئہ اعراف آیت۱۳۳۔۳۔سورئہ اعراف آیت ۱۳۶۔

۳۴۳

ان سے غافل ہو گئے تھے ''۔

دوسری بہت سی آیات بھی قوم فرعون کی ہلاکت کے بارے میں اشارہ کر تی ہیں جیسے :بقرہ کی آیت۵۰، یونس۹۱۔۹۲، ہود۹۹، اسراء ۲۰۳، طہ ۷۸، مومنون۴۸، فرقان ۳۶،شعراء ۶۶۔۶۷،نحل ۱۴ ، قصص ۴۰ ،مومن ۴۵ ، زخرف۵۵۔۵۶، ذاریات ۴۰ ،اور سورئہ نا زعات ۲۵ ۔

انبیاء علیہم السلام کی ان قوموں کے علا وہ قرآن کریم کی بعض آیات میں بعض دو سرے گروہوںپر نا زل ہو نے والے عذاب کاذکر ہے مگر ان کے انبیاء علیہم السلام کے نام بیان نہیں کئے گئے ہیں ۔

ان میں سے بعض گروہ یہ ہیں :

الف )اصحاب سبت

سورئہ بقرہ میں ارشاد ہو تا ہے :

( فَقُلْنَالَهُمْ کُوْنُوْاقِرَدَةً خَٰسِئِینَ ) ( ۱ )

''تو ہم نے ان (اصحاب سبت)سے کہا تم راندۂ درگاہ بندر بن جائو ''۔

ب )قوم سب

سورئہ سبمیں ارشاد ہو تا ہے :

( فَاَعْرَضُوافَاَرْسَلْنَاعَلَیْهِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ ) ( ۲ )

''پھر(قوم سب)نے روگردانی کی اور ہم نے ان پر بڑے زور کا سیلاب بھیج دیا ۔۔۔''۔

ج )اصحاب رسّ

سورئہ فرقان میں ارشاد ہو تا ہے :

( وَعَاداًوَثَمُودَوَاَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُوناًبَیْنَ ذَلِکَ کَثیراً ) ( ۳ )

''اور( نیز)عاد اور ثمود اور اصحاب رس اور ان کے درمیان بہت سی جماعتوں کو (ہم نے ہلاک کرڈالا)'' ۔

____________________

۱۔سورئہ بقرہ آیت۶۵۔ ۲۔سورئہ سبأآیت۱۶۔۲۔فر قان آیت۳۸۔

۳۴۴

ہ )اصحاب فیل

سورئہ فیل میں ارشاد ہو تاہے:

( وَاَرْسَلَ عَلَیْهِمْ طَیْراًاَبَابِیلَتَرْمِیْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِنْ سِجِّیْلٍ فَجَعَلَهُمْ کَعَصْفٍ مَّْکُوْلٍ ) ( ۱ )

''اور ان پر جھنڈکی جھنڈ(ابابیل)چڑیاںبھیجدیں (جو)ان پر کھر نجوں کی کنکریاں پھینکتی تھیں تو (سر انجام خدانے)انھیں چبائے ہوئے بھوسہ کی طرح کردیا''۔

بعض آیات میں ایک خاص شخص پر نازل ہونے والے عذاب کی داستان بھی بیان کی گئی ہے مثال کے طور پر قارون کے بارے میں سورئہ قصص میں ارشاد خداوندی ہے :

( فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الاَرْضَ فَمَاکَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ یَنْصُرُوْنَهُ مِنْ دُونِ ﷲوَمَاکَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ ) ( ۲ )

''اسی وقت ہم نے(قارون)کو اس کے گھر بار سمیت زمین میں دھنسا دیااور خداکے(عذاب)کے مقابل کوئی اس کی مددکرنے والانہ تھااور (وہ خودبھی)اپنادفاع نہ کرسکا''۔

متعدد آیات میں ایک ساتھ کئی کئی قو موں پر عذاب کا تذکر ہ بھی ملتا ہے مثال کے طور پر قوم عاد و ثمود وفر عون کا تذکرہ کر نے کے بعدسورئہ فجرمیں ارشاد ہوتا ہے:

( فَصَبَّ عَلَیْهِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ ) ( ۳ )

''یہاں تک تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا دے ما را ''۔

عذابِ استیصال کا، کافروں سے مخصوص ہونا

قرآن کریم کی آیات پر تدبر و تفکر سے ایک اور نکتہ جو حقیقت میں خدا کی دوسری سنّت بیان کرتاہے یہ ہے کہ عذاب استیصال کافروںسے مخصوص ہے ۔خبر دارکرنے والے عذاب ممکن ہے کافروں اور مومنوں دونوںپر نازل ہوں اور کافروںکے ساتھ مومنین بھی قحط اوربیماری جیسی مصیبتوں میں مبتلاہوجا ئیںکیونکہ یہ مومن کیلئے امتحان

____________________

۱۔سورئہ فیل آیت۳۔۵۔۲۔سورئہ قصص آیت۸۱۔۳۔سورئہ فجر آیت۱۳۔

۳۴۵

وآزمائش ہے اورجو کافر کے لئے تنبیہ ہے لیکن عذاب استیصال جس سے کسی کوہمیشہ کے لئے ہلاک کر دیاجائے صرف کافروں سے ہی مخصوص ہے اور اس عذاب کے نازل ہوتے وقت اگر کوئی مومن یا مومنہ کافروں کے درمیان موجود ہوتو خداوندعالم اس کو نجات د یدیتا ہے ۔

یہ بات متعدد آیات میں بیان کی گئی ہے۔ بعض آیات اس عمومی قانون کو بیان کرتی ہیں کہ بالآخر کار انبیاء کی کامیابی ایک سنّت الٰہی ہے ۔البتّہ واضح ہے کہ اس کا میابی سے مراد یہ نہیںہے کہ کوئی پیغمبر اپنی رسالت کی راہ میں شہادت کے درجہ پر فائز نہیں ہوتابلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سرانجام انبیاء علیہم السلام کی رسالت کا مقصد پورا اور ان کی دعوت نتیجہ مطلوب تک پہنچ جاتی ہے ۔اس کامیابی و کامرانی کی ایک علامت یہ ہے کہ انبیاء اور ان کا اتباع کرنے والے کبھی بھی عذاب استیصال میں گرفتار نہیں ہوتے اس سنّت الٰہی پر مندرجہ ذیل آیا ت دلالت کرتی ہیں :

( اِنّٰالَنَنْصُرُرُسُلَنَاوَالَّذِیْنَئَ امَنُوْافِی الْحَیَوَٰةِالدُّنْیَاوَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْهَٰدُ ) ( ۱ )

''ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں بھی اور جس دن گواہ اٹھ کھڑے ہوںگے یقیناًمدد کریں گے ''۔

اور سورئہ صافات میں ارشاد ہو تا ہے:

( وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَالِعِبَادِنَاالْمُرْسَلِیْنَاِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُوْنَوَاِنَّ جُنْدَنَالَهُمُ الْغَٰلِبُونَ ) ( ۲ )

''اور قطعاًاپنے بھیجے گئے بندوں کے بارے میںہماراپہلے سے فرمان ہے کہ وہ (اپنے دشمنوںپر) یقینا کامیاب ہوں گے اور ہمارا شکر یقیناغالب رہے گا ''۔

بعض آیات میں مومنوں کی مخصوص قوم کے کامیاب ہونے کے بارے میں بھی ذکر ملتا ہے، نمونہ کے طور پر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو کاروں کی آپ پرایمان نہ لانے والے بنی اسرائیل کے کافروں پر فتحیابی سورئہ صف میںبیان ہوئی ہے:

( یَااَیُّهَاالَّذینَ ئَ امَنُواکُونُوْااَنْصَارَﷲکَمَاقَالَ عیسَیٰ ابْنُ مَرْیَمْ لِلْحَوَارِیِّیْنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی ﷲقَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُﷲ ِ فَئَامَنَتْ طَائِفَة مِنْ بَنِیْ اِسْرَٰائِیْلَ وَکَفَرَتْ طَائِفَة فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ )

____________________

۱۔سورئہ مومن(غافر) آیت۵۱۔۲۔سورئہ صافات آیت۱۷۱۔۱۷۳۔

۳۴۶

( َامَنُوْا عَلَیٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُواظَاهِرِیْنَ ) ( ۱ )

''اے ایمان دارو خداکے مددگار بن جائو جس طرح مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں سے کہاتھاکہ خداکی طرف (بلانے میں )میرے مددگار کون لوگ ہیں ؟توحواریوں نے کہا: ہم خداکے انصار ہیں پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ان پر ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفراختیار کیاتوجو لوگ ایمان لائے ہم نے ان کو ان کے دشمنوں کے مقا بلہ میں مدددی یہاں تک کہ وہی غالب رہے ''۔

اس آخری آیت سے پتہ چلتاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کے کفّار بھی ایک قسم کے عذاب میںمبتلا ہوئے اوروہ عذاب ان (کفّار)پر مومنوںکی فتح تھی۔ایک دوسری آیت میں بھی اس گروہ پر ہونے والے عذاب کا تذکرہ کیاگیا ہے ۔اس آیت سے پہلے کی آیات میںحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا ذکر ہے پھر ارشاد ہو تا ہے :

( فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْ بَیْنِهِمْ فَوَیْل لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوامِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلیمٍ ) ( ۲ )

''یہاں تک کہ ان کی جماعتیں آپس میں اختلاف کرنے لگیں تو جن لوگوں نے ظلم کیا ان پر دردناک عذاب کے دن کی دائے ہو '' ۔

البتہ یہ عذاب دنیا میں آنے والے عذاب کے بارے میںہے، مندرجہ بالاآیت میں صاف طور سے ذکر نہیںہے لیکن یہ احتمال پایا جاتاہے کہ شاید اس عذاب سے وہی کافروں کی شکست مرادہو۔

اب تک ہم نے سنّت عذاب سے متعلق بعض آیات کا مختصر طور پر ذکر کیا ہے ۔اب منا سب معلوم ہوتا ہے کہ سنّت الٰہی سے متعلق بحث کی مناسبت سے قرآن کریم میں جو دو سری الٰہی سنتیں بیان ہوئی ہیں ان پر بھی سرسری نظر ڈال لی جا ئے :

____________________

۱۔سورئہ صف آیت۱۴۔۲۔سورئہ زخرف آیت۶۵۔

۳۴۷

مستضعفین کا حاکم ہونا

قرآن کریم کی آیات میں جن الٰہی سنتوں کا ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ قوم کے کچلے ہوئے مستضعفین مستکبروں کے تسلّط سے نجات پائینگے اورخدا روئے زمین پر انھیںایک دن حاکم قرار دے گا ۔جیسا کہ ہم ''استضعاف و استکبار ''کی بحث میں اس چیز کی طرف اشارہ کرچکے ہیں یہ ذکر کرنے کے بعد کہ فرعون نے لوگوں کی ایک جماعت کو بری طرح کچل رکھا تھاقرآن کریم فرماتاہے :

( وَنُرِیْدُاَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوافِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَٰارِثِیْنَ وَنُمَکِّنْ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَهَٰامَٰانَ وَجُنُوْدَهُمَامِنْهُمْ مَاکَانُوْایَحْذَرُوْنَ ) ( ۱ )

''اور ہم تو یہ چاہتے تھے کہ جو لوگ روئے زمین پر کمزور کردئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی کو لوگوں کا پیشوا بنائیں اور ان ہی کو اس (سرزمین )کا مالک بنائیں اور ان ہی کو روئے زمین پر پوری قدرت عطاکریں اور (دوسری طرف)فرعون اور ہامان اور ان دونوں کے لشکروالوں کو وہ چیز یں دکھادیں کہ جن کی طرف سے وہ ڈرتے تھے ''۔

اگر چہ یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں ہے اور( اَلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا ) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو فرعون نے کمزور کردیا تھا لیکن قاعدئہ (القرآن یجری مجری الشمس والقمر)کے مد نظر خاص طور سے اس لئے کہ آیت میں فصل(نُرِیْدُ) مضارع ہے جو دوام و استمرارپر دلالت کرتاہے لہٰذا اس آیت سے ایک مستقل سنّت الٰہی کو اخذ کیا جاسکتا ہے اور جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ہماری روایات میں آیا ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت ولی عصر کے ظہورسے متعلق بھی اس آیت کی تاویل کی جاتی ہے ۔

خداوندعالم نے ایک دوسری آیت میں بھی اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں سے وعدہ کیاہے کہ سرانجام وہ زمین پر مستقر ہوں گے اور اس وقت خود ان ہی کی حکومت قائم ہوگی۔ ارشاد ہوتا ہے :

( وَعَدَﷲالَّذِیْنَئَ امَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصَّٰلِحَٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الاَرْض کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَیُمَکِِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمْ الَّذِیْ ارْتَضَیٰ لَهُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِخَوْفِهِمْ اَمْناًیَعْبُدُونَنِی لَایُشْرِکُونَ بِیْ شَیْئاًوَمَنْ کَفَرَبَعْدَذَلِکَ فَأُوْلٰئِکَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) ( ۲ )

''تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کا م کئے ان سے خدانے یہ وعدہ کیاہے کہ ان کو اس سرزمین پر(اپنا)جانشین مقررکرے گا اور جس دین کو اس نے ان کے لئے پسند فرمایاہے اس پر انھیں ضرور ضرور پوری قدرت دیگا اوران کے خائف ہونے کے بعد امن سے ضرور بدل دے گا (تاکہ)وہ میری عبادت کریںاور کسی کو ہمارا شریک نہ بنائیں اور جو شخص اس کے بعد بھی کافر رہے گا تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ قصص آیت۵۔۶۔۲۔سورئہ نورآیت۵۵۔

۳۴۸

الٰہی امدادآنا

قرآن کریم کی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ خداوندعالم کی بہت سی سنّتیں عام ہیںجو کسی نہ کسی خاص سنّت کے ماتحت ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خداوند عالم کی عام سنّتیںخاص حالات اور تقا ضوںکے تحت بعض مخصوص سنّتوں کی تابع ہوتی ہیں چنانچہ خداوندعالم کی عام سنّتوں میں سے ایک الٰہی ا مدادبھی ہے جس کی بنیاد پر خداوندعالم لوگوں پر اپنی حجت تمام کرنے کے بعد اس راستہ پر گامزن رہنے کے لئے جسے انھوںنے منتخب کیاہے ان کی مدد کرتاہے اگر آدمی حق کی راہ کا انتخاب کرتاہے تو خداوندعالم اس سیدھے راستہ پر گامزن رہنے کے لئے اس کی مدد کرتا ہے اور اگر کوئی باطل راستہ کی طرف مائل ہو توبھی خداوندعالم کی امداداس کے شامل حال رہتی ہے۔یہی کافروںکی امداد وہ سنّت ہے۔جس کو املاء اور استدراج کانام دیا گیا ہے جس کو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ چنانچہ املاء اور استدراج کی سنّت الٰہی امداد کی سنّت کی نسبت وہ خاص سنّت ہے جو کفّار کے بارے میں امدادالٰہی کے طریقہ کو مشخص کرتی ہے ۔

سورئہ اسراء کی چند آیات میں الٰہی امداد کی اس سنت کی طرف اشارہ ہے :

( مَنْ کَانَ یُرِیْدُالْعَاجِلَةَعَجَّلْنَالَهُ فِیْهَامَانَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُثُمَّ جَعَلْنَالَهُ جَهَنَّمَ یَصْلٰیهَا مَذْمُوما مَدْحُوْراًوَمَنْ اَرَادَالآخِرَةَ وَسَعَیٰ لَهٰاسَعْیَهَاوَهُوَمُؤْمِن فَاُوْلٰئِکَ کَانَ سَعْیُهُمْ مَشْکُوْراً کُلّا ًنُمِدُّ هٰؤُلَائِ وَهَٰؤُلاٰئِ مِنْ عَطَائِ رَّبِکَ وَمَاکَانَ عَطَائُ رَّبِکَ مَحْظُوْراً ) ( ۱ )

''اور جو شخص اس چند روزہ(دنیا )کا خواہاں ہو ہم اس کو جلدی سے جو کچھ چاہتاہے دیدیتے ہیں پھر اسکے بعد اسکے لئے جہنم ہے جس میں وہ ذلّت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا،اور جو شخص آخرت کا چاہنے والاہے اور اسکے لئے جیسی چاہئیے ویسی ہی کو شش بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تویہی وہ لوگ ہیں جن کی سعی یقینا مقبول قراردی جائے گی ہم آپ کے پروردگار کی عطا و بخشش سے اِن کی اور ان سب کی مددکرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نہیں ہے ''

ان آیات میں پہلے لوگ دو گرو ہ میں تقسیم کئے گئے ہو ئے ہیں :پہلا گروہ دنیا کا خواہاں ہے اورچند روزہ والی زندگی منتخب کرتا ہے اوردوسرا گروہ آخرت اورپائیدار سعادت کاخواہاں ہے۔اسکے بعدتیسری آیت میں اعلام ہوتاہے کہ خداوندعالم دونوں گروہوں کی ان کی منتخب کردہ راہ پر گامزن رہنے کے لئے مدد کرتا ہے۔ البتہ آخر میں دوسرے

____________________

۱۔ سورئہ مبارکہ اسراء آیت۱۸۔۲۰۔

۳۴۹

گروہ کی برتری کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے :

( اُنْظُرْکَیْفَ فَضَّلْنَابَعْضَهُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ وَلَلَْلأَٰخِرَةُ اَکْبَرُدَرَجَٰتٍ وَاَکْبَرُتَفْضِیْلاً ) ( ۱ )

''دیکھو ہم نے ان کے بعض کو بعض دوسروںپر کس طرح فضیلت دی ہے اورآخرت کے درجے تو یقینا کہیں برتر اور بہت زیادہ ہیں ''۔

ایک دوسری آیت میں بھی الٰہی امداد کو مدّنظر رکھا گیا ہے میں ارشاد ہوتا ہے:

( مَنْ کَانَ یُرِیْدُحَرْثَ الْاَخِرَ ةِنَزِدْلَهُ فِیْ حَرْثِهِ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُحَرْثَ الدُّنْیَانُؤتِهِ مِنْهَاوَمَالَهُ فِی الْأَخِرَةِ مِنْ نَصِیْبٍ ) ( ۲ )

''جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہوہم اسکے لئے اس کی کھیتی میں اضافہ کردیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہوہم اس کو اسی میں سے دیں گے اور (لیکن)آخرت میں اس کوئی حصّہ نہ ہوگا ''۔

قابل توجّہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں آخرت کے خواہاں اور دنیا کے طلبگاروں کے لئے دو مختلف تعبریں استعمال ہوئی ہیں، طالب دنیا کے لئے صرف ان کا مطلوب دینے کا اعلان ہے لیکن آخرت کے چاہنے والے کے لئے ''نزدلہ فی حرثہ'' (ہم اسکی کھیتی میں اضا فہ کردیں گے استعمال ہواہے ،جو ان کی خاص قدر و منزلت کو بیان کررہاہے اور اس بات کی نشاندہی کررہاہے کہ ان پر خداوندعالم کی خاص عنایت ہے۔یقینا یہ فرق حق بجانب ہے کیونکہ انسان کا اصل مقصد معنوی کمال حاصل کرنااور بارگاہ خداوندعالم میں مقرب ہوناہے ۔اوریہ کہ بعض ان افراد کو خداوندعالم کی مددملنا جوان کے لئے ضرررساں ثابت ہو ایک ذیلی مقصد ہے ۔

شکران نعمت سے اضافہ اورکفران نعمت سے کمی

الٰہی سنت کے مطابق جوشخص خداکی نعمتوں کا شکر اداکرتا ہے اسکی نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور جوکفران یا ناشکر ی کرتاہے اسکی نعمتوں میں کمی ہوجاتی ہے اوریہ قانون مادی نعمتوں میں بھی جاری ہے اور معنوی نعمتوں میں بھی۔ جو شخص فقط مادی نعمتوں کا شکرادا کرتاہے اسکی مادی نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور جو معنوی نعمتوں کا بھی شکر گزار ہے اسکی معنوی نعمتوں میں بھی اضا فہ ہوتاہے۔قرآن نے اس سنّت کو کلیہ کی صورت میں بیان کیاہے :

____________________

۱۔سورہ اسراء آیت ۲۱۔۲۔سورئہ شوریٰ آیت۲۰۔

۳۵۰

( لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیدَ نَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد ) ( ۱ )

''اگر تم نے شکر ادا کیا تو ہم نعمتو ں میں اضا فہ کر دیں گے اور اگر کفرا نِ نعمت کیا تو ہمارا عذاب بھی بہت سخت ہے ''۔

مادی نعمتوں کی نا شکری کے متعلق قرآن میں ارشا د ہو تا ہے:

( وَضَرَبَ ﷲمَثَلاًقَرْیَةً کَانَتْ آمِنةً مُطْمَئِنَّةًیَاتِیْهَارِزْقُهاَرَغَداًمِنْ کُلِّّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ ﷲفَاَذَٰاقَهَﷲ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَاکَانُوْایَصْنَعُوْ نَ ) ( ۲ )

''اور ﷲ نے اس قر یہ کی بھی مثال بیا ن کی ہے جو محفو ظ اور مطمئن تھا اور اس کا رزق ہر طرف سے فراواں تھا لیکن قر یہ وا لو ں نے ﷲ کی نعمتو ں کاکفران کیاتو خدا نے بھی انھیں بھو ک اور خوف کے کا مزہ چکھا دیا ،ان کے ان اعمال کی بنا ء پر جو وہ انجام دے رہے تھے' '۔

اس آ یۂ کریمہ سے معلوم ہو تا ہے کہ کبھی کبھی انسان ما دی نعمتو ں کا شکر یہ ادا نہ کر نے کی وجہ سے فقر اور خوف جیسے مصا ئب میں گر فتار ہو جا تا ہے۔ شکر خداسے نعمتو ں میں اضا فہ ہو نے کے متعلق ایک اور آیت میںفر ما تا ہے :

( وَلَوْاَنَّ اَهْلَ الْقُرَیٰ آمَنُواوَاتَّقَوْالَفَتَحْنَاعَلَیْهِمْ بَرَکَٰتٍ مِنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ وَلَکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنَاهُمْ بِمَاکَانُوْایَکْسِبُوْنَ ) ( ۳ )

''اگر اہل قر یہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کر لیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آ سمان سے بر کتو ں کے در وا زے کھو ل دیتے لیکن انھو ں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا '' ۔

چونکہ تقویٰ اور پر ہیز گا ری کا لا زمہ ،خدا وند کریم کی معنوی اور ما دی نعمتو ں کا شکر ادا کر نا ہے، مندر جہ با لا آیت سے استفا دہ ہو تا ہے کہ معنوی نعمتو ں کا شکر ادا کر نا ما دی نعمتو ں کے اضا فے اور دنیا وی زند گی کے وسائل کی وسعت میں بھی مؤ ثر ہے ۔اسی طرح، ما دی اور معنوی نعمتو ں کا انکار عذا بِ الٰہی میں گر فتا ر ہو نے کا با عث ہو تا ہے۔ بعض آ یا ت میںبھی شکر اداکرنے سے معنوی نعمتو ں میں اضا فے کی طرف اشا رہ ہوا ہے :

( وَیَزِ یْدُﷲ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْاهُدَیً ) ( ۴ )

____________________

۱۔سورئہ ابراہیم آیت ۷۔۲۔سورئہ نحل آیت۱۱۲۔۳۔سو رئہ اعراف آیت۹۶۔۴۔سورئہ مریم آیت۷۶۔

۳۵۱

''اور خدا ہدا یت یا فتہ لو گو ں کی رہنمائی میں اضا فہ کر دیتا ہے ''۔

اور سورئہ محمدمیں ارشا د ہو تا ہے:

( وَالَّذِیْنَ اهْتَدَ وْازَادَهُمْ هُدیً وَئَ اتَٰهُمْ تَقْوَٰیهُمْ ) ( ۱ )

''اور جن لو گو ں نے راہ ہدایت اختیار کی خدا نے ان کی رہنمائی میں اضا فہ کر دیا اور تقوے کی توفیق عنا یت فرما دی '' ۔

بعض مقا مات پر نعمتِ ہدایت میں اضا فہ کے مخصوص مصا دیق بیا ن کردئیے ہیں ۔ مثال کے طور پر اصحاب ِ کہف کے سلسلہ میں ارشا د ہو تا ہے:

( اِ نَّهُمْ فِتْیَة آمَنُوْابِرَ بِّهِمْ وَزِدْ نَاهُمْ هُدیً ) ( ۲ )

''یہ چند جوا ن تھے جو اپنے پر ور دگا ر پر ایمان لا ئے تھے اور ہم نے ان کی ہدا یت میں اضا فہ کر دیا ''۔

مو منین کی ہدا یت میں اضا فہ ایک طرف سے الٰہی امدا د کی سنت کامصدا ق ہے اور دو سری طرف سے شکر ان نعمت کا بھی مصداق ہے کیو نکہ ایما ن لا نا اوررہنمائی کو قبو ل کر نا خو دبھی ایک معنوی نعمت کا شکر ادا کر نا ہے ۔

البتہ مو منین کے برعکس جو لوگ نا شکری کرتے ہوئے ہدا یت قبول کر نے سے انکا ر کر تے ہیں ان کی گمرا ہی میں اور اضا فہ ہو تا رہتا ہے ۔ سورئہ مبا رکۂ بقرہ میں ارشا د ہو تا ہے :

( فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَرَض فَزَادَهُمُ ﷲ مَرَضاً ) ( ۳ )

''ان کے دلو ں میں بیما ری تھی پس خدا نے بیماری اور بڑھا دی ''۔

اوریہ وہی الٰہی امداد ہے جو معنوی نعمتو ں کی ناقدری میں زیادتی سے حا صل ہو تی ہے ۔

قر آن میں ار شا د ہو تا ہے :

( فَلَمَّازَاغُوْااَزَاغَ ﷲ قُلُوْبَهُمْ ) ( ۴ )

____________________

۱۔سورئہ محمد آیت ۱۷۔

۲۔سورئہ کہف آیت ۱۳۔

۳۔سورئہ بقرہ آیت ۱۰۔

۴۔ سورئہ صف آیت۵۔

۳۵۲

''جب وہ لوگ(حق سے)مڑگئے تو خدا نے بھی ان کے دلو ں کواور ٹیڑھا کر دیا '' ۔

( اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلَٰهَهُ هَوٰیهُ وَاَضَلَّهُ ﷲ عَلَیٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَیٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَیٰ بَصَرِهِ غِشٰاوَةً ) ( ۱ )

''توکیاآپ نے اس شخص کو بھی دیکھاہے جس نے اپنی ہوس کو خدابنالیا اور خدانے جان بوجھ کر اسے اورگمراہ کردیا ۔اور اسکے کان اور دل پر مہرلگادی اور اس کی آنکھ پر پردے ڈال دئے ''۔

بہت ساری آیات میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جن لوگوں نے باطل راستہ اختیار کررکھاہے اور فسق و فجور کو اپنالیا ہے کفرسے کام لیتے ،ظلم و ستم کرتے ،اوردوسروںکو گمراہ کرتے ہیں خداان کی گمراہی کے اسباب بڑھاکر ڈھیل دیدیتا ہے:

( وَیُضِلُّ ﷲ الظَّالِمِیْنَ وَیَفْعَلُ ﷲ مَایَشَائُ ) ( ۲ )

''اورﷲ ظالمین کو گمراہی میںچھوڑ دیتاہے اور ﷲ جوبھی چاہتاہے انجام دیتاہے ''۔

( کَذَالِکَ یُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَمُسْرِف مُرْتَاب ) ( ۳ )

''اس طرح خدا زیادتی کر نے والے شکی مزاج انسانوں کو گمراہی میں چھو ڑدیتا ہے ''۔

( کَذَالِکَ یُضِلُّ اللَّهُ الْکَٰفِرِیْنَ ) ( ۴ )

''اسی طریقہ سے خدا کا فروں کو گمراہ کرتا ہے ''۔

اللہ کی سنت اضلال کا دائرہ اس قدروسیع ہے کہ حتی قرآ ن جیسی سب سے بڑی کتاب ِہدایت بھی نعمت ہدایت کا کفران کر نے والوں کے لئے ضلالت اور گمراہی کا سبب بن جاتی ہے:

( یُضِلُّ بِهِ کَثِیْراًوَیَهْدِیْ بِهِ کَثِیْراًوَمَایُضِلُّ بِهِ اِلَّاالْفَاسِقِیْنَ ) ( ۵ )

____________________

۱۔سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

۲۔سورئہ ابراہیم آیت۲۷۔

۳۔سورئہ مومن آیت۳۴۔

۴۔سورئہ مو من آیت ۷۴۔

۵۔سورئہ بقرہ آیت ۲۶۔

۳۵۳

''خدااس (قرآن )کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھو ڑدیتا اور بہت سے لوگوں کی ہدایت کردیتا ہے اوراس سے گمراہ صرف و ہی ہوتے ہیں جو فا سق ہیں ''۔

البتہ جیساکہ آیت سے صاف پتہ چلتا ہے ہے کہ یہ خود فاسقوں کا گروہ ہے جس نے اپنے اختیار کے غلط استعمال سے اپنی یہ حالت اور کیفیت بنا لی ہے کہ وہی قر آن جوبہت سے لوگوں کے لئے وسیلۂ ہدایت ہے ان کے لئے اور زیادہ گمراہی کا باعث بن گیا ۔

بہر حال ، الٰہی اضلال کے تمام موارد( ''وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد '' ) اور( ''کَلَّانُمِدُّ هَؤُلَائِ وَهَؤُلَائِ مِنْ عَطَائِ رَبِّک ) ''کے مصادیق میں شمار ہو تے ہیں ،چو نکہ یہ گروہ معنوی نعمتِ ہدایت کاکفران کر تا ہے لہٰذا عذاب الٰہی کا مستحق ہے اوران کا گمراہ ہو جا نا ہی ان کے لئے سخت عذاب ہے جو،ان کے قلب کواندھا اور روح کی بیماری میں اضافہ کردیتا ہے ۔

دوسری طرف ان کی گمراہی اورقلب کی تاریکی کے ساتھ ہی ساتھ مادی نعمتوں میں اضافہ کرتاجاتاہے کہ وہ اپنا بارگناہ اور وزنی کرتے جائیں اور اخروی عذاب کے اسباب زیادہ سے زیادہ مہیا کرلیں۔

۳۵۴

انبیاء علیہم السلام سے اختلاف کی سنت

الٰہی سنتوں میں سے ایک اور سنت جو بحث نبوت کے ساتھ بھی قریبی تعلق رکھتی ہے یہ ہے کہ الٰہی فیصلہ ہمیشہ سے یہ رہاہے کہ انسانوں اورجنوں کا ایک گروہ انبیاء علیہم السلام کے مقابلے میں صف آرایی کرے اور مخالفت کا پرچم بلند کرکے لوگوں کو فریب اور دھوکادیتا رہے ۔ اس سلسلے میں بہت ہی واضح بیان ، سورئہ انعام کی آن آیتوں میں ملتا ہے :

( وَکَذَٰلِکَ جَعَلْنَالِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّاشَیَٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلَیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْراًوَلَوْشَائَ رَ بُّکَ مَافَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَایَفْتَرُوْنَوَلِتَصْغَیٰ اِلَیْهِ أَفْئِدَ ةُالَّذِ یْنَ لََایُوْمِنُوْنَ بِالآخِرَةِوَلِیَرْضَوْهُ وَلِیَقْتَرِفُوْامَاهُمْ مُقْتَرِفُوْنَ ) ( ۱ )

''اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جنات و انسان میں کچھ شیاطین کو ان کا دشمن قرار دے دیا کہ ان میںبعض ،بعض کو دھو کہ دینے کے لئے چکنی چپڑی باتیںبناتے ہیں اوراگر تمہارا خدا چاہ لیتا تویہ ایسا نہ کرسکتے لہٰذا اب

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت۱۱۲۔۱۱۳۔

۳۵۵

آپ انھیں ان کے جھوٹ اورافتراء کے ساتھ چھو ڑدیں اور یہ اسی طرح(مقرر کیا جاچکا ہے)تا کہ جن لو گوں کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل ان کی(غلط باتوں کی) طرف مائل ہو جا ئیںاور وہ اسے پسند کر لیں تا کہ جو کچھ ان کے ہاتھ کرنا چاہتے ،ان کے ہاتھ آجائے ''

بظاہرآیۂ مبا رکہ سے اس بات کا اظہار ہو تا ہے کہ یہ مسئلہ ایک الٰہی سنّت کے عنوان سے تمام نبیوںاور ان کی امتوں میں جا ری اور ساری رہا ہے کہ جب بھی کو ئی پیغمبر مبعوث ہو تاان کے مقا بلہ میںجنوں اورانسانو ںکے شیطانی گروہ صف آرائی کر تے تھے اور مخا لفت پر اڑ جا تے تھے البتہ وہ یہ مخا لفت اپنے ارادئہ واختیا ر سے کر تے تھے الٰہی مشیت و ارادہ ان کے کا مو ں میں ما نع نہیں ہو تا تھا تا کہ اس طرح سے حق و با طل کے دو نوں راستے آ شکا ر ہوجائیں اور لو گ دو نوں میں سے کسی ایک کا انتخا ب کر لیں۔اگر کو ئی ایسا گرو ہ نہ ہو جو با طل کی تبلیغ کر ے اور لو گو ں کو اس کی طرف دعوت دے تو انسانو ں کی آ زما ئش کے لئے ماحول فر ا ہم نہیں ہو گاجبکہ خدا کی سنتو ں میں سے ایک سنت آزمائش بھی ہے اور بنیادی طور پراس دنیا میں انسان کی خلقت کا مقصدہی اس کا امتحا ن ہے( لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ) اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں امتحا ن کا لا زمہ یہ ہے کہ حق و با طل کے دو نو ں راستے کو انسان کے سامنے کھلے ہوںاور ہر ایک کے مخصو ص مبلغ بھی ہوں ۔ حق کا راستہ دکھا نے وا لے پیغمبر اور (قرآن کی رو سے) باطل کی طرف دعوت دینے وا لے شیطا ن صفت انسان اور جنات ۔ معلوم ہوا اس نظامِ احسن میں اس گروہ کا ہو نا بھی ضرو ری ہے ورنہ الٰہی امتحا ن کے لئے کامل ماحول فرا ہم نہ ہو سکے گا ۔

شیطان صفت انسانوں کی جانب سے ہمیشہ انبیا ء علیہم السلام کی مخا لفت کے علا وہ اس آیت میں شیاطین کی مخا لفت کے طریقوں کی طرف بھی اشا رہ کیا گیا ہے (یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْ لِ غُرُوْراً) ''یہ شیا طین آپس میںچکنی چپڑی دل فریب با تیںاور اشارے کر تے ہیں '' چنانچہ اگر وحی میں لفظ (یوحی) سے چپکے چپکے خفیہ قسم کی گفتگو مرادہو تو اس کا مصدا قِ تام جنوں کے وہ شیطا نی وسوسے ہوں گے جو غیر محسوس طور پر معصیت کار لو گو ں کے دل و جان میںشعلہ ور ہوجاتے ہیں ۔البتہ یہا ں یہ بھی ممکن ہے کہ عام معنی مد نظر ہو ں اور اس آیت میں (وحی) ہرطرح کی مخفی با ت کو شا مل ہو ۔ اس صورت میں آیت، انسا ن نما شیطا نوں کی کانا پھوسی کو بھی شامل ہو جا ئے گی یعنی وہ تمام خفیہ با تیں جو لو گو ں کو فریب دینے کے لئے آہستہ آہستہ کی جا تی ہیں ۔ بہرحال وحی کا واضح مصداق وہی شیطا نی وسوسے ہیں اس لئے ''وحی'' اصل میں چپکے چپکے اسرارو رموز میں بات کرنے کو کہتے ہیںاورچو نکہ شیطان کا وسو سہ کھلم کھلا نہیں ہو تا اور انسان اس کی طرف متو جہ بھی نہیں ہوپا تا لہٰذا اس کووحی کہا گیا ہے ۔ اس بنا ء پر وحی کے معنی میں بہت زیادہ وسعت ہے حتی اس میں شیطا نی وسوسے بھی شامل ہیں ۔

۳۵۶

وحی کی حقیقت

یہا ں پر وحی کے مفہوم سے متعلق مختصر طور پر ایک اہم بات کی وضاحت کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے؛ ایک گروہ نے انبیا ء علیہم السلام پر ہو نے والی وحی کو ایک قسم کا انجانا ادراک قرار دیا ہے جس کو صرف نبی محسوس کر تا ہے ، اور اسی طرح انھو ں نے وحی کی علمی تفسیر کر نے کی کو شش کی ہے ان کی نظر میں انبیا ء علیہم السلام پرکی جا نے والی وحی کی با لکل اُس وحی کے جیسی ہے جو قر آ ن کے الفاظ میں شہد کی مکھی پر ہو ئی ہے دونوں کی حقیقت ایک ہے لیکن یہ نظریہ غلط ہے اس تا ویل کو نہیں قبول کیا جا سکتا؛ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ لغت میں وحی چپکے چپکے گفتگو کر نے کو کہتے ہیں چاہے وہ کسی کے ساتھ ہو ، لہٰذا اس آیت میں شیا طین کی مخفی گفتگو اور وسو سے کو وحی کہا گیا ہے ۔ اس بنا ء پر وحی کے مختلف مصا دیق ہیں جو حقیقت کے اعتبار سے مکمل طور پر ایک دو سرے سے جدا ہیں ۔ لفظی مشا بہت اس بنا پر ہم مختلف مقامات پر استعمال ہونے والے لفظ وحی کی حقیقت و ما ہیت کو یکساں خیال نہ کریں اس بات پر توجہ رہے کہ قرآ نِ کریم کی تفسیرمیں الفا ظ کے لغوی مادوں کو دیکھ لینا کا فی نہیں ہے بلکہ ان کے استعمال کے مقاما ت پر غور و فکر کے ساتھ ہر ایک کی خصو صیت کو تلاش کر نا چا ہئے ۔

بہر حال شیا طین چا ہے وہ انسان ہوں یا جنات ، ایک دوسرے کو اندر سے ور غلا تے ہیں اور لو گو ں کو دھو کا دینے کی نیت سے ایک دو سرے کے ساتھ چپکے چپکے باتیں کر تے ہیں اور ان کی گفتگو بھی چکنی چپڑی دلکش اور مؤثر ہوتی ہے ۔ خدا وند عا لم اس آیت میں اپنے پیغمبر کو آگا ہ کر نے کے لئے ایک بالا حقیقت سے پردہ اٹھا یاہے اور اعلان کیاہے کہ یہ سب کچھ ایک الٰہی سنت کے مطا بق ہے اور ان شیا طین کی صف آرا ئی سے نہیں ڈ رنا چا ہئے اگر چہ خدا وند عا لم ان کو روکنے پر قا در ہے مگر اس کی مشیت کا تقا ضایہ ہے کہ وہ آ زاد رہیں ۔ آیت میں آگے بڑھکر جس کی حکمت کی طرف اشارہ مو جودہے (وَلِتَصْغیٰ اِلَیْہِ اَفْئِدَ ةُ الَّذِیْنَ لَاْ یُوْمِنُوْنَ بِا لاٰ خِرَةِ''اور یہ اس لئے ہے کہ جن لوگوں کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل ان کی طرف مائل ہو جا ئیں ۔۔۔''یہ کا فروں کی و ہی آزمائش ہے ؛وہ لوگ جو اپنے اختیار سے غلط فا ئدہ اٹھا کر آخرت پر ایمان نہ لا ئیں اور دنیا کی محبت ان کے ایما ن میںرکا وٹ میںمانع بن جا ئے مزید گمراہی کے مستحق ہیں اور یہ شیا طین ان کی گمراہی کا وسیلہ فرا ہم کر تے ہیں ان کی یہ پر فریب با تیںکا فرقبول کر لیتے اور دل و جان سے مان لیتے ہیں ''اَصْغیٰ اِلَیْہِ ''یعنی اس کو غور سے سننا ،لیکن آیت میں ''لِتَصْغیٰ اِلَیْہِ اَفْئِدَة۔۔۔''کی حسین تعبیراستعمال ہوئی ہے یعنی کا فر کا نوں سے نہیں اپنے دل کے کا نوں سے شیطانی وسوسوں کا استقبال کرتے ہیں ،ان پر خوش ہو تے ہیں اور آخر میں اپنے برے انجام تک پہنچنے کی خا طر انھیں شیطانی کا موں کو انجام دیتے ہیں۔

۳۵۷

درج ذیل آیت کا مضمون بھی مذکو رہ آیت کے مشابہت رکھتا ہے :

( وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاًمِنَ الْمُجْرِمِیْنَ وَکَفَیٰ بِرَبِّکَ هَادِیاً وَ نَصِیْراً ) ( ۱ )

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے گنہگا روں میں سے کچھ دشمن قرار دیدئے ہیں اورہدایت وامداد کے لئے تمہارا پر ور دگار کا فی ہے '' ۔

اس آیت سے بھی استفادہ ہو تا ہے کہ ہر ایک پیغمبر کے مقابلہ میں مجرموں کا ایک گروہ رہا ہے جو نبی کی مخالفت اور دشمنی کر تا چلا آیاہے ۔ہر چند الٰہی ہدایت اور نصرت بندوںکے لئے کافی ہے مگر الٰہی امتحان کی سنت پر عمل در آمد ہو نے کے لئے ضروری ہے کہ ایک گروہ راہ حق کی مخالفت کرنے اور باطل راستے کی طرف راہنما ئی کرنے والا مو جود ہو ۔

اسی حقیقت کو سورئہ حج کی آیات میں ایک دوسرے طریقہ سے بیان کیا گیا ہے :

( وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ وَلَانَبِیٍ اِلَّااِذَاتَمَنَّیٰ اَلْقیَ الشَّیْطَانُ فِی اُمْنِیَّتِهِ فَیَنْسَخُ اللهُ مَا یُلْقِیْ الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللهُ ئَ ایَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِیم حَکِیْم ) ( ۲ )

''اورہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجامگر جب بھی اس نے تلاوت کا ارادہ کیا تو شیطان نے اپنے رسولوں کے ذریعہ اس میں رکا وٹ ڈالی تو پھرخدا نے شیطان کی رکا وٹ کو مٹا دیا پھر اپنی آیا ت کو مستحکم بنا دیا کہ وہ بہت جا ننے والا اور صا حب حکمت ہے ''۔

اس آیت سے واضح ہے کہ جب بھی کو ئی پیغمبر دل میں سوچتا تھا کہ کس طرح الٰہی دعوت کو پھیلا یا جا ئے اور اہل دنیا کی ہدایت کی جا ئے تو شیطان سا زش کر تا کہ انبیاء علیہم السلام کی یہ فکر عملی جامہ نہ پہن سکے لیکن خدا اس کے تمام

____________________

۱۔سورئہ فرقان آیت۳۱۔

۲۔سورئہ حج آیت ۵۲۔

۳۵۸

ارادوں کو ناکام بنا دیتا تھا ۔رہا یہ مسئلہ کہ شیطان کی سا زشوں اور وسوسوں سے کیا آثار مر تب ہو تے تھے بعد کی آیت میں اس کی اس طرح وضاحت ہو تی ہے :

( لِیَجْعَلَ مَایُلْقِی الشَیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَرَض وَالْقَاسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ وَاِنَّ الظَّا لِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ ) ( ۱ )

''تاکہ شیطان جو( وسوسہ) ڈالتا ہے تو خدا اسے ان لوگوں کی آزمائش (کا ذریعہ) قرار دے کہ جن کے دلوں میں (کفر کا ) مرض ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور بیشک (یہ) ظالم (مشرکین ) دور دراز کی مخا لفت میں (پڑے) ہو ئے ہیں''۔

اس بنا ء پرجن لوگوں کی روح بیمار ہے اورجن کا دل سخت ہو چکا ہے انبیاء کی دعوت کے مقابل کے ذریعے شیطانی وسوسوں کی وجہ سے ان کا امتحان ضروری ہے گمرا ہی کا راستہ طے کرنے میںان کی امداد کی جاتی ہے۔ دوسری طرف مو منوں کا بھی الٰہی امتحان ضروری ہے کہ شیطانی وسوسوں سے متأثر نہ ہوں اور یہ جا ن لیں کہ حق وہی ہے جو پیغمبر پر نا زل ہوا ہے اگرچہ شیطان ان کو گمراہ کرنے کے در پے رہے لیکن خدا اپنے اولیاء کو سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے:

( وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَیُوْمِنُوْابِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوْبُهُم وَاِنَّ ﷲ لَهَادِالَّذِ یْنَ آمَنُوْااِلَیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ ) ( ۲ )

''اور اس لئے بھی کہ صا حبا نِ علم کومعلوم ہو جا ئے کہ یہ (قرآن ) حق ہے(اور) آپ کے پرور دگا ر کی طرف سے ہے اور اس پر وہ ایمان لے آ ئیں اور پھر ان کے دل اس کی با رگاہ میں جھک جا ئیں اور یقیناً ﷲ ایمان لانے وا لو ں کی سیدھے راستے کی طرف ہدا یت کر نے والا ہے '' ۔

یہا ں تک تو ہم نے قر آ ن کی رو سے خدا وند عالم کی اہم سنتو ں کا جا ئزہ لیا ہے اب علوم سما جیات اور نفسیات کی شناخت کے بعض ایسے اصو لوںکے با رے میں مختصر سی بحث منا سب معلوم ہوتی ہے جو مذ کو رہ آیات سے حاصل ہو تے ہیں ۔

ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ کی انبیاء علیہم السلام کے سا تھ لو گو ں کے رویّے اور ان کی امتوں کے ساتھ خدا کے

____________________

۱۔سورئہ حج آیت ۵۳۔

۲۔سورئہ حج آیت ۵۴۔

۳۵۹

رویّے سے متعلق جو آیات ہیں ان سے علوم سماجیات و نفسیات کے با رے میں اسلامی نقطۂ نگاہ سمجھنے کے لئے مسا ئل اخذ کیے جا سکتے ہیں اور ظا ہر ہے ان تمام مسا ئل کو اس طرح کی مختصر بحثو ں میں بیا ن نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ہم ان مسائل کی طرف صرف اشا رہ پر اکتفا ء کرتے ہیں کہ شاید اس سلسلے میں وسیع تحقیقات کے لئے زمین فراہم ہو جا ئے ۔

سما جیات میں اسلامی طرز تفکر سے متعلق چند نکات

۱۔پہلا نکتہ یہ ہے کہ قر آ ن ِ مجیدنے مو جودات عالم کی تشریح اور سماجی تغیرات کی تو ضیح میں بھی اپنی وہی مخصوص روش اپنائی ہے یعنی اپنے مطالب کو توحید کا رنگ دیاہے اور ہر مقام پر مو جودات عالم کے ساتھ خداوند عالم

کے رشتے کو، جوتن تنہا حقیقی مؤثر ہے پیش نظر رکھا ہے، چنا نچہ جن آیات میں کسی بھی عنوان سے سما جی واقعات کا ذکر ہے اور ان کا جا ئزہ لیا گیا ہے اُن پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ ہمیشہ ان امور کو خدا وند عالم کی طرف منسوب کر نے پراسلام نے زور دیا ہے ۔

خدا وند عالم کی معرفت سے متعلق قر آنی بحثو ں میں ہم یہ بیان کر چکے ہیںکہ یہ قر آ ن کریم کا خاص اور عدیم المثال طریقہ ہے جو تربیت کے قیمتی آثار سے خالی نہیں ہے قرآن جس طرح قو انین ہستی اور موجودات عالم کی تشریح کے وقت ہر چیز کو الٰہی قضا و قدر کی طرف منسو ب کر تا ہے اسی طرح معا شرتی واقعات کے جا ئزوںمیں بھی اسی طریقہ کار کو اختیار کر تا ہے مثال کے طور پراس نے گز شتہ قو مو ں کے ختم ہو جا نے اور جدید قو مو ں کے ظا ہر ہو نے کی خدا وند عالم کی طرف نسبت دی ہے ۔ ارشا د ہو تاہے :

( فَاَ هْلَکْنَا هُمْ بِذُ نُوْبِهِمْ وَاَنْشَأ نَا مِنْ بَعْدِ هِمْ قَرْناًآخَرِیْنَ ) ( ۱ )

''پس ہم نے ان کے گنا ہو ں کی وجہ سے انھیں ہلا ک کر دیا اور ان کے بعد ایک دوسری نسل پیداکر دی ''۔

اوراس سے بھی بڑھکر معا شرہ کے ایک خا ص طبقے سے مربوط اعمال جو مکمل طور پر وہ خودانجام دیتے ہیں اوروہی اس کے آغاز و انجام کے ذمہ دار بھی ہیں، ان کو بھی قرآ ن کریم الٰہی مشیت اور ارادہ سے بے تعلق نہیں سمجھتا ۔ جس عمل کو ایک جگہ کسی خا ص شخص ،گروہ یا قوم سے منسوب کیا گیا ہے دو سری جگہ اسی کو ذرا بلند مر تبہ پر خدا وند قدو س سے منسو ب کیا گیا ہے ، یہ وہی مسئلہ ''امر بین الا مر ین' 'ہے یعنی تمام افعال اورمو جو دات عین اسی وقت کہ جب وہ اپنے قریبی فا علو ں سے نسبت رکھتے ہیں اور وہی ان کے ذمہ دار بھی سمجھے جاتے ہیںاس سے با لاترسطح پر خدا کے

____________________

۱۔سورئہ انعام آیت۶ ۔

۳۶۰